انٹرنیٹ پر موجود اسباق و لیکچرز کا ذکر ہو اور خان اکیڈمی کا نام نا آے، یہ کیسے ہو ممکن ہے۔ خان اکیڈمی ایک غیر منافع بخش تعلیمی تنظیم ہے جسے۲۰۰۶ میں امریکی معلم اور ایم ائی ٹی یونیورسٹی کے ایک گریجویٹ سلمان خان نے تخلیق کیا تھا. خان اکیڈمی کا مشن ہے کہ کسی کو بھی، کہیں بھی ایک اعلی معیار کی تعلیم فراہم کی جاسکے اور اس کار خیر کے لیے انٹرنیٹ کی مدد لی جاے۔ ۲۶۰۰ سے زاِئد ویڈیو اسباق کے ذریعے ریاضی، تاریخ، صحت کی دیکھ بھال اور ادویات، طبعیات، علم کیمیا، کمپیوٹر سائنس، حیاتیات، فلکیات، معاشیات کے علاوہ سیکڑوں دیگر مضامین کو بلامعاوضہ سیکھا جاسکتا ہے۔
February 27, 2012
February 16, 2012
زمین ساکن ہے
جہلِ خرد نے دن يہ دکھائے
گھٹ گئے انساں، بڑھ گئے سائے
آداب و اصول مباحثت میں استدلال و منطق تو خیرجزو اعظم ٹھرا، لیکن کچھ خیال علم و ہنرکا بھی ہو تو نورعلی نور۔ اگلے روز سیارہ جات فلک کے طفیل اتصال کردہ انٹرنیٹ پر زمین کے ساکن ہونے کا مژدہ پڑا، طبعیت باغ باغ ہوگئ ۔ فلیٹ ارتھ سوسایٹی کا ایک ممبر تو پی ایچ ڈی میں ہمارا ہم جماعت بھی ہے لیکن وہ کچھ ازراہ تفنن کا سا معاملہ ہے۔یہاں تو بات ایمانیات و اعتقدانہ بزرگانہ پر ہے کہ سائینس ان کے گھر کی لونڈی اور علوم ریاضی و طبعیات میں انہیں وہ ملکہ حاصل ہے کہ گویا نیوٹن انہی کی سقہ کشی کے تلمذ سےباعث رشک عالم ٹھرا۔ زمین اگر گھوم رہی ہے تو ہم اسے محسوس کیوں نہیں کرتے اور اگر گول ہے تو نیچے والے لوگ اس کے کنارے سے گر کیوں نہیں جاتے، اس قدر جاندار دلائل ہیں کہ تمام علم انسانی، فلاسفہ، منطق، طبعیات و ریاضیات مل کر بھی اسکا جواب نہیں دے سکتے۔
یادش بخیر کہ راقم جماعت نہم کا طالبعلم تھا کہ جب ماہر طبعیات و نیوکلیات ڈاکٹر التمش کمال سے تعلق فیض و تلمیذ ہوا۔ ان کے طفیل مصنوعی ذہانت کے ابواب سے لے کر مرکز گریز و مرکز مائل قوتوں کی وجہ سے مصنوعی سیارچوں کے مدار میں رہنے کے مختلف موضوعات پرسائنسی دلائل و مشاہدات سے ابتدائ واقفیت ہوئ ، خصوصا اس جیولئر کہ جس کی بدولت یہ اجرام اس فلک میں تیر رہے ہیں خاصی دلچسپی کا باٰعث بنی۔ یہ ۱۹۹۲-۹۳ کی بات ہے جب ۲۴۰۰ باڈ کے موڈم ہوا کرتے تھے اور معلومات وکیپیڈیا کے بجائے برٹانیکا سے لی جاتی تھیں، اس دور میں ایم آی ٹی کے نیوکلیائ فزسسٹ سے جو تشکیک و سائنیسی طریقہ سیکھا وہ درس زیست ہے۔ بہرحال اسی دور میں زیر تبصرہ کتابچے کا بھی مطالعہ کیا تھا، پڑھا کہ حرکت یومیہ حرکت شمس سے ہے نہ کہ حرکت زمین سے اور یہ بھی ک ہرمسلمان پر فرض ہے کہ حرکت شمس و سکون زمین پر ایمان لائے۔ نہ نص میں اسکا کوئ حامی ملا کہ کُلّ فِیْ فَلَکٍ یَّسْبَحُوْنَ نا علم حدیث میں، اصول درایت پر جو پورا اترا اسے قبول کیا اور باقی رد۔ لیکن آج یہ تذکرہ عبث دیکھ کر رہا نا گیا کہ ضرور قلم اٹھایا جاے اور بشارتوں کے شور میں کوئ تو کہے کہ برادرم، اکیسویں صدی میں اسطرح کی باتیں کرنا اپنا مضحکہ اڑوانا ہے، لیکن لگتا ہے کہ یہ کوشش عبث ہوگی کہ جو لوگ یہ باتیں کرتے ہیں انہیں اپنی یا مسلم امہ کے عزت و وقار کی کیا فکر، انہیں تو مطلب ہے فرقہ و گروہ بندی سے، علمی روایتوں کے تغیر و تذلل سے اور حدث و جاہلیت سے۔
ہمیں تو سیدھی سے بات ہے لبرلوں پر رحم آتا ہے کہ ان کے لیے پنڈولم دوسری طرف لے جانے کی نوبت شاید باشعور و تعلیم یافتہ مذہبی طبقے کی وجہ سے نا آئ ہوگی بلکہ اس کا مژدہ تو ضرور زمین کے سکون نے سنایا ہوگا۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ انسان میں خدا کی محبت بچانے کے لئے یہ تہمت اٹھانا ضروری ہو گیا توایسا لگتا ہے کہ شاید زمین کا سکون ہی ان تمام فکری جنجہلاہٹوں کا صریر خامہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان اغلاط پر ایمان ضروریات دین میں سے ہے؟ اور کیا ان کے غلط تسلیم کرنے سے فاضل مولوی کی شان میں کوئ فرق آے گا؟ کہ جب شارع صلی اللہ علیہ وسلم نے انتم اعلم باموررادنیا کم فرما دیا تو اب ہما شما کا تذکرہ ہی کیا۔ لیکن وہ بالک ہٹ ہی کیا کہ امام کی اغلاط حصہ دین نا ہوجایئں اور یک جنبش قلم سے وہ ماہر طبعیات و کیمیا و فلیکیات و حسابیات نا ہوجاویں کہ علم لدنی کا شمار سے کیا تعلق۔ آج شب کچھ گلیلیو و کوپرنیکس کا غلبہ ہے، غم تو یہ ہے کہ نص کے عدم رد کے باوجود نادان دوست کلیسا کی پیروی کرنے پر تلے ہیں۔
رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
ہو رہے گا کچھ نا کچھ گھبرایں کیا
January 20, 2012
مذہب کے نام پر قتل و غارت گری
تمثیلی منطق ،خیالی ڈیٹا اور مذہبی تعصبات کی مستعارانہ فکر سےلبریز افراد اکثر یہ دعوی کرتے دکھائ دیتے ہیں کہ دنیا کی تاریخ میں مذہب کے نام پر سب سے زیادہ قتل و غارت گری ہوئی ہے۔ اس بے بنیاد و بے اصل دعوے پر سر پیٹنے کو دل چاہتا ہے، اپنا نہیں بلکہ دعوی کرنے والے کا لیکن یہ سوچ کر ٹہر جاتے ہیں کہ کہیں یہ مذہب کے نام پر تشدد کے زمرے میں نا آجاے۔ حسرت کی طرح ادعا اتقا وفتح عقلی کے باوجود مذہب کے خلاف تعصب کی عینک اتار کر حقائق کو مدنظر رکھا جائے اور تاریخ میں الحاد و سیکیولرانہ حکومتوں اور اقوام کے حالات ذندگی پڑھ لئے جائیں تو یہ غلط فہمی باآسانی دور ہو سکتی ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران جرمنوں کے ہاتھوں لاکھوں رومانوی جپسیوں، روسیوں اور یہودیوں کا قتل ہوتا ہے،بعد ازاں رد عمل میں یورپی ممالک سے بارہ ملین جرمنوں کا انقلا اور اس بالجبر ہجرت میں پانچ لاکھ افراد کی موت ہوتی ہے، اسٹالن کی کی زیر سرپرستی ایک کروڑ سے زائد افراد عظیم اشتراکیت کی مصنوعی غذائ قلت، قحط اور قید و بند میں مارے جاتے ہیں۔ ماو کے سنہرے دور میں لاکھوں لوگوں کو عوامی عدالتوں میں برسر عام .انقلابی. سزائیں سنا کر دار و رسن سے نوازاجاتا ہیے، پوٹ پال کی حکومت میں کم و بیش بیس لاکھ کمبوڈین افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ تہذیب یافتہ یورپی اقوام جب اپنے تہذیبی ورثے کو شمالی و جنوبی امریکہ برامد کرتے ہیں تو مختلف اندازوں کے مطابق بیس لاکھ سے ایک کروڑ کے لگ بھگ مقامی لوگوں کا صفایا ہوجاتا ہے کہ یہ تو دنیا کا دستور ٹھرا۔ روانڈا کے قتل عام سے لے کر آشوتز کے گیسی کمروں کی نسل کشی تک اورہیروشیما و ناگاساکی و روس کے قفقاذی حملوں سے لے کر منگولوں و تاتاریوں کی وحشت تک، انسانی ظلم و ستم کی داستاں بہت طویل و غمگین ہے۔ رنگ و نسل کی برتری، قومیت پرستی، اور زیادہ طاقت کی خواہش نے ہمیشہ انسان کو انسان کا خون بہانے پر اکسایا لیکن تاریخ سےتھوڑی سی بھی آگاہی رکھنے والا شخص یہ جانتا ہے کہ ان میں سے کسی بھی مبارزت کو مذہب کے گلےباندھنا تحقیقی و علمی طور پر ناانصافی کی بات ہوگی۔ نام نہاد روشن خیال، سیکولر، تہذیب یافتہ و لبرل اقوام نے انسانیت پر جس طرح کے ظلم و ستم ڈھائے ہیں ان سے چشم پوشی کرنا تو شائد مذہب بیزاروں کی روائت ٹھری ہے۔ دو سو سال کی صلیبی جنگوں کے دس سے تیس لاکھ مقتولین پانچ سالہ جنگ عظیم کے چار سے ساڑھے سات کروڑ کشتگان کے برابر ٹھرتے ہیں، نا جانے ان کا ڈیٹا کس متوازی کائنات سے آتا ہے؟
حوالہ جات
The Great Big Book of Horrible Things: The Definitive Chronicle of History’s 100 Worst Atrocities
January 8, 2012
!چین کی ترقی
قیصر تمکین صاحب کی کتاب تنقید کی موت میں منصورہ احمد کی مندرجہ ذیل مختصر نظم ایک استفہامیے کے طور پر موجود ہے۔
!مرے مالک
تجھے تو علم ہی ہوگا
جو بچپن سے بڑھاپے میں چلے جاتے ہیں
ان سب کی جوانی کون جیتا ہے؟
مجھ سے اکثر احباب اس بات پر نالاں رہتے ہیں کہ میں چین کی ترقی اور اس کی عظمت کی داستانوں کو درخوراعتنا نہیں گردانتا، نا ہی مجھے اس “ابھرتی ہوئی نئی عالمی طاقت” کی بڑائی سے کوئی خاص دلچسپی ہے۔ میں اسے ۸۰ کی دہائی کی جاپانی ترقی کی ناپائدارگی پر محمول کرتے ہوئے اکثر یہ سوال کرتا ہوں کہ جب ترقی مشرق کے رطب اللسان مجھے سرزمین الصین کی تازہ ترین ایجاد کا نام بتائیں گے تو میں اس موضوع پر مزید گفتگو کرنے کے لئے تیار ہوں۔ اپ شائد اسے کج بحثی خیال کریں لیکن معاشی ناہمواریوں کے جس ابتذال میں اہل چین نے ایک ناپائدار ترقی کی بنیادیں کھڑی کی ہیں، ان کی انسانی قیمت اسقدر بلند ہے کہ اس کا اجمالی تذکرہ بھی گلوبلائزیشن کے بڑے سے بڑے حامی کے رونگٹے کھڑے کرنے کے لئے کافی ہے۔ شرط یہ ہے کہ وہ استعمارکا جبہ اتار کر انسانیت کا لبادہ اوڑھے اور خاکی پیراہن سے منطقی خطوط پر جی ڈی پی کی ناہمواریوں، یوان کے غیر فطری ٹھراو، برامدات کے بسیار، معاشی ترقی کا کمیونسٹ پارٹی کی “ازاد منش، انسان دوست، مزدور دوست” پالیسیوں سے تعلق استوار کرے۔
مسٹر ڈیزی کے ساتھ زرا شینجوان کا چکر لگائیں اور دیکھیں کہ ترقی کس چڑیا کا نام ہے۔
December 30, 2011
وہ دن ہوا ہوئے
کرٹکل تھنکنگ بڑی بری بلا ہے کہ زندگی سے افسانویت اور واقعہ سے نقش خیال چھین لیتی ہے۔ اب حکایاتوں و کہانیوں سے مزا اٹھ سا گیا ہے کہ اگر منہ سے آگ اگلتے اژدھوں، بولتے مرغوں یا ڈاکٹر کی ممکنہ ندامت کے خوف سے غلط داڑھ نکلوا لینے والے نوابین کے حسن سلوک کے قصے سنتے ہیں تو فورا لیفٹ برین چلا اٹھتا ہے کہ لو جی یہ بھی بھلا کوئ بات ہوئ؟ جوے شیر کیا، سلوک کیا، منصور کی سولی کیا۔۔۔یہ استدلالی و عقلی و منطقی و پر مغز سوچ تجرید کا گلا کچھ اس طرح گھونٹنے لگتی ہے کہ تخلیقی فکر کا دم گھٹتا ہے۔
یادش بخیر کیا دن تھے کہ تجسس و تخیل کی اڑانیں غیر مقید ہوا کرتی تھیں۔ جب استفسار سے پہلے جواب معلوم ہونا تو درکنار، معلوم کی سرحد کی موجودگی ہی بے معنی تھی۔ جب منطق و استدلال نے گمان کے پر نا کترے تھے۔ جب اشیا میں نیا پن تھا اور چھنگلی کے کھودنے سے بونے نکل آیا کرتے تھے، جب ہر سفر، ہر عمارت، ہر پہاڑ اور ہر قریہ جدید و بے نظیر و تازہ دکھائ دیتا تھا، مماثل نہیں کہ بین دیر ڈن دیٹ کی مانند ہو۔
اب تو بس سائنس، ترقی، ہایڈرالکس کے قوانین، حر حرکیات کے قوانین، اس کا نظریہ، اس کا قانون باقی رہ گئے ہیں۔۔۔ اس دنیا میں اب عمروعیار کی زنبیل کی کوئ جگہ نہیں، کسی کو عثمان جاہ کے انناسوں کے مرتبانوں سے، افراسیاب سے، صرصر سے، انکا و اقابلا سے کوئ التفات و تلمذ نہیں، ہاں بازرگانی ہے، سرقہ ہے، اور تجارت ہے کہ باقی سب تو لڑکپن کے کھیل ٹھرے، اذہان رشد و پختہ تو فقط استدلال سے کلام رکھتے ہیں۔
December 19, 2011
تارکین وطن کے نام
ہم سے اس دیس کا تم نام ونشاں پوچھتے ہو
جس کی تاریخ نہ جغرافیہ اب یاد آئے
اور یاد آئے تو محبوبِ گزشتہ کی طرح
روبرو آنے سے جی گھبرائے
ہاں مگر جیسے کوئی
ایسے محبوب یا محبوبہ کا دل رکھنے کو
آنکلتا ہے کبھی رات بتانے کے لئے
ہم اب اس عمر کو آ پہنچے ہیں جب ہم بھی یونہی
دل سے مل آتے ہیں بس رسم نبھانے کے لئے
دل کی کیا پوچھتے ہو
سوچنے دو
فیض احمد فیض
December 16, 2011
!دوروست ترک
یہ واقعہ ہمارے ساتھ تقریبا ایک ماہ پہلے استنبول میں پیش آیا، جب سے ہم دوستوں کو سنا کر انہیں بور کر رہے ہیں، اب آپ قارئین کی دلچسپی کے لئے بلاگ کی نظر کرتے ہیں۔
سلطان احمد کا ضلع استنبول کے انتالیس اضلاع میں سے ایک ہے۔ مشہور زمانہ نیلی مسجد جامع سلطان احمد، کلیسہ آیاصوفیہ اور توپ کاپی کا عجائب گھراسی ضلع کا حصہ ہیں۔ ہمارے ترک دوستوں نے مشورہ دیا تھا کہ اپنے قیام کے دوران رہائش سلطان احمد میں رکھنا تاکہ سفر میںوقت ضائع نا ہو، یہ مشورہ بڑا کارآمد ثابت ہوا اور ہم نے چار روز میں سلطان احمد کی بڑی خاک چھانی۔
اس سفر کا تذکرہ تو کبھی اور سہی، اہم بات یہاں یہ تھی کہ ہم جس اپارٹمنٹ میں بمعہ اہل و عیال ٹھرے، وہ کوچک یعنی چھوٹی آیاصوفیہ نامی مسجد کے بلکل برابر میں تھا۔ ایرولواپارٹمنٹ کمپلکس کے نگہبان روحان اور اس کے ایک ساتھی نے بڑی گرمجوشی سے ہمارا استقبال کیا اور ہمیں ہمارے اپارٹمنٹ کی چابی تھما دی اور ہمارے اصرار کے باوجود سامان گاڑی سے اتار کر اندر پہنچایا۔ روایتی ترکی گرمجوشی، مہمان نوازی اور بچوں سے ترکوں کے خصوصی لگاو کا مشاہدہ ہم نے پورے سفر کے دوران کیا۔ اس حسن سلوک سے ہم سب خاصے متاثر ہوئے۔
خیر، جب جانے کا وقت قریب آیا اور ہم نے اپنے الیکٹرانک گیجٹ سمیٹنا شروع کئے تواہلیہ کو تحفتا دیا ہوا آی پاڈ ٹچ، جو اس وقت ہمارے استعمال میں تھا، شومئی قسمت سے اپارٹمنٹ میں رہ گیا۔ یہ عقدہ کراچی پہنچ کر کھلا کہ ہم آئی پاڈ وہیں بھول آئے ہیں۔ اس ڈوائس کی قیمت اس اپارٹمنٹ میں ہمارے چار روزہ قیام کے کرائے سے زیادہ تھی اور ہمیں یقین واثق تھا کہ کہ جس نے بھی آئ پاڈ کو پڑا پایا، وہ کسی صورت اسے واپس نہیں کرئے گا۔ صلواتیں سننے کے لئے تیار ہم نے اس ڈوائس کے نقصان پر اناللہ پڑھی ہی تھی کی ایک ای میل وصول ہوئی۔
آپ اپنا فون اپارٹمنٹ میںبھول گئے ہیں، آکر لے جائیں، آپکی امانت ہمارے یہاں محفوظ ہے۔ روحان از ایرولو اپارٹ
اس پر آشوب دور میں ایمانداری کے اس نادر مظاہرے پر بڑی دلی مسرت ہوئی ۔ ہم نے انہیں جواب دیا کہ انشاللہ ہم ایک ماہ بعد آ کر اپنی امانت لے جائیں گے۔ تقریبا ایک ماہ بعد جب ہمارا دوبارہ استنبول جانا ہوا تو ہم نے صبح سویرے اپارٹمنٹ کا چکر لگایا اور روحان کے ساتھی نے فورا ہی ہمیں ہمارا آئی پوڈ لا دیا۔ اس کی فارمیٹنگ اور ڈیفالٹ زبان کو مشرف با ترکی کرنے کے علاوہ اور کوئی خاص تبدیلی نہ تھی۔ ہم نے اپنے میزبان کا تہ دل سے شکریہ ادا کیا اور اپنی راہ لی۔
جب آپ نیلی مسجد سے نکلنے لگتے ہیں تو باہر جانے کے دروازے پر یہ بڑا طغرہ نظر آتا ہے۔ ترکوں کے قول و عمل میں اس کا بڑا ہاتھ دکھائی دیا۔ الکاسب حبیب اللہ۔
October 5, 2011
آیکن ایمبولینس – اسٹیو جابس، ٹیکنالوجی کی ایک عہد ساز شخصیت کی موت
ایپل کمپیوٹر اور آئی فون کا موجد، بلحاظ سرمایہ دنیا کی سب سے بڑی کمپنی ایپل کا بانی، ایک شامی باپ اور امریکی ماں کا بیٹا، ٹیکنالوجی کی دنیا کا صاحب بصیرت شخص جس نے کمپیوٹر اورٹیلی کمیونیکیشنز کی دنیا کو وہ بنیادی تبدیلیاں دیں جن کے اثرات کئی دہایوں تک محسوس کئے جائیں گے آج اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔
اس زمن میں گوگل کے وک گندوترا کے ایک نہائت عمدہ اور مختصر مضمون ‘آیکن ایمبولینس’ کا ترجمہ موقع کی مناسبت سے درج ہے
اتوار، چھ جنوری سن دو ہزار آٹھ کی صبح کا ذکر ہے کہ میں چرچ کی مذہبی رسومات میں شریک تھا کہ اچانک میرا فون جو وائبریٹ پر رکھا تھا، جاگ اٹھا، جس قدراحتیاط سے چھپتے چھپاتے ممکن تھا میں نے وائبریٹ ہوتے ہوئے فون کو دیکھا تو اس میں کال کرنے والے کا نمبر ‘شناخت نامعلوم’ تھا۔ موقع کی مناسبت سے میں نے اس کال کو نظر انداز کرنا بہتر سمجھا۔
چرچ کے بعد جب میں اپنے گھر والوں کے ساتھ گاڑی کیطرف روانہ تھا، میں نے اپنے سیل فون کی وائس میل کے پیغامات کو سننا شروع کیا۔ اسٹیو جابس نے پیغام چھوڑا تھا کہ “وک، مجھے تم سے کچھ ضروری بات کرنی ہے، کیا مجھے گھر پر کال کرسکتے ہو؟”.
گاڑی تک پہنچنے سے پہلے ہی میں نے اسٹیو جابز کا نمبر ڈائل کر دیا۔ چونکہ میں گوگل کی تمام موبائل ایپلی کیشنز کے لیے ذمہ دار تھا اس لئے اس کردار میں میرا اسٹیو کے ساتھ باقاعدگی سےرابطہ رہتا تھا. یہ اس جاب کے فوائد میں سے ایک بڑا فائدہ تھا!
اسٹیو –میں وک بات کر رہا ہوں ، میں نے کہا. مجھے افسوس ہے کہ میں نے آپ کی کال کا پہلے جواب نہیں دیا، میں اس وقت چرچ میں تھا ، اور کالر آئی ڈی نامعلوم آئی تو میںنے فون نہیں اٹھایا۔
سٹیو ہنستے ہوئے بولے، وک ، اگر تم چرچ میں ہو تو جب تک کہ فون کرنے والے کی کالر آئی ڈی خدا کی طرف سے نا ہو، فون نا اٹھانا ہی درست فیصلہ ہے۔
میں کھسیانی سی ہنسی ہنسا کیونکہ اسٹیو کا اتوار کے دن کال کرنا اور مجھ سے اپنے گھر پر کال واپس کرنے کو کہنا غیر معمولی تھا، وہ عموما کام کے دنوں میںہی رابطہ کیا کرتا تھا، چھٹی والے دن نہیں، میں حیران تھا کہ کیا اتنی اہم بات ہو سکتی ہے۔
وک، ایک ضروری مسئلہ ہے جس کو فورا حل کرنے کی ضرورت ہے، میں نے پہلے ہی اپنی ٹیم سے کسی شخص کوآپ کی مدد کرنے کے لئے متعین کر دیا ہے اور مجھے امید ہے کہ آپ بھی اپنی طرف سے اس مسئلے کو کل تک حل کر سکتے ہیں۔ اسٹیو نے کہا۔
دراصل میں آئی فون پر گوگل کے لوگو کے آیکن سے خوش نہیں ہوں۔ گوگل کے لوگو میں دوسرا او صحیح طریقے سے پیلے رنگ کو تدریجی طور پر نہیں دکھا رہا. یہ درست نہیں ہے اور میں گریگ سے اسے درست کرنے کے لئے کہ رہا ہوں، تمہیں کوئی اعتراض تو نہیں
بلکل نہیں,یقینا مجھے کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ ۔ چند منٹ بعد میں سٹیو کی طرف سے آئکن ایمبولینس کے نام کی ایک ای میل موصول ہوئی ہے. ای میل میں مجھے گریگ کرسٹی کے ساتھ آئکن کی درستگی کے لئے کام کرنے کی ہدایت کی گئی تھی.
میرا ایپل کمپیوٹرز سے اس وقت سے تعلق ہے جب سے میں گیارہ برس کا تھا، ایپل کی مصنوعات کی تعریفوںکے لئے میرے پاس درجنوں واقعات ہیں، ایپل کئی دہائیوں سے میری زندگی کا ایک حصہ رہا ہے. یہاں تک کہ جب میں نے بل گیٹس کے لیے مائیکروسافٹ میں 15 سال کام کیا ، تب بھی میںاسٹیو جابس اور ایپل کی مصنوعات کا دلی قدر دان تھا۔
لیکن جب بھی میں قیادت، جزئیات پر توجہ اور جذبے کے بارے میں سوچتا ہوں تو مجھے جنوری میں اتوار کی صبح سٹیو جابس کی کال یاد آجاتی ہے، یہ ایک ایسا سبق ہے جو میں زندگی بھر نہیں بھول سکتا ۔ ایک کامیاب سی ای او کو جزئیات کا ہمیشہ خیال ہوتا ہے، چاہے وہ لوگوکے پیلے رنگ کی تدریج ہی کیوں نا ہو، اور دن اتوار کا ہی کیوں نا ہو.
اسٹیو کے نام، ایک بڑے رہنما اور لیڈر کے نام ، میری دعائیں اور نیک خواہشات تمہارے ساتھ ہیں
September 30, 2011
انـا لله وانـا اليـه راجـعـون
ابھی اروائن گیارہ کی فرد جرم کی سیاہی خشک نا ہوئی تھی کہ امریکی انتظامیہ نے آج امریکی آئین کی پانچویں ترمیم کا جنازہ نکال دیا گیا جس کے مطابق کسی امریکی شہری کو ماورائے عدالت قتل نہیں کیا جا سکتا. انـا لله وانـا اليـه راجـعـون- امام انورالولاکی کی امریکی حملے میں شہادت کے زمن میں راقم نے سیلون کے کالم نگار گلین گلینوالڈ کے کالم کا ترجمہ کیا ہے جو درج زیل ہے۔
پچھلے سال ماہ جنوری میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ابامہ انتظامیہ نے امریکی شہریوں کی ایک ہٹ لسٹ تیار کی ہےجن کے ماورائے عدالت قتل کا حکم دیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک شہری انور الاولاکی بھی ہیں۔ ان کے خلاف فرد جرم دائر کرنے کی کوئی کوشش بھی نہیں کی گئی حالانکہ اباما انتظامیہ نے ایک سال پہلے اس پر غور کرنے کا عندیہ دیا تھا۔ اس بارئے میں قومی سلامتی کے یمنی ماہرین کے شدید شک و شبہات ہیں کہ انور اولاکی کا القاعدہ سے آپریشنل یا عملی طور پر کوئی تعلق بھی تھا اور نا کوئی ثبوت ان کے خلاف لایا گیا۔ صرف غیر ثابت شدہ حکومتی الزامات جن کی عدالت میںکوئی مصدقہ حیثیت نہیں۔ اولاکی کے والد نے جب صدارتی حکم کے خلاف اپنے بیٹے کی جان بچانے اور قتل کے احکامات کی قانونی حیثیت کو عدالت میں چیلینج کیا تو امریکہ محکمہ انصاف نے یہ کہ کر یہ کیس باہر پھینک دیا کہ یہ یہ مملکت کے راز ہیں اوریہ عدلیہ کی دسترس سے باہرہیں۔ اولاکی کو امریکی صدر کی ایما پر قتل کیا گیا جو کہ ان کا منصف بھی ہے، جیوری بھی ہے اور جلاد بھی۔
جب اولاکی کی امریکی شہریوں کی ہٹ لسٹ میںموجود ہونے کی تصدیق ہوئی تو نیویارک ٹایمز نے لکھا کہ ‘یہ نہائت غیر معمولی بات ہے اور اس کی تاریخ میں مثل بہت کم ملتی ہے۔ یہ شاذ و نادر ہئ ہوتا ہے کہ کسی امریکی کو ہدف بنا کر قتل کرنے کی منظوری دی جائے۔
کئی ناکام کوششوں کے بعد آج امریکی انتظامیہ انور اولاکی کو قتل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ اس کے لئے دیرینہ آمر دوست صدر صالح کی مدد لی گئی جنہوں نے اپنے شہریوںکو مارنے سے تھوڑے وقت کی چھٹی لی تاکہ امریکی انتظامیہ کو اس کا اپنا شہری مارنے میں مدد دے سکیں۔ امریکی انتظامیہ نے اس زمن اپنی حماقت سے ایک معمولی شخص کو شہید کے درجے پر فائز کرتے ہوئے اپنا حقیقی چہرہ دنیا کو دکھا دیا۔ ہمیںیقین ہے کہ میڈیا کا پیٹ بھرنے کے لئے اب حکومت اور میڈیا دونوں نے اگلے بن لادن کی تلاش دوبارہ شروع کر دی ہوگی،
سب سے حیرت ناک بات یہ نہیں کہ امریکی حکومت نے وہی کام کیا جس جس سے امریکی آئین کی پانچویں ترمیم میںیکسر طور پر منع کیا گیا ہے،یعنی اپنے ہی شہریوں کا قتل، اور اسی دوران پہلی ترمیم یعنی آزادی اظہار کی آزادی پر بھی ضرب لگائی گئی چونکہ عدالت میں ان الزامات پر اب کبھی بحث نا ہوگی۔ اس سے بھی حیرت ناک بات یہ ہے کہ اس ہلاکت کو اس طرح پیش کیا گیا کہ امریکی شہری اس بات پر نا صرف یہ کہ کوئی اعتراض بھی نہیں کریں گے بلکہ کھڑے ہو کر امریکی حکومت کی اپنے ہی شہریوںکو قتل کرنے کی نئی طاقت پر تالیاں بجائیں گے۔ یہ وہ طاقت ہے جس کے ذریعے اپنے کسی شہری کو کسی بھی قانونی کاروائی کے بغیر ماورائے عدالت قتل کیا جاسکتا ہے۔ بہت سے لوگ صدر کی مضبوطی، قوت فیصلہ اور سخت جانی کو سراہیں گے ۔ ان میں بہت سے وہ ‘صالحین’ بھی شامل ہونگے جنہوں نے ٹیکساس کے گورنر پیری ،جو آج کل صدارت کے امیدوار ہیں، ان کے ریاست ٹیکساس میں زانیوں اور قاتلوں کے تختہ دار پر لٹکانے کے عمل پر خوش ہونے والے ٹی پارٹی کے اراکین کے رد عمل کو انسانیت سوز قرار دیا تھا۔ لیکن کم از کم ان قیدیوں کو عدالت کے کٹھرے میں تو لایا گیا تھا اور ان کے قتل سے پہلے انہیں قانون کے مطابق اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا موقع دیا گیا تھا، انو الولاکی کو تو کوئی موقع نہیں دیا گیا ۔
آمریت کے نقطہ نگاہ سے یہ امریکی سیاسی پس منظر کا کارنامہ عظیم ہے۔ یہ یقینا ایک گراں قدر بات ہے کہ نا صرف ایک ایسا طریقہ نکال جائے کہ آپ عوام کی وہ آئینی انفرادی آزادیاں سلب کرلیں جو انہیںریاست کے جبر سے بچانے کے لئے بنائی گئی تھیں۔ لیکن اس سے بھی بڑا کارنامہ یہ ہے کہ ایسا ماحول بنا دیا جائے کہ یہ شہری بھیڑ بکریوں کی طرح ان آزادیوں کے چھن جانے پر تالیاں بھی بجائیں۔
میں جب بھی اس موضوع پر قلم اٹھاتا ہو، مجھے جو بات نہایت پریشان کرتی ہے وہ ڈیموکریٹس کی بش کی پالیسیوں پر تنقید ہے۔ یاد ہے جب صدر بش نے امریکی شہریوں کو بلا اجازت حراست میں رکھنے اور ان کی گفتگو سننے کی طاقت کا قانون منظور کروایا تھا؟ اس پر ڈیموکریٹس نے آسمان سر پر اٹھا لیا تھا اور کس قدر لے دے ہوئی تھی۔ اب وہی لوگ صرف حکومتی ذرائع کی اطلاع اور کسی عدالتی عمل کے بغیر کسی امریکی شہری کو ہلاک کردینے پر خاموش ہیں کیونکہ انتظامیہ کہتی ہے کہ وہ دہشتگرد تھا، یہ کونسا انصاف ہے؟
ان دنوں لبرلز کا نعرہ تھا، کیا آپ پسند کریںگے کہ ہیلری کلنٹن کے پاس آپ کا فون سننے اور آپ کو ماورائے عدالت قید کرنے کے طاقت ہو؟ آج انہی لوگوں سے یہ سوال کیا جانا چاہئے کہ اب آپ کو کیسا لگے کا کہ جب امریکی شہریوںکو ماورائے عدالت قتل کرنے کی اجازت رک پیری یا مشیل باکمین کے ہاتھ میںہو؟
گلین گرین والڈ، سیلون ڈاٹ کام۔
وبشر الصابرين الذين اذا اصابتهم مصيبة قالو انـا لله وانـا اليـه راجـعـون.
يا أيتها النفس المطمئنة ارجعي إلى ربك راضية مرضية, فادخلي في عبادي وادخلي جنتي.
September 28, 2011
اروائن گیارہ – عہد زباں بندی میں حسینیت کے علمبردار
مغرب آزادی اظہار کو انسان کا بنیادی حق گردانتا ہے۔ امریکی آئین کی پہلی ترمیم جو کہ ‘بل آف رایٹس’ کا حصہ ہے کے مطابق ہر فرد کو آزادی اظہار کا حق حاصل ہے اور امریکی ایوان نمایندگان کوئی ایسا قانون نہیں بنا سکتا جس سے کسی سرکاری مذہب کی رائے ہموار ہوتی ہو ، کسی کو اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنےسے روکا جاتا ہو، عبادات میں خلل ڈالا جا سکتا ہو، کسی فرد یا افراد کے گروہ کی زباں بندی ہوتی ہو، یا انہیں پرامن طور پر اجتماع کرنے کی آزادی سلب کی جاتی ہو یا کوئی ایسا قانون بنایا جا سکے جس کے ذریعے زرائع ابلاغ پر قدغن لگائی جا سکتی ہو۔
لیکن قوانین تو شائد بنتے ہی اپنی مرضی کے مطابق توڑنے مروڑنے کے لئے ہیں، حبس بے جا کے خلاف قانون کی بندش ہو، ایک لاکھ بیس ہزار جاپانی امریکیوں کی انٹرمٹنٹ قفل بندی ہو یا پھر اورینج کاونٹی کی عدالت کی جامعہ اروائن کے گیارہ طالبعلموں کے خلاف فرد جرم ہو جنہوں نے اسرائیلی سفیر کی تقریر کے دوران اپنی رائے کا ببانگ دہل اظہار کیا ۔
فروری 2010 میں غزہ کے محاصرے اور حملوں کے دوران اسرائیلی سفیر مائکل اورن نے جامعہ اروائن کیلیفورنیا میں خطاب کیا۔ اس خطاب کے دوران مسلم اسٹوڈنٹ فیڈریشن کے اراکین گیارہ طالبعلموں نے رفتہ رفتہ کھڑے ہوکر زبانی احتجاج کیا اور سفیر کو فلسطین میں ہونے والے ظلم و بربریت پر ظالم، جارح اور قاتل کے القابات سے نوازا۔ صدائے احتجاج بلند کرنے پر جب پولیس نے ان طالبعلموں کو باہر نکالا تو وہ کسی مزاحمت کے بغیر کمرے سے باہر چلے گئے جو کہ ان کی امن پسندی کا واضع پیغام تھا۔ اس تمام واقعے کے تصویری و وڈیو ثبوت موجود ہیں۔ اس واقعے پر یونیورسٹی نے انہیں ایک سیمسٹر کے لئے معطل کر دیا اور ایم ایس اے کو پروبیشن پر رکھ دیا۔
تقریبا ایک سال بعد اورینج کاونٹی کے پبلک پراسیکیوٹر کو اس بات کا خیال آیا کہ اسرائیل کے سفیر کے خلاف مسلمان طالبعلموں کا ایسا جرم کیسے معاف کیا جاسکتا ہے، ان صاحب نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے ان طالبعلموں کے خلاف مقدمہ دائر کیا اورپچھلے جمعے کے روز عدالت نے انہیں مجرم قرار دے دیا۔ ان کو تین سال کی پروبیشن یا چھپن گھنٹے کی کمیونٹی سروس کی سزا سنائی گئی اور تقریبا دو سو ڈالر کا جرمانہ ادا کرنے پڑئے گا۔
مزے کی بات یہ ہے کہ یہ مقدمہ امریکی آئین کی پہلی ترمیم کے تحت ہی لڑا گیا۔ استغاثہ کا موقف تھا کہ ان طالبعلموں نے سفیر کے اظہار رائے کے حق کو چھینا جو کہ انتہائی مضحکہ خیز بات ہے۔ اگر اس قانونی موشگافی کو مان لیا جائے تو ٹاون ہال کی میٹنگوں میں ہونے والے شور و غوغا اور اختلاف رائے جو کہ نہائت معمول کی بات ہے بھی غیر قانونی قرار پائے گا اورٹی پارٹی کے ان تمام افراد کے خلاف بھی مقدمہ کرنا چاہئے جنہوں نے حالیہ دور میں ٹاون ہال میٹنگوں کو ثبوتاژ کرنے کہ منصوبہ بندی کی تھی۔ امریکی کانگریس کے اس رکن کے خلاف بھی مقدمہ چلنا چاہیے جس نے صدر اوبامہ کو سرعام ان کے خطاب کے دوران با آواز بلند ‘تم جھوٹ بولتے ہو‘ کہا تھا۔ دور کیوں جائیں ابھی ویسٹ بارو چرچ کے اراکین کو امریکی فوجیوں کے جنازوں پر نفرت انگیز بورڈز اور نعروں سے بھرپور مظاہروں کی اجازت سپریم کورٹ نے دی ہے کہ یہ آزادی رائے کی اجازت ہے۔ پادری جیری جونز کا واقعہ تو کوئی بھی مسلمان نہیں بھول سکتا۔ لیکن اگر یہ سب بھی آپ کو دور کی کوڑیاں لگتی ہوں تو چلیں ایک بلکل مماثل واقعہ ہی دیکھ لیں جب پچھلے سال نومبر میں اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو کے دورے کے دوران ‘جیوز فار پیس’ نامی تنظیم کے پانچ یہودی مظاہرین نے بلکل اسی طرح سے صدائے احتجاج بلند کی تو انہیں بے دخلی کے سوا کسی اور سزا کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اس تمام گفتگو سے مدعا یہ ہے کہ اس قسم کا امتیازی سلوک مسلمان طالبعلموں کے ساتھ ہی کیوںروا رکھا گیا۔ جامعہ اروائن کے شعبہ قانون کے ڈین ارون چرمنسکی کا خود یہی کہنا ہے کہ جامعہ کی اپنی نظم و ضبط کے خلاف دی گئیں سزائیں اور پابندیاں ان طالبعلموں کے لئے کافی تھیں، کسی فوجداری مجرمانہ مقدمے کا اطلاق اس مظاہرے پر نہیں ہوتا۔ کئیر، اے سی ایل یو اور کئی یہودی تنظیموں اور ربیوں نے بھی اس شرمناک سزا پر صدائے احتجاج بلند کی اور اروائن گیارہ کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ اس زمن میں کئیر کی محترمہ امینہ قاضی کا اورینج کاونٹی رجسٹر میں لکھا گیا کالم ڈسٹرکٹ اٹارنی کے منہ پر دلایل و براہین و قاطعین کا ایک بھرپور طمانچہ ہے۔
یہ فیصلہ امریکی روایات کے خلاف ہے، آزادی اظہار پر حملہ ہے، جمہوری اقدار پر دست درازی ہے۔ مجھے اروائن گیارہ کو آکیسویں صدی کے روزا پارکس اور مارٹن لوتھر کنگ ماننے میںکوئی مظائقہ نہیں اور واثق یقین ہے کہ ہیبیس کورپس کی معطلی کی طرح ایک دن اس فیصلے کو بھی تاریخ کے سیاہ صفحات میںدرج کیا جائے گا۔
سلام اروائن کے ان گیارہ طالبعلموںپر جنہوں نے اپنے کیرئر کی قربانی دے کر غزہ کے مظلوموں کے حق میںآواز بلند کی۔ اب ان کے ریکارڈ پر ایک ‘مس ڈیمینر’ کا دھبہ ہے جو کہ مٹائے نہیں مٹ سکتا۔ فارغالتحصیل ہونے کے بعد جب یہ کہیں نوکری کے لئے جائیں گے تو بیک گراونڈ چیک میں یہ سزا دور سے دکھائی دے گی۔ لیکن انہیں اس بات کی پروا نہیں، انہیںفکر تو اس بات کی ہے کہ غزہ کے بے آواز لوگوں کو آواز مل جائے.
مبارک ہو ان طالبعلموں کو کہ انہوں نے اسرائیل کے ظلم و جبر کے خلاف آواز اٹھا کر رسم حسینیت کی لاج رکھی اور کسی ملامت کرنے والے کا خوف ان کو اپنے مشن سے دور نا کرسکا۔ سلام ہو ان ماوں پر جنہوں نے اپنے بچوں کو ہمیشہ سچ کہنے کا درس دیا۔ ظالم و جابر کے خلاف آواز حق بلند کرنا افضل جہاد ہے، آج اروائین کے ان گیارہ طلبعلوں نے اس روایت کا پاس رکھا جو کہ امت مسلمہ کا ہی خاصہ ہے۔
حسین تو نا رہا اور تیرا گھر نا رہا
تیرے بعد مگر ظالموں کا ڈر نا رہا