فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

January 20, 2012

مذہب کے نام پر قتل و غارت گری

Filed under: مذہب,مشاہدات — ابو عزام @ 12:09 am

تمثیلی منطق ،خیالی ڈیٹا اور مذہبی تعصبات کی مستعارانہ فکر سےلبریز افراد اکثر یہ دعوی کرتے دکھائ دیتے ہیں کہ دنیا کی تاریخ میں  مذہب کے نام پر سب سے زیادہ قتل و غارت گری ہوئی ہے۔ اس بے بنیاد و بے اصل دعوے پر سر پیٹنے کو دل چاہتا ہے، اپنا نہیں بلکہ دعوی کرنے والے کا لیکن یہ سوچ کر ٹہر جاتے ہیں کہ کہیں یہ مذہب کے نام پر تشدد کے زمرے میں نا آجاے۔ حسرت کی طرح ادعا اتقا وفتح عقلی کے باوجود مذہب کے خلاف تعصب کی عینک اتار کر حقائق کو  مدنظر رکھا جائے اور تاریخ میں الحاد و سیکیولرانہ حکومتوں اور اقوام کے حالات ذندگی پڑھ لئے جائیں تو یہ غلط فہمی باآسانی دور ہو سکتی ہے۔

دوسری جنگ عظیم کے دوران جرمنوں کے ہاتھوں لاکھوں رومانوی جپسیوں، روسیوں اور یہودیوں کا قتل ہوتا ہے،بعد ازاں رد عمل میں یورپی ممالک سے بارہ ملین جرمنوں کا انقلا اور اس بالجبر ہجرت میں پانچ لاکھ افراد کی موت ہوتی ہے، اسٹالن کی کی زیر سرپرستی ایک کروڑ سے زائد افراد عظیم اشتراکیت کی مصنوعی غذائ قلت، قحط  اور قید و بند میں مارے جاتے ہیں۔ ماو کے سنہرے دور میں لاکھوں لوگوں کو عوامی عدالتوں میں برسر عام .انقلابی. سزائیں سنا کر دار و رسن سے نوازاجاتا ہیے، پوٹ پال کی حکومت میں کم و بیش بیس لاکھ کمبوڈین افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ تہذیب یافتہ یورپی اقوام جب اپنے تہذیبی ورثے کو شمالی  و جنوبی امریکہ برامد کرتے ہیں تو مختلف اندازوں کے مطابق بیس لاکھ سے ایک کروڑ کے لگ بھگ مقامی لوگوں کا صفایا ہوجاتا ہے کہ یہ تو دنیا کا  دستور ٹھرا۔ روانڈا کے قتل عام سے لے کر آشوتز کے گیسی کمروں کی نسل کشی تک اورہیروشیما و ناگاساکی و روس کے قفقاذی حملوں سے لے کر منگولوں و تاتاریوں کی وحشت تک، انسانی ظلم و ستم کی داستاں بہت طویل و غمگین ہے۔ رنگ و نسل کی برتری، قومیت پرستی، اور زیادہ طاقت کی خواہش نے ہمیشہ انسان کو انسان کا خون بہانے پر اکسایا لیکن تاریخ سےتھوڑی سی بھی آگاہی رکھنے والا شخص یہ جانتا ہے کہ ان میں سے کسی بھی مبارزت کو مذہب کے گلےباندھنا تحقیقی و علمی طور پر ناانصافی کی بات ہوگی۔ نام نہاد روشن خیال، سیکولر، تہذیب یافتہ و لبرل اقوام نے انسانیت پر جس طرح کے ظلم و ستم ڈھائے ہیں ان سے چشم پوشی کرنا تو شائد مذہب بیزاروں کی روائت ٹھری ہے۔ دو سو سال کی صلیبی جنگوں کے دس سے تیس لاکھ مقتولین پانچ سالہ جنگ عظیم کے چار سے ساڑھے سات کروڑ کشتگان کے برابر ٹھرتے ہیں، نا جانے ان کا ڈیٹا کس متوازی کائنات سے آتا ہے؟

حوالہ جات

The Great Big Book of Horrible Things: The Definitive Chronicle of History’s 100 Worst Atrocities

 List of Wars and Anthropogenic Disasters by Death Toll

Share

January 10, 2012

دیسی لبرل کا المیہ – ایک خط

Filed under: طنزومزاح,مذہب — ابو عزام @ 9:57 pm

برادرم ابوعزام
آداب و تسلیمات

امید ہے مزاج بخیر ہونگے۔ آج سوچا کہ کچھ حال دل لکھوں، کچھ فگار انگلیوں کی بات ہو اور کچھ خامہ خونچکاں کی۔ آج سہ پہر سے وہ کیفیت وارد ہےجس پر علامہ نے خوب فرمایا

!یقیں مثلِ خلیلؑ آتش نشینی
!یقیں اللہ مستی، خود گزینی
سُن اے تہذیبِ حاضر کے گرفتار
!غلامی سے بتر ہے بے یقینی

بس بھائی، تو مدعا و المیہ ہمارا یہی ٹھرا کہ تشکیک و ارتیاب کے بحران میں گرفتار، ہم گروہ اذھان ناپختہ کار ہیں۔ حق ہدایت نصیب کرے ورنہ تعقل پراگندہ اور افکار مغرب کی کاسہ لیسی سے عبارت۔ ایک بنیادی منطقی مغالطے کا شکار کہ جس کو لسانا دین کہتے ہیں اس کے قواعد و ضوابط، اس کے رب کی ربوبیت اور شارع کی حتمیت پر آمنا و صدقنا نہیں کہتے، اتنی اخلاقی جرات بھی نہیں پاتے کہ صاف علیہدہ ہوکر من الحیث الطالب وجود خداوندی کی دلیل طلب کریں اور رسول کی صداقت کو درایت کی کسوٹی پر پرکھنے کی سعی کریں۔ خدا لگتی کہیں تو چڑھتے سورج کی پرستش سے یہ عادت بھی واثق ہوئی کہ جیسے ستر کی دہائی میں اسٹالن کے اساطیر گنجہائے گرانمایہ معلوم ہوتے تھے، آج تعقل مستعار کے اس غلامانہ خلا کو مغربی الحادانہ افکار و زندقہ نے پر کیا ہے۔

علم حقیقی و معلومات میں باعث تفرق کیا ہے، اس کے ادراک سے بے بہرہ ہونے کے سبب ہمیشہ علوم دینیہ کو “دیر از این ایپ فار دیٹ” کے انداز فکر سے پرکھا، قران میں تلاش ممکن ہوئی تو جس مصحف کو برسوں نا چھوا تھا بیٹھے بٹھائےاس کے عالم بن گئے اور جب صحیین کی “ایپ” ملی تو شیخ الحدیث کا مرتبہ پایا۔ مغربی دانشکدوں کی افادیت سے تو مفر ممکن نہیں لیکن چونکہ کسی خردمند کا بالاستیعاب مطالعہ شامل نہ تھا لہذا تفکر کے منڈلاتے سائے، ضیا حرم نا پا کر آسیب ِالحاد میں تبدیل ہو چلے۔

تراکیب ترکی و تیزی سے ناآشنا ہم خود کو البیرونی و ابن الرشد و ابن عربی کے رشحات فکر کا تسلسل گردانتے ہیں لیکن تم سے حقیقت حال کیا چھپانا، ہماری محدود صلاحیت ہنر تو بس اینگلز و ڈاکنس کی سوچ کا پرتو ہے۔ ویسے بھی ماحول کچھ ایسا سازگار ہے کہ فی زمانہ “انٹیلیکچول” ہونے کے لئے منکر شریعت و شرافت ہونا ایک امر لازم ٹھرا۔ گویا کہ افکار میں بائیں جانب جھکاو اور افعال پر از معائب نا ہوں تو ذہنی استدراک کے مدارج کو انڈر گریجویٹ ہی گردانا جاتا ہے۔ اگر “آرگنائزڈ ریلیجن” کے ذکر پر لال رومال دیکھنے والے بیل کی طرح نا ڈکرائیں تو ٹوئٹر مفکرین آئی کیو سو سے نیچے ہونے کا گمان کرتے ہیں۔

بہرطور، یہ تو کچھ بیان حال دل تھا، کھول کر تمہارے سامنے رکھ دیا۔ لیکن میاں خیال رکھنا، ہم تو یہ کہے دیتے ہیں لیکن اگر تم سے زرا بھی کوئی پندونصائح وارد ہوئے تو چرب زبانی و بذلہ سنجی و لطیفہ گوئی کی آڑ میں تمہاری وہ ہنسی اڑائیں گے کہ تمہیں ہماری حکائت زباں کے پیچھےچھپنے کی زرا بھی جگہ بھی نا ملے گئ۔ اور اگر زیادہ مدلل ہوئے تو غیر عرفی سوچ و معترضانہ تفکر کے قتل کا ذمہ دار قرار دے کر وہ مجلس عزا گرم کریں کہ بھاگتے ہی بنے گی۔ زرا آزما کر تو دیکھو۔

دعاوں کا طلبگار
ایک دیسی لبرل

Share

January 5, 2012

حرم کا تحفہ

Filed under: ادبیات,شاعری,مذہب — ابو عزام @ 11:20 am

زندگی انساں کی اک دم کے سوا کچھ بھی نہیں

دم ہوا کی موج ہے، رم کے سوا کچھ بھی نہیں

گل تبسم کہہ رہا تھا زندگانی کو مگر

شمع بولی، گریۂ غم کے سوا کچھ بھی نہیں

راز ہستی راز ہے جب تک کوئی محرم نہ ہو

کھل گیا جس دم تو محرم کے سوا کچھ بھی نہیں

زائران کعبہ سے اقبال یہ پوچھے کوئی

کیا حرم کا تحفہ زمزم کے سوا کچھ بھی نہیں

 بانگ درا 

Share

August 28, 2011

اینکڈوٹل ایوڈنس، مغالطه منطقی اور سنیتا ولیمز

Filed under: خبریں,مذہب,مشاہدات — ابو عزام @ 6:54 am

حکایتی دلیل یا ‘اینکڈوٹل ایوڈنس’ خصوصی طور پر چنے گئے کسی ایسے واقعے کو کہا جاتا ہے جو کہ ایک نوع عمومی کے رجحان کی صفت کو صحیح طور پر بیان نہیں کرتا۔ اسے بسا اوقات کج بحثی میں دلیل کی مضبوطی کے ثبوت کے لئے خصوصی طور پر چنا جاتا ہے لیکن مزید تحقیق پر یہ منطقی مغالطے کی صورت میں سامنے آکر آپکا منہ چڑانے لگتا ہے۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ اینکڈوٹل ایوڈنس خود تو درست ہو سکتی ہے لیکن اسکا عمومی نوعیت پر کیا جانے والا استدلال درست نہیں ہوتا۔

منطق کی اصطلاح میں‌ ‘فیلیسی’ یا مغالطہ منطقی بھی اسی کے قریب قریب کی چیز ہے۔ مثلا اگر میں تمباکو نوشی کے دفاع میں‌ کہوں کہ میرے ایک عزیز زندگی بھر چمنی کی طرح سگریٹ پیتےرہے لیکن انکی موت 99 سال کی عمر میں‌ایک حادثہ میں ہوئی تو یہ اینکڈوٹل ایوڈنس ہوگی کیونکہ اس کا سیمپل سائز ، اس کی نوع ‘کلاس’ کا ممثل نہیں۔ اسی کو آوٹلائر بھی کہا جاتا ہے۔ فیلیسی تھوڑی سی مختلف ہے کہ جس میں استدلال کی زنجیر میں مغالطہ موجود ہوتا ہے مثلا چونکہ انسان ممالیہ ہے اور وہیل مچھلی بھی ممالیہ ہے لحاظہ انسان وہیل مچھلی ہے۔

آج صبح کی نماز میں ہمارے امام صاحب نے خلاباز سنیتا ولیمز کے مسلمان ہونے کے بارے میں بتایا اور کہا کہ چونکہ اس نے حرمین کو خلا سے دیکھا اور اس کی روشنی سے وہ اسقدر متاثر ہوئی کہ اس نے ایمان قبول کرلیا۔ یہ بات نا اینکڈوٹل ایوڈنس ہے اور نا ہی فیلیسی، یہ سراسر غلط اطلاع ہے۔ امام صاحب تو خاصے سلجھے ہوئے پڑھے لکھے آدمی ہیں تو ان کو تو یہ بات نہائت آسانی سے سمجھائی جا سکتی ہے لیکن پریشانی کی بات یہ ہے کہ میں نے ایسا پہلی مرتبہ نہیں دیکھا، ہمارے ذرائع ابلاغ سے لے کر عام لوگوں تک اس بات کو کوئی فلٹر موجود نہیں کہ کسی خبر کی تصدیق بھی کی جائے۔ انکی نیت خواہ کتنی ہی اچھی ہو، ان اینکڈوٹل ایوڈنسز، فیلیسیز اور کرامات کے بیان سے اسلام کا کچھ بھلا نہیں ہوتا، ہم صرف اپنی لاعلمی کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہوتے ہیں۔ ہم نا آحایث میں احتیاط کرتے ہیں اور نا ہی عام مکالموں میں، اسلام کی بڑائی اس بات میں‌ نہیں کہ ہم کتنی جھوٹی روایات اور کرامات کا تذکرہ کرتے ہیں یا کتنی  اینکڈوٹل ایوڈنسز کو منصوص من اللہ قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں۔فارورڈڈ ای میلز میں غیر تصیق شدہ فضولیات کا انبار لگا ہوتا ہے۔ دعوت کا کام کرنے والوں کو خصوصا ایسی چیزوں سے سے خبردار رہنا چاہئےکہ نادان دوست سے دانا دشمن بہتر ہوتا ہے۔

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( كفى بالمرء كذبا أن يحدث بكل ما سمع ) رواه مسلم في المقدمة 6 صحيح الجامع 4482
’آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات بیان کرے ۔‘‘(مسلم)

رچرڈ فائنمن وہ ماہر طبعیات تھے کہ جنہیں‌ میں البرٹ آئنسٹائین سے بڑا سائنسدان مانتا ہوں۔ ان کا استدلال بڑا خوبصورت ہوا کرتا تھا اور ان کی کتاب ‘یقینا آپ مذاق کر رہے ہیں جناب فاینمین’ ایک نہایت اچھی کتاب ہے۔ ایک مرتبہ انہوں نے کہا جس کا مطلب کچھ یوں ہے کہ ‘اگر سائنس آج کوئی چیز ثابت نہیں کرسکتی تو مجھے اس غیر یقینی کیفیت سے کوئی ڈر نہیں لگتا۔ کچھ لوگ خدا کو اس لئے استعمال کرتے ہیں کہ وہ غیر یقینی چیزوں کو سمجھا سکیں اور اسکا صورتحال کا تدارک کیا جاسکے، میں اس طرز فکر پر یقین نہیں کرتا، یہ غیر یقینی کیفیت مجھے پریشان نہیں کرتی’

یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔ اگر ہم خالصتا توحید اور رسالت کی طرف دعوت دے رہے ہیں تو یہ سچ فی النفسہ کائنات کی سب سے بڑی مجسم حقیقت ہے۔ اس کو واضع کرنے کے لئے کسی چمکیلی شے کو دکھانے، قران کو سائنسی کتاب بنانے، چاند پر اذان دلوانے اور سنیتا ولیمز کو زبردستی مشرف با اسلام کرانے  کی چنداں کوئی حاجت نہیں۔

واللہ اعلم بالصواب و بالتوفیق

Share

August 24, 2011

ایک مختصر مکالمہ

Filed under: مذہب — ابو عزام @ 8:00 pm

وہ: مملکت خداداد کے حالات اس قدر دگرگوں ہیں کہ کیا بتائیں۔ کرپشن، لوٹ مار، بےامنی، قتل و غارت گری، انسانی جان ارزاں ہے، آپ کچھ حل تجویز کریں۔

میں: حکومت الٰہیہ کا قیام۔ اللہ کو حاکمِ حقیقی مان کر پوری انفرادی و اجتماعی زندگی اس کی محکومیت میں بسر کرنے کا اجتماعی عزم۔  زندگی کانظام جوآج باطل پرستوں اور فساق و فجار کی رہنمائی اور قیادت و فرمانروائی میں چل رہاہے اور معاملات دنیا کے نظام کی زمام کار جو خدا کے باغیوں کے ہاتھ میں آگئی ہے، اسے بدلا جائے اور رہنمائی و امامت نظری و عملی دونوں حیثیتوں سے مومنین وصالحین کے ہاتھ میں ہو۔

وہ: ابے ہٹ، ملا کہیں کا!

Share

August 10, 2011

اندھا اعتقاد

Filed under: عمومیات,مذہب — ابو عزام @ 6:55 am

گذشتہ شب صلوۃ القیام سے قبل ہماری مسجد میں والڑ سانچیز نےشہادت حق ادا کی۔ برادر والٹر نے ایمان کی اس حلاوت کو محسوس کیا جس کو ایک دہریہ اور نیچری نوعی اختلال خلقی پر منظبق کرتا , ہاے کمبخت تو نے پی ہی نہیں.

تمام مسلمانوں کی طرح میرا اپنے رب کی ربوبیت اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر یقین شعوری ہے، میں نے اپنے رب کو اس کی نشانیوں سےحق الیقین کے درجے میں پہچانا۔

لیکن اس ایمان کو کوئی موجودہ سائینسی آلہ نہیں ناپ سکتا، ان نشانیوں کی کوئی مقداری پیمایش یا کوانٹیٹیٹو میشر نہیں، وجود خداوندی کو کسی تھیورم سے پروف نہیں کیا جا سکتا، غیب پر ایمان کی حقانیت کا ثبوت کسی لیب میں ری پروڈیوس نہیں ہو سکا لیکن اس سے میرے اور کروڑوں مسلمانوں کے ایمان و ایقان میں بال برابر فرق نہیں آتا۔

اندھا اعتقاد ایک ثقیل اور ناپسندیدہ سی اصطلاح ہے لیکن اس کا کیا کہیں کہ ارتقا اور آدم کی عدم مصالحت کے باوجود خدا واحد پر ہمارے اس یقین کاملہ پر کوئی چوٹ نہیں پڑتی- فتنہ خلق القران ہو کہ صفت کے قدیم ہونے کا مسئلہ، محکمات اور متشابہات کی بحث ہو، حیات بعد الموت ہو کہ قطار اندر قطار ملائکہ کی آمد، ،سبع سماوات کا ذکر ہو یا اسرٰی کا سفر، یہ یقین اسی طرح واثق ہے جیسے آنکھ نے دیکھا ہو اور کانوں نے سنا ہو۔

اس ایمان کو کسی منطقی استدلال کی ضرورت نہیں، کسی ساینسی ثبوت کی حاجت نہیں، اس کو کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا ڈر نہیں، مذہب کو افیون قرار دینے والے اور خدا کی موت کا اعلان کرنے والے انٹیلیکچوالز کا خوف نہیں،  یہ سمعنا و اطعانا پر قائم ہے، رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور آپ کے صادق و امین ہونے پر گواہ ہے، یہ ایمان توجیحات نہیں مانگتا، یہ یقین جانتا ہے کہ اگر الوہیت لیبارٹری میں ثابت ہو سکتی تو غیب کا پردہ نا رہتا، یہ ایمان حق کا گواہ ہے، یہ اندھا اعتقاد تمام بینائوں کی بنا ہے۔

لَآ اِلٰہَ اِلَّا وَحدَہُ لَا شَرِیکَ لَہُ المُلکُ وَلَہُ الحَمدُ وَ ھُوَ عَلٰی کُلِّ شَی ئِ قَدِیرُ

Share

February 15, 2011

نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم

Filed under: مذہب — ابو عزام @ 9:26 am
کسی غمگسار کی محنتوں کا یہ خوب میں نے صلہ دیا
کہ جو میرے غم میں گھلا کیا اسے میں نے دل سے بھلا دیا
جو جمال روئے حیات تھا، جو دلیل راہ نجات تھا
اسی راہبر کے نقوش پا کو مسافروں نے مٹا دیا
میں تیرے مزار کی جالیوں ہی کی مدحتوں میں مگن رہا
تیرے دشمنوں نے تیرے چمن میں خزاں کا جال بچھا دیا
تیرے حسن خلق کی اک رمق میری زندگی میں نہ مل سکی
میں اسی میں خوش ہوں کہ شہر کے دروبام کو تو سجا دیا
تیرے ثور و بدر کے باب کے میں ورق الٹ کے گزر گیا
مجھے صرف تیری حکایتوں کی روایتوں نے مزا دیا
کبھی اے عنایت کم نظر! تیرے دل میں یہ بھی کسک ہوئی
جو تبسم رخ زیست تھا اسے تیرے غم نے رلا دیا
Share

January 11, 2011

تعصبانہ القابات اور مکارم اخلاق

Filed under: مذہب,مشاہدات — ابو عزام @ 11:06 pm

چپکے سے کھانا کھاتے ہو یا بلاوں اس چپٹے کو؟

ہیوسٹن شہر کے اس حلال چاینیز ریسٹورانٹ میں جب یہ آواز میرے کان میں پڑی تو پہلے تو کچھ لمحوں کے لئے اپنی سماعت پر یقین نا آیا لیکن بعد میں صاحب گفتگو کو دیکھا تو ایک والد بزرگوار اپنے جگر گوشے کو کھانا نا کھانے پر ایک ایشیائی بیرے سے پٹوانے کی دھمکی دئے رہے تھے جو کہ اس پوری صورتحال سے بے خبر بفے میں رکابیاں درست کر رہا تھا۔

کلا، ہبلا، چنا، چینا، مکسا، چپٹا وغیرہ ان تعصبانہ اور غیر اخلاقی الفاظ میں سے کچھ ہیں جو کہ بیرون ملک پاکستانی حضرات بلا سوچے سمجھے مختلف قومیتوں کے افراد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ ان تضحیک آمیز نسلی القابات ‘ریشیل سلرز’ کا استعمال مغربی معاشروں میں تو برا سمجھا ہی جاتا ہے لیکن یہ ہمارے اپنے مذہبی و معاشرتی اقدار کے بھی یکسر خلاف ہے۔ جیسا کہ سورۃ الحجرات میں فرمایا گیا

لوگو، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنادیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ در حقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیز گار ہے (28)

اور مزید فرمایا کۓ

آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو(21) اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد کرو(22)۔

خطبہ حجتہ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

کسی عرب کو عجمی پر کوئی فوقیت حاصل ہے نہ کسی عجمی کو کسی عربی پر۔ نہ کالا گورے سے افضل ہے نہ گورا کالے پر۔ ہاں بزرگی اور فضیلت کا کوئی میعار ہے تو وہ تقوی ہے۔ انسان سارے ہی آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں اور آدم علیہ السلام کی حقیقت اسکے سوا کیا ہے کہ وہ مٹی کے بناۓ گۓ۔ اب فضیلت اور برتری کے سارے دعوے خون و مال کے سارے مطالبےاور سارے انتقام میرے پاؤں تلے روندے جا چکے ہیں

اس کے جواب میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ تضحیک آمیز الفاظ تھوڑا ہی ہیں، یہ تو ایک گروہ کی علامت کے طور پر کہاجا رہا ہے۔ تو پھر ان سے پوچھا جائے کہ جب انگلستان میں آپکو ‘پاکی ‘ کہ کر بلایا جاتا ہےتو آپکا خون کیوں کھولنے لگتا ہے؟ ہم سب جانتے ہیں کہ نسلی تضحیک کےکیا معنی ہوتے ہیں۔ اگر آپ یہ الفاظ اس نسل کے فرد کے سامنے کہیں گے تو اسے برا لگے گا اور یہی نسل پرستانہ رویہ ہے جس سے منع کیا گیا ہے۔ حالانکہ نیگرو کے معنی سیاہ فام ہی کے ہوتے ہیں مگر اس کا مترادف استعمال لفظ ‘نگر’ جسے این ورڈ کے نام سے جانا جاتا ہے، ایک نہایت معیوب گالی سمجھی جاتی ہے اور اسی وجہ سے لفظ نیگرو کا استعمال بھی تقریبا متروک ہو چلا ہے۔ اس لمبی تمہید سے میرا مقصد اس اخلاقی تنزل کی طرف توجہ دلانا ہے جس میں ہماری قوم مبتلا ہے لہذا اگلی دفعہ اگر آپ کسی کو اسکی رنگ و نسل اور قومیت کی نسبت سے حوالہ دینے کے لئے منہ کھولنے لگیں تو یہ ضرور سوچئے گا کہ اگر وہ آپکی بات سمجھ سکے تو اسکے دل پر کیا گذرئے گی اور سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں کیا فرمایا ہے۔

وَمَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلاغُ الْمُبِينُ

Share

December 19, 2010

لبرلزم کا الگارتھم

Filed under: مذہب,مشاہدات — ابو عزام @ 8:50 am
کل سویرے بٹ صاحب تشریف لے آئے ۔تکلفات و اداب و تسلیمات کے بعد گویا ہوئے کہ میاں، ہمیں اس بات پر سخت اعتراض ہے کہ ثنائی تلاش ‘باینری سرچ’ کے طریق عمل / خوارزمية  ‘الگارتھم’ کی اوسط پیچیدگی لاگ این کیوں ہے؟ ہم اس کے قطعی قائل نہیں۔ ہم نے ڈرتے ڈرتے پوچھا کہ حضور، صبح صبح اس واردات قلب کا کوئی سبب تو کہنے لگے کہ کہ ہمارے تمام پراگرامات اور اعداد و شمار اس سے پیشتر ہی حل ہو جاتے ہیں، لاگ این کی نوبت ہی نہیں آتی۔
آپ اسے کمپیوٹر سائنس کا ایک لطیفہ کہہ لیں لیکن پھر ہماری بحث کرنے کی ہمت نہ پڑی۔ وجہ یہ تھی کہ ایک کنہہ مشق پراگرامر ہونے کے باوجود بٹ صاحب اصول کمپیوٹر سائنس یا تھوری سے کچھ خاص شغف نا رکھتے تھے اور نا ہی علوم الحاسبہ میں انہیں کوئی خاص دخل تھا۔ اب یہی سوال اگر مرزا ہم سے کرتے تو انکے اہل فن ہونے پر ہم اس مسئلہ اثباتی پر نا صرف سنجیدگی سے غور کرتے بلکہ استدلال بھی طلب کرتے کہ ایک اوسط پیچیدگی کو بہترین کیس سے محض کچھ خصوصی ڈیٹا سیٹ کی بنیاد پر تشبیہ دینے کی مبتدیانہ غلطی ان سے ہرگز متوقع نا ہوتی۔
اب اس طویل تمثیل کے بعد امید ہے کہ یہ بات واضع ہو چکی ہوگی کہ اس تحریر سے  راقم کا منشا علوم دینیہ میں غیر اہل فن کی تشنیع کا رد ہے۔ جیسا کہ پچھلے دنوں محترمی باذوق (اللہ انہیں جزاے خیر دے) کے بلاگ پر دیکھنے میں‌آیا کہ ہمارے نام نہاد لبرل افراد دیگر کسی بھی دنیاوی تکنیکی معاملے میں‌بلا سوچے سمجھے اور بلاتحقیق کے زبان کھولتے تو ڈرتے ہیں‌ لیکن جب دین کی بات آئے تو ہر فرد فقیہ و مجتہد نظر آتا ہے۔ اگر بٹ صاحب علم طبیعیات یا کیمیا کے ماہر ہیں تو ہم نے کبھی یہ دعوی نا کیا کہ ہمیں نظریہ اضافیت کے کلیہ میں مربع پر اعتراض ہے، اسے مکعب ہونا چاہیے تھا۔ یہ لوگ ضعف کا وردان کرتے ہوئے آحادیث پر اعتراضات جڑتے نظر آتے ہیں صرف اس وجہ سے کہ یا تو وہ قول رسول صلی اللہ علیہ وسلم انکے مزاج نازک پر بارگراں ہے یا پھر زمانے کا وہ چلن نہیں‌۔ ہم جان کی امان پائیں تو ان سے پوچھیں کہ حضور کیا آپ اہل فن ہیں؟ کہ اگر امام احمد یا  شیخ البانی اصول روایت و درایت پر  یہ اعتراض کریں اور صحیح ابوداود تصنیف کریں تو کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے کہ دین کسی کہ تحقیق کا حق سلب نہیں کرتا شرط صرف اہل فن ہونا ٹہرا۔ اگر آپ کسی محدث کو درء الشبهات حول حديث بول الإبل میں نہیں مبتلا دیکھتے کہ وہ بخاری و مسلم کی اس متفق علیہ روایت پر شبہ کر رہا ہوتو طالبعلم ہونے کا تقاضہ ہے کہ بول الإبل بين الإسلام والعلم الحديث کو پڑھا اور سمجھا جائے نا کہ اپنی مرضی سے قول رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو موجودہ سماجی و تہذیبی اقدار کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی جائے ۔ ہم تو آج کے لبرل حضرات کے اس آیت مبارکہ پر اعتراضات کا انتظار کر رہے ہیں کہ یہ عورت کی برابری اور اس کہ فہم و فراست کو کچھ اس طرح بیان کرتی ہے کہ موجودہ حقوق نسواں کے علمبرداروں کے حلق سے تو ہرگز نا اتر پائے۔

أَوَمَن يُنَشَّأُ فِي الْحِلْيَةِ وَهُوَ فِي الْخِصَامِ غَيْرُ مُبِينٍ -سورة الزخرف 18
کیا (اللہ کے حصے میں وہ اولاد ہے) جو پالی جاتی ہے زیوروں میں اور وہ بحث و حجت میں اپنا مدعا بھی واضح نہیں کرسکتی؟
اور ایک اور ترجمہ یہ ہے کہ
کیا جو کہ آرائش میں نشونما پائے اور مباحثہ میں قوت بیانیہ  نہ رکھے۔
تاویلات تو ہر چیز کی کی جاسکتی ہیں لیکن اگر ایک طالبعلم اور متلاشی حق بن کر سوچا جائے تو کیا یہ بات اظہر من الشمس نہیں کہ کسی نص کو محض اس بنا پر پر رد کرنا کہ دنیا کیا کہے گی محرومی کی بات ہے؟
لبرلوں کا کوئی بھی الگارتھم ہو، غلامان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تو بس یہی یہی ایمان ہے کہ عقل قرباں کن بہ پیش مصطفی۔
Share

November 1, 2010

وجود خداوندی، سائنس اور اسٹیفن ہاکنگ

Filed under: تحقیق,مذہب — ابو عزام @ 12:00 pm
قران سائنس کی کتاب نہیں، اسی طرح جس طرح قران فلسفے، منطق یا تاریخ کی کتاب نہیں حالانکہ اس سر چشمہ ہدایت میں بہت سے مختلف النواع مضامین کا بیا ن ہے ۔ یہ الہامی احکامات  کا وہ سرچشمہ ہے جس سے ہدایت حاصل کرنے کے لئے ایک بنیادی شرط لگائی گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ
هُدىً لِلْمُتَّقِينَ –  الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ
ہدایت ہے ان پرہیزگار لوگوں کے لئے جو غیب پر ایمان لاتے ہیں۔۔البقرہ
ان غیوب میں سب سے بڑا غیب اللہ سبحان تعالی کی ذات باری ہے۔ اگر اللہ تعالی چاہتا، جیسا کہ قران میں‌بھی ذکر ہوتا ہے، تو سارے انسان ایک طرح کے ہو سکتے تھے، اتباع اور وہ بھی بغیر دیکھے آمنا و صدقنا کہنا ہی تو اصل دار المتحان ہے۔ اگر آسمان پر کلمہ طیبہ لکھا آجائے تو کٹا  کافر بھی شائد مسلمان ہونے میں کچھ تامل نا کرے لیکن یہ منشا خداوندی نہیں کہ لوگوں پر غیب کو مطلع کر دیا جائے کہ پھر تو معرکہ حق و باطل و آزمایش میں غیب کا پرتو نا رہا اور ایمان بالغیب کی شرط پوری نا ہو پائی۔
دور حاضر کے عصری علوم خصوصا سائنس ایک تجزیاتی و تجرباتی علم ہے جہاں ہر چیز کو تجربے کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے۔ اگر کوئی چیز موجودہ تجرباتی آلات سے نہیں ناپی جا سکے تو علم ریاضی کا سہارا لیا جاتا ہے کہ اس کی مدد سے سیمیولیشن ‘نقلیت’ کے ذریعے ایسی چیزوں کا پتا چلایا جا سکتا ہے جو انسانی تجربے یا سطحی تخیل سے بظاہر ماورا ہوں مثلا کوانٹم طبعیات کی تین سے ذائد ڈایمنشنز  یا کوارک کے باہمی قوانین یا ایم تھیوری وغیرہ۔ لیکن صرف اس وجہ سے کہ سائنس آج اس بات کو نہیں جان سکی اس بات کی کوئی دلیل نہیں کہ مستقبل کے انسانی علوم کے اضافے اس فرق کو مٹا نا دیں گے اور انسانی علوم مزید ترقی نا کرتے رہیں گے۔ لیکن ایک بات نہایت صاف ہے کہ سائنس جو کہ ایک تغیراتی اور تجرباتی علم ہے، کبھی خدا کے وجود کو تجربے کی بنیاد پر ثابت نہیں کر سکتا کیونکہ وجود خداوندی کا تعلق غیب سے ہے جو انسان پر مطلع صرف اس وقت ہوگا جب کہ مشیت الہیہ ہو اور یوم الدین کا ظہور ہو۔
گزشتہ دنوں اس بات پر بڑی ہا ہا کا ر مچی کہ اسٹیون ہاکنگ نے خدا کے وجود کا انکار کردیا۔ میرا ناقص علم تو یہ کہتا  ہے  اگر کوئی سائنسدان خدا کے وجود کااقرار کرے یا اسے تجرباتی طور پر ساینسی بنیادوں پر ثابت کرنے کی بات کرے تو اس کے اس دعوے کو شبہ کی نظر سے دیکھنا زیادہ حق بجانب ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر خدا کا وجود کسی عقلی و تجرباتی پیٹری ڈش کے ذریعے ثابت کیا جا سکے تو غیب کا پردہ اور الحاد کا چیلنج ہی نا رہے۔
ایسا نہیں کہ سائنسدانوں کے خدا کے وجود کو ڈھونڈنے کی سعی نہ کہ ہو۔ گرینڈ ڈیزاین میں ہاکنگ خود لکھتا ہے کہ نیوٹن اور اس سے پہلے کئی علم طبعیات کے اکابرین خدا کے وجود بلکہ معجزات  کے قائل رہے ہیں۔ آینسٹاین کا کوانٹم طبعیات پرقول مشہور ہے کہ ‘خدا پانسے نہیں کھیلتا’ کیونکہ وہ کوانٹم میکانیات کے احتمالی قوانین سے مطمئن نا تھا – سائنسدان تھامس بائس جس کا بایس تھیورم آپ روزانہ اپنی ای میل میں جنک فلٹریشن کے لئے استعمال کرتے ہیں درحقیقت پادری تھامس بائس کی خدا کے وجود اور اس کی منشا کو ثابت کرنے کی ایک کاوش  تھی۔دوسری طرف سائنسدانوں کا ایک بہت بڑا طبقہ ہے کو کسی ماورا طبعی شے کے وجود کو ماننے میں حد درجے کا نالاں ہے۔ اسی کے رد میں مشہور زمانہ ایم آی ٹی کے فزکس پی ایچ ڈی فرینک ٹپلر نے اپنی کتاب ‘فزکس آف ایمورٹیلیٹی‘ لکھی جو کہ آج کل راقم کے زیر مطالعہ ہے۔
اس کتاب میں  فرینک ٹپلر نے اومیگا پاینٹ تھیوری کے نظریے کے مطابق حیات بعد الموت کے نظریے کی سائنسی بنیادوں پر توجیح و تشریح کی ہے نیز بعد میں اسے کوانٹم طبعیات سے بھی نتھی کیا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس کتاب پر ساینسدانوں کی طرف سے جا بجا اعتراضات اٹھائے گئے ہیں لیکن  فرینک ٹپلر ایک قد آور ساینسدان ہے، کوئی ہاتھ دیکھنے والا پروفیسر نہیں۔ اس کے باوجود بھی کہ اگر بہت سے ساینسدان اپنے اطراف میں جگہ جگہ خدا کی موجودگی کے اثرات دیکھتے ہیں اور غور و فکر کرنے والوں کی حیثیت میں‌متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے، سائنس کا بحیثیت تجرباتی علم، خدا کی موجودگی کی دلیل بنانا، غیب کے برخلاف ہوگا اور بر بنائے تعریف ناممکن۔
میں نے اسٹیفن ہاکنگ کی کتاب گرینڈ ڈیزاین کا مطالعہ کرنے سے پہلے یہ تحریر لکھنا مناسب نا سمجھی تھی  لیکن اب میں قارئین کو اس بات کی دعوت دوں گا کہ گرینڈ ڈیزاین خصوصا ساتویں باب، ‘اپیرینٹ مریکل’ یا واضح معجزہ کا مطالعہ کریں اور خود دیکھیں کہ رب العالمین نے کس نازک طریقے سے ‘کانسٹینٹس’ کو طے فرمایا ہے کہ اس میں سے زرا سی کمی بیشی انسانی زندگی اور نسل انسانی کے ہونے یا نا ہونے پر منتج ہو سکتی تھی۔
ان تمام باتوں کو لکھنے کے بعد بھی ہاکنگ علم احتمال و کوانٹم طبعیات کی رو سے بضد ہے کہ یہ سب بغیر خدا کے عین ممکن ہے۔ کہ خدا ، وقت اور چیزوں کا وجودکسی ابتدا اور انتہا کا محتاج نہیں اور یہ کہ ابتدا اور انتہا خود ایسے نظریات ہیں جو بگ بینگ کے بعد ‘ایکسپینشن’ کی وجہ سے پیدا ہوئے تو وہ سائنسی بنیادوں پر برحق ہے کہ ایمان و ایقان کا تعلق تجزیے و تجربے پر نہیں بلکہ وہ تو خدا کے عطا کردہ فہم و شعور کو استعمال میں‌لا کر  ایمان بالغیب کی جست کا نام ہے۔
راقم کی ناقص  رائے میں سائنسی تغیر پزیر تجزیات پر غیر تغیراتی الہامی کلام کو پرکھنا اور قران سے ان چیزوں کی توجیحات نکالنا کسی طرح موزوں نہیں۔نیز ساینسی علوم پر خدا کے ہونے یا نا ہونے کے علم کا دارومدار رکھنا گمراہی کا سبب ہے کہ
ذہن میں جو گھِر گیا لا انتہا کیوں کر ہوا
جو سمجھ میں آگیا پھر وہ خُدا کیوں کر ہوا

Share
« Newer PostsOlder Posts »

Powered by WordPress