فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

January 13, 2012

اے کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگوز از محمد حنیف کا مختصر تعارف

Filed under: ادبیات,پاکستان,سیاست,طنزومزاح — ابو عزام @ 6:32 pm

کل شب کافی عرصے بعد انگریزی کی ایک نان فکشن کتاب کے دو سو کے قریب صفحات ایک نشست میں ختم کیے، باقی اس سے قبل پورے ہفتےمیں مختلف مواقع میں پڑھ چکا تھا، غالبا اس سے پہلے لایف آف پای ہی ایسی نان فکشن کتاب تھی جس کے انداز بیاں نے توجہ کو اس قدر مرکوز رکھا اور صفحہ در صفحہ کس طرح گذرا پتا نہیں چلا۔ راشد بھای سے یہ کتاب کچھ ماہ پہلے مستعار لی تھی، شروع کی لیکن دو ابواب کے بعد کچھ سفر کی مصروفیتوں کی بنا پر ختم نا کر سکا۔ اب دوبارہ اٹھای تو سوچا کہ ختم کر کے ہی چھوڑوں گا۔ محمد حنیف کی اے کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگوز اپنے متنازع موضوع اور معترضانہ مواد کے باوجود یا شاید اسی وجہ سے ایک دلچسپ ناول ہے جو ۸۰ کی دہائ کی پاکستانی سیاست، فوج اور دور آمریت کے سماجی رجحانات پر ایک طنزیہ و تمسخرانہ نظر ڈالتا ہے۔

دو ہزار نو میں شائع ہونے والے اس ناول ’اے کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگوز‘ کے مصنف، ڈرامہ نگار اور صحافی محمد حنیف کو کامن ویلتھ رائٹرز کا انعام مل چکا ہے اور اگر وہ اپنی اسی طرح کی صف شکن تحاریر لکھتے رہے تو مین بکر پرایز کی لانگ لسٹ سے شارٹ لسٹ ہونے میں کچھ زیادہ وقت نا لگے گا۔ اس ناول کا مرکزی خیال آمریت اور اس کے خمیر سے اٹھنے ہونے والی وہ مضحکہ خیزعبودیت و اضطرار کی ملی جلی کیفیت ہے جو انسانی دماغ میں فوج کے حکومتی نظام سے پروان چڑھتی ہوتی ہے۔ راقم کا اپنا تجربہ ہے کہ جب سانحہ بہاولپور ہوا تو سن آٹھ برس کا تھا لیکن اس عمر میں بھی یہ خیال کہ ضیا الحق کے علاوہ کوئی اور بھی صدر مملکت ہو سکتا ہے ایک نہایت  عجیب و ناممکن بات لگتی تھی۔ غیرجماعتی انتخابات کے اعلان پر بھی ہم بڑے عرصے تک اسی وجہ سے خفا رہے رہے کہ ہماری دانست میں یہ وہ انتخابات تھے جن میں جماعت اسلامی کے سوا سب جماعتوں کو حصہ لینے کی آزادی تھی۔ اس سے آپ ہماری سیاسی بالیدگی کا اندازہ لگا سکتے ہیں لیکن یہ تو جملہ ہاے معترضہ ہیں، چلیے تبصرے کی جانب۔

محمد حنیف کے پڑھنے والے جانتے ہیں کہ ان کے نزدیک کوئی چیز بھی تنقید و تمسخر سے ماورا نہیں۔ دی کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگوز میں بھی یہی سب وشتم بدرجہ اتم موجود ہے۔ جنرل ضیا کی آنکھوں سے لیکرانکے غدودان معدہ تک،پاکستان کی اسلامایزشن کا الزام ہو یا جرنیلوں کی میٹنگ، بیگم شفیق جہاں ضیا الحق کا بیڈروم ہو یا حدود آرڈینینس کی شرائط، ان کا خامہ بے محابہ ایک شتر بے مہارکی طرح تمام حدود قیود سے آزاد اپنے مناظر اور کردار قرطاس پر بکھیرتا چلا جاتا ہے۔ حنیف صاحب کے کردار یک جہتی اور مناظر پر انکی گرفت قوی ہے۔اپنے کرداروں کے پس منظر سے پیش منظر تک کا تعارف وہ اسطرح کرواتے ہیں کہ ایک تشنگی سی باقی رہتی ہے اور یہی اسرار کا باعث بنتی ہے۔ ان کے کرداروں کا کینوس خاصہ بڑا ہے لیکن وہ سب کے ساتھ انصاف کرتے نظر آتے ہیں۔ امریکی سفیرآرنلڈ رافیل، سی آی اے کے چارلس کوگن، اسلم بیگ، بن لادن، کیانی، برگیڈیر ٹی ایم، جنرل اختر عبدالرحمان پر مبنی کردار ہوں یا بے بی او اور علی شگری کے فسانوی کردار، انکا قلم چابکدستی سے ان زندگیوں اور واقعات کو اس طرح سے جوڑتا ہے کہ قاری عش عش کر اٹھتا ہے۔

محمد حنیف نے خود تو اس کتاب کو ایک انٹرویو میں فکشن قرار دیا تھا لیکن بیشتر کیچ ٹوینٹی ٹو اور جارج آرویل کی طرز کے ‘فکشنات’ کی طرح انہوں نے اپنی کہانی کے تانے بانے حقیقی واقعات سے کچھ اس طرح جوڑے ہیں کہ پڑھنے والا حقیقیت و فسانے کے درمیان ایک خلا میں معلق رہتا ہے اور آہستہ آہستہ فسانہ فسانہ نہیں رہتابلکہ حقیقت کا روپ دھار لیتا ہے۔محمد حنیف کے افکارونظریات سے اختلاف تو بلکل ہوسکتا ہے لیکن ان کی ندرت خیال کی تعریف نا کرنا ناانصافی ہوگی۔ اندھی زینب کی بددعاوں سے لے کر کوے کی غیر قانونی پرواز ، شاہی قلعے کے سیکرٹری جنرل قیدی اور حرم کے قاضی کو کی جانے والی فون کال تک ان کے قلم کا نشتر ایسے زخم ادھیڑتا ہے کہ جو پاکستانی سیاسی و سماجی تناظر میں شجر ممنوعہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ میں اس ناول کی کہانی نہیں بیان کروں گا، بس اتنا کہتا چلوں گا کہ بقول مصنف انکا پہلا ناول ایک سیاسی تھرلر ہے اور یہ بات صد فیصد درست ہے۔

نازک طبع لوگوں کے لیے لیکن انتباہ ہے، غالب گمان ہمارا یہ ہے کہ یہ کتاب اور اس میں استعمال کی گی زبان و استعارات و مضامین طبعیت پر گراں گذرے گی۔ فحاشی کی تعریف میں تفرق ہو سکتا ہے لیکن مشتزنی سے لواطت اور راشد بھای کے الفاظ میں اعضاے بقاے نسل انسانی بلا شمار مستعمل ہیں لہذا احتیاط لازم اور جس کو ہو جان و دل عزیز اسکی گلی میں جاے کیوں۔

بی بی سی کی خبر ہے کہ اپنے پہلے ناول پر پیدا ہونے والے ردِ عمل کے بارے میں محمد حنیف نے بتایا تھا کہ ’اور کسی نے تو کوئی خاص ردِ عمل ظاہر نہیں کیا لیکن ایک صاحب نے انہیں مرکزی کردار (جنرل ضیا) کے بیٹے کا یہ پیغام پہنچایا کے ’میرے والد زندہ ہوتے تو پھر میں دیکھتا کہ وہ (حنیف) یہ ناول کیسے لکھتا‘۔
اس تبصرے کے اختتام حنیف صاحب کے کردار کورپورل لسارڈ کا یہ تاریخی جملہ نقل کرتا چلوں جو اس نے صوبیدار میجر کے اس استفسار پرکہ “یہ جو ہاٹ ڈاگ تم ہمارے لیے اتنے چاو سے لاے ہو، وہ حلال ہے کہ نہیں” کہا تھا،

it is a piece of f******* meat in a piece of f******* bread. If we can’t agree on that, what the hell am I doing here?”

اب محمد حنیف کی اگلی کتاب، آور لیڈی آف ایلس بھٹی کو پڑھنا ہے۔ اب یہاں معاملہ اس بار کچھ یوں ہے کہ کتاب ہماری ہے اور قبضہ راشد بھائی کا ہے۔ دیکھیں وہ کب عنایت کرتے ہیں۔

Share

January 10, 2012

دیسی لبرل کا المیہ – ایک خط

Filed under: طنزومزاح,مذہب — ابو عزام @ 9:57 pm

برادرم ابوعزام
آداب و تسلیمات

امید ہے مزاج بخیر ہونگے۔ آج سوچا کہ کچھ حال دل لکھوں، کچھ فگار انگلیوں کی بات ہو اور کچھ خامہ خونچکاں کی۔ آج سہ پہر سے وہ کیفیت وارد ہےجس پر علامہ نے خوب فرمایا

!یقیں مثلِ خلیلؑ آتش نشینی
!یقیں اللہ مستی، خود گزینی
سُن اے تہذیبِ حاضر کے گرفتار
!غلامی سے بتر ہے بے یقینی

بس بھائی، تو مدعا و المیہ ہمارا یہی ٹھرا کہ تشکیک و ارتیاب کے بحران میں گرفتار، ہم گروہ اذھان ناپختہ کار ہیں۔ حق ہدایت نصیب کرے ورنہ تعقل پراگندہ اور افکار مغرب کی کاسہ لیسی سے عبارت۔ ایک بنیادی منطقی مغالطے کا شکار کہ جس کو لسانا دین کہتے ہیں اس کے قواعد و ضوابط، اس کے رب کی ربوبیت اور شارع کی حتمیت پر آمنا و صدقنا نہیں کہتے، اتنی اخلاقی جرات بھی نہیں پاتے کہ صاف علیہدہ ہوکر من الحیث الطالب وجود خداوندی کی دلیل طلب کریں اور رسول کی صداقت کو درایت کی کسوٹی پر پرکھنے کی سعی کریں۔ خدا لگتی کہیں تو چڑھتے سورج کی پرستش سے یہ عادت بھی واثق ہوئی کہ جیسے ستر کی دہائی میں اسٹالن کے اساطیر گنجہائے گرانمایہ معلوم ہوتے تھے، آج تعقل مستعار کے اس غلامانہ خلا کو مغربی الحادانہ افکار و زندقہ نے پر کیا ہے۔

علم حقیقی و معلومات میں باعث تفرق کیا ہے، اس کے ادراک سے بے بہرہ ہونے کے سبب ہمیشہ علوم دینیہ کو “دیر از این ایپ فار دیٹ” کے انداز فکر سے پرکھا، قران میں تلاش ممکن ہوئی تو جس مصحف کو برسوں نا چھوا تھا بیٹھے بٹھائےاس کے عالم بن گئے اور جب صحیین کی “ایپ” ملی تو شیخ الحدیث کا مرتبہ پایا۔ مغربی دانشکدوں کی افادیت سے تو مفر ممکن نہیں لیکن چونکہ کسی خردمند کا بالاستیعاب مطالعہ شامل نہ تھا لہذا تفکر کے منڈلاتے سائے، ضیا حرم نا پا کر آسیب ِالحاد میں تبدیل ہو چلے۔

تراکیب ترکی و تیزی سے ناآشنا ہم خود کو البیرونی و ابن الرشد و ابن عربی کے رشحات فکر کا تسلسل گردانتے ہیں لیکن تم سے حقیقت حال کیا چھپانا، ہماری محدود صلاحیت ہنر تو بس اینگلز و ڈاکنس کی سوچ کا پرتو ہے۔ ویسے بھی ماحول کچھ ایسا سازگار ہے کہ فی زمانہ “انٹیلیکچول” ہونے کے لئے منکر شریعت و شرافت ہونا ایک امر لازم ٹھرا۔ گویا کہ افکار میں بائیں جانب جھکاو اور افعال پر از معائب نا ہوں تو ذہنی استدراک کے مدارج کو انڈر گریجویٹ ہی گردانا جاتا ہے۔ اگر “آرگنائزڈ ریلیجن” کے ذکر پر لال رومال دیکھنے والے بیل کی طرح نا ڈکرائیں تو ٹوئٹر مفکرین آئی کیو سو سے نیچے ہونے کا گمان کرتے ہیں۔

بہرطور، یہ تو کچھ بیان حال دل تھا، کھول کر تمہارے سامنے رکھ دیا۔ لیکن میاں خیال رکھنا، ہم تو یہ کہے دیتے ہیں لیکن اگر تم سے زرا بھی کوئی پندونصائح وارد ہوئے تو چرب زبانی و بذلہ سنجی و لطیفہ گوئی کی آڑ میں تمہاری وہ ہنسی اڑائیں گے کہ تمہیں ہماری حکائت زباں کے پیچھےچھپنے کی زرا بھی جگہ بھی نا ملے گئ۔ اور اگر زیادہ مدلل ہوئے تو غیر عرفی سوچ و معترضانہ تفکر کے قتل کا ذمہ دار قرار دے کر وہ مجلس عزا گرم کریں کہ بھاگتے ہی بنے گی۔ زرا آزما کر تو دیکھو۔

دعاوں کا طلبگار
ایک دیسی لبرل

Share

January 8, 2012

!چین کی ترقی

Filed under: مشاہدات — ابو عزام @ 10:32 pm

 قیصر تمکین صاحب کی کتاب تنقید کی موت میں منصورہ احمد کی مندرجہ ذیل مختصر نظم ایک استفہامیے کے طور پر موجود ہے۔

!مرے مالک
تجھے تو علم ہی ہوگا
جو بچپن سے بڑھاپے میں چلے جاتے ہیں
ان سب کی جوانی کون جیتا ہے؟

 مجھ سے اکثر احباب اس بات پر نالاں رہتے ہیں کہ میں چین کی ترقی اور اس کی عظمت کی داستانوں کو درخوراعتنا نہیں گردانتا، نا ہی مجھے اس “ابھرتی ہوئی نئی عالمی طاقت” کی  بڑائی سے کوئی خاص دلچسپی ہے۔ میں اسے ۸۰ کی دہائی کی جاپانی  ترقی کی ناپائدارگی پر محمول کرتے ہوئے اکثر یہ سوال کرتا ہوں کہ جب ترقی مشرق کے رطب اللسان مجھے  سرزمین الصین کی تازہ ترین ایجاد کا نام بتائیں گے  تو میں اس موضوع پر مزید گفتگو کرنے کے لئے تیار ہوں۔ اپ شائد اسے کج بحثی خیال کریں لیکن معاشی ناہمواریوں کے جس ابتذال  میں اہل چین نے ایک ناپائدار ترقی کی بنیادیں کھڑی کی ہیں، ان کی انسانی قیمت اسقدر بلند ہے کہ اس کا اجمالی تذکرہ بھی گلوبلائزیشن کے بڑے سے بڑے حامی کے رونگٹے کھڑے   کرنے کے لئے کافی ہے۔ شرط یہ ہے کہ وہ استعمارکا جبہ اتار کر انسانیت کا لبادہ اوڑھے اور خاکی پیراہن سے منطقی خطوط پر جی ڈی پی کی ناہمواریوں، یوان کے غیر فطری ٹھراو،  برامدات کے بسیار، معاشی ترقی کا کمیونسٹ پارٹی کی “ازاد منش، انسان دوست، مزدور دوست” پالیسیوں سے تعلق استوار کرے۔

 مسٹر ڈیزی کے ساتھ زرا شینجوان کا چکر لگائیں اور  دیکھیں کہ ترقی کس چڑیا کا نام ہے۔

 

Share

January 5, 2012

حرم کا تحفہ

Filed under: ادبیات,شاعری,مذہب — ابو عزام @ 11:20 am

زندگی انساں کی اک دم کے سوا کچھ بھی نہیں

دم ہوا کی موج ہے، رم کے سوا کچھ بھی نہیں

گل تبسم کہہ رہا تھا زندگانی کو مگر

شمع بولی، گریۂ غم کے سوا کچھ بھی نہیں

راز ہستی راز ہے جب تک کوئی محرم نہ ہو

کھل گیا جس دم تو محرم کے سوا کچھ بھی نہیں

زائران کعبہ سے اقبال یہ پوچھے کوئی

کیا حرم کا تحفہ زمزم کے سوا کچھ بھی نہیں

 بانگ درا 

Share

January 1, 2012

عصری ادب اور سماجی رجحانات از ڈاکٹر روف پاریکھ کا تعارف

Filed under: ادبیات,تحقیق — ابو عزام @ 8:36 am

پچھلے ماہ کراچی ارٹس کونسل میں اردو کی عالمی کانفرنس میں ماہر لسانیات اور اردو لغت بورڈ کے سربراہ ڈاکٹر روف پاریکھ کو پہلی مرتبہ سننے کا اتفاق ہوا۔ موصوف کا مقالہ غالب کی اردو لغت پر تھا جس میں ان کا مدلل و پر مغزانداز تحریر نمایاں نظراتا تھا۔ تقریرنہایت ہی عمدگی سے کی جس میں کوئی بات بھرتی کی نا تھی، نہایت قابل ادمی ہیں اور قحط الرجال کے اس دور میں جہاں عمومی طور پر رسائل و جرائد میں سرقے کا رواج اور تحقیق کا فقدان ہے، امید کی اخری کرنوں میں سے ایک کرن۔ کانفرنس کے بعد حسب عادت ہم جیب ہلکی کرنے باہر موجود کتابوں کے اسٹالز پر جا پہنچے تو وہاں روف پاریکھ صاحب کی کتاب عصری ادب اور سماجی رجحانات نہائت مناسب داموں میسر تھی،فورا خریدی اور ایک ہی نشست میں ختم بھی کرلی، اسی کا تعارف درج زیل ہے۔

اکادمی بازیافت کی شائع کردہ تقریبا دو سو صفحات کی یہ کتاب عصری ادب اور سماجی رجحانات، ڈاکٹر صاحب کے مختلف کتابوں پر کئے گئے تبصرہ جات کا مجموعہ ہے، یعنی کتاب برائے کتابیات یا میٹا بک۔ اس میں تقریبا تیس کے قریب مختلف النوع کتب پر تبصرے شامل ہیں لیکن یہ محظ تبصرے نہیں بلکہ اردو لغت، الفاظ کے چناو، فن تحریر، موجودہ ادبی و ثقافتی رجحانات، سماجی عناصر اور دیگر ادبی عوامل پر سیر حاصل مباحث کا نادر مجموعہ ہے۔ اس کے چیدہ چیدہ مضامین میں اردو میں عربی الفاظ کا تلفظ ایک جائزہ، الفاظ کی سرگزشت، محمد حسین ازاد کا کتب خانہ، عورت اور اردو زبان ایک جائزہ، مجید لاہوری کی حرف و حکایت ایک جائزہ، زکر راجا بھوج اورمولوئ مدن کا اور عنائتیں کیا کیا شامل ہیں۔

عام ناقدین کی طرح ڈاکٹر صاحب تعریف میں بخل سے کام نہیں لیتے لیکن انکی تنقید کا نشتر بھی کسی مصلحت کا قائل نہیں، وہ موجودہ دور کی سریع التحریر پیڈ پبلشنگ کی روش سے سخت نالاں ہیں اور اپنی تحاریر میں اس کا برملا اظہار کرتے ہیں۔ مثلا موصوف نامی ایک کتاب کے بارے میں کہتے ہیں

“موصوفہ”کی تحریر سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ مشتاق احمد یوسفی سے متاثر ہیں (لیکن اس طرح نہیں جس طرح یونس بٹ یوسفی سے متاثر ہیں.کیوں کہ اب تو یوسفی صاحب یونس بٹ سے متاثر ہو گئے ہیں یعنی بلکل اس طرح جیسے مظلوم عوام سیلاب سے متاثر ہوتے ہیں)مگر اس متاثر ہونے کے باوجود موصوفہ نے یوسفی صاحب سے کوئی سبق نہیں سیکھا. یوسفی صاحب آج اردو کے عظیم ترین مزاح نگاروں میں شمار ہوتے ہیں تو اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ ہر لفظ سوچ سوچ کر اور سطر تول تول کر لکھتے ہیں.بلکہ لکھنے سے پہلے سو بار مٹاتے ہیں اور غالباً اسی لیے پنسل سے لکھتے ہیں کے مٹانا تو پڑے گا ہی.”آب گم “کے دیباچے میں خود ایک جگہ لکھا ہے کہ”خاکے اور مضامین لندن میں بڑی تیز قلمی سے لکھ ڈالے اور حسب عادت پال میں لگا دیے کے ڈیڑھ دو سال بعد نکل کر دیکھیں گے کہ کچھ دم ہے بھی”. اس میں”حسب عادت “کے الفاظ غور طلب ہیں.جو شخص اتنا تردد کرے اسے بڑا نثرنگار تو بننا ہی ہے.لیکن رفعت ہمایوں صاحبہ کو شاید مصنفہ بننے کی جلدی تھی لہٰذا مضامین کو پال میں لگا نے کی بجاۓ کچے ہی دستر خوان پر سجا دیے کہ قاری جانے اور اس کا ہاضمہ!

مندرجہ بالا پیراگراف جامع طریقے سے ایک پریشان کن رجحان کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جسے استاد جعفر نے اپنے تازہ مضامین میں یہاں اور یہاں بڑی خوبصورتی سے نشتر خامہ کا نشانہ بنایا ہے۔ڈاکٹر صاحب کو الفاظ سے بڑی محبت ہے۔ الفاظ کی سرگزشت نامی مضمون میں لکھتے ہیں

اس پر ہمیں خیال آیا کہ ہر زبان میں کچھ ایسے الفاظ ہوتے ہیں جو اس خطّے کے تہذیب و تمدن اور معاشرتی تصورات کو آشکارا کرتے ہیں.غیر قوم یا دوسرے کلچر کے لوگ ان کے لئے کوئی لفظ یا کوئی مترادف اپنے ہاں نہیں رکھتے اور اگر کوئی لفظ ہوتا بھی ہے تو اس مفہوم کو صحیح طور پر ادا نہیں کرتا.مَثَلاً فرانسیسی اور جرمن زبان میں بعض تہذیبی تصورات کے لئے جو لفظ ملتے ہیں ان کا ٹھیک ٹھیک انگریزی مترادف دستیاب نہیں ہوتا اور ان کی وضاحت میں ایک دو سطریں لکھنی پڑتی ہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ لفظ محض لفظ نہیں ہوتے بلکہ”تصورات”اور”خیالات”ہوتے ہیں اسکی مثال کے طور پا پر لفظ”عصمت”کو لے لیں،ہمارے ہاں عصمت و عفت کا جو تصور ہے وو مغربی تہذیب میں ناپید ہے.یہی وجہ ہے کہ انگریزی میں اس مفہوم کی ادائیگی کے لئے جو لفظ ملتے ہیں(مَثَلاً,purity,modesty chastity,integrity وغیرہ)وہ اسکے اصل مفہوم کو اور عصمت کے تصور کو صحیح معنوں میں ادا کرنے سے قاصر ہیں.کچھ یہی کیفیت ہماری اشیاۓ خوردو نوش اور رسم و رواج کی ہیں.مَثَلاً پان کو لیجئے،اسکے لوازمات ،خصوصیات اور اہمیت پر انگریزی میں ایک مضمون لکھ ڈالیے، لیکن جس انگریز نے زندگی بھر پان نہیں کھایا وہ خاک بھی نہیں سمجھے گا کہ پان ہوتا کیا ہے.ہاں اسے ایک عدد گلوری، سونف خوشبو اور مشکی قوام والے پان کی کھلا دیجیے اور پھر قدرت کا تماشا دیکھیں.انشاء الله دریاۓ ٹیمز کی دھلی ہوئی انگریزی میں پان پر لیکچر دیگا اور پھر لکھنوی لہجے میں آداب و تسلیمات کے بعد بیٹل لیف (betel leaf ) کی بجاۓ پان (paan) کہنے پر اصرار کریگا.(اگر بیہوش نہ ہوا ہوگا تو!)کیوں کہ پان محض کھانے کی چیز نہیں ایک تہذیب کہ نام ہے.

ہماری طرح ڈاکٹر صاحب بھی ماہنامہ افکار کے بند ہونے سے بڑے افسردہ تھے اور عمومی طور پر ادبی رسائل کی طرف لوگوں کے عدم توجہی کے رجحانات پرسیخ پا۔ لیکن اس میں وہ بڑا قصور ان ناشرین کا گردانتے ہیں جنہوں نے قیمتیں بڑھا بڑھا کر ادب کو لوگوں کی پہنچ سے دور کر دیا ہے۔ اس ضمن میں وہ پرانی کتابوں کے ٹھیلوں کی مثال دیا کرتے ہیں جہاں لوگوں کا ہجوم لگا ہوتا ہے کیونکہ لوگ پڑھنا چاہتے ہیں اور سستی کتابیں جو ان کی قوت خرید میں ہوں وہی لے سکتے ہیں اب وہ کسی بھی معیار کی ہوں۔ اپنے مضمون ادبی رسائل کا سیاپا میں رطب اللسان ہیں

ایک زمانہ تھا کہ اردو کے ادبی رسائل بڑی دھوم سے نکلا کرتے تھے اور ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے تھے.پاکستان بننے کے بعد بھی کوئی بیس پچیس سال تک یہ عالم تھا کہ کسی ادبی پرچے میں کوئی اچھا مضمون یا افسانہ شائع ہوتا تو اسکا چرچا ہوا کرتا تھا.کافی ہاوس یا چاۓ خانے میں ہونے والی غیر رسمی ادبی نشستوں میں ان پر گفتگو ہوتی تھی لیکن رفتہ رفتہ منظر بدلتا گیا.ادبی رسائل کہ بازار سرد ہو گیا،انکے خریدار نہ رہے،ادب سے لوگوں کی دلچسپی کم ہوتی گئی.ادب محض تعلقات عامہ،فوائد کے حصول اور وقتی شہرت کاذریعہ بن گیا.حد سے حد مٹھی بھر لوگ ایسے رہ گئے جن کو ادب سے واقعی اور حقیقی دلچسپی ہے،بلکہ کچھ لوگوں کا تو خیال ہے کہ ہم لوگ ادب سے دلچسپی رکھنے والی آخری نسل کے افراد ہیں.

لیکن عام رجحان کے برعکس صاحب کتاب ٹیکنالوجی کو مورد الزام نہیں ٹہراتے۔ مزید لکھتے ہیں۔

ادب کی اس کساد بازاری پر بعض حضرات سائنس اور ٹیکنالوجی کو بھی صلواتیں سناتے پائے گئے ہیں.انکا خیال ہے کے ٹی وی ،وی سی آر،ڈش اینٹینا،ویڈیو گیمزاور انٹرنیٹ کے اس دور میں اگر کسی کے پاس ادب کے لیے وقت ہے تو وہ اسے زیادہ دلچسپ اور رنگوں اور روشنیوں میں نہائ ہوئی مصروفیات میں گذارنا چاہتا ہے.جب سے سائنس کو عروج ہوا ہے،ادب زوال پذیر ہو گیا ہے .لہٰذا سائنسی ترقیوں کو ادب کا دشمن سمجھنا چاہیے وغیرہ .

مزید لکھتے ہیں کہ

لیکن اگر ہم مغرب پر نظر ڈالتے ہیں تو حیران کن نظارہ سامنے آجاتا ہے سائنس اور ٹیکنالوجی اور کمپیوٹر وغیرہ میں ہم سے دو سو سال آگے چلنے والی اقوام کو مطالعے سے بےپناہ شغف ہے.کچھ عرصے قبل ہیری پوٹر کے سلسلے کی نئی کتاب منظر عام پر آئ،مغربی معاشرے مے گویا زلزلہ آگیا.کئی روز تک خبروں کا موضوع بننے والی اور فروخت کے نۓ ریکارڈ قائم کرنے والی یہ کتاب بَچوں کا ناول ہے،جس کا ہیرو ہیری پوٹر جادو سے واقف ہے.انٹرنیٹ پر چند ماہ قبل ہی سے اس کتاب کی خبریں آرہیں تھیں.اسے آٹھ جولائی کو رات بارہ بجے کتابوں کی دوکان سے باہر کیا بچے ،کیا بڑے قطار لگاے کھڑے تھے.
کہاں ہیں وہ لوگ جو کہتے ہیں کے کمپیوٹر کی وجہ سے کتاب نہیں بکتی؟کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی وجہ سے کتابوں کی فروخت میں خاصا اضافہ ہوا ہے کیوں کہ انٹرنیٹ پر کتابوں کی خبروں اور ان پر تبصروں نے کتاب کی مانگ میں اضافہ کیا ہے.ہیری پوٹر کی کتابوں کی مصنفہ جے کے رولنگ کو معاوضے کے طور پر کئی ملین ڈالرمل چکے ہیں اور اس سلسلے کی آخری کتاب یعنی”ہیری پوٹر اینڈ دی گو بلٹ آف فائر” کی صرف دو دن میں پانچ لاکھ سے زیادہ کاپیاں فروخت ہو گی ہیں اور ان میں سے تقریبن ایک لاکھ کاپیاں انٹرنیٹ کےذریعے بکی ہیں.یہ کتابیں اڑتالیس لاکھ کی تعداد میں شائع ہوئی ہے اور خیال ہے کے مزید بیس لاکھ کاپیاں فوری طور پر چھاپنی پڑینگی. یہ ہے سائنسی طور پر ترقی یافتہ معاشرے میں کتاب کی اہمیت اور قدرو قیمت کا حال.

اور اس کی بنیادی وجہ فاضل مصنف کے نزدیک یہ ہے کہ

لیکن یہ تو مغربی معاشرے کی بات ہے.ہمارے ہاں کتابوں کی فروخت تیزی سے کم ہو رہی ہے.اسکی ایک بری وجہ مہنگائی،اقتصادی بدحالی اور ناشرین کی لوٹ کھسوٹ ہے جو کتابوں کی قیمتیں اتنی زیادہ رکھتے ہیں کہ جو پڑھنا چاہتا ہے وہ بھی کتاب خریدنے کی ہمّت نہیں کر سکتا.ان پڑھ لوگوں یا پڑھے لکھےبد زوقوں کا تو ذکر ہی جانے دیجئے .

محترم ماہر لسانیات کو اگلے ناقدین سے بڑی انسیت ہے، خصوصا کلیم الدین احمد جو نقوش کے میں لکھا کرتے تھے ان کا ایک اقتباس بطور دلیل شامل کرتے ہیں کہ “نقوش” کے طنز و مزاح نمبر میں انہو نے لکھا:

“شوکت تھانوی اور عظیم بیگ چغتائی اپنی شہرت کے باوجود بھی کوئی اہمیت نہیں رکھتے اصل یہ ہے کہ دونوں کی ذہنیت ترقی کے مدراج طے کرنے کے دوران ایک خاص مقام پر پہنچ کر رک گی ہے اور یہ ذہنیت وہی ہے جسے”انڈرگریجویٹ”ذہنیت کہتے ہیں.دونوں استعداد بہم پہچانے سے پہلے مصنف بن بیٹھے.ان کے کارناموں کو اگر کسی طالب علم کہ کارنامہ شمار کیا جاۓ تو لائق تحسین ہے.اس سے زیادہ وقعت دینا تنقید اور مذاق صحیح پر دانستہ ظلم کرتا ہے”مزید لکھتے ہیں کے :”انہیں لازم تھا کہ جو کچھ لکھتے اسے محض مشق سمجھتے.لکھتے اور لکھ کر پھاڑ دیتے اور آہستہ آہستہ مطالعہ، مشاہدہ، غوروفکر میں وسعت، باریکی اور گہرائی پیدا کرنے کی کوشش کرتے”.

پی ار کے شعبے پر چوٹ کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ

دراصل تعلقات عامہ کا شعبہ اب اتنا زور پکڑ گیا ہے کہ اسکے زور پر ٹین ڈبےوالے بھی آرٹ کاؤنسل کے کرتا دھرتا بن جاتے ہیں اور کہا یہ جاتا ہے کہ “جی ادب سے انہیں بہت لگاؤ ہے اس لیےبنا دیا ہے”. اس جلدی چھپنے،مصنف کہلانے اور صاحب کتاب بننے کے جنون نے بہت اچھے لکھنے والوں کو خراب و خوار کیا ہے

اور پھر جو انہوں نے لکھا تو ہماری اور راشد کامران بھائی کی دل کی بات لکھی جو یونس بٹ صاحب کی حالیہ کتب خرید کر پچھتا رہے ہیں۔

ڈاکٹر محمّد یونس بٹ کو ہی لیجیے،بہت اچھی اٹھان تھی.لگتا تھا کے اردو مزاح کے گلستاں میں ایک نو بہارناز کا اضافہ ہوا چاہتا ہے.لیکن ایک تو انھوں نے انگریزی مزاح اور مشتاق احمد یوسفی کے فقروں کو استعمال کرنا شروع کیا، دوسرے بسیار نویسی کے سبب خود کو بھی دہرانا شروع کیا اور تھوک کے بھاؤ لکھنے کی وجہ سے خود کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا لیا.

اور اخری اقتباس حاصل مضمون کے طور پر درج کرتا ہوں کہ

مرزا فرحت الله بیگ جیسے لکھنے والوں کو لوگوں نے زیادہ لکھنے پرطعنہ دیا تھا کہ انہیں لکھنے کہ ہیضہ ہو گیا ہے.جس پر انھوں نے کہا کہ بہت اچھا،اب مجھے لکھنے کہ قبض رہے گا.فرحت عبّاس شاہ کو تو خیر شاعری کہ ہیضہ ہو ہی گیا ہے اور ابھی بہت سے ایسے لکھنے والے ہیں کہ کم لکھیں تو اپنا، قارئین کا اور ادب کا سب کا بھلا کریں گے.برا ہوگا تو ناشرین کا جو فرحت عبّاس شاہ اور یونس بٹ وغیرہ کی کتابیں دھڑا دھڑ چھاپ کر نہال ہوئے جا رہے ہیں.

یہ تو جناب اس کتاب کا ایک نہائت سطحی سا تعارف تھا، اس تحریر کی تمام خرابیاں ہماری کم علمی اور نااہلی پر منطبق ہے، اس گوہر نایاب کتاب میں نہائت خوب علمی و ادبی بحثیں ہیں، الفاظ و املا کی ایسی نادر مثالیں ہیں کہ لفظوں سے محبت کرنے والے لوگ عش عش کر اٹھیں گے۔ ہدیہ ڈیڑھ سو روپے ہے اور امید ہے کہ لبرٹی یا اردو بازار سے یہ کتاب با اسانی مل سکتی ہے۔ اپنے تبصرہ جات سے ضرور اگاہ کیجئے گا۔

Share

December 31, 2011

سال نو اور فیض

Filed under: ادبیات — ابو عزام @ 7:24 am

چند گھنٹے اور باقی ہیں اور پھر یہ برس بھی ہمارے گرد آلود کی روز میں مل کر خاک ہو جائے گا۔ شائد اسی وجہ سے اس دن کے لئے کوئی جذبہ دل میں محسوس نہیں ہوتا۔ نہ یہ محسوس ہوتا ہے کہ جادہ وقت میں یہ دن کوئی اہم سنگ میل ہے، یہ دن ویسا ہی ہے جیسے جیل خانے کے باقی دن ہیں جن سے صرف اتنا اندازہ ہوتا ہے کہ پیمانہ عمر میں بے رونقی کی مہ ایک درجہ اور نیچے اتر آئی ہے۔ جب ساے ڈھلنے لگیں گے تو شائد یہ تاثر بدل جاے اور اس دن کی کچھ اسطرح شناخت ہو سکے کہ یہ آخری درد کے آخری سال کا آخری دن ہے۔ آخری درد اس لئے کہ ہر خوشی کی طرح ہر درد بھی اپنی جگہ آخری ہوتا ہے جو گذر جائے تو پھر پلٹ کر نہیں آتا، پھر یہ درد صرف یاد میں واپس آسکتا ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر درد کی یاد سے کچھ محسوس ہو، جیسے یہ ضروری نہیں کہ جو بھی خوشی یاد کی جائے اس سے راحت پہنچے۔

آج اک حرف کو پھر ڈھونڈتا پھرتا ہے خیال
مد بھرا حرف کوئی، زھر بھرا حرف کوئی
دلنشیں حرف کوئی، قہر بھرا حرف کوئی

حرف نفرت کوئی، شمشیر غضب ہو جیسے
تاابد شہر ستم جس سے تباہ ہوجائیں۔
اتنا تاریک کہ شمشان کی شب ہو جیسے

لب پہ لاؤں تو مرے ہونٹ سیاہ جائیں۔

آج ہر سُر سے ہر اک راگ کا ناتا ٹوٹا
ڈھونڈتی پھرتی ہے مطرب کو پھر اُس کی آواز
جوششِ درد سے مجنوں کے گریباں کی طرح
چاک در چاک ہُوا آج ہر اک پردۂ ساز
آج ہر موجِ ہوا سے ہے سوالی خلقت
لا کوئی نغمہ، کوئی صَوت، تری عمر دراز
نوحۂ غم ہی سہی، شورِ شہادت ہی سہی
صورِ محشر ہی سہی، بانگِ قیامت ہی سہی

فیض احمد فیض

Share

December 30, 2011

وہ دن ہوا ہوئے

Filed under: ادبیات,عمومیات,مشاہدات — ابو عزام @ 12:17 pm

کرٹکل تھنکنگ بڑی بری بلا ہے کہ زندگی سے افسانویت اور واقعہ سے نقش خیال چھین لیتی ہے۔ اب حکایاتوں و کہانیوں سے مزا اٹھ سا گیا ہے کہ اگر منہ سے آگ اگلتے اژدھوں، بولتے مرغوں یا ڈاکٹر کی ممکنہ ندامت کے خوف سے غلط داڑھ نکلوا لینے والے نوابین کے حسن سلوک کے قصے سنتے ہیں تو فورا لیفٹ برین چلا اٹھتا ہے کہ لو جی یہ بھی بھلا کوئ بات ہوئ؟ جوے شیر کیا، سلوک کیا، منصور کی سولی کیا۔۔۔یہ استدلالی و عقلی و منطقی و پر مغز سوچ تجرید کا گلا کچھ اس طرح گھونٹنے لگتی ہے کہ تخلیقی فکر کا دم گھٹتا ہے۔

یادش بخیر کیا دن تھے کہ تجسس و تخیل کی اڑانیں غیر مقید ہوا کرتی تھیں۔ جب استفسار سے پہلے جواب معلوم ہونا تو درکنار، معلوم کی سرحد کی موجودگی ہی بے معنی تھی۔ جب منطق و استدلال نے گمان کے پر نا کترے تھے۔ جب اشیا میں نیا پن تھا اور چھنگلی کے کھودنے سے بونے نکل آیا کرتے تھے، جب ہر سفر، ہر عمارت، ہر پہاڑ اور ہر قریہ جدید و بے نظیر و تازہ دکھائ دیتا تھا، مماثل نہیں کہ بین دیر ڈن دیٹ کی مانند ہو۔

 اب تو بس سائنس، ترقی، ہایڈرالکس کے قوانین، حر حرکیات کے قوانین، اس کا نظریہ، اس کا قانون باقی رہ گئے ہیں۔۔۔ اس دنیا میں اب عمروعیار کی زنبیل کی کوئ جگہ نہیں، کسی کو عثمان جاہ کے انناسوں کے مرتبانوں سے، افراسیاب سے، صرصر سے، انکا و اقابلا سے کوئ التفات و تلمذ نہیں، ہاں بازرگانی ہے، سرقہ ہے، اور تجارت ہے کہ باقی سب تو لڑکپن کے کھیل ٹھرے، اذہان رشد و پختہ تو فقط استدلال سے کلام رکھتے ہیں۔

Share

December 19, 2011

تارکین وطن کے نام

Filed under: پاکستان,شاعری,مشاہدات — ابو عزام @ 7:25 pm

ہم سے اس دیس کا تم نام ونشاں پوچھتے ہو
جس کی تاریخ نہ جغرافیہ اب یاد آئے
اور یاد آئے تو محبوبِ گزشتہ کی طرح
روبرو آنے سے جی گھبرائے
ہاں مگر جیسے کوئی
ایسے محبوب یا محبوبہ کا دل رکھنے کو
آنکلتا ہے کبھی رات بتانے کے لئے
ہم اب اس عمر کو آ پہنچے ہیں جب ہم بھی یونہی
دل سے مل آتے ہیں بس رسم نبھانے کے لئے
دل کی کیا پوچھتے ہو
سوچنے دو

فیض احمد فیض

Share

December 18, 2011

انسٹنٹ سٹی از اسٹیو انسکی کا مختصر تعارف

Filed under: ادبیات,پاکستان — ابو عزام @ 11:55 am

این پی آر، پبلک ریڈیو اور بیرونی میڈیا کے سامعین کے لئے اسٹیو انسکی کا نام نیا نہیں۔ مارننگ شو جو امریکہ میں‌ سب سے زیادہ سننے والا خبروں‌ کا پروگرام ہے، اسکے کو ہوسٹ ہونے کے ساتھ ساتھ اسٹیو این پی آر کے مستقل معاون بھی ہیں۔ اسٹیو کی صحافتی زمہ داریوں میں‌افغانستان کی جنگ کی کوریج کے علاوہ پاکستان اور عراق کے اہم واقعات کی خبروں کو پیش کرنا شامل ہے۔ انہیں ‘افریقی تیل کی قیمت’ کے نام سے نایجیریا میں ہونے والے فسادات کے بارے میں ایک سیریز کرنے پر رابرٹ ایف کینیڈی ایوارڈ بھی دیا جاچکا ہے۔

انسٹنٹ سٹی یا فوری شہر نامی یہ تقریبا تین سو صفحات کی کتاب پینگوئن پبلشرز نے شائع کی ہے۔ کراچی کے بارے میں اسٹیو انسکی کی یہ تصنیف کسی لاعلم فرد کا ڈرائنگ روم سے لکھا گیا مکالمہ نہیں۔ مثل مشہور ہے کہ اکثر بہت قریب ہونے کی وجہ سے ہم وہ چیزیں نہیں دیکھ پاتےجس کو بیرونی رائے سے اجاگر کیا جا سکتا ہے۔تقریبا تیس صفحات پر ذرائع اور نوٹس کی شکل میں کتاب کے تمام مواد کے بارے میں تحقیقی معلومات اکھٹی کر دی گئی ہیں جن سے کتاب کی صداقت کو جانچا جا سکتا ہے۔ اس کتاب میں انسکی نے ایک تحقیقاتی صحافی کی طرح اپنے قلم کو زمینی حقائق سے قریب رکھتے ہوئے حالات و واقعات کے تانے بانے کچھ اس طرح سے بنے ہیں کہ یہ ایک بیزار کردینے والے مقالے کے بجائے ایک دلچسپ پیج ٹرنر وجود میں آگئی ہے۔

انسکی نے اس کتاب کو چار حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ جناح روڈ، مقامات، نیو کراچی اور تجدید کراچی جو کتاب کے مضمون و ترکیب کو بہت اچھے طریقے سے بیان کرتے ہیں۔ انسٹنٹ سٹی کل پندرہ ابواب پر مشتمل ہے جو پاکستان بننے سےلے کر آج کے کراچی تک کے مختلف ادوار کا احاطہ کرتے ہیں۔ اس کتاب کو اینکڈوٹس کا ایک خوبصورت مجموعہ کہا جائے تو کچھ غلط نا ہوگا۔ تاریخ کے بیان کے باوجود یہ تاریخ کی کتاب نہیں، معاشی ناہمواریوں، فسادات و خونریزیوں کی داستانوں کے باوجود یہ سماجی تفسیر ہونے کا دعوی نہیں کرتی۔ اس کتاب میں ایدھی بھی ہیں اور ایوب خان بھی، شیعہ زائر محمد رضا زیدی بھی ہیں اور اردشیر کاوس جی بھی، سوات کا افریدی بھی اور مصطفی کمال بھی، جلتی ہوئی بولٹن مارکٹ بھی اور ستر کلفٹن بھی، لینڈ مافیا کے قصے بھی ۔ غرضیکہ کہ گٹر باغیچہ سے ڈریم ورلڈ کے درمیان بستے کراچی کی طرح یہ کتاب بھی بڑی مختلف النوع اور کوسموپولیٹن ہے۔

اس کتاب کا مرکزی خیال کراچی کے مسائل پر تحقیق اور اس کی دیرینہ وجوہات کی تلاش ہے۔ انسکی نےان مسائل کی بنیادی وجوہات کو مختلف نظریات سے جوڑنے کی کوشش کی ہے اور پڑھنے سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے وہ ہر مسئلے کو تہ دل سے بنیادی مسئلہ سمجھتے رہے ہیں۔ انہیں بانی پاکستان سے شکایت ہے کہ انہوں نے دو قومی نظریے پر بننے والے ملک میں اقلیتوں کےلئے حقوق کا ایک واضع فریم ورک نہیں دیا جس کی وجہ سے کراچی جس میں آزادی کے وقت اقلیتوں کے تعداد اکیاون فیصد سے زیادہ تھی، آج ان کی املاک اور آبادی ایک مارجنالائز طبقہ بن کر رہ گئی ہے۔ انہیں ایوب خان سے شکایت ہے، کراچی کی بلا منصوبہ بندی بڑھنے سے شکایت ہے اور سب سے بڑھ کر عوام سے شکایت ہے کہ وہ وسیع ترین عوامی مفاد پر انفرادی مفادات کو کیوں ترجیح دیتے ہیں۔ لیکن کراچی کے لوگوں میں ریزییلینس یا لچک و استحکام کو موضوع بحث رکھتے ہوئے اسٹیو ان مسائل و شکائتوں کو اس طرح الفاظ کے جامے میں‌‌ ڈھالتے ہیں کہ سرنگ کے دوسرے سرے پر روشنی صاف دکھائی دیتی ہے۔

اس کتاب کے کلف نوٹس یا خلاصہ نہایت مشکل امر ہے، آپ مصنف کی باتوں سے اختلاف کریں یا اتفاق، اسکی تحقیقی جانفشانی کی داد ضرور دیں گے۔ میں نے یہ کتاب لبرٹی پر دیکھی تھی، اگر موقع ملے تو ضرور پڑھئے اور اپنی رائے سے آگاہ کریں۔

Share

December 16, 2011

!دوروست ترک

Filed under: سفر وسیلہ ظفر,عمومیات,مشاہدات — ابو عزام @ 9:41 pm

یہ واقعہ ہمارے ساتھ تقریبا ایک ماہ پہلے استنبول میں پیش آیا، جب سے ہم دوستوں کو سنا کر انہیں‌ بور کر رہے ہیں، اب آپ قارئین کی دلچسپی کے لئے بلاگ کی نظر کرتے ہیں۔

سلطان احمد کا‌ ضلع استنبول کے انتالیس اضلاع میں سے ایک ہے۔ مشہور زمانہ نیلی مسجد جامع سلطان احمد، کلیسہ آیاصوفیہ اور توپ کاپی کا عجائب گھراسی ضلع کا حصہ ہیں۔ ہمارے ترک دوستوں نے مشورہ دیا تھا کہ اپنے قیام کے دوران رہائش سلطان احمد میں رکھنا تاکہ سفر میں‌وقت ضائع نا ہو، یہ مشورہ بڑا کارآمد ثابت ہوا اور ہم نے چار روز میں سلطان احمد کی بڑی خاک چھانی۔

اس سفر کا تذکرہ تو کبھی اور سہی، اہم بات یہاں یہ تھی کہ ہم جس اپارٹمنٹ میں بمعہ اہل و عیال ٹھرے، وہ کوچک یعنی چھوٹی آیاصوفیہ نامی مسجد کے بلکل برابر میں‌ تھا۔ ایرولواپارٹمنٹ کمپلکس کے نگہبان روحان اور اس کے ایک ساتھی نے بڑی گرمجوشی سے ہمارا استقبال کیا اور ہمیں ہمارے اپارٹمنٹ کی چابی تھما دی اور ہمارے اصرار کے باوجود سامان گاڑی سے اتار کر اندر پہنچایا۔ روایتی ترکی گرمجوشی، مہمان نوازی اور بچوں سے ترکوں کے خصوصی لگاو کا مشاہدہ ہم نے پورے سفر کے دوران کیا۔ اس حسن سلوک سے ہم سب خاصے متاثر ہوئے۔

 

خیر، جب جانے کا وقت قریب آیا اور ہم نے اپنے الیکٹرانک گیجٹ سمیٹنا شروع کئے تواہلیہ کو تحفتا دیا ہوا آی پاڈ ٹچ، جو اس وقت ہمارے استعمال میں‌ تھا، شومئی قسمت سے اپارٹمنٹ میں‌ رہ گیا۔ یہ عقدہ کراچی پہنچ کر کھلا کہ ہم آئی پاڈ وہیں بھول آئے ہیں۔ اس ڈوائس کی قیمت اس اپارٹمنٹ میں ہمارے چار روزہ قیام کے کرائے سے زیادہ تھی اور ہمیں یقین واثق تھا کہ کہ جس نے بھی آئ پاڈ کو پڑا پایا، وہ کسی صورت اسے واپس نہیں کرئے گا۔ صلواتیں سننے کے لئے تیار ہم نے اس ڈوائس کے نقصان پر اناللہ پڑھی ہی تھی کی ایک ای میل وصول ہوئی۔

آپ اپنا فون اپارٹمنٹ میں‌بھول گئے ہیں، آکر لے جائیں، آپکی امانت ہمارے یہاں محفوظ ہے۔ روحان از ایرولو اپارٹ

اس پر آشوب دور میں ایمانداری کے اس نادر مظاہرے پر بڑی دلی مسرت ہوئی ۔ ہم نے انہیں‌ جواب دیا کہ انشاللہ ہم ایک ماہ بعد آ کر اپنی امانت لے جائیں گے۔ تقریبا ایک ماہ بعد جب ہمارا دوبارہ استنبول جانا ہوا تو ہم نے صبح سویرے اپارٹمنٹ کا چکر لگایا اور روحان کے ساتھی نے فورا ہی ہمیں‌ ہمارا آئی پوڈ لا دیا۔ اس کی فارمیٹنگ اور ڈیفالٹ زبان کو مشرف با ترکی کرنے کے علاوہ اور کوئی خاص تبدیلی نہ تھی۔  ہم نے اپنے میزبان کا تہ دل سے شکریہ ادا کیا اور اپنی راہ لی۔

جب آپ نیلی مسجد سے نکلنے لگتے ہیں تو باہر جانے کے دروازے پر یہ بڑا طغرہ نظر آتا ہے۔ ترکوں کے قول و عمل میں اس کا بڑا ہاتھ دکھائی دیا۔ الکاسب حبیب اللہ۔


Share
« Newer PostsOlder Posts »

Powered by WordPress