فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

August 28, 2011

اینکڈوٹل ایوڈنس، مغالطه منطقی اور سنیتا ولیمز

Filed under: خبریں,مذہب,مشاہدات — ابو عزام @ 6:54 am

حکایتی دلیل یا ‘اینکڈوٹل ایوڈنس’ خصوصی طور پر چنے گئے کسی ایسے واقعے کو کہا جاتا ہے جو کہ ایک نوع عمومی کے رجحان کی صفت کو صحیح طور پر بیان نہیں کرتا۔ اسے بسا اوقات کج بحثی میں دلیل کی مضبوطی کے ثبوت کے لئے خصوصی طور پر چنا جاتا ہے لیکن مزید تحقیق پر یہ منطقی مغالطے کی صورت میں سامنے آکر آپکا منہ چڑانے لگتا ہے۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ اینکڈوٹل ایوڈنس خود تو درست ہو سکتی ہے لیکن اسکا عمومی نوعیت پر کیا جانے والا استدلال درست نہیں ہوتا۔

منطق کی اصطلاح میں‌ ‘فیلیسی’ یا مغالطہ منطقی بھی اسی کے قریب قریب کی چیز ہے۔ مثلا اگر میں تمباکو نوشی کے دفاع میں‌ کہوں کہ میرے ایک عزیز زندگی بھر چمنی کی طرح سگریٹ پیتےرہے لیکن انکی موت 99 سال کی عمر میں‌ایک حادثہ میں ہوئی تو یہ اینکڈوٹل ایوڈنس ہوگی کیونکہ اس کا سیمپل سائز ، اس کی نوع ‘کلاس’ کا ممثل نہیں۔ اسی کو آوٹلائر بھی کہا جاتا ہے۔ فیلیسی تھوڑی سی مختلف ہے کہ جس میں استدلال کی زنجیر میں مغالطہ موجود ہوتا ہے مثلا چونکہ انسان ممالیہ ہے اور وہیل مچھلی بھی ممالیہ ہے لحاظہ انسان وہیل مچھلی ہے۔

آج صبح کی نماز میں ہمارے امام صاحب نے خلاباز سنیتا ولیمز کے مسلمان ہونے کے بارے میں بتایا اور کہا کہ چونکہ اس نے حرمین کو خلا سے دیکھا اور اس کی روشنی سے وہ اسقدر متاثر ہوئی کہ اس نے ایمان قبول کرلیا۔ یہ بات نا اینکڈوٹل ایوڈنس ہے اور نا ہی فیلیسی، یہ سراسر غلط اطلاع ہے۔ امام صاحب تو خاصے سلجھے ہوئے پڑھے لکھے آدمی ہیں تو ان کو تو یہ بات نہائت آسانی سے سمجھائی جا سکتی ہے لیکن پریشانی کی بات یہ ہے کہ میں نے ایسا پہلی مرتبہ نہیں دیکھا، ہمارے ذرائع ابلاغ سے لے کر عام لوگوں تک اس بات کو کوئی فلٹر موجود نہیں کہ کسی خبر کی تصدیق بھی کی جائے۔ انکی نیت خواہ کتنی ہی اچھی ہو، ان اینکڈوٹل ایوڈنسز، فیلیسیز اور کرامات کے بیان سے اسلام کا کچھ بھلا نہیں ہوتا، ہم صرف اپنی لاعلمی کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہوتے ہیں۔ ہم نا آحایث میں احتیاط کرتے ہیں اور نا ہی عام مکالموں میں، اسلام کی بڑائی اس بات میں‌ نہیں کہ ہم کتنی جھوٹی روایات اور کرامات کا تذکرہ کرتے ہیں یا کتنی  اینکڈوٹل ایوڈنسز کو منصوص من اللہ قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں۔فارورڈڈ ای میلز میں غیر تصیق شدہ فضولیات کا انبار لگا ہوتا ہے۔ دعوت کا کام کرنے والوں کو خصوصا ایسی چیزوں سے سے خبردار رہنا چاہئےکہ نادان دوست سے دانا دشمن بہتر ہوتا ہے۔

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( كفى بالمرء كذبا أن يحدث بكل ما سمع ) رواه مسلم في المقدمة 6 صحيح الجامع 4482
’آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات بیان کرے ۔‘‘(مسلم)

رچرڈ فائنمن وہ ماہر طبعیات تھے کہ جنہیں‌ میں البرٹ آئنسٹائین سے بڑا سائنسدان مانتا ہوں۔ ان کا استدلال بڑا خوبصورت ہوا کرتا تھا اور ان کی کتاب ‘یقینا آپ مذاق کر رہے ہیں جناب فاینمین’ ایک نہایت اچھی کتاب ہے۔ ایک مرتبہ انہوں نے کہا جس کا مطلب کچھ یوں ہے کہ ‘اگر سائنس آج کوئی چیز ثابت نہیں کرسکتی تو مجھے اس غیر یقینی کیفیت سے کوئی ڈر نہیں لگتا۔ کچھ لوگ خدا کو اس لئے استعمال کرتے ہیں کہ وہ غیر یقینی چیزوں کو سمجھا سکیں اور اسکا صورتحال کا تدارک کیا جاسکے، میں اس طرز فکر پر یقین نہیں کرتا، یہ غیر یقینی کیفیت مجھے پریشان نہیں کرتی’

یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔ اگر ہم خالصتا توحید اور رسالت کی طرف دعوت دے رہے ہیں تو یہ سچ فی النفسہ کائنات کی سب سے بڑی مجسم حقیقت ہے۔ اس کو واضع کرنے کے لئے کسی چمکیلی شے کو دکھانے، قران کو سائنسی کتاب بنانے، چاند پر اذان دلوانے اور سنیتا ولیمز کو زبردستی مشرف با اسلام کرانے  کی چنداں کوئی حاجت نہیں۔

واللہ اعلم بالصواب و بالتوفیق

Share

August 24, 2011

ایک مختصر مکالمہ

Filed under: مذہب — ابو عزام @ 8:00 pm

وہ: مملکت خداداد کے حالات اس قدر دگرگوں ہیں کہ کیا بتائیں۔ کرپشن، لوٹ مار، بےامنی، قتل و غارت گری، انسانی جان ارزاں ہے، آپ کچھ حل تجویز کریں۔

میں: حکومت الٰہیہ کا قیام۔ اللہ کو حاکمِ حقیقی مان کر پوری انفرادی و اجتماعی زندگی اس کی محکومیت میں بسر کرنے کا اجتماعی عزم۔  زندگی کانظام جوآج باطل پرستوں اور فساق و فجار کی رہنمائی اور قیادت و فرمانروائی میں چل رہاہے اور معاملات دنیا کے نظام کی زمام کار جو خدا کے باغیوں کے ہاتھ میں آگئی ہے، اسے بدلا جائے اور رہنمائی و امامت نظری و عملی دونوں حیثیتوں سے مومنین وصالحین کے ہاتھ میں ہو۔

وہ: ابے ہٹ، ملا کہیں کا!

Share

August 22, 2011

کمپیوٹر سائنس – این پی مسائل کیا ہیں؟

Filed under: تحقیق — ابو عزام @ 10:14 pm

پی اور این پی بتانے سے پہلے پہلے ایک چھوٹی سی تمہید باندھتے ہیں۔آپ نے وہ کہانی تو ضرور سنی ہوگی کہ ایک بادشاہ نے ایک درباری سے خوش ہوکر کہا مانگ کیا مانگتا ہے۔ وہ درباری بادشاہ کی شومئی قسمت سے ریاضی دان تھا جس نےمسکراتے ہوئے فرمائش کی کہ شطرنج کے پہلے خانے میں ایک اشرفی رکھی جائے پھر دوسرے میں دو  پھر دوسرے خانے میں موجود تعداد کو اسی تعداد سے ضرب دیا جائے ( یعنی ۲ ضرب ۲ =4) اور جواب تعداد ( 4) کو تیسرے خانے میں رکھا جائے پھر چوتھے خانے میں بھی یہی عمل دہرایا جائے ( یعنی ۴ضرب ۴ =16 ) اس حاصل ضرب تعداد کے برابر اشرفیوں کوچوتھے خانے میں رکھا جائےاسی طرح یہ عمل ہر خانے میں دہراتے ہوئے کل چونسٹھ خانے میں اشرفیاں رکھی جائيں اور وہ تمام اشرفیاں مجھے انعام میں دے دیا جائے۔
پہلے تو بادشاہ اس عجیب فرمائشی انعام پر ہنسا کہ اتنی سی مقدار میں خزانہ مانگ رہا ہے تو اس نے اپنے خزانچی کو حکم دیا کہ جس حساب سے یہ اشرفیاں مانگ رہا ہے اسے دے دیا جائے۔ خزانچی حساب لگانے اور اشرفیاں دینے کے لئے گیا مگر پھر واپس دوڑا ہوا آیا اور ڈرتے ڈرتے بتایا کہ اسی طریقے سے جو اشرفیوں کی مقدار بنتی ہے وہ تو ہمارے خزانےیا سلطنت میں تو دور کی بات پوری دنیا میں شائد اتنا سونا نا ہو کے اتنی اشرفیاں بنائی جا سکیں۔

اسے کامبنیٹرل ایکپلوژن کہا جاتا ہے اور یہ بولین سیٹسفایبلٹی پرابلم کی اساس ہے۔ پی اور این پی مسائل کا مطالعہ ایک نہائت مزیدار مضمون اور پی بمقابل این پی کمپیوٹر سائنیس کاایک نہایت دقیق غیر حل شدہ مسئلہ ہے جس کے حل پر ایک ملین ڈالر کا انعام رکھا گیا ہے۔ اس کو ایک اور کامبینیٹرل ایکپلوژن مثال سے اس طرح بتایا جاسکتا ہے کہ آپ جامعہ کراچی میں انڈر گریجویٹ طالب علموں کے سربراہ  ہیں اور آپ نے 1،000 طالب علموں کو  10 ڈپارٹمنٹوں یا شعبہ جات میں‌ داخلہ دینا ہے۔ ہر طالب علم ایک فہرست پیش کرتا ہے کہ وہ کن دیگر طالبعلموں کے ساتھ پڑھنا پسند یا ناپسند کرتا ہے۔ اس سادے سے مسئلے میں کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کے طالب علموں کی ترجیحات کو مطمئن کر سکتے ہیں اور کیا  کمپیوٹنگ کا استعمال کرتے ہوئے اس مسئلے کو  حل کیا جا سکتا ہے؟

عام سا لگنے والا یہ مسئلہ اتنا آسان نہیں۔  طالب علموں کے ممکنہ کامبینیشیز کی تعداد ایک نہایت ہی بڑا عدد بن جاتی ہے۔ یہ عدد ہے ایک کے بعد ایک ہزار صفر! یہ تعداد شاید کائنات میں بنیادی ذرات کی تعداد سے بھی ذیادہ ہے اس طرح اندازہ لگایئے کہ اگر ہم ایک ٹرلین کامبنیشنز یا تفاویض کوایک سیکنڈ میں چیک کرتے ہیں پھر بھی تمام اسائنمنٹس دیکھنے میں ٹریلین ، ٹریلین،  ٹریلین  سال لگ جائیں گے۔ اس طرح کی تلاش کو  جامع تلاش کہا جاتا ہے اور یہ کمپیوٹیشنلی بہت مہنگا پڑتا ہے!

 کسی بھی کمپیوٹر الگارتھم کی ایک اہم خصوصیت اس کی کمپلیکسٹی یا پیچیدگی کا پیمانا ہوتا ہے۔ اس پیمانے کو لینیر یا خطی، کواڈریٹک، لاگ، پولینومیل یا متعدد الحدود اور ایکسپونینشیل یا قوت نما کے پیمانوں سے ناپا جاتا ہے۔اس زمن میں اس بات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہوتا ہے کہ یہ الگارتھم جگہ اور وقت دونوں کے لئے بہتر طریقے سے اصلاح شدہ ہو۔  یعنی کوئی الگارتھم زیادہ میموری استعمال کر کر جلدی جواب لا دے تو اسکا استعمال چھوٹے ڈوایسز میں جن میں‌ میموری کی کمی ہوتی ہے آسانی سے نہیں ہوسکتا۔ یہی حال پراسسنگ پاور کا ہے کہ اگر ایک الگارتھم کم جگہ لیتا ہو لیکن جواب لانے کے لئے ٹیرا فلاپس میں ہدایات کو چلانا مقصود ہو تو اسکا استعمال بھی محدود ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر کسی پرائم نمبر کے حل کی تصدیق تو نہایت آسان کام ہے لیکن اسے ڈھونڈنے کے لئے اس کو لاکھوں کروڑوں اعداد سے تقسیم کرنا ایک بروٹ فورس مرحلہ ہے جو ہر بڑھنے والے پرائم کے ساتھ مشکل ہوتا چلا جاتا ہے۔

پی مسائل ایسےہوتے ہیں جن کا پولینومیل ٹائم میں جواب ڈھونڈا جاسکتا ہے اور اس جواب کی تصدیق کی جاسکتی ہے۔ پولینومیل ٹایم سے عام الفاظ میں مراد اتنا وقت ہے جس کا اوپری باونڈ پولینومیل کلئے سے ظاہر کیا جا سکتا ہو۔  این پی یا ‘نان ڈٹرمنسٹک پولینومیل ٹایم’ مسئلے سے مراد ایسا مسئلہ  ہے جو کہ حل ہونے میں بہت وقت لیتا ہو اور اس کے حل کی تصدیق پولینومیل وقت میں ہوسکتی ہو۔ حل کی تصدیق درحقیقت یہاں تعریف کی اصل حقیقت ہے۔ این پی مسائل ناممکن نہیں ہوتے، صرف بہت مشکل ہوتے ہیں۔ ان کی فہرست یہاں دیکھی جا سکتی ہے۔

اکثر محققین کی حس مزاح کو گدگدانے والا  ملین ڈالر کا سوال یہ ہے کہ کیا پی اور این پی برابر ہیں-یعنی کہ اگر کس مسئلے کی پولینومیل وقت میں تصدیق کی جاسکتی ہے تو کیا مستقبل میں انسانی علم اس قابل ہوسکتا ہے کہ اس مسئلے کو پولینومیل وقت میں حل بھی کیا جاسکے۔ اگر ہاں‌ تو اسکا حسابی ثبوت کیا ہے؟ یہ مسئلہ ساینسی اذہان کو پواینکیر کنچیکچر اور فرماٹ کے آخری تھیورم کے بعد سب سے ذیادہ مصروف رکھنے والا معمہ ہے۔ محققین کی ایک چھوٹی سی راے شماری کے مطابق ایک بڑی تعداد سمجھتی ہے کہ پی اور این پی برابر نہیں۔ میرا خیال اسکے برعکس ہے لیکن ڈانلڈ نتھ کی طرح میری راے بھی اقلیتی ہے۔ 🙂

Share

August 21, 2011

اسٹار بخش اور بابو صاحب

Filed under: خبریں,مشاہدات — ابو عزام @ 5:04 am

چینی بلاگستان میں آجکل دھوم مچی ہے اس تصویر کی جس میں ایک شخص کو کافی کی دکان پر اپنا ‘بیک پیک’ بستہ پہنے، آرڈر دیتے دکھائی دیا جاسکتا ہے۔

یہ ایک عام سا منظر ہے لیکن یہ شخص کوئی عام آدمی نہیں۔ سیاٹل ٹکوما ایرپورٹ پر کھینچی گئی یہ تصویر چین کے لئے امریکہ کےسفیر گیری لاک کی ہے جو ریاست واشنگٹن کے سابق گورنر بھی رہ چکے ہیں۔ ہماری طرح چینیوں کو بھی بڑی حیرت ہے کہ سابق گورنر اور سفیر صاحب نے اپنا سامان خود کیوں اٹھایا ہوا ہے اور بابو صاحب کے ملازموں کی فوج ظفر موج کہاں ہے جو کہ صاحب کے ایک اشارے پر دوڑی چلی جائے اور چاے، کافی و لوازمات لے کر آے۔ چینی بلاگروں اور میڈیا نے افسر شاہی کو لاک صاحب سے سبق سیکھنے کا کہا لیکن صاحبوں نے نا صرف اسے ‘کلچرل تھنگ’ کہ کر نظر انداز کرنے کا عندیہ دیا بلکہ اسے امریکہ کی ممکنہ غربت پر بھی محمول کیا ہے ۔ نیز یہ کہ ایک بلین کی آبادی میں سب اپنے کام کرنے لگے تو ‘چھوٹوں’ کی نوکری کا کیا ہوگا، آپ تو کلاس وار فیر شروع کرنے لگ گئے، کمیونسٹ کہیں کے۔

اب اس کار با دست پر متوازیات کی باری آے تو اسلاف سے بیسیوں مثالیں دے ڈالوں لیکن شائد یہی مسئلہ ہے، تاریخ سے مثالیں اور نوسٹیلجیا۔

Share

August 10, 2011

اندھا اعتقاد

Filed under: عمومیات,مذہب — ابو عزام @ 6:55 am

گذشتہ شب صلوۃ القیام سے قبل ہماری مسجد میں والڑ سانچیز نےشہادت حق ادا کی۔ برادر والٹر نے ایمان کی اس حلاوت کو محسوس کیا جس کو ایک دہریہ اور نیچری نوعی اختلال خلقی پر منظبق کرتا , ہاے کمبخت تو نے پی ہی نہیں.

تمام مسلمانوں کی طرح میرا اپنے رب کی ربوبیت اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر یقین شعوری ہے، میں نے اپنے رب کو اس کی نشانیوں سےحق الیقین کے درجے میں پہچانا۔

لیکن اس ایمان کو کوئی موجودہ سائینسی آلہ نہیں ناپ سکتا، ان نشانیوں کی کوئی مقداری پیمایش یا کوانٹیٹیٹو میشر نہیں، وجود خداوندی کو کسی تھیورم سے پروف نہیں کیا جا سکتا، غیب پر ایمان کی حقانیت کا ثبوت کسی لیب میں ری پروڈیوس نہیں ہو سکا لیکن اس سے میرے اور کروڑوں مسلمانوں کے ایمان و ایقان میں بال برابر فرق نہیں آتا۔

اندھا اعتقاد ایک ثقیل اور ناپسندیدہ سی اصطلاح ہے لیکن اس کا کیا کہیں کہ ارتقا اور آدم کی عدم مصالحت کے باوجود خدا واحد پر ہمارے اس یقین کاملہ پر کوئی چوٹ نہیں پڑتی- فتنہ خلق القران ہو کہ صفت کے قدیم ہونے کا مسئلہ، محکمات اور متشابہات کی بحث ہو، حیات بعد الموت ہو کہ قطار اندر قطار ملائکہ کی آمد، ،سبع سماوات کا ذکر ہو یا اسرٰی کا سفر، یہ یقین اسی طرح واثق ہے جیسے آنکھ نے دیکھا ہو اور کانوں نے سنا ہو۔

اس ایمان کو کسی منطقی استدلال کی ضرورت نہیں، کسی ساینسی ثبوت کی حاجت نہیں، اس کو کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا ڈر نہیں، مذہب کو افیون قرار دینے والے اور خدا کی موت کا اعلان کرنے والے انٹیلیکچوالز کا خوف نہیں،  یہ سمعنا و اطعانا پر قائم ہے، رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور آپ کے صادق و امین ہونے پر گواہ ہے، یہ ایمان توجیحات نہیں مانگتا، یہ یقین جانتا ہے کہ اگر الوہیت لیبارٹری میں ثابت ہو سکتی تو غیب کا پردہ نا رہتا، یہ ایمان حق کا گواہ ہے، یہ اندھا اعتقاد تمام بینائوں کی بنا ہے۔

لَآ اِلٰہَ اِلَّا وَحدَہُ لَا شَرِیکَ لَہُ المُلکُ وَلَہُ الحَمدُ وَ ھُوَ عَلٰی کُلِّ شَی ئِ قَدِیرُ

Share

July 29, 2011

مظلومیت سنڈروم

Filed under: عمومیات — ابو عزام @ 10:29 pm

برا ہو نگوڑے نورڈک آنڈرس کا کہ اس نے مجروحیت کے اس چراغ باصفا کی لو کو پھر سے بھڑکا دیا جسے امتداد زمانہ نے کچھ دیر سے ٹھنڈا کر رکھا تھا۔ اک ثقہ وکٹمالجی طبیب مظلومیت کے اس سنڈروم کی علامات بتاتا ہے کہ جب ہر محراب و منبر سے ایک ہی صداغم و الم بلند ہوتی رہے اور آخبارات و رسائل و جرائد، موقر و غیر موقر اسی پر نوحہ کناں ہوں کہ ہم تو اخیر مظلوم ہیں تو سمجھئے کہ مرض جوبن پر ہے۔ جس طرف نگاہ اٹھاو وہیں دیدہ تر سے صدا آتی ہے کہ مسلمانان تحت ستم بودن، چه کاری انجام دهید؟

ہمارا ماننا ہے کہ نشاط ثانیہ میں اگر کوئی چیز سب سے بڑی رکاوٹ ہے تو ہو ہے یہ مظلومیت سنڈروم یا پھر دوسرا اسٹالکہوم سنڈروم کہ اے اسیرانِ قفس منہ میں زباں ہے کہ نہیں۔

جیسا کہ کفیل بھائی لیفٹ آرم میڈیم فاسٹ بالر کے نیچے لکھا ہوتا ہے، تپڑ ہے تو پاس کرو، ورنہ برداشت کرو، آپ حاسدین کچھ بھی کہیں مگر حقیقت ہے کہ مظلومیت سنڈروم برداشت کا انتہائی درس دیتا ہے، روتے جاو گاتے جاو۔ جب دنیا بھر کے بوگی مین آپ کے پیچھے عفریت کی طرح لگے ہوں تو تبدیلی و انقلاب، اصلاح معاشرہ، ایمان و ایقان، تزکیہ نفس، حسن اخلاق، عدل و انصاف، دعوت دین جیسے خالی خولی الفاظ سے پیٹ تھوڑا ہی بھرتا ہے؟

اے ناصح کیا بکتا ہے، ظالموں مارتے ہو اور رونے بھی نہیں دیتے؟

Share

March 9, 2011

کیفے سرائیو – ایک بوسنیائی مطعم

Filed under: سفر وسیلہ ظفر — ابو عزام @ 12:03 pm

Serajivo Cafe

گزشتہ ہفتے بیابان سونوران میں صحرا نوردی کرتے جب ہم ریاست ایریزونا میں داخل ہوئے تو پیٹ میں چوہوں کی میراتھون شروع ہو چکی تھی۔ راشد بھائی کی برق رفتار ڈرایونگ کی بدولت ہم تنہا ستارے کی ریاست ٹیکساس سے سنہری ریاست کیلیفورنیا کا سفر درست وقت میں طے کر رہے تھے لیکن اب بھوک زوروں پر تھی اور غدودانہ معدہ سےاول طعام کی صدائیں بلند ہو رہیں تھیں تو ہم نے کھانا کھانے کی ٹھانی۔ زبیحہ ڈاٹ کام نے قریب میں جو حلال ریسٹورانٹ بتائے ان میں سے ایک بوسنیائی مطبخ ‘سرائیو کیفے‘ کی ریٹنگ خاصی اچھی تھی۔ ہمارا مقولہ ہے کہ زندگی میں ہر حلال کام کم از کم ایک دفعہ ضرور کر کے دیکھنا چاہئے اور چونکہ ہم دونوں نے کبھی بوسنیائی کھانا نہیں کھایا تھا لہذا سوچا کہ آج اس جنوب مشرقی یورپی ملک کے کھانے کو آزمایا جائے۔ راشد بھائی تو ہمیشہ کہتے ہیں کہ یہ جو مولانا حالی نے مقدمہ شعر و شاعری میں کہا تھا کہ ‘۔ انسان کو اگر ہمیشہ طرح بہ طرح کے کھانے میسر نہ آئیں تو وہ تمام عمر ایک ہی کھانے پر قناعت کر سکتا ہے لیکن شعر یا راگ میں تلون اور تنوع نہ ہو اس سے جی اکتا جاتا ہے’، سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے کبھی متنوع کھانے نہیں کھائے اور اسکا انجام درجہ پنچم سے گیارویں جماعت تک ہمیں بھگتنا پڑا ۔

کیفے سرائیو ریاست ایریزونا کے شہر فینکس کے مضافات میں واقع ایک چھوٹا سا ریسٹورانٹ ہے۔ ہم جب اس کے جائے وقوع میں پہنچے تو علاقے کی دگرگوں صورتحال سے کچھ ہچکچاہٹ ہوئی لیکن پھر جی کڑا کر کے سوچا کہ اگر مرنا ہی ٹہرا تو کھا پی کر جان دینا خالی پیٹ گولی کھانے سے بہتر ہے۔ بہر حال، یہاں داخل ہوتے ہی اشتہا انگیز خوشبووں اور بوسنیائی میزبان بیرے نے ہمارا استقبال کیا۔ سنا ہے کہ اس خاندانی مطبخ میں والدہ کھانا پکاتی ہیں اور بیٹا بیرا گیری اور کیشیر کے فرایض انجام دیتا ہے۔ اس بات کی تصدیق تو نا کر پائے لیکن ماحول بلکل ایسا ہی تھا۔ یہاں دیگر بوسنیائی مسلمان بھی موجود تھے۔ ہمارےمیزبان نے سلام دعا کے بعد ہمیں مینیو پکڑا دیا جس کی ہمیں اتنی ہی سمجھ آئی جتنی رحمان ملک کو سورۃ اخلاص کی ہے۔ ہہرحال، زمانہ شناس میزبان بیرے نے ہماری نو آموزی بھانپتے ہوئے احوال پوچھا تو ہم نے جھٹ کہ ڈالا کہ ہم پہلی بار کسی بوسنیائی ریسٹورانٹ میں آئے ہیں لہذا آپ کے رحم و کرم پر ہیں۔ بھوک زوروں پر ہے، اچھا کھانا کھلاو گے تو دعا دینگے۔ راشد بھائی نے البتہ برابر والی میز کا کھانا تاڑتے ہوئے کہا کہ میں تو وہی کھاوں گا ورنہ۔

بوسنیائی دسترخواں یورپی اور میڈیٹرینین کھانوں کا ایک خوبصورت امتزاج معلوم ہوتا ہے۔ آپ کو کروسانٹ جیسی روٹی میں قیمہ بھرا ملے تو اس کے ایجاد کرنے والےکے لئےدل سے بے اختیار دعائیں نکلتی ہیں۔ اس ڈش کو بوریک کہا جاتا ہے۔ شواپی یا بوسنیائی ساسیچ سینڈوچ جو راشد بھائی نے آرڈر کی درحقیقت تین مختلف قسم کے گوشتوں کے امتزاج سے بنے کباب ہوتے ہیں۔یہ سلطنت عثمانیہ کی باقیات میں سے ایک یادگار ہے جس کو بوسنیا کی قومی ڈش کا درجہ حاصل ہے۔ اس نہائت لذیذ ڈش میں بکرے، دنبے اور بچھیا کے گوشت سے بناے گئے کباب کے ساتھ ایک مزیدار چٹنی اور خصوصی روٹی ملتی ہے جس کا ذائقہ اب تک نہیں بھولتا۔ ہم نے بمینجی نامی سوپ بھی منگوایا جو سوپ کم اور سبزی گوشت کا سالن زیادہ تھا۔ اضافی روٹی بھی کروسانٹ سے ملتی جلتی تھی جو زائقے میں اپنی مثال آپ تھی۔

سب کچھ کھا کر اپنے نہائت خوش اخلاق میزبان کو دعائیں دیں اور مسجد کا پتا پوچھا۔ ریاست ائریزونا کے بارئے میں جیسا میڈیا میں سنتے آ تے ہیں اس سے تو لگتا تھا کہ یہاں مساجد کے باہر گرینڈ وزرڈز کا پہرا ہوگا لیکن ریسٹورانٹ سے کچھ ہی دور ایک بڑی مسجد دیکھ کر نہایت خوشی ہوئی۔ واللّٰہ متمّ نورہ ۔ بہرحال، بھاری دل کے ساتھ اپنے میزبان کو خدا حافظ کہا کہ طویل سفر باقی تھا۔

قصہ مختصر کہ اب ہم تو بوسنیائی دسترخوان کے ذائقے کے اسیر ہیں۔ آپکا اگر کبھی ریاست ایریزونا کے شہر فینکس سے گذر ہو تو کیفے سرائوو کو ضرور یاد رکھئے گا۔ راشد بھائی تو کہ چار سو میل کے سفر کے لئے تیار ہیں کہ شواپی اوہو ای اے جیہدے بارے آکھیا جاندا ہے پئی شوق دا کوئی مُل نہیں۔

Share

February 15, 2011

نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم

Filed under: مذہب — ابو عزام @ 9:26 am
کسی غمگسار کی محنتوں کا یہ خوب میں نے صلہ دیا
کہ جو میرے غم میں گھلا کیا اسے میں نے دل سے بھلا دیا
جو جمال روئے حیات تھا، جو دلیل راہ نجات تھا
اسی راہبر کے نقوش پا کو مسافروں نے مٹا دیا
میں تیرے مزار کی جالیوں ہی کی مدحتوں میں مگن رہا
تیرے دشمنوں نے تیرے چمن میں خزاں کا جال بچھا دیا
تیرے حسن خلق کی اک رمق میری زندگی میں نہ مل سکی
میں اسی میں خوش ہوں کہ شہر کے دروبام کو تو سجا دیا
تیرے ثور و بدر کے باب کے میں ورق الٹ کے گزر گیا
مجھے صرف تیری حکایتوں کی روایتوں نے مزا دیا
کبھی اے عنایت کم نظر! تیرے دل میں یہ بھی کسک ہوئی
جو تبسم رخ زیست تھا اسے تیرے غم نے رلا دیا
Share

February 2, 2011

فراعنہ کی سرزمیں اور ٹوئٹر انقلابی

Filed under: خبریں,سیاست — ابو عزام @ 12:23 am

انقلابات ٹوئٹر اور فیس بک سے نہیں آتے۔

انقلابات سوشل میڈیا کی آمد سے بہت پہلے سے آ رہے ہیں اور اس وسيلة الاتصال کے ختم ہونے کے بعد بھی آتے رہیں گے۔اسکا کیٹیلسٹ کبھی صدا بہ صحرا سندھ ہوتی ہے تو کبھی ٹوئٹ۔ انقلابات کا منبع  ظلم اور جبر، ناانصافی اور مطلق العنانی کی  مخالفت سے پھوٹتا ہے جس کی ابتدا معاشرتی اور معاشی مسائل کا حل اور انتہا انسان کو انسان کی غلامی سے نکال کر اپنے رب کی بندگی میں‌ دینا قرار پاتی ہے۔
آج سرزمین یوسف کا انقلاب تسلسل ہے اس اذاں کا جو قطب نے دار پر چڑھ کر اور البنا نے سینے پر گولی کھا کر دی ۔ کردار مختلف سہی لیکن آب جبر و استبداد کے پردے ہٹا دیں اور جمہوری طریقے سے لوگوں کو اپنا حق راےدہی استعمال کرنے کا حق دیں تو تونس سے قاہرہ تک غنوشی و الہلباوی و بدیع ہی ابھرتے ہیں۔ ‘روشن خیال’ اس ‘ہائی جیکنگ’ کا منظر فلسطین و الجزائر میں دیکھ چکے ہیں، اب قاہرہ کی گلیوں میں دیکھیں۔
’ادْخُلُوْا مِصْرَ اِنْ شَآءَ اللّٰہُ اٰمِنِیْنَ‘
Share

January 28, 2011

بارے مستعار لی گئ کتابوں کا بیان – ایک مختصر فکاہیہ

Filed under: ادبیات,طنزومزاح — ابو عزام @ 9:00 pm

ہمارئے جامعہ کے ایک عزیز دوست ہر سوال اسی طرح شروع کیا کرتے تھے مثلا ایک دن پوچھنے لگے، تو کیا کہتے ہیں علمائے دین شرح متین بیچ مستعار لی گئی کتابوں کے مسئلے کے؟

جوابا عرض کی کہ قبلہ، ہمیں ان پاکیزہ ہستیوں کی رائے کا تو چنداں علم نہیں لیکن ہماری ناقص رائے سراسر اس مشہور مقولے پر مبنی ہے جس کے مطابق کتاب دینے والا بے وقوف اور لے کر واپس کرنے والا اس سے بڑا بے وقوف۔ یوسفی نے بھی منٹوانہ لہجے میں اس کی تصدیق کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ‘کتاب خوبصورت بیوی کی طرح ہوتی ہے – دور سے کھڑے کھڑے داد دینے کے لئے، بغل میں دبا کر لے جانے کے لئے نہیں’ لیکن چونکہ آجکل آیکنوکلاسٹ ہونا تہذیب پسندی کی دلیل ٹہری، تو ان مقولہ جات کو بزبان فرنگ نمک کی چٹکی کے ساتھ لیا جائے۔

خیر، بات یہ ہو رہی تھی کہ ہمارئے تمام دوست کتابیں مستعار دینے کے بارئے میں‌بڑے سخی واقع ہوئے ہیں، انہوں نے خود کبھی یہ بات نہیں کہی لیکن چونکہ بزرگ خاموشی کو نیم رضامندی قرار دیتے ہیں، ان ‘ڈیمسلز ان ڈسٹریس’ پر تہمت سخاوت مہجور ہے۔ کچھ حاسد اسے لوگوں کی فطری شرافت سے فائدہ اٹھانا بھی کہتے ہیں لیکن کراچی کے بیلٹ بکس کی طرح گمان غالب ہے کہ یہ تعداد اسٹیٹسٹکلی سگنیفکنٹ نہیں۔ اب برادرم بن یامین کو ہی دیکھیے، ان کے گھر ہم نے اپاچی لوسین کی دو عدد کاپیاں دیکھیں تو جھٹ مواخات کا تقاضہ یاد دلایا، اگلے ہفتے کتاب ڈاک سے وصول پائی۔ مرد اوقیانوسی کی یہی مثال بار بار برادرم راشد کامران کو دئے کر ان سے کتابیں مستعار لیتے ہیں۔ غالب گمان ہے کہ اسی وجہ سے وہ اب برقی کتب کے بڑے مداح ہوتے چلے ہیں۔

موئی برقی کتب، یہ بھی بڑی بلا ہے اور دور جدید کے فتنوں میں سے ایک فتنہ۔ اب کنڈل یا آئی پیڈ پر کوئی بھلا کیسے بتا سکتا ہے کہ بھلا آپ پارک کی بینچ پر بیٹھے ہکل بیری فن پڑھ رہے ہیں یا وصی شاہ کے الفاظ کا ملغوبہ، نسیم حجازی کی تاریخ دانی کے ڈالڈے پر سر دھن رہے ہیں یامیر کے آہو رم خوردہ کی وحشت سامانی پر تحقیق کا حق ادا کر رہے ہیں۔ بھلے زمانوں میں تو کتاب کی ضخامت اور جلد سے آدمی کے کردار اور چال چلن کا اندازہ لگا لیا جاتا تھا کہ حضرت کس قماش کے ہیں۔ میر امن کے مداح ہیں یا رجب علی سرور کی بناوٹی نثر کے اسیر۔نیک بیبیاں ‘پاکیزہ’ چھپا چھپا کر پڑھتی تھیں، اوروں کا کیا کہنا ہم نے خود سب رنگ ہاورڈ اینٹن کی کیلکلس اینڈ انالیٹکل جیومٹری میں چھپا کر پڑھے ہیں شائد اسی وجہ سے انٹیگرل نکالتے ہوئے ہمیں ہمیشہ الیاس سیتا پوری کی یاد آجاتی ہے۔ بہرحال اب اس ‘آئ دور’ میں عوام الناس کو یہ بتانے کے لئے کہ ہم کیا پڑھ رہے ہیں بلاوجہ زور زور سے کہنا پڑتا ہے کہ ‘ ارے میاں شیکسپیر ، تم کس قدر مزاحیہ ہو اتنا نا ہنسایا کرو ، ہا ہا ہا’ ۔

کتابیں چوری کرنا سخت بری بات ہے۔ کتاب کبھی چوری نہیں کرنی چاہئے، ہمیشہ مانگ کر پڑھنی چاہیے۔ کاپی رائٹ کی خلاف ورزی بھی چوری ہی ہے جو بڑی بری بات ہے۔ راشد بھائی تو کاپی رائٹ کے اسقدر کٹر حامی ہیں کہ کبھی کسی بل بورڈ ، رکشے یا بس پر بھی کوئی طویل عبارت پڑھ لیں تو کنڈیکٹر سے آی ایس بی این پوچھنا ضروری سمجھتے ہیں کہ ایمیزن سے خرید کر عنداللہ ماجوز ہوں ۔ یہ اور بات ہے کہ اس استفسار پر کنڈیکٹر انہیں جن الفاظ سے نوازتا ہے وہ یا تو کھوکھر صاحب کی تحریر میں مل سکتے ہیں یا محترمہ ناز کے مضمون پر کئے گئے تبصرہ جات کی چاشنی میں۔

چلیں اب اجازت، باہر لائبرری والے آئے ہیں جن کا اصرار ہے کہ یا تو میں مستعار لی گئی کتابیں واپس کروں یا پھر وہ غریب خانے کو سب لائبرری کا درجہ دیتے ہوئے اس پر بورڈ لگا دیں۔ آپ قارئین کا کیا خیال ہے؟

Share
« Newer PostsOlder Posts »

Powered by WordPress