جلا کے مشعل جاں ہم جنوں صفات چلے
جو گھر کو آگ لگائے ہمارے ساتھ چلے
دیار شام نہیں ، منزل سحر بھی نہیں
عجب نگر ھے یہاں دن چلے نہ رات چلے
ہمارے لب نہ سہی وہ دہان زخم سہی
وہیں پہنچتی ہے یارو کہیں سے بات چلے
ستون دار پہ رکھتے چلو سروں کے چراغ
جہاں تلک یہ ستم کی سیاہ رات چلے
ہو ا ا سیر کوئی ہم نو ا تو دور تلک
بپاس طرز نوا ہم بھی ساتھ ساتھ چلے
بچا کے لائے ہم اے یار پھر بھی نقد وفا
اگرچہ لٹتے رھے رہزنوں کے ہاتھ چلے
قطار شیشہ ھے یا کاروان ہم سفراں
خرام جام ھے یا جیسے کائنات چلے
بلا ہی بیٹھے جب اہل حرم تو اے مجروح
بغل میں ہم بھی لئے اک صنم کا ہاتھ چلے
مجروح سلطان پوری
January 1, 2017
جلا کے مشعل جاں ہم جنوں صفات چلے از مجروح سلطان پوری
August 18, 2015
صنف قوالی کی مجلس عزا بشکریہ کوک اسٹوڈیو
تمثیل کروں تو اردو مشاعروں میں تقدیم و تاخیر کی ایک تہذیبی قدر ہے جس کا ادبی لوگ اتباع کرتے ہیں۔ اب یہ کوئی قانون نہیں کہ توڑنے پر سزا ہو مگرعرفا شرفا میں ادبی قد کی پیمائش کے لئے امر مستعمل ہے۔ جب علی ظفرصاحب نے استاد جمن کی یار ڈاڈی عشق آتش کے گلے پر کند استرا چلایا تب بھی ہم خاموش رہے کہ نرود میخ آھنین در سنگ۔ مگر اب یہ جو دیدہ دلیری کے ساتھ غلام فرید صابری کی مشہور و معروف قوالی تاجدار حرم پر عاطف اسلم کا سرقہ وارد ہوا ہے تو ہم سے چپ نا رہا گیا، بخدا دل مغمموم ہے کہ کیا کہیے۔
ِ
ارے میاں، نقل کے لئے عقل چاہیے۔ اگر آواز میں پاٹ نہیں، لے اٹھانے کا حوصلہ المعروف تپڑ نہیں، نا قوالی کا ماحول بنا سکنے کا اعجاز، نا گلو نا عقیدت نا سوز، نا سر نا تال، تو کیوں ایسی دشوار صنف میں کی اوکھلی میں سر ڈالتے ہو؟ خصوصا ایسے کلام پر جس میں اساتذہ نے ساز توڑ دیے اور سازندوں نے انگلیاں ۔ جناب، کلاسیکی قوالی نا آپکا انڈین آئڈل ہے، اور نا ہی .جینے لگا ہوں کی ٹریبل بھری آٹو ٹیون تکرار۔ آپ کے یہاں تو قوالی کے لئے لازم و ملزوم آواز کے زیروبم سے لے کر سر اور تال اور لے کی موسیقی کی دھند ہی مفقود ہے، کبھی نمی دانم چہ منزل بود یا مینڈا عشق جیسے کلاسکس سنیں توکچھ اندازہ ہوکہ ریو اور جذب حال میں کیا تفاوت ہے۔
مقصود نئی موسیقی یا تجربات پر تنقید نہیں۔ خانصاحب نے بھی تجربات کئے اور کچھ بہت خوب کئے، جبکہ کچھ کمرشلائزڈ رہے۔ ابھی حال ہی میں فرید ایاز اور ابو محمد کا بھی اچھا تجربہ تھا لیکن تاجدار حرم جیسے کلاسک کی ری برانڈنگ کی مثال بعذر “ہلکی پھلکی جدید قوالی” تو وہی رہی کہ
بر دوشِ غیر دست نہاد از رہِ کرم
ما را چو دید لغزشِ پا را بہانہ ساخت
راقم کو پورا یقین ہے کہ نا تو گانے والے نے، اور نا سن کر پسند کرنے والوں میں سے کسی نے آجتک محفل سماع میں شرکت کی ہوگی، اور نا ان کو حال کی کیفیت و تکرار سے کچھ آگہی کا معاملہ ٹھرا ،بلکہ ہمارا تو غالب گمان ہے کہ ان کوبین الصنف (کراس جینرا) موسیقی سے بھی اتنی ہی واقفیت نا ہوگی جتنی کہ مصحفی کی بکری کو ضحافات سے تھی۔
تو بھائئ عاطف، اگر آواز برٹنی سپئرز کی ہو تو اڈیل یا ڈیانہ کرال بننے کی کوشش نہیں چاہیے۔ اگر استاد محاورة قلم توڑ دے تو عزت اس میں ہوتی ہے کہ دہلیز کو چوم کے چھوڑ دیا دیکھا کہ یہ پتھر بھاری ہے، نا کہ ڈومنی گاوے تال بے تال۔ باقی جو مزاج یار میں آئے۔
December 16, 2014
سقوط ڈھاکہ
میں قائد عوام ہوں
جتنے میرے وزیر ہیں سارے ہی بے ضمیر ہیں
میں انکا بھی امام ہوں میں قائد عوام ہوں
میں پسر شاہنواز ہوں میں پدر بے نظیر ہوں
میں نکسن کا غلام ہوں میں قائد عوام ہوں
دیکھو میرے اعمال کو میں کھا گیا بنگال کو
پھر بھی میں نیک نام ہوں میں قائد عوام ہوں
میں شرابیوں کا پیر ہوں میں لکھپتی فقیر ہوں
وہسکی بھرا ایک جام ہوں میں قائد عوام ہوں
سنو اے موحبان وطن رہنے نہ دونگا مہکتا چمن
میں موت کا پیغام ہوں میں قائد عوام ہوں
میری زبان ہے بے کمال لڑتا ہوں میں ہزار سال
میں اندرا کا غلام ہوں میں قائد عوام ہوں
حبیب جالب
December 16, 2013
سقوط ڈھاکہ
اب کس کا جشن مناتے ہو؟ اس دیس کا جو تقسیم ہوا
اب کس کے گیت سناتے ہو؟ اس تن من کا جو دونیم ہوا
اس خواب کا جو ریزہ ریزہ ان آنکھوں کی تقدیر ہوا
اس نام کا جو ٹکڑا ٹکڑا گلیوں میں بے توقیر ہوا
اس پرچم کا جس کی حرمت بازاروں میں نیلام ہوئی
اس مٹی کا جس کی حرمت منسوب عدو کے نام ہوئی
اس جنگ کو جو تم ہار چکے، اس رسم کا جو جاری بھی نہیں
اس زخم کا جو سینے پہ نہ تھا، اس جان کا جو واری بھی نہ تھی
اس خون کا جو بدقسمت تھا راہوں میں بہایا تن میں رہا
اس پھول کا جو بےقیمت تھا آنگن میں کھلایا یا بن میں رہا
اس مشرق کا جس کو تم نے نیزے کی انی مرہم سمجھا
اس مغرب کا جس کو تم نے جتنا بھی لوٹا کم سمجھا
ان معصوموں کا جن کے لہو سے تم نے فروزاں راتیں کیں۔
ان مظلوموں کا جن سے خنجر کی زباں میں باتیں کیں۔
اس مریم کا جس کی عفت لٹتی ہے بھرے بازاروں میں
اس عیسی کا جو قاتل ہے اور شامل ہے غمخواروں میں
ان نوحہ گروں کا جنہیں ہم نے خود قتل کیا خود روتے ہیں
ایسے بھی کہیں دمساز ہوئے ایسے جلاد بھی ہوتے ہیں
ان بھوکے ننگے ڈھانچوں کا جو رقص سرِ بازار کریں
یا ان ظالم قزاقوں کا جو بھیس بدل کر وار کریں
یا ان جھوٹے اقراروں کا جو آج تلک ایفا نہ ہوئے
یا ان بےبس لاچاروں کا جو اور بھی دکھ کا نشانہ ہوئے
اس شاہی کا جو دست بدست آئی ہے تمہارے حصے میں
کیوں ننگ وطن کی بات کرو کیا رکھا ہے یس قصے میں
آنکھوں میں چھپائے اشکوں کو ہونٹوں میں وفا کے بول لیئے
اس جشن میں بھی شامل ہوں نوحوں سے بھرے کشکول لئے
احمد فراز
June 24, 2013
نذر حیدرآباد کالونی، کراچی
ریاست کا خومی ترانہ ہے یہ سر راہ اک جیل خانہ ہے یہ
یہ نکڑ پہ اک سہ دری ٹین کی یہ ڈسپنسری بھائ یاسین کی
یہ گھر ایک مرحوم استاد کا علی اختر حیدرآباد کا
یہ ہر دل میں اسٹیٹ کا ولولہ یہ ہر شیروانی کا چوڑا گلا
یہ کاڑی کی ڈبی پہ گاڑی کی چھاپ نکو میری اماں، نکو میرے باپ
اگر چاہ تھی، چائے کو بولتے تم ایسا بھلا کاے کو بولتے
حسینو میں شاعر ہوں مجھ سے ڈرو مری شاعری سے بھی گوشہ کرو
میں سو پونڈ کا وزن گل کی ہو تم
میں ایک غیر ملکی ہوں، ملکی ہو تم
شاعر۔ نامعلوم
May 5, 2013
المشاہدات فی کراوڈ سورس ایس ایم ایس شاعری
اپنی کم علمی میں ہم ہمیشہ یہی سمجھتے رہے کہ اردو شاعری پر جو ستم وصی شاہ نے ڈھاے ہیں، اسکی نظیر تاریخ کبھی نا پیش کر سکے گی لیکن ہمت کرنے والوں نے دل کی گلیوں پر بھی بہت کچھ لکھ مارا جس پر تبصرے کے لئے استاذ جعفر کا پریشاں ہیں پِنڈ کی جھَلّیاں، قاطع برہان ہے۔ یہ تو خیر جملہ معترضہ تھا، اصل موضوع ہے حضرت اقبال و فراز کے ایس ایم ایس دیوان جنہیں برادرم راشد کامران ہیش ٹیگ و کراوڈ سورس شاعری قرار دیتے ہیں ۔ اس ضمن میں ہمارا تو یہی موقف رہا کہ
فراز کے الٹے سیدے شعر بنانےسے یہ باز نہیں آتے اقبال
بہت ان نوجوانوں کو سمجھا کے دیکھ لیا
اب یہ چلن اسقدربڑھا کہ اچھے خاصے ڈھنگ کے لوگوں کوبھی اقبال کے نام پر بے بحر و اوزان کے ایسے اشعار منسوب کرتے دیکھا ہے کہ اس سے انکے نجیب الطرفین ہونے پر شک ہونے لگتا ہے۔ دریافت کرو تو جواب میں ڈھٹائ سے فرماتے ہیں کہ یہ تازہ دریافت، بحر و اوزان سے آزاد علامہ ہی کا کلام ہے، میں نے خود پڑھا ہے بانگ درگاہ ایس ایم ایس ایڈیشن میں۔ مثلا مندرجہ زیل فوٹوشاپئے ہی ملاحظہ ہوں
اس پر انور مسعود صاحب کا یہ شعر خوب لاگو ہوتا ہے کہ
اک اتائی کر رہا تھا ایک مجمع سے خطاب
یاد ہے بس ایک ٹکڑا مجھ کو اس تقریر کا
بات ہے بانگِ درا میں، شیخ سعدی نے کہی
’’صبح کرنا شام کا‘ لانا ہے جوئے شیر کا‘‘
تیرے سر میں تو بہت کام رفو کا نکلا
تو مرا شوق دیکھ مرا انتظار دیکھ
تو مری کار دیکھ مرا کاروبار دیکھ
آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گے
’’آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گے‘‘
اب تو ڈر لگتا ہے کھولنے سے بھی دراز
کہیں ایسا نہ ہو کہ اس میںسے بھی نکل آئے فراز
علامہ کے ساتھ تو یہ ظلم تو اکثر لوگوں کو کھلتا ہے لہذا انجمن اقبالیات شمالی امریکہ نے اس ضمن میں ایک مہم چلائ،برسبیل تذکرہ انجمن پر تو ضمیر جعفری نے خوب کہا تھا
یا پھر چلیں عطا الحق قاسمی صاحب کی ہی سن لیں کہ اقبال کی شاعری کو بین کردیا جاے۔ لیکن کہے دیتے ہیں کہ نقل کفر کفر نا باشد۔ کل کو ہم کاغذات نامزدگی داخل کرانے جائیں اور آپ ہمارا یہ مضمون پیش کریں تو یہ اعلان برات ہے ۔
محترم ڈفر نے اس ضمن میں فرازکا ایک ایس ایم ایس دیوان مرتب کیا تھا جو کہ خاصہ دلچسپ ہے۔ تخلیقی کیفیت توکراوڈ سورس شاعری میں بھی کچھ کم نظر نہیں آتی، لیکن یہ زیادہ تر ‘فراز’ کی ہی سخن پروری ہے، مثلا دیکھیں۔
فراز کی شادی میں ہوئے اتنے پھول نچھاور
کیمرہ میں فراز کے ساتھ جیو نیوز پشاور
یا پھر
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز
اور ان کی جوتیاں لے کے بھاگ گیا فراز
اور یہ رعایت تو خصوصا لائق ستائش ہے
وہ ہمیں بے وفا کہتے ہیں تو کہتے رہیں فراز
امی کہتی ہیں جو کہتا ہے وہ خود ہوتا ہے
دیگر زبانوں کے امتزاج سے بھی بہترین اشعار وجود میں آتے ہیں اور ثابت ہوتے کہ فراز ایک عالمگیر شاعر ہے، محض اردو میں اسے مقید نہیں کیا جاسکتا، مثلا
مجھ سے لوگ ملتے ہیں میرے اخلاق کی وجہ سے فراز
ہور میرے کوئی سموسے تے نئیں مشہور
اور
اتنا سن کر ہی ہمارا دل ٹوٹ گیا فراز
the number you have dialed is busy on another call
اور دیگر ماحولیاتی و امن عامہ سے متعلق عوامل بھی دیکھیں
اس گلی اس وجہہ سے جانا چھوڑ دیا فراز
وہ کمینے نوکیا گیارہ سو بھی چھین لیتے ہیں
ظالموں نے تو مغل اعظم کو بھی نہیں بخشا
اس نے مجھے رات کو اکیلے جنگل میں چھوڑ دیا فراز
یہ کہہ کر کہ جب پیار کیا تو ڈرنا کیا
فیس بک کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو حضرت اقبال پر بہتان لیکن ہمیشہ کچھ سنجیدہ سا لگتا ہے، اسقدر کہ اسے خود کو یقین دلانے کے لئے دوبارہ پڑھنا پڑھتا ہے۔
تم حیا و شریعت کے تقاضوں کی بات کرتے ہو
ہم نے ننگے جسموں کو ملبوس حیا دیکھا ہے
دیکھے ہیں ہم نے احرام میں لپٹے کئی ابلیس
ہم نے کئی بار مہ خانے میں خدا دیکھا ہے
یا پھر
عشق قاتل سے بھی مقتول سے ہمدردی بھی
یہ بتا کس سے محبت کی جزا مانگے گا؟
سجدہ خالق کو بھی ابلیس سے یارانہ بھی
حشر میں کس سے عقیدت کا صلہ مانگے گا؟
ہم تو اس قبر میں بھی سکوں میسر نہیں فراز
روز آکر کہتا ہے شیطاں کہ استاد آج کوئی نیا شعر ہوجائے
بدل جائیں گی اک دن دیکھنا ملت كى تقديريں
سیل فـون اک ہاتھ میں ہے ایک میں ریمـوٹ!
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
حوالہ جات
May 1, 2013
انہدام، یاور امان کے شعری مجموعے کا تعارف
جان لیوا ہے شام بہت
پر دفتر میں ہے کام بہت
شہد بھرے ان ہونٹوں سے
کھانے کو دشنام بہت
حسن کے چرچے گلی گلی
اپنے سر الزام بہت
یاور امان کی شاعری عہد جدید کی تلخیوں کی ایسی منظر کشی ہے جس میں کلاسیکییت اور تکنیک سے اجتناب کے بجاے اسکا بھرپور استعمال نظر آتا ہے۔انکی شاعری سے متعارف کرانےکا سہرا ہمارے ایک دوست کے سر جاتا ہے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ ہمارے عزیزدوست براردرم شمائل نے ایک نشست میں تذکرہ کیا کہ انکے والد محترم بھی شاعری کے دلدادہ ہیں، خود بھی لکھتے ہیں اور کئی زبانوں پر ۔مہارت رکھتے ہیں، نیز انکی ایک کتاب حال ہی میں چھپ کر آئ ہے۔ اس بات سے ہمیں بڑا اشتیاق ہوا اور ان سے گذارش کی کہ اگلی بار جب پاکستان کا چکر لگے تو کتاب ضرور لیتے آئیے گا۔
پھر جب ہمیں آٹوگراف کاپی ملی تو ظاہر سی بات ہے کہ پھولے نا سماے اور فورا انہدام، یاور امان کے شعری مجموعے کو پڑھنا شروع کیا۔ شاعرکے کلام میں اسکی زندگی کے اتار چڑھاو ، معاشرتی تبدیلیوں اور گردونواح کی جھلک ملنا کوئ اچھنبے والی بات نہیں لیکن جن مشکلات سے یاور امان صاحب گذرے ہیں، پرورش لوح وقلم کے نام پر انکو رقم کرنا درحقیقت ایک بڑی کاوش ہے۔
بارود کے نصاب میں تھی وہ کشش امان
بچوں کو لکھنے پڑھنے سے رغبت نہیں ہوئی
انکی تحریرمحض جالب کی احتجاجی شاعری نہیں اور نا ہی میر درد کا نوحہ ہے، اس میں فیض کی بغاوت اور ندرت خیال ہے مگر بے محابہ لفاظی نہیں۔ یہ کتاب اظہارجذبات و احساسات و مشاہدات و طنز و تلخی سے عبارت ایک ایسے مصور کا کینوس ہے جو رنگوں کو اسطرح بکھیر دیتا ہے کہ پوری تصویر کے ساتھ ہر رنگ نمایاں نظر آتا ہے، چاہے وہ بارود کے دھوئیں کا سیاہ و سپید رنگ ہو، سمندر کے پانی کا نیلگوں رنگ ہو، سقوط بنگال کے رستے زخموں کا آتشیں رنگ یا جلتے کراچی کا سرخ رنگ، یاور امان کی اس کاوش میں آپکو وہ تمام رنگ یکجا نظر آئیں گے۔
یاور امان صاحب کی شاعری میں نقل مکانی کے درد کے ساتھ ساتھ زندگی کی مشکلات کی عکاسی کی گئی ہے۔ کچھ قارئین کو شائد یاور امان کی تحریر روایتی انداز سے مختلف لگے کیونکہ انہوں نے نہایت مہارت سے الفاظ اور محاورات کے ساتھ جدید تجربات کئے ہیں۔
شاعر کے تعارف میں جناب ڈاکٹر محمّد رضا کاظمی لکھتے ہیں
یاور امان جیسے کلاسیکی رچاؤ اور بصیرت رکھنے والے شاعر کا وجود ہمیں ایک خوش گوار حیرت میں مبتلا کر دیتا ہے. کسی کہ کشتہ نہ شد از قبلہ مانیست کے مصداق میں نے یاور کی شعوری تربیت گاہ پر نگاہ کی تو مجھے کلکتہ کی وہ گلیاں نظر آئیں جن سے ہم اور یاور ایک دوسرے سے آشنا ہوئے بغیر آشنا تھے. اس پس منظر میں میرے لیے یہ سمجھنا مشکل نہ تھا کہ یاور کا شعور حیرت اور شناخت جیسے مسائل کے درمیان کیوں پروان چڑھا. یاور کے پاس جو آئینہ ہے اس کی آرائش سے کوئی نسبت نہیں اور شاید اس کا حسن واقعی صورت سراب رہا ہو. اتنا تو طے ہے کہ غم جاناں کی طرف سے اسے اطمینان ہے اور عشق اس کے لیے مسئلہ کا درجہ نہیں رکھتا. یاور کے دل سے جو صدا ابھرتی ہے وہ احتجاج کی صدا ہے.
انکی ایک غزل ملاحظہ ہو کہ۔
ہاتھوں میں سیم و زر کی حرارت نہیں ہوئی
مجھہ سے یزید وقت کی بیعت نہیں ہوئی
اس کا جب انتخاب تھا میرے لیے کفن
مجھہ سے بھی پاسداری خلعت نہیں ہوئی
سچ بولتے وہ کیسے جنھیں جاں عزیز تھی
یہ تاب، یہ مجال ، یہ جرات نہیں ہوئی
کچھہ لوگ بچ گۓ جو ابھی تک ہیں سد راہ
پوری مراد حسب ضرورت نہیں ہوئی
بارود کے نصاب میں تھی وہ کشش امان
بچوں کو لکھنے پڑھنے سے رغبت نہیں ہوئی
احمد الیاس یاور امان کی شاعری کے بارے میں اسطرح رطب اللسان ہیں۔
امان کی ابتدائی شاعری کا زمانہ وہ تھا جب ایک نۓ انقلاب زدہ ملک میں اردو شاعر اور ادیب، مع اور قاری سب کے سب بے بسی کی زندگی بسر کر رہے تھے. پرانے اقدار ٹوٹ پھوٹ کر بکھر چکے تھے اور لوگ بڑی حد تک نظریۂ کی اذیت کا شکار ہو رہے تھے. جس معاشرے میں یہ صورت حال ہو وہاں معاشرے کی شیرازہ بندی باقی نہیں رہتی. امان نے اس صورت حال کو محسوس کیا اور اس کا اظہار بھی کیا.
امان نے اپنے ماحول اور وقت کے سیاسی شعور، سماجی انتشار اور معاشرتی مسائل کو غزلوں کے اشعار میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے. وہ اس میں کہاں تک کامیاب رہے یہ ایک الگ موضوع گفتگو ہے. لیکن اس تجربے میں انہوں نے زندگی کے عصری تقاضوں کو محسوس کیا ہے اور ان محسوسات کو ایک اچھے فنکار کی طرح ادب کے عصری تقاضوں کے ساتھہ ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی ہے.
ہاور امان صاحب کی یہ غزل یقینا قابل ستائش ہے جس میں انہوں نے سادگی کی زمین میں ایک خوبصورت مضمون باندھا ہے۔
جب کبھی آسمان کھلتا ہے
دھند کے درمیان کھلتا ہے
یوں در دل تو کھولیے صاحب
جیسے خالی مکان کھلتا ہے
اس طرح مجھہ سے کیوں کھلیں گے آپ
جس طرح بادبان کھلتا ہے
میرے مہمان بن کر تو دیکھیں
کس طرح میزبان کھلتا ہے
کوئی کھڑکی کبھی جو کھلتی ہے
گویا پورا مکان کھلتا ہے
بے زبانی بھی سوچیے اس کی
جب کوئی بے زبان کھلتا ہے
در حقیقت یقیں کی سرحد پر
سارا وہم و گمان کھلتا ہے
ایک اور تہذیب سانس لیتی ہے
جب کوئی پان دان کھلتا ہے
حسن کی بارگاہ میں اکثر
دست بستہ امان کھلتا ہے
یاور امان اور ان کی شاعری کے عنوان سے ایک مضمون میں علی حیدر ملک انکی سوانح لکھتے ہیں جس سے شاعر کی زندگی کے کئی پہلووں پر روشنی پڑتی ہے اور اشعار کے سیاق و سباق و کیفیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
بچہ بچہ ہے مرے شہر کا رونے والا
سوچتا ہے کسے بہلاۓ کھلونے والا
دن جو بدلے تو چلا آیا پذیرائی کو
ہار پھولوں کا لیے خار چبھونے والا
جانے کس جرم کی پاداش میں ان آنکھوں کو
رت جگے دے گیا آرام سے سونے والا
ایسا ہوتا ہے گماں یہ مرا اپنا تو نہیں
قتل گاہوں کی زمیں خون سے دھونے والا
ڈھونڈھتے ہو کسے ماضی کے دھندلکے میں امان
وقت گزرا ہوا پاتا نہیں کھونے والا
علی حیدر ملک کے تعارف کے کچھ حصے قارئین کی دلچسپی کے لئے یہاں نقل کررہا ہوں۔
یاور امان کی شاعری بنگلہ دیش کی ہم عمر ہے. مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے سے پہلے نہ تو وہ یاور امان تھے اور نہ ہی شاعر. تا ہم قرطاس و قلم سے ان کا رشتہ بہر حال اس وقت بھی قائم تھا. اس وقت وہ امان ہر گانوی کے نام سے جانے جاتے، افسانے و مضامین لکھتے اور ہندی و بنگالی ادب پاروں کے ترجمے کیا کرتے تھے. علاوہ ازیں بہ حیثیت صحافی اخبارات خصوصا ہفت روزہ “قوم” کھلنا اور روز نامہ “حریت” کراچی کے لیے خبریں، رپورٹیں اور فیچر وغیرہ بھی تحریر کرتے تھے.
بنغلہ دیش بننے کے بعد کسی طرح اپنی جان اور عزت بچا کر وہ کھلنا سے ڈھاکہ منتقل ہوگۓ. جان اور عزت تو محفوظ رہی لیکن اپنے روزگار اور پرانے ساتھیوں سے محروم ہو گۓ. غیر بنگالیوں کے لیے یہ بڑا پیغمبری وقت تھا. اردو بولنا ایک جرم تھا. رفتہ رفتہ حالات کسی قدر بہتر ہوئے تو اردو بولنے والوں کی توجہ اپنی زبان اور ادب کی طرف شروع ہوئی. مگر اردو کے اخبارات و رسائل تو تھے نہیں لہٰذا ایسے میں شعری محفلیں کام آئیں. شاعروں اور بازوق لوگوں کے گھروں پر چھوٹی چھوٹی شعری نشستیں منعقد ہونے لگیں. ان شعری نشقوں میں زیادہ تر طرحی غزلیں پڑھی جاتی تھیں. یاور امان ان نشستوں میں بہ حیثیت سامع شرکت کرتے تھے. پھر یہ سوچ کر کہ نثر نگاروں کے لیے فی الحال یہاں کوئی گنجائش نہیں، انہوں ننے شاعری شروع کردی اور بہ حیثیت شاعر شعری محفلوں میں شریک ہونے لگے. ابتداء میں حافظ دہلوی اور ماہر فریدی سے مشورۂ سخن کیا. یہ دونوں بزرگ جید صاحب فن اور استاد سمجھے جاتے تھے لیکن یاور امان ان سے مطمئن نہ ہوئے کیوں کہ وہ رموز شاعری سے آگاہ کرنے کے بجاۓ مصرعے یا شعر تبدیل کر دینے اور اکثر اوقات سادہ کاغذ پر اصلاح دینے کے طریقہ کار پر کار بند تھے. یاور امان کو یہ طریقہ کار پسند نہیں تھا اسی لیے مشورۂ سخن کا سلسلہ جلد ہی منقطع ہوگیا. انہوں نے مطالعے کو اپنا رہبر بنایا اور غزلیں کہہ کر چند قریبی بزرگوں اور احباب کو سنانے لگے جن میں نوشاد نوری اور احمد الیاس سب سے نمایاں تھے. وہ اب بھی اسی طریقہ کار پرعمل پیرا ہیں. ہر نئی تخلیق پہلے وہ اپنے قریبی احباب کو سناتے اور ان سے ان کی راۓ طلب کرتے ہیں اور ان کی راۓ کی روشنی میں اپنی تخلیق پر دوبارہ غور کرتے ہیں. اس سلسلے میں دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے اس طرح کے قریبی دوست شاعر نہیں، نثر نگار ہیں مگر اس کا کیا کیا جاۓ کہ وہ شاعروں سے زیادہ ان نثرنگاروں کی راۓ کو ہی زیادہ معتبر گردانتے ہیں.
اردو شاعری میں ایک طرف جہاں تعلی کی روایت بہت مضبوط ہے وہاں دوسری طرف تقلید کو بھی قابل فخر سمجھا گیا ہے . اکثر شعراء کا تعارف یہ کہہ کر کرایا جاتا ہے کہ فلاں شاعر کے رنگ میں شعر کہتے ہیں یایہ کہ فلاں شاعر کے دبستان سے وابستہ ہیں. یاور امان اس روش کو پسند نہیں کرتے. وہ کہتے ہیں :
امان چھاپ کسی کی نہ خود پہ لگنے دے
جب آرزو ہے کہ فن تیرا کامیاب رہے
وہ اپنے قلم کو کسی بھی شاعر کے اثر سے آزاد رکھنا چاہتے ہیں اور یہی نہیں وہ اپنی فکر کی تکرار بھی نہیں چاہتے:
امان آزاد رکھہ اپنے قلم کو
اور اپنے فکر کی تکرار مت کر
انہوں نے اردو شاعری کے اساتذہ اپنے پیسش روؤں اور ہم عصروں کا مطالعہ اور ان سے کسی قدر استفادہ ضرور کیا ہے لیکن کسی کی چھاپ اپنے اوپر نہیں لگنے دی. اپنے ارد گرد کے حالات و واقعات اور سیاست کی بازی گری سے آنکھیں چرانا عہد حاضر کے کسی شاعر کے لیے ممکن نہیں . یاور امان نے بھی ایسا نہیں کیا. انہوں نے عوام کی زبوں حالی کو اس طرح پیش کیا ہے:
اے قیصر وجمشید کے سجادہ نشیں دیکھہ
میت ابھی جمہور کی بے گورو و کفن ہے
ہمارے سیاسی رہنماؤں اور حکمرانوں کا رویہ کیا ہے، اس ضمن میں وہ کہتے ہیں :
منصب راہبری، اندھوں میں جب کانے کو
ہاتھہ آۓ تو سمجھہ لیتا ہے گھر کی میراث
یاور امان نے دو ہجرتیں کیں اس کا صلہ کیا ملا؟ ذرا شعر دیکھیے :-
دو ہجرتوں کے بعد بھی ثابت نہ کر سکے
حب زمیں امان زمین وطن کے ساتھہ
غزل اشارے اور کناۓ کا فن ہے. اس میں عصری حالات اور تاریخی واقعات کو بھی استعارے کے پیکر میں پیش کیا جاتا ہے لیکن یاورامان نے بعض اوقات راست انداز سے کام لیا ہے مثلا وہ غزلیں جن کے مطلعے درج ذیل ہیں:
ان آنکھوں میں محبّت دیکھتے ہیں
چلو دل کی شہادت دیکھتے ہیں
اور
یقین کی حد سے آگے منزل وہم و گماں کیوں ہو
میاں دیدہ و دل حاصل سود و زیاں کیوں ہے
اپنا مدعا بیان کرنے کے لیے یاور امان نے ناموں کے استعمال سے بھی گریز نہیں کیا مثلآ :
ہم نے سیکھا عالی جی سے
اپنے نام کی مالا جپتا
اور
کراچی کو نصیر الله بابر
عجب کیا رکھہ نہ دے بنگال کر کے
یہاں ایک واقعے کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے. آخر الذ کر شعر جس غزل کا ہے وہ اس زمانے میں کہی گئ تھی جب پاکستان کے وزیر داخلہ جنرل (ریٹائرڈ) نصیر الله بابر اپنے لاؤ لشکر کے ساتھہ کراچی شہر میں ٹوٹ پڑے تھے. ہزاروں نوجوانوں کو ماوراۓ قانون، گولیوں کا نشانہ بنا کر شہید اور زخمی کردیاگیا . بے شمار معذور اور لاپتا کر دیے گۓ. پورا شہر، شہر خموشاں بنا ہوا تھا. اگر کوئی آواز سنائی دیتی تھی تو وہ گولی کی آواز ہوتی تھی یا نالہ وشیون کی. اس زمانے میں ظلم و جور کے خلاف صداۓ احتجاج بلند کرنا کوئی معمولی بات نہیں تھی یاور امان نے ان جرأت رندانہ سے کام لیتے ہوئے پوری قوت سے آواز بلند کی اور مشاعروں میں اپنے اشعاربے خوفی کے ساتھہ پڑھتے رہے. اورنگی ٹاؤن کے ایک بڑے مشاعرے میں، جس میں ضلعی انتظامیہ کے کئی زمہ دار افسر بھی موجود تھے، یاور امان نے یہ غزل پڑھی اور مشاعرہ لوٹ لیا، داد دینے والوں میں سرکاری افسران بھی شامل تھے.
اس کے کچھہ عرصے بعد یاور امان کسی دوست یا عزیز سے ملنے اورنگی گۓ. واپسی کے لئے وہ بس اسٹاپ پر کھڑے تھے کہ پولیس موبائل آئی اور انہیں اٹھا کر لے گئی. انہیں حوالات میں بند کر دیا گیا. پولیس ان پر الزام عائد کر رہی تھی کہ وہ ہندوستانی ایجنٹ ہیں اور غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخل ہوئے ہیں. یاور امان اپنی بے گناہی کا ثبوت پیش کرتے رہے لیکن حسب معمول پولیس اہلکاروں نے ایک نہ سنی. کچھ دیر بعد تھانے کے ایس ایچ او علاقے کے راؤنڈ سے واپس آۓ تو انہوں نے یاور امان کو حوالات میں دیکھہ کر حیرت کے ساتھہ اپنے عملے سے پوچھا کہ انہیں یہاں کیوں بند کر رکھا ہے ؟ ایک اہلکار نے اپنا موقف بیان کیا تو ایس ایچ او نے جھنجھوڑ
کر کہا ارے او بیوقوفوں یہ شاعر ہیں اور کچھ عرصہ پہلے انہوں نے اورنگی کے مشاعرے میں وہ غزل پڑھی تھی جس میں اس وقت کے وزیر داخلہ کو نشانہ تنقید بنایا گیا تھا. پھر اس نے نصیر الله بابر والے شعر کے علاوہ کئی شعر سنا ڈالے. یاور امان کو حوالات سے رہا کرنے کے بعد ایس ایچ او نے انہیں چاۓ پلائی اور معذرت کی. زمانہ گردش کرتا رہتا ہے سو زمانے کی نئی گردش نے اس جماعت کو جو معتوب تھی، اقتدار کی مسند پر بٹھا دیا. اب ان لوگوں کی بن آئ جو پرشوب دنوں میں منقاد زیر پر کیے بیٹھے تھے. خون لگا کر شہیدوں میں شامل ہو جانے والے ادیب اور شاعر انعامات وصول کرنے والوں کی قطار میں کھڑے ہو گۓ مگر یاور امان اور ان جیسے دوسرے اہل قلم جنہوں نے عین ظلم و جور کے زمانے میں احتجاجی فن پارے تخلیق کیے تھے اس قطار سے دور وہیں کھڑے رہے جہاں کہ وہ پہلے تھے. خیر یہ دوسرا قصّہ ہے اور ہمارے معاشرے کے ایک اور المیے کو ظاہر کرتا ہے.
بات ہو رہی تھی یاور امان کی شاعری کی اور میں یہ عرض کر رہا تھا کہ یاور امان نے کسی شاعر کی تقلید یا پیروی نہیں کی. یہاں تک کہ پرویز شاہدی اور مظہر امام جیسے ممتاز شعراء کی بھی نہیں جو کہ ان کے باقاعدہ استاد تھے. ویسے وہ بعض شاعروں کو پسند ضرور کرتے تھے جنمیں مرزا غالب، شادعظیم آبادی، جمیل مظہری، جون ایلیا اور ظفر اقبال خاص طور پر قابل ذکر ہیں. ان کی زمینوں میں انہوں نےغزلیں بھی کہی ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ اپنی افتاد طبع کے اعتبار سے وہ جدید غزل کے مجتہد ظفر اقبال سے زیادہ قریب ہیں. یوں تو انہوں نے کلاسیکی روایت میں بھی غزلیں کہی ہیں اور اچھے شعر تخلیق کیے ہیں لیکن جدید رنگ کی غزلوں میں ان کے یہاں زیادہ طرح داری اور پختگی کا احساس ہوتا ہے. ان کی جدید طرز کی غزلوں میں طنزکا عنصر بنت نمایاں نظر آتا ہے حالانکہ طنز ایک ایسی خصوصیت ہے جو غزل کے بنیادی مزاج سے مطابقت نہیں رکھتی. تاہم غالب، یگانہ اور دور حاضر میں ظفر اقبال، مظفرحنفی اور کچھہ دیگر شعراء نے اس کا استعمال نہایت سلیقے سے کیا ہے. یاور امان بھی انہی لوگوں میں شامل ہیں.
یاور امان کی شاعری میں صرف طنز ہی نہیں اکثر تلخی کا بھی احساس ہوتا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک کھاتے پیتے نجیب الطرفین سادات گھرانے میں پیدا ہوئے تھے لیکن لڑکپن میں ہی والد کا سایہ سر سے اٹھہ جانے کے باعث انہیں سخت ابتلا و آزمائش سے گزرنا پڑا. تعلیم اور روزگار کے حصول کے لئے انہیں کم عمری میں اپنا گاؤں چھوڑ کر کلکتہ اور ممبئی جیسے بڑے شہروں کا رخ کرنا پڑا. ان بڑے شہروں میں انہوں نے مادی کامیابی کے لیے چوہا دوڑ، انسانی اقدار کی پامالی اور سرماۓ کی چیرہ دستی کا تماشا بہت قریب سے دیکھا جس سے ان کے بہت سے آدرش شکست و ریخت سے دو چار ہوئے.بڑے تجارتی شہروں کے حالات نے ان کی نفسیات پر گہرے اثرات مرتب کیے اور ان کی ذات کے اندر تلخی پرورش پانے لگی. اس تلخی کا اظہار جابہ جا ان کی شاعری میں ہوا ہے.
یاور امان نے شاعری کی مختلف صنفوں میں طبع آزمائی کی ہے. انہوں نے رباعی جیسی روایتی اور مشکل صنف کو بھی اظہار کا ذریعہ بنایا ہے اور نظم کی مختلف ہستیوں کو بھی آزمایا ہے. جہاں تک نئی صنف سخن “تروینی” کا تعلق ہے، وہ اس کے مخترع گلزار کے بعد اولین دو معماروں میں سے ایک ہیں. دوسری اولین معمار فوقیہ مشتاق ہیں. لیکن غزلوں کی تعداد بھر حال ان کے ہاں سب سے زیادہ ہے اس لیے انہوں نے سب سے پہلے اپنی غزلوں کا انتخاب شائع کرنا مناسب سمجھا. دوسری اصناف پر مشتمل مجموعے بعد میں شائع ہوں گے. فی الحال آپ ان غزلوں کے مختلف النوع ذائقے کا ۔لطف اٹھائیے.
علی حیدر ملک کے مندرجہ بالا تعارف سے امید ہے کہ ہمارے دور کے اس شاعر کے حالات زندگی اور انکے کلام کی نوعیت سے اچھی واقفیت ہوئ ہوگی۔ مندرجہ زیل غزل یاور امان صاحب کے مجموعے سے میری پسندیدہ غزل ٹھری ہے۔
جان لیوا ہے شام بہت
پر دفتر میں ہے کام بہت
شہد بھرے ان ہونٹوں سے
کھانے کو دشنام بہت
حسن کے چرچے گلی گلی
اپنے سر الزام بہت
ننگی گھاس ف ننگے پاؤں
چلنے میں آرام بہت
گھر سے گھر تک رہوں میں
پھیلے ہیں اوہام بہت
گھر، گلیوں، چوباروں میں
رشتوں کے اہرام بہت
مرنے کا بس ایک ہی دن
جینے کے ایام بہت
سچ کی قیمت کم ہے امان
جھوٹ کہو تو دام بہت
اور مندرجہ زیل اشعار میں آپکو جدید ٹکسالی اردو کا مزا آے گا۔
عدو یوں تو مرا تگڑا بہت ہے
مگر میں نے اسے رگڑا بہت ہے
میں تجھہ سے عشق تو کرتا ہوں جاناں
مگر اس راہ میں لفڑا بہت ہے
تمھاری تیز رفتاری سلامت
ہمارے واسطے چھکڑا بہت ہے
تقریبا تین سوصفحات کی یہ کتاب میڈیا گرافکس کراچی نے شائع کی ہے اور اسکی قیمت تین سو رپے ہے۔
October 7, 2012
قصہ شہر فرشتگاں کے اردو مشاعرے کا
اب آغاز قصے کا کرتا ہوں
ذرا کان دھرکو سنو اور منصفی کرو
دو درویش پہنچے مومن لاج پیرزادہ کا ترنم سننے
دیکھا ہمارے وی سی صاحب تو غائب ہیں
شاید کچھ تنظیمی کام آن پڑے ہوں
پرحسیں ہاتھ کے کنگن والے وصی شاہ موجود
سنا کہ موے فرنگیوں نے قاسم صاحب کو ویزا نہ دیا
ہم سوچتے رہے پھرشاہ صاحب کو کیونکر ملا
کہ وہ تو حواس انسانی و اردو ادب کے جرائم کیلئے
ہیگ میں مطلوب ہیں
پھر یکایک راشد بھائ گویا ہوے کہ
تجھے قسم کہ اگر یہاں بیٹھا تو
تعلق رفتگاں میں ایسی دراڑ پڑے گی کہ۔۔۔
بس پھر الٹے پانوں لوٹ آے
ایک نہائت آزاد نظم بقلم خود
May 8, 2012
ایک مشاعرہ ہاے فرنگ کی مختصر روداد
جب سے ہمارے عزیز دوست راشد کامران نے چوغہ انٹرورٹیہ پہنا ہے یا یہ کہا جائے کہ کلازٹ میں جا بسے ہیں، ہمیں ادبی محفلیں اکیلے ہی نمٹانی پڑ رہی ہیں۔ اسی طرح کی ایک محفل مشاعرہ لاس اینجلس ٹایمز کے کتب میلے میں بھی برپا تھی جہاں پہنچ کر ہم نے سوچا کہ چلو آج انگریزی مشاعرہ بھی سنتے ہیں۔ سچ بتایں تو بڑی مایوسی ہوئ،نا تو داد و تحسین کے ڈونگرے، نا مکرر کی تکراروں میں پان کی گلوری کی پچکار، نا کوئ صدر مجلس، نا ہی کوئ شاعروں کا پینل اور تقدیم و تاخیر کا اصرار۔ بھلا یہ بھی کوئ مشاعرہ ہوا۔شعر معنویت سے بھرپور و گہرے ہونا ہی تو سب کچھ نہیں ہوتا، بقول ہمارے جامعہ کے ساتھی شعیب سلیم کے، ٹیمپو بننا چاہیے۔
اب زرا رنگ حنا پر کچھ تازہ کلام ملاحظہ ہو جس میں مملکت خداداد کا بھی نام آتا ہےکہ یہاں سرخ رنگ کمیاب ہے۔
یہ نظم بھی خاص ہے کہ اس میں شعرا کے جھوٹ کی فہرست بنی گئِ ہے۔
یہ صاحب اپنے آپ کوجدید دور کا شاعر کہتے ہیں اور ریپ کے انداز میں شاعری کرتے ہیں۔فیس بک پر انکی شاعری کا کوئ جواب نہیں، یعنی کہ سوشل میڈیا نے انسانی تعلقات پر جو گھرے اثرات مرتب کئے ہیں، وہ انکی زبانی ہی سنیے۔
بہرحال، حاصل کلام یہ ہے کہ دیسی مشاعری دیسی مشاعرہ ہی ہوتا ہے۔ رسائٹل کیا جانے زعفران کا بھاو!
February 23, 2012
لاکھ مسمار کیے جائیں از سلیم کوثر
لاکھ مسمار کیے جائیں زمانے والے
آہی جاتے ہیں نیا شہر بسانے والے
اس کی زد پر وہ کبھی خود بھی تو آسکتے ہیں
یہ کہاں جانتے ہیں آگ لگانے والے
اب تو ساون میں بھی بارود برستا ہے
اب وہ موسم نہیں بارش میں نہانے والے
سر سے جاتا ہی نہیںوعدہء فروا کا جنوں
مر گئے عدل کی زنجیر ہلانے والے
ہم نہ کہتے تھے تجھے، وقت بہت ظالم ہے
کیا ہوئے اب وہ ترے ناز اٹھانے والے
سائے میں بیٹھی ہوئی نسل کو معلوم نہیں
دُھوپ کی نذر ہوئے پیٹر لگانے والے
گھر میں دیواریں ہیں اور صحن میں آنکھیں ہیںسلیم
اتنے آزاد نہیں وعدہ نبھانے والے