فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

February 10, 2014

برادرم جعفر کی کتاب حال دل کا تعارف

Filed under: ادبیات,کتابیات — ابو عزام @ 9:28 pm

ادب معاشرے کی امنگوں و احساسات کا عکاس ہوتا ہے، ڈائجسٹی ادب کو ادب عالیہ کے سنگھاسن پر براجماں پروہتوں نے کبھئ درخور اعتنا نا جانا لیکن اس میں کوئ کلام نہیں کہ اسی عام فہم ادب اپنے لاکھوں قارئین کو اردو زبان، بین القوامی ترجموں، افسانوں، جرم سزا اور زندگی سے قریب تر کہانیوں سے روشناس کرایا۔ ابن صفی کو یہ غم کھا گیا کہ انکے تخلیق کردہ اعلی پاے کے سری ادب کو معاصرین نے آرتھر کینن ڈائل اور آگاتھا کرسٹی کا ہم پلہ تو کیا جاننا تھا،ابن خصی کی تصانیف کا مقرب بھی نا گردانا، یہ سرقہ جات پر انکے اپنے الفاظ ہیں، میری اتنی جرات کہاں۔ جس طرح ‘جو دل پر گذرتی ہے رقم کرتے رہیں گے’ کا جذبہ منٹو و عصمت کا حرف و اہنگ ٹھرا تھا، استاد جعفر کی “حال دل” بلاگیات میں بھی وہی نداعام نظر آتی ہے۔ اگر آپ بلاگ کی صنف میں طنز و مزاح کا صحیح استعمال دیکھنا  چاہتے ہوں تو جعفر حسین کی تصنیفات سے استفاذہ کئے بغیر کوئ چارہ نہیں۔ جعفر کے استعارے میں جو تنوع ، حقیقت پسندی اور عام محاورے کی کاٹ ہے، اسکی مثال اردو بلاگستان میں خصوصا اور عصری ادب میں عموما شازونادر ہی دکھائ دیتی ہے۔ جعفر کا زخیرہ الفاظ اردو زبان کی طرح لامحدود ہے،اس میں آپکو پنجابی اسٹیج ڈرامے سے لے کر رومی و جامی و شیکسیئر تک سب ہی  دکھائ دینگے۔ خالده- کوئی نئیں تیرے نال دا کا ‘مقطع’ ایگزیبٹ اے کے طور پر ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔

غلط العوام خیال یہی ہے کہ اگر مصنف یا اسکی زبان عام فہم ہو تو وہ تحریر یقینا ‘عامیانہ’ ہوگی؛مجھے یہ کہنے میں کوئ عار نہیں کہ یہ مثال جعفر کی تحریروں پر بلکل صادق آتی ہے کہ وہ عام انداز سے لکھتا ہے، گنجلک فقروں سے یا بے محابہ ترکیبوں سے اپنی تحاریر کو آلودہ نہیں کرتا لیکن اس کے باوجود اس کے مزاح کی کاٹ، الفاظ کی گرفت اور ندرت خیال میں اس عام فہم انداز بیاں سے چنداں کوئ فرق نہیں پڑتا۔ جعفر جس طرح لکھتا ہے وہ ہم سب کے لئے باعث رشک و حسد ہے کیونکہ ہم سب اسی طرح لکھنا چاہتے ہیں لیکن ہمیں یہ خوف کھائے جاتا ہے کہ کہیں کوئ اسے سوقیانہ ادب نہ کہ دے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم الفاظ کے کھوکھلے قصر تعمیر کرتے ہیں اور اپنی سوچوں کو ان محلات کے زندانوں میں زندہ دفن کر دیتے ہیں۔ جعفر اپنے تخیل پر پہرے نہیں بٹھاتا، بلا جھجک جو سوچتا ہے وہ لکھتا ہے اور بہت خوب لکھتا ہے، اس کی سنسر شپ صرف سیلف سینسر شپ ہے یا شائد وہ بھی نہیں۔ چاہے وہ پسران بوم ہو یا ‘پریشاں ہیں پنڈ کی جھلیاں’ جیسے خاکے، انتقام ہو یا زہریہ ٹاون جیسی سنجیدہ تحاریر، یا پھر گنجے دت کی طرح ماضی کے دریچوں کی سیر کرائ جارہی ہو، استاد جعفر ‘بزبان خود شیعہ نہیں’ حسین، کا جداگانہ انداز تحریر قاری کو ہمیشہ ہل من مزید کی صدا بلند کرنے پر مجبور کئے رکھتا ہے۔

بس اس بات پرتعارف تمام کرتا ہوں کہ اگر پطرس بلاگ لکھتے تو جعفر جیسا لکھتے۔

کتاب پڑھنے کے لئے اس ربط پر کلک کریں ۔

Share

December 18, 2013

الگارتھم بمقابلہ لاگرتھم

Filed under: تحقیق,سائینس و ٹیکنالوجی,کتابیات — ابو عزام @ 8:38 pm

آج  شام کرسٹوفر اسٹائن کی تصنیف “آٹومیٹ دس” پڑھتے ہوئے صفحہ ۱۰۲ پرلفظ  الگارتھم کی تاریخ پر مبنی ایک پیراگراف نظر آیا۔ اکثر و بیشتر لوگوں کو الگوردم اور لاگرتھم کے الفاظ میں اشتباہ ہوتا ہے ، یہ دونوں بلکل مختلف اصطلاحات ہیں اور دونوں  الخوارزمی سے منسلک نہیں۔  الگارتھم کسی مسئلے کوحل کرنے کے لیۓ ، اصول و ضوابط کی (عموما مرحلہ بہ مرحلہ) ترتیب شدہ شکل کو کہا جاتا ہے جبکہ لاگرتھم شارع کا منعکس عمل ہے جس  کی مدد سے بڑی قدروں کو چھوٹی قدروں میں تبدیل کر کر بڑے اعداد کے حساب کتاب کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

automate_this

صفحہ نمبر ۱۰۲ پر آٹومیٹ دس کے مصنف الگارتھم کے بارے میں شابرت کے حوالے سے لکھتے ہیں

“The word algorithm comes from Abu Abdullah Muhammad ibn Musa Al-Khwarizmi, a Persian mathematician from the ninth century who produced the first known book of algebra, Al-Kitab al-Mukhtasar fi Hisab al-Jabr wa l-Muqabala (The Compendious Book on Calculation by Completion and Balancing). Algebra’s name comes straight from the al-Jabr in the book’s title. As scholars disseminated Al-Khwarizmi’s work in Latin during the Middle Ages, the translation of his name—“algorism”—came to describe any method of systematic or automatic calculation”

لفظ الگارتھم، انیسیوں صدی میں فارس کے ایک ریاضی دان  ابو عبداللہ محمد ابن موسی الخوارزمی سے منسوب ہے جو  الجبرا کے موضوع پر پہلی معلوم کتاب کے مصنف ہیں۔ ۔اس کتاب کا نام كتاب المختصر في حساب الجبر والمقابلة  تھا۔ ریاضی کی صنف الجبرا اسی کتاب کے نام سے ماخوذ ہے۔ جب علما نے الخوارزمی کے کام کو لاطینی زبان میں ڈھالنا شروع کیا تو الخوارزمی کے نام کا لاطینی تلفط، الگورزم، اصول و ضوابط کی (عموما مرحلہ بہ مرحلہ) ترتیب شدہ شکل میں حساب کتاب کا متبادل قرار پایا۔

حوالہ جات

الخوارزم

آٹومیٹ دس از کرسٹوفر اسٹائنر

Share

November 15, 2013

ژینت از قیصر تمکین

Filed under: ادبیات,کتابیات — ابو عزام @ 4:13 pm

ژینت
قیصر تمکین

اردو کے ممتاز افسانہ نگار قیصر تمکین کی جانب سے دریاۓ گومتی سے ٹیمز تک ایک کہانی ایک عورت کی داستان، وہ ایک مصور تھی اور خود ایک تصویر.

نمائش کا وقت ساتھہ بجے تھا مگر وہ چھ بجے سے پہلے ہی تیار ہو گیا اور بہت پر تکلف انداز میں پہلی منزل پر آیا. استقبالیہ ہال طے کرتا ہوا وہ لاؤنج میں داخل ہوا. میزوں پرعمومی شمعیں جھل ملا رہی تھیں. پس منظر میں دھیمے دھیمے سروں میں ارغون بج رہا تھا اور اکا دکا جوڑے سرگوشیوں میں مصروف تھے.
وہ بار کے قریب پہنچا تو برابر کے اسٹول پر بیٹھی ہی لڑکی کو دیکھہ کر چونکا. اس کی آنکھیں بہت بڑی بڑی اور بہت کالی تھیں. اس کے بال بھی بہت سیاہ اور لمبے تھے. اس نے سیدھی مانگ نکال رکھی تھی مگر اس کا چہرہ میک اپ سے بلکل خالی تھا دودھ کی طرح اجلا ہوا اور صاف. اس کی حرکات و سکنات میں ایسی تمکنت تھی جیسے وہ کہیں مہارانی ہو. عدّو نے اسے کئی بار نظربچا کر دیکھا پھر بولا. “معاف فرمایئے گا’ میرا خیال ہے’ میں نے آپ کو پہلے کبھی نہیں دیکھا ہے؟”
وہ بد دماغ اور مغرور سی لڑکی تھی’یہ جملہ سن کرایسی شگفتگی سے مسکرائی کہ عدّو ڈر گیا.” لڑکیوں سے متعارف ہونے کا یہ طریقہ بہت پرانا ہو چکا ہے مسٹر!”
عدّو کچھہ خفیف ہوگیا. اس نے سوچا کہ وہ شاید غلطی پر ہے. چہروں کی مشابہت کبھی کبھی بے حد گم راہ کن ہوتی ہے. وہ اپنا گلاس لے کر وہاں ٹہلنے لگا. اچانک وہ مہارانی قسم کی لڑکی بولی.”اگر آپ گپ شپ کے موڈ میں ہوں تو بیٹھیے. مجھے بھی فی الحال کچھہ فرصت ہے”.
عدّو کی شرمندگی رفع ہو گئی. وہ ایک مشاق مصاحب کی طرح لڑکی کو ایک طرف لے کر چلا. اس کے انداز سے صاف ظاہر تھا کہ اسے اعلا خواتیں کی محفلوں میں کام آنے والے تمام حربے معلوم ہیں.
دونوں چند ثانیوں کے لیے خاموش رہے. نیم تاریک میز پر موم بتی پگھلتی رہی. آخرعدّو نے ابتدا کی. “برسبیل تذکرہ یہ ذکر ضروری ہے کہ خادم کو عدیل کہتے ہیں’ عدیل احمد.”
لڑکی نے بےخیالی میں کہا. “مجھے معلوم ہے.”اس سے پہلے کہ عدّو اس کے جواب پر حیرت کا اظہار کرتا’ دو تین آدمی وہاں آگئے لڑکی فورن کھرے ہو کر ان سے باتیں کرنے لگی.
جب وہ دوبارہ بیٹھی تو عدّو کی پوری توجہ اس کے چہرے کی طرف تھی. لڑکی نے پوچھا.”آپ کیا دیکھہ رہے ہیں؟ کیا شناسائی کی کوئی نئی ترکیب سوچ رہے ہیں؟”
عدّو نے پورے اعتماد کے ساتھہ اردو میں کہا.”ژینت بیٹا! میں سوچ رہا ہوں کہ تم اس آزادی کے ساتھہ شراب کب سے پینے لگیں”.
لڑکی کے ابروؤں پر بل پڑ گئے’ وہ کسی بے تکلف دوست کے بجاۓ پھرایک بددماغ مہارانی نظر آنے لگی. جواب اس نے فرانسیسی ہی میں دیا.” اس سے آپ کا کوئی تعلق نہیں. یہ میرا ذاتی معاملہ ہے.”
اس رکھائی سے القط کے جانے کے بعد عدّو کے پاس گفتگو جاری رکھنے کا کوئی جواز نہیں رہ جاتا تھا. اسی وقت وہاں دو تین لوگ اورآگئے. لڑکی ان سے باتیں کرتے کرتے بے خیالی میں لاؤنج سے باہر چلی گئی.
اگر کوئی اور لڑکی ہوتی توعدّو دوبارہ اس کی طرف دیکھتا بھی نہیں کیونکہ اسے نظر انداز کیا گیا تھا مگر اسے شک نہیں، اب یقین تھا کہ لڑکی ژینت ہی ہے اس لیے عدّو کو اس سے ملنے کا اشتیاق ہو گیا. سالہا سال بعد ہزاروں میل دور ایک بلکل نئی زمین اور نۓ آسمان کے نیچے کسی پرانے جاننے والے کا ملنا ایک تقریب ہوتا ہے. زینت سے اس کی قریبی رشتہ داری تھی.

دوسری بارعدّو نے ژینتینت کو مصوری کی ایک نمائش گاہ میں دیکھا. وہ بہت سے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی تھی. اس کا نام یقینا ژینت تھا کیونکہ جن تصاویر کے آس پاس اس کے دوست جمع تھے’ اس سب پر ژینیت کے دستخط تھے. ژینیت کاکوری ضلع لکھنؤ کی رہنے والی تھی’ اس کا پیرس کی عالمی تصویر گاہ میں ژینیت بن جانا زیادہ تعجب کی بات نہیں تھی. عدّو غور سے دیکھنے لگا. قریب قریب سب تصویریں ڈراؤنے یا عبرت ناک رنگوں کی آمیزش سے بنائی گئی تھیں اور صرف بچوں کے نقوش پر مشتمل تھیں. یہ بچے حبشہ کے تھے’ بیافرا کے تھے’ کلکتے اور برازیل کے تھے. ان سب کے جسم سوکھے سوکھے اور پیٹ پھولے ہوئے تھے. سب کی آنکھوں سے بھوک اور بیماریوں کا عفریت جھانک رہا تھا. گندگی کے ڈھیر میں لتھڑے ہوئے یہ بچے انسانی تہذیب و ترقی کے تمام دعووں کی تردید کر رہے تھے.
آس پاس بائیں بازو کے مردوں اور عورتوں کا جمگھٹ تھا. مصور ژینیت کی سفاک حقیقت انگیزی نے سب کو جھنجھوڑ کے رکھہ دیا تھا. لوگوں کے چہروں پر ایک کرب تھا اور آنکھوں میں ایک عزم. گویا ابھی باہر نکل کر انقلاب برپا کر دینگے اور انقلاب سے ایک ایسی دنیا وجود میں آۓ گی جس میں کوئی بچہ بھوک سے بلکتا ہوا دم نہیں توڑے گا.
عدّو چھٹی پر تھا. پیرس کی یہ سیر محض تفریح کے لیے تھی. ان دنوں ایک بہت بڑا فلمی میلا چل رہا تھا. عدّو کو اپنی نئی کتاب کا معاوضہ ایک بار پھر ملا تھا، اس کتاب کا سستا ایڈیشن چھاپا جا رہا تھا. اس گھاٹے کی آمدنی کے باوجود عدّو نے قیمتی ہوٹل میں ٹھیرنا پسند کیا. زینت کی تصویریں دیکھہ کر اسے ایک عجیب سا افسوس ہوا. اپنی تمام فلسفہ طرازیوں کے باوجود وہ زینت کی طرح حقیقت کا ایسا برہنہ اور بے رحم مشاہدہ کرنے سے قاصر تھا اور اسے زینت کی ترقی و مقبولیت پر بھی رشک ہو رہا تھا. اسے وطن کی وہ واہیات، نامعقول’ میلی کچیلی سی لڑکی یاد آگئی. وہ بیچارے نوابو چچا کی اکلوتی لڑکی تھی. پھٹے پرانے کپڑے پہنے وہ بس باورچی خانے سے طعام خانے تک جاتی دکھائی دیتی تھی یا پھر ایرے غیرے بچوں کو لادے لادے گھوما کرتی. وہی لڑکی عصر حاضر کی چیختی چنگھاڑتی زندگی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال چکی تھی.
نمائش میں زینت نے اسے ٹرخا دیا تھا. عدّو کو بہت غصّہ آرہا تھا. وہ رات گئے تک ہوٹل کے زمین دوز شراب خانے میں بیٹھا رہا. آخر بلکل ہی تھک گیا تو چوتھی منزل پر اپنے کمرے کی طرف چلا. پورے ہوٹل میں ایسی خاموشی تھی کہ وبیز قالین پراس کی چپ ایک طرح کا شور پیدا کر رہی تھی. گیلری کے موڑ پر ایک کمرے کا دروازہ کھلا زینت نے جھانک کر دیکھا. آیۓ عدّو بھائی! میں آپ کا انتظار کر رہی تھی” عدّو کے ذہن میں سوال پیدا ہوا کہ زینت نے یہ کیسے فرض کرلیا کہ اس وقت آنے والا میں ہی ہونگا؟ دوسرے ہی لمحے عدّو بے تکلف زینت کے کمرے میں داخل ہو گیا.
“بیٹھیے. کیا پیجیےگا؟ کافی یا کچھہ اور؟” زینت نے سنگھار میز کے سامنے اپنے لمبے لمبے بال برش سے برابر کرتے ہوئے کہا. وہ صرف ایک لمبا سا فرغل پہنے ہوئے تھی اور بلکل کشمیرن لگ رہی تھی.
عدّو نے آرام کرسی پر بے تکلفی سے نیم دار ہوتے ہوئے کہا. “تو گویا تم مجھے پہچان گئی تھیں.”

“میں نے آپ کو دوپہر ہی پہچان لیا تھا’ جب آپ ہوٹل کے رجسٹر پر دستخط کررہے تھے.” زینت نے کافی کی مشین بند کردی. بھانپ نکل رہی تھی اور کافی کی بھینی بھینی خوشبو پورے کمرے میں پھیل رہی تھی. اس نے کافی کی پیالی عدّو کے سامنے رکھی اور بولی”. معاف کیجیے گا مجھے سونے سے پہلے نہانے کی عادت ہے ابھی آئی”. یہ کہتی ہوئی وہ غسل خانے میں چلی گئی.

صبح کے چار بج رہے تھے. زینت نہانے میں مشغول تھی، غسل خانے سے دھیمے دھیمے سروں میں داہن ولیمس کے نغمہ بحر کی دھن سنائی دے رہی تھی. دروازے پر کچھہ کھٹ پٹ ہوئی. عدّو نے جا کر دیکھا. صبح کا ویٹر اخباروں کا پلندہ پھینک گیا تھا.

تمام اخباروں کے ثفاقتی صفحات پرگزشتہ رات کی تصویری نمائش کا واقعہ شائع ہوا تھا. ژینیت کی حقیقت پسندی پر سبھی نے اپنے اپنے نقطہ نظر سے خامہ فرسائی کی تھی. محض قدامت پرست اخباروں کو اس بہانے تیسری دنیا کے مسائل پر درس دینے کا موقع مل گیا تھا.”لائیگرو” کا ٢٣ واں صفحہ رشک و حسد سے پڑھتے ہوئے عدّو کسی خیال میں کھو گیا اور پھر سو گی غازی میاں کی ترقی کے سلسلے میں دعوت تھی. وہ پی’ سی؛ ایس کے آدمی تھے مگر وزیر اعلا نے ان کی کار کردگی سے خوش ہو کر انہیں آئی’ اے’ ایس بنا دیا تھا. اب وہ ضلع کمایوں کے کمشنر ہو کر الموڑے جا رہے تھے. محل سرا کے بڑے دالان میں تخت کا فرش لگا تھا. ادھر ادھر گاؤ تکیے رکھے تھے، ان سے ٹیک لگاۓ دلارے میاں’ خوشبو بھیا’ جانی میاں اور مصنف خالو قسم کے لوگ حقہ پی رہے تھے. ساتھہ ہی وہ پرتاب گڑھ والے سنگھہ کیرون کے قتل پر تبادلہ خیال میں مصروف تھے. صحن میں چاروں طرف پکوان پھیلا ہوا تھا.. لچکے گوٹے کے بھاری بھاری جوڑوں اور پائنچوں سے لدی پھندی عورتیں پسینہ پونچھتے ہوئے وارقی سموسے اور بلائی کے پان وغیرہ بنا رہی تھی. اس گرمی میں تھوڑا سا اضافہ ہو گیا تھا اس لیے کہ جمبو ویپ کی رانی بٹیا بھی برسوں بعد اپنے بیٹوں اور بہوؤں کے ساتھہ پاکستان سے آئی ہوئی تھیں. ان کی ایک بہو انگریز تھیں’ وہ شلوار قمیص پہنے کرسی پر بیٹھی بس مسکراۓ جا رہی تھی. کہنے والوں کا کہنا تھا کہ ڈارلنگٹن کے کسی کیفے میں ویٹرس تھیں مگر رانی بٹیا کو اصرار تھا کہ یہ کسی بڑے لارڈ کی نورنظر ہیں.

بڑی اماں والے دالان میں بچوں کی چوپال جمی ہی تھی. عدّو بھائی حسب معمول ہیرو بنے چہک رہے تھے. وہ غازی میاں اکلوتے بیٹے تھے اور پانچ بیٹیوں کے بعد ہوئے تھے اس لیے سبھی کی آنکھہ کا تارہ تھے..وہ اپنے کالج کی کرکٹ ٹیم کے خوفناک بولر بھی تھے.اطراف میں کوئی کالج اور اسکول ایسا نہیں تھا جس کی ٹیم کے ایک آدھ کھلاڑی کا سر عدّو بھائی کی بولنگ سے نہ پھٹا ہو. بڑے بڑے چوے چھکے اڑانے والے بلے باز بھی ان کی پستول کی گولی جیسی گیند سے گھبراتے تھے.
عدّو بھائی کا عام معلومات کے مقابلوں میں بھی شہر کے گنے چنے طلبہ میں شمار ہوتا تھا. انہیں بچوں سے بہت محبت تھی’ وہ بچوں ہی کے ہیرو تھے. وہ بچوں کو عام معلومات بتاتے پھر ان سے سوالات کرتے. ایک دن انہوں نے کسی لڑکے سے سوال کیا. “اچھا بتائیے جناب!” ٹیلی فونے کس نے ایجاد کیا تھا؟”
سب بچے بغلیں جھانکنے لگے. نوابوچچا کی لڑکی جنو چندن آپا کا موٹا تازہ بچہ گود میں لیے ذرا دور کھڑی تھی’ بول اٹھی.”گراہم بیل نے سنۂ ١٨٧٦ میں”.

بچے مڑ کر دیکھنے لگے. عدّو بھائی نے بھی جننو کو قدرے ناگواری سے دیکھا. وہ میلی کچیلی جھبرے جھبرے بالوں والی لڑکی کسی بھنگن کی اولاد لگ رہی تھی لیکن سوال کا جواب صحیح بتا رہی تھی. ایک بچہ چمکیلی پھول دار شرٹ پہنے ہوئے تھا’ وہ غصّے میں بولا “چل ہٹ یہاں سے. مہترانی کہیں کی.” جنو کے آنسو نکل پڑے. وہ وہاں سے ہٹ گئی.
عدّو بھائی نے رسمی طور پر بچے کو سمجھایا.”نہیں بھیا! ایسا کسی کو نہیں کہتے. بری بات ہے”.

منجھلی ممانی نے دسترخوان پر بیٹھے بیٹھے ایک جھوٹی پلیٹ میں کئی پلیٹوں کا بچا ہوا قورمہ، قلیہ، دال اور ترکاری وغیرہ جمع کر کے اس کے اوپر ادھر ادھر کے بچے ہوئے چاول ڈالے اور پھر اس ملغوبے پر دو چپاتیاں تہ کر کے پٹخ دیں اور حاتم کی قبرپرلات مارتے ہوئے پکاریں. “اے کوئی جنو کی ماں کو بھی کھانا دے آتا”

جننو کی ماں یعنی عفت آراکراستھویٹ کالج کی گریجویٹ تھیں. انہیں فیشن’ بناؤ سنگھار اور نمودونمائش کا شوق تھا مگر ان کی شادی اردو کے ایک ادیب سے ہوگئی’ ان کی واحد خوبی یہ تھی کہ وہ علی گڑھ کے پڑھے ہوئے تھے. رشوت اور قرض لینے سے نفرت کرتے تھے’ خوشامد اور دربار داری کے بھی قائل نہیں تھے چناچہ اول دن سے محض کلرک رہے. گھر میں آۓ دن فاقے رہتے. جنو کی ماں فیشن وغیرہ کیا کرتیں’ سال میں ایک جوڑے کو بھی ترسنے لگیں. ان حالات کے باعث انہیں پہلے کچھہ سنک ہوگئی. مالی طور پر اپنی بہنوں کے مقابلے میں ان کی اوقات ایک چمارن سے بھی کم تھی. رفتہ رفتہ وہ واقعی دیوانی ہو گئیں.

جنو کی پگلی اماں کوٹھے پر ایک سائبان کے نیچے پڑی ہوئی چارپائی پر دیوار کی طرف منہ کے بیٹھیں تھیں. وہ تھوڑی دیر بعد ناخنوں سے دیوار کا چونا یا پلاستر کھرچ کر کھا لیتیں اور آپ ہی آپ ہنسنے لگتیں جب کوئی آنے جانے والا گزرنے لگتا تو بهکارنوں کی طرح رٹتیں.”دودھ ملیدہ النی دے گا. دودھ ملیدہ النی دے گا.” یعنی الله ہی دے گا. ان کے پلنگ کے پاس پرانے کپڑوں کے ڈھیرپر جھبری جھبری میلی کچیلی جنو سو رہی تھی. اس کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے اور ایک تانگ تو بلکل ننگی تھی. مکھیوں سے بچنے کے لیے اس نے پھٹی ہوئی دھجی جیسی اوڑھنی سے منہ ڈھک رکھا تھا. عدّو نے یہ منظر کتب خانے سے کھلی ہی چھت کی طرف جاتے ہوئے دیکھا. شاید کچھہ سوچا بھی ہو مگر پھر وہ بہت سارے پیارے پیارے گول مٹول بچوں میں جا کر چہکنے لگا.
عدّو کو زینت کا ایک خاصا مشہور واقعہ بھی یاد آیا. جنو کے والد نوابوچچا کے دو لڑکے بھی تھے. بڑا لڑکا محمود عام مسلمانوں کی طرح ہائی اسکول میں فیل ہوتا رہا پھر سینما، سگریٹ’ اردو شاعری اور فیشن پرستی کی لتوں میں پڑگیا. باپ نے سمجھانے کی کوشش کی تو پاکستان بھاگ گیا. وہاں بھی بات نہ بنی تو کینیڈا چلا گیا. کینیڈا میں اس نے پرچون کی دوکان کھول کے کسی فاقہ زدہ اطالوی فاحشہ سے شادی کرلی تھی مگر اب اس کی بیوی نہایت نیک خاتون بن گئی تھی. محمود اگر باپ کے مسلسل تقاضوں پر کبھی ایک آدھ خط لکھتا بھی تو اپنی مصیبتوں اور بدنصیبوں کا رونا زیادہ روتا محض اس ڈر سے کہ باپ اس سے کہیں مالی امداد کی توقع نہ کر بیٹھے.
دوسرا لڑکا احمد زینت سے چھوٹا تھا. وہ شروع سے کمزور تھا اور مسلسل بیماریوں کی وجہ سے دھان پان پان ہو کر رہ گیا تھا. اس کی ایک ٹانگ میں خضیف سالنگ بھی تھا. چناچہ وہ اپنے ساتھی بچوں میں ہمیشہ ہنسی مذاق کا نشانہ بنتا. اکثر شیطان لڑکے اس کی ضروری اور غیر ضروری ٹھکائی بھی کرتے رہتے. ایک دن زینت کونوں کھدروں سے کاٹھہ کباڑ نکال کر ڈھوپ میں ڈال رہی تھی. اس نے احمد کو سائبان کے کونے میں چپ چاپ بیٹھے دیکھا’ وہ گرج کر بولی.”تم اسکول نہیں گئے؟” احمد نی کوئی جواب نہیں دیا. زینت ایک سخت گیراستانی کی طرح اس کے سرپر جا دھمکی اور اسے جھنجھوڑ کر بولی.”جواب کیوں نہیں دیتے؟ میں تم سی کچھہ پوچ رہی ہوں.” احمد نے بے چارگی سے بہن کی طرف دیکھا اس کی آنکھوں میں آنسو تھے. زینت کا دل ہل گیا. اس کی ساری شفقت’ محبت اور توجہ کا مرکز صرف احمد تھا. ماں کی جگہ زینت اس کی خبر گیری
کرتی تھی اس نے بھلا پھسلا کر احمد سے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ احمد نے کہا کہ اسکول میں لڑکے اسے چھیڑتے ہیں. کل ایک لڑکے نے کہا کہ تیرا باپ بھک منگا ہے. احمد نے یہ بھی کہا کہ وہ اب اسکول نہیں جاۓ گا’ پڑھنے لکھنے سے کوئی فائدہ نہیں. اب وہ کسی دوکان میں نوکری کر لےگا. زینت کا چہرہ تمتما اٹھا مگر وہ کچھہ بولی نہیں.

دوسرے دن احمد کو اپنے ساتھہ لے کر زینت اسکول گئی.اسکول کے پاس دونوں طرف درختوں کی قطاریں تھیں. پپھاٹک سے پہلے مور پنکھی اور مہندی کی گھنٹی باڑیں لگی تھیں. زینت ذرا ہت کر کھڑی ہو گئی. احمد کو اس نے ٹھیل کر اسکول کی طرف بھیجا. ابھی گھنٹہ بجنے میں دائر تھی، زیادہ تر لڑکے پھاٹک کے باہر ہی دھماچوکڑی مچا رہے تھے. سنگھاڑے، مونگ پھلی اور امرود بیچنے والے بھی اپنے اپنے ٹوکرے سجاۓ بیٹھے تھے.
احمد پھاٹک میں داخل ہو رہا تھا. اچانک ایک لڑکا تیزی سے اسے دھکا دیتا ہوا آگے بڑھ گیا. احمد کے ہاتھہ سے کتابیں گر پڑیں’ وہ انہیں سمیٹنے جھکا ہی تھا کہ ایک دوسرے لڑکے نے اس کی ٹوپی اتار کر جھاڑیوں کے دوسری طرف پھینک دی. پہلا لڑکا واپس آگیا اور ہنس کر بولا.”یہ کتابیں تیری بہن چرا کر لائی ہے.” یہ سننا تھا کہ زینت بھوکی شیرنی کی طرح لپکی. اس نے فقرہ کسنے والے لڑکے کو پوری طاقت سے دھکا دے کے زمین پر گرادیا اور اس کے سنبھلنے سے پہلے ہی اسے بندر کی طرح بھنبھوڑ کھایا. پھر اس زور سے اس کی کلائی میں کاٹا کہ خون نکلنےلگا.
اسے روتا ہوا چھوڑکر زینت دوسرے لڑکے کی طرف متوجہ ہوئی. اس کے گریبان میں ہاتھہ ڈال کر زینت نے تیزی سے کھینچا. اس کی قمیص پھٹ گئی اورگلے میں پھانسی سی لگنے لگی. وہ بچنے کے لیے جھکا تو زینت نے چپل اتار کر بے تکان اس کی پٹائی شروع کردی. لڑکے کی سوچنے سمجھنے کی قوت سلب ہوگئی. وہ ہاتھہ چھڑا کر بھاگنے یا ایک لڑکی سے دھینگا مشتی کرنے کے بجاۓ بے بسی سے پیٹے جا رہا تھا گویا کوئی استاد اسے سزا دے رہا ہو. زینت کے ہاتھہ بھی چل رہے تھے’ زبان بھی ، وہ پرانے زمانے کی بھٹیارنوں کی طرح گالیاں بک رہی تھی. چپراسیوں’ سودے والوں اور ماسٹروں کے ہوش اڑے جا رہے تھے. یہ تماشا کوئی ساتھہ منٹ جاری رہا پھر زینت خود تھک گئی اور لڑکے کے منہ پر زور سے تھوک کر الگ ہو گئی پھر اپنی سانسیں قابو میں کرتے ہوئے اس نے سڑک کے کنارے سے اپنا دپٹا اٹھایا. دوپٹا گرد میں آٹا ہوا تھا. زینت نے اسے گلے میں مفلر کی طرح ڈالا اور احمد کا ہاتھہ پکڑ کر اسے پھاٹک کے اندر لے جانے لگی.
ہیڈ ماسٹر راۓ آنند رام بے کس فیض آبادی شور سن کر اپنے کمرے سے بھر نکل رہے تھے. وہ اپنی عادت کے مطابق ہاتھہ میں بید گھماتے پھاٹک کی طرف چلے ہی تھے کہ ان کی مڈبھیڑ رضا نواب حسن کی صاحب زادی زینت حسن سے ہو گئی. زینت حسن اس شان سے آرہی تھیں کہ ان کے پیچھے ماسٹروں’ لڑکوں، چپراسیوں اور سودے والوں کا باقاعدہ جلوس تھا. زینت گرج کر بولی. “یہ میرا بھائی احمد حسن ہے. اگر اب کسی حرام زادے نے اسے کچھہ کہا تو میں آپ کے پورے اسکول کو لڑکوں سمیت آگ لگا دوں گی. کھری سیدانی ہوں میں. مجھے کوئی دیسی ویسی مت سمجھیے گا.”
ہیڈ ماسٹر راۓ آنند رام بے کس فیض آبادی ایم’ اے’ ایل’ ٹی کا منہ کھلا رہ گیا. ایک لڑکی کی زبان سے یہ زور دار باتیں سن کر وہ ساری ہیڈ ماسٹری بھول گئے. ان کی کچھہ سمجھہ میں نہیں آیا کہ کیا کہیں اور کیا نہ کہیں. زینت ایک شاہانہ دبدبے کے ساتھہ پھاٹک کی طرف مڑگئی. باہر اس نے اشارے سے ایک رکشا بلایا اور بڑے ٹھستے سے بیٹھہ گئی. ایسے جیسے نادر شاہ دلی لوٹ کر واپس جا رہا ہو.

اس ہنگامے کا ذکر جس نے بھی سنا دانتوں میں انگلی دبالی. پورے شہر میں زینت کی دھاک بیٹھہ گئی. خوانچے فروش اور پھیری والے بھی اس کے گھر کے سامنے سے گزرتے ہوئے ڈرنے لگے. رکشے والوں کا تو کیا ذکر ہے. سٹی اسٹیشن اور تھانا وزیر گنج کے پولیس والے بھی اس کا بڑی بٹیا کہ کر ادب کرنے لگے.

جنو کے بارے میں ایک تاثر عدّو کو اور یاد تھا. وہ اپنے کالج سے نکال دی گئی تھی کیونکہ اس نے اپنی پرنسپل کے خلاف ایک اخبار میں یہ خط شائع کرا دیا تھا کہ کالج کی پرنسپل مسز جارڈن نے طالبات کو وزیر اطلاعات کی انتخابی مہم میں حصّہ لینے پر مجبورکیا اور انتخاب میں کام کرنے والی لڑکیوں کی جھوٹی حاضری بھی لگا دی.
عدّو کو ان تمام لوگوں سے چڑتھی جو بڑوں سے بدتمیزی کرتے، اسکولوں میں ہڑتالیں کراتے یا نظم و نسق کے ذمے داروں یعنی کسی بھی عہدے دار یا افسر کی نافرمانی کرتے. وہ ایک روایتی قدامت پسند تھا اس کے دادا، پردادا نے انگریزوں کی خدمت کی تھی پھر باپ اور چچا نے بھی اسی لگن اور وفاداری سے کانگریسیوں کی خدمت کی تھی اور اب وہ خود بھی اسی ڈھرے پر چل رہا تھا. اس نے بے’اے، کے بعد ہی پولیس سروس کے مقابلے میں تحریری امتحان پاس کرلیا تھا اور اب انٹرویو کے لیے اس کی کال بھی آگئی تھی.

زینت کے بارے میں وہ بہت جھنجھلایا. اسے خیال آیا کہ اگر کہیں لوگوں کو پتہ چل گیا کہ اس کے خاندان کی ایک لڑکی بائیں بازو کی سرگرمیوں میں ملوث ہے تو اس کے کریر پر اثر پڑ سکتا ہے.
بہت دنوں بعد اپنے وطن میں عدّو کو زینت کے بارے میں ایک اخبار سے کچھہ معلوم ہوا. کسی ثقافتی تقریب کے سلسلے میں زینت کا فوٹو چھپا تھا. عدّو نے فوٹو کئی بار دیکھا. زینت اچھی خاصی خوبصورت نظر آرہی تھی. بعد میں عدّو کی بیوی نے وہ اخبار چولھے میں جھونک دیا.

اب کوئی تیرہ برس کے بعد وہ زینت کو پھر دیکھہ رہا تھا. اس نے آہٹ محسوس کر کے اخبار ایک طرف کیا. اس کے سامنے زینت اسٹوڈیو کوچ پر خاموشی سے بیٹھی اطالوی نشات ثانیہ کے کسی بھولے بسرے مصور کی میڈونا لگ رہی تھی. اس کا ذہن بھی غالبا گزرے دنوں کی بھول بھلیوں میں بھٹک رہا تھا. عدّو کی سمجھ میں کچھہ نہیں آیا تو بولا.”یہ ماننا پڑے گا کہ تم بہت خطرناک طور پر حسین و دلکش ہو گئی ہو.”
“شکریہ. مجھے خوشی ہے کہ آپ نے یورپ کی ریا کاری سے بہت کچھہ اثر قبول کیا ہے.” عدّوخفیف بھی ہوا اور جزبز بھی مگر زینت نے فورا موضوع بدل کر پوچھا. “آپ نے بتایا نہیں کہ پیرس میں آپ کیا کر رہے ہیں؟ آپ کو کہیں آئی جی ہونا چاہیے تھا. کیا کسی انٹرپول سے وابستہ ہو گئے ہیں؟”
“میں نے سرکاری ملازمت تین چار سال بعد ہی چھوڑ دی تھی.” عدّو کو خیال ہوا کہ زینت اس کے بارے میں مزید استفسار کرے گی مگر اس نے کسی اشتیاق کا اظہار نہیں کیا بلکہ بولی. “میں آج شام دینی زوئلا جا رہی ہوں. شاید آپ سے پھر ملاقات نہ ہو اس لیے بہتر ہے کہ آپ ناشتہ یہیں کیجیے. اس کے بعد میں پورا دن اطمینان سے سونے میں گزاروں گی.”
عدّو ہی ادھر ادھر کی باتیں کرتا رہا. اس نے زینت کو بتایا کہ کس طرح اس نے ایک فساد کی اطلاع وزیر داخلہ کو بھجوائی اور کس طرح فرقہ پرستوں نے اس کے خلاف جھوٹی مہم چلادی. اخباروں اور اسمبلی میں اس کے بیان کی صداقت تسلیم نہیں کی گئی اور اس کا تبادلہ ایک غیرآباد جگہ کر دیا گیا. اس نے جنجھلا کر استعفا دے دیا. نوکری چھوڑنے پر سسرال والوں نے اسے احمق اور پاگل قرار دے دیا’ خود اس کی بیوی بھی اپنے بچے کو لے کر الگ ہو گئی. عدّو نے ایسی ہتک محسوس کی کہ سب کچھہ چھوڑ چھاڑ کر جلا وطنی اختیار کرلی اور اب لندن میں ایک ممتاز اخبار میں جھک مار رہا ہے جسے بعض لوگ صحافت کا نام دے کر خاصا رومان محسوس کرتے ہیں.
بہ ظاہر زینت نے سب کچھہ دلچسپی سے سنا مگر اسے نیند آرہی تھی. اس کی آنکھیں واقعی بند ہونے لگیں تو عدّو کو احساس ہوا. وہ رخصت ہو گیا. چلتے وقت اس نے زینت کو اپنا کارڈ دیا. کارڈ پر لندن کا پتہ اور ٹیلی فون نمبر درج تھا.
بھر ناترے دیم کے گھنٹے بج رہے تھے اور پیرس میں خزاں کا ایک اور بیمار بیمار سا اتوار شروع ہو چکا تھا.

وہ اپنے دفتر سے باہر آیا. ستمبر کی زرد زرد رات فلیٹ اسٹریٹ کو اپنے دامن میں چھپاۓ ہوئے تھی. زیادہ تر اخباروں کے پہلے ایڈیشن چھپ چکے تھے اور شاہ راہ پر اخباروں سے بھری ہوئی لاریاں دندناتی پھر رہی تھیں. عدّو نے گاڑی خاصی دور کھڑی کی اور پیدل پریس کلب کی طرف چلا.
وہاں سناٹا تھا’. دو چار معمز صحافی خاموشی سے سگار پینے میں مصروف تھے. ان کے سامنے سسستی قسم کی لاگر کے گلاس شطرنج کے مہروں کی طرح رکھے ہوئے تھے. وہ بہت سوچ کرگلاس اٹھاتے اور ایک گھونٹ لے کر پھر اپنے بےمعنی خیالوں میں کھو جاتے. بعض تو اس طرح بیٹھے تھے گویا اب صور اسرافیل ہی انہیں اٹھاۓ گا. یہ ممی خانے جیسی خاموشی جان منچ نے توڑدی. وہ دو تین فوٹو گرافروں سے سرگوشیوں میں مصروف تھا.عدّو کو دیکھہ کر وہ اس کی طرف آگیا. جان منچ فلیٹ اسٹریٹ کے ایک بدنام ترین فحش نگار اور فضیحتہ نگار اخبار میں ڈائری کا نگران تھا اور اکثرو بیشترازالہ حیثیت عرفی کے مقدمات میں پیش ہوتا رہتا تھا. اس نے عدّو کو زبردستی ایک تقریب میں چلنے پرمجبورکردیا.
تقریب عدّو کے اخبار کی سو سالہ سالگرہ کے سلسلے میں ہو رہی تھی. اس کے پاس باوقار پاس موجود تھا لیکن اس نے کوئی خاص دلچسپی نہیں لی تھی. پیلس سے ایک میل پہلے ہی باوردی اور سادہ کپڑوں میں پولیس کا ہجوم تھا. اسے کئی جگہ روک کراپنا پاس دکھانا پڑا. پھر بھی پیلس کے پاس گاڑی کھڑی کرنے کی جگہ نہیں مل سکی.
ہیمپٹن کورٹ پیلس طوفان نغمہ ورنگ اور نوروسرووکی بنا پر الف لیلہ کی کسی کہانی کا ایک بڑا ٹکڑا نظر آرہا تھا. شاہی گھرانے کے افراد کے علاوہ دنیا کے تقریبا سبھی قابل ذکر لوگوں کا ہجوم تھا. دو ڈھائی ہزار مہمانوں میں پانچ چھہ سو خفیہ پولیس والے بھی معززین و عمائد بنے گھوم رہے تھے. جان منچ ہجوم میں غرق ہو گیا گویا کوئی مچھلی دوبارہ پانی میں پہنچ گئی ہو مگر عدّو اکا دکا جاننے والے کو رسمی اور سرسری اشارے کرتے ہوئے بھٹکنے لگا. کسی نے کسی مسئلے پر تبادلہ خیال یا موسم کا حال جاننے کی کوشش کی تو وہ جلدی سے معذرت کر کے الگ ہو گیا.

اسی بوریت میں اسے زینت دکھائی دی. وہ اپنے پورے بدن پر ایک سفید چادر لپیٹے ہوئے تھی. اس کے شانے بلکل ننگے تھے. اس کی پیٹھہ بھی بلکل ننگی تھی. صاف معلوم ہو رہا تھا کہ اس نے بلاؤز وغیرہ نہیں پہنا ہے. اس کے کالے کالے بال آدھے تو کمر پر لٹک رہے تھے اور آدھے اس کا سینہ ڈھکے ہوئے تھے. وہ بلکل یونانی اساطیری دیوی تھالیا لگ رہی تھی. ایک ممتاز امریکی سینیٹر کی بیوی بہ ظاہر اسے بنگلادیش کی غربت کے مسئلے پر بصیرت سے معمور کر رہی تھی کہ کس طرح یہ مجسمہ خرید کر اپنے ڈرائنگ روم کے کسی شوکیس میں سجالے.
زینت یقینا کوفت میں مبتلا تھی. وہ عدّو کو دیکھتے ہی سینیٹر کی بیوی سے معذرت کرکے اس کے پاس آگئی.”تم یہاں کیا کر رہی ہو؟ کب آئیں؟” عدّو نے پوچھا. وہ محویت سے زینت کو دیکھہ رہا تھا. اس کے سفید شانوں پر سیاہ بال یقینا جان منچ کے لیے ایک ڈائری نوٹ فراہم کر سکتے تھے. وہ بہت سادہ ہونے پر بھی اتنی سنسی خیز فیشن ایبل لگ رہی تھی کہ آس پاس کی متعدد جان بہاراں اور شمع انجمن قسم کی خواتین رشک میں مبتلا تھیں. برا نہ ماننا کہنا پڑرہا ہے کہ تم انتہائی دل فریب نظر آرہی ہو.”

زینت نے کچھہ کہا ضرور مگرعدّو نے سنا نہیں. محل کے کونوں میں گھیرے درختوں کے کنجوں میں چھپے ہوئے بہترین بینڈ جذبات انگیزدھنیں چھیڑ رہے تھے، دو آدمیوں کا عام آواز میں گفتگو کرنا بہت مشکل تھا. معلوم نہیں کیوں عدّو کو یہ دیکھہ کر ایک طرح کا سکون ہوا کہ اعلا ترین مشروبات موجود ہونے کے باوجود زینت صرف ٹماٹر کا عرق پی رہی ہے. وہ اس بارے میں کچھہ کہتا مگر زینت کی تنگ مزاجی سے کچھہ ڈر لگا.

جان منچ ہر قیمت پر ہر مفید آدمی سے تعارف حاصل کرنے میں مصروف تھا. عدّو کے ساتھہ زینت کو دیکھہ کر وہ ادھر آگیا اور زینت کے بارے میں کوئی چٹ پٹا شگوفہ چھوڑنے کے خیال سے اس کے پیچھے ہی پڑ گیا. عدّو کو برا بھی لگا مگر وہ کچھہ کہے بغیر دوسروں سے ملتا جلتا ہوا ہجوم میں غائب ہو گیا اور اس طرح باہر نکل آیا کہ کسی کو پتہ نہیں چلا.
رات کے دو بج رہے تھے مگر پکڈلی میں چاندنی چوک کا سماں تھا. ساؤتھمپسٹن رو سے ٹیوی اسٹاک پیلس کی طرف جاتے ہوئے وہ خود سے باتیں کر رہا تھا. “یہ ضرور ہے کہ وقت کے ساتھہ ہر چیز بدل جاتی ہے مگر بسا اوقات حالات ایسا موڑ اختیار کرتے ہیں کہ یقین نہیں آتا. اب بھی دیکھیے میں عدیل احمد عباسی آئی، پی، ایس اس طرح بدلا ہوں گویا ہمیشہ سے بائیں بازؤ کی دانش ورانہ سرگرمیوں سے متعلق رہا ہوں. دوسری طرف جنو ہے. وہ میلی کچیلی غریب لڑکی اس طرح بدلی گویا ہمیشہ سے بین الاقوامی جٹ سٹ کی رکن رہی ہو. اس کی آنکھیں اف’ کیا ہمیشہ اتنی بڑی بڑی تھیں؟ اگر تھیں تو میں نے بچپن میں غور کیوں نہیں کیا؟” زینت کے بارے میں یہ سب کچھہ سوچتے ہوئے عدّو کے دل میں نہ تحقیر کا جذبہ تھا’ نہ رسک و حسد کا وہ بلکل غیر جانب دارانہ طریقے سے سوچ رہا تھا. جیسے میسیکو یا برازیل کے بارے میں کوئی ادارتی نوٹ لکھ رہا ہو.
کلیر کورٹ کے فلیٹ میں آرام کرسی پر وہ باقاعدہ کپڑے پہنے نیم دراز تھا. اسے خیال آیا کہ زینت کے گھر والوں کے ساتھہ کیسا اہانت آمیز سلوک ہوتا تھا پھر بھلا اسے کیا حق ہے کہ وہ زینت سے کسی دوستی یا مرحمت کی توقع کرے. وہ نۓ زمانے کے ساتھہ تھی اور میں؟
میری تمام جدوجہد ہمیشہ دوسرے اور تیسرے درجے کے متوسط مسلمان گھرانوں کی ذہنیت کی مظہر رہی، باپ دادا سے آج تک میں بس ایک ڈھرے پر چلتا رہا. وہ ڈھرا جہاں اچھی ملازمت اور اچھا کھانے پہننے کے سوا کچھہ نہیں ہوتا. دادا نے باقاعدہ رشوتیں لے کر جائیداد کھڑی کرلی، باپ نے گوپھوہڑپن سے حرام کمائی نہیں بٹوری مگر ان کے پاس بھی ناجائز تحائف کی بھر ماررہتی تھی. پانچوں لڑکیوں کی شادی انہوں نے دھوم دھام سے کی. یہ اچھے خاصے نوابوں اور تعلقہ اداروں کے بس کی بات بھی نہیں تھیں. آخر یہ سب کہاں سے آیا؟ میں نے ایک بار اصول پرستی کا سہارا لیا تو ملازمت سے ہاتھہ دھو بیٹھا مگر یہ کوئی بہت بڑی قربانی تو نہیں تھی. اصول تو زینت کے باپ کے تھے. نوابو چچا نے ہمیشہ غربت اور ذلت کے دن گزارے. انہیں دربار داری اور جاہ پرستی سے ازلی بئیر تھا. ان کا پورا محکمہ رشوت پر چلتا تھا مگر انھوں نے کبھی رشوت نہیں لی. ان کا کہنا تھا کہ حلال کی کمائی کتنی ہی قلیل کیوں نہ ہو’ اس میں برکت ہوتی ہے. ویسے ہم نے کبھی ان کے گھر میں برکت ورکت دیکھی نہیں’ ہمیشہ فاقے رہا کرتے. کبھی کبھی تو انکے گھر میں عید کے دن بھی چولھا نہیں جلتا تھا. نوابو چچا کی مفلسی ان کی تحقیر و تذلیل اور فاقہ کشی کا سب سے اذیت ناک پہلو یہ تھاکہ ان کے تمام سسرال والے یعنی ہم سب لوگ انہیں ملامت کے قبل سمجھتے تھے، اچھوت سمجھ کر کتراتے تھے. میرا خیال ہے’ میرے گھرانے میں کبھی ایک اچھا جملہ بھی نوابو چچا کے لئے استعمال نہیں کیا گیا. عدّو کو نوابو چچا کا حلیہ یاد آیا. میلے کچیلے کپڑے تار تار شیروانی، ہڈیوں کے ڈھانچے جیسا جسم’ ہونق چہرہ اور بے نور آنکھیں. گھر میں ہر وقت توتکار اور بک بک جھک جھک نے ان کی بیوی کو دیوانی بنا کر رکھہ دیا تھا. نوابو چچا کا بڑے اطمینان سے محلے کی مسجد میں جاکر اور اردو وظائف میں مبتلا رہنا بھی عدّو کو یاد تھا. وہ تھے تو اچھے وجیہہ، خوبصورت اور علی گڑھ کے بذلہ سنج گریجویٹ مگر اس طرح ٹوٹ پھوٹ گئے تھے کہ ہمارے گھر میں ہر شخص انھیں جاہل، نالائق، خبطی، ناکارہ اور کندہ ناتراش سمجھتا تھا. مگر آج میں نوابوچچا کے بارے میں کیوں سوچ رہا ہوں؟ ہان نوابوچچا کا انتقال بھی تو عجیب طریقے سے ہوا تھا. وہ جب ملازمت سے سبک دوش ہو کر آۓ تو قیمتیں آسمان پر تھیں. ان کی ٣٤ روپے کی پینشن سے گھر کا خرچ تو نہیں چل سکتا تھا اس لیے وہ لکھنؤ کے فتح گنج بازار میں غلہ فروشوں کے ہاں اناج کے بورے ڈھونے لگے. ایک دن ایک بوری اپنی کمر پر لادے ہوئے وہ کسی خریدار کے حکم کی تکمیل میں مصروف تھے، اچانک ان کا پیر پھسلا اور نالے میں گر پڑے. دو تین ہی دن میں الله کا شکر ادا کرتے ہوئے دنیا سے سدھار گئے. ان دنوں ان کے بڑے صاحب زادے اپنی بیوی کے ساتھہ اٹلی کے آثار قدیمہ کی تفریح میں مشغول تھے. والد کے انتقال پر انہوںنے زینت کو لکھا. “میں ہمیشہ سے بدنصیب رہا ہوں. میری ازلی بدنصیبی دیکھو کہ آخر وقت میں ابو میاں کو دیکھہ نہ سکا. پتہ نہیں قدرت کو میرے ساتھہ کیا ضد ہے کہ ساری بدنصیبیاں میرے ہی مقدر میں لکھہ دی گئی ہے.”

ان حالات کی روشنی میں زینت کو اگرمیرے گھر والوں سے یا مجھہ سے چڑ ہے تو اس کا کیا قصور؟ اس نے الماری کھولی اور شی واز ریگل کی بوتل نکالی پھر ایک حسین گلاس میں یہ آب نشاط انگیز انڈیلا مگر معلوم نہیں کیوں اسے اس کی بو ہی سے کراہت ہوئی. اس نے گلاس چھوڑ دیا اور دھیرے دھیرے جا کر پھر آرام کرسی پر نیم دراز ہو گیا. ہندوستان چھوڑنے کے بعد آج اسے پہلی بار اپنی بیوی کا خیال آیا. سعیدہ! سعیدہ! مگروہ بھی کیا کرتی، وہ ایک ایسے گھرانے کی پروردہ تھی جہاں عہدے، ترقی، کپڑے لتے، زیور اور موٹر کی پرستش ہوتی ہے. اس کے سامنے عفت خالہ کاانجام تھا. وہ عفت خالہ کی طرح دیوانی ہو کر دیواروں کا پلاستر کھانے کے لیے تیار نہیں تھی. وہ تو آرام سے زندگی گزارنے آئی تھی. میرا ملازمت اسے استعفا اس کے خیال میں پاگل پن تھا. جس طرح اپنے ماحول کی پیداوار تھا. اسی طرح سعیدہ بھی اپنے ماں باپ کے معیاروں میں پروان چڑھی تھی مگر زینت! لاحول و ولاقوت. میں زینت کے بارے میں کیوں سوچ رہا ہوں؟
کرسی پر لیٹے لیٹے اس کی آنکھہ لگ گئی. وہ طرح طرح کے الجھے الجھے، بے تکے اور بے سروپا خواب دیکھتا رہا.

رات کے آٹھہ بجے کے قریب عدّو اپنے دفتر میں تھا. اس نے اطمینان سے پیر اٹھا کر میز پر رکھے اور آرام دہ کرسی پر تقریبا لیٹتے ہوئے اخبارات دیکھنے لگا. نیویارک ہرلڈ ٹریبیون’ لیون برگ زائٹنگ، کوریلا ڈیلاسیرا، واشنگٹن پوسٹ، الاہرام اور لائیگرو وغیرہ. وہ سرخیوں پر سرسری نظرڈالتا، ادارتی کالم ذرا توجہ سے دیکھتا اور پھر پورا اخبار اٹھا کرکونے میں پھینک دیتا. البتہ لائیگرو اس نے نہیں پھینکا بلکہ ثقافتی صفحے پڑھتے ہوئے معلوم نہیں کیا سوچنے لگا. معا ٹیلی فون کی روشنی جلنےلگی. اس نے رسی ور اٹھایا. “میں زینت بول رہی ہوں.”
عدّو اچھل پڑا. “ہاں. ہاں. کہاں ہو؟ لندن میں؟ کیا کہا’ کہاں؟ میرے فلیٹ میں؟” عدّو چکرا گیا.زینت نے بتایا کہ وہ رسل اسکوائرکے ایک ہوٹل میں ٹھیری ہوئی ہے’ اسے خیال آیا کہ قریب ہی عدّو کا فلیٹ ہے اس لیے اس نے وہاں جا کر پوچھا. پہرے دار نے اسے عدّو کی رشتےدار سمجھہ کر فلیٹ کھول دیا چناچہ اب وہ وہاں اپنی پسند کے کھانے پکا رہی ہے.
“امید ہے آپ اس بے تکلفی پر خفا نہیں ہوں گے.” زینت کی آواز آئی.
“نہیں نہیں بھئی. کیسی باتیں کر رہی ہو مگر کمال کر دیا تم نے اچھا خوب.”عدّو نے گھڑی دیکھی’ پہلا ایڈیشن چھپ کر آنے میں ابھی دیر تھی. اس نے زینت سے کہا.”تم وہیں ٹھیرو یا اپنے ہوٹل کا نمبردے دو’ مجھے یہاں سے نکلنے میں دیر لگے گی.”
“نہیں. میں ہوٹل تو دائر میں جاؤنگی. کہنا یہ ہے کہ آپ کھانا باہر نہ کھائیے گا. میں نے یہاں پکا رکھاہے’ آپ بھی کیا کہیں گے.” زینت بڑی بے تکلفی سے بول رہی تھی. عدّو کو اپنی بہنیں عطیہ اور زہرا یاد آگئیں. وہ دونوں اس سے بس سال’ دو سال بڑی تھی اور اس کی تقریبا دوست تھیں. باقی تین بہنیں اس سے بہت بڑی تھیں’ وہ زیادہ تر اپنے بال بچوں میں مبتلا رہتی تھیں
عدّو ملے جلے جذبات کے ساتھہ گھر پہنچا. اسے یہ سوچ کر ہنسی آرہی تھی کہ زینت کیسے مزے سے اس کے فلیٹ میں آ گئی گویا ہمیشہ سے میری اس کی بےتکلفی ہو.
فلیٹ میں داخل ہوتے ہی اس نے باتوں کی آواز سنی اس پر بجلی سی گری. کون ہو سکتا ہے زینت کے ساتھہ؟ وہ ٹی وی والے کمرے میں داخل ہوا. صوفے پر کوئی شخص بیٹھا تھا. اس کی قومیت اور شہریت کے بارے میں عدّو اپنے تجروبے کے باوجود کوئی فیصلہ نہیں کرسکا. کمرے میں روشنی کا زاویہ ایسا تھا کہ اس کا تقریبا آدھا وجود نیم تاریکی میں تھا، زینت نے اٹھہ کر عدّو کا استقبال کیا. وہ صرف جین اور جمپر پہنے ہوئے تھی اور ایس او’ ایس یعنی ایشیائی اور افریقی مطالعات کے اسکول کے نوجوان حلقوں کی رکن رکیں معلوم ہو رہی تھی. وہ دونوں چاۓ پی رہے تھے. زینت نے عدّو سے کہا.”ان سے ملیے. میرے اچھے دوست ہیں’ ایاندو”.
ایاندو نے اٹھنے کی کوشش نہیں کی بلکہ اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے مصافحہ کے لیے ہاتھہ بڑھا دیا. عدّو نے دیکھا کہ اس کی ایک ٹانگ غائب ہے. رسمی طور پر علیک سلیک کے بعد عدّو اپنی خواب گاہ میں کپڑے بدلنےگیا.وہاں یہ دیکھہ کراسے سخت تعجب ہوا کہ ہر چیز نہایت قاعدے سے رکھی ہوئی ہے.
“ہم لوگوں نے آپ کے انتظار میں کھانا نہیں کھایا. زینت نے اسے کھانے کے کمرے کی طرف لے جاتے ہوئے کہا. زینت کے پیچھے ایاندو اپنی بے ساکھی کے سہارے چلرہا تھا اور اس کے پیچھے عدّو تھا. عدّو اس اچانک یلغار پر کچھہ گڑبڑایا ہوا تھا.
کھانے کی میز پر پلیٹیں سلیقے سے رکھی تھی. زینت نے چند منٹ میں کھانا چن دیا. عدّو کی بھوک چمک اٹھی. ایاندو بھی کسی جھجک کے بغیر ہر چیز رغبت سے کھا رہا تھا”. یہ تمھیں سوجھی کیا؟ عدّو نے زینت سے فرانسیسی میں پوچھا. اسے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ ایاندو کو فرانسیسی بھی نہیں آتی، وہ صرف ہسپانوی زبان جانتا تھا. ایاندو مزے لے لے کر کھانا کھا رہا تھا. اس کی عمر بے حد کم تھی.زیادہ سے زیادہ بائیس تیئیس برس کا ہوگا. اپنی کم امری چھپانے کے لیے اس نے داڑھی خوب بڑھا رکھی تھی. اس کی موجودی سے عدّو کو ایک بے نام سی خلش ہوئی تھی. وہ بڑی حد تک کم ہو گئی. شاید اس لیے کہ ایاندو معذور تھا. اس کی ایک ٹانگ توغائب تھی، ہاتھوں کی جلد پر بھی جابہ جا جلنے کے نشانات تھے.
زینت نے کہا. “میں بس آپ کو دیکھنے چلی آئی. پہرےدار نے فلیٹ کھول دیا تو ہم دونوں نے سوچا’ یہاں اپنے ہاتھہ سے چاۓ بنا کر پی جاۓ مگر آپ کا باورچی خانہ دیکھا تو تمام سامان موجود تھا لہٰذا کھانا پکانے کی سوجھی. بہت دنوں بعد پکایا ہے آج. ادھر ادھر کا واہیات کھانا کھاتے کھاتے طبعیت بیزار ہو چکی تھی اسی لیے خوب مسالے دار کھانا پکایا ہے.” وہ اب اردو میں باتیں کر رہی تھی.
عدّو نے کھاتے کھاتے ایک دم کہا.”اب تم برا مانو یا جو بھی کہو مگر میں یہ ضرور بتاؤں گا کہ میں نے جب تمھیں پیرس میں دیکھا تھا. اس وقت ایک قسم کی لاعلاج عورت سمجھہ لیا تھا. اب تمھیں اردو بولتے دیکھہ کراور یہ کھانا کھا کے محسوس ہو رہا ہے کہ تم میں اب بھی کچھہ………”

“عدّو بھائی! پلیز میرے بارے میں کوئی بات نہ کیجیے. مجھے سخت کوفت ہوتی ہے”. عدّو نے زینت کے چہرے پر بھرپور نظر ڈالی. زینت ادھر ادھر دیکھنے لگی پھر بولی.” اصل میں پچھلے اٹھارہ یا انیس برسوں سے میرے دل میں آپ لوگوں کے خلاف جو غصّہ اور نفرت ہے، میں اسے ختم کرنے سے قاصر ہوں اس لیے صرف آج کی باتیں کیجیے. مجھے گزرے ہوئے کل یا آنے والے کل سے کوئی دلچسپی نہیں”. اس بار اس نے پھر انگریزی کا سہارا لیا.
عدّو چپ رہا پھر آہستہ سے بولا.”تو کیا تمہاری نفرت بدلے ہوئے حالات میں ختم ہونے کا امکان بھی نہیں ہے؟”
“یہ کہنا مشکل ہے مگر جب رات کے پچھلے پہر آپ ہوٹل کے بار میں تنہا بیٹھے تھے یا پھر بعد میں میرے کمرے میں اپنے متعلق باتیں کر رہے تھے تو مجھے آپ سے ایک طرح کی ہمدردی ہو گئی. میرا خیال تھا کہ آپ اب بھی وہی جاہ پرست’خر دماغ اور مغرور و عدیل احمد ہوں گے اور مجھے اسی حقارت و ذلت سے دیکھیں گے جو میرے ماں باپ کے لیے آپ کے گھر والوں کی رگ رگ میں بسی ہوئی تھی مگر مجھے ایسا لگا جیسے آپ نے دنیا کے دوسرے پہلوؤں پر بھی نظر ڈالنا سیکھہ لیا ہے اسی لیے میں پارٹی میں آپ سے ملی اور یہاں بھی آگئی”.
“میں اپنے گھر والوں کیاور خود اپنے رویے کے سلسلے میں باقاعدہ معافی مانگنے کو تیار ہوں مگر تمھیں مجھہ پر ترس کھانے یا مجھہ سے ہمدردی کرنے کی ضرورت نہیں ہے. میرا خیال ہے’ میں بہت مطمئن اور خوش ہوں”. آخری جملہ کہتے ہوئےعدّو نے ایسا محسوس کیا جیسے وہ کسی بھیانک ویرانے میں گنگنانے کی کوشش کر رہا ہو.
“خیر چھوڑیے یہ باتیں. ہاں آپ یہ گم راہ کب سے ہو گۓ’ آپ تو ہمیشہ سے بڑے نیک آدمی تھے’ آپ کے کمرے میں منتخب اور چیدہ چیدہ شرابوں کی الماری دیکھہ کر خیال آیا کہ اگر آپ کی آپا جان کو یہ معلوم ہو گیا تو کیا ہوگا؟”
عدّو نے جملہ بلکل نظرانداز کردیا. وہ ایاندو سے اشاروں اور ٹوٹے پھوٹے مخلوط جملوں میں کچھہ کہنے سننے کی کوشش کرنے لگا.
زینت بولی.”آپ کے باورچی خانے اور طعام خانے کا سلیقہ دیکھ کر میں سمجھی تھی کہ شاید آپ نے دوسری شادی کرلی ہے اور بیگم کہیں گئی ہوئی ہیں”.
“باورچی خانہ میرے ایک دوست نے سجایا ہے. وہ ایک جہازراں کمپنی سے متعلق ہے اور دنیا بھر میں معلوم نہیں کیا کیا الا بلا کھاتا پھرتا ہے. یہاں آ کر وہ اپنے ذائقے اور پسند کی چیزیں پکانے کی کوشش کرتا ہے. اس کا خیال یہ ہے کہ کھانے پکانے میں اسے مہارت تاتر حاصل ہےمگر میں یہ کوشش کرتا ہوں کہ اس کے کمال سے کم سے کم فائدہ اٹھاؤں”
زینت کو ہنسی آ گئی. میں نے آج تک کوئی ایسا مسلمان نہیں دیکها جو اردو میں شاعری نہ کرتا ہو. اسی طرح دنیا بھر میں آج تک مجھے کوئی ایشیائی ایسا نہیں ملا جسے مغل کھانے پکانے میں کمال کا دعوا نہ ہو.”
عدّو نے زینت کے اصرار کے باوجود خود کافی بنائی. تینوں کافی پینے میں مشغول ہوگئے. زینت نے ادھر ادھر کی باتیں شروع کردیں مگر وہ عدّو کو بولنے کا زیادہ موقع دے رہی تھی. اپنے یا ایاندو کے بارے میں اس نے کچھہ نہیں بتایا پھر تینوں تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہو گئے.
“عدّو بھائی! ہم سب مجبور ہیں. ہم سب اپنے ماحول کی پیداوار ہیں’ اپنے اپنے ماں پاب اور خاندان کی قدروں کے اسیر ہیں. کسی کا کوئی قصور نہیں.”
عدّو اچھل پڑا.”کمال ہوگیا”.
زینت نے حیرت سے پوچھا.”کیا؟”
“یہی جو تم نے کہا. سچ بلکل یہی جملہ دو تین روز پہلے میرے ذہن میں بھی ابھرا تھا. میں تمھارے اور نوابو چچا کے بارے میں سوچ رہا تھا”.
“آیۓ باہر چلتے ہیں. پارک میں ٹہلیں گے.” زینت نے اپنے والد کا نام سنتے ہی گفتگو کا رخ موڑ دیا.
“وہ تینوں رات گئے تک پارک میں ٹہلتے رہے. کہر بہت گہرا تھا. وہ ایک دوسرے کی صورت بھی نہیں دیکھہ پا رہے تھے. چاروں طرف بلند قامت درخت ٹنڈ منڈ کھڑے تھے اور سوکھے سنہرے پتوں کا فرش بچھا تھا. پتوں پر ان کے قدم پڑنے سے کراہ سی نکلتی تھی’ عدّوکو اسرائیلی قید خانہ یاد آجاتا جہاں زنجیروں میں جکڑے ہوئے فلسطینی کروٹیں بدلنے کی کوسش کرتے وقت کراہتے ہیں.”
عدّو کی چھٹی تھی. اس نے زینت کو فون کیا مگر وہ ہوٹل میں نہیں تھی. عدّو کو ذرا مایوسی ہوئی. تھوڑی دیر بعد وہ ہوٹل گیا اور وہاں زینت کے نام ایک پیغام چھوڑ آیا.” میں دگمول ہال جا رہا ہوں، وہاں ایک نئی جاپانی وائلن نواز کا کنسرٹ ہے. اگر تمہیں دلچسپی ہو تو آجاؤ.”
شام کے ابتدائی حصّے میں وہ ادھر ادھر گھومتا رہا. ایک چھوٹے سے ہوٹل میں اس نے چاۓ پی پھر وگمورہال پہنچا.
وہاں زینت و دیکھہ کر وہ کھل اٹھا. زینت نے خوش دلی سے کہا “آپ کا پیغام مل گیا تھا’ شکریہ. میں ایک اور جگہ جا رہی تھی مگر وہاں کوفت کا امکان زیادہ تھا اس لیے ایاندو کو بھیج دیا”. عدّو کو ایاندو کے ذکرسے نہ معلوم کیوں دھکا سا لگا. زینت ایک معمولی ساڑی بندھے ہوئے تھی. اس نے بالوں کا بڑا سا جوڑا بنا کر گوتم بدھ کے مجسمے کی طرح سر پر جما رکھا تھا. تمام ثقافت پسند لوگوں کی نظریں اس کی طرف رہی تھیں. “عدّو نے ذرا جھنجھلاہٹ سے سوچا’ معلوم نہیں کیا بات ہے’ بلکل معمولی اور سادہ فیشن کے باوجود زینت اپنی شخصیت کو ایسا رخ دے دیتی ہے کہ سب کی نظریں اسی پر پڑنے لگتی ہیں.”.
شام زیادہ دلچسپ نہیں رہی کیونکہ عدّو کی تمام کوششوں کے باوجود زینت نے اپنے بارے میں کچھہ نہیں بتایا’ اس کے علاوہ وہ وائن پیتی رہی. کنسرٹ کے وقت وہ اس قدر پی چکی تھی کہ ہال میں اونگھتی ہی نہیں رہی بلکہ باقاعدہ سوتی رہی. عدّو نے دو تین باراسے دیکھا پھر خمنوشی سے سامنے دیکھنے لگا.وائلن نواز نے اپنی شخصیت موتزارٹ کے ارفع ترین آدرش میں سمو کر رکھہ دی تھی.
کنسرٹ کے بعدعدّو نے زینت کو ایک چینی ہوٹل میں کھانے کی دعوت دی مگر اس نے انکار کردیا کیونکہ دوسرے شہر کی ایک اچھی آرٹ گیلری میں اس کی نئی تصویروں کی نمائش شروع ہونے والی تھی. عدّو نے اسے باہر سڑک پر ایک گاڑی سے اتارا تو دیکھا کہ ایک جاپانی توئٹا کار اس کے انتظار میں کھڑی ہے. سڑک اچھی طرح روشن تھی پھر بھی وہ ڈرائیور کے متعلق پورا اندازہ نہیں لگا سکا. اس نے زینت کے ساتھہ کار تک جانا بھی گوارا نہیں کیا، وہیں سے اسے الوداع کہ کر وہ ہال کی پچھلی طرف والی سڑک پر آگیا’ یہاں اس کی گاڑی کھڑی تھی.
دوسرے دن اتفاق سےعدّوکی چھٹی تھی. وہ ساوتھہ بینک گھومتا گھامتا آرٹ گیلری چلا گیا. وہاں اس نے رات والے ڈرائیور کو پوری روشنی میں دیکھا’ وہ گنپتی تھا. معلوم نہیں گنپتی نے اسے دیکھا یا نہیں مگر زینت نے عدّو سے خود ذکر کیا. گنپتی بڑا پرجوش انقلابی ہے. تیسری دنیا کے مسائل پر بہت ڈپٹ کر بولتا ہے. تمام قابل ذکر تہذیبی وادبی مجلسوں میں شرکت کرتا ہے. جنوبی مشرقی ایشیائی سوسائٹی کا سرگرم رکن ہے اور گارجین اور اسٹیٹس مین کے حلقوں میں لوگ اس کا خاصا ادب کرتے ہیں.”
عدّوخاموشی سے سنتا رہا. اپنی پیالی میں خواہ مخواہ چمچا ہلاتے ہوئے اور پیالی میں دیکھتے ہوئے اس نے پوچھا.”تم ککب سے جانتی ہو اسے؟”
“یہیں ایک تصویری نمائش میں ملا تھا. دو ایک جاننے والوں کے ذریعے میرا اس سے تعارف ہوا. کیوں کیا آپ اسے جانتے ہیں؟”
عدّو نے کہا. “بہت اچھی طرح جانتا ہوں. یہ آرے میں تھا. میں ان دنوں وہاں نیا’ ڈی ایس پی ہو کر گیا تھا.”
“آپ ملے کیوں نہیں اس سے؟ اچھا کل میں آپ کو ملاؤں گی.” “نہیں میرا خیال ہے ملنے سے بہتر یہ ہے کہ تم سردست میرا ذکر کردینا. اگر وہ کچھہ گرم جوشی ظاہر کرے تو ملنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ورنہ سبکی کا ڈر ہے.” بات آئی گئی ہو گئی
کئی دن بعد زینت نے بتایا کہ گنپتی سے عدّو کا ذکر ہوا تھا. عدّو نے زینت کا چہرہ دیکھا اور سراپا سوال بن کر پوچھا.”پھر؟”
“وہ آپ کو ری ایکشنری’ ٹوڈی اور کیئریرسٹ کہ رہا تھا.”
عدّو نے مسکرا کرکہا. یہ الفاظ تو اس نے انٹرنیشنل پیمانے پراور عالمی تناظر میں استعمال کے ہیں ورنہ آرے میں اس نے مقامی بولی استعمال کی تھی یعنی کہ میں پاکستانی جاسوس ہوں اور مسلمان غدار ہوں.”
کیا مطلب! کچھہ اور بتائیے؟”
“پورا قصّہ یہ ہے کہ حکومت نے کچھہ جھگیوں کی صفائی کا حکم دیا تھا. میں نے حکم کی تکمیل کے لیے جھگی والوں کو نوٹس دیا کہ وہ ایک ہفتے کے اندر جگہ خالی کردیں ورنہ پولیس سب کو بے دخل کر دیگی. چھہ سات دن کچھہ نہیں ہوا پھر ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ میں پولیس لے کر جاؤں اور جھگیوں کی صفائی شروع کردوں مگر اس وقت تک گنپتی آ چکا تھا’ یہ جن سنگھہ کا لیڈر تھا. اس کا باپ بھی مہا سبھا کا مقامی لیڈر تھا. ان لوگوں کو جھگی والے ایک روپیہ فی جھگی کے حساب سے روزانہ دیتے تھے. گنپتی کے ساتھیوں نے وہاں کہیں سے لا کر دو چار مورتیاں رکھہ دیں’ ایک سادھو ترشول لگا کر بیٹھہ گیا اور شہر میں افواہ اڑادی گئی کہ مسلمان ڈی ایس پی نے ایک مندر اکھاڑ پھینکا ہے. افواہ پر بہت زور کا فساد ہوا. میں نے وزیر داخلہ کو لکھا کہ وہ عدالتی تحقیقات کرائیں’ وہاں مندر کب تھا؟ اور نوٹس ختم ہونے کے کے دن ہی کیسے وجود میں آگیا؟ میں نے جن سنگھہ کی سرگرمیوں کے بارے میں ایک تفصیلی جائزہ بھی بھیجا مگر وزیرداخلہ خود کمزور تھا اس کے بہت سے رشتےدار جن سنگھہ میں شامل تھے’ اسنے کوئی قدم نہیں اٹھایا پھر ڈپٹی کمشنر کا تو کچھہ نہیں بگڑا’ میرا ایک انتہائی گم نام سی جگہ تبادلہ کردیا گیا.ہندی اخبار سب گنپتی اور جن سنگھہ کے زیر اثر تھے’ انہوں نے یہ خبر شائع کی کہ میں پاکستانی جاسوس ہوں اور میرے گھر میں پاکستانی ریڈیو سنا جاتا ہے. میں نے غصّے میں ملازمت پر لات ماردی.”
سنتی رہی پھر بولی! تعجب ہے. یہاں تو یہ بہت بڑا ترقی پسند سمجھاجاتا ہے. مجھہ سے مسلمان عورتوں کی مظلومی وغیرہ کے بارے میں خاصی سمجھہ داری کی باتیں کرتا ہے. ذاتی طور پر میرا بہت ہی خیر خواہ ہے.”
“لڑکی کے تو سبھی خیر خواہ ہو جاتے ہیں.”
“آپ اتنے کٹر مسلمان کیوں ہوتے جا رہے ہیں. مجھے یاد ہے’ آپ تو بڑے سیکولر تھے.”
“اس سوال کے جواب میں میں تمھیں ایک سوال پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہوں. سر سید احمد بہت زبردست قوم پرست اور ہندو مسلم اتحاد کے شدید مبلغ تھے لیکن بعد میں وہ صرف مسلمانوں کے مسائل پر غور کرنےلگے. اقبال ایک عظیم وطن دوست اور ہندو مسلم دوستی کے سرگرم علمبردار تھے مگر پھر وہ محض مسلمانوں کے ترجمان بن گئے. محمّدعلی جناح سے بڑا قوم پرست ان کے ساتھیوں میں کون تھا؟ ان کے تو سارے دوست انگریز اور ہندو تھے. مسلمانوں سے ان کے مراسم براۓ نام بھی نہیں تھے مگر بعد میں وہ بھی صرف مسلمانوں کے وکیل ہو گئے اور اس شدومد سے ہوئے کہ انہوں نے لوہے کے حصاروں کی طرح مضبوط کانگریسی قیادت کی چولیں ہلا کر رکھہ دیں. غلطی ایک آدمی سے ہو سکتی ہے. یہ تین اتنے عظیم اور عاقل ودانا لوگ ایک ہی غلطی کے کس طرح مرتکب ہو گئے؟ تم پچھلے سو برسوں کی ہندوستانی تاریخ کا تجزیہ کروگی تو مجھے مسلمان ہو جانے کا طعنہ نہیں دوگی؟”
زینت نے کہا.”بہرحال میں کسی کو ہندو، مسلم، سکھہ، عیسائی کی نظر سے نہیں دیکھتی. غور کیا جاۓ تو انسانوں میں سب سے بڑی تقسیم امیروغریب کی ہے. بنیادی طور پر میں اپنے رشتےداروں کے مقابلے میں ایک غریب ہندو سے زیادہ قریب ہوں. میرے تمام قریبی عزیز مال دار تھے’ انھوں نے مجھے اور میرے ماں باپ کو اچھوت سے بد تر بنا کررکھہ دیا تھا. جن لوگوں نے میری پڑھی لکھی ماں کو دیوانی بنایا’ وہ بڑے دین دار لوگ تھے. ہمارے ماموں جان نماز روزے کے کتنے پابند تھے’ بچپن سے آخر تک انھوں نےکبھی روزے قضا نہیں کیے مگر جب میرا بھائی احمد بیماری سے سسک رہا تھے تو سگے ماموں کی جیب سےدوا کے لیے دو روپے بھی نہ نکل سکے.”
میں نے جواب میں زیر بحث موضوع کے مختلف پہلوؤں اور ان کے اسباب پرکچھہ گفتگو کی پھر کہا کہ”میں اتنی عمر میں صرف ایک نتیجے پر پہنچا ہوں’ وہ یہ ہے کہ دنیا کی کوئی عورت بے وقوف نہیں ہوتی. عورتوں کے اخذ کیے ہوئے نتیجے عموما صحیح اور مثبت ہوتے ہیں. مشکل یہ ہے کہ مرد حقیقت واضح طور پر تسلیم کرنے سے شرماتا ہے.”
“چلیے ایک بات تو آپ نے غیر اختلافی کہی”. زینت ہنسنے لگی. عدّو نے گھڑی پر نظر ڈالی اور جلدی سے کھڑا ہو گیا. دفتر کے وقت میں صرف پانچ منٹ رہ گئے تھے.
زینت کے بارے میں بہ ظاہرعدّو بہت غیر جانب داری سےسوچتا تھا مگر وہ محسوس کرتا تھا کہ ان سوچوں کی تہ میں کچھہ اور بھی ہے مگر کیا؟ اس بارے میں اس نے کسی ذہنی توجیہہ وتشریح کی کوشش نہیں کی. وہ شاید اپنے آپ سے بھی ڈرتا تھا. کہیں اس کے تحت الشعور سے کچھہ اور برآمد نہ ہو. ویسے وہ اب اکیلے کہیں جانے کے بجاۓ یہ پسند کرنے لگا تھا کہ تقریبات اور تفریح میں اس کے ساتھہ کوئی اور بھی ہو. اس کا خیال تھا کہ اکیلے کسی محفل میں جانا اپنی سماجی ناکامی کا ڈھنڈھورا پیٹنے کے برابر ہے.
ایک ہی شخصیت کے دو چہروں کے مختلف احساسات میں مبتلا تھا. ژینیت میں ایک دوری تھی مگر زینت قریب تھی. ژینیت کا تصور کرتے ہی اسے ان جانے اندیشے گھیر لیتے مگر زینت کے خیال سے وہ ایک قسم کی طمانیت محسوس کرتا. زینت کے بارے میں اسے بہت کچھہ معلوم تھا مگر ژینیت کے بارے میں کوئی خبر نہیں تھی. یہ بھی بدلے ہوئے حالات ہی کا اثر تھا کہ اس نے ژینیت کے متعلق کوئی تفشیش کرنے کی کوشش نہیں کی ورنہ کسی بھی سراغ رساں ادارے کو فون کرکے وہ گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے میں ژینیت کا سارا کچا چٹھا معلوم کر سکتا تھا مگر ژینیت کے لیے اس نے ایسا نہیں کیا. معلوم نہیں کیوں اسے ڈر تھا کہ بعض ایسی باتیں بھی معلوم ہو سکتی ہیں کہ اسے خواہ مخواہ افسوس اور رنج ہوگا.
دن کے وقت تصویری نمائش کے دوران اکثر اس کا اور زینت کا ساتھہ ہو جاتا. وہ والڈورف کے پائیں باغ میں دن کے کھانے کے وقت کولڈ سالڈ اور کافی وغیرہ سے شوق کرتے. اس کے بعد زینت اپنی نمائش میں چلی جاتی اور عدّو دفتر کی راہ لیتا.
وہ دفتر سے گیارہ بارہ بجے کے قریب اپنے فلیٹ پہنچتا تو زینت کو ٹیلی فون کرنے کا ارادہ کرتا مگر صرف سوچتا رہ جاتا. اسے کئی بار یہ معلوم کرنے کا خیال آیا کہ نمائش کے بعد زینت کہاں جاتی ہے مگر اسے خوف تھا کہ اگر زینت کو اس کے تجسس کا پتہ چل گیا تو وہ بہت برا مانےگی اور کیا پتہ’ اس سے پھر نہ ملے. فی الحال عدّو کے لیے یہی کافی تھا کہ زینت محض ایک جاننے والی کی حیثیت سے اس سے ملتی رہے. وہ دونوں ساؤتھہ بینک کی ادبی وتہذیبی ہماہمی پر خوب باتیں کرتے.
نمائش کے اختتام پر زینت عدّو کو کچھہ بتاۓ بغیر بوڈا پسٹ چلی گئی. وہاں بھی ایک چھوٹی نمائش کا اہتمام تھا. ایک سہہ پہر عدّو نے ایاندو کو ایک نشست پر لیٹے ہوئے کوئی ہسپانوی ناول پڑھتے دیکھا. ایاندو نے اشاروں اور ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں اسے بتایا کہ ژینیت بوڈاپسٹ میں ہے اور وہاں سے کہیں اور جاۓ گی.
اس شام وہ خود کو بہت اکیلا اکیلا اداس اداس کر رہا تھا مگر اپنے آپ کو سمجھانے کی کوشش بھی کر رہا تھا کہ مجھےآخر زینت میں اتنی دلچسپی لینے کی کیا ضرورت ہے. میرا اور اس کا کیا تعلق ہے؟ میں کون ہوتا ہوں اس کی نقل وحرکت پر نظر رکھنے والا؟
جمعے کی شام تھی چاروں طرف ہنگامہ سا تھا. بازاروں میں کرسمس کی روشنیاں جگ مگا رہی تھیں. عدّو کی چھٹی تھی. وہ بے حد تنہا تھا. کلب یا تھیٹر جانے کے بجاۓ اس نے اپنے فلیٹ جا کر کچھہ لکھنے پڑھنے کا فیصلہ کیا.
فلیٹ میں داخل ہو کر اس نے دیکھا کہ ہر طرف سوٹ کیس اور تھیلے پڑے ہیں. کھانے کے کمرے سے باتوں کی آواز آرہی تھی. وہ ایک دم سن ہو کر رہ گیا. آپاجان کینیڈا سے وطن واپس جاتے ہوئے لندن آگئی تھیں. آپاجان وہ اپنی اماں کو کہتا تھا. اس کی اماں اپنی بہنوں میں سب سے بڑی تھیں اس لیے سب انھیں آپاجان کہتے تھے. سب سے سن سن کر انکی اولاد بھی انھیں آپاجان کہنے لگی. چوکی دار کوعدّو نے ہدایت کر رکھی تھی کہ وہ اس کے مہمانوں کے لیے فلیٹ کھول دیا کرے. اس طریقے کا نقصان اسے آج معلوم ہوا. اسے یقین تھا کہ آپاجان نے آتے ہی ایک حسب عادت ایک ایک کونہ ٹٹولا ہوگا. اس طرح شرابوں کی الماری بھی ان سے پوشیدہ نہیں رہی ہوگی. اس کے فلیٹ میں کوئی چیز مقفل نہیں رہتی تھی.
وہ جھپٹ کر آپاجان کے گلے لگ گیا. ماں نے بولنا شروع کردیا’ معلوم ہوتا تھا کہ باتوں کا سیلاب آگیا ہے. آپاجان کے ساتھہ عدّو کے بڑے سالے نور میاں اور بڑی بہن کا لڑکا مسعود بھی تھا. وہ دونوں بیچ بیچ میں بولتے جاتے اور آپاجان کے نامکمل جملوں کی تکمیل کرتے.
آپاجان ٹھسے سے صوفے پرآلتی پالتی مارے بیٹھی تھیں. عدّو بھی اپنی کرسی قریب گھیسٹ لایا تھا. آپاجان کی باتوں کا ریلا ذرا تھما تو عدّو نے پوچھا.”آپ نے نہ ٹیلی فون کیا’ نہ خط لکھا. اطلاع کے بغیر کیسے آگئیں؟”
“اے بیٹا! خدیجہ نے تمھ دو تین بار ٹیلی فون کیا. تم نہ گھرملے نہ دفتر. اور خط تو میں نے خود تم کو لکھا تھا کہ واپسی میں لندن ضرور رکوں گی. تم کو ائیرپورٹ پر نہ دیکھہ کر میرا دل دھک سے رہ گیا تھا کہ خدانہ خواستہ کوئی پریشانی کی بات تو نہیں ہے. وہ تو کہوں نور میں پہنچ گئے تھے ورنہ مسعود کو ساتھہ لیے کہاں کہاں بھٹکتی پھرتی.”
عدّو ذرا چکرا کے بولا.”نہیں آپاجان! مجھے ذرا بھی معلوم نہیں تھا آپ کا پروگرام. میں تو سمجھہ رہا تھا’ آپ مہینے کے آخرسے پہلے ہی کینیڈا سے چلیں گی ہی نہیں.”
آپاجان نے اسکی کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے اچانک پوچھا. “اور یہ زینت یہاں کیا کرتی ہے؟”
“معلوم نہیں. بس یہی پینٹنگ وغیرہ کرتی ہے یعنی تصویریں بناتی ہے”.عدّو نہ انتہائی بے پرواہی سے جواب دیا.
نورمیاں اور آپاجان کو یقین ہو گیا کہ زینت کا وجود عدّو کے لیے ہمیشہ کی طرح آج تک محض تام چینی کے چھدرے پیالے سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا. پھر بھی آپاجان بولیں.”میرا مطلب ہے کہ تمھارے فلیٹ میں کیا کر رہی تھی وہ؟” ان کا لہجہ استغاثے کے وکیل کی جرح جیسا تھا.
عدّو نے کوئی گھبراہٹ ظاہر نہیں کی.”وہ تو کئی بار یہاں آچکی ہے.اس کی تصویروں کی نمائش پر ہمارے اخبار میں تبصرہ ہوا تھا’ اسی سلسلے میں وہ مجھہ سے بات کرنے آئی تھی. اسی نے مجھے پہچان لیا پھر بہت دنوں بعد ایک بار اس نے یہاں آکر کھانا بھی پکایا.”
ماں کو ایک طرح کی تسلی ہو گئی. نور میاں مدھم مدھم نظر آنے لگے پھر بھی آپاجان نے بےجھجک دو ٹوک کہا. “بیٹا! وہ شریفوں سے ملنے کے قابل نہیں ہے. خبردار جو تم نے اسے ذرا بھی منہ لگایا. ویسے بھی یہ چھوٹے گھر والے ہمیشہ کے فسادی ہیں.” نوابو چچا کے گھر والے چھوٹے گھر والے کہلاتے تھے.
اور کوئی موقع ہوتا تو عدّو شاید کچھہ بحث کرتا مگر نور میاں کے سامنے اس نے یہ ذکر ختم کردینا ہی مناسب سمجھا. خیرچھوڑیے. یہ بتائیے کہ منجھلے بھائی اب کیسے ہیں؟ میں نے ایک ہفتے کی چھٹی لی ہے. انہیں دیکھنے جانے کے خیال سے.”
“اب الله کا شکر ہے’ اچھے ہیں. وہ تو کہو’ جان بچ گئی”. آپاجان کا دھیان بٹ گیا.
خدیجہ عدّو کی منجھلی بہن تھی’ اس کے شوہر پر دل کا دورہ پڑا تھا. اسی سلسلے میں عدّو کی اماں مونڑیال گئی تھیں. ان کا کہنا صحیح تھا کہ خدیجہ نے کئی بارٹیلی فون کیا مگر عدّو ملا ہی نہیں.
عدّو کی سمجھ میں بہت سی باتیں آرہی تھیں. مثلآ یہی کہ زینت اسے کچھہ بتاۓ بغیر کیوں چلی گئی’ آپاجان اچانک یہاں کیوں آپہنچیں اور سعید کے بھائی نور میاں آپاجان کی مصاحبت میں کیوں ہیں.
نور میاں آپاجان سے اس طرح گپ شپ کر رہے تھےکہ عدّو کو بارہ بنکی ردولی اورسترکھہ کے وہ سب اعزا یاد آگئے جو پان چبا چبا کر تمام رشتےداروں کے بخیے ادھیڑتے اور خاندانی جھگڑوں پر سیر حاصل تبصرے کرتے. وہ عام طورپرغیبت میں غضب کی مہارت رکھتے تھے. اس طرح کے لوگ تمام تقریبوں کے انتظامات خود بہ خود اپنے ذمے لے لیتے. شادی ہو یا غمی’ برات آرہی ہو یا جنازہ جا رہا ہو’ دولھادلھن سے ایجاب و قبول کرایا جارہا ہو یا قبر میں میت اتری جا رہی ہو. یہ لوگ کہے سنے بغیر منتظم بن جاتے تھے. ایسے لوگ لڑنے جھگڑنے اور طعن و تشنیع کی برچھیاں چلانےمیں بھی آگے آگے رہتے اور صلح و صفائی کی کوششوں میں بھی پیش پیش.
نور میاں جیسوں کے حلیے بدل چکے ہیں مگر ایک طبقے کی حیثیت سے وہ آج بھی ہر جگہ زندہ اور مصروف عمل ہیں. عدّو کے یہ سالے صاحب ہندوستان میں شیعہ کالج میں کیمیا کے لیکچرر تھے. آج کل ویمبلے میں ایک کیش اینڈ کیری اسٹور اور حلال میٹ کی دکان کے مالک تھے. یہ ہمیشہ ہر خاندانی جھگڑے کا مرکزی کردار ہوتے تھے’ اکثر جھگڑوں میں فساد کی جڑ موصوف ہی کی شخصیت ہوتی تھی. لگائی بجھائی اور فضول باتیں بکنے میں
انہیں کمال حاصل تھا. اس وقت بھی تھری پیس سوٹ پہنے وہ اس طرح دربارداری میں مصروف تھے گویا ساؤتھمپٹن روبھی محلہ اشراف یا قاضی گڑھی کا ایک حصّہ ہو’ ان کے سر پربالوں کا جنگل بھی ہمیشہ کی طرح اگا ہوا تھامگر اب بال بڑی محنت سے رنگے ہوئے تھے اور خوب چمک رہے تھے مگر انکی چاکلیٹی رنگت’ گول گول چہرے اور عبرت ناک توند کی وجہ سے انھیں کسی چکن کری ہاؤس کے مالک کے سوا کچھہ نہیں سمجھا جا سکتا تھا. انھیں عدّو کے بارے میں خاصی معلومات حاصل تھیں. خود عدّوکو حال میں اپنی ایک بہن کے خط سے پتہ چلا تھاکہ”نور میاں بھی تو لندن میںرہتے ہیں”.نور میاں اور آپاجان کی باتوں سے ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے خاندان کے تمام افراد ترک وطن کرکے انگلستان یا کینیڈا میں بس گئے ہوں. نور میاں باتیں کرتے کرتے نہایت اطمینان سے سگریٹ کی راکھہ قالین پر گراتے رہتے. ایک بار مسعود نے راکھہ دان کی طرف اشارہ کیا تو انھیں کچھہ احساس ہوا اور وہ چاۓ کی پیالی یا طشتری ایش ٹرے کے طور پر استعمال کرنے لگے.
ایک ہفتے تک نور میاں آپاجان کو دور اور قریب کے رشتے داروں سے ملانے لے جاتے رہے. آپاجان اورعدّو کو فرصت سے بیٹھنے کاموقع کم ہی ملا حالاں کہ عدّو نے کینیڈا جانے کے لیے جو چھٹی لی تھی’ وہ آپاجان کے قیام کی وجہ سے لندن ہی میں گزاری.
نور میاں کی ایک لڑکی حمیرہ تھی. اسے بھی مصوری کا شوق تھا. اس نے ہیورڈ گیلری میں ژینیت کی تصویری نمائش دیکھی تھی اور بہت متاثر ہوئی تھی. ایک تصویر کا کوری کےعرس کی بھی تھی. اس میں درگاہ کے راستے میں پڑے ہوئے فاقہ کش بچے دکھاۓ گئے تھے. کاکوری کا نام حمیرہ نے اپنے گھر میں سنا تھا اس لیے زینت سے مل کر اس سلسلے میں کچھہ جانناچاہا. زینت دوسرے لوگوں سے گھری ہوئی تھی. اس نے حمیرہ کو ٹال دیا.
بعد میں حمیرہ نے اپنے باپ سے اس کا ذکر کیا. نور میاں کو مصوری وغیرہ کا شعور تو خیر کیا ہوتا مگر کاکوری کا نام سن کرانھیں بھی اشتیاق ہوا’ وہ وہاں گئے اور زینت کو انھوں نے پہچان لیا. زینت نے نظر اٹھا کر انھیں دیکھا بھی نہیں، بس پھر کیا تھا. نور میاں نے زینت کے بارے میں بہت کچھہ معلوم کرلیا. اس کی عدّو سے ملاقاتوں کا حال بھی انھیں کسی نہ کسی طرح معلوم ہو گیا. اس کا ذکر انھوں نے فورا آپاجان کے نام ایک خط میں کرنا ضروری سمجھا. آپاجان اپنے داماد کی عیادت کے لیے کینیڈا میں تھیں. نور میاں کا خط ملتے ہی انھوں نے مونٹریال میں اپنے قیام مختصر کردیا اور پہلی فرصت میں لندن پہنچ گئیں.
نور میاں کی بہن سعیدہ عدّو کو کھڈ تو چھوڑ کر چلی گئی تھی. عدّو نے بھی پلٹ کر نہ پوچھا. عدّوکے والد نے اسے میاں بیوی کا معاملہ قرار دے دیا اور کوئی دلچسپی نہیں لی. سعیدہ کے گھر والے آپاجان ہی پر انحصار کیے بیٹھے رہے. اس کا خیال تھا کہ آپاجان ڈانٹ ڈپٹ کرعدّو کوآمادہ کرلیں گی کہ وہ سعیدہ کو لے آۓ. عدّو کا کہنا تھا’ نہ میں نے بیوی سے کہا تھاکہ جاؤ’ نہ یہ کہوں گا کہ آجاؤ. وہ اپنی مرضی سے گھر چھوڑ کر گئی ہے، میں کیوں اسے ہاتھہ جوڑ کر منانے جاؤں.
آپاجان نے اس جملے کی معقولیت ہمیشہ تسلیم کی تھی. انھیں بھی سعیدہ پر غصّہ تھا مگر دوسری طرف وہ اس امر سے بھی ڈرتی تھیں کہ اس گھرانے میں جو بات اب تک نہیں ہوئی تھی’ کہیں وہ نہ ہو جاۓ. ان کا مطلب طلاق سے تھا. انہوں نے عدّو سے کہ دیا تھا کہ “میرے جیتے جی طلاق ولاق کی لعنت اس گھرمیں داخل نہیں ہوگی.” اس بات پرگھر میں آۓ دن چخ چخ رہنے لگی توعدّو تانگ آ کر ملک سے بھاگ کھڑا ہوا.
لیکن نور میاں کی وجہ سے اب وہ یہاں بھی اپنی ماں کی چکر میں پھنس گیا تھا. نور میاں آپاجان کے ساتھہ ساۓ کی طرح اس لیے لگے ہوئے تھے کہ عدّو سے کچھہ کہیں. امریکا کی سیر کے افسانے لوگوں نے بڑھا چڑھا کر سعیدہ اور اس کے گھر والوں تک پنچاۓ. نور میں کو بھی لندن کے صحافیوں کی حیثیت کا تھوڑا بہت اندازہ تھا. اس وجہ سے عدّو کی بیوی سعیدہ شاید اسی نتیجے پر پہنچ چکی تھی کہ اس کا شوہر خبطی نہیں تھا. وہ خود جب چاہتی عدّو کے پاس آ سکتیتھی مگر اس کے لیے بھی یہ بےغیرتی تھی کہ وہ یوں بے بلاۓ منہ اٹھاۓ پہنچ جاۓ.ادھرعدّو کی بہن ایک بار کہہ چکی تھی کہ “میرا بھیا سعیدہ کو لینے کیوں جاۓ’ سعیدہ جب تک اپنا تھوکا نہ چاٹے’ ہماری جوتی کو کیا پڑی ہے کہ اس کے ناز اٹھائیں اور بھلا عدّو کو بیویوں کی کونسی کمی ہے. خوش رہے میرا بھائی’ گلی گلی بھر جائی”.
آپاجان کو بھی یہ احساس ہو گیا تھا کہ سعیدہ یا اس کے گھر والوں کے لیے کیا مشکل ہے، اس لیے اب وہ چاہتی تھیں کہ عدّوبراۓ نام سہی’ اپنے لڑکے کو دیکھنےکے بہانے سہی، دو سطریں لکھہ دے. یہی سبب تھا کہ عدّو کی زینت سے دوستی کی بھنک کان میں پڑتے ہی آپاجان کوئی فیصلہ کن قدم اٹھانے لندن آئی تھیں.
واپسی سے ایک دن پہلے آپاجان حمیرہ’ مسعود اور نورمیاں سے باتیں کر رہی تھیں. عدّو بھی آ گیا. آپاجان کسی تمہید کے بغیربولیں.”عدّو بیٹے! یہ حمیرہ تو زینت کی بڑی تعریف کرتی ہے؟” یہ گول مول طریقے سے گفتگو کسی خاص منزل تک لے جانے کی کوشش تھی. آپاجان کی گفتگو شطرنج کے کھیل کی طرح ہوتی تھی. شطرنج میں ایک دو مہرے غیر ضروری طور پر ادھر ادھر کرنے سے مخالف کی توجہ ہٹانے کی کوشش کی جاتی ہے مگر اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ فرزیں یا رخ کے سہارے کوئی بڑا جارحانہ قدم اٹھانے کی مہلت مل جاۓ. اس طرزگفتگو میں آپاجان کو مہارت حاصل تھی مگر ان کا بھول پن یہ تھا کہ وہ یہ کھیل اپنے بیٹے ہی سے کھیلنے کی کوشش کر رہی تھیں.
عدّو نے ابتدائی عمر سے یہ طور طریقے اچھی طرح سمجھہ لیے تھے. اس نے ٹائی کی گرہ ڈھیلی کرتے ہوئے کہا.”ارےگولی ماریے زینت کو. یہ بتائیے کہ آپ واپس کب آئیں گی؟ صبح سویرے آپ کی پرواز ہے. وقت سے بہت پہلے ہوائی اڈے پہنچنا ہے.”
نور میاں بیچ میں کود پڑے.”ایک حمیرہ کا کیا ذکر’ تعجب تو مجھے بھی ہوتا ہے زینت کو دیکھہ کر پوری یورپین لگتی ہے. نوابوچچا کے گھر میں رنگ تو سب کا گورا تھا”. نور میاں کے لہجے میں رشک کا جذبہ بھی تھا کیوں کہ ان کی دونوں لڑکیاں اچھی خاصی کالی تھیں اور رنگ روپ کے بارے میں نور میاں اسی افسردہ مفروضے کا شکار تھے کہ گوری چمڑی خوب صورتی کی دلیل ہوتی ہے.
“ارے توبہ کرو. ایسا بھی کیا رنگ. گورا آدمی بلکل پھیکا شلجم لگتا ہے. مجھے تو سب سے زیادہ برا احمد لگتا تھا. کیسا لال لال تھا، بلکل بندر کے موافق.” آپا جان گوری رنگت کی برائی میں مصروف ہوگئیں. نورمیاں کو قرار سا آگیا مگر آپا جان نے پھر گفتگو کو ایک غیر متوقع موڑ دے دیا. “اے ہاں عدّو میاں! اب تمھاری تن خواہ کیا ہے؟”
عدّو گڑبڑا گیا. وہ اپنی ماں سے جھوٹ نہیں بول سکتا تھا مگر نور میاں’ حمیرہ اور مسعود کے سامنے یہ واہیات ذکر نبھانا مشکل تھا. وہ ذراسنبھل کر بولا.”آپا جان! یہاں تن خواہ وغیرہ سے کچھہ نہیں ہوتا. مہنگائی اتنی ہے کہ کیا کیا جاۓ.اب اس کا فلیٹ کا کرایہ ہی پانچ سو پونڈ مہینہ ہے”.
“پانچ سو پونڈ؟” آپاجان تقریبا چلّ اٹھیں. عدّو کو ہنسی آگئی.
حمیرہ بولی.”پانچ سو پونڈ دے کر تو ایک مکان خرید سکتے ہیں.”
“مگر وہ ایسے اچھے اور مرکزی مقام پر تھوڑی ملے گا.” مسعود نے انگریزی میں کہا.
نور میاں نے اندھیرے میں تیر چلایا.”لندن کے کسی اخبار میں بیس ہزار سے کم تن خواہ ہوتی ہی نہیں.”
عدّو کو بہت غصّہ آرہا تھامگر وہ صرف اپنی ماں کی وجہ سے ضبط کر رہا تھا. آپاجان کو اس کے چہرے سے کچھہ اندازہ ہوگیا’ انہوں نے بات بدلی.”اب تم گھر کب آؤگے؟ رمضان کے بعد آجاؤ تو اچھا ہے. ظہور میاں کے بیٹے کی شادی بھی ہے”.
عدّو کچھہ نہیں بولا. وہ آپاجان کا پاسپورٹ اور ہوائی جہاز کا ٹکٹ بے وجہ دیکھتا رہا. اس نے دیکھا کہ نور میاں نے سگریٹ کی راکھہ پھر فلیٹ کے بڑھیا قالین پرگرا دی ہے اور بڑی چالاکی سے اسے جوتے کی نوک سے صوفے کے نیچے دھکیلنے کی کوشش کر رہے ہیں. گویا کسی نے دیکھا نہ ہو. رااکھہ کا گل ان کے جوتے کی نوک سے ایسا بکھرا کہ اس کا صوفے کے نیچے چھپانا مشکل ہو گیا.نور میاں نے اپنی ٹانگ اپنے حسابوں بے پروائی سے ہلاتے ہلاتے بکھری ہوئی راکھہ رگڑ دی. اس کا دھبہ بھی قالین کے گل بوٹوں کا جزو بن گیا تھا. نورمیاں نے اطمینان کی سانس لی مگر اس کےسان گمان میں بھی نہ تھا کہ عدّو نے جھنجلاہٹ میں یہ سب کچھہ دیکھہ لیا ہے. اس سے پہلے نور میاں فلیٹ کے ٹوائلٹ میں قدم رنجہ فرما چکے تھے اور وہاں بھی اپنی بچپن کی عادتوں کے ثبوت چھوڑ آۓ تھے. عدّو نے کئی بار خاموشی سے فلیٹ اورٹوائلٹ صاف کیا تھا تاکہ صفائی کرنے والی عورت یہ قصباتی طریقے دیکھہ کر اپنے جاننے والوں میں انھیں بھی پیکی جوکس کے طور پر استعمال نہ کرسکے.
معلوم نہیں’ کہاں کہاں کی بات کرتے ہوئے آپا جان نے کہا. “تمھارا کفیل کو بھی دیکھنے کا دل نہیں نہیں چاہتا؟”
عدّو اپنے خیالوں میں کھویا ہوا تھا. وہ چونکا. اس نے سوچا کہ کچھہ کہے مگر اس کی نظر نور میاں پرپڑگئی. وہ جلدی سے کھڑاہوگیا. “اٹھیے. وقت ہو گیا ہے. اب ٹریفک کم ہو گیا ہو گا”.
نور میاں آپا جان کو کسی رشتےدار کے ہاں لے جانے آۓ تھے سب لوگ چلنے کے لیے تیار ہو گئے. عدّو نے حسب معمول جانے سے انکار کردیا. وہ نور میاں کی ساری سیاست سمجھہ چکا تھا اور اب اس سے ان کی صورت سے بیزاری ہو رہی تھی.
دوسری صبح عدّو آپاجان کو ہوائی اڈے پر رخصت کرنے چلا. اس نے پلٹ کر نورمیاں پر نظر بھی نہیں ڈالی. نور میاں مسلمانوں کی ایک جماعت کے رہنما سے یہ معلوم کرکے مسرت کا اظہار کر رہے تھے کہ خلا باز نیل آرم اسٹرانگ مسلمان ہو گیا ہے.
نور میاں کی سرگرمیوں سے بڑا نقصان ہوا ہے. عدّو کے شب و روز میں اچھا خاصہ خلل پڑ گیا ہے. پہلے وہ سکون سے گمنامی کے دن گزار رہا تھامگر اب بہت رشتےداروں کو اس کا علم ہو گیا. طرح طرح کے لوگ اسے وقت بے وقت فون کرنے لگے. عجیب عجیب تقریبوں کے دعوت نامے ملنے لگے. کوئی منیر بھائی تھے انکے لڑکے کا عقیقہ تھا. کوئی مجاہد بھائی تھے’ انہوں نے رجب کے کونڈوں میں بلایا تھا اور ایک جبار ماموں تھے، ان کے گھر ختم خواجگاں تھا اور اپنے ریاض چچا کے گھر گیارھویں کے فاتحہ میں شرکت نہ کرنا تقریبآ جرم تھا. پھر عاشور انکل تو عدّو کے لڑکپن کے ساتھی تھے انہوں نے مجلس عزا میں شرکت کا حکم دیا تھا’ اسے ٹالنا گویا باپ کاحکم ٹالنے کے برابر تھا. ان سب سےالگ اردو انجمنیں مشاعروں کے دعوت نامے بھیجتیں اور چندے کا تقاضا بھی کرتیں. ایک خط ڈاکٹر مہرا کا ملا’ وہ عدّو کی ماں کو آپاجان کہتے تھے’ انہوں نے عدّو کو لکھا کے تم میرے مریض بن جاؤ’ میرا اپنا نرسنگ ہوم ہے، اس میں تمھارے ساتھہ خاص رعایت برتی جاۓ گی. اس کے بعد اسے ایک پرچہ ملا. بہت خوبصورت خط میں لکھا تھا.
“مدینے شریف کے حاجیوں نے خواب میں دیکھا ہے کہ قیامت قریب ہیں. مسلمانوں کو نماز روزے کی پابندی کرنی چاہیے. جو شخص اس طرح کے پرچے لکھ کر تقسیم کرے گا’ اس کے کاروبار میں برکت ہوگی ورنہ جلد ہی اسے کوئی بری خبر سننی پڑےگی”.
کوئی ایک ڈیڑھ مہینے ہی میں اسے تمام رشتےداروں کی رقابتوں اور جھگڑوں کے بارے میں اچھی خاصی واقفیت ہو گئی. اسے یہ سوچ سوچ کر افسوس ہوتا رہا کہ یہ لوگ آج بھی اپنے اپنے مسائل میں اسی طرح الجھے ہوئے ہیں جیسے زمیں داری کے زمانے میں تھے. زمانہ بڑھتا گیا اور برابر ترقی پذیر ہے مگر ان کے ذہنی افق اسی طرح محدود ہیں.
حمیرہ بھی عدّو کے نظام الاوقات سے خوب آگاہ ہوگئی. وہ ہمیشہ ایسے وقت آتی جب عدّو گھرہوتا’ وہ اس کے لیے چاۓ بناتی یا بہت زیادہ ترقی پسند بننے کی غرض سے عدّوکے لیے مناسب مقدار میں سوڈا، ٹانک یا پانی ملا کر شراب کے جرعے تیار کرتی اور برمنگھم اور ایسٹ انڈ کے مزدورطبقے کے لہجے میں انگریزی بول کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتی کہ وہ یہاں کے سماج میں رچی بسی ہوئی ہے مگر جب وہ مزدور طبقے کی بلائی می شٹ قسم کے لفظ استعمال کرتی تو عدّو اسے ضرور ٹوکتا.
ایک رات عدّوکے دو تین جاننے والےآ گئے’ ان کا تعلق میڈرڈ اور بیروت کی یونی ورسٹیوں سے تھا، وہ انگریزی ادب پر عربی اثرات کے بارے میں تبادلہ خیال کر رہے تھے. حمیرہ اس موضوع میں کسی طرح حصّہ نہیں لے پا رہی تھی. یہ کمی اس نے خود بھی بری طرح محسوس کی اور اسے یہ اندازہ بھی ہوا کہ عدّو بھی اسکی کم زوری محسوس کر رہا ہے. وہ اسی فکر میں غلطاں تھی کہ اس کے ہاتھہ سے شیری کی بوتل گرپڑی. قالین خراب ہو گیا، اسے اپنے آپ پر غصّہ آیا. وہ ویسٹ انڈ کی ٹھیٹ پھکڑ عورتوں کی طرح بے ساختہ چلائی. “آؤ. فاکٹ.”
عدّو کے مہمان تعجب سے دیکھنے لگے پھر مسکرا کر چپ ہو گئے. عدّو شرم اور غصّے سے پانی پانی ہو گیا.
بعد میں عدّو نے حمیرہ سے صاف کہہ دیا.”اگر تمھیں یہی بازاری پن دکھانا ہے تو اب یہاں نہ آنا”.
دوسرے دن سہہ پہر کوایک کتاب پڑھتے پڑھتے اس کی آنکھہ لگ گئی. کوئی سات بجے وہ آگ بجھانے والے انجنوں کی آواز سے چونکا. اس نے کھڑکی کھول کرباہر سڑک کی طرف دیکھا. کسی دکان کے سامنے خالی ڈبوں اور اخباروں کے ڈھیر سے دھواں اٹھہ رہا تھا’ ایک آدھ شعلہ بھی لپک جاتا. ایک انجن آگ بجھانے میں تقریبآ کامیاب ہو چکا تھا اور دوسرا انجن سڑک کے دوسری طرف اس طرح کھڑا تھا کہ راستہ تقریبآ بند ہو ہوگیا تھا. عدّو یہ تماشا دیکھہ رہا تھا کہ اس نے نور میاں کی سرمئی مرسڈیز گاڑی دیکھی. گاڑی پولیس والوں اور آگ والوں کے احتجاج کی پروا کیے بغیر غیر مسلط طریقے سے مڑتی مڑاتی آرہی تھی. گاڑی اس کے کورٹ کے آگے آ کر رکی’ اس میں سے حمیرہ نکلی. وہ لمبی قمیض اور چوڑی دار پاجامہ پہنے ہوئے تھی’ گلے میں دپٹا بھی تھا. وہ کسی اچھے گھرانے کی بہو لگ رہی تھی تا ہم اس کے بال اسی طرح کٹے ہوئے تھے’ انہیں دیکھہ کر عدّو کو کروڑی مل اسپتال کی اناؤں اور دائیوں کا خیال آتا تھا.
پچھلی رات عدّو نے بری طرح حمیرہ کو ڈانٹا تھا، اس کا خیال تھا کہ اب حمیرہ ادھر کا رخ نہیں کریگی. نور میاں بھی تھے. عدّو سوچنے لگا کہ نور میاں اپنی بیٹی کو یہاں پہنچانے کیوں آۓ ہیں؟ اب ان کا کیا کھیل ہے؟
حمیرہ فلیٹ میں دخول ہوئی.”میں کل رات کی بے ہودگیپر آپ سے معافی مانگنےآئی ہوں.”
“میرا کیا ہے’ معافی تمھیں میرے مہمانوں سے مانگنا چاہیے تھا.”
عدّو سمجھاتے ہوئے بولا.”اگر تم اچھے اخبار پڑھو اچھی کتابیں پڑھو یا پڑھے لکھے لوگوں میں بیٹھو تو زبان خود بہ خود ٹھیک ہو جائےگی .”
“عدّو بھائی! یہی تو مصیبت ہے. مجھے نہ پڑھے لکھوں کا ساتھہ ملتا ہے’ نہ خود کچھہ پڑھنے لکھنے کا موقع ہاتھہ آتا ہے”.
“کیوں؟”. عدّو نے تعجب سے پوچھا.
“ڈیڈی کو منافع خوری اور پیسہ جوڑنے کے سوا کوئی کام نہیں ہے. ہر وقت پیسہ پیسہ’ اور اپنی اس حرص کا رشتہ وہ مذہب سے جوڑتے رہتے ہیں”.
“ان کی لالچ کا تم پر کیا اثر پڑتا ہے؟”
“بہت پڑتا ہے. ان کی لالچ کے سبب ہم ان کے کیش اینڈ کیری اسٹور میں کام کرتے ہیں. ہمیں تھینک یو کے بجاۓ”تھا اور گڈلآرڈ کے بجاۓ بلائی می کہنا پڑتا ہے. گاہک ہمیں اپنے ہی قبیل کا سمجھہ کر خوش ہوتے اور فحش مذاق کرتے ہیں. اس طرح بکری بڑھتی ہے اور ڈیڈی کا بینک بیلنس بڑھتا ہے.”
عدّو کو نور میاں کی ذہنیت پر کوئی حیرت نہیں ہوئی. اس کے تقریبآ سبھی اعزا ہر وقت پیسہ بٹورنے اور عیش و عشرت کے سامان جمع کرنے میں مشغول رہتے تھے. اسے یہی غنیمت معلوم ہوا کہ حمیرہ کو مصوری کا شوق ہے. وہ آرٹ اسکول بھی جاتی تھی اور جدید مصوری پر دو تین رسالے بھی پڑھتی تھی. عدّو نے بات ٹالتے ہوئے کہا.”مگر میں تمھارا بھائی کہاں سے ہو گیا؟ اگر رشتہ دیکھو تو میں تمھارا پھوپھا ہوا، سعیدہ تمھاری پھوپھی ہیں.”
“مجھے تو آپ بلکل پھوپھا نہیں لگتے. ویسے بھی آپ سگے پھوپھا تو نہیں ہیں.سعیدہ پھوپھی ڈیڈی کی سگی بہن کہاں ہیں. ہاں اصلی پھوپھا تو نجیب پھوپھا ہوئے جو ہر طرح اس رشتے کے تصور پر بھی پورے اترتے ہیں. آپ تو زیادہ سے زیادہ بڑے بھائی لگتے ہیں.”
عدّو کو ہنسی آگئی. “میں تم سے کم از کم بیس سال بڑا ہوں.”
“ہر گز نہیں. مجھے معلوم ہے”. حمیرہ نے فورا بات کاٹی.
“کیا معلوم ہے؟”
“یہی کہ آپ کی عمرابھی پورے چالیس سال بھی نہیں ہے. کل ہی ڈیڈی باتیں کر رہے تھے. انہوں نے نضحات النسیم کھول کر آپ کی تاریخ پیدائش ڈھونڈ نکالی.”
عدّو نے تعجب سے پوچھا.”تمھارے ہاں نضحات النسیم ہے؟ کبھی موقع ملے تو ذرا مجھے بھی دکھانا.” نضحات النسیم عدّو کے گھرانے کا شجرہ تھا، اس میں خاندان کے سب لوگوں کی پیدائش اوروفات کی تاریخیں درج کی جاتی تھیں. ہر پانچ چھہ برس بعد مناسب ترمیم اور اضافے کے ساتھہ نیا ایڈیشن شائع ہوتا تھا. تھوڑی دائر خاموشی رہی.
“عدّو بھائی. آپ مجھے بچا لیجیے”. حمیرہ نے آہستہ سے کہا.
“کیا مطلب؟ کس سے بچالوں اور کس طرح؟”
“کوئی لڑکا پیسے والے گھرانے کا ہے. اسے یہاں کی شہریت درکار ہے. وہ مجھہ سے شادی کر کے یہاں کا شہری بننا چاہتا ہے. ڈیڈی اور ممی آنکھیں بینڈ کر کے تیار نظر آتے ہیں مگر مجھے اس سودے بازی کے خیال ہی سے نفرت ہو جاتی ہے.”
“مگر میں تمہیں کیسے بچالوں؟ نور میاں سے میرے تعلقات کبھی اچھے نہیں رہے اور اب تو وہ مجھہ سے اور بھی خفا ہوں گے.”
“نہیں ایسا نہیں ہے. اب تو وہ کبھی کبھی آپ کی تعریف کرتے ہیں. ہر وقت سعیدہ پھوپھی ہی کو برا کہتے ہیں. آپ بس یہ ثابت کر دیجیے کہ آپ مجھے پسند کرتے ہیں.”
اس میں ثابت کیا کرنا. پسند تو میں تمھیں بہت کرتا ہوں’ تمھاری تمام بے وقوفیوں کے باوجود.”
“نہیں میرا مطلب یہ ہے کہ……….”وہ ایک ثانیے کور کی پھر اٹھہ کر اچانک عدّو کے سینے سے لگ گئی اور سسکنے لگی.
عدّو بولا. ارے…..رے رے. یہ کیا کر رہی ہو’ دماغ خراب ہو گیا ہے تمھارا؟”
عدّو نے اسے سینے سے الگ کیا اور ڈانٹ کر بولا.” جاؤمنہ دھو کر آؤ.”
حمیرہ منہ دھو کر آئی مگر اس طرح کہ اس کے کٹے ہوئے بال دپٹے میں اچھی طرح چھپے ہوئے تھے. عدّو نے کہا.”تم بہت موڈرن ہو مگر تم میں ہمت نہیں ہے. ماں باپ سے صاف کیوں نہیں کہہ دیتیں کہ اپنی مرضی کےخلاف شادی نہیں کرونگی.”
حمیرہ نے کہا.”بات اتنی معمولی نہیں. قصّہ یہ ہے کہ ڈیڈی کا کوئی لڑکا نہیں ہے. اس کا انھیں ہر وقت احساس رہتا ہیں. ہم دونوں بہنیں اپنے کو مجرم سمجھتے ہوئے ان کی ہر خواہش کا احترام کرنے پرمجبور ہیں. پھرہم انھیں یہ احساس بھی دلانا چاہتے ہیں کہ لڑکا نہ ہونا کوئی کمی نہیں ہے. ہم بھی وہ سب کچھہ کرسکتے ہیں جو ان کےبیٹے کرتے. میں نے اسی لیے اسکول چھوڑ کر ان کے اسٹور میں کام کرنا شروع کردیا. اگر انھیں یہ خیال ہوتا کہ لڑکا پڑھ لکھہ کرنام پیدا کرتا تو میں دنیا کی ساری ڈگریاں سمیٹ لیتی’ سارے علم گھول کرپی جانے کی کوشش کرتی”.
“یہ مصوری کا کیا چکر ہے؟”
“یہ بھی جعلی ہے. زینت کی مقبولیت کا ڈیڈی پر اثرہوا ہے. یہ بات ان کے لیے ایک انکشاف تھی کہ زینت کی طرح ان کے گھرانے کی لڑکیاں بھی کچھہ کرسکتی ہیں، اسی لیے انھوں نے میرے شوق کی حوصلہ افزائی کی. اور تو اور اب وہ یہ بھی کہنے لگےہیں کہ ثمینہ ڈاکٹری پڑھنے کی کوشش کرے.” ثمینہ’ حمیرہ کی چھوٹی بہن تھی.
“تمھاری ماں کیا کہتی ہیں؟”
“انھیں چھوڑیے. ان میں تو بہت چھچوراپن ہے’ سوچ کر ہی شرم آتی ہے. وہر وقت کپڑوں لتوں، گہنوں اور فرنیچر وغیرہ کے بارے خیال میں غرق رہتی ہیں’ اس کے علاوہ انھیں افیون کی طرح فلموں کی لت ہے. گھر میں ہر وقت وڈیو اور فلموں کا چرچا رہتا ہے. شاید آپ یقین نہ کریں’ ممی ایک ایک فلم بیس بیس بار دیکھتی ہیں پھر بھی ان کا جی نہیں بھرتا. ان کی سب جاننے والیاں بھی اسی مزاق کی ہیں.” عدّو چپ چاپ سوچتا رہا.
حمیرہ خالص مشرقی لڑکیوں کی طرح دپٹا دونوں ہاتھوں میں بے کار مروڑ رہی تھی. تھوڑی دیر بعد وہ نظریں نیچے کیے ہوئے بولی.”اب تو آپ مجھہ سے خفا نہیں ہیں؟”
عدّو زور سے ہنسا.”نہیں بھئی. مجھے خفا ہونے کی کیا ضرورت ہے.”
“آپ نے کل کہا تھا کہ اب یہاں قدم نہ رکھنا.” اس کی آواز بھرّا گئی.
عدّو کو افسوس ہوا. وہ اپنے جملے کی تلخی چھپانے کے لیے بہت زور سے ہنسا. “اماں ہٹاؤ بھی. وہ تو کل کی بات تھی. یہ فلیٹ تمھارا ہے. جب چاہو آؤ جاؤ’ بشرطیکہ نور میاں کو کوئی اعتراض نہ ہو.”
چند ہی روز میں حمیرہ باقاعدہ عدّو کی زندگی میں دخیل ہو گئی. جس دن وہ نہ آتی’ عدّو کو کمی محسوس ہوتی. یہ کہیں زینت ہی جیسی کمی تو نہیں ہے؟ ایک بارعدّو نے خود تنقیدی کے عالم میں سوچا مگر حسب معمول وہ اپنے آپ سے جواب حاصل کرنے میں ناکام رہا.
حمیرہ جب بھی آتی. اسے اصرار سے کہیں نہ کہیں لے جاتی. زیادہ تر وہ رشتےداروں میں جاتے تھے. عدّو کو معلوم تھا کہ لوگ حمیرہ اور اس کی محبت پرکانا پھوسی کرنے لگے ہیں. اسے یہ بھی معلوم تھا کہ نور میاں سب کچھہ جانتے ہوئے بھی چپ ہیں. عام طور پر وہ عدّو کے سامنے نہیں آتے تھے. ایک آدھ بار تو عدّو نے محسوس کیا کہ عدّو کی آئی ٹائپ دیکھتے ہی وہ خواہ گھر میں ہو یا دکان پر کسی نہ کسی طرح سامنے سے ہٹ جاتے اور یہ تاثر دیتے کہ وہ موجود نہیں ہیں یا عدّو کی موجودی انکے علم میں نہیں ہے.

کئی دن سے عدّو کے پیٹ میں ہلکا ہلکا درد تھا. اسے خیال آیا کہ اب بہت دنوں بعد اب وہ مسالے دارکھانے اور مرغن پکوان پھر کھانے لگا ہے اسی لیے شاید ہاضمے پر برا اثر پڑا ہے. ایک بار اس نے ایک تقریب میں ڈاکٹر مہرا سے اس کا ذکر کیا. انھوں نے جوشو خروش سے اپنے کلینک آنے کی دعوت دی.
عدّو نے کلینک کے استقبالیہ کمرے میں اپنا نام بتایا. ڈاکٹرمہرا سب چھوڑ چھاڑ کے اس سے ملنے آگۓ. اسے انھوں نے اپنے خاص الخاص کمرے میں بٹھایا اور صوبے کی سیاست عدّو کے والد اور آپا جان کے بارے میں باتیں کرنے لگے اور یہ یقین دلاتے رہےکہ “اس سے اچھا نرسنگ ہوم تمھیں یہاں کہیں نہیں ملے گا. میں خود ہر مریض کو پوری توجہ سے دیکھتا ہوں. اب ذرا تم لیٹو. میں دیکھوں’ کیا گڑبڑ مچائی ہے تم نے دعوتیں کھا کھا کر.”
ڈاکٹر مہرا نے تفصیلی معائنہ کیا پھر اپنے دو معاون ڈاکٹروں کو بلایا. تینوں نے طرح طرح کی مشینوں پر مختلف لکیریں اور سوئیاں اٹھتی’ بڑھتی’ گھٹتی دیکھیں پھر ایک نرس نے عدّو سے کہا کہ وہ کپڑے پہن لے.
ڈاکٹر مہرا بہ ظاہر بہت بے فکری سے باتیں کر رہے تھے مگر انکی شگفتگی کم ہوگئی تھی. عدّو کواپنے نرسنگ ہوم میں داخل کرنے کے بجاۓ انھوں نے اسے ایک خط دیا کہ وہ امپیریل انسٹی ٹیوٹ میں بھی جانچ کراۓ.
تو یہ بات ہے جناب! بس باندھیے بوریا بستر. عدّو نے امپیریل انسٹی ٹیوٹ سے واپسی میں سوچا. بہار کی آمد آمد تھی اور مدتوں بعد خوب چمکیلا سورج نکلا تھا. نائٹس برج اور کیسنٹگتٹن ہائی اسٹریٹ پر خوشیوں کا سیلاب آیا ہوا تھا. عدّو دھیرے دھیرے گاڑی چلاتا ٹیوی اسٹاک پیلس کی طرف جا رہا تھا. اس نے سڑک کے دونوں اطراف نظر ڈال کر کہا. “اے دل تجھے کیا ہو گیا؟”
پچھلی رات دفترمیں اس نے ایڈیٹر سے کہا.”مجھے اب اس ملازمت سے کوئی خاص دلچسپی نہیں رہی ہے.”
فلیٹ پر ڈاکٹر مہرا کے دو تین دوست عدّو کو اسپتال میں داخل کرانے آۓ تھے.

ڈاکٹروں نے آپریشن کے لیے دائیں طرف سے پیٹ کاٹا تو سکتے میں رہ گئے. پورے نچلے حصّے میں سرطان پھیل چکا تھا. اب آپریشن سے کسی افاقے کی امید نہیں تھی’ انھوں نے زخم یوں ہی بند کر کے ٹانکے لگا دیے.

جان منچ نقلی داڑھی مونچ لگاۓ’ ناک کی نوک پر آدھے شیشوں کی عینک جماۓ رٹز ہوٹل کے چاۓ خانے میں بیٹھا تھا. بہ ظاہر وہ “وال اسٹریٹ جرنل” پڑھنے میں مصروف تھا مگر دراصل ہالی وڈ کی ایک مشہور اداکارہ کی ٹوہ میں تھا. جان منچ کو بھنک ملی تھی کہ وہ اداکارہ ایک فرضی نام سے ہوٹل میں ٹھیری ہوئی ہے. ہوٹل کے ملازموں کو بھی عام طور پر اس کے قیام کی خبر نہیں تھی. معا اس کی نظر ژنییت پرپڑی. وہ کسی پیج بواۓ سے باتیں کرتی ہوئی باہر جا رہی تھی. جان منچ نے سوچا کہ اگر ژنییت بھی یہیں مقیم ہے تو اس سے مدد مل سکتی ہے. وہ فی الفور اٹھہ کر اس طرح باہر جانے لگا کہ زینت سے ٹکرا گیا. جان بوجھہ کر اس نے اخبار بھی اپنے ہاتھہ سے گرا دیا. چناچہ زینت نے رک کر اس سے معذرت چاہی. جان منچ نے ایک دم کہا.”تم ژنییت ہونا. میں تمہی سے ملنے یہاں آیا ہوں. زینت کو تعجب ہوا مگر جان منچ نے اسے جلدی جلدی بتایا کہ اصل معاملہ کیاہے.”
زینت کو ہنسی آگئی. وہ بولی.”افسوس میں تمھاری کومدد نہیں کر سکتی کیوں کہ جو اداکارہ یہاں ٹھیری ہوئی ہے’ وہ’ وہ نہیں ہے جسے تم ڈھونڈ رہے ہو.”
جان منچ کو یقین نہیں آیا. اس نے فیصلہ کرلیا کہ ہوٹل ہی میں رکے گا خواہ ساری رات انتظار کرنا پڑے. زینت جانے لگی تو جان منچ نے اس سے کہا.”مجھے تمھارے دوست کے بارے میں بڑا افسوس ہوا.”
“کون سا دوست؟” زینت نے تعجب سے پوچھا.
جان منچ نے کہا.”وہی آڈل آمڈ جو اخبار میں تھا.”
زینت ٹھٹک کر بولی.”کیوں؟ کیا ہوا اسے؟”
“ارے تمہیں معلوم ہی نہیں؟ اسے سرطان ہے. پرنسس گریس اسپتال میں ہےوہ. تم کیسی دوست ہو کہ تمھیں…..”
زینت اپنی تمام مصروفیات کو منسوخ کر کے سیدھی پرنسس گریس اسپتال پہنچی. عدّو کے کمرے کے باہر نوٹس لگا تھا کہ یہ مریض کے آرام کا وقت ہے’ کسی کو ملنے کی اجازت نہیں. مگر زینت نے ایک نرس کو سمجھا بجھا کر آمادہ کرلیا. اس نے اسے اندر جانے کی اجازت دیدی.
عدّو نیم غنودگی میں تھا. کئی دن سے غذا بلکل بند تھی’ وہ بےحد نحیف و نزاد ہو گیا تھا. کمرے کی کھڑکیاں آدھی کھلی تھیں’ ان پر پردے لہرا رہے تھے. باہر سے زندگی کی گہماگہمی اور بشاشت سے بھرپور آوازیں آرہی تھیں اور کمرے میں ہر طرف تازہ پھولوں سے بھرے ہوئےگل دان رکھے تھے.
کوئی تین مہینے پہلے اس نے عدّو کو چھوڑا تھا. اس وقت عدّو ایک وجیہہ’ بدماغ اور اپنی صلاحیتوں کے بارے میں اعتماد سے بھرپور کوئی ہیرو لگتا تھا اور یہی اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ یہ زیادہ سے زیادہ تیس پینتیس سال کاہوگا مگر آج وہ کم زور تھا. اس کا شیو بڑھا ہوا تھا اور داڑھی کے بال سفید نظر آرہے تھے. اس کا چہرہ بلکل بے نور تھا اور اس کی عمر پینتالیس پچاس کے درمیان نظر آرہی تھی. اس کی سفید سفید کلائیوں پر ابھری ہوئی نیلی نیلی رگیں زینت کو بہت اچھی لگتی تھیں مگر اب وہ نظر نہیں آرہی تھیں.اس کے ہاتھہ سوکھے ہوئے تھے اور ان کی رنگت میں جھلسی جھلسی تھی.
زینت کرسی پر بیٹھہ کر عدّو کو دیکھتی رہی.
عدّو کو یکایک کمرے میں کسی اور کے ہونے کا احساس ہوا. اس نے آنکھیں کھول کر زینت کو دیکھا مگر کوئی حیرت ظاہر کیے بغیر معمول کے مطابق اس نے انگیزی میں زینت سے پوچھا.”کیسی ہو؟”
زینت نے اپنی آواز پر قابو پاتے ہوئے دھیرے سے بولی.”مجھے آپ کے بارے میں کچھہ معلوم نہیں تھا. ابھی کوئی ایک گھنٹہ پہلے جان منچ نے بتایا.”
عدّو کے سرھانے رکھے ہوئے ریڈیوفون پر نرس نے پوچھا. سمندر پار سے آپ کا فون ہے’ بات کیجیےگا؟ عدّو نے “ہاں” کہہ کر میز کی طرف ہاتھہ بڑھایا. زینت نے ٹیلی فون اٹھانے میں اس کی مدد کی.
“جی ہاں آپا جان! اچھاہوں. سب ٹھیک ہے، بس دو تین ہی دن میں گھر چلا جاؤں گا.”
عدّو بن بن کر زور زور سے باتیں کر رہا تھا جیسے کوئی خاص بات نہیں ہے. دوسری طرف سے ماں بھی یہی تاثر دے رہی تھی کہ اس نے سررا ہے گا ہے خیریت کے لیے فون کیا ہے حالاں کہ وہ دلّی سو بول رہی تھی اور جلد سے جلد لندن کے لیے ہوائی جہاز کی نشست حاصل کرنے کی تگ ودو میں تھی.
ٹیلی فون رکھہ کر عدّو ہانپنے لگا. زور زور سے بات کرنے اور اپنی آواز میں زندگی کا ثبوت دینے کے بعد وہ ایسا تھک گیا تھا گویا اب کوئی حرف منہ سے نہیں نکل سکے گا. زینت اسپتال سے نہیں گئی.
عدّو کے سب ملنے والے آکر جا چکے تو زینت نے لڑ جھگڑ کر عدّو ہی کے کمرے میں رہنے کی اجازت حاصل کرلی.
عدّو کو خواب آور دوا دی گئی تھی’ وہ سکون سے سو رہا تھا اور درد کی اذیت سے محفوظ تھا مگر زینت کو رات بھر نیند نہیں آئی. وہ بس عدّو کو دیکھتی رہی اور نہ معلوم کیا کیا سوچتی رہی.
صبح ہوتے وقت ذرا زینت کی آنکھہ لگی مگر جلد ہی وہ کسی برے خواب سے ڈر کر چونکی اور رونے لگی.
عدّو خاموشی سے زینت کو دیکھے جا رہا تھا. اس کی آنکھوں میں مایوسی کو پرچھائیاں دیکھہ کر زینت کانپ اٹھی. یہ آنکھیں’ یہ چہرہ اور یہ مایوسی اس نے پہلی بھی کہیں دیکھی تھی! مگر کہاں؟ ہاں یاد آیا’ ابو! مگر ابو اور عدّو بھائی کے چہرے ایک جیسے کیوں لگ رہے ہیں؟ اب اگر میں عدّو بھائی کی تصویر بناؤ گی تو لوگ سمجھیں گے کہ میں نے اپنے باپ کی شبیہہ اتاری ہے.
“تم رو کیوں رہی ہو؟ یہ لو انٹر کام’ اپنے لیے کافی منگاؤ.” عدّو نے آہستہ آہستہ زینت سے کہا.
“عدّو بھائی! آپ تو بلکل ابو کی طرح لگ رہے ہیں. ابھی ابھی میں انے خواب میں ابو کو دیکھاہے’ وہ حسب معمول کلمے کی انگلی آسمان کی طرف اٹھا کر کہ رہے تھے.”الله کی مرضی’ الله کی مرضی”.
عدّو خواہ مخواہ مسکرایا. “زینت بٹیا!افلاس ہو یا بیماری’ بے کسی ہو یا دیوانگی. روپ سب کا ایک جیسا ہوتا ہے. نوابو چچا کی جو شکل مفلسی میں تھی’ وہی بیماری میں میری ہو گئی. اسمیں تعجب کی کیا بات ہے؟” زینت حسرت سے عدّو کو دیکھہ رہی تھی’ اس کا ذہن نہ جانے کہاں کہاں بھٹک رہا تھا. عدّو بولا. “مگر تم نے یہ نہیں بتایا کہ تمام گھریلو تعصبات’ حقارتوں اور نفرتوں کی فولادی دیواریں توڑ کر تم میری طرف کیسے نکل آئیں؟”
“دراصل میری ساری جدوجہد کا بنیادی سبب آپ ہی تھے”. زینت نے آپی آپ محظوظ ہوتے ہوئے کہا.
“میں؟ کیسے؟” عدّو نقاہت اور تکلیف کے باوجود بیٹھنے کی کوشش کرنے لگا.
کسی جادوئی کہانی کی طرح دیو کی طرح ٹھیک اسی وقت ایک نرس داخل ہوئی. اس نے بہت بناوٹی محبت سے ڈانٹ کر کہا.”،،،نہیں’ نہیں شیطانی کرنے کی ضرورت نہیں. چپ چاپ لیٹے رہو.”
ایک نرس نے کمرے کے پردے کھولے اور دوسری نرس نے بہت سے تازہ پھول گل دان میں سجا دیے. تیسری نرس “مسز احمد” کے لیے ناشتہ لے کرآئی. اس نے ناشتہ زینت کے سامنے میز پر چن دیا. یہ نرس غالبا فلپائن کی تھی. “ولانام احمد” یعنی یہ لیجیے بیگم احمد ! زینت نے عجیب شرم سے عدّو کو دیکھا. وہ ہنسنے لگا.
تھوڑی دیربعد ڈاکٹروں’ مشیروں اور ملنے والوں کا تانتا بندھ گیا. زینت واپس ہوٹل چلی گئی. تقریبآ دن بھر سوتی رہی. شام کو اس نے جگہ جگہ فون کر کے اپنی مصروفیات منسوح کیں اور پرنسس گریس اسپتال فون کیا. اسے معلوم ہوا کہ مریض کے پاس رات کو کوئی نہیں رہے گا. اسنے اپنے جاننے والوں کا سہارا لے کر وہاں رات بھر کے لیے قیام کی باقاعدہ اجازت حاصل کرلی.
شام کو وہ خالی خالی گھومتی ہوئی پیدل اسپتال پہنچی. اس نے وہاں بہت سسے لوگوں کو دیکھا. زیادہ تر اس کے رشتےدار تھے. وہ ایک طرف الگ کھڑی ہو گئی تا کہ اس پر کسی کی نظر نہ پڑے.

“عدّو بھائی! سب بچوں کی طرح میں بھی آپ کو اپنا ہیرو سمجھتی تھی مگر میں دوسروں کے مقابلے میں اپنی عام معلومات بڑھانے کے چکر میں رہتی تھی تا کہ آپ مجھے شاباشی دیں لیکن میں نے جلد محسوس کرلیا کہ آپ کو اصل میں سارے بچوں سے محبت نہیں ہے’ آپ کو صرف اچھے’ صاف ستھرے’ کھاتے پیتے اور خوبصورت بچوں سے محبت ہے. اگر آپ کو واقعی سارے بچوں سے محبت ہوتی تو آپ مجھے مہترانی’ بھنگن اور چمارن کہ کر نہ بھگاتے. میں تو آپ کے شوق میں خوب اخبار اور کتابیں پڑھتی تھی مگر آپ نے کبھی میری طرف نگاہ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا.”
“پھر اچانک امی کا دیوانہ پن میری سمجھہ میں آگیا. میں ابو سے بے پناہ محبت کرنے لگی. میں نے کبھی انہیں یہ الزام نہیں دیا کہ وہ بھی دوسروں کی طرح کھانے پینے کی چیزیں گھر میں کیوں نہیں لاتے. میں نے احمد کو بھی بہت سمجھایا مگر وہ ہمیشہ کا بیمار تھا’ وہ علاج کے بغیر ہی مر گیا. ابو’ امی اور احمد تینوں کو گورغریباں میں دفن کیا گیا اور آج کسی کو ان کی قبروں کا نشان بھی نہیں معلوم مگر عدّو بھائی! میں جب تک زندہ ہوں’ انھیں میں اپنی کوششوں میں زندہ رکھوں گی.” عدّو غور سے آنکھیں کھولے زینت کو دیکھہ رہا تھا. اس کا ایک ایک حرف عدّو کا ذہن پر نقش ہو رہا تھا. زینت کو ایک دم کچھہ احساس ہوا’ وہ کچھہ رک کربولی.”آپ غلط نہ سمجھیے گا’ میں آپ کو کچھہ یاد نہیں دلا رہی ہوں بلکہ آپ کو میرے بارے میں جاننے کی خواہش ہے اس لیے یہ ذکر کر رہی ہوں. اب میری تمام نفرتیں اور تلخیاں ختم ہو گئی ہیں، اس لیے ہلکے دل سے آپ کو مزے لے لے کر بتا رہی ہوں تا کہ آپ بھی لطف لے سکیں. کسی اور کو دنیا میں کبھی یہ سب کچھہ معلوم نہیں ہوگا، نہ میں بتاؤں گی. کہنا مجھے صرف یہ ہے کہ میں نے تے کرلیا ہے اپنے ماں باپ کی ذلتیں بھولوں گی نہیں اس لیے کبھی ہار نہیں مانوں گی. اگر میری جیت نہ ہوئی تو بھی لڑتی رہوں گی.”
عدّو کی نظروں میں زینت کے لیے عقیدت و احترام کا حقیقی جذبہ تھا اور کچھہ احساس زیاں بھی جھلک رہا تھا.
رات کو نرس آئی. اس نے معمول کے مطابق خون’ دل اور نبض کا جائزہ لیا’ رات کی دوا تیار کر کے رکھی اور سب روشنیاں بجھا کر جانے لگی. اس نے زینت سے کہا کہ وہ سو جاۓ’ مریض کو زیادہ تھکن نہ ہونے دے.
عدّو نے سرھانے کا مدھم بلب جلا دیا اور زینت سے کہا. “مجھے یہ دوا نہیں پینی’ اس سے نیند آجاۓ گی. میں چاہتا ہوں کہ دیر تک جاگتا رہوں اور تم سے باتیں ہوتی رہیں.”
“یہ آپ کے لیے مضر ہوگا.” زینت نے سمجھایا.
عدّو ہنس پڑا. “تمھیں اب تک یہی اندازہ نہیں ہوا کہ میں مضر اور مفید کے تصورات سے عاری ہو چکا ہوں. جو ہونا ہے’ وہ مجھے بہ خوبی معلوم ہے اور تم بھی اس سے ناواقف نہیں ہو”. زینت خاموشی سے اپنے ناخن دیکھتی رہی.
چند لمحوں بعد زینت بولی میں کالج سے طلبہ یونین کے جھگڑے کی بنا پر نکالی گئی تھی’ یونین میں ایک کشمیری لڑکا کول بھی تھا، وہ میرا بری طرح عاشق ہوگیا’ جان دینے پر آمادہ تھا.”
“ہاں’ اس بارے میں مجھے ذرا ذرا معلوم ہوا تھا.”
“کول نے میری ہر طرح مدد کی. بڑے گھرانے کا لڑکا تھا پھر بھی مجھہ سے باقاعدہ شادی کرنے پر تلا ہوا تھا. مجھے بھی اسکے احسانوں کا بدلہ چکانے کی بہت فکر تھی.”
“پھر؟”
“پھر میں نے اسے چھوڑ کر اقبال سے شادی کرلی.”
“کیوں؟” عدّو نے تعجب سے کہا. اسے زینت کی داستان میں بے حد دلچسپی محسوس ہو رہی تھی، وہ اپنی بیماری اور تکلیف بھول گیا.
“اقبال بہت بیمار تھا. اسے نہ معلوم کیا بیماری تھی. خود بہ خود گھلا جارہا تھا. اس نے مجھہ سے ہاتھہ جوڑ جوڑ کر خوشامد کی کہ میں اس سے شادی کرلوں. آخر مجھے اس پر رحم آگیا. میں نے اس کی زندگی کی آخری خواہش پوری کرنے کے خیال سے ہاں کہہ دیا. وہ میرے ساتھہ تین چار مہینے رہا پھر انگلستان آگیا. بہت سی مجبوریوں کی وجہ سے میں اس کے ساتھہ نہیں آسکی. اصل میں مجھے آخر وقت تک کول ہی سے شادی کرنے کا خیال رہا.”
“خوب یہ سب کچھہ ہو گیا اور خاندان والوں کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی؟.”
“یہ نہ کیسے. خبر سب کو تھی مگر چوں کہ میں احمد کے مرنے کے بعد بلکل بے سہارا اور طوفان میں تنکے کی طرح تھی. اس لیے کی میری خاطر اپنے سر کسی طرح کی مصیبت یا ذمے داری لینے کو تیار نہیں تھا. بہر حال مختصر طور پر یہ بتانا بہتر ہے کہ مجھہ سے پہلے اقبال’ کول کی بہن چترا کا عاشق تھا. ہماری جماعت والوں نے اس کی سخت مخالفت کی. کول کے رشتےدار ہندوستان کے بڑے بڑے لوگ تھے’ پارٹی کا کہنا تھا کہ اس کی غیر معمولی تشہیر ہوگی. کیا پتہ’ ہندو مسلم فساد ہو جاۓ اس لیے چترا زبردستی امریکا بھیج دی گئی اور اقبال کو جماعت سے نکال دیا گیا.”
“مگر تمھاری جماعت کو تمھارے اور کول کے تعلقات بلکہ شادی کے منصوبے پر کوئی اعتراض نہیں ہوا؟”
“میں نے اس پرغور نہیں کیا مگر یہ سب باتیں اقبال نے اپنے ایک خط میں لکھی تھیں، وہ خط اس کے مرنے کے بعد مجھےملا تھا’ اس نے ایک جملہ مزے کا لکھا تھا’ میں خواب ہنسی. اس نے لکھا تھا. میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ طلبہ کی اپنی تنظیم بھی اصل میں فرقہ پرستوں کی جماعت کا ایک حصّہ ہے اور اس کا اصل کام مسلمان لڑکیوں کو خراب کرنا ہے.” “ہاں’ اس بارے میں مجھے ذرا ذرا معلوم ہوا تھا.”
“کول نے میری ہر طرح مدد کی. بڑے گھرانے کا لڑکا تھا پھر بھی مجھہ سے باقاعدہ شادی کرنے پر تلا ہوا تھا. مجھے بھی اسکے احسانوں کا بدلہ چکانے کی بہت فکر تھی.”
“پھر؟”
“پھر میں نے اسے چھوڑ کر اقبال سے شادی کرلی.”
“کیوں؟” عدّو نے تعجب سے کہا. اسے زینت کی داستان میں بے حد دلچسپی محسوس ہو رہی تھی، وہ اپنی بیماری اور تکلیف بھول گیا.
“اقبال بہت بیمار تھا. اسے نہ معلوم کیا بیماری تھی. خود بہ خود گھلا جارہا تھا. اس نے مجھہ سے ہاتھہ جوڑ جوڑ کر خوشامد کی کہ میں اس سے شادی کرلوں. آخر مجھے اس پر رحم آگیا. میں نے اس کی زندگی کی آخری خواہش پوری کرنے کے خیال سے ہاں کہہ دیا. وہ میرے ساتھہ تین چار مہینے رہا پھر انگلستان آگیا. بہت سی مجبوریوں کی وجہ سے میں اس کے ساتھہ نہیں آسکی. اصل میں مجھے آخر وقت تک کول ہی سے شادی کرنے کا خیال رہا.”
“خوب یہ سب کچھہ ہو گیا اور خاندان والوں کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی؟.”
“یہ نہ کیسے. خبر سب کو تھی مگر چوں کہ میں احمد کے مرنے کے بعد بلکل بے سہارا اور طوفان میں تنکے کی طرح تھی. اس لیے کی میری خاطر اپنے سر کسی طرح کی مصیبت یا ذمے داری لینے کو تیار نہیں تھا. بہر حال مختصر طور پر یہ بتانا بہتر ہے کہ مجھہ سے پہلے اقبال’ کول کی بہن چترا کا عاشق تھا. ہماری جماعت والوں نے اس کی سخت مخالفت کی. کول کے رشتےدار ہندوستان کے بڑے بڑے لوگ تھے’ پارٹی کا کہنا تھا کہ اس کی غیر معمولی تشہیر ہوگی. کیا پتہ’ ہندو مسلم فساد ہو جاۓ اس لیے چترا زبردستی امریکا بھیج دی گئی اور اقبال کو جماعت سے نکال دیا گیا.”
“مگر تمھاری جماعت کو تمھارے اور کول کے تعلقات بلکہ شادی کے منصوبے پر کوئی اعتراض نہیں ہوا؟”
“میں نے اس پرغور نہیں کیا مگر یہ سب باتیں اقبال نے اپنے ایک خط میں لکھی تھیں، وہ خط اس کے مرنے کے بعد مجھے ملا تھا، اس نے ایک جملہ مزے کا لکھا تھا’ میں خوب ہنسی. اس نے لکھا تھا. میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ طلبہ کی اپنی تنظیم بھی اصل میں فرقہ پرستوں کی جماعت کا ایک حصّہ ہے اور اس کا اصل کام مسلمان لڑکیوں کو خراب کرنا ہے.” عدّو کو ہنسی آگئی.
زینت بھی بشاش نظر آنے لگی. تھوڑی دیر بعد وہ بولی.”مگر سب سے دلچسپ بات یہ تھی کہ اقبال کو مجھہ سے بلکل دلچسپی نہیں تھی.”
“کیا مطلب؟” عدّونے حیران ہو کر پوچھا.
“وہ کول کو چترا کے امریکا جانے کا ذمے سمجھتا تھا اور مجھہ سے شادی کر کے کول سے انتقام لے رہا تھا. اپنے انتقامی مقصد کے لیے اس نے مجھے استعمال کیا.”
“مگر تم کیوں استعمال ہوگئیں؟”
عدّو بھائی! میں بلکل بے سہاراتھی’ اقبال نے کم سے کم مجھے سہارا تو دیا. وہ ایک پیسے والے گھرانے کا اکلوتا لڑکا تھا، معاشیات میں وہ پوری یونی ورسٹی میں اول آیا تھا. طبیعت کا بھی اچھا تھا. میں نے اس سے شادی رحم کھا کر کی تھی مگر جب میں اس کی پوری جائداد اور پیسے وغیرہ کی مالک بن گئی تو احساس ہوا کہ اب رشتےدار مجھے رشک کی نگاہ سے دیکھنے لگے ہیں. بعد میں میں نے اقبال کی ڈائری پڑھی. ڈائری پڑھنے کے بعد میں اس سے شادی کرنے پر مطلق نادم نہیں ہوں.”
“ہونھہ.” عدّو نے کچھہ سوچتے ہوئے کروٹ بدلنے کی کوشش کی. درد کی وجہ سے وہ کروٹ نہیں بدل سکا اس لیے سیدھا لیٹ کر چھت دیکھنے لگا.
“میں اقبال کی ساری املاک کی وارث تو تھی ہی’ اقبال کے باپ کی ایک بڑی رقم یہاں ایک بیمہ کمپنی میں پھنسی ہوئی تھی’ وہ بھی مجھی کو ملی. میں نے آرٹ اسکول میں باقاعدہ تعلیم و تربیت حاصل کی پھر بچوں کی امداد کے عالمی ادارے میں شامل ہو گئی. مجھے بھی بچوں سے محبت ہے مگر ہر طرح کے بچوں سے. ننگے’ بھوکے’ بیمار’ سوکھے اور یتیم بچے میرا خاندان ہیں. ان کے لیے میں ملکوں ملکوں پھرتی ہوں اور اپنی تصویروں کی زیادہ تر آمدنی بچوں کی بہبود کے فنڈ میں دے دیتی ہوں. ایسا کر کے میں کسی پر احسان نہیں کرتی بلکہ مجھے احمد کا خیال رہتا ہے’ اس کی دوا کے لیے اس کے سگے ماموں نے دو روپے دینے سے انکار کردیا تھا.”
“ایاندو بھی ایک طرح میرا بچہ ہے’ اسے میں نے اس کے وطن خانہ جنگی میں کوڑے کے نیچے دبا ہوا پایا تھا. اس کے سب گھر والے مارے جا چکے تھے. اب میں ہی اس کی دیکھہ بھال کرتی ہوں. ایاندو کے معاملے میں آپ کی تشویش غلط تھی.” عدّو نے چونک کر زینت کی طرف دیکھا. زینت ایک افسردہ مسکراہٹ چھپانے کی ناکام کوشش میں مصروف تھی. عدّو کو اپنی طرف متوجہ دیکھہ کر اس نے بات بدلی.” آپ بہت تھک گئے ہیں. اب سوجائیے. میں کل کی طرح آج بھی صوفے پر سو جاؤں گی.” مگر عدّو زینت کو برابر دیکھتا رہا. زینت بے کلی محسوس کرتے ہوئے بولی.”کیا دیکھہ رہے ہیں آپ؟”
“کچھہ نہیں.” عدّو پھر چھت دیکھنے لگا. دونوں خاموش اور ساکت تھے. خاموشی بہت گہری اور دل خراش تھی. پورا اسپتال ایک سکوت میں ڈوبا ہوا تھا’ سکوت کی حدیں اس منزل سے ملتی تھیں جس کی جانب تمام مریض دم بہ دم بڑھ رہے تھے.
زینت کے آنے جانے سے کسی کو اعتراض ہویا نہ ہو مگرعدّو کی وجہ سے سب خاموش تھے. عدّو نے ایک آدھ بار حمیرہ کے بارے میں کسی سے پوچھا مگر کوئی تشفی بخش جواب نہیں ملا. اس نے سوچا’ شاید حمیرہ خود زینت کی وجہ سے کٹی کٹی رہتی ہو یا پھر نور میاں نے کوئی قدم اٹھایا ہو.
زینت کو یقین تھا کہ آپاجان کے آنے کے بعد اس کا اسپتال میں داخلہ بینڈ ہو جاۓ گا مگرعدّو کے کہنے پر وہ مستقل آتی رہی. آپاجان آئیں تو انھوں نے بھی اعترا ض نہیں کیا بلکہ خود اکثرو بیشتر زینت سے خیریت وغیرہ پوچھتیں. آپاجان زیادہ تر اسپتال میں رہتیں، جب وہ نہانے دھونے کے لیے عدّو کے فلیٹ جاتیں تو زینت عدّو کے پاس رہتی. اسپتال میں کھانے کا کوئی انتظام خاص طور پر آپاجان کے لیے نہیں تھا، اس لیے بھی انہیں فلیٹ جانا پڑتا تھا.
ایک سہہ پہر وہاں کوئی نہیں تھا. عدّو بھی بظاھر بہتر دکھائی دے رہا تھا. وہ تکیے سے ٹیک لگاۓ آدھا بیٹھا اور آدھا لیٹا ہوا تھا. اس نے زینت سے کہا.”مجھے خوشی اس کی ہے کہ جو کام میں نہیں کرسکا’ وہ تم نے کر دکھایا.”
زینت نے پوچھا.”کون سا کام؟”
عدّو نےکہا.”یہی اپنے گھر کی روایت کو توڑنا. میں نے تھوڑی بہت کوشش کی مگر بہت اپر نہیں اٹھہ سکا. اچھا ہوا کہ تم نے تمام زنجیریں توڑ دیں. تمھاری فکر میں توازن کی کمی بھی نہیں ہوئی.”
زینت نے کہا. “اصل میں آپ کااپنے باپ دادا کی روش ترک کرنا زیادہ بہادری کا کام ہے. آپ نے زندگی کو دوسرے زاویے سے دیکھنا بھی سیکھہ لیا ہے. آپ نے ہر آرام وآسائش پر لات ماردی. میرے پاس ٹھکرانے کے لیے کچھہ تھا ہی نہیں اس لیے میں نے سب کچھہ پایا ہی پایا ہے. میرے برعکس آپ نے سب کچھہ کھویا ہی کھویا ہے.”
“میرا خیال ہے’ یہ فیصلہ قبل ازوقت ہے.” عدّو نے اس طرح مسکرا کر کہا گویا اسے ابھی کئی صدیوں تک زندہ رہنا ہے.
تھوڑی دیرکی خاموشی کے بعد زینت نے بات بدل کرکہا. “عدّو بھائی”! یاد ہے’ آپ نے مجھہ سے پوچھا تھا نہ کہ میں کیوں کسی اور کے مقصد کے لیے استعمال ہوگئی؟ چلیے’ میری تو مجبوری تھی مگر نور میاں کی لڑکیاں کیوں اپنے باپ کے مقصد کے لیے استعمال ہو رہی ہیں؟ لوگ برطانوی شہریت حاصل کرنے کے لیے ان سے شادی کرنا چاہتے ہیں. یہ بھی تو…..خیر ہٹائیے.”
“کہو کہو. چپ کیوں ہو گئیں.” عدّو نے گھڑی پر نظر ڈالتے ہوئے پوچھا. “میں آپ کو زیادہ نہیں بتاؤں گی مگر
نورمیاں ہی نے شاید کچھہ ایسا کیا تھا کہ آپ سے ملے بغیر چلی گئی تھی. آپ خود سوچ سمجھہ کر کسی نتیجے پر پہنچ جائیں گے.”
عدّونے زینت کے چہرے پر بھرپور نظر ڈالی. وہ ایک معمولی سی گھریلو لڑکی لگ رہی تھی. ایسی لڑکی جو بہو بیٹی کی حیثیت سے کسی بھلے گھرانے کی واقعی زینت ہو سکتی ہو. “ہونھہ…. کچھہ کچھہ سمجھہ آرہا ہے.” عدّو چپ ہوگیا. زینت بہ ظاہر ایک رسالے کی ورق گردانی کررہی تھی مگر چور نظروں سےعدّو کو بھی دیکھتی جا رہی تھی. عدّو کے چہرے پر عجیب سے ساۓ منڈلا رہے تھے.
دو تین دن بعد ڈاکٹروں نے ہر چیز کے تفصیلی تجزیے کی بنا پر ایک جائزہ مرتب کیا. جائزے کے آخر میں کہا گیا تھا کہ اسپتال میں مریض کے رہنے سے کوئی فائدہ نہیں’ اسے وہاں جانا چاہیے جہاں اس کے اپنے لوگ اس کی دیکھہ بھال کر سکیں.
عدّو کو ایک ایمبولینس کے ذریعے ہوائی اڈے تک پہنچایا گیا’ ایمبولینس کے پیچھے کئی گاڑیاں تھیں’ ان میں عدّو کے جاننے والے اور اعزا وغیرہ تھے. سب سے آخر میں زینت کی ٹیکسی تھی.
ایمبولینس ہوائی اڈے کے خفیہ راستے سے ہوائی جہاز تک گئی. زینت نے صبح عدّو کو اسپتال میں اس وقت دیکھا تھا جب اسے ایمبولینس میں لے جایا جا رہا تھا، عدّو پر نیم غشی طاری تھی اور غالبا اسے خبر نہیں تھی کہ وہ ایمبولینس میں لیٹا ہوا ہے.
ایمبولینس اندر چلی گئی. جاننے والوں کی گاڑیاں بھی چلی گئیں. زینت نے ایک پرچے پر نظر ڈالی. یہ پرچا عدّو نے پچھلی شام اس کے لیے رکھا تھا. صرف ایک جملہ تھا. وہ بھی اینگریزی میں. “تمھارا یہ خیال غلط ہے کہ میں نے بہت کچھہ پالیا’ تمھیں. کیا یہ کم ہے؟ ” زینت خاموشی سے ٹیکسی میں بیٹھے پرچا دیکھ جا رہی تھی. بہت دیر بعد ٹیکسی ڈرائیور نے جھنجلا کر کہا. “کیا بات ہے؟ تمھارے پاس کراۓ کے پیسے نہیں ہیں؟ اترنے کا نام ہی نہیں لے رہی ہو.”
زینت نے بہت سے نوٹ نکال کر اگلی نشست پر پھینک دے اور سسک سسک کر رونے لگی. “عدّو بھائی. عدّو بھائی.”
“بائی بائی.” ٹیکسی والے نے کہا.

Share

October 29, 2013

مطالعہ2.0 – ای ریڈر، صوتی کتب اور قدامت پسند کتابی کیڑے

  مندرجہ ذیل تبصرہ ، ۔ کنڈل، پیپروائٹ، آئ پیڈ، نک، وغیرہ کے بارے میں یہ راے ہماری ای بک ریڈرز کے ساتھ  کئی سالوں کی رفاقت و رقابت کے تجربوں کا نچوڑ ہے اور قاری کا  نشان میل بالکل مختلف ہوسکتا  ہے۔

برقی کتاب یا ای بک سے ہماری دیرینہ عداوت کوئ ڈھکی چھپی پات نہیں۔ جس کتاب کو لائبریری سے اٹھنی میں مستعار لے کراور درسی کتابوں میں چھپا کر نا پڑھا جاسکے، جس کے صفحات نا مروڑے جا سکیں اور پسند نا آنے پر دوست کے سر پر نا مارا جاسکے، وہ موئ کتاب ہی کیا۔ اب تو سائنسدانوں کا بھی یہ کہنا ہے کہ دماغ کو کتاب کے لمس و زماں سے بڑی انسیت ہے۔ گئے دنوں کی بات ہے کہ پی آئ بی کالونی میں “آپ کی لائبریری” سے کتابیں لایا کرتے تھے، پھر فایف سی فور نارتھ کراچی میں ایک خوب لائبریری ملی، پڑھائ کے لئے لیاقت نیشنل لائبریری کی بھی کیا ہی بات تھی، پھر ہمارے اور عبدالقدیر خانصاحب کے المامیٹر ڈی جے کالج کی لائبریریاں بھی اپنی مثال آپ تھیں۔ جامعہ کراچی میں تو  ڈپارٹمنٹ کی  سیمینار لائبریری (راشد بھائ کا اصطلاح یاد دلانے کا شکریہ) اور محمودالحسن لائبریری موجود تھیں اور پھر بعد میں ہم نے لائبریری آف کانگریس اور برٹش نیشنل لائبریری کی رکنیت بھی حاصل کی۔ غرضیکہ کتابیں پڑھیں یا نا پڑھیں، کتابوں کے درمیان رہنے کا سامان   ہمیشہ میسر رہا جیسا کہ جون ایلیا نے کہا

میرے کمرے کو سجھانے کی تمنا ہے تمھیں
میرے کمرے میں کتابوں کے سوا کچھ بھی نہیں

مگر یہ تو جناب جملہ معترضہ تھا، ٓآتے ہیں اصل بات کی طرف

books

 ۔پھر یہ ہوا کہ ائ بکس کا چلن شروع ہوا کہ مالیکیولز کی نسبت الیکٹرونس کو حرکت دینا کفایت شعاری ہے۔ ہم نے بھی بقیہ تمام کرمکین حاسب کی طرح پہلے پہل پی ڈی ایف کمپیوٹر پر پڑھیں۔ ہمارا پہلا باقاعدہ ای بک ریڈر آی پیڈ فرسٹ جینیریشن تھا۔ یہ تجربہ مگر کچھ زیادہ کامیاب نا رہا کیونکہ آئ پیڈ میں دیگر ایسے خلفشار ذہن موجود ہوتے ہیں کہ مطالعہ کا سکون میسر نہیں ہوتا۔  پھر ہم نے تقریبا دو سال قبل کنڈل فرسٹ جینیریشن خرید کر اس پر کتابیں پڑھنا شروع کیں۔ کنڈل پر کتاب پڑھنا شروع میں تو مشکل لگا لیکن جب ہم نے اسکا استعمال گھر سے باہر خصوصا ساحل سمندر پر کیا تو کتابیں اٹھا اٹھا  کر نا پھرنے کی سہولت کچھ اچھی لگی

reading

لیکن پھر بھی درخت خشکیده کی کتابیں ہمیشہ ترجیح رہیں کہ چھٹتی نہیں منہ سے یہ کافر۔ کنڈل میں پی ڈی ایف پڑھنا خصوصا ایک جنجال ہوتا ہے۔ فانٹ ایڈجسٹ کرنے میں اور صفحات کو صحیح طور پر دیکھنا  خصوصا اگر کتاب تکنیکی ہو اور تصاویر یا  کوڈ پڑھنا ہو تو آئ پیڈ یا کمپیوٹر کی بڑی اسکرین ہی بہتر حل نظر آیا۔

DSCN8245

ان تمام تجربات کے دوران ہم نے صوتی کتب کا استعمال نا چھوڑا۔ اکژ ایسا ہوتا کہ گھر پر ایک کتاب شروع کی، دفتر جاتے ہوے راستے میں اسی کا صوتی ورژن گاڑی میں سنا، لنچ بریک میں اسی کتب کو کنڈل پر پڑھا، طویل بے مقصد میٹنگز کی بوریت مٹانے کے لئے اسی کو لیپ ٹاپ یا آئ پیڈ  میں پڑھتے رہے اور دفتر سے واپسی پر صوتی کتاب اور پھر اصل کتاب رات کو۔ فکشن کتب کے ساتھ یہ خوب چلتا ہے جیسا کہ اوپر والی تصویر میں ڈین براون کی انفرنو کو مختلف اشکال کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔

Screenshot_2013-10-29-22-04-57

اس کے بعد ہم نے کنڈل فائر کو بھی کچھ عرصہ استعمال کیا لیکن یہ ٹیبلٹ محض ایک کم قیمت و کم ظرف آئ پیڈ ہے اور اپنے پیشرو کنڈل کی طرح مطالعے کے لئے کوئ خاص سہولت نہیں دیتا۔ اسکی اسکرین چونکہ سادہ کنڈل کی طرح ای انک نہیں لہذا ہم نے اسے نا تو اچھا ای ریڈر پایا اور نا ہی ڈھنگ کا ٹیبلٹ۔  بارنس انینڈ نوبل کا نک بھی کچھ دنوں استعمال کیا کہ ہمارے ایک عزیز اس کے پراڈکٹ مینیجر ہیں۔ ان کی دل آزاری مقصود نہیں لیکن نک کے لئے آسان الفاظ میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ کوا چلا ہنس کی چال اور اپنی بھی بھول گیا۔ یہی کچھ میں نوٹ ۲ اور دیگر فیبلیٹ متعلقین کے بارے میں بھی کہوں گا۔

audiobook

نان فکشن کتب بمع السٹریشنز، ریسرچ آرٹیکلز اور درسی کتب کے لئے بھرحال ابھی تک ہمیں آئ پیڈ اور کاغذی کتاب کا کوئ اچھا متبادل نہیں ملا۔ خصوصا جب سے راقم نے “نیا آئ پیڈ” ریٹینا ڈسپلے استعمال کرنا شروع کیا۔  مثلا اگر آپ کو پائتھن فار ڈمیز پڑھنی ہے تو اسکی عکاسی و اشکال کے بہتر مطالعے کے لئے  آئ پیڈ یا کاغذی کتاب ہی درست وسیلہ ہے۔ حال ہی میں ہم نے اپنا پرانا کنڈل ایک دوست کو ہدیہ کیا اور نیا کنڈل پیپر وائٹ استعمال کرنا شروع کیا ہے۔ ابھی تک اس پر دو تین کتابیں ہی پڑھی ہیں اور پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ “انٹرپریٹیشن آف اے مرڈر” کی کاغذی کاپی کے بجاے اس کی کنڈل شکل کو ترجیہ دی ہو۔ اس کی تین اہم وجوہات تھیں۔ ایک تو اس کی اسکرین آئ پیڈ کی طرح کچھ دیر بعد آنکھوں کو نہیں چبھتی ،  دوسرا یہ کہ اس کی بیک لٹ کی وجہ سے اسے رات کے وقت سونے سے پہلے اندھیرے میں بھی دوسروں کو تنگ کئے بغیر (عقلمند کے لئے اشارہ کافی)  اچھی طرح پڑھا جاسکتا ہے، اور تیسرا یہ کہ فانٹ سائز تبدیل کرنا اسکے ٹچ اسکرین ہونے کی وجہ سے نہایت آسان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مارک رسانوچ کی ٹروجن ہارس کا مطالعہ بھی راقم اسی طرح کر رہا ہے۔

20131029_220215

 اس نئے کنڈل کا گرویدہ بننے کی ایک اور وجہ وسپر سنک   کا استعمال ہے۔ راقم آجکل محترمہ مریم جمیلہ پر لکھی گئی کتاب “اے کنورٹ” کا دوبارہ مطالعہ یا رفریشر چل رہا  ہے۔ اب میں جہاں پر کنڈل میں اسے چھوڑتا ہوں، آڈیبل کی صوتی کتاب اسے وہیں سے دوبارہ شروع کردیتی ہے اور پھر جہاں سے سننا ختم ہوتا ہے، کنڈل اسے دوبارہ اسی صفحے پر “سنک” کردیتا ہے۔


20131029_220108      Screenshot_2013-10-29-22-04-30

صوتی کتب اور ائ بکس میں بحرحال مومینٹو کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ ڈیجیٹل نیٹوز کا تو نہیں پتا لیکن ہم پرانے لوگ تو کتاب کے لمس سے، صفحات پر سالن کے دھبوں سے اور دیگر زمانی و مکانی نشانیوں سے چیزوں کو یاد رکھتے ہیں۔ مومینٹو کی کمی ہمیشہ اس بات کا شدید احساس دلاتی ہے کہ آپ زمان و مکاں کی حدود سے دور کہیں الیکٹرونز  کی سرزمین پر بے وزنی کی کیفیت میں ہیں جہاں کتابوں کی ابتدا و انتہا و درمیان سب ایک ہی طرح کے ہوتے ہیں۔ مثلا  کتاب “پطرس کے مضامین” کے میرےمطالعے میں آنے والے  پہلے  نسخے میں جسے راقم نے بلامبالغہ ہزار مرتبہ پڑھا ہوگا، میبل اور میں کے دو صفحات غائب تھے، جب میں نے پہلے دفعہ انہیں کہیں اور سے پڑھا تو کچھ  عرصے تک یقین نا آیا کہ یہ اسی مضمون کا حصہ ہیں، وہ تشنگی مضمون کا حصہ بن کر رہ گئی تھی, اب سوکھے ہوے پھول ای بکس میں تو نہیں مل سکتے نا قبلہ، بہرحال۔

قصہ مختصر، راقم کا کلیہ مطالعہ کچھ یوں ہے۔

فکشن کتب : صوتی کتاب، کنڈل

نان فکشن اور درسی کتب مع تصاویر: آئ پیڈ، لیپ ٹاپ یا کاغذی کتاب

نان فکشن کتاب بغیر تصاویر و کوڈ : کنڈل

ابھی تک کنڈل پیپر وائٹ کو بہرحال بہترین ریڈر پایا ہے۔ قارئین کا تجربہ جاننے کا متمنی رہوں گا۔

ما ز آغاز و زنجام جہاں بے خبریم
اوّل و آخرِ ایں کہنہ کتاب افتادہ است

Share

October 21, 2013

پہلی صف اور دوسری کہانیاں از عمر بنگش

Filed under: ادبیات,کتابیات — ابو عزام @ 12:10 pm

برادرم عمر بنگش کی تحریر کے بارےمیں جاننے کے لئے راقم و دیگر تبصرہ نگاروں کے کلیشے تبصرہ جات پڑھنے سے اچھا ہے کہ آپ صاحب کتاب کا ایک افسانہ خود ہی پڑھ لیں۔ اگر آپ کو شوکی کا کردار “آرگینک” نا لگے، گاوں کی منظر کشی سے مٹی کی سوندھی خشبو نا آے، موتیے کے میلے گجروں کی بساند ہر سانس میں محسوس نا ہو، پہلی صف میں چھوڑا اکبر خان کا خلا پر کرنے کی ہمت پیدا ہو جاے یا چوکیدار کاکے کو پڑھ کر آنکھیں سوکھی رہیں تو بے شک اس برقی کتاب کو چھوڑ کر بابا صاحبا اٹھا لیں کہ معاشرے کے آئنے کا یہ تقلیدی، پر حقیقت پسند زنگار آپکو بڑا بھدا لگے گا۔

umar-bangash-afsanay

عمر احمد بنگش کا قلم اصناف کے اعتبار سے رجعت پسند ہے۔ اس نے تئیس میل کا طے تو کیا مگر ادبی مشاہیر کے کندھوں پر، معاصرین میں بنگش صاحب کا اسلوب جداگانہ تو ٹھرا مگر تحریر میں ندرت خیال خال خال دکھائ دیتی ہے۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ اردو افسانہ کب طوائفوں کے کوٹھوں اور کالی شلواروں اور وڈیرے کی چارپائیوں سے باہر نکلے گا اور کب ہمیں الکیمسٹ کا سانتیاگو، فٹزجیرالڈ کا گاٹسبی، ناباکو کی لولیٹا، یا ہارپر لی کا دیسی فنچ ملے گا؟ بنگش صاحب کا قلم رواں ہے، دیکھیں کب وہ روایات کے حصاروں کو توڑتا ہے اور قارئین کو صریر خامہ سے نواے سروش ہیش ٹیگ #تغیر کے ساتھ سنائ دیتی ہے۔

 

Share

June 27, 2013

عشاق کانفرنس

Filed under: ادبیات,طنزومزاح,کتابیات — ابو عزام @ 5:23 am

عشاق کانفرنس از محمد طارق طور

مرزا صاحب کے ساتھ صرف علیک ، سلیک ہی کسی کو دکھی اور پریشان حال کرنے کے لئے کافی ہے اور میری بد قسمتی دیکھئے کہ موصوف میرے بے تکلف دوست ہیں. ان کی دوستی کا یہ زہر قاتل میں بچپن سے پی رہا ہوں اور میری سخت جانی دیکھئے کہ ابھی تک زندہ ہوں. اب کیا عرض کروں، بس یوں سمجھئیے کہ مرزا صاحب کی شخصیت  اور عادات مخصوصہ کو الفاظ کی زنجیر پہنانا جوۓ شیر لانے سے تو کم ہی ہوگا. مگر اس خاکسار کے بس کی بات نہیں. اگر ایسا ہو سکتا تو میں کبھی کا مر چکا ہوتا اور طنزو مزاح کی کتابوں کی صف میں ایک شاہکار کا اضافہ ہو چکا ہوتا (آپ جانتے ہیں کہ ابھی تک ایسا نہیں ہوا ہے). ہمارے گھر میں مرزا صاحب کا اکثر آنا جانا رہتا ہے

اور مرزا حضور جب بھی قدم رنجہ فرماتے ہیں. ہمارا گھر گھر نہیں رہتا مرزا خانہ بن جاتا ہے. مثال کے طور پر نوکروں کے طور طریقے بدل جاتے ہیں انکے چہرے مسخرانہ ہو جاتے ہیں اور غٹرغوں غٹرغوں کرتے پھرتے ہیں.  بلائیں تو غائب!  تلاش بسیار کے بعد اگر کہیں سے برآمد ہو جائیں تو جواب ملتا ہے کہ مرزا صاحب کے پاس ان کے اشعار اور شکار کی داستانیں سن رہے تھے. بچے اسکول جانے سے انکار کر دیتے ہیں کہ گھر میں مرزا انکل سے کرکٹ کا میچ طے ہے. ڈرائیور مرزا صاحب کے ہاتھہ پر ہاتھہ مارتے ہوئے کئی بار حادثات کر چکا ہے. بس ایک ہماری بیگم ہیں جن سے ہم دل کی بات کر سکتے ہیں لیکن مرزا صاحب کے گھر میں دارد ہوتے ہی بیگم ہمیں خانے کو دوڑتی ہیں اور جب تک مرزا صاحب گھر میں براجمان رہتے ہیں ہمارے مرزا خانہ میں توپ خانہ خلا رہتا ہے.

مرزا صاحب جب بھی تشریف لاتے ہیں، اپنے درباریوں اور حواریوں کی ایک فوج کے ساتھہ آتے کم ہیں اور حملہ آور زیادہ ہوتے ہیں، پچھلے ماہ جب مرزا صاحب تشریف لاۓ تو ہمارا ماتھا ٹھنکا کہ اس مرتبہ کوئی خاص بات ہے کہ اکیلے تشریف لاۓ ہیں. جب گھر میں داخل ہوئے تو چند مہمان بھی ڈرائنگ روم میں براجمان تھے مرزا صاحب میرے کان کے قریب آ کر بولے: یہ لوگ کب جائیں گے ؟ ایک ضروری بات کرنا ہے”

میں نے عرض کیا : فرمائیے! یہ اپنے ہی لوگ ہیں”

تنک کر بولے: تمہیں کبھی عقل نہیں آئیگی بہت ہی ذاتی سامسلہ ہے”. ہماری یہ کانا پھوسی سن کر مہمان شاید تاڑ گۓ کہ اگر مجھے نہیں تو کم از کم مرزا صاحب کو تخلیہ درکار ہے لہٰذا انہوں نے فورا نو دو گیارہ ہونے کی ٹھانی. انہیں خدا حافظ کہنے کو گیٹ کی طرف نکلے تو اپنے ڈرائیور کو سخت پریشانی کے عالم میں پایا او! صاحب جی میں مرزا صاحب کو لیکر آرہا تھا کہ راستے میں گاڑی کھمبے سے لگ گئی”

میں تو بس آہ کر کے رہ گیا، مرزا صاحب کے ساتھہ گاڑی کو بھیجنا کبھی خطرے سے خالی نہیں ہوتا.

وہ ڈرائیور کے ساتھہ خوش گپیوں میں ہاتھہ پر ہاتھہ مارنے کے عادی ہیں. ہر بار ڈرائیور کی طرف اپنا ہاتھہ پھیلا دیتے ہیں. اب بے چارہ ڈرائیور ان کے ہاتھہ پر ہاتھہ مارے گا تو گاڑی کسی اور چیز سے مارے گا. خیر مہمانوں کو رخصت کیا تو میرے بچے اپنے بچپن کی سرحدیں پھلانگتے ہوئے مرزا جی کے گرد جمع ہو گئے کہ انکل آئیے کرکٹ کھیلتے ہیں. میں نے بچوں کو مخاطب کرکے مرزا صاحب کو ڈانتے ہوئے کہا کہ ابھی تو پچھلے “مرزا بینیفٹ میچ کے دوران ٹوٹے ہوئے شیشے اور گملے ہی تبدیل نہیں ہوئے. آج پھر سے توڑ پھوڑ کا عنوان بنتے جا رہے ہیں.”

مرزا صاحب کو جیسے میری حالت پر ترس آ گیا اور کرکٹ کا یہ میچ بن کھیلے ہی ڈرا ہوگیا.

مرزا نے کمرے کے سب دروازے بینڈ کرلئے اور مجھہ سے کہنے لگے یار میں نے اخبار میں کہیں پڑھا ہے کہ ضلع گجرات میں دریاۓ چناب کے کنارے اس ماہ کی چودھویں کو آل پاکستان عشاق کانفرنس منعقد ہو رہی ہے تمام سابقہ اور موجودہ عاشقوں کو شرکت کی دعوت عام ہے

کیا خیال ہے؟”

“کیا مطلب؟

“مطلب یہ کہ میں نے پرگرام بنایا ہے کہ ہم دونوں اس کانفرنس میں حصّہ لیں گے اور بس” “یار مرزا، کچھہ عقل کے ناخن لو! یہ تمہیں کیا ہو گیا ہے”؟

“اس عمر میں یہ لچھن !بچے کیا سوچیں گے اور پھر ہم کون سے عاشق ہیں”؟

“یار کیا کہتے ہو! اعلان کے مطابق سابقہ عشاق حضرات بھی آ سکتے ہیں اور پھر تم ____وہ یونیورسٹی میں _____بچو! اب سارے چکر بھول گئے ہو!”

قصّہ مختصر دو گھنٹے کی بھونڈی بحث کے بعد مرزا مجھے قائل بلکہ مجبور کر چکے تھے کہ ہمیں اس کانفرنس میں شرکت کرنی چاہئیے. فوری طور پر انہوں نے اپنی جیب سے جنتری نکال کر حساب لگایا کہ چاند کی چودھویں کس دن ہے تاکہ مناسب وقت پر رخصت سفر باندھا جا سکے. آل پاکستان عشاق کانفرنس میں پہنچنا ایک علیحدہ داستان بنے جس کا ذکر یہاں مناسب نہیں کیونکہ

ایسا کرنے سے یہ ہلکا پھلکا مضمون ایک سفر نامہ بن جاۓ گا.

کانفرنس میں پہنچے تو کیا سماں تھا. دریا کے کنارے کھلے آسمان کے نیچے شامیانے لگے ہوئے تھے اور درمیان میں ایک پنڈال بنا ہوا تھا. یہ سارا نظام حاجی مولا بخش اینڈ سنز کا تھا. مولا بخش اینڈ سنز کے مالک حاجی مولا بخش ٹینٹ والے بڑے نامور عاشق تھے. اپنے آپ کو شہزادہ سلیم کے خاندان کا چشم وچراغ ظاہر کرتے تھے. اور سنا ہے کہ شروع شروع میں وہ مجنوں کے خاندان سے ہونے کے دعویدار تھے لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ مجنوں کی شادی نہ ہو سکی تھی، اس لئے نسل چلنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا) لاؤڈ اسپیکر وغیرہ کا انتظام بھی حاجی صاحب نے ہی کیا ہوا تھا. کانفرنس اگلے دن شروع ہونا تھی لیکن تمام عشاق کس اجتماع ہو چکا تھا.

لاؤڈ اسپیکر پر خواجہ میر درد اور میر تقی میر کی غزلیں سنائی جا رہی تھیں. کبھی کبھی ہیر وارث شاہ اور مرزا صاحباں کا قصّہ بھی سنایا جا رہا تھا. عین اس جگہ جہاں مہینوال نے اپنی ران کو کباب سوہنی کو کھلاۓ تھے وہاں بکرے کی ران کے کباب بھونے جا رہے تھے اور عشاق شوق اور عقیدت سے کھاتے جا رہے تھے. دریا کے اندر تیرا کی میں ماہر چند خواتین گھڑوں پر تیر کر سوہنی کی یاد کو تازہ کر رہی تھیں، انہیں دیکھنے اور داد دینے کے لئے لوگ کنارے پر کھڑے رالیں ٹپکا رہے تھے.

اگلے ہی روز یعنی چاند کی چودھویں تاریخ کو آل پاکستان عشاق کانفرنس کا پہلا اجلاس شروع ہوا. پنڈال پر ایک ہی کرسی رکھی گئی تھی. جو صدر صاحب کے لئے تھے. اجلاس شروع ہوتے ہی اس اجلاس کے صدر صاحب کو پالکی میں بیٹھا کر سٹیج پر لایا گیا. جونہی صدر صاحب باہر نکلے،دو نوجوان عاشقوں نے انہیں اٹھا کر کرسی پر رکھا. صدر کانفرنس کی حالت کافی نازک لگ رہی تھی، بس یوں لگتا تھا جیسے کسی میڈیکل کالج کی کلاس کے سامنے انسانی ڈھانچہ رکھا جاۓ صدارتی کرسی بھی عجیب سی تھی. کرسی کی چاروں ٹانگیں ایک کمان پر لگی ہوئی تھیں. ایسی کرسیاں گھروں میں اکثر بوڑھے لوگ آرام کرنے کیلئے

استعمال کرتے ہیں (انگریزی زبان میں اس کرسی کو روکنگ چیئر) کہتے ہیں کرسی پر بیٹھہ کر جھولتے رہتے ہیں.

صاحب صدر کو کرسی پر رکھا گیا تو کرسی نے آگے پیچھے حرکت کرنا شروع کردی. اسٹیج سیکرٹری نے مائیک پر آکر صاحب صدر سے اجلاس شروع کرنے کی اجازت مانگی جو انہوں نے کرسی کو تھوڑا سا تیز ہلا کر دےدی. سٹیج سیکرٹری نے سب سے پہلے تو صدر صاحب کا تعارف کرانے کی کوشش کی، جس میں انہوں نے کہا کہ صدر صاحب کرسی صدارت کے بارے عاشق ہیں. اور پچھلے بیس سال سے کسی نہ کسی طرح کرسی صدارت پر برا جمان چلے آ رہے ہیں.اب تقریبا مفلوج ہو چکے ہیں، بات نہیں کر سکتے، چلنے پھرنے سے قاصر ہیں. لیکن گو ہاتھہ میں جنبش نہیں، آنکھوں میں تو دم ہے، کہ مصداق ابھی قائم و دائم ہیں. ماشاالله ! اس کے بعد انہوں نے اپنا تعارف کرایا، جس میں انہوں نے اپنے آپ کو آل پاکستان عشاق ایسوسی ایشن کا کرتا دھرتا ثابت کرنے کی کوشش کی اور اپنا شجرہ نسب مغلیہ خاندان سے ملاتے ہوئے بہت ڈینگیں ماریں.

اس کے بعد انہوں نے اپنی ایسوسی ایشن کی ایکشن کمیٹی کے چیئرمین کو دعوت تقریر دی.

ایکشن کمیٹی کے چیئرمین صاحب کافی جوش سے سٹیج پر تشریف لاۓ اور یوں شعلہ بیانی شروع کی.

“عشاق گرامی!” ملک بھر کے عشاق کا اتنا بڑا اجتماع دیکھہ کر میرا کلیجہ دوگنا ہو گیا ہے.

ممجھے یوں محسوس ہو رہا ہے کہ اب ہمارے پاس بھی پاور ہے (پاورمین سے بنتی ہے)میرے لیے ایکشن لینا اب آسان ہو گیا ہے. افسوس اس بات کا ہے کہ ہماری برادری کے چند لوگ ہمارا خیال نہیں کرتے. اگر وہ ایسا کریں، تو میں آپ کو یقین دلا سکتا ہوں کہ کوئی مسلہ ہی نہ رہے. اتنے بڑے بڑے لوگ ہماری برادری میں ہیں کہ بس یوں سمجھئیے حکومت ہی اپنی ہے لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ ہم سب ان لوگوں کے ضمیر کو جھنجھوڑیں اور کہیں کہ اٹھو، اپنی برادری کے نصیبوں کو جگادو”.

عشاق کرام ! پچھلے سال جو کانفرنس تخت ہزارہ کے مقام پر ہی تھی اس میں ایک ورکنگ کمیٹی بنائی گئی تھی. اس کمیٹی کے اس خاکسار سمیت پانچ رکن تھے. ایک رکن نے تو چند دن بعد ہی خودکشی کرلی تھی، دوسرا رکن ٹی بی کے عاشقانہ مرض میں مبتلا ہو کر چل بسا، تیسرا رکن جذبات عشق کی شدت سے لاہور کے دماغی امراض کے ہسپتال میں زیر علاج ہے. چوتھا رکن جو کہ اس ورکنگ کمیٹی کا پروپیگنڈہ سیکرٹری بھی ہے. اپنے محبوبہ کو بھگا لے جانے کے جرم میں قید ہے. لے دے کر یہی خاکسار باقی بچا ہے گویا اس ورکنگ کمیٹی کو آپ ایک رکنی کمیٹی کہ سکتے ہیں. چونکہ اس کا اور کوئی رکن نہیں ہے، اس لئے میں اسکا چئیرمین بھی ہوں پچھلے سال کے اجلاس میں جو قرارداد عشق اکثریت کی عاشقانہ راۓ سے منظور کی گئی تھی، میں وہ دوبارہ آپ کی خدمت میں پیش کر چاہتا ہوں تا کہ ہمیں اس سال کی قرارداد مرتب کرنے میں آسانی رہے.

 

قراداد عشق ١٩٨٣،

آل پاکستان عشاق کانفرنس کا یہ اجلاس مندرجہ ذیل قرارداد بھری اکثریت سے منظور کرتا ہے:

١- ہمارا مطالبہ ہے کہ ہماری یونین کو رجسٹر کیا جاۓ. ہم نے سالہا سال سے آل پاکستان عشاق یونین کو رجسٹرڈ کروانے کی کوشش کر رہے ہیں. لیکن متعلقہ حکام جن میں سے اکثر خفیہ طور پر ہمارے رکن ہ ہیں. اسے رجسٹرڈ کرنے میں حیل و حجت سے کام لے رہے ہیں. ان کے خیال میں ایسی یونین رجسٹرڈ کرنے سے قوم کا اخلاق تباہ ہو جاۓگا اور لوگ سرعام عشق وغیرہ کرنے لگیں گے..

 ٢- یہ کانفرنس اسد الله غالب نامی ایک شاعر کے بعض اشعارپر پرزور احتجاج کرتی ہے. ہمارے علم میں یہ بات لائی گئی کہ اس غالب نامی شخص نے اپنے اشعار میں جا بجا چند نامور. 

 عشاق کی شان میں گستاخی کی ہے مثال کے طور پر ایک شعر میں اس نے بادشاہ عشق، شہزادہ محبت و الفت، دیوانہ شیریں، جناب فرہاد ایرانی کی شان پر بہار میں یوں غیرپارلیمانی ریمارکس دیۓ ہیں:

تیشے بغیر مر نہ سکا کوہکن اسد 

اب آپ خود اندازہ کریں کہ اس عظیم عاشق کی موت کا مذاق اڑانا اگر توہین عشاق نہیں تو پھر اور کیا ہے ؟ غالب نامی اسی شاعر نے اپنے ایک اور سفر میں ہماری پوری برادری کو گالی دی ہے کہتا ہے”-

کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا 

اب ذرا سوچیے کہ یہ کس قدر زیادتی ہے. ہماری دعا ہے کہ یہ شخص اگر زندہ ہے تو ……….اگر اور کچھہ نہ ہوتا ہو تو خدا کرے کہ اس کی محبوبہ کی شادی کسی اور سے ہو جاۓ. 

٣- کانفرنس حکومت سے پر زور مطالبہ کرتی ہے کہ ہمیں حکومت میں نمائندگی دی جاۓ سنٹرل سیکرٹریٹ میں عشاق ڈویزن قائم کی جاۓ  اور قومی اسمبلی میں ہمارا کوٹہ مقرر کیا جاۓ 

٤- اب وقت آگیا کہ عشاق لوگ صحر انوردی کرتے پھریں. اب تو عشاق کو تکمیل عشق کو تکمیل عشق کی خاطر ہوائی جہاز میں سفر کرنا پڑتا ہے. ہمارا مطالبہ ہے کہ پی آئی اے کے کرایے میں ہمیں رعایت دی جاۓ اور ایئر پورٹ پر ایک علیحدہ عشاق کا کاؤنٹر قائم کیا جاۓ تا کہ مجذوب قسم کے عشاق کو کوئی پریشان نہ ہو.

٥-کہتے دکھ کی بات ہے کہ عشق کی تعلیم کا ہمارے ملک میں کوئی انتقام نہیں. ہم لوگ لیلے مجنوں، شیریں فرہاد اور ہیر رانجھا کے قصّے سنتے تو بڑے شوق اور فخر سے ہیں مگر کسی بھی بڑے عاشق کے حالات زندگی وغیرہ کسی بھی کلاس کے نصاب ،میں شامل نہیں، ہمارا  مطالبہ ہے کہ تعلیمی نصاب میں مضامین عشق کو شامل کیا جاۓ …… میں ایک شعبہ تعلیمات عشق بھی قائم کیا جاۓ، جس میں رانجھا اکیڈمی، فرہاد آڈیٹوریم، مہینوال ہال وغیرہ کے نام بھی رکھے جائیں.

٦- بعض عشاقان گرامی نے شکایت کی ہے کہ انہیں اپنی لائف انشورنس کروانے میں دشواریوں کا سامنا کرنہ پڑ رہا ہے، کیونکہ بعض انشورنس کمپنیاں عشاق کا بیمہ کرنے سے گریزاں ہیں. ہم ایسی بیمہ کمپنیوں کو آخری نوٹس دیتے ہیں کہ وہ راہ راست پر آجائیں ورنہ ہم اپنی ڈائی ہارڈ اسکواڈ کے عاشق ان کے پیچھے لگا دینگے.

تو معزز حاضرین ! یہ تھی پچھلے سال کی قرارداد نور چونکہ اس قرارداد پر ابھی تک عمل نہیں ہو سکا. اس لئے اس قرارداد کو ہم ایک بار پھر پیش کرتے ہیں اور میں آپ حضرات سے ملتمس ہوں کہ اسے بھری اکثریت سے پاس کریں، شاباش ہاتھہ کھڑے کیجیے، اوپر اور اوپر!

ایکشن کمیٹی کے چیئرمین کی تقریر ختم ہوئی تو صدر مجلس نے اپنی روکنگ چیئر پر جھوم کر انہیں داد تحسین پیش کی. کانفرنس کے باقی شرکاء نے بھی تالیاں بجا کر داد دی. اس کے بعد کانفرنس کے سیکرٹری نے ایک بزرگ عاشق بابا کرم دین طوفانی کو دعوت تقریر دی.

بابا جی مائیک ہاتھہ میں لے کر یوں کانفرنس سے مخاطب ہوئے.

معزز حاضرین! جیسا کہ آپ جانتے ہیں میرا شعبه موٹیویشن اینڈ ٹریننگ ہے. میں سارا سال لوگوں کو عاشق بننے کی ترغیب دیتا رہتا ہوں اور آج بھی یہی پیغام لے کر حاضر ہوا ہوں کہ آیئے ، عاشق بنئیے.

ہم جانتے ہیں کہ آپ میں سے اکثر خواتین و حضرات یہاں صرف اس لئے تشریف لاۓ ہیں کہ ہماری برادری میں شامل ہو سکیں. مجھے احساس ہے کہ آپ لوگوں کے دلوں میں شکوک و شبھات بھی ہونگے، کی غلط فہمیاں آپ کے ذھن میں ہوں گی. جو آپ کو عاشق بننے سے روکے ہوئے ہیں مثال کے طور پر یہ غلط فہمی گردش عام میں ہے کہ عشق سخت آوارہ، نالائق، اچکے اور بیکار لوگوں کا مشغلہ ہے تو صاحب عرض ہے ک اگر عاشق کئی سال تک  برصغیر پر حکومت کر سکتا ہے (اور حکومت بھی ایک اچھے بھلے ٹہکے کے ساتھہ) تو پھر بھی آپ نے اس من گھڑت افواہ پر یقین کرلیا کہ عشاق بے کار آدمی ہوتے ہیں. آپ نے تاریخ کا مطالعہ ضرور کیا ہوگا اور اگر نہیں کیا تو سنا تو ضرور ہوگا کہ شاہ جہاں دنیا کے ایک عظیم شہنشاہ گزرے ہیں مگر عشاق برادری میں وہ ایک معمولی قسم کے عاشق کا مقام رکھتے ہیں. گویا عاشقی شہشاہیت سے افضل ہے ہان بھی تو رومیو نے اپنی جولیٹ سے کہا تھا..

میں تخت وتاج کو ٹھکرا کے تم کو پا لونگا

کہ تخت و تاج سے تیری گلی کی خاک بھلی

 

آپ شاید جانتے ہی ہونگے کہ دنیا میں فن سنگ تراشی کا بانی بھی ایک عظیم عاشق تھا. جس کا فن عاشقی کے علاوہ فن سنگ تراشی میں سنہری حروف سے لکھا گیا ہے’ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آگرہ میں عشق و محبت کا مینار تاج محل موجود ہے جس کی شہرت شعبه عشق پر تنقید کرنے والوں کے منہ پر ایک طمانچہ ہے. اب تو آپ مان گۓ ہوں گے کہ عشاق قطعی طور پر آوارہ اور نالائق قسم کے لوگ نہیں ہوتے ہیں

توعاشقان کرام! میری آپ سب سے بھی التماس ہے کہ آپ گھر گھر پیغام عاشقی پہنچائیں. اب میں آپ سے اجازت چاہوں گا. خدا حافظ ! “عشاق اتحاد زندہ باد”

باباۓ عشق کی تقریر ختم ہوئی تو مجمع تالیوں سے گونج اٹھا سٹیج سیکرٹری صاحب مائیک پر تشریف لاۓ اور داد طلب انداز سے نعرہ بازی شروع کردی. جس سے بہت شور برپا ہو گیا. ایک غزل سرا تھا تو دوسرا جگنی گا رہا تھا. کسی نے کان پر ہاتھہ دھرا ہوا تھا اور ہیر وارث شاہ گا رہا تھا. پنڈال کے ایک جانب لڈی اور ہے جمالو کی ٹولیوں کی بھنگڑ اور خٹک ناچ گروپ سے مقابلہ آرائی تھی. یہ ہنگامہ کافی دیر تک جاری رہا، اسی دوران صاحب صدر کی روکنگ چئیر کی حرکت روک چکی تھی. بعد میں معلوم ہوا کہ صاحب صدر اس شوروغل اور ہنگامے کو برداشت نہ کر سکے اور اپنے خالق حقیقی سے جا ملے تھے، فوری طور پر تمام ڈاکٹر عشاق کو سٹیج پر بلایا گیا جنہوں نے آتے ہی صاحب صدر کی موت کی تصدیق کردی.

یہ سانحہ کیا ہوا. کانفرنس میں ایک بھگڈر سی مچ گئی، سب نے وہاں سے رفو چکّر ہونا شروع کر دیا کہ جیسے صدر صاحب کے بعد انکی باری ہو ان حالات میں میں اور مرزا بھی وہاں سے واپس ہوئے..

 

خدا رحمت کندایں عاشقان پاک طینت را

Share

May 1, 2013

انہدام، یاور امان کے شعری مجموعے کا تعارف

Filed under: ادبیات,شاعری,کتابیات — ابو عزام @ 10:50 pm

جان لیوا ہے شام بہت
پر دفتر میں ہے کام بہت
 شہد بھرے ان ہونٹوں سے
کھانے کو دشنام بہت
حسن کے چرچے گلی گلی
اپنے سر الزام بہت

یاور امان  کی شاعری عہد جدید کی تلخیوں کی ایسی منظر کشی ہے جس میں کلاسیکییت اور تکنیک سے اجتناب کے بجاے اسکا بھرپور استعمال نظر آتا ہے۔انکی شاعری سے متعارف کرانےکا سہرا ہمارے ایک دوست کے سر جاتا ہے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ ہمارے عزیزدوست براردرم شمائل نے ایک نشست میں تذکرہ کیا کہ انکے والد محترم بھی شاعری کے دلدادہ ہیں، خود بھی لکھتے ہیں اور کئی زبانوں پر ۔مہارت رکھتے ہیں، نیز انکی ایک کتاب حال ہی میں چھپ کر آئ ہے۔ اس بات سے ہمیں بڑا اشتیاق ہوا اور ان سے گذارش کی کہ اگلی بار جب پاکستان کا چکر لگے تو کتاب ضرور لیتے آئیے گا۔

cover-front-yawar-aman

پھر جب ہمیں آٹوگراف کاپی ملی تو ظاہر سی بات ہے کہ پھولے نا سماے اور فورا انہدام، یاور امان کے شعری مجموعے کو پڑھنا شروع کیا۔ شاعرکے کلام میں اسکی زندگی کے اتار چڑھاو ، معاشرتی تبدیلیوں اور گردونواح کی جھلک ملنا کوئ اچھنبے والی بات نہیں لیکن جن مشکلات سے یاور امان صاحب گذرے ہیں، پرورش لوح وقلم کے نام پر انکو رقم کرنا درحقیقت ایک بڑی کاوش ہے۔

بارود کے نصاب میں تھی وہ کشش امان
بچوں کو لکھنے پڑھنے سے رغبت نہیں ہوئی

انکی تحریرمحض جالب کی احتجاجی شاعری نہیں اور نا ہی میر درد کا نوحہ ہے، اس میں فیض کی بغاوت اور  ندرت خیال ہے مگر بے محابہ لفاظی نہیں۔ یہ کتاب اظہارجذبات و احساسات و مشاہدات و طنز و تلخی سے عبارت  ایک ایسے مصور کا کینوس ہے جو  رنگوں کو  اسطرح بکھیر دیتا  ہے کہ پوری تصویر کے ساتھ ہر رنگ نمایاں نظر آتا ہے، چاہے وہ بارود کے دھوئیں کا سیاہ و سپید رنگ ہو، سمندر کے پانی کا نیلگوں رنگ ہو، سقوط بنگال  کے رستے زخموں کا آتشیں رنگ یا جلتے کراچی کا سرخ  رنگ، یاور امان کی اس کاوش میں آپکو وہ تمام رنگ یکجا نظر آئیں گے۔

autograph-yawar-aman

یاور امان صاحب کی شاعری میں نقل مکانی کے درد کے ساتھ ساتھ زندگی کی مشکلات کی عکاسی کی گئی ہے۔  کچھ قارئین کو شائد  یاور امان کی تحریر روایتی انداز سے مختلف   لگے کیونکہ انہوں نے  نہایت مہارت  سے الفاظ اور محاورات کے ساتھ جدید تجربات کئے ہیں۔

شاعر کے تعارف میں جناب ڈاکٹر محمّد رضا کاظمی لکھتے ہیں

یاور امان جیسے کلاسیکی رچاؤ اور بصیرت رکھنے والے شاعر کا وجود ہمیں ایک خوش گوار حیرت میں مبتلا کر دیتا ہے. کسی کہ کشتہ نہ شد از قبلہ مانیست کے مصداق میں نے یاور کی شعوری تربیت گاہ پر نگاہ کی تو مجھے کلکتہ کی وہ گلیاں نظر آئیں جن سے ہم اور یاور ایک دوسرے سے آشنا ہوئے بغیر آشنا تھے. اس پس منظر میں میرے لیے یہ سمجھنا مشکل نہ تھا کہ یاور کا شعور حیرت اور شناخت جیسے مسائل کے درمیان کیوں پروان چڑھا. یاور کے پاس جو آئینہ ہے اس کی آرائش سے کوئی نسبت نہیں اور شاید اس کا حسن واقعی صورت سراب رہا ہو. اتنا تو طے ہے کہ غم جاناں کی طرف سے اسے اطمینان ہے اور عشق اس کے لیے مسئلہ کا درجہ نہیں رکھتا. یاور کے دل سے جو صدا ابھرتی ہے وہ احتجاج کی صدا ہے.

انکی ایک غزل ملاحظہ ہو کہ۔

ہاتھوں میں سیم و زر کی حرارت نہیں ہوئی
مجھہ سے یزید وقت کی بیعت نہیں ہوئی

اس کا جب انتخاب تھا میرے لیے کفن
مجھہ سے بھی پاسداری خلعت نہیں ہوئی

سچ بولتے وہ کیسے جنھیں جاں عزیز تھی
یہ تاب، یہ مجال ، یہ جرات نہیں ہوئی

کچھہ لوگ بچ گۓ جو ابھی تک ہیں سد راہ
پوری مراد حسب ضرورت نہیں ہوئی

بارود کے نصاب میں تھی وہ کشش امان
بچوں کو لکھنے پڑھنے سے رغبت نہیں ہوئی

احمد الیاس یاور امان کی شاعری کے بارے میں اسطرح رطب اللسان ہیں۔

امان کی ابتدائی شاعری کا زمانہ وہ تھا جب ایک نۓ انقلاب زدہ ملک میں اردو شاعر اور ادیب، مع اور قاری سب کے سب بے بسی کی زندگی بسر کر رہے تھے. پرانے اقدار ٹوٹ پھوٹ کر بکھر چکے تھے اور لوگ بڑی حد تک نظریۂ  کی اذیت کا شکار ہو رہے تھے. جس معاشرے میں یہ صورت حال ہو وہاں معاشرے کی شیرازہ بندی باقی نہیں رہتی. امان نے اس صورت حال کو محسوس کیا اور اس کا اظہار بھی کیا.

امان نے اپنے ماحول اور وقت کے سیاسی شعور، سماجی انتشار اور معاشرتی مسائل کو غزلوں کے اشعار میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے. وہ اس میں کہاں تک کامیاب رہے یہ ایک الگ موضوع گفتگو ہے. لیکن اس تجربے میں انہوں نے زندگی کے عصری تقاضوں کو محسوس کیا ہے اور ان محسوسات کو ایک اچھے فنکار کی طرح ادب کے عصری تقاضوں کے ساتھہ ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی ہے.

ہاور امان صاحب کی یہ غزل یقینا قابل ستائش ہے جس میں انہوں نے سادگی کی زمین میں ایک خوبصورت مضمون باندھا ہے۔

جب کبھی آسمان کھلتا ہے
دھند کے درمیان کھلتا ہے 

یوں در دل تو کھولیے صاحب

جیسے خالی مکان کھلتا ہے 

اس طرح مجھہ سے کیوں کھلیں گے آپ

جس طرح بادبان کھلتا ہے 

میرے مہمان بن کر تو دیکھیں

کس طرح میزبان کھلتا ہے 

کوئی کھڑکی کبھی جو کھلتی ہے

گویا پورا مکان کھلتا ہے 

بے زبانی بھی سوچیے اس کی

جب کوئی بے زبان کھلتا ہے

 در حقیقت یقیں کی سرحد پر

سارا وہم و گمان کھلتا ہے

ایک اور تہذیب سانس لیتی ہے

جب کوئی پان دان کھلتا ہے

حسن کی بارگاہ میں اکثر

دست بستہ امان کھلتا ہے

یاور امان اور ان کی شاعری کے عنوان سے ایک مضمون میں علی حیدر ملک انکی سوانح لکھتے ہیں جس سے شاعر کی زندگی کے کئی پہلووں پر روشنی پڑتی ہے اور اشعار کے سیاق و سباق و کیفیت  کا اندازہ ہوتا ہے۔ 

بچہ بچہ ہے مرے شہر کا رونے والا

سوچتا ہے کسے بہلاۓ کھلونے والا

دن جو بدلے تو چلا آیا پذیرائی کو

ہار پھولوں کا لیے خار چبھونے والا

جانے کس جرم کی پاداش میں ان آنکھوں کو

رت جگے دے گیا آرام سے سونے والا

ایسا ہوتا ہے گماں یہ مرا اپنا تو نہیں

قتل گاہوں کی زمیں خون سے دھونے والا

ڈھونڈھتے ہو کسے ماضی کے دھندلکے میں امان

وقت گزرا ہوا پاتا نہیں کھونے والا

علی حیدر ملک کے تعارف کے کچھ حصے قارئین کی دلچسپی کے لئے یہاں نقل کررہا ہوں۔

یاور امان کی شاعری بنگلہ دیش کی ہم عمر ہے. مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے سے پہلے نہ تو وہ یاور امان تھے اور نہ ہی شاعر. تا ہم قرطاس و قلم سے ان کا رشتہ بہر حال اس وقت بھی قائم تھا. اس وقت وہ امان ہر گانوی کے نام سے جانے جاتے، افسانے و مضامین لکھتے اور ہندی و بنگالی ادب پاروں کے ترجمے کیا کرتے تھے. علاوہ ازیں بہ حیثیت صحافی اخبارات خصوصا ہفت روزہ “قوم” کھلنا اور روز نامہ “حریت” کراچی کے لیے خبریں، رپورٹیں اور فیچر وغیرہ بھی تحریر کرتے تھے.

بنغلہ دیش بننے کے بعد کسی طرح اپنی جان اور عزت بچا کر وہ کھلنا سے ڈھاکہ منتقل ہوگۓ. جان اور عزت تو محفوظ رہی لیکن اپنے روزگار اور پرانے ساتھیوں سے محروم ہو گۓ. غیر بنگالیوں کے لیے یہ بڑا پیغمبری وقت تھا. اردو بولنا ایک جرم تھا. رفتہ رفتہ حالات کسی قدر بہتر ہوئے تو اردو بولنے والوں کی توجہ اپنی زبان اور ادب کی طرف شروع ہوئی. مگر اردو کے اخبارات و رسائل تو تھے نہیں لہٰذا ایسے میں شعری محفلیں کام آئیں. شاعروں اور بازوق لوگوں کے گھروں پر چھوٹی چھوٹی شعری نشستیں منعقد ہونے لگیں. ان شعری نشقوں میں زیادہ تر طرحی غزلیں پڑھی جاتی تھیں. یاور امان ان نشستوں میں بہ حیثیت سامع شرکت کرتے تھے. پھر یہ سوچ کر کہ نثر نگاروں کے لیے فی الحال یہاں کوئی گنجائش نہیں، انہوں ننے شاعری شروع کردی اور بہ حیثیت شاعر شعری محفلوں میں شریک ہونے لگے. ابتداء میں حافظ دہلوی اور ماہر فریدی سے مشورۂ سخن کیا. یہ دونوں بزرگ جید صاحب فن اور استاد سمجھے جاتے تھے لیکن یاور امان ان سے مطمئن نہ ہوئے کیوں کہ وہ رموز شاعری سے آگاہ کرنے کے بجاۓ مصرعے یا شعر تبدیل کر دینے اور اکثر اوقات سادہ کاغذ پر اصلاح دینے کے طریقہ کار پر کار بند تھے. یاور امان کو یہ طریقہ کار پسند نہیں تھا اسی لیے مشورۂ سخن کا سلسلہ جلد ہی منقطع ہوگیا. انہوں نے مطالعے کو اپنا رہبر بنایا اور غزلیں کہہ کر چند قریبی بزرگوں اور احباب کو سنانے لگے جن میں نوشاد نوری اور احمد الیاس سب سے نمایاں تھے. وہ اب بھی اسی طریقہ کار پرعمل پیرا ہیں. ہر نئی تخلیق پہلے وہ اپنے قریبی احباب کو سناتے اور ان سے ان کی راۓ طلب کرتے ہیں اور ان کی راۓ کی روشنی میں اپنی تخلیق پر دوبارہ غور کرتے ہیں. اس سلسلے میں دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے اس طرح کے قریبی دوست شاعر نہیں، نثر نگار ہیں مگر اس کا کیا کیا جاۓ کہ وہ شاعروں سے زیادہ ان نثرنگاروں کی راۓ کو ہی زیادہ معتبر گردانتے ہیں.

اردو شاعری  میں ایک طرف جہاں تعلی کی روایت بہت مضبوط ہے وہاں دوسری طرف تقلید کو بھی قابل فخر سمجھا گیا ہے . اکثر شعراء کا تعارف یہ کہہ کر کرایا جاتا ہے کہ فلاں شاعر کے رنگ میں شعر کہتے ہیں یایہ کہ فلاں شاعر کے دبستان سے وابستہ ہیں. یاور امان اس روش کو پسند نہیں کرتے. وہ کہتے ہیں :

 

امان چھاپ کسی کی نہ خود پہ لگنے دے

جب آرزو ہے کہ فن تیرا کامیاب رہے

 

وہ اپنے قلم کو کسی بھی شاعر کے اثر سے آزاد رکھنا چاہتے ہیں اور یہی نہیں وہ اپنی فکر کی تکرار بھی نہیں چاہتے:

امان آزاد رکھہ اپنے قلم کو

اور اپنے فکر کی تکرار مت کر

انہوں نے اردو شاعری کے اساتذہ اپنے پیسش روؤں اور ہم عصروں کا مطالعہ اور ان سے کسی قدر استفادہ ضرور کیا ہے لیکن کسی کی چھاپ اپنے اوپر نہیں لگنے دی. اپنے ارد گرد کے حالات و واقعات اور سیاست کی بازی گری سے آنکھیں چرانا عہد حاضر کے کسی شاعر کے لیے ممکن نہیں . یاور امان نے بھی ایسا نہیں کیا. انہوں نے عوام کی زبوں حالی کو اس طرح پیش کیا ہے:

اے قیصر وجمشید کے سجادہ نشیں دیکھہ

میت ابھی جمہور کی بے گورو و کفن ہے

ہمارے سیاسی رہنماؤں اور حکمرانوں کا رویہ کیا ہے، اس ضمن میں وہ کہتے ہیں :

منصب راہبری، اندھوں میں جب کانے کو

ہاتھہ آۓ تو سمجھہ لیتا ہے گھر کی میراث

 

یاور امان نے دو ہجرتیں کیں اس کا صلہ کیا ملا؟ ذرا شعر دیکھیے :-

 

دو ہجرتوں کے بعد بھی ثابت نہ کر سکے

حب زمیں امان زمین وطن کے ساتھہ

 

غزل اشارے اور کناۓ کا فن ہے. اس میں عصری حالات اور تاریخی واقعات کو بھی استعارے کے پیکر میں پیش کیا جاتا ہے لیکن یاورامان  نے بعض اوقات راست انداز سے کام لیا ہے مثلا وہ غزلیں جن کے مطلعے درج ذیل ہیں:

 

ان آنکھوں میں محبّت دیکھتے ہیں

چلو دل کی شہادت دیکھتے ہیں

اور

 

یقین کی حد سے آگے منزل وہم و گماں کیوں ہو

میاں دیدہ و دل حاصل سود و زیاں کیوں ہے

 

اپنا مدعا بیان کرنے کے لیے یاور امان نے ناموں کے استعمال سے بھی گریز نہیں کیا مثلآ :

ہم نے سیکھا عالی  جی سے

اپنے نام کی  مالا جپتا

اور

کراچی کو نصیر الله بابر

عجب کیا رکھہ نہ دے بنگال کر کے

یہاں ایک واقعے کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے. آخر الذ کر شعر جس غزل کا ہے وہ اس زمانے میں کہی گئ تھی جب پاکستان کے وزیر داخلہ جنرل (ریٹائرڈ) نصیر الله بابر اپنے لاؤ لشکر کے ساتھہ کراچی شہر میں ٹوٹ پڑے تھے. ہزاروں نوجوانوں کو ماوراۓ قانون، گولیوں کا نشانہ بنا کر شہید اور زخمی کردیاگیا . بے شمار معذور اور لاپتا کر دیے گۓ. پورا شہر، شہر خموشاں بنا ہوا تھا. اگر کوئی آواز سنائی دیتی تھی تو وہ گولی کی آواز ہوتی تھی یا نالہ وشیون کی. اس زمانے میں ظلم و جور کے خلاف صداۓ احتجاج بلند کرنا کوئی معمولی بات نہیں تھی یاور امان نے ان جرأت رندانہ سے کام لیتے ہوئے پوری قوت سے آواز بلند کی اور مشاعروں میں اپنے اشعاربے خوفی کے ساتھہ پڑھتے رہے. اورنگی ٹاؤن کے ایک بڑے مشاعرے میں، جس میں ضلعی انتظامیہ کے کئی زمہ دار افسر بھی موجود تھے، یاور امان نے یہ غزل پڑھی اور مشاعرہ لوٹ لیا، داد دینے والوں میں سرکاری افسران بھی شامل تھے.

اس کے کچھہ عرصے بعد یاور امان کسی دوست یا عزیز سے ملنے اورنگی گۓ. واپسی کے لئے وہ بس اسٹاپ پر کھڑے تھے کہ پولیس موبائل آئی اور انہیں اٹھا کر لے گئی. انہیں حوالات میں بند کر دیا گیا. پولیس ان پر الزام عائد کر رہی تھی کہ وہ ہندوستانی ایجنٹ ہیں اور غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخل ہوئے ہیں. یاور امان اپنی بے گناہی کا ثبوت پیش کرتے رہے لیکن حسب معمول پولیس اہلکاروں نے ایک نہ سنی. کچھ دیر بعد تھانے کے ایس ایچ او علاقے کے راؤنڈ سے واپس آۓ  تو انہوں نے یاور امان کو حوالات میں دیکھہ کر حیرت کے ساتھہ اپنے عملے سے پوچھا کہ انہیں یہاں کیوں بند کر رکھا ہے ؟ ایک اہلکار نے اپنا موقف بیان کیا تو ایس ایچ او نے جھنجھوڑ

کر کہا ارے او بیوقوفوں یہ شاعر ہیں اور کچھ عرصہ پہلے انہوں نے اورنگی کے مشاعرے میں وہ غزل پڑھی تھی جس میں اس وقت کے وزیر داخلہ کو نشانہ تنقید بنایا گیا تھا. پھر اس نے نصیر الله بابر والے شعر کے علاوہ کئی شعر سنا ڈالے. یاور امان کو حوالات سے رہا کرنے کے بعد ایس ایچ او نے انہیں چاۓ پلائی اور معذرت کی. زمانہ گردش کرتا رہتا ہے سو زمانے کی نئی گردش نے اس جماعت کو جو معتوب تھی، اقتدار کی مسند پر بٹھا دیا. اب ان لوگوں کی بن آئ جو پرشوب دنوں میں منقاد زیر پر کیے بیٹھے تھے. خون لگا کر شہیدوں میں شامل ہو جانے والے ادیب اور شاعر انعامات وصول کرنے والوں کی قطار میں کھڑے ہو گۓ مگر یاور امان اور ان جیسے دوسرے اہل قلم جنہوں نے عین ظلم و جور کے زمانے میں احتجاجی فن پارے تخلیق کیے تھے اس قطار سے دور وہیں کھڑے رہے جہاں کہ وہ پہلے تھے. خیر یہ دوسرا قصّہ ہے اور ہمارے معاشرے کے ایک اور المیے کو ظاہر کرتا ہے.

بات ہو رہی تھی یاور امان کی شاعری کی اور میں یہ عرض کر رہا تھا کہ یاور امان نے کسی شاعر کی تقلید یا پیروی نہیں کی. یہاں تک کہ پرویز شاہدی اور مظہر امام جیسے ممتاز شعراء کی بھی نہیں جو کہ ان کے باقاعدہ استاد تھے. ویسے وہ بعض شاعروں کو پسند ضرور کرتے تھے جنمیں مرزا غالب، شادعظیم آبادی، جمیل مظہری، جون ایلیا اور ظفر اقبال خاص طور پر قابل ذکر ہیں. ان کی زمینوں میں انہوں نےغزلیں بھی کہی ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ اپنی افتاد طبع کے اعتبار سے وہ جدید غزل کے مجتہد ظفر اقبال سے زیادہ قریب ہیں. یوں تو انہوں نے کلاسیکی روایت میں بھی غزلیں کہی ہیں اور اچھے شعر تخلیق کیے ہیں لیکن جدید رنگ کی غزلوں میں ان کے یہاں زیادہ طرح داری اور پختگی کا احساس ہوتا ہے. ان کی جدید طرز کی غزلوں میں طنزکا عنصر بنت نمایاں نظر آتا ہے حالانکہ طنز ایک ایسی خصوصیت ہے جو غزل کے بنیادی مزاج سے مطابقت نہیں رکھتی. تاہم غالب، یگانہ اور دور حاضر میں ظفر اقبال، مظفرحنفی اور کچھہ دیگر شعراء نے اس کا استعمال نہایت سلیقے سے کیا ہے. یاور امان بھی انہی لوگوں میں شامل ہیں.

یاور امان کی شاعری میں صرف طنز ہی نہیں اکثر تلخی کا بھی احساس ہوتا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک کھاتے پیتے نجیب الطرفین سادات گھرانے میں پیدا ہوئے تھے لیکن لڑکپن میں ہی والد کا سایہ سر سے اٹھہ جانے کے باعث انہیں سخت ابتلا و آزمائش سے گزرنا پڑا. تعلیم اور روزگار کے حصول کے لئے انہیں کم عمری میں اپنا گاؤں چھوڑ کر کلکتہ اور ممبئی جیسے بڑے شہروں کا رخ کرنا پڑا. ان بڑے شہروں میں انہوں نے مادی کامیابی کے لیے چوہا دوڑ، انسانی اقدار کی پامالی اور سرماۓ کی چیرہ دستی کا تماشا بہت قریب سے دیکھا جس سے ان کے بہت سے آدرش شکست و ریخت سے دو چار ہوئے.بڑے تجارتی شہروں کے حالات نے ان کی نفسیات پر گہرے اثرات مرتب کیے اور ان کی ذات کے اندر تلخی پرورش پانے لگی. اس تلخی کا اظہار جابہ جا ان کی شاعری میں ہوا ہے.

یاور امان نے شاعری کی مختلف صنفوں میں طبع آزمائی کی ہے. انہوں نے رباعی جیسی روایتی اور مشکل صنف کو بھی اظہار کا ذریعہ بنایا ہے اور نظم کی مختلف ہستیوں کو بھی آزمایا ہے. جہاں تک نئی صنف سخن “تروینی” کا تعلق ہے، وہ اس کے مخترع گلزار کے بعد اولین دو معماروں میں سے ایک ہیں. دوسری اولین معمار فوقیہ مشتاق ہیں. لیکن غزلوں کی تعداد بھر حال ان کے ہاں سب سے زیادہ ہے اس لیے انہوں نے سب سے پہلے اپنی غزلوں کا انتخاب شائع کرنا مناسب سمجھا. دوسری اصناف پر مشتمل مجموعے بعد میں شائع ہوں گے. فی الحال آپ ان غزلوں کے مختلف النوع ذائقے کا ۔لطف اٹھائیے.

علی حیدر ملک کے مندرجہ بالا تعارف سے امید ہے کہ ہمارے دور کے اس شاعر کے حالات زندگی اور انکے کلام کی نوعیت سے اچھی واقفیت ہوئ ہوگی۔ مندرجہ زیل غزل یاور امان صاحب کے مجموعے سے میری پسندیدہ غزل ٹھری ہے۔

جان لیوا ہے شام بہت

پر دفتر میں ہے کام بہت

شہد بھرے ان ہونٹوں سے

کھانے کو دشنام بہت

حسن کے چرچے گلی گلی

اپنے سر الزام بہت

ننگی گھاس ف ننگے پاؤں

چلنے میں آرام بہت

گھر سے گھر تک رہوں میں

پھیلے ہیں اوہام بہت

گھر، گلیوں، چوباروں میں

رشتوں کے اہرام بہت

مرنے کا بس ایک ہی دن

جینے کے ایام بہت

سچ کی قیمت کم ہے امان

جھوٹ کہو تو دام بہت

اور مندرجہ زیل اشعار میں آپکو جدید ٹکسالی اردو  کا مزا آے گا۔


عدو یوں تو مرا تگڑا بہت ہے

مگر میں نے اسے رگڑا بہت ہے

میں تجھہ سے عشق تو کرتا ہوں جاناں

مگر اس راہ میں لفڑا بہت ہے

تمھاری تیز رفتاری سلامت

ہمارے واسطے چھکڑا بہت ہے

تقریبا تین سوصفحات کی  یہ کتاب  میڈیا گرافکس کراچی نے شائع کی ہے اور اسکی قیمت تین سو رپے ہے۔

cover-back-yawar-aman

 

Share

April 26, 2013

عقلیت پرستی کا دور از حسن عسکری

Filed under: ادبیات,کتابیات,مذہب,مشاہدات — ابو عزام @ 9:58 pm

عقلیت پرستی کا دور، انتخاب از مجموعہ محمد حسن عسکری

حسن عسکری

عقلیت پرستی کی داستان یہ ہے. سترھویں صدی کے وسط تک لوگ یہ طے کر چکے تھے کہ انسان کی جدوجہد کا میدان یہ مادی کائنات ہے، اور انسان کا مقصد حیات تسخیر فطرت یا تسخیر کائنات ہونا چاہئے. بیکن نے مطالعہ فطرت کا طریقہ بھی مقرر کر دیا تھا. اب سوال یہ تھا کہ انسانی صلاحیتوں میں کونسی صلاحیت ایسی ہے جو تسخیر کائنات کے لئے زیادہ مفید ہو سکتی ہے. اس دور نے یہ فیصلہ کیا کہ انسان صرف عقل (یعنی عقل جزوی اور عقل معاش) پر بھروسہ کر سکتا ہے، کیونکہ یہی چیز سارے انسانوں میں مشترک ہے. عقل (جزوی) کا یہ اختصاص ظاہر کرنے کے لئے ان لوگوں نے لفظ (یونیورسل) استعمال کیا. اس لفظ کی وجہ سے اتنی غلط فہمیاں اور گمراہیاں پیدا ہوئی ہیں کہ ہمارے علماء کو اس کی نوعیت اچھی طرح ذہن میں رکھنی چاہئے. اس لفظ کے اصل معنی ہیں. “عالم گیر” یا “کائنات گیر”مگر یہاں عالم کے معنی مادی کائنات نہیں ہیں، بلکہ وہ مفہوم ہے جو “اٹھارہ ہزار عوالم” کے فقرے میں آتا ہے. ہمارے دینی علوم میں دراصل اس مفہوم کو ادا کرنے کے لئے دو کافظ استعمال ہوتے ہیں…”کامل” (جیسے “انسان کامل”) اور “کلی” (جیسے “عقل کلی”) مگرفی الحال مغرب “عوالم” کا مطلب نہیں جانتا’ اس کے ذہن میں “عالم” کا مطلب صرف مادی کائنات اور اس کے اجزاء ہیں. چناچہ سترھویں صدی سے مغرب میں (یونیورسل) کا لفظ جنرل (یعنی عمومی) کے معنوں میں استعمال ہو رہا ہے. جو چیز “عمومی” ہوتی ہے وہ انفرادیت اور جزویت ہی کے دائرے میں رہتی ہے “کامل” اور “کلی” نہیں ہوتی. مگر مغرب اس امتیاز سے واقف نہیں.

یہ تو جملہ معترضہ تھا. غرض ‘ عقلیت پرستی کے دور میں یہ بات تسلیم کرلی گئی کہ انسان کی رہنمائی بس عقل (جزوی) کر سکتی ہے.

اس دور کے سب سے بڑے “امام” دوہیں. ایک تو فرانس کا فلسفی اور ریاضی دان دے کارت اور دوسرا انگلستان کا سائنسدان نیوٹن.

دیکارت یوں تو رومن کیتھلک پادری تھا’ اور اپنی تحریروں کے ذریعے لوگوں کے شکوک و شبہات دور کر کے اپنے دین کی خدمت کرنا چاہتا تھا. لیکن نتیجہ الٹا نکلا’ مغرب کے ذہن کو مسخ کرنے کی ذمہ داری جتنی اس پر ہے شاید اتنی کسی ایک فرد پر نہیں’ فرانس کے ایک رومن کیتھلک مصنف نے تو یہاں تک کہا ہے کہ فرانس نے خدا کے خلاف جو سب سے بڑا گناہ کیا ہے وہ یہ ہے کہ دیکارت کوپیدا کیا.
اب تک تو یہ بحث چلی آرہی تھی کہ حقیقت روح میں ہے یا مادے میں ‘بعض لوگ کہتے تھے کہ روح حقیقی ہے ‘مادہ غیر حقیقی. بعض لوگ کہتے تھے کہ مادہ بھی حقیقت رکھتا ہے مگر کھلی طور پر، کچھ لوگ دبے لفظوں میں یہ بھی کہتے ہیں کہ بس مادہ ہی حقیت ہے. اس سارے جھگڑے کا دیکارت نے یہ حل نکالا کہ روح اور مادہ دونوں حقیقی ہیں’ مگر ایک دوسرے سے بلکل الگ ہیں اور اپنی اپنی جگہ قائم ہیں. چناچہ اس نے روح اور مادے کو ‘ انسان کی روح اور جسم کے دو الگ الگ خانوں میں بانٹ دیا جو ایک دوسرے سے آزاد اور خود مختار ہیں.

یہ نظریہ مغربی ذہن میں اس طرح بیٹھا ہے کہ تین سو سال سے یہ تفریق اسی طرح چلی جا رہی ہے. روح اور جسم’ روح اور مادے کے ارتباط کے مسلہ آج تک حل نہیں ہوا. مغرب کے زیادہ تر مفکر جسم اور مادے میں اٹک کے رہ گۓ’ اس سے اوپر نہیں جا سکتے کچھ مفکر روح میں لٹک گۓ تو نیچے نہیں آ سکتے. دیکارت کے فلسفے کا سب سے خوفناک نتیجہ یہ ہوا ہے کہ مغرب “روح” کے معنی ہی بھول گیا’ اور “ذہن” (یا “نفس”) کو روح سمجھنےلگا.

یہ گڑبڑ دراصل یونانی فلسفے میں بھی موجود تھی. ارسطو وغیرہ یونانی فلسفی انسان کی تعریف دو طرح کرتے ہیں. انسان کو یا تو “معاشرتی حیوان” کہتے ہیں یا “عقلی حیوان” (ان فقروں سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ یونانی فلسفے پر معاشرتی نقطہ نظر اور عقل جزوی کس حد تک غالب تھی). دیکارت کے ہم عصر فرانسیسی مفکر پاسکال نے انسان کو “سوچنے والا سرکنڈا” بتایا ہے. یعنی انسان کے جسمانی وجود کے جانور کی سطح سے بھی نیچے اتار دیا ہے. (مغرب کی ساری جسم پروری کے باوجود مغربی فکر میں جسمانیت سے گھبرانے اور اسے حقیر سمجھنے کا رجحان بھی خاصا قوی ہے.)

اسی طرح دیکارت نے انسانی وجود کی تعریف ایک مشہور لاطینی فقرے میں یوں کی ہے.

Cogito ergo sum  (I think therefore i am )

“میں سوچتا ہوں” اس لئے میں ہوں”. گویا اس کےنزدیک وجود کا انحصار ذہن پر ہے. یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر آدمی نہ سوچے تو اس کا وجود رہے گا یانہیں. خود دیکارت سے ایک آدمی نے پوچھا تھا کہ “میرے کتے کے بارے میں آپ کی کیا راۓ ہے ؟”

غرض ‘ جسم اور روح’ مادے اور روح کو ایک دوسرے سے الگ کرکے دیکارت نے مغربی فکر کو ایسی الجھن میں ڈال دیا ہے جس سے باہر نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیںآتی’ اور مغربی ذہن ہر مسئلے پر روح اور مادے کے تقابل یا تضاد ہی کے لحاظ سے غور کرتا ہے.

دیکارت کے ہم عصر پاسکال نے ایک دوسرے قسم کی کشمکش مغربی ذہن میں پیدا کی ہے. اب تک تو لڑائی روح اور جسم میں ہی تھی. چونکہ مغرب “روح” کے معنی بھولنے لگا تھا’ اس لئے کہنا چاہئے کہ ذہن (یا نفس) اور جسم میں لڑائی تھی. پاسکال نے اعلان کیا کہ “دل کے پاس بھی ایسی منطق ہے جسے عقل نہیں سمجھ سکتی،”

The heart has reasons of its own which the reason does not understand

یہاں لفظ “دل” کے معنی خاص طور سے سمجھہ لینے چاہیں’ نہ صرف اسلامی علوم میں بلکہ سارے مشرقی ادیان میں “دل” سے مراد ہے “عقلی کلی”. علاوہ ازیں ‘ ہمارے یہاں “نفس” روح اور جسم کے درمیان کی چیز ہے. اس لئے “نفس” میں عقل جزوی بھی شامل ہے اور ہوا وہوس بھی. پاسکال نے جس “دل” کا ذکر کیا ہے اور جسے “ذہن” مقابل رکھا ہے. اس سے مراد “جذبات” ہیں. اس سے بتیجھ یہ نکلتا ہے کہ پاسکال نے “دل” اور “عقل” یا “ذہن” کے درمیان جنگ چھیڑ دی’ اور مغربی فکر اور ادب میں اس جنگ کی شدّت بڑھتی ہی چلی گئی ہے. ظاہر ہے کہ اس جنگ سے آدمی کو جذباتی تکلیف پھنچتی ہے. بیسویں صدی میں اس تکلیف کا نام “کرب” رکھا گیا ہے. (اس ضمن میں جرمن زبان کا لفظ اینگسٹ بہت مشھور ہوا ہے. جس کے لئے انگریزی میں لفظ اینگش ہے). ہمارے زمانے میں بہت سے مغربی مفکر اس “کرب” کو انسان کی معراج سمجھتے ہیں. دیکارت کہتا تھا کہ انسان کو وجود سوچنے سے حاصل ہوتا ہے. آج کل کے بہت سے مفکر کہتے ہیں کہ انسان کو وجود “کرب” سے حاصل ہوتا ہے. بلکہ بعض مفکر تو اس “کرب” اور مذہب کو ہم معنی سمجھتےہیں اور اپنی دینیات کی بنیاد اسی پر رکھتے ہیں.

عقلیت پرستی کے دور کا دوسرا بڑا امام نیوٹن ہے. سائنس میں اس کا سب سے بڑا کارنامہ “کشش ثقل کے قانون” کی دریافت ہے. لیکن مغربی ذہن پر اس کا اثر بہت گہرا پڑا ہے. یہ قانون معلوم کر کے اس نے گویا یہ دکھا دیا کہ کائنات کا نظام چند واضح قوانین کے ذریعے چل رہا ہے. اگر انسان اپنی عقل (جزوی) کی مدد سے یہ قوانین دریافت کرلے تو کائنات اور فطرت پر بورا قابو حاصل کر سکتا ہے. قوانین دریافت کرنے میں وقت لگے گا، لیکن انسان کو یہ امید رکھنی چاہئے کہ ایک دن فطرت کو فتح کرلے گا.

سائنس نیوٹن سے بہت آگے چلا گیا اور اس کا تصور کائنات رد کردیا گیا’ مگر اس نے جو ذہنیت پیدا کی تھی وہ بڑھتی چلی گئی ہے.

نیوٹن کی نظرمیں کائنات اور فطرت ایک بے جان مشین تھی’ اور انسان ایک انجینئر کی طرح تھا. کائنات کے اس نظرئیے کو “میکانکیت” کہتے ہیں. انیسویں صدی میں بعض مفکروں نے اس نظرئیے کو رد کر دیا’ اور یہ ثابت کیا کہ کائنات اور فطرت بھی انسان کی طرح جان رکھتی ہے’ اور نمو اس کی بنیادی خصوصیت ہے’ اور کائنات خود اپنی توانائی سے زندہ ہے. اس نظریے کو “نامیت” کہتے ہیں. یہ ایک اور جھگڑا ہے جو تقریبا دو سو سال سے مغرب کے فلسفی اور سائنس داں دو حریف جماعتوں میں صف آرا چلے آ رہے ہیں. ایک گروہ میکانیت کا قائل ہے’ دوسرا نامیت کا.

عقلیت پرستی کے دور میں ہی نفسیات کا آغاز ہوا. اس سے پہلے نفسیات کوئی الگ علم نہیں تھا’ بلکہ فلسفے ہی کا حصّہ تھا. ابن رشد نے تو علم النفس کو طبیعات کے ماتحت رکھا ہے.نفسیات کو فلسفے سے الگ کرنے کا کام سترھویں صدی کے دوسرے حصّے میں انگریز مفکر لاک نے سر انجام دیا’ اور اس کے نظریات میں اضافہ اٹھارویں صدی کے انگریز مفکر ہارٹلے نے کیا. نیوٹن نے کائنات کو مشین سمجھا تھا. ان دو مفکروں نے انسانی ذہن کو بھی مشین سمجھا. ان کا خیال ہے کہ ذہن بجاۓ خود کوئی چیز نہیں’ خارجی اشیاء انسان کے اعصاب پر اثر انداز ہوتی ہیں (مثلآ کوئی چیز دیکھی یا سونگھی یا چھوئی) تو اعصاب میں ارتعاش پیدا ہوتا ہے. یہ ارتعاش دماغ کے مرکز میں پہنچ کر تصویر کی شکل میں تبدیل ہو جاتا ہے’ اور پھر تصویر خیال بن جاتی ہے. اس طرح خارجی اشیاء کے عمل سے ذہن پیدا ہوتا ہے.

اس نظرئیے کا جواب اٹھارویں صدی میں پادری بارکلے نے دیا. اس کا خیال ہے کہ خارجی اشیاء کو وجود حاصل نہیں’ بلکہ ذہن خارجی اشیاء کوپیدا کرتا ہے. جب کوئی آدمی کہتاہے کہ میں نے پھول دیکھا’ تو اس کے پاس پھول کے وجود کا کوئی ثبوت نہیں ہوتا. یہ تو بس ایک ذہنی ادراک ہے’ اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ ذہن خارجی اشیاء کو پیدا کرتا ہے. پادری بارکلے نے انسانی ذہن کے نمونے پر خدا کا بھی ذہنی تصور کیا تھا (نعوذ باللہ). اس نظرئیے کو “مثالیت” کہتے ہیں.

انسانی ذہن کے یہ دونوں نظرئیے دراصل روح اور مادے کے اسی تقابل کا نتیجہ ہیں جو دیکارت سے شروع ہوا تھا’ اسی لئے ان دونوں کے درمیان کوئی مصالحت نہیں ہو سکتی.

اٹھارویں صدی کا انگریز فلسفی ہیوم ایک معاملے میں بڑی اہمیت رکھتا ہے اس نے کہا ہے کہ ہر ایسے لفظ کو شک کی نظر سے دیکھنا چاہئے جو کسی ایسی چیز پر دلالت کرتا ہو جسے حسی تجربے میں نہ لیا جا سکے. یعنی وہ چاہتا تھا کہ انسانی زبان و بیان سے ایسے لفظ بھی خارج کردیۓ جائیں جن کا تعلق روحانیت سے ہوں. یہ رجحان آگے چل کر انیسویں صدی میں فرانس کے فلسفی کونت کے “نظریہ ثبوتیت” کی شکل میں ظاہر ہوا، اور بیسویں صدی میں انگریزوں کے “منطقی ثبوتیت” کی شکل میں. ان فلسفوں کا بیان آگےہوگا .

اٹھارویں صدی میں ایک نئی قسم کا مذہب نمودار ہوا جو دراصل دہریت کی ایک شکل ہے. اس کا نام (خدا شناسی) رکھا گیا ہے. اس دور کے لوگ کہتے تھے کہ عقل (جزوی) انسان کا خاص جوہر ہے’ اور یہ چیز ہر زمانے او ہر جگہ کے انسانوں میں مشترک ہے’ اور ہر جگہ ایک ہی کام کرتی ہے.چناچہ خدا کو پہچاننے کے لئے وحی پر تکیہ کرنے کی ضرورت نہیں’ عقل (جزوی) کی مدد سے بھی خدا تک پہنچ سکتے ہیں. عقل کے ذریعے چند ایسے اصول معلوم کئے جا سکتے ہیں جو سارے مذاہب میں مشترک ہوں. ان اصولوں کا مجموعہ ہی اصل مذہب ہوگا.

جب انگریز ہمارے یہاں آئے تو ان کے اثر سے یہ رجحان ہمارے برصغیر میں بھی پہنچا.

١٨٥٧، کی جنگ آزادی کے بعد “خدا شناسی” کے جو میلے انگریزوں نے کراۓ ان کے پیچھے یہی رجحان تھا. ہندو اس سے بہت متاثر ہوئے’ اور انیسویں صدی کے شروع میں راجہ رام موہن راۓ نے جو “برہمو سماج” کی بنیاد ڈالی وہ اسی اثر کا نتیجہ تھا.

مسلمان بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے. ١٨٣٦، میں کمبل پوش نے یورپ کا سفر کیا تھا اور دس سال بعد اپنا سفر نامہ لکھا. ان کی کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ یورپ جانے سے پہلے ہی وہ “خدا شناسی” سے متاثر ہو چکے تھے. اس کا نام انہوں نے “سلیمانی مذہب” رکھا ہے. اسی کے اثرات اردو شاعر غالب کے یہاں بھی نظر آتے ہیں.

عقلیت پرستی کے دور کی ایک مرکزی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے انسانی زندگی اور انسانی فکر میں سب سے اونچی جگہ معاشرے کو دی تھی.ان کا خیال تھا کہ فرد کو اپنے ہر فعل اور قول میں معاشرے کا پابند ہونا چاہئے. یہ لوگ مذہب کو بھی صرف اسی حد تک قبول کرتے تھے جس حد تک کہ مذہب معاشرے کے انضباط میں معاون ہو سکتا ہے. غرض معاشرے کو بلکل خدا کی حیثیت دے دی گئی تھی نعوذباللہ..اس کے خلاف رد عمل انیسویں صدی میں ہوا’ اور معاشرے کے بجاۓ فرد کو اہمیت دی گئی. بیسویں صدی میں اشتراکیت کے زیر اثر بعض لوگ معاشرے کو پھر خدا ماننے لگے.

مغربی فکر میں جس طرح روح اور مادے ‘ ذہن اور جسم’ عقل اور جذبے کے درمیان مسلسل کشمکش جاری ہے’ اسی طرح معاشرے اور فرد کی کشمکش بھی بنیادی حیثیت رکھتی ہے’ اور اس کا بھی کوئی حل نہیں ملتا. مغرب میں جو معاشرتی انتشار پھیلا ہوا ہے اور روز بروز بڑھتا ہی جاتا ہے اس کی جڑ یہی تضاد ہے.

ان تصریحات سے پتا چلتا ہے کہ مغرب کا ذہن کسی طرح کی وحدت تک پہنچ ہی نہیں سکتا’ اور دوئی ‘ تضاد اور کثرت میں پھنس کے رہ گیا ہے. وحدت کا اصول قائم کرنے کی جتنی کوششیں ہوئی ہیں وہ کامیاب نہیں ہو سکیں’ اس کی اصلی وجہ یہ ہے کہ مغرب مادے میں وحدت ڈھونڈھتا ہے جہاں کثرت اور شکست وریخت کے سوا کچھ نہیں مل سکتا..

مغرب چاہے معاشرے کو اوپر رکھے یا فرد’ دونوں نظریوں میں ایک بات مشترک ہے ………. انسان پرستی. بیسویں صدی میں بعض مفکر اور ادیب ایسے بھی ہیں جو انسان کو حقیر سمجھتے ہیں یا انسان سے نفرت کرتے ہیں’ لیکن ان کی فکر کا مرکز بھی انسان ہی ہے…

Share

March 26, 2013

باب اول: بڑے سوالات – خدا اور اسٹیفن ہاکنگ, آخر یہ کس کی تخلیق ہے؟

Filed under: ادبیات,کتابیات,مذہب — ابو عزام @ 6:36 pm

گذشتہ سے پیوستہ۔  ڈاکڑ جان لینکس، آکسفرڈ یونیورسٹی کے ماہر ریاضیات پروفیسر کی شہرہ آفاق کتاب کا ترجمہ و تخلیص

باب اول: بڑے سوالات

اسٹیفن ہاکنگ بلاشبہ  اس وقت دنیا کے سب سے مشہور سائنسدان ہیں۔ وہ حال ہی میں کیمبرج کے لیوسیشئین پروفیسرشپ  کے عہدے سے سبکدوش ہوئے۔  یہ وہ منصب ہے جس پر کبھی سر اسحق نیوٹن براجماں رہے۔ ہاکنگ نے یہ مقام بہت امتیاز کے ساتھ حاصل کیا ہے۔ ان کو ملکہ عالیہ نے’اعزازی ساتھی‘ بنادیا اور ان کا تعلیمی کریئر پوری دنیا سے حاصل ہونے والے اعزازت سے مزین ہے۔

وہ صبر و برداشت کے بھی ایک علامت رہے ہیں کیوں کہ وہ چالیس سال سے زیادہ عرصے تک اعصابی بیماری کی تباہ کاری کو سہنے کے باوجود فارغ نہیں بیٹھے۔ بیماری کا زیادہ تر عرصہ انہوں نے ویل چیئر پر گزارا جبکہ ان کو ابلاغ کے لیے خاص طور پر ڈیزائن کردہ صوتی تالیف کار آلہ( سینتھائزر) پر انحصار کرنا پڑتا تھا جس کو بہت جلد دنیا بھر میں ایک قابل شناخت ”آواز“ کے طور پر پہچانا جانے گا۔

 اپنے بہت سے ممتاز ساتھیوں اور شاگردوں کے ساتھ مل کر ہاکنگ نے ریاضیاتی طبعیات کی سرحدوں کو دریافت کیا خاص طور پر سیاح سوراخوں کی رازوں کا ان کا مخالف وجدان قابل ذکر ہے۔ یہ کام ”ہاکنگ تابکاری“ کی پیش گوئی پر منتج ہوا تھا ، جس کی اگر تجربے کے ذریعے تصدیق کی جاتی تو وہ نوبل انعام کے حقدار قرار پاتے۔

ان کی ہاتھوں ہاتھ بکنے والی سب سے زیادہ فروخت والی کتاب ’’وقت کی مختصر تاریخ‘‘ میں ہاکنگ بنیادی طبعیات کی پیچیدہ دنیا کو کافی کی میز پر لے آئے(اگرچہ بہت سارے لوگ اس سے زیادہ مواد کی تلاش کا اعتراف کرچکے ہیں)۔ اس کتاب کے بعد اسی سطح کی کئی اور کتابیں سامنے آئیں جن میں عظیم سائنس کے رموز نے قارئین کے وسیع حلقے کو بہت زیادہ متاثرکیا۔

چونکہ ان کتابوں کا تعلق کائنات کی ابتدا/ تخلیق سے ہے ‘اس لیے ان کو لازمی طورپر خالق کے وجود کے موضوع کو زیرغور لانا چاہیے تھا۔ تاہم انہوں نے اس موضوع پر تشنگی کو باقی رکھنے کے لیے”وقت کی مختصر تاریخ“ کو بہ تکرار پیش کیے جانے والے بیان ”کہ اگر طبعیات کو ہر چیز کے تصور“(وہ تصور جس نے فطرت کی چار بنیادی قوتوں‘ مضبوط اور کمزورجوہری طاقتوں‘برقناطیسیت اور کششِ ثقل) کو تلاش کرنا ہوتا تو ہم” خدا کے ذہن کو پہچانتے“کے ساتھ ختم کیا۔

اپنی تازہ ترین تصنیف ”عظیم ڈیزائن“ جو انہوں نے لیونارڈو لیڈونو کے ساتھ مشترکہ طور پر تحریر کی ہے میں ان کی محتاط طبعی/کم گوئی غائب ہوگئی ہے اور انہوں نے کائنات کی الٰہی تخلیق کے عقیدے کو چیلنج کیا ہے۔ ان کے مطابق یہ خدا کی خواہش نہیں بلکہ طبعیات کے قوانین ہیں جو کائنات کی تخلیق کے بارے میں وضاحت فراہم کرتے ہیں۔ وہ دلیل دیتے ہیں کہ بِگ بینگ (بِگ بینگ موجودہ آفاقی ماڈل کے بارے میں اوائل کی وضاحت کرنے والا ایک نظریہ ہے‘ مترجم) ان قوانین کامنطقی نتیجہ تھا ”کیوں کہ یہ کشش ثقل کے قانون کی طرح کا قانون ہے کہ کائنات خود کسی چیز کے بغیر خود کو تخلیق کرسکتی اور کرتی ہے۔“

’’عظیم ڈیزائن‘‘ کا عنوان بیشتر لوگ کے نزدیک ’’عظیم ڈیزائنر کی بات کرتا ہوگا‘‘ لیکن دراصل یہی وہ بات ہے جس سے انکار کے لیے اس کتاب کو ترتیب دیا گیا ہے۔ ہاکنگ کا عظیم خلاصہ ہے کہ ”خودرو تخلیق اس بات کی دلیل ہے کہ نہ ہونے سے پہلے کوئی چیز ہے‘ کائنات قائم ہے‘ ہم کیوں زندہ ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ نیلے ٹچ کاغذ کو روشن کرنے کے لیے خدا کو بلایا جائے تو کائنات کام کرنا شروع کردے گی“۔

میں چاہتاہوں کہ اس کتاب میں ہاکنگ کی سائنس نہیں اس پر بات کروں جو اس نے خدا کے وجود یا عدم وجود کے بارے میں اس کتاب سے اخذ کیا ہے۔ اگرچہ ہاکنگ کی اس دلیل کو کہ سائنس غیر ضروری طور پر خدا کو دکھاتا ہے‘ کوانقلابی قرار دے کر سراہا گیا لیکن یہ دلیل نئی ہرگز نہیں ہے۔ برسوں تک دیگر سائنسدان اسی طرح کے دعوے کرتے رہے ہیں، جنہوں نے کہا کہ ہمارے اردگر دنیا کی رعب دار، جدید پیچیدگی کی صرف کائنات (کمیت /تونائی) کے بنیادی شے کے حوالے سے تشریح کی جاسکتی ہے یا پھر طبیعاتی قوانین، جیسے کشش ثقل کا قانون جو کائنات کے رویے کی وضاحت کرتا ہے۔

اس کتاب پر صرف ایک نظر ڈالنے سے یہ پتہ چلانا مشکل ہے کہ ہاکنگ کی یہ نئی کتاب اس کی تصنیف ’وقت کی مختصر تاریخ‘‘ میں کیسا اضافہ کرتی ہے۔

عظیم ڈیزائن ان بڑے سوالوں کی ایک فہرست سے شروع ہوتی ہے جو لوگ اکثر پوچھتے تھے:” ہم اپنے آپ کو جس دنیا میں پاتے ہیں اس کو کیسے سمجھ سکتے ہیں؟ کائنات کیسا برتاﺅ کرتی ہے؟ حقیقت کی فطرت کیا ہے؟ یہ سب کچھ کہاں سے آیاہے؟ کیا کائنات کو کسی خالق کی ضرورت تھی؟“

ایسے معروف شخص کے طرف سے آئے یہ سوالات اس خیال کو مضبوط تر بناتے ہیں کہ بین الاقوامی سائنسدان مابعد الطبعیات سے متعلق اِن عمیق سوالات کے بارے میں کس طرح کی فہم و فراست رکھتا ہے۔ بہرحال ان سوالوں کی جو ہم سب وقتاً فوقتاً پوچھتے ہیں ایک عظیم دماغ کی طرف سے وضاحت اور جواب بہرحال بڑی مسحورکن بات معلوم ہوتی ہے۔

فلسفے کا ایک ناکافی تصور:

اگر یہ ایسا ہی ہے جس کی ہمیں توقع ہے تو ہم صدمے سے دوچار ہیں کیوں کہ آگے کے الفاظ میں ہاکنگ فلسفے کو مسترد کرتے ہیں۔ اپنے سوالات کی فہرست کا حوالہ دیتے ہوئے موصوف رقم طراز ہیں ”روایتی طورپر یہ سوالات فلسفے کے لیے ہیں لیکن فلسفے کی موت ہوچکی ہے۔ اس کوسائنس‘ خاص کر طبعیات میں جدید ترقی کے ساتھ جاری نہیں رکھا گیا ہے ۔نتیجتاً سائنسدان علم کی دریافت  میں ہمارے مشعل بردار بن چکے ہیں۔‘‘

فلسفہ کو(وہ مضمون جس کو اس کی اپنی کیمبرج یونیورسٹی میں نمائندگی اور وقعت دی گئی ) مسترد کرنے کے اس بے جا زعم  سے قطع نظر یہ پریشان کن ثبوت فراہم کرتا ہے کہ کم از کم ہاکنگ جیسے ایک سائنسدان  نے بذات خود فلسفے کو اتنی اہمیت نہیں دی جس سے ان کو احساس ہوتا کہ پوری کتاب میں وہ خود اس کے ساتھ مصروف رہے ہیں‘‘

 پہلی بات میں نے یہ محسوس کی کہ ہاکنگ کا فلسفے کے بارے میں بیان دراصل خود ایک فلسفیانہ بیان ہے۔ یہ بہ دیہی طور پر سائنسی بیان نہیں ہے‘یہ سائنس کے بارے میں خالص فلسفیانہ بیان ہے۔ اس لیے اس کا بیان کہ فلسفہ کی موت ہوچکی ہے اپنی ہی تردید کرتا ہے۔ یہ منطقی بے ربطی کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔

فلسفے کی طرف ہاکنگ کا رویہ نمایاں طور ہر البرٹ آئن سٹائن کے اس خط کے برعکس ہے جس میں انہوں تاریخ اور سائنس کے فلسفے سے طبعیات تک تعلیم کی حمایت کی تھی۔

’’میں آپ کے ساتھ طریقیات کے علاوہ تاریخ اور سائنسی فلسفے کی تعلیمی قدر و اہمیت پر متفق ہوں۔ آج بہت سارے لوگ اور حتیٰ کے پیشہ ور سائنسدان مجھے اس فرد کی طرح دکھائی دیتے ہیں جس نے ہزاروں درختوں کو دیکھا ہوتا ہے لیکن کبھی جنگل نہیں گیا۔‘‘

تاریخ کا علم اور فلسفیانہ پس منظر ان تعصبات سے پاک رکھتی ہیں جن میں اس کے نسل کے اکثر سائنسدان مبتلا تھے۔ میرے خیال میں فلسفیانہ بصیرت کی بدولت حاصل ہونے والی اہلیت تعصبات سے آزادی ایک محض ماہر اور سچ کے حقیقی متلاشی کے درمیان لکھیر کھنچتی ہے‘‘

مزید برآں، ہاکنگ کا بیان کہ ’’سائنسدان دریافت کے معشل بردار بن چکے ہیں‘‘ سائنسیت سے ٹکراؤ ہے جو کہتی ہے کہ سائنس صرف سچ کی طرف ایک راستہ ہے۔ یہ سیکولر فکر کی اس تحریک کی نظریاتی خصوصیت ہے جس کو’’نئی دہریت‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے اگرچہ یہ خیال صرف اس لحاظ سے نیا ہے کہ  اب اس کو دانشورانہ مواد کی صورت کے بجائے جارحانہ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔

سائنسی دنیا کے ایک سپر اسٹار کو تو چھوڑیے ایک عام سائنسدان کے لیے یہ بات عقلمندی والی معلوم نہیں ہوتی  کہ وہ ایک طرف فلسفے کی تحقیر کرے اور پھر فورا غیرمعمولی فلسفیانہ موقف اختیار کرے خاص کر جب اس کو قارئین کو قائل کرنے  کے لیے ترتیب دی گئی کتاب کی ابتدا میں پیش کیا جائے۔

نوبل لیوریت سر پیٹر میداوار نے اس خطرے کی نشاندہی پہلے ہی اپنی کتاب ’نوجوان سائنسدانوں کو مشورہ‘‘ میں کردی تھی جو تمام سائنسدانوں کو لازمی پڑھنا چاہیے۔

’’

کسی سائنسدان کے لیے اپنے اور اپنے پیشے کی ساکھ کو خراب کرنے کا اس سے تیز طریقہ نہیں ہوسکتا کہ وہ صاف صاف اعلان کردے، خاص کراس وقت جب اس طرح اعلان کی ضرورت نہ ہو کہ سائنس ہر سوال کا جواب جانتی ہے یا جلد جان جائے گی اور وہ سوال جن کو سائنسی جواب نہیں مل پاتے وہ کسی طرح غیرسوال یا جعلی سوال ہیں جو کوئی بے ہی وقوف پوچھتا ہے اور صرف ایک اجڈ ہی اس کا جواب دینے کا دعویٰ کرے گا۔‘‘

میداوار آگے رقم طراز ہیں ۔’’تاہم سائنس کی حد کا وجود ان بچگانہ اور عنصری سوالات جن کا تعلق پہلی اور آخری چیزوں سے ہوتا ہے سے واضح ہوجاتا ہے جیسے ’’ہر چیز کی شروعات کیسے ہوئی؟‘‘’’ہم یہاں کس لیے ہیں؟ آخری زندگی رہنے کا مقصد کیا ہے؟‘‘ وہ آگے لکھتا ہے کہ ان سوالات کے جوابوں کے لیے ہمیں تصوریاتی ادب اور مذہب کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔

فرانسز کولنز پر بھی یکساں طور پر سائنس کی حدود واضح ہیں۔ وہ لکھتے ہیں سائنس ان جیسے سوالوں کا جواب دینے میں بے بس ہے کہ ’دنیا کیوں وجود میں آئی؟ انسانی وجود کے معانی کیا ہیں؟ مرنے کے بعد کیا ہوگا؟‘‘

میداوار اور کولنز صریحاٍ سائنس کے بارے میں پرجوش ہیں۔  پس ہمیں اعلیٰ سطح پر مخلص سائنسدانوں میں کوئی بے ربطی نہیں دکھائی دیتی جبکہ وہ بیک وقت یہ ادراک کرلیتے ہیں کہ سائنس ہر سوال کا بشمول کچھ گہرے سوالات کے جو ایک انسان پوچھ سکتا ہے جواب فراہم نہیں کرسکتی ہے۔

مثال کے طور یہ بات بڑے پیمانے پر تسلیم شدہ  ہے کہ سائنس میں اخلاقی اساس کا پایا جانا بہت ہی مشکل ہے۔ البرٹ آئن سٹائن نے اس کو واضح طور پر دیکھا تھا۔ ۱۹۳۰ میں برلن میں سائنس اور مذہب کے بارے میں ایک بحث کے دوران انہوں نے کہا کہ خوبصورتی کا انسانی احساس اور ہماری مذہبی جلبتیں استدلالی صلاحیتوں کو عظیم کامیابیوں کے طرف لے جانے میں معاون ہوتی ہیں۔ آپ بجا طور پر سائنس کی اخلاقی بنیادوں کی بات کرتے ہیں لیکن آپ یک دم پلٹ کر اخلاقیات کی سائنسی بنیادوں کی بات نہیں کرسکتے ہیں۔‘‘

آئن سٹائن اس نکتے پر پہنچ گئے کہ سائنس اخلاقیات کی بنیاد فراہم نہیں کرتی۔’’ اخلاقیات کی سائنسی فارمولے کی سطح پر کمی کی ہر کوشش ناکام ہوگی‘‘

رچرڈ فین مین نے جو خود بھی نوبل انعام جیتنے والے ماہرطبیعات ہیں آئن سٹائن کے ان خیالات سے اتفاق کیا ہے’’حتیٰ کے عظیم قوتیں اور اہلیت بھی ان کو استعمال کرنے کی ہدایات فراہم کرتی دکھائی نہیں دیتی۔ مثال کے طور پرعلم کا عظیم مجموعہ کہ طبعیاتی دنیا  جس طرح کا برتاو کرتی ہے صرف اس پر قائل کرتی ہے کہ یہ رویہ بے معنی قسم کا ہے۔ سائنس براہ راست اچھائی یا برائی نہیں سکھاتی۔‘‘ ایک اور جگہ وہ لکھتے ہیں’’ اخلاقی قدریں سائنس کے دائرہ کار سے باہر ہوتی ہیں‘‘

تاہم ہاکنگ اس کا انکار کرتے دکھائی دیتے ہیں جب وہ سائنس کو وہ کردار تفویض کرتے ہیں جو اس کی استعداد سے بڑھ کرہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ وہ فلسفے کی بے توقیری کرنے کے بعد اسی کے ساتھ مصروف ہوجاتے ہیں۔ حتیٰ کہ وہ سائنس کی تعریف اور اطلاق ان حتمی سولات پر بھی کرتے ہیں جیسے خدا کا وجود، اس طرح ہاکنگ مابعد الطعبیات پر گفتگو کرتے ہیں۔ اب ہمیں یہ وضاحت کرنے دیں کہ میں اس کے لیے ہاکنگ کو قصور وار نہیں ٹھیراتا، میں خود اس پوری کتاب میں مابعد الطعبیات کے پر گفتگو کرتا رہوں گا۔ میرا اعتراض تو یہ ہے کہ وہ اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتے۔

جاری یے۔

Share

January 31, 2013

خدا اور اسٹیفن ہاکنگ, آخر یہ کس کی تخلیق ہے؟

Filed under: ادبیات,کتابیات,مذہب — ابو عزام @ 10:25 pm

خدا اور اسٹیفن ہاکنگ, آخر یہ کس کی تخلیق ہے؟

ڈاکڑ جان لینکس، آکسفرڈ یونیورسٹی کے ماہر ریاضیات پروفیسر کی شہرہ آفاق کتاب کا ترجمہ و تخلیص

God and Stephen Hawking

 

پیش لفظ

میں نے یہ مختصر کتاب اس اُمید کے ساتھ تحریر کی ہے کہ یہ قارئین کو خدا اور سائنس سے متعلق بحث کو سمجھنے میں مدد فراہم کرے گی۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے پوری کوشش کی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو تکنیکی اُمورسے صرفِ نظر کرتے ہوئے دلیل تک محدود رہوں۔ میں سمجھتا ہوں ہم میں سے جنہوں نے ریاضی اور فطری سائنسز میں تعلیم حاصل کررکھی ہے اُن کی ذمہ داری ہے کہ سائنس کی عمومی تفہیم بیان کریں۔ خاص طور پر اس بات کی نشاندہی کرنا ہمارا فرض ہے کہ سائنسدانوں کا ہر بیان سائنسی حقیقت نہیں ہوتی ہے اس لیے وہ معتبر سائنس پر سند نہیں بن جاتے اگرچہ وہ سند اکثر غلط طوراُن سے منسوب کی جاتی ہے۔ بے شک اس کا اطلاق اتنا ہی مجھ پر بھی ہوتا ہے جتنا کسی اور پر ہوتا ہے‘ اس لیے میری قارئین سے گزارش ہے کہ میری ہر دلیل کی بغور جانچ پڑتال کریں۔ میں ایک ریاضی دان ہوں اور یہ کتاب ریاضی کے بارے میں نہیں ہے پس کسی بھی ریاضیاتی نتیجے کا درست ہونا جس کو میں نے ثابت کیا ہو اس بات کی ضمانت نہیں دیتا کہ میں نے کہیں اورجو کچھ کہا ہے وہ بھی درست ہوگا۔ تاہم مجھے اپنے قارئین کی صلاحیت پر بھروسہ ہے کہ وہ کسی بھی دلیل کا اس کے خلاصے تک تعاقب کریں گے۔ لہٰذا میں یہ کہتا ہوں کہ میں نے جو کچھ لکھا ہے اس کا فیصلہ میرے قارئین کریں گے۔

تعارف

خدا ان دِنوں موضوع بحث ہے‘ ہمیں یہ یقین دلانے کے لیے سائنسدانوں نے ان عنوانات کے تحت ایک کے بعد دوسری کتاب لکھی کی ہے، جیسے فرانسزکولنز کی’’خداکی زبان‘‘ رچرڈ ڈاؤکنز کی ’’خدا کا فریب‘‘ ، وکٹر اسٹینجرکی ’’خدا: ناکام مفروضہ‘‘، رابرٹ ونسٹن کی ’’خدا کی کہانی‘‘ وغیرہ وغیرہ۔

ان میں سے بعض کتابوں نے ’’بیسٹ سیلرز‘‘ کا درجہ پایا ہے کیوں کہ لوگ یقیناًیہ جاننا چاہتے ہیں کہ سائنسدان کیا کہہ رہے ہیں۔ اور یہ حیران کن نہیں ہے کہ کیونکہ ہمارے بناوٹی جدید دنیا میں سائنس زبردست ثقافتی اور دانشورانہ اختیار کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کی ایک وجہ ٹیکنالوجی کی تخلیقات کی غیر معمولی کامیابی ہے جن سے ہم سب فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ اس کی اور بڑی وجہ اس کی متاثرکن صلاحیت ہے جس نے ہمیں عجائباتِ عالم کی عمیق بصیرت عطا کی ہے جس کا ابلاغ ٹیلی وژن کی خوبصورت ڈاکیومنٹریوں کے ذریعے کیا جاتا ہے۔

بہت سارے لوگ جو بخوبی آگاہ ہیں کہ سائنس کی فراہم کردہ مادی ترقی ان کی گہری انسانی ضروریات کوپورا نہیں کرسکتی ، اب سائنسدانوں کی طرف متوجہ ہوکر یہ جاننا چاہتے ہیں کہ وہ اُن کے وجود سے جُڑے بڑے سوالات کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ ہم یہاں کیوں ہیں؟ہمارا مقصدِ زندگی کیا ہے؟ ہم کہاں جارہے ہیں؟ کیا صرف یہی کائنات ہے جس کا وجود ہے یا پھر اس سے آگے بھی کچھ ہے؟

اور یہ سوالات لامحالہ ہمیں خدا کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔ پس ہم کروڑوں لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ سائنس خدا کے بارے میں کیا کہتی ہے؟ مذکورہ بالا ’بیسٹ سیلرز‘ کتابوں میں سے بعض دہریوں کی تصنیف کردہ ہیں۔ لیکن یہ اہم بات ہے کہ یہ تمام دہریوں کی تصنیف نہیں ہیں۔ پس درحقیقت یہ ایک بہت ہی بچگانہ حرکت ہوگی ہے کہ اس بحث کوسائنس اور مذہب کے درمیان تصادم قرار دے کر قلم زد کردیا جائے۔
اس تصورِ ’’مخالفت‘‘ کو بہت پہلے ہی غیرمعتبر قرار دیا جاچکا ہے۔ مثال کے طور پر ہماری فہرست میں موجود پہلے مصنف ، فرانسز کولنز کو ہی لے لیجیے جو امریکا میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کے ڈائریکٹر اور ہومین جینوم( لونیت)پروجیکٹ کے سابق سربراہ ہیں۔ اس پروجیکٹ کے سربراہ کے طور پر ان کا پیشرو جم واٹسن کو(فرانسز کریک کے ساتھ مشترکہ طور پر) ڈی این اے کے دو مخنی ساخت کی دریافت پر نوبل انعام سے نواز جاچکا ہے۔کولنز ایک عیسائی جبکہ واٹس ایک دہریہ ہیں۔ یہ دونوں اعلیٰ پایے کے سائنسدان ہیں، جو اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ دراصل یہ ان کی سائنس نہیں تھی بلکہ دنیا کے بارے میں اُن کا تصور تھا جس نے ان کو تقسیم کیا۔ اگرچہ یہ ایک حقیقی تنازعہ ہے لیکن یہ سائنس بمقابلہ مذہب نہیں ہے۔ یہ خداپرستی اور الحاد کے درمیان ہے اور سائنس دان دونوں طرف ہیں۔ اور یہی چیز اس بحث کو مزید دلچسپ بناتی ہے کیوں کہ ہم ایک حقیقی سوال پر توجہ مرکوز کرسکتے ہیں۔کیا سائنس خدا کی طرف اشارہ کرتی ہے‘ اس سے دور لے کر جاتی ہے یا یہ خدا کے مسئلہ میں غیرجانبدار ہے؟

یہ چیز بالکل واضح ہے۔ خدا کی ذات میں دلچسپی میں یہ غیرمعمولی اضافہ دراصل سیکولرائزیشن کے نام نہاد مفروضہ کو چیلنج کرتا ہے جس نے ’روشن خیالی‘ کے بعد بہت جلدبازی میں یہ قیاس کرلیا کہ مذہب بالآخر تنرلی کا شکار ہوکر ختم ہوجائے گا ،یا پھر کم از کم یورپ سے اس کا خاتمہ ہوجائے گا۔ درحقیقت، یہ بعینہ سیکولرائزیشن کی متصور ناکامی ہے جو خدا کے سوال کو ایجنڈے سے زیادہ اہمیت دے رہا ہے۔
’خد ا کی واپسی‘(God is Back) کے مصنفین اکانومسٹ کے ممتاز صحافیوں جان میکلتھ ویٹ اور اڈریان ولڈریگ کے مطابق مذہب صرف ناخواندہ لوگوں کے لیے نہیں ہے بلکہ دنیا کے اکثر حصوں میں بعینہ وہ بڑھتا ہوا متحرک تعلیم یافتہ متوسط طبقہ اب عقیدہ کی اس گاڑی کو چلارہا ہے جس کے متعلق مارکس اور ویبر نے یہ قیاس کرلیا تھا کہ وہ اس طرح کے توہمات کو ختم کردے گا۔ یہ خاص پیش رفت قابل فہم طور پر سیکولر طبقہ ، خاص طور پر ان میں موجود دہریوں کو غضب ناک کرنے کا سبب بنا ہے۔

یہ احتجاج یورپ میں زیادہ شدید ہے شاید اس لیے کہ دہریوں کے خیال میں یورپ وہ جگہ ہے جہاں انہوں نے زیادہ کچھ کھویا ہے۔وہ غالباً درست سمجھتے ہیں‘اور ایسی علامات ہیں جن کی بنا پر کہا جاسکتا ہے کہ وہ یورپ میں پسپائی اختیار کر رہے ہیں۔ رچرڈ ڈاؤکنز ،جو اب تک ایک جتھے کے رہنما ہیں کا احتجاج بڑھتا ہواتیز سے کرخت کے درجے میں داخل ہوچکا ہے کیوں کہ اس کی دلیل کی منطق شکستگی سے دوچار ہوچکی ہے ‘ کم از کم یہ دکھائی دیتا ہے،حتیٰ کہ اس کے بہت سارے ساتھی دہریوں نے بھی اس کو محسوس کیا ہے۔ وہ اپنے اس عقیدے کی تبلیغ کے لیے مریدوں کی بھرتی کے ذریعے ’’عوامی شعوری سطح بڑھانے‘‘ کے لیے پرعزم ہیں کہ صرف دہریت ہی دنیا میں قابل احترام دانشورانہ نقطہ نظر ہے۔

اس کی مہم  بسوں پر پوسٹرز چپکانے اور بچوں کے لیے موسم گرما کے دہریت کیمپوں کے انعقاد تک جا پہنچی ہے۔ اور یقیناًگریبانی کوٹ پر سرخ رنگ کے بڑے بیجز جن پر دہریوں کے لیے اے رقم تھا وہ بھی بھولنے والی چیز نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اعلیٰ مہارت و ذہانت سے ڈیزائن کی گئیں ٹی شرٹس بھی اس کی تیارکردہ تھے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس کی اِس مہم سے اُس کا کوئی تعلق تھا یا نہیں لیکن اسی مہم کے دوران دہریوں کے کورس میں اسٹفین ہاکنگ کی طاقت ور سائنسی آواز کا اضافہ ہوا۔ اور دنیا ان ہیڈلائنز سے بھرگئی کہ ’’اسٹیفن ہاکنگ کہتا ہے کہ کائنات خدا کی تخلیق نہیں ہے‘‘، ’’اسٹیفن ہاکنگ کہتا ہے کہ فزکس نے خدا کے لیے کوئی جگہ نہیں چھوڑی ہے‘‘ اور یہی باتیں مختلف تغیرات کے ساتھ پیش ہورہی تھیں۔

ان ہیڈلائنز میں ہاکنگ کی نئی تصنیف ’’گرانڈ ڈیزائن‘‘کا حوالہ دیا جارہا تھا جو اس کی لیونارڈ لوڈینو کے ساتھ مشترکہ تحریر تھی۔ یہ کتاب بہت جلد ’بیسٹ سیلز‘ کی فہرست میں سب سے اوپر چلی گئی۔ ہاکنگ کے قد کاٹھ کی دانشورانہ شخصیت کی طرف سے دہریت کے عوامی اعتراف نے اس بحث پر فوری اثر ڈالا۔ یہ بحث بہت ساری کتابوں کی فروخت کا سبب بھی بنی۔

ہمیں کیا سوچنا ہے؟اگر ایسا ہے، تو پھر؟کیا بحث کے لیے مزید کچھ باقی نہیں بچا؟ کیا تمام علمائے مذہب کو فوراً مستعفی ہوجانا چاہیے؟کیا چرچ کے تمام کارکنوں کو اپنی ٹوپیاں لٹکا کر گھروں کو روانہ ہونا چاہیے؟ کیا فزکس کے عظیم ماسٹر نے کائنات کے عظیم مصور کو شہ مات دے دی؟

خدا کو چلتا کرنے کا دعویٰ یقیناًمبالغہ آرائی تھی۔ آخر کار ماضی کے عظیم سائنسدانوں کی اکثریت خدا پر یقین رکھتی تھی۔ اور بہت سارے اب بھی رکھتے ہیں۔ کیاگلیلیو، پلر، نیوٹن اور میکس وِل خدا کے معاملے میں غلطی پر تھے؟

جب اتنا کچھ خطرے میں ہو تو ہمیں یقیناًہاکنگ سے کہنا چاہیے کہ وہ اپنے دعویٰ کے حق میں ثبوت پیش کریں۔کیا اس کے دلائل کی چانچ پڑتال نہیں ہونی چاہیے؟ میرے خیال میں ہمیں جاننے کا حق ہے۔
لیکن ہم اُس وقت تک جان نہیں سکتے جب تک ہم اس کو دیکھ نہ لیں۔

پس آئیے ہم یہی کرتے ہیں۔

جاری ہے۔

Share
Older Posts »

Powered by WordPress