فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

May 14, 2013

تلقین غزالی، ایک رفریشر

Filed under: ادبیات,مذہب,مشاہدات — ابو عزام @ 9:05 pm

پچھلے دنوں گوگل ہینگ آوٹ پر برادرم ریاض شاہد  نے گفتگو کے دوران غزالی، الہیات اور عقل کی حیثیت پر ہماری ناقص راے پوچھی، اس استفسار کا جواب تو محدود مطالعے کی بنا پر جو ہم سے بن پڑا وہ دے دیا لیکن یہ خیال ذہن سے نکالے نا نکلا کہ امام غزالی کو پڑھے ہوے عرصہ گذرا، اور وہاں بھی ان کی کتب کا مطالعہ زیادہ تر کیمیائے سعادت اور مکاشفتہ القلوب کے دروس تک ہی محدود رہا، کبھی شہرہ آفاق تحافتہ الفلاسفہ نہیں کھولی، محض تشریحات و اقتباسات پر ہی انحصار کرتے رہے۔ محدود وقت کی وجہ سے ہم نے قاضی قیصر السلام کی کتاب فلسفے کے بنیادی مسائل دوبارہ کھولی اور اس میں سے موجود امام غزالی پر ایک جامع مضمون دوبارہ پڑھ ڈالا، اب قارئین کی دلچسپی کے لئے اسکا کلف نوٹش ورژن شائع کئے دیتے ہیں کہ سند رہے اور وقت ضرورت کام آے۔

امام غزالی

امام موصوف کا پورا نام ابو حامد محمّد ابن محمّد غزالی ہے. غزالی اپنے ہم عصر حکماۓ کلام میں نہایت ممتاز اور بلند پایہ شخصیت کے حامل ہیں. آپ مسلک شافعی کے آئمہ فکر میں سے ہیں. آپ خراسان کے شہر طوس میں ٤٥٠ھ میں پیدا ہوئے. آپ کے خیالات و افکار پر واضح روشنی خود آپ ہی کی تصنیف “المنقذ من الضلال” کے مطالعہ سے پڑتی ہے. اس کتاب میں موجودات عالم کے حقائق سے متعلق تشریحات کی گئی ہیں. آپ نے حقیقت کی بحث کے دوران فلاسفہ متکلمین باطنیه کے مبادیات پر غور کیا اور صرف تصوف، تامل، انجذاب ہی میں راہ ہدایت پائی. حالانکہ غزالی نے صوفیا کے افکار میں کوئی خاص ایزاد نہیں کیا. تاھم ان کے افکار کا فلسفه، عرب پر بڑا گہرا اثر پڑا. ان کی تصانیف میں جن دو کتابوں کا مطالعہ از بس ضروری ہے ان میں پہلی کتاب “مقاصد الفلاسفه” اور دوسری “تھافتھ الفلاسفه” ہے. مقاصد الفلاسفه دراصل علوم فلسفه کی تلخیص ہے اور تھافتھ الفلاسفه علوم فلسفه کے رد میں لکھی گئی.

اشعری الٰہیات کے مباحث میں پیش بہا کامرانیوں کی آخری کڑی امام غزالی ہیں. آپ کمسنی ہی میں یتیم ہو گئے تھے چناچہ آپ کے والد کے ایک صوفی دوست نے آپ کو تعلیم دلائی. بعد میں نیشا پور کے مدرسه میں داخل ہو گئے اور جیسے ہی آپ نے مروجہ علوم میں ترقی کی، یہ صوفی اثرات سے آزاد ہو کر اشعری ہو گئے. بعد ازیں ٤٨٤ھ میں مدرسه بغداد کے صدر مقرر ہوئے. لیکن بہت آپ روحانی اضطراب کا شکار ہو گئے اور اس عہدے سے مستعفی ہو کر شام چلے گئے جہاں انہوں نے اپنا پورا وقت مطالعہ و عبادات میں گزارا. ٤٩٩ھ  میں دوبارہ نیشا پور واپس آگۓ اور یہاں مدرسه نظامیہ میں معتدل اشعری نظام فکر کی تعلیم کی قیادت سنبھال لی جس پر تصوف کا رنگ غالب تھا، جسے ہم اہل سنت کی الٰہیات کا آخری ارتقا قرار دے سکتے ہیں. گویا امام غزالی کو اشعری الٰہیات کے فروغ میں ایک اہم ستون کی حیثیت حاصل ہے..

آپ کے حالات زندگی اور علمی حیثیت کے اس اجمال کے بعد اب ہم آپ کے افکار کا جائزہ لیں گے. امام صاحب کو متکلم فلسفی کا مرتبه دیا جاتا ہے جب کہ اس کے برعکس ابن سینا، فارابی اور ابن رشد کی حیثیت فلسفی متکلم کی ہے.

علم منطق کے بارے میں امام غزالی اپنی تصنیف “المنقذ من الضلال” میں لکھتے ہیں کہ ریاضی اور منطق میں کوئی بات ایسی نہیں جو اسلام سے متصادم نظر آتی ہو. ان کا کہنا ہے کہ فن منطق کا علم دین سے بالراست منفی یا مثبت کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہے، کیونکہ اس فن میں تو صرف اس امر پر بحث ہوتی ہے کہ دلائل کیا ہیں؟  ان کی جانچ پڑتال کی کسوٹی کیا ہے؟ برھان کسے کہتے ہیں؟ اس کے مقدمات کی شرائط کی نوعیت کیا ہے؟ تعریف کس سے تعبیر ہے اور اس کو کس طور پر مرتب کیا جاتا ہے؟ مزید اس علم میں یہ بتایا جاتا ہے کہ علم کی دو اقسام میں تصور یا تصدیق- تصور کو تعریفات و حدود کے ذریعہ معلوم کیا جاتا ہے، اور تصدیق کی شناخت، براھین اور دلائل سے ہوتی ہے. ظاہراً ان میں کوئی بات ایسی نہیں جس کو دین سے متصادم کہا جا سکے. بلکہ یہ تو بعینہ وہی باتیں ہیں جن کا اہل کلام اور اھالیان بحث و نظر کےہاں عموماً چرچا رہتا ہے. البتہ ان میں اور منطقیوں میں یہ فرق ضرور ہے کہ یہ انہیں مطالب کے لئے اپنی مخصوص اصطلاحیں استعمال کرتے ہیں. اور تعریفات اور جزئیات میں زیادہ الجھتے ہیں. جب کہ وہ زیادہ تعمقات سے کام نہیں لیتے. امام غزالی کہتے ہیں کہ جب یہ ثابت ہو چکا کہ ہر انسان حیوان ہےتو اس سے یہ امرلازم ہوا کہ بعض حیوان انسان ہوتے ہیں. یعنی اصطلاحاً اسے یوں کہیں گے کہ موحیه کلیه کا عکس ہمیشہ موحیه جزئیہ ہوتا ہے. اس سے یہ انکشاف ہوا کہ دین کے اہم مسائل سے اس کا کیا تعلق ہے اور پھر اس کو نہ مانا جاۓ تو کس دلیل کی بناء پر؟ تا ہم اس میں بھی عملا یہ قباحت ہے کہ کچھ لوگ اس حسن ظن کا شکار ہو جاتے ہیں کہ جو اندازو معیار ان کا علم منطق میں ہے وہی عقائد و دینیات میں بھی ہوگا-..

حالانکہ حقیقتا ایسا نہیں ہے کیونکہ ان کی فہم و فراست صرف اس لئے..میدان پر مبنی ہو کر رہ گئی ہے جب کہ الٰہیات میں یہی لوگ حد درجہ تساہل سے کام لیتے ہیں. فن منطق پر غزالی کی تنقید کا اصل منشاء بھی یہی ہے کہ ہر فن کے دائروں کو ان کے اپنے جداگانہ تناظر میں سمجھا جاۓ اور جب کبھی کسی مسئلہ پر بحث کی جاۓ تو اس میں تقلید کی بنا پر راۓ زنی سے پرہیز برتا جاۓ. بلکہ دیکھنا یہ چاہیے کہ نفس مسئلہ کس حد تک صداقت کا حامل ہے. چناچہ فلسفہ پر بھی امام غزالی کےاعتراضات کی نوعیت کچھہ ایسی ہی ہے.

مسئلہ وجود پر بحث کرتے ہوئے امام غزالی کہتے ہیں کہ وجود کے تین مختلف عالم ہیں:-

١ – عالم ملک — یہ وہ عالم ہے جس میں وجود کا علم حواس کے ذریعہ سے ہوتا ہے. اس میں عالم کا علم ادراک سے ہوتا ہے اور یہ ہر آن متغیر رہتا ہے.

٢- عالم ملکوت_ یہ عالم حقیقت کا غیر متغیر اور ابدی عالم ہے، جو خدا کے حکم سے قائم ہوا

اور یھ عالم جس کا محض پر تو ہے

٣ – عالم جبروت_ یہ درمیانی حالت ہے. صحیح معنوں میں اس کا تعلق حقیقت سے ہے مگر یہ بظاھر ادراک کی سطح پر معلوم ہوتا ہے اس درمیانی حالت میں انسانی روح ہے جو عالم حقیقت سے متعلق ہے اگر چھ بظاھر اس کا اظلال سطح ادراکی پر ہوتا ہے.جس سے اس کا تعلق نہیں اور پھر یہ حقیقت کی طرف لوٹ جاتی ہے.

قلم و لوح وغیرہ جن کا ذکر قرآن میں ملتا ہے. محض تمثیل نہیں ہیں. ان کا تعلق عالم حقیقت سے ہے اور اس لئے یہ اس کے علاوہ ہیں جو کچھہ ہم اس عالم ادراک میں دیکھتے ہیں. یہ تینون سطحیں یا عالم زمان اور مکان میں علیحدہ نہیں ہیں. بلکہ انہیں وجود کی ہی اشکال سمجھنا چاہئے.

علاوہ ازیں امام موصوف وجود کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وجود ایک ہے جو تمام مخلوق کا خالق ہے. وہ لاشریک و بے ھمتا اور یکتاۓ زمانہ ہے. وہ ھمیشہ سے ہے اور ھمیشہ باقی رہیگا. ازل سے ابد اس ہستی کا وجود یقینی ہے. یہ قائم بالذات اور مکتفی بالذات ہے. یہ وجود بذات خود نہ جوہر ہے اور نہ عرض. وہ کسی وجود میں نہیں سماتا اور نہ کسی چیز سے مشابہ ہے. اس کی شکل و شبیه کوئی نہیں. اس کی ذات بے چون و چرا ہے. ہمارے توھمات و تخلیلات میں جو کچھہ آتا ہے یا آ سکتا ہے وہ ان سب سے بالاتر ہے کیونکہ یہ تو خود تخیلات کا بھی ضائع ہے. خوردی و بزرگی اور کمی و بیشی سے اس کا کوئی تعلق نہیں کیونکہ خود یہ صفات بھی صور جسمیہ سے متعلق ہیں جن سے اس کا وجود منزہ ہے. وہ نہ کسی جگہ پر ہے اور نہ ہی اس لئے کوئی جگہ متعین ہے.

اس دنیا میں جو کچھہ ہے وہ عرش کے ماتحت ہے اور عرش اعلیٰ اس کی مرضی اور ارادے سے مسخر ہے. وہ عرش سے کہیں اعلیٰ تر ہے. ایسے نہیں جیسے کوئی جسم کسی جسم پررکھہ دیا جاۓ کیونکہ وہ کوئی جسم نہیں اور نہ ہی عرش اس کو اٹھاۓ ہوئے ہے، بلکہ عرش صرف اس کے حکم کے مطابق ایک جگہ قائم ہے. اس کی ذات کی صفت آج بھی وہی ہے جو عرش کو بنانے سے پہلےتھی اور آئندہ بھی ابدالاباد تک ایسی ہی رہےگی. گردش و انقلابات عالم کا اس کی ذات سے کوئی تعلق نہیں.

اگر گردش و انقلاب میں نقصان کی صفت ہوگی تو وہ خدائی کے قابل نہ ہوتا اور اگر انقلابات زمانہ ترقی و صفات حسنہ کے باعث ہوں گے تو اس کی مثال ایسی ہو جاۓ گی جیسے کوئی چیز اول نقص تھی بعد ازیں کامل ہوگئی. یہ صفت بھی مخلوق کے لئے ہوتی ہے خالق کے لئے نہیں.-١

امام غزالی خالق کے علم کو مخلوق کے علم سے مماثل سمجھتے ہیں اور ایک کو دوسرے پر قیاس کرتے ہیں. مثلا انسان مادیات کا علم حواس کے واسطے سے اور مجردات کا علم عقل کے ذریعہ سے حاصل کرتا ہے اور ان ہر دو صورتوں میں معلومات اس کے علم کی علت ہوتی ہیں. گویا جب انسان کا علم خود معلومات کا تابع اور معلول ہے تو معلومات کے تغیر و تعدد سے انسان کے علم میں بھی تغیرو تعدد پیدا ہو جاتا ہے. لیکن اس کے برعکس فلاسفہ کے نزدیک خدا کا علم خود علت ہے. معلومات کا معلول نہیں اس لئے اس کے علم کا قیاس انسانی علم پر نہیں کیا جا سکتا. یہی وجہ ہے کہ فلاسفہ کے نزدیک خدا کو موجودات کا جو علم حاصل ہوتا ہے وہ کلیت و جزئیت کے ساتھہ وہ علم متصف ہوتا ہے جو عقل انفعالی کے ساتھہ تعلق رکھتا ہو اور خدا فعل محض ہے گویا عقل کو صرف موجودات کا علم ہوتا ہے اور معدومات کا علم نہیں ہوتا. امام غزالی کے نزدیک خدا کا صانع عالم ہونا اسی وقت ثابت ہوتا ہے جب اس سے اس کا صدور ارادہ و اختیار سے ہو.

تخلیق کائنات پر بحث کرتے ہوئے امام غزالی طبیعیات کی قدرو منزلت کو بھی پورے طور پر محسوس کرتے ہیں. انکا کہنا ہے کہ جس طور پر ایک طبیب جسم کے اعضاء رئیسہ اور اجزاۓ خادمہ پر غور کرتا ہے اور وہ ایسا کرتے ہوئے اس میں کسی پہلو کو اسلام و مذہب کے تقاضوں کو منافی نہیں سمجھتا اسی طرح طبیعیات میں بھی مختلف اشیا کی ترکیب و امتزاج سے بحث کرنا قطعی مذہب کی روح سے متصادم نہیں. طبیعیات میں کار فرما شے خود طبیعیت نہیں بلکہ خاطر طبیعیت ہے کیونکہ اس عالم میں ایک طرح کی فعالیت ہے اس کی کوئی توجیہہ علل و معلول کے اس بے جان گورکھہ دھندے سے نہیں ہو پاتی. وہ کہتے ہیں کہ یہ کارخانہ حیات اور کائنات نظم و ترتیب اور ایک طرح کے ارتقا کا متقاضی ہے. وہ کہتے ہیں کہ طبیعیت میں زندگی و عمل کی جستجو بے کار ہے. اس کا مبدا تو بھر حال حی و قیوم خدا کی ذات ہی کو قرار دینا ہوگا..

قانون علت و معلول کے متعلق غزالی کہتے ہیں کہ یہ تصور بھی ذہن و عادات کے تصور کی کرشمه زنی ہے ورنہ خارج میں اس طرح کے کسی رشتہ و تعلق کا ہمیں براہ راست تجربہ نہیں. کیونکہ جو کچھہ ہم دیکھتے ہیں وہ یہ ہے کہ جب آگ جلتی ہے تو اس میں احتراق یا جلانے کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے. جب آفتاب طلوع ہوتا ہے تو روشنی سارے عالم میں پھیل جاتی ہے یا جب بجلی چمکتی ہے تو ایک آواز ہمارے کانوں کے پردے سے ٹکرا جاتی ہے. اس کے معنی یہ ہے کہ ہمارے مشاہدے میں دو چیزیں ھمیشہ ایک خاص ترتیب کے ساتھہ ہی آتی ہیں. ایک آگ اور ایک قوت آواز، ایک آفتاب اور ایک روشنی، یا ایک بجلی کی چمک اور ایک آواز رعد کا احساس اور ان دونوں مظاھر میں تعلق اور رشتے کی کیا نوعیت ہے؟ اس کا کوئی احساس ہمیں نہیں ہو پاتا اور منطقی اصطلاح میں یوں کہنا چاہئے کہ ان کو علت و معلول قرار دینا محض ایک نوع کے استقرا کا نتیجہ ہے جو ذہن و عادت سے متعلق ہے تجروبہ و مشاہدے سے بہر حال اس کا کوئی تعلق نہیں کیونکہ  تجروبہ اور مشاہدے کی گرفت میں تو محض دو مختلف قسم کے واقعات ہی آ پاتے ہیں جو ہر چند کہ باہم متعلق نظر آتے ہیں تا ہم دقت نظر اور غور سے دیکھئے تو سوا اس کے کہ ہم نے ان ہردو واقعات کو ہمیشہ ایک دوسرے کے تعاقب میں ایک خاص ترتیب کے ساتھہ لگا ہواپایا یا صادر ہوتے دیکھا ہے اور کسی شے کا مشاھدہ نہیں کیا. چناچہ معلوم یہ ہوا کہ یہ صورت محض ذہن وعادت کی شعبدہ گری ہے کہ اس نے ایسے دو واقعات میں علت و معلول کا ایک رشتہ فرض کر لیاہے جو ہمیشہ توالی و تعاقب کے سانچے میں ڈھلے ہوئے نظر آۓ اور یہ سمجھہ لیا کہ پہلے ظہور میں آنے والی شے علت اور بعد میں ظہور کرنے والی شے معلول ہے جو اس ماقبل کے نتیجہ میں پیدا ہوئی ہے.

زمان و مکان کے تصورات کی بحث میں قدیم فلاسفہ مختلف نظریات پیش کرتے آئے ہیں. یہ پرانے تصورات کچھہ اس طرح کے تھے کہ علاوہ ان جزیات و افراد کے جو پاۓ جاتے ہیں یہ بھی حقیقی وجود کا وصف رکھتے ہیں اور تمام جزیات و افراد کا ان سے تعلق ظرف و مظروف کا ہے. مکان کے بارے میں یہ فلاسفہ کہتے تھے کہ یہ ظرف باوجود اپنی وسعتوں کے بہر حال محدود ہیں کیونکہ کائنات خود محدود ہے اور زمانہ ایک ایسا وسیع تر ظرف اور پیمانہ ہے جو بے کراں و بے انتہاء ہے یعنی یہ غیر محدود اور لا منتاہی ہے.  لیکن غزالی زمان و مکاں کو جسم سے جدا کوئی مستقل بالذات ظرف قرار نہیں دیتے بلکہ ان کے خیال میں دونوں کا تعلق جسم ہی کے امتداد یا حرکت سے ہے یعنی کسی ایک ہی چیز کے استداد کو مکان سے تعبیر کیا جاتا ہے اور وہ چیز جب متحرک ہوتی ہے تو اس سے زمانہ کا تصور اپنے مخصوص پیمانوں میں ازخود ذہن انسانی میں ابھرتا ہے. گویا یہ الفاظ دیگر یہ امتداد و حرکت جسم ہی کے ابعاد میں سے ہیں. ان سے جدا اور الگ ان کا کوئی وجود ہی نہیں اور اس طور پر غزالی کو کانٹ کا پیشرو کہا جا سکتا ہے.

غزالی الله کی صفات سے بحث کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ خدا کے ازلی و ابدی ہونے کے معنی یہ ہر گز نہیں کہ اس کی ذات پاک زمانی ہے اور زمانہ بھی وہ کہ جو حرکت مکان سے وجود میں آتا ہے بلکہ وہ خود خالق ہونے کی وجہ سے وقت و زمان کے حدود و اطراف سے ماورا اور مستغنی ہے. بلکل اسی طور پر مکان کے متعلقات کا اطلاق بھی اس پر نہیں ہو سکتا کیونکہ جریات و افراد سی علیحدہ اس کا اپنا کوئی وجود ہی نہیں. گویا غزالی کے نزدیک جہات و اطراف کا تصور انسان کی ھیت تر کیبی سے وابستہ ہے. لہٰذا اگر کوئی حیوان اس قسم کی ھیت ترکیبی سے متصف نہ ہو تو اس کی جہات انسانی جہات سے مختلف ہونگی. مثلآ چیونٹی یا چھپکلی کی مثال ہمارے سامنے ہے. جس طرح یہ زمین پر چلتی ہے اسی آسانی سے یہ چھت کی نچلی طرف بھی چلتی ہے اور بلاشبہ جو ہمارا فوق ہوتا ہے وہ اس چھپکلی کا تحت بن جاتا ہے بلکہ ان ہر دوصورتوں میں ایک طرح سے نسبت تضاد پائی جاتی ہے گویا الله تعالیٰ کا تعلق جہت علوی سے ہونا کوئی بہت خوبی کی بات نہیں کیونکہ یہ علو خود اضافی اور اعتباری صورت حال ہے حقیقی نہیں.

حضرت امام غزالی بطلیموسی نظام ھیت کے قائل نظر آتے ہیں. تاہم ان کا کہنا ہے کہ اجرام سماویہ کا تعلق ادنیٰ ترین سطح یعنی عالم حواس سے ہے. کل فطرت کے پس پردہ خدا ہے جو سطح حقیقت پر ہے. عقل کی رسائی بلند ترین سطح تک نہیں ہے کیونکہ اس کے اعمال کو ادراک حسی کی شہادت پر بھروسہ کرنا پڑتا ہے. حقیقت کی سطح تک رسائی کے لئے انسان کا روحانی صلاحیت میں بلند ہونا لازم ہے جس کے وسیلے سے غیر مرئی اشیا مستقبل کے اسرار اور ایسے دوسرے تعقلات کا ادراک ہوتا ہے جو اسی طرح سے عقل کی رسائی سے خارج ہوتے ہیں، جس طرح عقل کے تعقلات محض امتیاز اور اس کی رسائی سے بھر ہوتے ہیں١- جس کا امتیاز حواس کے ذریعہ سے مدرک ہوتا ہے. وحی و الہام کے معنی انبیاء و اولیا پر حقائق کے منکشف ہونے کے ہیں اور ان حقائق کا علم صرف ایک ایسے ہی الہاسی شخصی تجروبہ سے ہو سکتا ہے جس سے روح حقیقت کی سطح تک بلند ہو جاتی ہے اور صرف اتنا ہی نہیں کہ قرآن مجید کے تمام حقائق الہاسی ہیں، بلکہ خیر و شر کے تمام تصورات بھی الہاسی ہیں اور ان تک صرف عقل سے پہنچنا ممکن نہ تھا اور بلاشبہ یہ وہ نکتہ ہے جس سے معتزلہ کے اس دعوے کی تردید مقصود ہے کہ اخلاقی امتیازات کا عقل کے واسطے سے ادراک ہو سکتا ہے اور فلاسفہ و اطبا اور ھیت دانوں پر بھی حقائق اسی کشف کے ذریعہ منکشف ہوتے ہیں. لہٰذا معلوم یہ ہوا کہ امام غزالی ابن رشد کے خلاف اسی فوق العقلی وجدان پر زور دیتے ہیں جو کہ حالت وجد میں حاصل ہوتا ہے جس کے ذریعہ سے روح عالم ظلی سے بلند ہو کر عالم حقیقت تک پہنچ جاتی ہے. یہ رجحان خالصتا تصوف کی پیداوار تھا اور اس طرح سے غزالی اہل سنت کے یہاں عنصر تصوف کو داخل کرتے ہیں اور ساتھہ ہی صوفیت کو حکمی شکل میں منتقل کرتے ہیں. ان کا یہ شاندار کام

چار عنوانات کے تحت آتا ہے.

١- انہوں نے اہل سنت کے یہاں تصوف کو داخل کیا.

٢- انہوں نے فلسفہ کے استعمال کو مقبول عام بنایا.

٣- انہوں نے فلسفہ کو الہیات کے تابع بنا دیا.

٤- انہوں نے خدا کو ملّت اسلامیہ میں ایک زمانہ میں بحال کیا جب تعلیم یافتہ طبقہ میں خوف کا عنصر کم ہونے لگا تھا.

 

چناچہ امام غزالی تک آ کر اسلامی الٰہیات کی ترقی درجہ کمال کو پہنچ جاتی ہے. غزالی نے جی تین مسائل کو بلخصوص موجب تکفیر جانا ہے وہ یہ ہیں :-

١- یوم حشر میں اجسام اٹھاۓ نہیں جائیں گے.

٢- الله کا علم صرف کلیات کا ہی احاطہ کئے ہوئے ہے جزیات کا نہیں.

٣- یہ کارخانہ’ عالم ازل تا ابد یونہی قائم و دائم رہے گا.

اقتباس از ے قاضی قیصر السلام، فلسفے کے بنیادی مسائل

Share

April 28, 2013

عسکری الحادئیے

Filed under: مذہب — ابو عزام @ 6:50 am

کیونکہ عسکری ملحدین یا دہریہ کہنے سے، باالفاظ شعیب سلیم، ٹیمپو نہیں بنتا۔

الحاد ایک مذہب ہے، اور اس کے عسکری پیروکار و معتتقدین انہی غیر اثبات شدہ حقیقتوں کا پرچار کرتے ہیں جن کے عدم ثبوت میں وہ دیگر متصور الہامی وغیر الہامی مذاہب کے تمسخر و استہزا پر مصر ہیں۔ کم از کم پیر مغاں کلیسا الحاد نے اس عدم ادراک کی لاج رکھی ورنہ علمی دیوالیہ تو اس انبوہ کا وطیرہ ٹھرا۔

اور جب مفتود شدہ اخلاقی جرات کی بات چل نکلی ہے تو جہاں حضرت انسان کی اطاعت طلب کرنے پر انہیں مذہب سے خدا واسطے کا بیر ہے (واللہ عالم اس محاورے کا لغت زندیقیہ میں ترجمہ کیا ہوتا ہے)، وہیں حضورکا انسانی فلسفہ و نظریات مثلا جمہوریت و اشتراکیت و ملوکیت و فاشیستی واستبداد کی پبلک پالیسی امور میں دخل اندازیوں سے ایسا تجاہل غیر عارفانہ و صرف نظر کہ دامن پہ کوئ داغ نا ۔۔

وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ

Share

April 26, 2013

عقلیت پرستی کا دور از حسن عسکری

Filed under: ادبیات,کتابیات,مذہب,مشاہدات — ابو عزام @ 9:58 pm

عقلیت پرستی کا دور، انتخاب از مجموعہ محمد حسن عسکری

حسن عسکری

عقلیت پرستی کی داستان یہ ہے. سترھویں صدی کے وسط تک لوگ یہ طے کر چکے تھے کہ انسان کی جدوجہد کا میدان یہ مادی کائنات ہے، اور انسان کا مقصد حیات تسخیر فطرت یا تسخیر کائنات ہونا چاہئے. بیکن نے مطالعہ فطرت کا طریقہ بھی مقرر کر دیا تھا. اب سوال یہ تھا کہ انسانی صلاحیتوں میں کونسی صلاحیت ایسی ہے جو تسخیر کائنات کے لئے زیادہ مفید ہو سکتی ہے. اس دور نے یہ فیصلہ کیا کہ انسان صرف عقل (یعنی عقل جزوی اور عقل معاش) پر بھروسہ کر سکتا ہے، کیونکہ یہی چیز سارے انسانوں میں مشترک ہے. عقل (جزوی) کا یہ اختصاص ظاہر کرنے کے لئے ان لوگوں نے لفظ (یونیورسل) استعمال کیا. اس لفظ کی وجہ سے اتنی غلط فہمیاں اور گمراہیاں پیدا ہوئی ہیں کہ ہمارے علماء کو اس کی نوعیت اچھی طرح ذہن میں رکھنی چاہئے. اس لفظ کے اصل معنی ہیں. “عالم گیر” یا “کائنات گیر”مگر یہاں عالم کے معنی مادی کائنات نہیں ہیں، بلکہ وہ مفہوم ہے جو “اٹھارہ ہزار عوالم” کے فقرے میں آتا ہے. ہمارے دینی علوم میں دراصل اس مفہوم کو ادا کرنے کے لئے دو کافظ استعمال ہوتے ہیں…”کامل” (جیسے “انسان کامل”) اور “کلی” (جیسے “عقل کلی”) مگرفی الحال مغرب “عوالم” کا مطلب نہیں جانتا’ اس کے ذہن میں “عالم” کا مطلب صرف مادی کائنات اور اس کے اجزاء ہیں. چناچہ سترھویں صدی سے مغرب میں (یونیورسل) کا لفظ جنرل (یعنی عمومی) کے معنوں میں استعمال ہو رہا ہے. جو چیز “عمومی” ہوتی ہے وہ انفرادیت اور جزویت ہی کے دائرے میں رہتی ہے “کامل” اور “کلی” نہیں ہوتی. مگر مغرب اس امتیاز سے واقف نہیں.

یہ تو جملہ معترضہ تھا. غرض ‘ عقلیت پرستی کے دور میں یہ بات تسلیم کرلی گئی کہ انسان کی رہنمائی بس عقل (جزوی) کر سکتی ہے.

اس دور کے سب سے بڑے “امام” دوہیں. ایک تو فرانس کا فلسفی اور ریاضی دان دے کارت اور دوسرا انگلستان کا سائنسدان نیوٹن.

دیکارت یوں تو رومن کیتھلک پادری تھا’ اور اپنی تحریروں کے ذریعے لوگوں کے شکوک و شبہات دور کر کے اپنے دین کی خدمت کرنا چاہتا تھا. لیکن نتیجہ الٹا نکلا’ مغرب کے ذہن کو مسخ کرنے کی ذمہ داری جتنی اس پر ہے شاید اتنی کسی ایک فرد پر نہیں’ فرانس کے ایک رومن کیتھلک مصنف نے تو یہاں تک کہا ہے کہ فرانس نے خدا کے خلاف جو سب سے بڑا گناہ کیا ہے وہ یہ ہے کہ دیکارت کوپیدا کیا.
اب تک تو یہ بحث چلی آرہی تھی کہ حقیقت روح میں ہے یا مادے میں ‘بعض لوگ کہتے تھے کہ روح حقیقی ہے ‘مادہ غیر حقیقی. بعض لوگ کہتے تھے کہ مادہ بھی حقیقت رکھتا ہے مگر کھلی طور پر، کچھ لوگ دبے لفظوں میں یہ بھی کہتے ہیں کہ بس مادہ ہی حقیت ہے. اس سارے جھگڑے کا دیکارت نے یہ حل نکالا کہ روح اور مادہ دونوں حقیقی ہیں’ مگر ایک دوسرے سے بلکل الگ ہیں اور اپنی اپنی جگہ قائم ہیں. چناچہ اس نے روح اور مادے کو ‘ انسان کی روح اور جسم کے دو الگ الگ خانوں میں بانٹ دیا جو ایک دوسرے سے آزاد اور خود مختار ہیں.

یہ نظریہ مغربی ذہن میں اس طرح بیٹھا ہے کہ تین سو سال سے یہ تفریق اسی طرح چلی جا رہی ہے. روح اور جسم’ روح اور مادے کے ارتباط کے مسلہ آج تک حل نہیں ہوا. مغرب کے زیادہ تر مفکر جسم اور مادے میں اٹک کے رہ گۓ’ اس سے اوپر نہیں جا سکتے کچھ مفکر روح میں لٹک گۓ تو نیچے نہیں آ سکتے. دیکارت کے فلسفے کا سب سے خوفناک نتیجہ یہ ہوا ہے کہ مغرب “روح” کے معنی ہی بھول گیا’ اور “ذہن” (یا “نفس”) کو روح سمجھنےلگا.

یہ گڑبڑ دراصل یونانی فلسفے میں بھی موجود تھی. ارسطو وغیرہ یونانی فلسفی انسان کی تعریف دو طرح کرتے ہیں. انسان کو یا تو “معاشرتی حیوان” کہتے ہیں یا “عقلی حیوان” (ان فقروں سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ یونانی فلسفے پر معاشرتی نقطہ نظر اور عقل جزوی کس حد تک غالب تھی). دیکارت کے ہم عصر فرانسیسی مفکر پاسکال نے انسان کو “سوچنے والا سرکنڈا” بتایا ہے. یعنی انسان کے جسمانی وجود کے جانور کی سطح سے بھی نیچے اتار دیا ہے. (مغرب کی ساری جسم پروری کے باوجود مغربی فکر میں جسمانیت سے گھبرانے اور اسے حقیر سمجھنے کا رجحان بھی خاصا قوی ہے.)

اسی طرح دیکارت نے انسانی وجود کی تعریف ایک مشہور لاطینی فقرے میں یوں کی ہے.

Cogito ergo sum  (I think therefore i am )

“میں سوچتا ہوں” اس لئے میں ہوں”. گویا اس کےنزدیک وجود کا انحصار ذہن پر ہے. یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر آدمی نہ سوچے تو اس کا وجود رہے گا یانہیں. خود دیکارت سے ایک آدمی نے پوچھا تھا کہ “میرے کتے کے بارے میں آپ کی کیا راۓ ہے ؟”

غرض ‘ جسم اور روح’ مادے اور روح کو ایک دوسرے سے الگ کرکے دیکارت نے مغربی فکر کو ایسی الجھن میں ڈال دیا ہے جس سے باہر نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیںآتی’ اور مغربی ذہن ہر مسئلے پر روح اور مادے کے تقابل یا تضاد ہی کے لحاظ سے غور کرتا ہے.

دیکارت کے ہم عصر پاسکال نے ایک دوسرے قسم کی کشمکش مغربی ذہن میں پیدا کی ہے. اب تک تو لڑائی روح اور جسم میں ہی تھی. چونکہ مغرب “روح” کے معنی بھولنے لگا تھا’ اس لئے کہنا چاہئے کہ ذہن (یا نفس) اور جسم میں لڑائی تھی. پاسکال نے اعلان کیا کہ “دل کے پاس بھی ایسی منطق ہے جسے عقل نہیں سمجھ سکتی،”

The heart has reasons of its own which the reason does not understand

یہاں لفظ “دل” کے معنی خاص طور سے سمجھہ لینے چاہیں’ نہ صرف اسلامی علوم میں بلکہ سارے مشرقی ادیان میں “دل” سے مراد ہے “عقلی کلی”. علاوہ ازیں ‘ ہمارے یہاں “نفس” روح اور جسم کے درمیان کی چیز ہے. اس لئے “نفس” میں عقل جزوی بھی شامل ہے اور ہوا وہوس بھی. پاسکال نے جس “دل” کا ذکر کیا ہے اور جسے “ذہن” مقابل رکھا ہے. اس سے مراد “جذبات” ہیں. اس سے بتیجھ یہ نکلتا ہے کہ پاسکال نے “دل” اور “عقل” یا “ذہن” کے درمیان جنگ چھیڑ دی’ اور مغربی فکر اور ادب میں اس جنگ کی شدّت بڑھتی ہی چلی گئی ہے. ظاہر ہے کہ اس جنگ سے آدمی کو جذباتی تکلیف پھنچتی ہے. بیسویں صدی میں اس تکلیف کا نام “کرب” رکھا گیا ہے. (اس ضمن میں جرمن زبان کا لفظ اینگسٹ بہت مشھور ہوا ہے. جس کے لئے انگریزی میں لفظ اینگش ہے). ہمارے زمانے میں بہت سے مغربی مفکر اس “کرب” کو انسان کی معراج سمجھتے ہیں. دیکارت کہتا تھا کہ انسان کو وجود سوچنے سے حاصل ہوتا ہے. آج کل کے بہت سے مفکر کہتے ہیں کہ انسان کو وجود “کرب” سے حاصل ہوتا ہے. بلکہ بعض مفکر تو اس “کرب” اور مذہب کو ہم معنی سمجھتےہیں اور اپنی دینیات کی بنیاد اسی پر رکھتے ہیں.

عقلیت پرستی کے دور کا دوسرا بڑا امام نیوٹن ہے. سائنس میں اس کا سب سے بڑا کارنامہ “کشش ثقل کے قانون” کی دریافت ہے. لیکن مغربی ذہن پر اس کا اثر بہت گہرا پڑا ہے. یہ قانون معلوم کر کے اس نے گویا یہ دکھا دیا کہ کائنات کا نظام چند واضح قوانین کے ذریعے چل رہا ہے. اگر انسان اپنی عقل (جزوی) کی مدد سے یہ قوانین دریافت کرلے تو کائنات اور فطرت پر بورا قابو حاصل کر سکتا ہے. قوانین دریافت کرنے میں وقت لگے گا، لیکن انسان کو یہ امید رکھنی چاہئے کہ ایک دن فطرت کو فتح کرلے گا.

سائنس نیوٹن سے بہت آگے چلا گیا اور اس کا تصور کائنات رد کردیا گیا’ مگر اس نے جو ذہنیت پیدا کی تھی وہ بڑھتی چلی گئی ہے.

نیوٹن کی نظرمیں کائنات اور فطرت ایک بے جان مشین تھی’ اور انسان ایک انجینئر کی طرح تھا. کائنات کے اس نظرئیے کو “میکانکیت” کہتے ہیں. انیسویں صدی میں بعض مفکروں نے اس نظرئیے کو رد کر دیا’ اور یہ ثابت کیا کہ کائنات اور فطرت بھی انسان کی طرح جان رکھتی ہے’ اور نمو اس کی بنیادی خصوصیت ہے’ اور کائنات خود اپنی توانائی سے زندہ ہے. اس نظریے کو “نامیت” کہتے ہیں. یہ ایک اور جھگڑا ہے جو تقریبا دو سو سال سے مغرب کے فلسفی اور سائنس داں دو حریف جماعتوں میں صف آرا چلے آ رہے ہیں. ایک گروہ میکانیت کا قائل ہے’ دوسرا نامیت کا.

عقلیت پرستی کے دور میں ہی نفسیات کا آغاز ہوا. اس سے پہلے نفسیات کوئی الگ علم نہیں تھا’ بلکہ فلسفے ہی کا حصّہ تھا. ابن رشد نے تو علم النفس کو طبیعات کے ماتحت رکھا ہے.نفسیات کو فلسفے سے الگ کرنے کا کام سترھویں صدی کے دوسرے حصّے میں انگریز مفکر لاک نے سر انجام دیا’ اور اس کے نظریات میں اضافہ اٹھارویں صدی کے انگریز مفکر ہارٹلے نے کیا. نیوٹن نے کائنات کو مشین سمجھا تھا. ان دو مفکروں نے انسانی ذہن کو بھی مشین سمجھا. ان کا خیال ہے کہ ذہن بجاۓ خود کوئی چیز نہیں’ خارجی اشیاء انسان کے اعصاب پر اثر انداز ہوتی ہیں (مثلآ کوئی چیز دیکھی یا سونگھی یا چھوئی) تو اعصاب میں ارتعاش پیدا ہوتا ہے. یہ ارتعاش دماغ کے مرکز میں پہنچ کر تصویر کی شکل میں تبدیل ہو جاتا ہے’ اور پھر تصویر خیال بن جاتی ہے. اس طرح خارجی اشیاء کے عمل سے ذہن پیدا ہوتا ہے.

اس نظرئیے کا جواب اٹھارویں صدی میں پادری بارکلے نے دیا. اس کا خیال ہے کہ خارجی اشیاء کو وجود حاصل نہیں’ بلکہ ذہن خارجی اشیاء کوپیدا کرتا ہے. جب کوئی آدمی کہتاہے کہ میں نے پھول دیکھا’ تو اس کے پاس پھول کے وجود کا کوئی ثبوت نہیں ہوتا. یہ تو بس ایک ذہنی ادراک ہے’ اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ ذہن خارجی اشیاء کو پیدا کرتا ہے. پادری بارکلے نے انسانی ذہن کے نمونے پر خدا کا بھی ذہنی تصور کیا تھا (نعوذ باللہ). اس نظرئیے کو “مثالیت” کہتے ہیں.

انسانی ذہن کے یہ دونوں نظرئیے دراصل روح اور مادے کے اسی تقابل کا نتیجہ ہیں جو دیکارت سے شروع ہوا تھا’ اسی لئے ان دونوں کے درمیان کوئی مصالحت نہیں ہو سکتی.

اٹھارویں صدی کا انگریز فلسفی ہیوم ایک معاملے میں بڑی اہمیت رکھتا ہے اس نے کہا ہے کہ ہر ایسے لفظ کو شک کی نظر سے دیکھنا چاہئے جو کسی ایسی چیز پر دلالت کرتا ہو جسے حسی تجربے میں نہ لیا جا سکے. یعنی وہ چاہتا تھا کہ انسانی زبان و بیان سے ایسے لفظ بھی خارج کردیۓ جائیں جن کا تعلق روحانیت سے ہوں. یہ رجحان آگے چل کر انیسویں صدی میں فرانس کے فلسفی کونت کے “نظریہ ثبوتیت” کی شکل میں ظاہر ہوا، اور بیسویں صدی میں انگریزوں کے “منطقی ثبوتیت” کی شکل میں. ان فلسفوں کا بیان آگےہوگا .

اٹھارویں صدی میں ایک نئی قسم کا مذہب نمودار ہوا جو دراصل دہریت کی ایک شکل ہے. اس کا نام (خدا شناسی) رکھا گیا ہے. اس دور کے لوگ کہتے تھے کہ عقل (جزوی) انسان کا خاص جوہر ہے’ اور یہ چیز ہر زمانے او ہر جگہ کے انسانوں میں مشترک ہے’ اور ہر جگہ ایک ہی کام کرتی ہے.چناچہ خدا کو پہچاننے کے لئے وحی پر تکیہ کرنے کی ضرورت نہیں’ عقل (جزوی) کی مدد سے بھی خدا تک پہنچ سکتے ہیں. عقل کے ذریعے چند ایسے اصول معلوم کئے جا سکتے ہیں جو سارے مذاہب میں مشترک ہوں. ان اصولوں کا مجموعہ ہی اصل مذہب ہوگا.

جب انگریز ہمارے یہاں آئے تو ان کے اثر سے یہ رجحان ہمارے برصغیر میں بھی پہنچا.

١٨٥٧، کی جنگ آزادی کے بعد “خدا شناسی” کے جو میلے انگریزوں نے کراۓ ان کے پیچھے یہی رجحان تھا. ہندو اس سے بہت متاثر ہوئے’ اور انیسویں صدی کے شروع میں راجہ رام موہن راۓ نے جو “برہمو سماج” کی بنیاد ڈالی وہ اسی اثر کا نتیجہ تھا.

مسلمان بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے. ١٨٣٦، میں کمبل پوش نے یورپ کا سفر کیا تھا اور دس سال بعد اپنا سفر نامہ لکھا. ان کی کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ یورپ جانے سے پہلے ہی وہ “خدا شناسی” سے متاثر ہو چکے تھے. اس کا نام انہوں نے “سلیمانی مذہب” رکھا ہے. اسی کے اثرات اردو شاعر غالب کے یہاں بھی نظر آتے ہیں.

عقلیت پرستی کے دور کی ایک مرکزی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے انسانی زندگی اور انسانی فکر میں سب سے اونچی جگہ معاشرے کو دی تھی.ان کا خیال تھا کہ فرد کو اپنے ہر فعل اور قول میں معاشرے کا پابند ہونا چاہئے. یہ لوگ مذہب کو بھی صرف اسی حد تک قبول کرتے تھے جس حد تک کہ مذہب معاشرے کے انضباط میں معاون ہو سکتا ہے. غرض معاشرے کو بلکل خدا کی حیثیت دے دی گئی تھی نعوذباللہ..اس کے خلاف رد عمل انیسویں صدی میں ہوا’ اور معاشرے کے بجاۓ فرد کو اہمیت دی گئی. بیسویں صدی میں اشتراکیت کے زیر اثر بعض لوگ معاشرے کو پھر خدا ماننے لگے.

مغربی فکر میں جس طرح روح اور مادے ‘ ذہن اور جسم’ عقل اور جذبے کے درمیان مسلسل کشمکش جاری ہے’ اسی طرح معاشرے اور فرد کی کشمکش بھی بنیادی حیثیت رکھتی ہے’ اور اس کا بھی کوئی حل نہیں ملتا. مغرب میں جو معاشرتی انتشار پھیلا ہوا ہے اور روز بروز بڑھتا ہی جاتا ہے اس کی جڑ یہی تضاد ہے.

ان تصریحات سے پتا چلتا ہے کہ مغرب کا ذہن کسی طرح کی وحدت تک پہنچ ہی نہیں سکتا’ اور دوئی ‘ تضاد اور کثرت میں پھنس کے رہ گیا ہے. وحدت کا اصول قائم کرنے کی جتنی کوششیں ہوئی ہیں وہ کامیاب نہیں ہو سکیں’ اس کی اصلی وجہ یہ ہے کہ مغرب مادے میں وحدت ڈھونڈھتا ہے جہاں کثرت اور شکست وریخت کے سوا کچھ نہیں مل سکتا..

مغرب چاہے معاشرے کو اوپر رکھے یا فرد’ دونوں نظریوں میں ایک بات مشترک ہے ………. انسان پرستی. بیسویں صدی میں بعض مفکر اور ادیب ایسے بھی ہیں جو انسان کو حقیر سمجھتے ہیں یا انسان سے نفرت کرتے ہیں’ لیکن ان کی فکر کا مرکز بھی انسان ہی ہے…

Share

March 26, 2013

باب اول: بڑے سوالات – خدا اور اسٹیفن ہاکنگ, آخر یہ کس کی تخلیق ہے؟

Filed under: ادبیات,کتابیات,مذہب — ابو عزام @ 6:36 pm

گذشتہ سے پیوستہ۔  ڈاکڑ جان لینکس، آکسفرڈ یونیورسٹی کے ماہر ریاضیات پروفیسر کی شہرہ آفاق کتاب کا ترجمہ و تخلیص

باب اول: بڑے سوالات

اسٹیفن ہاکنگ بلاشبہ  اس وقت دنیا کے سب سے مشہور سائنسدان ہیں۔ وہ حال ہی میں کیمبرج کے لیوسیشئین پروفیسرشپ  کے عہدے سے سبکدوش ہوئے۔  یہ وہ منصب ہے جس پر کبھی سر اسحق نیوٹن براجماں رہے۔ ہاکنگ نے یہ مقام بہت امتیاز کے ساتھ حاصل کیا ہے۔ ان کو ملکہ عالیہ نے’اعزازی ساتھی‘ بنادیا اور ان کا تعلیمی کریئر پوری دنیا سے حاصل ہونے والے اعزازت سے مزین ہے۔

وہ صبر و برداشت کے بھی ایک علامت رہے ہیں کیوں کہ وہ چالیس سال سے زیادہ عرصے تک اعصابی بیماری کی تباہ کاری کو سہنے کے باوجود فارغ نہیں بیٹھے۔ بیماری کا زیادہ تر عرصہ انہوں نے ویل چیئر پر گزارا جبکہ ان کو ابلاغ کے لیے خاص طور پر ڈیزائن کردہ صوتی تالیف کار آلہ( سینتھائزر) پر انحصار کرنا پڑتا تھا جس کو بہت جلد دنیا بھر میں ایک قابل شناخت ”آواز“ کے طور پر پہچانا جانے گا۔

 اپنے بہت سے ممتاز ساتھیوں اور شاگردوں کے ساتھ مل کر ہاکنگ نے ریاضیاتی طبعیات کی سرحدوں کو دریافت کیا خاص طور پر سیاح سوراخوں کی رازوں کا ان کا مخالف وجدان قابل ذکر ہے۔ یہ کام ”ہاکنگ تابکاری“ کی پیش گوئی پر منتج ہوا تھا ، جس کی اگر تجربے کے ذریعے تصدیق کی جاتی تو وہ نوبل انعام کے حقدار قرار پاتے۔

ان کی ہاتھوں ہاتھ بکنے والی سب سے زیادہ فروخت والی کتاب ’’وقت کی مختصر تاریخ‘‘ میں ہاکنگ بنیادی طبعیات کی پیچیدہ دنیا کو کافی کی میز پر لے آئے(اگرچہ بہت سارے لوگ اس سے زیادہ مواد کی تلاش کا اعتراف کرچکے ہیں)۔ اس کتاب کے بعد اسی سطح کی کئی اور کتابیں سامنے آئیں جن میں عظیم سائنس کے رموز نے قارئین کے وسیع حلقے کو بہت زیادہ متاثرکیا۔

چونکہ ان کتابوں کا تعلق کائنات کی ابتدا/ تخلیق سے ہے ‘اس لیے ان کو لازمی طورپر خالق کے وجود کے موضوع کو زیرغور لانا چاہیے تھا۔ تاہم انہوں نے اس موضوع پر تشنگی کو باقی رکھنے کے لیے”وقت کی مختصر تاریخ“ کو بہ تکرار پیش کیے جانے والے بیان ”کہ اگر طبعیات کو ہر چیز کے تصور“(وہ تصور جس نے فطرت کی چار بنیادی قوتوں‘ مضبوط اور کمزورجوہری طاقتوں‘برقناطیسیت اور کششِ ثقل) کو تلاش کرنا ہوتا تو ہم” خدا کے ذہن کو پہچانتے“کے ساتھ ختم کیا۔

اپنی تازہ ترین تصنیف ”عظیم ڈیزائن“ جو انہوں نے لیونارڈو لیڈونو کے ساتھ مشترکہ طور پر تحریر کی ہے میں ان کی محتاط طبعی/کم گوئی غائب ہوگئی ہے اور انہوں نے کائنات کی الٰہی تخلیق کے عقیدے کو چیلنج کیا ہے۔ ان کے مطابق یہ خدا کی خواہش نہیں بلکہ طبعیات کے قوانین ہیں جو کائنات کی تخلیق کے بارے میں وضاحت فراہم کرتے ہیں۔ وہ دلیل دیتے ہیں کہ بِگ بینگ (بِگ بینگ موجودہ آفاقی ماڈل کے بارے میں اوائل کی وضاحت کرنے والا ایک نظریہ ہے‘ مترجم) ان قوانین کامنطقی نتیجہ تھا ”کیوں کہ یہ کشش ثقل کے قانون کی طرح کا قانون ہے کہ کائنات خود کسی چیز کے بغیر خود کو تخلیق کرسکتی اور کرتی ہے۔“

’’عظیم ڈیزائن‘‘ کا عنوان بیشتر لوگ کے نزدیک ’’عظیم ڈیزائنر کی بات کرتا ہوگا‘‘ لیکن دراصل یہی وہ بات ہے جس سے انکار کے لیے اس کتاب کو ترتیب دیا گیا ہے۔ ہاکنگ کا عظیم خلاصہ ہے کہ ”خودرو تخلیق اس بات کی دلیل ہے کہ نہ ہونے سے پہلے کوئی چیز ہے‘ کائنات قائم ہے‘ ہم کیوں زندہ ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ نیلے ٹچ کاغذ کو روشن کرنے کے لیے خدا کو بلایا جائے تو کائنات کام کرنا شروع کردے گی“۔

میں چاہتاہوں کہ اس کتاب میں ہاکنگ کی سائنس نہیں اس پر بات کروں جو اس نے خدا کے وجود یا عدم وجود کے بارے میں اس کتاب سے اخذ کیا ہے۔ اگرچہ ہاکنگ کی اس دلیل کو کہ سائنس غیر ضروری طور پر خدا کو دکھاتا ہے‘ کوانقلابی قرار دے کر سراہا گیا لیکن یہ دلیل نئی ہرگز نہیں ہے۔ برسوں تک دیگر سائنسدان اسی طرح کے دعوے کرتے رہے ہیں، جنہوں نے کہا کہ ہمارے اردگر دنیا کی رعب دار، جدید پیچیدگی کی صرف کائنات (کمیت /تونائی) کے بنیادی شے کے حوالے سے تشریح کی جاسکتی ہے یا پھر طبیعاتی قوانین، جیسے کشش ثقل کا قانون جو کائنات کے رویے کی وضاحت کرتا ہے۔

اس کتاب پر صرف ایک نظر ڈالنے سے یہ پتہ چلانا مشکل ہے کہ ہاکنگ کی یہ نئی کتاب اس کی تصنیف ’وقت کی مختصر تاریخ‘‘ میں کیسا اضافہ کرتی ہے۔

عظیم ڈیزائن ان بڑے سوالوں کی ایک فہرست سے شروع ہوتی ہے جو لوگ اکثر پوچھتے تھے:” ہم اپنے آپ کو جس دنیا میں پاتے ہیں اس کو کیسے سمجھ سکتے ہیں؟ کائنات کیسا برتاﺅ کرتی ہے؟ حقیقت کی فطرت کیا ہے؟ یہ سب کچھ کہاں سے آیاہے؟ کیا کائنات کو کسی خالق کی ضرورت تھی؟“

ایسے معروف شخص کے طرف سے آئے یہ سوالات اس خیال کو مضبوط تر بناتے ہیں کہ بین الاقوامی سائنسدان مابعد الطبعیات سے متعلق اِن عمیق سوالات کے بارے میں کس طرح کی فہم و فراست رکھتا ہے۔ بہرحال ان سوالوں کی جو ہم سب وقتاً فوقتاً پوچھتے ہیں ایک عظیم دماغ کی طرف سے وضاحت اور جواب بہرحال بڑی مسحورکن بات معلوم ہوتی ہے۔

فلسفے کا ایک ناکافی تصور:

اگر یہ ایسا ہی ہے جس کی ہمیں توقع ہے تو ہم صدمے سے دوچار ہیں کیوں کہ آگے کے الفاظ میں ہاکنگ فلسفے کو مسترد کرتے ہیں۔ اپنے سوالات کی فہرست کا حوالہ دیتے ہوئے موصوف رقم طراز ہیں ”روایتی طورپر یہ سوالات فلسفے کے لیے ہیں لیکن فلسفے کی موت ہوچکی ہے۔ اس کوسائنس‘ خاص کر طبعیات میں جدید ترقی کے ساتھ جاری نہیں رکھا گیا ہے ۔نتیجتاً سائنسدان علم کی دریافت  میں ہمارے مشعل بردار بن چکے ہیں۔‘‘

فلسفہ کو(وہ مضمون جس کو اس کی اپنی کیمبرج یونیورسٹی میں نمائندگی اور وقعت دی گئی ) مسترد کرنے کے اس بے جا زعم  سے قطع نظر یہ پریشان کن ثبوت فراہم کرتا ہے کہ کم از کم ہاکنگ جیسے ایک سائنسدان  نے بذات خود فلسفے کو اتنی اہمیت نہیں دی جس سے ان کو احساس ہوتا کہ پوری کتاب میں وہ خود اس کے ساتھ مصروف رہے ہیں‘‘

 پہلی بات میں نے یہ محسوس کی کہ ہاکنگ کا فلسفے کے بارے میں بیان دراصل خود ایک فلسفیانہ بیان ہے۔ یہ بہ دیہی طور پر سائنسی بیان نہیں ہے‘یہ سائنس کے بارے میں خالص فلسفیانہ بیان ہے۔ اس لیے اس کا بیان کہ فلسفہ کی موت ہوچکی ہے اپنی ہی تردید کرتا ہے۔ یہ منطقی بے ربطی کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔

فلسفے کی طرف ہاکنگ کا رویہ نمایاں طور ہر البرٹ آئن سٹائن کے اس خط کے برعکس ہے جس میں انہوں تاریخ اور سائنس کے فلسفے سے طبعیات تک تعلیم کی حمایت کی تھی۔

’’میں آپ کے ساتھ طریقیات کے علاوہ تاریخ اور سائنسی فلسفے کی تعلیمی قدر و اہمیت پر متفق ہوں۔ آج بہت سارے لوگ اور حتیٰ کے پیشہ ور سائنسدان مجھے اس فرد کی طرح دکھائی دیتے ہیں جس نے ہزاروں درختوں کو دیکھا ہوتا ہے لیکن کبھی جنگل نہیں گیا۔‘‘

تاریخ کا علم اور فلسفیانہ پس منظر ان تعصبات سے پاک رکھتی ہیں جن میں اس کے نسل کے اکثر سائنسدان مبتلا تھے۔ میرے خیال میں فلسفیانہ بصیرت کی بدولت حاصل ہونے والی اہلیت تعصبات سے آزادی ایک محض ماہر اور سچ کے حقیقی متلاشی کے درمیان لکھیر کھنچتی ہے‘‘

مزید برآں، ہاکنگ کا بیان کہ ’’سائنسدان دریافت کے معشل بردار بن چکے ہیں‘‘ سائنسیت سے ٹکراؤ ہے جو کہتی ہے کہ سائنس صرف سچ کی طرف ایک راستہ ہے۔ یہ سیکولر فکر کی اس تحریک کی نظریاتی خصوصیت ہے جس کو’’نئی دہریت‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے اگرچہ یہ خیال صرف اس لحاظ سے نیا ہے کہ  اب اس کو دانشورانہ مواد کی صورت کے بجائے جارحانہ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔

سائنسی دنیا کے ایک سپر اسٹار کو تو چھوڑیے ایک عام سائنسدان کے لیے یہ بات عقلمندی والی معلوم نہیں ہوتی  کہ وہ ایک طرف فلسفے کی تحقیر کرے اور پھر فورا غیرمعمولی فلسفیانہ موقف اختیار کرے خاص کر جب اس کو قارئین کو قائل کرنے  کے لیے ترتیب دی گئی کتاب کی ابتدا میں پیش کیا جائے۔

نوبل لیوریت سر پیٹر میداوار نے اس خطرے کی نشاندہی پہلے ہی اپنی کتاب ’نوجوان سائنسدانوں کو مشورہ‘‘ میں کردی تھی جو تمام سائنسدانوں کو لازمی پڑھنا چاہیے۔

’’

کسی سائنسدان کے لیے اپنے اور اپنے پیشے کی ساکھ کو خراب کرنے کا اس سے تیز طریقہ نہیں ہوسکتا کہ وہ صاف صاف اعلان کردے، خاص کراس وقت جب اس طرح اعلان کی ضرورت نہ ہو کہ سائنس ہر سوال کا جواب جانتی ہے یا جلد جان جائے گی اور وہ سوال جن کو سائنسی جواب نہیں مل پاتے وہ کسی طرح غیرسوال یا جعلی سوال ہیں جو کوئی بے ہی وقوف پوچھتا ہے اور صرف ایک اجڈ ہی اس کا جواب دینے کا دعویٰ کرے گا۔‘‘

میداوار آگے رقم طراز ہیں ۔’’تاہم سائنس کی حد کا وجود ان بچگانہ اور عنصری سوالات جن کا تعلق پہلی اور آخری چیزوں سے ہوتا ہے سے واضح ہوجاتا ہے جیسے ’’ہر چیز کی شروعات کیسے ہوئی؟‘‘’’ہم یہاں کس لیے ہیں؟ آخری زندگی رہنے کا مقصد کیا ہے؟‘‘ وہ آگے لکھتا ہے کہ ان سوالات کے جوابوں کے لیے ہمیں تصوریاتی ادب اور مذہب کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔

فرانسز کولنز پر بھی یکساں طور پر سائنس کی حدود واضح ہیں۔ وہ لکھتے ہیں سائنس ان جیسے سوالوں کا جواب دینے میں بے بس ہے کہ ’دنیا کیوں وجود میں آئی؟ انسانی وجود کے معانی کیا ہیں؟ مرنے کے بعد کیا ہوگا؟‘‘

میداوار اور کولنز صریحاٍ سائنس کے بارے میں پرجوش ہیں۔  پس ہمیں اعلیٰ سطح پر مخلص سائنسدانوں میں کوئی بے ربطی نہیں دکھائی دیتی جبکہ وہ بیک وقت یہ ادراک کرلیتے ہیں کہ سائنس ہر سوال کا بشمول کچھ گہرے سوالات کے جو ایک انسان پوچھ سکتا ہے جواب فراہم نہیں کرسکتی ہے۔

مثال کے طور یہ بات بڑے پیمانے پر تسلیم شدہ  ہے کہ سائنس میں اخلاقی اساس کا پایا جانا بہت ہی مشکل ہے۔ البرٹ آئن سٹائن نے اس کو واضح طور پر دیکھا تھا۔ ۱۹۳۰ میں برلن میں سائنس اور مذہب کے بارے میں ایک بحث کے دوران انہوں نے کہا کہ خوبصورتی کا انسانی احساس اور ہماری مذہبی جلبتیں استدلالی صلاحیتوں کو عظیم کامیابیوں کے طرف لے جانے میں معاون ہوتی ہیں۔ آپ بجا طور پر سائنس کی اخلاقی بنیادوں کی بات کرتے ہیں لیکن آپ یک دم پلٹ کر اخلاقیات کی سائنسی بنیادوں کی بات نہیں کرسکتے ہیں۔‘‘

آئن سٹائن اس نکتے پر پہنچ گئے کہ سائنس اخلاقیات کی بنیاد فراہم نہیں کرتی۔’’ اخلاقیات کی سائنسی فارمولے کی سطح پر کمی کی ہر کوشش ناکام ہوگی‘‘

رچرڈ فین مین نے جو خود بھی نوبل انعام جیتنے والے ماہرطبیعات ہیں آئن سٹائن کے ان خیالات سے اتفاق کیا ہے’’حتیٰ کے عظیم قوتیں اور اہلیت بھی ان کو استعمال کرنے کی ہدایات فراہم کرتی دکھائی نہیں دیتی۔ مثال کے طور پرعلم کا عظیم مجموعہ کہ طبعیاتی دنیا  جس طرح کا برتاو کرتی ہے صرف اس پر قائل کرتی ہے کہ یہ رویہ بے معنی قسم کا ہے۔ سائنس براہ راست اچھائی یا برائی نہیں سکھاتی۔‘‘ ایک اور جگہ وہ لکھتے ہیں’’ اخلاقی قدریں سائنس کے دائرہ کار سے باہر ہوتی ہیں‘‘

تاہم ہاکنگ اس کا انکار کرتے دکھائی دیتے ہیں جب وہ سائنس کو وہ کردار تفویض کرتے ہیں جو اس کی استعداد سے بڑھ کرہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ وہ فلسفے کی بے توقیری کرنے کے بعد اسی کے ساتھ مصروف ہوجاتے ہیں۔ حتیٰ کہ وہ سائنس کی تعریف اور اطلاق ان حتمی سولات پر بھی کرتے ہیں جیسے خدا کا وجود، اس طرح ہاکنگ مابعد الطعبیات پر گفتگو کرتے ہیں۔ اب ہمیں یہ وضاحت کرنے دیں کہ میں اس کے لیے ہاکنگ کو قصور وار نہیں ٹھیراتا، میں خود اس پوری کتاب میں مابعد الطعبیات کے پر گفتگو کرتا رہوں گا۔ میرا اعتراض تو یہ ہے کہ وہ اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتے۔

جاری یے۔

Share

January 31, 2013

خدا اور اسٹیفن ہاکنگ, آخر یہ کس کی تخلیق ہے؟

Filed under: ادبیات,کتابیات,مذہب — ابو عزام @ 10:25 pm

خدا اور اسٹیفن ہاکنگ, آخر یہ کس کی تخلیق ہے؟

ڈاکڑ جان لینکس، آکسفرڈ یونیورسٹی کے ماہر ریاضیات پروفیسر کی شہرہ آفاق کتاب کا ترجمہ و تخلیص

God and Stephen Hawking

 

پیش لفظ

میں نے یہ مختصر کتاب اس اُمید کے ساتھ تحریر کی ہے کہ یہ قارئین کو خدا اور سائنس سے متعلق بحث کو سمجھنے میں مدد فراہم کرے گی۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے پوری کوشش کی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو تکنیکی اُمورسے صرفِ نظر کرتے ہوئے دلیل تک محدود رہوں۔ میں سمجھتا ہوں ہم میں سے جنہوں نے ریاضی اور فطری سائنسز میں تعلیم حاصل کررکھی ہے اُن کی ذمہ داری ہے کہ سائنس کی عمومی تفہیم بیان کریں۔ خاص طور پر اس بات کی نشاندہی کرنا ہمارا فرض ہے کہ سائنسدانوں کا ہر بیان سائنسی حقیقت نہیں ہوتی ہے اس لیے وہ معتبر سائنس پر سند نہیں بن جاتے اگرچہ وہ سند اکثر غلط طوراُن سے منسوب کی جاتی ہے۔ بے شک اس کا اطلاق اتنا ہی مجھ پر بھی ہوتا ہے جتنا کسی اور پر ہوتا ہے‘ اس لیے میری قارئین سے گزارش ہے کہ میری ہر دلیل کی بغور جانچ پڑتال کریں۔ میں ایک ریاضی دان ہوں اور یہ کتاب ریاضی کے بارے میں نہیں ہے پس کسی بھی ریاضیاتی نتیجے کا درست ہونا جس کو میں نے ثابت کیا ہو اس بات کی ضمانت نہیں دیتا کہ میں نے کہیں اورجو کچھ کہا ہے وہ بھی درست ہوگا۔ تاہم مجھے اپنے قارئین کی صلاحیت پر بھروسہ ہے کہ وہ کسی بھی دلیل کا اس کے خلاصے تک تعاقب کریں گے۔ لہٰذا میں یہ کہتا ہوں کہ میں نے جو کچھ لکھا ہے اس کا فیصلہ میرے قارئین کریں گے۔

تعارف

خدا ان دِنوں موضوع بحث ہے‘ ہمیں یہ یقین دلانے کے لیے سائنسدانوں نے ان عنوانات کے تحت ایک کے بعد دوسری کتاب لکھی کی ہے، جیسے فرانسزکولنز کی’’خداکی زبان‘‘ رچرڈ ڈاؤکنز کی ’’خدا کا فریب‘‘ ، وکٹر اسٹینجرکی ’’خدا: ناکام مفروضہ‘‘، رابرٹ ونسٹن کی ’’خدا کی کہانی‘‘ وغیرہ وغیرہ۔

ان میں سے بعض کتابوں نے ’’بیسٹ سیلرز‘‘ کا درجہ پایا ہے کیوں کہ لوگ یقیناًیہ جاننا چاہتے ہیں کہ سائنسدان کیا کہہ رہے ہیں۔ اور یہ حیران کن نہیں ہے کہ کیونکہ ہمارے بناوٹی جدید دنیا میں سائنس زبردست ثقافتی اور دانشورانہ اختیار کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کی ایک وجہ ٹیکنالوجی کی تخلیقات کی غیر معمولی کامیابی ہے جن سے ہم سب فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ اس کی اور بڑی وجہ اس کی متاثرکن صلاحیت ہے جس نے ہمیں عجائباتِ عالم کی عمیق بصیرت عطا کی ہے جس کا ابلاغ ٹیلی وژن کی خوبصورت ڈاکیومنٹریوں کے ذریعے کیا جاتا ہے۔

بہت سارے لوگ جو بخوبی آگاہ ہیں کہ سائنس کی فراہم کردہ مادی ترقی ان کی گہری انسانی ضروریات کوپورا نہیں کرسکتی ، اب سائنسدانوں کی طرف متوجہ ہوکر یہ جاننا چاہتے ہیں کہ وہ اُن کے وجود سے جُڑے بڑے سوالات کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ ہم یہاں کیوں ہیں؟ہمارا مقصدِ زندگی کیا ہے؟ ہم کہاں جارہے ہیں؟ کیا صرف یہی کائنات ہے جس کا وجود ہے یا پھر اس سے آگے بھی کچھ ہے؟

اور یہ سوالات لامحالہ ہمیں خدا کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔ پس ہم کروڑوں لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ سائنس خدا کے بارے میں کیا کہتی ہے؟ مذکورہ بالا ’بیسٹ سیلرز‘ کتابوں میں سے بعض دہریوں کی تصنیف کردہ ہیں۔ لیکن یہ اہم بات ہے کہ یہ تمام دہریوں کی تصنیف نہیں ہیں۔ پس درحقیقت یہ ایک بہت ہی بچگانہ حرکت ہوگی ہے کہ اس بحث کوسائنس اور مذہب کے درمیان تصادم قرار دے کر قلم زد کردیا جائے۔
اس تصورِ ’’مخالفت‘‘ کو بہت پہلے ہی غیرمعتبر قرار دیا جاچکا ہے۔ مثال کے طور پر ہماری فہرست میں موجود پہلے مصنف ، فرانسز کولنز کو ہی لے لیجیے جو امریکا میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کے ڈائریکٹر اور ہومین جینوم( لونیت)پروجیکٹ کے سابق سربراہ ہیں۔ اس پروجیکٹ کے سربراہ کے طور پر ان کا پیشرو جم واٹسن کو(فرانسز کریک کے ساتھ مشترکہ طور پر) ڈی این اے کے دو مخنی ساخت کی دریافت پر نوبل انعام سے نواز جاچکا ہے۔کولنز ایک عیسائی جبکہ واٹس ایک دہریہ ہیں۔ یہ دونوں اعلیٰ پایے کے سائنسدان ہیں، جو اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ دراصل یہ ان کی سائنس نہیں تھی بلکہ دنیا کے بارے میں اُن کا تصور تھا جس نے ان کو تقسیم کیا۔ اگرچہ یہ ایک حقیقی تنازعہ ہے لیکن یہ سائنس بمقابلہ مذہب نہیں ہے۔ یہ خداپرستی اور الحاد کے درمیان ہے اور سائنس دان دونوں طرف ہیں۔ اور یہی چیز اس بحث کو مزید دلچسپ بناتی ہے کیوں کہ ہم ایک حقیقی سوال پر توجہ مرکوز کرسکتے ہیں۔کیا سائنس خدا کی طرف اشارہ کرتی ہے‘ اس سے دور لے کر جاتی ہے یا یہ خدا کے مسئلہ میں غیرجانبدار ہے؟

یہ چیز بالکل واضح ہے۔ خدا کی ذات میں دلچسپی میں یہ غیرمعمولی اضافہ دراصل سیکولرائزیشن کے نام نہاد مفروضہ کو چیلنج کرتا ہے جس نے ’روشن خیالی‘ کے بعد بہت جلدبازی میں یہ قیاس کرلیا کہ مذہب بالآخر تنرلی کا شکار ہوکر ختم ہوجائے گا ،یا پھر کم از کم یورپ سے اس کا خاتمہ ہوجائے گا۔ درحقیقت، یہ بعینہ سیکولرائزیشن کی متصور ناکامی ہے جو خدا کے سوال کو ایجنڈے سے زیادہ اہمیت دے رہا ہے۔
’خد ا کی واپسی‘(God is Back) کے مصنفین اکانومسٹ کے ممتاز صحافیوں جان میکلتھ ویٹ اور اڈریان ولڈریگ کے مطابق مذہب صرف ناخواندہ لوگوں کے لیے نہیں ہے بلکہ دنیا کے اکثر حصوں میں بعینہ وہ بڑھتا ہوا متحرک تعلیم یافتہ متوسط طبقہ اب عقیدہ کی اس گاڑی کو چلارہا ہے جس کے متعلق مارکس اور ویبر نے یہ قیاس کرلیا تھا کہ وہ اس طرح کے توہمات کو ختم کردے گا۔ یہ خاص پیش رفت قابل فہم طور پر سیکولر طبقہ ، خاص طور پر ان میں موجود دہریوں کو غضب ناک کرنے کا سبب بنا ہے۔

یہ احتجاج یورپ میں زیادہ شدید ہے شاید اس لیے کہ دہریوں کے خیال میں یورپ وہ جگہ ہے جہاں انہوں نے زیادہ کچھ کھویا ہے۔وہ غالباً درست سمجھتے ہیں‘اور ایسی علامات ہیں جن کی بنا پر کہا جاسکتا ہے کہ وہ یورپ میں پسپائی اختیار کر رہے ہیں۔ رچرڈ ڈاؤکنز ،جو اب تک ایک جتھے کے رہنما ہیں کا احتجاج بڑھتا ہواتیز سے کرخت کے درجے میں داخل ہوچکا ہے کیوں کہ اس کی دلیل کی منطق شکستگی سے دوچار ہوچکی ہے ‘ کم از کم یہ دکھائی دیتا ہے،حتیٰ کہ اس کے بہت سارے ساتھی دہریوں نے بھی اس کو محسوس کیا ہے۔ وہ اپنے اس عقیدے کی تبلیغ کے لیے مریدوں کی بھرتی کے ذریعے ’’عوامی شعوری سطح بڑھانے‘‘ کے لیے پرعزم ہیں کہ صرف دہریت ہی دنیا میں قابل احترام دانشورانہ نقطہ نظر ہے۔

اس کی مہم  بسوں پر پوسٹرز چپکانے اور بچوں کے لیے موسم گرما کے دہریت کیمپوں کے انعقاد تک جا پہنچی ہے۔ اور یقیناًگریبانی کوٹ پر سرخ رنگ کے بڑے بیجز جن پر دہریوں کے لیے اے رقم تھا وہ بھی بھولنے والی چیز نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اعلیٰ مہارت و ذہانت سے ڈیزائن کی گئیں ٹی شرٹس بھی اس کی تیارکردہ تھے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس کی اِس مہم سے اُس کا کوئی تعلق تھا یا نہیں لیکن اسی مہم کے دوران دہریوں کے کورس میں اسٹفین ہاکنگ کی طاقت ور سائنسی آواز کا اضافہ ہوا۔ اور دنیا ان ہیڈلائنز سے بھرگئی کہ ’’اسٹیفن ہاکنگ کہتا ہے کہ کائنات خدا کی تخلیق نہیں ہے‘‘، ’’اسٹیفن ہاکنگ کہتا ہے کہ فزکس نے خدا کے لیے کوئی جگہ نہیں چھوڑی ہے‘‘ اور یہی باتیں مختلف تغیرات کے ساتھ پیش ہورہی تھیں۔

ان ہیڈلائنز میں ہاکنگ کی نئی تصنیف ’’گرانڈ ڈیزائن‘‘کا حوالہ دیا جارہا تھا جو اس کی لیونارڈ لوڈینو کے ساتھ مشترکہ تحریر تھی۔ یہ کتاب بہت جلد ’بیسٹ سیلز‘ کی فہرست میں سب سے اوپر چلی گئی۔ ہاکنگ کے قد کاٹھ کی دانشورانہ شخصیت کی طرف سے دہریت کے عوامی اعتراف نے اس بحث پر فوری اثر ڈالا۔ یہ بحث بہت ساری کتابوں کی فروخت کا سبب بھی بنی۔

ہمیں کیا سوچنا ہے؟اگر ایسا ہے، تو پھر؟کیا بحث کے لیے مزید کچھ باقی نہیں بچا؟ کیا تمام علمائے مذہب کو فوراً مستعفی ہوجانا چاہیے؟کیا چرچ کے تمام کارکنوں کو اپنی ٹوپیاں لٹکا کر گھروں کو روانہ ہونا چاہیے؟ کیا فزکس کے عظیم ماسٹر نے کائنات کے عظیم مصور کو شہ مات دے دی؟

خدا کو چلتا کرنے کا دعویٰ یقیناًمبالغہ آرائی تھی۔ آخر کار ماضی کے عظیم سائنسدانوں کی اکثریت خدا پر یقین رکھتی تھی۔ اور بہت سارے اب بھی رکھتے ہیں۔ کیاگلیلیو، پلر، نیوٹن اور میکس وِل خدا کے معاملے میں غلطی پر تھے؟

جب اتنا کچھ خطرے میں ہو تو ہمیں یقیناًہاکنگ سے کہنا چاہیے کہ وہ اپنے دعویٰ کے حق میں ثبوت پیش کریں۔کیا اس کے دلائل کی چانچ پڑتال نہیں ہونی چاہیے؟ میرے خیال میں ہمیں جاننے کا حق ہے۔
لیکن ہم اُس وقت تک جان نہیں سکتے جب تک ہم اس کو دیکھ نہ لیں۔

پس آئیے ہم یہی کرتے ہیں۔

جاری ہے۔

Share

January 5, 2013

ستم کا آشنا تھا وہ، سبھی کے دل دکھا گیا

Filed under: سیاست,مذہب,مشاہدات — ابو عزام @ 4:44 pm

محترم قاضی حسین احمد اپنے خالق حقیقی سے جاملے ۔ إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ

روایت و حکائت و درائت کا تقاضا تو یہ ٹھیرا کہ میں تحریک اسلامی کے بطل جلیل کے بارے میں کچھ عام سی باتیں لکھوں، جیسے کہ آج ہم سے ایک عظیم  رہنما جدا ہوگیا،  ان کی وفات کا خلا کبھی پورا نہیں ہوگا، صداقت و امانت و دیانت کا پیکر ہمیں چھوڑ کر چلا گیا وغیرہ وغیرہ۔ لیکن یہ سب عمومیات آپ کل کے اخباروں اور سوشل میڈیا پر دیکھ سکتے ہیں۔ میری آنکھیں تو اسوقت اپنے اس قائد کے غم میں پرنم ہیں جو ایک سچا انقلابی تھا۔ جو وقت کے دھارے کے ساتھ بہنے کاقائل نا تھا بلکہ جس نے اپنے قول و عمل سے عملا مسلم لیگ کی بی ٹیم کا کردار ادا کرنے والی جماعت کو تحریک اسلامی کی ایک متحرک و منظم قوت میں تبدیل کیا جسے عدو و یگانہ سب تسلیم کرتے ہیں۔ مجھے تو اس بات کا غم کھاے جاتا ہے کہ اس دور قحط الرجال میں اب کون ہے جو اس جرات رندانہ سے تاریخ کے دھارے کا رخ موڑے گا۔  کون ہے جو ہمیشہ یہ امید بندھاتا رہے گا کہ میرے بچوں، انقلاب کا آنا تو ٹھر گیا ہے،  قوم مخلص اور ایماندار قیادت سے محروم  ہے،بیداری کی لہرآنے والی ہے، بس دین کا کام کرے جاو اور تنائج اللہ پر چھوڑ دو، وہی اپنے دین کا بول بالا کرنے والا ہے۔

اللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ

207754_473854839327487_1990456438_n

میرا وہ قائد اپنے رب کے پاس چلا گیا ہے جس کے ساتھ  میں نے زمین پر بیٹھ کرکھانا کھایا، جس کے مشفق چہرے سے پھوٹتا نور آج بھی میری یاداشت میں اسی طرح تازہ ہے جیسے کہ یہ کل ہی کی بات ہو۔ وہ جو پاکستان کی سب سے بڑی اسلامی تحریک کا روح رواں تھا اور مودودی و قطب و بنا کے ورثے کا امین تھا، جسے اسلامی مملکتوں کے سربراہان اپنے باہمی مسائل میں ثالث کرتے، لیکن وہ ایسا عملی انقلابی تھا کہ سکوں نا آشنا رہنا اسے سامان ہستی ٹھرا، جو کارکنوں کے ساتھ صف اول میں پولیس کے ڈندے کھانے کے لئے موجود رہتا، جو نا جاگیردار تھا اور نا تاحیات سربراہ، بلکہ ہر عام کارکن کی طرح دریاں اٹھانے والا شخص بالاخر مملکت خداداد میں تحریک اسلامی کی قائدانہ آواز بنا۔  جو لسانی غنڈوں کے ہاتھوں ہونے والے شہادتوں کے قافلوں کو اپنے آنسووں سے الوداع کہتا اور مقتل میں انکی نماز جنازہ پڑھاتا،  اقبالیات کا وہ خوشہ چیں اب ہمارے درمیاں نا رہا جس کی آواز کی گھن گرج رزم خود باطل ہو تو فولاد ہے مومن کا عملی نمونہ تھی۔

تمہارے بعد کہاں يہ وفا کے ہنگامے
کوئي کہاں سے تمہارا جواب لائے گا

اتحاد بین المسلمین اور بین المسالکی ہم آہنگی کاعلمبردار، ایک قائد جوسراپا عمل تھا اور غلطی اسی سے سرزرد ہوتی ہے جو باعمل ہو۔ کنارے پر بیٹھ کر پتھر مارنے والا جو کچھ نا کرے وہی فیصلے کی انسانی غلطیوں سےمبرا ہونے کامدعی ہوسکتا ہے، میرا قائد سزاوار ہو  تو اپنی خطا پر عوامی ندامت و برات کا  اظہار کرتا،  حق بات کہتا اور ڈٹ جاتا، جس نے امت کو جہاد فی سبیل اللہ کا بھولا سبق یاد دلایا اور فساد فی الارض کی تفریق سکھائ، جس نے افغانستان میں غیر اسلامی سخت گیری کے خلاف اسوقت آواز بلند کی جب ایسی بات کرنا، خصوصا کسی مذہبی شخصیت کے لئے سیاسی خودکشی تھی۔ جو گولیوں کی بوچھاڑ میں کھڑا رہا کہ اگر آج وہ پچھلے دروازے سے چلا جاے تو کل کون کھڑا رہے گا۔ افسوس کہ فتنوں اور جیکٹوں کے اس دور نارسا میں جب اسلام کی اخلاقی اقدار پر بات کرنے والا کوئ نہیں، جب دین مصطفوی کے محاسن اخلاق و درس نصیحت اس امت مرحوم کا نوحہ بن چکے ہیں، وہ مرد قلندر جو امت مسلمہ کی نشاط ثانیہ کا علمبردار تھا ،عزم، حوصلہ اور خلوص جس کی زندگی کا خاصہ تھا، ہمیں روتا بلکتا چھوڑ کر اپنے رب کے پاس یہ کہتا ہوا چلا گیا کہ

میرے عزیزو – جنت میں ملاقات ہوگی

يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً فَادْخُلِي فِي عِبَادِي وَادْخُلِي جَنَّتِي
Share

واقعیت بودن

Filed under: تحقیق,مذہب — ابو عزام @ 7:33 am

کیا حقیقت ایتھر ہے، ایک ریاضی کی نظم ہے یا کہ ٹھوس اجزا کا مجموعہ؟ ٹھوس کیا ہے، تعمیر کا بنیادی منبع الوجود کیا ہے؟

حقیقت موجودات پر ریڈیولیب کی ایک سائنسی نظر، ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ۔

 

Share

September 23, 2012

سیرت کا پیغام

Filed under: کتابیات,مذہب,مشاہدات — ابو عزام @ 7:34 pm

انسانی تاریخ کے منظر میں ہمارے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی بلند و بلا شخصیت اتنی ابھرتی ہوئی نظر آتی ہے کہ جب ابتدا سے لیکر اب تک کے بڑے سے بڑے تاریخی انسان جن کو دنیا اکابر میں شمار کرتی ہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم کے مقابلے میں لاۓ جاتے تو آپ کے آگے بونے نظر آتے ہیں. دنیا کے اکابر میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جس کے کمال کی چمک دھمک انسانی زندگی کے ایک دو شعبوں سے آگے بڑھ سکی. کوئی نظریات کا بادشاہ ہے مگر عملی قوت نہیں رکھتا ہے. کوئی عمل کا پتلا ہے مگر فکر میں کمزور ہے. کسی کے کمالات سیاسی تدبر تک محدود ہیں. کوئی محض فوجی ذہانت کا مظہر ہے. کسی کی نظر اجتماعی زندگی کے ہر ایک پہلو سے اتنی زیادہ گہری جمی ہیں کہ دوسرے پہلو اوجھل ہو گئے ہیں.کسی نے اخلاق اور روحانیت کو نظر انداز کر دیا. غرض تاریخ میں یک رخےہیرو ہی نظر اتے ہیں مگر تنہا آنحضور صلی الله علیہ وسلم ہی کی شخصیت ایک ایسی ہے جس میں تمام کمالات جمع ہیں. وہ خود ہی فلسفی اورحکیم بھی ہے اور خود ہی اپنے فلسفے کو عملی زندگی میں نافذ کرنے والا بھی. وہ سیاسی مدبر بھی ہے، فوجی لیڈر بھی ہے، وضع قانون بھی ہے معلم اخلاق بھی ہے، مذہبی اور روحانی پیشوا بھی ہے. اس کی نظر انسان کی پوری زندگی پر پھیلتی ہے اور چھوٹی سے چھوٹی تفصیلات تک دی جاتی ہے. کھانے اورپینے کے آداب اور جسم کی صفائی کے طریقوں سے لیکر بین الاقوامی تعلقات تک ایک ایک چیز کے متعلق وہ احکام اور ہدایت دیتا ہے، اپنے نظریات کے مطابق ایک مستقبل تہذیب وجود میں لاکر دکھا دیتا ہے اورزندگی کے تمام مختلف پہلوؤں میں ایسا صحیح توازن  قائم کرتا ہے کہ افراط و تفریط کا کہیں نشان تک نظرتک نہیں آتا. کیا کوئی دوسرا شخص اس جامعیت کا پیش کیا جا سکتا ہے؟

سیرت کا پیغام تفہیمات، چہارم۔

سید ابوالاعلیٰ مودودی

Share

September 17, 2012

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کمال نفس اور مکارم اخلاق

Filed under: کتابیات,مذہب — ابو عزام @ 1:00 am

بردباری، قوت برداشت، قدرت پا کر درگزر اور مشکلات پر صبر ایسے اوصاف تھے جنکے زریعہ الله نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی تربیت کی تھی. ہر حلیم و بردباری کی کوئی نہ کوئی لغزش اور کوئی نہ کوئی زبان کی بے احتیاطی جانی جاتی ہے مگر صلی الله علیہ وسلم کی بلندی کردار کا عالم یہ تھا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے خلاف دشمنوں کی ایذا ارسانی اور بدمعاشوں کی خود سری و زیادتی جس قدر بڑھتی گئی آپ صلی الله علیہ وسلم کے صبرو حلم میں اسی قدر اضافہ ہوتا گیا.

حضرت عائشہ رضی الله تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو جب بھی دو کاموں کے درمیان اختیار دیا جاتا تو آپ صلی الله علیہ وسلم وہی کام اختیار فرماتے تھے جو آسان ہوتا، جب تک کہ گناہ کا کام نہ ہوتا. اگر گناہ کا کام ہوتا تو آپ صلی الله علیہ وسلم سب سے بڑھ کر اس سے دور رہتے. آپ صلی الله علیہ وسلم نے کبھی اپنے نفس کے لیے انتقام نہ لیا! البتہ اگر الله کی حرمت چاک کی جاتی تو آپ صلی الله علیہ وسلم الله کے لیے انتقام لیتے.

آپ صلی الله علیہ وسلم سب سے بڑھ کر غیظ و غضب سے دور تھے اور سب سے جلد راضی ہو جاتے تھے.

جود و کرم کا وصف ایسا تھا کہ اسکا اندازہ ہی نہیں کیا جا سکتا. آپ صلی الله علیہ وسلم اس شخص کی طرح بخشش و نوازش فرماتے تھے جسے فقر کا اندیشہ ہی نہ ہو. ابن عبّاس رضی الله تعالیٰ عنہا کابیان ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم سب سے بڑھ کر پیکر جود و سخا تھے. اور آپ صلی الله علیہ وسلم کا دریاۓ سخاوت رمضان میں اس وقت زیادہ جوش پر ہوتا جب حضرت جبریل علیہ السلام آپ صلی الله علیہ وسلم سے ملاقات فرماتے اور حضرت جبریل علیہ السلام رمضان میں آپ صلی الله علیہ وسلم سے ہر رات ملاقات فرماتے اور قرآن کا دور کراتے. پس رسول صلی الله علیہ وسلم خیر کی سخاوت میں (خزائن رحمت سے مالا مال کر کے) بھیجی ہوئی ہو اسے بھی زیادہ پیش پیش ہوتے تھے.. حضرت جابر کا ارشاد ہے کہ ایسا کبھی نہ ہوا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم سے کوئی چیز مانگی گئی ہو اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے نہیں کہہ دیا ہو..

شجاعت، بہادری اور دلیری میں بھی آپ کا مقام سب سے بلند اور معروف تھا. آپ صلی الله علیہ وسلم سب سے زیادہ دلیر تھے. نہایت کٹھن اور مشکل مواقع پر جبکے اچھے اچھے جانبازوں اور بہادروں کے پاؤں اکھڑ گئے آپ صلی الله علیہ وسلم اپنی جگہ برقرار رہے اور پیچھے ہٹنے کی بجاۓ آگے ہی بڑھتے گئے. پاۓ ثبات میں ذرا لغزش نہ آئی بڑے بڑے بہادر بھی کبھی نہ کبھی بھاگے اور پسپا ہوئے. مگر آپ صلی الله علیہ وسلم میں یہ بات کبھی نہیں پائی گئی. حضرت علی رضی الله تعالیٰ عنہ کابیان ہے کہ جب زور کا رن پڑتا اور جنگ کے شعلے خوب بھڑک اٹھتے تو ہم رسول صلی الله علیہ وسلم کی آڑ لیا کرتے تھے. آپ صلی الله علیہ وسلم سے بڑھ کر کوئی شخص دشمن کے قریب نہ ہوتا.

حضرت انس کا بیان ہے کہ ایک رات اہل مدینہ کو خطرہ محسوس ہوا لوگ شور کی طرف دوڑتے تو راستے میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم واپس آتے ہوئے ملے. آپ صلی الله علیہ وسلم لوگوں سے پہلے ہی آواز کی جانب پہنچ( کر خطرے کے مقام کا جائزہ لے) چکے تھے. اس وقت آپ صلی الله علیہ وسلم ابو طلحہ رضی الله تعالیٰ عنہ کے بغیر زین کے گھوڑے پر سوار تھے. گردن میں تلوار حمائل کر رکھی تھی اور فرما رہے تھے، ڈرو نہیں ڈرو نہیں. ( کوئی خطرہ نہیں).

آپ صلی الله علیہ وسلم سب سے زیادہ حیاواراور پست نگاہ تھے. ابو سعید خدری رضی الله تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم پردہ نشین کنواری عورت سے بھی زیادہ حیا وار تھے. جب آپ صلی الله علیہ وسلم کو کوئی بات ناگوار گزرتی تو چہرے سے پتا لگ جاتا. اپنی نظریں کسی کے چہرے پرگاڑتے نہ تھے. نگاہ پست رکھتے تھے اور آسمان کی بہ نسبت زمین کی طرف نظر زیادہ دیر تک رہتی تھی. عموما نیچی نگاہ سے تاکتے. حیا اور کرم نفس کا علم یہ تھا کہ کسی سے ناگوار بات رو رو نہ کہتے اور کسی کی کوئی ناگوار بات آپ صلی الله علیہ وسلم تک پہنچتی تو نام لیکر اس کا ذکر نہ کرتے بلکہ یوں فرماتے کہ کیا بات ہے کہ کچھ لوگ ایسا کر رہے ہیں. فرزدق کے اس شعر کےسب سے زیادہ صحیح مصداق آپ صلی الله علیہ وسلم تھے:

یغضی حیاء و یغضی من مھا ہته فلا یکلم الا حین یبتسم

آپ حیاء کے سبب اپنی نگاہ پست رکھتے ہیں اور اپ کی ہیبت کے سبب نگاہیں پست رکھی جاتی ہیں’ چناچہ آپ سے اسی وقت گفتگو کی جاتی ہے جب آپ تبسم فرما رہے ہوں

آپ صلی الله علیہ وسلم سب سے زیادہ عادل، پاک و امن، صادق اللہجہ اور عظیم الامانتہ تھے. اس کا اعتراف آپ صلی الله علیہ وسلم کے دوست دشمن سب کو ہے. نبوت سے پہلے آپ صلی الله علیہ وسلم کو امین کہا جاتا تھا اور دور جاہلیت میں آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس فیصلے کے لئے مقدمات لاۓ جاتے تھے. جامع ترمذی میں حضرت علی سے مروی ہے کہ ایک بار ابو جہل نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے کہا: ہم آپ کو جھوٹا نہیں کہتے البتہ آپ صلی الله علیہ وسلم جو کچھ لیکر آئے ہیں اسے جھٹلاتے ہیں. اس پر الله تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:

“یہ لوگ آپ صلی الله علیہ وسلم کو نہیں جھٹلاتے بلکہ یہ ظالم الله کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں “

ہرقل نے ابو سفیان سے دریافت کیا کہ کیا اس (نبی صلی الله علیہ وسلم) نے جو بات کہی ہے اس کے کہنے سے پہلے تم لوگ ان پر جھوٹ کا الزام لگاتے تھے؟ تو ابو سفیان نے جواب دیا کہ نہیں

آپ صلی الله علیہ وسلم سب سے زیادہ متواضع اور تکبر سے دور تھے. جس طرح بادشاہوں کے لیے ان کے خدّام و حاشیہ بردار کھڑے رہتے ہیں اس طرح اپنے لیے صحابہ کرام رضی الله تعالیٰ عنہ کو کھڑا ہونے سے منع فرماتے تھے. مسکینوں کی عیادت کرتے تھے، فقراء کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے تھے، غلام کی دعوت منظور فرماتے تھے. صحابہ کرام رضی الله تعالیٰ عنہ میں کسی امتیاز کے بغیر ایک عام آدمی کی طرح بیٹھتے تھے، حضرت عائشہ رضی الله تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم اپنے جوتے خود ٹانکتے تھے، اپنے کپڑے خود سیتے تھے اور اپنے ہاتھ سے اس طرح کام کرتے تھے جیسے تم میں سے کوئی آدمی اپنے کام کاج کرتا ہے. آپ صلی الله علیہ وسلم بھی انسانوں میں سے ایک انسان تھے اپنے کپڑے خود ہی دیکھتے کہ کہیں اس میں جوں نہ ہو اپنی بکری خود دہتے تھے اور اپنا کام خود کرتے تھے۔

آپ صلی الله علیہ وسلم سب سے بڑھ کر عہد کی پابندی اور صلہ رحمی فرماتے تھے، لوگوں کے ساتھ سب سے زیادہ شفقت اور رحم و مروت سے پیش آتے تھے، رہائش اور ادب میں سب سے اچھے تھے. آپ صلی الله علیہ وسلم کا اخلاق سب سے زیادہ کشادہ تھا. بدخلقی سے سب سے زیادہ دورو نفور تھے. نہ عادتا فحش گو تھے نہ بہ تکلف فحش کہتے تھے، نہ لعنت کرتے تھے. نہ بازار میں چیختے چلاتے تھے نہ برائی کا بدلہ۔ برائی سے دیتے تھے، بلکہ مافی اور درگزر سے کام لیتے تھے کسی کو اپنے پیچھے چلتا ہوا نہ چھوڑتے تھے. اور نہ کھانے پینے میں اپنے غلاموں اور لونڈیوں پر ترفع اختیار فرماتے تھے. اپنے خادم کا کام خود ہی کر دیتے تھے. کبھی اپنے خادم کو اف نہیں کہا. نہ اس پر کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے پرعتاب فرمایا. مسکینوں سے محبت کرتے، ان کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے اور ان کے جنازوں میں حاضر ہوتے تھے. کسی فقر کی وجہ سے حقیر نہیں سمجھتے تھے. ایک بار آپ صلی الله علیہ وسلم سفر میں تھے. ایک بکری کاٹنے پکانے کا مشورہ ہوا. ایک نے کہا’ ذبح کرنا میرے ذمہ، دوسرے نے کہا کھال اتارنا میرے ذمہ، تیسرے نے کہا پکانا میرے ذمہ، نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ایندھن کی لکڑیاں جمع کرنا میرے ذمہ، صحابہ نے عرض کیا. ہم آپ صلی الله علیہ وسلم کاکام کر دینگے آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میں جانتا ہوں کہ تم لوگ میرا کام کردوگے لیکن میں پسند نہیں کرتا کہ تم امتیاز حاصل کرو کیونکہ الله اپنے بندوں کی یہ حرکت ناپسند کرتا ہے کہہ اپنے آپ کو اپنے رفقاء میں ممتاز سمجھے”. اس کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم نے اٹھ کر لکڑیاں جمع فرمائیں.

آیئے ذرا ہند بن ہالہ کی زبانی رسول صلی الله علیہ وسلم کے اوصاف سنیں. ہند اپنی ایک طویل روایت میں کہتے ہیں: رسول الله صلی الله علیہ وسلم پیہم غموں سے دو چار تھے. ہمیشہ غورو فکر فرماتے رہتے تھے. آپ صلی الله علیہ وسلم کے لیے راحت نہ تھی. بلا ضرورت نہ بولتے تھے. دیر تک خاموش رہتے تھے. ازاول تا آخر بات پورے منہ سے کرتے تھے، یعنی صرف منہ کے کنارے سے نہ بولتے تھے. جامع اور دو ٹوک کلمات کہتے تھے جن میں فضول گوئی ہوتی تھی اور نہ کوتاہی.

نرم خو تھےجفاجو اور حقیر نہ تھے، نعمت معمولی بھی ہوتی تو اس کی تعظیم کرتے تھے. کسی چیز کی مذمّت نہیں فرماتے تھے. کھانے کی نہ برائی کرتے تھے. نہ تعریف حق کو کوئی نقصان پہنچاتا تو جب تک انتقام نہ لیتے آپ صلی الله علیہ وسلم کے غضب کو روکا نہ جا سکتا تھا. البتہ کشادہ دل کے تھے؛ اپنی نفس کے لیے نہ غضبناک ہوتے نہ انتقام لیتے. جب اشارہ فرماتے تو پوری ہتھیلی سے اشارہ فرماتے اور تعجب کے وقت ہتھیلی پلٹتے. جب غضبناک ہوتے تو رخ پھیر لیتے اور جب خوش ہوتے تو نگاہ پست فرمالیتے. آپ صلی الله علیہ وسلم کی بیشتر ہنسی تبسسم کی صراط میں تھی. مسکراتے تو دانت اولوں کی طرح چمکتے
لا یعنی بات سے زبان کو روکھے رکھتے. ساتھیوں کو جوڑتے تھے، توڑتے نہ تھے. ہر دم قوم کے معزز آدمی کی تکریم فرماتے تھے. اور اسی کو ان کا والی بناتے تھے. لوگوں (کے شر) سے محتاط رہتے اور ان سے بچاؤ اختیار فرماتے رہتے تھے . لیکن اس کے لیے کسی سے اپنی خندہ چبینی ختم نہ فرماتے تھے…

اپنے اصحاب رضی الله تعالیٰ عنہ کی خبر گیری کرتے اور لوگوں کے حالت دریافت فرماتے. اچھی چیز کی تحسین و تصویب فرماتے اور بری چیز کی تقبیح و توہین. معتدل تھے، افراط و تضریط سے دور تھے. غافل نہ ہوئے تھے کہ مبادا لوگ بھی غافل یا ملول خاطر ہو جائیں. ہر حالت کیلئے مستعد رہتے تھے. حق سے کوتائی نہ فرماتے تھے، نہ حق سے تجاوز فرما کرنا حق کی طرف لے جاتے تھے. جو لوگ آپ صلی الله علیہ وسلم کے قریب رہتے تھے وہ سب سے اچھے لوگ تھے اور ان میں ابھی آپ صلی الله علیہ وسلمکے نزدیک افضل وہ تھا جو سب سے بڑھ کر خیر خواہ ہو؛ اور سب سے زیادہ قدر آپ صلی الله علیہ وسلم کے نزدیک اس کی تھی جو سب سے اچھا غمگسارومدد گار ہو..

آپ صلی الله علیہ وسلم اٹھتے بیٹھتے الله کا ذکر ضرور فرماتے جگہیں متعین نہ فرماتے. یعنی اپنے لیے کوئی امتیازی جگہ مقرر نہ فرماتے. جب قوم کے پاس پہنچتے تو مجلس میں جہاں جگہ مل جاتی بیٹھ جاتے اور اسی کا حکم بھی فرماتے. سب اہل مجلس پر برابر توجہ فرماتے، حتیٰ کہ کوئی جلیس یہ نہ محسوس کرتا کہ کوئی شخص آپ صلی الله علیہ وسلم کے نزدیک اس سے زیادہ با عزت ہے. کوئی کسی ضرورت سے آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس بیٹھتا یا کھڑا ہوتا تو آپ صلی الله علیہ وسلم اتنے صبر کے ساتھ اس کے لیے روکے رہتے کہ خود ہی واپس ہوتا ہے. کوئی کسی ضرورت کا سوال کر دیتا تو آپ اسے عطا کئے بغیر یا اچھی بات کہے بغیر واپس نہ فرماتے آپ نے اپنی خندہ جبینی اور اخلاق سے سب کو نوازا، یہاں تک کہ آپ سب کے لیے باپ کا درجہ رکھتے تھے اور سب آپ صلی الله علیہ وسلم کے نزدیک یکساں حق رکھتے تھے، کسی کو فضلیت تھی تو تقوی کی پنیاد پر. آپ صلی الله علیہ وسلم کی مجلس حلم ہ حیاء اور صبر ق امانت کی مجلس تھی. اس میں آوازیں بلند نہ کی جاتی تھیں اور نہ حرمتوں پر عیب لگتے رہتے تھے. یعنی کسی کی بے آبروئی کا اندیشہ نہ تھا، لوگ تقویٰ کی بوتل بہم محبت و ہمدردی رکھتے تھے. بڑے کا احترام کرتے تھے چھوٹے پر رحم کرتے تھے، حاجتمند کو نوازتے تھے اور اجنبی کو انس عطا کرتے تھے

آپصلی الله علیہ وسلم کے چہرے پر ہمیشہ بشاشت رہتی سہل خو اور نرم پہلو تھے جفا جو اور سخت خونہ تھے. نہ چیختے چلاتے تھے، نہ فحش کہتے تھے نہ زیادہ عتاب فرماتے تھے نہ بہت تعریف کرتے تھے. جس چیز کی خواہش نہ ہوتی اس سے تغافل برتتے تھے. آپ صلی الله علیہ وسلم سے مایوسی نہیں ہوتی تھی. آپ صلی الله علیہ وسلم نے تین باتوں سے اپنے نفس کو محفوظ رکھا؛(١)ریاء سے (٢)کسی چیز کی کثرت سے (٣)اور لا یعنی بات سے. اور تین باتوں سے لوگوں کو محفوظ رکھا یعنی آپ صلی الله علیہ وسلم (١) کسی کی مذمّت نہیں کرتے تھے (٢) کسی کو عار نہیں دلاتے تھے (٣) اور کسی کی عیب جوئی نہیں کرتے تھے. آپ صلی الله علیہ وسلم وہی بات نوک زبان پر لاتے تھے جس میں ثواب کی امید ہوتی. جب آپ صلی الله علیہ وسلم تکلم فرماتے تو آپ صلی الله علیہ وسلم کے ہم نشین یوں سر جھکاۓ ہوتے گویا سروں پر پرندے بیٹھے ہیں، اور جب آپ صلی الله علیہ وسلم خاموش ہوتے تو لوگ گفتگو کرتے. لوگ آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس گپ بازی نہ کرتے. آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس جو کوئی بولتا ہے سب اس کے لیے خاموش رہتے. یہاں تک کہ وہ اپنی بات پوری کر لیتا. ان کی بات وہی ہوتی جو ان کا پہلا شخص کرتا. جس بات سے سب لوگ ہنستے اس سے آپ صلی الله علیہ وسلم بھی ہنستے اور جس بات پر سب لوگ تعجب کرتے اس پر آپ صلی الله علیہ وسلم بھی تعجب کرتے. اجنبی آدمی درشت کلامی سے کام لیتا تو اس پر آپ صلی الله علیہ وسلم صبر کرتے اور فرماتے “جب تم لوگ حاجتمند کو دیکھو کہ وہ اپنی حاجت کی طلب میں ہے تو اسے سامان ضرورت سے نواز دو”. آپ صلی الله علیہ وسلم احسان کا بدلہ دینے والے کے سوا کسی سے ثنا کے طالب نہ ہوتے تھے.

خارجہ بن زید رضی الله تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم اپنی مجلس میں سب سے زیادہ با وقار ہوتے. اپنے پاؤں وغیرہ نہ پھیلاتے، بہت خاموش رہتے. بلا ضرورت نہ بولتے. جو شخص نہ مناسب بات بولتا اس سے رخ پھیر لیتے. آپ صلی الله علیہ وسلم کی ہنسی مسکراہٹ تھی اور کلام دو ٹوک؛ نہ فضول نہ کوتاہ. آپ صلی الله علیہ وسلم کے صحابہ رضی الله تعالیٰ عنہ کی ہنسی بھی آپ کی توقیر و اقتدار میں مسکراہٹ ہی کی حد تک ہوتی

حاصل یہ کہ نبی صلی الله علیہ وسلم بے نظیر صفات کمال سے آراستہ تھے. آپ صلی الله علیہ وسلم کے رب نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو بے نظیر ادب سے نوازا تھے، حتیٰ کہ اس نے خود آپ صلی الله علیہ وسلم کی  تعریف میں فرمایا

یقیناً آپ صلی الله علیہ وسلم عظیم اخلاق پر ہِیں

 

 اور یہ ایسی خوبیاں تھیں جن کی وجہ سے لوگ آپ صلی الله علیہ وسلم کی طرف کھینچ آئے، دلوں میں آپکی محبت بیٹھ گئی اور آپ صلی الله علیہ وسلم کو قیادت کا وہ مقام حاصل ہوا کہ لوگ آپ صلی الله علیہ وسلم پر دا رفتہ ہو گئے. ان ہی خوبیوں کے سبب آپ صلی الله علیہ وسلم کی قوم کی اکڑ اور سختی نرمی میں تبدیل ہوئی یہاں تک کہ الله کے دین میں فوج درفوج داخل ہو گئی.

مندرجہ بالا الفاظ میں جن خوبیوں کا ذکر کیا ہے وہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے کمال اور عظیم صفات کے مظاہر کی چند چوٹی چوٹی لکیریں ہیں، ورنہ آپ کے مجدو شرف اورشمائل و خصائل کی بلندی اور کمال کا یہ علم تھا کہ انکی حقیقت اور تہ تک رسائی ممکن ہے اور نہ اس کی گہرائی ناپی جا سکتی ہے،

بھلا عالم وجود کے اس سب سے عظیم بشر کی عظمت کی انتہا تک کس کی رسائی ہو سکتی ہے جس نے مجد وکمال کی سب سے بلند چوٹی پر اپنا نشیمن بنایا اور اپنے رب کے نور سے اس طرح منور ہوا کہ کتاب الہی ہی کو اسکا وصف اور خلق قرار دیا گیا..

قاری نظر عطا ہے حقیقت میں ہے قرآن

اقتباس از رحیق المختوم، تصنیف صفی الرحمن مبارکپپوری

Share

September 5, 2012

بیگ صاحب اور فحاشی کی بے محابہ تعریفیں

Filed under: عمومیات,مذہب — ابو عزام @ 8:00 am

جامعہ کراچی کے ہمارے ایک عزیز دوست فراز حیدرآبادی المعروف بیگ صاحب فحاشی کی تعریف  میں رطب اللسان ہوئے۔ گو راقم انکی ساری باتوں سے متفق نہیں لیکن پھر بھی یہ تحریر قابل مطالعہ ہے کہ مکالمہ تو شروع ہو

شرم اک اداے ناز ہے‘ اپنے ہی سے سہی
ہیں کتنے بے حجاب کہ‘ ہیں یوں حجاب میں
یہ تحریر اس ربط پر پڑھی جا سکتی ہے۔
Share
« Newer PostsOlder Posts »

Powered by WordPress