فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

May 10, 2012

کوانٹم طبعیات اور ہگز بوسون

Filed under: تحقیق,عمومیات,مشاہدات — ابو عزام @ 7:49 pm

 اگر آپ نے راقم کی طرح نوے کی دہائ میں کالج اور جامعہ کی تعلیم مکمل کی ہو تو آپکو یاد ہوگا کہ ہمارے نصاب میں کوانٹم طبعیات کے بارے میں کچھ  زیادہ  تذکرہ نا ہوتا تھا ۔ذراتی طبعیات مں کوارکس کا ذکر تو سنا لیکن اس کی اسپن اور چارم سے کوئ خاص یاداللہ نہ ہو پائ۔ اگر آپ کا بھی یہی حال ہے تو حل حاضر ہے۔ اس ماہ  کا سائنٹفک امیرکن کا شمارہ راشد کامران سے مستعار لے لیں

اور اگر یہ ممکن نا ہو تو یہ چھوٹی سے ویڈیو جو پی ایچ ڈی کامکس والوں نےہگز بوسون ذرے پر بنائ ہے وہ دیکھ لیں،یقینا افاقہ ہوگا۔

Share

May 8, 2012

ایک مشاعرہ ہاے فرنگ کی مختصر روداد

Filed under: ادبیات,شاعری,مشاہدات — ابو عزام @ 5:04 am

جب سے ہمارے عزیز دوست راشد کامران نے چوغہ انٹرورٹیہ پہنا ہے یا یہ کہا جائے کہ کلازٹ میں جا بسے ہیں، ہمیں ادبی محفلیں اکیلے ہی نمٹانی پڑ رہی ہیں۔ اسی طرح کی ایک محفل مشاعرہ لاس اینجلس ٹایمز کے کتب میلے میں بھی برپا تھی جہاں پہنچ کر ہم نے سوچا کہ چلو آج انگریزی مشاعرہ بھی سنتے ہیں۔ سچ بتایں تو بڑی مایوسی ہوئ،نا تو داد و تحسین کے ڈونگرے، نا مکرر کی تکراروں میں پان کی گلوری کی پچکار، نا کوئ صدر مجلس، نا ہی  کوئ شاعروں کا پینل اور تقدیم و تاخیر کا اصرار۔  بھلا یہ بھی کوئ مشاعرہ ہوا۔شعر معنویت سے بھرپور و گہرے ہونا ہی تو سب کچھ نہیں ہوتا، بقول ہمارے جامعہ کے ساتھی شعیب سلیم کے، ٹیمپو بننا چاہیے۔

  اب زرا رنگ حنا پر کچھ تازہ کلام ملاحظہ ہو جس میں مملکت خداداد کا بھی نام آتا ہےکہ یہاں سرخ رنگ کمیاب ہے۔

یہ نظم بھی خاص ہے کہ اس میں شعرا کے جھوٹ کی فہرست بنی گئِ ہے۔

یہ صاحب اپنے آپ کوجدید دور کا شاعر کہتے ہیں اور ریپ کے انداز میں شاعری کرتے ہیں۔فیس بک پر انکی شاعری کا کوئ جواب نہیں، یعنی کہ سوشل میڈیا نے انسانی تعلقات پر جو گھرے اثرات مرتب کئے ہیں، وہ انکی زبانی ہی سنیے۔

بہرحال، حاصل کلام یہ ہے کہ دیسی مشاعری دیسی مشاعرہ ہی ہوتا ہے۔ رسائٹل کیا جانے زعفران کا بھاو!

Share

May 6, 2012

!اسما محفوظ، تیری جرات کو سلام

Filed under: سیاست,مشاہدات — ابو عزام @ 7:51 am

اگر آپ اپنے ملک میں ہونے والی تحریک آزادی کے ایک سرگرم  ثقہ کارکن ہوں، امریکہ میں موجود ہوں اور آپکی اپنی فوجی حکومت آپکے لیے گرفتاری کا پروانہ جاری کردے تو آپ کیا کریں گے؟ سیاسی پناہ کی درخواست یا پھر ممکنہ قیدوبند میں واپسی؟ ہم میں سے بہت سوں کے لیے یہ سوال ایک نو برینر کی حیثیت رکھتا ہے لیکن اسما محفوظ کے  لیے نہیں، وہ اپنے مقرر کردہ وقت پر مصر واپس لوٹ رہی ہیں۔ فراعنہ کی سرزمین میں جرات موسی رکھنے والی زینب الغزالیوں کی منزل مکمل آزادی یا موت ہے۔

کل رات مصر کی تحریک حریت کی اس کارکن اور ہیرو کو اکنا کے ایک عشائیے میں سننے کا اتفاق ہوا۔ یہ عشائیہ واے اسلام نامی دعوتی تنظیم کی جانب سے منعقد کیا گیا تھا جو ریاستہاے متحدہ امریکہ میں دین کی دعوت کا کام کرتی ہے اور راقم کو اس سے تعلق کا شرف حاصل ہے۔ بیس منٹ کی ایک تقریر میں بہن اسما نے مصر کی تحریک آزادی، تحریر اسکوائر کے مناظر اور نوجوانان کے کردار کو اسقدر پر اثر طریقے سے بیان کیا کہ سامعین کی آنکھیں تر ہوگئیں، انکا کہنا تھا کہ انہیں تو مغربی میڈیا کی بدولت لوگ جانتے ہیں لیکن وہاں قید وبند میں  ہزاروں ایسے  کارکنان ہیں جنہوں نے اپنے ہاتھ، آنکھیں اور دیگر اعضا کھو دیے ہیں، سینکڑوں نے اپنی جانیں جان آفرین کے سپرد کردیں اور ان کا نام بھی کسی کو معلوم نہیں، لیکن کوئ بات نہیں کیونکہ اللہ تعالی کو ان کا نام معلوم ہے اور یہی سب سے اہم بات ہے۔

جرات اور استقامت کے اس زندہ نشان نے جب یہ آیت پڑھی کہ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ, خدا اس قوم کی حالت تب تک نہیں بدلتا جب تک وہ اپنی حالت خود نہیں بدلتی تو بے ساختہ اپنے وطن کی یاد آگئی۔ اسما محفوظ کی بنیادی وجہ شہرت انکی یہ ویڈیو ہے جو انہوں نے جنوری ۲۰۱۱ میں یوٹیوب پر پوسٹ کی تھی۔مصری خاتون صحافی منى الطحاوى کے مطابق اس ویڈیو نے مصری انقلاب کے شعلے کو مہمیز دی اور اکثر مبصرین کے مطابق یہ تحریک انقلاب کی وجہ بنی۔ اس مختصر پیغام اور بعد کی تقاریر میں اسما محفوظ کہتی ہیں کہ

میں یہ ویڈیو آپ کو ایک سادہ سا پیغام دینے کے لئے بنا رہی ہوں، ہم 25 جنوری کو تحریر اسکوائر جارہے ہیں۔ اگر ہم اب بھی غیرت کے نام پرزندہ رہنا چاہتے ہیں، اور ہم اس زمین پر وقارمیں جینا چاہتے ہیں تو ہمیں 25 جنوری کو تحریر اسکوائر جانا ہے … جو شخص یہ کہتا ہے کہ اسکا کوئ فائدہ نہیں کیونکہ وہاں بہت تھوڑے سے اور مٹھی بھر ہی لوگ ہونگے وہ جان لے کہ وہ انتظامیہ سے قطعی مختلف نہیں۔  اس جیسے غداروں کی وجہ سے ہی سیکیورٹی فورسز ہمیں گلیوں اور سڑکوں پر دوڑا کر مارتی ہے۔  آپ ۲۵ جنوری کو ضرور چلیں،  اگر آپ خواتین کے عزت و وقار کے بارے میں فکرمند ہیں تو آئیں اور تحریر اسکوائر میں اسکا دفاع کریں۔

اسما محفوظ نے اپنی تقریر میں کہا کہ انکو اس بات کی فکر ہے کہ مسلمان اور اقوام عالم اب مسلسل قتل عام اور ظلم و ستم دیکھ کر بے حس ہوتے چلے  ہیں،اور جو جوش و جذبہ مصر و لیبیا میں نظر آیا اب وہ شام میں نظر نہیں آتا جہاں پر روزانہ ایک جابر حکمران اپنے عوام پر جبر واستبداد کے پہاڑ توڑ رہا ہے، مصر کی موجودہ صورتحال پر ایک سوال کا جواب دیتے ہوے انہوں نے کہا کہ ابھی وہ منزل جس کے لیے قربانیاں دی گئ ہیں وہ دور ہے۔ فوجی حکمرانوں نے ایمرجنسی قوانین کو دوبارہ لاگو کرنے کی سعی شروع کر رکھی ہے اور مجلس العسکری کی سیاست سے علیہدگی ضروری ہے۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ جرات و صداقت کی علمبردار ، تحریک حریت کی اس سپاہی اور تمام لوگ جو ظالم حکمران کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں ان کو اپنی حفظ و امان میں رکھے، آمین۔

Share

May 2, 2012

دو نظریاتی ریاستیں

Filed under: پاکستان,سیاست,عمومیات,مشاہدات — ابو عزام @ 4:00 am

سنہ ۱۹۴۷/۴۸ میں دو عدد نظریاتی ریاستی معرض وجود میں آئ تھیں جن کی بنا قومیتوں کی مذہبی بنیاد پر تقسیم تھی۔

نظریے پر عمل کتنا ہوا، اس کا اندازہ ان دو سرخیوں سے ہوجاتا ہے۔

سابق اسرائلی صدر موسے کاستو کو عدلیہ نے سات سال قید کی سزا سنا دی۔

پاکستان کی سپریم کورٹ نے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو قومی مصالحتی آرڈینینس یعنی این آر او پر عملدرآمد سے متعلق مقدمے میں عدالتی فیصلے پر عمل نہ کرنے اور توہین عدالت کا مرتکب ہونے  پر ایک منٹ کی سزا سنا دی ہے۔

جرائم کی نوعیت نہایت مختلف سہی لیکن اینکڈوٹ اچھی بنی ہے۔

Share

April 30, 2012

گریجویٹ اسکول کے طلبہ کی کہانی، ایک فلم کی زبانی

Filed under: طنزومزاح,عمومیات,مشاہدات — ابو عزام @ 8:00 pm

پروفیسر صاحب رحم کریں، اگر میرا پی ایچ ڈی مکمل نہیں ہوا تو میں کیا کروں گا، میرے پاس تو کوئ بیک اپ پلان بھی نہیں
میاں، یہ تو تمہیں کیلٹیک میں داخلے سے قبل سوچنا چاہیے تھا، کسی چھوٹی موٹی یونیورسٹی میں چلے جاتے اگر یہ بات تھی تو، ایم آئ ٹی تھی نا۔

یہ مکالمہ پی ایچ ڈی مووی کا ہے جو پروفیسر اسمتھ اور اسکے شاگرد ونسٹن کے درمیان ہوتا ہے۔ اگر آپ کو تکنیکی کامکس کا شغف ہے تو ڈلبرٹ، ایکس کے سی ڈی اور پی ایچ ڈی کامکس سے ضرور واقفیت ہوگی۔ پی ایچ ڈی کامکس تحقیقی اسکول کے طلبہ کی زندگی پر مبنی واقعات کو طنزیہ انداز میں پیش کرتے ہیں۔پایلڈ ہائ اینڈ ڈیپر کے خالق ہورہے چام*، جو خود اسٹانفرڈ ہونیورسٹی سے میکینکل انجینئرنگ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھتے ہیں ، انہوں نے اس بار کامک سے بڑھ کرتقریبا ۷۰ منٹ کی ایک فلم بنا ڈالی جس کے تمام اداکار طلبہ و طالبات ہیں اور اس کی فلم سازی کالٹیک یونیورسٹی ہی میں کی گئی ہے۔

 

دو گریجویٹ طالبعلموں کی زندگی پر مبنی یہ فلم گریجویٹ اسکول کے تحقیقی کام، پروفیسروں کی بے اعتنائ اور پوسٹ ڈاکس کی زندگی کے گرد گھومتی ہے۔چونکہ راقم کیلٹیک کے آس پڑوس میں وقت گزارنے اور وہاں موجود ستار بخش پر راشد بھائ کے ساتھ گپیں لگانے میں ید طولی رکھتا ہے لہذا ہمیں تو اس کے تمام آوٹ ڈور سیٹس کو دیکھ کر بڑا مزا آیا۔ اس فلم کے مخصوص طرز بیاں اور موضوع کی بنیاد پر شائد عام افراد تو اتنا لطف نا اٹھا سکیں لیکن اگر آپ نے گریجوٹ اسکول یعنی ماسٹرز اور پی  ایچ ڈی میں وقت گذارا ہے تو آپ اس سے بھرپور انداز میں حظ اٹھا سکیں گے۔

*جی ہاں، اسے ہورہے ہی پڑھا جاتا ہے، جورج نہیں۔یہ ہسپانوی زبان کے لفط ج کا تلفظ ہ سے کیا جاتا ہے، جیسے سان ہوزے درست ہے اور سان جوز غلط۔

Share

April 13, 2012

محرمات اور انسانی قوانین- اسفل السافلین

Filed under: خبریں,مذہب,مشاہدات — ابو عزام @ 10:33 am

بی بی سی پر یہ عبرت انگیز خبر پڑھی، کہ نکاح محرمات کے بنیادی ‘انسانی حق آزادی’ کو یورپی عدالت نے تسلیم کرنے سے انکار کردی,، اگر یہی نفرین فعل چار سو میل دور بیلجیم یا فرانس میں ہوتا تو قابل مواخذہ نا ٹہرتا، کیا بات ہے انسانی قوانین آزادی کی۔

 لیکن قوانین جمہور و لبرلزم کے علمبردار یہ بتائن کہ اگر انسان کو قانون سازی کا مطلق حق حاصل ہے تو اس امر قبیح میں برائ ہی کیا ہے؟ جب لوگوں کو ہمجنس پرستی پرعائد پابندیاں زہر لگتی ہیں اور وہ اسے مملکت خداداد میں جاری و ساری دیکھنا چاہتے ہیں تو نکاح محرمات بھی تو صرف ایک معاشرتی ٹابو ہی ہے، اس کو بھی روند ڈالیے ۔ رہی بات پیدائشی موروثی نقائص کی تو پھر یوجینکس میں کیا برائ تھی، اس کو بھی جاری و ساری رکھا جاتا۔ تعدد ازواج کی مغربی پابندی بھی تو ایک معاشرتی قدغن ہی ہے، اسکا کیا جواز بنتا ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ لبرلیت و نام نہاد روشن خیالی کے علمبردار لوگ جو ‘رضامند عاقل و بالغ’ افراد کے افعال پر کسی قسم کی بیرونی قدغن نہیں پسند  کرتے انہیں کم از کم اصولی طور پر پر تو ان پیٹرک سٹیوبنگ اور سوزان کارولسکی کے حق میں آواز بلند کرنی چاہیے۔ یہ کیا دہری پالیسی ہے حیات من النزاعات کی کہ انسانی عقل کل ہے بھی اور نہیں بھی۔ موروثی نقائص کا مسئلہ ہے تو قطع القناة  یا نسبندی اور إستئصال الرحم کے بعد تو اس میں کوئ کجی نہیں رہ جاتی، العیاذ باللہ

غرضیکہ جو لوگ خدائ احکام کے بجاے انسانی قوانین کو بنیادی معاشرتی اقدار کے لیے هیئت حاکمیه کا درجہ دیتے ہیں وہ ایک ایسی ٹیڑھی شاہراہ پر سفر کرتے ہیں جس کا انجام گمراہی کا گڑھا ہے جہاں کسی فوٹون کی توانائ کچھ کام نا آئے گی۔

قال سمع النبي صلی الله عليه وسلم رجلا يعظ أخاه في الحيا فقال إن الحيا شعبة من الإيمان

Share

March 29, 2012

کھوکھلے خواب

Filed under: پاکستان,سیاست,مشاہدات — ابو عزام @ 10:31 pm

مارچ ۲۳ کے تناظر میں لکھی گئی یہ تحریر تو شائد کلمہ ابتذال کلیشے ہی قرار پاے لیکن بقول فیض، کبھی کبھی ایسا بھی لکھنا چاہیے۔

یہ لوگ کون ہیں اور کونسے خواب دیکھ رہے ہیں؟ کیا یہی وہ رویا اقبال ہے جس کا چہار دانگ عالم چرچا ہے، کیا یہی وہ خواب ہیں جس کی تعبیر اسلامی جمہوریہ پاکستان کی صورت میں قائم ہونے والی ایک اسلامی فلاحی ریاست ہے؟

 ہم اسے توہم و اغفال و تجسم ہذیان تو قرار دے سکتے ہیں لیکن زمینی حقائق سے دور ان پوش و کلچرڈ گلچین کا اساس مملکت خداداد سے کیا لینا دینا۔ اردش کے استعمال کے بنا چارہ نہیں کہ اس شماریات کا سیمپل سائز تو خدا جانے کس قسم کا آوٹلائر ہے، کوئ باشرع جوان نہیں، کوئ حجابی خاتون نہیں، ٹک ذکر دین نہیں، کہیں نظام مصطفوی کی پکار نہیں، فکر ہے تو بس اس بات کی کہ پاکستان کا ویزہ لینے کے لیے لوگوں کی لاین لگ جائے۔ مستعار لی گئی  مغربی عقل کے یہ متوالے پھر اسلامی جمہوریہ پاکستان اورمملکت ناروے و ریاست آسٹریلیا ومملکت نیدرلینڈز میں کیا فرق دیکھتے ہیں جہاں کی ہیومن ڈویلپمینٹ انڈیکس ٹاپ تھری میں شمار ہوتی ہے۔ اداروں کی مضبوطی کی خواہش یا قانون کی بالادستی بات تو بجا ٹھری لیکن نظریات کے فرق میں برہان قاطع کیا ہے؟ جس اساس پرمملکت پاکستان کا وجود ٹھرا، اس کا تذکرہ ندارد، کہیں تو بہر خدا آج ذکر یار چلے۔ کیا یہی مملکت پاکستان کے حصول کا خواب تھا؟ اگریہی بات ٹھری تو پھردو قومی نظریے پر  دو حرف بھیجیے اور اسے خلیج بنگال کی طرح اس بار بحیرہ عرب میں ڈبو دیں، قرار داد مقاصد کو آگ لگا دیں، اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کو سیکیولر جمہوریہ قرار دیتے ہوئے ایک “ترقی یافتہ” ملک بنانے کی جدوجہد کے لیے کمر باندھ لیں۔

قومی لباس سے محروم تن بدن پر موجود جن خمار آلود آنکھوں نے یہ اسکرپٹڈ خواب بنے ہیں انہیں میں استعمارانہ نظام کے خواب، سرمایہ دارانہ نظام کے خواب، گلوبل معیشیت کے خواب یا کالونیلزم کے خواب ہی گردان سکتا ہوں۔ مملکت خداداد کے مستقبل کے لیے اقامت دین اور قیام نظام مصطفے صلی اللہ  علیہ وسلم ہی ایک خواب ہے جس کوغلامان مصطفی کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور اس کی تعبیر کی سعی کرتے ہیں۔

ڈرائنگ روم کی سیاست کرنے والے جو لوگ اپنی زبان میں خواب بھی نہیں دیکھ سکتے ان سے فسانوی حقیقت کا حق بھی چھین لیا جاتا ہے۔

Share

March 11, 2012

اپنے حصے کے بے وقوف

Filed under: طنزومزاح,مشاہدات — ابو عزام @ 9:58 pm

ہر قوم کو اپنے حصے کے بیوقوفوں کا کوٹہ ضرور ملتا ہے، یہ دنیا کی تکنیکی طور پر سب سے زیادہ ترقی یافتہ قوم کے لوگ ہیں، ملاحظہ کریں۔

Share

March 7, 2012

خَلْقَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِيْنٍ

Filed under: تحقیق,مشاہدات — ابو عزام @ 1:39 am
“حیرت انگیز بات یہ ہے کہ آپ کے جسم میں ہر ایٹم ایک منفجر یا پھٹے ہوے ستارے سے آیا ہے،  آپ کےبائیں ہاتھ میں جو ایٹم ہیں وہ شاید وہ کسی دوسرے ستارے سے آے ہوں اور  دائیں ہاتھ  کے جوہر کسی مختلف ستارے کی باقیات ہوں. طبعیات میں یہ واقعی سب سے زیادہ شاعرانہ بات ہوسکتی ہے جو میرے علم میں ہے۔۔۔ آپ سب ستاروں کی مٹی ہیں۔”

Share

March 6, 2012

وسعت کائنات کی ایک جھلک

Filed under: تحقیق,مشاہدات — ابو عزام @ 10:34 pm

وسعت کائنات کی ایک نہایت خوبصورت تصویری جھلک۔

فبای الا ربکما تکذبان

Share
« Newer PostsOlder Posts »

Powered by WordPress