فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

August 3, 2015

حیدرآبادی بریانی اور شروڈنگر کی بلی

Filed under: ادبیات,سائینس و ٹیکنالوجی,طنزومزاح — ابو عزام @ 8:29 am

طبعیات کا ایک مشہور لطیفہ ہے کہ ایک دفعہ سائنسدان ہائزنبرگ، شروڈنگر اور اوھم گاڑی میں جارہے تھے۔ ہائزنبرگ گاڑی چلا رہا تھا کہ ایک ٹریفک پولیس والے نے انکو تیز رفتاری کرنے پر روک لیا۔ پولیس افسر نے ہائزنبرگ سے پوچھا۔

پولیس افسر: جناب، آپکو علم ہے کہ آپ کس رفتار سے سفر کر رہے تھے؟
ہائزنبرگ: جی نہیں، لیکن مجھے اس بات کا ضرور علم ہے کہ میں کہاں موجود ہوں۔
پولیس افسر: آپ ۳۵ کی رفتار والے زون میں ۵۵ کی رفتار سےگاڑی چلا رہے تھے
ہائزنبرگ: بہت خوب بے وقوف آدمی، چونکہ اب تم نے مجھے میری رفتار بتا دی ہے لہذا اب مجھے نہیں پتا کہ میں کہاں موجود ہوں!
پولیس والے کو ان کی پراسرار  باتوں سے کچھ شک ہونے لگا تو اس نے ڈگی کھولنے کا حکم دیا۔ ڈگی کے معائنے پر اس نے وہاں ایک ڈبہ دیکھا جس میں ایک مری ہوئئ بلی موجود تھی۔
پولیس افسر: آپ لوگوں کو علم ہے کہ ڈگی میں ایک عدد مری ہوئئ بلی ہے؟
شروڈنگر: نہیں الو کی دم، لیکن آپکی مہربانی کہ اب ہمیں پتا چل گیا ہے!
پولیس افسر انہیں بدتمیزی کرنے پر گرفتارکر کر لے جاتا ہے۔ صرف اوھم مزاحمت کرتا ہے۔

 بہرحال،  اگر آپ کو اس لطیفے پر ہنسی نا آے تو آپ کی حس طبعیات یا حس مزاح میں سے کوئئ ایک حس مفقود ہے لیکن بہتر ہوگا کہ علمیت کا رعب ڈالنے کے لئے ہنسنا شروع کردیں، ہم نے بھئ یہی کیا تھا۔

Schrodingers-Cat

بہرطور، بات ہورہی تھی شروڈنگر کی بلی کی۔ اس ویکینڈ پر ہمارے ایک عزیز کچی یخنی کی حیدرآبادی بریانی لائے۔ اس بریانی کو بنانے کا طریقہ انہوں نے یہ بتایا کہ اس میں گوشت، مصالحہ جات اور چاول سب ایک ساتھ رکھ دئے جاتے ہیں اور دیگ یا پتیلے کو آٹے سے سیل کر دیا جاتا ہے۔ پھر اسکو پکنے دیا جاتا ہے اور دعا کی جاتی ہے کہ گوشت گل جائے اور چاول زیادہ نا گل جائیں۔ اس دوران پتیلا نہیں کھولا جاسکتا لہذا آپ کو علم نہیں ہوتا کہ بریانی بن گئی ہے یا نہیں جب تک کہ پتیلے کا ڈھکن نا ہٹایا جائے۔

جی ہاں، آپ نے درست پہچانا، اس سے مراد یہ ہے کہ ارون شروڈنگر کی بلی کا تھاٹ ایکسپیرمنٹ تو ہم حیدرآبادی لوگاں صدیوں سے کرتے آرہے ہیں۔  یہ مغرب کی سازش ہے کہ ہماری تمام ایجادات کو لے کر اپنا نام لگا کر نوبل انعامات لے جاتا ہے،  بیہودہ لوگ، شروڈنگر کا بینگن!

Share

November 28, 2013

مرزا غالب اور تھینکس گیونگ کی ٹرکی

Filed under: ادبیات,طنزومزاح,غالبیات — ابو عزام @ 4:01 pm

ڈاکٹر ہو کی پچاسویں سالگرہ کے موقع پر انکی ٹائم مشین استعمال کرتے ہوئے ہم نے مرزا نوشہ کو یوم تشکر یعنی تھینکس گیونگ پر ایک عدد ٹرکی بھجوائ۔ اس کا جواب موصول ہوا۔ پڑھیے اور مرزا کی ذائقہ شناسی پر سر دھنئے۔

thanksgiving-turkey-dinner

بنام
میان عدنان مسعود

جود و کرم کے دسترخوان کا یہ ریزہ خوار عرض کرتا ہے کہ یہ امریکی مرغابی نما جانور کا خوان مع لوازمات، بزبان فرنگ ٹرکی. وصول پایا اور کام جان کو محبوبوں کے تبسم شور انگیز کی لہر میں لوٹ پوٹ کر دیا۔ دماغ کو بھی طاقت دی اور ہاتھ پاوں کو بھی توانائ بخشی۔ اس کا گودہ اپنے خمیر کی لطافت میں قواے نفسانی کے اضافے کا سرمایہ، نہیں نہیں میں نے غلط کہا، زندگی کے چراغ کے تیل کا مادہ ہے۔ فم معدہ اس کے شوربے المعروف زبان فرنگ گریوی،  کی روانی کا ثنا خوان ہے۔ اور آنتیں اسکے کفچوں کے لذت کے شمار کی تسبیح پڑھ رہی ہیں۔ مکئی کی روٹی نے جب اسکے شوربے کے معیار کو پہچانا تو پہلے حملے میں ہی خوف سے سپر ڈال دی اور جب زبان اس کی روانی کی لذت کی شکرگذاری میں مشغول ہوئ تو شوربے کے آپ حیات کی موج اسکے سر پر سے گذری، اسکی ہڈیوں کے نظر فریب جلوے پر ہما دیوانہ ہو گیا ہے اور اسکے بہتے ہوئے شکرخند و سیب زمینی  کے حسن  پر عقل فریقتہ ہو گئی ہے۔ اور اسکے مصالحے کے مزے  کی تیزی محبوبوں کی اداے عتاب کی طرح گلوسوز تو نا تھی پر کچھ ایسی انجان بھی نہیں، اور اسکی  ہڈیوں کے چٹخنے کی آواز چنگ و رباب   کے نغمے کی طرح سامع  نواز تھی ۔ میں تو بات  کو طول دینا اور اس نعمت کے بعد صاحب نعمت کا شکر ادا کرنا  چاہتنا تھا کہ اچانک میرے جبڑے نے مجھے ناز کے ساتھ آنکھ کا اشارہ کیا اور اپنے سر کی قسم دے کر گویا ہوا کہ اپنے ہاتھ  سے قلم فورا رکھ اور  سیب کے مربے و احمر قره قاط  کی لطافت کا مزا چکھ۔

چونکہ مجھے اسکی خاطرداری منظور تھی اور اسکی قسمت پرمایہ تھی لہذا تعمیل کے علاوہ اور کوئ چارہ نا تھا

دعاوں کا طالب

غالب
دلی،  نومبر ۱۸۴۵

 

thanksgiving-turkey-coverایضا، یہ مضمون مرزا نوشہ کے نومبر ۱۸۴۸ کے ایک خط میں یوم تشکر کی رعائت کر کے تصنیف کیا گیا ہے،،

 

Share

June 27, 2013

عشاق کانفرنس

Filed under: ادبیات,طنزومزاح,کتابیات — ابو عزام @ 5:23 am

عشاق کانفرنس از محمد طارق طور

مرزا صاحب کے ساتھ صرف علیک ، سلیک ہی کسی کو دکھی اور پریشان حال کرنے کے لئے کافی ہے اور میری بد قسمتی دیکھئے کہ موصوف میرے بے تکلف دوست ہیں. ان کی دوستی کا یہ زہر قاتل میں بچپن سے پی رہا ہوں اور میری سخت جانی دیکھئے کہ ابھی تک زندہ ہوں. اب کیا عرض کروں، بس یوں سمجھئیے کہ مرزا صاحب کی شخصیت  اور عادات مخصوصہ کو الفاظ کی زنجیر پہنانا جوۓ شیر لانے سے تو کم ہی ہوگا. مگر اس خاکسار کے بس کی بات نہیں. اگر ایسا ہو سکتا تو میں کبھی کا مر چکا ہوتا اور طنزو مزاح کی کتابوں کی صف میں ایک شاہکار کا اضافہ ہو چکا ہوتا (آپ جانتے ہیں کہ ابھی تک ایسا نہیں ہوا ہے). ہمارے گھر میں مرزا صاحب کا اکثر آنا جانا رہتا ہے

اور مرزا حضور جب بھی قدم رنجہ فرماتے ہیں. ہمارا گھر گھر نہیں رہتا مرزا خانہ بن جاتا ہے. مثال کے طور پر نوکروں کے طور طریقے بدل جاتے ہیں انکے چہرے مسخرانہ ہو جاتے ہیں اور غٹرغوں غٹرغوں کرتے پھرتے ہیں.  بلائیں تو غائب!  تلاش بسیار کے بعد اگر کہیں سے برآمد ہو جائیں تو جواب ملتا ہے کہ مرزا صاحب کے پاس ان کے اشعار اور شکار کی داستانیں سن رہے تھے. بچے اسکول جانے سے انکار کر دیتے ہیں کہ گھر میں مرزا انکل سے کرکٹ کا میچ طے ہے. ڈرائیور مرزا صاحب کے ہاتھہ پر ہاتھہ مارتے ہوئے کئی بار حادثات کر چکا ہے. بس ایک ہماری بیگم ہیں جن سے ہم دل کی بات کر سکتے ہیں لیکن مرزا صاحب کے گھر میں دارد ہوتے ہی بیگم ہمیں خانے کو دوڑتی ہیں اور جب تک مرزا صاحب گھر میں براجمان رہتے ہیں ہمارے مرزا خانہ میں توپ خانہ خلا رہتا ہے.

مرزا صاحب جب بھی تشریف لاتے ہیں، اپنے درباریوں اور حواریوں کی ایک فوج کے ساتھہ آتے کم ہیں اور حملہ آور زیادہ ہوتے ہیں، پچھلے ماہ جب مرزا صاحب تشریف لاۓ تو ہمارا ماتھا ٹھنکا کہ اس مرتبہ کوئی خاص بات ہے کہ اکیلے تشریف لاۓ ہیں. جب گھر میں داخل ہوئے تو چند مہمان بھی ڈرائنگ روم میں براجمان تھے مرزا صاحب میرے کان کے قریب آ کر بولے: یہ لوگ کب جائیں گے ؟ ایک ضروری بات کرنا ہے”

میں نے عرض کیا : فرمائیے! یہ اپنے ہی لوگ ہیں”

تنک کر بولے: تمہیں کبھی عقل نہیں آئیگی بہت ہی ذاتی سامسلہ ہے”. ہماری یہ کانا پھوسی سن کر مہمان شاید تاڑ گۓ کہ اگر مجھے نہیں تو کم از کم مرزا صاحب کو تخلیہ درکار ہے لہٰذا انہوں نے فورا نو دو گیارہ ہونے کی ٹھانی. انہیں خدا حافظ کہنے کو گیٹ کی طرف نکلے تو اپنے ڈرائیور کو سخت پریشانی کے عالم میں پایا او! صاحب جی میں مرزا صاحب کو لیکر آرہا تھا کہ راستے میں گاڑی کھمبے سے لگ گئی”

میں تو بس آہ کر کے رہ گیا، مرزا صاحب کے ساتھہ گاڑی کو بھیجنا کبھی خطرے سے خالی نہیں ہوتا.

وہ ڈرائیور کے ساتھہ خوش گپیوں میں ہاتھہ پر ہاتھہ مارنے کے عادی ہیں. ہر بار ڈرائیور کی طرف اپنا ہاتھہ پھیلا دیتے ہیں. اب بے چارہ ڈرائیور ان کے ہاتھہ پر ہاتھہ مارے گا تو گاڑی کسی اور چیز سے مارے گا. خیر مہمانوں کو رخصت کیا تو میرے بچے اپنے بچپن کی سرحدیں پھلانگتے ہوئے مرزا جی کے گرد جمع ہو گئے کہ انکل آئیے کرکٹ کھیلتے ہیں. میں نے بچوں کو مخاطب کرکے مرزا صاحب کو ڈانتے ہوئے کہا کہ ابھی تو پچھلے “مرزا بینیفٹ میچ کے دوران ٹوٹے ہوئے شیشے اور گملے ہی تبدیل نہیں ہوئے. آج پھر سے توڑ پھوڑ کا عنوان بنتے جا رہے ہیں.”

مرزا صاحب کو جیسے میری حالت پر ترس آ گیا اور کرکٹ کا یہ میچ بن کھیلے ہی ڈرا ہوگیا.

مرزا نے کمرے کے سب دروازے بینڈ کرلئے اور مجھہ سے کہنے لگے یار میں نے اخبار میں کہیں پڑھا ہے کہ ضلع گجرات میں دریاۓ چناب کے کنارے اس ماہ کی چودھویں کو آل پاکستان عشاق کانفرنس منعقد ہو رہی ہے تمام سابقہ اور موجودہ عاشقوں کو شرکت کی دعوت عام ہے

کیا خیال ہے؟”

“کیا مطلب؟

“مطلب یہ کہ میں نے پرگرام بنایا ہے کہ ہم دونوں اس کانفرنس میں حصّہ لیں گے اور بس” “یار مرزا، کچھہ عقل کے ناخن لو! یہ تمہیں کیا ہو گیا ہے”؟

“اس عمر میں یہ لچھن !بچے کیا سوچیں گے اور پھر ہم کون سے عاشق ہیں”؟

“یار کیا کہتے ہو! اعلان کے مطابق سابقہ عشاق حضرات بھی آ سکتے ہیں اور پھر تم ____وہ یونیورسٹی میں _____بچو! اب سارے چکر بھول گئے ہو!”

قصّہ مختصر دو گھنٹے کی بھونڈی بحث کے بعد مرزا مجھے قائل بلکہ مجبور کر چکے تھے کہ ہمیں اس کانفرنس میں شرکت کرنی چاہئیے. فوری طور پر انہوں نے اپنی جیب سے جنتری نکال کر حساب لگایا کہ چاند کی چودھویں کس دن ہے تاکہ مناسب وقت پر رخصت سفر باندھا جا سکے. آل پاکستان عشاق کانفرنس میں پہنچنا ایک علیحدہ داستان بنے جس کا ذکر یہاں مناسب نہیں کیونکہ

ایسا کرنے سے یہ ہلکا پھلکا مضمون ایک سفر نامہ بن جاۓ گا.

کانفرنس میں پہنچے تو کیا سماں تھا. دریا کے کنارے کھلے آسمان کے نیچے شامیانے لگے ہوئے تھے اور درمیان میں ایک پنڈال بنا ہوا تھا. یہ سارا نظام حاجی مولا بخش اینڈ سنز کا تھا. مولا بخش اینڈ سنز کے مالک حاجی مولا بخش ٹینٹ والے بڑے نامور عاشق تھے. اپنے آپ کو شہزادہ سلیم کے خاندان کا چشم وچراغ ظاہر کرتے تھے. اور سنا ہے کہ شروع شروع میں وہ مجنوں کے خاندان سے ہونے کے دعویدار تھے لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ مجنوں کی شادی نہ ہو سکی تھی، اس لئے نسل چلنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا) لاؤڈ اسپیکر وغیرہ کا انتظام بھی حاجی صاحب نے ہی کیا ہوا تھا. کانفرنس اگلے دن شروع ہونا تھی لیکن تمام عشاق کس اجتماع ہو چکا تھا.

لاؤڈ اسپیکر پر خواجہ میر درد اور میر تقی میر کی غزلیں سنائی جا رہی تھیں. کبھی کبھی ہیر وارث شاہ اور مرزا صاحباں کا قصّہ بھی سنایا جا رہا تھا. عین اس جگہ جہاں مہینوال نے اپنی ران کو کباب سوہنی کو کھلاۓ تھے وہاں بکرے کی ران کے کباب بھونے جا رہے تھے اور عشاق شوق اور عقیدت سے کھاتے جا رہے تھے. دریا کے اندر تیرا کی میں ماہر چند خواتین گھڑوں پر تیر کر سوہنی کی یاد کو تازہ کر رہی تھیں، انہیں دیکھنے اور داد دینے کے لئے لوگ کنارے پر کھڑے رالیں ٹپکا رہے تھے.

اگلے ہی روز یعنی چاند کی چودھویں تاریخ کو آل پاکستان عشاق کانفرنس کا پہلا اجلاس شروع ہوا. پنڈال پر ایک ہی کرسی رکھی گئی تھی. جو صدر صاحب کے لئے تھے. اجلاس شروع ہوتے ہی اس اجلاس کے صدر صاحب کو پالکی میں بیٹھا کر سٹیج پر لایا گیا. جونہی صدر صاحب باہر نکلے،دو نوجوان عاشقوں نے انہیں اٹھا کر کرسی پر رکھا. صدر کانفرنس کی حالت کافی نازک لگ رہی تھی، بس یوں لگتا تھا جیسے کسی میڈیکل کالج کی کلاس کے سامنے انسانی ڈھانچہ رکھا جاۓ صدارتی کرسی بھی عجیب سی تھی. کرسی کی چاروں ٹانگیں ایک کمان پر لگی ہوئی تھیں. ایسی کرسیاں گھروں میں اکثر بوڑھے لوگ آرام کرنے کیلئے

استعمال کرتے ہیں (انگریزی زبان میں اس کرسی کو روکنگ چیئر) کہتے ہیں کرسی پر بیٹھہ کر جھولتے رہتے ہیں.

صاحب صدر کو کرسی پر رکھا گیا تو کرسی نے آگے پیچھے حرکت کرنا شروع کردی. اسٹیج سیکرٹری نے مائیک پر آکر صاحب صدر سے اجلاس شروع کرنے کی اجازت مانگی جو انہوں نے کرسی کو تھوڑا سا تیز ہلا کر دےدی. سٹیج سیکرٹری نے سب سے پہلے تو صدر صاحب کا تعارف کرانے کی کوشش کی، جس میں انہوں نے کہا کہ صدر صاحب کرسی صدارت کے بارے عاشق ہیں. اور پچھلے بیس سال سے کسی نہ کسی طرح کرسی صدارت پر برا جمان چلے آ رہے ہیں.اب تقریبا مفلوج ہو چکے ہیں، بات نہیں کر سکتے، چلنے پھرنے سے قاصر ہیں. لیکن گو ہاتھہ میں جنبش نہیں، آنکھوں میں تو دم ہے، کہ مصداق ابھی قائم و دائم ہیں. ماشاالله ! اس کے بعد انہوں نے اپنا تعارف کرایا، جس میں انہوں نے اپنے آپ کو آل پاکستان عشاق ایسوسی ایشن کا کرتا دھرتا ثابت کرنے کی کوشش کی اور اپنا شجرہ نسب مغلیہ خاندان سے ملاتے ہوئے بہت ڈینگیں ماریں.

اس کے بعد انہوں نے اپنی ایسوسی ایشن کی ایکشن کمیٹی کے چیئرمین کو دعوت تقریر دی.

ایکشن کمیٹی کے چیئرمین صاحب کافی جوش سے سٹیج پر تشریف لاۓ اور یوں شعلہ بیانی شروع کی.

“عشاق گرامی!” ملک بھر کے عشاق کا اتنا بڑا اجتماع دیکھہ کر میرا کلیجہ دوگنا ہو گیا ہے.

ممجھے یوں محسوس ہو رہا ہے کہ اب ہمارے پاس بھی پاور ہے (پاورمین سے بنتی ہے)میرے لیے ایکشن لینا اب آسان ہو گیا ہے. افسوس اس بات کا ہے کہ ہماری برادری کے چند لوگ ہمارا خیال نہیں کرتے. اگر وہ ایسا کریں، تو میں آپ کو یقین دلا سکتا ہوں کہ کوئی مسلہ ہی نہ رہے. اتنے بڑے بڑے لوگ ہماری برادری میں ہیں کہ بس یوں سمجھئیے حکومت ہی اپنی ہے لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ ہم سب ان لوگوں کے ضمیر کو جھنجھوڑیں اور کہیں کہ اٹھو، اپنی برادری کے نصیبوں کو جگادو”.

عشاق کرام ! پچھلے سال جو کانفرنس تخت ہزارہ کے مقام پر ہی تھی اس میں ایک ورکنگ کمیٹی بنائی گئی تھی. اس کمیٹی کے اس خاکسار سمیت پانچ رکن تھے. ایک رکن نے تو چند دن بعد ہی خودکشی کرلی تھی، دوسرا رکن ٹی بی کے عاشقانہ مرض میں مبتلا ہو کر چل بسا، تیسرا رکن جذبات عشق کی شدت سے لاہور کے دماغی امراض کے ہسپتال میں زیر علاج ہے. چوتھا رکن جو کہ اس ورکنگ کمیٹی کا پروپیگنڈہ سیکرٹری بھی ہے. اپنے محبوبہ کو بھگا لے جانے کے جرم میں قید ہے. لے دے کر یہی خاکسار باقی بچا ہے گویا اس ورکنگ کمیٹی کو آپ ایک رکنی کمیٹی کہ سکتے ہیں. چونکہ اس کا اور کوئی رکن نہیں ہے، اس لئے میں اسکا چئیرمین بھی ہوں پچھلے سال کے اجلاس میں جو قرارداد عشق اکثریت کی عاشقانہ راۓ سے منظور کی گئی تھی، میں وہ دوبارہ آپ کی خدمت میں پیش کر چاہتا ہوں تا کہ ہمیں اس سال کی قرارداد مرتب کرنے میں آسانی رہے.

 

قراداد عشق ١٩٨٣،

آل پاکستان عشاق کانفرنس کا یہ اجلاس مندرجہ ذیل قرارداد بھری اکثریت سے منظور کرتا ہے:

١- ہمارا مطالبہ ہے کہ ہماری یونین کو رجسٹر کیا جاۓ. ہم نے سالہا سال سے آل پاکستان عشاق یونین کو رجسٹرڈ کروانے کی کوشش کر رہے ہیں. لیکن متعلقہ حکام جن میں سے اکثر خفیہ طور پر ہمارے رکن ہ ہیں. اسے رجسٹرڈ کرنے میں حیل و حجت سے کام لے رہے ہیں. ان کے خیال میں ایسی یونین رجسٹرڈ کرنے سے قوم کا اخلاق تباہ ہو جاۓگا اور لوگ سرعام عشق وغیرہ کرنے لگیں گے..

 ٢- یہ کانفرنس اسد الله غالب نامی ایک شاعر کے بعض اشعارپر پرزور احتجاج کرتی ہے. ہمارے علم میں یہ بات لائی گئی کہ اس غالب نامی شخص نے اپنے اشعار میں جا بجا چند نامور. 

 عشاق کی شان میں گستاخی کی ہے مثال کے طور پر ایک شعر میں اس نے بادشاہ عشق، شہزادہ محبت و الفت، دیوانہ شیریں، جناب فرہاد ایرانی کی شان پر بہار میں یوں غیرپارلیمانی ریمارکس دیۓ ہیں:

تیشے بغیر مر نہ سکا کوہکن اسد 

اب آپ خود اندازہ کریں کہ اس عظیم عاشق کی موت کا مذاق اڑانا اگر توہین عشاق نہیں تو پھر اور کیا ہے ؟ غالب نامی اسی شاعر نے اپنے ایک اور سفر میں ہماری پوری برادری کو گالی دی ہے کہتا ہے”-

کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا 

اب ذرا سوچیے کہ یہ کس قدر زیادتی ہے. ہماری دعا ہے کہ یہ شخص اگر زندہ ہے تو ……….اگر اور کچھہ نہ ہوتا ہو تو خدا کرے کہ اس کی محبوبہ کی شادی کسی اور سے ہو جاۓ. 

٣- کانفرنس حکومت سے پر زور مطالبہ کرتی ہے کہ ہمیں حکومت میں نمائندگی دی جاۓ سنٹرل سیکرٹریٹ میں عشاق ڈویزن قائم کی جاۓ  اور قومی اسمبلی میں ہمارا کوٹہ مقرر کیا جاۓ 

٤- اب وقت آگیا کہ عشاق لوگ صحر انوردی کرتے پھریں. اب تو عشاق کو تکمیل عشق کو تکمیل عشق کی خاطر ہوائی جہاز میں سفر کرنا پڑتا ہے. ہمارا مطالبہ ہے کہ پی آئی اے کے کرایے میں ہمیں رعایت دی جاۓ اور ایئر پورٹ پر ایک علیحدہ عشاق کا کاؤنٹر قائم کیا جاۓ تا کہ مجذوب قسم کے عشاق کو کوئی پریشان نہ ہو.

٥-کہتے دکھ کی بات ہے کہ عشق کی تعلیم کا ہمارے ملک میں کوئی انتقام نہیں. ہم لوگ لیلے مجنوں، شیریں فرہاد اور ہیر رانجھا کے قصّے سنتے تو بڑے شوق اور فخر سے ہیں مگر کسی بھی بڑے عاشق کے حالات زندگی وغیرہ کسی بھی کلاس کے نصاب ،میں شامل نہیں، ہمارا  مطالبہ ہے کہ تعلیمی نصاب میں مضامین عشق کو شامل کیا جاۓ …… میں ایک شعبہ تعلیمات عشق بھی قائم کیا جاۓ، جس میں رانجھا اکیڈمی، فرہاد آڈیٹوریم، مہینوال ہال وغیرہ کے نام بھی رکھے جائیں.

٦- بعض عشاقان گرامی نے شکایت کی ہے کہ انہیں اپنی لائف انشورنس کروانے میں دشواریوں کا سامنا کرنہ پڑ رہا ہے، کیونکہ بعض انشورنس کمپنیاں عشاق کا بیمہ کرنے سے گریزاں ہیں. ہم ایسی بیمہ کمپنیوں کو آخری نوٹس دیتے ہیں کہ وہ راہ راست پر آجائیں ورنہ ہم اپنی ڈائی ہارڈ اسکواڈ کے عاشق ان کے پیچھے لگا دینگے.

تو معزز حاضرین ! یہ تھی پچھلے سال کی قرارداد نور چونکہ اس قرارداد پر ابھی تک عمل نہیں ہو سکا. اس لئے اس قرارداد کو ہم ایک بار پھر پیش کرتے ہیں اور میں آپ حضرات سے ملتمس ہوں کہ اسے بھری اکثریت سے پاس کریں، شاباش ہاتھہ کھڑے کیجیے، اوپر اور اوپر!

ایکشن کمیٹی کے چیئرمین کی تقریر ختم ہوئی تو صدر مجلس نے اپنی روکنگ چیئر پر جھوم کر انہیں داد تحسین پیش کی. کانفرنس کے باقی شرکاء نے بھی تالیاں بجا کر داد دی. اس کے بعد کانفرنس کے سیکرٹری نے ایک بزرگ عاشق بابا کرم دین طوفانی کو دعوت تقریر دی.

بابا جی مائیک ہاتھہ میں لے کر یوں کانفرنس سے مخاطب ہوئے.

معزز حاضرین! جیسا کہ آپ جانتے ہیں میرا شعبه موٹیویشن اینڈ ٹریننگ ہے. میں سارا سال لوگوں کو عاشق بننے کی ترغیب دیتا رہتا ہوں اور آج بھی یہی پیغام لے کر حاضر ہوا ہوں کہ آیئے ، عاشق بنئیے.

ہم جانتے ہیں کہ آپ میں سے اکثر خواتین و حضرات یہاں صرف اس لئے تشریف لاۓ ہیں کہ ہماری برادری میں شامل ہو سکیں. مجھے احساس ہے کہ آپ لوگوں کے دلوں میں شکوک و شبھات بھی ہونگے، کی غلط فہمیاں آپ کے ذھن میں ہوں گی. جو آپ کو عاشق بننے سے روکے ہوئے ہیں مثال کے طور پر یہ غلط فہمی گردش عام میں ہے کہ عشق سخت آوارہ، نالائق، اچکے اور بیکار لوگوں کا مشغلہ ہے تو صاحب عرض ہے ک اگر عاشق کئی سال تک  برصغیر پر حکومت کر سکتا ہے (اور حکومت بھی ایک اچھے بھلے ٹہکے کے ساتھہ) تو پھر بھی آپ نے اس من گھڑت افواہ پر یقین کرلیا کہ عشاق بے کار آدمی ہوتے ہیں. آپ نے تاریخ کا مطالعہ ضرور کیا ہوگا اور اگر نہیں کیا تو سنا تو ضرور ہوگا کہ شاہ جہاں دنیا کے ایک عظیم شہنشاہ گزرے ہیں مگر عشاق برادری میں وہ ایک معمولی قسم کے عاشق کا مقام رکھتے ہیں. گویا عاشقی شہشاہیت سے افضل ہے ہان بھی تو رومیو نے اپنی جولیٹ سے کہا تھا..

میں تخت وتاج کو ٹھکرا کے تم کو پا لونگا

کہ تخت و تاج سے تیری گلی کی خاک بھلی

 

آپ شاید جانتے ہی ہونگے کہ دنیا میں فن سنگ تراشی کا بانی بھی ایک عظیم عاشق تھا. جس کا فن عاشقی کے علاوہ فن سنگ تراشی میں سنہری حروف سے لکھا گیا ہے’ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آگرہ میں عشق و محبت کا مینار تاج محل موجود ہے جس کی شہرت شعبه عشق پر تنقید کرنے والوں کے منہ پر ایک طمانچہ ہے. اب تو آپ مان گۓ ہوں گے کہ عشاق قطعی طور پر آوارہ اور نالائق قسم کے لوگ نہیں ہوتے ہیں

توعاشقان کرام! میری آپ سب سے بھی التماس ہے کہ آپ گھر گھر پیغام عاشقی پہنچائیں. اب میں آپ سے اجازت چاہوں گا. خدا حافظ ! “عشاق اتحاد زندہ باد”

باباۓ عشق کی تقریر ختم ہوئی تو مجمع تالیوں سے گونج اٹھا سٹیج سیکرٹری صاحب مائیک پر تشریف لاۓ اور داد طلب انداز سے نعرہ بازی شروع کردی. جس سے بہت شور برپا ہو گیا. ایک غزل سرا تھا تو دوسرا جگنی گا رہا تھا. کسی نے کان پر ہاتھہ دھرا ہوا تھا اور ہیر وارث شاہ گا رہا تھا. پنڈال کے ایک جانب لڈی اور ہے جمالو کی ٹولیوں کی بھنگڑ اور خٹک ناچ گروپ سے مقابلہ آرائی تھی. یہ ہنگامہ کافی دیر تک جاری رہا، اسی دوران صاحب صدر کی روکنگ چئیر کی حرکت روک چکی تھی. بعد میں معلوم ہوا کہ صاحب صدر اس شوروغل اور ہنگامے کو برداشت نہ کر سکے اور اپنے خالق حقیقی سے جا ملے تھے، فوری طور پر تمام ڈاکٹر عشاق کو سٹیج پر بلایا گیا جنہوں نے آتے ہی صاحب صدر کی موت کی تصدیق کردی.

یہ سانحہ کیا ہوا. کانفرنس میں ایک بھگڈر سی مچ گئی، سب نے وہاں سے رفو چکّر ہونا شروع کر دیا کہ جیسے صدر صاحب کے بعد انکی باری ہو ان حالات میں میں اور مرزا بھی وہاں سے واپس ہوئے..

 

خدا رحمت کندایں عاشقان پاک طینت را

Share

June 24, 2013

نذر حیدرآباد کالونی، کراچی

Filed under: ادبیات,شاعری,طنزومزاح — ابو عزام @ 12:17 pm

 ریاست کا خومی ترانہ ہے یہ     سر راہ اک جیل خانہ ہے یہ
یہ نکڑ پہ اک سہ دری ٹین کی      یہ ڈسپنسری بھائ یاسین کی
یہ گھر ایک مرحوم استاد کا     علی اختر حیدرآباد کا
یہ ہر دل میں اسٹیٹ کا ولولہ    یہ ہر شیروانی کا چوڑا گلا
یہ کاڑی کی ڈبی پہ گاڑی کی چھاپ     نکو میری اماں، نکو میرے باپ
اگر چاہ تھی، چائے کو بولتے     تم ایسا بھلا کاے کو بولتے
حسینو میں شاعر ہوں مجھ سے ڈرو     مری شاعری سے بھی گوشہ کرو
میں سو پونڈ کا وزن گل کی ہو تم
میں ایک غیر ملکی ہوں، ملکی ہو تم

شاعر۔ نامعلوم

Share

May 5, 2013

المشاہدات فی کراوڈ سورس ایس ایم ایس شاعری

Filed under: ادبیات,شاعری,طنزومزاح,عمومیات,مشاہدات — ابو عزام @ 1:01 pm

اپنی کم علمی میں ہم ہمیشہ یہی سمجھتے رہے کہ اردو شاعری پر جو ستم وصی شاہ نے ڈھاے ہیں، اسکی نظیر تاریخ کبھی نا پیش کر سکے گی لیکن ہمت کرنے والوں نے دل کی گلیوں پر بھی بہت کچھ لکھ مارا جس پر تبصرے کے لئے استاذ جعفر کا پریشاں ہیں پِنڈ کی جھَلّیاں، قاطع برہان ہے۔  یہ تو خیر جملہ معترضہ تھا، اصل موضوع ہے  حضرت اقبال و فراز کے ایس ایم ایس دیوان جنہیں برادرم راشد کامران ہیش ٹیگ و کراوڈ سورس شاعری قرار دیتے ہیں ۔ اس ضمن میں ہمارا تو یہی موقف رہا کہ

فراز کے الٹے سیدے شعر بنانےسے یہ باز نہیں آتے اقبال
بہت ان نوجوانوں کو سمجھا کے دیکھ لیا

اب یہ چلن اسقدربڑھا کہ اچھے خاصے ڈھنگ کے لوگوں کوبھی اقبال کے نام پر بے بحر و اوزان کے ایسے اشعار منسوب کرتے دیکھا ہے کہ اس سے انکے نجیب الطرفین ہونے پر شک ہونے لگتا ہے۔ دریافت کرو تو جواب میں ڈھٹائ سے فرماتے ہیں کہ یہ تازہ دریافت، بحر و اوزان سے آزاد علامہ ہی  کا کلام ہے، میں نے خود پڑھا ہے بانگ درگاہ ایس ایم ایس ایڈیشن میں۔ مثلا مندرجہ زیل فوٹوشاپئے ہی ملاحظہ ہوں

268785_4472773623475_1426899029_n

اس پر انور مسعود صاحب کا یہ شعر خوب لاگو ہوتا ہے کہ

اک اتائی کر رہا تھا ایک مجمع سے خطاب
یاد ہے بس ایک ٹکڑا مجھ کو اس تقریر کا
بات ہے بانگِ درا میں، شیخ سعدی نے کہی
’’صبح کرنا شام کا‘ لانا ہے جوئے شیر کا‘‘

21216_10151463979022585_412146928_n

سنجیدہ شعر میں تحریف کر کر اسے مزاح کا رنگ دینا ایک قابل تحسین ہنر ہے۔ لیکن موجودہ تضمین سے شگفتگی کی صنف بنانے کا معیار و مزاج ، سوشل میڈیا کی ہی طرح کا ‘سطحی’ ہے۔  وہ دن ہوا ہوے جب عنایت علی خان یا پاپولر میرٹھی کس خوبی سے کہا کرتے تھے
حسن والوں نے کیا ہے بہت جم کے پتھراؤ
تیرے سر میں تو بہت کام رفو کا نکلا
یا پھر علّامہ کا یہ سنجیدہ شعر
مانا کہ ترے دید کے قابل نہیں ہوں میں
تو مرا شوق دیکھ مرا انتظار دیکھ
تھوڑی سی تحریف سے کیا خوب ہوا۔
مانا کہ ترے دید کے قابل نہیں ہوں میں
تو مری کار دیکھ مرا کاروبار دیکھ
اور امیر الاسلام ہاشمی
عمر تو ساری کٹی عشقِ بتاں میں مومنؔ
آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گے
نے کس قدر ‘نازک’ موضوع پر خامہ فرسائ کی
نائی آئے گا تو یہ کہہ کے گریزاں ہوں گے
’’آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گے‘‘
 اب تو یہ حال ہے کہ

اب تو ڈر لگتا ہے کھولنے سے بھی دراز
کہیں ایسا نہ ہو کہ اس میں‌سے بھی نکل آئے فراز

علامہ کے ساتھ تو یہ ظلم تو اکثر لوگوں کو کھلتا ہے لہذا انجمن اقبالیات شمالی امریکہ نے اس ضمن میں ایک مہم چلائ،برسبیل تذکرہ انجمن پر تو ضمیر جعفری نے خوب کہا تھا

بپا ہم سال میں اک مجلس اقبال کرتے ہیں
پھر اْسکے بعد جو کرتے ہیں وہ قوال کرتے ہیں

487288_10151081453451505_527155786_n

یا پھر چلیں عطا الحق قاسمی صاحب کی ہی سن لیں کہ اقبال کی شاعری کو بین کردیا جاے۔ لیکن کہے دیتے ہیں کہ نقل کفر کفر نا باشد۔ کل کو ہم کاغذات نامزدگی داخل کرانے جائیں اور آپ ہمارا یہ مضمون پیش کریں تو یہ اعلان برات ہے ۔

398988_10150889305091505_2061535367_n

محترم ڈفر نے اس ضمن میں فرازکا ایک ایس ایم ایس دیوان  مرتب کیا تھا جو کہ خاصہ دلچسپ ہے۔   تخلیقی کیفیت توکراوڈ سورس شاعری میں بھی کچھ کم نظر  نہیں آتی، لیکن یہ زیادہ تر ‘فراز’ کی ہی سخن پروری ہے، مثلا دیکھیں۔

فراز کی شادی میں ہوئے اتنے پھول نچھاور
کیمرہ میں فراز کے ساتھ جیو نیوز پشاور

یا پھر

ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز
اور ان کی جوتیاں لے کے بھاگ گیا فراز

 اور یہ رعایت تو خصوصا لائق ستائش ہے

وہ ہمیں بے وفا کہتے ہیں تو کہتے رہیں فراز
امی کہتی ہیں جو کہتا ہے وہ خود ہوتا ہے

دیگر زبانوں کے امتزاج سے بھی بہترین اشعار وجود میں آتے ہیں اور ثابت ہوتے کہ فراز ایک عالمگیر شاعر ہے، محض اردو میں اسے مقید نہیں کیا جاسکتا، مثلا

مجھ سے لوگ ملتے ہیں میرے اخلاق کی وجہ سے فراز
ہور میرے کوئی سموسے تے نئیں مشہور

اور

اتنا سن کر ہی ہمارا دل ٹوٹ گیا فراز
the number you have dialed is busy on another call

اور دیگر ماحولیاتی و امن عامہ سے متعلق عوامل بھی دیکھیں

 

اس گلی اس وجہہ سے جانا چھوڑ دیا فراز
وہ کمینے نوکیا گیارہ سو بھی چھین لیتے ہیں

ظالموں نے تو مغل اعظم کو بھی نہیں بخشا

اس نے مجھے رات کو اکیلے جنگل میں چھوڑ دیا فراز
یہ کہہ کر کہ جب پیار کیا تو ڈرنا کیا

فیس بک کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو حضرت اقبال پر بہتان لیکن ہمیشہ کچھ سنجیدہ سا لگتا ہے، اسقدر کہ اسے خود کو یقین دلانے کے لئے دوبارہ پڑھنا  پڑھتا ہے۔

تم حیا و شریعت کے تقاضوں کی بات کرتے ہو
ہم نے ننگے جسموں کو ملبوس حیا دیکھا ہے
دیکھے ہیں ہم نے احرام میں لپٹے کئی ابلیس
ہم نے کئی بار مہ خانے میں خدا دیکھا ہے

یا پھر

عشق قاتل سے بھی مقتول سے ہمدردی بھی
یہ بتا کس سے محبت کی جزا مانگے گا؟
سجدہ خالق کو بھی ابلیس سے یارانہ بھی
حشر میں کس سے عقیدت کا صلہ مانگے گا؟

اب ان اشعار کو پڑھنے کے بعد ہم پر تو حضرت علامہ کی لحد میں لوٹ پوٹ پر نہایت افسوس کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ فراز ایس ایم ایس نے تو اس کیفیت  پر بھی ایک شعر کہا ہے، ملاحظہ ہو

ہم تو اس قبر میں بھی سکوں میسر نہیں فراز
روز آکر کہتا ہے شیطاں کہ استاد آج کوئی نیا شعر ہوجائے 
ایس ایم ایس اشعار کا ذخیرہ تو لا امتناہی ہے مگر کچھ خیال خاطر احباب کی خاطر اس کو مختصر رکھتے ہیں اور مندرجہ زیل اشعار پر تمت بالخیر کہتے ہیں
اگر اقبال پر ہوتی رہیں انــگـلش میں تـقـریریں
بدل جائیں گی اک دن دیکھنا ملت كى تقديريں
سیل فـون اک ہاتھ میں ہے ایک میں ریمـوٹ!
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں

حوالہ جات

ہیش ٹیگ شاعری

جی ڈھونڈتا ہے

فراز، ایس ایم ایس دیوان

Share

April 6, 2013

میراتھن دوڑنے کا غلط طریقہ – لاس اینجلس میراتھن کی تصویری روداد

Filed under: سفر وسیلہ ظفر,طنزومزاح,عمومیات,مشاہدات — ابو عزام @ 8:58 am


LA-Marathon-FEATURE

آپ اسے شعراء اور ادباء کی نازک مزاجی کہئیے یا کچھ اور کہ اردو نثر و نظم میں دوڑنے والے کا کچھہ زیادہ تذکرہ نہیں ملتا. مرزا نوشہ تو دھول دھپے کے قطعی قائل نہ تھے اور نہ ہی رگوں میں دوڑنے پھرنے کے، اور یوسفی تو اپنی ناسازی طبع کا رونا کچھ یوں روتے ہیں کہ اچھے اچھوں کی آنکھیں بھر آئیں.اب بلاگ چونکہ اردو ادب کی تیسری صنف ٹھہری تو لہٰذا کچھ غیر ہم آہنگی تو لازم ہے.۔ وہ جو کہتے ہیں کے جب گیڈر کی موت آتی ہے تو وہ شہر کی طرف بھاگتا ہے،راقم کی جو شامت آئی تو ہم نے سانٹا مونیکا کی طرف بھاگنے کا عزم کیا.۔ 

2013_LAM_8.5X11_Coursemap_final_outlined

ٹورینٹینو کی فلموں کی طرح اس بیک اسٹوری کی بھی کچھ بیک اسٹوری ہے، اصل میں قصّہ کچھ یوں ہے کہ ہمارے عزیز دوست راشد کامران کی میراتھن سے قبل ازوقت ریٹائرمنٹ کے بعد دیسیوں کے قومی وقار، تناسب اندام اور تندرستی صحت کو برقرار رکھنے کی ذمہ داری ہمارے نازک کندھوں پر آ پڑی۔لیکن اب اس جثے کے ساتھ بھاگنا ایک امر دشوار ٹھرا، تو باتوں باتوں میں ایک دوست عزیزم اسٹیون سانگ سے یہ شرط لگی کہ ستمبر ۱۲’  تک جو شخص ایک سو پینسٹھ پاؤنڈ تک وزن کم کرلے گا۔ وہ گویا یہ روپے پیسے کے بغیر لگنے والی شرط جیتے گا اور ہارنے والا فیس بک پر اپنے اسٹیٹس میں اپنے آپ کو سخت سست قرار دیتے ہوئے دوسرے فریق کی خوب تعریفیں کریگا. نیزشرط کے مندرجات میں مزید یہ بات بھی شامل تھی کہ ہارنے والا یا والے ایک عدد مراتھن دوڑینگے اور اسکا وقت راقم کے لیے پانچ گھنٹے تیس منٹ اور اسٹیون کے لیے چار گھنٹے تیس منٹ کے برابر یا اس کم ہونا چاہیے ۔ اب اگر یہ وقت بھی نہ ہو پایا تو اس نتیجے میں ہارنے والا یا والے، دوسرے فریق کی مرضی کی تین عدد کتابیں پڑھیںگے اور اس پر  تبصرہ کرینگے جو ایمازون پر شائع کرنا لازم ہے. اب اس قدر پیچیدہ شرط کی مندرجات کے بعد ہم نے وزن کم کرنے پر عمل درآمد شروع کیا اور رمضان کی برکت سے ایک سو ستر پاؤنڈ پہ آگۓ، لیکن  ستم گر کو ذرا روا نہ ہوا کہ پانچ پاؤنڈ ادھر یا پانچ پاؤنڈ ادھر کو معاف کیا جاۓ اور مجبورا ہم دونوں کو ہی میراتھن کی رجسٹریشن کرانی پڑی،،  ہمیں ملی بب نمبر ۱۷۰۵۰، اور اسطرح دفتری کاروائ مکمل ہوئ۔

میراتھن کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ فاصلہ دوڑنے والا پہلا شخص ایتھنز کی طرف بھاگا اور منزل مقصود پہنچنے پر پٹ سے گر کر مر گیا۔ لیکن چونکہ ہم نے من الحیث القوم تاریخ سے کچھ نا سیکھا تو یہ تو خیر یونانی کہاوتیں ہیں۔ 

اب باری آئی تیاری کی،یہ تھا ہمارا میراتھن کی تیاری کا جدول۔

 

16-Week Marathon Training Schedule
Week Mon Tue Wed Thu Fri Sat Sun Total
1 3 Rest 4 3 Rest 5 Rest 15
2 3 Rest 4 3 Rest 6 Rest 16
3 3 Rest 4 3 Rest 7 Rest 17
4 3 Rest 5 3 Rest 8 Rest 19
5 3 Rest 5 3 Rest 10 Rest 21
6 4 Rest 5 4 Rest 11 Rest 24
7 4 Rest 6 4 Rest 12 Rest 26
8 4 Rest 6 4 Rest 14 Rest 28
9 4 Rest 7 4 Rest 16 Rest 31
10 5 Rest 8 5 Rest 16 Rest 34
11 5 Rest 8 5 Rest 17 Rest 35
12 5 Rest 8 5 Rest 18 Rest 36
13 5 Rest 8 5 Rest 20 Rest 38
14 5 Rest 8 5 Rest 9 Rest 27
15 3 Rest 5 3 Rest 8 Rest 19
16 3 Rest 3 Walk 2 Rest 26.2 Rest 34.2


لیکن، درحقیقت ہوا یوں کہ  پطرس بخاری کے بقول، پہلا اٹھنا چار بجے، دوسرا اٹھنا چھ بجے اور بیچ میں لالا جی آواز دیں تو نماز، سیانے کہتے ہیں کل وہ جادوئی وقت ہے جب سارے کام بخیرو خودہی ہو جایا کرتے ہیں، ہم بھی اسی کل کا انتظار کرتے رہے،. بہانے بنانے میں ملکہ حاصل ۔ ہر روز، 
بعد از فجر کچھ ایسا ہوتا

آج کچھ سردی و تیز ہوا کا گذر لگتا ہے،

آج بارش جیسا موسم لگتا ہے،

آج موسم کافی سرد معلوم ہوتا ہے،

جوتے تو گاڑی میں رکھے ہیں،

میاں سورج سوا نیزے پر ہے، 

وغیرہ وغیرہ۔۔

یہی کرتے کرتے میراتھن کی صبح آ پہنچی، ویسے تو یہ ہماری تیسری میراتھن تھی لیکن بغیر کسی قسم کی تیاری کے پہلی۔ مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق، ڈاجر اسٹیڈیم پہنچے۔ صبح کا سہانا وقت اور چالیس ہزار لوگوں کا مجمع دیکھا تو کچھ ہمت بندھی کہ ، ہو رہے گا کچھ نا کچھ ، گھبرائیں کیا۔

 

392876_547465325297498_1971927162_n

LA-Marathon

سوا سات بجےکے لگ بھگ سب نے بھاگنا شروع کیا، اب یہ مرد تائوانی تو پچاس پچاس میل یونہی ویک اینڈ پر تفریحا بھاگتا پھرتا ہے، اور ہمارا تو میٹنگ روم سے میٹنگ روم جاتے سانس پھول جاتا ہے، لہذا ہمارا اسکا کیا مقابلہ،

862771_10151349615249212_1526966936_n

تو جناب ہم نے جب آہستہ آہستہ بھاگنا شروع کیا یا یہ کہیں کہ بھاگنے کی اداکاری شروع کی تو  لوگوں کے دھکوں سے خراماں خراماں یہ کہتے ہوے آگے بڑھتے چلے کہ

چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک تیز رو کے ساتھ

پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہ بر کو میں

میل اول –  لوگوں کا سیلاب ہمیں آہستہ آہستہ اپنے ساتھ چلاتا رہا اور ہم چلتے گئے

میل دوئم – رفتار میں کچھ تیری آنے لگی اور ہم گنگنانے لگے کہ – مجھے سہل ہو گئیں منزلیں وہ ہوا کے رُخ بھی بدل گئے

لاس اینجلس میراتھن

 

میل سوئم – بلا تبصرہ مندرجہ زیل پوسٹرز۔

funny-marathon-ten

میل چہارم،  توانائی کی بشاشت کے ساتھ دوڑنا جاری رہا، جگہ جگہ پری وش رضاکار پانی پلانے، اور ہم کہتے ساقیا اور پلا اور پلا.

205386072-M-1

 – میل پنجم –  قدم بڑھاۓ چلو جوانوں کہ منزلیں راہ تک رہی ہیں.مزید پانی کچھہ الیکٹرولائٹ اور کچھہ اہتمام اخراج کا،

لاس اینجلس میراتھن

میل ششم-  اب ہم کچھ ایلیٹ رنرز کی طرف سے تنہائی محسوس کرنے لگے ، اپنے گرد و پیش افراد کی کمیت ہماری کمیت کے قریب تک آ چکی تھی

میل ہفتم – اب دوڑنے کی رفتار آہستہ ہوتے ہوتے محض تیز چلنے پر منتج ہو گئی

sign-5

میل ہشتم –  پانی اور الیکٹرولائٹ کا انتظام ۔ ان دوڑوں کے دوران رضاکاروں کے جھنڈ کے جھنڈ دکھائ دیتے ہیں جن میں اقلیتوں کا بڑا کردار ہوتا ہے۔

پہنچا جو آپ کو تو میں پہنچا خُدا کے تئیں

معلوم اب ہوا کہ بہت میں بھی دور تھا

6857528326_452584af57_z
میل نہم –  یہ نواں میل ہے کے دسواں؟ سراب کی کی کیفیت کی ابتدا اور بھوک لگنا شروع.

میری زندگی میری منزلیں، مجھے قرب میں نہیں دور دے

مجھے تُو دِکھا وہی راستہ، جو سفر کے بعد غرور دے

میل دہم –  اب پٹھوں کا کچھ خاموش اور کچھ زور سے احتجاج،  یعنی جتنا ابھی بھاگ کر آئے ہیں اتنا مزید؟ یہ کیا چکر ہے بھائی..

 

Asics 26miles no gridlock billboard

گیارہواں میل، ہالی وڈ کے گرد و نواح کے علاقے سے دل بہلانے کا شغل کیا

منزلیں دور پُر خطر رستے

مجھ کو لے آئے یہ کدھر رستے

گھر سے نکلا ہوں جستجو میں تری

مجھ کو لے جا ئیں اب جدھر رستے

la-marathon

بارہواں میل – یہاں رکشے کا شعر یاد آنے لگا کہ

 تھک کر مجھ سے پوچھا پاؤں کے چھالوں نے،

کتنی دور بنائی ہے بستی دل میں بسنے والوں نے

تیرھواں میل – خیال آیا کہ آدھی میراتھن ہوتی تو ابھی تک ختم ہو جاتی اور ہم گھر جاتے، وہ کیا کہتا ہے شاعر کہ گر اپنے شہر میں ہوتے تو گھر گئے ہوتے

Asics made of 26 miles billboard



چودھواں میل۔  شرطوں کی تحریم پر اپنے آپ کو کوستے، نیز اب ہم پیدل چلنے والوں سے آملے تھے

پندرھواں میل –  مہ وشوں کی کمی پر زیر لب احتجاج، اب  تھکن سے ہر پٹھے نے احتجاج شروع کر دیا تھا۔

6857528284_1eeb62b5c5_z

سولہواں میل – الٹے  پاؤں میں پڑ جانے والے چھالوں کی کی وجہ سے سیدھے پاؤں پر زور دینے سے ایک لنگڑی سی رفتار کی کوشش جاری رہی..

 سترھواں میل – ارے دس میل مزید؟  بھائی واپسی کی بس کہاں ملے گی

Asics LA Marathon 2013 billboard

اٹھارواں میل –  اب جہاز اور طوطے کا ڈی جے کالج کے زمانے میں سنا لطیفہ یاد آنے لگا،  پھر ہم سوچتے کہ آباء و اجداد بھی تو انڈیا سے آئے تھے اور انھیں کون پانی اور الیکٹرولائٹ پلایا کرتا تھا تو چلو شاید ہو جاۓ یہ سفر کسی نا کسی طرح

انیسواں میل – اب ہمارے جی پی ایس اور بلو ٹوتھ کی بیٹری ختم ہو چکی تھی اور خان صاحب کے راگ تھم گئے تھے

لاس اینجلس میراتھن
بیسواں میل۔ اب رضاکاروں نے کرسیاں سمیٹنا شروع کردی تھیں اور پولیس نے سڑکوں کو کھلوانا شروع کر دیا ہے

marathon-water

اکیسواں میل – ہم جو بھی ہماری ہمّت بڑھاتا ہوا نظر آتا ہم اسی گاڑی سے فنش لائین تک لفٹ لینے کی التماس کرتے

بائیسواں میل – اب حالت یہ تھی کہ کئی بار سوچا کہ پولیس والوں کی سائیکل لے بھاگیں پر ہمّت نہ پڑی

254453447667548365_QP7iFcfP_c

تئیسواں میل –  ہر اجنبی ہمیں محرم دکھائی دیتا ہے،  اب تک ہمیں یقین واثق ہو چلا تھا کہ  اگر مردوں کو درد زہ ہوتا تو وہ میراتھن جیسا ہی ہوتا۔

چوبیسواں میل – سراب  کی کیفیت اب تقریبا مستقل ہو چکی تھی

اللہ کیا ہی منزل مقصود دور ہے

تھم ہوگئے ہیں سوجھ کے مج خستہ تن کے پاؤ

 

پچیسواں میل –  من من بھر کے پاؤں…..جوڑ جوڑ دکھ رہا تھا، ایسے جوڑ بھی جن کی موجودگی کا کبھی علم نا تھا۔  اسٹیون کا خیال ذہن سے نکالتے رہے کہ کہیں ہمیں بھی پطرس کی طرح ایف اے کی وہ کتاب دوبارہ نا پڑھنی پڑے۔

منزلیں دور بھی ہیں منزلیں نزدیک بھی ہیں

اپنے ہی پاؤں میں زنجیر پڑی ہو جیسے

لاس اینجلس میراتھن
چھبیسواں میل –  یہ طوالت میں  سب سے لمبا میل ہوتا ہیں، اگر آپ اسے ناپنے نکلیں تو یہ باقی تمام میلوں سے کم سے کم دگنا تو نکلےگا ہی،

جب ہم اختتامی لکیر یا فنش لائن پر پہنچے تو منتظمین نے ہماری حالت اور وقت دیکھ کر پوچھا

کیا آپ دوڑ کر آرہے ہیں؟

تو ہم نے جل کر کہا نہیں یونہی سیر کرنے نکلے تھے ڈاجر اسٹیڈیم سے سینٹا مونیکا تک،  بس سوچا کہ آپ سے ملاقات کر لیں،  بڑا اشتیاق تھا

یوں قتل سے لوگوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کے فرعون کو مراتھن کی نہ سوجی

اب میڈل لینے کے بعد، فنش لائن سے گھر تک کا فاصلہ کس طرح طے ہوا، یہ کبھی بعد میں بتائینگے،  ابھی تو اتنا ہی کافی ہے کہ اگر آپ کبھی مراتھن دوڑیں تو دو تین  ماہ قبل سے پریکٹس ضرور کر لیجیئے ۔ شکریہ،

861882_10151350628074212_1458462759_n

lam_logo2013_asics 

Share

October 7, 2012

قصہ شہر فرشتگاں کے اردو مشاعرے کا

Filed under: ادبیات,شاعری,طنزومزاح — ابو عزام @ 10:22 pm

اب آغاز قصے کا کرتا ہوں

ذرا کان دھرکو سنو اور منصفی کرو

دو درویش پہنچے مومن لاج پیرزادہ کا ترنم سننے

دیکھا ہمارے وی سی صاحب تو غائب ہیں

شاید کچھ تنظیمی کام آن پڑے ہوں

پرحسیں ہاتھ کے کنگن والے وصی شاہ موجود

سنا کہ موے فرنگیوں نے قاسم صاحب کو ویزا نہ دیا

ہم سوچتے رہے پھرشاہ صاحب کو کیونکر ملا

کہ وہ تو حواس انسانی و اردو ادب کے جرائم کیلئے

ہیگ میں مطلوب ہیں

پھر یکایک راشد بھائ گویا ہوے کہ

تجھے قسم کہ اگر یہاں بیٹھا تو

 تعلق رفتگاں میں ایسی دراڑ پڑے گی کہ۔۔۔

بس پھر الٹے پانوں لوٹ آے


ایک نہائت آزاد نظم بقلم خود

Share

August 10, 2012

دیسی لبرل کا تضاد، ایک خط

Filed under: ادبیات,طنزومزاح — ابو عزام @ 7:43 pm

برادرم ابوعزام

آداب و تسلیمات

آپ کا پچھلا خط ملا، پڑھ کر دل باغ باغ ہوگیا، کیاکہنا ایسی آزادانہ فصاحت و بلاغت کا، قربان جائیے۔ قبلہ پاپوش میں لگائ کرن آفتاب کی، آپ کے علم وہنر  کے تو ہم قتیل ٹھرے، مگر بس یہ بات ہمارے درمیان ہی رہےکہ مسلک ہاے دیسی لبرلیت میں تعقل مستعار کی انفرادیت صرف مغربانہ گردانوں سے ثابت ہوتی ہے، اپنے علما وفضلا و فصحا تحصیل علم و ہنر میں اپنی زندگیاں کھپا بیٹھے، ہم نے کبھی غلطی سے بھی نا سوچا کہ انکے افکار و تشریحات کا مطالعہ کریں، ان کو سمجھے خدا کرے کوئ، تپائ پر کتاب فرقان دھری ہو اور قران کا کا مہینہ گذر جاے پر ہمارے لیے تو بس ڈاکنس کا سہارا کافی ہے باقی تو پی ٹی آی کےجلسے کے شرکا سے ذہنی ہم آہنگی بڑی ضروری ٹھری کہ کیا خوب کہا تاباں نے

یا تنگ نہ کر ناصح ناداں، مجھے اتنا
یا چل کے دکھا دے ، دہن ایسا، کمر ایسی

ارے قبلہ، ایک بات لطیفے کی سنیں۔ حال ہی میں پتا چلا کہ مملکت خداداد میں ایک فرد نے پانی نے گاڑی چلانے کا دعوی کیا۔ ہونا کیا تھا، خوب گھمسان پڑا، سائنسدانوں کو راے زنی کے لئے بلایا گیا اور انہوں نے عرض کی کہ یہ طبعیات کے قوانین کے ٘قطعی مخالف بات ہے، اور توانائ کے تحفظ کا قانون اس  بات کی قطعی اجازت نہیں دیتا۔ ہر ایک نے ان صاحب علم افراد کی باتوں کو غور سے سنا اور تسلیم کیا، کسی اینکر و تبصرہ نگار نے یہ کہنے کی کوشش نا کی کہ جناب عالی، سائنس اور اسکے قوانین  تو یہ ہیں لیکن میں ان سے متفق نہیں۔ میری راے میں حر حرکیات کے پہلے قانون کا ڈیلٹا درحقیقت ڈفرینشیل نہیں، بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ اینٹروپی کا گھٹنا بڑھنا ایک تمثیلی شے ہے، اس کی توجیح یوں کی جا سکتی ہے کہ ۔۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہ تذبذب شائد اس لئے کیونکہ سائنس کے علما، جنہوں نے اس علم میں اپنی عمر لگائ اور ان تمام قوانین کو سمجھا اور اس کے بعد قانون کا اس خاص مسئلے پر اطلاق بتلایا کی راے موجود ہے، اب اس کے خلاف کرنے والا اپنے  آپ کو نکو بنوانے کے سوا کچھ اور حاصل نا کرے گا کہ چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں۔

لیکن حضرت، یہ سن کر آپکو چنداں حیرت نا ہو کہ ہماری جماعت دیسی لبرلین کی دانست میں دین کا معاملہ بلکل اس کے برعکس ہے۔ ہمارا مسلک تو یہ ہے برادرم موجد باب فصاحت، کہ ہر دینی و فقہی مسئلے پر ہر فرد کو، چاہے کتنا ہی کم علم کیوں نا ہو، اظہار راے کی کھلی چھٹی حاصل ہے، روایت و درایت کا کیا لحاظ اور تقدیم و تاخیرکا کیا بھروسہ۔آپ کے پاس ایک عدد آی فون ہونا چاہیے۔ اسلامی حکومت، اخلاقی قدریں، معیشیت و معاشرت سے لے کر علم حدیث،  فقہ اور  منطق تک کے دقیق مسائل پر لبرلی ٹوئٹوں کا انبار لگانا ہو تو ہم گوگلی علم و ہنر کے ہرکارے حاضر ہیں۔ یعنی کہ محترم، آپ اسے تضاد کیوں سمجھے، یہ تو عین حق ہے، کچھ حاسدین اسے دوغلے پن سے تعبیر کرتے ہیں، انکی ذرا نا سنیں، غالب برا نا مان جو واعظ برا کہے، ہنہہ، بھلا بتائیں، ہم تو اسی دعوے سے کہتے ہیں اس کا اگلا مصرعہ ہے کہ  کیا ڈیڑھ چلو پانی میں ایمان بہہ گیا ۔دیسی لبرل گیم بک کا کہنا ہے جب کوئ تہمت منافقت لگاے تو فورا بات فرقہ بندی، مسالک ومذاہب کے اختلافات پر ڈال دی جاے کیونکہ جناب، سب بولئن والے جانتے ہیں کہ دو غلط جمع ہوں تو بات صحیح ہو جاتی ہے۔

سائنس کے قانون پر بات کرنے سے ہر ایک ڈرتا ہے لیکن خدا کے قانون کے لئے ہر ایک کے پاس واثق راے موجود ہے۔

۔خط تو بڑی محبت اور ارادت کا لکھا ہے،  ساتھ ہی ایک حسب حال ‘م‘ بھی منسلک ہے، دیکھیں آپ کا کیا مدعا بنتا ہے

نیازمند

ایک دیسی لبرل

Share

July 9, 2012

قصہ اردو بلاگران کے ساتھ ایک شام کا

Filed under: پاکستان,سفر وسیلہ ظفر,طنزومزاح — ابو عزام @ 12:20 am

ایک عرصہ دراز سے یہ تحریر ڈرافٹ کے خانے میں پڑی تھی تو سوچا اس کو  ملاقات کی سالگرہ سے قبل شائع کردیا جاے۔  تاخیر کی معذرت۔

میر امن نے کیا خوب کہا کہ سچ ہے جب کچھ بن نہیں آتا۔ تب خدا ہی یاد آتا ہے نہیں تو اپنی اپنی تدبیر میں ہر ایک لقمان اور بو علی سینا ہے۔۔ خصوصا ۲۲ نومبر کی شب ایک بجے ناگن چورنگی کے پچھواڑے ایک دیوان عروسی میں جہاں پیر مرد راشد کامران نے یہ مقرّر کیا کہ تبدیلی اوقات کے ساتھ وہ پرسوں سات سمندر کے سفر پر روانہ ہو جاویں گے۔ فقیر بولا قبلہ حاجی صاحب، ایسی بھی کاہے کی جلدی، ٹک دم تو لو، ابھی مکے مدینے اور ابھی شہر فرشتگاں،  تو یکدم بولے کہ جی تو  بہت چاہتا ہے کہ روشنیوں کے شہر میں کچھ وقت اور بتاوں پر ظالم پیٹ ہر ایک کے ساتھ لگا ہے۔ فقیر بولا یہاں مملکت  بلاگستان کے ساتھی تیری جھلک دیکھنے کو ترستے ہیں اور تو بنا درشن کوچ کا قصد کرتا ہے۔ اس دہائ پر یوں گویا ہوے کہا کہ اگر قصد ملاقات احباب ریختہ  کا دل میں مقرر رکھتے ہو تو جلد کچھ ترکیب کرو۔ میں نے کہا اسی وقت میں درویش ابو شامل کے پاس برقی خط بذریعہ چہرہ کتاب لے جاتا ہوں اور خدا چاہے تو پھر جواب لاتا ہوں۔ آخر رخصت ہو کر اور فضل الٰہی پر  نظر رکھ اس سمت کو چلا۔

 اب خدا کے کارخانے کا تماشا سنو۔ ہماری قسمت نے یاوری کی اور درویش ابوشامل نے سبک دستی سے سب انتظام کیا، اوراگلی شام مطعم کراچی فوڈز میں خاطر احباب کا التزام رکھا۔اس درویش مرد کے  سب سے روابط اور یاداللہ کے سبب افکار میں قطبین کے فاصلے کے لوگ حب اردو و تبادلہ خیال کو ایک میز پر جمع ہوے  اور سب ہی مدعی تھے کہ

 گفتگو ریختے میں ہم سے نہ کر
یہ ہماری زبان ہے پیارے

اب اس محفل کا حال نا پوچھو۔ کیا اہل علم جمع تھے۔ ماجرا میں نے بہ چشمِ خود دیکھا اور خدا کی قدرت کو یاد کیا کہ ایسے ایسے بندے پیدا کیئے ہیں۔ کیا ہوا جو سماجی مہارتوں میں ید طولی نہیں رکھتے، پلاو و زردہ و بریانی سے انصاف مگر برابر کا روا رکھتے ہیں۔

برادرم شعیب صفدر اور فہیم اسلم نے نہایت انہماک سے عمار ابن ضیا کی تقریر سنی جس میں انہوں نے جامعہ میں سی آر بننے کے فوائد پر روشنی ڈالی ۔

اسی دوران محمد اسد نیپکن سے طیارہ بنانے کی مشق کرتے رہے۔

درویش نے پیر مرد راشد کامران کاشعیب صفدر سے تعارف کروایا جس میں شعیب صاحب کی روایتی گرمجوشی، برادر فہد کا استفہامیہ اور ہمارا خالی پلیٹ ہونا قابل ذکر ہے

کھانے کے آمد ہوئی تو کچھ دل کو تسلی ہوئی، ابوشامل درویش کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی۔ اسی دوران ہم لوگ اس بات پر گفتگو کر رہے تھے کہ روزا پارکس کے سیٹ نا چھوڑنے کے فیصلے سے محترمہ عنیقہ ناز کے بلاگ پر بلاواسطہ کیا اثرات مرتب ہوے نیز کیا اس زمانے میں شعیب صفدر سول رائٹس کا کیس بلا معاوضہ لڑنے میں دلچسپی رکھتے۔

کھانے کے انتظار کے باعث غیر حالت ہونے پر یہاں یہ ذکر تھا کہ اگر حکم ہو تو شہزادہ عالمیان،  برادرم فہیم اسلم کو باورچی کے پاس لے جاویں، اس کو ایک نظر دکھاویں، امید قوی ہے کہ جلد شفائے کامل ہو۔ اور ظاہر میں بھی یہ تدبیر اچھی ہے کہ ہر ایک مطبخ کی ہوا کھانے سے اور جا بجا کے آب و دانے سے مزاج میں فرحت آتی ہے۔

اور یہ رہی جناب اجتماعی تصویر، جہاں مشرق و مغرب کے اردو سے محبت کرنے والے جمع ہیں

دائیں سے بائیں: راقم ، ابوشامل ، راشد کامران ، عنیقہ ناز ، شعیب صفدر ، فہیم اسلم ، محمد اسد اور عمار ابن ضیا

 نہیں کھیل اے داغ یاروں سے کہہ دو
کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے

Share

April 30, 2012

گریجویٹ اسکول کے طلبہ کی کہانی، ایک فلم کی زبانی

Filed under: طنزومزاح,عمومیات,مشاہدات — ابو عزام @ 8:00 pm

پروفیسر صاحب رحم کریں، اگر میرا پی ایچ ڈی مکمل نہیں ہوا تو میں کیا کروں گا، میرے پاس تو کوئ بیک اپ پلان بھی نہیں
میاں، یہ تو تمہیں کیلٹیک میں داخلے سے قبل سوچنا چاہیے تھا، کسی چھوٹی موٹی یونیورسٹی میں چلے جاتے اگر یہ بات تھی تو، ایم آئ ٹی تھی نا۔

یہ مکالمہ پی ایچ ڈی مووی کا ہے جو پروفیسر اسمتھ اور اسکے شاگرد ونسٹن کے درمیان ہوتا ہے۔ اگر آپ کو تکنیکی کامکس کا شغف ہے تو ڈلبرٹ، ایکس کے سی ڈی اور پی ایچ ڈی کامکس سے ضرور واقفیت ہوگی۔ پی ایچ ڈی کامکس تحقیقی اسکول کے طلبہ کی زندگی پر مبنی واقعات کو طنزیہ انداز میں پیش کرتے ہیں۔پایلڈ ہائ اینڈ ڈیپر کے خالق ہورہے چام*، جو خود اسٹانفرڈ ہونیورسٹی سے میکینکل انجینئرنگ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھتے ہیں ، انہوں نے اس بار کامک سے بڑھ کرتقریبا ۷۰ منٹ کی ایک فلم بنا ڈالی جس کے تمام اداکار طلبہ و طالبات ہیں اور اس کی فلم سازی کالٹیک یونیورسٹی ہی میں کی گئی ہے۔

 

دو گریجویٹ طالبعلموں کی زندگی پر مبنی یہ فلم گریجویٹ اسکول کے تحقیقی کام، پروفیسروں کی بے اعتنائ اور پوسٹ ڈاکس کی زندگی کے گرد گھومتی ہے۔چونکہ راقم کیلٹیک کے آس پڑوس میں وقت گزارنے اور وہاں موجود ستار بخش پر راشد بھائ کے ساتھ گپیں لگانے میں ید طولی رکھتا ہے لہذا ہمیں تو اس کے تمام آوٹ ڈور سیٹس کو دیکھ کر بڑا مزا آیا۔ اس فلم کے مخصوص طرز بیاں اور موضوع کی بنیاد پر شائد عام افراد تو اتنا لطف نا اٹھا سکیں لیکن اگر آپ نے گریجوٹ اسکول یعنی ماسٹرز اور پی  ایچ ڈی میں وقت گذارا ہے تو آپ اس سے بھرپور انداز میں حظ اٹھا سکیں گے۔

*جی ہاں، اسے ہورہے ہی پڑھا جاتا ہے، جورج نہیں۔یہ ہسپانوی زبان کے لفط ج کا تلفظ ہ سے کیا جاتا ہے، جیسے سان ہوزے درست ہے اور سان جوز غلط۔

Share
Older Posts »

Powered by WordPress