فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

October 31, 2010

سفر حج کی تصویری روداد

Filed under: مذہب — ابو عزام @ 9:23 pm

پچھلے سال اللہ تعالی نے حج کی سعادت نصیب فرمائی تو روز و شب کا ایک تصویری البم بنانے کا سوچا۔

سفر حج کی تصویری روداد

وجہ یہ تھی کہ جب میں روانہ ہو رہا تھا تو  چشم تصور کے سوا مجھے اس بات کا کوئی خاص اندازہ نا تھا کہ شیطان کو کنکریاں مارنے کی جگہ کیسی ہوگی یا منٰی کے خیموں میں رہایش کی کیا صورتحال ہوتی ہے۔ اس تصویری سرگزشت میں روز مرہ کی تصاویر موجود ہیں اور کچھ کارآمد نکات بھی۔ اگر فائدہ مند ہوں تو عاصی کو دعاوں میں‌یاد رکھئے گا۔ اللہ سبحان تعالی ہم سب کو سفر حج کی توفیق و سعادت نصیب فرمائے، آمین۔

Share

August 13, 2010

١٤ اگست ٢٠١٠

Filed under: پاکستان,مذہب,مشاہدات — ابو عزام @ 11:22 pm

ان تازہ خدائوں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کاکفن ہے

یہ بت کہ تراشیدہ تہذیب نوی ہے
غارت گر کاشانہ دین نبوی ہے

بازو تر اتوحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی ہے

خالی ہے صداقت سے سےاست تو اسی سے
کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے

اقوام میں مخلوقِ خدا بٹتی ہے اس سے
قومیت اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے

اقبال-

Share

سیون ہیبٹس آف ہایلی افیکٹیو روزہ دار

Filed under: عمومیات,مذہب — ابو عزام @ 12:01 am
جیسا کہ آپ عنوان سے سمجھ گئے ہونگے، یہ اسٹیون کوئی کی مشہور زمانہ کتاب کی طرز پر ایک مختصر پوسٹ ہے۔ فضائل رمضان پر ساتھی بلاگران کی بہترین تحاریر سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ اس مضمون کا مقصد ماہ رمضان کے حوالے سے کچھ عملی پرسنل آرگنائزیشنل اسکلز یا ذاتی نظم و ضبط کی صلاحیتوں کی عادات پر روشنی ڈالنا ہے۔
نظم و ضبط۔ ایک موثر عمل کی بنیادی خصوصیت  ذاتی نظم و ضبط یا سیلف ڈسپلن  ہوتی ہے۔ رمضان میں اپنے مقاصد کا تعین کریں‌اور انکے حصول کے لئے اسی طرح محنت کریں‌جس طرح کہ اس کا حق ہے۔ مثلا  قران کریم ترجمے کے ساتھ کم از کم ایک بار ختم کرنے کا گول، تمام نمازیں باجماعت پڑہنے کا التزام خصوصا فجر اور عشا تکبیر اولی سے، تہجد کی ادائگی، ختم بخاری شریف، دیگر سیرت و فقہ کی کتب کا مطالعہ وغیرہ۔ان تمام کاموں کو الل ٹپ کرنے کے بجاےخصوصی ‘گولز’ سیٹ کرلیں اور اس کو کسی ورک شیٹ میں لکھ لیں۔ روزانہ رات کو تراویح کے بعد باقاعدگی سے اپنا محاسبہ کریں‌کہ کن مقاصد کے حصول میں‌کس قدر کامیابی ہوئی اور کس چیز پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
عبادات میں‌باقاعدگی – جس طرح سال کے دیگر گیارہ مہینوں میں‌نماز فرض ہے اسی طرح رمضان میں بھی؛ نماز بھی روزے کی طرح فرض عبادت ہے ۔ فجر کی نماز بھی اسی طرح فرض ہے جس طرح سے روزہ لہذا اپنی عبادات کا خاص خیال رکھیں۔ نوافل کے لئے رات بھر جاگنا اور فجر کے وقت سوتے رہنا درست نہیں، اپنی عبادات کی ترجیحات دین کے احکامات کے مطابق متعین کرنا کلید کامیابی ہے۔
لغویات سے پرہیز – انٹرنیٹ، فلمیں، ٹی وی، بلا ضرورت سونا، فیس بک، وڈیو گیمز، راتوں کو جاگنا، چیٹنگ وغیرہ سے حتی الامکان پرہیز کریں۔اوراستعمال کو ضرورت کی حد تک محدود رکھیں۔ آپ خود اپنی لغویات کا بہتر تعین کر سکتے ہیں۔ اس وقت کو مطالعے، عبادات اور علما کی صحبت میں‌گزاریں۔ فارغ وقت میں گھر والوں کی مدد کریں اور کام بانٹ لیں تاکہ گھر کے کسی ایک فرد کو روزے میں مشقت کا سامنا نا ہو۔
کثرت مطالعہ – اپنے فارغ وقت کو مطالعے میں بسر کریں۔ قران شریف بمعہ ترجمہ و تفسیر، سیرت کی کتب، آحادیث، آڈیو کتب وغیرہ۔ عادت بنا لیں کہ جب تراویح پڑھنے کھڑے ہوں  تو آپ کو قران کا جو حصہ پڑھا جا رہا ہو اس کا ترجمہ اور سیاق و سباق معلوم ہو تاکہ تلاوت سنتے ہوئے معنی کا علم رہے۔
غذا و کسرت – کم اور سادہ۔ یہ آپکو چاق و چوبند رہنے میں مدد دیگی ،نیز  تراویح میں کوئی آپکی ڈکاریں نہیں سنے گا۔ تراویح کے بعد وقفے وقفے سے پانی پیتے رہیں تاکہ ‘ہایڈریٹڈ’ رہیں۔  سحری کرنے میں برکت ہے اور اس سے روزے میں قوت برقرار رہتی ہے لیکن نماز فجر فرض ہے۔ سحری میں‌ایک گلاس پانی پی کر سونا اور فجر چھوڑ دینا گناہ اورنہایت محرومی کی بات ہے۔ رمضان کھانے، ٹی وی دیکھنے  اور سونے کا نام نہیں، چہل قدمی یا ہلکی کسرت سے اپنے آپ کو فعال رکھیں۔ تراویح کے بعد ایک یا دو میل کی دوڑ میرے لئے کارآمد نسخہ ہے، آپ اپنے لئے بہتر طریقہ نکال سکتے ہیں۔
زکو ۃ ، صدقہ و خیرات۔ زکوۃ کو فرض سمجھ کر اللہ تعالی کی خوشنودی کے لئے ادا کریں ۔ روزانہ باقاعدگی سے صدقہ دیں چاہے ایک کھجور ہی کیوں نا ہو۔
خشیت الہیہ – عبادات صرف روٹین اور حرکات و سکنات کا نام نہیں بلکہ جب تک خشیت اور اپنے رب سے تعلق قائم کرنے کا نام ہے۔ اعمال میں خلوص پیدا کریں، یہ سب سے اہم بات ہے ۔ جو چیز بارگاہ الہیہ میں قبول ہو وہی موثر (افیکٹیو) ہے، باقی سب رائگاں۔
یہ تمام کام ماہ رمضان سے خاص نہیں، فرائض دینیہ سال کے دیگر مہینوں میں بھی فرض ہی رہتے ہیں اور انکو انجام دینا اتنا ہی ضروری ہوتا ہے۔ نیز یہ تمام باتیں آرگنائزیشنل اسکلز  یاذاتی نظم و ضبط کی  صلاحیتوں ‎کے حوالے سے تحریر کی گئی ہیں، یہ مشورے ضروریات دین (فرائض) نہیں اور ان کے کرنے نا کرنے سے ثواب و عذاب کا بھی کوئی دارومدار نہیں۔ نیکی صرف وہ ہے جو اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائی اور دین میں تمام نئی ایجاد بدعات ہیں۔
اللہ سبحان تعالی ہمارے اعمال قبول فرمائے اور لغزشوں سے درگزر فرمائے۔‌آمین
Share

August 3, 2010

عصبیت

Filed under: پاکستان,سیاست,مذہب — ابو عزام @ 6:29 am
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
لیس منا من دعا الی عصبیۃ ولیس منا من قاتل عصبیۃ ولیس منا من مات علی عصبیۃ۔ رواہ ابوداؤد
جس نے عصبیت کی طرف دعوت دی وہ ہم میں سے نہیں،
جس نےعصبیت کے لیے جنگ کی وہ ہم میں سے نہیں،
جو عصبیت پر مرا وہ ہم میں سے نہیں ہے
آج روشنیوں کا شہر پھر لہو لہو ہے، لسانی بنیادوں پر تفریق پھیلانے والی سیاست کی وجہ سے ہمیں یہ دن پھر دیکھنا پڑ رہا ہے کہ کلمہ گو مسلمان اپنے کلمہ گوبھائی کا گلا کاٹ رہا ہے اور یہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ہم رنگ و نسل و زبان کی بنیاد پر کی جانے والی تفریق کو رد کرتے ہوئے حجتہ الوداع پر دئے گئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم کو اپنی اجتماعی زندگیوں کا نصب العین نہیں بنا لیتے۔
یایہا الناس ا لا ان ربکم واحد وان اباکم واحد الالافضل لعربی علی عجمی ولا لعجمی علی عربی ولا لأسود علی احمر ولا لأحمر علی اسود الا بالتقوی۔(مسند احمد)
اے لوگو!خبردارتمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ ایک ہے خبر دار!کسی عربی کو عجمی پر یا عجمی کو عربی پر یا کالے کو سرخ پر اور نہ سرخ کو کالے پر کوئی فضیلت حاصل ہے سوائے تقویٰ کے
اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے۔ آمین
Share

July 29, 2010

خطبات بہاولپور از ڈاکٹر حمید اللہ کا مختصر تعارف

Filed under: تحقیق,مذہب — ابو عزام @ 10:41 pm
اسلامی تاریخ کے طالبعلموں کے لئے ڈاکٹر حمید اللہ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ ڈاکٹر صاحب ایک نابغہ روزگار شخصیت تھے کہ جن کی تحقیقی اور دعوت دین کے لئے کی جانے والی خدمات کا مقابل عصر حاضرمیں شاید ہی کوئی مل پائے۔ ڈاکٹر حمیداللہ نے جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن سے ایم اے، ایل ایل بی کی ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد جرمنی کی بون یونیورسٹی سے اسلام کے بین الاقومی قانون پر تحقیقی مقالہ لکھ کر ڈی فل کی ڈگری حاصل کی۔ بعد ازاں فرانس کی سوبورن یونیورسٹی پیرس سے عہد نبوی اور خلافت راشدہ میں اسلامی سفارت کاری پر مقالہ لکھ کر ڈاکٹر آف لیٹرز کی سند پائی۔ جامعہ عثمانیہ کے علاوہ جرمنی اور فرانس کی جامعات میں درس و تدریس کے فرایض انجام دینے کے بعد ڈاکٹر حمیداللہ فرانس کے نیشنل سینٹر آف ساینٹفک ریسرچ سے تقریبا بیس سال تک وابستہ رہے۔ آپ اردو، فارسی، عربی اور ترکی کے علاوہ انگریزی، فرانسیسی، جرمن ، اور اطالوی زبان پر بھی عبور رکھتے تھے۔ آپ کی کتابوں اور مقالات کی تعداد سینکڑوں میں ہے جس میں فرانسیسی زبان میں آپ کا ترجمہ قران ، اور اسی زبان میں‌دو جلدوں میں سیرت پاک ، قران کی بیبلیوگرافی ‘القران فی کل اللسان’ کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی زندگی پر محققانہ تصانیف ‘بیٹل فیلڈز محمد صلی اللہ علیہ وسلم ‘ ، ‘مسلم کنڈکٹ آف اسٹیٹ’ اور ‘فرسٹ رٹن کانسٹیٹیوشن’  خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
Khutbat bahawalpur
ڈاکٹر صاحب کی تحریر کی خوبی آپ کا آسان، عام فہم اور دعوتی انداز بیاں ہے۔ آپ کی تحریروں میں عالمانہ انکسار اور افہام و تفہیم کا جز جگہ جگہ نظر آتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی تحریر و تقریر میں جارحانہ انداز بیاں کو کہ آجکل کے علما کا خاصہ ہے ذرا نظر نہیں آتا۔ آپ تحقیق کا نچوڑ اور متقابل قاری کے سامنے رکھ دیتے ہیں اور اپنی راے بیان کر کے قاری کو اپنی راے متعین کرتنے کا موقع دیتے ہیں۔ یہ انداز جدید دور کے قاری کے لئے نہایت متاثر کن ہے۔ آپ کی عمر کا ہر لمحہ علمی تحقیق اور طلب علم میں‌گذرا ۔ 17 دسمبر 2002 کو اسلام کا یہ فرزند اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔ فرانس میں‌قیام کے دوران ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کا اشتیاق رہا لیکن شومی قسمت سے وہ جب تک صحت کی خرابی کی وجہ سےامریکہ منتقل ہو چکے تھے۔ اب جیکسن ول فلارڈا میں‌ہارڈیج گنز فیونرل ہومز میں منوںمٹی کے نیچے آرام فرما ہیں اور آپکا صدقہ جاریہ، کتابیں اور تحقیقی مقالہ جات دین کے طالبعلموں‌کے لئے زاد راہ ہیں۔
خطبات بہاولپور آپ کے مارچ 1980 میں جامعہ اسلامیہ بہاولپور میں‌ دئے جانے والے لیکچرز کی جمع کردہ کتابی شکل ہے۔ ان  تیرہ عدد خطبات میں مندرجہ زیل موضوعات پر گفتگو کی گئی ہے۔ تاریخ قران مجید، تاریخ  حدیث شریف، تاریخ فقہ، تاریخ اصول فقہ و اجتہاد، قانون بین الممالک، دین عقائد عبادات تصوف، مملکت اور نظم و نسق، نظام دفاع اور غزوات، نظام تعلیم اور سرپرستی علوم، نظام تشریع و عدلیہ، نظام مالیہ و تقویم، تبلیغ اسلام اور غیر مسلموں سے برتاو۔ یہ کتاب عام فہم انداز میں تحریر کردہ ہے لیکن موجودہ دور کے کئی پیچیدہ سوالوں کے عام فہم اور با معنی جوابات کے لئے اس کا مطالعہ نہایت اکثیر ہے اور اس میں ہمارے لئے فروعات سے نکل کر اصول کی پیروی کرنے کے لئے بہت خوب نصیحت ہے۔
سوال جواب کے حصے سے ایک مختصر ٹکڑا یہاں پر مثال کے طور پر پیش کر رہا ہوں۔ ایک نہایت دقیق اور مشکل مسئلہ کے آسان اور جامع جواب کو ہی شائددریا کو کوزے میں بند کرنا کہتے ہیں۔ آپ ڈاکٹر حمیداللہ کیے نقطہ نظر سے متفق ہوں یا نا ہوں، انکی علمی استعداد اور عام فہم انداز میں صلاحیتوں کے ضرور معترف ہو جا ئیں گے۔
Share

July 18, 2010

تہذیبی نرگسیت -ایک تہذیبی مرعوب کی سرگذشت کا اصولی جواب – حصہ سوم

Filed under: پاکستان,تحقیق,مذہب — ابو عزام @ 1:56 am
گذشتہ کچھ عرصے سے مشاہدے میں آیا ہے کہ تہذیبی نرگسیت کا باطل نظریہ خام ذہنوں میں مستقل شکوک و شبہات کا باعث بن رہا ہے۔ خصوصا لبرل اور لادینی عناصر اپنی تحاریر اور گفتگو میں اس کتاب کا اکثر حوالہ دیتے رہتے ہیں۔ نئے ناپختہ اذہان اس فتنے سے متاثر نا ہوں، اس لئے ہم نے پچھلے دو حصوں میں بتدریج اس فتنے کے بنیادی تضادات، نصوص قطعیہ پر مصنف کے اعترضات اور اسلام کے مکمل ضابطہ حیات ہونے کے متعلق قران و حدیث سے دلائل پیش کئے ہیں ۔ اس تیسرے حصے میں ہماری کوشش ہوگی کہ اس خود ساختہ ‘نرگسیت’ کی حقیقت اور غلبہ اسلام کے بارے میں‌ نصوص قطعیہ سے اتمام حجت کریں اور اس فتنے کے علمی سرقے پر کچھ روشنی ڈالیں ۔ نیز ہم یہ بات واضع کرتے چلیں کہ اس مضمون اور اس کے پہلے دو حصوں کے مخاطب وہ شعوری مسلمان ہیں جو اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کو تہ دل سے تسلیم کرتے ہیں اور اس نرگسی فتنے کے اسباب و حقایق پر اپنی تشفی قلب کے لئے مزید معلومات کے خواہاں ہیں۔ آپ نے اگر پچھلے دو حصوں کا پہلے مطالعہ نہیں کیا تو برائے مہربانی اس مضمون کو شروع کرنے سے پہلے ان دونوں حصوں کو ضرور پڑھ لیں۔

تہذیبی نرگسیت -ایک تہذیبی مرعوب کی سرگذشت کا اصولی جواب –حصہ اول

تہذیبی نرگسیت -ایک تہذیبی مرعوب کی سرگذشت کا اصولی جواب – حصہ دوم

کئی لوگوں نے اس کتاب کے حصول کے لئے پوچھا تھا، تو ان سے گذارش ہے کہ اس زمن میں اپنے لوکل کتب فروش سے رابطہ کریں، یہ کتاب سانجھ پبلیشرز نے شائع کی تھی اور یہ ایمیزون پر موجود نہیں لیکن آپ دکاندار ڈاٹ کام سے رابطہ کر کے آرڈر کر سکتے ہیں۔ حالانکہ میں اس کے متن سے شدید اختلاف رکھتا ہوں،لیکن اس کتاب کا ٹارنٹ ڈاونلوڈ چوری کے زمن میں آئے گا جو کہ ایک مسلمان کے قطعی شایان شان نہیں اور شرعا موجب گناہ ہے۔
پاکستان میں سیکولر اور لبرل طبقے کا ہمیشہ سے یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ ہر انسانی مسئلے، پریشانی اور ناکامی کی بنیادیں مذہب سے جوڑنے پرمصر ہوتے ہیں اور اس کے لئے نت نئے اعتراضات تراشتے رہتے ہیں، نرگسیت کا بے معنی اعتراض بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ کیونکہ اس طبقے کی اپنی سوچ مغرب سے مستعار لی ہوئی ہوتی ہے، اسی لئے وہ علمی سرقے سے بھی گریز نہیں کرتے اور لی ہاورڈ ہاجزکے 2002 کے ‘دی ایرانین’ میں چھپنے والے مضمون ‘وکٹمالوجی’ میں میں تصرف کر کے کتابی شکل دے دیتے ہیں اور بیشتر پیراگراف من و عن ترجمے کر کے بغیر حوالے کے چھاپ دیتے ہیں۔ سرخے سے سرقے کا سفر شاید اتنا طویل نہیں۔ مزید تفصیل کے لیئے حوالہ جات ملاحظہ ہوں۔
بہرحال، یہ توہے ان لوگوں کے علمی دیوالیےپن کا حال ۔ مجھے غالب گمان ہے کہ اس نظریے کے حامی افراد ضرور کہیں گے کہ چلیں سرقہ ہی سہی، بات تو درست ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ لبرل تعصب کی پٹی ہٹا کر دیکھا جاے تو یہ باتیں علمی،عقلی و عملی بنیادوں پر بلکل پورا نہیں اترتیں۔ ہم مندرجہ زیل دس نکات میں یہ بات واضع کرتے چلیں گے۔
اولا – جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا تھا، درحقیقت اسلامی نرگسیت یا ‘مسلم  نارسسززم’ کی اصطلاح اسلام دشمن مستشرقین کی اختراع ہے، گوگل کی اس تکنیکی دنیا میں اس دعوی کی تصدیق کرنا کوئی مشکل نہیں، مسلم نارسسززم واوین ‘کوٹس’ میں لکھیں اور جو نتائج آئیں ان مضامین اور ان کے مصنفین کی جانبداری علمی پیرائے میں پرکھیں، آپ کو میرے ‘سازشی نظریات’ پر شائد یقین آجائے۔ اس اصطلاح کا استعمال اسلام دشمنی کے لئے تو نہیایت موزوں ہے، تجدد، خود تنقیدی اور بہتری کے لئے نہیں۔ نیز اس اصطلاح کا کریڈٹ بھی گمان  غالب ہے کہ لی ہاورڈ ہاجز ہی کو جائے گا، مبارک حیدر یا انکے حوارین کو نہیں۔
ثانیا – بقول مصنف نارسززم اپنے آپ کو، اپنے نظریات کو یا اپنے مذہب کو دیوانگی کی حد تک چاہنے کا نام ہے۔ مغرب میں مثل مشہور ہے کہ نرگسی فرد اپنے آپ سے اس قدر محبت کرتا ہے کہ اس کا بس نہیں چلتا کہ اپنی جنس تبدیل کرکے اپنے آپ ہی سے شادی کرلے۔ آج مصنف جس تہذیبی نرگسیت کو ام الخبایث قرار دے رہے ہیں، کیا وہ اس پیمانے پر پورا اترتی ہے؟ اسلامی تہذیب کی اساس توحید، رسالت، عبادت، پاکیزگی، تقوی،حسن سلوک، ایمانداری، اور اسوہ حسنہ پر عمل کرنے میں ہے۔ آج جن افراد کو آپ تہذیبی نرگسیت کا منبع قرار دینے پر مصر ہیں، کیا ان میں اسلامی تہذیبی رویوں کی کوئی ہلکی سی رمق بھی دکھائی دیتی ہے؟ اگر یہ حقیقتا اپنی تہذیب پر فخرواعزاز کا معاملہ ہوتا تویہ لوگ پہلےاپنی تہذیب کو اپناتے اور اس پر عمل کرتےنہ کہ اس کے قطعی مخالف اعمال کو اپنا وطیرہ بناتے۔
درحقیقت فکر و استنبطاط کی صلاحیتوں سے یکسر محروم مصنف اور انکی صنف کے لبرل تشدد پسند لوگ جابر و کرپٹ حکمرانوں، سماجی ومعاشرتی تفاوت سے پیدا ہونے والےرجحانات، نیو امپیریلزم اور بیرونی حملہ آوروں جیسے بڑے مسائل کے متشددانہ رد عمل کو فورا مذہب سے جوڑ دیتے ہیں کیونکہ شائد یہ آسان ترین شکار ہے۔نیز اگر کوئی مذہب کے نام پر تشدد کا درس دیتا ہے تو وہ وہ ایک قبیح فعل کر رہا ہے اور ہر مذہب اور معاشرے میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں، اس کے لئے پوری مسلم امہ کو مورد الزام لگانا کیا معنی رکھتا ہے۔ اسی طرح جرائم یا قانون شکنی کے باعث ہونے والے واقعات کو بھی تہذیبی نرگسیت کے کھاتے میں ڈالنا ان لبرل متشددین کا نیا حربہ ہے جس کی کوئی منطقی وجہ ہماری عقل سے بالاتر ٹھری۔
ثالثا – غیرت دین، اپنے نظریے، وطن اور آبا سے محبت انسان کی فطرت میں شامل ہے، اس کو نرگسیت قرار دینا نہایت بے اصل بات ہے۔ اگر مسلمان اپنے ماضی اور اپنی تہذیب پر فخر کرتے ہیں تو یہ کس قاعدے کی رو سے جرم ہے؟ مصنف مزید لکھتے ہیں
‘مسلمان کا ایمان اعلی، اخلاق اعلی، اس کی عبادت اعلی۔ اس کی دنیا داری اعلی۔ یہ دنیا اس کی، اگلا جہان بھی اس کا۔ باقی ساری دنیا جہنمی۔ باقی سارے انسان کفر اور جاہلیت پر رکے ہوے ‘ صفحہ 91
اپنے ایمان و ایقان پر اعلی و ارفعی ہونے کا گمان کرنا مصنف کے نزدیک نرگسیت کی علامت ہے جبکہ یہ بات مسلمان قران و حدیث کی تائید میں سمجھتے ہیں کہ ان کا ایمان اور انکا دین ہی واحد درست دین ہے (ان الدین عنداللہ السلام)۔ لبرلزم کی جس تحریک سے مصنف کا تعلق ہے اسکے نزدیک ایک کافر، ایک ہمجنس پرست، ایک بت پرست اور ایک موحد میں کوئی فرق نہیں۔ اگر ان سب کے دنیوی اعمال درست ہوں اور انہوں نے دنیا میں لوگوں کو نفع پہنچایا ہو یہ اس ‘خیالی’ جنت میں جانے کے برابر کے حقدار ہیں چاہے وہ اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے باغی ہی کیوں نا ہوں۔ ان نام نہاد جدت پسندوں کی سمجھ میں یہ سیدھی سی  بات نہیں آسکتی کہ اگر خالق کائنات پر ایمان رکھتے ہو تو جنت و دوزخ کے بارے میں اپنے گمان پر نا جاو بلکہ اللہ اور اسکے رسول کے فرمان کو درست جانو۔
“یقین جانو کہ کافروں کے لیے جوکچھ زمین میں ہے بلکہ اسی طرح اتنا ہی اوربھی ہو اور وہ اس سب کو قیامت کے دن عذاب کے بدلے فدیہ میں دینا چاہیں توبھی یہ ناممکن ہے کہ ان کا یہ فدیہ قبول کرلیا جاۓ ، ان کے لیے تو دردناک عذاب ہی ہے ۔ وہ چاہیں گہ وہ جہنم سے نکل بھاگیں لیکن وہ ہرگز اس میں نہیں نکل سکيں گے اوران کے لیے ہمیشگی والا عذاب ہوگا ” المائدۃ ( 36 – 37 )
اس ضمن میں میرا یہ ہرگز مقصد نہیں کہ مسلمانوں کو جنت کا کوئی ‘فری پاس’ مل گیا ہے بلکہ قران و‌حدیث کا مطالعہ رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ حقیقت اس سے بعید ہے۔ لیکن اگر مسلم امہ اپنی الہامی کتب کے مطابق اپنے عقیدہ توحید کی بنا پر اعمال کی بارگاہ الہیہ میں‌قبولیت  پر یقین رکھتی ہے تو اس سے لبرلزم کے ایوان کیوں لرزنے لگتے ہیں؟ کوئی باشعور مسلمان اس بات کو تسلیم نہیں کرے گا کہ بے گناہوں کی جان لینے والےایک خودکش حملہ آور کا ‘ایمان اعلی، اخلاق اعلی، اس کی عبادت اعلی۔ اس کی دنیا داری اعلی۔ یہ دنیا اس کی، اگلا جہان بھی اس کا’ ہے بلکہ وہ ببانگ دہل یہ کہے گا کہ ایک مسلمان ایسا فعل کر ہی نہیں سکتا کیونکہ یہ اسلامی تہذیب کے سراسر خلاف ہے۔ تہذیبی نرگسیت کا الزام لگانے والوں کو ایک مسلمان یہ ضرور یاد دلاے گا کہ اسلامی تہذیب کے اصول و مبادی ہمیں سکھاتے ہیں کہ ایک انسان کا قتل تمام انسانیت کا قتل اور ایک انسان کی جان بچانا تمام انسانیت کو بچانے کے مترادف ہے۔
اربعا – مصنف کے وضع کردہ اصول کی بنا پر کہ کسی تہذیب نے ساینسی و تخلیقی میدان میں سودو سو سال سے اگر کوئی سرگرمی نہ دکھائی ہو اسے ‘ترقی یافتہ’ تہذیب کا دین‌(طریقہ) اختیار کر لینا چاہئے، افریقہ کی تمام اقوام کو عرصہ دراز پہلے اپنے سفید فام حکمرانوں کی تہذیب و تمدن کا اپنا لینا لازم ٹھرا۔اپنی تہذیب اور شناخت پر فخر کرنا نرگسیت ٹہرا تودنیا کی ہر قوم اس ‘گروپ نارسسزم’ کا شکار قرار پائے گی۔ یہ مصنف کی خام خیالی ہے کہ یہ فطری رجحان ‘مردہ اقوام’ میں پایا جاتا ہے۔ اقوام عالم کی تاریخ اس فخروناز سے عبارت ہے۔
خامسا- یہ تمام کتاب ‘اینکڈوٹل ایوڈنسز’ یا واقعاتی شہادتوں سے بھرپور ہے جن کی کوئی علمی وتجرباتی اہمیت ہنیں۔ مثلا کسی مدرسے میں پڑھانے والے فرد کی کسی طالبعلم سےدست درازی کو ‘بلینکٹ اسٹیٹمنٹ’ بنا کر تمام علما، اساتذہ اور دینی مدارس کو رگیدنا ایک عام مثال ہے۔ مصنف کے مطابق چونکہ کچھ مفاد پرست لوگ غریب ملازمین کا استحصال کرتے ہیں اور اسوقت انہیں خدا یاد نہیں آتا، یہ تو یقینا اسلام و مسلمانوں کی مجموعی خامی ہے۔ اگر عرب ممالک اپنے مسلمان بھائیوں کو رہایش یا شہریت کا حق نہیں دیتے تو یہ مسلم اخوت کے نظریے کی خامی ہے (یہ نکتہ ہاورڈ ہاجز نے بھی بعینہ اٹھایا ہے) – اس طرح کی غیر حقیقت پسندانہ سوچ بڑی محرومی ہے اور کوئی باشعور مسلمان ان باتوں پراسلامی تہذیب کو مورد الزام نہیں ٹہرا سکتا۔
ستتہ- آحادیث مبارکہ کی روشنی میں یہ بات واضع ہے کہ مسلمان ایک جسد کی طرح ہیں‌ جس کا ایک عضو تکلیف میں ہو تو دوسرا اس درد کو محسوس کرتا ہے۔ یہ امت مسلمہ کا خاصہ ہے کہ چین و عرب سے لیکر افریقہ اور جزائر پولینیشیا تک کے مسلمان ایک امت واحد کی لڑی میں پروے ہوے ہیں۔ جس نرگسیت کی طرف مبارک حیدر صاحب کا اشارہ ہے اور جو فکر ان کی سیکیولر ذہنیت میں کھٹکتی ہے وہ ملت بیضا کی اجتماعیت کا تصور ہے۔ انکی مرعوبانہ سوچ اس بات کا ادراک نہیں رکھتی کہ مسلمانوں کا عروج و زوال مادی ترقی سے نہیں بلکہ اسلام کے اصولوں پر عمل کرنے سے وابستہ ہے۔ اپنا قبلہ لندن و واشنگٹن کو بنانے اور حرم سے رشتہ کاٹنے کے بجاے ہمیں حکم ہے کہ ‘ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے، اس لیے بھیجا ہے کہ کہ حکم الہیٰ کے مطابق اس کی اطاعت کی جائے’  النسا۔ لیکن حیدر صاحب تو حج و عمرہ کو ‘ایک منافع بخش کاروبار’ اور نماز کو ‘میکانیکی حرکات’ سے کچھ زیادہ گرداننے سے سخت گریزاں ہیں۔
سبعہ۔ یہ فتنہ نرگسیت اور اس کے حوارین غلبہ اسلام کی اہمیت اور اقامت دین کی فرضیت پر اعتراض کرتے ہوئے اسے ایک من گھڑت بات قرار دیتے ہیں ۔ اس زمن میں مصنف نے ‘غلبہ اسلام کےمفروضے’ کے تحت ایک مستقل باب باندھا ہے؛ قران و حدیث کا بنیادی علم رکھنے والا ہر فرد یہ بات جانتا ہے کہ یہ بات نصوص قطعیہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے متواتر فعل سے ثابت ہے کہ اللہ کے نظام کے نفاذ کے لئے دامے درمے سخنے جدوجہد کرنا مسلمان پر لازم ہے۔
وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلّهِ فَإِنِ انتَهَوْاْ فَإِنَّ اللّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
اور (اے اہلِ حق!) تم ان (کفر و طاغوت کے سرغنوں) کے ساتھ جنگ کرتے رہو، یہاں تک کہ کوئی فتنہ (باقی) نہ رہ جائے اور سب دین (یعنی نظامِ بندگی و زندگی) اللہ ہی کا ہو جائے، پھر اگر وہ باز آجائیں تو بیشک اللہ اس (عمل) کو جو وہ انجام دے رہے ہیں، خوب دیکھ رہا ہے 08:39
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
عن ابن عمر رضي الله عنهما ، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال أمرت أن أقاتل الناس ، حتى يشهدوا أن لا إله إلا الله ، وأن محمدا رسول الله ، ويقيموا الصلاة ، ويؤتوا الزكاة ، فإذا فعلوا ذلك عصموا مني دماءهم وأموالهم إلا بحق الإسلام ، وحسابهم على الله تعالى )  رواه البخاري و مسلم .
مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں نے لوگوں سے لڑتا رہوں یہاں تک کہ وہ اس بات کی شہادت دیں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول اللہ ہیں اورنماز قائم کریں اور زکوة ادا کریں جب وہ یہ کام کریں تو انہوں نے مجھ سے اپنے خون اور مال محفوظ کر لئے مگر اسلام کے حق کے ساتھ ان کا حساب اللہ کے ذمے ہے ۔ (بخاری و مسلم )
مصنف خود عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ کی شرائط ثلاثہ (اسلام، جزیہ یا جنگ) کو نقل کرتے ہیں لیکن مغربی سوچ سے مرعوبیت کا یہ عالم ہے کہ وہ اسکو اسلامی سلطنت کے پھیلاو کا انسانی نا کہ الہامی رجہان قرار دینے میں دیر نہیں لگاتے جو کہ سراسر ایک بے بنیاد الزام ہے۔ مصنف کو قران کا یہ واضع حکم شائد نظر نہیں آتا کہ
قَاتِلُواْ الَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَلاَ بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلاَ يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَلاَ يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَابَ حَتَّى يُعْطُواْ الْجِزْيَةَ عَن يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ
(اے مسلمانو!) تم اہلِ کتاب میں سے ان لوگوں کے ساتھ (بھی) جنگ کرو جو نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں نہ یومِ آخرت پر اور نہ ان چیزوں کو حرام جانتے ہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حرام قرار دیا ہے اور نہ ہی دینِ حق (یعنی اسلام) اختیار کرتے ہیں، یہاں تک کہ وہ (حکمِ اسلام کے سامنے) تابع و مغلوب ہو کر اپنے ہاتھ سے خراج ادا کریں۔ 9:29
ثمانیہ – جہاد فی سبیل اللہ کی مختلف اقسام میں دفاعی جنگ، قصاص، مظلوموں کی مدد، معاہدہ توڑنے کی سزا کے لئے لڑنا شامل ہیں لیکن ہر بار اس بات کی تاکید کر دی گئی ہے کہ مسلمان حدود اللہ کو پایمال نا کریں۔
وَقَاتِلُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلاَ تَعْتَدُواْ إِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ
اور ﷲ کی راہ میں ان سے جنگ کرو جو تم سے جنگ کرتے ہیں (ہاں) مگر حد سے نہ بڑھو، بیشک ﷲ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں فرماتا 2:190
ان واضع قرانی احکامات و آحادیث کے ہوتے ہوئے غلبہ اسلام کے لئے جدوجہد کی فرضیت کو ایک من گھڑت بات وہی کہ سکتا ہے جس کے دل میں نا خوف خدا ہو اور نا عقلی و نقلی دلائل کا کوئی لحاظ۔۔
تسعتہ- تہذیبی نرگسیت سے اگر آپ کی مراد ‘وے آف لایف’ کو بحال رکھنے کی جدوجہد ہے تو یہ تو رحمانی اور شیطانی تہذیبوں کی جنگ ہے جو کہ روز ازل سے جاری ہے اور یوم الدین تک جاری رہے گی۔ ہر تہذیب اپنے وے آف لایف کو برقرار رکھنا چاھتی ہے۔ سابق امریکی صدر بش کا یہ کہنا تھا کہ ‘یہ لوگ ہمارے طریق زندگی، آزادی اور جمہوریت سے نفرت کرتے ہیں’ ، ہر قوم کی طرح امریکی قوم کو بھی اپنے طریق زندگی اور تہذیب سے محبت کرنے اور اس کی بقا کے لئے جان لڑا دینے کا پورا حق ہے۔ مبارک حیدر صاحب کو چاہیے تھا کہ وہ کہتے کہ یہ نرگسیت آپ کو نقصان پہنچا رہی ہے، اسے تبدیل کرنے میں عافیت ہے، لیکن انہوں نے یہ طے کر رکھا ہے کہ سمجھوتا ہمیں نے کرنا ہے۔ لارا انگرم تو لباس کی قید سے آزادی کو اپنا وے آف لایف سمجھ کر اسکا دفاع کرے لیکن اگر ہم پردے کے بارے میں کچھ کہیں تو وہ نرگسیت کہلاے۔ فرانس آزادی رائے کا نام نہاد علمبردار حجاب پر پابندی لگانے میں حق بجانب ٹھرے لیکن اگر ہمارے لوگ شرعی سزاوں کے نفاذ پر زبان کھولیں تو اسے انتہا پسندی اور بربریت کا نام دیا جاے۔ جو نام نہاد نرگسیت ہمارے لئے ذہر قاتل ہے، یوروپ کے لئے اکثیر۔ سبحان اللہ۔
اربعہ۔ مذہب بیزار لوگ جو دین و دنیا کو علیحدہ علیحدہ کرنے کے لئے عرصہ دراز سے سرگرم ہیں‌، ان کی یہ نئی تحریکِ نرگسیت اس بات کے لئے صرف ایک بہانہ ہے کہ مسلمانوں کے مسائل کا منبع ان کی دینی حمیت اور وابستگی کو قرار دیا جائے۔ بے شک امت مسلمہ میں بگاڑ موجود ہے اور من الحیث القوم ہم بے شماربیماریوں کا شکار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تعداد کی اکثریت کے باوجود سمندر کے جھاگ کی مانند ہماری کوئی اہمیت نہیں۔ لیکن اپنے دین سے محبت اور اسلامی تہذیب سے لگاو ان مسائل کی جڑ نہیں بلکہ اس سے نکلنے کا آخری ذریعہ ہے۔ بے شک مسلمانوں کو اپنے مسائل قران و سنت کی روشنی میں حل کرنے اور اپنی ترجیحات متعین کرنےکی ضرورت ہے۔ اسلامی ممالک میں ظالم نا اہل حکمرانوں سے نجات، کرپشن کا خاتمہ،جہالت سے جنگ اور تعلیم کا فروغ،  عصری علوم و فنون، فلسفہ، آرٹ و دیگر علوم کی ترویج اسلامی تہذیب کا حصہ ہیں، اس سے متصادم نہیں۔
یہ (منکرینِ حق) چاہتے ہیں کہ وہ اللہ کے نور کو اپنے منہ (کی پھونکوں) سے بجھا دیں، جبکہ اللہ اپنے نور کو پورا فرمانے والا ہے اگرچہ کافر کتنا ہی ناپسند کریں 61 – الصَّفّ
اللہ سبحان تعالی ہمیں دور جدید کے ان فتنوں سے بچائے۔ آمین،
حوالہ جات۔
سیلفشنسی اور سیلف لو – ایرک فرامم
Share

July 9, 2010

دعوت الی اللہ کا کام اورکچھ شکوک کا ازالہ

Filed under: مذہب — ابو عزام @ 1:56 am
(قُلْ هَذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّهِ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنْ اتَّبَعَنِي وَسُبْحَانَ اللَّهِ وَمَا أَنَا مِنْ الْمُشْرِكِينَ (يوسف: 108
”کہو میرا راستہ یہی ہے: میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں، پوری بصیرت کے ساتھ، اور میرے پیروکار بھی۔ اور اللہ پاک ہے۔ اور شرک کرنے والوں سے میرا کوئی واسطہ نہیں“۔
دعوت دین کا کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دائمی سنت اور مسلمان کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ایک ہے۔ عبداللہ بن عباس روایت کرتے ہیں: رسول اللہ نے جب معاذ بن جبل کو اپنا نمائندہ بنا کر یمن روانہ کیا تو ان سے فرمایا: ”تم ایک اہل کتاب قوم کے ہاں جا رہے ہوں۔ اس لئے سب سے پہلی بات جس کی تم ان کو دعوت دو یہ ہونی چاہئے کہ لا الہ الا اﷲ کی شہادت دی جائے“۔ مزید صحیحین میں حدیث ہے کہ آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے غزوہٴ خیبر کے موقعہ پر فرمایا تھا : اللہ کی قسم اگر تمہارے ذریعہ اگرایک شخص کو بھی اللہ تعالی ہدایت سے نوا ز د ے تو یہ تمہارے لئے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے ۔ { صحیح بخاری وصحیح مسلم } ۔
ہم میں سے وہ لوگ جو ایسے ممالک میں رہتے ہیں جہاں مسلمانوں کی اکثریت نہیں وہاں اسلام کی دعوت پھیلانے کے بہت سے مواقع میسر آتے ہیں‌۔ ہر غیر مسلم فرد ایک دعوتی چیلینج کے طور پر موجود ہوتا ہے کہ اسےاحسن طریقے سے توحید و رسالت کا پیغام پہنچایا جاے۔ اپنے رب کی محبت کا تقاضہ یہ ہے کہ اس کی وحدانیت اور اس کے دین کی صداقت کا یہ پیغام دوسروں تک پہنچانے میں ہم اپنی تمام کوششیں صرف کریں۔
اقامت دین کے ہر کام کی طرح اس زمن‌ میں بھی شیطان کے وساوس بے شمار ہیں جن سے آج ہمارا یہ سلسلہ کلام وابستہ ہے مثلا
کس دین کی مثال کی طرف دعوت دی جاےِ؟ ہمارے پاس تو کوئی آیڈیل ‘اسٹیٹ’ ہی موجود نہیں جس کی ہم مثال دے سکیں۔ مسلمان آپس میں لڑ رہے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔
یہ بلکل بے بنیاد وسوسہ ہے۔ آپ جس دین کی طرف دعوت دے رہے ہیں اس کے لئے اللہ کی کتاب واضع دلیل ہے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ بہترین مثال۔ مسلمانوں کی حالت زار یا کسی مثالی ریاست کی غیر موجودگی اپکو اللہ کی وحدانیت کی طرف بلانے سے کیونکر روکتی ہے؟ یاد رکھیں کہ اللہ کی دین کی دعوت کسی ملک کی امیگریشن کی دعوت نہیں کہ آپ وہاں کے باغ و گلستاں کی روایات سے لوگوں کومائل کریں۔ یہ تو بندوں کو انکے خالق کی طرف بلانے والی پکار ہے اور آپ کا فرض صرف احسن طریقے سے دعوت دینا ہے، نتائج اسکے دست کار میں ہیں جس ذات باری کی رضا جوئی کے لئے یہ دعوت دی جا رہی ہے۔آپ اپنی طرف سے پوری کوشش جاری رکھیں۔
پہلے ہم خود تو عملی مسلمان بن جائیں یا پہلے (مسلمان آبادی والے ملک کا نام) میں تو اسلام نافذ ہو جاے وغیرہ
یہ عذر بھی عذر گناہ بدتر از گناہ کے مصداق ہے کہ اگر میں معاذ اللہ نماز نہیں پڑھ رہا توروزہ کیوں رکھوں؟ دعوت الی اللہ اور امر بالمعروف آپکی ذمہ داریوں میں سے ہے اور اس کے لئے آپ جو چھوٹا سے چھوٹا یا بڑا سے بڑا قدم اٹھائیں گے، اللہ سبحان تعالی آپکو اسکا اجر دیگا۔ دوسروں کو راہ حق کی طرف بلانے کا عمل خود ہی اپنی دعوت اور روش کو درست کرنے کا باعث بنتا ہے۔ مزید براں اللہ نے آپکو اس بات کا مکلف نہیں بنایا کہ آپ کسی ملک میں جہاں آپ نا رہ رہے ہوں‌اسلامی نظام نافذ ہونے تک اپنی دعوت و تبلیغ کو روک دیں۔ اللہ کی وحدانیت کی طرف بلانے میں یہ کیسے ایک امر مانع ہے؟
اس ملک میں تو ہم کھانے کمانے/ پڑھنے کے لئے آئے ہیں، اپنی نسلیں برباد کرنے کے لئے نہیں۔ واپس اپنے وطن جانا ٹھرا تو یہاں کیا کام کرنا؟
یہ بھی شیطان کے وساوس میں سے ایک بڑا وسوسہ ہے کہ وہ انسان کو اللہ کے دین کی دعوت سے دور رکھنے کے لئے استعمال کرتا ہے۔ اس غیر مسلم اکثریتی ملک میں آپکے آنے کا کوئ بھی مقصد ہو، یہاں رکنا صرف ایک صورت میں درست ہے اور وہ یہ ہے کہ آپکا بنیادی مقصد دعوت دین ہو۔  ہم سب جانتے ہیں کہ جزائر انڈونیشیا ملایشیا میں اسلام تاجروں کے ذریعے پھیلا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین نے جزیرہ عرب اور دیگر ممالک جا کر دین کی دعوت دی۔ اولیاے کرام و مشایخ کا بھی یہ عمل رہا۔ اگر آپ ان غیر مسلموں میں رہ کر، اپنے قول و عمل سے اسلام کی مثال نہیں دکھائیں گے تو اور کون یہ کام کرے گا؟ اللہ نے آپکو اسلام کا سفیر بنایا ہے، اس ذمہ داری کو بحسن و خوبی ادا کرنا آپکا فرض ہے اور اس سے کوتاہ نگاہی یا  عذر تراشی بڑی محرومی۔
لیکن یہ لوگ انتے ترقی یافتہ ہیں، میں انکو کس چیز کی طرف بلاوں؟ اسلام سے انکو کیا فائدہ ہوگا یا انکی زندگی میں کونسی ایسی تبدیلی آجائے گی؟
اللہ کی وحدانیت اور دین اسلام اس کاینات کی سب سے بڑی سچائی ہے اور یہ لوگ اس سچائ کو نہیں جانتے۔ تمام اسایشوں کے ہوتے ہوے یہ ایک سب سے بڑی محرومی ہے! اور بروز حشر یہ لوگ آپکے خلاف صف آرا ہونگے کہ ہمارے اس مسلمان محلے دار، پڑوسی، ساتھ کام کرنے والا، ہم جماعت نے ہمیں دعوت دین نہیں دی اور ہم تہی دامن کھڑے ہونگے۔
لیکن یہ انکا ملک ہے، میں ان کا احسان مند ہوں کہ انہوں نے مجھے یہاں آنے دیا۔ اب میں یہاں دعوت کا کام کیسے کر سکتا ہوں؟
یہ غالبا مرعوبیت کی انتہا ہے۔ تمام ملک، تمام زمیں، ساری کاینات اللہ کی ہے اور مسلمان ہونے کے تحت یہ آپکا بنیادی عقیدہ ہے کہ اللہ مالک اعلی ہے۔ ان غیر مسلم افراد کے احسان کا اس سے بہتر بدلہ کیا ہوگا کہ آپ انہیں اس دین کی طرف دعوت دیں جو انہیں دنیا اور آخرت دونوں کی کامیابیاں نصیب کرے؟
غیر مسلم ممالک میں دعوت کے طریقے بے شمار اور مختلف النواع ہیں اور ان کے لئے آپکی قریبی دعوت کی تنظیم آپکو اچھی طرح اگاہی دے سکتی ہیں۔مثلا اس زمن میں امریکہ میں ‘واے اسلام’ نامی تنظیم بڑی تندہی‌ سے دعوت دین کا کام کر رہی ہے .اسکولوں کے پروگرام، اوپن مسجد، افراد سے رابطہ، لوکل مارکیٹ، لایبرری، بازار، فئیر،فوڈ بینک، فیسٹیول میں دعوت کے اسٹال جیسے سیکڑوں مواقع میسر ہوتے ہیں جن کو استعمال کرکے دعوت کا کام بخوبی کیا جاسکتا ہے۔ اس بات کا خیال رہے کہ دعوت کا کام حکمت سے کیا جاے کہ اگر لوگ آپکی بات نا بھی مانیں تو وہ کم از کم آپ کے رویہ سے اچھا گمان رکہیں۔۔ شروع میں تھوڑی سی جہجک فطری ہے لیکن اللہ کے دین کی دعوت کا کام شروع کیا جاے تو راستے آسان ہوتے جاتے ہیں۔ مذہب سے بیزاری کی وجہ سے مغرب میں ‘پراسلیٹایزیشن’ یا تبدیلی مذہب کی دعوت کوسماجی محفلوں میں برا سمجھا جاتا ہے اور زیادہ تر مذہب پر بات کرنے والا غبی اور ‘آوٹ اف ٹچ’ قرار پاتا ہے۔ ایک داعی کے لئے یہ رکاوٹیں اور خیالات یا رجہانات (پرسیپشن) کوئی معنی نہیں رکھتے اور وہ ان تمام عارضی رکاوٹوں سے ماورا دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
بروز حشر ہر فرد کو اپنی استطاعت، صلاحیت  اور کوشش کے لئے جانچا جائے گا۔ کسی پر اسکی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا جاتا لیکن اسکے ساتھ یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ ہماری استطاعت کیا ہے۔ ہم ابلاغ کے تمام ذرائع کے ماہر اور دنیاوی معاملات میں ہر قسم کے نت نئے ‘آپٹیمایزڈ’ اصلاح پسند طریقے استعمال کرتے ہیں۔ جدید انتظامی طریقے استعمال کرکے زیادہ بہتر طریقے سے کام کرنے کی کوششیں کرتے ہیں۔ ہر چھ ماہ بعد اپنی ‘تدابیر’اسٹریٹیجیز کو اینالایز کرتے ہیں کہ ہم سے کیا غلطیاں ہو رہی ہیں‌ اور کس طرح سے پیداوار کو بڑھایا جائے وغیرہ۔ لہذا ہمیں اسی معیار پر دعوت دین کے لئے بھی جانچا جاے گا کہ کیا تم نے اللہ کی طرف بلانے کےلئے اتممام حجت کیا تھا؟ اپنی تمام صلاحیتوں کو بقدر ضرورت برو کار لا ئے تھے؟
کیا بروز حشر ہم اس سوال کا جواب دینے کے لئے تیار ہیں؟
Share

May 20, 2010

آزادی اظہار – اسلامی اور مغربی تہذیبی اقدار کا تقابلی جائزہ

Filed under: مذہب,مشاہدات — ابو عزام @ 11:34 pm
آزادی اظہار رائے ‘ یا ‘فریڈم آف اسپیچ اینڈ ایکسپریشن’ آجکل کے حالات کے تناظر میں ایک اہم اور توجہ طلب موضوع ہے ۔ اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ اس بنیادی تفاوت کو سمجھا جائے جو کہ  اسلامی اور مغربی تہذیبی کے اقدار میں تصادم کا باعث ہے تاکہ بہتری کی سعی کی جا سکے ۔ ہم اس مضمون میں آزادی اظہار کے زمن میں اسلامی اور مغربی رویوں پرکچھ معروضی خیالات پیش کریں گے۔ اس تحریر میں ہم ان شکوک اور ‘کانسپیریسی تھوریز’ کا ازالہ کرنا چاہیں گے کہ شماتت کی جو  تحریک مغربی دنیا میں چل رہی ہے اس کا مرکز و منبع صیہونیت ہے اور اس بات پر کچھ روشنی ڈالیں گے کہ مغرب میں آزادی رائے پر اسقدر اصرار کیوں کیا جاتا ہےاور یہ بات مغرب کو سمجھانا اتنا مشکل کیوں ہے کہ تعظیم انبیا مسلمانوں کا جزو ایمان ہے اور انکی شان میں گستاخی ہمارے لئے نہایت غم و غصے کا باعث۔ اس مضمون کے ماخذات محققین کی تشفی کے لئے آخر میں درج ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی زندگی سے ہمیں یہ مثالیں واضع ملتی ہیں کہ اسلامی نظام زندگی میں ہر طرح کے اختلاف رائے کی اجازت ہے الا کہ وہ نصوص قطعی‌ یعنی اللہ اور اسکے رسول کے واضع احکامات کے خلاف نا ہو، شعائر اسلام کا مذاق نا اڑایا جائے  وغیرہ۔ رسول صلئ اللہ علیہ وسلم اور انبیا علیھم السلام کے سوا کوئی بھی فرد معصوم نہیں اور اسکے وہ افعال جو احکامات الہیہ کے خلاف ہوں، لایق تنقید ہیں۔ اسلامی نظام زندگی میں حقوق العباد کا جو نظریہ پیش کیا گیا ہے وہ نہایت جامع ہے جو کہ لغویات اور لوگوں کی دل آزاری اور ہنسی اڑانے سے باز رکھنے پراخلاقی قدغن لگاتا ہے۔ سورۃ الحجرات میں اللہ سبحانہ تعالی فرماتے ہیں
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا يَسْخَرْ قَومٌ مِنْ قَوْمٍ عَسَى أَنْ يَكُونُوا خَيْراً مِنْهُمْ وَلا نِسَاءٌ مِنْ نِسَاءٍ عَسَى أَنْ يَكُنَّ خَيْراً مِنْهُنَّ وَلا تَلْمِزُوا أَنفُسَكُمْ وَلا تَنَابَزُوا بِالأَلْقَابِ بِئْسَ الاِسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الإِيمَانِ وَمَنْ لَمْ يَتُبْ فَأُوْلَئِكَ هُمْ الظَّالِمُونَ۔ (الحجرات49:11)  ’’اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائے۔ عین ممکن ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ ہی  خواتین ، دوسری خواتین کا مذاق اڑائیں۔ ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔ ایک دوسرے کی عیب جوئی نہ کرو اور نہ ہی ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد کرو۔ ایمان کے بعد فسق و فجور کے نام بہت بری چیز ہیں۔ جو لوگ توبہ نہ کریں ، وہی ظالموں میں سے ہیں۔ ‘
لیکن جہاں پر عیب جوئی، غیبت اور بہتان طرازی سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے وہاں پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ مبارک یہ بھی ہے کہ :
إن أفضل الجهاد كلمة حق عند سلطان جائر
جابر بادشاہ کے سامنے کلمۂ حق کہنا ، افضل جہاد ہے ۔
مسند احمد ، المجلد الثالث ، مسند ابي سعيد الخدري رضي الله تعالىعنه
اس زمن میں ظلم و جبر کے خلاف آواز اٹھانا، حکام کی رائے سے اختلاف کرنا، عوامل سے جواب طلب کرنا اور اپنی رائے کا برملا اظہار کرنا اصحاب اور سلف کے طریقے سے ثابت ہے لہذا یہ کہنا کہ اسلام آزادی رائے کو سلب کرتا ہے، ایک بے بنیاد بات ہے۔ اسلام ان ابتدائی تہذیبوں میں سے ہے جہاں کوئی فرد مقدس گائے نہیں اور اس کی بنا خلافت راشدہ کی مثالوں سے صاف ملتی ہے۔ اسلام پر آزادی اظہار سلب کرنے کا الزام لگانے والے افراد کا مطالعہ محدود ہے کہ وہ سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ابواب سے واقف نہیں۔ غرضیکہ اسلام میں اختلاف رائے کا بنیادی اصول دینی احکامات کے بارئے میں یہ ہے کہ جو احکام کتاب و سنت میں واضح طور پر بیان فرما دیے گئے ہیں انسے اختلاف کرنا کسی بھی شخص کے لئے جائز نہیں ہے۔ دوسری قسم کے معاملات وہ ہیں جس میں کسی آیت یا حدیث کی مختلف توجیہات ممکن ہوں، اس میں قیاس کیا جا سکتا ہو اور ایک توجیہ یا قیاس کرنے والا عالم ایک معنی کو اختیار کر لے اور دوسرا دوسرے معنی کو، تو ایسا اختلاف جائز ہے۔ جہاں تک دنیوئ معاملات کا خیال ہے، اس کے بارئے میں جیسا کہ فرمایا گیا
صحیح مسلم ، کتاب الفضائل ، حدیث نمبرات : ٣١ ، ٣٢
باب : وجوب امتثال ما قالہ شرعاً دون ما ذکرہ من معایش الدنیا علیٰ سبیل الرّای ۔
( باب : آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) جوشرع کا حکم دیں ، اُس پر چلنا واجب ہے ۔ اور جو بات دنیا کی معاش کی نسبت اپنی رائے سے فرما دیں ، اُس پر چلنا واجب نہیں )۔
١) طلحہ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے روایت ہے ، میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ گذرا ۔ کچھ لوگوں پر ، جو کھجور کے درختوں کے پاس تھے ، آپ نے فرمایا : یہ لوگ کیا کرتے ہیں ؟ لوگوںنے عرض کیا ، پیوند لگاتے ہیں یعنی نر کو مادہ میں رکھتے ہیں اور وہ گابہہ ہو جاتی ہے ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا : میں سمجھتا ہوں اس میں کچھ فائدہ نہیں ہے ۔ یہ خبر اُن لوگوں کو ہوئی تو انھوں نے پیوند کرنا چھوڑ دیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو بعد میں یہ خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا : اگر اس میں اُن کو فائدہ ہے تو وہ کریں ، میں نے تو ایک خیال کیا تھا۔ میرے خیال پر مواخذہ مت کرو۔ لیکن جب میں اللہ کی طرف سے کوئی حکم بیان کروں تو اس پر عمل کرو ، اس لیے کہ میں اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنے والا نہیں۔
٢) رافع بن خدیج سے روایت ہے … ……… آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا اگر تم یہ کام نہ کرو تو شاید بہتر ہوگا۔ انہوں نے گابہہ کرنا چھوڑ دیا تو کھجوروں کی افزائش گھٹ گئی۔ لوگوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے یہ بیان کیا ۔ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا : میں تو آدمی ہوں جب کوئی دین کی بات تم کو بتلاؤں تو اس پر چلو اور جب کوئی بات مَیں اپنی رائے سے کہوں تو آخر مَیں آدمی ہوں ( یعنی آدمی کی رائے ٹھیک بھی پڑتی ہے ، غلط بھی ہوتی ہے )۔
٣) انس(صلی اللہ علیہ وسلم) سے روایت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا : اگر نہ کرو تو بہتر ہوگا۔ انہوں نے نہیں کیا ، اور آخر خراب کھجور نکلی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) ادھر سے گزرے اور لوگوں سے پوچھا : تمھارے درختوں کو کیا ہوا ؟ انھوں نے کہا آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے ایسا فرمایا تھا کہ گابہہ نہ کرو ، ہم نے نہ کیا ، اس وجہ سے خراب کھجور نکلی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا : تم اپنے دنیا کے کاموں کو مجھ سے زیادہ جانتے ہو۔
یہ معاش اور ‘سیکولر’ کاموں میں آزادی اظہار و روش کی ایک بہترین مثال ہے اور دینی معاملات میں یہ اصول متعین کرتی ہے کہ ‘جو کچھ تمھیں رسول دیں ، اسے لے لو اور جس چیز سے منع کریں اس سے رُک جاؤ۔ ( الحشر : ٧ ) اور دنیاوی معاملات میں انفرادی آزادی پر دلالت کرتی ہے۔
اب ہم مغربی تہذیب میں آزادی اظہار پر بات کرتے ہیں۔ اس زمن میں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ آزادی اظہار کا تعلق مغربی تہزیب کے ارتقا سے ہے جو اسکو اس معاشرت کا بنیادی عنصربناتی ہے۔ تاریخی طور پرجب یورپ میں کلیسا کی حکمرانی تھی تو اس کے خلاف بولنےکے بہت برے نتایج نکلا کرتے تھے، گلیلیو کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ صدیوں کا ‘وچ ہنٹ’ کلیسا کے مظالم کی ایک چھوٹی سی مثال ہے جس نے مغربی اقوام کو آزادی اظہارپر پابندی اور ظلم و جبر کو ایک ہی سکے کے دو رخ سمجھنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اسی لئے مغربی اقوام نے اپنے قوانین اور آئین میں آزادی اظہار کو بنیادی حیثیت دی ہے۔ امریکہ کے قیام کے بنیادی مقاصد میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ ملک یوروپ سے بھاگ کر آئے ہوئے ان مسافروں ‘پلگرمز’ کی بدولت وجود میں آیا جو یورپ میں کلیسا کہ ظلم و ستم سے تنگ آ کر نئی دنیا میں پناہ لینے آئے تھے لہذا یہاں انہیں تحریر و تقریر، مذہب اور تمام عقائد پر عمل کرنے کی مکمل آزادی ہوگئ ۔
۔ اس زمن میں یہ بات توجہ کی حامل ہے کہ کسی بھی مغربی ملک میں آزادی اظہار مطلق، ‘ایبسولوٹ’ یعنی اپنی سراسریا مکمل اصولی شکل میں عملی طور پر نافذ نہیں۔ اب جو باتیں آپ پڑھیں گے وہ تضاداد کا مجموعہ نظر آئیں گی لیکن یہی آزادی اظہار کی حقیقت ہے۔ منافرتی تحریر و تقریر پر قدغن یورپ کے بیشتر ممالک میں رائج ہے جو کہ آزادی اظہار کے بنیادی مطلق اصولوں کے خلاف ہے۔ اسی طرح فرانس، آسٹریا اور جرمنی میں ایسی تحریرو تقریر جو ہالوکاسٹ یا دوسری جنگ عظیم میں یہودیوں کے قتل عام کا انکار کرئے، قانونا منع ہیں۔آئرلینڈ میں مذہبی سب و شتم یا بلاسفیمی قانونا جرم ہے۔ لیکن امریکہ میں جس کو ہمارئے یہاں کے ٹی وی دانشور مطلق یہودی نواز سمجھتے ہیں ،درحقیقت اس بات کی قانونا اجازت ہے کہ ہالوکاسٹ ( دوسری جنگ عظیم میں نازی جرمنوں کے ہاتھوں یہودیوں، روسیوں، معذوروں، بے خانماں لوگوں کے قتل عام ) کا انکار کر سکیں۔ امریکی(اور دیگر مغربی ) ادیبوں نے ہالوکاسٹ کے خلاف کتابیں لکھی ہیں اور ڈیوڈ ڈیوک جیسے لوگ آزاد گھومتے ہیں جو کھلے عام اس انسانی سانحے کو فراڈ قرار دیتے ہیں، یہ آزادی اظہار کی ایک تلخ لیکن حقیقی مثال ہے۔ اس زمن میں ہمیں اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ کہیں ہم غلطی سے جس ‘دشمن کے دشمن’ کو اپنا دوست سمجھ رہے ہیں، کہیں اسکا اپنا کوئی مخفی ایجنڈا تو نہیں؟ ڈیوڈ ڈیوک اور اس جیسے کئی سفیدفام نسل پرست یہودی مخالف یا ‘اینٹی سیمیٹک’  بنیادی طور پر اپنی نسل پرستانہ نازی زہنیت کی بنا پر ہیں اور ان سے کسی بھی قسم کا اتحاد و تعلق مسلمانوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔
لیکن ریاستہاے متحدہ امریکہ میں بھی  آزادی راے کے قانون کو مطلق آزادی حاصل نہیں مثلا جہاں نفرت آمیز، نسلی، جنسی و سیاسی تنقید،  تحریر و تقریرکی عمومی طور پر پوری آزادی ہے وہاں فحاشی، بچوں سے متعلق جنسی مواد اور کوئی ایسی تحریر و تقریر جوامن عامہ کے لئے لازمی خطرے کا باعث ہو قانونا منع ہے۔ اور تو اور گالی دینے پر بھی آپ کو قانونا جرمانا ہو سکتا ہے۔ آپ امریکی صدر کی شان یا ہجو میں جو چاھے کہیں لیکن کسی بھی قسم کی پر تشدد دھمکی آپکو فورا جیل کا منہ دکھا سکتی ہے۔ من الحیث المسلم اب آپ یہ سوچ رہے ہونگے کہ تشدد پر ابھارنا جرم لیکن مقدس ہستی کا مذاق اڑانا جرم نہیں، یہ کیسا انصاف ہے؟ لیکن بدقسمتی سے یہی وہ اختلاف اقدار اور تفاوت ہے جو مغرب اور اسلامی اقدار کو آزادی اظہار کے بارے میں جداگانہ تشخص دیتا ہے۔
اظہار رائے کی آزادی صرف رائے کی آزادی کا نام نہیں بلکہ تحریر و تقریر و عمل کی آزادی کا بھی نام ہے جسے امریکہ میں پہلی ائینی ترمیم کی حمایت حاصل ہے۔ عمل کی آزادی کی بنیادی شرط یہ رکھی جاتی ہے کہ اس سے کسی دوسرے کو تکلیف نا پہنچے۔ اس زمن میں ہم برطانیہ میں عوامی مقامات پر شراب نوشی کی مثال دینا چاہیں گے جو کہ قانونا جائز ہے جبکہ امریکہ میں یہ قطعی خلاف قانون ہے کہ عوامی مقامات جیسے سڑک، پارک وغیرہ پر مے نوشی کی جائے ۔ اکثر برطانوی نژاد امریکی اسے بنیادی حقوق کے خلاف سمجھتے ہیں۔ اسی طرح زنانہ پستان کی ستر پوشی کی جو حدود برطانیہ، اسرائیل یا آسٹریلیا میں قانونی ہیں وہ امریکہ کی بیشترریاستوں میں قطعی غیر قانونی قرار دی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ نجی ادارے اپنے قوانین بھی رکھتے ہیں جو آزادی اظہار میں مذید قدغنیں لگانے میں قانونا آزاد ہیں مثلا کوئی ایسا لفظ یا فقرہ جس سے کسی ملازم کی دل آزاری ہوتی ہواسے نجی اداروں میں ادا کرنے کی سختی سے ممانعت ہے۔ کسی کو رنگ، نسل، زبان، جنسی میلان یا مذہب کی بنیاد پر تفریق کا نشانہ بنانا تو منع ہے ہی لیکن اسے اس تناظر میںصرف مخاطب کرنا بھی آپکو نوکری سے ہاتھ دھونے کی نوبت دلا سکتاہے۔ لیکن اسی کی دوسری منفی حد فرانس میں عوامی مقامات پر حجاب پر عائد پابندی ہے جو آزادی اظہار کے بنیادی اصولوں کی نفی ہے۔ غرضیکہ جس آزادی اقدار و اظہار پر مغرب فخر کرتا ہے،یہاں اسی پر کئی بنیادی قدغنیں بھی لگائی جاتی ہیں لیکن عمومی رجحان یہی ہے کہ یہ ایک آزاد ملک ہے اور یہاں ہر فرد کو اپنے نظریہ، عقیدے کی مکمل آزادی ہے اور آزادی اظہار کا مکمل حق حاصل ہے۔ یہ بات وسیع پس منظر میں بہت حد تک درست ہے اور دعوت دین کے لئے رحمت کا باعث بھی۔ اب اگر کوئی یہ کہے کہ جناب مسلم ممالک میں توآزادی رائے کاعشر عشیر بھی حاصل نہیں، آپ مغرب کو نصیحت کرنے چلے ہیں تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ اول تو اسلامی نظام بیشتر مسلم اکثریتی ممالک میں اپنی اصل روح کے ساتھ موجود نہیں ورنہ آپ عوام الناس کو حکمرانوں سے انکے اعمال کا جواب طلب کرتے دیکھتے دوم یہ کہ  ہماری آزادی رائے بھی مغرب کی طرح مطلق نہیں بلکہ ہماری اسلامی اقدار کی پابند ہے۔ ہم آزادی رائے کے نعرے کے تلے مادر پدر آزاد نہ ہونگے مثلا فحاشی ، عریانی اور بیہودہ مواد کی تقسیم بیشتر مغربی ممالک میں آزادی اظہار کے تحت بالغان کے لئے جائز ہے لیکن یہ اسلامی ریاست میں سراسر نا جائز ہوگی وغیرہ۔ لیکن جہاں تک اختلاف رائے اور احتساب کی بات ہے، اس کی ایک اسلامی ریاست میں مکمل آزادی ہوگی۔
اس طویل تمہید و گفتگو سے ہمارا مدعا یہ بیان کرنا ہے کہ آزادی اظہار کسی بھی جگہ لا محدود نہیں۔ فرق صرف اس بات کا ہے کہ معاشرہ کس بات کوبرداشت کرتا ہے اور کس بات کو برا جانتا ہے، یہ فرق ہر اس معاشرے میں پایا جاتا ہے کہ جہاں معروف و منکر کی حدود انسان کی بنائ گئ ہوں۔ نیز چونکہ ہم اسلامی تہذیب سے وابستہ ہیں جہاں انبیا کی تعظیم کی جاتی ہے اور انکی تضحیک ایک قابل تعزیز فعل ہے، ہم یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ یہی اصول شائد مغربی معاشرے میں بھی لاگو ہونگے یا کم از کم وہ ہمارے جذبات کا خیال کریں گے جو کہ ایک مغالطہ ہے۔
دوسری طرف المیہ یہ ہے کہ مغرب میں ‘آیکنوکلاسٹ’ طبقے کی بہتات نہیں تو قابل توجہ موجودگی ہے جو کہ معاشرے کی تمام حدود و قیود کو پامال کرنے کے درپے رہتا ہے مثلا فری ٹاپ، نامبلا، اسکیپٹک سوسائیٹی وغیرہ ۔مذہب کو تفنن کا نشانہ بنانا اور اس پر آوازے کسنا برطانیہ میں تو عوامی مزاج کا حصہ ہے جس کی بنا پر سابق وزیر اعظم ٹونی بلئر کو اپنے عملی کیتھولک ہونے کا اعلان وزارت عظمی سے مستعفی ہونے کے بعد کرنا پڑا کیونکہ انکے بقول مذہبی افراد کو پاگل یا ‘نٹس’ سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح دائیں بازو کے قدامت پسند جو مسلمانوں سے نالاں رہتے ہیں، بائیں بازو کے افراد جو مذہب سے ہی عمومی طور پر بیزار ہیں اور ملحدانہ خیالات کے حامی لوگ مختلف حیلوں سے آزادی اظہار کی آڑ میں نفرت و تفنگ کے تیر چلاتے ہیں اور چونکے انہیں اس بات کا علم ہے کہ یہ مسلمانوں کو یہ امر انتہائی ناگوار گذرتا ہے، اس کو بار بار کرنے پر مصر نظر آتے ہیں۔
اس امرمیں اس بات کا خیال رکھنا چاھیے کہ انسانی فطرت بنیادی طور پر حلم اور اچھائی کی طرف مائل ہوتی ہے اور مغرب میں عمومی طور پر لوگ اس قسم کی لغویات کے حامی نہیں ہوتے۔ عام طور پر لوگ چاھے آپ کے نظریے سے اختلاف ہی کیوں نا رکھتے ہوں دل آزاری سے حد درجہ پرہیز کرتےہیں لیکن ہر دوسرے معاشرے کیطرح یہ خاموش اکثریت میں ہیں ۔ اسی وجہ سے معمولی ‘فرنج’ طبقات کو واضع ہونے کا موقع مل جاتا ہے جیسے ‘ساوتھ پارک’ کی طرح کے شو ہیں جن کا مقصد ہی ہر بات کا مذاق اڑانا ہے چاھے وہ کوئی فرد ہو یا مذہب، نظریہ ہو یا مقدس ہستی۔ اس کے خالقین میٹ اور ٹرے اپنے آپ کو ملحد گردانتے ہیں اورریٹنگس کے علاوہ انکا کوئی خدا نہیں۔ ان لوگوں سے کسی قسم کے سنجیدہ مکالمے کی توقع کرنا فضول ہے ۔ یہ لوگ اظہار رائے کی آزادی کے قوانین کافائدہ اٹھا کر لوگوں کی دل آزاری کرتے ہیں جس کی لپیٹ میں مسلمان، عیسائی، مورمن، ساینٹولوجسٹ، یہودی، ملحدین، سیاستدان، اکابرین وغیرہ سب آتے ہیں اورسب کو تضحیک و فضیحت، سب و شتم میں برابر کا حصہ ملتا ہے۔ یہ نا توکوئی یہودی و صیہونی سازش ہے اور نا کوئی کانسپیریسی پلاٹ، ہمیں حقیقت کو آنکھیں کھول کر دیکھنے اور اپنے تمام مسائل کے لئے’کانسپیریسی تھیوریز’ اور صیہونی سازشوں کو الزام دینے سے اجتناب کی اشد ضرورت ہے۔
جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے، اگر آپ ان افراد کی آواز کو دبانے یا سینسر کرنے کی بات کریں تو یہ آزادی رائے کی مغربی اقدار پر حملہ تصور ہوگا۔ جس طرح ہم مسلمانوں کو اپنی اقدار پیاری ہیں اسی طرح دین مغرب بھی اپنی بالادستی چاہتا ہے اور یہیں پر ان تہذیبی اقدار کا ٹکراو ہوتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین جیسے افراد کو مغربی ممالک اسلام دشمنی میں پناہ دیتے ہیں جبکہ ظاہری طور پرحقیقت یہ ہے (دلوں کے حال اللہ بہتر جانتا ہے) کہ انکو انکی اظہار رائے پر مبینہ عقوبت و ایذا رسانی ‘پرسیکیوشن’ سے بچنے کے لئے پناہ دی جاتی ہے ۔ اسی طرح جیسے دیگر ہزاروں افراد اسایلم یا سیاسی پناہ گزینی کی درخواست پر بیرون ملک جاتے ہیں۔ قادیانی بھی اسی رعائت کا فائدہ اٹھا کر اپنے آپ کو مظلوم اقلیت جتا کر ہمدردیاں اور ویزے سمیٹتے ہیں (میرے خیال میں قادیانی وہ اقلیت ہیں جن کی آنے والی نسلوں کو تنہا کر کے دعوت و تبلیغ کابیش قیمت موقع ضائع کیا گیا ورنہ مخلصانہ کوششوں سےانکو واپس دائرہ  اسلام میں لانا شائد اتنا مشکل نا ہوتا)۔ شاتم الرسول تھیو وین گوہ کے واصل جھنم کئے جانے جیسے واقعات آزادی مذہب و اظہار کی ہمدردی  کے ان مغربی جذبات کو تقویت دیتے ہیں اور اس زمن میں افراد، ادارے اور حکومتیں اظہار رائے کی آزادی کو بچانے کی کوششوں کے لئے مختلف اقدامات کرتے ہیں ۔ اس زمن میں کیر کے نہاد عود کاانگریزی مضمون پڑھنے کے قابل ہے.
تو اس طرح کے واقعات میں من الحیث المسلم ہمارا ردعمل کیا ہونا چاہیےِ؟ یہ ایک نہایت دقیق سوال ہے کیونکہ عملیت کی اشکال میں اختلاف انسانی فظرت کا خاصہ ہے۔ میری نہایت ناقص رائے میں جسے شائد کچھ لوگ ناقابل عمل بھی قرار دیں، اللہ سبحانہ تعالی میری غلطیوں سے درگذر فرمائے، ہمیں ایک حقیقی داعی کی طرح دعوت الی اللہ اور رائے عامہ کی بیداری پر کام کرنا پڑئے گا۔ جس طرح یہودیوں نے ہالوکاسٹ کو شجر ممنوعہ قرار دلوایا ہے، ہمیںمغربی آزادی رائے کی حدود کو مد نظر رکھتے ہوئے، عصمت انبیا و مقدس ہستیوں کے تقدس کو منوانا ہوگا جو کہ ایک دشوار اور محنت طلب کام ہے۔  مغربی تخیل میں ایک قتل عام’ہالوکاسٹ’ کو مقدس ہستی کے ‘محض کارٹون’ (نعوذباللہ)سے مقابلے کی کوئی نسبت نہیں لہذا اسے اس بات پر قائل کرنا کہ یہ مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے والی بات ہے ایک نہایت دشوار کام ہے۔ آپ چاھے جتنا تلملا لیں، ایک عام مغربی ذہن کو ان دونوں باتوں کو ایک طرح کی آزادی رائے سمجھنے میں اتفاق نا ہوگا کیونکہ ایک طرف آزادی اظہار و تحریر کی ایک شکل ہے اور دوسری طرف وسیع پیمانے پر نسل کشی کا دن منانا ، اسکا موازنہ مغربی سوچ میں آزادی اظہار کی کوئی مماثلت نہیں رکھتا۔ آپ اس بات کو کہنے پر راقم کو زندیق قرار دے سکتے ہیں لیکن اس سے زمینی حقائق تبدیل نہیں ہونگے۔
لیکن ایک داعی کا فرض ہے کہ وہ لوگوں کو اللہ سبحان تعالی کی طرف بلائے اور ہمارئے حسن سلوک سے اگر وہ مسلمان نا بھی ہوں تو کم از کم مسلمانوں کے متعلق اچھے خیالات رکھیں۔ یقین کریں جس دن ہماری دعوت و تبلیغ اور معاشرے میں دخول سے کسی فرد کو یہ احساس ہوا کہ اسکا یہ قبیح فعل اسکے مسلمان دوست کی دل آزاری کا سبب بنے گا، یہ تحریک اپنی موت آپ مرجائگی۔ پر امن طریقے سے اور احسن طور پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرواناہماری دینی غیرت اور حمیت کا تقاضا ہے لیکن خیال رہےکہ بات ہمیشہ ، حکمت و موعظت کے ساتھ پیش کرنا چاہئے جیسا کہ حکمت و موعظت ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ کا طرہ امتیاز رہی ہے ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی تبلیغ درج ذیل آیت کی جیتی جاگتی تصویر تھی۔
(اے نبی) آپ (لوگوں کو ) اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ دعوت دیجئے اور ان سے ایسے طریقے سے گفتگو کیجئے جو بہترین ہو۔
( سورة النحل : 16 ، آیت : 125 )
آپ اسے میری سادگی سے تعبیر کرسکتے ہیں لیکن مشاہدے اور مطالعے سے میرا یہی نتیجہ ہے کہ دارالکفر میں دعوت الی اللہ اوردارالسلام میں اقامت دین کی جدوجہد ان تمام مسائل کا مستقل حل ہے۔
نیز یہ کہ ہالوکاسٹ ایک انسانی المیہ تھا چاھے وہ کسی قوم، مذہب یامسلک کے لوگوں کے ساتھ ہوا ہو، اس کی حمائت کرنا مسلمان ہوتے ہوئے ہمیں قطعی زیب نہیں دیتا۔ آپ اسکی تاریخی حیثیت پر علمی بحث کرنے کی مکمل آزادی رکھتے ہیں لیکن اپنے دل سے یہ پوچھ لیجئے گا کہ بقول سخصے یہ کہیں بغض معاویہ رضی اللہ عنہ میں حب علی  رضی اللہ عنہ تو نہیں؟
اے ایمان والو! اﷲ کے لئے مضبوطی سے قائم رہتے ہوئے انصاف پر مبنی گواہی دینے والے ہو جاؤ اور کسی قوم کی سخت دشمنی (بھی) تمہیں اس بات پر برانگیختہ نہ کرے کہ تم (اس سے) عدل نہ کرو۔ عدل کیا کرو (المائدہ)
اللہ سبحان تعالی ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۃ حسنہ پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
حوالہ جات
Share

April 18, 2010

الرحيق المختوم کا مختصر تعارف

Filed under: مذہب — ابو عزام @ 12:49 am
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ سبحان تعالی نے تمام دنیا کے لئے رحمت بنا کر بھیجا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور بہت کچھ لکھنا باقی ہے لیکن صفي الرحمن المباركپوری کی کاوش، ‘الرحيق المختوم’ سیرت طیبہ پر ایک نہایت عمدہ اضافہ ہے اور ہر عاشق رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک انمول تحفہ۔
الرحيق المختوم کی کو حياة الرسول صلى الله عليه وسلم کے  موتمر العالم السلامی (مسلم ورلڈ لیگ) کے تحت  ١٩٧٩ میں منعقد ہونے والےعالمی مقابلہ میں پہلا انعام ملا۔ یہ کتاب اپنی سلاست و روانی کے ساتھ ساتھ تاریخی پس منظر کو سیرت طیبہ کے ساتھ پرو کر بیان کرنے کے حوالے سے بہترین علمی شاہکار کا درجہ رکھتی ہے۔ جدید قاری جو خصوصا مغربی کتابوں کے مدلل اور حوالہ جاتی انداز بیان سے محسور ہوتا ہے، ابو ہِشام کی الرحيق المختوم اس کے لئے بہترین زاد راہ ہے۔
یہ کتاب عربوں کی طویل تاریخ کوبہترین، مختصر اور پراثر پیراے میں بیان کرتے ہوے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے وقت سرزمین عرب کے حالات کا جس علمی انداز میں نقشہ کھینچتی ہے وہاں حالی کا مسدس چراغ دکھاتا معلوم ہوتا ہے۔ ابتدائیا عربی زبان میں لکھی گئی اس کتاب کا دنیا کی بیشتر زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے ۔ کم و بیش  ٥٥٠ صفحات کی یہ کتاب سیرت طیبہ کے ابتدائی ماخذات سے استفاذہ کرتے ہوئے ایک ایسا علمی اور تاریخی پس منظر کھینچتی ہے کہ جس میں ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک داعی حق، سپاہ گر،منصف، مقرر، شہری، جرنیل، سپاہی، الفقروفخری حکمران، شوہراور دیگر کئی بشری کیفیات میں دیکھتے ہیں۔ یہ کتاب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ہے، محسن انسانیت کی زندگی جس نے ہمیشہ اپنے آپ کو انا بشر مثلکم کہا اور اس کتاب کو پڑھنے سے ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں پیش آنے والے ان واقعات کا پتا چلتا ہے جو کہ مافوق الفطرت انداز بیاں سے لکھی گئی کتابوں میں نہیں ملتے۔ اگر آپ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو من الحیث النبی اور من الحیث البشر جاننا چاہتے ہیں، اگر آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کن صعوبتوں سے گذر کر یہ دین آپ تک پہنچا ہے تو سیرت طیبہ کی اس کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔
کسی غمگسار کی محنتوں کا یہ خوب میں نے صلہ دیا
کہ جو میرے غم میں گھلا کیا اسے میں نے دل سے بھلا دیا
جو جمال روئے حیات تھا، جو دلیل راہ نجات تھا
اسی راہبر کے نقوش پا کو مسافروں نے مٹا دیا
میں تیرے مزار کی جالیوں ہی کی مدحتوں میں مگن رہا
تیرے دشمنوں نے تیرے چمن میں خزاں کا جال بچھا دیا
تیرے حسن خلق کی اک رمق میری زندگی میں نہ مل سکی
میں اسی میں خوش ہوں کہ شہر کے دروبام کو تو سجا دیا
تیرے ثور و بدر کے باب کے میں ورق الٹ کے گزر گیا
مجھے صرف تیری حکایتوں کی روایتوں نے مزا دیا
کبھی اے عنایت کم نظر! تیرے دل میں یہ بھی کسک ہوئی
جو تبسم رخ زیست تھا اسے تیرے غم نے رلا دیا
عنایت علی خاں-
سیرت طیبہ کی کتابیں بحوالہ وکیپیڈیا
السيرة النبوية لابن إسحاق.
السيرة النبوية لابن هشام.
الروض الأنف في تفسير سيرة ابن هشام لأبي القاسم السهيلي.
تهذيب سيرة ابن هشام لعبد السلام هارون.
الدرر في اختصار المغازي والسير لابن عبد البر.
الشفا بتعريف حقوق المصطفى مذيلا بالحاشية المسماة مزيل الخفاء عن ألفاظ الشفاء للقاضي عياض.
قاعدة تتضمن ذكر ملابس النبي وسلاحه ودوابه لتقي الدين ابن تيمية.
الطب النبوي لابن القيم.
زاد المعاد في هدي خير العباد لابن القيم.
مختصر زاد المعاد لمحمد بن عبد الوهاب التميمي.
البداية والنهاية لأبو الفداء ابن كثير القرشي الدمشقي.
السيرة النبوية لأبو الفداء ابن كثير القرشي الدمشقي.
قصص الأنبياء لأبو الفداء ابن كثير القرشي الدمشقي.
ألفية العراقي في السيرة لأبو الفضل زين الدين العراقي.
سبل الهدى والرشاد في سيرة خير العباد وذكر فضائله وأعلام نبوته وأفعاله وأحواله في المبدأ والمعاد للصالح الشامي.
مختصر سيرة الرسول صلى الله عليه وسلم لمحمد بن عبد الوهاب التميمي.
نور اليقين في سيرة سيد المرسلين لمحمد الخضري.
الرحيق المختوم لصفي الرحمن المباركفوري.
محمد صلى الله عليه وسلم لمحمد رضا.
القول المبين في سيرة سيد المرسلين لمحمد الطيب النجار.
السيرة النبوية لعلي محمد الصلابي.
نبي الرحمة لمحمد مسعد ياقوت.
رجال حول الرسول لخالد محمد خالد.
حياة محمد، لمحمد حسنين هيكل
محمد..الإنسان الكامل، لمحمد علوي المالكي

Share

April 14, 2010

خط گدی نشینوں کا – علاج ریسیشن کا

Filed under: طنزومزاح,مذہب — ابو عزام @ 11:52 pm
خاکسار کی قسمت کے ستارے چمک اٹھے کہ آج جب ہم خطوط  دیکھنےکے لئے ڈاک کا ڈبہ کھولا تو بھارت سے ایک عرس کی دعوت تھی۔ چونکہ عرس کے لغوی معنی شادی کے ہوتے ہیں لحاظہ پہلا گمان تو یہ ہوا کہ آخرکار شعیب اور ثانیہ کی شادی کا دعوت نامہ موصول ہو ہی گیا، دیر آید درست آید، ‘حیدرآبادی کس طرح اپنے یاراں کو بھول سکتے جی’، سوچ کر ہم نے خط کھولنے کی سعی کی لیکن یہ کچھ مختلف لگا، ارے بھی یہ تو ‘درگاہ شریف اجمیر’ سے “صاحبزادہ سید امین الدین معینی خاص معلم اور گدی نشین آستانہ عالیہ حضور غریب نواز ‘زینت ہاوس اور حاجی محل’ درگاہ اجمیر شریف” کا نامہ تھا۔ کہاں یہ ناچیز اور کہاں محترم گدی نشین صاحبزادہ لمبے نام والے ۔۔۔ یہ تو نایجیریا کے شہزادے کی ای میل کے بعد دوسرا بڑا واقعہ ہے جو ہمیں کسی ‘صاحبزادے؛ نے خط لکھا۔ وہ نایجیریا کے شہزادے نے ابھی تک ہمارے اکاونٹ میں پیسے منتقل نہیں کراے مگر ہمیں یقین ہے بہت مصروف ہوگا، جیسے ہی فرصت ملے گی کرا دے گا۔ بہرطور، صاحبزادہ معینی کے خط کو کھولا اور عقیدت سے پڑھنا شروع کیا۔ حضرت نے فرمایا کہ ‘جنتی دروازہ‘  عاشقان کے لئے کھولا جائے گا، ‘اگر آپ یا آپ کے دوست و احباب بھی صحت، رہایش، شادی، اولاد، حمل، نیشنیلٹی، گرین کارڈ، ڈراونگ لائسنس، مقدمات، تجارت، بے روزگاری، بلا و جادو وغیرہ کے مسائل سے پریشان ہوں تو بذات خود شرکت کر کے فیضیاب ہو سکتے ہیں۔۔۔” واہ جناب، یعنی ہم نے خواہ مخواہ ڈرائونگ ٹیسٹ کی تیاری کی تھی ، پہلے پتا ہوتا تو آی این ایس کے بجائے معینی صاحب کو فون ملاتے اور ریکروٹر کے بجاے حضرت کو ریسیومے بھیجتے۔ انہوں نے اپنا بینک اکاونٹ بھی ہمیں ارسال کردیا تھا تاکہ سند رہے اور وقت ضرورت کام آے۔ مزید براں حضرت نے دیگر افراد سے چندہ وصولی کے لئے ایک کوپن بھی ارسال کردیا، آپکی دور اندیشی کی داد دینے کو جی چاھتا ہے۔ گدی نشینی کے لئے اگر کوئی کوالفیکیشن کا امتحان ہوتا تو آپ اس میں نمبر ایک آتے۔ ہم آپ سے یہ پوچھنے والے تھے کہ حضور، اگر گستاخی نہ ہو تو یہ بتائیں کہ ہمارا پتا آپ کے پاس کیسے آیا اور یہ کہ ایک قبر کے مجاور کے پاس اتنی رقم کہاں سے آئی کہ وہ لوگوں کو امریکہ اور برطانیہ خطوط بھیجا کرے لیکن سوچا کہ یہ حد ادب ہوگا اور کہیں حضرت ناراض نہ ہو جائیں۔ لیکن ہم نے ٹھان لئ ہے کہ صدر اوبامہ کو خط لکھیں گے اور یہ خط اس کے ساتھ بھیج کر کہیں گے دیکھیں صدر صاحب، ریسیشن اور کساد بازاری، جنگوں، صحت عامہ کے مسائل سے اب نبرد آزما ہونے کے لیے کوئ زیادہ محنت کی ضرورت نہیں۔ یہ رہا پتا، چیک ‘اجمیر شریف’ بھیجیں اور مسائل حل! امید ہے کہ وہ ہماری درخواست کو درخور اعتنا سمجھیں گے۔
نیز ‘جنتی دروازے’ پر بھی ہم پریشان تھے کہ پچھلے سال حج کے دوران ہمیں نہ تو مسجدالحرام میں کوئی جنتی دروازہ بتایا گیا نا ہی مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں۔ (کہیں معاذاللہ یہ ریاض الجنتہ کا متبادل تو نہیں پیش کیا جا رہا)؟

ہمارے آقا اور مولا صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فرمایا تھا
وعن أبي سعيد الخدري -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-:  لا تشد الرحال إلا إلى ثلاثة مساجد: المسجد الحرام، ومسجدي هذا، والمسجد الأقصى   متفق عليه.
تین مساجد کے علاوہ سفر کے لئے  کجاوئے نا کسے جائیں: مسجد الحرام ،یہ مسجد (مسجد النبوی)، مسجد الأقصیٰ .(١)
١۔صحیح بخاری؛ صحیح مسلم
ہمیں تو دن میں کئی دفعہ ایاک نعبد وایاک نستعین کا حکم ہے نیز اقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم  نے کہا کہ

لَا تَجعَلُوا بُيُوتَكُم قُبُورًا ولا تَجعَلُوا قَبرِي عِيدًا وَصَلُّوا على فإن صَلَاتَكُم تَبلُغُنِي حَيثُ كُنتُم
: تُم لوگ اپنے گھروں کو قبروں کی طرح مت بنانا اور نہ ہی میری قبر کو بار بار آنے والی جگہ بنانا اور میرے لیے رحمت کی دُعا کیا کرو بے شک تُم لوگ کہیں بھی ہو تُمہاری یہ رحمت کے دُعا مجھ تک پہنچتی ہے – سنن ابو داؤد /کتاب المناسک کی آخری حدیث ،

جناب نے انڈیا سےامریکہ تک خط بھیجنے کا قصد کیا تو ہم نے سوچا کہ کوئی دعوت و ارشاد کی اہم بات تو ہوگی لیکن اس دعوت نامے میں تو کچھ ایسا نظر نہیں آیا، شرک و بدعت کا خزینہ ہے بہرحال۔ آپ پڑھنے والے زرا روشنی ڈالیں کہ یہ کیا ماجرا ہے، ہم تو بڑے تذبذب کا شکار ہیں۔

Ajmair LetterAjmair Letter

Ajmair Letter

Share
« Newer Posts

Powered by WordPress