فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

April 9, 2012

ڈاکٹر شیلڈن کوپر کا اردو بلاگران کے نام ایک تعارفی خط

Filed under: طنزومزاح,عمومیات — ابو عزام @ 11:36 pm

عزیزاردو بلاگران، ہیلو

آپ کا شائد مجھ سے غائبانہ تعارف ہو کہ مجھے یہ بتایا گیا ہے کہ آپ میں سے بہت میرے فن کے قدردان ہیں۔ چونکہ عاجزی و تواضع سے میں کچھ متصف نہیں لہذا شکریہ وغیرہ کے تکلفات سے بندے کو  یکسرآزاد سمجھیں۔ آپ کو یقینا میری اردو پر حیرت ہورہی ہوگی۔ یہ دراصل میرے کوانٹم الگارتھم اور گوگل ترجمہ گھر کا امتزاج ہے جو ابھی یو ایس سی کے ہیرہ کمپیوٹر پر پروٹوٹایپ کے طور پر چلایا جارہا ہے۔ آپ کی مجھ سے غائبانہ آشنائ غالبا میری زندگی پر بننے والی سیریز بگ بینگ تھیوری سے ہوئ ہوگی جس میں میرے تین عدد دوستوں لینرڈ ہافسٹیڈر پی ایچ ڈی، راجیش کوتراپالی پی ایچ ڈی اور ہاورڈ ولوٹز محض ماسٹرز, اور میری سماجی و نجی زندگی کی ریکارڈنگ کی جاتی ہے۔ لوگ اس سے خاصہ حظ اٹھاتے ہیں، نامعلوم کیوں؟ ہماری زندگی کیلٹیک یونیورسٹی میں ہماری تحقیق اور کامک بک اسٹور کی تفریح کے گرد گھومتی ہے۔

۔ اس خط کو لکھنے کی ترغیب عدنان مسعود نامی ایک بلاگر نے اس نسبت سے دلوائ کہ وہ بھی میرے، رچرڈ فائنمن اور آئنسٹائن کے شہر پاساڈینا کے باسی رہے ہیں۔ان بلاگر صاحب کے حق میں حق ہمسائگی کہیں یا رحم دلی کیونکہ صرف ماسٹرز کئے ہوے لوگوں کی درخواست پر تو میں ریسٹورانٹ کا بل بھی نہیں سائن کرتا، آپ ہارورڈ سے پوچھ لیں کیونکہ اسکے پاس بھی صرف ماسٹرز کی ڈگری ہے، بے چارہ۔ مجھے یہ بتایا گیا تھا کہ یہاں اردو بلاگستان میں بھی میری طرح خود پسند و بزعم خود دانا افراد کا ہجوم ہے۔ کچھ لوگوں کو تو گمنام تبصرے پڑھ کر میرے چبھتے ہوے فقرے یاد آجاتے ہیں جن کے لکھنے والوں کو پیار سے ٹرول کہا جاتا ہے، بہرحال آپکو میری اسِٹیون ہاکنگ سے ملاقات تو پسند آئ ہوگی، معذرت کے میں ہگس بوسون زرے کے مقالے میں ریاضی کی غلطی پر بے ہوش ہو گیا۔

بزنگا۔۔۔ معذرت، ہاہا، یہ اچھا مزاق ہے۔

اچھا اب اجازت،

ڈاکٹر شیلڈن کوپر،بی ایس، ایم ایس، ایم اے، پی ایچ ڈی، ایس سی ڈی، آی کیو ۱۸۷۔ سائنسدان ماہر نظریاتی طبیعیات

Share

March 16, 2012

کاش کہیں سے تھوڑی عقل مل جاتی

Filed under: پاکستان,خبریں,سیاست,طنزومزاح — ابو عزام @ 3:00 am

تو اوریا مقبول جان صاحب کا بڑا بھلا ہوجاتا۔

ایک تو احباب نے ان سوڈو انٹیلیکچولز کے لنک بھیج بھیج کر ناک میں دم کر رکھا ہے اوربندہ مروت میں یہ بھی نہیں کہ سکتا کہ بھائ، ایسی بے پرکی تو ہم نے مظہر کلیم سے بھی نا سنی، آپ کو ذرا احساس تو ہونا چاہیے کہ یہ نادان دوست ہم اصحاب میمنہ کو کس قدر مضحکہ خیز دفاعی پوزیشن میں لا کھڑا کرتے ہیں؟ تحقیق سے ان کو کوئ واسطہ ہو نا ہوکہ ہر ایک کو اپنی راے کا حق ہے لیکن بقول شخصے، اپنے حقائق کا نہیں۔ کم از کم ڈالڈا ملاتے ہوے کچھ تو خیال کریں کہ اس تکنیکی دور میں انکی اس بے سروپا باتوں کو جھٹلانا اور جھوٹے کو گھر تک چھوڑ کر آنا کس قدر آسان ہے۔

تو محترم کا یہ کالم ایک برقی ڈاک میں ملا۔  مزاح  پڑھ کر طبعیت باغ باغ ہو گئ کہ یہ دفاعی میکینزم ہے۔ اگر خون جلانا شروع کریں تو قومی اخبار ختم ہونے سے پہلے بلند فشار خون کی بنا پر جان جان آفرین کے سپرد ہوجائے۔اب اسکا پہلا پیراگراف پڑھیں اورمندرجہ ذیل ویڈیو دیکھ لیں، پھر بتائیں کہ یہ سلیمانی ٹوپی پہنے ہوئے پلسی کہاں چھپے ہیں جنہوں نے بقول جان صاحب کے “اسے دھکیل کر پیچھے کر دیا”؟

Marlon Brando’s Oscar® win for ” The Godfather” by WhiteWolf-Cree

اب اس مضحکہ خیز کالم کا دوسرا پیراگراف پڑھیں اور سر پیٹیں۔ جان صاحب، اگر تھوڑی سی تحقیق کر لیتے تو نو اینڈ ان سایٹ، عراق فار سیل، عراق ان  فریگمنٹس، ریتھنک افغانستان، انسائڈ گواتنامو، انسائڈ عراق،  اینڈ آف امریکہ، بش وار، رولز آف انگیجمنٹ، انڈیپینڈنٹ انٹروینشن, فارن ہایٹ نائن الیون اور اس جیسی بیسیوں ڈاکومنٹریز مل جاتیں جن پر عراق و افغانستان میں ہونے والے مظالم پر روشنی ڈالی گئی ہے اورامریکی جارحیت پر کھل  کر تنقید کی گئ ہے۔ سب چھوڑیں، ٹیکسی ٹو دی ڈارک سائڈ جیسی رلا دینے والی دستاویزی فلم جو عراق افغانستان و گوانتناموبے میں امریکی مظالم سے کو بے نقاب کرتی ہے ۲۰۰۷ میں آسکر ملا۔ آپ کو پینٹاگان پیپرز بھی کسی قطار و شمار میں نظر نا آتی ہوگی کہ حقیقت سے آپکی تحاریر کا موضع بھی نہیں ملتا۔ آپ کو ایوارڈ یافتہ و نامزد ڈاکومنٹریز میں یقینا وار گیم، اینڈرسن پلاٹون،بروکن رینبو،  ہیل فائر جرنی فرام ہیروشیما، ہو کلڈ ونسنٹ چن  ، فور لٹل گرلز بھی نظر نا آئ ہونگی۔ بس اب مزید کچھ کہنے سننے کی سکت کہاں بس اتنا کہتا چلوں کہ اگر آپ کو محترمہ شرمین عبید کا ایورڈ لینا پسند  نہیں تو نا سہی، حالات و واقعات میں دروغ گوئ سے کام لیے بغیر بھی یہ مدعا آرام سے بیان کیا جا سکتا ہے۔ نیز شرمین عبید کو یہ ایوارڈ ایک امریکی ڈائریکٹر ڈینیل ینگی کے ساتھ ملا ہے، مارلن برانڈو کی طرح ان کی تن تنہا اداکاری پر نہیں، اب بے چارے ینگی کا کیا قصور جان صاحب کہ وہ بھی ایوارڈ کو ٹھوکر مار دے۔آپ کی دروغ گوئ پر ہمارا تو کچھ ایسا ہی عالم ہے کہ

حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو مَیں

مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو مَیں


Share

March 15, 2012

برٹانیکا اب ہم میں نہیں رہے

Filed under: خبریں,طنزومزاح,کتابیات — ابو عزام @ 11:53 am

 ہاے برقی کتاب، تیرا برا ہو کہ تو نے ہم سے ایک ۲۴۴ سالہ ہمدم دیرینہ، انسائکلوپیڈیا برٹانیکا چھین لیا۔ اب بتا کہ پطرس کے انجام بخیر پر کنڈل کا تکیہ لگایا جاے گا؟ ہم تو بس اس نثر کو  روتے ہیں کہ اس دور عدو کتب ہاے ورق میں اسکا کیا مماثل ہو۔

پطرس۔۔ حضرات اندر تشریف لے آئیے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ میرے پاس صرف ایک کرسی ہے۔ لیکن جاہ و حشمت کا خیال بہت پوچ خیال ہے۔ علم بڑی نعمت ہے، لہذا اے میرے فرزندو، اس انبار سے چند ضخیم کتابیں انتخاب کرلو اور ان کو ایک دوسرے کے اوپر چُن کر ان پر بیٹھ جاؤ۔ علم ہی تم لوگوں کا اوڑھنا اور علم ہی تم لوگوں کا بچھونا ہونا چاہیئے۔

کمرے میں ایک پر اسرار سا نور چھا جاتا ہے۔ فرشتوں کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ سنائی دیتی ہے

Share

March 11, 2012

اپنے حصے کے بے وقوف

Filed under: طنزومزاح,مشاہدات — ابو عزام @ 9:58 pm

ہر قوم کو اپنے حصے کے بیوقوفوں کا کوٹہ ضرور ملتا ہے، یہ دنیا کی تکنیکی طور پر سب سے زیادہ ترقی یافتہ قوم کے لوگ ہیں، ملاحظہ کریں۔

Share

March 10, 2012

جینٹلمین بسمہ اللہ از اشفاق حسین

Filed under: ادبیات,طنزومزاح,کتابیات — ابو عزام @ 8:54 pm

مزاح کے عہد یوسفی میں رہنے اور یوسفی پڑھ لینے کے بعد اکثر یہ بیماری لاحق ہو جاتی ہے کہ ایرے غیرے کسی مزاح نگار کو خاطر میں لانے کا قطعی دل نہیں چاہتا اور وہ بھی ایک سابق فوجی کو، بھلا فوج اور مزاح کا کیا ربط۔ لیکن  جینٹلمین بسمہ اللہ از اشفاق حسین اگر ادب کا کوئ شاہکار نہیں تو کوئ ایسی بری کتاب بھی نہیں۔ پاپ کورن فلم کی طرح اسے پاپ کورن کتاب قرار دیا جاسکتا ہے۔ہم نے اپنے کئ دوستوں کو آی ایس ایس بی کی امید میں جس لگن سے تیاری کرتے دیکھا، اکر وہ یہ کتاب پڑھ لیتے توشائد نتائج مختلف ہوتے۔

تو کچھ ایسا ہوا کہ ۵۲ ہفتوں میں ۵۲ کتابوں کے عہد میں ہم نے دو چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں کر لیں۔ ایک تو یہ کہ فصوص الحکم کو ایک ہفتے کے بجائے ابھی تک پڑھ رہے ہیں کہ یہ متن کا تقاضہ ہے نیز کیرن ٓآرمسٹرانگ کی کتاب کی جگہ ہم نے فائنمین کی کتاب اور اگاتھا کرسٹی کی جگہ جینٹلمین بسم اللہ پڑھ لی۔  جینٹلمین بسم اللہ چھوٹی سی کتاب ہے اور روانی سے جلد ہی پڑھی جاسکتی ہے۔ آدھی کتاب بعد از عشا ختم کی اور پھر فجر کے بعد ناشتے سے پہلے بقایا، لہذا اگر نیند کا وقفہ نکال دیں تو ایک نشست میں ختم کی جا سکتی ہے۔

تقریبا دو سو صفحات کی اس کتاب کو کرنل اشفاق حسین کی ابتدای فوجی سوانح  عمری قرار دیا جا سکتا ہے۔  یہ کتاب کوی ادبی شاہکار نہیں اور نا ہی اس میں مزاح کی کوی  ندرت خیال کا عنصر شامل ہے۔ جینٹلمین بسمہ اللہ میں سولہ عدد مضامین شامل ہیں جن کے نام بالترتیب باعث تحریرآنکہ،  پہلی ملاقات۔ بورڈ یاترا، آغاز سفر… انجام تمنّا، ذائقوں کا ورثہ، گردش وقت یہاں آن کر تھم جاتی ہے، لہو گرم رکھنے کے سو سو بہانے، آنچل کے سایوں سے پیڑوں کی چھاؤں تک ،دل مردہ دل نہیں ہے ،جنٹلمین!بسم الله!!، آداب فلم بینی، معمولات کیڈٹ، یہ تھے ہمارے اساتذہ کرام، دکھوں کے ساجھی، ہوا بردوش، اڑنے نہ پائے تھے کہ اور  تھینک یو! الله میاں ہیں۔

کتاب کی جلد پر اشفاق حسین صاحب کا تعارف کچھ یوں ہے کہ انکا تعلق لاہور سے ہے. پنجاب یونیورسٹی سے صحافت اور انگریزی ادب میں ایم اے کرنے کے علاوہ وہ انٹرنیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجیز  سے عربی میں ایڈوانس لیول انٹر پریٹر شپ کے ڈپلومہ ہولڈر ہیں. تقریباً ۲۹ سال پاک فوج سے وابستہ رہے اور مختلف حیثیتوں میں، مختلف فارمیشنز اور آئی ایس پی آر میں تعینات رہے. کالج آف آرمی ایجوکیشن، اپرٹوپہ اور ملٹری کالج جہلم میں تدریسی فرائض انجام دینے کے علاوہ وہ سعودی عرب میں بطور مترجم بھی تعینات رہے. ٢٠٠٢ء میں انٹر پبلک ریلیشنز کے ڈپٹی ڈائریکٹر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے. جناب والا سات عدد کتابیں لکھ چکے ہیں. جن میں طنزومزاح کی شگفتہ کتابیں،جنٹلمین بسم اللہ جنٹلمین الحمدالله، جنٹلمین الله الله اور جنٹلمین سبحان الله شامل ہیں. ان کی کتابوں کے اب تک پینسٹھ سے زائد ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ آئی ایس  پی آر میں رہتے ہوئے، انہوں نے فوج کے لئے مختلف دستاویزی فلمیں اور فوجی زندگی پر ڈرامے تیار کئے. اٹلی میں ہر سال ہونے والی مسلح افواج کی دستاویزی فلموں کی نمائش میں ان کی تین دستاویزی فلموں کو بین الاقوامی انعامات سے نوازا گیا. میجر شبّیر شریف شہید پر ان کی کتاب “فاتح سبونہ” پر مبنی طویل دورانیے کا ایک کھیل پروڈکشن کے آخری مراحل میں ہے.

اس کتاب کا ایک اقتباس مندرجہ زیل ہے۔

دل مردہ دل نہیں ہے …..

دوسرے روز اکیڈمی پہنچے. بسوں سے اتر کر ہمارا ارادہ سیدھا کمروں کی جانب جانے کا تھا.لیکن بسوں کو گھیر رکھا تھا انسٹرکروں نے. نیچے اترتے ہی انہوں نے ہمیں فالن کیا اور لیفٹ رائٹ لیفٹ رائٹ کراتے ہوئے سیدھا ڈرل سکیئر میں لے گئے. تمام سامان پشت پر لدا ہوا تھا. تھکن سے ہم لڑکھڑائے جاتے تھے لیکن اسٹاف تھے کہ چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھاۓ ہوئے تھے”صاب بازو پورا ہلائیں” “گھٹنا بیلٹ لیول تک اٹھائیں”. ہم حیران ہو کر کبھی اپنے بازوؤں کو دیکھتے اور کبھی پریشن ہو کر صوبیدار میجر کی طرف ک ڈرل کروانے کا نشہ یہ کسی اور وقت پورا نہیں کر سکتے؟ خدا خدا کر کے ڈرل سے جن چھوٹی لیکن کمروں میں جانے کی اجازت اب بھی نہیں تھی.حکم لگا کہ پہلے رائفلوں کی صفائی ہوگی. فوجی کی زندگی میں اس بات کو ایمان کا درجہ حاصل ہے کہ وہ خود کتنا ہی خستہ کیوں نہ ہو اس کا ہتھیار ہر وقت تروتازہ رہنا چاہیے. رائفلوں کی صفائی کر کے کمروں میں پہنچے تو ہمیں بستروں سے دور رکھنے کا ایک اور بہانہ بتایا گیا. یہ دلچسپ بھی تھا اور کامیاب بھی.

سینئروں نے بتایا کہ پرموک مشق کے اختتام کی روایت ہے کہ تمام سینئر کیڈٹ چند گھنٹوں کے لیے خود کو جونیئر قرار دیتے ہیں اور جونیئر کیڈٹوں کو اختیار ہوتا ہے کہ ان سے جو چاہیں سلوک کریں.اعلان کیا گیا کہ تمام سینئر کیڈٹ شام سات بجے تک جونیئر رہیں گے. یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح تمام جونیئر کیڈٹوں میں پھیل گئی.بس پھر کیا تھا کسی کو یاد نہ رہا کہ گزشتہ پانچ دنوں کی صحرا نوروی نے پیروں میں ابلے ڈال رکھے ہیں نیندیں حرام ہونے سے آنکھیں غبار آلودہ ہیں. بستر کو مسکن بنایا جاۓ.بس ایک ہی دھن سوار تھی کہ اس مختصر سی مہلت میں سینئر کیڈٹوں کو ہر اس سلوک سے نواز دیا جاۓ جو انہوں نے ہم پر روا رکھا تھا.

ایک کمپنی کا کیڈٹ سی ایس ایم(کمپنی سارجنٹ میجر) ہاتھ آگیا. موصوف کمپنی میں ڈسپلن قائم رکھنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں. ظاہر ہے بلحاظ عہدہ ان کی زبان میں تھوڑی سی ترشی ضروری ہے. اور آنکھ میں سرخ ڈوروں کا ہونا معمولی بات. لیکن یہاں معاملہ یہ نہیں تھا کہ وہ اپنی حرکتوں میں حق بجانب تھے یا نہیں ‘ان کا قصور یہ تھا کہ وہ ان سینئروں میں شامل تھے جنھیں آج جوںیئر قرار دے دیا گیا تھا. کسی کو یاد نہ رہا کہ چند گھنٹوں بعد انہیں پھر سی ایس ایم کے روپ میں آجانا ہے.

جونیئر کیڈٹوں نے درزی کے تعاون سے کچھ رنگین کپڑے ادھار منگواۓ. سی ایس ایم کو پہناۓ گۓ. رخساروں پر غازہ’ ہونٹوں پر سرخی اور آنکھوں میں کاجل اتارا گیا.اور پھر آنکھوں پر عینکیں چڑھا انہیں کمپنی میں گھمایا گیا. اس سری تیاری کے دوران ایک شور تھا کہ کانوں کے پردے پھاڑ ڈالتا تھا. جونیئرکیڈٹ امڈے چلے آتے تھے.کوئی اس “نازنین” کے آٹوگراف لینے کو ٹوٹا پڑتا تھا، کوئی اس سے شام کی کسی حسین ساعت میں مونا لیزا ریسٹورنٹ میں ملنے کا وعدہ لینے پر بضد تھا. کوئی اس کے لیے “جھانجھراں” منگا دینے کو تیار تھا بشرطیکہ وہ “ہاں” کر لے اور کوئی اس کے مربعوں پر منشی ہو جانے کو زندگی کی آخری خواہش قرار دے رہا تھا. بیچاری دوشیزہ ٹکر ٹکر کبھی اس مضطرب کو دیکھتی جو چیخ چیخ کر اپنی وفاؤں کا یقین دلا رہا تھا تو کبھی اس مرغ بسمل کو’ کہ اس کے قدموں میں لوٹا جاتا تھا اور پکار پکار کر کہتا تھا…

 اکیلے نہ جانا’ ہمیں چور کر تم

 تمہارے بنا ہم’ بھلا کیا جئیں گے

باقی سینئر کیڈٹوں کے حلیے تو بدلتے رہے لیکن سی ایس ایم کی دوشیزگی کو آخر وقت تک برقرار رکھا گیا.

Share

February 24, 2012

کولیٹز کنجیکچر، ابن عربی اور وحدت الوجود

Filed under: ادبیات,تحقیق,طنزومزاح — ابو عزام @ 1:09 am

مطالعہ کتب ہاے مقالہ جات و فصوص الحکم از ابن عربی و متحرک الگارتھمز کی روز و شب تفکیر سے درج زیل تھیورم عدم سے وجود میں آیا ۔ شائد ادراک محاورہ جات اہل تصوف و حسابی تکنیکی استعداد کے بغیر استفادہ ممکن نا ہو۔

اس امر کلی موجود خارجی کا وجود ترتیب اثر میں محتاج ہے اور  موجود خارجی امر کلی کا تعقل و فہم میں محتاج ہے۔ اسی بنا پراسرار خودی میں پیہم ہے کہ دوی کے مماثل  کو بریدہ علی النصف کرو

f(n) = n/2

 اور تثلیث پر اضافہ واحد کہ یہ ممتنع بالذات و ممکن بالذات بنا اور یہی اس کا اقتضا ہے

f(n) = 3n + 1

 اب ہر شے کا ٹھکانا عددی برتری سے سوا وحدت یکتا ہی ہے کہ ہر عدد کا مقصود و مطلوب واحد

۱

۱

۲

۲, ۱

۳

۳, ۵, ۸, ۴, ۲, ۱

۴

۴, ۲, ۱

۵

۵, ۸, ۴, ۲, ۱

۶

۶, ۳, ۵, ۸, ۴, ۲, ۱

۷

۷, ۱۱, ۱۷, ۲۶, ۱۳, ۲۰, ۱۰, ۵, ۸, ۴, ۲, ۱
فقیر عدد بڑھا اور ترتیب اعیان میں ظہور دیکھ،

۱۳ -> ۴۰ -> ۲۰ -> ۱۰ -> ۵ -> ۱۶ -> ۸ -> ۴ -> ۲ -> ۱

تیری بساط کیا ہے کہ موجودات خارجہ سے ذوات واعمان خارجیہ ہیں، واحد ہی واحد ہے۔

 ۶, ۳, ۱۰, ۵, ۱۶, ۸, ۴, ۲, ۱.

۱۱, ۳۴, ۱۷, ۵۲, ۲۶, ۱۳, ۴۰, ۲۰, ۱۰, ۵, ۱۶, ۸, ۴, ۲, ۱

اس کلیے میں میں نے صرف ان حکمتوں پر اقتصار و انحصار کیا ہے جو فصوص علمیہ و یادگیری مشین و واستخراج البيانات پر مبنی و محدود و متعین ہیں۔ جو مقدر تھا اس کی بجاآوری کی اور جو حد معین تھی وہیں ٹہر گیا۔ اگر میں اثبات قضیه  چاہتا بھی تو اس کی استطاعت و طاقت نہ ہوتی کیونکہ اس وقت عالم کا اقتضا مانع ہوتا ہے۔

Share

February 16, 2012

زمین ساکن ہے

Filed under: تحقیق,طنزومزاح,مذہب,مشاہدات — ابو عزام @ 5:30 am

جہلِ خرد نے دن يہ دکھائے

گھٹ گئے انساں، بڑھ گئے سائے

آداب و اصول مباحثت میں استدلال و منطق تو خیرجزو اعظم ٹھرا، لیکن کچھ خیال علم و ہنرکا بھی ہو تو نورعلی نور۔ اگلے روز سیارہ جات فلک کے طفیل اتصال کردہ   انٹرنیٹ پر زمین کے ساکن ہونے کا مژدہ پڑا، طبعیت باغ باغ ہوگئ ۔ فلیٹ ارتھ سوسایٹی کا ایک ممبر تو پی ایچ ڈی میں ہمارا ہم جماعت بھی ہے لیکن وہ کچھ ازراہ تفنن کا  سا معاملہ ہے۔یہاں تو بات ایمانیات و اعتقدانہ بزرگانہ پر ہے کہ سائینس ان کے گھر کی لونڈی اور علوم ریاضی و طبعیات میں انہیں وہ ملکہ حاصل ہے کہ گویا نیوٹن انہی کی  سقہ کشی کے تلمذ سےباعث رشک عالم ٹھرا۔ زمین اگر گھوم رہی ہے تو ہم اسے محسوس کیوں نہیں کرتے اور اگر گول ہے تو نیچے والے لوگ اس کے کنارے سے گر کیوں نہیں جاتے، اس قدر جاندار دلائل ہیں کہ تمام علم انسانی، فلاسفہ، منطق، طبعیات و ریاضیات مل کر بھی اسکا جواب نہیں دے سکتے۔

یادش بخیر کہ راقم جماعت نہم کا طالبعلم تھا کہ جب ماہر طبعیات و نیوکلیات ڈاکٹر التمش کمال سے تعلق فیض و تلمیذ ہوا۔ ان کے طفیل مصنوعی ذہانت کے ابواب سے لے کر مرکز گریز و مرکز مائل قوتوں کی وجہ سے مصنوعی سیارچوں کے مدار میں رہنے کے مختلف موضوعات پرسائنسی دلائل و مشاہدات سے ابتدائ واقفیت ہوئ ، خصوصا اس جیولئر کہ جس کی بدولت یہ اجرام اس  فلک میں تیر رہے ہیں خاصی دلچسپی کا باٰعث بنی۔ یہ ۱۹۹۲-۹۳ کی بات ہے جب ۲۴۰۰ باڈ کے موڈم ہوا کرتے تھے اور معلومات وکیپیڈیا کے بجائے برٹانیکا سے لی جاتی تھیں، اس دور میں ایم آی ٹی کے نیوکلیائ فزسسٹ سے جو تشکیک و سائنیسی طریقہ سیکھا وہ درس زیست ہے۔ بہرحال اسی دور میں زیر تبصرہ کتابچے کا بھی مطالعہ کیا تھا، پڑھا کہ حرکت یومیہ حرکت شمس سے ہے نہ کہ حرکت زمین سے اور یہ بھی ک ہرمسلمان پر فرض ہے کہ حرکت شمس و سکون زمین پر ایمان لائے۔ نہ نص میں اسکا کوئ حامی ملا کہ  کُلّ فِیْ فَلَکٍ یَّسْبَحُوْنَ نا علم حدیث میں، اصول درایت پر جو پورا اترا اسے قبول کیا اور باقی رد۔ لیکن آج یہ تذکرہ عبث دیکھ کر رہا نا گیا کہ ضرور قلم اٹھایا جاے اور بشارتوں کے شور میں کوئ تو کہے کہ برادرم، اکیسویں صدی میں اسطرح کی باتیں کرنا اپنا مضحکہ اڑوانا ہے، لیکن لگتا ہے کہ یہ کوشش عبث ہوگی کہ جو لوگ یہ باتیں کرتے ہیں انہیں اپنی یا مسلم امہ کے عزت و وقار کی کیا فکر، انہیں تو مطلب ہے فرقہ و گروہ بندی سے، علمی روایتوں کے تغیر و تذلل سے اور حدث و جاہلیت سے۔

ہمیں تو سیدھی سے بات ہے لبرلوں پر رحم آتا ہے کہ ان کے لیے پنڈولم دوسری طرف لے جانے کی نوبت شاید باشعور و تعلیم یافتہ مذہبی طبقے کی وجہ سے نا آئ ہوگی بلکہ اس کا مژدہ تو ضرور زمین کے سکون نے سنایا ہوگا۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ انسان میں خدا کی محبت بچانے کے لئے یہ تہمت اٹھانا ضروری ہو گیا توایسا لگتا ہے کہ شاید زمین کا سکون ہی ان تمام فکری جنجہلاہٹوں کا صریر خامہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان اغلاط پر ایمان ضروریات دین میں سے ہے؟ اور کیا ان کے غلط تسلیم کرنے سے فاضل مولوی کی شان میں کوئ فرق آے گا؟ کہ جب شارع صلی اللہ علیہ وسلم نے انتم اعلم باموررادنیا کم فرما دیا تو اب ہما شما کا تذکرہ ہی کیا۔ لیکن وہ بالک ہٹ  ہی کیا کہ امام کی اغلاط حصہ دین نا ہوجایئں اور یک جنبش قلم سے وہ ماہر طبعیات و کیمیا و فلیکیات و حسابیات نا ہوجاویں کہ علم لدنی کا شمار سے کیا تعلق۔ آج شب  کچھ گلیلیو و کوپرنیکس کا غلبہ ہے، غم تو یہ ہے کہ نص کے عدم رد کے باوجود نادان دوست کلیسا کی پیروی کرنے پر تلے ہیں۔

رات دن گردش میں ہیں سات آسماں

ہو رہے گا کچھ نا کچھ گھبرایں کیا

Share

January 13, 2012

اے کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگوز از محمد حنیف کا مختصر تعارف

Filed under: ادبیات,پاکستان,سیاست,طنزومزاح — ابو عزام @ 6:32 pm

کل شب کافی عرصے بعد انگریزی کی ایک نان فکشن کتاب کے دو سو کے قریب صفحات ایک نشست میں ختم کیے، باقی اس سے قبل پورے ہفتےمیں مختلف مواقع میں پڑھ چکا تھا، غالبا اس سے پہلے لایف آف پای ہی ایسی نان فکشن کتاب تھی جس کے انداز بیاں نے توجہ کو اس قدر مرکوز رکھا اور صفحہ در صفحہ کس طرح گذرا پتا نہیں چلا۔ راشد بھای سے یہ کتاب کچھ ماہ پہلے مستعار لی تھی، شروع کی لیکن دو ابواب کے بعد کچھ سفر کی مصروفیتوں کی بنا پر ختم نا کر سکا۔ اب دوبارہ اٹھای تو سوچا کہ ختم کر کے ہی چھوڑوں گا۔ محمد حنیف کی اے کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگوز اپنے متنازع موضوع اور معترضانہ مواد کے باوجود یا شاید اسی وجہ سے ایک دلچسپ ناول ہے جو ۸۰ کی دہائ کی پاکستانی سیاست، فوج اور دور آمریت کے سماجی رجحانات پر ایک طنزیہ و تمسخرانہ نظر ڈالتا ہے۔

دو ہزار نو میں شائع ہونے والے اس ناول ’اے کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگوز‘ کے مصنف، ڈرامہ نگار اور صحافی محمد حنیف کو کامن ویلتھ رائٹرز کا انعام مل چکا ہے اور اگر وہ اپنی اسی طرح کی صف شکن تحاریر لکھتے رہے تو مین بکر پرایز کی لانگ لسٹ سے شارٹ لسٹ ہونے میں کچھ زیادہ وقت نا لگے گا۔ اس ناول کا مرکزی خیال آمریت اور اس کے خمیر سے اٹھنے ہونے والی وہ مضحکہ خیزعبودیت و اضطرار کی ملی جلی کیفیت ہے جو انسانی دماغ میں فوج کے حکومتی نظام سے پروان چڑھتی ہوتی ہے۔ راقم کا اپنا تجربہ ہے کہ جب سانحہ بہاولپور ہوا تو سن آٹھ برس کا تھا لیکن اس عمر میں بھی یہ خیال کہ ضیا الحق کے علاوہ کوئی اور بھی صدر مملکت ہو سکتا ہے ایک نہایت  عجیب و ناممکن بات لگتی تھی۔ غیرجماعتی انتخابات کے اعلان پر بھی ہم بڑے عرصے تک اسی وجہ سے خفا رہے رہے کہ ہماری دانست میں یہ وہ انتخابات تھے جن میں جماعت اسلامی کے سوا سب جماعتوں کو حصہ لینے کی آزادی تھی۔ اس سے آپ ہماری سیاسی بالیدگی کا اندازہ لگا سکتے ہیں لیکن یہ تو جملہ ہاے معترضہ ہیں، چلیے تبصرے کی جانب۔

محمد حنیف کے پڑھنے والے جانتے ہیں کہ ان کے نزدیک کوئی چیز بھی تنقید و تمسخر سے ماورا نہیں۔ دی کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگوز میں بھی یہی سب وشتم بدرجہ اتم موجود ہے۔ جنرل ضیا کی آنکھوں سے لیکرانکے غدودان معدہ تک،پاکستان کی اسلامایزشن کا الزام ہو یا جرنیلوں کی میٹنگ، بیگم شفیق جہاں ضیا الحق کا بیڈروم ہو یا حدود آرڈینینس کی شرائط، ان کا خامہ بے محابہ ایک شتر بے مہارکی طرح تمام حدود قیود سے آزاد اپنے مناظر اور کردار قرطاس پر بکھیرتا چلا جاتا ہے۔ حنیف صاحب کے کردار یک جہتی اور مناظر پر انکی گرفت قوی ہے۔اپنے کرداروں کے پس منظر سے پیش منظر تک کا تعارف وہ اسطرح کرواتے ہیں کہ ایک تشنگی سی باقی رہتی ہے اور یہی اسرار کا باعث بنتی ہے۔ ان کے کرداروں کا کینوس خاصہ بڑا ہے لیکن وہ سب کے ساتھ انصاف کرتے نظر آتے ہیں۔ امریکی سفیرآرنلڈ رافیل، سی آی اے کے چارلس کوگن، اسلم بیگ، بن لادن، کیانی، برگیڈیر ٹی ایم، جنرل اختر عبدالرحمان پر مبنی کردار ہوں یا بے بی او اور علی شگری کے فسانوی کردار، انکا قلم چابکدستی سے ان زندگیوں اور واقعات کو اس طرح سے جوڑتا ہے کہ قاری عش عش کر اٹھتا ہے۔

محمد حنیف نے خود تو اس کتاب کو ایک انٹرویو میں فکشن قرار دیا تھا لیکن بیشتر کیچ ٹوینٹی ٹو اور جارج آرویل کی طرز کے ‘فکشنات’ کی طرح انہوں نے اپنی کہانی کے تانے بانے حقیقی واقعات سے کچھ اس طرح جوڑے ہیں کہ پڑھنے والا حقیقیت و فسانے کے درمیان ایک خلا میں معلق رہتا ہے اور آہستہ آہستہ فسانہ فسانہ نہیں رہتابلکہ حقیقت کا روپ دھار لیتا ہے۔محمد حنیف کے افکارونظریات سے اختلاف تو بلکل ہوسکتا ہے لیکن ان کی ندرت خیال کی تعریف نا کرنا ناانصافی ہوگی۔ اندھی زینب کی بددعاوں سے لے کر کوے کی غیر قانونی پرواز ، شاہی قلعے کے سیکرٹری جنرل قیدی اور حرم کے قاضی کو کی جانے والی فون کال تک ان کے قلم کا نشتر ایسے زخم ادھیڑتا ہے کہ جو پاکستانی سیاسی و سماجی تناظر میں شجر ممنوعہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ میں اس ناول کی کہانی نہیں بیان کروں گا، بس اتنا کہتا چلوں گا کہ بقول مصنف انکا پہلا ناول ایک سیاسی تھرلر ہے اور یہ بات صد فیصد درست ہے۔

نازک طبع لوگوں کے لیے لیکن انتباہ ہے، غالب گمان ہمارا یہ ہے کہ یہ کتاب اور اس میں استعمال کی گی زبان و استعارات و مضامین طبعیت پر گراں گذرے گی۔ فحاشی کی تعریف میں تفرق ہو سکتا ہے لیکن مشتزنی سے لواطت اور راشد بھای کے الفاظ میں اعضاے بقاے نسل انسانی بلا شمار مستعمل ہیں لہذا احتیاط لازم اور جس کو ہو جان و دل عزیز اسکی گلی میں جاے کیوں۔

بی بی سی کی خبر ہے کہ اپنے پہلے ناول پر پیدا ہونے والے ردِ عمل کے بارے میں محمد حنیف نے بتایا تھا کہ ’اور کسی نے تو کوئی خاص ردِ عمل ظاہر نہیں کیا لیکن ایک صاحب نے انہیں مرکزی کردار (جنرل ضیا) کے بیٹے کا یہ پیغام پہنچایا کے ’میرے والد زندہ ہوتے تو پھر میں دیکھتا کہ وہ (حنیف) یہ ناول کیسے لکھتا‘۔
اس تبصرے کے اختتام حنیف صاحب کے کردار کورپورل لسارڈ کا یہ تاریخی جملہ نقل کرتا چلوں جو اس نے صوبیدار میجر کے اس استفسار پرکہ “یہ جو ہاٹ ڈاگ تم ہمارے لیے اتنے چاو سے لاے ہو، وہ حلال ہے کہ نہیں” کہا تھا،

it is a piece of f******* meat in a piece of f******* bread. If we can’t agree on that, what the hell am I doing here?”

اب محمد حنیف کی اگلی کتاب، آور لیڈی آف ایلس بھٹی کو پڑھنا ہے۔ اب یہاں معاملہ اس بار کچھ یوں ہے کہ کتاب ہماری ہے اور قبضہ راشد بھائی کا ہے۔ دیکھیں وہ کب عنایت کرتے ہیں۔

Share

January 10, 2012

دیسی لبرل کا المیہ – ایک خط

Filed under: طنزومزاح,مذہب — ابو عزام @ 9:57 pm

برادرم ابوعزام
آداب و تسلیمات

امید ہے مزاج بخیر ہونگے۔ آج سوچا کہ کچھ حال دل لکھوں، کچھ فگار انگلیوں کی بات ہو اور کچھ خامہ خونچکاں کی۔ آج سہ پہر سے وہ کیفیت وارد ہےجس پر علامہ نے خوب فرمایا

!یقیں مثلِ خلیلؑ آتش نشینی
!یقیں اللہ مستی، خود گزینی
سُن اے تہذیبِ حاضر کے گرفتار
!غلامی سے بتر ہے بے یقینی

بس بھائی، تو مدعا و المیہ ہمارا یہی ٹھرا کہ تشکیک و ارتیاب کے بحران میں گرفتار، ہم گروہ اذھان ناپختہ کار ہیں۔ حق ہدایت نصیب کرے ورنہ تعقل پراگندہ اور افکار مغرب کی کاسہ لیسی سے عبارت۔ ایک بنیادی منطقی مغالطے کا شکار کہ جس کو لسانا دین کہتے ہیں اس کے قواعد و ضوابط، اس کے رب کی ربوبیت اور شارع کی حتمیت پر آمنا و صدقنا نہیں کہتے، اتنی اخلاقی جرات بھی نہیں پاتے کہ صاف علیہدہ ہوکر من الحیث الطالب وجود خداوندی کی دلیل طلب کریں اور رسول کی صداقت کو درایت کی کسوٹی پر پرکھنے کی سعی کریں۔ خدا لگتی کہیں تو چڑھتے سورج کی پرستش سے یہ عادت بھی واثق ہوئی کہ جیسے ستر کی دہائی میں اسٹالن کے اساطیر گنجہائے گرانمایہ معلوم ہوتے تھے، آج تعقل مستعار کے اس غلامانہ خلا کو مغربی الحادانہ افکار و زندقہ نے پر کیا ہے۔

علم حقیقی و معلومات میں باعث تفرق کیا ہے، اس کے ادراک سے بے بہرہ ہونے کے سبب ہمیشہ علوم دینیہ کو “دیر از این ایپ فار دیٹ” کے انداز فکر سے پرکھا، قران میں تلاش ممکن ہوئی تو جس مصحف کو برسوں نا چھوا تھا بیٹھے بٹھائےاس کے عالم بن گئے اور جب صحیین کی “ایپ” ملی تو شیخ الحدیث کا مرتبہ پایا۔ مغربی دانشکدوں کی افادیت سے تو مفر ممکن نہیں لیکن چونکہ کسی خردمند کا بالاستیعاب مطالعہ شامل نہ تھا لہذا تفکر کے منڈلاتے سائے، ضیا حرم نا پا کر آسیب ِالحاد میں تبدیل ہو چلے۔

تراکیب ترکی و تیزی سے ناآشنا ہم خود کو البیرونی و ابن الرشد و ابن عربی کے رشحات فکر کا تسلسل گردانتے ہیں لیکن تم سے حقیقت حال کیا چھپانا، ہماری محدود صلاحیت ہنر تو بس اینگلز و ڈاکنس کی سوچ کا پرتو ہے۔ ویسے بھی ماحول کچھ ایسا سازگار ہے کہ فی زمانہ “انٹیلیکچول” ہونے کے لئے منکر شریعت و شرافت ہونا ایک امر لازم ٹھرا۔ گویا کہ افکار میں بائیں جانب جھکاو اور افعال پر از معائب نا ہوں تو ذہنی استدراک کے مدارج کو انڈر گریجویٹ ہی گردانا جاتا ہے۔ اگر “آرگنائزڈ ریلیجن” کے ذکر پر لال رومال دیکھنے والے بیل کی طرح نا ڈکرائیں تو ٹوئٹر مفکرین آئی کیو سو سے نیچے ہونے کا گمان کرتے ہیں۔

بہرطور، یہ تو کچھ بیان حال دل تھا، کھول کر تمہارے سامنے رکھ دیا۔ لیکن میاں خیال رکھنا، ہم تو یہ کہے دیتے ہیں لیکن اگر تم سے زرا بھی کوئی پندونصائح وارد ہوئے تو چرب زبانی و بذلہ سنجی و لطیفہ گوئی کی آڑ میں تمہاری وہ ہنسی اڑائیں گے کہ تمہیں ہماری حکائت زباں کے پیچھےچھپنے کی زرا بھی جگہ بھی نا ملے گئ۔ اور اگر زیادہ مدلل ہوئے تو غیر عرفی سوچ و معترضانہ تفکر کے قتل کا ذمہ دار قرار دے کر وہ مجلس عزا گرم کریں کہ بھاگتے ہی بنے گی۔ زرا آزما کر تو دیکھو۔

دعاوں کا طلبگار
ایک دیسی لبرل

Share

September 11, 2011

یہودی سازشیں اور قانون مسعودی

Filed under: طنزومزاح — ابو عزام @ 10:55 pm

انٹرنیٹ کے تبصروں کے لئے گوڈون کا قانون ایک دلچسپ مشاہدے پر مبنی ہے۔ اس فکاہیہ قانون کی رو سے جیسے جیسے کسی بھی موضوع پر تبصروں کا حجم طویل ہوتا جاتا ہے، ویسے ویسے اس بات کا امکان بڑھتا جائے گا کہ صاحب تبصرہ ، صاحب مضمون کو یا کسی تبصرہ نگار کو ہٹلر یا نازیوں سے ممثل کردیں گے(اس کی پرابلیٹی ایک کے قریب ہوتی جاتی ہے)۔

اس قانون کی ایک کورلری یہ ہے کہ ایسا کرنے والا صارف گوڈون قانون کی رو سے اپنی بحث خود بخود ہار جائے گا چونکہ اسکا مشاہدہ نازی تمثیل پر مبنی ہے نا کہ کسی دلیل پر۔ اس طرح آپ کسی بحث کے دوران منطقی استدلال کو قائم رکھ سکتے ہیں۔ جہاں کسی نے نازی تمثیل قائم کی اور وہاں آپ نے گوڈون کا قانون استعمال کرتے ہوئے اپنی فتح کا اعلان کردیا۔

اسی سے متاثر ہو کر ہم نے اردو بلاگستان کے لئے ایک قانون بنام قانون مسعودی جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس قانون کی رو سے کسی بھی بحث میں اگر مدعا ‘یہودی سازش’ پر رکھا جائے گا تو ہو عدم دلیل کی بنا پر بحث کے ابطال کا باعث ہوگا اور مخالف کی خودبخود جیت کا باعث قرار دیا جائے گا۔ یہ قانون اس بحث کی دیگر حالتوں مثلا ‘صیہونی سازشوں’ پر بھی لاگو ہوگا۔

مجھے امید ہے کہ اردو بلاگستان اتنا بالغ النظر ہے کہ اس مضمون کی ظرافت کو جانتے ہوئے قانون مسعودی کو مستعمل کرا نے کہ لئے  بھرپور سعی کرئے گا۔

Share
« Newer PostsOlder Posts »

Powered by WordPress