فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

October 15, 2012

تنقید برعقل محض از ایمانوئل کانٹ

Filed under: ادبیات,کتابیات — ابو عزام @ 9:39 pm

Critique of Pure Reason تنقید برعقل محض  یا

از ایمانوئل کانٹ فلسفے کی ایک نہائت اہم کتاب ہے۔ اس کتاب کا تنقیدی جائزہ دنیا کی سو عظیم کتابوں میں ستار طاہر نے کیا تھا جو درج زیل ہے۔

شو پنہارے کانٹ کے حوالے سے ہیگل کے فلسفے پر جو راۓ دی ہے اسے پڑھ کر خاصا تعجب ہوتا ہے کہ شو پنہارے نے ہیگل کے لئے خاصی توہین آمیز اور عامیانہ زبان استعمال کی ہے اس نے ایک طرح سے ہیگل کو مجمع باز اور چھچھورا قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اصل فلسفی تو کانٹ تھا.جس نے نہ صرف پورے ایک دور کو بلکہ آنے والی نسلوں کو متاثر کیا ہے لیکن مجمع باز ہیگل نے بڑی شہرت حاصل کرلی جس کا وہ قطعی حقدار نہ تھا.

١٧٢٤ میں پروشیا کے شہر کونگز برگ میں پیدا ہونے والا عمانوایل کانٹ بہت دلچسپ شخصیت کا مالک تھا وہ خاموش طبع’ پستہ قامت شخص تھا. جس نے اپنی ساری عمر اسی شہر میں گزاردی اگرچہ وہ جغرافیے کے موضوع پر لیکچر دینے کا عادی تھا. لیکن خود کبھی اپنے شہر سے باہر نکلنے کی جرات نہ کر سکا. کانٹ کے آباو اجداد صدیوں پہلے اسکاٹ لینڈ سے نقل وطن کر کے پروشیا آئے تھے. اس کی والدہ کٹر مذہبی خیالات رکھنے والی خاتون تھی. بچپن میں کانٹ پر اپنی ماں کا اتنا شدید اثر تھا کہ وہ سختی سے مذہبی امور اور عقائد پر عمل کرتا تھا. لیکن پھر وہ اپنی زندگی میں مذہب سے اتنا دور ہو گیا کہ کبھی گرجے کا رخ نہ کیا.

کانٹ کا دور فریڈرک اعظم جیسے شہنشا اور والتئیر جیسے فلسفی کا دور ہے. اس دور میں یہ ممکن ہی نہ تھا کہ نوجوانی کے دنوں میں کانٹ کے دل میں بعض مسائل اور نظریات کے بارے میں شکوک پیدا نہ ہوتے’ کانٹ کے سلسلے میں یہ بات بہت اہم ہے کہ ابتدائی عمر میں جن لوگوں کا اثر اس پر بہت گہرا رہا. بعد میں انہی لوگوں سے اسی شدید اختلاف پیدا ہوا اور کانٹ نے ان کی نفی کی ان میں برطانوی فلسفی ہیوم خاص طور قابل ذکر ہے ہیوم ایک طرح سے اسکا “محبوب دشمن” بن گیا تھا. کانٹ سیدھا سادہ آدمی تھا. لیکن جب ہم اس کے فلسفیانہ نظریات کے مختلف مدراج کا جائزہ لیتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ روایت پرست اور کسی حد تک رجعت پسندانہ خیالات کا مالک کس طرح عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ آزاد خیال اور بے باک فلسفی کا روپ دھار گیا. اگر وہ اپنی آخری تصنیف کی اشاعت کے وقت ستر برس سے زائد عمر کا نہ ہو چکا ہوتا تو یقینا اسے زندان میں ڈال دیا جاتا اور فلسفے کی دنیا کو ایک اور شہید مل جاتا لیکن عمر بزرگی کی وجہ سے اس کو نظر انداز کر دیا گیا تھا.

کانٹ کا عظیم ترین کارنامہ اس کی کتاب ہے یعنی “تنقید برعقل محض” جو ۱۷۸۱ میں شائع  ہوئ۔ اس کتاب کی اشاعت فلسفے کی دنیا میں ایک انقلاب کی حیثیت رکھتی ہے. “تنقید برعقل محض”وہ تصنیف ہے جو اپنی اشاعت سے لیکر اب تک بحث اور غور و فکر کا موضوع بنی رہی ہے. کانٹ نے اس کتاب میں جو فلسفہ پیش کیا اس نے دنیا کے فکری اور فلسفیانہ نظام کو بڑی شدّت سے متاثر کیا. فلسفے کا ایک نیا مکتب اس کتاب کے حوالے سے معرض وجود میں آتا ہے ایسی عظیم لافانی کتاب لکھنے والے کی زندگی کی ایک بھرپور جھلک بھی اس کے فلسفے کو سمجھنے میں خاصی مدد دیتی ہے.

١٧٥٥ میں کانٹ نے پرائیویٹ لیکچرار کی حیثیت سے کوئنگسبرگ کی یونیورسٹی میں درس دینا شروع کردیا. پندرہ برس تک وہ اسی حیثیت سی اس یونیورسٹی کے ساتھ منسلک رہا. وہ پروفیسر کے عہدے کا حقدار بھی تھا اور طلبگار بھی. اس سلسلے میں اس کی درخواستوں کو مسلسل نامنظور کیا جاتا رہا. بالآخر ١٧٧٠ میں اسے مابعد الطبیعات اور منطق کے مضامین کا پروفیسر بنا دیا گیا اس کی خاموش طبعی کی وجہ سے اس کے بارے میں کوئی یہ توقع نہ کر سکتا تھا کہ وہ فلسفے کی دنیا میں ہیجان پیدا کردیگا. ایسا سیدھا آدمی انسانوں کی زندگیوں کو چونکانے کی صلاحیت سے بظاہر محروم دکھائی دیتا تھا. وہ شرمیلا آدمی اندر سے بڑا شجاع تھا. خود کانٹ نے ایک بار لکھا تھا. “یہ میری خوش قسمتی ہے کہ میں مابعد الطبیعات کا عاشق ہوں لیکن میری اس محبوبہ نے میرے ساتھ نہت کم التفات کیا ہے.” وہ مابعد الطبیعات میں گہری دلچسپی لیتا تھا. ایک زمانہ اس پر ایسا بھی آیا جس کے بارے میں وہ خود کہتا ہے “میں مابعد الطبیعات کے تاریک پامال میں پھنسا رہا. یہ ایک ایسا سمندر ہے جسکا نہ کوئی کنارہ ہے نہ روشنی دکھانے والا مینار” لیکن اسی کانٹ نے مابعد الطبیعات میں تہلکہ خیز انقلاب پیدا کر کے ساری دنیا کو چونکا دیا. اپنی زندگی کے خاموش زمانے میں کانٹ کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ وہ مابعد الطبیعات میں گہری دل چسپی لے رہا ہے. تب سیاروں’ زلزلوں’ آتش فشاں پہاڑوں’ ہواؤں کے بارے میں لکھا کرتا تھا.١٧٥٥ میں شائع ہونے والی اس کتاب “تھیوری آف ہیونز” کو ایک خاصی اچھی کتاب سمجھا گیا لیکن اس پر کوئی لمبی چوڑی بحث نہ ہوئی.١٧٩٨ میں اس نے اپنے نظریات کو وسعت دی اور اس کی کتاب ایتھنز وپولوجی شائع ہوئی. اس کتاب میں اس نے لکھا ہے کہ انسان کی زندگی کی سحر جنگلوں اور جانوروں کی معیت میں ہوئی. اس لیے ابتدائی دور کا انسان’ آج کے انسان سے بیحد مختلف تھا کانٹ نے اس کتاب میں اعتراف کیا. “قدرت نے پھر کس طرح انسان کی ارتقائی نشوونما میں حصّہ لیا اور کن اسباب وعوامل کی وجہ سے انسان موجودہ مقام تک پہنچا. اس کے بارے میں ہمیں کچھ علم تو نہیں. ڈارون نے انسانی انواع پر عظیم اور چونکا دینے والا کام کیا جس سے کانٹ کے ان خیالات و نتائج کی تائید ملتی ہے.

کانٹ کے افکار ونظریات کے بارے میں کہا جا سکتا ہے اس معمولی اور سادہ انسان کے عظیم دماغ میں خیالات آہستہ آہستہ جمع ہوئے اور پھر منظم صورت اختیار کرتے تھے. وہ بمشکل پانچ فٹ کا شخص ہوگا. شرمیلا’ سمٹا سمٹایا لیکن اس کے چھوٹے قد کے فلسفی کا دماغ بڑا تھا. ایسے خیالات اور افکار کی اماجگاہ جنہوں نے پوری فکرانسانی کو تبدیل کر دیا. اس کے سوانح نگار نے اسکی زندگی کو چند افعال میں پیش کیا ہے وہ لکھتا ہے.”کانٹ کی زندگی چنداعمال پر مشتمل تھی. بندھے ٹکے اوقات پر اس کے روز مرہ کے ان اعمال میں کبھی فرق نہ آیا.صبح بیدار ہونا’ کافی پینا’ لکھنا’ لیکچر دینا’ کھانا اور سیر کرنا اس کا ہر کام عین وقت پر ہوتا تھا نہ ایک منٹ آگے نہ ایک منٹ پیچھے”. اور پھر جب عما نوایل کانٹ اپنے بھورے رنگ کے کوٹ میں ملبوس’ چھڑی ہاتھ میں لیے اپنے گھر کے دروازے میں نمودار ہوتا تو اس کے ہمساۓ گھڑیاں ملاتے. کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اس وقت ساڑھے تین بجے ہیں. ہر طرح کے موسموں میں وہ ٹھیک وقت پراپنے گھر سے نکلتا اور پیدل چلتا ہوا دکھائی دیتا. وہ دبلا پتلا کمزور انسان تھا. لیکن اس کا ذہن اور دماغ بہت قوی تھا وہ اگر کبھی بیمار بھی ہوتا تو ڈاکٹروں کا احسان نہ اٹھاتا وہ سمجھتا کہ ڈاکٹروں سے دور ہی رہنا چاہیے. اپنے انداز میں وہ اپنا علاج کرلیا کرتا تھا. اس لیے اس نے اسی برس کی طویل عمر پائی اس نے ستر برس کی امر میں ایک مقالہ تحریر کیا تھا. جس کا موضوع دماغی قوت اور بیماری کے احساسات پر قابو پانا تھا. اس کی پسندیدہ عادات میں ایک عادت یہ تھی کہ وہ طویل عرصے تک ناک سے سانس لیتا تھا. خاص طور پر جب گھر سے باہر ہوتا تو کبھی اپنا منہ کھلا نہ رکھتا اور چلتے ہوئے ناک سے سانس لیتا. وہ ہر کام بڑی احتیاط سے کرنے کا عادی تھا. ہر بات کو پہلے سوچتا. اچھی طرح غور کرتا اور پھر کہیں اس پرعمل کرتا. زندگی میں دوبار اس نے شادی کرنے کا فیصلہ کیا. لیکن پہلی بار یوں ہوا کہ جس خاتون سے شادی کرنا چاہتا تھا اس سے عرض مدعا نہ کر سکا اور اس خاتون نے ایک دوسرے شخص سے شادی کرلی. دوسری بار جس خاتون سے وہ شادی کرنا چاہتا تھا وہ خاتون اس شہر سے ہی چلی گئی. اور کانٹ کو اس سے بات کرنے کا موقع ہی نہ مل سکا. کانٹ ساری عمر کنوارہ رہا غالبا وہ بھی نطشے کی طرح یہ سمجھتا تھا کہ شادی شدہ آدمی کام کا نہیں رہتا. ٹالیرانڈ نے تو صاف کہا تھا کہ شادی شدہ آدمی کی مجبوری یہ ہوتی ہے کہ وہ روپے کے لیے سب کر گزرتا ہے اور یقینی بات ہے کہ کانٹ ایسا آدمی تھا جو اپنی زندگی کے اصولوں کو محض شادی کی مسرت پر قربان نہیں کر سکتا تھا.

وہ اپنی عظیم تصنیف “تنقیدبرعقل محض” پر کام کرتا رہا خاموشی سے…….کسی کو علم نہ تھا کہ وہ کیا لکھ رہا ہے. کسی کو علم نہ تھا کہ وہ ایک بڑے طوفان کو تخلیق کر رہا ہے وہ بار بار لکھتا اور نظر ثانی کرتا با لآخر اس کی یہ کتاب ١٧٧١ میں مکمل ہو گئی. اس وقت کانٹ کی عمر ستاون برس ہو چکی تھی. دنیا کا کوئی فلسفی اس عمر میں جا کر ایسی کتاب کا خالق بنتا ہوا دکھائی نہیں دیتا جس نے سارے فکری نظام کو ہلا کر رکھ دیا.

تنقید برعقل محض (Critique of Pure Reason)

اس عنوان کا مفہوم کیا بنتا ہے کتاب کے عنوان سے تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ “عقل محض” پر تنقیدی حملہ کیا گیا ہے حالانکہ کانٹ ایسا نہیں کرتا تھا یہاں “کریٹیک” کا لفظ تنقیدی تجزیے کے معنوں میں استعمال ہوا ہے. اس عظیم تصنیف میں کانٹ ہمیں بتاتا ہے کہ عقل ہے کیا اور عقل محض کیا ہے. اس کے امکانات کیا ہیں اسکی حدود کیا ہیں. عقل محض سے اسکی مرد علم ہے ایسا علم جو حواس کے ذریعے حاصل نہیں ہوتا جو ہر طرح کے حیاتی تجربات سے آزاد ہوتا ہے. یہ علم مختلف ذہنی ساختوں سے جنم لیتا ہے. اپنے اس فلسفے کے حوالے سے کانٹ برطانوی مکتب کے عظیم فلسفیوں ہیوم اور لاک کو چیلنج کرتا ہے جو علم کا منبع حواس کو قرار دیتے ہیں. ہیوم کا خیال تھا کہ نہ روح ہوتی ہے نہ سائنس ہمیں جو کچھ نصیب ہوتا ہے وہ حواس کے ذریعے ملتا ہے. کانٹ نے اس کی شدید انداز میں نفی کی اس نے اپنی کتاب میں لکھا.

میرا بڑا مسئلہ یہ رہا ہے کہ ہم عقل سے امید رکھتے ہوئے کیا حاصل کر سکتے ہیں اور یہ سوال اس صورت میں زیادہ واضح ہو جاتا ہے کہ جب ہم تمام مواد اور تجربے کی اعانت کو ایک طرف رکھ دیں تب عقل کس حد تک ہمیں کیا دے سکتی ہے.!

اپنے اس سوال کے حوالے سے کانٹ اپنی اس عظیم تہلکہ خیز کتاب میں ذہنی ڈھانچے اور دماغ کے مختلف مدراج کو بیان کرتے ہوئے ایسے امکانات کی نشاندہی کرتا ہوا ملتا ہے جو پہلے کبھی ہمارے سامنے نہ آئے تھے وہ اپنی اس کتاب کے حوالے سے بہت بڑا دعویٰ کرتا ہے اتنا بڑا دعویٰ شید ہی کسی فلسفی نے کیا ہوگا. وہ تنقید برعقل محض میں لکھتا ہے.

اس کتاب میں میں نے یہ مقصد رکھا ہے کہ تکمیل کو اپنا ہدف بناؤں میں نے یہ کاوش کی ہے کہ کوئی بھی مابعد الطبیعاتی مسئلہ ایسا نہ ہو جس کا جواب اورحل اس کتاب میں موجود نہ ہو یا پھر کم از کم اس مسئلے کے حل کے لیے اس کی کلید فراہم نہ کردوں.

کانٹ تنقید برعقل محض میں بتاتا ہے.

“تجربہ ایسی چیز نہیں ہے کہ جس پر علم کا انحصار ہو تجربے کی بدولت ہم خالص علم حاصل نہیں کر سکتے تجربہ ہاںمیں یہ بتاتا ہے کہ “کیا ہے “؟ لیکن یہ بتانا اس کے بس میں نہیں کہ کیوں ہے؟ اور پھر لازم نہیں کہ تجربہ ہمیں صحیح معنوں میں یہ بھی بتا سکے کہ کیا ہے؟ کی اصل کیا ہے.”انسان کے اندر کی سچائی تجربے سے آزاد ہونی چاہیے .”

ہم تجربے کی بدولت کہاں تک آگے بڑھ سکتے ہیں؟اسکا جواب ریاضی سے ملتا ہے ریاضی کا علم یقینی بھی ہے اور ناگزیز بھی ہم مستقبل کے بارے میں ریاضی کے اصول کو توڑ کر محض تجربے کی بناء پر علم حاصل نہیں کر سکتے.ہم یہ یقین کر سکتے ہیں کہ مستقبل میں سورج مغرب میں طلوع ہو سکےگا. یہ بھی یقین کر سکتےہیں کہ آگ لکڑی کو نہ لگے گی لیکن ہم پوری زندگی یہ بات تسلیم نہیں کر سکتے کہ دوا اور دو چار کے علاوہ بھی کچھ ابن سکتے ہیں. یہ سچائی تجربے سے پہلے کی ہے لازمی اور ناگزیز سچائیاں تجربے کی محتاج نہیں ہوتی ہے اور ایسی سچائیاں کبھی غلط ہو ہی نہیں سکتی ہیں..

تجربے کا حاصل انفرادی اور منتشر ہیجان کے علاوہ کچھ نہیں. سچائیاں ہمارے دماغ کی پیداوار ہیں. ہمارے ذہنی اور دماغی ساخت سے جنم لیتی ہیں. ذہن ایسا نہیں ہے کہ جیسے برطانوی فلسفیوں نے کہا ہے کہ اس پر موم رکھی ہو اور اسے حرارت ملے تو اس پر نقش بیٹھ جاتا ہے. ذہن مفعول نہیں فاعل ہے. ذہن مجرو احساسات اور کیفیات کا بھی نام نہیں. ذہن ایک افعال عضو ہے جو ہیجانات کو خیالات میں تبدیل کرتا ہے جو منتشر اور گمراہ تجربات کے دوہرے پن کو منظم خیالات کی شکل دیتا ہے. کانٹ اپنے اس فلسفے کو (ماورائی) فلسفے کا نام دیتا ہے اور اسی نام سے شھرت حاصل ہوتی ہے. اس حوالے سے کانٹ کو لازوال مقام حاصل ہوا ہے.

وہ ان دو مراحل کا ذکر کرتا ہے جو ایک خاص طریقہ کار سے گزرتے ہوئے ہیجانات کے خام مواد کو خیال کی شکل دیتے ہیں. پہلا مرحلہ ہیجان کا وہ ہے جب زبان و مکان کا احساس اور تصور پیدا ہوتا ہے. دوسرے مرحلے میں یہ تصور خیال کی صورت اختیار کرتا ہے.

کانٹ اپنے فلسفے میں احساس زمان اور احساس مکان کو بیحد اہمیت دیتا ہے کیونکہ تصورات اور خیالات کی تشکیل میں یہ دونوں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں. زمان و مکان کا صحیح احساس ہی خیالات کی تنظیم کرتا ہے. ہیوم اور لاک نے ذہن اور دماغ کو محض پیسو باکس کا نام دیا تھا لیکن کانٹ نے دماغ کو خیالات اور عقل کا سرچشمہ اور گنجینہ ثابت کر دکھایا ہے. کانٹ کے فلسفے کو سمجھنے کے لیےول ڈرانٹ کے اس ٹکرے کو غور سے پڑھیے جو اس کے نظریات کا نچوڑ ہے.

Sensation is unorganized stimulus, perception is organized sensation, conception is organized perception, science is organized knowledge, wisdom is organized life: each is a greater degree of order, and sequence, and unity. Whence this order, this sequence, this unity? … it is our purpose that put order and sequence and unity upon this importunate lawlessness; it is ourselves, our personalities, our minds, that bring light upon these seas۔

 

وہ عقل کو منبع اور سچائی قرار دیتا ہے. حواس کے ذریعے سے حاصل ہونے والے تجربوں کو غلط کہتا ہے. کیونکہ ان میں انتشار ہوتا ہے ان میں نظم اور وحدت کا فقدان ہوتا ہے کانٹ کا ایک جملہ ہے.

Perceptions without conceptions are blind

یہ ذہن اور دماغ ہے جو “بحران” کو دور کرتا ہے اور تجربے سے مادرا اصلی سچائیوں تک لے جاتاہے. وہ لکھتا ہے کہ جو قوانین خیالات کے ہیں ووہی قوانین اشیاء پر لاگو ہوتے ہیں. کیونکہ اشیاء کا علم خیالات کے حوالے سے ہوتا ہے. اس لیے اشیاء کے لیے ان قوانین کی متابعت ناگزیر ہے. کانٹ کے فسلفے کے سمجھنے کا لیے شو پہار کی راۓ بھی بیحد مدد دیتی ہے.شو پہار نے کانٹ کے بارے میں لکھا تھا.

“Kant s greatest merits distinction phenomenon from the thing in itself”

کانٹ نے “تنقید برعقل محض”میں ایک جگہ لکھا ہے. “ہم کسی ایسے تجربے کا ذکر ہی نہیں کر سکتے جس کی وضاحت اور تشریح مکان،زمان اور اسباب علت سے نہ ہو سکتی ہو.” کانٹ کے فلسفے سے کلیسیا اورمذہبی دنیا اور اس کے تعلقات میں انقلاب آیا. اختلافات کا ایک باب واہوا جو کبھی بند نہ ہو سکا. حواس کو ترک کر کے عقل محض کو زندگی کے معنی و مقصد قرار دے کر کانٹ نے فلسفے کا ایسا نظام قائم کیا جس نے پہلے نظریات کو یکسر رد کردیا. سارتر جیسے عظیم مفکر اور دانشور نے کانٹ کی شخصیت اور اس کے افکار کے تضاد کو بارے موثر انداز میں نمایاں کیا ہے وہ لکھتاہے. “یہ سیدھا سادہ عام پروفیسر ظاہر اور باطن کے عظیم ترین تضاد کا حامل تھا. لوگ اسی دیکھ کر اپنی گھڑیوں کا وقت درست کرتے تھے لیکن وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ اسے شخص نے ان کی زندگیوں کے ساتھ وابستہ عقائد کو سفاکی سے قتل کردیا ہے.”

کانٹ نے مذہب کو اخلاقی قوانین اور اصول کے تابع کردیا.اس نے اپنی بنیادی کتاب اور فلسفے “تنقید برعقل محض” کو وسعت دے کر اس کا اطلاق بعد کے دور میں دگیر موضوعات پر کیا. چھیاسٹھ برس کی عمر میں اس کی کتاب “کریٹیک آ منجمنٹ ” شائع ہوئی. انہتر برس کی عمر میں اس نے کتاب لکھی.

Religion within the limits of pure reason

یہ کتاب جو اس کے بنیادی فلسفے کا مذہب پر اطلاق کرتی ہے. اس کی سب سے “ہیباک” کتاب کا درجہ رکھتی ہے اور پھر یہ ذہن میں رکھیے کہ اس کتاب کو اس نے انہتر برس میں لکھا.وہ لکھتا ہے کہ مذہب کی نظریاتی عقل کی منطق پر نہیں رکھنی چاہیے. بلکہ اس کی بنیاد عملی عقل اور اخلاقیات پر استوار ہونی چاہیے. اس کا مطلب یہ ہوا کہ بائیبل جیسی مذہبی کتاب کو اخلاقی قواعد پر جانچ جاۓگا اس محض روحانی حیثیت کو سامنے نہ رکھا جاۓ گا. گرجے اور مذہبی عقائد اگر اخلاقی ذمہ داری کو پورا نہیں کرتے اور محض ذمہ داری، اجارہ داری برقرار رکھنے میں کوشاں ہیں تو پھر وہ اپنا فرض صحیح طور پر روا نہیں کر رہے. کانٹ لکھتا ہے.

یسوع خدا کی بادشاہت کو زمین کے قریب لے آیا تھا. لیکن یسوع کو غلط سمجھا گیا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ خدا کی بادشاہت قائم ہونے کے بجاۓ پادری کی بادشاہت دنیا پر قائم ہو گئی.”

“معجزے کسی مذہب کی صداقت کو ثابت نہیں کر سکے”. کانٹ کے اس نظریے “عقل محض” اور اس کے مذہب پر اطلاق کی وجہ سے بڑی لے دے ہوئی. اس کے خلاف حکومت نے ایک بڑا فیصلہ کیا تھا لیکن اس کی عمر اور بڑھاپے کی وجہ سے نظر انداز کر دیا گیا. ورنہ یہ بھی ممکن تھا کہ اس کی بقیہ زندگی زندان میں بسر ہوتی. اس کتاب کو جو مذہب کے حوالے سے تنقید بر عقل محض سے تعلق رکھتی ہے. اس ناشر نے شائع کرنے اسے انکار کردیا جو اسی پہلے شائع کرنے کا فیصلہ کر چکا تھا. کانٹ نے بڑی بہادری کا ثبوت دیا اور یہ کتاب اپنے دوستوں کو بھیج دی جینا کا علاقہ جرمنی کی حدود سے باہر تھا. اس لیے اسی جینا یونیورسٹی نے شائع کیا. اس کتاب کی اشاعت پر جینا کا بادشاہ بیحد ناراض ہوا. اس نے ایک شاہی فرمان کانٹ کے نام جاری کیا جس میں کانٹ کی شدید مذمّت کی گئی کہ اس نظریات کی وجہ سے مقدّس کتابوں کی بے حرمتی ہوئی ہے اور عیسائی اعتقادات کی بیخ کی گئی ہے. اسے متنبہ کیا گیا کہ وہ مستقبل میں ایسی کوئی تحریر نہ لکھ اور اپنے فرائض کو اس طرح ادا کرے کہ اعتقادات پر حرف نہ آئے. ساتھ ہی یہ وارننگ بھی دی گئی کہ اگر اس نے آئندہ احتیاط نہ برتی تو پھر ناخوشگوار نتائج پیدا ہونگے.

کانٹ نے خاموشی اخیار کے رکھی اصل میں وہ جو کچھ کہنا چاہتا تھا وہ اپنی اس کتاب کے حوالے سے کہ چکا تھا. ١٨٠٤ میں کانٹ کا انتقال ہوا.

Share

September 23, 2012

سیرت کا پیغام

Filed under: کتابیات,مذہب,مشاہدات — ابو عزام @ 7:34 pm

انسانی تاریخ کے منظر میں ہمارے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی بلند و بلا شخصیت اتنی ابھرتی ہوئی نظر آتی ہے کہ جب ابتدا سے لیکر اب تک کے بڑے سے بڑے تاریخی انسان جن کو دنیا اکابر میں شمار کرتی ہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم کے مقابلے میں لاۓ جاتے تو آپ کے آگے بونے نظر آتے ہیں. دنیا کے اکابر میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جس کے کمال کی چمک دھمک انسانی زندگی کے ایک دو شعبوں سے آگے بڑھ سکی. کوئی نظریات کا بادشاہ ہے مگر عملی قوت نہیں رکھتا ہے. کوئی عمل کا پتلا ہے مگر فکر میں کمزور ہے. کسی کے کمالات سیاسی تدبر تک محدود ہیں. کوئی محض فوجی ذہانت کا مظہر ہے. کسی کی نظر اجتماعی زندگی کے ہر ایک پہلو سے اتنی زیادہ گہری جمی ہیں کہ دوسرے پہلو اوجھل ہو گئے ہیں.کسی نے اخلاق اور روحانیت کو نظر انداز کر دیا. غرض تاریخ میں یک رخےہیرو ہی نظر اتے ہیں مگر تنہا آنحضور صلی الله علیہ وسلم ہی کی شخصیت ایک ایسی ہے جس میں تمام کمالات جمع ہیں. وہ خود ہی فلسفی اورحکیم بھی ہے اور خود ہی اپنے فلسفے کو عملی زندگی میں نافذ کرنے والا بھی. وہ سیاسی مدبر بھی ہے، فوجی لیڈر بھی ہے، وضع قانون بھی ہے معلم اخلاق بھی ہے، مذہبی اور روحانی پیشوا بھی ہے. اس کی نظر انسان کی پوری زندگی پر پھیلتی ہے اور چھوٹی سے چھوٹی تفصیلات تک دی جاتی ہے. کھانے اورپینے کے آداب اور جسم کی صفائی کے طریقوں سے لیکر بین الاقوامی تعلقات تک ایک ایک چیز کے متعلق وہ احکام اور ہدایت دیتا ہے، اپنے نظریات کے مطابق ایک مستقبل تہذیب وجود میں لاکر دکھا دیتا ہے اورزندگی کے تمام مختلف پہلوؤں میں ایسا صحیح توازن  قائم کرتا ہے کہ افراط و تفریط کا کہیں نشان تک نظرتک نہیں آتا. کیا کوئی دوسرا شخص اس جامعیت کا پیش کیا جا سکتا ہے؟

سیرت کا پیغام تفہیمات، چہارم۔

سید ابوالاعلیٰ مودودی

Share

September 17, 2012

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کمال نفس اور مکارم اخلاق

Filed under: کتابیات,مذہب — ابو عزام @ 1:00 am

بردباری، قوت برداشت، قدرت پا کر درگزر اور مشکلات پر صبر ایسے اوصاف تھے جنکے زریعہ الله نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی تربیت کی تھی. ہر حلیم و بردباری کی کوئی نہ کوئی لغزش اور کوئی نہ کوئی زبان کی بے احتیاطی جانی جاتی ہے مگر صلی الله علیہ وسلم کی بلندی کردار کا عالم یہ تھا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے خلاف دشمنوں کی ایذا ارسانی اور بدمعاشوں کی خود سری و زیادتی جس قدر بڑھتی گئی آپ صلی الله علیہ وسلم کے صبرو حلم میں اسی قدر اضافہ ہوتا گیا.

حضرت عائشہ رضی الله تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو جب بھی دو کاموں کے درمیان اختیار دیا جاتا تو آپ صلی الله علیہ وسلم وہی کام اختیار فرماتے تھے جو آسان ہوتا، جب تک کہ گناہ کا کام نہ ہوتا. اگر گناہ کا کام ہوتا تو آپ صلی الله علیہ وسلم سب سے بڑھ کر اس سے دور رہتے. آپ صلی الله علیہ وسلم نے کبھی اپنے نفس کے لیے انتقام نہ لیا! البتہ اگر الله کی حرمت چاک کی جاتی تو آپ صلی الله علیہ وسلم الله کے لیے انتقام لیتے.

آپ صلی الله علیہ وسلم سب سے بڑھ کر غیظ و غضب سے دور تھے اور سب سے جلد راضی ہو جاتے تھے.

جود و کرم کا وصف ایسا تھا کہ اسکا اندازہ ہی نہیں کیا جا سکتا. آپ صلی الله علیہ وسلم اس شخص کی طرح بخشش و نوازش فرماتے تھے جسے فقر کا اندیشہ ہی نہ ہو. ابن عبّاس رضی الله تعالیٰ عنہا کابیان ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم سب سے بڑھ کر پیکر جود و سخا تھے. اور آپ صلی الله علیہ وسلم کا دریاۓ سخاوت رمضان میں اس وقت زیادہ جوش پر ہوتا جب حضرت جبریل علیہ السلام آپ صلی الله علیہ وسلم سے ملاقات فرماتے اور حضرت جبریل علیہ السلام رمضان میں آپ صلی الله علیہ وسلم سے ہر رات ملاقات فرماتے اور قرآن کا دور کراتے. پس رسول صلی الله علیہ وسلم خیر کی سخاوت میں (خزائن رحمت سے مالا مال کر کے) بھیجی ہوئی ہو اسے بھی زیادہ پیش پیش ہوتے تھے.. حضرت جابر کا ارشاد ہے کہ ایسا کبھی نہ ہوا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم سے کوئی چیز مانگی گئی ہو اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے نہیں کہہ دیا ہو..

شجاعت، بہادری اور دلیری میں بھی آپ کا مقام سب سے بلند اور معروف تھا. آپ صلی الله علیہ وسلم سب سے زیادہ دلیر تھے. نہایت کٹھن اور مشکل مواقع پر جبکے اچھے اچھے جانبازوں اور بہادروں کے پاؤں اکھڑ گئے آپ صلی الله علیہ وسلم اپنی جگہ برقرار رہے اور پیچھے ہٹنے کی بجاۓ آگے ہی بڑھتے گئے. پاۓ ثبات میں ذرا لغزش نہ آئی بڑے بڑے بہادر بھی کبھی نہ کبھی بھاگے اور پسپا ہوئے. مگر آپ صلی الله علیہ وسلم میں یہ بات کبھی نہیں پائی گئی. حضرت علی رضی الله تعالیٰ عنہ کابیان ہے کہ جب زور کا رن پڑتا اور جنگ کے شعلے خوب بھڑک اٹھتے تو ہم رسول صلی الله علیہ وسلم کی آڑ لیا کرتے تھے. آپ صلی الله علیہ وسلم سے بڑھ کر کوئی شخص دشمن کے قریب نہ ہوتا.

حضرت انس کا بیان ہے کہ ایک رات اہل مدینہ کو خطرہ محسوس ہوا لوگ شور کی طرف دوڑتے تو راستے میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم واپس آتے ہوئے ملے. آپ صلی الله علیہ وسلم لوگوں سے پہلے ہی آواز کی جانب پہنچ( کر خطرے کے مقام کا جائزہ لے) چکے تھے. اس وقت آپ صلی الله علیہ وسلم ابو طلحہ رضی الله تعالیٰ عنہ کے بغیر زین کے گھوڑے پر سوار تھے. گردن میں تلوار حمائل کر رکھی تھی اور فرما رہے تھے، ڈرو نہیں ڈرو نہیں. ( کوئی خطرہ نہیں).

آپ صلی الله علیہ وسلم سب سے زیادہ حیاواراور پست نگاہ تھے. ابو سعید خدری رضی الله تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم پردہ نشین کنواری عورت سے بھی زیادہ حیا وار تھے. جب آپ صلی الله علیہ وسلم کو کوئی بات ناگوار گزرتی تو چہرے سے پتا لگ جاتا. اپنی نظریں کسی کے چہرے پرگاڑتے نہ تھے. نگاہ پست رکھتے تھے اور آسمان کی بہ نسبت زمین کی طرف نظر زیادہ دیر تک رہتی تھی. عموما نیچی نگاہ سے تاکتے. حیا اور کرم نفس کا علم یہ تھا کہ کسی سے ناگوار بات رو رو نہ کہتے اور کسی کی کوئی ناگوار بات آپ صلی الله علیہ وسلم تک پہنچتی تو نام لیکر اس کا ذکر نہ کرتے بلکہ یوں فرماتے کہ کیا بات ہے کہ کچھ لوگ ایسا کر رہے ہیں. فرزدق کے اس شعر کےسب سے زیادہ صحیح مصداق آپ صلی الله علیہ وسلم تھے:

یغضی حیاء و یغضی من مھا ہته فلا یکلم الا حین یبتسم

آپ حیاء کے سبب اپنی نگاہ پست رکھتے ہیں اور اپ کی ہیبت کے سبب نگاہیں پست رکھی جاتی ہیں’ چناچہ آپ سے اسی وقت گفتگو کی جاتی ہے جب آپ تبسم فرما رہے ہوں

آپ صلی الله علیہ وسلم سب سے زیادہ عادل، پاک و امن، صادق اللہجہ اور عظیم الامانتہ تھے. اس کا اعتراف آپ صلی الله علیہ وسلم کے دوست دشمن سب کو ہے. نبوت سے پہلے آپ صلی الله علیہ وسلم کو امین کہا جاتا تھا اور دور جاہلیت میں آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس فیصلے کے لئے مقدمات لاۓ جاتے تھے. جامع ترمذی میں حضرت علی سے مروی ہے کہ ایک بار ابو جہل نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے کہا: ہم آپ کو جھوٹا نہیں کہتے البتہ آپ صلی الله علیہ وسلم جو کچھ لیکر آئے ہیں اسے جھٹلاتے ہیں. اس پر الله تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:

“یہ لوگ آپ صلی الله علیہ وسلم کو نہیں جھٹلاتے بلکہ یہ ظالم الله کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں “

ہرقل نے ابو سفیان سے دریافت کیا کہ کیا اس (نبی صلی الله علیہ وسلم) نے جو بات کہی ہے اس کے کہنے سے پہلے تم لوگ ان پر جھوٹ کا الزام لگاتے تھے؟ تو ابو سفیان نے جواب دیا کہ نہیں

آپ صلی الله علیہ وسلم سب سے زیادہ متواضع اور تکبر سے دور تھے. جس طرح بادشاہوں کے لیے ان کے خدّام و حاشیہ بردار کھڑے رہتے ہیں اس طرح اپنے لیے صحابہ کرام رضی الله تعالیٰ عنہ کو کھڑا ہونے سے منع فرماتے تھے. مسکینوں کی عیادت کرتے تھے، فقراء کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے تھے، غلام کی دعوت منظور فرماتے تھے. صحابہ کرام رضی الله تعالیٰ عنہ میں کسی امتیاز کے بغیر ایک عام آدمی کی طرح بیٹھتے تھے، حضرت عائشہ رضی الله تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم اپنے جوتے خود ٹانکتے تھے، اپنے کپڑے خود سیتے تھے اور اپنے ہاتھ سے اس طرح کام کرتے تھے جیسے تم میں سے کوئی آدمی اپنے کام کاج کرتا ہے. آپ صلی الله علیہ وسلم بھی انسانوں میں سے ایک انسان تھے اپنے کپڑے خود ہی دیکھتے کہ کہیں اس میں جوں نہ ہو اپنی بکری خود دہتے تھے اور اپنا کام خود کرتے تھے۔

آپ صلی الله علیہ وسلم سب سے بڑھ کر عہد کی پابندی اور صلہ رحمی فرماتے تھے، لوگوں کے ساتھ سب سے زیادہ شفقت اور رحم و مروت سے پیش آتے تھے، رہائش اور ادب میں سب سے اچھے تھے. آپ صلی الله علیہ وسلم کا اخلاق سب سے زیادہ کشادہ تھا. بدخلقی سے سب سے زیادہ دورو نفور تھے. نہ عادتا فحش گو تھے نہ بہ تکلف فحش کہتے تھے، نہ لعنت کرتے تھے. نہ بازار میں چیختے چلاتے تھے نہ برائی کا بدلہ۔ برائی سے دیتے تھے، بلکہ مافی اور درگزر سے کام لیتے تھے کسی کو اپنے پیچھے چلتا ہوا نہ چھوڑتے تھے. اور نہ کھانے پینے میں اپنے غلاموں اور لونڈیوں پر ترفع اختیار فرماتے تھے. اپنے خادم کا کام خود ہی کر دیتے تھے. کبھی اپنے خادم کو اف نہیں کہا. نہ اس پر کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے پرعتاب فرمایا. مسکینوں سے محبت کرتے، ان کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے اور ان کے جنازوں میں حاضر ہوتے تھے. کسی فقر کی وجہ سے حقیر نہیں سمجھتے تھے. ایک بار آپ صلی الله علیہ وسلم سفر میں تھے. ایک بکری کاٹنے پکانے کا مشورہ ہوا. ایک نے کہا’ ذبح کرنا میرے ذمہ، دوسرے نے کہا کھال اتارنا میرے ذمہ، تیسرے نے کہا پکانا میرے ذمہ، نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ایندھن کی لکڑیاں جمع کرنا میرے ذمہ، صحابہ نے عرض کیا. ہم آپ صلی الله علیہ وسلم کاکام کر دینگے آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میں جانتا ہوں کہ تم لوگ میرا کام کردوگے لیکن میں پسند نہیں کرتا کہ تم امتیاز حاصل کرو کیونکہ الله اپنے بندوں کی یہ حرکت ناپسند کرتا ہے کہہ اپنے آپ کو اپنے رفقاء میں ممتاز سمجھے”. اس کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم نے اٹھ کر لکڑیاں جمع فرمائیں.

آیئے ذرا ہند بن ہالہ کی زبانی رسول صلی الله علیہ وسلم کے اوصاف سنیں. ہند اپنی ایک طویل روایت میں کہتے ہیں: رسول الله صلی الله علیہ وسلم پیہم غموں سے دو چار تھے. ہمیشہ غورو فکر فرماتے رہتے تھے. آپ صلی الله علیہ وسلم کے لیے راحت نہ تھی. بلا ضرورت نہ بولتے تھے. دیر تک خاموش رہتے تھے. ازاول تا آخر بات پورے منہ سے کرتے تھے، یعنی صرف منہ کے کنارے سے نہ بولتے تھے. جامع اور دو ٹوک کلمات کہتے تھے جن میں فضول گوئی ہوتی تھی اور نہ کوتاہی.

نرم خو تھےجفاجو اور حقیر نہ تھے، نعمت معمولی بھی ہوتی تو اس کی تعظیم کرتے تھے. کسی چیز کی مذمّت نہیں فرماتے تھے. کھانے کی نہ برائی کرتے تھے. نہ تعریف حق کو کوئی نقصان پہنچاتا تو جب تک انتقام نہ لیتے آپ صلی الله علیہ وسلم کے غضب کو روکا نہ جا سکتا تھا. البتہ کشادہ دل کے تھے؛ اپنی نفس کے لیے نہ غضبناک ہوتے نہ انتقام لیتے. جب اشارہ فرماتے تو پوری ہتھیلی سے اشارہ فرماتے اور تعجب کے وقت ہتھیلی پلٹتے. جب غضبناک ہوتے تو رخ پھیر لیتے اور جب خوش ہوتے تو نگاہ پست فرمالیتے. آپ صلی الله علیہ وسلم کی بیشتر ہنسی تبسسم کی صراط میں تھی. مسکراتے تو دانت اولوں کی طرح چمکتے
لا یعنی بات سے زبان کو روکھے رکھتے. ساتھیوں کو جوڑتے تھے، توڑتے نہ تھے. ہر دم قوم کے معزز آدمی کی تکریم فرماتے تھے. اور اسی کو ان کا والی بناتے تھے. لوگوں (کے شر) سے محتاط رہتے اور ان سے بچاؤ اختیار فرماتے رہتے تھے . لیکن اس کے لیے کسی سے اپنی خندہ چبینی ختم نہ فرماتے تھے…

اپنے اصحاب رضی الله تعالیٰ عنہ کی خبر گیری کرتے اور لوگوں کے حالت دریافت فرماتے. اچھی چیز کی تحسین و تصویب فرماتے اور بری چیز کی تقبیح و توہین. معتدل تھے، افراط و تضریط سے دور تھے. غافل نہ ہوئے تھے کہ مبادا لوگ بھی غافل یا ملول خاطر ہو جائیں. ہر حالت کیلئے مستعد رہتے تھے. حق سے کوتائی نہ فرماتے تھے، نہ حق سے تجاوز فرما کرنا حق کی طرف لے جاتے تھے. جو لوگ آپ صلی الله علیہ وسلم کے قریب رہتے تھے وہ سب سے اچھے لوگ تھے اور ان میں ابھی آپ صلی الله علیہ وسلمکے نزدیک افضل وہ تھا جو سب سے بڑھ کر خیر خواہ ہو؛ اور سب سے زیادہ قدر آپ صلی الله علیہ وسلم کے نزدیک اس کی تھی جو سب سے اچھا غمگسارومدد گار ہو..

آپ صلی الله علیہ وسلم اٹھتے بیٹھتے الله کا ذکر ضرور فرماتے جگہیں متعین نہ فرماتے. یعنی اپنے لیے کوئی امتیازی جگہ مقرر نہ فرماتے. جب قوم کے پاس پہنچتے تو مجلس میں جہاں جگہ مل جاتی بیٹھ جاتے اور اسی کا حکم بھی فرماتے. سب اہل مجلس پر برابر توجہ فرماتے، حتیٰ کہ کوئی جلیس یہ نہ محسوس کرتا کہ کوئی شخص آپ صلی الله علیہ وسلم کے نزدیک اس سے زیادہ با عزت ہے. کوئی کسی ضرورت سے آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس بیٹھتا یا کھڑا ہوتا تو آپ صلی الله علیہ وسلم اتنے صبر کے ساتھ اس کے لیے روکے رہتے کہ خود ہی واپس ہوتا ہے. کوئی کسی ضرورت کا سوال کر دیتا تو آپ اسے عطا کئے بغیر یا اچھی بات کہے بغیر واپس نہ فرماتے آپ نے اپنی خندہ جبینی اور اخلاق سے سب کو نوازا، یہاں تک کہ آپ سب کے لیے باپ کا درجہ رکھتے تھے اور سب آپ صلی الله علیہ وسلم کے نزدیک یکساں حق رکھتے تھے، کسی کو فضلیت تھی تو تقوی کی پنیاد پر. آپ صلی الله علیہ وسلم کی مجلس حلم ہ حیاء اور صبر ق امانت کی مجلس تھی. اس میں آوازیں بلند نہ کی جاتی تھیں اور نہ حرمتوں پر عیب لگتے رہتے تھے. یعنی کسی کی بے آبروئی کا اندیشہ نہ تھا، لوگ تقویٰ کی بوتل بہم محبت و ہمدردی رکھتے تھے. بڑے کا احترام کرتے تھے چھوٹے پر رحم کرتے تھے، حاجتمند کو نوازتے تھے اور اجنبی کو انس عطا کرتے تھے

آپصلی الله علیہ وسلم کے چہرے پر ہمیشہ بشاشت رہتی سہل خو اور نرم پہلو تھے جفا جو اور سخت خونہ تھے. نہ چیختے چلاتے تھے، نہ فحش کہتے تھے نہ زیادہ عتاب فرماتے تھے نہ بہت تعریف کرتے تھے. جس چیز کی خواہش نہ ہوتی اس سے تغافل برتتے تھے. آپ صلی الله علیہ وسلم سے مایوسی نہیں ہوتی تھی. آپ صلی الله علیہ وسلم نے تین باتوں سے اپنے نفس کو محفوظ رکھا؛(١)ریاء سے (٢)کسی چیز کی کثرت سے (٣)اور لا یعنی بات سے. اور تین باتوں سے لوگوں کو محفوظ رکھا یعنی آپ صلی الله علیہ وسلم (١) کسی کی مذمّت نہیں کرتے تھے (٢) کسی کو عار نہیں دلاتے تھے (٣) اور کسی کی عیب جوئی نہیں کرتے تھے. آپ صلی الله علیہ وسلم وہی بات نوک زبان پر لاتے تھے جس میں ثواب کی امید ہوتی. جب آپ صلی الله علیہ وسلم تکلم فرماتے تو آپ صلی الله علیہ وسلم کے ہم نشین یوں سر جھکاۓ ہوتے گویا سروں پر پرندے بیٹھے ہیں، اور جب آپ صلی الله علیہ وسلم خاموش ہوتے تو لوگ گفتگو کرتے. لوگ آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس گپ بازی نہ کرتے. آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس جو کوئی بولتا ہے سب اس کے لیے خاموش رہتے. یہاں تک کہ وہ اپنی بات پوری کر لیتا. ان کی بات وہی ہوتی جو ان کا پہلا شخص کرتا. جس بات سے سب لوگ ہنستے اس سے آپ صلی الله علیہ وسلم بھی ہنستے اور جس بات پر سب لوگ تعجب کرتے اس پر آپ صلی الله علیہ وسلم بھی تعجب کرتے. اجنبی آدمی درشت کلامی سے کام لیتا تو اس پر آپ صلی الله علیہ وسلم صبر کرتے اور فرماتے “جب تم لوگ حاجتمند کو دیکھو کہ وہ اپنی حاجت کی طلب میں ہے تو اسے سامان ضرورت سے نواز دو”. آپ صلی الله علیہ وسلم احسان کا بدلہ دینے والے کے سوا کسی سے ثنا کے طالب نہ ہوتے تھے.

خارجہ بن زید رضی الله تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم اپنی مجلس میں سب سے زیادہ با وقار ہوتے. اپنے پاؤں وغیرہ نہ پھیلاتے، بہت خاموش رہتے. بلا ضرورت نہ بولتے. جو شخص نہ مناسب بات بولتا اس سے رخ پھیر لیتے. آپ صلی الله علیہ وسلم کی ہنسی مسکراہٹ تھی اور کلام دو ٹوک؛ نہ فضول نہ کوتاہ. آپ صلی الله علیہ وسلم کے صحابہ رضی الله تعالیٰ عنہ کی ہنسی بھی آپ کی توقیر و اقتدار میں مسکراہٹ ہی کی حد تک ہوتی

حاصل یہ کہ نبی صلی الله علیہ وسلم بے نظیر صفات کمال سے آراستہ تھے. آپ صلی الله علیہ وسلم کے رب نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو بے نظیر ادب سے نوازا تھے، حتیٰ کہ اس نے خود آپ صلی الله علیہ وسلم کی  تعریف میں فرمایا

یقیناً آپ صلی الله علیہ وسلم عظیم اخلاق پر ہِیں

 

 اور یہ ایسی خوبیاں تھیں جن کی وجہ سے لوگ آپ صلی الله علیہ وسلم کی طرف کھینچ آئے، دلوں میں آپکی محبت بیٹھ گئی اور آپ صلی الله علیہ وسلم کو قیادت کا وہ مقام حاصل ہوا کہ لوگ آپ صلی الله علیہ وسلم پر دا رفتہ ہو گئے. ان ہی خوبیوں کے سبب آپ صلی الله علیہ وسلم کی قوم کی اکڑ اور سختی نرمی میں تبدیل ہوئی یہاں تک کہ الله کے دین میں فوج درفوج داخل ہو گئی.

مندرجہ بالا الفاظ میں جن خوبیوں کا ذکر کیا ہے وہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے کمال اور عظیم صفات کے مظاہر کی چند چوٹی چوٹی لکیریں ہیں، ورنہ آپ کے مجدو شرف اورشمائل و خصائل کی بلندی اور کمال کا یہ علم تھا کہ انکی حقیقت اور تہ تک رسائی ممکن ہے اور نہ اس کی گہرائی ناپی جا سکتی ہے،

بھلا عالم وجود کے اس سب سے عظیم بشر کی عظمت کی انتہا تک کس کی رسائی ہو سکتی ہے جس نے مجد وکمال کی سب سے بلند چوٹی پر اپنا نشیمن بنایا اور اپنے رب کے نور سے اس طرح منور ہوا کہ کتاب الہی ہی کو اسکا وصف اور خلق قرار دیا گیا..

قاری نظر عطا ہے حقیقت میں ہے قرآن

اقتباس از رحیق المختوم، تصنیف صفی الرحمن مبارکپپوری

Share

September 16, 2012

پیغمبر اسلام از ڈاکٹرمحمد حمید اللہ

Filed under: ادبیات,کتابیات — ابو عزام @ 5:15 pm

 ڈاکٹر حمید اللہ کی تحریر کردہ فرانسیسی سیرت طیبہ کی کتاب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا اردو ترجمہ پروفیسر ڈاکٹر خالد پرویز  نے کیا ہے جس سے ایک اقتباس پہلے اس بلاگ پر پیش کیا جا چکا ہے۔ تقریبا ۷۰۰ صفحات کی یہ کتاب سیرت طیبہ پر لکھی جانے والی دیگر کتب کی طرح تاریخی واقعات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی حیات مبارکہ، بعثت سے پہلے اور بعد ازاں دونوں کا بخوبی احاطہ کرتی ہے لیکن اس کی جداگانہ خصوصیت ڈاکٹر حمید اللہ مرحوم کا خصوصی انداز ہے۔ انہوں نے مغربی قاری کو مدنظر رکھتے ہوے حوالہ جات کی مدد سے ایک نہایت عمدہ متن ترتیب دیا ہے جس میں جا بجا مستشرقین کے اعتراضات کا سیر حاصل جواب دیا گیا ہے اور پوری کتاب کو ایک عدد شماری کے طور پر برجسته  نقاط کے طور پر لکھا گیا ہے جس سے تلاش اور حوالہ جات میں نہائت آسانی ہوتی ہے،۔

سیرت طیبہ تصنیف و تالیف کا ایک ایسا شعبہ ہے جس میں جتنا کام ہو کم ہے۔ الرحیق المختوم جیسی سیرت طیبہ کی کتاب کے بعد اگر آپ پیغمبر اسلام کو پڑھیں گے تو آپ کو انداز بیاں کا واضع فرق معلوم ہوگا۔ ۵۱ ابواب کی یہ کتاب نہائت محققانہ دیانت سے تحریر کی گئی ہے اور اس میں جا بجا لسان العرب سے لے کر دیگر مغربی محققین کی کتب و رسائل کے حوالہ جات موجود ہیں۔ مثلا نقطہ۵۲۴ میں نجاشی کے نام مکتوب پر طویل مدلل گفتگو کے بعد غير مقنع نتیجے کی بابت لکھتے ہیں۔

“اس طرح ہم یہ نتیچہ اخذ کر سکتے ہیں کہ اس دستاویز کی ثقاہت و حقانیت اور اصابت شک و شبہ کے ساے سے کبھی بالا نہیں ہو پاے گی، بلکل اسی طرح اس دستاویز کے متعلق اٹھاے جانے والے جملہ اعتراضات بھی جو اسے مشتبہ قرار دیتے ہیں قابل یقین و تسلیم نہیں۔

اسطرح کی مدلل علمی بحث، تنقیدی تقابل اور علمی دیانت آپکو اسلامی تاریخ کی  بیشتر کتب میں شاذ و نادر ہی مل سکے۔  اس کتاب کے ابواب مندرجہ زیل ہیں۔

پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وسلم کی زندگی کا مطالعہ کیوں کیا جاۓ ؟
مادری اور بنیادی زرائع
احول اور حالات 
مقام کا انتخاب
مکہ کا بحیثیت مرکز کا انتخاب
اعلیٰ خدائی مشن کے لیے محمّد صلی الله علیہ وسلم کا انتخاب
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے آباءو اجداد 
حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کی پیدائش
یتیم اپنے چچا کے گھر میں
حرف فجار اور حرف الفضول
آزادی کی زندگی 
شادی اور خاندانی زندگی 
مذہبی ضمیر کی بیداری 
مشن کا آغاز 
الله تعالیٰ کے پیغام کی تبلیغ و اشاعت
ہجرت حبشہ 
معاشرتی بائیکاٹ 
جاۓ پناہ کی تلاش
معراج اور معجزات
مدینہ میں اشاعت اسلام
اسلام میں خواتین کا کردار قبل ازہجرت 
مدینہ میں ابتدائی اقدامات
قومی شیرازہ بندی
آئین ریاست
قریش مکّہ کے ساتھ تعلقات
احا بیش قبائل
حبشہ سے تعلقات 
نجاشی کے نام آنحضور صلی الله علیہ وسلم کا اصل مکتوب 
مصر کے ساتھہ تعلقات
مقوقس کے نام اصل خط
بازلطینی سلطنت کےساتھہتعلقات 
ہرقل کے نام اصل خط
ایران سے تعلقات
کسریٰ کے نام آنحضور صلی الله علیہ وسلم کا اصل خط
ایرانی مقبوضات کےساتھہ تعلقات 
المنزر کے نام آنحضور صلی الله علیہ وسلمکا نامہ مبارک 
عرب میں دیگر ایرانی مقبوضات
شاہان عمان، حیفر اور عبد کے نام رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے نامہ مبارک کا اصل مسودہ 
خطہ کے عرب قبائل
سفیر بینظیر عمرو ابن امیہ رضی الله تعالیٰ عنہ
دوسرے عرب قبائل
قبیلہ ہوازن اور شہر طائف 
دوسرے قبائل
مشرکین کےساتھہاتحادی معاہدات کی تنسیخ
فتنہ ارتداد اور قبائل کی بغاوت
یہودیوں سے تعلقات
بیرون مدینہ کے یہودی
عیسایوں کےساتھہتعلقات
حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور عیسائیت. قرآن کی روشنی میں
دیگر مذاہب
بنیاد سے وصال تک
ورق تمام ہوا،اور مدح باقی ہے

ان ابواب کے جملہ عنوانات سے واضع ہے کہ یہ کتاب سیاست امور خارجہ و سفارت کےابواب کو اسی طرح اہمیت سے پیش کرتی ہے جس طرح سے ثور و بدر کو۔ سیرت طیبہ کے ہر طالبعلم کے لئے اسکا مطالعہ نہائت اہمیت کا حامل ہے اللھم صل علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما صلیت علٰی اِبراھیم وعلٰی آل اِبراھیم اِنک حمید مجید ہ اللھم بارک علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما بارکت علٰی اِبراھیم وعلٰی آل اِبراھیم انک حمید مجید ہ

Share

September 10, 2012

تخلیق، ایک جزو لاینفک

Filed under: ادبیات,کتابیات — ابو عزام @ 5:26 pm

ہم کو گھڑے گھڑائے نقلی آدمیوں کی ضرورت نہیں ہے جو کسی ادبی یا پیشہ ورانہ کم کے لائق ہو بلکہ کچھ ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو اپنی قوت ارادی کے بل پر کسی بھی کام میں ہاتھ ڈال سکتے ہوں دنیا میں جو بہترین کارنامے وقوع پذیر ہوئے. یعنی طباع و دراک لوگوں کے کارنامے. جن پر کبھی کوئی لاگت نہیں آئی. اور نہ ہی ان کی کبھی کوئی قیمت ادا کی گئی. اور نہ تو ان کے لئے کوئی مشقت اٹھائی گئی. بلکہ یہ تو فکر کے بے ساختہ دھارے ہیں. شیکسپیئر نے ہیلمٹ اتنی آسانی سے لکھ ڈالا تھا، جتنی آسانی سے کوئی پرندہ اپنا گھونسلا بنا لیتا ہے. بڑی بڑی نظمیں بغیر کسی توجہ کے سوتے جاگتے لکھی گئی ہیں. عظیم مصوروں نے حصول مسرت کے لئے تصویریں بنائیں اور انہیں یہ خبر تک نہ ہی کہ ان کی شخصیت نے”خبر” کو جنم دیا ہے. و گرنہ شاید وہ اس سوجھ بوجھ کے ساتھ ایسی تصویریں ہر گز نہ بنا پاتے عظیم شعراء نے بھی اپنے نغمات کچھ اس طرح تخلیق کئے. یہ تخلیق نفیس و لطیف قوتوں کی بڑی حسین شگفتگی ہے. فرانسیسی خواتین کے خطوط کے بارے میں بھی یہی کہا گیا تھا کہ یہ خطوط ان کے دلربا وجود کا دلربا حادثہ ہیں.ایک شاعر اپنے نغمات کے حق میں کبھی مفلس نہیں ہوتا. ماحول میں جب تک عمدہ اور آزادانہ نہ ہو کوئی گیت، گیت نہیں ہوتا. میں نے آج تک کوئی ایسا مغنی نہیں دیکھا جو فرض سمجھ کر گاتا ہو. یا دیگر راہیں مسدود پا کر مجبوراً گاتا ہو. نیند تو صرف انہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جو سونے کے لئے بیتاب نہ ہوں اور بلاشبہ وہی لوگ بہتر طور پر لکھ یا بول سکتے ہیں، جو لکھنے یا بولنے کے لئے خواہ مخواہ فکر مند نہ رہتے ہوں. مقام فضلیت”آموزوں” کو ہی حاصل ہوا کرتا ہے

ایمرسن – ترجمہ پروفیسر وقار عظیم

Share

August 24, 2012

پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وسلم کی زندگی کا مطالعہ کیوں کیا جاۓ؟ از ڈاکٹر حمید اللہ

Filed under: کتابیات,مذہب — ابو عزام @ 4:43 pm

ڈاکٹر حمید اللہ کی تحریر کردہ فرانسیسی سیرت طیبہ کی کتاب کےاردو ترجمے سے اقتباس

١: تعریف و توصیف اس الله تبارک وتعالیٰ کی جو رب العالمین ہے. ہم اسی ہی کی پرستش کرتے ہیں اور اسی ہی سے مدد مانگتے ہیں. ہمارے پاک پیغمبر حضرت محمّد صلی الله علیہ وسلم نے جو کچھ انسانیت کی اصلاح وفلاح کے لئے کیا ہم اس کی تصدیق وتوقیر کرتے ہوئے آپ صلی الله علیہ وسلم کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں.

٢: ” رب تعالیٰ جل شانہ، کے پیغمبر ” کا تصور مختلف ممالک، اقوام اور ادوار کے حوالے سے مختلف ہو سکتا ہے. اسلام میں انسان تمام مخلوقات سے اشرف وافضل ہے جب کہ رب تعالیٰ جل شانہ، کے پیغمبر، انسانوں میں سب سے زیادہ اشرف و افضل اور کامل واکمل ہیں. یقینی طور پر یہ بات انسانیت کے بہتر پہلوؤں کے تحت ہی سمجھی جا سکتی ہے.

٣: انسانی زندگی دو عظیم شعبوں میں تقسیم ہے. ایک مادی جب کہ دوسرا روحانی ہے.ان دونوں شعبوں میں ہم آہنگی اور توازن پیدا کرنے کے لیے ایسی حیات مبارکہ کی عملی مثال دینا ہوگی جو فانی انسانوں کی رہنمائی کے لیے ایک مثالی نمونہ ہو.

٤: تاریخ نے ایسے لا تعداد بادشاہوں، دانشوروں، ولیوں اور دوسرے ممتاز راہنماؤں کا ریکارڈ پیش کیا ہے جن کی زندگیاں ہمارے لیے بہترین قابل عمل مثالیں ہیں. پھر آنحضرت محمّد مصطفیٰ صلی الله علیہ وسلم کی حیات طیبہ کا مطالعہ کیوں کیا جاۓ جو کہ انسانوں کی طرح ١٤٠٠ سال قبل اس دارفانی سے کوچ فرما گئے اور اس دوران سائنس کی قابل قدر ترقی کے ساتھ ساتھ ہمارے حالات اور زندگی کے بارے میں ہمارے نظریات میں ٹھوس تبدیلیاں آ چکی ہیں؟

٥: ایک مسلمان کے لیے اس کا جواب انتہائی سادہ ہے کہ وہ اس وقت مسلمان نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے رہبرو رہنما حضرت محمّد مصطفیٰ صلی الله علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کی پیروی نہ کرے. لیکن وہ افراد جو ابھی تک نبی آخرالزماں حضرت محمّد مصطفیٰ صلی الله علیہ وسلم کی سیرت ( سوانح حیات) کی تفصیلات سے آگاہ وآشنا نہیں ہیں ان کے لیے چند حقائق کی یاددہانی اہمیت کی حامل ہے.

(الف) محمد رسول صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے آپ صلی الله علیہ وسلم کی اپنی نگرانی میں انتہائی قابل اعتماد انداز میں محفوظ کرنے کی خاطر تحریر میں لائی گئیں. دوسرے مختلف بڑے مذاہب کے بانیوں میں سے صرف حضرت محمد مصطفیٰ صلی الله علیہ وسلم کی ذات پاک نے خوش بخت نظریہ کے تحت وقتا فوقتا رب تعالیٰ جل شانہ، کی جانب سے وحی اور احکامات کو نہ صرف اپنی صحبت کے افراد تک پہنچایا بلکہ اپنے کاتبوں کو لکھوایا اور یہ کہ اس کے کئی نسخے اپنے پیروکاروں تک پہنچانے کا محتاط و محفوظ انتظام فرمایا. جہاں آپ صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات کے تحفظ کا تعلق ہے یہ مسلمانوں کا مذہبی فریضہ بن گیا کہ وہ رب تعالیٰ جل شانہ، کی جانب سے نازل ہونے والے کلام کے مختلف حصّوں ( اقتباسات) کو اپنی نمازوں میں تلاوت کریں. اس طرح اس متبرک کلام کا زبانی یاد کرنا لازم ہو گیا. یہ روایت بغیر کسی رکاوٹ کے جاری و ساری رہی کہ رب کائنات کے کلام قرآن الحکیم کے تحریر شدہ نسخے محفوظ رکھے جائیں دوسرا یہ کہ انہیں زبانی حفظ کیا جاۓ. یہ دونوں طریقے الله تبارک وتعالیٰ کے کلام کی اصلی زبان میں مستند و معتبر ترسیل و تفسیر میں ایک دوسرے کے مددگر ثابت ہوئے. قرآن الحکیم اپنے مواد کے اعتبار سے “عہد نامہ قدیم ” کی پہلی پانچ کتابوں مع ” عہد نامہ جدید” کی پہلی چار کتابوں سے بھی زیادہ عظیم ہے. چناچہ اس امر میں حیرت و حیرانی کی کوئی بات نہیں کہ قرآن الحکیم میں تمام شعبہ ہائے حیات کے بارے میں ہدایات موجود ہیں.

(ب) پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی الله علیہ وسلم، رب تعالیٰ جل شانہ، کے نبی اور رسول کا عزاز حاصل کرنے پر اپنی اجارہ داری کا اعلان نہیں فرماتے بلکہ اس کے برعکس آپ صلی الله علیہ وسلم اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم سے پہلے الله تبارک وتعالیٰ نے تمام قوموں کے لیے پیغمبر بھیجے. آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان میں سے چند کے نام بھی لیے ہیں جیسا کہ حضرت آدم علیہ السلام، حضرت نوح علیہ السلام ، حضرت ادریس علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام ، حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام. آپ صلی الله علیہ وسلم نے بتایا کہ جن پیغمبروں کے آپ صلی الله علیہ وسلم نے نام لیے ہیں ان کے علاوہ اور بھی کئی پیغمبر ہیں. آپ صلی الله علیہ وسلم محض یہ دعویٰ فرماتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم حقانیت و وحدانیت کی بحالی کا کردار ادا کرنے آئے ہیں. آپ صلی الله علیہ وسلم سابقہ پیغمبروں کی تعلیمات کا احیاء چاہتے ہیں جو کہ حضرت آدم علیہ السلام و حضرت حوا کے جانشینوں کی بدقسمت تاریخ کے دوران جنگوں اور انقلابات کے ذریعے بے قدری و تنزلی کا شکار ہوئیں. محمد رسول صلی الله علیہ وسلم کی خوش قسمت و مقدّس یادداشت کی بہت مضبوط و مستحکم اور غیر مصالحانہ توثیق و تصدیق یہ رہی کہ رب تعالیٰ جل شانہ، کے کلام کی ترسیل و ابلاغ آپ صلی الله علیہ وسلم کے بعد بھی بر قرار رہی جس سے رب تعالیٰ جل شانہ، کی طرف سے مزید پیغمبر بھیجھنے کی ضرورت نہ رہی. یقینی طور پر ہمارے پاس قرآن الحکیم اور الحدیث اپنی اصلی زبان میں محفوظ ہیں..

(ت) نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفیٰ صلی الله علیہ وسلم ہونے مشن کے پہلے ہی روز سے تمام دنیا سے مخاطب ہوئے. آپ صلی الله علیہ وسلم کسی قوم یا کسی زمانے تک محدود نہیں رہے. آپ صلی الله علیہ وسلم نے رنگ ونسل اور سماجی ومعاشرتی درجہ بندیوں کی غیر مساوی تقسیم کو تسلیم نہیں کیا. اسلام میں تمام انسان مکمل طور پر برابر ہیں اور ذاتی برتری کی بنیاد نیک اعمال و افعال پرہے.

(ث) انسانی معاشرے میں مکمل طور پر اچھے اور مکممل طور پر برے انسان شاذو نادر ہی ہوتے ہیں. اکثریت کا تعلق متوسط درجہ سے ہوتا ہے. حضرت محمد مصطفیٰ صلی الله علیہ وسلم نے یہ سمجھ کر اطمینان حاصل نہیں کیا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم انسانوں میں سے “فرشتوں” سے مخاطب ہیں بلکہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے پیغام کا رخ بنیادی طور پرعام لوگوں اور فانی انسانوں کی بہت زیادہ اکثریت کی جانب رکھا. قرآن الحکیم کے الفاظ میں انسان کو “اس دنیا کے اچھے حصے اور آخرت کے اچھے حصے” کے حصول کے لیے کوشش وکاوش کرنی چاہیے.

(ج) انسانی معاشرے میں عظیم سلاطین، عظیم فاتحین، عظیم مصلحین اور عظیم متقین کی کمی نہیں لیکن زیادہ تر افراد اپنے متعلقہ شعبے ہی میں مہارت اور قدرو قیمت رکھتے ہیں. ان تمام اوصاف کا تمام پہلوؤں کے حوالے سے اجتماع صرف ایک ہی شخص میں ہونا. جیسا کہ سرور کائنات حضرت محمد مصطفیٰ صلی الله علیہ وسلم کی شخصیت میں ہے. نہ صرف بہت ہی نایاب وکمیاب ہوتا ہے بلکہ وہاں ہوتا ہے جب معلم کو اپنی تعلیمات کو بذات خود عملی شکل دینے کا موقع ملتا ہے یعنی جب تدریس و تجربہ میں توازن پیدا ہوتا ہے.

(ح) اتنا کہنا کافی ہے کہ پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی الله علیہ وسلم ایک صالح کی حثیت سے ایک مذہب کے بانی ہیں جو دنیا کہ بڑے مذاہب میں سے ایک ہے جس کا ہمیشہ شاندارو جاندار وجود رہا ہے، جس کا نقصان اس کے روزانہ کے فوائد وثمرات کے مقابلہ نہ ہونے کہ برابر ہے. اپنے ہی بتاۓ ہوئے اصول و ضوابط پر انتہائی ریاضت و استقامت کے ساتھ عمل پیرا ہونے کے حوالے سے رحمتہ للعالمین حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کی حیات طیبہ بے داغ ہے. ہم جانتے ہیں کہ ایک سماجی و معاشرتی منتظم کی حیثیت سے پیغمبر اسلام حضرت محمّد مصطفیٰ صلی الله علیہ وسلم نے ایسے ملک میں صفرسے سفر کا آغاز کیا جہاں ہر ایک شخص، ہر دوسرے شخص سے برسروکار تھا. سرور کونین حضرت مصطفیٰ صلی الله علیہ وسلم کو ایک ایسی ریاست کی بنیاد رکھنے میں دس سال لگے جو تیس ٣٠ لاکھ مربع کلومیٹر سے زیادہ کے علاقے میں پھیلی ہوئی تھی اور جس میں تمام جزیرہ نہاے عرب کے ساتھ ساتھ فلسطین اور جنوبی عراق کے علاقے شامل تھے. آپ صلی الله علیہ وسلم نے اتنی بڑی سلطنت کو اپنے جانشینوں کے لیے ورثہ میں چھوڑا جنہوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کے بعد پندرہ سال کے عرصے میں اسے یورپ، افریقہ اور ایشیا کے تین براعظموں تک وسعت دے دی.(طبری، جلد اول صفحہ ٢٨١٧ ) فاتح کی حیثیت سے آپ صلی الله علیہ وسلم کی جنگی وعسکری ہجات میں دونوں جانب سے انسانی جانوں کے ضیاع کی کل تعداد چند سو افراد سے زیادہ نہیں ہے لیکن ان علاقوں کی رعایا میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت کامل واکمل تھی. درحقیقت رحمتہ للعالمین حضرت محمد مصطفیٰ صلی الله علیہ وسلم نے جسموں کی بجاۓ دلوں پر حکمرانی کی. جہاں تک آپ صلی الله علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں ہی آپ صلی الله علیہ وسلم کے مشن کی کامیابی و کامرانی کا تعلق ہے مکہ مکرمہ میں حجتہ الوداع کے موقع پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے ڈیڑھ لاکھ پیروکاروں کے اجتماع سے خطاب کیا جب کہ ابھی تک مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد اس تاریخی موقع پر لازما اپنے اپنے گھروں میں رہی ہوگی ( کیونکہ ہر سال حج کرنا فرض نہیں ہے ).

(خ) پیغمبر اسلام حضرت مصطفیٰ صلی الله علیہ وسلم نے جو قوانین اپنے پیروکاروں کے لیےلاگو کیے اپنے آپ کو بھی قوانین سے بالاتر نہیں سمجھا بلکہ اس کے برعکس جس قدر آپ صلی الله علیہ وسلم کے پیروکاروں سے عمل کی توقع ہو سکتی تھی آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان سے بڑھ کر عبادت و ریاضت کی، روزے رکھے اور رب تعالیٰ جل شانہ، کی راہ میں خیرات کی. آپ صلی الله علیہ وسلم انصاف پسند تھے اور حتیٰ کہ اپنے دشمنوں کیساتھ نرمی و ہمدردی سے پیش آتے تھے چاہے وہ امن کا زمانہ یا جنگ کا دور ہو.

(د) آپ صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات سے زندگی کے ہر شعبہ کا احاطہ کرتی ہیں یعنی عقائد، روحانی عبادت، اخلاقیات، معاشیات، سیاست الغرض وہ تمام کچھ جس کا انسان کی انفرادی یا اجتماعی، روحانی و مادی زندگی سے ہے. اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان تمام شعبہ ہائے حیات میں اپنے فعل وعمل کی مثال چھوڑی ہے.

٦: چناچہ کسی بھی فرد کو آپ صلی الله علیہ وسلم کی حیات طیبہ کا مطالعہ ضروری کرنا چاہیے اس سے پہلے کہ وہ اس بارے میں کوئی فیصلہ کرے..

Share

August 12, 2012

ونڈوز سرور ایپ فیبرک کک بک کا مختصر تعارف

Filed under: تحقیق,کتابیات — ابو عزام @ 10:30 am

یوں تو راقم عموما تکنیکی کتابوں کے تعارف سے اجتناب برتتا ہے لیکن چونکہ مجھے اس حالیہ کتاب، ونڈوز سرور ایپ فیبرک کک بک کے تکنیکی ناقد ‘رویویر’ ہونے کا اعزاز حاصل ہے تو سوچا کہ یہ روایت شکنی بھی کرتے چلیں۔

پیکٹ پب نامی ادارے کی شائع کردہ ونڈوز سرور ایپ فیبرک کک بک دراصل مائکروسافٹ کے ایپ فیبرک پلیٹ فارم کے بارے میں ایک نہایت کارآمد کتاب ہے جس میں کک بک یا کھانا پکانے کی کتاب کے انداز میں آسان اور زود عمل ترکیبوں سے اس  پلیٹ فارم کا تعارف اور استعمال سکھایا گیا ہے۔ ایپ فیبرک کچھ لائبرریوں کا مجموعہ ہے جس کے زریعہ مندرجہ زیل کام نہایت آسانی کے ساتھ بخوبی کیے جا سکتےہیں۔

ویب سروسز کی مانیٹرنگ یا دیکھ بھال

ویب سروسز کی ہوسٹنگ – آئ آئ ایس او واس کی مدد کے ساتھ

ویب سائٹ اور سروسز کی کیشینگ

 ویب سائٹ اور سروسز کے سیشن کو کسی بڑے ویب فارم پر منتشر انداز میں  تعینات کرنا

یہ کتاب ہمارے عزیز دوست حماد رجوب اور رک گیربے نے لکھی ہے نیز اس کے تکنیکی ادرارتی کام میں زبیر احمد کی مدد حاصل رہی۔

تکنیکی رویور کا کام مصنفین کی تحریر کی افادیت اور صحت کو پرکھنا، اس کے سورس کوڈ اور دیگر مندرجات کے عوامل کی آزمائش  اور اس کی عام فہمی یا ڈویلپر فہمی کا خیال رکھنا ہوتا ہے۔ اس زمن میں راے اور تبصرہ جات مصنفین کو دیئے جاتے ہیں جن کو وہ اپنی تحریر میں تبدیلی کے ساتھ شامل کر لیا کرتے ہیں۔

چار سو صفحات کی اس کتاب میں 60 عدد مختلف ترکیبوں کے ذریعے ایپ فیبرک کا مختلف حالات و مواقع پر استعمال سکھایا گیا ہے۔ ایپ فیبرک کی انستالیشن، کیشنگ، ہوسٹنگ، برقراریت یا پرززٹینس، اس کی مدد سے سروسز کی دیکھ بھال اور سیکیورٹی پر مختلف باب باندھے گئے ہیں نیز اسکرین شاٹ اور تصاویر کی مدد سے ہر عمل کو اچھی طرح سمجھایا گیا ہے۔ حماد اور رک نے نہایت محنت سے اسے ڈویلپرز اور سافٹویر انجینیرز کے لئے ایک آسان فہم  کتاب  بنانے کی سعی کی ہے۔ یہ کتاب ایمزن، پبلشر کی ویب سائٹ اور سفاری آنلائن بکس سے دستیاب ہے۔ نیز برقی کتابوں کے شوقین حضرات کے لئے اس کا کنڈل ورژن بھی دستیاب ہے۔

اگر آپ ڈسٹریبیوٹڈ سلوشنز میں دلچسپی رکھتے ہیں اور مائکروسافٹ کی کنیکٹڈ تیکنالیجیز کے بارے میں زیادہ جاننے کے لئے کوشاں ہیں تو اس کتاب کا مطالعہ نہائت مفید ثابت ہوگا۔

Share

August 4, 2012

ایک پراسرار کتاب کی آمد

Filed under: کتابیات — ابو عزام @ 2:39 pm

صبح کا وقت تھا کہ دروازے پر دستک ہوئ، کھولا تو باہر ڈاکیا کھڑا تھا ایک عدد ڈبے کے ساتھ اور راقم کے دستخط کا متمنی تھا، آٹوگراف لینے کے بعد وہ مرد فیڈایکس تو اپنی منزل مقصود کی طرف رواں دواں ہوا لیکن ہمیں انصاری روڈ دہلی سے آنے والے اس پیکٹ کی بابت حیران و پریشان چھوڑ گیا۔

 ڈبے کا حجم و وزن خاصہ تھا لہذا گمان غالب تھا کہ یہ گدی نشینوں کا خط تو نہیں ہو سکتا الا یہ کہ انہوں نے صاحب قبر کی نشانی ایک اینٹ بطور تحفہ بھیج دی ہو۔پھر یہ دیکھا کہ  کہیں اس میں سے ٹک ٹک کی کوئ آواز تو نہیں آرہی کیونکہ دلی کی سرکار سے ہمارے تعلقات اسوقت سے نسبتا کشیدہ ہیں جب سے وہ  ہمارے پاکستانی پاسپورٹ کو سان فرانسسکو سے نئی  دہلی بھیج  کر بھول گئے ہیں۔ یعنی تقریبا ایک سال سے زائد کا عرصہ ہونے کو آگیا مگر ہر انکوئری کا جواب یہی ہوتا ہے کہ تخت دہلی کو صبر کا مزید امتحان مطلوب ہے۔  بہرحال، یہ تو جملہ معترضہ تھا، واپس آتے ہیں ڈبے کی طرف۔ چونکہ اتفاقا آج ہماری ۳۲ ویں سالگرہ بھی تھی تو گمان ہوا کہ شائد کسی دوست نے دست التفات بڑھایا ہو لیکن چونکہ  مہر ایمزن موجود نا تھی لہذا یہ خیال بھی جاتا رہا۔ ہمارے کتابی ریویوز کے گروپیز کا خیال بھی وارد ہوا لیکن بالحاظ صوم اسے فورا جھٹک ڈالا۔

 تو کسی جتن صاحب کی طرف سے انصاری روڈ دہلی سے آنے والی اس ڈاک کو آہستہ آہستہ کھولا، اور جب دیکھا تو اندر سےمیاں نہرو برآمد ہوے، یعنی کی انکی ۱۱۰۰ صفحات کی یہ ضخیم تصنیف گلمپسس آف ورلڈ ہسٹری یا دنیا کی تاریخ کا ایک اجمالی جائزہ جسے پینگوئن والوں نے شائع کیا تھا۔ جب تعارف پڑھنا شروع کیا تو پتا چلا کہ حلقہ محققین میں تو بڑے پاے کی کتاب مانی جاتی ہے اور نیویارک ٹائمز نے اسے ایچ جی ویلز کی تاریخ کے خاکوں کی کتاب سے اعلی و ارفع گردانا ہے۔ لیکن یہ سوال ابھی تک باقی ہے کہ یہ کون مہربان و قدردان ہے جس نے راقم کو۷۰ ڈالر کی یہ کتاب مفت میں ارسال کردی۔اب ظاہر سی بات ہے پبلشر نے تو ہمارے کتابی جائزوں سے متاثر ہو کر یہ کام نا کرنا تھا، لیکن قبلہ، جس جہاں میں حرحرکیات و طبعیات کے قوانین لائیو ٹیلیوژن پر توڑے جا رہے ہوں وہاں اس سے کیا بعید۔

نقشوں اور حوالہ جات سے بھرپور یہ کتاب چندرگپت موریا سے لے کر چنگیز خان، سلطنت عثمانیہ اور تاج برطانیہ اور بعد تک کی انسانی تاریخ کی روداد  سناتی ہے، اس کا رمضان کے بعد مطالعہ شروع کرنے کا ارداہ ہے  اور اسکا جائزہ پیش کرنے کی کوشش بھی کروں گا لیکن یہ کتاب کہاں سے آئ کی پہیلی کو بوجھنے اور جواہر لال نہرہ کی لکھی ہوئ ۱۱۰۰صفحات کی کتاب پڑھنے کے لیے

چیتے کا جگر چاہئیے شاہیں کا تجسس

تحديث, عقدہ یہ کھلا کہ ہمارے عزیز دوست پیرمحمد راجا المعروف راجا پیر نے سالگرہ کے تحفے کے طور پر یہ کتاب ہمیں بھیجی تھی اور ان کی زبانی وہ اس ‘پرینک’ اور ہماری بلاگ پوسٹ سے خاصے محظوظ ہوے۔ امید ہے پیر صاحب کی دیکھا دیکھی دیگر احباب بھی اس روایت کو جاری و ساری رکھیں گے۔

Share

July 7, 2012

فارنہائٹ 451 از رے بریڈبیری

Filed under: ادبیات,کتابیات — ابو عزام @ 3:08 pm

رے بریڈ بیری کی کتاب حالانکہ فارنہاٹٹ ۴۵۱  میری باون ہفتوں میں باون کتابوں کی فہرست میں موجود نہیں لیکن پھر بھی اس پر مختصر تبصرہ اس لئے ضروری سمجھا کیونکہ رے بریڈ  بیری کی حال میں ہی وفات ہوئی ہے اور انکی یہ کتاب ماضی میں میرے زیر مطالعہ رہی ہے۔ ان کی دو کتابیں  فارنہائٹ۴۵۱ اور مارشین کرانکل سائنس فکشن اورسماجی تبصرہ نگاری میں خاصی اہمیت کی حامل ہیں۔

فارنہایٹ ۴۵۱ رے بریڈبیری کیے طرز تحریر کی نمائندہ تصنیف ہے جو 1953 میں لکھی گئی لیکن آج کے ۲۴ گھنٹے کے میڈیا دور میں خصوصا بڑی اہم اہمیت کی حامل ہے۔ اس کتاب کو سائنس  فکشن کے ساتھ مستقبل کی سوشل کامینٹری یا معاشرتی تجزیے کا بہترین امتزاج کہا جا سکتا ہے۔ رے بریڈ بیری نے اس کہانی کا پلاٹ سائنس فکشن، تاریخ، معاشرتی رجحانات کو ایک فیوچریسٹک یا مستقبل کےایسے معاشرے میں قائم کیا ہے جہاں پر لوگ کتابیں نہیں پڑھتے بلکہ ٹی وی اور ریڈیو کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں کتابیں پڑھنا جرم  ہے اور حکومت وقت کی جانب سے حکم ہے کہ ہر کتاب کو اسکے پاے جانے کے ۲۴ گھنٹوں کے اندر جلا دیا جاے۔ لیکن یہ رجحان عوام الناس میں کچھ اسطرح سرائیت کر گیا ہے کہ اب وہ بھی کتابوں کو اپنا دشمن گردانتے ہیں۔

 جس طرح جارج ارویل کی ائنیمل فارم اور ۱۹۸۴  تمثیلی انداز میں معاشرتی برائیوں کے بخیے ادھیڑتی نظر آتی ہے،اسی طرح فارنہاٹٹ ۴۵۱ بھی کسی زندہ معاشرے میں کتاب کی اہمیت پر ایک اہم تصنیف ہے۔ اس کتاب کی وجہ تسمیہ اس درجہ حرارت کی نسبت ہے جس پر کاغذ بھڑک اٹھتا ہے۔ فارنہایٹ ۴۵۱  کا مرکزی خیال ایک ایسا معاشرہ ہے جہاں کتابوں کو جلا  دیا جاتا ہے اور اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس معاشرے میں باغیانہ خیالات یا ایسے افکار جو عمومی راے سے ہٹ کر ہوں انہیں پنپنے کا موقع نا ملے۔ نیز ایسے افکار جو ریاست کی سوچ سے  متضادانہ روش کے حامل ہوں انہیں کتابوں اور دانشورانہ گفتگو کی مدد سے پروان نہ چڑھنے دیا جاۓ بلکہ انکو وہیں پردبا دیا جاۓ۔ اس آتش زنی کے ذریعےباغیانہ رویے کو روکا جاۓ اور لوگوں کی سوچ پر لا محالہ اسطرح سے پہرے بٹھاے جائیں کہ نئے افکار پھلنے پھولنے سےرک جائیں۔ جب لوگوں کا کتاب پڑھنے، دانشورانہ گفتگو و تبادلہ خیال کا موقع نہ دیا جاے گا تو لازما انکی آزادانہ سوچ کا راستہ رک جاۓ گا. یہ کتاب ایک فکری تجربہ ہے اس بات کا کہ کتابوں کو جلانے سے معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

 زیر تبصرہ کتاب کا مرکزی کردار مونٹاگ ایک فائرمین  ہے جوآگ کے محکمے میں کام کرتا ہےاور اس کا کام ہے کہ وہ کتابوں کو آگ لگاے۔ مستقبل کے ایک امریکی شہر کے گرد گھومتی یہ کتاب متضادات سے تعلق رکھتی ہے۔ یہاں فائر مین کا کام یہ ہے کہ وہ آگ لگاۓ،  بجاۓ اس کے کہ وہ آگ بجھاۓ، اس معاشرے کا حال یہ ہے کہ اس میں لوگ کتابیں نہیں پڑھتے ، نہ وہ فطرت سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور نہ قدرتی مناظرسے حظ اٹھاتے ہیں۔ نہ ہی وہ سوچ و بچار میں وقت صرف کرتے ہیں اور نہ ہی  آزادانہ سوچ کے حامل  ہیں۔ انکی پسند ہے تیز گاڑیاں،  ٹیلیویژن دیکھنااور ریڈیو سننا۔ مصنف ہیڈ فون کی طرز کے آلے کو گھونگے کے خول کا ریڈیو کہتے ہیں، واضع رہے کہ یہ کتاب  1953میں لکھی گئی تھی جب تک آی پاڈ اور والک مین  کا وجود نا تھا۔ یہ کتاب بہت پہلے لکھی گئی ہے لیکن اگر سوچیں تو اس میں سے بہت ساری باتیں آج سچ ثابت ہوتی ہیں کہ کتنے فیصدی لوگ آج کتابیں پڑھتے ہیں اور اسکی بنسبت کتنے لوگ ٹی وی دیکھتے ہیں یا ریڈیو سنتے ہیں۔ لہذا بنیادی طور پر جس مستقبل کے بارے میں رے بریڈ بیری نے یہاں بات کی ہے وہ ١٩٥٣ میں جب یہ کتاب لکھی گئی تھی اس وقت خلائی اور افسانوی بات تھی لیکن اب 2012  میں یہ بات بہت حد تک درست ثابت ہوچکی ہے۔

 گاے مونٹاگ کا مرکزی کردار اپنی بیوی کی خودکشی کی کوشش پر دلشکستہ ہے جو زندگی کی یکسانیت اور عامیانہ پن سے تنگ آکر خودکشی کرنا چاہتی ہے۔  وہ اس کے بعد ایک خاتون کلیرس  مکلین سے ملتا ہے جو خاصی زندہ دل ہے اور اس کے سوالات زیادہ تر کیوں کے بارے میں ہوتے ہیں کہ کہ  کیسے۔ اس تجسس کی پڑیا سے ملاقات سے مونٹاگ کے دل میں بھی زندگی کو مکمل طور پر جینے کا حوصلہ پیدا ہوتا ہے اور اسے بھی بہت سی چیزوں سے تجسّس آمیز رشتہ جوڑنے کا موقع ملتا ہے۔ اسی دوران اسے کتابیں پڑھنے کا شوق چراتا ہے اور پھر ایک دن جب وہ اپنے کام پر نہیں جاتا تو اس کا باس جو کہ کتابوں کا دانشوارانہ انداز میں نہایت سخت مخالف ہے، اس کے گھر آکر اس سے کہتا ہے کہ اگر تمہیں یہ  کتابیں پڑھنی ہیں تو تمہارے پاس چوبیس گھنٹوں کا وقت ہے۔ اس دوران وہ کتاب کی مخالفت میں اور کتاب جلانے کی حمایت میں ایک لمبی سی تقریر کرتا ہے جو کہ لائق مطالعہ ہے۔ اس کے بعد مونٹاگ 24 گھنٹوں میں بہت سی کتابیں پڑھنے کی کوشش شروع کرتا ہے اور جب مطالعہ میں بیوی کی مدد طلب کرتا ہے تو اسکی بیوی ٹکا سا جواب دیتے ہوے کہتی ہے کہ تمہیں یہ کتابیں پڑھنے کی کیا ضرورت ہے، ٹی وی دیکھو جو زیادہ مزیدارکام ہے۔اس اثنا میں اسکی ملاقات انگریزی کے پروفیسر فیبر سے ہوتی ہےجو اسے سمجھاتا ہے کہ کتاب کو پڑھنے اور سمجھنے کے لیے ایک ماحول درکار ہوتا ہے۔ تمہارے پاس کتابیں سمجھنے اور اس سے جو آگاہی حاصل ہو اس پہ عمل کرنے کا اختیار موجود ہونا چاہیے ۔انفرادی طور پر سوچنے   کی آزادی اگر موجود ہو تو  کتابیں فائدہ مند ہوتی ہیں۔خالی رٹو طوطے کی طرح پڑھنے سے کچھ خاص فائدہ نہیں مل سکتا۔ اس کے بعد کہانی مونٹاگ کی آگہی، اس کے ارباب اختیار سے ٹکراو اور بلاخر اس کے مجرم ٹھرنے پر منتج ہوتی ہے۔ مونٹاگ کی کتب بینوں اور دانشور گروہ کی تلاش، نیوکلائ ہتھیاروں کی مخالفت اور معاشرے کی ازسر نو تشکیل اس تصنیف کے اہم پہلو ہیں۔ اس دوران کئی سائنسی ایجادات کے روز مرہ استعمال کا تذکرہ ہے اور راقم کا غالب گمان ہے کہ اس پر تجسس ناول کا  مطالعہ آپ کو قطعی طور پر بور نا ہونے دے گا، لیکن ہوسکتا ہےکہ یہ مختصر جائزہ آپ کو سلا دے 🙂

اس ناول کے مندرجہ بالا مختصر خلاصے سے اپ کو اندازہ ہو گیا ہوگا کہ رے بریڈبیری کے خیالات عام ڈگر سے ہٹ کر ہوا کرتے ہیں۔ مثلا  تعلیمی نظام کے بارے میں انکا نقطہ نظر یہ تھا۔

لائبریریوں نے مجھے پالا ہے. میں کالجوں اور یونیورسٹیوں پر یقین نہیں ہے. میں لائبریریوں پر یقین رکھتا ہوں کیونکہ زیادہ تر طالب علموں کے پاس پیسہ نہیں ہوتا. جب میں نے ہائی اسکول سے گریجویشن کیا، یہ کساد بازاری کا دور تھا اور ہمارے پاس بلکل پیسہ نہیں تھا. میں کالج جا نہیں سکتا تھا لہذا میں دس سال تک ہر ہفتے تین دن لائبرری جا کر تعلیم حاصل کرتا رہا۔

Share

June 4, 2012

معمول – اداس نسلیں از عبداللہ حسین سے ایک اقتباس

Filed under: ادبیات,کتابیات — ابو عزام @ 5:08 am

“وہ عظیم شخصیت جو جنم نہ لے سکیں. جنہیں گھر باہر کے’ روز مرہ کے چھوٹے بڑے کام کرنے پڑے ‘ جن کا وقت اسی طرح ضائع ہو گیا. ہم یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ یہ ضابطہ جو ہم نے اپنے اوپرعائد کر لیا ہے اور جس کے تحت ہم زندگی بسر کرتے ہیں کس کام کا ہے. حصول مسرت کا یہ معیار  جو ہم نے قائم کیا ہے یا جو قائم کیا کرایا ہمیں ملا ہے کس حد تک صحیح ہے. ہم جو اتنا دکھ سہتے ہیں’اتنی محنت کرتے ہیں’ اتنے جھوٹ بولتے ہیں’ اتنی چاہتیں اتنی حسرتیں دل میں دباۓ رکھتے ہیں’ اتنی طاقتور خواہشیں پوری نہی کر سکتے کہ دل و دماغ کے روگی ہوں جاتے ہیں’ اتنی اخلاقی قدروں کو سمیٹتے ہیں’ اتنی اخلاقی قدروں کو قربان کرتے ہیں…. وقت کی کمی کی وجہ سے ان لوگوں سے نہیں مل سکتے جن سے بہت ملنا چاہتے ہیں’ دوستی کرنا چاہتے ہیں یا ہمدردی کی توقع رکھتے ہیں یا ایسے لوگوں کو نہیں مل پاتے جن کو ہم نہیں جانتے لیکن جن سے مل لیتے تو بہت خوش ہوتے.ان جگہوں پر نہیں جا سکتے جن کا صرف نام سن رکھا ہے’ جو کچھ سوچتے ہیں کہہ نہیں سکتے’ جو کہتے ہیں کر نہیں سکتے’ قطعی طور پر برے آدمی سے قطع تعلق اور اچھے آدمی سے دوستی نہیں کر سکتے’ غرض یہ کہ کسی ڈھنگ سے بھی زندگی کو بہتر طور پر بسر نہیں کر سکتے حالانکہ ہم میں سے کتنے ہی ہیں جو وہ سب کرنا چاہتے ہیں جو نہیں کر سکتے اور وہ سب کچھ نہیں کرنا چاہتے جو کر رہے ہیں’ تو چاہنے اور کرنے میں یہ تضاد’ یہ بعد کیوں ہے؟ اور اس سے کیا حاصل ہے اور یہ مصنوعی ہے یا حقیقی؟کیا یہ سب کچھ جو ہم بھگتتے ہیں محض اس لئے ہے کہ ہم اپنے گھر کو’ جو چند دیواروں اور کھڑکیوں کا مجموعہ ہوتا ہے’ سلامت رکھنا چاہتے ہیں’ یا اپنے خاندان کو جو چند افراد پر مشتمل ہوتا ہے’ یکجا رکھنا چاہتے ہیں یا اپنی جائداد کو جس میں کھانا پکانے کے برتن’ کپڑے اور چند آسائش کی اشیاء ہوتی ہیں’ قبضے میں رکھنا چاہتے ہیں. کیا ہم اپنی شخصیت کو محض اس لئے نظر انداز کر دیتے ہیں کہ بنیادی ضرورتوں کو پورا کر سکیں’ اپنی علیحدگی’ اپنی انفرادیت کو محض اس لئے ضائع کردیتے ہیں کہ کمتر انسانی جذبوں کی تسکین کر سکیں. کیا ہمیں ادنیٰ اور اعلیٰ کا فرق معلوم ہے؟ کیا ہم مسرت کا مطلب جانتے ہیں’ علم اور جہالت میں کیا ہم تمیز کر سکتے ہیں؟ کیا ہم محض اس لئے اس قدیم’ انسان کش ضابطے کو برقرار رکھے ہوئے ہیں کہ اس سے شخصی غرور کو جلا ملتی ہے؟ کہ ہم اپنے حقیر گھروں اور خاندانوں میں ایک کھوکھلی’ مغرور اور محتاط زندگی بسر کرتے رہیں. یا وہ نوجوان’ جو ابھی زندگی میں قدم رکھ رہے ہیں’ اپنے مکان کو گرنے سے بچانے اور کنبے کو خوراک مہیا کرنے کی خاطر روزانہ زندگی کے چھوٹے موٹے کام کرتے رہیں اور خوشی کے بجاۓ غرور اور تنفر حاصل کریں. ائر پھر ہم میں سے چند ایک ان کاموں میں کمال حاصل کر لیں اور نمایاں مقام پر پہنچیں اور حاسدانہ عزت کی نگاہ سے دیکھے جائیں اور اس طرح زیادہ مغرور اور زیادہ ناخوش ہو جائیں اور اپنے ساتھی لوگوں میں گھلنے ملنے کی بجاۓ انہیں مرعوب کرنے کی طرف مائل ہوں اور بدلے میں ان سے حقارت حاصل کریں. عوامی زندگی کے یہ نمایاں لوگ’ سیاست دان اور تعلیمی اداروں کے سربراہ اور بڑی عدالتوں کے منصف’ ان کی زندگی بھر کی کمائی کیا ہے؟ حقارت اور عمومیت! کیا وہ بس ان دو چیزوں کے لئے ایک انتہائی مردہ دل اور پر کوفت زندگی بسر کرتے ہیں؟

 ” اگر ہم ایک اونچی چٹان پر اکیلے بیٹھ کر سوچیں تو ہمیں پتا چلے گا کہ خوشی تو ایک معمولی شے  ہے اور اسے حاصل کرنا تو بڑا آسان ہے’ یعنی آپ اسے محض چٹان پر چڑھ کر بھی حاصل کر سکتے ہیں جب کہ آپ تنہا ہیں اور آپ کے ساتھ آپ کی ساری شخصیت ہے ساری انفرادیت ہے’ آپکی عظمت اور نیکی اور عقل ہے اور آپ ہر لحاظ سے مکمل ہیں اور قطعی طور پر مطمئن اور خوش قسمت ہیں اور آپکو بھوک نہیں لگ رہی چناچہ آپ ابھی کچھ دیر اور یہاں رک سکتے ہیں اور زندگی کے عظیم مقدس مسائل پر’ محبت اور موت پر غور کر سکتے ہیں اور دیانت داری سے اپنی راۓ وضع کر سکتے ہیں. اس وقت آپ کے پاس وہ بیش بہا آزادی کا احساس ہوتا ہے جس کے لئے’ مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے’ کہ ہم پیدا کئے گئے ہیں اور ہم سوچتے ہیں کہ تھوڑی دیر میں نیچے جائیں گے اور فلاں فلاں کام کرینگے یا نہیں کرینگے کہ ان کا کرنا نہ کرنا ہمارے اختیار میں ہے…..مگر خوفناک بات یہ ہے کہ جب ہم نیچے جاتے ہیں تو ایک ایک کر کے ساری چیزیں ساتھ چھوڑ جاتی ہیں اور آخیر میں ہماری وہی پرانی’ کمزور’ گمنام شخصیت رہ جاتی ہے جس کے سامنے روزانہ معمول کے ایسے کام ہوتے ہیں جو ہر حالت میں کرنا ہوتے ہیں اور اپنے معمولی پن کے باوجود ہمارے اختیار سے باہر ہوتے ہیں. اس طرح ہم آنا فانا عمومیت کے اس سمندر میں گم ہو جاتے ہیں اور ہجوم سے الگ ہماری کوئی شخصیت’ کوئی آزادی نہیں رہتی. ہم خوشی کے اس معیار کو بھی بھول جاتے ہیں جو کچھ دیر قبل ہم نے قائم کیا تھا’ اور ایک دوسری قسم کی مسرت’ جو تقابل اور کبر نفس سے پھوٹتی ہے’ ہم پر قبضہ کر لیتی ہے. یہ زندگی کی سفا کی کا ایک منظر ہے کہ ہم جانے بوجھے اور محسوس کیے بغیر’ تیزی کے ساتھ اعلیٰ سےادنیٰ کی طرف سفر کرتے ہیں..

 “تو کیا طمانیت اور عقل و دانش کی یہ قربانی جو دی جاتی ہے حق بجانب ہے؟ وہ بے پناہ جور وستم جو ہم جھیلتے ہیں’ کیا ہماری زندگی’ ساری انسانی زندگی اس قابل ہے کہ اس کے لئے اتنی دل شکنی قبول کی جاۓ’ بتاؤ کیا ساری انسانی زندگی کی کوئی وجہ ہے؟”

اداس نسلیں از عبداللہ حسین

Share
« Newer PostsOlder Posts »

Powered by WordPress