فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

February 12, 2023

امریکی فٹبال – ایک معمہ ہے سمجھنے کا نا سمجھانے کا

Filed under: عمومیات — ابو عزام @ 10:09 am

سوپر بال کی آمد آمد ہے مگر ہم دیسیوں کے لیے امریکی فٹبال ہمیشہ سے ایک معمہ رہا ہے۔ پہلا سوال  تو یہ کہ اسے فٹبال کہا ہی کیوں جاتا ہے جبکہ کھلاڑی  بیضوی شکل کی انڈا نما بال ہاتھ میں اٹھائے اٹھائے پھرتے ہوں،  ہیں، بعض لوگ اسے رگبی کہنے پر مصر ہوتے ہیں اور باقی احباب  پلے آف، ٹچ ڈاؤن، انٹرسیپشن وغیرہ کی اصطلاحات سے ایسے پریشان ہوتے ہیں کہ کھیل ہی سے جی ہی اوب جاتا ہے- لہذا اس لئے اس سال راقم نے عام فہم انداز میں اس  دلچسپ اور تفریحی کھیل کو سمجھانے کی حتی الامکان کوشش کی ہے، امید ہے   کہ فائدہ  ہوگا۔

آسان الفاظ میں کہا جائے تو امریکی فٹ بال ایک ایسا کھیل ہے جو میدان میں ۱۱ کھلاڑیوں کی دو ٹیموں کے درمیان کھیلا جاتا ہے۔ اس کھیل کا بنیادی مقصد گیند کو دوسری ٹیم کے اینڈ زون  یا آخری حصے میں میں لے جا کر یا پھینک کر یا   کیچ پکڑ  کر   پوائنٹس حاصل کرنا  ہوتا ہے۔اسکے علاوہ گول پوسٹ کے ذریعے گیند کو کِک کرکے بھی پوائنٹس حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ یہ گیم درحقیقت میدان پر قبضے کی جنگ ہے، بال کو ہر یارڈ یا  گز  آگے بڑھانا ایک چھوٹی سی جیت  ۔ امریکی فٹبال کا یہ  کھیل درحقیقت رگبی اور فٹبال کی بگڑی ہوئی شکل ہے ، فٹبال وہ جسے باقی دنیا فٹبال  اور امریکی ساکر کہتے ہیں۔ ایک گھنٹے کے اس کھیل کے پندرہ منٹ کے چار حصے یا کوارٹرز  ہوتے ہیں  لیکن مختلف  وقفوں کی وجہ سے یہ کھیل عموما تین گھنٹے میں ختم ہوتا ہے۔ فٹبال کے برعکس، امریکی فٹبال میں ہر ٹیم باری باری کھیل کر اسکور کرنے کی کوشش کرتی ہے۔

امریکی فٹ بال کا میدان ۱۰۰ گز لمبا  ہوتا ہے، اس میں دو اینڈ زونز  یعنی گول کے حصے شامل  نہیں ہوتے جو دس دس گز کے ہوتے ہیں لہذا ان کو ملانے کے بعد اس میدان کی مکمل لمبائی ۱۲۰ گز بنتی ہے۔ اس سو گز کے میدان کو دونوں ٹیموں کے درمیان ۵۰ – ۵۰ گز کے دو حصوں میں بانٹ دیا جاتا ہے ۔جارح ٹیم کے ہر کھلاڑی کی کوشش ہوتی ہے کہ گیند کسی طرح فریق مخالف کے اینڈ زون میں پہنچا دے۔ جبکہ دفاعی ٹیم اسے روکنے کی ہرممکن کوشش کرتی ہے۔ اسی لئے آپ امریکی فٹبال میں خوب مار دھاڑ  دیکھتے ہیں۔اپنے تمام تر  جوش  اور کشش کے باوجو امریکی فٹبال ایک خطرناک  کھیل ہے جس میں چوٹیں لگنے کا امکان بہت زیادہ ہوتا ہے خصوصا مستقل ٹکراو کی وجہ سے دماغی  چوٹ  کا امکان بہت بڑھ جاتا ہے۔ 


By AJ Guel – originally posted to Flickr as Fumble, CC BY 2.0, 

اکثر  لوگوں کے لئے امریکی فٹبال کے اسکور کو سمجھنا خاصہ مشکل ہوتا ہے کیونکہ اسکے اصول و ضوابط فٹبال سے مختلف ہیں، تو اس کو مثالوں سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

امریکی فٹبال میں  جو ٹیم اسکور کرنے  یعنی پوائنٹس بنانے کی کوشش کررہی ہوتی ہے اسے آفینسف یا جارح ٹیم کہا جاتا ہے۔ اسی طرح  دفاع کرنے والی  یا جارح  ٹیم کو گول کرنے سے روکنے کی کوشش کرنے والی ٹیم کو ڈیفینس یعنی دفاعی ٹیم کہا جاتا ہے۔ جارحانہ ٹیم کے کھلاڑی گیند  کو اٹھا کر دوڑتے ہیں ، یا  پھر اپنے ٹیم کے ساتھی کی طرف پھینک کر اس گیند کو  میدان میں آگے سے آگے  بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ کسی طرح اینڈ زون  یا آخری حصے میں میں لے کر جا سکیں ۔  دفاعی ٹیم کا کام اس پیشقدمی کو روکنا اور گیند کو اپنے قبضے میں لینا ہوتا ہے۔فٹبال کے برعکس امریکی فٹبال کے کھیل میں  صرف بال کو آخری حصے میں پھینک دینے سے پوائنٹ نہیں ملتے، پوائینٹ صرف اس وقت ملتے ہیں جب کہ اینڈ زون میں موجود آپکی ٹیم کا کوئی کھلاڑی اسے کیچ کرے۔ دوسرے لفظوں میں یہ سمجھیں کہ فٹ بال میں، گیند کو مخالف ٹیم کے جال میں پہنچا کر گول کیا جاتا ہےلیکن امریکی فٹ بال میں، ٹچ ڈاؤن گیند کو مخالف کے اینڈ زون  یعنی آخری حصے میں ہاتھ میں پکڑ کر لے جا کر ، یا  پھر اینڈ زون میں پھینک کر اپنے کسی ساتھی کو کیچ کروانے سے اسکور کیا جاتا ہے۔ ٹچ ڈاؤن کرنے سے چھ پوائنٹس ملتے ہیں۔ لیکن فرض کریں کہ آپ نے  بال اپنے ساتھی کی طرف پھینکی جو اینڈ زون کے قریب آپکے بال پھینکے کا منتظر کھڑا ہو، لیکن اس کیچ سے پہلے دوسری ٹیم کے کسی  کھلاڑی نے مداخلت کر کر بال پکڑ لی، چاہے وہ اینڈ زون میں ہی کیوں نا ہو، یا بال پکڑنے سے پہلے گر گئی اور کیچ مکمل نہیں ہوا تو دونوں صورتوں میں آپکی ٹیم کو کوئی پوائینٹ نہیں ملے گا۔

اب جب کہ آپ کو بنیادی کھیل کا طریقہ پتا چل چکا ہے، اب آپکو کھیل کی کچھ بنیادی اصطلاحات سے روشناس کرواتے ہیں۔ ڈاون امریکی فٹ بال میں کھیل کی اکائی ہے، آپ اسے ایک اوور سمجھ سکتے ہیں۔ امریکی فٹبال کے کھیل میں جارح ٹیم کو گیند کو دوسری ٹیم کے آخری زون کی طرف 10 گز آگے بڑھانے کے چار چانسز ملتے ہیں جنہیں ڈاون کہا جاتا ہے۔اگر جارح ٹیم چار ڈاؤن یعنی چار باریوں کے بعد بھی گیند کو 10 گز آگے بڑھانے میں ناکام رہتی ہے  تو بال دوسری ٹیم کو دے دی جاتی ہے  ۔ لیکن اگر جارح ٹیم گیند کو 10 گز آگے بڑھانے میں کامیاب ہو جاتی ہے،جسے فرسٹ ڈاون کہا جاتا ہے، تو وہ گیند کو مزید 10 گز آگے بڑھانے کی کوشش کرنے کے لیے مزید چار باریاں یعنی ڈاون حاصل کرتے ہیں۔ یہ عمل اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک کہ جارح ٹیم اسکور نہ کردے، یا پھر گیند دوسری ٹیم مداخلت کر کر چھین لے ، یا گیند باونڈری سے باہر چلی جائے جس کے بعد دوسری ٹیم کے پاس بال چلی جائے گی اور جارح ٹیم دفاعی ٹیم بن جائے گی۔

امریکی فٹبال میں اسکو ر کرنے کے لئے ڈاون  کو سمجھنا بہت  ضروری ہے۔ جیسا کہ آپ اب تک جان چکے ہیں کہ  ڈاون کا مطلب ہے چانس، یعنی گیند کو اختتامی زون کی طرف 10 گز آگے بڑھانے کے آپکے پاس چار ڈاون  کے چانسز یاامکانات ہوتے ہیں، لہذا  اگرا اناونسر کہے کہ  دوسرا ڈاون اور ۴ گز، اس کا مطلب یہ ہے کہ ٹیم پہلے ہی اپنے چار ڈاؤن  کے چانسز میں سے ایک کا استعمال کر چکی ہے اور  گیند کو  چھ گز آگے  بڑھا چکی ہے، اب انہیں چار ڈاؤن کا نیا سیٹ حاصل کرنے کے لیے گیند کو مزید ۴ گز  آگے منتقل کرنا ہوگا۔

اس کی ایک اور مثال لیتے ہیں۔ فرض کریں آپ کی ٹیم نے تین مرتبہ کوشش کی لیکن وہ مطلوبہ دس یارڈ کا فاصلہ حاصل کرنے میں ناکام رہی، اب آپ کے پاس چوتھی اور آخری ٹرائی یا ڈاون ہے تو اس وقت یہ کھیل میں ایک نازک لمحہ ہے، کیونکہ آپ کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ آیا  کہ آپ بھاگ کر وہ فاصلہ طے کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، پوائنٹس اسکور کرنے کے لیے فیلڈ گول کی کوشش  کرتے ہیں، یا  پھر آخری حربے کے طور پر پنٹ کرتے ہیں۔ پنٹ کا مطلب ہے ، گیند کو مخالف ٹیم کے گول کی طرف  ہم تو  ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے کے مصداق خوب دور پھینکتے ہیں تاکہ جب انہیں گیند ملے تو انہیں آپکے گول تک آنے میں بہت سا  فاصلہ طے کرنا پڑے۔ 

ہر کھیل کی طرح امریکی فٹ بال کی بھی اپنی زبان اور اصطلاحات ہیں ۰ کچھ اہم اصطلاحات مندرجہ زیل ہیں۔

اینڈ زون: میدان کا آخر ی حصہ جہاں کوئی ٹیم گیند کو لے جاکر ، یا کیچ پکڑ کر پوائنٹس حاصل کر سکتی ہے۔

ٹچ ڈاؤن: جب جارحانہ ٹیم کا کوئی کھلاڑی اینڈ زون میں گیند کو اٹھا کر پہنچتا ہے، یا کیچ پکڑتا ہے تو اسے ٹچ ڈاؤن کہا جاتا ہے اور اس کی قیمت چھ پوائنٹس ہوتی ہے۔

فیلڈ گول: فیلڈ گول ، فٹبال کے گول کی طرح ہوتا ہے اور میدان میں کسی بھی جگہ سے اسکور کیا جاسکتا ہے۔ امریکی فٹبال کا گول لیکن زمین پر نہیں بلکہ زمین سے دس فیٹ اونچائی پر ہوتا ہے۔ اگر کوئی کھلاڑی فیلڈ گول اسکور کرلے تو اسے تین پوائنٹس ملتے ہیں

ٹیکل یعنی روکنا یا گرانا: جب ایک دفاعی کھلاڑی کسی جارحانہ کھلاڑی کو پکڑ کر آگے بڑھنے سے روکتا ہے تو اسے ٹیکل کہتے ہیں۔

کوارٹر بیک: کوارٹر بیک لھیل کا سب سے اہم کھلاڑی ہوتا ہے ، یہ کرکٹ کے کپتان کی طرح کھیل کی منصوبہ بندی کرتا ہے اور گیند کو پھینک کر یا کسی رنر کے حوالے کر کے اسکور کرنے کی کو شش کرواتا ہے۔

رننگ بیک : رننگ بیک وہ کھلاڑی ہے جو گیند کو اٹھا کر میدان میں اس کے ساتھ دوڑتا ہے۔

ریسیور یا وصول کنندہ: وصول کنندہ وہ کھلاڑی ہوتا ہے جو کوارٹر بیک کے ذریعے پھینکے گئے پاسز کو پکڑتا ہے۔

لائن مین: لائن مین وہ بڑےبڑے طاقتور  مضبوط کھلاڑی ہوتے ہیں جو جارحانہ ٹیم کے رنرز کو  روکتے ہیں۔

مداخلت یا انٹرسیپشن: انٹرسیپشن یا مداخلت کے معنی ہیں بیچ میں بال کو اچک لینا یعنی اگر ایک دفاعی کھلاڑی کسی ایسی بال کوقبضے میں لے لیتا ہے  جو درحقیقت جارحانہ ٹیم کے کھلاڑی کے پاس جانی تھی۔

فمبل یعنی بال گرا دینا : یعنی کوئی کھلاڑی گیند کو لے جانے کے دوران اس کا کنٹرول کھو دے ، زمین پر گرا دے ،

پینلٹی یا جرمانہ: ہر کھیل کی طرح امریکی فٹبال میں بھی فاول پر پینلٹی ملتی ہے  لیکن فٹبال کے کارڈز  کے برعکس، یہاں آپ یارڈز کا نقصان اٹھاتے ہیں یعنی آپکی ٹیم کو جیتے ہوئے یارڈز سے پیچھے جانا پڑتا ہے۔

امریکی فٹ بال چونکہ ایک نہایت مقبول کھیل ہے, اس کی ملک بھر میں کئی کامیاب اور مقبول ٹیمیں ہیں۔  این ایف ایل نیشنل فٹ بال لیگ امریکہ میں پیشہ ور امریکی فٹ بال کی اعلی ترین سطح کی لیگ ہے۔کرکٹ  کی اصطلاح میں آپ اسے آئی سی سی  سمجھ سکتے ہیں  ۔ اس لیگ میں  ، دو کانفرنسیں ہوتی ہیں: اے ایف سی امریکن فٹ بال کانفرنس اور این ایف سی نیشنل فٹ بال کانفرنس۔ ہر کانفرنس 16 ٹیموں پر مشتمل ہوتی ہے، جنہیں چار ٹیموں کے چار ڈویژنوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ہر کانفرنس میں ٹیمیں 16 گیمز کا باقاعدہ سیزن شیڈول کھیلتی ہیں، جس میں ہر ڈویژن کی فاتح اور ہر کانفرنس سے دو وائلڈ کارڈ ٹیمیں پلے آف کھیل کھیلتی ہیں۔ ان میں جیتنے والی ٹیمیں سپر باؤل  کھیلتی ہیں جو اے ایف سی اور این ایف سی چیمپئن شپ کے فاتحین کے درمیان کھیلا جاتا ہے۔ 

باقاعدہ سیزن ۔ستمبر تا دسمبر
وائلڈ کارڈ راؤنڈ ۔ جنوری

 ڈویژنل راؤنڈ ۔جنوری

   کانفرنس چیمپئن شپ ۔جنوری

   سپر باؤل ۔فروری 

 نیشنل فٹ بال لیگ میں کچھ مشہور اور کامیاب ٹیمیں  ۔  نیو انگلینڈ پیٹریاٹس   این ایف ایل کی سب سے کامیاب ٹیموں میں سے ایک رہی ہے، جس نے چھ سپر باؤل چیمپئن شپ جیتی ہیں۔پینسلوینیا کی پٹسبرگ اسٹیلرز  نے بھی چھ سپر باؤل چیمپئن شپ جیتی ہیں، ڈلاس کاؤبای: ڈلاس، ٹیکساس  کی ایک فرنچائزز ہےجس نے پانچ سپر باؤل چیمپئن شپ جیتی ہیں۔اسکے علاوہ وسکانسن کی گرین بے پیکرز، سان فرانسسکو کی فورٹی نائنرز، بالٹیمور میری لینڈ کی ریونز،  اور ٹیمپا بے کی بکنئیرز مشہور ٹیمیں ہیں۔  امریکی فٹ بال میں بہت سے باصلاحیت اور مقبول کھلاڑی ہیں جن میں  ٹام بریڈی، جو مونٹانا، جیری رائس،  اور پیٹن میننگ آرون راجرز، پیٹرک مہومیز، رسل ولسن، مائکل تھامس، اور وان ملر شامل ہیں

امریکی فٹ بال کے مختلف سیزن ہوتے ہیں جن میں سے ہر ایک کی اپنی اہمیت اور مقصد  ہے، 

پری سیزن: پری سیزن باقاعدہ سیزن شروع ہونے سے پہلے کا وقت ہے۔ پری سیزن کے دوران، ٹیمیں مشق کرنے اور باقاعدہ سیزن کے لیے تیار ہونے کے لیے نمائشی کھیل کھیلتی ہیں۔ یہ کھیل ٹیم کے مجموعی ریکارڈ میں شمار نہیں ہوتے ہیں، لیکن یہ کھلاڑیوں اور کوچوں کو ان کھیلوں کے لیے تیار ہونے میں مدد کرتے ہیں 

باقاعدہ سیزن: باقاعدہ سیزن امریکی فٹ بال سیزن کا اہم حصہ ہے۔ باقاعدہ سیزن کے دوران، ٹیمیں 16 گیمز کھیلتی ہیں، اور جیت اور ہار ان کے مجموعی ریکارڈ میں شمار ہوتی ہے۔ باقاعدہ سیزن کے اختتام پر بہترین ریکارڈ رکھنے والی ٹیم پلے آف میں جگہ لیتی ہے۔

پلے آف: پلے آف گیمز کا ایک سلسلہ ہے جو اس بات کا تعین کرتا ہے کہ سپر باؤل میں کونسی ٹیمیں کھیلیں گی ۔۔ پلے آف ریگولر سیزن کے بہترین ریکارڈز والی ٹیموں پر مشتمل ہوتے ہیں، اور وہ ناک آوٹ یا ایلیمینیشن گیمز کا ایک سلسلہ کھیلتی ہیں جب تک کہ صرف دو ٹیمیں باقی نہ رہ جائیں۔

سپر باؤل: سپر باؤل امریکی فٹ بال کا چیمپئن شپ گیم ہے اور پلے آف جیتنے والی دو ٹیموں کے درمیان کھیلا جاتا ہے۔ سپر باؤل امریکی فٹ بال کا سب سے بڑا ایونٹ ہے اور اسے لاکھوں لوگ ٹیلی ویژن پر دیکھتے ہیں۔سوپر بال جیتنے والی ٹیم کو لمبارڈی ٹرافی ملتی ہے جو کہ گرین بے پیکرز کے شہرہ آفاق کوچ ونس  لمبارڈی کے نام پر رکھی گئی ہے۔

یہ تھا امریکی فٹبال کا ایک مختصر سا تعارف – امید ہے کہ میری کوشش کارگر ہوئی ہوگی اور اب آپ امریکی فٹبال کا میچ دیکھ کر سمجھ سکیں گے، اور اپنے دوستوں سے اس بارے میں گفتگو بھی کرسکیں گے۔ 

Share

November 17, 2022

جارج ثانی کا خط بنام خلیفہ اندلس – ایک جعل سازی

Filed under: عمومیات — ابو عزام @ 9:58 am

کچھ عرصے سے جارج ثانی کا خط بنام خلیفہ اندلس -مختلف گروپوں وغیرہ میں پوسٹ ہوتا رہا ہے، اور ہم بڑے فخر کے ساتھ مطیع و فرمانبردار جارج ثانی کو هشام الثالث کی داخلے کی درخواست کو شئیر کرتے ہوئے اپنے تابندہ ماضی کو یاد کرتے ہیں۔ معذرت کے ساتھ اسکی بابت عرض کرتا چلوں کہ یہ جعل سازی ہے.اس میں متن اور تاریخی طور پر کافی سقوم موجود ہیں اور راقم کی ناقص تحقیق و مطالعے کے مطابق مندرجہ بالا خط خلاف حقیقت لگتا ہے۔ اس کے رد میں عربی وکیپیڈیا میں ایک مقالہ موجود ہے جس میں اس کی تاریخ اشاعت وغیرہ کا حوالہ موجود ہے جو کہ یہاں دیکھا جاسکتا ہے۔ رسالة جورج الثاني إلى خليفة الأندلس

اول تو یہ کہ انگلستان کے بادشاہ کا من خادم المطیع لکھنا ایک عجیب سی بات ہے ، لیکن سب سے بڑی تاریخی غلطی یہ ہے کہ خلیفہ ہشام سوم 1026 – 1031 کے دوران قرطبہ کا خلیفہ تھا، لیکن جارج دوم 1727-1760 کے دوران انگلینڈ، فرانس اور آئرلینڈ کا بادشاہ تھا اس لیے اس خط کے تاریخی اوقات ایک دوسرے سے مطابقت نہیں رکھتے۔

دوم یہ کہ برطانوی بادشاہوں کا ناروے یا سویڈن کے تختوں پر دعویٰ بہت مختصر وقت کے لئے تھا، اورفرانس کو “غال” کہا جانا رومن دور میں ہوا کرتا تھا، قبل مسیح ،”شہزادی ڈوبانٹ” کا بھی کوئی برطانوی شاہی لقب نہیں ہے بلکہ برطانوی بادشاہت میں شہزادی رویال کا خطاب ہوا کرتا ہے ،


سوم یہ کہ یہا ں عربی میں بھی کچھ جدید اصطلاحات مستعمل ہیں، جیسے معاهد العلم والصناعات في بلادكم العامرة،یہ سائینس اور ٹیکنالوجی کی اصطلاح اس زمانے کی عربی میں اس طرح استعمال نہیں کی جاتی تھی۔نیز اسکی اشاعت کا کوئِی ریفرینس موجود نہیں، ملاحظہ ہو رسالة جورج الثاني إلى خليفة الأندلس


چہارم یہ کہ باقی سوچیں ذرا، کون بادشاہ ایسی بات بولتا ہے اپنے ملک کے بارے میں؟ في بلادنا التي يسودها الجهل من أربعة أركان،

حوالہ جات – رسالة جورج الثاني إلى خليفة الأندلس

Share

November 10, 2021

علامہ اقبال کے گمشدہ دیوان رموز ٹوئٹری کا تنقیدی جائزہ

Filed under: عمومیات — ابو عزام @ 7:46 pm

شاعر مشرق پر سرقے کے الزامات تو کوئی خیر کوئی ایسی نئی بات نہیں-حاسدین نے کہا کہ خوشحال خاں خٹک کا کلام چراتے ہیں، کچھ نے کہا کہ نطشے کے سوپر مین کو مشرف با اسلام کیا اور فلسفہ خودی پڑھا کر جبرا مرد مومن بنایا ، ائن رینڈ کا جان گالٹ بحرحال امتداد زمانہ سے بچا رہا ، کچھ ناخلف حکیم الامت پر فقط رومی کے ریختہ مترجم ہونے کا الزام دھرتے ہیں، لب پہ آتی ھے دُعا بن کے تمنا پر تو بہت سوں کو اصرار ہے کہ میٹیلڈا بیتھم ایڈورڈ کا حوالہ دینا اخلاقی طور پر لازم تھا، پر بھائی ناقدین کی زبان کون پکڑ سکتا ہے ، وہ تو مارٹن لوتھر کنگ کے مقالے میں چوریاں تلاشتے ہیں، عرفی تو میندش زغوغائے رقیباں وغیرہ۔

لیکن آج ہمارا موضوع خود کو مباح الدم قرار دلوانا قطعی نہیں، بلکہ ڈاکٹر اقبال کے گمشدہ دیوان المعروف رموز ٹوئٹری کے فاونڈ فٹیج سے منسوب ، عروض اور وزن کے قید و بند سے آزاد ان اہم اشعار کی طرف احباب کی توجہ دلانا مقصود ہے جو ہمیں جا بجا سماجی رابطے کی سائیٹوں پر ڈبلیو گیارہ کے طغروں کی طرح چسپاں نظر آتے ہیں۔ ضمیر جعفری نے اقبال شناسی کے فقدان کے ضمن میں کہا تھا

بپا ہم سال میں اک مجلس اقبال کرتے ہیں
پھر اْسکے بعد جو کرتے ہیں وہ قوال کرتے ہیں

یہاں وہی کچھ سوشل میڈیا کے قوال جنھیں جاوید نامہ، اسرار و رموز۔ پیامٍ مشرق زبور عجم، پس چہ باید کرد اور ارمغانِ حجاز یقینا ازبر ہیں، منسوبی اور سینہ زوری کی لے پر، مان نا مان یہ تیرا دیوان کے تحت شاعر مشرق کے گمشدہ دیوان کی معرفت کی دھن میں مگن ہیں۔راقم جیسے رجعت پسند کا تو خیال ہے کہ برنابس کی طرح یہاں بھی ایسے ایسے اشعار علامہ کی ایما پر کہے گئے ہیں کہ الامان والحفیظ، یہاں ایما سے مراد جرمن عفیفہ ایما ویگناسٹ ہرگز نہیں، ہر قسم کی مماثلات محض اتفاقی ہے۔ اب یہی دیکھیں مثلا

صبح کو باغ میں شبنم پڑتی ہے فقط اس لئے
کہ پتا پتا کرے تیرا ذکر با وضو ہوکر

یہاں ندرت خیال کے پوائنٹ تو بالکل بنتے ہیں لیکن نثر اور نظم کے درمیان کے اس پل صراط پر چلنا ہم قدامت پرستوں کے لئے تو امر محال تھا – شائد اقبال کی جدیدت کی رگ پھڑکی ہو یا پھر یہ

اپنے کردار پر ڈال کہ پردہ اقبال
ہر شخص کہہ رہا ہے زمانہ خراب ہے

یہ شعر تو وصی شاہ کے دیوان کی طرح قرب قیامت کی نشانی معلوم ہوتا ہے لیکن اگر آپکی تشنگی نہیں ہوئی توماڈرن ارمغان حجاز کے ناوک مژگاں میں تیر بہت۔

حسن کردار سے نور مجسم ہوجا
کہ ابلیس بھی تجھے دیکھے تو مسلمان ہوجائے

اور

ہنسی آتی ہے مجھے حسرت انسان پر
گناہ کرتا ہے خود، لعنت بھیجتا ہے شیطان پر

ہمارا تو واثق گمان ہے کہ ایسی شدید ترین بے وزنی کی کیفیت اور قواعد کی دھجیاں اڑاتے اشعار دیکھ کر انسان کا روز حشر پر ایمان مزید مضبوط ہوجاتا ہوگا کہ ایسے بدبختوں سے تو خدا ہی نپٹے. ہم اس دیوان کو اقبال کا کبھی نا مانتے ، لیکن جب ان فیس بکی اقبال شناسوں نے ہمیں اس دیوان سے یہ تحریف دکھائی کہ

اشعار مرے یوں تو زمانے کے لیے ہیں
کچھ شعر فقط ٹرک کے پیچھے لگانے کے لیے ہیں

تو چار و نا چار ہم نے بھی ہامی بھر لی ، مگر اب اگر اقبال غزل سرا ہو تو کیا کہیں، یہ بھی ملاحظہ کریں

عشق قاتل سے بھی مقتول سے ہمدردی بھی
یہ بتاکس سے محبت کی جزا مانگے گا
سجدہ خالق کو بھی ابلیس سے یارانہ بھی
حشر میں کس سے عقیدت کا صلہ مانگے گا؟

اور تو اور، تنِ حرم میں چھُپا دی ہے رُوحِ بُت خانہ کے مصداق اس کرشمہ ساز دیوان کی مندرجہ زیل رباعی کو ایسے پھیلایا گیا کہ جیسے فیک نیوز سمجھ کے اینٹی ویکسرز نے چُن لیا ہو

تم حیا و شریعت کے تقاضوں کی بات کرتے ہو
ہم نے ننگے جسموں کو ملبوس حیا دیکھا ہے
دیکھے ہیں ہم نے احرام میں لپٹے کئی ابلیس
ہم نے کئی بار مہ خانے میں خدا دیکھا ہے

شومئی قسمت کہیں یا نفرین کشف ، یہ جس کی اذانوں سے فاش سرِ کلیم وخلیل​ کی بے اقبالیاں بھی انہی کے نام سے منسوب ہوئیں کہ

ملاقاتیں عروج پر تھیں تو جواب اذاں تک نا دیااقبال
صنم جو روٹھا ہے تو آج موذن بنے بیٹھے ہیں

اب اس پر تو ہم نے مرزا سے صاف کہہ دیا تھا گر اس فیس بکی طغرے والے شاعر کا سراغ ملا تو مفعول فاعلاتن مفعول فاعلاتن اور فاعلتن فاعلتن فاعلتن سےفاعل و مفعول کی ایف آئی آر درج کروانے کی نوبت آجائے گی۔

اقبالیات کی خاص بات اسکی عالمگیریت ہے، لحاظہ کسی موضوع پر بھی نسبت کی ضرورت ہو، اقبال کا نام لگانے کی دیر ہے، مثلا عالم رویا ہی دیکھیں

سونے دو اگر وہ سو رہے ہیں غلامی کی نیند
ہوسکتا ہے وہ خواب آزادی کا دیکھ رہے ہوں

یا دیار مغرب کی نفی ہو

یہی درس دیتا ہے ہمیں ہر شام کا سورج اقبال
مغرب کی طرف جاو گے تو ڈوب جاو گے

احقر کو غالب گمان ہے کہ پوسٹ کرنے والے نے اسی وجہ سے اقبال کو شاعر مشرق مانا، ورنہ تو بقول اقبال امروزی

دل میں خدا کا ہونا لازم ہے اقبال
سجدوں میں پڑے رہنے سے جنت نہیں ملتی

 گمان ہے کہ یہ والا شعر دیوان میں درج ہوتے ہوتے رہ گیا ہوگا، جبھی اس گمشدہ دیوان میں ملا، ہزاروں سجدے تڑپ رہے تھے اس جبین نیاز میں سے اگلا والا تھا ۔لیکن سجدوں پر فتاوی بھی نئے شاعر مشرق کا ہی ہنر ہے کہ دین مْلّا فی سبیل اللہ فساد

تیرے سجدے کہیں تجھے کافر نہ کردیں اقبال
تو جھکتا کہیں اور ہے، سوچتا کہیں اور ہے

راقم کا خیال ہے کہ یہ تو پیار ہے کسی اور کا تجھے چاہتا کسی اور ہے کی زمین میں لکھا گیا ہے لیکن دروغ برگردن قاری۔ سوچا تھا اور لکھیں لیکن اس نئے دیوان کے مندرجات پڑھنے کے بعد فشار خوں قصر سلطانی کے گنبد پر یہ کہتا پایا گیا کہ اس محفل سے خوشتر ہے کسي صحرا کي تنہائي۔ اب مسرور شاہ جہاں پوری کے اس شعر پر اختتام کرتا ہوں کہ

مرحوم شاعروں کا جو مل جائے کچھ کلام
سرقے کا لے کے جام چلو شاعری کریں

Share

January 19, 2019

نارملائزیشن اور تصور ریاست مدینہ

Filed under: عمومیات — ابو عزام @ 2:12 pm

آج ایک عزیز دوست کی یہ پوسٹ دیکھی تو دلی صدمہ ہوا۔ کچھ عرصے سے ریاست مدینہ کی اصطلاح کی تضحیک کا ایک رجحان نظر آرہا ہے تو سوچا اسکی طرف توجہ مبذول کراتا چلوں۔

نارملائزیشن سے مراد کسی طور طریقے، اصطلاح، یا رواج کو اسطرح عام کرنا ہے کہ اس کو معاشرتی قبولیت حاصل ہوجائے۔ عصری پینڈولم کو دوسری طرف لے جانے یہ طریقہ نہایت کارآمد ہے۔ لفظ خلیفہ یا خلیفۃ المسلمین جو خلافت کا لقب ایک بڑی عزت کا حامل تھا لیکن اسکے برعکس آج جولفظ خلیفہ مستعمل ہے، اس کا قاری و راقم دونوں کو خوب ادراک ہے۔ اسی طرح آجکل اصطلاح ریاست مدینہ کو دانستہ یا نا دانستہ طور پر پھبکی یا سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے جو کہ ہر محب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لئے صدمے کا باعث ہے۔ آپ کو قوم میں ختم النبوت پر دینی حرارت کا پیمانہ جانچنا ہو، یا جنسیت کی ترویج کرنی ہو، استعارات و اصطلاحات کے ذریعے نارملائزیشن ہمارے سامنے ہے لیکن ہمارا فرض ہے کہ ایسی کسی کوشش کے خلاف علمی و عملی جدوجہد کریں۔

مجھے یقین ہے کہ کوئئ بھی مسلمان جان بوجھ کر ایسی حرکت نہیں کرسکتا، نیز اس کے استعمال سے لوگوں کی مراد یہی ہے کہ اگر حکومت کا ماڈل ریاست مدینہ کا تھا تو یہ کیا ہو رہا ہے۔ لیکن اس سے اس سے ریاست مدینہ کی حرمت و احترام کی اہمیت کی شدت کم نہیں ہوتی۔ وہ ریاست جس کی بنیاد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے عدل و انصاف کی بنیاد پر رکھی ہو اس کی تضحیک کسی طور مناسب نہیں۔ اگر کوئئ اس ریاست کے لیبل کو استعمال کرتا ہے تو اس کے عیوب پر بات کرنے میں ظاہر ہے کوئئ عار نہیں لیکن ریاست مدینہ کی اصطلاح کو پھبکی بنا کر نارملائز کرنا بہت معیوب عمل ہے۔

وَمَا عَلَيْنَا إِلاَّ الْبَلاَغُ الْمُبِينُ.
اور ہماری ذمہ داری اس سے زیادہ نہیں ہے کہ صاف صاف پیغام پہنچا دیں

Share

December 7, 2018

بوڑھا

Filed under: عمومیات — ابو عزام @ 5:46 pm

ٹوائلاٹ زون ٹی وی سیریل کی ایک قسط ‘کک دا کین‘ دیکھ کر بڑھاپے کی اصل کا خیال آیا. اس قسط میں ایک سن رسیدہ شخص جو اولڈ ہوم میں اپنے پرانے دوستوں کے ساتھ رہتا ہے اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ ان کے بوڑھے ہونے کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے بچوں جیسے کھیل چھوڑ دیے ہیں اور اپنا بچپنا کھو دیا ہے۔

میری دانست میں بوڑھا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ دنیا اجنبی ہوتی جائے، جن حقیقتوں کے ساتھ آپ پلے بڑے ہوں، وہ تبدیل ہوتی جائیں اور آخرکار چیزیں اس نہج پر پہنچ جائیں کہ مقارب خطوط کے ملنے کا امکان جاتا رہے۔ ایسی دنیا جہاں اشتیاق احمد اور مشتاق یوسفی نا ہوں، جہاں نا خانصاحب کی قوالی ہو اور نا ہی کلاسکل طبعیات کا ایٹم کا وہ ماڈل درست ٹھرے جس میں آپ نے رنگ بھرے ہوں۔ ایسے میں جب کہ آپ جو کچھ درست جانتے ہوں، اس سب پر سوالیہ نشان لگ جائے تو بڑھاپا آجاتا ہے۔

شائد اسکی وجہ یہ ہو کہ آپ مزید سیکھنا چھوڑ دیں، یا ہلنا جلنا چھوڑ دیں تو شائد یہ سن پیری کی علامت بنتا ہو، عین ممکن ہے، خمار بارہ بنکوِی نے بھی ایک درد بھری کہی کہ ایسا نہیں کہ ان سے محبت نہیں رہی لیکن قاسمی صاحب اچھے رہے کہ

ہم کو تو بڑھاپے نے کہیں کا بھی نہ چھوڑا
محرومی جذبات کو بیٹھے ہیں چھپائے
خوش ہوتے ہیں ہم لوگ اگر کوئی حسینہ
اس عمر میں ہم پر کوئی تہمت ہی لگائے

Share

October 29, 2013

مطالعہ2.0 – ای ریڈر، صوتی کتب اور قدامت پسند کتابی کیڑے

  مندرجہ ذیل تبصرہ ، ۔ کنڈل، پیپروائٹ، آئ پیڈ، نک، وغیرہ کے بارے میں یہ راے ہماری ای بک ریڈرز کے ساتھ  کئی سالوں کی رفاقت و رقابت کے تجربوں کا نچوڑ ہے اور قاری کا  نشان میل بالکل مختلف ہوسکتا  ہے۔

برقی کتاب یا ای بک سے ہماری دیرینہ عداوت کوئ ڈھکی چھپی پات نہیں۔ جس کتاب کو لائبریری سے اٹھنی میں مستعار لے کراور درسی کتابوں میں چھپا کر نا پڑھا جاسکے، جس کے صفحات نا مروڑے جا سکیں اور پسند نا آنے پر دوست کے سر پر نا مارا جاسکے، وہ موئ کتاب ہی کیا۔ اب تو سائنسدانوں کا بھی یہ کہنا ہے کہ دماغ کو کتاب کے لمس و زماں سے بڑی انسیت ہے۔ گئے دنوں کی بات ہے کہ پی آئ بی کالونی میں “آپ کی لائبریری” سے کتابیں لایا کرتے تھے، پھر فایف سی فور نارتھ کراچی میں ایک خوب لائبریری ملی، پڑھائ کے لئے لیاقت نیشنل لائبریری کی بھی کیا ہی بات تھی، پھر ہمارے اور عبدالقدیر خانصاحب کے المامیٹر ڈی جے کالج کی لائبریریاں بھی اپنی مثال آپ تھیں۔ جامعہ کراچی میں تو  ڈپارٹمنٹ کی  سیمینار لائبریری (راشد بھائ کا اصطلاح یاد دلانے کا شکریہ) اور محمودالحسن لائبریری موجود تھیں اور پھر بعد میں ہم نے لائبریری آف کانگریس اور برٹش نیشنل لائبریری کی رکنیت بھی حاصل کی۔ غرضیکہ کتابیں پڑھیں یا نا پڑھیں، کتابوں کے درمیان رہنے کا سامان   ہمیشہ میسر رہا جیسا کہ جون ایلیا نے کہا

میرے کمرے کو سجھانے کی تمنا ہے تمھیں
میرے کمرے میں کتابوں کے سوا کچھ بھی نہیں

مگر یہ تو جناب جملہ معترضہ تھا، ٓآتے ہیں اصل بات کی طرف

books

 ۔پھر یہ ہوا کہ ائ بکس کا چلن شروع ہوا کہ مالیکیولز کی نسبت الیکٹرونس کو حرکت دینا کفایت شعاری ہے۔ ہم نے بھی بقیہ تمام کرمکین حاسب کی طرح پہلے پہل پی ڈی ایف کمپیوٹر پر پڑھیں۔ ہمارا پہلا باقاعدہ ای بک ریڈر آی پیڈ فرسٹ جینیریشن تھا۔ یہ تجربہ مگر کچھ زیادہ کامیاب نا رہا کیونکہ آئ پیڈ میں دیگر ایسے خلفشار ذہن موجود ہوتے ہیں کہ مطالعہ کا سکون میسر نہیں ہوتا۔  پھر ہم نے تقریبا دو سال قبل کنڈل فرسٹ جینیریشن خرید کر اس پر کتابیں پڑھنا شروع کیں۔ کنڈل پر کتاب پڑھنا شروع میں تو مشکل لگا لیکن جب ہم نے اسکا استعمال گھر سے باہر خصوصا ساحل سمندر پر کیا تو کتابیں اٹھا اٹھا  کر نا پھرنے کی سہولت کچھ اچھی لگی

reading

لیکن پھر بھی درخت خشکیده کی کتابیں ہمیشہ ترجیح رہیں کہ چھٹتی نہیں منہ سے یہ کافر۔ کنڈل میں پی ڈی ایف پڑھنا خصوصا ایک جنجال ہوتا ہے۔ فانٹ ایڈجسٹ کرنے میں اور صفحات کو صحیح طور پر دیکھنا  خصوصا اگر کتاب تکنیکی ہو اور تصاویر یا  کوڈ پڑھنا ہو تو آئ پیڈ یا کمپیوٹر کی بڑی اسکرین ہی بہتر حل نظر آیا۔

DSCN8245

ان تمام تجربات کے دوران ہم نے صوتی کتب کا استعمال نا چھوڑا۔ اکژ ایسا ہوتا کہ گھر پر ایک کتاب شروع کی، دفتر جاتے ہوے راستے میں اسی کا صوتی ورژن گاڑی میں سنا، لنچ بریک میں اسی کتب کو کنڈل پر پڑھا، طویل بے مقصد میٹنگز کی بوریت مٹانے کے لئے اسی کو لیپ ٹاپ یا آئ پیڈ  میں پڑھتے رہے اور دفتر سے واپسی پر صوتی کتاب اور پھر اصل کتاب رات کو۔ فکشن کتب کے ساتھ یہ خوب چلتا ہے جیسا کہ اوپر والی تصویر میں ڈین براون کی انفرنو کو مختلف اشکال کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔

Screenshot_2013-10-29-22-04-57

اس کے بعد ہم نے کنڈل فائر کو بھی کچھ عرصہ استعمال کیا لیکن یہ ٹیبلٹ محض ایک کم قیمت و کم ظرف آئ پیڈ ہے اور اپنے پیشرو کنڈل کی طرح مطالعے کے لئے کوئ خاص سہولت نہیں دیتا۔ اسکی اسکرین چونکہ سادہ کنڈل کی طرح ای انک نہیں لہذا ہم نے اسے نا تو اچھا ای ریڈر پایا اور نا ہی ڈھنگ کا ٹیبلٹ۔  بارنس انینڈ نوبل کا نک بھی کچھ دنوں استعمال کیا کہ ہمارے ایک عزیز اس کے پراڈکٹ مینیجر ہیں۔ ان کی دل آزاری مقصود نہیں لیکن نک کے لئے آسان الفاظ میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ کوا چلا ہنس کی چال اور اپنی بھی بھول گیا۔ یہی کچھ میں نوٹ ۲ اور دیگر فیبلیٹ متعلقین کے بارے میں بھی کہوں گا۔

audiobook

نان فکشن کتب بمع السٹریشنز، ریسرچ آرٹیکلز اور درسی کتب کے لئے بھرحال ابھی تک ہمیں آئ پیڈ اور کاغذی کتاب کا کوئ اچھا متبادل نہیں ملا۔ خصوصا جب سے راقم نے “نیا آئ پیڈ” ریٹینا ڈسپلے استعمال کرنا شروع کیا۔  مثلا اگر آپ کو پائتھن فار ڈمیز پڑھنی ہے تو اسکی عکاسی و اشکال کے بہتر مطالعے کے لئے  آئ پیڈ یا کاغذی کتاب ہی درست وسیلہ ہے۔ حال ہی میں ہم نے اپنا پرانا کنڈل ایک دوست کو ہدیہ کیا اور نیا کنڈل پیپر وائٹ استعمال کرنا شروع کیا ہے۔ ابھی تک اس پر دو تین کتابیں ہی پڑھی ہیں اور پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ “انٹرپریٹیشن آف اے مرڈر” کی کاغذی کاپی کے بجاے اس کی کنڈل شکل کو ترجیہ دی ہو۔ اس کی تین اہم وجوہات تھیں۔ ایک تو اس کی اسکرین آئ پیڈ کی طرح کچھ دیر بعد آنکھوں کو نہیں چبھتی ،  دوسرا یہ کہ اس کی بیک لٹ کی وجہ سے اسے رات کے وقت سونے سے پہلے اندھیرے میں بھی دوسروں کو تنگ کئے بغیر (عقلمند کے لئے اشارہ کافی)  اچھی طرح پڑھا جاسکتا ہے، اور تیسرا یہ کہ فانٹ سائز تبدیل کرنا اسکے ٹچ اسکرین ہونے کی وجہ سے نہایت آسان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مارک رسانوچ کی ٹروجن ہارس کا مطالعہ بھی راقم اسی طرح کر رہا ہے۔

20131029_220215

 اس نئے کنڈل کا گرویدہ بننے کی ایک اور وجہ وسپر سنک   کا استعمال ہے۔ راقم آجکل محترمہ مریم جمیلہ پر لکھی گئی کتاب “اے کنورٹ” کا دوبارہ مطالعہ یا رفریشر چل رہا  ہے۔ اب میں جہاں پر کنڈل میں اسے چھوڑتا ہوں، آڈیبل کی صوتی کتاب اسے وہیں سے دوبارہ شروع کردیتی ہے اور پھر جہاں سے سننا ختم ہوتا ہے، کنڈل اسے دوبارہ اسی صفحے پر “سنک” کردیتا ہے۔


20131029_220108      Screenshot_2013-10-29-22-04-30

صوتی کتب اور ائ بکس میں بحرحال مومینٹو کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ ڈیجیٹل نیٹوز کا تو نہیں پتا لیکن ہم پرانے لوگ تو کتاب کے لمس سے، صفحات پر سالن کے دھبوں سے اور دیگر زمانی و مکانی نشانیوں سے چیزوں کو یاد رکھتے ہیں۔ مومینٹو کی کمی ہمیشہ اس بات کا شدید احساس دلاتی ہے کہ آپ زمان و مکاں کی حدود سے دور کہیں الیکٹرونز  کی سرزمین پر بے وزنی کی کیفیت میں ہیں جہاں کتابوں کی ابتدا و انتہا و درمیان سب ایک ہی طرح کے ہوتے ہیں۔ مثلا  کتاب “پطرس کے مضامین” کے میرےمطالعے میں آنے والے  پہلے  نسخے میں جسے راقم نے بلامبالغہ ہزار مرتبہ پڑھا ہوگا، میبل اور میں کے دو صفحات غائب تھے، جب میں نے پہلے دفعہ انہیں کہیں اور سے پڑھا تو کچھ  عرصے تک یقین نا آیا کہ یہ اسی مضمون کا حصہ ہیں، وہ تشنگی مضمون کا حصہ بن کر رہ گئی تھی, اب سوکھے ہوے پھول ای بکس میں تو نہیں مل سکتے نا قبلہ، بہرحال۔

قصہ مختصر، راقم کا کلیہ مطالعہ کچھ یوں ہے۔

فکشن کتب : صوتی کتاب، کنڈل

نان فکشن اور درسی کتب مع تصاویر: آئ پیڈ، لیپ ٹاپ یا کاغذی کتاب

نان فکشن کتاب بغیر تصاویر و کوڈ : کنڈل

ابھی تک کنڈل پیپر وائٹ کو بہرحال بہترین ریڈر پایا ہے۔ قارئین کا تجربہ جاننے کا متمنی رہوں گا۔

ما ز آغاز و زنجام جہاں بے خبریم
اوّل و آخرِ ایں کہنہ کتاب افتادہ است

Share

May 5, 2013

المشاہدات فی کراوڈ سورس ایس ایم ایس شاعری

Filed under: ادبیات,شاعری,طنزومزاح,عمومیات,مشاہدات — ابو عزام @ 1:01 pm

اپنی کم علمی میں ہم ہمیشہ یہی سمجھتے رہے کہ اردو شاعری پر جو ستم وصی شاہ نے ڈھاے ہیں، اسکی نظیر تاریخ کبھی نا پیش کر سکے گی لیکن ہمت کرنے والوں نے دل کی گلیوں پر بھی بہت کچھ لکھ مارا جس پر تبصرے کے لئے استاذ جعفر کا پریشاں ہیں پِنڈ کی جھَلّیاں، قاطع برہان ہے۔  یہ تو خیر جملہ معترضہ تھا، اصل موضوع ہے  حضرت اقبال و فراز کے ایس ایم ایس دیوان جنہیں برادرم راشد کامران ہیش ٹیگ و کراوڈ سورس شاعری قرار دیتے ہیں ۔ اس ضمن میں ہمارا تو یہی موقف رہا کہ

فراز کے الٹے سیدے شعر بنانےسے یہ باز نہیں آتے اقبال
بہت ان نوجوانوں کو سمجھا کے دیکھ لیا

اب یہ چلن اسقدربڑھا کہ اچھے خاصے ڈھنگ کے لوگوں کوبھی اقبال کے نام پر بے بحر و اوزان کے ایسے اشعار منسوب کرتے دیکھا ہے کہ اس سے انکے نجیب الطرفین ہونے پر شک ہونے لگتا ہے۔ دریافت کرو تو جواب میں ڈھٹائ سے فرماتے ہیں کہ یہ تازہ دریافت، بحر و اوزان سے آزاد علامہ ہی  کا کلام ہے، میں نے خود پڑھا ہے بانگ درگاہ ایس ایم ایس ایڈیشن میں۔ مثلا مندرجہ زیل فوٹوشاپئے ہی ملاحظہ ہوں

268785_4472773623475_1426899029_n

اس پر انور مسعود صاحب کا یہ شعر خوب لاگو ہوتا ہے کہ

اک اتائی کر رہا تھا ایک مجمع سے خطاب
یاد ہے بس ایک ٹکڑا مجھ کو اس تقریر کا
بات ہے بانگِ درا میں، شیخ سعدی نے کہی
’’صبح کرنا شام کا‘ لانا ہے جوئے شیر کا‘‘

21216_10151463979022585_412146928_n

سنجیدہ شعر میں تحریف کر کر اسے مزاح کا رنگ دینا ایک قابل تحسین ہنر ہے۔ لیکن موجودہ تضمین سے شگفتگی کی صنف بنانے کا معیار و مزاج ، سوشل میڈیا کی ہی طرح کا ‘سطحی’ ہے۔  وہ دن ہوا ہوے جب عنایت علی خان یا پاپولر میرٹھی کس خوبی سے کہا کرتے تھے
حسن والوں نے کیا ہے بہت جم کے پتھراؤ
تیرے سر میں تو بہت کام رفو کا نکلا
یا پھر علّامہ کا یہ سنجیدہ شعر
مانا کہ ترے دید کے قابل نہیں ہوں میں
تو مرا شوق دیکھ مرا انتظار دیکھ
تھوڑی سی تحریف سے کیا خوب ہوا۔
مانا کہ ترے دید کے قابل نہیں ہوں میں
تو مری کار دیکھ مرا کاروبار دیکھ
اور امیر الاسلام ہاشمی
عمر تو ساری کٹی عشقِ بتاں میں مومنؔ
آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گے
نے کس قدر ‘نازک’ موضوع پر خامہ فرسائ کی
نائی آئے گا تو یہ کہہ کے گریزاں ہوں گے
’’آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گے‘‘
 اب تو یہ حال ہے کہ

اب تو ڈر لگتا ہے کھولنے سے بھی دراز
کہیں ایسا نہ ہو کہ اس میں‌سے بھی نکل آئے فراز

علامہ کے ساتھ تو یہ ظلم تو اکثر لوگوں کو کھلتا ہے لہذا انجمن اقبالیات شمالی امریکہ نے اس ضمن میں ایک مہم چلائ،برسبیل تذکرہ انجمن پر تو ضمیر جعفری نے خوب کہا تھا

بپا ہم سال میں اک مجلس اقبال کرتے ہیں
پھر اْسکے بعد جو کرتے ہیں وہ قوال کرتے ہیں

487288_10151081453451505_527155786_n

یا پھر چلیں عطا الحق قاسمی صاحب کی ہی سن لیں کہ اقبال کی شاعری کو بین کردیا جاے۔ لیکن کہے دیتے ہیں کہ نقل کفر کفر نا باشد۔ کل کو ہم کاغذات نامزدگی داخل کرانے جائیں اور آپ ہمارا یہ مضمون پیش کریں تو یہ اعلان برات ہے ۔

398988_10150889305091505_2061535367_n

محترم ڈفر نے اس ضمن میں فرازکا ایک ایس ایم ایس دیوان  مرتب کیا تھا جو کہ خاصہ دلچسپ ہے۔   تخلیقی کیفیت توکراوڈ سورس شاعری میں بھی کچھ کم نظر  نہیں آتی، لیکن یہ زیادہ تر ‘فراز’ کی ہی سخن پروری ہے، مثلا دیکھیں۔

فراز کی شادی میں ہوئے اتنے پھول نچھاور
کیمرہ میں فراز کے ساتھ جیو نیوز پشاور

یا پھر

ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز
اور ان کی جوتیاں لے کے بھاگ گیا فراز

 اور یہ رعایت تو خصوصا لائق ستائش ہے

وہ ہمیں بے وفا کہتے ہیں تو کہتے رہیں فراز
امی کہتی ہیں جو کہتا ہے وہ خود ہوتا ہے

دیگر زبانوں کے امتزاج سے بھی بہترین اشعار وجود میں آتے ہیں اور ثابت ہوتے کہ فراز ایک عالمگیر شاعر ہے، محض اردو میں اسے مقید نہیں کیا جاسکتا، مثلا

مجھ سے لوگ ملتے ہیں میرے اخلاق کی وجہ سے فراز
ہور میرے کوئی سموسے تے نئیں مشہور

اور

اتنا سن کر ہی ہمارا دل ٹوٹ گیا فراز
the number you have dialed is busy on another call

اور دیگر ماحولیاتی و امن عامہ سے متعلق عوامل بھی دیکھیں

 

اس گلی اس وجہہ سے جانا چھوڑ دیا فراز
وہ کمینے نوکیا گیارہ سو بھی چھین لیتے ہیں

ظالموں نے تو مغل اعظم کو بھی نہیں بخشا

اس نے مجھے رات کو اکیلے جنگل میں چھوڑ دیا فراز
یہ کہہ کر کہ جب پیار کیا تو ڈرنا کیا

فیس بک کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو حضرت اقبال پر بہتان لیکن ہمیشہ کچھ سنجیدہ سا لگتا ہے، اسقدر کہ اسے خود کو یقین دلانے کے لئے دوبارہ پڑھنا  پڑھتا ہے۔

تم حیا و شریعت کے تقاضوں کی بات کرتے ہو
ہم نے ننگے جسموں کو ملبوس حیا دیکھا ہے
دیکھے ہیں ہم نے احرام میں لپٹے کئی ابلیس
ہم نے کئی بار مہ خانے میں خدا دیکھا ہے

یا پھر

عشق قاتل سے بھی مقتول سے ہمدردی بھی
یہ بتا کس سے محبت کی جزا مانگے گا؟
سجدہ خالق کو بھی ابلیس سے یارانہ بھی
حشر میں کس سے عقیدت کا صلہ مانگے گا؟

اب ان اشعار کو پڑھنے کے بعد ہم پر تو حضرت علامہ کی لحد میں لوٹ پوٹ پر نہایت افسوس کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ فراز ایس ایم ایس نے تو اس کیفیت  پر بھی ایک شعر کہا ہے، ملاحظہ ہو

ہم تو اس قبر میں بھی سکوں میسر نہیں فراز
روز آکر کہتا ہے شیطاں کہ استاد آج کوئی نیا شعر ہوجائے 
ایس ایم ایس اشعار کا ذخیرہ تو لا امتناہی ہے مگر کچھ خیال خاطر احباب کی خاطر اس کو مختصر رکھتے ہیں اور مندرجہ زیل اشعار پر تمت بالخیر کہتے ہیں
اگر اقبال پر ہوتی رہیں انــگـلش میں تـقـریریں
بدل جائیں گی اک دن دیکھنا ملت كى تقديريں
سیل فـون اک ہاتھ میں ہے ایک میں ریمـوٹ!
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں

حوالہ جات

ہیش ٹیگ شاعری

جی ڈھونڈتا ہے

فراز، ایس ایم ایس دیوان

Share

April 30, 2013

محمد عبدالغنی، ایک عہد ساز شخصیت

Filed under: عمومیات,مشاہدات — ابو عزام @ 6:43 pm

میرے بزرگ محمد عبدالغنی کو ہم سے جدا ہوے آج چھ برس کا عرصہ ہو چلا ہے۔ اس ضمن میں ایک یادگاری مضمون قارئین کی نظر ہے۔ اللہ تعالی ان کی مغفرت فرماے، آمین۔

دی شیخ با چراغ ہمی گشت گردِ شہر
کز دیو و دد ملولم و انسانم آرزوست

اخلاق و شرافت ، علم دوستی، شائستگی و تہذیب ، بلند حوصلگی ، وسعت قلب و فکر ، وضعداری و پاسداری اور انسانی ہمدردی جیسے الفاظ ان صفات میں سے صرف کچھ ہی کا احاطہ کر سکتے ہیں جن سے محمد عبدالغنی کی نابغہ روزگار شخصیت متصف تھی۔اسم با مسمی عبدالغنی کی تمام زندگی ضرورت مندوں کی دامے، درمے اور سخنے مدد سے عبارت تھی جس روایت کو انکی اہلیہ و اولاد نے زندہ رکھتے ہوئے عم محترم کے لئے صدقہ جاریہ کا التزام رکھا۔ آپ کی مکمل شخصیت کا احاطہ کرنا اس مختصر مضمون میں تو چنداں ممکن نا ہوگا لیکن میں‌ کچھ چیدہ چیدہ نکات قارئین کے سامنے پیش کرنا چاہوں‌ گا۔

9 جنوری 1924 کو برٹش انڈیا کے صوبہ مہاراشٹر کےشہر پربنی میں آپ کی پیدائش ہوئی جو حیدرآباد دکن سے تقریبا دو سو میل کے فاصلے پر ہے۔ یہاں سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد سیکنڈری تعلیم کے حصول کے لئے آپ اورنگ آباد چلے گئے۔ بعد ازاں آپ نے جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن میں داخلہ لیا جو کہ برطانوی راج میں غیر منقسم ہند کے بہترین تعلیمی اداروں میں سے ایک تھی اور اسے انڈیا کی آکسفورڈ اور کیمبرج کا درجہ دیا جاتا تھا۔ یہاں سے آپ نے 1941 میں انٹرمیڈیٹ کے امتحانات میں علم کیمیا کے اندر پوری جامعہ میں پہلی اور علم طبعیات میں چوتھی پوزیشن حاصل کی۔ 1943 میں آپ نے کیمیا، طبعیات، ریاضی اور انگریزی کے ساتھ بی ایس سی کی تعلیم مکمل کی اور ماسٹرز میں داخلہ لیا۔ یہ وہ وقت تھا جب عمومی طور پر لوگوں کا تعلیم کی طرف رجحان نا تھا لیکن غنی صاحب نے دور اندیشی کا ثبوت دیتے ہوئے اعلی تعلیم کو اپنی کلید کامیابی قرار دیا ۔اکیس سال کی عمر میں1945 میں اطلاقی کیمیا میں ماسٹرز میں فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن حاصل کرنے کے بعد آپ نےمزید اعلی تعلیم کے حصول کے لئے جامعہ عثمانیہ کو خیر آباد کہا اور محقق کے طور پر سرکاری اسکالرشپ پر برطانیہ روانہ ہوئے ۔ غیر ملکی تعلیم کے لئے سرکاری وظیفہ حاصل کرنا ایک بڑا اعزاز تھا جسے محمد عبدالغنی نے اپنی محنت اور ذہانت سے حاصل کیا اور ہر سطح پر اپنی قابلیت کا لوہا منوایا ۔ آپ نے نارتھ اسٹیفورڈشائر تکنیکی کالج سے 1946-47 کے درمیان پروڈکشن مینیجمنٹ، پاٹری، مشین ڈراینگز، ورکشاپ ٹیکنالوجی، اطلاقی طبعیات جیسے گیارہ کلیات میں مینیجر کا کورس مکمل کیا جبکہ پاٹری اور سرامکس کے دیگر چھ کلیات میں ڈپلوما کی تعلیم حاصل کی۔ دو سال کے اندر ان تمام اسباق میں مہارت آپکی ذہانت، لگن اور محنت کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔

برطانیہ سے واپسی پر آپ نے بھارت کے بجاے پاکستان کو اپنی سرزمیں کے طور پر چنا اور سندھ گورنمنٹ میں‌ ڈپٹی ڈیولپمنٹ آفسر کے طور پر فرایض انجام دئے۔ نوزائدہ مملکت خداداد کو اسوقت جن مسائل اور چیلینجز کا سامنا تھا، ان میں‌ محمد عبدالغنی کی شخصیت اور ذہانت رکنے والے لوگوں کی اشد ضرورت تھی جو کہ اس نئے ملک کی تعمیر و ترقی کی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے اس کار گراں کا بوجھ اٹھا سکیں۔ آپ نے یہ ذمہ داری نہایت بخوبی نبھائی اور زیل پاک سیمنٹ فیکٹری، دادو‌خیل سیمنٹ فیکٹری اور میپل لیف سیمنٹ فیکٹری کی داغ بیل ڈالی۔ 1955 سے 1960 کے عرصے میں‌آپ نے میپل لیف سیمنٹ فیکٹری کے مینیجر اور زیل پاک کے ایڈمنسٹریٹیو افسر کے فرائض انجام دئے۔ آپ کی صلاحیتوں اور قابلیت کو دیکھتے ہوئے آپ کو پی آی ڈی سی کے جنرل مینیجر (سیمنٹ) کے عہدے پر فائز کیا گیا جہاں سے آپ 1961 سے 1971 کی دہائی میں زیل پاک سیمنٹ فیکٹری، دادو‌خیل سیمنٹ فیکٹری، جنرل ریفیکٹریز اور میپل لیف سیمنٹ فیکٹری کو بخوبی چلایا۔ اس ایک دہائی کے دوران ان فیکٹریز کی مکمل ذمہ داری آپ کے کاندھوں پر تھی جس میں‌ مارکٹنگ، پلاننگ، مینیجمنٹ، آرگنائزیشن، لیبر تعلقات وغیرہ شامل ہیں۔ اس دوران آپ نے نا صرف پروڈکشن میں کئی گنا اضافہ کیا بلکہ مشرق وسطی میں پاکستانی سیمنٹ کی کھپت کے لئے نئی منڈیوں کی تلاش کا سہرہ بھی غنی صاحب کے ہی سر جاتا ہے۔آپ ایک ‘سیلف میڈ’ انسان تھے اور ‘ہم وہ نہیں کہ جن کو زمانہ بنا گیا’ کی عملی تفسیر۔ اسی وجہ سے آپ نے ہمیشہ لوگوں‌ کو نامصائب حالات میں محنت کرنے اور اپنی مدد آپ کرنے کی تلقین کی۔

1971 میں حکومت وقت کے سیمنٹ فیکٹریوں کے قومیاے جانے کا فیصلہ کیا جس کو بعد میں تاریخ نے ایک سنگین غلطی ثابت کیا،۔ اس عرصے میں آپ نے 1972 سے 1976 تک اسٹیٹ سیمنٹ کارپوریشن، جاویداں سیمنٹ فیکٹری کے مینیجنگ ڈایریکٹر کے فرایض انجام دیئے۔ جو لوگ پاکستان کی سیمنٹ کی صنعت کے لئے آپ کی دیرینہ خدمات سے آگاہ ہیں وہ آپ کو کئی حلقہ جات میں پاکستان کی اس صنعت کا قائد اور ‘باباے سیمنٹ’ کہتے ہیں۔ لیکن اجتماعی طور پر ہماری احسان نا شناس قوم نے آپ کی خدمات کو قومی سطح پر سراہنے کے بجائے اسے بھلا دیا۔

محمد عبدالغنی کے وسیع تجربے اور قابلیت سے دیگر ممالک نے بھی فائدہ اٹھایا۔ آپ نے بہاما سیمنٹ کمپنی اور گلف گروپ آف کمپنیز میں کنسلٹنٹ کے فرائض انجام دئے اور ان اداروں کی مدد سے کئ ممالک بشمول فلپائن میں‌ سیمنٹ کی صنعت کی داغ بیل ڈالنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ بعد ازاں آپ نے روسکیم انٹرنیشنل ہیوسٹن میں بھی کنسلٹنٹ اور ایڈوائزر کے طور پر کام کیا جس کے بعد بینکرز ایکیوٹی نے قرضہ جات کے تعین اور اندازہ کے لئے اپریزر کے طور پر آپ کی ماہرانہ خدمات حاصل کئیں۔

ہمہ از آدمیم ما، لیکن

او گرامی تر است کُو داناست

کسی بھی نئی صنعت کے قیام کے لئےتجربے، وسائل اور پرزہ جات کی کی شدید ضرورت ہوتی ہے۔ اس زمن میں آپ نے بیرون ملک سفر کئے اور کئی کلیدہ معاہدوں کے تحت پاکستان کی سیمنٹ کی صنعت کو اسکی بنیادی ضروریات بہم پہنچائی ۔ ان دوروں کے تحت آپ ڈنمارک، امریکہ، فرانس، مغربی جرمنی، یوکے، سویٹزرلینڈ، سویڈن، اٹلی، چیکوسلاواکیا، ایران، سعودی عرب، جاپان غرضیکہ مشرق وسطی اور بعید کے کئی ممالک سے معاہدے کئے نیز وہاں کے پلانٹس سے حاصل کئے تجربات کو پاکستانی سیمنٹ کی صنعت کی بہتری کے لئے استعمال کیا۔

ان تمام پیشہ وارانہ قابلیتوں کے بعد بھی عبدالغنی صاحب تمام عمر ایک سادہ اور منکسر مزاج انسان کے طور پر جانے جاتے رہے۔ آپ نے ہمیشہ اپنے ضرورت مند عزیز و اقربا کی دامے درمے سخنے مدد کی ۔ آپ نے کبھی ظاہری دکھاوے کو اپنا شعار نہ بنایا بلکہ ہمیشہ لوگوں کو اس بات کی تلقین کی کہ وہ اپنی ترجیحات صحیح طرح متعین کریں۔ان کی جدوجہد اور ترقی ہمیشہ سے میرے لئے ذاتی طور پر ایک مثال رہی ہے۔ وہ مجھ سے ہمیشہ میری تعلیم کے بارے میں پوچھا کرتے تھے۔ جب میں آٹھ سال کی عمر میں‌ اپنا پہلا کمپیوٹر سرٹیفیکیٹ ان کے پاس دکھانے لے گیا تو بہت خوش ہوئے اور شاباشی دی۔ ان کی اہلیہ ناہید غنی نے بھی بہت حوصلہ افزائی کی اور انعام کے طور پر سو رپے دیے جو میرے لیئے ہمیشہ ایک بیش بہا خزانے کی اہمیت رکھیں گے۔ اپنی اولاد کو بھی انہوں نے اعلی تعلیم دلوائی اور ہمیشہ انسانی ہمدردی اور رواداری کی تلقین دی جو آج بھی ان کی زندگی کا جزو لا ینفک ہے۔ سادہ و منکسر چچا جان اپنی تعریف کے قطعی قائل نا تھے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر میرا یہ مضمون پڑھ لیں تو ضرور کہتے کہ میاں اپنی پی ایچ ڈی کی تعلیم پر توجہ دو، یہ کہاں تم مدح سرائیوں میں لگے ہو۔

m a ghani adnan masood childhood

مجھ کو دہراؤ گے محفلوں میں مثالوں کی طرح

اپریل 2007 کے آخری ہفتوں کی بات ہے کہ خبر ملی کہ چچا جان صاحب فراش ہیں۔ شام کو اپنی والدہ کے ہمراہ ان سے ملنے یو سی ایل اے میڈیکل سینٹر گیا تو ان کے گرد تمام گھر والے جمع تھے ۔ انہیں دوسروں کے آرام کا اسقدر خیال تھا کہ عیادت کرنے تو میں گیا تھا مگر الٹا مجھ سے ہی پوچھنے لگے کہ راستے میں کہیں ٹریفک تو زیادہ نہیں ملا اور سفر میں مشکل تو نہ ہوئی۔ کچھ دیر بعد جب میں نے اجازت لی اور کہا کہ انشااللہ کل ملاقات ہوگی تو میرے وہم و گمان میں بھی نا تھا کہ یہ میری ان سے آخری ملاقات ہے۔ اگلی صبح شاہد بھائی کا فون آیا کہ پاپا کا انتقال ہو گیا ہے۔

اناللہ وانا علیہ راجعون

آپ کی تدفین میں‌ لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ دنیا بھر سے رشتے داروں اور دوستوں کے تعزیتی پیغامات کا تانتا بندھا رہا۔

بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا

لیکن سب سے اہم چیز جو انہوں نے اپنے میراث میں چھوڑی وہ متاع دنیا یا شہرت نہیں بلکہ اپنی اولاد اور خاندان والوں میں علم دوستی اور انسانی ہمدردی کا جذبہ تھا۔ آج انکا پوتا منصور غنی امریکہ کی جامعہ ییل کا طالبعلم ہے جو کئی امریکی صدور کی علمی و فکری درسگاہ رہی ہے۔ علم کی اہمیت کا یہ بیج بونے کا سہرا اس کے دادا ہی کے سر رہے گا .

آپ کی علمی و تکنیکی صلاحیتوں کا ایک زمانہ معترف تھا۔ انکے ایک ماتحت اور میرے عزیز دوست کے والد بیان کرتے ہیں کہ “میں نے غنی صاحب جیسا ایماندار، ڈسپلنڈ اور نظم و ضبط کا پابند افسر اپنی تیس سالہ سروس میں آج تک نہیں دیکھا۔ ان کو جھوٹ، رشوت، سفارش سے سخت چڑ تھی اور قاعدے قانون کی پابندی انکی پیشہ وارانہ زندگی کا نہایت اہم جز”۔

حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

photo

Share

April 6, 2013

میراتھن دوڑنے کا غلط طریقہ – لاس اینجلس میراتھن کی تصویری روداد

Filed under: سفر وسیلہ ظفر,طنزومزاح,عمومیات,مشاہدات — ابو عزام @ 8:58 am


LA-Marathon-FEATURE

آپ اسے شعراء اور ادباء کی نازک مزاجی کہئیے یا کچھ اور کہ اردو نثر و نظم میں دوڑنے والے کا کچھہ زیادہ تذکرہ نہیں ملتا. مرزا نوشہ تو دھول دھپے کے قطعی قائل نہ تھے اور نہ ہی رگوں میں دوڑنے پھرنے کے، اور یوسفی تو اپنی ناسازی طبع کا رونا کچھ یوں روتے ہیں کہ اچھے اچھوں کی آنکھیں بھر آئیں.اب بلاگ چونکہ اردو ادب کی تیسری صنف ٹھہری تو لہٰذا کچھ غیر ہم آہنگی تو لازم ہے.۔ وہ جو کہتے ہیں کے جب گیڈر کی موت آتی ہے تو وہ شہر کی طرف بھاگتا ہے،راقم کی جو شامت آئی تو ہم نے سانٹا مونیکا کی طرف بھاگنے کا عزم کیا.۔ 

2013_LAM_8.5X11_Coursemap_final_outlined

ٹورینٹینو کی فلموں کی طرح اس بیک اسٹوری کی بھی کچھ بیک اسٹوری ہے، اصل میں قصّہ کچھ یوں ہے کہ ہمارے عزیز دوست راشد کامران کی میراتھن سے قبل ازوقت ریٹائرمنٹ کے بعد دیسیوں کے قومی وقار، تناسب اندام اور تندرستی صحت کو برقرار رکھنے کی ذمہ داری ہمارے نازک کندھوں پر آ پڑی۔لیکن اب اس جثے کے ساتھ بھاگنا ایک امر دشوار ٹھرا، تو باتوں باتوں میں ایک دوست عزیزم اسٹیون سانگ سے یہ شرط لگی کہ ستمبر ۱۲’  تک جو شخص ایک سو پینسٹھ پاؤنڈ تک وزن کم کرلے گا۔ وہ گویا یہ روپے پیسے کے بغیر لگنے والی شرط جیتے گا اور ہارنے والا فیس بک پر اپنے اسٹیٹس میں اپنے آپ کو سخت سست قرار دیتے ہوئے دوسرے فریق کی خوب تعریفیں کریگا. نیزشرط کے مندرجات میں مزید یہ بات بھی شامل تھی کہ ہارنے والا یا والے ایک عدد مراتھن دوڑینگے اور اسکا وقت راقم کے لیے پانچ گھنٹے تیس منٹ اور اسٹیون کے لیے چار گھنٹے تیس منٹ کے برابر یا اس کم ہونا چاہیے ۔ اب اگر یہ وقت بھی نہ ہو پایا تو اس نتیجے میں ہارنے والا یا والے، دوسرے فریق کی مرضی کی تین عدد کتابیں پڑھیںگے اور اس پر  تبصرہ کرینگے جو ایمازون پر شائع کرنا لازم ہے. اب اس قدر پیچیدہ شرط کی مندرجات کے بعد ہم نے وزن کم کرنے پر عمل درآمد شروع کیا اور رمضان کی برکت سے ایک سو ستر پاؤنڈ پہ آگۓ، لیکن  ستم گر کو ذرا روا نہ ہوا کہ پانچ پاؤنڈ ادھر یا پانچ پاؤنڈ ادھر کو معاف کیا جاۓ اور مجبورا ہم دونوں کو ہی میراتھن کی رجسٹریشن کرانی پڑی،،  ہمیں ملی بب نمبر ۱۷۰۵۰، اور اسطرح دفتری کاروائ مکمل ہوئ۔

میراتھن کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ فاصلہ دوڑنے والا پہلا شخص ایتھنز کی طرف بھاگا اور منزل مقصود پہنچنے پر پٹ سے گر کر مر گیا۔ لیکن چونکہ ہم نے من الحیث القوم تاریخ سے کچھ نا سیکھا تو یہ تو خیر یونانی کہاوتیں ہیں۔ 

اب باری آئی تیاری کی،یہ تھا ہمارا میراتھن کی تیاری کا جدول۔

 

16-Week Marathon Training Schedule
Week Mon Tue Wed Thu Fri Sat Sun Total
1 3 Rest 4 3 Rest 5 Rest 15
2 3 Rest 4 3 Rest 6 Rest 16
3 3 Rest 4 3 Rest 7 Rest 17
4 3 Rest 5 3 Rest 8 Rest 19
5 3 Rest 5 3 Rest 10 Rest 21
6 4 Rest 5 4 Rest 11 Rest 24
7 4 Rest 6 4 Rest 12 Rest 26
8 4 Rest 6 4 Rest 14 Rest 28
9 4 Rest 7 4 Rest 16 Rest 31
10 5 Rest 8 5 Rest 16 Rest 34
11 5 Rest 8 5 Rest 17 Rest 35
12 5 Rest 8 5 Rest 18 Rest 36
13 5 Rest 8 5 Rest 20 Rest 38
14 5 Rest 8 5 Rest 9 Rest 27
15 3 Rest 5 3 Rest 8 Rest 19
16 3 Rest 3 Walk 2 Rest 26.2 Rest 34.2


لیکن، درحقیقت ہوا یوں کہ  پطرس بخاری کے بقول، پہلا اٹھنا چار بجے، دوسرا اٹھنا چھ بجے اور بیچ میں لالا جی آواز دیں تو نماز، سیانے کہتے ہیں کل وہ جادوئی وقت ہے جب سارے کام بخیرو خودہی ہو جایا کرتے ہیں، ہم بھی اسی کل کا انتظار کرتے رہے،. بہانے بنانے میں ملکہ حاصل ۔ ہر روز، 
بعد از فجر کچھ ایسا ہوتا

آج کچھ سردی و تیز ہوا کا گذر لگتا ہے،

آج بارش جیسا موسم لگتا ہے،

آج موسم کافی سرد معلوم ہوتا ہے،

جوتے تو گاڑی میں رکھے ہیں،

میاں سورج سوا نیزے پر ہے، 

وغیرہ وغیرہ۔۔

یہی کرتے کرتے میراتھن کی صبح آ پہنچی، ویسے تو یہ ہماری تیسری میراتھن تھی لیکن بغیر کسی قسم کی تیاری کے پہلی۔ مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق، ڈاجر اسٹیڈیم پہنچے۔ صبح کا سہانا وقت اور چالیس ہزار لوگوں کا مجمع دیکھا تو کچھ ہمت بندھی کہ ، ہو رہے گا کچھ نا کچھ ، گھبرائیں کیا۔

 

392876_547465325297498_1971927162_n

LA-Marathon

سوا سات بجےکے لگ بھگ سب نے بھاگنا شروع کیا، اب یہ مرد تائوانی تو پچاس پچاس میل یونہی ویک اینڈ پر تفریحا بھاگتا پھرتا ہے، اور ہمارا تو میٹنگ روم سے میٹنگ روم جاتے سانس پھول جاتا ہے، لہذا ہمارا اسکا کیا مقابلہ،

862771_10151349615249212_1526966936_n

تو جناب ہم نے جب آہستہ آہستہ بھاگنا شروع کیا یا یہ کہیں کہ بھاگنے کی اداکاری شروع کی تو  لوگوں کے دھکوں سے خراماں خراماں یہ کہتے ہوے آگے بڑھتے چلے کہ

چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک تیز رو کے ساتھ

پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہ بر کو میں

میل اول –  لوگوں کا سیلاب ہمیں آہستہ آہستہ اپنے ساتھ چلاتا رہا اور ہم چلتے گئے

میل دوئم – رفتار میں کچھ تیری آنے لگی اور ہم گنگنانے لگے کہ – مجھے سہل ہو گئیں منزلیں وہ ہوا کے رُخ بھی بدل گئے

لاس اینجلس میراتھن

 

میل سوئم – بلا تبصرہ مندرجہ زیل پوسٹرز۔

funny-marathon-ten

میل چہارم،  توانائی کی بشاشت کے ساتھ دوڑنا جاری رہا، جگہ جگہ پری وش رضاکار پانی پلانے، اور ہم کہتے ساقیا اور پلا اور پلا.

205386072-M-1

 – میل پنجم –  قدم بڑھاۓ چلو جوانوں کہ منزلیں راہ تک رہی ہیں.مزید پانی کچھہ الیکٹرولائٹ اور کچھہ اہتمام اخراج کا،

لاس اینجلس میراتھن

میل ششم-  اب ہم کچھ ایلیٹ رنرز کی طرف سے تنہائی محسوس کرنے لگے ، اپنے گرد و پیش افراد کی کمیت ہماری کمیت کے قریب تک آ چکی تھی

میل ہفتم – اب دوڑنے کی رفتار آہستہ ہوتے ہوتے محض تیز چلنے پر منتج ہو گئی

sign-5

میل ہشتم –  پانی اور الیکٹرولائٹ کا انتظام ۔ ان دوڑوں کے دوران رضاکاروں کے جھنڈ کے جھنڈ دکھائ دیتے ہیں جن میں اقلیتوں کا بڑا کردار ہوتا ہے۔

پہنچا جو آپ کو تو میں پہنچا خُدا کے تئیں

معلوم اب ہوا کہ بہت میں بھی دور تھا

6857528326_452584af57_z
میل نہم –  یہ نواں میل ہے کے دسواں؟ سراب کی کی کیفیت کی ابتدا اور بھوک لگنا شروع.

میری زندگی میری منزلیں، مجھے قرب میں نہیں دور دے

مجھے تُو دِکھا وہی راستہ، جو سفر کے بعد غرور دے

میل دہم –  اب پٹھوں کا کچھ خاموش اور کچھ زور سے احتجاج،  یعنی جتنا ابھی بھاگ کر آئے ہیں اتنا مزید؟ یہ کیا چکر ہے بھائی..

 

Asics 26miles no gridlock billboard

گیارہواں میل، ہالی وڈ کے گرد و نواح کے علاقے سے دل بہلانے کا شغل کیا

منزلیں دور پُر خطر رستے

مجھ کو لے آئے یہ کدھر رستے

گھر سے نکلا ہوں جستجو میں تری

مجھ کو لے جا ئیں اب جدھر رستے

la-marathon

بارہواں میل – یہاں رکشے کا شعر یاد آنے لگا کہ

 تھک کر مجھ سے پوچھا پاؤں کے چھالوں نے،

کتنی دور بنائی ہے بستی دل میں بسنے والوں نے

تیرھواں میل – خیال آیا کہ آدھی میراتھن ہوتی تو ابھی تک ختم ہو جاتی اور ہم گھر جاتے، وہ کیا کہتا ہے شاعر کہ گر اپنے شہر میں ہوتے تو گھر گئے ہوتے

Asics made of 26 miles billboard



چودھواں میل۔  شرطوں کی تحریم پر اپنے آپ کو کوستے، نیز اب ہم پیدل چلنے والوں سے آملے تھے

پندرھواں میل –  مہ وشوں کی کمی پر زیر لب احتجاج، اب  تھکن سے ہر پٹھے نے احتجاج شروع کر دیا تھا۔

6857528284_1eeb62b5c5_z

سولہواں میل – الٹے  پاؤں میں پڑ جانے والے چھالوں کی کی وجہ سے سیدھے پاؤں پر زور دینے سے ایک لنگڑی سی رفتار کی کوشش جاری رہی..

 سترھواں میل – ارے دس میل مزید؟  بھائی واپسی کی بس کہاں ملے گی

Asics LA Marathon 2013 billboard

اٹھارواں میل –  اب جہاز اور طوطے کا ڈی جے کالج کے زمانے میں سنا لطیفہ یاد آنے لگا،  پھر ہم سوچتے کہ آباء و اجداد بھی تو انڈیا سے آئے تھے اور انھیں کون پانی اور الیکٹرولائٹ پلایا کرتا تھا تو چلو شاید ہو جاۓ یہ سفر کسی نا کسی طرح

انیسواں میل – اب ہمارے جی پی ایس اور بلو ٹوتھ کی بیٹری ختم ہو چکی تھی اور خان صاحب کے راگ تھم گئے تھے

لاس اینجلس میراتھن
بیسواں میل۔ اب رضاکاروں نے کرسیاں سمیٹنا شروع کردی تھیں اور پولیس نے سڑکوں کو کھلوانا شروع کر دیا ہے

marathon-water

اکیسواں میل – ہم جو بھی ہماری ہمّت بڑھاتا ہوا نظر آتا ہم اسی گاڑی سے فنش لائین تک لفٹ لینے کی التماس کرتے

بائیسواں میل – اب حالت یہ تھی کہ کئی بار سوچا کہ پولیس والوں کی سائیکل لے بھاگیں پر ہمّت نہ پڑی

254453447667548365_QP7iFcfP_c

تئیسواں میل –  ہر اجنبی ہمیں محرم دکھائی دیتا ہے،  اب تک ہمیں یقین واثق ہو چلا تھا کہ  اگر مردوں کو درد زہ ہوتا تو وہ میراتھن جیسا ہی ہوتا۔

چوبیسواں میل – سراب  کی کیفیت اب تقریبا مستقل ہو چکی تھی

اللہ کیا ہی منزل مقصود دور ہے

تھم ہوگئے ہیں سوجھ کے مج خستہ تن کے پاؤ

 

پچیسواں میل –  من من بھر کے پاؤں…..جوڑ جوڑ دکھ رہا تھا، ایسے جوڑ بھی جن کی موجودگی کا کبھی علم نا تھا۔  اسٹیون کا خیال ذہن سے نکالتے رہے کہ کہیں ہمیں بھی پطرس کی طرح ایف اے کی وہ کتاب دوبارہ نا پڑھنی پڑے۔

منزلیں دور بھی ہیں منزلیں نزدیک بھی ہیں

اپنے ہی پاؤں میں زنجیر پڑی ہو جیسے

لاس اینجلس میراتھن
چھبیسواں میل –  یہ طوالت میں  سب سے لمبا میل ہوتا ہیں، اگر آپ اسے ناپنے نکلیں تو یہ باقی تمام میلوں سے کم سے کم دگنا تو نکلےگا ہی،

جب ہم اختتامی لکیر یا فنش لائن پر پہنچے تو منتظمین نے ہماری حالت اور وقت دیکھ کر پوچھا

کیا آپ دوڑ کر آرہے ہیں؟

تو ہم نے جل کر کہا نہیں یونہی سیر کرنے نکلے تھے ڈاجر اسٹیڈیم سے سینٹا مونیکا تک،  بس سوچا کہ آپ سے ملاقات کر لیں،  بڑا اشتیاق تھا

یوں قتل سے لوگوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کے فرعون کو مراتھن کی نہ سوجی

اب میڈل لینے کے بعد، فنش لائن سے گھر تک کا فاصلہ کس طرح طے ہوا، یہ کبھی بعد میں بتائینگے،  ابھی تو اتنا ہی کافی ہے کہ اگر آپ کبھی مراتھن دوڑیں تو دو تین  ماہ قبل سے پریکٹس ضرور کر لیجیئے ۔ شکریہ،

861882_10151350628074212_1458462759_n

lam_logo2013_asics 

Share

September 5, 2012

بیگ صاحب اور فحاشی کی بے محابہ تعریفیں

Filed under: عمومیات,مذہب — ابو عزام @ 8:00 am

جامعہ کراچی کے ہمارے ایک عزیز دوست فراز حیدرآبادی المعروف بیگ صاحب فحاشی کی تعریف  میں رطب اللسان ہوئے۔ گو راقم انکی ساری باتوں سے متفق نہیں لیکن پھر بھی یہ تحریر قابل مطالعہ ہے کہ مکالمہ تو شروع ہو

شرم اک اداے ناز ہے‘ اپنے ہی سے سہی
ہیں کتنے بے حجاب کہ‘ ہیں یوں حجاب میں
یہ تحریر اس ربط پر پڑھی جا سکتی ہے۔
Share
Older Posts »

Powered by WordPress