فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

September 2, 2012

کون ہے جان گالٹ، سوز درون کائنات؟

Filed under: ادبیات,سیاست,مذہب — ابو عزام @ 8:03 am

دروغ برگردن راوی پر کسی نے آئن رینڈ سے پوچھا کہ آپکی تصنیف آیٹلس شرگڈ بارہ سو صفحات کی ایک نہائت ضخیم کتاب ہے، آپ نے اس کو کبھی مختصر کرنے کا  سوچا؟ انسانی انفرادیت و آزادی کی طاقت اور جاہ حشمت کی نام نہاد علمبردار نے نہائت نخوت سے جواب دیا، کیا کبھی کسی نے یہ کہا ہے کہ انجیل ایک طویل کتاب ہے  اور اسکو مختصر ہونا چاہیے؟

تخلیقی انفرادیت کے لبادے میں چھپا کر جس بنیاد پرست انفرادیت کو آئن رینڈ ہوا دیتی نظر آتی ہے وہی ہمیں نطشے کے اوبیرمنش فوق البشر میں نظر آتا ہے سواے اسکے کہ یہاں اسکی اخلاقی قراردادو قابلیت کچھ اختیاری سی معلوم ہوتی ہے ۔سرمایہ دارانہ نظام اور انفرادیت کی اخلاقیات کا وہ علمبردار، کلاسیکی ادب میں دانتے و ملٹن و گوئٹے کے تصور ابلیس سے کچھ خاص مختلف نہیں، لیکن اس تفاوت کی صحیح توضیح و فرق ہمیں اقبال کے سوز درون کائنات ‘ابلیس’ اور مرد مومن کے  تجرباتی و متحرک کردار میں ہی صحیح طور پر عیاں نظر آتی ہے کہ ۔

می تپداز سوزِ من ، خونِ رگ کائنات
من بہ دو صرصرم ، من بہ غو تندرم

فکر نطشے کی طرح رینڈین ہیرو و ولن کا تصوربھی ان تخیلاتی سریع الفکر، صحیح النظر اور صائب الرائے افراد کے گرد اسی طرح مطوف ہے کہ سرحد ابلیس و یزداں  کا کوئ وجود نہیں۔ اقبال کے مرد مومن و ابلیس میں لیکن یہ خط تفریق نہائت عمدگی سے بنائ گئ ہے

کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق

کہ  جذبہ مسابقت و فوقیت  کی حدود پال ریان کے جاب کریٹرزسے ما سوا ہوں۔ افسوس یہ کہ ساری عمر معاشرتی زندگی و اشتراکی فوائد کے خلاف جنگ کرتی یہ مضطرب العقل خاتون جب خود پھیپڑوں کے سرطان میں مبتلا ہوئ تو سوشل سیکیورٹی لینے میں کچھ عار نا محسوس کی۔

بس یہی جان گالٹ موجودہ ریپبلکن پارٹی اور لبرٹیرنزم کی سوچ کا مختصر نوحہ ہے۔

Share

August 24, 2012

پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وسلم کی زندگی کا مطالعہ کیوں کیا جاۓ؟ از ڈاکٹر حمید اللہ

Filed under: کتابیات,مذہب — ابو عزام @ 4:43 pm

ڈاکٹر حمید اللہ کی تحریر کردہ فرانسیسی سیرت طیبہ کی کتاب کےاردو ترجمے سے اقتباس

١: تعریف و توصیف اس الله تبارک وتعالیٰ کی جو رب العالمین ہے. ہم اسی ہی کی پرستش کرتے ہیں اور اسی ہی سے مدد مانگتے ہیں. ہمارے پاک پیغمبر حضرت محمّد صلی الله علیہ وسلم نے جو کچھ انسانیت کی اصلاح وفلاح کے لئے کیا ہم اس کی تصدیق وتوقیر کرتے ہوئے آپ صلی الله علیہ وسلم کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں.

٢: ” رب تعالیٰ جل شانہ، کے پیغمبر ” کا تصور مختلف ممالک، اقوام اور ادوار کے حوالے سے مختلف ہو سکتا ہے. اسلام میں انسان تمام مخلوقات سے اشرف وافضل ہے جب کہ رب تعالیٰ جل شانہ، کے پیغمبر، انسانوں میں سب سے زیادہ اشرف و افضل اور کامل واکمل ہیں. یقینی طور پر یہ بات انسانیت کے بہتر پہلوؤں کے تحت ہی سمجھی جا سکتی ہے.

٣: انسانی زندگی دو عظیم شعبوں میں تقسیم ہے. ایک مادی جب کہ دوسرا روحانی ہے.ان دونوں شعبوں میں ہم آہنگی اور توازن پیدا کرنے کے لیے ایسی حیات مبارکہ کی عملی مثال دینا ہوگی جو فانی انسانوں کی رہنمائی کے لیے ایک مثالی نمونہ ہو.

٤: تاریخ نے ایسے لا تعداد بادشاہوں، دانشوروں، ولیوں اور دوسرے ممتاز راہنماؤں کا ریکارڈ پیش کیا ہے جن کی زندگیاں ہمارے لیے بہترین قابل عمل مثالیں ہیں. پھر آنحضرت محمّد مصطفیٰ صلی الله علیہ وسلم کی حیات طیبہ کا مطالعہ کیوں کیا جاۓ جو کہ انسانوں کی طرح ١٤٠٠ سال قبل اس دارفانی سے کوچ فرما گئے اور اس دوران سائنس کی قابل قدر ترقی کے ساتھ ساتھ ہمارے حالات اور زندگی کے بارے میں ہمارے نظریات میں ٹھوس تبدیلیاں آ چکی ہیں؟

٥: ایک مسلمان کے لیے اس کا جواب انتہائی سادہ ہے کہ وہ اس وقت مسلمان نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے رہبرو رہنما حضرت محمّد مصطفیٰ صلی الله علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کی پیروی نہ کرے. لیکن وہ افراد جو ابھی تک نبی آخرالزماں حضرت محمّد مصطفیٰ صلی الله علیہ وسلم کی سیرت ( سوانح حیات) کی تفصیلات سے آگاہ وآشنا نہیں ہیں ان کے لیے چند حقائق کی یاددہانی اہمیت کی حامل ہے.

(الف) محمد رسول صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے آپ صلی الله علیہ وسلم کی اپنی نگرانی میں انتہائی قابل اعتماد انداز میں محفوظ کرنے کی خاطر تحریر میں لائی گئیں. دوسرے مختلف بڑے مذاہب کے بانیوں میں سے صرف حضرت محمد مصطفیٰ صلی الله علیہ وسلم کی ذات پاک نے خوش بخت نظریہ کے تحت وقتا فوقتا رب تعالیٰ جل شانہ، کی جانب سے وحی اور احکامات کو نہ صرف اپنی صحبت کے افراد تک پہنچایا بلکہ اپنے کاتبوں کو لکھوایا اور یہ کہ اس کے کئی نسخے اپنے پیروکاروں تک پہنچانے کا محتاط و محفوظ انتظام فرمایا. جہاں آپ صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات کے تحفظ کا تعلق ہے یہ مسلمانوں کا مذہبی فریضہ بن گیا کہ وہ رب تعالیٰ جل شانہ، کی جانب سے نازل ہونے والے کلام کے مختلف حصّوں ( اقتباسات) کو اپنی نمازوں میں تلاوت کریں. اس طرح اس متبرک کلام کا زبانی یاد کرنا لازم ہو گیا. یہ روایت بغیر کسی رکاوٹ کے جاری و ساری رہی کہ رب کائنات کے کلام قرآن الحکیم کے تحریر شدہ نسخے محفوظ رکھے جائیں دوسرا یہ کہ انہیں زبانی حفظ کیا جاۓ. یہ دونوں طریقے الله تبارک وتعالیٰ کے کلام کی اصلی زبان میں مستند و معتبر ترسیل و تفسیر میں ایک دوسرے کے مددگر ثابت ہوئے. قرآن الحکیم اپنے مواد کے اعتبار سے “عہد نامہ قدیم ” کی پہلی پانچ کتابوں مع ” عہد نامہ جدید” کی پہلی چار کتابوں سے بھی زیادہ عظیم ہے. چناچہ اس امر میں حیرت و حیرانی کی کوئی بات نہیں کہ قرآن الحکیم میں تمام شعبہ ہائے حیات کے بارے میں ہدایات موجود ہیں.

(ب) پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی الله علیہ وسلم، رب تعالیٰ جل شانہ، کے نبی اور رسول کا عزاز حاصل کرنے پر اپنی اجارہ داری کا اعلان نہیں فرماتے بلکہ اس کے برعکس آپ صلی الله علیہ وسلم اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم سے پہلے الله تبارک وتعالیٰ نے تمام قوموں کے لیے پیغمبر بھیجے. آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان میں سے چند کے نام بھی لیے ہیں جیسا کہ حضرت آدم علیہ السلام، حضرت نوح علیہ السلام ، حضرت ادریس علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام ، حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام. آپ صلی الله علیہ وسلم نے بتایا کہ جن پیغمبروں کے آپ صلی الله علیہ وسلم نے نام لیے ہیں ان کے علاوہ اور بھی کئی پیغمبر ہیں. آپ صلی الله علیہ وسلم محض یہ دعویٰ فرماتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم حقانیت و وحدانیت کی بحالی کا کردار ادا کرنے آئے ہیں. آپ صلی الله علیہ وسلم سابقہ پیغمبروں کی تعلیمات کا احیاء چاہتے ہیں جو کہ حضرت آدم علیہ السلام و حضرت حوا کے جانشینوں کی بدقسمت تاریخ کے دوران جنگوں اور انقلابات کے ذریعے بے قدری و تنزلی کا شکار ہوئیں. محمد رسول صلی الله علیہ وسلم کی خوش قسمت و مقدّس یادداشت کی بہت مضبوط و مستحکم اور غیر مصالحانہ توثیق و تصدیق یہ رہی کہ رب تعالیٰ جل شانہ، کے کلام کی ترسیل و ابلاغ آپ صلی الله علیہ وسلم کے بعد بھی بر قرار رہی جس سے رب تعالیٰ جل شانہ، کی طرف سے مزید پیغمبر بھیجھنے کی ضرورت نہ رہی. یقینی طور پر ہمارے پاس قرآن الحکیم اور الحدیث اپنی اصلی زبان میں محفوظ ہیں..

(ت) نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفیٰ صلی الله علیہ وسلم ہونے مشن کے پہلے ہی روز سے تمام دنیا سے مخاطب ہوئے. آپ صلی الله علیہ وسلم کسی قوم یا کسی زمانے تک محدود نہیں رہے. آپ صلی الله علیہ وسلم نے رنگ ونسل اور سماجی ومعاشرتی درجہ بندیوں کی غیر مساوی تقسیم کو تسلیم نہیں کیا. اسلام میں تمام انسان مکمل طور پر برابر ہیں اور ذاتی برتری کی بنیاد نیک اعمال و افعال پرہے.

(ث) انسانی معاشرے میں مکمل طور پر اچھے اور مکممل طور پر برے انسان شاذو نادر ہی ہوتے ہیں. اکثریت کا تعلق متوسط درجہ سے ہوتا ہے. حضرت محمد مصطفیٰ صلی الله علیہ وسلم نے یہ سمجھ کر اطمینان حاصل نہیں کیا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم انسانوں میں سے “فرشتوں” سے مخاطب ہیں بلکہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے پیغام کا رخ بنیادی طور پرعام لوگوں اور فانی انسانوں کی بہت زیادہ اکثریت کی جانب رکھا. قرآن الحکیم کے الفاظ میں انسان کو “اس دنیا کے اچھے حصے اور آخرت کے اچھے حصے” کے حصول کے لیے کوشش وکاوش کرنی چاہیے.

(ج) انسانی معاشرے میں عظیم سلاطین، عظیم فاتحین، عظیم مصلحین اور عظیم متقین کی کمی نہیں لیکن زیادہ تر افراد اپنے متعلقہ شعبے ہی میں مہارت اور قدرو قیمت رکھتے ہیں. ان تمام اوصاف کا تمام پہلوؤں کے حوالے سے اجتماع صرف ایک ہی شخص میں ہونا. جیسا کہ سرور کائنات حضرت محمد مصطفیٰ صلی الله علیہ وسلم کی شخصیت میں ہے. نہ صرف بہت ہی نایاب وکمیاب ہوتا ہے بلکہ وہاں ہوتا ہے جب معلم کو اپنی تعلیمات کو بذات خود عملی شکل دینے کا موقع ملتا ہے یعنی جب تدریس و تجربہ میں توازن پیدا ہوتا ہے.

(ح) اتنا کہنا کافی ہے کہ پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی الله علیہ وسلم ایک صالح کی حثیت سے ایک مذہب کے بانی ہیں جو دنیا کہ بڑے مذاہب میں سے ایک ہے جس کا ہمیشہ شاندارو جاندار وجود رہا ہے، جس کا نقصان اس کے روزانہ کے فوائد وثمرات کے مقابلہ نہ ہونے کہ برابر ہے. اپنے ہی بتاۓ ہوئے اصول و ضوابط پر انتہائی ریاضت و استقامت کے ساتھ عمل پیرا ہونے کے حوالے سے رحمتہ للعالمین حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کی حیات طیبہ بے داغ ہے. ہم جانتے ہیں کہ ایک سماجی و معاشرتی منتظم کی حیثیت سے پیغمبر اسلام حضرت محمّد مصطفیٰ صلی الله علیہ وسلم نے ایسے ملک میں صفرسے سفر کا آغاز کیا جہاں ہر ایک شخص، ہر دوسرے شخص سے برسروکار تھا. سرور کونین حضرت مصطفیٰ صلی الله علیہ وسلم کو ایک ایسی ریاست کی بنیاد رکھنے میں دس سال لگے جو تیس ٣٠ لاکھ مربع کلومیٹر سے زیادہ کے علاقے میں پھیلی ہوئی تھی اور جس میں تمام جزیرہ نہاے عرب کے ساتھ ساتھ فلسطین اور جنوبی عراق کے علاقے شامل تھے. آپ صلی الله علیہ وسلم نے اتنی بڑی سلطنت کو اپنے جانشینوں کے لیے ورثہ میں چھوڑا جنہوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کے بعد پندرہ سال کے عرصے میں اسے یورپ، افریقہ اور ایشیا کے تین براعظموں تک وسعت دے دی.(طبری، جلد اول صفحہ ٢٨١٧ ) فاتح کی حیثیت سے آپ صلی الله علیہ وسلم کی جنگی وعسکری ہجات میں دونوں جانب سے انسانی جانوں کے ضیاع کی کل تعداد چند سو افراد سے زیادہ نہیں ہے لیکن ان علاقوں کی رعایا میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت کامل واکمل تھی. درحقیقت رحمتہ للعالمین حضرت محمد مصطفیٰ صلی الله علیہ وسلم نے جسموں کی بجاۓ دلوں پر حکمرانی کی. جہاں تک آپ صلی الله علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں ہی آپ صلی الله علیہ وسلم کے مشن کی کامیابی و کامرانی کا تعلق ہے مکہ مکرمہ میں حجتہ الوداع کے موقع پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے ڈیڑھ لاکھ پیروکاروں کے اجتماع سے خطاب کیا جب کہ ابھی تک مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد اس تاریخی موقع پر لازما اپنے اپنے گھروں میں رہی ہوگی ( کیونکہ ہر سال حج کرنا فرض نہیں ہے ).

(خ) پیغمبر اسلام حضرت مصطفیٰ صلی الله علیہ وسلم نے جو قوانین اپنے پیروکاروں کے لیےلاگو کیے اپنے آپ کو بھی قوانین سے بالاتر نہیں سمجھا بلکہ اس کے برعکس جس قدر آپ صلی الله علیہ وسلم کے پیروکاروں سے عمل کی توقع ہو سکتی تھی آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان سے بڑھ کر عبادت و ریاضت کی، روزے رکھے اور رب تعالیٰ جل شانہ، کی راہ میں خیرات کی. آپ صلی الله علیہ وسلم انصاف پسند تھے اور حتیٰ کہ اپنے دشمنوں کیساتھ نرمی و ہمدردی سے پیش آتے تھے چاہے وہ امن کا زمانہ یا جنگ کا دور ہو.

(د) آپ صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات سے زندگی کے ہر شعبہ کا احاطہ کرتی ہیں یعنی عقائد، روحانی عبادت، اخلاقیات، معاشیات، سیاست الغرض وہ تمام کچھ جس کا انسان کی انفرادی یا اجتماعی، روحانی و مادی زندگی سے ہے. اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان تمام شعبہ ہائے حیات میں اپنے فعل وعمل کی مثال چھوڑی ہے.

٦: چناچہ کسی بھی فرد کو آپ صلی الله علیہ وسلم کی حیات طیبہ کا مطالعہ ضروری کرنا چاہیے اس سے پہلے کہ وہ اس بارے میں کوئی فیصلہ کرے..

Share

August 12, 2012

مسلماں زادہ ترکِ نسب کن

Filed under: سیاست,مذہب,مشاہدات — ابو عزام @ 9:21 am

اعداے ملت اسلامیہ کا عرصہ دراز سے یہ منشا رہا ہے کہ امت واحدہ کو  نسلی اور وطنی تفرقات میں  بانٹے رکھیں۔ اس کی تازہ ترین مثال روہینگا کے مسلمانوں کے قتل عام پر ڈرائنگ روم لبرلیوں کا یہ ردعمل ہے کہ یہ  ایک نسلی و محدود جغرافیای معاملہ ہے، اس کو مسلمانوں کا مسئلہ بنانے کی کوشش کرنا غلط ہے۔

یہ عدم پرواہی و بے اعتنای ایک نہایت تباہ کن رجحان ہے جو درحقیقیت اورئنٹلزم کا کول ایڈ پینے سے لاحق ہوتا ہے۔ آج سے نہیں عرصہ دراز سے اسی قماش کے لوگ سلطان صلاح الدین ایوبی کو مسلمان نہیں بلکہ کرد فاتح، دولتہ عثمانیہ کو مسلمانوں کی نہیں بلکہ ترکوں کی امارات اور اسپین پر مسلمانوں کی حکومت کو بربروں کی سلطنت قرار دیتے ہیں۔ اس زمن میں قران کا موقف بلکل صاف ہے

و انّ ھذہ امتکم امة واحدة وانا ربکم فاتقون -مومنون ٥٢
اور
انماالمومنون اخوة فاصلحوا بین اخویکم -الحجرات ١٠

اس امت واحدہ کو رنگ و نسل، زبان و وطن اور ویسٹفیلین سوویرنیٹی کی بنیاد پر بانٹنے کا کام اسی کو زیب دیتا ہے جس نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول نا سن رکھا ہو

مثل المومنین فی تواد ہم وتراحمہم وتعاطفہم مثل الجسد والواحد اذا اشتکی منہ عضوتداعی لہ سائرالجسد بالسہر والحمی ﴿متفق علیہ﴾

“مومنوں کی مثال آپس میں ایک دوسرے سے محبت کرنے ایک دوسرے کے ساتھ رحم کھانے میں ایک دوسرے کے ساتھ شفقت کرنے میں ایک جسم کے مانند ہے جب اس کا ایک عضو بیمار ہوجاتا ہے تو سارا جسم اس کے لیے بخار اور بے خوابی میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔”

نیز مزید فرمایا

المومن للمومن کالبنیان یشد بعضہ بعضا ﴿بخاری ۴۸۱ مسلم ۲۵۸۵﴾
“مومن ﴿دوسرے ﴾مومن کے لیے دیوار کے مثل ہے جس کی ایک اینٹ سے دوسرے اینٹ کو مضبوط بناتی ہے۔”

حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سرشارمومن کو جغرافیائ حدود کا خیال نہیں ہوتا، بحکم الہی وہ قبیلوں اور قوموں کو پہچان کا ذریعہ تو ضرور مانتا ہے لیکن اس کا دل ہر مسلمان کے دکھ درد میں برابر کا شریک ہوتا ہے چاہے وہ شام میں بشار الاسد کے ظلم و ستم سے پنجہ آزما ہو، ایران میں زلزلے کی تباہ کاریوں سے متاثر ہو یا برما کے بدھوں کی سنگینوں کا شکار ہو۔

 سرود بر سر منبر کہ ملت از وطن است
چہ بے خبرز مقام محمدؐ عربی است

وہ اپنی بے عملی کو چھپانے کے لیے حیلے بہانے نہیں ڈھونڈتا بلکہ جس امر کہ طاقت و قدرت اس کے رب نے عطا کی ہے اتنا عمل کر کے  نتیجہ اپنے خالق پر چھوڑ دیتا ہے۔ اس کو کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا خوف نہیں ہوتا اور نا اس کے لیے بوسنیا کا یورپی مسلمان سوڈان کے افریقی مسلمان سے اور کاشغر کے اویغور بھائ سے چنداں مختلف ہوتا ہے۔ وہ تو بس یہ جانتا ہے کہ

نہ افغانیم ونے ترک و تتاریم
چمن زادیم و ازیک شاخساریم

مسلمانوں کی نسل کشی خواہ وہ بوسنیا میں ایتھنک کلینزنگ کے نام پر ہو، یا چاہے کسی جابر حکمراں کے ہاتھوں، اس امت کا برنگِ احمر و خون و رگ و پوست ایک ہے۔ اگر کسی ایک واقعے کو امتداد زمانہ سے زیادہ توجہ ملے اور دوسرے کو کچھ کم تو اس سے امت کے رشتوں میں کمی نہیں آجاتی۔وہ امت کو جغرافیے کی چھری سے ذبح کرنے کے بجاے ببانگ دہل کہتا ہے کہ

ان تازہ خداوں میں بڑا سب سے، وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے، مذہب کا کفن ہے
یہ بُت کہ ترا شیدہ تہذیبِ نوی ہے
غارت گرِ کا شانہ دینِ نبوی ہے
بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیں ہے، تو مصطفوی ہے

امت میں نفاق کے پروردہ لوگوں کو مژدہ ہو کہ عربوں و ترکوں کو میانمارمیں اپنوں کا خون دامے درمے سخنے کھینچ لایا، تورانی و افغانی کی تمیز نا رہی، یہی منتہاے ملت ہے ،عرب نازد اگر، ترکِ عرب کن۔ و من الله توفیق۔

Share

July 3, 2012

سائنسدان نیل ٹائسن کا ملحدین کو دندان شکن جواب

Filed under: مذہب,مشاہدات — ابو عزام @ 7:12 am

کیونکہ کبھی کبھی جب تک عنوان کلیشے نا ہو، اردو بلاگستان پر تحریر کچھ ادھوری سی معلوم ہوتی ہے۔

 نیل ڈیگراس ٹائسن ایک مشہور امریکی ماہر فلکیات، سائنسی امور کے مصنف و مبصر ہیں۔ الحاد کے علمبردار اکثر انہیں اپنا حامی قرار دیتے ہیں جس سے وہ سخت نالاں ہیں۔ وہ ایتھیسٹ یا ملحد لے بجاےاپنے ٓآپ کو اگناسٹک گردانتے ہیں اور روحانیت پر انکا ایک سائنسدان کئ حیثیت سے مندرجہ زیل موقف ہمارے جدید عسکری ملحدین کے لیے ایک بہترین مثال ہے۔

گذارش یہ ہے کہ تبصرہ کرنے سے پہلے نیل ٹائسن کیا کہ رہے ہیں اسے سن اور سمجھ لیا جاے تو راقم کا مدعا واضع ہو جا؁ے گا۔

Share

June 16, 2012

تشکیک و تیقن

Filed under: مذہب,مشاہدات — ابو عزام @ 7:52 am

انگریزی مثل مشہور ہے کہ  جنگی خندقوں میں کوئی ملحد نہیں ہوتا۔

لیکن یہ مثل صرف خندقوں تک محدود نہیں، تشکیک و تیقن کا یہ فرق انسانی زندگی اور سوچ کے ارتقا میں ہر جگہ نہایت نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ میوٹیشن یا تغیر، جس کو ارتقاء کا بنیادی ستون ٹھرایا سمجھا جاتا ہے، اس تغیر کی مختلف امثال در حقیقت ایمانیات کا ایک لٹمس ٹیسٹ ہیں۔  مثال کے طور پر انسانی آنکھ جیسا ایک پیچیدہ عضو ہی لے لیں جسے ڈارون نے ہمیشہ نظریہ ارتقا کے لئے ایک پریشان کن شے سمجھا کہ یہ کیونکر وجود میں آئ۔ کروڑوں سال قبل آپ ہو ہم جب پرایمورڈیل مالیکیولر ملغوبوں میں غوطے کھا رہے تھے تب تو کسی جاندار کے پاس آنکھ موجود نا تھی، پھر ہوا یوں کہ میوٹیشن سے ایک باریک سی جھلی بنی کہ جس سے روشنی کی سمت کا اندازہ ہوتا، اور اس کے بعد یہ جھلی ہزاروں لاکھوں سال میں بڑھ کر پن ہول کیمرہ کی شکل اختیار کر گئی اور پھر اس میں فوکس کرنے کی صلاحیت آئ اور اس طریقے سے آج کی موجودہ پیچیدہ انسانی آنکھ معرض وجود میں آئی۔ ان تمام تغیرات کے بارے میں بہت آسانی سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ سب تو قبلہ میوٹیشن کی برکات ہیں، ایک سیلفش جین ہے جو میوٹیٹ کرتا رہا،۔ لیکن جب ہم نظریہ میوٹیشن کواس قدرآسانی سے بیان کرتے ہیں کہ گویا ہر چیزمیوٹیشن کے ذریعے وجود میں آئی، تو ہمیں اس بات کا چنداں احساس نہیں ہوتا کہ اس تغیروارتقاء کے پیچھے کیا کوئ گرانڈ پلان بھی موجود ہے؟ کیا یہ وحی خفی کسی ذات باری کی جانب سے ہے جو اس سمت کو متعین کرتی ہے یا یہ سب خودبخود ہوتا چلا جارہا ہے؟پرابیبلٹی اور پلاسیبیلٹی کی کمی بھی، اس خیال کو کہ میوٹیشن خود بخود ہوگئی ہے، کسی خالق کی موجودگی کے امکان کے قرب میں پھٹکنے نہیں دیتی کہ اس سے انٹیلیکچولزم پر حرف آتا ہے۔ ہمارےنزدیک بہت آسان بات ہے یہ کہہ دیں کہ بس جناب، سروائووال آف دا فٹسٹ، اور میوٹیشن خودبخود آنکھ بنا دیتی ہے۔ لیکن اسکی وجوہات کہ میوٹیشن کیونکرہوئ، اور یہ میوٹیشن کسی منفی سمت میں کیوں نہیں جاتی، یہ سوالات طوالت کی بنا پراصحاب تشکیک یا اسکیپٹکس اکثر چھوڑ دیا کرتے ہیں۔ یہی تشکیک و تیقن کی تقسیم کا بنیادی کا خاصہ ہے۔ میوٹیشن میں زندقہ، تغیروارتقاء سے آنکھ بننے کے عمل کو دیکھتا ہے، اہل ایمان اسی امر میں خدا کی قدرت کا سراغ پاتا ہے۔ ایک کو میوٹیشن کی خودی پر ایمان ہے گو کہ وہ لیب میں ری پروڈیوسیبل نا ہو اور دوسرے کو اس میں خدای اسرار نظر آتے ہیں جسے الحاد و زندقہ ذہنی کمزوری گرداننے میں چنداں شرم محسوس نہیں، کرتے۔

اب انسانی ذہانت کو دیکھیں۔ سائنسی دعووں کومد نظر رکھا جاۓ تو ایپس اور انسانی ڈی آین آے میں محض ایک فیصدی فرق ہے۔ اب اس ایک فیصدی فرق نے ہمیں چاند پر پہنچایا، اشرف المخلوقات کا درجہ دیا، اس ایک فیصدی فرق کے ذریعے آج بنی نوع انسانی کے خلائ جہازوائجر اول  اور وائجر دوئم نظام شمسی کی حدود پار کرنے والے ہیں۔ اگر ہم سب ایک ہی پرائمورڈیل سوپ سے معرض وجود میں آے تو اس بات میں کیا استجاب لازم نہیں کہ کسی اور مخلوق میں اس درجہ کی ذہانت کیوں نہیں پائی جاتی؟ آپ شاید اس سے امر کو اسپیشیزم  گردانیں لیکن کیا وجہ ہے کہ ہم کسی ڈالفن کو اسکوبا ٹینک لگائے موٹر کار چلاتے ہوئے نہیں دیکھتے۔ اگر تمام مخلوقات کے لیے ابتدا ایک ہے اور کوئ منصوبہ ساز نہیں، تو پرابیبلٹی کے حساب سے ان کروڑوں سالوں میں کوئ تو ایسی مخلوق ہوتی جس کی ذہانت کا معیار وہی ہوتا کہ جو حضرت انسان کی ذہانت کا معیار ہے؟ زمین کو اس وقت ایک کلوزڈ سسٹم سمجھ کر اس سوال پر غور کریں تو شائد یہ بات واضع ہو کہ جب ایک ہی طرح کے ڈی این اے سے سب کی تخلیق ہوئی ہے تو پھر یہ کیا وجہ ہے کہ ہم سے جنیاتی طور پر قریب ترین دوسری مخلوق جوکہ جسمانی طاقت میں آَٹھ گنا زیادہ مضبوط ہے، ذہانت سے اسقدر عاری کیوں؟ ڈاینوسارس نہایت کامیاب مخلوق تھے کہ جنہوں نے زمین پر کروڑوں سال حکومت کی، حضرت انسان کو تو فقط ایک لاکھ کچھ سال ہی ہوے، ان دیوہیکل جانوروں میں بھی کوئ قابل ذکر ذہانت کا عنصر نا دکھائ دیا۔ اگر تشکیک کی عینک ہٹا کر دیکھیں تو درحیقت یہاں پر بھی ٹکراو یقین اور شک کا ہے۔ اہل ایمان کا یقین اس استعارے کو سمجھتا ہے کہ کیا وجہ ٹھری کہ خلیفہ رب العزت اور اشرف المخلوقات کا درجہ صرف حضرت انسان کہ حق میں آیا ہے. جب کہ اہل تشکیک اور زندقہ اس امر کو محض ایک عارضی غیر حل شدہ مسئلہ گردانتے ہیں.

حاصل مطالعہ یہ ٹھرا کہ

ذَلِكَ الْكِتَابُ لا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ

یعنی  کہ اس کتاب میں کوئ شک نہیں اور ہدایت اس کے لیے جو غیب پر ایمان لایا۔ منطق کہے یہ کیسا سرکلر ریفرنس ہے؟ کوئ پیر ریویو نہیں اور تھیسس کہتا ہے کہ اس کتاب میں کوئ شک نہیں۔ امرغریب یہ کہ اگرتخلیق کے عمل کو بلکل صاف صاف کھول کھول کر بیان کر دیا جاۓ کہ مالک کل کی وحدانیت، وجود اور مالک سموت الرض ہونے کو لیب میں ریپروڈیوسیبل کردیا جائے تو پھر غیب کیا تھا؟ یہ ایک کیچ ۲۲ کی کیفیت ہے جو کہ اہل ایمان کو تشکیک و زندقہ کے مسلسل تضحیک و تشنیع کا نشانہ بناے رکھتی ہے اور ہر گزرتا لمحہ انکے ایمان میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ اگر آسمان پر امر الہی سے کلمہ لا الہٰ الاللہ محمّد الرسول الله لکھا ہوا آجاۓ تو ظاہر ہے کہ کوئی بھی کافر نہ رہے۔ اگر سب کو مسلم بنانا خالق کی منشا ہوتی تو خدا کے نزدیک یہ کیا امر مشکل تھا، مگر غیب کو کھول کر بیان کر دینا حکمت الہی نہیں، ایمان بالغیب نام ہی اس تشکیک کے پردے کو دل سے ہٹا کر یقین محکم رکھنے  کا ہے ۔ یہ تو در حقیقت سب نظر کا فرق ہے کہ جس چیز کو اہل ایمان یقین کی نگاہ سے حکمت الہیہ اور تخلیق الہیہ گردانتے ہیں وہی زندقہ اور اہل تشکیک کو میوٹیشن یا خود بخود ہونے والی شہ دکھائ دیتی ہے. خدا کے وجود اور عدم وجود پر منطق کی دلیل یہ ہے کہ  اگر آپ انہونی کو ہٹا دیں تو جو چیزسب سے زیادہ منطقی ہوگی وہی چیز حقیقت کہلائے گی۔ سوال یہ ہے کہ خدا کے وجود کا انہونی ہونا کس منطق سے ثابت ہے، اسی منطق سے جو میوٹیشن کے خودبخود ہونے کو تو امر واقعی گرداننے میں چنداں گرفتہ نا ہو لیکن عدم دلیل کی بنا پر اہل ایمان کو اگناسٹزم کے شک کا فائدہ بھی نا دے؟

خردکے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں
تیرا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں

Share

May 24, 2012

حقیقت تمثیل از ابن عربی

Filed under: تحقیق,کتابیات,مذہب,مشاہدات — ابو عزام @ 12:49 pm

فصوص الحکم میں  ابن عربی حکمت قدوسیہ فص کلمۂ ادریسیہ کے بیان میں کہتے ہیں

یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ کسی مسئلے کی تحقیق جدا ہوتی ہے اور مثال کے طور پر یا عبرت لینے یا نصیحت پکڑنے کے لیے کسی جانور کے فرضی قصّے کا بیان کرنا یا غلط، مگر مشہور واقعے کی طرف اشارہ کرنا درست ہے. کیونکہ اس وقت مقصود صرف تمثیل اور عبرت ہوتی ہے..

واقعات اور مسائل کی تحقیق و تنقید کا مقام دوسرا ہوتا ہے.مثلاً کوئی کہے کہ حریص کو کچھ نہیں ملتا. بلکہ جو کچھ اپنا تھا اس کو بھی کھو دیتا ہے. جیسے ایک حریص کتا جس کے منہ میں گوشت کا ٹکڑا تھا. ندی پر سے گزر رہا تھا. اس نے ندی میں اپنا سایہ دیکھا’ اس نے سمجھا کہ ایک دوسرا کتا منہ میں گوشت کا ٹکڑا پکڑا لیے جا رہا ہے. حریص کتا اپنا منہ کھول کر اس کے گوشت کے ٹکرے کو چھینے کے لیے جھپٹا. اور اپنا گوشت کا ٹکڑا بھی کھو دیا. دیکھو اس واقعے سے صرف حرص کی مذمّت مقصود ہے. اور وہ اس سے حاصل ہے.یہ بات کہ واقعی کسی کتے نے ایسا کیا’ یا نہیں’ ہمارے مقصود سے خارج ہے.

ہیت دانوں کے دو فرقے ہیں.

بعض زمین کو مرکز علم سمجھتے ہیں اور یہ بطلیموسی کہلاتے ہیں.۱
بعض آفتاب کو اپنے سیاروں کا مرکز سمجھتے ہیں. اور یہ فیثا غورثی کہلاتے ہیں.۲

تابعین فیثا غورث کے خیال میں ہر ایک ثابتہ آفتاب ہے اور اس کا نور ذاتی ہے

بعض ثابتے ہمارے آفتاب سے بہت بڑے ہیں. کہکشاں ہیں. جس کو عربی میں مجرہ کہتے ہیں کروڑ ہا کروڑ آفتاب ہیں. دودو ثابتے یا آفتاب با ہم ایک دوسرے کے اطراف گردش کرتے ہیں. اور دودو کا جوڑا. اور ایک جوڑے کے اطراف گردش کرتا ہے بعض کے پاس قمر زمین کے اطراف گردش کرتا ہے اور زمین مع قمر کے آفتاب کے گرد گردش کرتی ہے. آفتاب مع تمام سیارات کے کسی بہت بڑے آفتاب کے گرد گردش کرتا ہے. اور تمام آفتاب ہاۓ عالم ایک شمس الشموس کے اطراف گردش کرتے ہیں. زمین کو ساکن ماننے والوں کے پاس ستاروں کی جو ترتیب ہے اس کو شیخ نے یہاں بطور تمثیل کے بیان کیا ہے. اور یہاں صرف علوۓ مکان کی مثال مقصود ہے نہ کہ تائید نظام بطلیموسی.

ہم کو بحیثیت مذہبی آدمی اور صوفی ہونے کے نہ نظام فیثا غورث سے غرض ہے نہ نظام بطلیموسی سے. اس مسئلے کو یاد رکھو. یہ بہت سی جگہ نفع دیگا.

Share

May 15, 2012

فصوص الحکم از ابن عربی

Filed under: ادبیات,کتابیات,مذہب — ابو عزام @ 12:23 pm

ابن عربی کا نام تصوف و فلاسفہ سےآگاہی رکھنے والوں کے لیے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ انکی مشہور زمانہ کتاب  فصوص الحکم کا اردو ترجمہ از مولانا عبدلقدیر صدیقی کچھ عرصے پہلے پڑھنا شروع کیا۔ اس کتاب کے ساتھ ساتھ اسکے عربی متن اور انگریزی ترجمے کو بھی ساتھ رکھا ، منشا یہ تھا کہ زبان و بیان کے تعلق سے ترجمے اور معنویت میں زیادہ فرق نا آئے، اس وجہ سے اس اصطلاحات سے پر دقیق کتاب کا مطالعہ مزید مشکل اور گھمبیر ہونے کے ساتھ ساتھ طول پکڑتا چلا گیا۔ تقریبا ساڑھے چار سو صفحات کی اس کتاب میں جو کہ فصوص الحکم کا ترجمہ و تشریح ہے اس میں اصل کتاب کا متن تو سو صفحات سے کچھ زیادہ نا ہوگا۔ ابن عربی کے متن پر اضافہ جات میں طریق اکبریہ ، شیخ کا ایک دوسرا طریقہ، شیخ کے معاصرین، شارحین فصوص الحکم ، شیخ کی تصانیف، طریقہ ترجمہ و شرح ، عقائد شیخ اکبر، شیخ کا فلسفہ وغیرہ شامل ہیں۔ اس کتاب کے کئی مختلف النوع انگریزی تراجم ایمزن پر موجود ہیں۔

فصوص الحکم یا حکمت کے موتیوں، جواہر  مندرجہ زیل مضامین پر مشتمل ہے۔

۱                                                           فص آدمیہ

۲                                                           فص شیشیہ

۳                                                           فص نوحییہ

۴                                                           فص ادریسیہ

۵                                                           فص مہمیتہ (ابراہیمیہ)

۶                                                           فص اسحاقیہ

۷                                                           فص اسماعیلیہ

۸                                                           فص یعقوبیہ

۹                                                           فص یوسفیہ

۱۰                                                         فص ہودیہ

۱۱                                                         فص صالحیہ

۱۲                                                        فص شعییہ

۱۳                                                        فص لوطیہ

۱۴                                                         فص عزیزیہ

۱۵                                                         فص عیسویہ

۱۶                                                         فص سلیمانیہ

۱۷                                                         فص داؤدیہ

۱۸                                                         فص یونسیہ

۱۹                                                        فص ایوبیہ

۲۰                                                         فص یحیویہ

۲۱                                                         فص زکرویہ

۲۲                                                         فص الیاسیہ

۲۳                                                         فص لقمانیہ

۲۴                                                         فص ہارونیہ

۲۵                                                         فص لقمانیہ

۲۶                                                         فص خالدیہ

۲۷                                                         فص محمدیہ

تعارف میں مفسر لکھتے ہیں کہ الشیخ محی الدین محمد بن علی بن محمد العربی الطائی الحاتمی.. یہ قبیلہ بنی طے اور حاتم طائ کی اولاد میں سے ہیں۔ سترھویں رمضان ٥٦٩ء میں تولد ہوئے.آپ کی تاریخ ولادت “نعمت” ہے. مولد مریسیہ از متعلقات اندلس یا اسپین یا ہسپانیہ اور وفات. بائیس ربیع الثانی ٦٣٨ء میں اس جہاں فنی سے جہاں باقی کی طرف توجہ کی. آپ کا سال وفات “صاحب الارشاد” سے نکلتا ہے۔

فصوص الحکم کی بہت سی زبانوں میں تفسیر و تشریح کی گئی ہے۔ عربی میں حسب ذیل شروح فصوص الحکم موجود ہیں۔

شیخ موید الدین بن محمود الجندی.
شیخ صدر الدین القونوی.
داؤد بن محمود الرومی القیصری.
نور الدین عبدالرحمان جامی
عبدالغنی النابلسی۔
الکاشانی.

فارسی شروح کچھ یوں ہیں۔

 نعمت الله شاہ ولی
مولوی احمد حسین کان پوری

اردو ترجموں میں  عبدالغفوردوستی اور مولوی سید مبارک شامل ہیں۔

اس کتاب کا نفس موضوع تصوف ہے اور اس میں کئی پیچیدہ مسائل سے گفتگو کی گئی ہے۔ شرح کا کام عبدالقدیر صدیقی صاحب نے خوب کیا ہے اس لیے اس تعارف میں انکے اقتباسات جا بجا مستعمل ہیں۔ اپنی شرح کے بارے میں لکھتے ہیں کہ

دیگر شارحین فصوص الحکم میں شیخ قرآن شریف میں انبیاء کے قصوں. اور ان کے حالات میں جو کچھ آیا. ان سے یا تو بطور اعتبار کے مسائل توحید و تصوف کو استنباط کرتے ہیں مگر شیخ کے قول کی تاویل نہیں کرتے. نہ ان کے عقائد سے جو فتوحات مکیہ کے شروع میں بیان کئے گئے ہیں، توفیق و تطبیق دینے کی سعی کرتے ہیں دوسرے شارحین کے برخلاف’ فقیر شیخ کے قول کی تاویل کرتا ہے. اور ان کے عقائد کے ساتھ توفیق دیتا ہے.لوگوں کو شیخ کی طرز تحریر سے واقف نہ ہونے کی وجہ سے بڑی بڑی غلط فہمیاں ہو رہی ہیں. بعض ان کو قطب معرفت سمجھتے ہیں. اور قرآن شریف کی آیتوں کی تاویل کرتے ہیں. مگر شیخ کے اقوال کی تاویل نہیں کرتے اور بعض ان کے برعکس شیخ کی تکفیر میں بھی تقصیرنہیں کرتے.

افلاطون کا ذکر اابن عربی کی اکیلیز ہیل ہے، اس بابت میں  طریق ترجمہ و شرح میں رقم طراز ہیں کہ

 بعض نادان یورپ زدہ’ شیخ کے فلسفے یا حکمت کو افلاطون کا فلسفہ سمجھتے ہیں. مگر ان کی سمجھ میں نہیں آیا’ کہ تمام کتاب جندی بغدادی’ ابو یزید بسطامی. سہیل بن عبدالله تستری کے اقوال اور آیات قرآن مجید و احادیث شریف سے بھری پڑی ہے. اور اپنے کشف کا بھی جابجا ذکر کرتے ہیں.مگر اس میں افلاطون کا کہیں’ایک جگہ بھی ذکر نہیں ہے. اول تو یہ ثابت ہی کب ہوا ہے کہ فلسفہ افلاطون کی کتاب شیخ کو پہنچی بھی تھی.کسی دشمن مسلمانان نے لگا دیا کہ شیخ نے افلاطون سے لیا. اور مقلدوں کے لئےبس آیت اتر آئی. ظالم اڑاتے ہیں کہ امام ابو حنفیہ نے رومن لا سے لیا. یا تو راة انور شیرواں سے لیا. ان کو معلوم نہیں کہ عقائد و فقہ کے اصول ہیں کیا. یہاں قرآن و حدیث کی شرح و تفسیر تو ہو سکتی ہے ان سے احکام استنباط کا کئے جاتے ہیں. ان کے خلاف ایک مسلہ بھی چل نہیں سکتا. یہ کمال جہل و تقلید میں. کمال علم و تحقیق کا ادعا ہے ہم کو دشمنوں کے کہنے سے تکلیف نہیں ہوتی. دوستوں کے دشمنوں کا ساتھ دینے سے ایذا ہوتی ہے.

شیخ کے کلام میں بکثرت مشاکلہ ہے.مشاکلہ عربی زبان میں بھی ہے. اور دوسری زبانوں میں بھی.اشعار میں بھی ہے’اور نثر میں بھی. کلام الله میں بھی. اور دوسروں کے کلام میں بھی. مشاکلہ کیا ہے. ایک لفظ پہلے آتا ہےاور اپنے اصلی معنی میں رہتا ہے.. پھر وہی لفظ دوبارہ آتا ہے. اور اس سے دوسرے معنی؛ مراد لیے جاتے ہیں.مثلاً ایک شخص کہے.تمنے مجھے خباثت کی.اب میں بھی دیکھو کیسی خباثت کرتا ہوں یعنی خباثت کا انتقام لیتا ہوں عرب شاعر کہتا ہے..

” قالو اقترح شیاء نجدلک طبخة، قلت أطبخوالي حبثه و قميصا “

“لوگوں نے کہا کچھ کھانے کی فرمائش کرو. ہم اس کو اچھی طرح سے پکائیں گے.”

میں نے کہا ایک جبہ و قمیض پکاؤ. یعنی ایک جبہ و قمیض سی دو.

قرآن مجید میں ہے

“ومکرو او مکرالله والله خیرالماکرین”… انہوں نے مکر کیا اور الله نے اس کی سزا دی.الله مکاروں کو سزا دینے میں بہت سخت ہے.

ابن عربی کا اسلوب اور کتاب کا موضوع فلسفہ و تصوف کا ایک ایسا امتزاج ہے جس کے بارے میں زیادہ کہنے سننے کی گنجائش نہیں، وہ صرف پڑھنے سے ہی تعلق رکھتا ہے۔ ایک جدید تعلیم یافتہ فرد کے لیے اس میں معنویت کی ایک دنیا چھپی ہے۔ مصنف فصوص لکھتے ہیں۔

زمانه عدم اور زمانه وجود مثل معاً ہیں. جس طرح اشاعرہ کے پاس اعراض و صفات پر ہو رہا ہے. اور ہرآن’ ہر لحظہ تجدد امثال اعراض پر ہو رہا ہے. اسی طرح صرف ذات حق موجود مستقبل ہے. اس کے سواۓ جتنے موجودات ہیں. سب غیر مستقل ہیں. دائمی طور پر محتاج الی الحق ہیں ہر آن ہر لحظ متجدد ہیں.

تجدد امثال کا مسئلہ جو حصول تخت بلقیس میں چھیڑا گیا ہے. مشکل ترین مسائل سے ہے مگر اس قصے میں ابھی جو میں نے بیان کیا اس کے سمجھنے والے کے لیے کچھ  دشوار نہیں. آصف بن برخیا کی فضلیت و بزرگی یہی ہے کہ وہ ادو جود ‘ وہ تجدید تخت بلقیس’ وہ تجلی الٰہی جو تخت بلقیس پر ملک سبا میں ہو رہی تھی. اس کو سلیمان کے سامنے مجلس میں کھینچ لیا.اور تخت موجود ہو گیا. پس حقیقت میں تخت نے نہ قطع مسافت کی.نہ اس کے لیے زمین لپیٹ دی گئی اور نہ دیواروں کو تھوڑا پھوڑا. اس مسئلے کو وہی سمجھتا ہے’ جو تجدد امثال کو منتا ہے. جو تجلی الٰہی کو اپنی طرف متوجہ کر سکتا ہے.

یہ تصرف بعض اصحاب سلیمان علیہ السلام سے ظاہر ہوا تا کہ اس کا اثر بلقیس اور ان کے ہمراہیوں کے دلوں پر عظمت و مرتبت سلیمان علیہ السلام کے لیے پڑھے. اس تصرف کا سبب یہ ہے کہ سلیمان علیہ السلام’ داؤد علیہ السلام کو الله تعالیٰ کی طرف سے عطیہ وہیہ تھے. الله تعالیٰ فرماتے ہے. ” ووھبنا لداود سلیمان ” ہم نے داؤد کو سلیمان عطا کیا. ہبہ کیا ہے. واہب کا موہوب لہ بطور انعام دینا. نہ بطور جزاۓ عمل اور نہ بر بناۓ استحقام. پس سلیمان الله تعالیٰ کی نعمت سابقہ و حجت بالغہ اور اعداد کے لیے سر شکن ضرب ہیں.

اب سلیمان کے علم پر غور کرو.الله تعالیٰ فرماتا ہے ” ففھمنھا سلیمان ” ہم مستقراعندہ ” آیا ہے. یعنی تخت بلقیس’ سلیمان کے پاس حاضر و قرار پذیر تھا. آصف کا تخت کو حاضر کرنا نظر تحقیق میں ہمارے پاس اتحاد زمان کے ساتھ نہ تھا بلکہ وہاں اعدام و ایجاد’اور سبا سے معدوم کرنا اور بار سلیمانی میں موجود کرنا تھا. اس کو تجدد و امثال کہتے ہیں  ہر آن ہر شے قہر احدیت سے معدوم ہوتی ہے. اور پھر اسکو رحمت امتنانی موجود کرتی ہے. مگر عارفین کے سوا اس کو کوئی محسوس نہیں کرتا.دیکھو قرآن شریف میں ہے. ” بل ھم فی لبس من خلق جدید “

یعنی بلکہ انکو التباس اور دھوکا ہو گیا ہے. تازہ پیدائس و خلق جدید سے کہ وہی اگلی شے ہے. ان پر کوئی زمانہ ایسا نہیں گزرتا کہ جس شے کو دیکھ رہے ہوں ‘ نہ دیکھا ہو…

جب معلوم ہو گیا کہ ہر شے میں تجدد امثال ہے.اعدام و ایجادہے. نیستی کے ساتھ ہستی لگی ہوئی ہے. ایسا نہیں ہے کہ ایک شے موجود ہو کر حق فیوم کی طرف دائمی موحتاج نہ رہی ہو بلکہ ہر شے کو آن امداد وجود ہوتی ہے.اور قیوم جل جلالہ کی طرف دائمی احتیاج رہتی ہیں. بہر حال تخت بلقیس کو ملک سب میں نیست و نابود ہونا اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے حضور میں ہست موجود ہونا یہ  دونوں عمل ساتھ ساتھ تھے. اور یہ ہر دم میں ہر سانس میں تجدید حلق’ اور تازہ امداروجود کا نتیجہ ہے. اس کا علم ہر شخص کو نہیں ہوتا. بلکہ انسان خود کو نہیں سمجھتا،. کہ وہ ہر آن لا یکون اور پھر یکون ہوتا ہے. معدوم ہوتا ہے’ موجود ہوتا ہے.یہاں ثم اور پھر مہلت کے لیے نہ سمجھو بلکہ یہاں ثم اور پھر لفظ صرف تقدم  تقرم بالعیتہ کا مقتضی ہے جیسے کہتے ہیں کہ اول ہاتھ پڑتا ہے پھر کنجی پھرتی ہے.یہاں حرکت ید کو حرکت مفتاح پر تقدیم بالعیتہ ہے ایسا ہر گز نہیں کہ ہاتھ پڑنے کیے زمانے کے بعد کنجی پھرتی ہے. عربی زبان میں بعض خاص  خاص مقام میں “ثم بلا”  مہلت بھی مستعمل ہوتا ہے. وک شاعر کہتا ہے ” کھزالردینی ثم اضطرب ” جیسے نیزہ روینی کا ہلانا  پھر اس کا ھل جانا ظاہر ہے کہ نیزے کے ہلانے کا زمانہ اور اس کے ہلنے کا زمانہ یہ ساتھ ساتھ ہیں. اور یہاں ثم اور پھر مہلت کا مقتضیٰ بندے کا ظہور حق تعالیٰ پر موقف ہے اور بندے کے اعمال اس کی وجہ سے صادر ہوئے ہیں. حق تعالیٰ کا اسم الباطن والا ہے جب تم خلق کو دیکھو اس پر غور کرو. تو معلوم ہو جاۓ گا کہ کون کس اعتبار سے اول ہے.ظاہر ہے باطن ہے.

اسمائےالٰہی کی معرفت اور ان کی نسبت سے عالم میں تصرف نصیب ہوتا ہے. پس یہ معرفت حضرت سلیمان علیہ السلام کو بھی حاصل تھی بلکہ سلیمان علیہ السلام نے جو دعا کی تهی. “رب هبلی ملکا لا ینبغی لاحد من بعدی”  میرے پروردگار مجھے ایسی بادشاہی عطا کر کہ میرے بعد پھر کسی کو حاصل نہ ہو. وہ بادشاہی’ وہ ملک اصل میں یہی معرفت اسماۓ الٰہی ہے. کیا ایسی حکومت کسی کو سلیمان کے سوا ملی ہی نہیں. قطب وقت. وقت زمانہ. تو تمام عالم کا شہنشاہ. اور حاکم علی الاطلاق ہوتا ہے. بیشک قطب زمانہ حاکم علی الاطلاق ہوتا ہے. اسی میں تجلی اعظم رہتی ہے.  حضرت سلیمان علیہ السلام  کی مراد ملک سے ظاہر و عالم شہادت کی حکومت اور تصرف عام ہے. دیکھو محمّد صلی الله علیہ وسلم کو الله نے سب کچھ دے رکھا تھا. آپ کی باطنی حکومت اس سے زیادہ ہی تھی. مگر آپ نے عالم شہادت میں اس کو ظاہر نہیں کیا.

ابن عربی کی دیگر تصانیف مندرجہ زیل ہیں

عقلہ المستوفرہ.
عقیدہ مختصرہ.
عنقائے معرب.
قصیدہ البلادرات تقعینیہ..
القول النفیس..
کتاب تاج الرسائل..
کتاب الثمانیہ و الثلا ثین وھو کتاب الازل..
کتاب الجلالہ…’
کتاب مااتی بہ الوارد.
کتاب النقبا..
کتاب الیادہو کتاب الہود.
مجموعہ رسائل ابن العربی
مراتب الوجود.
مواقع النجوم.
فتوحات مکیہ       چار بڑی بڑی جلدوں میں.
نقش النصوص   اس کی شرح مولانا جامی نے کی ہے اور اس کا نام النصوص ہے
تفسیر صغیر       جو مطبوعہ مصر ہے’ عام طور سے ملتی ہے..
تفسیر کبیر         جو سنتے ہیں کہ فرانس کے کتب خانے میں قلمی ہے..

Share

April 13, 2012

محرمات اور انسانی قوانین- اسفل السافلین

Filed under: خبریں,مذہب,مشاہدات — ابو عزام @ 10:33 am

بی بی سی پر یہ عبرت انگیز خبر پڑھی، کہ نکاح محرمات کے بنیادی ‘انسانی حق آزادی’ کو یورپی عدالت نے تسلیم کرنے سے انکار کردی,، اگر یہی نفرین فعل چار سو میل دور بیلجیم یا فرانس میں ہوتا تو قابل مواخذہ نا ٹہرتا، کیا بات ہے انسانی قوانین آزادی کی۔

 لیکن قوانین جمہور و لبرلزم کے علمبردار یہ بتائن کہ اگر انسان کو قانون سازی کا مطلق حق حاصل ہے تو اس امر قبیح میں برائ ہی کیا ہے؟ جب لوگوں کو ہمجنس پرستی پرعائد پابندیاں زہر لگتی ہیں اور وہ اسے مملکت خداداد میں جاری و ساری دیکھنا چاہتے ہیں تو نکاح محرمات بھی تو صرف ایک معاشرتی ٹابو ہی ہے، اس کو بھی روند ڈالیے ۔ رہی بات پیدائشی موروثی نقائص کی تو پھر یوجینکس میں کیا برائ تھی، اس کو بھی جاری و ساری رکھا جاتا۔ تعدد ازواج کی مغربی پابندی بھی تو ایک معاشرتی قدغن ہی ہے، اسکا کیا جواز بنتا ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ لبرلیت و نام نہاد روشن خیالی کے علمبردار لوگ جو ‘رضامند عاقل و بالغ’ افراد کے افعال پر کسی قسم کی بیرونی قدغن نہیں پسند  کرتے انہیں کم از کم اصولی طور پر پر تو ان پیٹرک سٹیوبنگ اور سوزان کارولسکی کے حق میں آواز بلند کرنی چاہیے۔ یہ کیا دہری پالیسی ہے حیات من النزاعات کی کہ انسانی عقل کل ہے بھی اور نہیں بھی۔ موروثی نقائص کا مسئلہ ہے تو قطع القناة  یا نسبندی اور إستئصال الرحم کے بعد تو اس میں کوئ کجی نہیں رہ جاتی، العیاذ باللہ

غرضیکہ جو لوگ خدائ احکام کے بجاے انسانی قوانین کو بنیادی معاشرتی اقدار کے لیے هیئت حاکمیه کا درجہ دیتے ہیں وہ ایک ایسی ٹیڑھی شاہراہ پر سفر کرتے ہیں جس کا انجام گمراہی کا گڑھا ہے جہاں کسی فوٹون کی توانائ کچھ کام نا آئے گی۔

قال سمع النبي صلی الله عليه وسلم رجلا يعظ أخاه في الحيا فقال إن الحيا شعبة من الإيمان

Share

February 16, 2012

زمین ساکن ہے

Filed under: تحقیق,طنزومزاح,مذہب,مشاہدات — ابو عزام @ 5:30 am

جہلِ خرد نے دن يہ دکھائے

گھٹ گئے انساں، بڑھ گئے سائے

آداب و اصول مباحثت میں استدلال و منطق تو خیرجزو اعظم ٹھرا، لیکن کچھ خیال علم و ہنرکا بھی ہو تو نورعلی نور۔ اگلے روز سیارہ جات فلک کے طفیل اتصال کردہ   انٹرنیٹ پر زمین کے ساکن ہونے کا مژدہ پڑا، طبعیت باغ باغ ہوگئ ۔ فلیٹ ارتھ سوسایٹی کا ایک ممبر تو پی ایچ ڈی میں ہمارا ہم جماعت بھی ہے لیکن وہ کچھ ازراہ تفنن کا  سا معاملہ ہے۔یہاں تو بات ایمانیات و اعتقدانہ بزرگانہ پر ہے کہ سائینس ان کے گھر کی لونڈی اور علوم ریاضی و طبعیات میں انہیں وہ ملکہ حاصل ہے کہ گویا نیوٹن انہی کی  سقہ کشی کے تلمذ سےباعث رشک عالم ٹھرا۔ زمین اگر گھوم رہی ہے تو ہم اسے محسوس کیوں نہیں کرتے اور اگر گول ہے تو نیچے والے لوگ اس کے کنارے سے گر کیوں نہیں جاتے، اس قدر جاندار دلائل ہیں کہ تمام علم انسانی، فلاسفہ، منطق، طبعیات و ریاضیات مل کر بھی اسکا جواب نہیں دے سکتے۔

یادش بخیر کہ راقم جماعت نہم کا طالبعلم تھا کہ جب ماہر طبعیات و نیوکلیات ڈاکٹر التمش کمال سے تعلق فیض و تلمیذ ہوا۔ ان کے طفیل مصنوعی ذہانت کے ابواب سے لے کر مرکز گریز و مرکز مائل قوتوں کی وجہ سے مصنوعی سیارچوں کے مدار میں رہنے کے مختلف موضوعات پرسائنسی دلائل و مشاہدات سے ابتدائ واقفیت ہوئ ، خصوصا اس جیولئر کہ جس کی بدولت یہ اجرام اس  فلک میں تیر رہے ہیں خاصی دلچسپی کا باٰعث بنی۔ یہ ۱۹۹۲-۹۳ کی بات ہے جب ۲۴۰۰ باڈ کے موڈم ہوا کرتے تھے اور معلومات وکیپیڈیا کے بجائے برٹانیکا سے لی جاتی تھیں، اس دور میں ایم آی ٹی کے نیوکلیائ فزسسٹ سے جو تشکیک و سائنیسی طریقہ سیکھا وہ درس زیست ہے۔ بہرحال اسی دور میں زیر تبصرہ کتابچے کا بھی مطالعہ کیا تھا، پڑھا کہ حرکت یومیہ حرکت شمس سے ہے نہ کہ حرکت زمین سے اور یہ بھی ک ہرمسلمان پر فرض ہے کہ حرکت شمس و سکون زمین پر ایمان لائے۔ نہ نص میں اسکا کوئ حامی ملا کہ  کُلّ فِیْ فَلَکٍ یَّسْبَحُوْنَ نا علم حدیث میں، اصول درایت پر جو پورا اترا اسے قبول کیا اور باقی رد۔ لیکن آج یہ تذکرہ عبث دیکھ کر رہا نا گیا کہ ضرور قلم اٹھایا جاے اور بشارتوں کے شور میں کوئ تو کہے کہ برادرم، اکیسویں صدی میں اسطرح کی باتیں کرنا اپنا مضحکہ اڑوانا ہے، لیکن لگتا ہے کہ یہ کوشش عبث ہوگی کہ جو لوگ یہ باتیں کرتے ہیں انہیں اپنی یا مسلم امہ کے عزت و وقار کی کیا فکر، انہیں تو مطلب ہے فرقہ و گروہ بندی سے، علمی روایتوں کے تغیر و تذلل سے اور حدث و جاہلیت سے۔

ہمیں تو سیدھی سے بات ہے لبرلوں پر رحم آتا ہے کہ ان کے لیے پنڈولم دوسری طرف لے جانے کی نوبت شاید باشعور و تعلیم یافتہ مذہبی طبقے کی وجہ سے نا آئ ہوگی بلکہ اس کا مژدہ تو ضرور زمین کے سکون نے سنایا ہوگا۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ انسان میں خدا کی محبت بچانے کے لئے یہ تہمت اٹھانا ضروری ہو گیا توایسا لگتا ہے کہ شاید زمین کا سکون ہی ان تمام فکری جنجہلاہٹوں کا صریر خامہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان اغلاط پر ایمان ضروریات دین میں سے ہے؟ اور کیا ان کے غلط تسلیم کرنے سے فاضل مولوی کی شان میں کوئ فرق آے گا؟ کہ جب شارع صلی اللہ علیہ وسلم نے انتم اعلم باموررادنیا کم فرما دیا تو اب ہما شما کا تذکرہ ہی کیا۔ لیکن وہ بالک ہٹ  ہی کیا کہ امام کی اغلاط حصہ دین نا ہوجایئں اور یک جنبش قلم سے وہ ماہر طبعیات و کیمیا و فلیکیات و حسابیات نا ہوجاویں کہ علم لدنی کا شمار سے کیا تعلق۔ آج شب  کچھ گلیلیو و کوپرنیکس کا غلبہ ہے، غم تو یہ ہے کہ نص کے عدم رد کے باوجود نادان دوست کلیسا کی پیروی کرنے پر تلے ہیں۔

رات دن گردش میں ہیں سات آسماں

ہو رہے گا کچھ نا کچھ گھبرایں کیا

Share

February 10, 2012

مغالطے مبالغے۔ ایک اسم با مسمی کتاب

Filed under: پاکستان,کتابیات,مذہب — ابو عزام @ 10:01 pm

تہذیبی نرگسیت کے شہرت یافتہ مبارک حیدرکی یہ تصنیف حال ہی میں ختم کی ۔ تہذیبی نرگسیت پر راقم کا تبصرہ مندرجہ زیل لنکس پر دیکھا جاسکتا ہے۔ علمی و تنقیدی دیانت کے زمن میں اور مکمل انکشاف کی مد میں یہ کہتے چلیں کہ ہمارا صاحب کتاب سے نظریاتی اختلاف کچھ پوشیدہ نہیں لہذا ہماری مغرضانه تحریر کے عوامل کو نظر میں رکھا جاے۔۔

  1. تہذیبی نرگسیت -ایک تہذیبی مرعوب کی سرگذشت کا اصولی جواب –حصہ اول
  2. تہذیبی نرگسیت -ایک تہذیبی مرعوب کی سرگذشت کا اصولی جواب – حصہ دوم
  3. تہذیبی نرگسیت -ایک تہذیبی مرعوب کی سرگذشت کا اصولی جواب – حصہ سوم

اس کتاب کے تیرہ عدد ابواب میں بحث کا جواز، مبالغےاور مغالطے۔ اسلامی سلطنت کا مغالطہ، پارسائی کا مبالغہ، آزاد میڈیا کا مبالغہ، عدلیہ کے تقدس کا مبالغہ، علم کی ملکیت کا مبالغہ، نگران جماعت کا مبالغہ، قیام خلافت کا مبالغہ، اسلام دشمنی کا مبالغہ، مغربی تہذیب کا مغالطہ اور سیکولرازم کا مغالطہ شامل ہیں۔  تہذیبی نرگسیت کی طرح یہ کتاب بھی تحقیقی حوالہ جات سے عاری ہے جو ابواب و کتاب کے آخیر میں دیے جایا کرتے ہیں۔ جدید تہذیب جسے محترم نے ” احیائے علوم کی تحریک” کے نام سے جگہ جگہ یاد کیا ہے، میں اس زمن کی کتابوں میں اپینڈکس و فٹ نوٹ یا حاشیے کا اندازمستعمل ہے۔ ایسی کتاب جو  احیائے علوم کی تحریک کے گن گاتی ہو اگر خود بھی اسکا استعمال کرلے تو کیا ہی اچھا ہو۔

کتاب کا انداز بیاں تقریری ہے اور مغالطوں سے عبارت۔ اپنی پہلی کتاب کی کئی چیزیں دہرائی گئی ہیں جن میں منطقی مغالطے سرفہرست ہیں۔ تہذیب مغرب کی شان میں رطب اللسان ہیں لیکن اور اسے جدید انسانی تہذیب قرار  دیتے ہیں لیکن اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نا آنے کے مصداق اس غالب و دانا تہذیب کی لڑی گئی دو جنگوں پر صاحب کتاب کا قلم بنیادی طور پر معذرت خواہ اور خاموش ہے۔  لیکن جب جناب اسلامی تہذیب کے بخیے ادھیڑنے ہوں تو ہر طرح کی اینکڈوٹ ایک حقیقیت بنا کر سامنے لای جاتی ہے ۔ ہیروشیما و ناگاساکی کی تباہ کاریاں ہوں یا ایٹم بم و ہایڈروجن بم کی ایجاد یا نوآبادیاتی نظام ہو، ان سب کے لیے صاحب کتاب کے قلم سے جس قسم کی معذرتیں نکلتی ہیں ان پر بڑے بڑے اپالجسٹس بھی  رشک کرتے ہونگے۔ لکھتے ہیں۔

اگرچہ یورپ کی اقوام نے ان شاندار نظریات کے باوجود دنیا بھر میں نو آبادیات قائم کیں اور ان قوموں پر تسلط جمایا، پھر آج کی دو بڑی جنگیں بھی انہوں نے لڑیں لیکن فاشزم اور نوآبادیاتی نظام کے باوجود ان نظریات کی قوت ان معاشروں میں کم نہیں ہو سکی. بلکہ یہ نظریات دنیا بھر میں نوآبادیات کی آزادی کے لئے بنیاد بن گئے.

یعنی کہ تم قتل کرے ہو کہ کرامات کرے ہو۔ پھر مغربی تہذیب کی مادر پدر آزادی کے  دفاع میں مزید خامہ فرسا ہوتے ہیں کہ

 اس جدید تہذیب نے انسانوں کی آزادی اور حقوق کو جس انداز سے تسلیم کیا اور اس کے نتیجہ میں یہ فطری تھا کہ ان کے معاشروں میں بعض مبالغہ آمیز ذاتی آزادیاں بھی رائج ہوئیں.خاندان کی شکست و ریخت اور اولاد کی اپنے والدین کے ساتھ حقوق کی برابری کے تصور نے بعض  الجھنیں پیدا کیں لیکن یہ اس تہذیب کی بنیادی شناخت نہیں، نہ ہی اس تہذیب کے مفکروں کا اصرار ہے یہ فلسفہ ہے کہ اس تہذیب کے یہ پہلو اپناۓ جائیں. جو الجھنیں آزادی کے استعمال سے پیدا ہوئیں ان کے باوجود یہ معاشرے سلامت ہیں یا ان الجھنوں  کو دور ۔کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں.

کاش محترم نے کبھی یورپ و امریکہ کے جنسی جرایم کا رکارڈ دیکھا ہوتا، پھر ایک دور کی کوڑی لاتے ہوے کہتے ہیں

اصل بات یہ ہے کہ جاگیرداری دور کی وہ ظالمانہ فضیلتیں جو انسان پر انسان کے تسلط کی ضمانت دیتی ہیں اس نئے نظام کے آنے سے خطرے میں پر گئیں اور چونکہ مسلمانوں کی بادشاہتوں کا خاتمہ اس صنعتی معاشرے کے ہاتھوں ہوا تھا لہذا اقتدار سے محروم ہونے والے طبقوں کو اس کا بہت قمق تھا

یعنی اصولا تو یہ نظام بلکل درست لگتا ہے لیکن چونکہ مولانا حضرات کو اپنی سلطنت جانے کا غم تھا، اس وجہ سے وہ اسکے مخالف ہوگئے۔

مغالطے مبالغے کے مصنف کی سوانح کچھ ہوں ہے کہ مبارک حیدر صاحب نے نے 1963 میں گارڈن کالج راولپنڈی سے انگریزی ادبیات میں ماسٹرز کیا، وہیں پوسٹ گریجویٹ یونین کے صدر تھے جب ذوالفقارعلی بھٹو سے پہلی ملاقات ہوئی .64ء میں اسلامیہ کالج سے وابستہ ہوئے. کتاب کہتی ہے کہ شاعر اور انقلابی کی حیثیت سے ملک بھر میں پذیرائی ملی. پھر جب پاکستان پیپلز پارٹی معرض وجود میں آئی تو 68ء میں بھٹو نے انھیں لیبر ونگ کا سربراہ مقرر کیا. غالبا یہی وہ نمک ہے جس کو وہ آزاد میڈیا کے مغالطے نامی باب میں حلال کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کا قلم عدلیہ کے مغالطے نامی باب میں ایک محقق سے زیادہ ایک جیالے کا خامہ نظر آتا ہے جس کی حب الوطنی کا یہ عالم ہے کہ لکھتے ہیں

اگرچہ پاکستان عالمی منظر پر کسی مثبت یا پیداواری عمل کی وجہ سے کوئی حیثیت نہیں رکھتا.تا ہم تخریب اور نفی کے کئی میدان ایسے ہیں جن میں ہماری اہمیت دنیا میں نمبر ایک ہے۔

پھر نفرت از خود کا یہ عالم ہے کہ اپنے افکار بھی میگنا کارٹا کے سر باندھنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ رقم طراز ہیں

بنیادی مفہوم جو احیائے علوم کی تحریک نے سمجھا اور اپنایا، یہ تھا کہ تمام انسان برابر ہیں، تمام انسانوں کو برابر حقوق حاصل ہیں، ان حقوق میں انسانی آزادی، آزادی فکر، آزادی اظہار، آزادی مذہب اور آزادی تنظیم سب شامل ہیں. کسی گورے کو کالے پر، کسی مرد کو عورت پر، کسی ایک نسل کو دوسری نسل پر، کسی ایک مذہب کو کسی دوسرے مذہب پر فوقیت نہیں. رنگ نسل اور قومیتوں کے تعصبات مہمل اور باطل ہیں، بنی نوع انسان کی اس دنیا میں زندگی سب سے بڑی صداقت ہے، یہ زندگی مقدّس ہے اور اس کے تحفظ کے لئے ساری انسانیت کی متحدہ جدوجہد ضروری ہے.

پھر یاسیت کی انتہا سے خامہ رواں ہوتا ہے کہ

۔۔۔.لیکن سبھی جانتے ہیں کہ اس دہشت گردی اور انتشار کے پیچھے چاہے کوئی بھی ہو، چاہے پاکستان کے عسکری اندھوں کا کوئی گروہ مال ا اقتدار کے لئے اس ہتھیار کو استعمال کرے یا کوئی عربطاقت اپنی عالمی سودا بازی میں لگی ہوئی ہو، کوئی سابقہ عالمی طاقت اپنے گرد بننے والے گھیرے کو توڑنے کے لئے کام کر رہی ہے یا کوئی ابھرتی ہوئی طاقت موجودہ واحد سپر پاور کی جگہ لینے کا خواب دیکھ رہی ہو،لیکن ایسا کبھی نہیں ہو سکتا کہ افغانستان اور پاکستان کے بدنصیب عوام کی نوجوان نسلیں عالمی رہنما بن جائیں گی یا انہیں دنیا میں کسی بھی طرح سے کوئی فضلیت نصیب ہو سکے گی.جس علمی، معاشی، تنظیمی اور اخلاقی حالت میں ہم اس وقت ہیں یعنی نہ ہماری زراعت ہے نہ صنعت، نہ ادارے ہیں نہ افراد، نہ دنیا میں کہیں سے خوش آمدید کا کوئی پیغام، ایسی حالت میں ہم چاہے پتھر پھینک پھینک کر ساری دنیا کے باغ اجاڑ دیں، باغ ہمارے نہیں ہو سکتے، نہ یہاں کے باغ نہ اگلے جہان کے باغ. ہم شیر،لگڑ بھگے، چیتے جو بھی بن جائیں انسانوں کی کوئی بستی ہمیں اپنا بادشاہ نہ مانے گی. یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی ہماری میڈیا کا فیصلہ یھ رہا ہے کہ خود کشی کے اس عامل کی جو بھی مخالفت کرے، اسے مختلف بہانوں سے سخت نفرت کا نشانہ بنایا جاۓ۔

میڈیا پر مصنف کی نقادانہ نظر بہرحال حقیقت سے قریب تر ہے، اس زمن میں رقم طراز ہیں

آسان فضلیت و اقتدار کے طلبگار عناصر نے ہماری اس مریضانہ حالت سے بھر پور فائدہ اٹھایا ہے.چناچہ میڈیا کے وہ دکاندار جن کی نظر میں پیشہ ورانہ صلاحیت کے معنی بلیک میل کی ٹیکنیک اور مال بنانے کی صلاحیت سے آگے کچھ نہیں،ہمارے معاشرے کی نرگسبت سے لطف اندوز ہو رہے ہیں.چونکہ اس معاشرہ کے خوشحال اور کامیاب طبقوں کو کامیاب ہونے کے لئےعلم اور قدروں کی ضرورت ہی نہیں پڑتی ہے بلکہ در حقیقت وہ کامیاب ہی تب ہوئے جب انہوں نے علم اور اقدار سے نفرت کرنا سیکھا اس لئے خبر کی بجاۓ افواہ ان کی پسندیدہ خوراک بنی،کیونکہ خبر کا تعلق تحقیق اور سچائی سے ہے،یہ علم اور اقدار کی طاقت سے نکھرتی ہے،اسے ہضم کرنے کے لئے صحت مند معدہ درکار ہوتا ہے.کھٹیاور کراری مانگنےوالوں کی طلب بڑھنے سے مزید کھٹی اور مزید کرری بیچنے والوں کی دوکانیں چلتی ہیں معدہ کے مریض الله کو پیارے ہوتے رہتے ہیں،لیکن نسل کشی کی طاقت سے ملامال اس تہذیب میں کھانے والوں کی تعداد گھٹتی نہیں،خصوصاً جب سادہ اور صحت بخش خوراک کے لئے خوشحال لوگوں کا دل مائل ہی نہیں ہوتا.دوسری طرف بدخورانی اور زہر خورانی کے زخم بھرنے کے لئے عبادت اور ثواب سہارا بن جاتے ہیں. چناچہ کھٹی اور کراری افواہوں کی ہر دوکان کے ساتھ دینی فضلیت کی دوکانیں پھلتی پھولتی ہیں.ہمارے اخبارات اور چینلز پر کھٹے اور کرارے تبصروں،مکالموں اور خبروں کے ساتھ ساتھ دینی فخرو فضلیت سے بھرپور صفحات،ایڈیشن اور تقاریر اسے حسین امتزاج کی مثالیں ہیں۔

لیکن حقیقت پسندی، میڈیا میں اخلاقیات و استدلال  و دیانت و سچای کا درس دینے کے بعد ان کا قلم یوں رواں ہوتا ہے

موجودہ سول حکمت پہلی بدنصیب حکمت نہیں،جسے گالیوں،کرپشن کی افواہوں اور مقدموں کے نہ ختم ہونے والے سلسلوں کا سامنا ہوا ہے.ذوالفقار علی بھٹو کو شہید ہونے تک ہر تذلیل کا سامنا تھا، حتیٰ کہ پار ساۓ اعظم ضیاءالحق نے جیل میں بھٹو کی لیٹرین کے پردے ہٹوا دئیے.کہتے ہیں بھٹو نے اپنی عزت نفس کے تحفظ کے لئے کھانا پینا چھوڑ دیا.ایک رپورٹ کے مطابق تقریباً چھ فٹ قد کے بھٹو کا وزن پھانسی کے دیں ١٠٠ پاؤنڈ سے بھی کم تھا.ملک کے سارے اہل ایمان،سارے اہل قلم اور عدل کے نگران ضیاءالحق کے آگے سجدہ ریز تھے اور بھٹو کو گالیاں دینے میں ایک سے بڑھ کر ایک.پھر بینظیر اور نواز شریف کی باری آ آئی

 یہاں یقینا انہوں نے مصدقہ ذرایع سے ہی  بھٹو کے باتھ روم کی صورتحال کا پتا چلایا ہوگا اور اس کا بغیر حوالہ جات کے درج کرنا انکے نزدیک عین محققانہ دیانت ہے۔  اس کتاب کے دیگر مندرجات بھی اسی قسم کے بہت سے مغالطوں اور یک رخی پند و نصایح سے بھرے پڑے ہیں جن کی تفصیلات آپ کتاب پڑھ کر خود جان سکتے ہیں، میری بس اتنی گذارش ہے کہ آپ اس کے ساتھ اسلامی تہذیب اور اس کے اصول و مبادی اور تجدید و احیائے دین  کا بھی مطالعہ کرلیں تو بہتر ہے کہ یک طرفی معلومات سے قاری کا ذہن متنفر نا ہو۔ اخری بات اس حوالے سے یہ کرتا چلوں کہ  کہ جمہوریت کہ حوالے سے لادینی قوتوں کی جو کوششیں اسلام اور جمہوری نظام کو متناقض قرار دینے کے لیے کارفرما ہیں، ان میں صاحب کتاب سرفہرست ہیں، لکھتے ہیں

۔۔۔.مسلم معاشروں میں جمہوریت کا مقام اب تک ایک خارجی سا رہا ہے جس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ مسلم معاشروں میں فضلیت و احترام کا منصب اسلامی اتھارٹی کی بنیاد پر طے ہوتا رہا ہے.بادشاہ اور جاگیردار کو دینی علما کی تائید حاصل رہی ہے اور انسانی علم وعقل یا راۓ کو کبھی وہ سعادت حاصل نہیں ہوئی جو عقائد کو حاصل رہی ہے.اپنے عقائد کو آخری سچائی ماننے والے معاشرہ میں جب فاتح کا غرور بھی شامل ہو جاۓ اور صدیوں کی حکمرانی کی سند بھی،اور جب لوگوں کو یقین ہو کہ ان کی کامرانیوں کا سبب ان کے عقائد ہیں،اور ان عقائد کا علم طبقہ علما کے پاس ہے یا پھر اہل اقتدار کے پاس، تو اجتماعی انسانی راۓ یا استدلال کی ضرورت کہاں رہ جاتی ہے.مسلم معاشروں کی ہزار سالہ فتوحات اور کامرانی نے جو فخر پیدا کیا تھا،اسے پچھلے تین چار صدیوں کی پسپائی نے کم کرنے کی بجاۓمسخ کردیا ہے.اب فخر کبھی یاد ماضی بن کر،کبھی احساس مظلومیت بن کر ہمیں سیکھنے سوچنے سے روکتا ہے تو کبھی فخر کی یہ مسخ شدہ شکل تشدد اور تنہائی کی طرف دھکیلتی ہے.ہمارے یہ معاشرے جو اپنا کوئی بھی اجتماعی کام ڈھنگ سے نہیں کر پاتے، حتیٰ کہ خوراک تک کے لئے دنیا کے محتاج ہیں، وہ عالمی مملکت قائم کرنے کے لئے ہر دم تیار ملتے ہیں.

اس سلسلے میں ڈاکٹر فیاض عالم نے جسارت اخبار میں ایک اچھا و مدلل جواب لکھا ہے جسے یہاں نقل کرتے ہوے اس مضمون کا اختتام کرتا ہوں۔

 مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، ڈاکٹر حمیداللہ ؒ اور مولانا امین احسن اصلاحیؒ جیسے عظیم اسکالرز کی تحریروں کو پڑھ کر اسلام میں جس جمہوریت کی گنجائش اور اجازت نظر آتی ہے وہ مغربی سیکولر جمہوریت یقینا نہیں ہے اور نہ ہی ہوسکتی ہے۔ مغربی سیکولر جمہوریت میں کسی ریاست میں قانون سازی کے تمام حقوق عوام کو حاصل ہوتے ہیں کہ ان کے منتخب نمائندے جس طرح قانون چاہیں بنا لیں، مثلاً یہ کہ بعض مغربی ممالک نے مردوں سے مردوں کی اور عورتوں سے عورتوں کی شادی کو قانوناً جائز قرار دے دیا ہے۔ یا بغیر شادی کے پیدا ہونے والے بچوں کو قانونی حیثیت عطا کردی ہے۔ اسلام میں اس طرح کی قانون سازی کے حقوق عوام یا ان کے نمائندوں کو حاصل نہیں ہیں۔ یہاں ایک بنیادی اور بالادست قانون اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے عطا فرما دیا ہے جس کی اطاعت اسلامی ریاست کے ذمہ داروں اور عوام دونوں پر فرض ہے۔ اس لحاظ سے اسلامی حکومت جمہوری حکومت نہیں ہوتی بلکہ الٰہی حکومت ہوتی ہی‘ یعنی ایسی حکومت جس میں انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کے بجائے شرعی قوانین نافذ ہوتے ہیں۔ الٰہی حکومت کو انگریزی میں تھیوکریسی (Theocracy)کہتے ہیں۔ لیکن بقول مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ”یورپ جس طرح کی تھیوکریسی سے واقف ہے اس میں ایک مخصوص مذہبی طبقہ (Priest Class) خدا کے نام سے خود اپنے بنائے ہوئے قوانین نافذ کرتا ہی‘ جبکہ اسلام جس تھیوکریسی کو پیش کرتا ہے وہ کسی مخصوص مذہبی طبقے کے ہاتھ میں نہیں ہوتی بلکہ عام مسلمانوں کے ہاتھ میں ہوتی ہی‘ اور یہ عام مسلمان اسے خدا کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق چلاتے ہیں۔“ مولاناؒ نے اسلامی حکومت کو الٰہی جمہوری حکومت (Theo-Democratic Government)قرار دیا ہے۔ یعنی ایک ایسی جمہوریت جس میں خدا کے اقتدارِ اعلیٰ کے تحت مسلمانوں کو محدود عمومی حاکمیت عطا کی گئی ہے۔ گویا مسلمانوں کے نمائندے یا اراکینِ شوریٰ ایسے قوانین تو وضع کرسکتے ہیں جن کے متعلق اسلامی شریعت میں کوئی صریح حکم موجود نہ ہو، مثال کے طور پر آج کے دور میں اگر کسی ضلع، صوبے یا ملک کی حکومت کو انٹرنیٹ کے حوالے سے قانون سازی کرنی پڑے یا وہ سائبر کرائمز کو روکنے کے لیے قوانین وضع کریں تو اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ قرآن و سنت کے اصولوں کے مطابق اس حوالے سے قانون سازی کی جائے۔ لیکن عورتوں سے عورتوں کی شادی جیسے غیر شرعی، غیر اخلاقی و غیر انسانی قوانین کسی بھی اسلامی ریاست میں کسی بھی نوعیت کی جمہوری حکومت نہیں بنا سکتی۔ لہٰذا یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اسلام میں جس جمہوریت کی بات کی جاتی ہے وہ مغربی سیکولر جمہوریت نہیں ہے بلکہ قانون سازی کا محدود اختیار رکھنے والی الٰہی جمہوریت یا اسلامی جمہوریت ہے جس میں شرعی قوانین کو لازماً برتری حاصل ہوتی ہے۔ اسلام اور جمہوریت کے حوالے سے تفصیلی معلومات کے لیے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی تالیف ”اسلامی ریاست“ جسے پروفیسر خورشید احمد صاحب نے مرتب کیا ہے اور مولانا امین احسن اصلاحیؒ کی تصنیف ”جدید اسلامی ریاست میں قانون سازی کے مسائل“ کا مطالعہ مفید ثابت ہوسکتا ہے.

Share
« Newer PostsOlder Posts »

Powered by WordPress