این پی آر، پبلک ریڈیو اور بیرونی میڈیا کے سامعین کے لئے اسٹیو انسکی کا نام نیا نہیں۔ مارننگ شو جو امریکہ میں سب سے زیادہ سننے والا خبروں کا پروگرام ہے، اسکے کو ہوسٹ ہونے کے ساتھ ساتھ اسٹیو این پی آر کے مستقل معاون بھی ہیں۔ اسٹیو کی صحافتی زمہ داریوں میںافغانستان کی جنگ کی کوریج کے علاوہ پاکستان اور عراق کے اہم واقعات کی خبروں کو پیش کرنا شامل ہے۔ انہیں ‘افریقی تیل کی قیمت’ کے نام سے نایجیریا میں ہونے والے فسادات کے بارے میں ایک سیریز کرنے پر رابرٹ ایف کینیڈی ایوارڈ بھی دیا جاچکا ہے۔
انسٹنٹ سٹی یا فوری شہر نامی یہ تقریبا تین سو صفحات کی کتاب پینگوئن پبلشرز نے شائع کی ہے۔ کراچی کے بارے میں اسٹیو انسکی کی یہ تصنیف کسی لاعلم فرد کا ڈرائنگ روم سے لکھا گیا مکالمہ نہیں۔ مثل مشہور ہے کہ اکثر بہت قریب ہونے کی وجہ سے ہم وہ چیزیں نہیں دیکھ پاتےجس کو بیرونی رائے سے اجاگر کیا جا سکتا ہے۔تقریبا تیس صفحات پر ذرائع اور نوٹس کی شکل میں کتاب کے تمام مواد کے بارے میں تحقیقی معلومات اکھٹی کر دی گئی ہیں جن سے کتاب کی صداقت کو جانچا جا سکتا ہے۔ اس کتاب میں انسکی نے ایک تحقیقاتی صحافی کی طرح اپنے قلم کو زمینی حقائق سے قریب رکھتے ہوئے حالات و واقعات کے تانے بانے کچھ اس طرح سے بنے ہیں کہ یہ ایک بیزار کردینے والے مقالے کے بجائے ایک دلچسپ پیج ٹرنر وجود میں آگئی ہے۔
انسکی نے اس کتاب کو چار حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ جناح روڈ، مقامات، نیو کراچی اور تجدید کراچی جو کتاب کے مضمون و ترکیب کو بہت اچھے طریقے سے بیان کرتے ہیں۔ انسٹنٹ سٹی کل پندرہ ابواب پر مشتمل ہے جو پاکستان بننے سےلے کر آج کے کراچی تک کے مختلف ادوار کا احاطہ کرتے ہیں۔ اس کتاب کو اینکڈوٹس کا ایک خوبصورت مجموعہ کہا جائے تو کچھ غلط نا ہوگا۔ تاریخ کے بیان کے باوجود یہ تاریخ کی کتاب نہیں، معاشی ناہمواریوں، فسادات و خونریزیوں کی داستانوں کے باوجود یہ سماجی تفسیر ہونے کا دعوی نہیں کرتی۔ اس کتاب میں ایدھی بھی ہیں اور ایوب خان بھی، شیعہ زائر محمد رضا زیدی بھی ہیں اور اردشیر کاوس جی بھی، سوات کا افریدی بھی اور مصطفی کمال بھی، جلتی ہوئی بولٹن مارکٹ بھی اور ستر کلفٹن بھی، لینڈ مافیا کے قصے بھی ۔ غرضیکہ کہ گٹر باغیچہ سے ڈریم ورلڈ کے درمیان بستے کراچی کی طرح یہ کتاب بھی بڑی مختلف النوع اور کوسموپولیٹن ہے۔
اس کتاب کا مرکزی خیال کراچی کے مسائل پر تحقیق اور اس کی دیرینہ وجوہات کی تلاش ہے۔ انسکی نےان مسائل کی بنیادی وجوہات کو مختلف نظریات سے جوڑنے کی کوشش کی ہے اور پڑھنے سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے وہ ہر مسئلے کو تہ دل سے بنیادی مسئلہ سمجھتے رہے ہیں۔ انہیں بانی پاکستان سے شکایت ہے کہ انہوں نے دو قومی نظریے پر بننے والے ملک میں اقلیتوں کےلئے حقوق کا ایک واضع فریم ورک نہیں دیا جس کی وجہ سے کراچی جس میں آزادی کے وقت اقلیتوں کے تعداد اکیاون فیصد سے زیادہ تھی، آج ان کی املاک اور آبادی ایک مارجنالائز طبقہ بن کر رہ گئی ہے۔ انہیں ایوب خان سے شکایت ہے، کراچی کی بلا منصوبہ بندی بڑھنے سے شکایت ہے اور سب سے بڑھ کر عوام سے شکایت ہے کہ وہ وسیع ترین عوامی مفاد پر انفرادی مفادات کو کیوں ترجیح دیتے ہیں۔ لیکن کراچی کے لوگوں میں ریزییلینس یا لچک و استحکام کو موضوع بحث رکھتے ہوئے اسٹیو ان مسائل و شکائتوں کو اس طرح الفاظ کے جامے میں ڈھالتے ہیں کہ سرنگ کے دوسرے سرے پر روشنی صاف دکھائی دیتی ہے۔
اس کتاب کے کلف نوٹس یا خلاصہ نہایت مشکل امر ہے، آپ مصنف کی باتوں سے اختلاف کریں یا اتفاق، اسکی تحقیقی جانفشانی کی داد ضرور دیں گے۔ میں نے یہ کتاب لبرٹی پر دیکھی تھی، اگر موقع ملے تو ضرور پڑھئے اور اپنی رائے سے آگاہ کریں۔