فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

January 28, 2011

بارے مستعار لی گئ کتابوں کا بیان – ایک مختصر فکاہیہ

Filed under: ادبیات,طنزومزاح — ابو عزام @ 9:00 pm

ہمارئے جامعہ کے ایک عزیز دوست ہر سوال اسی طرح شروع کیا کرتے تھے مثلا ایک دن پوچھنے لگے، تو کیا کہتے ہیں علمائے دین شرح متین بیچ مستعار لی گئی کتابوں کے مسئلے کے؟

جوابا عرض کی کہ قبلہ، ہمیں ان پاکیزہ ہستیوں کی رائے کا تو چنداں علم نہیں لیکن ہماری ناقص رائے سراسر اس مشہور مقولے پر مبنی ہے جس کے مطابق کتاب دینے والا بے وقوف اور لے کر واپس کرنے والا اس سے بڑا بے وقوف۔ یوسفی نے بھی منٹوانہ لہجے میں اس کی تصدیق کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ‘کتاب خوبصورت بیوی کی طرح ہوتی ہے – دور سے کھڑے کھڑے داد دینے کے لئے، بغل میں دبا کر لے جانے کے لئے نہیں’ لیکن چونکہ آجکل آیکنوکلاسٹ ہونا تہذیب پسندی کی دلیل ٹہری، تو ان مقولہ جات کو بزبان فرنگ نمک کی چٹکی کے ساتھ لیا جائے۔

خیر، بات یہ ہو رہی تھی کہ ہمارئے تمام دوست کتابیں مستعار دینے کے بارئے میں‌بڑے سخی واقع ہوئے ہیں، انہوں نے خود کبھی یہ بات نہیں کہی لیکن چونکہ بزرگ خاموشی کو نیم رضامندی قرار دیتے ہیں، ان ‘ڈیمسلز ان ڈسٹریس’ پر تہمت سخاوت مہجور ہے۔ کچھ حاسد اسے لوگوں کی فطری شرافت سے فائدہ اٹھانا بھی کہتے ہیں لیکن کراچی کے بیلٹ بکس کی طرح گمان غالب ہے کہ یہ تعداد اسٹیٹسٹکلی سگنیفکنٹ نہیں۔ اب برادرم بن یامین کو ہی دیکھیے، ان کے گھر ہم نے اپاچی لوسین کی دو عدد کاپیاں دیکھیں تو جھٹ مواخات کا تقاضہ یاد دلایا، اگلے ہفتے کتاب ڈاک سے وصول پائی۔ مرد اوقیانوسی کی یہی مثال بار بار برادرم راشد کامران کو دئے کر ان سے کتابیں مستعار لیتے ہیں۔ غالب گمان ہے کہ اسی وجہ سے وہ اب برقی کتب کے بڑے مداح ہوتے چلے ہیں۔

موئی برقی کتب، یہ بھی بڑی بلا ہے اور دور جدید کے فتنوں میں سے ایک فتنہ۔ اب کنڈل یا آئی پیڈ پر کوئی بھلا کیسے بتا سکتا ہے کہ بھلا آپ پارک کی بینچ پر بیٹھے ہکل بیری فن پڑھ رہے ہیں یا وصی شاہ کے الفاظ کا ملغوبہ، نسیم حجازی کی تاریخ دانی کے ڈالڈے پر سر دھن رہے ہیں یامیر کے آہو رم خوردہ کی وحشت سامانی پر تحقیق کا حق ادا کر رہے ہیں۔ بھلے زمانوں میں تو کتاب کی ضخامت اور جلد سے آدمی کے کردار اور چال چلن کا اندازہ لگا لیا جاتا تھا کہ حضرت کس قماش کے ہیں۔ میر امن کے مداح ہیں یا رجب علی سرور کی بناوٹی نثر کے اسیر۔نیک بیبیاں ‘پاکیزہ’ چھپا چھپا کر پڑھتی تھیں، اوروں کا کیا کہنا ہم نے خود سب رنگ ہاورڈ اینٹن کی کیلکلس اینڈ انالیٹکل جیومٹری میں چھپا کر پڑھے ہیں شائد اسی وجہ سے انٹیگرل نکالتے ہوئے ہمیں ہمیشہ الیاس سیتا پوری کی یاد آجاتی ہے۔ بہرحال اب اس ‘آئ دور’ میں عوام الناس کو یہ بتانے کے لئے کہ ہم کیا پڑھ رہے ہیں بلاوجہ زور زور سے کہنا پڑتا ہے کہ ‘ ارے میاں شیکسپیر ، تم کس قدر مزاحیہ ہو اتنا نا ہنسایا کرو ، ہا ہا ہا’ ۔

کتابیں چوری کرنا سخت بری بات ہے۔ کتاب کبھی چوری نہیں کرنی چاہئے، ہمیشہ مانگ کر پڑھنی چاہیے۔ کاپی رائٹ کی خلاف ورزی بھی چوری ہی ہے جو بڑی بری بات ہے۔ راشد بھائی تو کاپی رائٹ کے اسقدر کٹر حامی ہیں کہ کبھی کسی بل بورڈ ، رکشے یا بس پر بھی کوئی طویل عبارت پڑھ لیں تو کنڈیکٹر سے آی ایس بی این پوچھنا ضروری سمجھتے ہیں کہ ایمیزن سے خرید کر عنداللہ ماجوز ہوں ۔ یہ اور بات ہے کہ اس استفسار پر کنڈیکٹر انہیں جن الفاظ سے نوازتا ہے وہ یا تو کھوکھر صاحب کی تحریر میں مل سکتے ہیں یا محترمہ ناز کے مضمون پر کئے گئے تبصرہ جات کی چاشنی میں۔

چلیں اب اجازت، باہر لائبرری والے آئے ہیں جن کا اصرار ہے کہ یا تو میں مستعار لی گئی کتابیں واپس کروں یا پھر وہ غریب خانے کو سب لائبرری کا درجہ دیتے ہوئے اس پر بورڈ لگا دیں۔ آپ قارئین کا کیا خیال ہے؟

Share

July 10, 2010

مجھے میرے بلاگر دوستوں سے بچاو

Filed under: ادبیات,طنزومزاح — ابو عزام @ 12:55 am

جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے، یہ مضمون بلاشبہ پطرس و یوسفی کی زمین میں لکھا گیا ہے لہذا اس کی تمام  ارضی و سرقی خصوصیات محض اتفاقی نہیں ہیں اور نا ہی تمام کردارو واقعات مکمل طور پر فرضی ہیں،کسی بھی قسم کی اتفاقی مماثلت پر ادارہ مکمل طورپرذمہ دارہوگا۔

پچھلے زمانوں کے شاعر لوگ تو بلاوجہ بدنام تھے کہ ہر آنے جانے والے کو اپنا تازہ کلام سنانے کی کوشش کرنے کی بے جا تہمت اٹھاتے تھے، سچ پوچھیں تو آج کے اردو بلاگران اس معاملے میں کسی سے پیچھے نہیں۔ اب تو چرغ نیلوفری کی گردشوں نے برقی رابطوں کی ایسی زنجیر باندھ دی ہے کہ ادھر پکسلز کی سیاہی خشک نا ہوئی اور ادھر تبصرے کی طلب؛ چاروناچار بستر مرگ پر بھی ایک صاحب کو ٹویٹ کا جواب دیتے دیکھا اور لواحقین کو قلق ہونے لگا کہ سنبھالا نا ہو۔
بہرحال اسی زمن میں ہم نے اپنے دیرینہ دوست راشد کامران سے تذکرہ کیا کہ ہر بڑے ادیب و مزاح نگار کا ایک مرزا نامی دوست  ضرور ہوتا ہے، اور ہم اپنی بلاگیات کو نیویارک ٹایمزکے صفحہ اول پر نا پانے کا سبب اس بات کو گردانتے ہیں کہ ہمارا کوئی ہمدم دیرینہ با اسمِ مرزا نہیں۔ انہوں نے دبے لفظوں میں فنی خرابیوں اور معیار تحریرکی اہمیت پر کچھ کہنا چاہا ہی تھا کے  ہم نے انہیں بپتسمے کی خوشخبری سناتے ہوئے بتایا کہ آج سے بلاگستان میں وہ ہمارے گمشدہ دوست ‘مرزا’ کے نام سے جانے پہچانے جایئں گے۔ (ہوشیار باش۔ اشتہار شور و غوغا –  منادی کی جاتی ہے کہ ہماری تحریروں میں مرزا کی جو شدید کمی محسوس کی جارہی تھی وہ تمام ہوتی ہے)۔ یہ تو خیر جملہ معترضہ تھا بات ہو رہی تھی اردو بلاگران دوستوں کی، خدا جھوٹ‌ نا بلواے، اردو بلاگران سے دوستی کو جب تک  لمبے لمبےتبصروں کے خون سے نا سینچا جائے وہ پروان نہیں چڑھتی۔ اب مرزا کو ہی لے لیں، ادھر تحریر لکھی نہیں ادھر اشاروں کنائوں میں تبصروں کی فرمائش شروع ۔ آر ایس ایس، ای میل اور چہرہ کتاب پر تشہیرکے بعد طبعیت معلوم کرنے کے بہانے فون کرکے فرمانے لگے، تمہارا انٹرنیٹ تو چل رہا ہے نا؟ یہ ٹایم وارنر والے نہیایت واہیات لوگ ہیں، میں نے سوچا کہ ذرا خیریت پوچھ لوں، صبح سے تمہارا آی پی نہیں نظر آیا، نا اینالیٹکس پر کوئی سرگرمی، کہیں دشمنوں کی طبعیت ناساز تو نہیں؟ ساتھ ہی دبے الفاظ میں دھمکی بھی دے دیں گے کہ ‘ اگرکہو تو کل کی ورلڈ کپ کے فاینل پر ناشتے کی دعوت کینسل کر دیتے ہیں’۔ اب یہ بھی کوئ شرافت ہے بھلا۔ بزبان پطرس ‘خدا کی قسم فرنگی بلاگران میں وہ شائستگی دیکھی ہے کہ عش عش کرتے لوٹ آئے ہیں۔ جوں ہی ان کی پوسٹ شایع ہوئ، گوگل آر ایس ایس نے کھڑے کھڑے ہی ایک ہلکی سی “ٹنگ” کردی ۔ ہم مصروف ہو گئے تو دو چاردن بعد اس نے بھی ایک نازک اور پاکیزہ آواز میں یاد دلادی – یاددہانی کی یاددہانی، تہذیب کی تہذیب۔ ہمارے بلاگر ہیں کہ راگ نہ سُر۔ نہ سر نہ پیر۔ تان پہ تان لگائے جاتے ہیں، بےتالے کہیں کے نہ موقع دیکھتے ہیں، نہ وقت پہچانتے ہیں، گل بازی کيے جاتے ہیں۔ گھمنڈ اس بات پر ہے کہ وہب جلوی اسی ملک میں تو پیدا ہوا تھا’۔
گفت وشنید میں کوئی بھی مضمون ہو، کوئی محفل، ملاقات، اور داستاں انکے بلاگ کے تذکرے کے بغیر مکمل نہیں۔ ایک سے زائد جمع ہو جائیں تو کیا کہنے۔ پچھلےدنوں ایک جنازے کا ذکر ہے، مرزا کے ساتھ بیٹھے تھے کہ وہ تغیر میں آ کر کہنے لگے حال کی کیفیت ہے، بلاگ اتر رہا ہے۔ ہم نے سوچا کہ شائد مرحوم کو ممدوح بنانے کا نیک ارادہ ہے ورنہ انکی احتیاط کا یہ عالم ہے کہ جب تک چہلم نا ہوجائے مردے کے بارے میں کوئ اچھی بات نہیں کہتے۔ لہذا ڈرتے ڈرتے پوچھا، مرزا کس بارے میں ہے کچھ بتاو تو سہی، کہنے لگے ہمارا صریر خامہ ١٤.٤ باڈ کا موڈم ہے ۔ ابھی تو صرف ٹیگس اترے ہیں، کچھ بات واضع نہیں ہو رہی۔
موقع پر شریک پہلا درویش گویا ہوا ۔ ‘آپ نے مایکل پالن کو پڑھا، جدید کھانوں میں غذائیت پر۔۔۔’
مرزا۔ ‘بلکل بلکل، کل ہی اپنے آی پیڈ پر پڑھ رھا تھا۔ کیا غضب لکھتا ہے اور خصوصا آی پیڈ پرپڑھیں تو اوربھی اچھا لکھتا ہے، تحریر کی خوبیاں کھل کر سامنے آجاتی ہیں۔ میں نے اسی بات کا تذکرہ اپنے بلاگ پر اپنے پچھلے مضمون میں کیا تھا .۔۔’۔
اللہ کا بندہ دوسرا درویش- ‘کیا بات ہے جناب، اس پر مجھے اپنی جنوری کی بلاگ پوسٹ پر کیا جانے والا باتمیزتبصرہ یاد آگیا. ویسے یہ سب تو ولائت والے بھائی کی کرامات ہیں، جلنے والوں کا منہ کالا۔ ویسے کوئی کچھ بھی کہے ہم تو حقوق نسواں کے بڑے علمبردار ہیں, جگت بھائی…’
اسی اثنا میں مولانا نے میت کی مغفرت کے لئے دعا شروع کی تو ان کی گفتگودرمیان میں رہ گئی ۔ بعد ازاں‌ ان گناہگار کانوں نے مرزا نے قبرستان میں وائ فائ کی عدم موجودگی کو صاحب لحد کی محرومی اور اس پرایک بلاگ داغنےکی قسم کھاتے سنا۔
بات تبصروں کی ہو رہی تھی۔ مرزا کے علاوہ بھی ہمارے بلاگر دوست ہیں جو اس معاملے میں خاصے شدت پسند واقع ہوئے ہیں۔ برادر ابوکامل کو مرزا داہنے بازو کا بلاگر گردانتے ہیں لیکن محترم عتیق شاز کا کہنا ہے کہ الٹا سیدھا سب کاربن کا مایا جال ہے۔ چاہے لوگ اسے دائیں بازو کی انتہا پسندی کہتے رہیں لیکن مرزا کے بقول ابوکامل کا کہنا ہے کہ انکے بلاگ پر جانتے بوجھتے تبصرہ نا کرنے والے کو احتیاطا نکاح دوبارہ پڑھوالینا چاہیے۔ اسی طرح  اگر آپ شریف مصدر صاحب کے بلاگرانہ لطیفوں پر تحریری قہقہ نا لگائیں تو وہ مرنے مارنے پر تل آنے ہیں اور یاور گوہر کو آپکی ذات کے بارے میں جھوٹی خبریں دینے کی دھمکی دے ڈالتے ہیں جو کہ ہر شریف آدمی کہ لئے ایک لمحہ فکریہ ہے کیونکہ یاور گوہر کے بلاگ سے اگر حروف مغلظات نکال دیئے جائیں توصرف ہیڈراورفٹر باقی رہ جاتا ہے۔ باقی ایک اورمقابل بلاگر صاحب کے بارے میں مرزا کو یہ کہتے سنا ہے کہ تیشے بغیر مر نا سکا کوہکن اسد، اگر زرا انتظار کر لیتا تو میں تیشہ لے کر آ رہا تھا۔
بابائے بلاگران کے نام سے جانے جاتے ہمارے دوست ارتفاق امجد سرتال بھی اس معاملے میں کچھ پیچھے نہیں- مرزا کا کہنا کہ کہ سرتال صاحب کی مستقل رہائش صیغہ ماضی میں ہے۔ دروغ برگردن قاری، اس زمن میں سرتال صاحب یہ کہتے بھی پاے گئے ہیں کہ بقول یوسفی”یادش بخیر کی بھی ایک ہی رہی، اپنا تو عقیدہ ہے کہ جسے ماضی یاد نہیں آتا اس کی زندگی میں شائد کبھی کچھ ہوا ہی نا ہو لیکن چو اپنے ماضی کو یاد ہی نہیں کرنا چاھتا وہ یقینا لوفر رہا ہوگا’۔ یہ کہ کر انہوں نے ہماری طرف ایک معنی خیز نظر ڈالی اور دوبارہ یادش بخیر ڈزلڈوف کے مرغزاروں کی سیر کو نکل گئے جہاں شیر اور بکری ایک گھاٹ پر بیوی اور شوہر کی لڑائوں کا بگ برادر براڈکاسٹ دیکھنے آیا کرتے تھے جس کی سرگذشت ہم آج بھی ان کے بلاگ پر پڑھتے ہیں اور سر دھنتے ہیں، مرزا کا۔
پچھلے دنوں مرزاکے گھر کھانے پر جانا ہوا تو وہ کچھ اکھڑے اکھڑے سے ملے۔ پوچھا کیا حال ہے تو کہنے لگے کہ ‘ارےمیاں دعوتیں تم یہاں اڑاتے ہو اور تبصرے کسی اور کے بلاگ پر۔ ہمارے لئے دو لفظی تبصرہ اور دوسروں کے لئے تبصروں میں‌ پورا پورا بلاگ؟، آخری دعوت کی مرغی کی ٹانگیں تو حلال کی ہوتیں جو تم بلا ڈکار ہضم کر گئے’۔ ہم نےمودبانہ عرض کی کہ مرزا،’ تبصرے کی لمبائی تو کچھ موضوع مضمون پر منحصر ہے اور وہ تو پھر ایوارڈ یافتہ بلاگ ہے’ ۔ اس جواب پر بڑے جزبز ہوےاور ہمارے ہاتھ سے رکابی کھینچتے ہوے بولے کہ ‘اس بریانی کی مقدار کا بھی بلکل یہی عالم ہے۔ جاو جاکراپنے ایوارڈی عزیز ابوکامل کے ساتھ جا بیٹھو’۔ ہم نے بات سنبھالتے ہوے کہا کہ ‘ارے مرزا، آپ تو بلا وجہ ناراض ہوتے ہیں، کل یہ ایوارڈ آپکے پاس تھا، آج کسی اور کے پاس ہے تو کل پھر آجائے گا، آپکا بلاگ تو لاکھوں میں ایک ہے۔ ہم تو مبتدی ہیں، سوچتے ہیں کہ کہیں ہمارے تبصروں سے لوگوں کو ایسا نا لگے کہ اگر آپ کا مضمون ہماری سمجھ میں آگیا تو ضرور سطحی ہوگا’۔ یہ سن کر انکا غصہ کچھ ٹھنڈا ہوا۔  اپنی رومانوی زبان بہاری میں گویا ہوئے کہ صبح سے موا انٹرنیٹوا خاصا سست ہے، زرا راوٹر کو ہلانا کہ کہیں کوئی تبصرہ پھنسا ہوا نا ہو۔
کچھ عرصے سے ہم  جب بھی مرزا سے تحریر کی معنویت و گہرائ پر داد طلبی کا قصد کرتے ہیںوہ توکہنے لگتے ہیں کہ نیند نا آنے کی تشخیص کی صورت میں معالج آجکل تمہارے بلاگ کا مطالعہ تجویز کر رہے ہیں۔ راقم کی طبیعت یہ سن کر کچھ مردہ سی ہوگئی ہے لہذا اب ان تمام تجربوں کے بعد اب ہم نے بھی تہیہ کر لیا ہے کہ ایسے تمام طوطاچشم بلاگر دوستوں سے دور رہیں گے جو ہم سے فقط تبصروں کے لئے دوستیاں گانٹھتے ہیں اوراس برقی مایا جال سے دور سکون کی زندگی گذاریں گے  ۔اب اپنی ہر نئی بلاگ پوسٹ کے بعد تبصروں کی ائی میل کے لئے اپنی کالی بیری کو راہ محبوب کی طرح تکنے کے بجاے صرف ہر دس منٹ بعد دیکھا کریں‌ گے نیز ہوسٹنگ کمپنی کو ہر گھنٹے کال کر کر سروس کی کارکردگی اور اپ ٹایم بتانے پر مجبور نہیں کریں گے۔ آپ دیکھیں تو سہی،

Share

June 17, 2010

حساب سود و زیاں

Filed under: ادبیات,طنزومزاح — ابو عزام @ 7:27 am
میں یہ ثابت کرنے کی کوشش نہیں‌ کر رہا کہ اگر سن پیدائش یاد رکھنے کا رواج بیک گردش چرخ نیلوفری اٹھ جائے تو بال سفید ہونا بند ہو جائیں گے۔ یا اگر کیلنڈر ایجاد نہ ہوا ہوتا تو کسی کے دانت نا گرتے۔ تاہم اس میں کلام نہیں کہ جس شخص نے بھی ناقابل تقسیم رواں دواں وقت کو پہلی بار سیکنڈ، سال۔ اور صدی میں تقسیم کیا، اس نے انسان کو صحیح معنوں میں پیری اور موت کا زائقہ چکھایا۔ وقت کو انسان جتنی بار تقسیم کرے گا، زندگی کی رفتار اتنی تیز اور نتیجتہ موت  اتنی ہی قریب ہوتی چلی جاے گی۔ اب جب کہ زندگی اپنے آپ کو کافی کے چمچوں اور گھڑی کی ٹک ٹک سے ناپتی ہے، تہذیب یافتہ انسان اس لوٹ کر نا آنے والے نیم روشن عہد کی ظرف پیچھے مڑ مڑ کر دیکھتا ہے جب وہ وقت کا شمار دل کی دھڑکنوں سے کرتا تھا اور عروس نو رات ڈھلنے کا اندازہ کانوں کے موتیوں کے ٹھنڈے ہونے اور ستاروں کے  جھلملانے سے لگاتی تھی
نہ گھڑے ہے واں نہ گھنٹہ    نہ شمار  وقت و ساعت
مگر اے چمکنے والو!     ہو تمہیں انہیں سجھاتے
کہ گئی ہے رات کتنی
از مشتاق احمد یوسفی، چراغ تلے ‘سنہ’
Share

April 27, 2010

اردو زبان میں گالیوں کے ارتقا کا مختصر تنقیدی جائزہ

Filed under: ادبیات,طنزومزاح — ابو عزام @ 9:56 pm

راقم کا یہ مضمون ‘فیروزالمغلظات’ کے پہلے ایڈیشن میں چھپنے کے کے لئے تیار ہے۔ آپ قارئین سے تنقید و تبصرے کی گذارش ہے۔

اتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب

گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا

ہر زبان میں گالیاں ایک منفرد نثری و گفتنی حیثیت کی حامل ہوتی ہیں۔ کسی کے اہل زبان ہونے کا پتا لگانا ہو تو ان کی گالیوں کا موازنہ کریں ، وہیں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ تارکین وطن کی گالیاں ان کے اپنے ملک میں عہد قیام کی نشانی ہوتی ہیں۔ سیانے کہتے ہیں کہ کسی زبان کو سیکھنا ہو تو اسکے لئے سب سے پہلے اس کی گالیاں سیکھنی چاھئیں۔ اس سیانے نے یہ بات ایک گالی دیتے ہوئے کہی۔

گالیاں دینے کے بھی آداب ہوتے ہیں کہ واقعہ مشہور ہے جو جامعہ کراچی میں ہمارے اردو کے استاد محترم سناتے تھے کہ مرزا نوشہ اسد اللہ خان غالب کے مخالف انہیں‌ خطوط میں‌ گالیاں لکھتے رہتے تھے۔ ایک بار کسی مخالف نے انہیں ماں‌ کی گالی لکھ دی۔ مرزا اسے پڑھ کر ہنسے اور بولے، اس بیوقوف کو گالی دینے کا بھی شعور نہیں ہے۔ بوڑھے اور ادھیڑ عمر شخص کو بیٹی کی گالی دینی چاہئیے تاکہ اسے غیرت آئے۔ جوان آدمی کو ہمیشہ جورو کی گالی دو کہ اسے جورو سے بہت لگاؤ ہوتا ہے اور بچے کوہمیشہ ماں‌ کی گالی دیتے ہیں کیونکہ وہ سب سے زیادہ ماں سے مانوس ہوتا ہے۔

غالب کو گالیوں سے خاص لگاو تھا؛ اکثر بول چال میں اس کا التزام رکھتے تھے۔ قبلہ راشد بھائی اس زمن میں فرماتے ہیں، نقل کفر کفر نا باشد کہ “خداوند نے انگریزی زبان گالیاں دینے کے لیئے بنائی ہے”۔ کہ اردو زبان کی گالی دل پر جا لگتی ہے اور انگریزی میں دی گئی گالی کو ہنسی خوشی مذاق ہی مذاق میں ٹالا جا سکتا ہے۔

ہم اس قبیل سے تعلق رکھتے ہیں جہاں گالیاں دینا سخت معیوب سمجھا جاتا تھا۔ ہماری سب سے بڑی گالی ‘چغد’ یا ‘بھینس کا منہ’ ہوا کرتی تھی جس پر بہت ڈانٹ سننے کوملتی۔ پطرس مرحوم نے اپنے مضمون ‘میں ایک میاں ہوں’ میں ہماری کیفیت سے اتفاق کیا ہے جس پر ہم انکے بڑے ممنون ہیں۔

گالی کا تہذیب یا بدتہذیبی سے بڑا گہرا تعلق ہوتا ہے۔ ذخیرہ الفاظ کیطرح یہ بھی ایک زبان کے زندہ ہونے کی نشانی ہوتی ہیں مثلا اربن ڈکشنری کو ہی لیجئے۔ راقم کاماننا ہے کہ اردو کی گالیاں فاعل و مفعول کے بغیر لا معنی ہوتی ہیں الا یہ کہ یہ امور وضاحت طلب نہ ہوں۔ انگریزی زبان کی بہت سی زود زبان گالیاں اردو میں بلا فاعل بے معنی ہو کر رہ جاتی ہیں مثلا انگریزی کی ‘ف’ کی گالی اردو میں سراسر بے معنی ہے۔ اسی طرح محرمات کی گالی جو اردو کی گالیوں کی بنیادی اصطلاحات میں سے ہے انگریزی زبان میں نہایت بودی ٹھرے گی ۔ اسی طرح انگریزی کی’ش’ والی گالی اردو میں بچوں کی مخلوط محفل کے رد میں استعمال ہونے والی چڑ،  یا حیدرآبادی زبان میں نکمے آدمی کے لئے استعمال ہونے والا لفظ بنے گی اور اس کے لئے بھی فاعل کی موجودگی ضروری ہے مثلا ‘اجی کیا پاجامہ آدمی ہیں آپ، یہ بلی کا گو لے کر آے کیا” اور یہ بلکل پارلیمانی گفت و شنید میں مستعمل ہو سکتی ہے۔۔ پنجابی زبان کو گالیوں کے حوالے سے بڑا بدنام قرار دیا جاتا ہے مثلا ہمارے عزیز دوست اطہر الہی جو آجکل ہالینڈ سے معاشیات میں  پی آیچ ڈی کر رہے ہیں فرماتے ہیں کہ ملتان میں جمعہ کا خطبہ سنا اور پہلی بار اتنی ساری پنجابی زبان بغیر گالی کے سنی تو کانوں پر یقین نہ آیا۔ چٹکی لے کر یقین دلایا گیا کہ خواب نہیں تھا۔

پارلیمانی زبان کا مفروضہ بھی اب پرانا ہوچلا کہ اب جو زبان پارلیمان میں بولی جاتی ہے اس سے ادارہ گالیوں کی لغت ‘فیروزالمغلظات’ بنانے کا کام لیتاہے۔ ہمارے وزیر قانون کے قانون کے لمبے ہاتھ تو سبھی کو یاد ہیں مگر اس کے علاوہ اب ہمارے معزز ایونوں میں اس طرح باتیں ہوتی ہیں‌کہ

“وزیر قانون عبد الرشید عباسی نے کہا کہ دنیا میں بڑے بڑے واقعات ہو جاتے ہیں ماں بہن کی گالی برداشت نہیں ہے دونوں صاحبان معذرت کر لیں’ یا پھر آزاد کشمیر کی اسمبلی کے رکن نے کہا کہ ‘”میرے سامنے ایک رکن نے ماں کی گالی دی پھراس پر یہ بھی انصاف ہوناچاہیے اس موقع پرانہوں نے مصطفیٰ گیلانی کوایوان سے باہر بھیج دیا۔”  وغیرہ

گالیوں کے آداب کے سلسلے میں عرض کرتے چلیں کہ اردو زبان کی گالیوں کی تین مختلف اصناف ہیں۔ وہ گالیاں جو مہذب محفل میں  کچھ جھجک کے ساتھ دی جاسکتی ہیں مثلا اکبر الہ آبادی کی گالیاںوغیرہ۔ دوسری جو یاروں دوستوں کے ہمراہ دی جاتی ہیں مثلا بھینس کا منہ اور تیسری قسم مزید شدید جیسے کسی کو پرویز مشرف یا میر جعفر کہ دینا، یہ دل آزاری کی بدترین قسم ہے۔

گالیوں کے آداب کے سلسلے میں آبِ گم  میںمشتاق احمد یوسفی کہتے ہیں کہ

بزرگوار موجودہ الہ دین یعنی رحیم بخش کو عام طور پر الہ دین ہی کہتے تھے۔ البتہ کوئی خاص کام مثلاً پیر دبوانے ہوں یا بے وقت چلم بھروانی ہو یا محض پیار اور شفقت جتانی ہو تو الہ دین میاں کہ کر پکارتے۔ لیکن گالی دینی ہو تو اصل نام لیکر گالی دیتے تھے

مزید آداب مغلظات کے سلسلے میں مثال سے فرماتے ہیں کہ

۔” خلیفہ نے غصے سے بے قابو ہو کر دو مرتبہ اسے “ تیرا دھنی مرے! کی گالی دی تو بشارت سناٹے میں آگئے۔ لیکن سرِ دست وہ گھوڑے کو قابو میں لانا چاہ رہے تھے۔

اور بسا اوقات گالیوں کا استعمال بوقت ضرورت مدعا کے بیان کے لئے بھی کیا جا سکتا ہے مثلا

“کوئی جوان عورت مچھلی لینے آتی تو مچھلی والا ڈھال ڈھال کر بلی کوآرزو بھری گالیاں دینے لگتا۔”

گالی کے لئے خاص الفاظ کا استعمال بھی لازم نہیں۔ منٹو کا ٹوڈی بچہ، انگریزی پٹھو وغیرہ سے زیادہ گندی تہزیبی گالی ‘کھول دو’ ہے جو کہ حالات و واقعات کے تانوں بانوں سے حساسیت کی ہر رمق کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے۔

تہذیبی گالیوں کی مد میں توبۃ النصوح میں ڈپٹی نذیر احمد لکھتے ہیں

دوسرا ناہنجار، صبح اٹھا اور کبوتر کھول باپ  دادے کا نام اچھالنے کو کوٹھے پر چڑھا، پہر سوا پہر دن چڑھے تک کوٹھے پر  دھما چوکڑی مچائی، مارے باندھے مدرسے گیا، عصر کے بعد پھر کوٹھا ہے  اور کنکوا ہے، شام ہوئی اور شطرنج بچھا۔ ا توار کو مدرسے سے چھٹی  ملی تو بٹیریں لڑائیں۔ تیسرے نالئق، بڑے میاں سو بڑے میاں چھوٹے میاں  سبحان اللہ ، محل رنالں، ہمسائے عاجز، اس کو مار اس کو چھیڑ، چاروں طرف ایک تراہ تراہ مچ رہی ہے۔ غرض کچھ اسطرح کے بے سرے بچے  ہیں، ناہموار، آوارہ، بے ادب، بے تمیز، بے حیا، بے غیرت، بے ہنر، بد مزاج، بد  زبان، بد وضع کہ چند روز سے دیکھ دیکھ کرمیری آنکھوں میں خون اترتا

اور

“لڑ کے گالیاں بہت بکتے ہیں، لڑکیاں کوسنے کثرت سے دیا  کرتی ہیں۔ قسم کھانے میں جیسے وہ بیباک ہیں یہ بھی بے دھڑک ہیں،

گالیاں دینے پر جھڑکتے ایسے ہیں

” اس نے بکیں تو جھک مارا اور تم نے  زیادہ بکیں تو زیادہ جھک مارا۔”

قدرت اللہ شہاب نے ّ شہاب نامہ ّ میں ملک امیر محمد کا ذکر کرتے ہوئے ایک دلچسپ واقع رقم کیا ہے. لکھتے ہیں کہ

چوہدری ظہور الاہی سیاست کے افق پر نمودار ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے فوجی آمر ایوب کے نزدیک ہو گئے….پہلے تو نواب نے چوھدری ظہور الہی کو موٹی موٹی اور غلیظ گالیاں دیں اور ساتھ ہی کاغذوں کا ایک پلندہ ایوب کے سامنے رکھ دیا ، جو کہ ایک ایس پی نے ابھی ابھی پیش کیا تھا، اور فرمایا کہ حضور ان کاغذات میں اس (گالی) آدمی کا کچا چٹھا ہے . ساتھ میں یہ بھی فرمایا کہ جناب ابھی تو میں نے اپنا شکاری کتا اس پہ نہیں چھوڑا’

وزرا کا یہ وطیرہ تو تبدیل نہیں ہوا، اب تک ہے کہ

” کسٹم حکام کو خدشہ تھا کہ وزیرموصوف کے بنکاک سے انے والےمہمانوں کے پاس غیر قانونی سامان ہے-اٍسی لئے أنہوں نے تلاشی کرنا چاہی تو چوہدری صاحب طیش میں اکر کسٹم حکام پر برس پڑے-انہیں گالیاں دیں اور نوکری سے گو شمالی کا قصیدہ گایا-ایرپورٹ کے کیمروں نے چوہدری صاحب کی توتکار و دھکم پیل ثبوت کے لئے محفوظ کرلی-اٍسی وزیر کے خلاف لاہور کے تھانوں میں عملے کو گالیاں و دھمکیاں دینے پر رپٹ درج ہے-تھانہ نو لکھا کے انسپکٹر نوید گجر نے صحافیوں کو بتایا کہ وزیر نے ایک ملزم انتظار شاہ کو فوری رہا نہ کرنے کی پاداش میں تھانے کے عملے کو ننگی گالیاں اور نوکری سے برخواست کروانے کی دھمکیاں دیں-لچھے دار زبان استعمال کرنے پر پولیس کے اعلی افیسرز نے وزیر کے خلاف رپٹ درج کرنے کا حکم دیا-۔۔-میڈیا کو نام نہ شائع کرنے پر ایک آفیسر نے بتایا کہ چوہدری اور أنکے بھائی جرائم پیشہ افراد کی سفارشیں کرتے ہیں اور انکار کی صورت میں جیل کے عملے کو غلیظ گالیاں و سفاکانہ دھمکیاں سننی پڑتی ہیں-حسب سابق چوہدری عبدالغفور نے بائیس مئی کو پریس کانفرنس میں تمام الزامات کی تردید کی-“

یہ تو رہی موجودہ بے ادب دنیا میں وزرا کی روش۔  نیاز فتح پوری نے مولانا حالی کے نام ایک خط میں لکھا تھا۔

” مولانا! آپکا اسلوب بیان میں مجھ وداع ِجاں چاہتا ہے ۔ اگر آپ کی زبان میں مجھے کوئی گالیاں بھی دے تو ہل من مزید کہتا رہوں گا۔“

تولہذا قارئین ہل من مزید کہتے رہیں۔ اگر آپ کو ہمارے اس مضمون سے کوئی تکلیف پہنچی ہو تو ‘فیروز المغلظات’ کا مطالعہ افاقہ دے گا۔ وہ تمام لوگ جنہیں اس مضمون میں حقیقی گالیوں کے فقدان یا شدید کمی پر افسوس ہوا ہے اوراب کسی احتیاج کے تحت ٹھنڈا گوشت پڑھ رہے ہیں فورا ذہنی معالج سے رجوع کریں یا وزارت قانون میں نوکری کے اشتہارات دیکھیں۔

Share

April 24, 2010

کچھ برادرم راشد کامران کے بارے میں

Filed under: ادبیات,طنزومزاح — ابو عزام @ 1:08 am
سنا ہے گیدڑ کی موت آتی ہے تو شہر کی طرف دوڑتا ہے۔ ہماری جو رگ ظرافت پھڑکی توسوچا راشد بھائی کے بارے میں کچھ سخن آرائی کی جائے۔
محترم راشد بھائی ہمارے دیرینہ “بھائی-دوست” ہیں کیونکہ “دوست-دوست” اپنی مرضی سے بنائے جاتے ہیں – محترم سے ہماری دوستی پندرہ سال کے عرصے پر محیط ہے جو ہماری آدھی اور ان کی ایک  چوتھائی عمر بنتی ہے۔ ہم انہیں ١٩٩٦ سے اس مضمون کی تاریخ اشاعت تک جانتے ہیں، (وکیل صاحب – ہماری وصیت میز کی اوپر والی دراز میں رکھی ہے)۔
راشد بھائی پنجوقتہ لبرل آدمی ہیں۔ اپنے آپ کو مشرق کا بل ماہر گردانتے ہیں اور شائد اسی بنا پر مسجد سے نکلتے وقت ٹوپی فورا اتار لیتے ہیں کہ دعوی تجدد پر حرف نا آئے۔  جماعت اسلامی سے انہیں وہی پرخاش ہے جو منٹو کو ستر سے اور عصمت چغتائی کو رضائی سے تھی لیکن البرٹ پنٹو کے برعکس راشد بھائی کو غصہ بلکل نہیں آتا۔ نہایت بزلہ سنج اور حاضر جواب واقع ہوئے ہیں ۔ وقوع سے یاد آیا کہ ان کا جغرافیہ زیادہ تر ٹی وی اور میک بک کے درمیان پایا جاتا ہے۔ دھول دھپے کے قائل نہیں لیکن یاروں کے یار ہیں لہذا کبھی کبھی ہمارے ساتھ دوڑ بھاگ لیا کرتے ہیں۔ مگر جب سے پچھلی بار کے ٹریل رن (پہاڑی راستوں اور جنگلات کی دوڑ)‌ میںچند مستورات فرنگ نے انکے کندھوں کے سہارے سے دریا پار کئے ہیں، اب یہ شہری میراتھن میں بھی دریاوں کی موجودگی پر اصرار کرتے ہیں۔ منتظمین کا کہنا ہے کہ یہ ممکن نہیں، دیکھیں یہ بیل کیسے منڈھے چڑھتی ہے۔
خوش شکل آدمی ہیں، شب دیجور کی پھبتی حاسدوں کی سازش ہے، ان نامرادوں کا منہ کالا۔ اسی وجاہت کی بنا پر شائد اسی بنا پر جامعہ کراچی میں کلاس کی خواتین انہیں راشد بھائی کہ کر بلاتی تھی، شائد اس میں پیری و کہن سالی کا بھی کچھ دخل ہو پر راقم کو بہتان طرازی سے کیا لینا دینا۔
محترم ایپل کے بانی اسٹیو جابس کے بڑے معتقد ہے، انکو اپنا پیرومرشد مانتے ہیں کہ حضرت جابس کی تخلیق کردہ ہر چیز کو انتہائی ادب سے بھاری ہدیہ دے کر خریدتے ہیں اور قصر راشد کی زینت بناتے ہیں۔ اس جامع مجموعہ کی بنا پر ایپل والے ان کے گھر پر اپنا بورڈ لگانے لگے تھے کہ بڑی مشکل سے روکا گیا۔ تجدد کا پائے چوبیں کہ پسندیدہ مشروب ‘موکا’ کافی ٹھرا۔ پچھلی دفعہ معمول کے بلڈ ٹیسٹ میں کیفین کا تناسب اتنا تھا کہ اسے تحقیق کے لئے اسٹار بکس بھیجا گیا اورمحترم کو اعزازی رکنیت ملی۔
ریاست بہار سے تعلق کے باوجود بہت عمدہ اردو نثر لکھتے ہیں، بلکل پتا نہیں لگتا۔ ، جی ہاں کبھی کبھی سرقے کے بغیر بھی۔ اپنی شاعری کو امام دین اور میر کا سنگم قرار دیتے ہیں جس پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں بشرطیکہ ان کی تازہ غزل ہمیں نا سننی پڑئے۔ خود ہی کہا کرتے ہیں کہ “شاعری بچوں کے کھیلنے کی چیز نہیں۔۔”، مزید صرف بالغان کے لئے۔
راشد بھائ کا حافظہ نہائت عمدہ ہے، شعر اور ادھار کبھی نہیں بھولتے۔ ہم کبھی کوئئ شعر اٹک جائے تو انہیں ہی فون ملاتے ہیں۔ انکا ہمارا سامنا ابتداجامعہ کراچی میں ہوا اور ہم ان کے علم و فن کے گرویدہ ہو گئے۔ وسیع المطالعہ ہیں، کل ہی بتا رہے تھے کہ میبل اور میں کا پلاٹ‌ زرا ڈھیلا ہے اور میبل اصل میں ‘سویرے جو کل میری انکھ کھلی’ والے لالا کا بھائی تھا۔ سیاست اور دیگر  اس صنف کے تمام کاموں میں بائیں بازو کو ترجیح دیتے ہیں لیکن ہماری رائے میں‌ کلازٹ کنزرویٹو ہیں، باہرنکلنے کا انتظار ہے لیکن شاید ٹام کروز کے ساتھ اچھی جم رہی ہے۔
ً
ہم چونکہ انکے غیر معنوی لنگوٹیا ہیں اور انہیں جامعہ کے پواینٹ اغوا کرنے کے زمانے سے جانتے ہیں لہذا ہماری راے کو اس کم سخن، نابغہ روزگار ہستی کے بارے میں ہرگز درخور اعتنا نا گردانئے گا۔ آج کل محترمی روزی اور روزگار کے سلسلے میں بیرون ملک مقیم ہیں، حاسدوں کا کہنا ہے کہ اس میں روزگار کم اور روزی کا ہاتھ زیادہ ہے۔ شائد یہی منشا ہے کہ رومانیت کی علامت ہسپانوی زبان کے انتہائی رسیا ہیں. بلکل اہل زبان کی طرح بولتے ہیں اگر اہل زبان موجود نا ہوں اور جیسا کہ فراز نے کہا
زبان یار کیلاشی، ما از حرف بیگانہ
اس زمن میں ہمیں گالف والے چیتے اور اپیلیشین ٹریل کا کافی عمل دخل معلوم ہوتا ہے۔ بہرحال، ہمارے دائی شریک بھائی ہیں اور ہمیں نہایت عزیز۔ اسی لئے اس سے پہلے کہ کوئ اور ہجو معاف کیجیے گا تعارف لکھے، ہم نے ابتدا کی۔ اب یہ مضمون کا اختتام ہے اور یہاں پر عموما دیکھا گیا ہے کہ راقم کہے سنے کی معافی چاھتا ہے لیکن ادارہ اس زمن میں یہ کہے گا کہ اس تمام کی تمام یاوہ گوئی کا بھرپور ذمہ دار ہے اور اگر کسی قاری کو برا لگتا ہے تو لگا کرے۔
باقی یار زندہ صحبت باقی
Share

April 14, 2010

خط گدی نشینوں کا – علاج ریسیشن کا

Filed under: طنزومزاح,مذہب — ابو عزام @ 11:52 pm
خاکسار کی قسمت کے ستارے چمک اٹھے کہ آج جب ہم خطوط  دیکھنےکے لئے ڈاک کا ڈبہ کھولا تو بھارت سے ایک عرس کی دعوت تھی۔ چونکہ عرس کے لغوی معنی شادی کے ہوتے ہیں لحاظہ پہلا گمان تو یہ ہوا کہ آخرکار شعیب اور ثانیہ کی شادی کا دعوت نامہ موصول ہو ہی گیا، دیر آید درست آید، ‘حیدرآبادی کس طرح اپنے یاراں کو بھول سکتے جی’، سوچ کر ہم نے خط کھولنے کی سعی کی لیکن یہ کچھ مختلف لگا، ارے بھی یہ تو ‘درگاہ شریف اجمیر’ سے “صاحبزادہ سید امین الدین معینی خاص معلم اور گدی نشین آستانہ عالیہ حضور غریب نواز ‘زینت ہاوس اور حاجی محل’ درگاہ اجمیر شریف” کا نامہ تھا۔ کہاں یہ ناچیز اور کہاں محترم گدی نشین صاحبزادہ لمبے نام والے ۔۔۔ یہ تو نایجیریا کے شہزادے کی ای میل کے بعد دوسرا بڑا واقعہ ہے جو ہمیں کسی ‘صاحبزادے؛ نے خط لکھا۔ وہ نایجیریا کے شہزادے نے ابھی تک ہمارے اکاونٹ میں پیسے منتقل نہیں کراے مگر ہمیں یقین ہے بہت مصروف ہوگا، جیسے ہی فرصت ملے گی کرا دے گا۔ بہرطور، صاحبزادہ معینی کے خط کو کھولا اور عقیدت سے پڑھنا شروع کیا۔ حضرت نے فرمایا کہ ‘جنتی دروازہ‘  عاشقان کے لئے کھولا جائے گا، ‘اگر آپ یا آپ کے دوست و احباب بھی صحت، رہایش، شادی، اولاد، حمل، نیشنیلٹی، گرین کارڈ، ڈراونگ لائسنس، مقدمات، تجارت، بے روزگاری، بلا و جادو وغیرہ کے مسائل سے پریشان ہوں تو بذات خود شرکت کر کے فیضیاب ہو سکتے ہیں۔۔۔” واہ جناب، یعنی ہم نے خواہ مخواہ ڈرائونگ ٹیسٹ کی تیاری کی تھی ، پہلے پتا ہوتا تو آی این ایس کے بجائے معینی صاحب کو فون ملاتے اور ریکروٹر کے بجاے حضرت کو ریسیومے بھیجتے۔ انہوں نے اپنا بینک اکاونٹ بھی ہمیں ارسال کردیا تھا تاکہ سند رہے اور وقت ضرورت کام آے۔ مزید براں حضرت نے دیگر افراد سے چندہ وصولی کے لئے ایک کوپن بھی ارسال کردیا، آپکی دور اندیشی کی داد دینے کو جی چاھتا ہے۔ گدی نشینی کے لئے اگر کوئی کوالفیکیشن کا امتحان ہوتا تو آپ اس میں نمبر ایک آتے۔ ہم آپ سے یہ پوچھنے والے تھے کہ حضور، اگر گستاخی نہ ہو تو یہ بتائیں کہ ہمارا پتا آپ کے پاس کیسے آیا اور یہ کہ ایک قبر کے مجاور کے پاس اتنی رقم کہاں سے آئی کہ وہ لوگوں کو امریکہ اور برطانیہ خطوط بھیجا کرے لیکن سوچا کہ یہ حد ادب ہوگا اور کہیں حضرت ناراض نہ ہو جائیں۔ لیکن ہم نے ٹھان لئ ہے کہ صدر اوبامہ کو خط لکھیں گے اور یہ خط اس کے ساتھ بھیج کر کہیں گے دیکھیں صدر صاحب، ریسیشن اور کساد بازاری، جنگوں، صحت عامہ کے مسائل سے اب نبرد آزما ہونے کے لیے کوئ زیادہ محنت کی ضرورت نہیں۔ یہ رہا پتا، چیک ‘اجمیر شریف’ بھیجیں اور مسائل حل! امید ہے کہ وہ ہماری درخواست کو درخور اعتنا سمجھیں گے۔
نیز ‘جنتی دروازے’ پر بھی ہم پریشان تھے کہ پچھلے سال حج کے دوران ہمیں نہ تو مسجدالحرام میں کوئی جنتی دروازہ بتایا گیا نا ہی مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں۔ (کہیں معاذاللہ یہ ریاض الجنتہ کا متبادل تو نہیں پیش کیا جا رہا)؟

ہمارے آقا اور مولا صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فرمایا تھا
وعن أبي سعيد الخدري -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-:  لا تشد الرحال إلا إلى ثلاثة مساجد: المسجد الحرام، ومسجدي هذا، والمسجد الأقصى   متفق عليه.
تین مساجد کے علاوہ سفر کے لئے  کجاوئے نا کسے جائیں: مسجد الحرام ،یہ مسجد (مسجد النبوی)، مسجد الأقصیٰ .(١)
١۔صحیح بخاری؛ صحیح مسلم
ہمیں تو دن میں کئی دفعہ ایاک نعبد وایاک نستعین کا حکم ہے نیز اقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم  نے کہا کہ

لَا تَجعَلُوا بُيُوتَكُم قُبُورًا ولا تَجعَلُوا قَبرِي عِيدًا وَصَلُّوا على فإن صَلَاتَكُم تَبلُغُنِي حَيثُ كُنتُم
: تُم لوگ اپنے گھروں کو قبروں کی طرح مت بنانا اور نہ ہی میری قبر کو بار بار آنے والی جگہ بنانا اور میرے لیے رحمت کی دُعا کیا کرو بے شک تُم لوگ کہیں بھی ہو تُمہاری یہ رحمت کے دُعا مجھ تک پہنچتی ہے – سنن ابو داؤد /کتاب المناسک کی آخری حدیث ،

جناب نے انڈیا سےامریکہ تک خط بھیجنے کا قصد کیا تو ہم نے سوچا کہ کوئی دعوت و ارشاد کی اہم بات تو ہوگی لیکن اس دعوت نامے میں تو کچھ ایسا نظر نہیں آیا، شرک و بدعت کا خزینہ ہے بہرحال۔ آپ پڑھنے والے زرا روشنی ڈالیں کہ یہ کیا ماجرا ہے، ہم تو بڑے تذبذب کا شکار ہیں۔

Ajmair LetterAjmair Letter

Ajmair Letter

Share
« Newer Posts

Powered by WordPress