فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

December 18, 2011

انسٹنٹ سٹی از اسٹیو انسکی کا مختصر تعارف

Filed under: ادبیات,پاکستان — ابو عزام @ 11:55 am

این پی آر، پبلک ریڈیو اور بیرونی میڈیا کے سامعین کے لئے اسٹیو انسکی کا نام نیا نہیں۔ مارننگ شو جو امریکہ میں‌ سب سے زیادہ سننے والا خبروں‌ کا پروگرام ہے، اسکے کو ہوسٹ ہونے کے ساتھ ساتھ اسٹیو این پی آر کے مستقل معاون بھی ہیں۔ اسٹیو کی صحافتی زمہ داریوں میں‌افغانستان کی جنگ کی کوریج کے علاوہ پاکستان اور عراق کے اہم واقعات کی خبروں کو پیش کرنا شامل ہے۔ انہیں ‘افریقی تیل کی قیمت’ کے نام سے نایجیریا میں ہونے والے فسادات کے بارے میں ایک سیریز کرنے پر رابرٹ ایف کینیڈی ایوارڈ بھی دیا جاچکا ہے۔

انسٹنٹ سٹی یا فوری شہر نامی یہ تقریبا تین سو صفحات کی کتاب پینگوئن پبلشرز نے شائع کی ہے۔ کراچی کے بارے میں اسٹیو انسکی کی یہ تصنیف کسی لاعلم فرد کا ڈرائنگ روم سے لکھا گیا مکالمہ نہیں۔ مثل مشہور ہے کہ اکثر بہت قریب ہونے کی وجہ سے ہم وہ چیزیں نہیں دیکھ پاتےجس کو بیرونی رائے سے اجاگر کیا جا سکتا ہے۔تقریبا تیس صفحات پر ذرائع اور نوٹس کی شکل میں کتاب کے تمام مواد کے بارے میں تحقیقی معلومات اکھٹی کر دی گئی ہیں جن سے کتاب کی صداقت کو جانچا جا سکتا ہے۔ اس کتاب میں انسکی نے ایک تحقیقاتی صحافی کی طرح اپنے قلم کو زمینی حقائق سے قریب رکھتے ہوئے حالات و واقعات کے تانے بانے کچھ اس طرح سے بنے ہیں کہ یہ ایک بیزار کردینے والے مقالے کے بجائے ایک دلچسپ پیج ٹرنر وجود میں آگئی ہے۔

انسکی نے اس کتاب کو چار حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ جناح روڈ، مقامات، نیو کراچی اور تجدید کراچی جو کتاب کے مضمون و ترکیب کو بہت اچھے طریقے سے بیان کرتے ہیں۔ انسٹنٹ سٹی کل پندرہ ابواب پر مشتمل ہے جو پاکستان بننے سےلے کر آج کے کراچی تک کے مختلف ادوار کا احاطہ کرتے ہیں۔ اس کتاب کو اینکڈوٹس کا ایک خوبصورت مجموعہ کہا جائے تو کچھ غلط نا ہوگا۔ تاریخ کے بیان کے باوجود یہ تاریخ کی کتاب نہیں، معاشی ناہمواریوں، فسادات و خونریزیوں کی داستانوں کے باوجود یہ سماجی تفسیر ہونے کا دعوی نہیں کرتی۔ اس کتاب میں ایدھی بھی ہیں اور ایوب خان بھی، شیعہ زائر محمد رضا زیدی بھی ہیں اور اردشیر کاوس جی بھی، سوات کا افریدی بھی اور مصطفی کمال بھی، جلتی ہوئی بولٹن مارکٹ بھی اور ستر کلفٹن بھی، لینڈ مافیا کے قصے بھی ۔ غرضیکہ کہ گٹر باغیچہ سے ڈریم ورلڈ کے درمیان بستے کراچی کی طرح یہ کتاب بھی بڑی مختلف النوع اور کوسموپولیٹن ہے۔

اس کتاب کا مرکزی خیال کراچی کے مسائل پر تحقیق اور اس کی دیرینہ وجوہات کی تلاش ہے۔ انسکی نےان مسائل کی بنیادی وجوہات کو مختلف نظریات سے جوڑنے کی کوشش کی ہے اور پڑھنے سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے وہ ہر مسئلے کو تہ دل سے بنیادی مسئلہ سمجھتے رہے ہیں۔ انہیں بانی پاکستان سے شکایت ہے کہ انہوں نے دو قومی نظریے پر بننے والے ملک میں اقلیتوں کےلئے حقوق کا ایک واضع فریم ورک نہیں دیا جس کی وجہ سے کراچی جس میں آزادی کے وقت اقلیتوں کے تعداد اکیاون فیصد سے زیادہ تھی، آج ان کی املاک اور آبادی ایک مارجنالائز طبقہ بن کر رہ گئی ہے۔ انہیں ایوب خان سے شکایت ہے، کراچی کی بلا منصوبہ بندی بڑھنے سے شکایت ہے اور سب سے بڑھ کر عوام سے شکایت ہے کہ وہ وسیع ترین عوامی مفاد پر انفرادی مفادات کو کیوں ترجیح دیتے ہیں۔ لیکن کراچی کے لوگوں میں ریزییلینس یا لچک و استحکام کو موضوع بحث رکھتے ہوئے اسٹیو ان مسائل و شکائتوں کو اس طرح الفاظ کے جامے میں‌‌ ڈھالتے ہیں کہ سرنگ کے دوسرے سرے پر روشنی صاف دکھائی دیتی ہے۔

اس کتاب کے کلف نوٹس یا خلاصہ نہایت مشکل امر ہے، آپ مصنف کی باتوں سے اختلاف کریں یا اتفاق، اسکی تحقیقی جانفشانی کی داد ضرور دیں گے۔ میں نے یہ کتاب لبرٹی پر دیکھی تھی، اگر موقع ملے تو ضرور پڑھئے اور اپنی رائے سے آگاہ کریں۔

Share

December 13, 2011

آج نہیں تو کبھی نہیں از بشیر جمعہ کا مختصر تعارف

Filed under: ادبیات,پاکستان — ابو عزام @ 7:08 am

 طارق روڈ پر واقع دارالسلام کے دفتر کے ایک تازہ چکر کے دوران ہم نے جہاں کئی دوسری کتابیں خریدیں وہاں محمد بشیر جمعہ صاحب کی

آج نہیں تو کبھی نہیں،
سستی کاہلی اور تن آسانی، تعارف وجوہات اور علاج

 کے نام سے موجود ایک کتاب بھی لے لی۔ اردو میں ٹائم مینیجمنٹ اور سیلف ہیلپ کی اچھی کتابیں‌ شاز و نادر ہی نظر آتی ہیں، انگریزی کتابوں کے تراجم البتہ مل جایا کرتے ہیں ۔ اس تقریبا ستر صفحات کی کتاب جسے کتابچہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا نے خاصا متاثر کیا۔ اپنی مدد آپ یا سیلف ہیلپ کی کتابوں کی طرز پر لکھی گئی یہ کتاب مختصر تجاویز، حکایات، عملی منصوبہ جات سے مزین ایک ورک بک ہے جو کہ تساہل کی کئی بنیادی وجوہات پر نا صرف روشنی ڈالتی ہے بلکہ اس سے نبرد آزما ہونے کے طریقے بھی بتاتی ہے۔

اس میں ایک پیراگراف بڑاحسب حال تھا، اقتباس کے لئے موزوں لگا لہذا درج زیل ہے۔

چونکہ ہماری قومی زندگی میں بنیادی فلسفے۔ تصور حیات، پالیسی، متعلقہ منصوبہ بندی اور افرادکار کے بہتر استعمال کی صلاحیت کی کمی ہے، لہذا قومی مزاج ہنگامی اور ایڈہاک ازم کا شکار ہوگیا ہے۔ حکومتیں‌اور ادارے اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لئے اجتماعی قومی نقصان کو نظر انداز کرتے اہم اقدامات کرلیتے ہیں جو ان کے وجود کو فوری طور پر قائم رکھتے بحیثیت قوم ہم اپنی بنیادوں کو تباہ کر لیتے ہیں۔

 اس کتاب کی قیمت ستر روپے ہے۔ جن اصحاب کو ڈیوڈ ایلن کی گیٹنگ تھنگس ڈن پسند ہے انہیں یہ مختصر اور پر اثر کتابچہ ضرور پسند آئے گا۔

Share

November 24, 2011

چوتھی عالمی اردو کانفرنس

Filed under: ادبیات,پاکستان — ابو عزام @ 6:02 am

آج چوتھی عالمی اردو کانفرنس میں‌ امجد اسلام امجد، روف پاریکھ اور افتخار عارف اور دیگر کے مضامین، مقالاجات و خیالات سن کر بے حد مزا آیا ۔ غالب عہد آفرین، کل کانفرنس کا آخری دن ہے، کراچی آرٹس کونسل میں‌، ضرور شرکت کریں۔ کل مشتاق احمد یوسفی بھی موجود ہونگے۔ پراگرام اوقات کار مندرجہ ذیل ہے۔

Share

December 23, 2010

لنگڑی بطخ کانگریس

Filed under: پاکستان,سیاست,مشاہدات — ابو عزام @ 3:16 pm
نہیں‌ جناب ، یہ لقب ہمارا دیا ہوا نہیں بلکہ کئ مغربی ممالک کی سیاست میں ‘لیم ڈک’ یا لنگڑی بطخ ایسے سیاسی فرد یا جماعت کو کہا جاتا ہے جو کہ
.۔1 دوسری مدت کا انتخاب ہار گئے ہوں اور پہلی مدت کے اختتام پر ہوں
.۔2 دوسری مدت کے لئے انتخاب نا لڑنے کا فیصلہ کیا ہو اور موجودہ مدت ختم ہونے والی ہو
.۔ 3 دفتر ی میعاد کی حد کو پہنچ گئے ہوں کہ اب اگلے انتخاب کے لئے نا اہل ہوں
۔4 اس دفتری عہدے کو  انکی معیاد پوری ہونے پر ختم ہوجانا ہو۔
 
ان لنگڑی بطخ حکام کی چونکہ  سیاسی قوت کمزور ہوتی ہے کہ چل چلاو کا وقت ہے،  لہذا دیگر منتخب عہدے دار  ان کے ساتھ تعاون کی طرف راغب کم کم ہی ہوتے ہیں. آج کل کی امریکی کانگریس اپنے لیم ڈک سیشن میں ہے لیکن سنبھالا لیتے ہوئے قوانین پر قوانین پاس کرتی جا رہی ہے کہ سند رہے اور بوقت الیکشن کام آئے۔
 
برطانوی انداز کی مقننہ میں زیادہ تر تکنیکی طور پر تو لیم ڈک سیشن نہیں ہوا کرتا لیکن اگر دیکھا جائے جائے تو  مملکت خداداد، ہمارے وطن عزیز کی لولی لنگڑی جمہوریت اور اس کے مقننہ کے ادارے شازونادر ہی لنگڑی بطخ سیشن سے باہر آتے ہیں۔ کبھی مڈ ٹرم کا خوف، کبھی بھاری بوٹوں کی آواز کا ڈر تو کبھی بیچ منجدھار میں سیاسی جماعتوں کے اتحاد ٹوٹنے کا خدشہ – اس لئے ہمارا مشورہ ہے کہ ایوان زیریں و بالا کا اجتماعی نام ‘مجالس بط بہ لنگ’ رکھ دیا جائے۔ باقی اہم فیصلے تو سب ہی جانتے ہیں کہ کہاں کئے جاتے ہیں۔
Share

August 13, 2010

١٤ اگست ٢٠١٠

Filed under: پاکستان,مذہب,مشاہدات — ابو عزام @ 11:22 pm

ان تازہ خدائوں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کاکفن ہے

یہ بت کہ تراشیدہ تہذیب نوی ہے
غارت گر کاشانہ دین نبوی ہے

بازو تر اتوحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی ہے

خالی ہے صداقت سے سےاست تو اسی سے
کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے

اقوام میں مخلوقِ خدا بٹتی ہے اس سے
قومیت اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے

اقبال-

Share

August 7, 2010

زرداری اور نیرو – مقابلے کی جھلکیاں

Filed under: پاکستان,سیاست — ابو عزام @ 4:34 pm
جیسا کہ آپ ناظرین جانتے ہیں کہ صدر پاکستان جناب آصف علی ترکاری اور روم کے حکمران نیرو کے درمیان پچھلے دو ہزار سال کے سب سے بے حس حکمران ہونے کا مقابلہ زور و شور سے جاری ہے۔ اب ہم آپ کو اپنے خصوصی وقائع نگار / اسپورٹس کاسٹر مرزا کے پاس لے چلتے ہیں جو آپ کو تازہ ترین صورتحال سے آگاہ کریں گے۔ جناب، آپ کا کیا خیال ہے، اس دو ہزار سالہ دوڑ میں کون جیتتا ہوا دکھائی دے رہا ہے؟
آپ کا شکریہ مرزا – یہ انتہائی دلچسپ مقابلہ ہے۔ اس سے پہلے ایسی ہی دوڑ‌پال پوٹ، عیدی امین، اسٹالن، اور فرانس کی شہزادی میری نے بھی نیرو کے ساتھ تاریخ کے اوراق میں کی تھی لیکن ظلم و ستم اور قتل عام کے باوجود وہ نیرو کی بے حسی کا وہ جوہر نہیں پا سکے کہ جو کہ اسکی حکمرانی  کا خاصہ تھا۔ فرانسیسی شہزادی میری نے تو غریبوں کی بھوک اور انکے روٹی نا ملنے  کا سن کر اپنے شہرہ آفاق جملے
Qu’ils mangent de la brioche
تو انکو کیک اور پیسٹری کھانے دو!
سے تاریخ میں اپنا نام امر کروا لیا تھا لیکن نیرو کی شہرہ آفاق بانسری کا مقابلہ کوئی نہیں‌کرسکا۔ ہماری خوش قسمتی اور پاکستانی عوام کی بدقسمتی کہیں کہ آج ہمیں صدر پاکستان آصف علی ترکاری کی صورت میں ایک ایسا نمونہ ملا ہے جس سے قوئ امیدیں وابستہ ہیں کہ وہ نیرو کی بے حسی کی بانسری کا دو ہزار سالہ ریکارڈ توڑنے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔
مرزا، جب اتنے بڑے طرم خان لوگ نیرو کا ریکارڈ نہیں توڑ پائے تو آپ یہ کیسے سمجھ سکتے ہیں کہ میاں ترکاری ایسا کر پائیں‌گے؟
مرزا، ہم آواگون پر یقین نہیں رکھتے ورنہ اس بات میں کوئی شک نا ہوتا کہ میاں ترکاری نیرو پادشاہ کا اوتار ہیں۔ جیسا کہ آپ سب پڑھے لکھے لوگ جانتے ہیں  نیرو پہلی صدی عیسوی کے روم کا ایک ظالم و جابر حکمران تھا جس کی وجہ شہرت اس کا روم کے جلتے ہوئے بانسری بجانا تھا۔لیکن اس سے پہلے اس نے شہنشاہ کی بیٹی کلاڈیا سے شادی کی۔ پھر بادشاہ بننے کےبعد اپنی ماں اگریپینہ اور دوسری بیوی پاپائییہ کو جان سے مار ڈالا۔  اس کو شکائتی لوگوں سے سخت چڑ تھی، جی حضوری کرنے والوں کو بہت سراہتا تھا اور اسی وجہ سے انتیستیس کو مروا ڈالا کہ اس نے  نیرو کی شان میں‌کوئی ادنی بات کی تھی ۔ پھر روم میں بڑی آگ لگی تو سیوتونیس نامی تاریخ نگار لکھتا ہے کہ وہ  اپنی گاڑی پر بیٹھ کر بانسری بجاتا رہا۔ شائد اس زمانے میں بیرونی دورے نہیں کئے جایا کرتے ہونگے۔ موے تاریخ دان نا جانے کیا کیا لکھتے رہتے ہیں۔
اب آپ اسی روشنی میں دیکھیں اور بتائیں کیا بادشاہ نیرو کو ہمارئے صدر کی صورت میں ایک صحیح جانشین میسر نہیں آیا؟ ترکاری صاحب نے تو اس بات کا حق ادا کردیا ہے اور ایسے اقدامات کئے ہیں کہ نیرو بھی کہے واہ ترکاری، تجھے لوگ مسٹر ٹین پرسنٹ بلا وجہ نہیں کہتے ۔ نیرو نے غریبوں پر ٹیکس چار فیصد سے کم کرکے دو فیصد کیا تھا، ترکاری صاحب نے ٹیکس بڑھانے کے لئے کوی دقیقہ فروگزاشت نہیں‌ چھوڑا۔ ملک میں سیلاب ہے، کراچی میں آگ لگی ہے، لوگ بھوکوں مر رہے ہیں‌ اور صدر ترکاری پرانی جینز میں فوٹو سیشن کرو رہے ہیں۔۔ پاکستان ڈوب رہا ہے، سولہ سو افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں ، ایک کروڑ بیس لاکھ افراد اس سیلاب بلا سے متاثر ہوئے ہیں اور ترکاری صاحب اپنی بے سری بجا رہے ہیں کہ تاریخ بتائے گی کہ لیلی مرد تھی یا عورت۔صدر اوبامہ نے تو تیل بہنے پر گلف کی ریاستوں کے تین دورے کر ڈالے کہ بش کی کترینا والا انجام نا ہو کہ صدر تیل صاف تو نہیں کرتا لیکن قوم کا قائد دکھ بانٹنے موجود ہو تو حوصلے جوان رہتے ہیں۔اوبامہ اپنا شرق ایشیا کا دورہ دو دفعہ اس وجہ سے منسوخ کیا کہ ملک میں صحت عامہ کا جو بل پاس ہونے جا رہا ہے وہ تعطل کا شکار نا ہو جائے۔ ظاہر سی بات ہے ان کو نیرو سے مقابلہ مقصود نا تھا، ڈرپوک کہیں کے۔  یہ معلوم نہیں کہ نیرو کو کتنے جوتے پڑے تھے اور یہ بات بھی واضع نہیں کہ نیرو نے روم کے دشمنوں کے ساتھ کیا رویہ روا رکھا تھا لیکن ہمارے صدر نے کیمرون کے بیانات کو ایک کان سے اندر اور دوسرے سے باہر کیا ‘بیچ کی جگہ سینٹرل جیل کے خیام کے دوران خالی کروا لی گئی تھی’ اور کہتے ہیں کہ ‘ہم انکا پیچھا اتنی آسانی سے تو نہیں چھوڑیں گے’۔ اب بتائیں اس کے بعد بھی اس دو ہزار سالہ دوڑ کے جیتنے والے صدر ترکاری ڈکیت نا ہوئے تو کون ہوگا؟
اور بقول فراز ایس ایم ایس کہ
بلاول : ابا آپ نے اپنی حرکتوں سے خاندان کے نام پربدنما داغ لگا دیا ہے
ترکاری : ہاہا بیٹا، یہ داغ تو چلا جائے گا، یہ وقت پرکبھی نہیں آئے گا!
مرزا: آپ کو اس بات کا ڈر نہیں کہ آپ صدر پاکستان کی ہتک کے جرم میں دھر لئے جائیں گے۔
ارے مرزا وہ کیا کہا تھا نیرو نے، یہ بازو میرے آزمائے ہوے ہیں، (پولیس کی دستک ہوتی ہے اور مرزا کو گھسیٹتے ہوئے باہر لے جایا جا تا ہے، وہ کراہتے ہوے کچھ آزادی اظہار کی بات کر تے سنائی دے رہی ہیں جو کانسٹیبل کے مکوں تلے دبتی جا رہے ہے۔۔۔۔)
بہر حال نیرو کے بانسری کے مقابلے میں ترکاری کی بے سری  کیا رنگ لاتی ہے، اس سلسلے میں دوڑ کی تازہ  ترین تفصیلات کے لئے دیکھتے رہئے جیو نیوز۔
Share

August 3, 2010

عصبیت

Filed under: پاکستان,سیاست,مذہب — ابو عزام @ 6:29 am
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
لیس منا من دعا الی عصبیۃ ولیس منا من قاتل عصبیۃ ولیس منا من مات علی عصبیۃ۔ رواہ ابوداؤد
جس نے عصبیت کی طرف دعوت دی وہ ہم میں سے نہیں،
جس نےعصبیت کے لیے جنگ کی وہ ہم میں سے نہیں،
جو عصبیت پر مرا وہ ہم میں سے نہیں ہے
آج روشنیوں کا شہر پھر لہو لہو ہے، لسانی بنیادوں پر تفریق پھیلانے والی سیاست کی وجہ سے ہمیں یہ دن پھر دیکھنا پڑ رہا ہے کہ کلمہ گو مسلمان اپنے کلمہ گوبھائی کا گلا کاٹ رہا ہے اور یہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ہم رنگ و نسل و زبان کی بنیاد پر کی جانے والی تفریق کو رد کرتے ہوئے حجتہ الوداع پر دئے گئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم کو اپنی اجتماعی زندگیوں کا نصب العین نہیں بنا لیتے۔
یایہا الناس ا لا ان ربکم واحد وان اباکم واحد الالافضل لعربی علی عجمی ولا لعجمی علی عربی ولا لأسود علی احمر ولا لأحمر علی اسود الا بالتقوی۔(مسند احمد)
اے لوگو!خبردارتمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ ایک ہے خبر دار!کسی عربی کو عجمی پر یا عجمی کو عربی پر یا کالے کو سرخ پر اور نہ سرخ کو کالے پر کوئی فضیلت حاصل ہے سوائے تقویٰ کے
اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے۔ آمین
Share

July 19, 2010

مرزائی رہنما کی پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائ

Filed under: پاکستان,خبریں — ابو عزام @ 12:41 pm
عربی و انگریزی جریدے الاخبار نامی ہفت روزہ مجلے کی آٹھ جولائی کی اشاعت میں احمدی عبادت گاہ کے سربراہ شمشاد احمد قادیانی کا ‘آزادی کی میرے لئے کیا اہمیت ہے’ کے عنوان سے ایک مضمون چھپا ہے۔ اس مضمون کا مکمل متن یہاں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔

اپنی تحریر میں شمشاد احمد صاحب نے پاکستان کی حکومت، اداروں اور عوام کی اکثریت پر احمدیوں کے قتل عام میں ملوث ہونے کا الزام لگایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں
‘لاہور میں اٹھایس مئی کو طالبانی ہتھیار برداروں نے دو عبادت گاہوں پر حملہ کر کے 86 احمدیوں کو ہلاک کردیا۔ ان دہشت گردوں نے یہ کام پاکستانی حکومت، پولیس، آئین اور مذہبی اکابرین کی اجازت سے کیا جو تمام کے تمام اس بات پر راضی ہیں کہ احمدیوں کا قتل ایک عظیم الشان فعل ہے”
مزید الزام تراشی کرتے ہوے کہتے ہیں
“یہ مذہبی اقلیت کے خلاف دہشت گردی کا کوئ بےترتیب واقعہ نا تھا بلکہ یہ ریاستی پشت پناہی ‘اسٹیٹ اسپانسرڈ’ اور عوامی منظوری سے کیا جانے حملہ تھا”  اور “پاکستان اور دیگرکئی مسلم ممالک میں مذہبی بنیادوں پر ایذا رسانی کی حمایت اور حوصلہ افزائی کی جاتی ہے”
مزید زہر افشانی کرتے ہوئے وہ امریکہ کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ مسلمانوں سے کہے کہ وہ اپنے ضمیر کو جگائیں نیز یہ کہ
“پاکستانی حکومت اور پاکستانی عوام کی اکثریت سب کے لئے آزادی اور انصاف کی مشترکہ اقدار پر یقین نہیں رکھتی”۔
اگر آپ کو میرے ترجمے پر اعتراض ہو تو آپ خود پیراگراف نمبر 7-9 کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔
لاہور میں قادیانی عبادت گاہوں پر حملہ دہشت گردی کا ایک فعل تھا جس کی ہر مکتبہ فکر کی جانب سے مذمت کی گئی۔ پاکستان کا ہر طبقہ چاہے وہ مذہبی اقلیت ہو یا مسلم اکثریت، اس وقت دہشت گردی کی لپیٹ‌ میں ہے۔ سنی، شیعہ، دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث، ہر فرقے کے افراد کو دہشت گردی کی بہیمانہ غیر انسانی وارداتوں کا سامنا ہے۔ سید علی ہجویری کی قبر پر ہونے والے دھماکے ہوں، سرگودھا  میں امام بارگاہ پر حملہ ہو، مہمند ایجنسی یکہ غنڈ میں ہونے والا خود کش دھماکہ ہو یا منگورہ میں’فدائی’ حملہ، ہمارا ملک دہشت گردی کے ایک ایسے خونی بحران سے گذر رہا ہے کہ جس میں پاکستانیوں کی جان و مال جنس ارزاں ہوگئیں ہیں۔ ان خراب حالات میں جبکہ قومی یکجہتی اور ہم آہنگی کی اشد ضرورت ہے، مرزایوں کی طرف سے یہ گمراہ کن بیان کہ یہ حملے نہ صرف خاص طور پر احمدی فرقے کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے بلکہ یہ کہ اس میں کسی طرح پاکستانی حکومت کی اسپانسرشپ اور پاکستانی عوام کی مرضی شامل ہے ، نہایت افسوسناک ہے۔
پچانوے فیصد سے زائد مسلم اکثیریتی آبادی کے ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں کو غیر مسلم اقلیتوں کےحقوق حاصل ہیں۔ غیر جانبدار عالمی تجزیات اور رپورٹوں کی روشنی میں اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے  جن میں عیسائی، ہندو اور قادیانی شامل ہیں لیکن یہی دہشت گردی کی وبا اسلامی فرقہ جات کے لئے بھی یکساں طور پر قتل و غارت کا پیغام لے کر آئی ہے اور اعداد وشمار اس بات کے گواہ ہیں۔ دہشت گرد بے گناہ مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلتے ہیں لیکن جماعت احمدیہ کی طرف سے ایک مذمتی بیان کی پریس ریلیز بھی نظر نہیں آتی ۔ چونکہ یہ ‘غیر جانبدارانہ’ سروے صرف اقلیتوں کے حقوق کی نمایندگی کرتی ہیں، اس وجہ سے ‘بگ پکچر’ یا دہشت گردی سے متاثر ہونے والوں کی مکمل تصویر کشی نہیں ہوپاتی اور یہ تاثر بننا شروع ہو جاتا ہے کہ اس دہشت گردی کا اصل منبع اکثریتی مسلم آبادی کی اقلیتی غیر مسلم آبادی پر ایذا رسانی ہے جو حقیقت سے بعید تر ہے۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ پاکستان کے باشعور عوام نے کبھی اس طرح کی کاروایوں کی حمائت نہیں کی اور شمشاد احمد کا یہ شرمناک الزام کہ ‘ دہشت گردوں نے یہ کام پاکستانی حکومت، پولیس، آئین اور مذہبی اکابرین کی اجازت سے کیا’ مملکت پاکستان کی انتظامیہ اور عوام پر بلاوجہ لگایا جانے والا بہتان ہے ۔ اس طرح کے بے سروپا الزامات اور ہرزہ سرایاں کرکے مرزا غلام احمد کذاب کے ماننے والےشمشاد صاحب شائد اپنے غیر ملکی آقاوں کو تو خوش کر سکتے ہیں لیکن کسی سنجیدہ ڈایلاگ کی کمی کو پورا نہیں کرسکتے۔
Share

July 18, 2010

تہذیبی نرگسیت -ایک تہذیبی مرعوب کی سرگذشت کا اصولی جواب – حصہ سوم

Filed under: پاکستان,تحقیق,مذہب — ابو عزام @ 1:56 am
گذشتہ کچھ عرصے سے مشاہدے میں آیا ہے کہ تہذیبی نرگسیت کا باطل نظریہ خام ذہنوں میں مستقل شکوک و شبہات کا باعث بن رہا ہے۔ خصوصا لبرل اور لادینی عناصر اپنی تحاریر اور گفتگو میں اس کتاب کا اکثر حوالہ دیتے رہتے ہیں۔ نئے ناپختہ اذہان اس فتنے سے متاثر نا ہوں، اس لئے ہم نے پچھلے دو حصوں میں بتدریج اس فتنے کے بنیادی تضادات، نصوص قطعیہ پر مصنف کے اعترضات اور اسلام کے مکمل ضابطہ حیات ہونے کے متعلق قران و حدیث سے دلائل پیش کئے ہیں ۔ اس تیسرے حصے میں ہماری کوشش ہوگی کہ اس خود ساختہ ‘نرگسیت’ کی حقیقت اور غلبہ اسلام کے بارے میں‌ نصوص قطعیہ سے اتمام حجت کریں اور اس فتنے کے علمی سرقے پر کچھ روشنی ڈالیں ۔ نیز ہم یہ بات واضع کرتے چلیں کہ اس مضمون اور اس کے پہلے دو حصوں کے مخاطب وہ شعوری مسلمان ہیں جو اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کو تہ دل سے تسلیم کرتے ہیں اور اس نرگسی فتنے کے اسباب و حقایق پر اپنی تشفی قلب کے لئے مزید معلومات کے خواہاں ہیں۔ آپ نے اگر پچھلے دو حصوں کا پہلے مطالعہ نہیں کیا تو برائے مہربانی اس مضمون کو شروع کرنے سے پہلے ان دونوں حصوں کو ضرور پڑھ لیں۔

تہذیبی نرگسیت -ایک تہذیبی مرعوب کی سرگذشت کا اصولی جواب –حصہ اول

تہذیبی نرگسیت -ایک تہذیبی مرعوب کی سرگذشت کا اصولی جواب – حصہ دوم

کئی لوگوں نے اس کتاب کے حصول کے لئے پوچھا تھا، تو ان سے گذارش ہے کہ اس زمن میں اپنے لوکل کتب فروش سے رابطہ کریں، یہ کتاب سانجھ پبلیشرز نے شائع کی تھی اور یہ ایمیزون پر موجود نہیں لیکن آپ دکاندار ڈاٹ کام سے رابطہ کر کے آرڈر کر سکتے ہیں۔ حالانکہ میں اس کے متن سے شدید اختلاف رکھتا ہوں،لیکن اس کتاب کا ٹارنٹ ڈاونلوڈ چوری کے زمن میں آئے گا جو کہ ایک مسلمان کے قطعی شایان شان نہیں اور شرعا موجب گناہ ہے۔
پاکستان میں سیکولر اور لبرل طبقے کا ہمیشہ سے یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ ہر انسانی مسئلے، پریشانی اور ناکامی کی بنیادیں مذہب سے جوڑنے پرمصر ہوتے ہیں اور اس کے لئے نت نئے اعتراضات تراشتے رہتے ہیں، نرگسیت کا بے معنی اعتراض بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ کیونکہ اس طبقے کی اپنی سوچ مغرب سے مستعار لی ہوئی ہوتی ہے، اسی لئے وہ علمی سرقے سے بھی گریز نہیں کرتے اور لی ہاورڈ ہاجزکے 2002 کے ‘دی ایرانین’ میں چھپنے والے مضمون ‘وکٹمالوجی’ میں میں تصرف کر کے کتابی شکل دے دیتے ہیں اور بیشتر پیراگراف من و عن ترجمے کر کے بغیر حوالے کے چھاپ دیتے ہیں۔ سرخے سے سرقے کا سفر شاید اتنا طویل نہیں۔ مزید تفصیل کے لیئے حوالہ جات ملاحظہ ہوں۔
بہرحال، یہ توہے ان لوگوں کے علمی دیوالیےپن کا حال ۔ مجھے غالب گمان ہے کہ اس نظریے کے حامی افراد ضرور کہیں گے کہ چلیں سرقہ ہی سہی، بات تو درست ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ لبرل تعصب کی پٹی ہٹا کر دیکھا جاے تو یہ باتیں علمی،عقلی و عملی بنیادوں پر بلکل پورا نہیں اترتیں۔ ہم مندرجہ زیل دس نکات میں یہ بات واضع کرتے چلیں گے۔
اولا – جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا تھا، درحقیقت اسلامی نرگسیت یا ‘مسلم  نارسسززم’ کی اصطلاح اسلام دشمن مستشرقین کی اختراع ہے، گوگل کی اس تکنیکی دنیا میں اس دعوی کی تصدیق کرنا کوئی مشکل نہیں، مسلم نارسسززم واوین ‘کوٹس’ میں لکھیں اور جو نتائج آئیں ان مضامین اور ان کے مصنفین کی جانبداری علمی پیرائے میں پرکھیں، آپ کو میرے ‘سازشی نظریات’ پر شائد یقین آجائے۔ اس اصطلاح کا استعمال اسلام دشمنی کے لئے تو نہیایت موزوں ہے، تجدد، خود تنقیدی اور بہتری کے لئے نہیں۔ نیز اس اصطلاح کا کریڈٹ بھی گمان  غالب ہے کہ لی ہاورڈ ہاجز ہی کو جائے گا، مبارک حیدر یا انکے حوارین کو نہیں۔
ثانیا – بقول مصنف نارسززم اپنے آپ کو، اپنے نظریات کو یا اپنے مذہب کو دیوانگی کی حد تک چاہنے کا نام ہے۔ مغرب میں مثل مشہور ہے کہ نرگسی فرد اپنے آپ سے اس قدر محبت کرتا ہے کہ اس کا بس نہیں چلتا کہ اپنی جنس تبدیل کرکے اپنے آپ ہی سے شادی کرلے۔ آج مصنف جس تہذیبی نرگسیت کو ام الخبایث قرار دے رہے ہیں، کیا وہ اس پیمانے پر پورا اترتی ہے؟ اسلامی تہذیب کی اساس توحید، رسالت، عبادت، پاکیزگی، تقوی،حسن سلوک، ایمانداری، اور اسوہ حسنہ پر عمل کرنے میں ہے۔ آج جن افراد کو آپ تہذیبی نرگسیت کا منبع قرار دینے پر مصر ہیں، کیا ان میں اسلامی تہذیبی رویوں کی کوئی ہلکی سی رمق بھی دکھائی دیتی ہے؟ اگر یہ حقیقتا اپنی تہذیب پر فخرواعزاز کا معاملہ ہوتا تویہ لوگ پہلےاپنی تہذیب کو اپناتے اور اس پر عمل کرتےنہ کہ اس کے قطعی مخالف اعمال کو اپنا وطیرہ بناتے۔
درحقیقت فکر و استنبطاط کی صلاحیتوں سے یکسر محروم مصنف اور انکی صنف کے لبرل تشدد پسند لوگ جابر و کرپٹ حکمرانوں، سماجی ومعاشرتی تفاوت سے پیدا ہونے والےرجحانات، نیو امپیریلزم اور بیرونی حملہ آوروں جیسے بڑے مسائل کے متشددانہ رد عمل کو فورا مذہب سے جوڑ دیتے ہیں کیونکہ شائد یہ آسان ترین شکار ہے۔نیز اگر کوئی مذہب کے نام پر تشدد کا درس دیتا ہے تو وہ وہ ایک قبیح فعل کر رہا ہے اور ہر مذہب اور معاشرے میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں، اس کے لئے پوری مسلم امہ کو مورد الزام لگانا کیا معنی رکھتا ہے۔ اسی طرح جرائم یا قانون شکنی کے باعث ہونے والے واقعات کو بھی تہذیبی نرگسیت کے کھاتے میں ڈالنا ان لبرل متشددین کا نیا حربہ ہے جس کی کوئی منطقی وجہ ہماری عقل سے بالاتر ٹھری۔
ثالثا – غیرت دین، اپنے نظریے، وطن اور آبا سے محبت انسان کی فطرت میں شامل ہے، اس کو نرگسیت قرار دینا نہایت بے اصل بات ہے۔ اگر مسلمان اپنے ماضی اور اپنی تہذیب پر فخر کرتے ہیں تو یہ کس قاعدے کی رو سے جرم ہے؟ مصنف مزید لکھتے ہیں
‘مسلمان کا ایمان اعلی، اخلاق اعلی، اس کی عبادت اعلی۔ اس کی دنیا داری اعلی۔ یہ دنیا اس کی، اگلا جہان بھی اس کا۔ باقی ساری دنیا جہنمی۔ باقی سارے انسان کفر اور جاہلیت پر رکے ہوے ‘ صفحہ 91
اپنے ایمان و ایقان پر اعلی و ارفعی ہونے کا گمان کرنا مصنف کے نزدیک نرگسیت کی علامت ہے جبکہ یہ بات مسلمان قران و حدیث کی تائید میں سمجھتے ہیں کہ ان کا ایمان اور انکا دین ہی واحد درست دین ہے (ان الدین عنداللہ السلام)۔ لبرلزم کی جس تحریک سے مصنف کا تعلق ہے اسکے نزدیک ایک کافر، ایک ہمجنس پرست، ایک بت پرست اور ایک موحد میں کوئی فرق نہیں۔ اگر ان سب کے دنیوی اعمال درست ہوں اور انہوں نے دنیا میں لوگوں کو نفع پہنچایا ہو یہ اس ‘خیالی’ جنت میں جانے کے برابر کے حقدار ہیں چاہے وہ اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے باغی ہی کیوں نا ہوں۔ ان نام نہاد جدت پسندوں کی سمجھ میں یہ سیدھی سی  بات نہیں آسکتی کہ اگر خالق کائنات پر ایمان رکھتے ہو تو جنت و دوزخ کے بارے میں اپنے گمان پر نا جاو بلکہ اللہ اور اسکے رسول کے فرمان کو درست جانو۔
“یقین جانو کہ کافروں کے لیے جوکچھ زمین میں ہے بلکہ اسی طرح اتنا ہی اوربھی ہو اور وہ اس سب کو قیامت کے دن عذاب کے بدلے فدیہ میں دینا چاہیں توبھی یہ ناممکن ہے کہ ان کا یہ فدیہ قبول کرلیا جاۓ ، ان کے لیے تو دردناک عذاب ہی ہے ۔ وہ چاہیں گہ وہ جہنم سے نکل بھاگیں لیکن وہ ہرگز اس میں نہیں نکل سکيں گے اوران کے لیے ہمیشگی والا عذاب ہوگا ” المائدۃ ( 36 – 37 )
اس ضمن میں میرا یہ ہرگز مقصد نہیں کہ مسلمانوں کو جنت کا کوئی ‘فری پاس’ مل گیا ہے بلکہ قران و‌حدیث کا مطالعہ رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ حقیقت اس سے بعید ہے۔ لیکن اگر مسلم امہ اپنی الہامی کتب کے مطابق اپنے عقیدہ توحید کی بنا پر اعمال کی بارگاہ الہیہ میں‌قبولیت  پر یقین رکھتی ہے تو اس سے لبرلزم کے ایوان کیوں لرزنے لگتے ہیں؟ کوئی باشعور مسلمان اس بات کو تسلیم نہیں کرے گا کہ بے گناہوں کی جان لینے والےایک خودکش حملہ آور کا ‘ایمان اعلی، اخلاق اعلی، اس کی عبادت اعلی۔ اس کی دنیا داری اعلی۔ یہ دنیا اس کی، اگلا جہان بھی اس کا’ ہے بلکہ وہ ببانگ دہل یہ کہے گا کہ ایک مسلمان ایسا فعل کر ہی نہیں سکتا کیونکہ یہ اسلامی تہذیب کے سراسر خلاف ہے۔ تہذیبی نرگسیت کا الزام لگانے والوں کو ایک مسلمان یہ ضرور یاد دلاے گا کہ اسلامی تہذیب کے اصول و مبادی ہمیں سکھاتے ہیں کہ ایک انسان کا قتل تمام انسانیت کا قتل اور ایک انسان کی جان بچانا تمام انسانیت کو بچانے کے مترادف ہے۔
اربعا – مصنف کے وضع کردہ اصول کی بنا پر کہ کسی تہذیب نے ساینسی و تخلیقی میدان میں سودو سو سال سے اگر کوئی سرگرمی نہ دکھائی ہو اسے ‘ترقی یافتہ’ تہذیب کا دین‌(طریقہ) اختیار کر لینا چاہئے، افریقہ کی تمام اقوام کو عرصہ دراز پہلے اپنے سفید فام حکمرانوں کی تہذیب و تمدن کا اپنا لینا لازم ٹھرا۔اپنی تہذیب اور شناخت پر فخر کرنا نرگسیت ٹہرا تودنیا کی ہر قوم اس ‘گروپ نارسسزم’ کا شکار قرار پائے گی۔ یہ مصنف کی خام خیالی ہے کہ یہ فطری رجحان ‘مردہ اقوام’ میں پایا جاتا ہے۔ اقوام عالم کی تاریخ اس فخروناز سے عبارت ہے۔
خامسا- یہ تمام کتاب ‘اینکڈوٹل ایوڈنسز’ یا واقعاتی شہادتوں سے بھرپور ہے جن کی کوئی علمی وتجرباتی اہمیت ہنیں۔ مثلا کسی مدرسے میں پڑھانے والے فرد کی کسی طالبعلم سےدست درازی کو ‘بلینکٹ اسٹیٹمنٹ’ بنا کر تمام علما، اساتذہ اور دینی مدارس کو رگیدنا ایک عام مثال ہے۔ مصنف کے مطابق چونکہ کچھ مفاد پرست لوگ غریب ملازمین کا استحصال کرتے ہیں اور اسوقت انہیں خدا یاد نہیں آتا، یہ تو یقینا اسلام و مسلمانوں کی مجموعی خامی ہے۔ اگر عرب ممالک اپنے مسلمان بھائیوں کو رہایش یا شہریت کا حق نہیں دیتے تو یہ مسلم اخوت کے نظریے کی خامی ہے (یہ نکتہ ہاورڈ ہاجز نے بھی بعینہ اٹھایا ہے) – اس طرح کی غیر حقیقت پسندانہ سوچ بڑی محرومی ہے اور کوئی باشعور مسلمان ان باتوں پراسلامی تہذیب کو مورد الزام نہیں ٹہرا سکتا۔
ستتہ- آحادیث مبارکہ کی روشنی میں یہ بات واضع ہے کہ مسلمان ایک جسد کی طرح ہیں‌ جس کا ایک عضو تکلیف میں ہو تو دوسرا اس درد کو محسوس کرتا ہے۔ یہ امت مسلمہ کا خاصہ ہے کہ چین و عرب سے لیکر افریقہ اور جزائر پولینیشیا تک کے مسلمان ایک امت واحد کی لڑی میں پروے ہوے ہیں۔ جس نرگسیت کی طرف مبارک حیدر صاحب کا اشارہ ہے اور جو فکر ان کی سیکیولر ذہنیت میں کھٹکتی ہے وہ ملت بیضا کی اجتماعیت کا تصور ہے۔ انکی مرعوبانہ سوچ اس بات کا ادراک نہیں رکھتی کہ مسلمانوں کا عروج و زوال مادی ترقی سے نہیں بلکہ اسلام کے اصولوں پر عمل کرنے سے وابستہ ہے۔ اپنا قبلہ لندن و واشنگٹن کو بنانے اور حرم سے رشتہ کاٹنے کے بجاے ہمیں حکم ہے کہ ‘ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے، اس لیے بھیجا ہے کہ کہ حکم الہیٰ کے مطابق اس کی اطاعت کی جائے’  النسا۔ لیکن حیدر صاحب تو حج و عمرہ کو ‘ایک منافع بخش کاروبار’ اور نماز کو ‘میکانیکی حرکات’ سے کچھ زیادہ گرداننے سے سخت گریزاں ہیں۔
سبعہ۔ یہ فتنہ نرگسیت اور اس کے حوارین غلبہ اسلام کی اہمیت اور اقامت دین کی فرضیت پر اعتراض کرتے ہوئے اسے ایک من گھڑت بات قرار دیتے ہیں ۔ اس زمن میں مصنف نے ‘غلبہ اسلام کےمفروضے’ کے تحت ایک مستقل باب باندھا ہے؛ قران و حدیث کا بنیادی علم رکھنے والا ہر فرد یہ بات جانتا ہے کہ یہ بات نصوص قطعیہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے متواتر فعل سے ثابت ہے کہ اللہ کے نظام کے نفاذ کے لئے دامے درمے سخنے جدوجہد کرنا مسلمان پر لازم ہے۔
وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلّهِ فَإِنِ انتَهَوْاْ فَإِنَّ اللّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
اور (اے اہلِ حق!) تم ان (کفر و طاغوت کے سرغنوں) کے ساتھ جنگ کرتے رہو، یہاں تک کہ کوئی فتنہ (باقی) نہ رہ جائے اور سب دین (یعنی نظامِ بندگی و زندگی) اللہ ہی کا ہو جائے، پھر اگر وہ باز آجائیں تو بیشک اللہ اس (عمل) کو جو وہ انجام دے رہے ہیں، خوب دیکھ رہا ہے 08:39
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
عن ابن عمر رضي الله عنهما ، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال أمرت أن أقاتل الناس ، حتى يشهدوا أن لا إله إلا الله ، وأن محمدا رسول الله ، ويقيموا الصلاة ، ويؤتوا الزكاة ، فإذا فعلوا ذلك عصموا مني دماءهم وأموالهم إلا بحق الإسلام ، وحسابهم على الله تعالى )  رواه البخاري و مسلم .
مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں نے لوگوں سے لڑتا رہوں یہاں تک کہ وہ اس بات کی شہادت دیں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول اللہ ہیں اورنماز قائم کریں اور زکوة ادا کریں جب وہ یہ کام کریں تو انہوں نے مجھ سے اپنے خون اور مال محفوظ کر لئے مگر اسلام کے حق کے ساتھ ان کا حساب اللہ کے ذمے ہے ۔ (بخاری و مسلم )
مصنف خود عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ کی شرائط ثلاثہ (اسلام، جزیہ یا جنگ) کو نقل کرتے ہیں لیکن مغربی سوچ سے مرعوبیت کا یہ عالم ہے کہ وہ اسکو اسلامی سلطنت کے پھیلاو کا انسانی نا کہ الہامی رجہان قرار دینے میں دیر نہیں لگاتے جو کہ سراسر ایک بے بنیاد الزام ہے۔ مصنف کو قران کا یہ واضع حکم شائد نظر نہیں آتا کہ
قَاتِلُواْ الَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَلاَ بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلاَ يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَلاَ يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَابَ حَتَّى يُعْطُواْ الْجِزْيَةَ عَن يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ
(اے مسلمانو!) تم اہلِ کتاب میں سے ان لوگوں کے ساتھ (بھی) جنگ کرو جو نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں نہ یومِ آخرت پر اور نہ ان چیزوں کو حرام جانتے ہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حرام قرار دیا ہے اور نہ ہی دینِ حق (یعنی اسلام) اختیار کرتے ہیں، یہاں تک کہ وہ (حکمِ اسلام کے سامنے) تابع و مغلوب ہو کر اپنے ہاتھ سے خراج ادا کریں۔ 9:29
ثمانیہ – جہاد فی سبیل اللہ کی مختلف اقسام میں دفاعی جنگ، قصاص، مظلوموں کی مدد، معاہدہ توڑنے کی سزا کے لئے لڑنا شامل ہیں لیکن ہر بار اس بات کی تاکید کر دی گئی ہے کہ مسلمان حدود اللہ کو پایمال نا کریں۔
وَقَاتِلُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلاَ تَعْتَدُواْ إِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ
اور ﷲ کی راہ میں ان سے جنگ کرو جو تم سے جنگ کرتے ہیں (ہاں) مگر حد سے نہ بڑھو، بیشک ﷲ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں فرماتا 2:190
ان واضع قرانی احکامات و آحادیث کے ہوتے ہوئے غلبہ اسلام کے لئے جدوجہد کی فرضیت کو ایک من گھڑت بات وہی کہ سکتا ہے جس کے دل میں نا خوف خدا ہو اور نا عقلی و نقلی دلائل کا کوئی لحاظ۔۔
تسعتہ- تہذیبی نرگسیت سے اگر آپ کی مراد ‘وے آف لایف’ کو بحال رکھنے کی جدوجہد ہے تو یہ تو رحمانی اور شیطانی تہذیبوں کی جنگ ہے جو کہ روز ازل سے جاری ہے اور یوم الدین تک جاری رہے گی۔ ہر تہذیب اپنے وے آف لایف کو برقرار رکھنا چاھتی ہے۔ سابق امریکی صدر بش کا یہ کہنا تھا کہ ‘یہ لوگ ہمارے طریق زندگی، آزادی اور جمہوریت سے نفرت کرتے ہیں’ ، ہر قوم کی طرح امریکی قوم کو بھی اپنے طریق زندگی اور تہذیب سے محبت کرنے اور اس کی بقا کے لئے جان لڑا دینے کا پورا حق ہے۔ مبارک حیدر صاحب کو چاہیے تھا کہ وہ کہتے کہ یہ نرگسیت آپ کو نقصان پہنچا رہی ہے، اسے تبدیل کرنے میں عافیت ہے، لیکن انہوں نے یہ طے کر رکھا ہے کہ سمجھوتا ہمیں نے کرنا ہے۔ لارا انگرم تو لباس کی قید سے آزادی کو اپنا وے آف لایف سمجھ کر اسکا دفاع کرے لیکن اگر ہم پردے کے بارے میں کچھ کہیں تو وہ نرگسیت کہلاے۔ فرانس آزادی رائے کا نام نہاد علمبردار حجاب پر پابندی لگانے میں حق بجانب ٹھرے لیکن اگر ہمارے لوگ شرعی سزاوں کے نفاذ پر زبان کھولیں تو اسے انتہا پسندی اور بربریت کا نام دیا جاے۔ جو نام نہاد نرگسیت ہمارے لئے ذہر قاتل ہے، یوروپ کے لئے اکثیر۔ سبحان اللہ۔
اربعہ۔ مذہب بیزار لوگ جو دین و دنیا کو علیحدہ علیحدہ کرنے کے لئے عرصہ دراز سے سرگرم ہیں‌، ان کی یہ نئی تحریکِ نرگسیت اس بات کے لئے صرف ایک بہانہ ہے کہ مسلمانوں کے مسائل کا منبع ان کی دینی حمیت اور وابستگی کو قرار دیا جائے۔ بے شک امت مسلمہ میں بگاڑ موجود ہے اور من الحیث القوم ہم بے شماربیماریوں کا شکار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تعداد کی اکثریت کے باوجود سمندر کے جھاگ کی مانند ہماری کوئی اہمیت نہیں۔ لیکن اپنے دین سے محبت اور اسلامی تہذیب سے لگاو ان مسائل کی جڑ نہیں بلکہ اس سے نکلنے کا آخری ذریعہ ہے۔ بے شک مسلمانوں کو اپنے مسائل قران و سنت کی روشنی میں حل کرنے اور اپنی ترجیحات متعین کرنےکی ضرورت ہے۔ اسلامی ممالک میں ظالم نا اہل حکمرانوں سے نجات، کرپشن کا خاتمہ،جہالت سے جنگ اور تعلیم کا فروغ،  عصری علوم و فنون، فلسفہ، آرٹ و دیگر علوم کی ترویج اسلامی تہذیب کا حصہ ہیں، اس سے متصادم نہیں۔
یہ (منکرینِ حق) چاہتے ہیں کہ وہ اللہ کے نور کو اپنے منہ (کی پھونکوں) سے بجھا دیں، جبکہ اللہ اپنے نور کو پورا فرمانے والا ہے اگرچہ کافر کتنا ہی ناپسند کریں 61 – الصَّفّ
اللہ سبحان تعالی ہمیں دور جدید کے ان فتنوں سے بچائے۔ آمین،
حوالہ جات۔
سیلفشنسی اور سیلف لو – ایرک فرامم
Share

June 23, 2010

اداروں کا استحکام – کامیابی کی کلید

Filed under: پاکستان,خبریں,سیاست,عمومیات,مشاہدات — ابو عزام @ 10:55 pm
اخبارات میں خبر گرم ہے کہ صدر اوبامہ نے جنرل میک کرسٹل کو برطرف کردیا۔ جنرل صاحب نے کمانڈر انچیف (صدر مملکت) سے اپنے غیر ذمہ دارانہ طرز عمل پرمعذرت کی اور    امریکی حکومت کے اعلی اہلکاروں اور افغانستان میں امریکی سفیر کو تنقید کا نشانہ بنانے پر افسوس کا اظہار کیا۔
اس فور اسٹار جرنیل کے برطرف کئے جانے پرنا تو  بقول پیر پگارو ‘بوٹوں کی چاپ’ سنائی دی گئی، حیرت انگیز طور پر برگیڈ 1 نے وائٹ ہاوس کا محاصرہ نہ کیا اور نا ہی کوئی کور کمانڈر ڈسٹرکٹ آف کولمبیا ان کی ملاقات کے لئےلمحہ بہ لمحہ رابطے میں رہا۔ اس سے پہلے جب  صدر فورڈ نے جنرل ڈگلس مک آرتھر کودوران جنگ ایک غیر ذمہ دارانہ خط لکھنے کے الزام میں 10 اپریل 1951 کو برطرف کیا تو جنرل اپنی کئریر کی بلندیوں پر تھے اور انکے ساتھ تمام عوامی ہمدردیاں بھی شامل تھیں، اس قدر کہ انہیں اگلی مرتبہ ریپبلیکن پارٹی کی طرف سے صدارتی انتخاب کی بھی پیشکش کی گئی تھی اور انکی تقریر پر اسوقت کی کانگریس کے اراکین نے انہیں 50 مرتبہ ‘اسٹینڈینگ اویشن’ اٹھ کر داد دی۔ لیکن عجیب معاملہ ہے کہ نکالے جانے پر دارورسن سجے اور نا خلق خدانےعزیز ہموطنوں کی آواز سنی اور نا ہی جنرل نے قصر صدارت کا قصد کیا۔ سوئلین صدر کا حکم سنا اور چپکے سے گھر کی راہ لی.ڈیڑھ سو سال پہلےمارچ  1862 میں لنکن نے بھی جنرل مککیلن کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا تھا اور وہ بھی خاموشی سے گھر سدھار گئے تھے  کہ یہی جمہوری طریقہ ہے اور زندہ قومیں اپنے ہی گھر ڈاکے نہیں ڈالا کرتیں۔ فراز کیا خوب کہ گئےہیں کہ
مرا قلم نہیں اوزار اس نقب زن کا
جو اپنے گھر کی ہی چھت میں شگاف ڈالتا ہے
مرا قلم نہیں اس دزدِ نیم شب کا رفیق
جو بے چراغ گھروں پر کمند اچھالتا ہے
دور کیوں جائیں، پچھلے سال جب پڑوسی ملک میں لیفٹننٹ جنرل آویدیش پرکاش کولینڈ مافیا کے سلسلے میں سزا ہوئی تو کسی کا پندار آڑے نا آیا۔ آپ نے جنرل وجے کمار اورجنرل دیپک کپور کا نام سنا ہو یا نہیں، جارج فرنانڈس، پرناب مکھرجی اور اے کے انتھونی آپ کو ضرور یاد ہونگے کہ آخر الذکر افراد سویلین وزارت دفاع کے لیڈران ہیں جن کی سامنے سپہ سالار کو حد ادب یاد رکھنا پڑتی ہے ۔ اگر اپنی سنہری تاریخ پر نظر ڈالیں کہ جب خلیفہ دوئم رضی اللہ تعالی عنہ کا فرمان آیا تو معزول کمانڈر خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ  جیسا جری مجاہد بلا چون و چرا سر جھکاے واپسی کا سفر اختیار کرنے لگا اور جب وقت کے حکمران سلیمان بن عبدالمالک نےفاتح سندھ سپہ سالار ابن قاسم کو معزول کر کے شام طلب کیا تو وہ اتباع نظم اور رضا کی تصویر بن کر مقتل کی طرف روانہ ہوئے جب کہ فرزندادن سندھ کی تلواریں اس عظیم جرنیل کی حفاظت کے لئے بے قرار تھیں۔ اطاعت امیر و اولی الا مر، اداروں کی مضبوطی اور قانون کی حکمرانی کسی بھی زندہ معاشرے کے کلیدی اوصاف ہیں جو کہ آج ہمارے معاشرے سے معدوم ہوچکے ہیں۔

  

معاشرے میں رائج نظام کی طاقت اس کےاداروں کی مضبوطی میں پوشیدہ ہوتی ہے۔ چہے وہ فوج ہو، مقننہ ہو، عدلیہ ہو یا سول سروسز۔  ادارے جتنے زیادہ فعال ہونگےاور اپنے دائرہ کار میں اپنی ذمہ داریاں بخوبی نبھائں گے،وہ اتنا ہی طاقتورنظام بنا سکیں گے۔ اگر تعلیمی بورڈ جعلی ڈگریوں پر کسی دباو کو قبول نہ کرے، اگر الیکشن کمیشن صاف اور غیرجانبدارانہ انتخابات کروائے، اگر محکمہ تعلیم گھوسٹ اسکولوں کا خاتمہ اپنا مشن بنائے ، پولیس امن و آمان کو بلا دباو اپنی پہلی ترجیح خیال دے اور ہر ادارہ اپنی عملداری میں کام کرے تو کامیابی کی منزل زیادہ دور نہیں۔ لیکن کس کو الزام دیں کہ جب اپنے ہی لوگ ایک راہزن سپہ سالار کو بہترین حکمران قرار دینے پر تلے ہوں اور انکی واپسی شب و روزانتظار کر رہے ہوں۔ اسی زمن میں فراز کی سقوط ڈھاکہ کی نظم یاد آگئ، بر محل ہے سو چلو لکھتے چلیں۔

  

میں نے اب تک تمھارے قصیدے لکھے
اورآج اپنے نغموں سے شرمندہ ہوں
اپنے شعروں کی حرمت سے ہوں منفعل
اپنے فن کے تقاضوں سے شرمندہ ہوں
اپنےدل گیر پیاروں سےشرمندہ ہوں
جب کبھی مری دل ذرہ خاک پر
سایہ غیر یا دست دشمن پڑا
جب بھی قاتل مقابل صف آرا ہوئے
سرحدوں پر میری جب کبھی رن پڑا
میراخون جگر تھا کہ حرف ہنر
نذر میں نے کیا مجھ سے جو بن پڑا
آنسوؤں سے تمھیں الوداعیں کہیں
رزم گاہوں نے جب بھی پکارا تمھیں
تم ظفر مند تو خیر کیا لوٹتے
ہار نے بھی نہ جی سے اتارا تمھیں
تم نے جاں کے عوض آبرو بیچ دی
ہم نے پھر بھی کیا ہےگوارا تمھیں
سینہ چاکان مشرق بھی اپنے ہی تھے
جن کا خوں منہ پہ ملنے کو تم آئے تھے
مامتاؤں کی تقدیس کو لوٹنے
یا بغاوت کچلنے کو تم آئے تھے
ان کی تقدیر تم کیا بدلتے مگر
ان کی نسلیں بدلنے کو تم آئے تھے
اس کا انجام جو کچھ ہوا سو ہوا
شب گئی خواب تم سے پریشاں گئے
کس جلال و رعونت سے وارد ہوئے
کس خجالت سے تم سوئے زنداں گئے
تیغ در دست و کف در وہاں آئے تھے
طوق در گردن و پابجولاں گئے
جیسے برطانوی راج میں گورکھے
وحشتوں کے چلن عام ان کے بھی تھے
جیسے سفاک گورے تھے ویت نام میں
حق پرستوں پہ الزام ان کے بھی تھے
تم بھی آج ان سے کچھ مختلف تو نہیں
رائفلیں وردیاں نام ان کے بھی تھے
پھر بھی میں نے تمھیں بے خطا ہی کہا
خلقت شہر کی دل دہی کےلیئے
گو میرے شعر زخموں کے مرہم نہ تھے
پھر بھی ایک سعی چارہ گری کیلئے
اپنے بے آس لوگوں کے جی کیلئے
یاد ہوں گے تمھیں پھر وہ ایام بھی
تم اسیری سے جب لوٹ کر آئے تھے
ہم دریدہ جگر راستوں میں کھڑے
اپنے دل اپنی آنکھوں میں بھر لائے تھے
اپنی تحقیر کی تلخیاں بھول کر
تم پہ توقیر کے پھول برسائے تھے
جنکے جبڑوں کو اپنوں کا خوں لگ گیا
ظلم کی سب حدیں پاٹنے آگئے
مرگ بنگال کے بعد بولان میں
شہریوں کے گلے کاٹنے آگئے
ٓاج سرحد سے پنجاب و مہران تک
تم نے مقتل سجائے ہیں کیوں غازیو
اتنی غارتگری کس کی ایما پہ ہے
کس کے آگے ہو تم سر نگوں غازیو
کس شہنشاہ عالی کا فرمان ہے
کس کی خاطر ہے یہ کشت و خوں غازیو
کیا خبر تھی کہ اے شپرک زادگاں
تم ملامت بنو گے شب تار کی
کل بھی غا صب کے تم تخت پردار تھے
آج بھی پاسداری ہے دربار کی
ایک آمر کی دستار کے واسطے
سب کی شہ رگ پہ ہے نوک تلوار کی
تم نے دیکھے ہیں جمہور کے قافلے
ان کے ہاتھوں میں پرچم بغاوت کے ہیں
پپڑیوں پر جمی پپڑیاں خون کی
کہ رہی ہیں یہ منظر قیامت کے ہیں
کل تمھارے لیئے پیار سینوں میں تھا
اب جو شعلے اٹھے ہیں وہ نفرت کے ہیں
آج شاعر پہ بھی قرض مٹی کا ہے
اب قلم میں لہو ہے سیاہی نہیں
خون اترا تمھاراتو ثابت ہوا
پیشہ ور قاتلوں تم سپاہی نہیں
اب سبھی بے ضمیروں کے سر چاہیئے
اب فقط مسئلہ تاج شاہی نہیں
Share
« Newer PostsOlder Posts »

Powered by WordPress