فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

May 10, 2012

کوانٹم طبعیات اور ہگز بوسون

Filed under: تحقیق,عمومیات,مشاہدات — ابو عزام @ 7:49 pm

 اگر آپ نے راقم کی طرح نوے کی دہائ میں کالج اور جامعہ کی تعلیم مکمل کی ہو تو آپکو یاد ہوگا کہ ہمارے نصاب میں کوانٹم طبعیات کے بارے میں کچھ  زیادہ  تذکرہ نا ہوتا تھا ۔ذراتی طبعیات مں کوارکس کا ذکر تو سنا لیکن اس کی اسپن اور چارم سے کوئ خاص یاداللہ نہ ہو پائ۔ اگر آپ کا بھی یہی حال ہے تو حل حاضر ہے۔ اس ماہ  کا سائنٹفک امیرکن کا شمارہ راشد کامران سے مستعار لے لیں

اور اگر یہ ممکن نا ہو تو یہ چھوٹی سے ویڈیو جو پی ایچ ڈی کامکس والوں نےہگز بوسون ذرے پر بنائ ہے وہ دیکھ لیں،یقینا افاقہ ہوگا۔

Share

May 2, 2012

دو نظریاتی ریاستیں

Filed under: پاکستان,سیاست,عمومیات,مشاہدات — ابو عزام @ 4:00 am

سنہ ۱۹۴۷/۴۸ میں دو عدد نظریاتی ریاستی معرض وجود میں آئ تھیں جن کی بنا قومیتوں کی مذہبی بنیاد پر تقسیم تھی۔

نظریے پر عمل کتنا ہوا، اس کا اندازہ ان دو سرخیوں سے ہوجاتا ہے۔

سابق اسرائلی صدر موسے کاستو کو عدلیہ نے سات سال قید کی سزا سنا دی۔

پاکستان کی سپریم کورٹ نے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو قومی مصالحتی آرڈینینس یعنی این آر او پر عملدرآمد سے متعلق مقدمے میں عدالتی فیصلے پر عمل نہ کرنے اور توہین عدالت کا مرتکب ہونے  پر ایک منٹ کی سزا سنا دی ہے۔

جرائم کی نوعیت نہایت مختلف سہی لیکن اینکڈوٹ اچھی بنی ہے۔

Share

April 30, 2012

گریجویٹ اسکول کے طلبہ کی کہانی، ایک فلم کی زبانی

Filed under: طنزومزاح,عمومیات,مشاہدات — ابو عزام @ 8:00 pm

پروفیسر صاحب رحم کریں، اگر میرا پی ایچ ڈی مکمل نہیں ہوا تو میں کیا کروں گا، میرے پاس تو کوئ بیک اپ پلان بھی نہیں
میاں، یہ تو تمہیں کیلٹیک میں داخلے سے قبل سوچنا چاہیے تھا، کسی چھوٹی موٹی یونیورسٹی میں چلے جاتے اگر یہ بات تھی تو، ایم آئ ٹی تھی نا۔

یہ مکالمہ پی ایچ ڈی مووی کا ہے جو پروفیسر اسمتھ اور اسکے شاگرد ونسٹن کے درمیان ہوتا ہے۔ اگر آپ کو تکنیکی کامکس کا شغف ہے تو ڈلبرٹ، ایکس کے سی ڈی اور پی ایچ ڈی کامکس سے ضرور واقفیت ہوگی۔ پی ایچ ڈی کامکس تحقیقی اسکول کے طلبہ کی زندگی پر مبنی واقعات کو طنزیہ انداز میں پیش کرتے ہیں۔پایلڈ ہائ اینڈ ڈیپر کے خالق ہورہے چام*، جو خود اسٹانفرڈ ہونیورسٹی سے میکینکل انجینئرنگ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھتے ہیں ، انہوں نے اس بار کامک سے بڑھ کرتقریبا ۷۰ منٹ کی ایک فلم بنا ڈالی جس کے تمام اداکار طلبہ و طالبات ہیں اور اس کی فلم سازی کالٹیک یونیورسٹی ہی میں کی گئی ہے۔

 

دو گریجویٹ طالبعلموں کی زندگی پر مبنی یہ فلم گریجویٹ اسکول کے تحقیقی کام، پروفیسروں کی بے اعتنائ اور پوسٹ ڈاکس کی زندگی کے گرد گھومتی ہے۔چونکہ راقم کیلٹیک کے آس پڑوس میں وقت گزارنے اور وہاں موجود ستار بخش پر راشد بھائ کے ساتھ گپیں لگانے میں ید طولی رکھتا ہے لہذا ہمیں تو اس کے تمام آوٹ ڈور سیٹس کو دیکھ کر بڑا مزا آیا۔ اس فلم کے مخصوص طرز بیاں اور موضوع کی بنیاد پر شائد عام افراد تو اتنا لطف نا اٹھا سکیں لیکن اگر آپ نے گریجوٹ اسکول یعنی ماسٹرز اور پی  ایچ ڈی میں وقت گذارا ہے تو آپ اس سے بھرپور انداز میں حظ اٹھا سکیں گے۔

*جی ہاں، اسے ہورہے ہی پڑھا جاتا ہے، جورج نہیں۔یہ ہسپانوی زبان کے لفط ج کا تلفظ ہ سے کیا جاتا ہے، جیسے سان ہوزے درست ہے اور سان جوز غلط۔

Share

April 9, 2012

ڈاکٹر شیلڈن کوپر کا اردو بلاگران کے نام ایک تعارفی خط

Filed under: طنزومزاح,عمومیات — ابو عزام @ 11:36 pm

عزیزاردو بلاگران، ہیلو

آپ کا شائد مجھ سے غائبانہ تعارف ہو کہ مجھے یہ بتایا گیا ہے کہ آپ میں سے بہت میرے فن کے قدردان ہیں۔ چونکہ عاجزی و تواضع سے میں کچھ متصف نہیں لہذا شکریہ وغیرہ کے تکلفات سے بندے کو  یکسرآزاد سمجھیں۔ آپ کو یقینا میری اردو پر حیرت ہورہی ہوگی۔ یہ دراصل میرے کوانٹم الگارتھم اور گوگل ترجمہ گھر کا امتزاج ہے جو ابھی یو ایس سی کے ہیرہ کمپیوٹر پر پروٹوٹایپ کے طور پر چلایا جارہا ہے۔ آپ کی مجھ سے غائبانہ آشنائ غالبا میری زندگی پر بننے والی سیریز بگ بینگ تھیوری سے ہوئ ہوگی جس میں میرے تین عدد دوستوں لینرڈ ہافسٹیڈر پی ایچ ڈی، راجیش کوتراپالی پی ایچ ڈی اور ہاورڈ ولوٹز محض ماسٹرز, اور میری سماجی و نجی زندگی کی ریکارڈنگ کی جاتی ہے۔ لوگ اس سے خاصہ حظ اٹھاتے ہیں، نامعلوم کیوں؟ ہماری زندگی کیلٹیک یونیورسٹی میں ہماری تحقیق اور کامک بک اسٹور کی تفریح کے گرد گھومتی ہے۔

۔ اس خط کو لکھنے کی ترغیب عدنان مسعود نامی ایک بلاگر نے اس نسبت سے دلوائ کہ وہ بھی میرے، رچرڈ فائنمن اور آئنسٹائن کے شہر پاساڈینا کے باسی رہے ہیں۔ان بلاگر صاحب کے حق میں حق ہمسائگی کہیں یا رحم دلی کیونکہ صرف ماسٹرز کئے ہوے لوگوں کی درخواست پر تو میں ریسٹورانٹ کا بل بھی نہیں سائن کرتا، آپ ہارورڈ سے پوچھ لیں کیونکہ اسکے پاس بھی صرف ماسٹرز کی ڈگری ہے، بے چارہ۔ مجھے یہ بتایا گیا تھا کہ یہاں اردو بلاگستان میں بھی میری طرح خود پسند و بزعم خود دانا افراد کا ہجوم ہے۔ کچھ لوگوں کو تو گمنام تبصرے پڑھ کر میرے چبھتے ہوے فقرے یاد آجاتے ہیں جن کے لکھنے والوں کو پیار سے ٹرول کہا جاتا ہے، بہرحال آپکو میری اسِٹیون ہاکنگ سے ملاقات تو پسند آئ ہوگی، معذرت کے میں ہگس بوسون زرے کے مقالے میں ریاضی کی غلطی پر بے ہوش ہو گیا۔

بزنگا۔۔۔ معذرت، ہاہا، یہ اچھا مزاق ہے۔

اچھا اب اجازت،

ڈاکٹر شیلڈن کوپر،بی ایس، ایم ایس، ایم اے، پی ایچ ڈی، ایس سی ڈی، آی کیو ۱۸۷۔ سائنسدان ماہر نظریاتی طبیعیات

Share

March 8, 2012

آئنسٹائن کا منطقی معما

Filed under: عمومیات — ابو عزام @ 10:00 pm

البرٹ آئنسٹائن سے منسوب اس منطقی معمے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے دنیا کے صرف دو فیصد لوگ ہی حل کرسکتے ہیں۔ دروغ برگردن راوی۔ اس کے حل کے لیے کاغذ اور قلم درکار ہوگا، ذرا ذہن آزمائیں۔

پچھلے منطقی معمے کی طرح اس معمے میں بھی کوئ  چالاکی کی بات نہیں، صرف منطقی استدلال کی ضرورت ہے۔

 ایک گلی میں مختلف رنگوں کے پانچ  گھر ہیں۔

ان گھروں میں مختلف قومیتوں کے لوگ رہتے ہیں

 ان پانچ میں سے ہر فرد جداگانہ تشخص کا مالک ہے۔ مختلف قسم کا مشروب پیتا ہے، سگریٹ کا مختلف برانڈ استعمال کرتا ہے اور مختلف قسم کا پالتو جانور رکھتا ہے

آپ سے سوال یہ ہے کہ مچھلی کا مالک کون ہے۔

 اشارے

برطانوی سرخ گھر میں رہتا ہے

سویڈش شخص نے پالتو جانوروں کے طور پر کتوں کو رکھا ہوا ہے۔

ڈنمارک کا شہری چاے کو مشروب کے لیے استعمال کرتا ہے۔

ہرے رنگ کا گھر سفید گھر کے بلکل ساتھ اس کی بایں جانب واقع ہے

 ہرے گھر میں رہنے والے کو کافی پسند ہے

جو شخص گولڈلیف سگریٹ پیتا ہے اس نے پرندے پالے ہوے ہیں

پیلے گھر کا مالک ڈنہل نامی سگریٹ پیتا ہے

درمیان میں واقع گھر میں رہنے والا شخص دودھ پینے کا شوقین ہے۔

ناروے کا باشندہ پہلے گھر میں رہتا ہے

جو شخص کیپسٹن سگریٹ پیتا ہے وہ اس شخص کے برابر میں رہتا ہے جس کے پاس پالتو بلیاں ہیں

 گھوڑے پالنے والا ڈنہل سگریٹ پینے والا کا بالکل ساتھ والا ہمسایہ ہے

جو شخص مارلبرو سگریٹ پیتا ہے اسے روح افزا بہت پسند ہے

جرمن کو گولڈ فلیک سگریٹ پینا پسند ہے۔

ناروے کا شہری نیلے گھر کے برابر میں رہتا ہے۔

 کیپسٹن پینے والے کا پڑوسی پانی کو بہترین مشروب گردانتا ہے

Share

February 28, 2012

نیلی آنکھیں، ایک منطقی معما

Filed under: تحقیق,عمومیات — ابو عزام @ 8:44 pm

کمپوٹر سائنس کے طالبعلموں کے لیے جان کونوے اور اسکے گیم آف لایف کا نام جانا پہچانا ہے۔ لیکن جان کونوے کے بیان کردہ کامن نالج یا عمومی علم نامی حسابی انطباق پر مبنی اس نیلی آنکھوں والی پہیلی کو دنیا کے مشکل ترین منطقی معموں میں شمار کیا جاتا ہے۔ ذہن لڑایں اور دیکھیں کہ کیا آپ اسے حل کرسکتے ہیں؟

مختلف رنگ کی آنکھوں کےافراد کا ایک گروہ ایک دور پرے جزیرے پر رہتا ہے۔ یہ تمام افرد علم منطق میں طاق ہیں اور اگر کسی بات کا منطقی نتیجہ ہو تو اسکا فورا استنباط کرسکتے ہیں۔ ان میں سے کوئی فرد اپنی آنکھوں کا رنگ نہیں جانتا۔ ہر رات آدھی رات کے وقت، ایک کشتی جزیرے پر آ کر رک جاتی ہے. جزیرے پر جس شخص کو اپنی آنکھوں کا رنگ معلوم ہو وہ جزیرہ چھوڑ کر جاسکتا ہے۔ اس جزیرے کا ہر شخص ہر وقت دوسرے تمام افراد کو دیکھ اور گن سکتا ہے اور وہ ہر دوسرے شخص کی آنکھوں کا رنگ (خود کوچھوڑ کر) جانتا ہے۔ لیکن کوئی بھی کسی کو کسی کی آنکھ کا رنگ نہیں بتا سکتا اور نا ہی کوئی کسی سے پوچھ سکتا ہے۔ اس جزیرے پر موجود ہر شخص ان تمام قوانین سے واقف ہے اور نہایت قانون پسند ہے۔

اس جزیرے پر ۱۰۰ نیلی آنکھوں والے لوگ ہیں، ۱۰۰ لوگ بھوری آنکھوں والے لوگ ہیں اور ایک سردار ہے جس کی آنکھیں ہری ہیں۔ لیکن کس رنگ کی کتنی آنکھوں والے لوگ موجود ہیں، یہ تعداد لوگوں کے علم میں نہیں۔ مثلا کوئی بھی وہ شخص، جس کی نیلی آنکھیں ہوں ایک وقت میں ۹۹ نیلی آنکھوں والوں، ۱۰۰ بھوری آنکھوں والوں اور ایک سبز آنکھوں والے فرد کو دیکھ سکتا ہے۔ لیکن اس طرح اسے اپنی آنکھوں کا رنگ نہیں پتا چل سکتا کیونکہ اس کی دانست میں ۱۰۱ بھوری آنکھوں بھی ہوسکتے ہیں، دو ہری آنکھوں والے بھی اور ۱۰۰ نیلی آنکھوں والے بھی کیونکہ اسے اپنی آنکھوں کا رنگ نہیں معلوم۔

ایک دوپہر سردار نے میں آنکھوں کا رنگ نا بتانے کے قانون کو صرف ایک مرتبہ توڑتے ہوے کہا

“میں دیکھ سکتا ہوں کہ تم میں سے کم از کم ایک فرد کی آنکھیں نیلی ہیں”

اب بتایں کہ کتنے لوگ جزیرہ چھوڑ کر جایں گے اور کس رات کو؟

نیز اس جزیرے پر کوئی عکس یا عکاسی کرتی سطحیں یا پانی یا آینہ موجود نہیں۔ اس پہیلی کا جواب کوئی چال نہیں بلکہ منطقی انطباق ہے۔ اس میں انداذہ لگانے یا جنیات وغیرہ سے جواب ثابت نہیں ہوگا۔ سردار کسی خاص فرد کو نہیں بتا رہا کہ اس کی آنکھوں کا رنگ نیلا ہے بلکہ سب سے کہ رہا ہے کہ میں نے کم از کم ایک شخص کی آنکھیں نیلی دیکھی ہیں۔ اور اس کا جواب یقینا یہ بھی نہیں ہے کہ کوئی بھی جزیرہ چھوڑ کر نہیں جاے گا۔

!بوجھو تو جانیں

Share

February 21, 2012

اسباق و دروسہاے انٹرنیٹ

Filed under: عمومیات — ابو عزام @ 8:49 pm

آج کی اتصالی دنیا نے انٹرنیٹ پر سیکھنا سکھانا جس قدر آسان بنا دیا ہے، اس سے پہلے کبھی نا تھا۔ آپ کو لینیر الجبرا کے بارے میں معلومات درکار ہیں، مثالیں یا وڈیوز کی ضرورت ہے تو بس کسی سرچ انجن سے گذارش کریں اور دیکھیں کمال۔ لیکن اپنے قاریین کو اس نہایت پیچیدہ مرحلے سے بچانے کے لیے ریڈیٹ کا یہ رابطہ شایع کیے دیتے ہیں کہ سند رہے اور وقت ضرورت کام آے۔

فہرست بہترین اسباق و دروسہاے انٹرنیٹ  بتعاون ریڈیٹ

ان ویب سایٹس پر مختلف اقسام کے اسباق اور دروس موجود ہیں جن میں کپمیوٹر ساینس، حساب، کیلکولس، ای بکس، اکادمیات کے رسالہ جات، لسانیات، انجینیرنگ اور دیگر کئی موضوعات شامل ہیں۔

رب ذدنی علما

Share

February 12, 2012

پراجیکٹ اویلر

Filed under: عمومیات — ابو عزام @ 10:31 pm

اکثر احباب یہ سوال کرتے ہیں کہ پراگرامنگ سیکھنے یا کمپیوٹر ساینس کی فیلڈ میں داخل ہونے کے لیے کیا صلاحیتیں درکار ہوتی ہیں۔ شماریاتی خصوصیات اور حسابی مسایل کو حل کرنے کی صلاحیت، میرا جواب عموما اسی طرح شروع ہوتا ہے۔ پراگرامنگ محض ایک آلہ کار ہے، درحقیقت  الگارتھم بنانا اور اسکو آپٹمایز کرنا کمپیوٹر ساینس کا بنیادی نکتہ ہے۔

پراجیکٹ اویلر  حساب اور پراگرامنگ پر مبنی ایک ویب سایٹ ہے جس میں مختلف قسم کے تقریبا چار سو کے قریب حسابی سوالات موجود ہیں جن کو آپ اپنی پسندیدہ پراگرامنگ کی زبان میں حل کر سکتے ہیں، یہاں کسی بھی پراگرامنگ کی زبان کو استعمال کرنے کی اجازت ہے، صرف آپکا جواب درست ہونا چاہیے۔ مثلا ایک سوال ہے کہ دو ملین سے کم کے تمام پرایم یا جوہری اعداد  کا حاصل جمع بتایں، اب آپ کوئ  بھی زبان استعمال کرکے یہ جواب معلوم کرسکتے ہیں لیکن الگارتھم خود بنانا ہوگا ورنہ مقابلے کا مقصد فوت ہوجاے گا۔

یہ ویب سایٹ ٹاپ کوڈر کے مقابلے میں کافی آسان ہے اور اگر آپ کو پروگرامنگ سیکھنے کا شوق ہے تو آپکی ازمایش و ذہنی ورزش کے لیے نہایت مفید۔میں اب تک دس مسائل حل کر چکا ہوں اور کوشش ہے کہ اگلے کچھ ماہ میں پورے تین سو سوالات ختم کرلوں، آپ بھی کوشش کر کے دیکھیں۔

Share

January 24, 2012

قرارداد سال نو – ۵۲ ہفتوں میں ۵۲ کتابیں

Filed under: ادبیات,عمومیات,کتابیات — ابو عزام @ 12:13 pm

تو جناب قصہ کچھ یوں ہے کہ ۵۲ ہفتوں میں ۵۲ کتابوں کی تحریک سے متاثر ہوکر ہم نے بھی اپنے نئے سال کی قراردادوں میں یہ بات شامل کی کہ ہر ہفتے ایک عدد کتاب ختم کی جائے۔ ان کتابوں کا انتخاب مشکل امر ٹہرا۔ اس سلسلے میں ہم نے مختلف بہترین کتب کی فہرستوں، اپنے کتب خانے، ذاتی پسند، دوستوں اور دیگر زرائع سے مدد لی اور کتب کی مندرجہ زیل فہرست مرتب کی ہے۔ ان میں سے کچھ کتابیں پہلے پڑھ چکا ہوں لیکن دوبارہ پڑھنے کی خواہش ہے۔ سپر فریکنامکس ختم کر کر اب مبارک حیدر صاحب کی کتاب شروع کر دی ہے لہذا متعین اہداف کا حصول ابھی تک تو بفضل تعالی زیادہ مشکل نہیں لگ رہا۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔
نصابی کتابوں، بلاگز، تکنیکی کتب، پاڈ کاسٹوں وغیرہ کے درمیان اچھی نان فکشن و فکشن کو پڑھنے کا موقع نہیں ملتا۔ ۵۲ ہفتوں کا یہ نظم اسی بات کی کوشش ہے کہ ہدف متعین کر کر اگر کام جائے تو کامیابی کا امکان زیادہ ہے۔ مندرجہ ذیل فہرست حتمی نہیں لہذا اس کے بارے میں اپنی رائے سے آگاہ کریں اور اگر آپ کی سفارشی کتاب زیادہ اچھی ہوئی تو اس کو اس فہرست میں شامل کیا جاسکتا ہے۔
🙂

Week

Title

Author

1/1/2012

تنقید کی موت

Qaiser Tamkeen

1/8/2012

Case of Exploding Mangoes

Mohammad Hanif

1/15/2012

Superfreaknomics

 Steven D. Levitt and
Stephen J. Dubner

1/22/2012

مغالطے، مبالغے

Mubarak Haider

1/29/2012

Ender’s Game

Orson Scott Card

2/5/2012

Pragmatic thinking and
learning

Andrew Hunt

2/12/2012

فصوص الحکم

Ibn-Al-Arabi

2/19/2012

A History of God: The 4,000-Year
Quest of Judaism, Christianity and Islam

Karen Armstrong

2/26/2012

And then there were none

Agatha Christie

3/4/2012

Our Lady of Alice Bhatti

Mohammad Hanif

3/11/2012

The Selfish Gene

Richard Dawkins

3/18/2012

Torah – Old Testament

3/25/2012

Lord of the flies

William Golding

4/1/2012

دنیا کی سو عظیم کتابیں

Sattar Tahir

4/8/2012

Think and Grow Rich

Napoleon Hill

4/15/2012

The Catcher in the Rye

J. D. Salinger

4/22/2012

New Testament

4/29/2012

No god but God: The Origins,
Evolution, and Future of Islam

Reza Aslan

5/6/2012

کلیات عصمت چغتای

Ismat Chugtai

5/13/2012

The Clash of Fundamentalisms:
Crusades, Jihads and Modernity

Tariq Ali

5/20/2012


تهافت التهافت: نقض كتاب الإمام الغزالي المسمى “تهافت الفلاسفة”. من أشهر كتبه

Ibn-e-Rushd

5/27/2012

شہاب نامہ

Qudratullah Shahab

6/3/2012

The Hunger Games

Suzanne Collins

6/10/2012

Anna Karenina

Leo Tolstoy

6/17/2012

بوستان سعدی

Sa’di

6/24/2012

Lolita

Vladimir Nabokov

7/1/2012

مجموعہ مشتاق احمد یوسفی

Mushtaq Ahmed Yusfi

7/8/2012

The Brothers Karamazov

Fyodor Dostoyevsky

7/15/2012

Tafheem-ul-Quran 1

Syed Abul Ala Maududi

7/22/2012

Tafheem-ul-Quran 2

Syed Abul Ala Maududi

7/29/2012

Tafheem-ul-Quran 3

Syed Abul Ala Maududi

8/5/2012

Tafheem-ul-Quran 4

Syed Abul Ala Maududi

8/12/2012

Tafheem-ul-Quran 5

Syed Abul Ala Maududi

8/19/2012

Tafheem-ul-Quran 6

Syed Abul Ala Maududi

8/26/2012

The Castle

Franz Kafka

9/2/2012

On Intelligence

Jeff Hawkins

9/9/2012

The Adventures of Huckleberry
Finn

Mark Twain

9/16/2012

اسلامی ریاست

Dr. Hameedullah

9/23/2012

The Stand

Stephen King

9/30/2012

Angela’s Ashes

Frank McCourt

10/7/2012

Catch-22

Joseph Heller

10/14/2012

Madame Bovary

Gustave Flaubert

10/21/2012

The Diary of Anne Frank

Anne Frank

10/28/2012

The Stories of Anton
Chekhov

Anton Chekhov

11/4/2012

Das Capital

Karl Marx

11/11/2012

The Great Gatsby

F. Scott Fitzgerald

11/18/2012

Love in the Time of
Cholera

Gabriel Garcia Marquez

11/25/2012

The Picture of Dorian
Gray

Oscar Wilde

12/2/2012

A tale of two cities

Charles Dickens

12/9/2012

Linchpin

Seth Godin

12/16/2012

جنٹلمین بسم اللہ

Ashfaq Hussain

12/23/2012

The Art of War

Sun Tzu

 

Share

January 22, 2012

سوپا کا سیاپا

Filed under: خبریں,عمومیات — ابو عزام @ 2:08 pm

جیت گیا انٹرنیٹ، اور ہار گیا سوپا کا کالا قانون۔

اچھی خبر ہے کہ ذرائع ابلاغ کی طاقنتور لابی کے سامنےایک عام آدمی اور انٹرنیٹ کی آزاد معیشیت کی جیت ہوئ یا ہمیں ایسا لگا کیونکہ کنسپریسی تھیورسٹ تو اس میں بھی اپنی ہی چت اور اپنی ہی پٹ کا قانون ضرور لاگو کریں گے۔

سوپا کا قانون کیا تھا، مختصرا سوپا اور پیپا دونوں بظاہر تو آنلاین پایریسی  کے خلاف بنائے ہوئے قوانین ہیں لیکن ان کی پہنچ عمومی شہری آزادیوں تک ہوتی ہے، اسکے علاوہ ان انٹرنیٹ کمپنیوں کو جو لوگوں کا مہیا کیا ہوا مواد آنلاین رکھتی ہیں ان کو بھی کسی چوری کیے مواد کے شائع ہونے پر پابندی کا سامنا کرنا پڑتا۔ اسی وجہ سے ریڈیٹ، وکیپیڈیا، یوٹیوب، گوگل، وایرڈ وغیرہ نے اسکے خلاف سخت مہم چلائ اور بایکاٹ کیا۔

 ذرائع ابلاغ اور مواد کی فراہمی کے ادارے یا  ‘ کنٹنٹ پروایڈر’ ضرور سوپا ۲۔۰ کی کوشش کریں گے، پر دیکھتے ہیں زور کتنا بازو قاتل میں ہے۔

Share
« Newer PostsOlder Posts »

Powered by WordPress