فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

September 5, 2016

ایسے ناداں بھی نہ تھے جاں سے گزرنے والے

Filed under: خبریں,سیاست,مذہب — ابو عزام @ 10:58 am

یہ اسی کی دہائی کی بات ہے کہ جب روشنیوں کے شہر میں ایم کیو ایم کا طوطی بول رہا تھا، جب شہر کے بام و در قد آدم پتنگوں اور اور “قائد تحریک” کی تصاویر سے مزین تھے اور اس فرد واحد کے ون ٹو تھری کہنے پر تین ہٹی سے عزیز آباد، اور دس نمبر سے عائشہ منزل تک ہزاروں کے مجمع کو سانپ سونگھ جایا کرتا تھا۔ یہ اس وقت کا قصہ ہے جب بانیان پاکستان کی اولادوں میں تعصب کی وہ فصل بوئی جارہی تھی جس کوکاٹنے اور اسکا سدباب کرنے کی سعی لا حاصل میں اگلی کئی دہائیاں صرف ہونے والی ہیں۔ اس کڑے وقت میں عصبیت کے اس سیلاب کے آگے شہر میں مٹھی بھر دہان پان سے نوجوان، جن میں سے کچھ کی مسیں بھی نا بھیگی ہونگی، شہر نا پرساں کے در و دیوار پر پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث چسپاں کرتے نظر آتے تھے

لیس منا من دعا الی عصبیۃ ولیس منا من قاتل عصبیۃ ولیس منا من مات علی عصبیۃ۔ رواہ ابوداؤد
جس نے عصبیت کی طرف دعوت دی وہ ہم میں سے نہیں،
جس نےعصبیت کے لیے جنگ کی وہ ہم میں سے نہیں،
جو عصبیت پر مرا وہ ہم میں سے نہیں ہے

اس پیغام کی سزا کیا تھی؟ عقوبت خانے، مہاجر خیل، اور ڈرل شدہ نعشیں۔ سعد بن صلاح اور غیور انور

لیکن وہ یہ کہتے رہے کہ شہادت حق کی یہ باتیں تو بس کتابی باتیں ہیں، رموز سیاست و مملکت تو ہم جانتے ہیں۔

آج جس فرعون صفت کو شہر میں لب کشائئ کی اجازت نہیں، کل اسی کی مدح سرائئ میں سارا شہر گم تھا، جب کچھ کفن پوش یہ کہتے پھرتے تھے کہ یہ کیا دور جاہلیت کی بات ہے کہ کلمہ گو بھائئ کی تقسیم اس بنیاد پر کی جائے کہ وہ مقامی ہے یا غیر مقامی، اسکی زبان کیا ہے، وہ یوپی سی پی کا ہے، دکنی ہے، پنجابی ہے، یا اس کی رگوں میں کسی بلوچ یا پٹھان کا خون دوڑ رہا ہے؟ جبکہ میرے آقا و مولا نے یہ بات ۱۴۰۰ سال پہلے اپنے آخری خطبے میں واضع طور پر کہہ دی تھئ کہ

یایہا الناس ا لا ان ربکم واحد وان اباکم واحد الالافضل لعربی علی عجمی ولا لعجمی علی عربی ولا لأسود علی احمر ولا لأحمر علی اسود الا بالتقوی۔(مسند احمد)
اے لوگو!خبردارتمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ ایک ہے خبر دار!کسی عربی کو عجمی پر یا عجمی کو عربی پر یا کالے کو سرخ پر اور نہ سرخ کو کالے پر کوئی فضیلت حاصل ہے سوائے تقویٰ

لیکن وہ یہ کہتے رہے کہ شہادت حق کی یہ باتیں تو بس کتابی باتیں ہیں، رموز سیاست و مملکت تو ہم جانتے ہیں۔

جدید جاہلیت کے علمبرداراروں کا نعرہ ہے کہ نسل و رنگ و قبائل پر تقسیم فطری ہے لہذا اسے ختم کرنا فطرت سے جنگ ہے۔ ان کے لئے اطلاعا عرض ہے کہ اسلام دین فطرت ہے، اگر تعصب کی عینک ہٹا کر وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ کو پڑھیں تو یہ بات اظہر من الشمس ہوگی کہ اسلام قومیت و گروہ کی شناخت کےفطری رجحان کوتسلیم کرتے ہوئے اس سے منسلک کسی امتیازی سلوک یا تفاوت کو رد کرتا ہے۔ دیسی لبرلوں کا حال یہ ہے کہ جب مغرب اسی تفاوت کا خاتمہ “افرمیٹیو ایکشن” یا اینٹی ڈسکریمینیشن کے قوانین کے ذریعے کرتا ہے تو آپ اس کی تعریف میں رطب اللسان ہوتے ہیں لیکن جب اسلام پسند یہی کام کریں تو ان پر بنیاد پرستی کا لیبل چسپاں کرنے میں ایک منٹ کی دیر نہیں کرتے۔ آپ لوگوں کو بانٹنا چاہتے ہیں تاکہ ان کو اللہ کی بندگی سے نکال کر اپنی غلامی میں لا سکیں،جبکہ اسلام لوگوں کو جوڑنا چاہتا ہے۔ آپ لوگوں کو انکی جبلی خواہشات کا اسیر رکھنا چاہتے ہیں، جس تنوع سے خالق نے انہیں تخلیق کیا، اس کا مذاق اُڑاتے رہے ہیں، یہ باتیں کسی محراب و منبر سے تو نا سنیں ہونگی آپ نے کہ بہاری نا کپن یا پنجابی کوئئ زبان نہیں بولی ہے یا سندھی تو کاہل مفت خور ہیں اور بلوچ تو غار کے زمانے کے میلے کچیلے، سست جاہل جنگلی لوگوں سے زیادہ دور نہیں یا بنگالی، وہ تو کالے، چھوٹے قد والے ہیں، موسی چاول کھائے گا، اور پشتون، انکو تو ہم جنس اور بے وقوف ثابت کرنے کے لئے لطائف کا کثیر زخیرہ موجود ہے، جبکہ ہم اردو بولنے والے سب سے اعلی و ارفع ہیں کہ ہماری زبان و بیان کی قوتیں اس پر استدلال کرتی ہیں، فاعتبروا یا اولوالابصار۔ اس رب جس کے آگے ہم سب اپنئ پیشانیاں سرنگوں کرتے ہیں صاف الفاظ میں حکم کرچکا ہے کہ اے ایمان والو! مرد دوسرے مردوں کا مذاق نہ اڑائیں ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہو اور نہ عورتیں عورتوں کا مذاق اڑائیں ممکن ہے یہ ان سے بہتر ہوں، اور آپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگاؤ اور نہ کسی کو برے لقب دو۔ الحجرات۔

لیکن وہ یہ کہتے رہے کہ شہادت حق کی یہ باتیں تو بس کتابی باتیں ہیں، رموز سیاست و مملکت تو ہم جانتے ہیں۔

تقسیم در تقسیم کا یہ عمل نہیں رکتا، آپ اپنی مصلحت کے تحت اس پر پی ایس پی و حقیقی و ثنا اللہ زہری کی کتنی ہی بینڈ ایڈز لگا لیں، جس شاخ نازک پر یہ آشیانہ بنایا جا رہا ہے وہ اسلامی شناخت کی اکائئ سے دوری ہے۔ جس ملک کی اساس اسلام ہے اس کوقومیتوں میں تقسیم کر کر پریشر گروپس کے ذریعے چلانا مسئلے کا حل نہیں۔ اگر یہ بات آپکو عجیب لگے تو جان لیں کہ آپ اکیلے نہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: بلاشبہ اسلام اس حال میں شروع ہوا کہ وہ اجنبی تھاا ور عنقریب اجنبی ہوجائے گا۔ پس خوشخبری ہے اجنبی لوگوں کے لئے۔ عرض کیا گیا کہ اجنبی لوگ کون ہیں؟ فرمایا: یہ وہ لوگ ہیں جواسلام کی محبت میں قبیلوں سے علیحدہ ہوگئے۔( ابن ماجہ، ترمذی)

آج بھی وہ داعیان کلمة اللہ، وہ خواب دیکھنے والے ائیڈیلسٹ لوگ، وہ مواخات کا جذبہ رکھنے آپکے بہت قریب ہیں جو وحدت ملت کی بات کرتےہیں، جو اللہ کی زمین پر اللہ کے نظام کو نافذ کرنا چاہتے ہیں، جو تمام مسلمانوں کو ایک اکائئ جانتے ہیں ، ان کے مقابل عبداللہ بن اُبی کی مثل کے لوگ ہیں جس نے غزوہ بنی المصطلق کے موقع پر مسلمانوں کو باہم لڑانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ مہاجرین جب ہمارے ہاں آئے تھے تو بھوکے ننگے تھے۔ اور اس کے بعد پھر یہ حالت ہوگئی ہے کہ یہ انصار کے خلاف جری ہوگئے ہیں اور ان سے لڑنے کے لیے تیار ہیں،جدید جاہلیت اپنے آپ کو کتنا ہی نفیس و ممذوق سمجھ لے، جاہلیت کا ہر ریفرینس” جو ہم میں سے عزت والا ہے وہ ذلت والے کو نکال باہر کرے گا” سے ہی جا ملے گا۔

لیکن وہ یہ کہتے رہے کہ شہادت حق کی یہ باتیں تو بس کتابی باتیں ہیں، رموز سیاست و مملکت تو ہم جانتے ہیں۔

وما علينا إلا البلاغ المبين

Share

January 3, 2015

کسی غمگسار کی محنتوں کا یہ خوب میں نے صلہ دیا

Filed under: مذہب — ابو عزام @ 6:37 pm

کسی غمگسار کی محنتوں کا یہ خوب میں نے صلہ دیا
کہ جو میرے غم میں گھلا کیا اسے میں نے دل سے بھلا دیا
جو جمالِ روئے حیات تھا، جو دلیل راہِ نجات تھا
اسی رہبر کے نقوش پا کو مسافروں نے مٹا دیا

میں تیرے مزار کی جالیوں ہی کی مدحتوں میں مگن رہا
تیرے دشمنوں نے تیرے چمن میں خزاں کا جال بچھا دیا

تیرے حسن خلق کی اک رمق میری زندگی میں نہ مل سکی
میں اسی میں خوش ہوں کہ شہر کے در و بام کو تو سجا دیا

تیرے ثور و بدر کے باب کے میں ورق الٹ کے گزر گیا
مجھے صرف تیری حکایتوں کی روایتوں نے مزا دیا

کبھی اے عنایتِ کم نظر ! تیرے دل میں یہ بھی کسک ہوئی
جو تبسم رخِ زیست تھا اسے تیرے غم نے رلا دیا

یہ میری عقیدت بے بسر ،یہ میری ریاضت بے ہنر
مجھے میرے دعویٰ عشق نے نہ صنم دیا نہ خدا دیا

https://soundcloud.com/user877951229/naat-kisi-gham-gusar-ki

 

Share

July 17, 2013

کنجوسی و بخل – چھٹی تراویح سے ایک اقتباس

Filed under: مذہب — ابو عزام @ 5:17 am

 الَّذِينَ يَبْخَلُونَ وَيَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ وَيَكْتُمُونَ مَا آتَاهُمُ اللّهُ مِن فَضْلِهِ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُّهِينًا – النسا ۳۷

اور ایسے لوگ بھی اللہ کو پسند نہیں ہیں جو کنجوسی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی کنجوسی کی ہدایت کرتے ہیں اور جو کچھ اللہ نے اپنے فضل سے انہیں دیا ہے اسے چھپاتے ہیں۔ ایسے کافر نعمت لوگوں کے لیے ہم نے رسوا کن عذاب مہیا کر رکھا ہے۔

٦٣ الله کے فضل کو چھپانا یہ ہے کہ آدمی اس طرح رہے گویا الله نے اس پر فضل ہی نہیں کیا ہے. مثلآ کسی کو الله نے دولت دی ہو اور وہ اپنی حیثیت سے گرکررہے. نہ اپنی ذات اوراپنے اہل وعیال پر خرچ کرے، نہ بندگان خدا کی مدد کرے، نہ نیک کاموں میں حصّہ لے. لوگ دیکھیں تو سمجھیں کہ بیچارہ برا ہی خستہ حال ہے. یہ دراصل الله کی سخت نا شکری ہے. حدیث میں آیا ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا “ان اللہ اذا انعم نعمته علیٰ عبد احب ان یظهراثرھا علیه” الله جب کسی بندے کو نعمت دیتا ہے تو وہ پسند کرتا ہے کہ اس نعمت کا اثر بندے پر ظاہر ہو. یعنی اس کے کھانے پینے، رہنے سہنے، لباس اور مسکن. اور اس کی دادودہش، ہر چیز سے الله کی دی ہوئی نعمت کا اظہار ہوتا رہے. – تفہیم القران، جلد اول، صفحہ ۳۵۲

Share

July 16, 2013

اطاعت رسول، اطاعت الہیہ – پانچویں تراویح سے ایک اقتباس

Filed under: مذہب — ابو عزام @ 12:33 pm

قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ – قُلْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَالرَّسُولَ فإِن تَوَلَّوْاْ فَإِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبُّ الْكَافِرِينَ-  آل عمران ۳۱-۳۲

اے نبیؐ! لوگوں سے کہہ دو کہ، اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو، تو میر ی پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا۔ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے۔ اُن سے کہو کہ اللہ اور رسول کی اطاعت قبول کر لو پھر تم اگر وہ تمہاری دعوت قبول نہ کریں، تو یقیناً یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ ایسے لوگوں سے محبت کرے، جو اس کی اور اس کے رسول کی اطاعت سے انکار کرتے ہوں۔

از حامد کمال الدین، شرک اکبر کا بیان

‘عبادت’ کا تصور اسلام میں بہت وسیع ہے۔ اور بہت واضح ہے۔ عبادت کا لفظ اسلام میں صرف ‘پوجا پاٹ’ پر صادق نہیں آتا۔ عبادت محض نذر نیاز اور چڑھاوا نہیں۔ عبادت صرف منتیں ماننے یا ماتھے ٹیکنے کا نام نہیں۔ سجدہ ورکوع اور طواف وذبیحہ وغیرہ عبادت کی ایک صورت ضرور ہے اور اسی لیے یہ رب العالمین کےلیے مخصوص ہے؛ مگر عبادت ایک بہت وسیع حقیقت ہے۔ اسلام نے عبادت کا جو مفہوم دیا ہے اُس میں بلاشبہ اطاعت بھی آتی ہے، گو آج کے دور میں بہت سے مذہبی وغیرمذہبی طبقے عبادت کا یہ مفہوم متروک کروادینے پر پورا زور صرف کررہے ہیں۔

رب العالمین کے مقابلے میں کسی کی بات یا کسی کا حکم تسلیم کرنا اور اس كو برحق جاننا دراصل اس ہستی کی عبادت ہے۔ معبود صرف وہی نہیں ہوتا جس کو آپ حاجت روا یا مشکل کشا مانیں؛ بلکہ جس ہستی کی آپ مطلق اطاعت کا دم بھرتے ہوں یوں کہ خدا کے ہاں سے اتری ہوئی کسی بالاتر سند سے مطلق آزاد وہ آپ کا مطاع وپیشوا ہو اور آپ اس کے حکم وقانون کو تسلیم کرتے ہوں تو دراصل وہ آپ کا رب اور معبود ہے چاہے آپ اس کے لیے ‘رب’ یا ‘خدا’ یا ‘معبود’ ایسے الفاظ استعمال نہ بھی کرتے ہوں اور چاہے اپنے اس فعل کو آپ ‘عبادت’ نہ کہتے ہوں۔

‘عبادت’ کے بارے میں یہ غلط فہمی جو آج مسلمانوں کی کثیر تعداد کو ہو چکی ہے عین یہی غلط فہمی صحابیِ رسول عدی رضی اللہ تعالی عنہ بن حاتم کو بھی لاحق ہوئی تھی جب وہ رسول اللہﷺ کے پاس اسلام قبول کرنے آئے تھے:

عَنۡ عَدِيٍّ بۡنِ حَاتِمٍ أنَّہٗ سَمِعَ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم یَقۡرَأُ ھٰذِہِ الآیۃَ (اتَّخَذُواْ أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللّهِ) الآیۃ، فَقُلۡتُ لہٗ: إنَّا لَسۡنَا نَعۡبُدُھُمۡ قَالَ: ألَیۡسَ یُحَرِّمُوۡنَ مَا أحَلَّ اﷲُ فَتُحَرِّمُوۡنَہٗ، وَیُحِلُّوۡنَ مَا حَرَّمَ اﷲُ فَتُحِلُّوۡنَہٗ؟ فَقُلۡتُ: بَلیٰ، قَالَ: ’’فَتِلۡکَ عِبَادَتُہُمۡ‘‘ (رواہ احمد والترمذی وحَسَّنہ)

”عدی رضی اللہ تعالی عنہ بن حاتم (طائی) سے روایت ہے کہ انہوں نے نبیﷺ کو (سورہ توبہ کی) یہ آیت (۳۱) پڑھتے ہوئے سنا ”انہوں نے اپنے احبار اور رہبان کو اللہ کے سوا رب بنا لیا ہے” (عدی کہتے ہیں) تو میں نے کہا: ہم ان کی عبادت تو نہیں کرتے۔ آپؐ نے فرمایا: جب وہ خدا کے حلال ٹھہرائے ہوئے کو حرام ٹھہراتے تو تم اس کو حرام نہیں ٹھہراتے اور جب وہ خدا کے حرام کردہ کو حلال کر لیتے ہیں تو تم ان کوحلال نہیں ٹھہراتے؟ میں نے کہا: یہ تو ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: تو پھر یہی تو ان کی عبادت ہے”۔

چنانچہ کسی کو حلال اور حرام کا تعین کرنے کا حق دینا دراصل اس کو خدا بنانا ہے اور اس کے حکم وقانون کو تسلیم کرنا درحقیقت اس کی عبادت کرنا۔ انسان کا انسان پر خدا بن بیٹھنا دراصل یہی ہے۔ وَلا یَتَّخِذَ بَعۡضُنَا بَعۡضاً أرۡبَاباً مِّنۡ دُوۡنِ اﷲِ (آل عمران:٦٤) یہ وہ دعوت تھی جس کو ازروئے قرآن رسول اللہﷺ اہل کتاب کو دینے پر مامور تھے یعنی ”ہم ایک دوسرے کو اپنا خدا نہ بنا لیں” جبکہ ظاہر ہے اہل کتاب اس انداز سے اپنے بڑوں کی عبادت نہ کرتے تھے جو بادیٔ النظر عدی رضی اللہ تعالی عنہ بن حاتم طائی نے سمجھا (یعنی پوجاپاٹ)۔ انسانوں کے ایک دوسرے پر خدا بن بیٹھنے سے یہاں مراد یہ ہے کہ کوئی انسان دوسرے پر اپنا حکم چلائے اور یہ کہ سب کے سب اطاعت وبندگی کی صورت میں ایک خدائے رب العالمین کی عبادت نہ کریں۔

Share

July 15, 2013

مادیت پرستی و الحاد – چوتھی تراویح سے ایک اقتباس

Filed under: مذہب — ابو عزام @ 5:01 am

زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِينَ وَالْقَنَاطِيرِ الْمُقَنطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْأَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ذَلِكَ مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَاللّهُ عِندَهُ حُسْنُ الْمَآبِ- آل عمران

لوگوں کے لیے مرغوبات نفس، عورتیں، اولا د، سونے چاندی کے ڈھیر، چیدہ گھوڑے، مویشی او ر زرعی زمینیں۔ بڑی خوش آئند بنا دی گئی ہیں، مگر یہ سب دنیا کی چند روزہ زندگی کے سامان ہیں۔ حقیقت میں جو بہتر ٹھکانا ہے، وہ تو اللہ کے پاس ہے۔

اہلِ کلیسا کے ان لرزہ خیز مظالم اور چیرہ دستیوں نے پورے یورپ میں ایک ہلچل مچا دی۔ ان لوگوں کو چھوڑ کر جن کے مفادات کلیسا سے وابستہ تھے، سب کے سب کلیسا سے نفرت کرنے لگے اور نفرت و عداوت کے اس جوش میں بدقسمتی سے انھوں نے مذہب کے پورے نظام کو تہ و بالا کردینے کا تہیہ کرلیا….۔ چنانچہ غصے میں آکر وہ ہدایتِ الٰہی کے باغی ہوگئے ۔ گویا اہلِ کلیسا کی حماقت کی وجہ سے پندرھویں اور سولھویں صدیوں میں ایک ایسی جذباتی کش مکش شروع ہوئی، جس میں چڑ اور ضد سے بہک کر ’تبدیلی‘ کے جذبات خالص الحاد کے راستے پر پڑگئے۔ اور اس طویل کش مکش کے بعد مغرب میں تہذیب الحاد (Secular) کا دور دورہ شروع ہوا۔ اس تحریک کے علَم برداروں نے کائنات کی بدیہی شہادتوں کے باوجود زندگی کی ساری عمارت کو اس بنیاد پر کھڑا کیا کہ دنیا میں جو کچھ ہے، وہ صرف مادہ ہے۔ نمو، حرکتِ ارادی، احساس، شعور اور فکر سب اسی ترقی یافتہ مادہ کے خواص ہیں۔ حیوان اور انسان سب کے سب مشینیں ہیں جو طبعی قوانین کے تحت چل رہی ہیں۔ ان مشینوں کے پُرزے جس طور سے ترتیب پائے ہیں، اسی قسم کے افعال ان سے صادر ہوتے ہیں۔ ان میں کوئی اختیار اور کوئی ارادہ نہیں۔
تہذیبِ جدید کے معماروں نے اسی فلسفے کو سامنے رکھ کر اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی عمارت تعمیر کی۔ ہرتحریک جس کا آغاز اس مفروضے پر کیا گیا کہ کوئی خدا نہیں، کوئی الہامی ہدایت نہیں، کوئی واجب الاطاعت نظامِ اخلاق نہیں، کوئی حشر نہیں اور کوئی جواب دہی نہیں، ترقی پسند تحریک کہلائی۔ اس طرح یورپ کا رُخ ایک مکمل اور وسیع مادیت کی طرف پھر گیا۔ خیالات، نقطۂ نظر، نفسیات و ذہنیت، اخلاق و اجتماع، علم و ادب، حکومت و سیاست، غرض زندگی کے تمام شعبوں میں الحاد اس پر پوری طرح غالب آگیا۔ اگرچہ یہ سب کچھ تدریجی طور پر ہوا اور ابتدا میں تو اس کی رفتار بہت سُست تھی لیکن آہستہ آہستہ اس طوفان نے سارے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ (’انسانیت کی تعمیرنو اور اسلام‘، عبدالحمید ایم اے، ترجمان القرآن، جلد۴۰، عدد ۴۔۵، شوال، ذیقعد ۱۳۷۲ھ، جولائی، اگست ۱۹۵۳ء، ص۸۴۔۸۵)

Share

July 11, 2013

دین صرف اسلام – تیسری تراویح سے ایک اقتباس

Filed under: مذہب — ابو عزام @ 4:38 pm

إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللّهِ الْإِسْلاَمُ وَمَا اخْتَلَفَ الَّذِينَ أُوْتُواْ الْكِتَابَ إِلاَّ مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ وَمَن يَكْفُرْ بِآيَاتِ اللّهِ فَإِنَّ اللّهِ سَرِيعُ الْحِسَابِ – آل عمران۱۹

اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔ اس دین سے ہٹ کر جو مختلف طریقے اُن لوگوں نے اختیار کیے، جنہیں کتاب دی گئی تھی، اُن کے اِس طرز عمل کی کوئی وجہ اس کے سوا نہ تھی کہ انہوں نے علم آ جانے کے بعد آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی کرنے کے لیے ایسا کیا اور جو کوئی اللہ کے احکام و ہدایت سے انکار کردے، اللہ کو اس سے حساب لیتے کچھ دیر نہیں لگتی۔

Share

July 10, 2013

صبر و نماز سے استعانت – دوسری تراویح سے ایک اقتباس

Filed under: مذہب — ابو عزام @ 5:07 pm

وَاسْتَعِينُواْ بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَةِ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلاَّ عَلَى الْخَاشِعِينَ۔ الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُم مُّلاَقُوا رَبِّهِمْ وَأَنَّهُمْ إِلَيْهِ رَاجِعُونَ . البقرۃ

صبر اور نماز سے مدد لو، بیشک نماز ایک سخت مشکل کام ہے، مگر ان فرماں بردار بندوں کے لیے مشکل نہیں ہے جو سمجھتے ہیں کہ آخر کار انہیں اپنے رب سے ملنا اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔

یعنی جو شخص خدا کا فرمانبردار نا ہو اور آخرت کا عقیدہ نا رکھتا ہو اس کے لئے تو نماز کی پابندی ایک ایسی مصیبت ہے جسے وہ کبھی گوارا ہی نہیں کرسکتا۔ مگر جو برضا و رغبت خدا کے آگے سر اطاعت خم کر چکا ہو اور جسے یہ خیال ہو کہ کبھی مر کر اپنے خدا کے سامنے جانا بھی ہے اس کے لئے نماز ادا کرنا نہیں بلکہ نماز کا چھوڑنا مشکل ہے۔  تفہیم القران  جلد اول، صفحہ ۷۴

Share

July 9, 2013

علم انسانی – پہلی تراویح سے ایک اقتباس

Filed under: تحقیق,مذہب — ابو عزام @ 1:45 pm

وَعَلَّمَ آدَمَ الأَسْمَاءَ كُلَّهَا۔۔ البقرہ

اس کے بعد اللہ نے آدمؑ کو ساری چیزوں کے نام سکھائے

انسان کے علم کی صورت دراصل یہی ہے کہ وہ ناموں کے ذریعے اشیا کے علم کو اپنے ذہن کی گرفت میں لاتا ہے۔ لہذا انسان کی تمام معلومات دراصل اسمائے اشیا پر مشتمل ہیں۔ آدم کو سارے نام سکھانا گویا ان کو تمام اشیا کا علم دینا تھا – تفہیم القران جلد اول صفحہ ۶۳

ٹیکسانومی

اونٹالوجی

Share

July 3, 2013

میدان التحریر بمقابلہ مسجد رابعہ العدویہ

Filed under: خبریں,سیاست,مذہب,مشاہدات — ابو عزام @ 6:35 am

تیس سالہ آمریت کے جبر و استبداد کے بعد سیکیولر و ترقی پسندوں کی جمہوری کامیابی۔ اسلام پسندوں کے پر تشدد مظاہرے اور فوج کا منتخب صدر کو مفاہمت کا الٹی میٹم۔

معاف کیجٗے گا، کچھ الٹا لکھ گیا۔ یہ صورتحال ہوتی تو یقینا ناقابل برداشت ہوتی۔ لیکن اگر چونکہ اسکے برعکس ہے، توپھر ٹھیک ہے۔

 حضور، جب نظام پادشاہی ہو تو آپ ملوکیت و استبداد کا رونا روئیں ، اور جب اسلام پسند مروجہ جمہوری طریقے سے برسر اقتدار آئیں تو یہ بھی آپکو اچھا نا لگے کہ چِت بھی اپنی، پَٹ بھی  اپنی

خُداوند یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں۔۔

Share

May 18, 2013

کیوں بمقابلہ کیسے

Filed under: ادبیات,فلسفہ,مذہب,مشاہدات — ابو عزام @ 11:31 am

سائنس جب کبھی یہ سوال کرتی ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے، اس سے درحقیقت یہ مراد ہوتی ہے کہ ایسا کیسے ہوتا ہے۔ اسباب کی سائنسی تحقیق ہمیشہ کسی امر کی تجربہ گاہ میں  تصدیق و تكرار سے بحث کرتی ،  تخلیق کی  غیبی و روحانی وجوہات سے اسکو کوی خاص دلچسپی نہیں ہوتی ۔

جب انسان اپنے گرد ونواح پر نظر ڈالتا ہے تو اس کا یہ سوال، ایسا کیوں ہے، عموما اس جواب  کا متقاضی ہوتا ہے کہ اس کارخانہ ہستی کی اصل کیا ہے، تخلیق کا مبتدا و منتہی کیا ہے، مقصد زندگانی کیا ہے؟  یہ وہ سوالات ہیں جن کے بارے میں سائنسی تحقیق یا تو خاموش ہے یا اسکا خیال ہے کہ  یہ سب یونہی بے کار بے سبب بے وجہ وجود میں ٓآگیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ سائنس اور مذہب کا کسی بھی سطح پر مسابقہ بے معنی ہے۔ ایک کا کیوں اور کیسے دوسرے کے کیوں اور کیسے سے قطعی مختلف ہے۔

اسی زمن میں امام غزالی نے فرمایا کہ

 ریاضی اور منطق میں کوئی بات ایسی نہیں جو اسلام سے متصادم نظر آتی ہو. ان کا کہنا ہے کہ فن منطق کا علم دین سے بالراست منفی یا مثبت کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہے، کیونکہ اس فن میں تو صرف اس امر پر بحث ہوتی ہے کہ دلائل کیا ہیں؟  ان کی جانچ پڑتال کی کسوٹی کیا ہے؟ برھان کسے کہتے ہیں؟ اس کے مقدمات کی شرائط کی نوعیت کیا ہے؟ تعریف کس سے تعبیر ہے اور اس کو کس طور پر مرتب کیا جاتا ہے؟ مزید اس علم میں یہ بتایا جاتا ہے کہ علم کی دو اقسام میں تصور یا تصدیق- تصور کو تعریفات و حدود کے ذریعہ معلوم کیا جاتا ہے، اور تصدیق کی شناخت، براھین اور دلائل سے ہوتی ہے. ظاہراً ان میں کوئی بات ایسی نہیں جس کو دین سے متصادم کہا جا سکے. بلکہ یہ تو بعینہ وہی باتیں ہیں جن کا اہل کلام اور اھالیان بحث و نظر کےہاں عموماً چرچا رہتا ہے. البتہ ان میں اور منطقیوں میں یہ فرق ضرور ہے کہ یہ انہیں مطالب کے لئے اپنی مخصوص اصطلاحیں استعمال کرتے ہیں. اور تعریفات اور جزئیات میں زیادہ الجھتے ہیں. جب کہ وہ زیادہ تعمقات سے کام نہیں لیتے

Share
Older Posts »

Powered by WordPress