فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

December 16, 2014

سقوط ڈھاکہ

Filed under: پاکستان,سیاست,شاعری — ابو عزام @ 5:52 am

میں قائد عوام ہوں
جتنے میرے وزیر ہیں سارے ہی بے ضمیر ہیں
میں انکا بھی امام ہوں میں قائد عوام ہوں
میں پسر شاہنواز ہوں میں پدر بے نظیر ہوں
میں نکسن کا غلام ہوں میں قائد عوام ہوں
دیکھو میرے اعمال کو میں کھا گیا بنگال کو
پھر بھی میں نیک نام ہوں میں قائد عوام ہوں
میں شرابیوں کا پیر ہوں میں لکھپتی فقیر ہوں
وہسکی بھرا ایک جام ہوں میں قائد عوام ہوں
سنو اے موحبان وطن رہنے نہ دونگا مہکتا چمن
میں موت کا پیغام ہوں میں قائد عوام ہوں
میری زبان ہے بے کمال لڑتا ہوں میں ہزار سال
میں اندرا کا غلام ہوں میں قائد عوام ہوں

 

حبیب جالب

Share

February 4, 2014

بے حسی کا خراج

Filed under: پاکستان,سیاست,مشاہدات — ابو عزام @ 11:23 am

 کل دن دہاڑے میرے چھوٹے بھائی کو یونیورسٹی روڈ پر صفورا چورنگی کے پاس ایک اے ٹی ایم سے پیسے نکالتے ہوئے اسلحے کے زور پر لوٹ لیا گیا۔

دو عدد موٹرسائکل سوار ڈاکووں نے جنہیں بظاہر کسی بات کی جلدی  نا تھی، نہایت آرام سے اس سے تمام پیسے  چھینے، مزید جتنی نقدی مشین سے نکلوا سکتے تھے وہ بھی نکلوائی اور پھر اس کے دفتر کا دیا ہوا موبائل فون، اور ایک آئ فون جو میں نے اسکی ۲۵ ویں سالگرہ کے موقع پر اسے دو ماہ پہلے ہی تحفتا دیا تھا، چھین کر لے گئے۔ اللہ کا بڑا شکر ہے کہ میرا بھائی اس واقعہ میں محفوظ رہا۔ الحمدللہ رب العلمین

ـ اللهم رب الضالة هادي الضالة، تهدي من الضلالة رد علي ضالتي بقدرتك وسلطانك فإنها من عطائك وفضلك.

 یہ انسان کی فطرت ہے کہ اسے اپنا نقصان اور اپنا غم سب سے شدید لگتا ہے۔ روشنیوں کے شہر میں روزانہ خون کی ندیاں بہتی رہیں، چوریوں، ڈکیتیوں اور لوٹ مار کا بازار گرم ہو، لیکن جب تک کوئی مصیبت اپنے سر نا پڑے، راوئ عیش ہی عیش لکھتا ہے۔ ہم دونوں بھائیوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ سندھی اور بلوچ اکثریتی علاقے میں گذارا اور انہیں نہائت مخلص اور بے لوث پڑوسی پایا ۔ میں نہیں جانتا کہ ان دو بلوچ راہزنوں کا کیا المیہ تھا جس نے انہیں اس واردات پر مجبور کیا لیکن یہ سطریں لکھتے ہوے مجھے اس بات کا ضرور احساس ہے کہ اگر میرے بھائی کامران کے بجاے اللہ وچائو گوٹھ سے میرے دوست ابراہیم بلوچ، عبدالغنی اورعبدالمجید خاصخیلی بھی ہوتے تو انکے ساتھ بھی یہی سلوک ہوتا کہ غالبا راہزن کوئ مذہب، کوئ شناخت،  کوئ قومیت نہیں ہوتی۔ اس سے پہلے جو لوگ کئی بار موبائیل چھین چکے ہیں وہ تو اپنے ہم زبان ہی تھے۔

اور ظاہر ہے کہ پھر اس دور نارسائ میں خود کو الزام دینا بھی بہت ضروری ہے

بے وقوف اے ٹی ایم پر کیا کر رہا تھا، کارڈ سے شاپنگ کرنی چاہئے
بے وقوف، آئ فون لے کر کون گھومتا ہے اس شہر میں، گھر پر رکھ کر آنا تھا
پاگل آدمی کو چاہئے تھا کہ پیسے نکلوانے کسی کو ساتھ لے جاتا، چلو جان کا صدقہ گیا۔

لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ درحقیقیت  ہمارئ  اجتماعی بے حسی کا خراج ہے ، جو ہم سے ایک محروم و مجروح طبقہ لے رہا ہے۔ اس سے مراد چوری و ڈکیتی کی توجیح پیش کرنا قطعی نہیں لیکن اس حقیقت سے فرار بھی ممکن نہیں کہ جس شہر میں روزگار کے مواقع کم سے کم ہوتے جائیں، جہاں امن و امان یرغمال اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی حفاظت کے لئے بے بس ہوں، وہاں جنگل کا قانون ہی چلتا ہے۔اس کی ذمہ داری جس قدر صاحبان اقتدار کی ہے، اسی قدر عوام کی بھی ہے کہ إن الله لا يغير ما بقوم حتى يغيروا ما بأنفسهم

 میرا بھائی ایک دینداراورمحب وطن شخص ہے۔ اس کو اپنی مٹی سے بڑئ محبت ہے لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ امن و آمان کی مخدوش صورتحال اور راہزنی کی پے درپے وارداتوں نے اسکی اس محبت کو شائد گہنانا شروع کردیا  ہے۔ لیکن اب بھی وہ کم از کم مجھ سے تو زیادہ  محب وطن ہے کیونکہ میں نے  ۱۹۹۸ میں اپنے گھر میں ہونے والی مسلح ڈکیتی کے بعد ۱۸ سال کی عمر میں یہ تہیہ کرلیا تھا کہ اس ملک میں جہاں میرے باپ کو کلاشنکوف کے بٹ  مار کر اس کی محنت کی جمع پونجی چھین لی جاے، میں تو ہرگز نہیں رہ سکتا۔ وہ ملک جہاں کا تھانیدار آپ کو ڈرا کر کہے کہ “اگر ایف آئ آر  درج کرائ تو شناخت کرنے آنا ہوگا اور پھر کیا پتا کون کس کو شناخت کر لے، بس روزنامچہ بہت ہے”۔ بادئ نظر میں شائد یہ بات کافی بچکانہ سی معلوم ہوتی ہو لیکن وَآمَنَهُم مِّنْ خَوْفٍ کی انسانی زندگی میں بڑئ وقعت ہے۔

یہ سب  باتیں شائد صحیح ہوں لیکن پھر مجھے اپنے عزیز دوست اور کلاس فیلو عبدالرحمن المعروف مانی کا وہ پیٹریاٹک فقرہ  یاد آتا ہے جو شائد اسے اسکی عسکری وراثت  میں ملا ہے

ابے یار، اگر تو تبدیلی نہیں لائے گا تو اور کون کچھ کرے گا؟ تم سالے سب یہاں سے ملک چھوڑ کر بھاگ گئے ہو۔۔۔۔

——

أذكـــــار وأدعية عند ضياع أو فقدان شيء

ـ اللهم رب الضالة هادي الضالة، تهدي من الضلالة رد علي ضالتي بقدرتك وسلطانك فإنها من عطائك وفضلك.

ـ يا جامع الناس ليوم لا ريب فيه رد علي ضالتي.

– أو يتوضأ ويصلي ركعتين، ثم يتشهد، ثم يقول: اللهم راد الضالة، هادي الضالة، تهدي من الضلال رد علي ضالتي بعزك وسلطانك فإنها من فضلك وعطائك.

– ,الدعاء الذي يدعو به صاحب الشيء المفقود، هو ما جاء عند ابن أبي شيبة في مصنفه والطبراني من حديث ابن عمر رضي الله عنهما ما معناه: أن من ضاع له شيء فليتوضأ وليصل ركعتين وليتشهد وليقل: “بسم الله يا هادي الضلال وراد الضالة اردد علي ضالتي بعزتك وسلطانك فإنها من عطائك وفضلك” قال الحاكم رواته موثقون مدنيون لا يعرف واحد منهم بجرج.

Share

December 16, 2013

سقوط ڈھاکہ

Filed under: ادبیات,پاکستان,شاعری — ابو عزام @ 1:34 pm

اب کس کا جشن مناتے ہو؟ اس دیس کا جو تقسیم ہوا
اب کس کے گیت سناتے ہو؟ اس تن من کا جو دونیم ہوا

اس خواب کا جو ریزہ ریزہ ان آنکھوں‌ کی تقدیر ہوا
اس نام کا جو ٹکڑا ٹکڑا گلیوں میں بے توقیر ہوا

اس پرچم کا جس کی حرمت بازاروں میں نیلام ہوئی
اس مٹی کا جس کی حرمت منسوب عدو کے نام ہوئی

اس جنگ کو جو تم ہار چکے، اس رسم کا جو جاری بھی نہیں
اس زخم کا جو سینے پہ نہ تھا، اس جان کا جو واری بھی نہ تھی

اس خون کا جو بدقسمت تھا راہوں میں بہایا تن میں رہا
اس پھول کا جو بےقیمت تھا آنگن میں کھلایا یا بن میں رہا

اس مشرق کا جس کو تم نے نیزے کی انی مرہم سمجھا
اس مغرب کا جس کو تم نے جتنا بھی لوٹا کم سمجھا

ان معصوموں کا جن کے لہو سے تم نے فروزاں راتیں‌ کیں۔
ان مظلوموں کا جن سے خنجر کی زباں میں باتیں‌ کیں۔

اس مریم کا جس کی عفت لٹتی ہے بھرے بازاروں میں
اس عیسی کا جو قاتل ہے اور شامل ہے غمخواروں میں

ان نوحہ گروں کا جنہیں ہم نے خود قتل کیا خود روتے ہیں
ایسے بھی کہیں دمساز ہوئے ایسے جلاد بھی ہوتے ہیں

ان بھوکے ننگے ڈھانچوں کا جو رقص سرِ بازار کریں
یا ان ظالم قزاقوں کا جو بھیس بدل کر وار کریں

یا ان جھوٹے اقراروں کا جو آج تلک ایفا نہ ہوئے
یا ان بےبس لاچاروں‌ کا جو اور بھی دکھ کا نشانہ ہوئے

اس شاہی کا جو دست بدست آئی ہے تمہارے حصے میں
کیوں ننگ وطن کی بات کرو کیا رکھا ہے یس قصے میں

آنکھوں‌ میں چھپائے اشکوں کو ہونٹوں میں وفا کے بول لیئے
اس جشن میں بھی شامل ہوں نوحوں سے بھرے کشکول لئے

احمد فراز

Share

July 9, 2012

قصہ اردو بلاگران کے ساتھ ایک شام کا

Filed under: پاکستان,سفر وسیلہ ظفر,طنزومزاح — ابو عزام @ 12:20 am

ایک عرصہ دراز سے یہ تحریر ڈرافٹ کے خانے میں پڑی تھی تو سوچا اس کو  ملاقات کی سالگرہ سے قبل شائع کردیا جاے۔  تاخیر کی معذرت۔

میر امن نے کیا خوب کہا کہ سچ ہے جب کچھ بن نہیں آتا۔ تب خدا ہی یاد آتا ہے نہیں تو اپنی اپنی تدبیر میں ہر ایک لقمان اور بو علی سینا ہے۔۔ خصوصا ۲۲ نومبر کی شب ایک بجے ناگن چورنگی کے پچھواڑے ایک دیوان عروسی میں جہاں پیر مرد راشد کامران نے یہ مقرّر کیا کہ تبدیلی اوقات کے ساتھ وہ پرسوں سات سمندر کے سفر پر روانہ ہو جاویں گے۔ فقیر بولا قبلہ حاجی صاحب، ایسی بھی کاہے کی جلدی، ٹک دم تو لو، ابھی مکے مدینے اور ابھی شہر فرشتگاں،  تو یکدم بولے کہ جی تو  بہت چاہتا ہے کہ روشنیوں کے شہر میں کچھ وقت اور بتاوں پر ظالم پیٹ ہر ایک کے ساتھ لگا ہے۔ فقیر بولا یہاں مملکت  بلاگستان کے ساتھی تیری جھلک دیکھنے کو ترستے ہیں اور تو بنا درشن کوچ کا قصد کرتا ہے۔ اس دہائ پر یوں گویا ہوے کہا کہ اگر قصد ملاقات احباب ریختہ  کا دل میں مقرر رکھتے ہو تو جلد کچھ ترکیب کرو۔ میں نے کہا اسی وقت میں درویش ابو شامل کے پاس برقی خط بذریعہ چہرہ کتاب لے جاتا ہوں اور خدا چاہے تو پھر جواب لاتا ہوں۔ آخر رخصت ہو کر اور فضل الٰہی پر  نظر رکھ اس سمت کو چلا۔

 اب خدا کے کارخانے کا تماشا سنو۔ ہماری قسمت نے یاوری کی اور درویش ابوشامل نے سبک دستی سے سب انتظام کیا، اوراگلی شام مطعم کراچی فوڈز میں خاطر احباب کا التزام رکھا۔اس درویش مرد کے  سب سے روابط اور یاداللہ کے سبب افکار میں قطبین کے فاصلے کے لوگ حب اردو و تبادلہ خیال کو ایک میز پر جمع ہوے  اور سب ہی مدعی تھے کہ

 گفتگو ریختے میں ہم سے نہ کر
یہ ہماری زبان ہے پیارے

اب اس محفل کا حال نا پوچھو۔ کیا اہل علم جمع تھے۔ ماجرا میں نے بہ چشمِ خود دیکھا اور خدا کی قدرت کو یاد کیا کہ ایسے ایسے بندے پیدا کیئے ہیں۔ کیا ہوا جو سماجی مہارتوں میں ید طولی نہیں رکھتے، پلاو و زردہ و بریانی سے انصاف مگر برابر کا روا رکھتے ہیں۔

برادرم شعیب صفدر اور فہیم اسلم نے نہایت انہماک سے عمار ابن ضیا کی تقریر سنی جس میں انہوں نے جامعہ میں سی آر بننے کے فوائد پر روشنی ڈالی ۔

اسی دوران محمد اسد نیپکن سے طیارہ بنانے کی مشق کرتے رہے۔

درویش نے پیر مرد راشد کامران کاشعیب صفدر سے تعارف کروایا جس میں شعیب صاحب کی روایتی گرمجوشی، برادر فہد کا استفہامیہ اور ہمارا خالی پلیٹ ہونا قابل ذکر ہے

کھانے کے آمد ہوئی تو کچھ دل کو تسلی ہوئی، ابوشامل درویش کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی۔ اسی دوران ہم لوگ اس بات پر گفتگو کر رہے تھے کہ روزا پارکس کے سیٹ نا چھوڑنے کے فیصلے سے محترمہ عنیقہ ناز کے بلاگ پر بلاواسطہ کیا اثرات مرتب ہوے نیز کیا اس زمانے میں شعیب صفدر سول رائٹس کا کیس بلا معاوضہ لڑنے میں دلچسپی رکھتے۔

کھانے کے انتظار کے باعث غیر حالت ہونے پر یہاں یہ ذکر تھا کہ اگر حکم ہو تو شہزادہ عالمیان،  برادرم فہیم اسلم کو باورچی کے پاس لے جاویں، اس کو ایک نظر دکھاویں، امید قوی ہے کہ جلد شفائے کامل ہو۔ اور ظاہر میں بھی یہ تدبیر اچھی ہے کہ ہر ایک مطبخ کی ہوا کھانے سے اور جا بجا کے آب و دانے سے مزاج میں فرحت آتی ہے۔

اور یہ رہی جناب اجتماعی تصویر، جہاں مشرق و مغرب کے اردو سے محبت کرنے والے جمع ہیں

دائیں سے بائیں: راقم ، ابوشامل ، راشد کامران ، عنیقہ ناز ، شعیب صفدر ، فہیم اسلم ، محمد اسد اور عمار ابن ضیا

 نہیں کھیل اے داغ یاروں سے کہہ دو
کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے

Share

May 2, 2012

دو نظریاتی ریاستیں

Filed under: پاکستان,سیاست,عمومیات,مشاہدات — ابو عزام @ 4:00 am

سنہ ۱۹۴۷/۴۸ میں دو عدد نظریاتی ریاستی معرض وجود میں آئ تھیں جن کی بنا قومیتوں کی مذہبی بنیاد پر تقسیم تھی۔

نظریے پر عمل کتنا ہوا، اس کا اندازہ ان دو سرخیوں سے ہوجاتا ہے۔

سابق اسرائلی صدر موسے کاستو کو عدلیہ نے سات سال قید کی سزا سنا دی۔

پاکستان کی سپریم کورٹ نے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو قومی مصالحتی آرڈینینس یعنی این آر او پر عملدرآمد سے متعلق مقدمے میں عدالتی فیصلے پر عمل نہ کرنے اور توہین عدالت کا مرتکب ہونے  پر ایک منٹ کی سزا سنا دی ہے۔

جرائم کی نوعیت نہایت مختلف سہی لیکن اینکڈوٹ اچھی بنی ہے۔

Share

March 29, 2012

کھوکھلے خواب

Filed under: پاکستان,سیاست,مشاہدات — ابو عزام @ 10:31 pm

مارچ ۲۳ کے تناظر میں لکھی گئی یہ تحریر تو شائد کلمہ ابتذال کلیشے ہی قرار پاے لیکن بقول فیض، کبھی کبھی ایسا بھی لکھنا چاہیے۔

یہ لوگ کون ہیں اور کونسے خواب دیکھ رہے ہیں؟ کیا یہی وہ رویا اقبال ہے جس کا چہار دانگ عالم چرچا ہے، کیا یہی وہ خواب ہیں جس کی تعبیر اسلامی جمہوریہ پاکستان کی صورت میں قائم ہونے والی ایک اسلامی فلاحی ریاست ہے؟

 ہم اسے توہم و اغفال و تجسم ہذیان تو قرار دے سکتے ہیں لیکن زمینی حقائق سے دور ان پوش و کلچرڈ گلچین کا اساس مملکت خداداد سے کیا لینا دینا۔ اردش کے استعمال کے بنا چارہ نہیں کہ اس شماریات کا سیمپل سائز تو خدا جانے کس قسم کا آوٹلائر ہے، کوئ باشرع جوان نہیں، کوئ حجابی خاتون نہیں، ٹک ذکر دین نہیں، کہیں نظام مصطفوی کی پکار نہیں، فکر ہے تو بس اس بات کی کہ پاکستان کا ویزہ لینے کے لیے لوگوں کی لاین لگ جائے۔ مستعار لی گئی  مغربی عقل کے یہ متوالے پھر اسلامی جمہوریہ پاکستان اورمملکت ناروے و ریاست آسٹریلیا ومملکت نیدرلینڈز میں کیا فرق دیکھتے ہیں جہاں کی ہیومن ڈویلپمینٹ انڈیکس ٹاپ تھری میں شمار ہوتی ہے۔ اداروں کی مضبوطی کی خواہش یا قانون کی بالادستی بات تو بجا ٹھری لیکن نظریات کے فرق میں برہان قاطع کیا ہے؟ جس اساس پرمملکت پاکستان کا وجود ٹھرا، اس کا تذکرہ ندارد، کہیں تو بہر خدا آج ذکر یار چلے۔ کیا یہی مملکت پاکستان کے حصول کا خواب تھا؟ اگریہی بات ٹھری تو پھردو قومی نظریے پر  دو حرف بھیجیے اور اسے خلیج بنگال کی طرح اس بار بحیرہ عرب میں ڈبو دیں، قرار داد مقاصد کو آگ لگا دیں، اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کو سیکیولر جمہوریہ قرار دیتے ہوئے ایک “ترقی یافتہ” ملک بنانے کی جدوجہد کے لیے کمر باندھ لیں۔

قومی لباس سے محروم تن بدن پر موجود جن خمار آلود آنکھوں نے یہ اسکرپٹڈ خواب بنے ہیں انہیں میں استعمارانہ نظام کے خواب، سرمایہ دارانہ نظام کے خواب، گلوبل معیشیت کے خواب یا کالونیلزم کے خواب ہی گردان سکتا ہوں۔ مملکت خداداد کے مستقبل کے لیے اقامت دین اور قیام نظام مصطفے صلی اللہ  علیہ وسلم ہی ایک خواب ہے جس کوغلامان مصطفی کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور اس کی تعبیر کی سعی کرتے ہیں۔

ڈرائنگ روم کی سیاست کرنے والے جو لوگ اپنی زبان میں خواب بھی نہیں دیکھ سکتے ان سے فسانوی حقیقت کا حق بھی چھین لیا جاتا ہے۔

Share

March 16, 2012

کاش کہیں سے تھوڑی عقل مل جاتی

Filed under: پاکستان,خبریں,سیاست,طنزومزاح — ابو عزام @ 3:00 am

تو اوریا مقبول جان صاحب کا بڑا بھلا ہوجاتا۔

ایک تو احباب نے ان سوڈو انٹیلیکچولز کے لنک بھیج بھیج کر ناک میں دم کر رکھا ہے اوربندہ مروت میں یہ بھی نہیں کہ سکتا کہ بھائ، ایسی بے پرکی تو ہم نے مظہر کلیم سے بھی نا سنی، آپ کو ذرا احساس تو ہونا چاہیے کہ یہ نادان دوست ہم اصحاب میمنہ کو کس قدر مضحکہ خیز دفاعی پوزیشن میں لا کھڑا کرتے ہیں؟ تحقیق سے ان کو کوئ واسطہ ہو نا ہوکہ ہر ایک کو اپنی راے کا حق ہے لیکن بقول شخصے، اپنے حقائق کا نہیں۔ کم از کم ڈالڈا ملاتے ہوے کچھ تو خیال کریں کہ اس تکنیکی دور میں انکی اس بے سروپا باتوں کو جھٹلانا اور جھوٹے کو گھر تک چھوڑ کر آنا کس قدر آسان ہے۔

تو محترم کا یہ کالم ایک برقی ڈاک میں ملا۔  مزاح  پڑھ کر طبعیت باغ باغ ہو گئ کہ یہ دفاعی میکینزم ہے۔ اگر خون جلانا شروع کریں تو قومی اخبار ختم ہونے سے پہلے بلند فشار خون کی بنا پر جان جان آفرین کے سپرد ہوجائے۔اب اسکا پہلا پیراگراف پڑھیں اورمندرجہ ذیل ویڈیو دیکھ لیں، پھر بتائیں کہ یہ سلیمانی ٹوپی پہنے ہوئے پلسی کہاں چھپے ہیں جنہوں نے بقول جان صاحب کے “اسے دھکیل کر پیچھے کر دیا”؟

Marlon Brando’s Oscar® win for ” The Godfather” by WhiteWolf-Cree

اب اس مضحکہ خیز کالم کا دوسرا پیراگراف پڑھیں اور سر پیٹیں۔ جان صاحب، اگر تھوڑی سی تحقیق کر لیتے تو نو اینڈ ان سایٹ، عراق فار سیل، عراق ان  فریگمنٹس، ریتھنک افغانستان، انسائڈ گواتنامو، انسائڈ عراق،  اینڈ آف امریکہ، بش وار، رولز آف انگیجمنٹ، انڈیپینڈنٹ انٹروینشن, فارن ہایٹ نائن الیون اور اس جیسی بیسیوں ڈاکومنٹریز مل جاتیں جن پر عراق و افغانستان میں ہونے والے مظالم پر روشنی ڈالی گئی ہے اورامریکی جارحیت پر کھل  کر تنقید کی گئ ہے۔ سب چھوڑیں، ٹیکسی ٹو دی ڈارک سائڈ جیسی رلا دینے والی دستاویزی فلم جو عراق افغانستان و گوانتناموبے میں امریکی مظالم سے کو بے نقاب کرتی ہے ۲۰۰۷ میں آسکر ملا۔ آپ کو پینٹاگان پیپرز بھی کسی قطار و شمار میں نظر نا آتی ہوگی کہ حقیقت سے آپکی تحاریر کا موضع بھی نہیں ملتا۔ آپ کو ایوارڈ یافتہ و نامزد ڈاکومنٹریز میں یقینا وار گیم، اینڈرسن پلاٹون،بروکن رینبو،  ہیل فائر جرنی فرام ہیروشیما، ہو کلڈ ونسنٹ چن  ، فور لٹل گرلز بھی نظر نا آئ ہونگی۔ بس اب مزید کچھ کہنے سننے کی سکت کہاں بس اتنا کہتا چلوں کہ اگر آپ کو محترمہ شرمین عبید کا ایورڈ لینا پسند  نہیں تو نا سہی، حالات و واقعات میں دروغ گوئ سے کام لیے بغیر بھی یہ مدعا آرام سے بیان کیا جا سکتا ہے۔ نیز شرمین عبید کو یہ ایوارڈ ایک امریکی ڈائریکٹر ڈینیل ینگی کے ساتھ ملا ہے، مارلن برانڈو کی طرح ان کی تن تنہا اداکاری پر نہیں، اب بے چارے ینگی کا کیا قصور جان صاحب کہ وہ بھی ایوارڈ کو ٹھوکر مار دے۔آپ کی دروغ گوئ پر ہمارا تو کچھ ایسا ہی عالم ہے کہ

حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو مَیں

مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو مَیں


Share

February 10, 2012

مغالطے مبالغے۔ ایک اسم با مسمی کتاب

Filed under: پاکستان,کتابیات,مذہب — ابو عزام @ 10:01 pm

تہذیبی نرگسیت کے شہرت یافتہ مبارک حیدرکی یہ تصنیف حال ہی میں ختم کی ۔ تہذیبی نرگسیت پر راقم کا تبصرہ مندرجہ زیل لنکس پر دیکھا جاسکتا ہے۔ علمی و تنقیدی دیانت کے زمن میں اور مکمل انکشاف کی مد میں یہ کہتے چلیں کہ ہمارا صاحب کتاب سے نظریاتی اختلاف کچھ پوشیدہ نہیں لہذا ہماری مغرضانه تحریر کے عوامل کو نظر میں رکھا جاے۔۔

  1. تہذیبی نرگسیت -ایک تہذیبی مرعوب کی سرگذشت کا اصولی جواب –حصہ اول
  2. تہذیبی نرگسیت -ایک تہذیبی مرعوب کی سرگذشت کا اصولی جواب – حصہ دوم
  3. تہذیبی نرگسیت -ایک تہذیبی مرعوب کی سرگذشت کا اصولی جواب – حصہ سوم

اس کتاب کے تیرہ عدد ابواب میں بحث کا جواز، مبالغےاور مغالطے۔ اسلامی سلطنت کا مغالطہ، پارسائی کا مبالغہ، آزاد میڈیا کا مبالغہ، عدلیہ کے تقدس کا مبالغہ، علم کی ملکیت کا مبالغہ، نگران جماعت کا مبالغہ، قیام خلافت کا مبالغہ، اسلام دشمنی کا مبالغہ، مغربی تہذیب کا مغالطہ اور سیکولرازم کا مغالطہ شامل ہیں۔  تہذیبی نرگسیت کی طرح یہ کتاب بھی تحقیقی حوالہ جات سے عاری ہے جو ابواب و کتاب کے آخیر میں دیے جایا کرتے ہیں۔ جدید تہذیب جسے محترم نے ” احیائے علوم کی تحریک” کے نام سے جگہ جگہ یاد کیا ہے، میں اس زمن کی کتابوں میں اپینڈکس و فٹ نوٹ یا حاشیے کا اندازمستعمل ہے۔ ایسی کتاب جو  احیائے علوم کی تحریک کے گن گاتی ہو اگر خود بھی اسکا استعمال کرلے تو کیا ہی اچھا ہو۔

کتاب کا انداز بیاں تقریری ہے اور مغالطوں سے عبارت۔ اپنی پہلی کتاب کی کئی چیزیں دہرائی گئی ہیں جن میں منطقی مغالطے سرفہرست ہیں۔ تہذیب مغرب کی شان میں رطب اللسان ہیں لیکن اور اسے جدید انسانی تہذیب قرار  دیتے ہیں لیکن اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نا آنے کے مصداق اس غالب و دانا تہذیب کی لڑی گئی دو جنگوں پر صاحب کتاب کا قلم بنیادی طور پر معذرت خواہ اور خاموش ہے۔  لیکن جب جناب اسلامی تہذیب کے بخیے ادھیڑنے ہوں تو ہر طرح کی اینکڈوٹ ایک حقیقیت بنا کر سامنے لای جاتی ہے ۔ ہیروشیما و ناگاساکی کی تباہ کاریاں ہوں یا ایٹم بم و ہایڈروجن بم کی ایجاد یا نوآبادیاتی نظام ہو، ان سب کے لیے صاحب کتاب کے قلم سے جس قسم کی معذرتیں نکلتی ہیں ان پر بڑے بڑے اپالجسٹس بھی  رشک کرتے ہونگے۔ لکھتے ہیں۔

اگرچہ یورپ کی اقوام نے ان شاندار نظریات کے باوجود دنیا بھر میں نو آبادیات قائم کیں اور ان قوموں پر تسلط جمایا، پھر آج کی دو بڑی جنگیں بھی انہوں نے لڑیں لیکن فاشزم اور نوآبادیاتی نظام کے باوجود ان نظریات کی قوت ان معاشروں میں کم نہیں ہو سکی. بلکہ یہ نظریات دنیا بھر میں نوآبادیات کی آزادی کے لئے بنیاد بن گئے.

یعنی کہ تم قتل کرے ہو کہ کرامات کرے ہو۔ پھر مغربی تہذیب کی مادر پدر آزادی کے  دفاع میں مزید خامہ فرسا ہوتے ہیں کہ

 اس جدید تہذیب نے انسانوں کی آزادی اور حقوق کو جس انداز سے تسلیم کیا اور اس کے نتیجہ میں یہ فطری تھا کہ ان کے معاشروں میں بعض مبالغہ آمیز ذاتی آزادیاں بھی رائج ہوئیں.خاندان کی شکست و ریخت اور اولاد کی اپنے والدین کے ساتھ حقوق کی برابری کے تصور نے بعض  الجھنیں پیدا کیں لیکن یہ اس تہذیب کی بنیادی شناخت نہیں، نہ ہی اس تہذیب کے مفکروں کا اصرار ہے یہ فلسفہ ہے کہ اس تہذیب کے یہ پہلو اپناۓ جائیں. جو الجھنیں آزادی کے استعمال سے پیدا ہوئیں ان کے باوجود یہ معاشرے سلامت ہیں یا ان الجھنوں  کو دور ۔کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں.

کاش محترم نے کبھی یورپ و امریکہ کے جنسی جرایم کا رکارڈ دیکھا ہوتا، پھر ایک دور کی کوڑی لاتے ہوے کہتے ہیں

اصل بات یہ ہے کہ جاگیرداری دور کی وہ ظالمانہ فضیلتیں جو انسان پر انسان کے تسلط کی ضمانت دیتی ہیں اس نئے نظام کے آنے سے خطرے میں پر گئیں اور چونکہ مسلمانوں کی بادشاہتوں کا خاتمہ اس صنعتی معاشرے کے ہاتھوں ہوا تھا لہذا اقتدار سے محروم ہونے والے طبقوں کو اس کا بہت قمق تھا

یعنی اصولا تو یہ نظام بلکل درست لگتا ہے لیکن چونکہ مولانا حضرات کو اپنی سلطنت جانے کا غم تھا، اس وجہ سے وہ اسکے مخالف ہوگئے۔

مغالطے مبالغے کے مصنف کی سوانح کچھ ہوں ہے کہ مبارک حیدر صاحب نے نے 1963 میں گارڈن کالج راولپنڈی سے انگریزی ادبیات میں ماسٹرز کیا، وہیں پوسٹ گریجویٹ یونین کے صدر تھے جب ذوالفقارعلی بھٹو سے پہلی ملاقات ہوئی .64ء میں اسلامیہ کالج سے وابستہ ہوئے. کتاب کہتی ہے کہ شاعر اور انقلابی کی حیثیت سے ملک بھر میں پذیرائی ملی. پھر جب پاکستان پیپلز پارٹی معرض وجود میں آئی تو 68ء میں بھٹو نے انھیں لیبر ونگ کا سربراہ مقرر کیا. غالبا یہی وہ نمک ہے جس کو وہ آزاد میڈیا کے مغالطے نامی باب میں حلال کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کا قلم عدلیہ کے مغالطے نامی باب میں ایک محقق سے زیادہ ایک جیالے کا خامہ نظر آتا ہے جس کی حب الوطنی کا یہ عالم ہے کہ لکھتے ہیں

اگرچہ پاکستان عالمی منظر پر کسی مثبت یا پیداواری عمل کی وجہ سے کوئی حیثیت نہیں رکھتا.تا ہم تخریب اور نفی کے کئی میدان ایسے ہیں جن میں ہماری اہمیت دنیا میں نمبر ایک ہے۔

پھر نفرت از خود کا یہ عالم ہے کہ اپنے افکار بھی میگنا کارٹا کے سر باندھنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ رقم طراز ہیں

بنیادی مفہوم جو احیائے علوم کی تحریک نے سمجھا اور اپنایا، یہ تھا کہ تمام انسان برابر ہیں، تمام انسانوں کو برابر حقوق حاصل ہیں، ان حقوق میں انسانی آزادی، آزادی فکر، آزادی اظہار، آزادی مذہب اور آزادی تنظیم سب شامل ہیں. کسی گورے کو کالے پر، کسی مرد کو عورت پر، کسی ایک نسل کو دوسری نسل پر، کسی ایک مذہب کو کسی دوسرے مذہب پر فوقیت نہیں. رنگ نسل اور قومیتوں کے تعصبات مہمل اور باطل ہیں، بنی نوع انسان کی اس دنیا میں زندگی سب سے بڑی صداقت ہے، یہ زندگی مقدّس ہے اور اس کے تحفظ کے لئے ساری انسانیت کی متحدہ جدوجہد ضروری ہے.

پھر یاسیت کی انتہا سے خامہ رواں ہوتا ہے کہ

۔۔۔.لیکن سبھی جانتے ہیں کہ اس دہشت گردی اور انتشار کے پیچھے چاہے کوئی بھی ہو، چاہے پاکستان کے عسکری اندھوں کا کوئی گروہ مال ا اقتدار کے لئے اس ہتھیار کو استعمال کرے یا کوئی عربطاقت اپنی عالمی سودا بازی میں لگی ہوئی ہو، کوئی سابقہ عالمی طاقت اپنے گرد بننے والے گھیرے کو توڑنے کے لئے کام کر رہی ہے یا کوئی ابھرتی ہوئی طاقت موجودہ واحد سپر پاور کی جگہ لینے کا خواب دیکھ رہی ہو،لیکن ایسا کبھی نہیں ہو سکتا کہ افغانستان اور پاکستان کے بدنصیب عوام کی نوجوان نسلیں عالمی رہنما بن جائیں گی یا انہیں دنیا میں کسی بھی طرح سے کوئی فضلیت نصیب ہو سکے گی.جس علمی، معاشی، تنظیمی اور اخلاقی حالت میں ہم اس وقت ہیں یعنی نہ ہماری زراعت ہے نہ صنعت، نہ ادارے ہیں نہ افراد، نہ دنیا میں کہیں سے خوش آمدید کا کوئی پیغام، ایسی حالت میں ہم چاہے پتھر پھینک پھینک کر ساری دنیا کے باغ اجاڑ دیں، باغ ہمارے نہیں ہو سکتے، نہ یہاں کے باغ نہ اگلے جہان کے باغ. ہم شیر،لگڑ بھگے، چیتے جو بھی بن جائیں انسانوں کی کوئی بستی ہمیں اپنا بادشاہ نہ مانے گی. یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی ہماری میڈیا کا فیصلہ یھ رہا ہے کہ خود کشی کے اس عامل کی جو بھی مخالفت کرے، اسے مختلف بہانوں سے سخت نفرت کا نشانہ بنایا جاۓ۔

میڈیا پر مصنف کی نقادانہ نظر بہرحال حقیقت سے قریب تر ہے، اس زمن میں رقم طراز ہیں

آسان فضلیت و اقتدار کے طلبگار عناصر نے ہماری اس مریضانہ حالت سے بھر پور فائدہ اٹھایا ہے.چناچہ میڈیا کے وہ دکاندار جن کی نظر میں پیشہ ورانہ صلاحیت کے معنی بلیک میل کی ٹیکنیک اور مال بنانے کی صلاحیت سے آگے کچھ نہیں،ہمارے معاشرے کی نرگسبت سے لطف اندوز ہو رہے ہیں.چونکہ اس معاشرہ کے خوشحال اور کامیاب طبقوں کو کامیاب ہونے کے لئےعلم اور قدروں کی ضرورت ہی نہیں پڑتی ہے بلکہ در حقیقت وہ کامیاب ہی تب ہوئے جب انہوں نے علم اور اقدار سے نفرت کرنا سیکھا اس لئے خبر کی بجاۓ افواہ ان کی پسندیدہ خوراک بنی،کیونکہ خبر کا تعلق تحقیق اور سچائی سے ہے،یہ علم اور اقدار کی طاقت سے نکھرتی ہے،اسے ہضم کرنے کے لئے صحت مند معدہ درکار ہوتا ہے.کھٹیاور کراری مانگنےوالوں کی طلب بڑھنے سے مزید کھٹی اور مزید کرری بیچنے والوں کی دوکانیں چلتی ہیں معدہ کے مریض الله کو پیارے ہوتے رہتے ہیں،لیکن نسل کشی کی طاقت سے ملامال اس تہذیب میں کھانے والوں کی تعداد گھٹتی نہیں،خصوصاً جب سادہ اور صحت بخش خوراک کے لئے خوشحال لوگوں کا دل مائل ہی نہیں ہوتا.دوسری طرف بدخورانی اور زہر خورانی کے زخم بھرنے کے لئے عبادت اور ثواب سہارا بن جاتے ہیں. چناچہ کھٹی اور کراری افواہوں کی ہر دوکان کے ساتھ دینی فضلیت کی دوکانیں پھلتی پھولتی ہیں.ہمارے اخبارات اور چینلز پر کھٹے اور کرارے تبصروں،مکالموں اور خبروں کے ساتھ ساتھ دینی فخرو فضلیت سے بھرپور صفحات،ایڈیشن اور تقاریر اسے حسین امتزاج کی مثالیں ہیں۔

لیکن حقیقت پسندی، میڈیا میں اخلاقیات و استدلال  و دیانت و سچای کا درس دینے کے بعد ان کا قلم یوں رواں ہوتا ہے

موجودہ سول حکمت پہلی بدنصیب حکمت نہیں،جسے گالیوں،کرپشن کی افواہوں اور مقدموں کے نہ ختم ہونے والے سلسلوں کا سامنا ہوا ہے.ذوالفقار علی بھٹو کو شہید ہونے تک ہر تذلیل کا سامنا تھا، حتیٰ کہ پار ساۓ اعظم ضیاءالحق نے جیل میں بھٹو کی لیٹرین کے پردے ہٹوا دئیے.کہتے ہیں بھٹو نے اپنی عزت نفس کے تحفظ کے لئے کھانا پینا چھوڑ دیا.ایک رپورٹ کے مطابق تقریباً چھ فٹ قد کے بھٹو کا وزن پھانسی کے دیں ١٠٠ پاؤنڈ سے بھی کم تھا.ملک کے سارے اہل ایمان،سارے اہل قلم اور عدل کے نگران ضیاءالحق کے آگے سجدہ ریز تھے اور بھٹو کو گالیاں دینے میں ایک سے بڑھ کر ایک.پھر بینظیر اور نواز شریف کی باری آ آئی

 یہاں یقینا انہوں نے مصدقہ ذرایع سے ہی  بھٹو کے باتھ روم کی صورتحال کا پتا چلایا ہوگا اور اس کا بغیر حوالہ جات کے درج کرنا انکے نزدیک عین محققانہ دیانت ہے۔  اس کتاب کے دیگر مندرجات بھی اسی قسم کے بہت سے مغالطوں اور یک رخی پند و نصایح سے بھرے پڑے ہیں جن کی تفصیلات آپ کتاب پڑھ کر خود جان سکتے ہیں، میری بس اتنی گذارش ہے کہ آپ اس کے ساتھ اسلامی تہذیب اور اس کے اصول و مبادی اور تجدید و احیائے دین  کا بھی مطالعہ کرلیں تو بہتر ہے کہ یک طرفی معلومات سے قاری کا ذہن متنفر نا ہو۔ اخری بات اس حوالے سے یہ کرتا چلوں کہ  کہ جمہوریت کہ حوالے سے لادینی قوتوں کی جو کوششیں اسلام اور جمہوری نظام کو متناقض قرار دینے کے لیے کارفرما ہیں، ان میں صاحب کتاب سرفہرست ہیں، لکھتے ہیں

۔۔۔.مسلم معاشروں میں جمہوریت کا مقام اب تک ایک خارجی سا رہا ہے جس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ مسلم معاشروں میں فضلیت و احترام کا منصب اسلامی اتھارٹی کی بنیاد پر طے ہوتا رہا ہے.بادشاہ اور جاگیردار کو دینی علما کی تائید حاصل رہی ہے اور انسانی علم وعقل یا راۓ کو کبھی وہ سعادت حاصل نہیں ہوئی جو عقائد کو حاصل رہی ہے.اپنے عقائد کو آخری سچائی ماننے والے معاشرہ میں جب فاتح کا غرور بھی شامل ہو جاۓ اور صدیوں کی حکمرانی کی سند بھی،اور جب لوگوں کو یقین ہو کہ ان کی کامرانیوں کا سبب ان کے عقائد ہیں،اور ان عقائد کا علم طبقہ علما کے پاس ہے یا پھر اہل اقتدار کے پاس، تو اجتماعی انسانی راۓ یا استدلال کی ضرورت کہاں رہ جاتی ہے.مسلم معاشروں کی ہزار سالہ فتوحات اور کامرانی نے جو فخر پیدا کیا تھا،اسے پچھلے تین چار صدیوں کی پسپائی نے کم کرنے کی بجاۓمسخ کردیا ہے.اب فخر کبھی یاد ماضی بن کر،کبھی احساس مظلومیت بن کر ہمیں سیکھنے سوچنے سے روکتا ہے تو کبھی فخر کی یہ مسخ شدہ شکل تشدد اور تنہائی کی طرف دھکیلتی ہے.ہمارے یہ معاشرے جو اپنا کوئی بھی اجتماعی کام ڈھنگ سے نہیں کر پاتے، حتیٰ کہ خوراک تک کے لئے دنیا کے محتاج ہیں، وہ عالمی مملکت قائم کرنے کے لئے ہر دم تیار ملتے ہیں.

اس سلسلے میں ڈاکٹر فیاض عالم نے جسارت اخبار میں ایک اچھا و مدلل جواب لکھا ہے جسے یہاں نقل کرتے ہوے اس مضمون کا اختتام کرتا ہوں۔

 مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، ڈاکٹر حمیداللہ ؒ اور مولانا امین احسن اصلاحیؒ جیسے عظیم اسکالرز کی تحریروں کو پڑھ کر اسلام میں جس جمہوریت کی گنجائش اور اجازت نظر آتی ہے وہ مغربی سیکولر جمہوریت یقینا نہیں ہے اور نہ ہی ہوسکتی ہے۔ مغربی سیکولر جمہوریت میں کسی ریاست میں قانون سازی کے تمام حقوق عوام کو حاصل ہوتے ہیں کہ ان کے منتخب نمائندے جس طرح قانون چاہیں بنا لیں، مثلاً یہ کہ بعض مغربی ممالک نے مردوں سے مردوں کی اور عورتوں سے عورتوں کی شادی کو قانوناً جائز قرار دے دیا ہے۔ یا بغیر شادی کے پیدا ہونے والے بچوں کو قانونی حیثیت عطا کردی ہے۔ اسلام میں اس طرح کی قانون سازی کے حقوق عوام یا ان کے نمائندوں کو حاصل نہیں ہیں۔ یہاں ایک بنیادی اور بالادست قانون اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے عطا فرما دیا ہے جس کی اطاعت اسلامی ریاست کے ذمہ داروں اور عوام دونوں پر فرض ہے۔ اس لحاظ سے اسلامی حکومت جمہوری حکومت نہیں ہوتی بلکہ الٰہی حکومت ہوتی ہی‘ یعنی ایسی حکومت جس میں انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کے بجائے شرعی قوانین نافذ ہوتے ہیں۔ الٰہی حکومت کو انگریزی میں تھیوکریسی (Theocracy)کہتے ہیں۔ لیکن بقول مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ”یورپ جس طرح کی تھیوکریسی سے واقف ہے اس میں ایک مخصوص مذہبی طبقہ (Priest Class) خدا کے نام سے خود اپنے بنائے ہوئے قوانین نافذ کرتا ہی‘ جبکہ اسلام جس تھیوکریسی کو پیش کرتا ہے وہ کسی مخصوص مذہبی طبقے کے ہاتھ میں نہیں ہوتی بلکہ عام مسلمانوں کے ہاتھ میں ہوتی ہی‘ اور یہ عام مسلمان اسے خدا کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق چلاتے ہیں۔“ مولاناؒ نے اسلامی حکومت کو الٰہی جمہوری حکومت (Theo-Democratic Government)قرار دیا ہے۔ یعنی ایک ایسی جمہوریت جس میں خدا کے اقتدارِ اعلیٰ کے تحت مسلمانوں کو محدود عمومی حاکمیت عطا کی گئی ہے۔ گویا مسلمانوں کے نمائندے یا اراکینِ شوریٰ ایسے قوانین تو وضع کرسکتے ہیں جن کے متعلق اسلامی شریعت میں کوئی صریح حکم موجود نہ ہو، مثال کے طور پر آج کے دور میں اگر کسی ضلع، صوبے یا ملک کی حکومت کو انٹرنیٹ کے حوالے سے قانون سازی کرنی پڑے یا وہ سائبر کرائمز کو روکنے کے لیے قوانین وضع کریں تو اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ قرآن و سنت کے اصولوں کے مطابق اس حوالے سے قانون سازی کی جائے۔ لیکن عورتوں سے عورتوں کی شادی جیسے غیر شرعی، غیر اخلاقی و غیر انسانی قوانین کسی بھی اسلامی ریاست میں کسی بھی نوعیت کی جمہوری حکومت نہیں بنا سکتی۔ لہٰذا یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اسلام میں جس جمہوریت کی بات کی جاتی ہے وہ مغربی سیکولر جمہوریت نہیں ہے بلکہ قانون سازی کا محدود اختیار رکھنے والی الٰہی جمہوریت یا اسلامی جمہوریت ہے جس میں شرعی قوانین کو لازماً برتری حاصل ہوتی ہے۔ اسلام اور جمہوریت کے حوالے سے تفصیلی معلومات کے لیے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی تالیف ”اسلامی ریاست“ جسے پروفیسر خورشید احمد صاحب نے مرتب کیا ہے اور مولانا امین احسن اصلاحیؒ کی تصنیف ”جدید اسلامی ریاست میں قانون سازی کے مسائل“ کا مطالعہ مفید ثابت ہوسکتا ہے.

Share

January 13, 2012

اے کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگوز از محمد حنیف کا مختصر تعارف

Filed under: ادبیات,پاکستان,سیاست,طنزومزاح — ابو عزام @ 6:32 pm

کل شب کافی عرصے بعد انگریزی کی ایک نان فکشن کتاب کے دو سو کے قریب صفحات ایک نشست میں ختم کیے، باقی اس سے قبل پورے ہفتےمیں مختلف مواقع میں پڑھ چکا تھا، غالبا اس سے پہلے لایف آف پای ہی ایسی نان فکشن کتاب تھی جس کے انداز بیاں نے توجہ کو اس قدر مرکوز رکھا اور صفحہ در صفحہ کس طرح گذرا پتا نہیں چلا۔ راشد بھای سے یہ کتاب کچھ ماہ پہلے مستعار لی تھی، شروع کی لیکن دو ابواب کے بعد کچھ سفر کی مصروفیتوں کی بنا پر ختم نا کر سکا۔ اب دوبارہ اٹھای تو سوچا کہ ختم کر کے ہی چھوڑوں گا۔ محمد حنیف کی اے کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگوز اپنے متنازع موضوع اور معترضانہ مواد کے باوجود یا شاید اسی وجہ سے ایک دلچسپ ناول ہے جو ۸۰ کی دہائ کی پاکستانی سیاست، فوج اور دور آمریت کے سماجی رجحانات پر ایک طنزیہ و تمسخرانہ نظر ڈالتا ہے۔

دو ہزار نو میں شائع ہونے والے اس ناول ’اے کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگوز‘ کے مصنف، ڈرامہ نگار اور صحافی محمد حنیف کو کامن ویلتھ رائٹرز کا انعام مل چکا ہے اور اگر وہ اپنی اسی طرح کی صف شکن تحاریر لکھتے رہے تو مین بکر پرایز کی لانگ لسٹ سے شارٹ لسٹ ہونے میں کچھ زیادہ وقت نا لگے گا۔ اس ناول کا مرکزی خیال آمریت اور اس کے خمیر سے اٹھنے ہونے والی وہ مضحکہ خیزعبودیت و اضطرار کی ملی جلی کیفیت ہے جو انسانی دماغ میں فوج کے حکومتی نظام سے پروان چڑھتی ہوتی ہے۔ راقم کا اپنا تجربہ ہے کہ جب سانحہ بہاولپور ہوا تو سن آٹھ برس کا تھا لیکن اس عمر میں بھی یہ خیال کہ ضیا الحق کے علاوہ کوئی اور بھی صدر مملکت ہو سکتا ہے ایک نہایت  عجیب و ناممکن بات لگتی تھی۔ غیرجماعتی انتخابات کے اعلان پر بھی ہم بڑے عرصے تک اسی وجہ سے خفا رہے رہے کہ ہماری دانست میں یہ وہ انتخابات تھے جن میں جماعت اسلامی کے سوا سب جماعتوں کو حصہ لینے کی آزادی تھی۔ اس سے آپ ہماری سیاسی بالیدگی کا اندازہ لگا سکتے ہیں لیکن یہ تو جملہ ہاے معترضہ ہیں، چلیے تبصرے کی جانب۔

محمد حنیف کے پڑھنے والے جانتے ہیں کہ ان کے نزدیک کوئی چیز بھی تنقید و تمسخر سے ماورا نہیں۔ دی کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگوز میں بھی یہی سب وشتم بدرجہ اتم موجود ہے۔ جنرل ضیا کی آنکھوں سے لیکرانکے غدودان معدہ تک،پاکستان کی اسلامایزشن کا الزام ہو یا جرنیلوں کی میٹنگ، بیگم شفیق جہاں ضیا الحق کا بیڈروم ہو یا حدود آرڈینینس کی شرائط، ان کا خامہ بے محابہ ایک شتر بے مہارکی طرح تمام حدود قیود سے آزاد اپنے مناظر اور کردار قرطاس پر بکھیرتا چلا جاتا ہے۔ حنیف صاحب کے کردار یک جہتی اور مناظر پر انکی گرفت قوی ہے۔اپنے کرداروں کے پس منظر سے پیش منظر تک کا تعارف وہ اسطرح کرواتے ہیں کہ ایک تشنگی سی باقی رہتی ہے اور یہی اسرار کا باعث بنتی ہے۔ ان کے کرداروں کا کینوس خاصہ بڑا ہے لیکن وہ سب کے ساتھ انصاف کرتے نظر آتے ہیں۔ امریکی سفیرآرنلڈ رافیل، سی آی اے کے چارلس کوگن، اسلم بیگ، بن لادن، کیانی، برگیڈیر ٹی ایم، جنرل اختر عبدالرحمان پر مبنی کردار ہوں یا بے بی او اور علی شگری کے فسانوی کردار، انکا قلم چابکدستی سے ان زندگیوں اور واقعات کو اس طرح سے جوڑتا ہے کہ قاری عش عش کر اٹھتا ہے۔

محمد حنیف نے خود تو اس کتاب کو ایک انٹرویو میں فکشن قرار دیا تھا لیکن بیشتر کیچ ٹوینٹی ٹو اور جارج آرویل کی طرز کے ‘فکشنات’ کی طرح انہوں نے اپنی کہانی کے تانے بانے حقیقی واقعات سے کچھ اس طرح جوڑے ہیں کہ پڑھنے والا حقیقیت و فسانے کے درمیان ایک خلا میں معلق رہتا ہے اور آہستہ آہستہ فسانہ فسانہ نہیں رہتابلکہ حقیقت کا روپ دھار لیتا ہے۔محمد حنیف کے افکارونظریات سے اختلاف تو بلکل ہوسکتا ہے لیکن ان کی ندرت خیال کی تعریف نا کرنا ناانصافی ہوگی۔ اندھی زینب کی بددعاوں سے لے کر کوے کی غیر قانونی پرواز ، شاہی قلعے کے سیکرٹری جنرل قیدی اور حرم کے قاضی کو کی جانے والی فون کال تک ان کے قلم کا نشتر ایسے زخم ادھیڑتا ہے کہ جو پاکستانی سیاسی و سماجی تناظر میں شجر ممنوعہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ میں اس ناول کی کہانی نہیں بیان کروں گا، بس اتنا کہتا چلوں گا کہ بقول مصنف انکا پہلا ناول ایک سیاسی تھرلر ہے اور یہ بات صد فیصد درست ہے۔

نازک طبع لوگوں کے لیے لیکن انتباہ ہے، غالب گمان ہمارا یہ ہے کہ یہ کتاب اور اس میں استعمال کی گی زبان و استعارات و مضامین طبعیت پر گراں گذرے گی۔ فحاشی کی تعریف میں تفرق ہو سکتا ہے لیکن مشتزنی سے لواطت اور راشد بھای کے الفاظ میں اعضاے بقاے نسل انسانی بلا شمار مستعمل ہیں لہذا احتیاط لازم اور جس کو ہو جان و دل عزیز اسکی گلی میں جاے کیوں۔

بی بی سی کی خبر ہے کہ اپنے پہلے ناول پر پیدا ہونے والے ردِ عمل کے بارے میں محمد حنیف نے بتایا تھا کہ ’اور کسی نے تو کوئی خاص ردِ عمل ظاہر نہیں کیا لیکن ایک صاحب نے انہیں مرکزی کردار (جنرل ضیا) کے بیٹے کا یہ پیغام پہنچایا کے ’میرے والد زندہ ہوتے تو پھر میں دیکھتا کہ وہ (حنیف) یہ ناول کیسے لکھتا‘۔
اس تبصرے کے اختتام حنیف صاحب کے کردار کورپورل لسارڈ کا یہ تاریخی جملہ نقل کرتا چلوں جو اس نے صوبیدار میجر کے اس استفسار پرکہ “یہ جو ہاٹ ڈاگ تم ہمارے لیے اتنے چاو سے لاے ہو، وہ حلال ہے کہ نہیں” کہا تھا،

it is a piece of f******* meat in a piece of f******* bread. If we can’t agree on that, what the hell am I doing here?”

اب محمد حنیف کی اگلی کتاب، آور لیڈی آف ایلس بھٹی کو پڑھنا ہے۔ اب یہاں معاملہ اس بار کچھ یوں ہے کہ کتاب ہماری ہے اور قبضہ راشد بھائی کا ہے۔ دیکھیں وہ کب عنایت کرتے ہیں۔

Share

December 19, 2011

تارکین وطن کے نام

Filed under: پاکستان,شاعری,مشاہدات — ابو عزام @ 7:25 pm

ہم سے اس دیس کا تم نام ونشاں پوچھتے ہو
جس کی تاریخ نہ جغرافیہ اب یاد آئے
اور یاد آئے تو محبوبِ گزشتہ کی طرح
روبرو آنے سے جی گھبرائے
ہاں مگر جیسے کوئی
ایسے محبوب یا محبوبہ کا دل رکھنے کو
آنکلتا ہے کبھی رات بتانے کے لئے
ہم اب اس عمر کو آ پہنچے ہیں جب ہم بھی یونہی
دل سے مل آتے ہیں بس رسم نبھانے کے لئے
دل کی کیا پوچھتے ہو
سوچنے دو

فیض احمد فیض

Share
Older Posts »

Powered by WordPress