فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

April 26, 2013

عقلیت پرستی کا دور از حسن عسکری

Filed under: ادبیات,کتابیات,مذہب,مشاہدات — ابو عزام @ 9:58 pm

عقلیت پرستی کا دور، انتخاب از مجموعہ محمد حسن عسکری

حسن عسکری

عقلیت پرستی کی داستان یہ ہے. سترھویں صدی کے وسط تک لوگ یہ طے کر چکے تھے کہ انسان کی جدوجہد کا میدان یہ مادی کائنات ہے، اور انسان کا مقصد حیات تسخیر فطرت یا تسخیر کائنات ہونا چاہئے. بیکن نے مطالعہ فطرت کا طریقہ بھی مقرر کر دیا تھا. اب سوال یہ تھا کہ انسانی صلاحیتوں میں کونسی صلاحیت ایسی ہے جو تسخیر کائنات کے لئے زیادہ مفید ہو سکتی ہے. اس دور نے یہ فیصلہ کیا کہ انسان صرف عقل (یعنی عقل جزوی اور عقل معاش) پر بھروسہ کر سکتا ہے، کیونکہ یہی چیز سارے انسانوں میں مشترک ہے. عقل (جزوی) کا یہ اختصاص ظاہر کرنے کے لئے ان لوگوں نے لفظ (یونیورسل) استعمال کیا. اس لفظ کی وجہ سے اتنی غلط فہمیاں اور گمراہیاں پیدا ہوئی ہیں کہ ہمارے علماء کو اس کی نوعیت اچھی طرح ذہن میں رکھنی چاہئے. اس لفظ کے اصل معنی ہیں. “عالم گیر” یا “کائنات گیر”مگر یہاں عالم کے معنی مادی کائنات نہیں ہیں، بلکہ وہ مفہوم ہے جو “اٹھارہ ہزار عوالم” کے فقرے میں آتا ہے. ہمارے دینی علوم میں دراصل اس مفہوم کو ادا کرنے کے لئے دو کافظ استعمال ہوتے ہیں…”کامل” (جیسے “انسان کامل”) اور “کلی” (جیسے “عقل کلی”) مگرفی الحال مغرب “عوالم” کا مطلب نہیں جانتا’ اس کے ذہن میں “عالم” کا مطلب صرف مادی کائنات اور اس کے اجزاء ہیں. چناچہ سترھویں صدی سے مغرب میں (یونیورسل) کا لفظ جنرل (یعنی عمومی) کے معنوں میں استعمال ہو رہا ہے. جو چیز “عمومی” ہوتی ہے وہ انفرادیت اور جزویت ہی کے دائرے میں رہتی ہے “کامل” اور “کلی” نہیں ہوتی. مگر مغرب اس امتیاز سے واقف نہیں.

یہ تو جملہ معترضہ تھا. غرض ‘ عقلیت پرستی کے دور میں یہ بات تسلیم کرلی گئی کہ انسان کی رہنمائی بس عقل (جزوی) کر سکتی ہے.

اس دور کے سب سے بڑے “امام” دوہیں. ایک تو فرانس کا فلسفی اور ریاضی دان دے کارت اور دوسرا انگلستان کا سائنسدان نیوٹن.

دیکارت یوں تو رومن کیتھلک پادری تھا’ اور اپنی تحریروں کے ذریعے لوگوں کے شکوک و شبہات دور کر کے اپنے دین کی خدمت کرنا چاہتا تھا. لیکن نتیجہ الٹا نکلا’ مغرب کے ذہن کو مسخ کرنے کی ذمہ داری جتنی اس پر ہے شاید اتنی کسی ایک فرد پر نہیں’ فرانس کے ایک رومن کیتھلک مصنف نے تو یہاں تک کہا ہے کہ فرانس نے خدا کے خلاف جو سب سے بڑا گناہ کیا ہے وہ یہ ہے کہ دیکارت کوپیدا کیا.
اب تک تو یہ بحث چلی آرہی تھی کہ حقیقت روح میں ہے یا مادے میں ‘بعض لوگ کہتے تھے کہ روح حقیقی ہے ‘مادہ غیر حقیقی. بعض لوگ کہتے تھے کہ مادہ بھی حقیقت رکھتا ہے مگر کھلی طور پر، کچھ لوگ دبے لفظوں میں یہ بھی کہتے ہیں کہ بس مادہ ہی حقیت ہے. اس سارے جھگڑے کا دیکارت نے یہ حل نکالا کہ روح اور مادہ دونوں حقیقی ہیں’ مگر ایک دوسرے سے بلکل الگ ہیں اور اپنی اپنی جگہ قائم ہیں. چناچہ اس نے روح اور مادے کو ‘ انسان کی روح اور جسم کے دو الگ الگ خانوں میں بانٹ دیا جو ایک دوسرے سے آزاد اور خود مختار ہیں.

یہ نظریہ مغربی ذہن میں اس طرح بیٹھا ہے کہ تین سو سال سے یہ تفریق اسی طرح چلی جا رہی ہے. روح اور جسم’ روح اور مادے کے ارتباط کے مسلہ آج تک حل نہیں ہوا. مغرب کے زیادہ تر مفکر جسم اور مادے میں اٹک کے رہ گۓ’ اس سے اوپر نہیں جا سکتے کچھ مفکر روح میں لٹک گۓ تو نیچے نہیں آ سکتے. دیکارت کے فلسفے کا سب سے خوفناک نتیجہ یہ ہوا ہے کہ مغرب “روح” کے معنی ہی بھول گیا’ اور “ذہن” (یا “نفس”) کو روح سمجھنےلگا.

یہ گڑبڑ دراصل یونانی فلسفے میں بھی موجود تھی. ارسطو وغیرہ یونانی فلسفی انسان کی تعریف دو طرح کرتے ہیں. انسان کو یا تو “معاشرتی حیوان” کہتے ہیں یا “عقلی حیوان” (ان فقروں سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ یونانی فلسفے پر معاشرتی نقطہ نظر اور عقل جزوی کس حد تک غالب تھی). دیکارت کے ہم عصر فرانسیسی مفکر پاسکال نے انسان کو “سوچنے والا سرکنڈا” بتایا ہے. یعنی انسان کے جسمانی وجود کے جانور کی سطح سے بھی نیچے اتار دیا ہے. (مغرب کی ساری جسم پروری کے باوجود مغربی فکر میں جسمانیت سے گھبرانے اور اسے حقیر سمجھنے کا رجحان بھی خاصا قوی ہے.)

اسی طرح دیکارت نے انسانی وجود کی تعریف ایک مشہور لاطینی فقرے میں یوں کی ہے.

Cogito ergo sum  (I think therefore i am )

“میں سوچتا ہوں” اس لئے میں ہوں”. گویا اس کےنزدیک وجود کا انحصار ذہن پر ہے. یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر آدمی نہ سوچے تو اس کا وجود رہے گا یانہیں. خود دیکارت سے ایک آدمی نے پوچھا تھا کہ “میرے کتے کے بارے میں آپ کی کیا راۓ ہے ؟”

غرض ‘ جسم اور روح’ مادے اور روح کو ایک دوسرے سے الگ کرکے دیکارت نے مغربی فکر کو ایسی الجھن میں ڈال دیا ہے جس سے باہر نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیںآتی’ اور مغربی ذہن ہر مسئلے پر روح اور مادے کے تقابل یا تضاد ہی کے لحاظ سے غور کرتا ہے.

دیکارت کے ہم عصر پاسکال نے ایک دوسرے قسم کی کشمکش مغربی ذہن میں پیدا کی ہے. اب تک تو لڑائی روح اور جسم میں ہی تھی. چونکہ مغرب “روح” کے معنی بھولنے لگا تھا’ اس لئے کہنا چاہئے کہ ذہن (یا نفس) اور جسم میں لڑائی تھی. پاسکال نے اعلان کیا کہ “دل کے پاس بھی ایسی منطق ہے جسے عقل نہیں سمجھ سکتی،”

The heart has reasons of its own which the reason does not understand

یہاں لفظ “دل” کے معنی خاص طور سے سمجھہ لینے چاہیں’ نہ صرف اسلامی علوم میں بلکہ سارے مشرقی ادیان میں “دل” سے مراد ہے “عقلی کلی”. علاوہ ازیں ‘ ہمارے یہاں “نفس” روح اور جسم کے درمیان کی چیز ہے. اس لئے “نفس” میں عقل جزوی بھی شامل ہے اور ہوا وہوس بھی. پاسکال نے جس “دل” کا ذکر کیا ہے اور جسے “ذہن” مقابل رکھا ہے. اس سے مراد “جذبات” ہیں. اس سے بتیجھ یہ نکلتا ہے کہ پاسکال نے “دل” اور “عقل” یا “ذہن” کے درمیان جنگ چھیڑ دی’ اور مغربی فکر اور ادب میں اس جنگ کی شدّت بڑھتی ہی چلی گئی ہے. ظاہر ہے کہ اس جنگ سے آدمی کو جذباتی تکلیف پھنچتی ہے. بیسویں صدی میں اس تکلیف کا نام “کرب” رکھا گیا ہے. (اس ضمن میں جرمن زبان کا لفظ اینگسٹ بہت مشھور ہوا ہے. جس کے لئے انگریزی میں لفظ اینگش ہے). ہمارے زمانے میں بہت سے مغربی مفکر اس “کرب” کو انسان کی معراج سمجھتے ہیں. دیکارت کہتا تھا کہ انسان کو وجود سوچنے سے حاصل ہوتا ہے. آج کل کے بہت سے مفکر کہتے ہیں کہ انسان کو وجود “کرب” سے حاصل ہوتا ہے. بلکہ بعض مفکر تو اس “کرب” اور مذہب کو ہم معنی سمجھتےہیں اور اپنی دینیات کی بنیاد اسی پر رکھتے ہیں.

عقلیت پرستی کے دور کا دوسرا بڑا امام نیوٹن ہے. سائنس میں اس کا سب سے بڑا کارنامہ “کشش ثقل کے قانون” کی دریافت ہے. لیکن مغربی ذہن پر اس کا اثر بہت گہرا پڑا ہے. یہ قانون معلوم کر کے اس نے گویا یہ دکھا دیا کہ کائنات کا نظام چند واضح قوانین کے ذریعے چل رہا ہے. اگر انسان اپنی عقل (جزوی) کی مدد سے یہ قوانین دریافت کرلے تو کائنات اور فطرت پر بورا قابو حاصل کر سکتا ہے. قوانین دریافت کرنے میں وقت لگے گا، لیکن انسان کو یہ امید رکھنی چاہئے کہ ایک دن فطرت کو فتح کرلے گا.

سائنس نیوٹن سے بہت آگے چلا گیا اور اس کا تصور کائنات رد کردیا گیا’ مگر اس نے جو ذہنیت پیدا کی تھی وہ بڑھتی چلی گئی ہے.

نیوٹن کی نظرمیں کائنات اور فطرت ایک بے جان مشین تھی’ اور انسان ایک انجینئر کی طرح تھا. کائنات کے اس نظرئیے کو “میکانکیت” کہتے ہیں. انیسویں صدی میں بعض مفکروں نے اس نظرئیے کو رد کر دیا’ اور یہ ثابت کیا کہ کائنات اور فطرت بھی انسان کی طرح جان رکھتی ہے’ اور نمو اس کی بنیادی خصوصیت ہے’ اور کائنات خود اپنی توانائی سے زندہ ہے. اس نظریے کو “نامیت” کہتے ہیں. یہ ایک اور جھگڑا ہے جو تقریبا دو سو سال سے مغرب کے فلسفی اور سائنس داں دو حریف جماعتوں میں صف آرا چلے آ رہے ہیں. ایک گروہ میکانیت کا قائل ہے’ دوسرا نامیت کا.

عقلیت پرستی کے دور میں ہی نفسیات کا آغاز ہوا. اس سے پہلے نفسیات کوئی الگ علم نہیں تھا’ بلکہ فلسفے ہی کا حصّہ تھا. ابن رشد نے تو علم النفس کو طبیعات کے ماتحت رکھا ہے.نفسیات کو فلسفے سے الگ کرنے کا کام سترھویں صدی کے دوسرے حصّے میں انگریز مفکر لاک نے سر انجام دیا’ اور اس کے نظریات میں اضافہ اٹھارویں صدی کے انگریز مفکر ہارٹلے نے کیا. نیوٹن نے کائنات کو مشین سمجھا تھا. ان دو مفکروں نے انسانی ذہن کو بھی مشین سمجھا. ان کا خیال ہے کہ ذہن بجاۓ خود کوئی چیز نہیں’ خارجی اشیاء انسان کے اعصاب پر اثر انداز ہوتی ہیں (مثلآ کوئی چیز دیکھی یا سونگھی یا چھوئی) تو اعصاب میں ارتعاش پیدا ہوتا ہے. یہ ارتعاش دماغ کے مرکز میں پہنچ کر تصویر کی شکل میں تبدیل ہو جاتا ہے’ اور پھر تصویر خیال بن جاتی ہے. اس طرح خارجی اشیاء کے عمل سے ذہن پیدا ہوتا ہے.

اس نظرئیے کا جواب اٹھارویں صدی میں پادری بارکلے نے دیا. اس کا خیال ہے کہ خارجی اشیاء کو وجود حاصل نہیں’ بلکہ ذہن خارجی اشیاء کوپیدا کرتا ہے. جب کوئی آدمی کہتاہے کہ میں نے پھول دیکھا’ تو اس کے پاس پھول کے وجود کا کوئی ثبوت نہیں ہوتا. یہ تو بس ایک ذہنی ادراک ہے’ اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ ذہن خارجی اشیاء کو پیدا کرتا ہے. پادری بارکلے نے انسانی ذہن کے نمونے پر خدا کا بھی ذہنی تصور کیا تھا (نعوذ باللہ). اس نظرئیے کو “مثالیت” کہتے ہیں.

انسانی ذہن کے یہ دونوں نظرئیے دراصل روح اور مادے کے اسی تقابل کا نتیجہ ہیں جو دیکارت سے شروع ہوا تھا’ اسی لئے ان دونوں کے درمیان کوئی مصالحت نہیں ہو سکتی.

اٹھارویں صدی کا انگریز فلسفی ہیوم ایک معاملے میں بڑی اہمیت رکھتا ہے اس نے کہا ہے کہ ہر ایسے لفظ کو شک کی نظر سے دیکھنا چاہئے جو کسی ایسی چیز پر دلالت کرتا ہو جسے حسی تجربے میں نہ لیا جا سکے. یعنی وہ چاہتا تھا کہ انسانی زبان و بیان سے ایسے لفظ بھی خارج کردیۓ جائیں جن کا تعلق روحانیت سے ہوں. یہ رجحان آگے چل کر انیسویں صدی میں فرانس کے فلسفی کونت کے “نظریہ ثبوتیت” کی شکل میں ظاہر ہوا، اور بیسویں صدی میں انگریزوں کے “منطقی ثبوتیت” کی شکل میں. ان فلسفوں کا بیان آگےہوگا .

اٹھارویں صدی میں ایک نئی قسم کا مذہب نمودار ہوا جو دراصل دہریت کی ایک شکل ہے. اس کا نام (خدا شناسی) رکھا گیا ہے. اس دور کے لوگ کہتے تھے کہ عقل (جزوی) انسان کا خاص جوہر ہے’ اور یہ چیز ہر زمانے او ہر جگہ کے انسانوں میں مشترک ہے’ اور ہر جگہ ایک ہی کام کرتی ہے.چناچہ خدا کو پہچاننے کے لئے وحی پر تکیہ کرنے کی ضرورت نہیں’ عقل (جزوی) کی مدد سے بھی خدا تک پہنچ سکتے ہیں. عقل کے ذریعے چند ایسے اصول معلوم کئے جا سکتے ہیں جو سارے مذاہب میں مشترک ہوں. ان اصولوں کا مجموعہ ہی اصل مذہب ہوگا.

جب انگریز ہمارے یہاں آئے تو ان کے اثر سے یہ رجحان ہمارے برصغیر میں بھی پہنچا.

١٨٥٧، کی جنگ آزادی کے بعد “خدا شناسی” کے جو میلے انگریزوں نے کراۓ ان کے پیچھے یہی رجحان تھا. ہندو اس سے بہت متاثر ہوئے’ اور انیسویں صدی کے شروع میں راجہ رام موہن راۓ نے جو “برہمو سماج” کی بنیاد ڈالی وہ اسی اثر کا نتیجہ تھا.

مسلمان بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے. ١٨٣٦، میں کمبل پوش نے یورپ کا سفر کیا تھا اور دس سال بعد اپنا سفر نامہ لکھا. ان کی کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ یورپ جانے سے پہلے ہی وہ “خدا شناسی” سے متاثر ہو چکے تھے. اس کا نام انہوں نے “سلیمانی مذہب” رکھا ہے. اسی کے اثرات اردو شاعر غالب کے یہاں بھی نظر آتے ہیں.

عقلیت پرستی کے دور کی ایک مرکزی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے انسانی زندگی اور انسانی فکر میں سب سے اونچی جگہ معاشرے کو دی تھی.ان کا خیال تھا کہ فرد کو اپنے ہر فعل اور قول میں معاشرے کا پابند ہونا چاہئے. یہ لوگ مذہب کو بھی صرف اسی حد تک قبول کرتے تھے جس حد تک کہ مذہب معاشرے کے انضباط میں معاون ہو سکتا ہے. غرض معاشرے کو بلکل خدا کی حیثیت دے دی گئی تھی نعوذباللہ..اس کے خلاف رد عمل انیسویں صدی میں ہوا’ اور معاشرے کے بجاۓ فرد کو اہمیت دی گئی. بیسویں صدی میں اشتراکیت کے زیر اثر بعض لوگ معاشرے کو پھر خدا ماننے لگے.

مغربی فکر میں جس طرح روح اور مادے ‘ ذہن اور جسم’ عقل اور جذبے کے درمیان مسلسل کشمکش جاری ہے’ اسی طرح معاشرے اور فرد کی کشمکش بھی بنیادی حیثیت رکھتی ہے’ اور اس کا بھی کوئی حل نہیں ملتا. مغرب میں جو معاشرتی انتشار پھیلا ہوا ہے اور روز بروز بڑھتا ہی جاتا ہے اس کی جڑ یہی تضاد ہے.

ان تصریحات سے پتا چلتا ہے کہ مغرب کا ذہن کسی طرح کی وحدت تک پہنچ ہی نہیں سکتا’ اور دوئی ‘ تضاد اور کثرت میں پھنس کے رہ گیا ہے. وحدت کا اصول قائم کرنے کی جتنی کوششیں ہوئی ہیں وہ کامیاب نہیں ہو سکیں’ اس کی اصلی وجہ یہ ہے کہ مغرب مادے میں وحدت ڈھونڈھتا ہے جہاں کثرت اور شکست وریخت کے سوا کچھ نہیں مل سکتا..

مغرب چاہے معاشرے کو اوپر رکھے یا فرد’ دونوں نظریوں میں ایک بات مشترک ہے ………. انسان پرستی. بیسویں صدی میں بعض مفکر اور ادیب ایسے بھی ہیں جو انسان کو حقیر سمجھتے ہیں یا انسان سے نفرت کرتے ہیں’ لیکن ان کی فکر کا مرکز بھی انسان ہی ہے…

Share

April 21, 2013

محض ایک نظریہ؟ چند غلط العوام اصطلاحات اور انکے درست سائنسی معنی

Filed under: تحقیق,سائینس و ٹیکنالوجی,مشاہدات — ابو عزام @ 6:31 am

 نظریہ یا تھیوری کا لفظ ان غلط العوام  سائنسی اصطلاحات میں سے ایک ہے جو ہماری روز مرہ کی زبان اور اردو نثر میں خاص طور پر مستعمل ہیں۔ لوگوں کا غالب گمان یہ ہے کہ نظریہ ایک نا پختہ بچہ ہوتا ہےجو بڑا ہو کر قانون بن جاتا ہے۔ لہذا شماریاتی علوم کے لفظ معتبر یا سگنفکنٹ سے لیکرآرگینک،  فطری یا نیچرل، اور نظریے سے لیکر ماڈل یا نمونے تک بے شمار ایسی سائنسی اصطلاحات ہیں جنکی معنویت عوام الناس اور سائنسی حلقہ جات میں بلکل مختلف ہے۔  مثال کے طور پر اگریہ کہا جاۓ کے پاکستان کی آدھی آبادی کا آئی کیو اوسط درجے سے نیچے ہے تو شماریات کے ماہر کے لیے یہ اوسط کی  بنیادی تعریف ہونے کے باعث اظہر من الشمس حقیقت ہے لیکن ایک عام فرد کے لئے یہی حقیقت نہایت حیرت انگیز بات ہوتی ہے ۔ بہرطور، مفروضہ، نظریہ، قانون وغیرہ روز مرّہ استعمال کی وہ اصطلاحات ہیں، جن کو غلط العوام کہنا کچھ بے جا نا ہوگا. اب سائنسدانوں کا تو یہ خیال ہے ان تمام اصطلاحات کے بجاۓ لوگ ماڈل یا نمونے کی اصطلاح استعمال کریں تو شائد افاقہ ہو۔

theory

پہلی اصطلاح،  نظریہ

نظریہ بیک وقت ایک عام استعمال ہونے والا لفظ اور ایک پیچیدہ سائنسی اصطلاح ہے۔ اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے کیمیادان،  مائیکل فیئر نے نظریے یا تھیوری کو ایک سائنسی اور تکنیکی اصطلاح قرار دیتے ہوے کہا کہ صرف اس وجہ سے کہ عام لوگ اس اصطلاح کے بارے میں نہیں جانتے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم سائنسدان اسے استعمال کرنا ترک کردیں.اس غلط فہمی کا تو یہ ہے کہ ہمیں بہتر سائنسی تعلیم کی ضرورت ہے۔

عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں میں انسانی ہاتھ کی موجودگی اور نظریہ ارتقاء کے منکرین ان دونوں چیزوں کی سائنسی توجیہ کو محض ایک نظریہ قرار دے کر رد کر دیتے ہیں.موجودہ سائنسی تحقیق کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیوں میں انسانی آلودگی کے اثرات اور نظریہ ارتقاء،  دونوں نظریات کے لئے واضح سائنسی شواہد موجود ہیں۔ اس انکار کی ایک وجہ یہ ہے کہ لفظ نظریہ کی سائنسی اصطلاح اور اسکی عام فہم معنویت میں شدید اختلاف ہے. ایک سائنسی نظریہ کسی مشاہدے کی ایک ایسی سائنسی توجیہ ہوتا ہے جس کو بارہا کیے جانے والے تجربات سے جانچا اور پرکھا جا سکتا ہے نیز اس کے درست ہونے کے واضح شواہد موجود ہوتے ہیں مثلا درجہ حرارت کا مستقل بڑھنا یا فاسلز کی موجودگی۔ لیکن اگر کسی عام فرد سے نظریے کی تعریف پوچھی جاۓ تو وہ اسے کسی کی ذاتی راۓ پر محمول کریگا، جسکی اکثر و بیشتر کوئی تجرباتی اور مشاہداتی مثال موجود نہیں ہوتی، اور اسی بنا پر اکثر یہ سوال ہوتا ہے کہ قانون اور نظریہ  میں کیا فرق ہے؟

دوسری اصطلاح، قانون۔ عام طور پر قانون کو نظریے کی انتہائ شکل سمجھا جاتا ہے اور اس سے لوگوں کی اکثر یہ مراد ہوتی ہے کہ قانون کبھی غلط نہیں ہوتا۔ اس سے پس پردہ یہ بھی کہا جارہا ہوتا ہے کہ اگر یہ نظریہ واقعی درست ہوتا تو قانون ہوتا۔

حقیقت یہ ہے کہ سائنسی قوانین ، اشیا کی کی عام حالت میں عمومی طور پرپائ جانے والی روش کی نشاندہی کرتے ہیں ۔یہ جملہ کچھ پیچیدہ سا ہے لہذا ہم مثالوں سے سمجھاتے ہیں۔ قوانین دراصل یہ بتاتے ہیں کہ جب سے کسی خاص مشاہدے کی بنیاد پر ایک ریاضیاتی نمونے کو بنایا گیا ہے، اور جس نظام پر اسے لاگو کیا گیا ہے، دونوں کو بلکل اسی روش پر موافق پایا گیا ہے۔ نیز اس قانون میں کوئ رعائت نہیں ہے۔  اب اس کے لئے کچھ مثالوں کو دیکھتے چلیں۔

نیوٹن کے حرکت کے قوانین نہائت مشہور و معروف ہیں اور ان کا اطلاق طبعیات کے بیشتر شعبوں میں لامحالہ کیا جاتا ہے۔ میکرو یا بڑی اشیا پر عمدہ طریقے سے انکے اطلاق کے باوجود کوانٹم مکینکس اور ذرہ جاتی سطح پر یہ قوانین پورے نہیں اترتے۔  اسکے باوجود بھی ان قوانین کو ثقہ قانون کا درجہ حاصل ہے کیونکہ  یہ ماڈل  بڑی سطح پر اشیا کی صحیح طرح نمائندگی کرتا ہے۔

کشش ثقل اور اضافیت کا نظریہ ایسے نظریات کی عام مثالیں ہیں جنہیں ہم تجربہ گاہ میں ثابت کر سکتے ہیں۔  سمجھنے کی بات یہ ہے کہ لفظ نظریہ کوئ تضیک نہیں اور نا کوئ نظریہ بڑا ہو کر قانون بن جاتا ہے۔ ان دونوں کا محض دائرہ کار تھوڑا مختلف ہے۔

نظریہ کسی طبعی، کیمیائ، حیاتیاتی و دیگر سائنسی امور کی وضاحت کرتا ہے اور ‘کیوں’ کی وضاحت کے لئے ایک ذریعہ فراہم کرتا ہے۔ اس کے برخلاف قانون اس وضاحت سے بحث نہیں کرنا مثلا اشیا کی باہمی کشش کے نیوٹن کے قانون پر غور کریں۔ ایک  طبعی روِیہ کی ماڈل کے زریعے پیشن گوئی کرنے کے لئے نیوٹن کے اس قانون کو استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن لیکن کمیت میں یہ کشش کیوں آئی، اس کے بارے میں اس قانون کوئ رہنمائ نہیں کرتا اور ہمیں آج کی تحقیق بتاتی ہے کہ کشش ثقل کے بارے میں ہماری ابتدائ سمجھ بوجھ نہایت ناقص ہے۔

لیکن کیا اس سے نیوٹن کے قوانین تبدیل ہو جائیں گے؟ اگر ہمیں کوئ اور ماڈل نیوٹن کے قوانین سے بہتر نتائج دے تو یقینا اس ماڈل کا استعمال شروع کردیا جاے گا لیکن فی الحال یہ قوانین بیشتر روز مرہ کی تکنیکی و انجینئرنگ کی ضروریات کے لئے کافی ہیں۔

تیسری اصطلاح، مفروضہ

جامعہ ساؤتھہ ویسٹرن لوزیانہ کے طبیعات دان ایٹ ایلن کا خیال ہے کہ چونکہ عوام الناس مفروضہ، قانون اور نظریہ جیسےاصطلاحات کی معنویت کا نہایت بے دردی سے قتل عام کرتے ہیں، لہٰذا ان کا استعمال ختم کردینا چاہیے. ایلن کا کہنا ہے کہ اب ان الفاظ کو بچانے کی کوشش کرنا اب ایک سعی لاحاصل ہی ہے. سائنسی طور پر ایک مفروضے کی تعریف اس طرح کی جاسکتی ہے کہ وہ  کسی عمل کی ایسی  توجیح پیش کرتا ہے ہے جس کو سائنسی بنیادوں پر جانچہ یا پرکھا جا سکے ، لیکن اگر کسی عام آدمی سے پوچھا جاۓ تو اس کے خیال میں سائنسی مفروضہ محض ایک علمی قیاس یا اٹکل پچو کا دوسرا نام ہو گا جو کہ درست نہیں۔

کسی طبعی عمل کی پیشن گوئ اور اسکو جانچنے کے لئے سائنسدان مختلف اقسام کے ریاضیاتی  سائینسی ماڈل یا نمونے بناتے ہیں، ان کا عشر عشیر ایک مساوات ہوتی ہے مثلا

اس مساوات کو پھر تجربے کی کسوٹی پر رکھا جاتا ہے اور جو ماڈل بہتر طریقے سے تمام عوامل کی نشاندہی کرتا ہو، اسے نظریے کے طور پر مان لیا جاتا ہے اور باقی تمام نمونہ جات یا مفروضوں کو رد کردیا جاتا ہے۔ آکم ریزر بھی اسی عمل کی ایک مثال ہے۔

چوتھی اصطلاح، ماڈل یا نمونہ۔

اب نظریہ ہی محض ایک ایسی سائنسی اصطلاح نہیں جو کہ وسیع طور پر غلط سمجھی جاتی ہو، لفظ نمونہ یا ماڈل بھی اسی پریشانی کا شکار ہے. موٹر گاڑیوں اور فیشن میں استعمال ہونے والی یہ زود زبان اصطلاح مختلف سائنسی میدانوں میں بھی مختلف معنی  رکھتی ہے. مثلا، ایک موسمیاتی نمونہ، ریاضاتی نمونے سے خاصا مختلف ہوتا ہے۔ جان ہاکس جو کہ جامعہ وسکونسن میڈیسن میں ایک ماہر بشریات ہیں ، کہتے ہیں کہ طبیعات کے اسٹینڈرڈ ماڈل کی بنا پر اس میدان میں خاصا انضباط نظر آتا ہے لیکن علم جینیات اورعلم ارتقاء میں ماڈل کی یہی اصطلاح مختلف معنوں میں مستعمل ہے۔

پانچویں اصطلاح۔ سائینسی شکی یا اسکیپٹک

ماحولیاتی تبدیلیوں کا انکار کرنے والوں کو نشریاتی میڈیا اکثر ماحولیاتی ماہر تشکیک دان قراردیتا ہیں لیکن مائیکل ہانٹ جو کہ پینسلوینیا اسٹیٹ یونیورسٹی کے ماحولیاتی سائنسدان ہیں، ان کے مطابق یہ ایسے ہی لا علم لوگوں کو زبردستی  سر چڑھانے کے  مترادف ہے۔ تشکیک عام فہم معبود عام سائنسی اقادات کو بلاوجہ اعتراض سے الجھانا تشکیک نہیں بلکہ میں نا مانوں کا دوسرا نام ہے۔ یہ غیر حقیقی تشکیک کا دعوی کرنے والے درحقیقت سائنسی مشاہدات اور تجربات کو ماننے کی جرّات نہیں رکھتے جبکہ حقیقی تحقیق کرنے والے سائنسی مشاہدات اور تجربات کوحقیقت گردانتے ہیں چاہے وہ انکے نظریات کے خلاف ہی کیوں نا ہو۔ تاہم سائنسدانوں کو ہمیشہ تشکیک کا متقاضی ہونا چاہیے کالس سیگن نے حقیقی تشکیک کو سائنس کی خود درستگی کی بنیادی وجہ بتایا ہے.

چھٹی اصطلاح، فطرت یا تربیت۔

یہ عام طور پر استعمال ہونے والی اصطلاح ، فطرت بھی سائنسدانوں کے لیے دردسر کا باعث ہے، کیونکہ فطرت کا لفظ عام زبان میں استعمال ہو تو ایک نہایت پیچیدہ سائنسی عمل کو آسانی کے ساتھ بیان کرنے کی کوشش میں اسکی معنویت کو کھو دیتا ہے.ڈین کروور جو کے جامعہ مشیگن میں ارتقائی حیاتیات دان ہیں انکا کہنا ہے یہ ایک ایسی ہی غلط استعمال ہونے والی اصطلاحات میں سے ایک ہے جن  کا سادہ لوح استعمال انکے اصل معنی کھو دیتا ہے۔

موجودہ ارتقائی حیاتیات دانوں کے لیے اس اصطلاح کا غلط استمال باعث تشویش ہے، آباواجداد کے جینز انسانی زندگی  پر واضح طور پر اثر انداز ہوتے ہیں. لیکن اسی طرح ایپی جینیٹک تبدیلیوں کا بھی انسانی زندگی پر بھی خاص اثر ہوتا ہے کیونکہ  یہ جنیاتی تبدیلیاں موروثی ہونے کے ساتھہ ساتھہ ماحولیاتی اثرات کی بناء پر بھی اثر پذیر ہو سکتی ہے۔  انسانی طرز زندگی رویے اور دیگر تبدیلیوں کا انحصار ماحولیات، جینیات، کیمیائی تبدیلیوں اور کئی غیر متوقع عوامل پر ہے جن کا مکمل ادراک  ایک نہایت مشکل کام ہے۔

ساتویں اصطلاح، سگنیفکنٹ یا معتبر۔

اسی طرح کا ایک اور غلط العوام اصطلاح شماریاتی سائنس کا لفظ معتبر ہے، یہ ایک خاصا وسیع الستعمال اور گنجلک لفظ ہے، کسی اعداد و شمار معتبر ہونے سے آپکی کیا مراد ہے، مائکل اوبرائن، جو جامعہ مزیوری کے سائنس اور آرٹس کالج کے سربراہ ہیں،  یہ سوال پوچھتے نظر آتے ہیں۔  کیا آپکی مراد شماریاتی طور پر معتبر ہے یا محض رائے کی اہمیت،  شماریات میں کسی چیز کے معتبر ہونے کے معنی یہ ہیں کہ اس واقعے کا اتفاقی طور پر وقوع پذیر ہونے کا احتمال نہایت کم ہو. لیکن ضروری نہیں کہ یہ کسی شہ کی علت کا سبب بھی بنے۔ لیکن عمومی استعمال کے وقت سیمپل اسپیس اور علت کی سمت کا خیال کم ہی رکھا جاتا ہے۔

آٹھویں اصطلاح، قدرتی،

قدرتی یا نباتیاتی کا لفظ اور اسکا غلط استعمال بھی سائنسدانوں کو، بالخصوص حیاتیات کے ماہرین کو بہت پریشان کرتا ہے۔ اسکی وجہ عام ذخیرہ الفاظ میں قدرتی کا خودبخود بننے والا صحت مندانہ رجحان ہے ۔ اس لفظ کے استعمال سے فوری طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ ہر مصنوعی شے صحت کے لیے مضر ہے اور ہر قدرتی شے صحت کے لیے لازمی طور پر اچھی ہوگی جو کہ سائنسی طور پر درست نہیں۔ 

 مثلا یورینیم ایک قدرتی عنصر ہے لیکن اس کے استعمال سے آپ کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے. اسی طرح نباتیاتی یا آرگینک لفظ کا استعمال بھی اسی طرح کی غیر متوقع مشکلات کا باعث ہے. آرگینک سے سائنسدانوں کی مراد کاربن والے مرکبات ہوتے ہیں، لیکن عوام اس اصطلاح کو اب کیڑے مار دواؤں سے پاک آڑو اور کپاس کی اعلیٰ قسم والی چادروں کے لیے بھی استعمال کرنے لگے ہیں، جو کہ اس لفظ کے حقیقی مطلب کے برعکس ہے ۔ سائنسدان اس تمام غلط فہمی کا سبب اسکول اور کالج میں سائنسی تعلیم کی کمی کو ٹھہراتے ہیں اس اشتباہ  اور سو فہمی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عمومی طور پر لوگ کم سائنسی تعلیم کی بنا پر اصطلاحات کو درست طور نہیں سمجھتے. اسی طرح سے عام الفاظ کے دوہری معنی ہونے کی وجہ سے بھی سائنسی اصطلاحات کی فراست کا صحیح احاطہ نہیں کر ہو پاتا۔  کروگر لکھتے ہیں کہ سائنس صحیح اور غلط کے ثنائی نظام کے بجاۓ ایک تسلسل یا اسپیکٹرم کی حامی ہے جسکی حدود انسانی معلومات کی حدو کی طرح مستقل بڑھتی جا رہی ہیں۔

112704410

جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ سائنس کو درحقیقت اس بات سے قطعی کوئی غرض نہیں کہ کون کیا کہہ رہا ہے مثلا البرٹ آئنسٹائن بے چارہ یہ سمجھتا رہا کہ کوانٹم فزکس اندھیرے کی ایک ڈراؤنی شہ ہے لیکن کوانٹم طبیعات سے اسکے خوف کی وجہ، کوانٹم طبیعات کو صحیح یا غلط علم ثابت کرنے میں کوئی مدد نا کرسکی اور آج یہ طبعیات کی ایک ثقہ شاخ کے طور پر مانی جاتی ہے۔ اسی طرح اگر عوام الناس نظریے اور مفروضے کو خلط ملط کرتے رہیں تو اس سے بھی سائنس کی صحت پر کوئ فرق نا پڑے گا۔ بقول آنجہانی گلیلیو کے، وہ تو گھوم رہی ہے۔

 امید ہے کہ اب آپ کو ان اصطلاحات سے خاطر خواہ واقفیت ہو گئی ہوگی۔ مزید معلومات کے لئے درج زیل حوالہ جات کا مطالعہ موزوں ہے۔

حوالہ جات و تخلیص 

کیمیا – اباوٹ ڈاٹ کام
        سائنٹفک امریکن

Share

April 6, 2013

میراتھن دوڑنے کا غلط طریقہ – لاس اینجلس میراتھن کی تصویری روداد

Filed under: سفر وسیلہ ظفر,طنزومزاح,عمومیات,مشاہدات — ابو عزام @ 8:58 am


LA-Marathon-FEATURE

آپ اسے شعراء اور ادباء کی نازک مزاجی کہئیے یا کچھ اور کہ اردو نثر و نظم میں دوڑنے والے کا کچھہ زیادہ تذکرہ نہیں ملتا. مرزا نوشہ تو دھول دھپے کے قطعی قائل نہ تھے اور نہ ہی رگوں میں دوڑنے پھرنے کے، اور یوسفی تو اپنی ناسازی طبع کا رونا کچھ یوں روتے ہیں کہ اچھے اچھوں کی آنکھیں بھر آئیں.اب بلاگ چونکہ اردو ادب کی تیسری صنف ٹھہری تو لہٰذا کچھ غیر ہم آہنگی تو لازم ہے.۔ وہ جو کہتے ہیں کے جب گیڈر کی موت آتی ہے تو وہ شہر کی طرف بھاگتا ہے،راقم کی جو شامت آئی تو ہم نے سانٹا مونیکا کی طرف بھاگنے کا عزم کیا.۔ 

2013_LAM_8.5X11_Coursemap_final_outlined

ٹورینٹینو کی فلموں کی طرح اس بیک اسٹوری کی بھی کچھ بیک اسٹوری ہے، اصل میں قصّہ کچھ یوں ہے کہ ہمارے عزیز دوست راشد کامران کی میراتھن سے قبل ازوقت ریٹائرمنٹ کے بعد دیسیوں کے قومی وقار، تناسب اندام اور تندرستی صحت کو برقرار رکھنے کی ذمہ داری ہمارے نازک کندھوں پر آ پڑی۔لیکن اب اس جثے کے ساتھ بھاگنا ایک امر دشوار ٹھرا، تو باتوں باتوں میں ایک دوست عزیزم اسٹیون سانگ سے یہ شرط لگی کہ ستمبر ۱۲’  تک جو شخص ایک سو پینسٹھ پاؤنڈ تک وزن کم کرلے گا۔ وہ گویا یہ روپے پیسے کے بغیر لگنے والی شرط جیتے گا اور ہارنے والا فیس بک پر اپنے اسٹیٹس میں اپنے آپ کو سخت سست قرار دیتے ہوئے دوسرے فریق کی خوب تعریفیں کریگا. نیزشرط کے مندرجات میں مزید یہ بات بھی شامل تھی کہ ہارنے والا یا والے ایک عدد مراتھن دوڑینگے اور اسکا وقت راقم کے لیے پانچ گھنٹے تیس منٹ اور اسٹیون کے لیے چار گھنٹے تیس منٹ کے برابر یا اس کم ہونا چاہیے ۔ اب اگر یہ وقت بھی نہ ہو پایا تو اس نتیجے میں ہارنے والا یا والے، دوسرے فریق کی مرضی کی تین عدد کتابیں پڑھیںگے اور اس پر  تبصرہ کرینگے جو ایمازون پر شائع کرنا لازم ہے. اب اس قدر پیچیدہ شرط کی مندرجات کے بعد ہم نے وزن کم کرنے پر عمل درآمد شروع کیا اور رمضان کی برکت سے ایک سو ستر پاؤنڈ پہ آگۓ، لیکن  ستم گر کو ذرا روا نہ ہوا کہ پانچ پاؤنڈ ادھر یا پانچ پاؤنڈ ادھر کو معاف کیا جاۓ اور مجبورا ہم دونوں کو ہی میراتھن کی رجسٹریشن کرانی پڑی،،  ہمیں ملی بب نمبر ۱۷۰۵۰، اور اسطرح دفتری کاروائ مکمل ہوئ۔

میراتھن کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ فاصلہ دوڑنے والا پہلا شخص ایتھنز کی طرف بھاگا اور منزل مقصود پہنچنے پر پٹ سے گر کر مر گیا۔ لیکن چونکہ ہم نے من الحیث القوم تاریخ سے کچھ نا سیکھا تو یہ تو خیر یونانی کہاوتیں ہیں۔ 

اب باری آئی تیاری کی،یہ تھا ہمارا میراتھن کی تیاری کا جدول۔

 

16-Week Marathon Training Schedule
Week Mon Tue Wed Thu Fri Sat Sun Total
1 3 Rest 4 3 Rest 5 Rest 15
2 3 Rest 4 3 Rest 6 Rest 16
3 3 Rest 4 3 Rest 7 Rest 17
4 3 Rest 5 3 Rest 8 Rest 19
5 3 Rest 5 3 Rest 10 Rest 21
6 4 Rest 5 4 Rest 11 Rest 24
7 4 Rest 6 4 Rest 12 Rest 26
8 4 Rest 6 4 Rest 14 Rest 28
9 4 Rest 7 4 Rest 16 Rest 31
10 5 Rest 8 5 Rest 16 Rest 34
11 5 Rest 8 5 Rest 17 Rest 35
12 5 Rest 8 5 Rest 18 Rest 36
13 5 Rest 8 5 Rest 20 Rest 38
14 5 Rest 8 5 Rest 9 Rest 27
15 3 Rest 5 3 Rest 8 Rest 19
16 3 Rest 3 Walk 2 Rest 26.2 Rest 34.2


لیکن، درحقیقت ہوا یوں کہ  پطرس بخاری کے بقول، پہلا اٹھنا چار بجے، دوسرا اٹھنا چھ بجے اور بیچ میں لالا جی آواز دیں تو نماز، سیانے کہتے ہیں کل وہ جادوئی وقت ہے جب سارے کام بخیرو خودہی ہو جایا کرتے ہیں، ہم بھی اسی کل کا انتظار کرتے رہے،. بہانے بنانے میں ملکہ حاصل ۔ ہر روز، 
بعد از فجر کچھ ایسا ہوتا

آج کچھ سردی و تیز ہوا کا گذر لگتا ہے،

آج بارش جیسا موسم لگتا ہے،

آج موسم کافی سرد معلوم ہوتا ہے،

جوتے تو گاڑی میں رکھے ہیں،

میاں سورج سوا نیزے پر ہے، 

وغیرہ وغیرہ۔۔

یہی کرتے کرتے میراتھن کی صبح آ پہنچی، ویسے تو یہ ہماری تیسری میراتھن تھی لیکن بغیر کسی قسم کی تیاری کے پہلی۔ مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق، ڈاجر اسٹیڈیم پہنچے۔ صبح کا سہانا وقت اور چالیس ہزار لوگوں کا مجمع دیکھا تو کچھ ہمت بندھی کہ ، ہو رہے گا کچھ نا کچھ ، گھبرائیں کیا۔

 

392876_547465325297498_1971927162_n

LA-Marathon

سوا سات بجےکے لگ بھگ سب نے بھاگنا شروع کیا، اب یہ مرد تائوانی تو پچاس پچاس میل یونہی ویک اینڈ پر تفریحا بھاگتا پھرتا ہے، اور ہمارا تو میٹنگ روم سے میٹنگ روم جاتے سانس پھول جاتا ہے، لہذا ہمارا اسکا کیا مقابلہ،

862771_10151349615249212_1526966936_n

تو جناب ہم نے جب آہستہ آہستہ بھاگنا شروع کیا یا یہ کہیں کہ بھاگنے کی اداکاری شروع کی تو  لوگوں کے دھکوں سے خراماں خراماں یہ کہتے ہوے آگے بڑھتے چلے کہ

چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک تیز رو کے ساتھ

پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہ بر کو میں

میل اول –  لوگوں کا سیلاب ہمیں آہستہ آہستہ اپنے ساتھ چلاتا رہا اور ہم چلتے گئے

میل دوئم – رفتار میں کچھ تیری آنے لگی اور ہم گنگنانے لگے کہ – مجھے سہل ہو گئیں منزلیں وہ ہوا کے رُخ بھی بدل گئے

لاس اینجلس میراتھن

 

میل سوئم – بلا تبصرہ مندرجہ زیل پوسٹرز۔

funny-marathon-ten

میل چہارم،  توانائی کی بشاشت کے ساتھ دوڑنا جاری رہا، جگہ جگہ پری وش رضاکار پانی پلانے، اور ہم کہتے ساقیا اور پلا اور پلا.

205386072-M-1

 – میل پنجم –  قدم بڑھاۓ چلو جوانوں کہ منزلیں راہ تک رہی ہیں.مزید پانی کچھہ الیکٹرولائٹ اور کچھہ اہتمام اخراج کا،

لاس اینجلس میراتھن

میل ششم-  اب ہم کچھ ایلیٹ رنرز کی طرف سے تنہائی محسوس کرنے لگے ، اپنے گرد و پیش افراد کی کمیت ہماری کمیت کے قریب تک آ چکی تھی

میل ہفتم – اب دوڑنے کی رفتار آہستہ ہوتے ہوتے محض تیز چلنے پر منتج ہو گئی

sign-5

میل ہشتم –  پانی اور الیکٹرولائٹ کا انتظام ۔ ان دوڑوں کے دوران رضاکاروں کے جھنڈ کے جھنڈ دکھائ دیتے ہیں جن میں اقلیتوں کا بڑا کردار ہوتا ہے۔

پہنچا جو آپ کو تو میں پہنچا خُدا کے تئیں

معلوم اب ہوا کہ بہت میں بھی دور تھا

6857528326_452584af57_z
میل نہم –  یہ نواں میل ہے کے دسواں؟ سراب کی کی کیفیت کی ابتدا اور بھوک لگنا شروع.

میری زندگی میری منزلیں، مجھے قرب میں نہیں دور دے

مجھے تُو دِکھا وہی راستہ، جو سفر کے بعد غرور دے

میل دہم –  اب پٹھوں کا کچھ خاموش اور کچھ زور سے احتجاج،  یعنی جتنا ابھی بھاگ کر آئے ہیں اتنا مزید؟ یہ کیا چکر ہے بھائی..

 

Asics 26miles no gridlock billboard

گیارہواں میل، ہالی وڈ کے گرد و نواح کے علاقے سے دل بہلانے کا شغل کیا

منزلیں دور پُر خطر رستے

مجھ کو لے آئے یہ کدھر رستے

گھر سے نکلا ہوں جستجو میں تری

مجھ کو لے جا ئیں اب جدھر رستے

la-marathon

بارہواں میل – یہاں رکشے کا شعر یاد آنے لگا کہ

 تھک کر مجھ سے پوچھا پاؤں کے چھالوں نے،

کتنی دور بنائی ہے بستی دل میں بسنے والوں نے

تیرھواں میل – خیال آیا کہ آدھی میراتھن ہوتی تو ابھی تک ختم ہو جاتی اور ہم گھر جاتے، وہ کیا کہتا ہے شاعر کہ گر اپنے شہر میں ہوتے تو گھر گئے ہوتے

Asics made of 26 miles billboard



چودھواں میل۔  شرطوں کی تحریم پر اپنے آپ کو کوستے، نیز اب ہم پیدل چلنے والوں سے آملے تھے

پندرھواں میل –  مہ وشوں کی کمی پر زیر لب احتجاج، اب  تھکن سے ہر پٹھے نے احتجاج شروع کر دیا تھا۔

6857528284_1eeb62b5c5_z

سولہواں میل – الٹے  پاؤں میں پڑ جانے والے چھالوں کی کی وجہ سے سیدھے پاؤں پر زور دینے سے ایک لنگڑی سی رفتار کی کوشش جاری رہی..

 سترھواں میل – ارے دس میل مزید؟  بھائی واپسی کی بس کہاں ملے گی

Asics LA Marathon 2013 billboard

اٹھارواں میل –  اب جہاز اور طوطے کا ڈی جے کالج کے زمانے میں سنا لطیفہ یاد آنے لگا،  پھر ہم سوچتے کہ آباء و اجداد بھی تو انڈیا سے آئے تھے اور انھیں کون پانی اور الیکٹرولائٹ پلایا کرتا تھا تو چلو شاید ہو جاۓ یہ سفر کسی نا کسی طرح

انیسواں میل – اب ہمارے جی پی ایس اور بلو ٹوتھ کی بیٹری ختم ہو چکی تھی اور خان صاحب کے راگ تھم گئے تھے

لاس اینجلس میراتھن
بیسواں میل۔ اب رضاکاروں نے کرسیاں سمیٹنا شروع کردی تھیں اور پولیس نے سڑکوں کو کھلوانا شروع کر دیا ہے

marathon-water

اکیسواں میل – ہم جو بھی ہماری ہمّت بڑھاتا ہوا نظر آتا ہم اسی گاڑی سے فنش لائین تک لفٹ لینے کی التماس کرتے

بائیسواں میل – اب حالت یہ تھی کہ کئی بار سوچا کہ پولیس والوں کی سائیکل لے بھاگیں پر ہمّت نہ پڑی

254453447667548365_QP7iFcfP_c

تئیسواں میل –  ہر اجنبی ہمیں محرم دکھائی دیتا ہے،  اب تک ہمیں یقین واثق ہو چلا تھا کہ  اگر مردوں کو درد زہ ہوتا تو وہ میراتھن جیسا ہی ہوتا۔

چوبیسواں میل – سراب  کی کیفیت اب تقریبا مستقل ہو چکی تھی

اللہ کیا ہی منزل مقصود دور ہے

تھم ہوگئے ہیں سوجھ کے مج خستہ تن کے پاؤ

 

پچیسواں میل –  من من بھر کے پاؤں…..جوڑ جوڑ دکھ رہا تھا، ایسے جوڑ بھی جن کی موجودگی کا کبھی علم نا تھا۔  اسٹیون کا خیال ذہن سے نکالتے رہے کہ کہیں ہمیں بھی پطرس کی طرح ایف اے کی وہ کتاب دوبارہ نا پڑھنی پڑے۔

منزلیں دور بھی ہیں منزلیں نزدیک بھی ہیں

اپنے ہی پاؤں میں زنجیر پڑی ہو جیسے

لاس اینجلس میراتھن
چھبیسواں میل –  یہ طوالت میں  سب سے لمبا میل ہوتا ہیں، اگر آپ اسے ناپنے نکلیں تو یہ باقی تمام میلوں سے کم سے کم دگنا تو نکلےگا ہی،

جب ہم اختتامی لکیر یا فنش لائن پر پہنچے تو منتظمین نے ہماری حالت اور وقت دیکھ کر پوچھا

کیا آپ دوڑ کر آرہے ہیں؟

تو ہم نے جل کر کہا نہیں یونہی سیر کرنے نکلے تھے ڈاجر اسٹیڈیم سے سینٹا مونیکا تک،  بس سوچا کہ آپ سے ملاقات کر لیں،  بڑا اشتیاق تھا

یوں قتل سے لوگوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کے فرعون کو مراتھن کی نہ سوجی

اب میڈل لینے کے بعد، فنش لائن سے گھر تک کا فاصلہ کس طرح طے ہوا، یہ کبھی بعد میں بتائینگے،  ابھی تو اتنا ہی کافی ہے کہ اگر آپ کبھی مراتھن دوڑیں تو دو تین  ماہ قبل سے پریکٹس ضرور کر لیجیئے ۔ شکریہ،

861882_10151350628074212_1458462759_n

lam_logo2013_asics 

Share

January 5, 2013

ستم کا آشنا تھا وہ، سبھی کے دل دکھا گیا

Filed under: سیاست,مذہب,مشاہدات — ابو عزام @ 4:44 pm

محترم قاضی حسین احمد اپنے خالق حقیقی سے جاملے ۔ إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ

روایت و حکائت و درائت کا تقاضا تو یہ ٹھیرا کہ میں تحریک اسلامی کے بطل جلیل کے بارے میں کچھ عام سی باتیں لکھوں، جیسے کہ آج ہم سے ایک عظیم  رہنما جدا ہوگیا،  ان کی وفات کا خلا کبھی پورا نہیں ہوگا، صداقت و امانت و دیانت کا پیکر ہمیں چھوڑ کر چلا گیا وغیرہ وغیرہ۔ لیکن یہ سب عمومیات آپ کل کے اخباروں اور سوشل میڈیا پر دیکھ سکتے ہیں۔ میری آنکھیں تو اسوقت اپنے اس قائد کے غم میں پرنم ہیں جو ایک سچا انقلابی تھا۔ جو وقت کے دھارے کے ساتھ بہنے کاقائل نا تھا بلکہ جس نے اپنے قول و عمل سے عملا مسلم لیگ کی بی ٹیم کا کردار ادا کرنے والی جماعت کو تحریک اسلامی کی ایک متحرک و منظم قوت میں تبدیل کیا جسے عدو و یگانہ سب تسلیم کرتے ہیں۔ مجھے تو اس بات کا غم کھاے جاتا ہے کہ اس دور قحط الرجال میں اب کون ہے جو اس جرات رندانہ سے تاریخ کے دھارے کا رخ موڑے گا۔  کون ہے جو ہمیشہ یہ امید بندھاتا رہے گا کہ میرے بچوں، انقلاب کا آنا تو ٹھر گیا ہے،  قوم مخلص اور ایماندار قیادت سے محروم  ہے،بیداری کی لہرآنے والی ہے، بس دین کا کام کرے جاو اور تنائج اللہ پر چھوڑ دو، وہی اپنے دین کا بول بالا کرنے والا ہے۔

اللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ

207754_473854839327487_1990456438_n

میرا وہ قائد اپنے رب کے پاس چلا گیا ہے جس کے ساتھ  میں نے زمین پر بیٹھ کرکھانا کھایا، جس کے مشفق چہرے سے پھوٹتا نور آج بھی میری یاداشت میں اسی طرح تازہ ہے جیسے کہ یہ کل ہی کی بات ہو۔ وہ جو پاکستان کی سب سے بڑی اسلامی تحریک کا روح رواں تھا اور مودودی و قطب و بنا کے ورثے کا امین تھا، جسے اسلامی مملکتوں کے سربراہان اپنے باہمی مسائل میں ثالث کرتے، لیکن وہ ایسا عملی انقلابی تھا کہ سکوں نا آشنا رہنا اسے سامان ہستی ٹھرا، جو کارکنوں کے ساتھ صف اول میں پولیس کے ڈندے کھانے کے لئے موجود رہتا، جو نا جاگیردار تھا اور نا تاحیات سربراہ، بلکہ ہر عام کارکن کی طرح دریاں اٹھانے والا شخص بالاخر مملکت خداداد میں تحریک اسلامی کی قائدانہ آواز بنا۔  جو لسانی غنڈوں کے ہاتھوں ہونے والے شہادتوں کے قافلوں کو اپنے آنسووں سے الوداع کہتا اور مقتل میں انکی نماز جنازہ پڑھاتا،  اقبالیات کا وہ خوشہ چیں اب ہمارے درمیاں نا رہا جس کی آواز کی گھن گرج رزم خود باطل ہو تو فولاد ہے مومن کا عملی نمونہ تھی۔

تمہارے بعد کہاں يہ وفا کے ہنگامے
کوئي کہاں سے تمہارا جواب لائے گا

اتحاد بین المسلمین اور بین المسالکی ہم آہنگی کاعلمبردار، ایک قائد جوسراپا عمل تھا اور غلطی اسی سے سرزرد ہوتی ہے جو باعمل ہو۔ کنارے پر بیٹھ کر پتھر مارنے والا جو کچھ نا کرے وہی فیصلے کی انسانی غلطیوں سےمبرا ہونے کامدعی ہوسکتا ہے، میرا قائد سزاوار ہو  تو اپنی خطا پر عوامی ندامت و برات کا  اظہار کرتا،  حق بات کہتا اور ڈٹ جاتا، جس نے امت کو جہاد فی سبیل اللہ کا بھولا سبق یاد دلایا اور فساد فی الارض کی تفریق سکھائ، جس نے افغانستان میں غیر اسلامی سخت گیری کے خلاف اسوقت آواز بلند کی جب ایسی بات کرنا، خصوصا کسی مذہبی شخصیت کے لئے سیاسی خودکشی تھی۔ جو گولیوں کی بوچھاڑ میں کھڑا رہا کہ اگر آج وہ پچھلے دروازے سے چلا جاے تو کل کون کھڑا رہے گا۔ افسوس کہ فتنوں اور جیکٹوں کے اس دور نارسا میں جب اسلام کی اخلاقی اقدار پر بات کرنے والا کوئ نہیں، جب دین مصطفوی کے محاسن اخلاق و درس نصیحت اس امت مرحوم کا نوحہ بن چکے ہیں، وہ مرد قلندر جو امت مسلمہ کی نشاط ثانیہ کا علمبردار تھا ،عزم، حوصلہ اور خلوص جس کی زندگی کا خاصہ تھا، ہمیں روتا بلکتا چھوڑ کر اپنے رب کے پاس یہ کہتا ہوا چلا گیا کہ

میرے عزیزو – جنت میں ملاقات ہوگی

يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً فَادْخُلِي فِي عِبَادِي وَادْخُلِي جَنَّتِي
Share

September 23, 2012

سیرت کا پیغام

Filed under: کتابیات,مذہب,مشاہدات — ابو عزام @ 7:34 pm

انسانی تاریخ کے منظر میں ہمارے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی بلند و بلا شخصیت اتنی ابھرتی ہوئی نظر آتی ہے کہ جب ابتدا سے لیکر اب تک کے بڑے سے بڑے تاریخی انسان جن کو دنیا اکابر میں شمار کرتی ہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم کے مقابلے میں لاۓ جاتے تو آپ کے آگے بونے نظر آتے ہیں. دنیا کے اکابر میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جس کے کمال کی چمک دھمک انسانی زندگی کے ایک دو شعبوں سے آگے بڑھ سکی. کوئی نظریات کا بادشاہ ہے مگر عملی قوت نہیں رکھتا ہے. کوئی عمل کا پتلا ہے مگر فکر میں کمزور ہے. کسی کے کمالات سیاسی تدبر تک محدود ہیں. کوئی محض فوجی ذہانت کا مظہر ہے. کسی کی نظر اجتماعی زندگی کے ہر ایک پہلو سے اتنی زیادہ گہری جمی ہیں کہ دوسرے پہلو اوجھل ہو گئے ہیں.کسی نے اخلاق اور روحانیت کو نظر انداز کر دیا. غرض تاریخ میں یک رخےہیرو ہی نظر اتے ہیں مگر تنہا آنحضور صلی الله علیہ وسلم ہی کی شخصیت ایک ایسی ہے جس میں تمام کمالات جمع ہیں. وہ خود ہی فلسفی اورحکیم بھی ہے اور خود ہی اپنے فلسفے کو عملی زندگی میں نافذ کرنے والا بھی. وہ سیاسی مدبر بھی ہے، فوجی لیڈر بھی ہے، وضع قانون بھی ہے معلم اخلاق بھی ہے، مذہبی اور روحانی پیشوا بھی ہے. اس کی نظر انسان کی پوری زندگی پر پھیلتی ہے اور چھوٹی سے چھوٹی تفصیلات تک دی جاتی ہے. کھانے اورپینے کے آداب اور جسم کی صفائی کے طریقوں سے لیکر بین الاقوامی تعلقات تک ایک ایک چیز کے متعلق وہ احکام اور ہدایت دیتا ہے، اپنے نظریات کے مطابق ایک مستقبل تہذیب وجود میں لاکر دکھا دیتا ہے اورزندگی کے تمام مختلف پہلوؤں میں ایسا صحیح توازن  قائم کرتا ہے کہ افراط و تفریط کا کہیں نشان تک نظرتک نہیں آتا. کیا کوئی دوسرا شخص اس جامعیت کا پیش کیا جا سکتا ہے؟

سیرت کا پیغام تفہیمات، چہارم۔

سید ابوالاعلیٰ مودودی

Share

August 12, 2012

مسلماں زادہ ترکِ نسب کن

Filed under: سیاست,مذہب,مشاہدات — ابو عزام @ 9:21 am

اعداے ملت اسلامیہ کا عرصہ دراز سے یہ منشا رہا ہے کہ امت واحدہ کو  نسلی اور وطنی تفرقات میں  بانٹے رکھیں۔ اس کی تازہ ترین مثال روہینگا کے مسلمانوں کے قتل عام پر ڈرائنگ روم لبرلیوں کا یہ ردعمل ہے کہ یہ  ایک نسلی و محدود جغرافیای معاملہ ہے، اس کو مسلمانوں کا مسئلہ بنانے کی کوشش کرنا غلط ہے۔

یہ عدم پرواہی و بے اعتنای ایک نہایت تباہ کن رجحان ہے جو درحقیقیت اورئنٹلزم کا کول ایڈ پینے سے لاحق ہوتا ہے۔ آج سے نہیں عرصہ دراز سے اسی قماش کے لوگ سلطان صلاح الدین ایوبی کو مسلمان نہیں بلکہ کرد فاتح، دولتہ عثمانیہ کو مسلمانوں کی نہیں بلکہ ترکوں کی امارات اور اسپین پر مسلمانوں کی حکومت کو بربروں کی سلطنت قرار دیتے ہیں۔ اس زمن میں قران کا موقف بلکل صاف ہے

و انّ ھذہ امتکم امة واحدة وانا ربکم فاتقون -مومنون ٥٢
اور
انماالمومنون اخوة فاصلحوا بین اخویکم -الحجرات ١٠

اس امت واحدہ کو رنگ و نسل، زبان و وطن اور ویسٹفیلین سوویرنیٹی کی بنیاد پر بانٹنے کا کام اسی کو زیب دیتا ہے جس نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول نا سن رکھا ہو

مثل المومنین فی تواد ہم وتراحمہم وتعاطفہم مثل الجسد والواحد اذا اشتکی منہ عضوتداعی لہ سائرالجسد بالسہر والحمی ﴿متفق علیہ﴾

“مومنوں کی مثال آپس میں ایک دوسرے سے محبت کرنے ایک دوسرے کے ساتھ رحم کھانے میں ایک دوسرے کے ساتھ شفقت کرنے میں ایک جسم کے مانند ہے جب اس کا ایک عضو بیمار ہوجاتا ہے تو سارا جسم اس کے لیے بخار اور بے خوابی میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔”

نیز مزید فرمایا

المومن للمومن کالبنیان یشد بعضہ بعضا ﴿بخاری ۴۸۱ مسلم ۲۵۸۵﴾
“مومن ﴿دوسرے ﴾مومن کے لیے دیوار کے مثل ہے جس کی ایک اینٹ سے دوسرے اینٹ کو مضبوط بناتی ہے۔”

حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سرشارمومن کو جغرافیائ حدود کا خیال نہیں ہوتا، بحکم الہی وہ قبیلوں اور قوموں کو پہچان کا ذریعہ تو ضرور مانتا ہے لیکن اس کا دل ہر مسلمان کے دکھ درد میں برابر کا شریک ہوتا ہے چاہے وہ شام میں بشار الاسد کے ظلم و ستم سے پنجہ آزما ہو، ایران میں زلزلے کی تباہ کاریوں سے متاثر ہو یا برما کے بدھوں کی سنگینوں کا شکار ہو۔

 سرود بر سر منبر کہ ملت از وطن است
چہ بے خبرز مقام محمدؐ عربی است

وہ اپنی بے عملی کو چھپانے کے لیے حیلے بہانے نہیں ڈھونڈتا بلکہ جس امر کہ طاقت و قدرت اس کے رب نے عطا کی ہے اتنا عمل کر کے  نتیجہ اپنے خالق پر چھوڑ دیتا ہے۔ اس کو کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا خوف نہیں ہوتا اور نا اس کے لیے بوسنیا کا یورپی مسلمان سوڈان کے افریقی مسلمان سے اور کاشغر کے اویغور بھائ سے چنداں مختلف ہوتا ہے۔ وہ تو بس یہ جانتا ہے کہ

نہ افغانیم ونے ترک و تتاریم
چمن زادیم و ازیک شاخساریم

مسلمانوں کی نسل کشی خواہ وہ بوسنیا میں ایتھنک کلینزنگ کے نام پر ہو، یا چاہے کسی جابر حکمراں کے ہاتھوں، اس امت کا برنگِ احمر و خون و رگ و پوست ایک ہے۔ اگر کسی ایک واقعے کو امتداد زمانہ سے زیادہ توجہ ملے اور دوسرے کو کچھ کم تو اس سے امت کے رشتوں میں کمی نہیں آجاتی۔وہ امت کو جغرافیے کی چھری سے ذبح کرنے کے بجاے ببانگ دہل کہتا ہے کہ

ان تازہ خداوں میں بڑا سب سے، وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے، مذہب کا کفن ہے
یہ بُت کہ ترا شیدہ تہذیبِ نوی ہے
غارت گرِ کا شانہ دینِ نبوی ہے
بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیں ہے، تو مصطفوی ہے

امت میں نفاق کے پروردہ لوگوں کو مژدہ ہو کہ عربوں و ترکوں کو میانمارمیں اپنوں کا خون دامے درمے سخنے کھینچ لایا، تورانی و افغانی کی تمیز نا رہی، یہی منتہاے ملت ہے ،عرب نازد اگر، ترکِ عرب کن۔ و من الله توفیق۔

Share

July 3, 2012

سائنسدان نیل ٹائسن کا ملحدین کو دندان شکن جواب

Filed under: مذہب,مشاہدات — ابو عزام @ 7:12 am

کیونکہ کبھی کبھی جب تک عنوان کلیشے نا ہو، اردو بلاگستان پر تحریر کچھ ادھوری سی معلوم ہوتی ہے۔

 نیل ڈیگراس ٹائسن ایک مشہور امریکی ماہر فلکیات، سائنسی امور کے مصنف و مبصر ہیں۔ الحاد کے علمبردار اکثر انہیں اپنا حامی قرار دیتے ہیں جس سے وہ سخت نالاں ہیں۔ وہ ایتھیسٹ یا ملحد لے بجاےاپنے ٓآپ کو اگناسٹک گردانتے ہیں اور روحانیت پر انکا ایک سائنسدان کئ حیثیت سے مندرجہ زیل موقف ہمارے جدید عسکری ملحدین کے لیے ایک بہترین مثال ہے۔

گذارش یہ ہے کہ تبصرہ کرنے سے پہلے نیل ٹائسن کیا کہ رہے ہیں اسے سن اور سمجھ لیا جاے تو راقم کا مدعا واضع ہو جا؁ے گا۔

Share

June 16, 2012

تشکیک و تیقن

Filed under: مذہب,مشاہدات — ابو عزام @ 7:52 am

انگریزی مثل مشہور ہے کہ  جنگی خندقوں میں کوئی ملحد نہیں ہوتا۔

لیکن یہ مثل صرف خندقوں تک محدود نہیں، تشکیک و تیقن کا یہ فرق انسانی زندگی اور سوچ کے ارتقا میں ہر جگہ نہایت نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ میوٹیشن یا تغیر، جس کو ارتقاء کا بنیادی ستون ٹھرایا سمجھا جاتا ہے، اس تغیر کی مختلف امثال در حقیقت ایمانیات کا ایک لٹمس ٹیسٹ ہیں۔  مثال کے طور پر انسانی آنکھ جیسا ایک پیچیدہ عضو ہی لے لیں جسے ڈارون نے ہمیشہ نظریہ ارتقا کے لئے ایک پریشان کن شے سمجھا کہ یہ کیونکر وجود میں آئ۔ کروڑوں سال قبل آپ ہو ہم جب پرایمورڈیل مالیکیولر ملغوبوں میں غوطے کھا رہے تھے تب تو کسی جاندار کے پاس آنکھ موجود نا تھی، پھر ہوا یوں کہ میوٹیشن سے ایک باریک سی جھلی بنی کہ جس سے روشنی کی سمت کا اندازہ ہوتا، اور اس کے بعد یہ جھلی ہزاروں لاکھوں سال میں بڑھ کر پن ہول کیمرہ کی شکل اختیار کر گئی اور پھر اس میں فوکس کرنے کی صلاحیت آئ اور اس طریقے سے آج کی موجودہ پیچیدہ انسانی آنکھ معرض وجود میں آئی۔ ان تمام تغیرات کے بارے میں بہت آسانی سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ سب تو قبلہ میوٹیشن کی برکات ہیں، ایک سیلفش جین ہے جو میوٹیٹ کرتا رہا،۔ لیکن جب ہم نظریہ میوٹیشن کواس قدرآسانی سے بیان کرتے ہیں کہ گویا ہر چیزمیوٹیشن کے ذریعے وجود میں آئی، تو ہمیں اس بات کا چنداں احساس نہیں ہوتا کہ اس تغیروارتقاء کے پیچھے کیا کوئ گرانڈ پلان بھی موجود ہے؟ کیا یہ وحی خفی کسی ذات باری کی جانب سے ہے جو اس سمت کو متعین کرتی ہے یا یہ سب خودبخود ہوتا چلا جارہا ہے؟پرابیبلٹی اور پلاسیبیلٹی کی کمی بھی، اس خیال کو کہ میوٹیشن خود بخود ہوگئی ہے، کسی خالق کی موجودگی کے امکان کے قرب میں پھٹکنے نہیں دیتی کہ اس سے انٹیلیکچولزم پر حرف آتا ہے۔ ہمارےنزدیک بہت آسان بات ہے یہ کہہ دیں کہ بس جناب، سروائووال آف دا فٹسٹ، اور میوٹیشن خودبخود آنکھ بنا دیتی ہے۔ لیکن اسکی وجوہات کہ میوٹیشن کیونکرہوئ، اور یہ میوٹیشن کسی منفی سمت میں کیوں نہیں جاتی، یہ سوالات طوالت کی بنا پراصحاب تشکیک یا اسکیپٹکس اکثر چھوڑ دیا کرتے ہیں۔ یہی تشکیک و تیقن کی تقسیم کا بنیادی کا خاصہ ہے۔ میوٹیشن میں زندقہ، تغیروارتقاء سے آنکھ بننے کے عمل کو دیکھتا ہے، اہل ایمان اسی امر میں خدا کی قدرت کا سراغ پاتا ہے۔ ایک کو میوٹیشن کی خودی پر ایمان ہے گو کہ وہ لیب میں ری پروڈیوسیبل نا ہو اور دوسرے کو اس میں خدای اسرار نظر آتے ہیں جسے الحاد و زندقہ ذہنی کمزوری گرداننے میں چنداں شرم محسوس نہیں، کرتے۔

اب انسانی ذہانت کو دیکھیں۔ سائنسی دعووں کومد نظر رکھا جاۓ تو ایپس اور انسانی ڈی آین آے میں محض ایک فیصدی فرق ہے۔ اب اس ایک فیصدی فرق نے ہمیں چاند پر پہنچایا، اشرف المخلوقات کا درجہ دیا، اس ایک فیصدی فرق کے ذریعے آج بنی نوع انسانی کے خلائ جہازوائجر اول  اور وائجر دوئم نظام شمسی کی حدود پار کرنے والے ہیں۔ اگر ہم سب ایک ہی پرائمورڈیل سوپ سے معرض وجود میں آے تو اس بات میں کیا استجاب لازم نہیں کہ کسی اور مخلوق میں اس درجہ کی ذہانت کیوں نہیں پائی جاتی؟ آپ شاید اس سے امر کو اسپیشیزم  گردانیں لیکن کیا وجہ ہے کہ ہم کسی ڈالفن کو اسکوبا ٹینک لگائے موٹر کار چلاتے ہوئے نہیں دیکھتے۔ اگر تمام مخلوقات کے لیے ابتدا ایک ہے اور کوئ منصوبہ ساز نہیں، تو پرابیبلٹی کے حساب سے ان کروڑوں سالوں میں کوئ تو ایسی مخلوق ہوتی جس کی ذہانت کا معیار وہی ہوتا کہ جو حضرت انسان کی ذہانت کا معیار ہے؟ زمین کو اس وقت ایک کلوزڈ سسٹم سمجھ کر اس سوال پر غور کریں تو شائد یہ بات واضع ہو کہ جب ایک ہی طرح کے ڈی این اے سے سب کی تخلیق ہوئی ہے تو پھر یہ کیا وجہ ہے کہ ہم سے جنیاتی طور پر قریب ترین دوسری مخلوق جوکہ جسمانی طاقت میں آَٹھ گنا زیادہ مضبوط ہے، ذہانت سے اسقدر عاری کیوں؟ ڈاینوسارس نہایت کامیاب مخلوق تھے کہ جنہوں نے زمین پر کروڑوں سال حکومت کی، حضرت انسان کو تو فقط ایک لاکھ کچھ سال ہی ہوے، ان دیوہیکل جانوروں میں بھی کوئ قابل ذکر ذہانت کا عنصر نا دکھائ دیا۔ اگر تشکیک کی عینک ہٹا کر دیکھیں تو درحیقت یہاں پر بھی ٹکراو یقین اور شک کا ہے۔ اہل ایمان کا یقین اس استعارے کو سمجھتا ہے کہ کیا وجہ ٹھری کہ خلیفہ رب العزت اور اشرف المخلوقات کا درجہ صرف حضرت انسان کہ حق میں آیا ہے. جب کہ اہل تشکیک اور زندقہ اس امر کو محض ایک عارضی غیر حل شدہ مسئلہ گردانتے ہیں.

حاصل مطالعہ یہ ٹھرا کہ

ذَلِكَ الْكِتَابُ لا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ

یعنی  کہ اس کتاب میں کوئ شک نہیں اور ہدایت اس کے لیے جو غیب پر ایمان لایا۔ منطق کہے یہ کیسا سرکلر ریفرنس ہے؟ کوئ پیر ریویو نہیں اور تھیسس کہتا ہے کہ اس کتاب میں کوئ شک نہیں۔ امرغریب یہ کہ اگرتخلیق کے عمل کو بلکل صاف صاف کھول کھول کر بیان کر دیا جاۓ کہ مالک کل کی وحدانیت، وجود اور مالک سموت الرض ہونے کو لیب میں ریپروڈیوسیبل کردیا جائے تو پھر غیب کیا تھا؟ یہ ایک کیچ ۲۲ کی کیفیت ہے جو کہ اہل ایمان کو تشکیک و زندقہ کے مسلسل تضحیک و تشنیع کا نشانہ بناے رکھتی ہے اور ہر گزرتا لمحہ انکے ایمان میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ اگر آسمان پر امر الہی سے کلمہ لا الہٰ الاللہ محمّد الرسول الله لکھا ہوا آجاۓ تو ظاہر ہے کہ کوئی بھی کافر نہ رہے۔ اگر سب کو مسلم بنانا خالق کی منشا ہوتی تو خدا کے نزدیک یہ کیا امر مشکل تھا، مگر غیب کو کھول کر بیان کر دینا حکمت الہی نہیں، ایمان بالغیب نام ہی اس تشکیک کے پردے کو دل سے ہٹا کر یقین محکم رکھنے  کا ہے ۔ یہ تو در حقیقت سب نظر کا فرق ہے کہ جس چیز کو اہل ایمان یقین کی نگاہ سے حکمت الہیہ اور تخلیق الہیہ گردانتے ہیں وہی زندقہ اور اہل تشکیک کو میوٹیشن یا خود بخود ہونے والی شہ دکھائ دیتی ہے. خدا کے وجود اور عدم وجود پر منطق کی دلیل یہ ہے کہ  اگر آپ انہونی کو ہٹا دیں تو جو چیزسب سے زیادہ منطقی ہوگی وہی چیز حقیقت کہلائے گی۔ سوال یہ ہے کہ خدا کے وجود کا انہونی ہونا کس منطق سے ثابت ہے، اسی منطق سے جو میوٹیشن کے خودبخود ہونے کو تو امر واقعی گرداننے میں چنداں گرفتہ نا ہو لیکن عدم دلیل کی بنا پر اہل ایمان کو اگناسٹزم کے شک کا فائدہ بھی نا دے؟

خردکے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں
تیرا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں

Share

May 31, 2012

سفر حیات، اداس نسلیں از عبداللہ حسین سے ایک اقتباس

Filed under: ادبیات,کتابیات,مشاہدات — ابو عزام @ 1:31 am

ہم باتیں کرتے ہیں اور باتیں اور باتیں حتی کہ ایک روز بیٹھے بٹھاۓ ہمیں احساس ہوتا ہے کہ یہ اس قدر بے سود ہے اور یہ احساس بڑا خوفناک ہوتا ہے. تمہیں کبھی ہوا ہے؟ اس کے باوجود ہم چلتے جاتے ہیں. منزل سے منزل کی طرف’ چہرے سے چہرے کی طرف ‘ بات سے بات کی طرف حتی کہ ہم تھک جاتے ہیں اور اداس ہو جاتے ہیں اور ہمارے دل سے امن غائب ہو جاتا ہے. پھر خاموش جنگلوں کی آرزو پیدا ہوتی ہے. تمہیں پتا ہے دل میں کسی آرزو کا پیدا ہونا سکون کے کھو جانے کی نشانی ہے؟ آرزو جو کبھی نہ کبھی حسرت بن جاتی ہے. خاموش جنگل اور ساتھی کے طور پر ایک گھوڑا یا کتا’ اور چمکدار موسم’ اور خیال آرائی’ تاکہ ہم چلے جائیں چلے جائیں اور بڑی بڑی عظیم مقدس باتوں کے بارے میں سوچیں . اس وقت ان بیشمار چھوٹی چھوٹی غیر ضروری باتوں کے لئے ہمارے دل میں نفرت پیدا ہو جاتی ہے جن میں ہم عمر بھر مصروف رہے اور ہم عظیم فکر کے لئے تڑپتے ہیں جو کبھی ہمارے ذہن میں پیدا نہ ہوئی. ایک وقت اتا ہے جب ماضی کی چھوٹی سے چھوٹی بات ہمیں اداس کر دیتی ہے. کوئی چہرہ’ کوئی لفظ’ کوئی پرانی دھن جو ہم نے کسی غیر آباد گلی میں سے گزرتے ہوئے دور سے سنی تھی. ہم اس بچے کی طرح محسوس کرتے ہیں جو ہر وقت رونے کے لئے تیار رہتا ہے..

دراصل ہم تھک چکے ہوتے ہیں’ اس مستقل عجلت سے جو ہماری زندگی میں راہ پا جاتی ہے’ جو مسلسل ہمیں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے پر مجبور کرتی ہے’ ان جگہوں پر لے جاتی ہے جہاں جا کر ہم کبھی خوش نہیں ہوتے. دراصل ہم محض اکتا چکے ہوتے ہیں’ عمر بھر سے جو ہم نے جہالت میں بسر کی’ وہ گئے گزرے زمانے جو ہم نے ضائع کر دیئے’ ہمارے خوف’ ہمارے جذبے’ ہماری اپنی جوانی اور بڑھاپا جو ہم نے بچوں کی طرح گزارا’ یا احمقوں کی طرح. اس وقت سڑک پر جاتی ہوئی ایک بس بھی ہمیں سارا وقت یاد دلا دیتی ہے کہ ہم ایک گاڑی کی طرح سرگرداں رہےجو اپنی لائنوں پر چلے جاتی ہے’ چلے جاتی ہے’ لائنیں جو اسے لئے جاتی ہیں’ پوچھے بغیر’ جانے بغیر’ پہچانے بغیر’ ہمیں ہانکا جاتا ہے’ ہم ہنکے جاتے ہیں. اپنی خوراک’ اپنی باتوں اور اپنے جذبوں کا بوجھ اٹھاۓ ہوئے. ہماری کتابیں’ ڈگریاں’ بہترین درزیوں کے ہاں کے سلے ہوئے سوٹ جن کا ذکر کرنے سے ہم کبھی نہیں چوکتے’ خوشنما رنگوں کی ٹائیاں’ ٹوپیاں اور خوشبوئیں جو ہم نے اعلیٰ درجے کی دوکان سے خریدیں’ سب کو کندھے پر لادے’ اپنی ساری امارت کو اٹھاۓ’ ہر قسم کے خیال کو قبول کرتے ہوئے….. خیال جو پڑاؤ سے پڑاؤ تک غائب ہو جاتا ہے…. کھاتے کھاتے اور کھاتے ہوئے’ اور باتیں کرتے ہوئے. باتیں؟ ان جگہوں کی جو ہم نے دیکھیں’ ان چیزوں کی جو ہماری ملکیت ہیں’ ہماری رائیں اور قیاس آرائیاں جن کا کوئی وجود نہیں ہوتا’ جو کسی کے لئے اہمیت نہیں رکھتیں’ ہمارے اپنے لئے بھی نہیں.. اس کے باوجود انہیں اخلاق اور توجہ کے ساتھ سنا جاتا ہے اور جواب میں جو کچھ کہا جاتا ہے اسے ہم توجہ اور اخلاق کے ساتھ نوٹ کرتے ہیں’ انہیں اہمیت دیئے بغیر’ ان کی پرواہ کئے بغیر.

تمہیں پتا ہے دنیا میں ہم کتنی نرمی’ کتنے اخلاق’ کتنی مکّاری سے ایک دوسرے کے ساتھ پیش آتے ہیں. ہم دنیا بھر کا سفر کرتے ہیں اور رائیں قائم کر لیتے ہیں اور پھر انہیں وقت گزارنے یا ایک دوسرے کو مرعوب کرنے کے لئے ہتھیاروں کے طور پر استعمال کرتے ہیں. اور ہماری رائیں کیا ہوتی ہیں؟ یہی کہ روضہ تاج محل خوبصورت عمارت ہے اور چین کے مجلسی حالات بہتر ہو رہے ہیں یا نہیں ہو رہے ہے اور دنیا میں اچھے شاعر پیدا ہونے بند ہو گئے ہیں. ہم انہیں بار بار دوہراتے ہیں حتی کہ اپنی تقریر میں ماہر ہو جاتے ہیں’ ٹورسٹ گائیڈ کی طرح. پھر ہم اس کا استعمال شروع کرتے ہیں. ہر ایک کے پاس اپنا اپنا سکہ بند طریقہ ہے’ برسوں کے تجربے اور مشق کے بعد اپنایا ہوا رویہ’ غیر شخصی سرسری پن’ یا محتاط’ شخصی اور منہمک رویہ. ہم بہر حال ہر منزل پر’ ہر طریقے سے اپنے آس پاس کے لوگوں کو ہم خیال بنانے کی’ دوسرے لفظوں میں انہیں مرعوب کرنے کی انتہائی جدوجہد کرتے ہیں’ ان کی کوئی پرواہ کئے بغیر’ اور مستقل یہ جانتے ہوئے کہ ہماری زرہ برابر پروا ان کو نہیں ہے. ہم اپنی زندگی کے خلا کو چھوٹی موٹی باتوں سے پر کرنے کی کوشش کرتے ہیں’ گفتگو جو تسکین بخش بھی اتنی ہی ہوتی ہے جتنی کہ گمراہ کن. اور پھر وہ وقت آتا ہے’ وہ جو ہم تھک جاتے ہیں اور پیچھے رہ جاتے ہیں اور بس کا تیل ختم ہو جاتا ہے اور ہمارا سارا بوجھ سڑک کے کنارے بکھر جاتا ہے’ کچھ مردہ کچھ نیم مردہ’ اور دفعتا حقیقت ہمارے سامنے آجاتی ہے’ کہ یہ سب اس قدر بے سود تھا’ سب! کہ بلآخر ہم وہاں پہنچ گئے ہیں جہاں سکون نہیں ہے اور ہم واپس نہیں جا سکتے’ کہ جہاں محض نقصان عظیم کا احساس ہے’ کہ ہم پرانی بس کی طرح بدصورت اور بیکار ہیں اور ان چاہے’ ان جانے سڑک کے کنارے کھڑے ہیں’ بختاور ہیں تو توڑ پھوڑ کر دوبارہ ڈھالے جائیں گے’ بد بخت ہیں تو محض نظر انداز کر دیئے جائیں گے..

” اب ہم پریشان ہیں’ تنہائی کے خوف سے ہراساں ہیں’ تنہا ہیں’ بے حد تنہا ہیں. کیوں؟ کیا ہم صرف اس دن کے لی اتنی مدت سے رہنے آرہے تھے؟ ہمارا نصب العین’ ہمارے الفاظ’ احساسات’ جذبات’ وہ کام برسہا برس کی مشق سے جن میں ہم نے مہارت حاصل کی’ دور دراز کے سفر’ دوست’ فہم جو ہم نے تقریر اور میل جول کے زریعے تیز کیا’ ہماری ہر دلعزیزی جو ہمارے ارد گرد اور ساتھ ساتھ چلتی تھی’ سب ختم ہو گیا؟ کیوں؟ کیوں؟ اب ہم سوچنے سے قاصر ہیں کہ کبھی سوچ ہی نہیں پاۓ. پر ہم جانتے ہیں’ جیسا کے ہم کئی اور باتیں جانتے ہیں’ کہ ہم نے جس چیز کی تلاش کی اسے پایا اور جس کے لئے اب حیران پریشان کھڑے ہیں اس کی تلاش ہی میں کبھی نہ نکلے’ صاف سیڑھی بات ہے. چناچہ اب تم چین کی بنسری بجاؤ اور قناعت سے بیٹھ کر خاتمہ بالخیر کا انتظار کرو’ انتظار کرو اور نچلے بیٹھو’ نچلے بیٹھو کہ یہی اصل مقام ہے. پر چین کی بنسری بجاۓ نہی بجتی اور ہم انتظار نہی کر سکتے. ہم جانتے ہیں کہ جتنے بھی انہماک اور لاپروائی اور صبر کے ساتھ انتظار کریں جب موت آ ئےگی تو ہمیں پریشان کر دیگی’ جیسے کہ ہر کسی کو کر دیتی ہے. باوجود ساری باتوں کے’ جب یہ آتی ہے تو خوف زدہ کر دیتی ہے. زندگی میں پہلی بار ہم سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں… ایک چمکیلی خوشگوار صبح کو اپنے بائیں باغ میں کھڑا خرگوشوں اور مرغیوں کو ناشتہ کھلا رہا ہوں. پرانا کڑوا تمباکو پی رہا ہوں اور اپنے پوتے پوتیوں کو سبزے پر کھیلتے کودتے دیکھ رہا ہوں. میری طبعیت میں ٹھہراؤ اور ربودگی آ چکی ہے اور میں سنبھل سنبھل کر اطمینان سے چلتا پھرتا ہوں. نوجوان آدمی کام پرجاتے ہوئے پاس سے گزرتے ہیں اور جھک کر سلام کرتے ہیں….. “قابل عزت بزرگ. سلیقے سے بسر کی ہوئی زندگی” وہ ایک دوسرے سے کہتے ہیں. پھر سامنے ایک اور چلا آتا ہے. ایک سفید سر والا دانا شخص’ چھڑی کے سہارے اپنے اپ کو سنبھالے’ وقار اور اطمینان کے ساتھ چلتا ہوا. نوجوان آدمی جھک کر سلام کرتے ہیں اور پہلی والی بات آپس میں دوہراتے ہیں. وہ اخلاق سے مسکرا کر جواب دیتاہے اور میرے سامنے آکر چند منٹ کے لئے رک جاتا ہے. ہم ایک دوسرے کو سلام کرتے ہیں اور موسم کے متعلق اظہار رائے کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی صحت کے متعلق پوچھ گچھ کرتے ہیں’ پھر خاموش ہو جاتے ہیں. اب کہنے کے لئے کچھ نہیں ہے. ساری باتیں اتنی غیر ضروری معلوم ہوتی ہیں. خرگوشوں کا ناشتہ اور چمکدار موسم اور دو خوشنما’ سجے سجاۓ بڈھے’ خالی الذہن اور مطمئن’ ایک دوسرے کے ڈھونگ کو جانتے ہوئے اور چھپائے ہوئے’ بلا وجہ نادم اور خوش مزاج ……. پھر وہی بات کرنے کے انداز میں کھنکارتا ہے اور محض ہاتھ سے سلام کر کے چلا جاتا ہے. میں پیچھے مڑ کر نہی دیکھتا لیکن میں جانتا ہوں اور ذہن کی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں. نہایت سلیقے سے خالی کی ہوئی ایک زندگی’ بے وجہ’ بے جواز.. جانتا ہوں کہ وہ مجھے دیکھ رہا ہے. ہم دونوں ایک دوسرے کو اچھی طرح سے جانتے ہیں پر کبھی تسلیم نہیں کرتے

اداس نسلیں از عبداللہ حسین

Share

May 24, 2012

حقیقت تمثیل از ابن عربی

Filed under: تحقیق,کتابیات,مذہب,مشاہدات — ابو عزام @ 12:49 pm

فصوص الحکم میں  ابن عربی حکمت قدوسیہ فص کلمۂ ادریسیہ کے بیان میں کہتے ہیں

یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ کسی مسئلے کی تحقیق جدا ہوتی ہے اور مثال کے طور پر یا عبرت لینے یا نصیحت پکڑنے کے لیے کسی جانور کے فرضی قصّے کا بیان کرنا یا غلط، مگر مشہور واقعے کی طرف اشارہ کرنا درست ہے. کیونکہ اس وقت مقصود صرف تمثیل اور عبرت ہوتی ہے..

واقعات اور مسائل کی تحقیق و تنقید کا مقام دوسرا ہوتا ہے.مثلاً کوئی کہے کہ حریص کو کچھ نہیں ملتا. بلکہ جو کچھ اپنا تھا اس کو بھی کھو دیتا ہے. جیسے ایک حریص کتا جس کے منہ میں گوشت کا ٹکڑا تھا. ندی پر سے گزر رہا تھا. اس نے ندی میں اپنا سایہ دیکھا’ اس نے سمجھا کہ ایک دوسرا کتا منہ میں گوشت کا ٹکڑا پکڑا لیے جا رہا ہے. حریص کتا اپنا منہ کھول کر اس کے گوشت کے ٹکرے کو چھینے کے لیے جھپٹا. اور اپنا گوشت کا ٹکڑا بھی کھو دیا. دیکھو اس واقعے سے صرف حرص کی مذمّت مقصود ہے. اور وہ اس سے حاصل ہے.یہ بات کہ واقعی کسی کتے نے ایسا کیا’ یا نہیں’ ہمارے مقصود سے خارج ہے.

ہیت دانوں کے دو فرقے ہیں.

بعض زمین کو مرکز علم سمجھتے ہیں اور یہ بطلیموسی کہلاتے ہیں.۱
بعض آفتاب کو اپنے سیاروں کا مرکز سمجھتے ہیں. اور یہ فیثا غورثی کہلاتے ہیں.۲

تابعین فیثا غورث کے خیال میں ہر ایک ثابتہ آفتاب ہے اور اس کا نور ذاتی ہے

بعض ثابتے ہمارے آفتاب سے بہت بڑے ہیں. کہکشاں ہیں. جس کو عربی میں مجرہ کہتے ہیں کروڑ ہا کروڑ آفتاب ہیں. دودو ثابتے یا آفتاب با ہم ایک دوسرے کے اطراف گردش کرتے ہیں. اور دودو کا جوڑا. اور ایک جوڑے کے اطراف گردش کرتا ہے بعض کے پاس قمر زمین کے اطراف گردش کرتا ہے اور زمین مع قمر کے آفتاب کے گرد گردش کرتی ہے. آفتاب مع تمام سیارات کے کسی بہت بڑے آفتاب کے گرد گردش کرتا ہے. اور تمام آفتاب ہاۓ عالم ایک شمس الشموس کے اطراف گردش کرتے ہیں. زمین کو ساکن ماننے والوں کے پاس ستاروں کی جو ترتیب ہے اس کو شیخ نے یہاں بطور تمثیل کے بیان کیا ہے. اور یہاں صرف علوۓ مکان کی مثال مقصود ہے نہ کہ تائید نظام بطلیموسی.

ہم کو بحیثیت مذہبی آدمی اور صوفی ہونے کے نہ نظام فیثا غورث سے غرض ہے نہ نظام بطلیموسی سے. اس مسئلے کو یاد رکھو. یہ بہت سی جگہ نفع دیگا.

Share
« Newer PostsOlder Posts »

Powered by WordPress