فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

January 26, 2011

برادرم بن یامین کو اردو بلاگنگ میں‌خوش آمدید

Filed under: عمومیات — ابو عزام @ 12:40 am

ہمارے ایک عزیز دوست اور اردو میں بچوں کے رسائل کے ادیب برادرم بن یامین (قلمی نام) نے بے حد اصرار کے بعد بالآخر اردو بلاگنگ کی دنیا میں قدم رکھ دیا ہے۔

http://www.theurdublog.com

ان کے اردو بلاگز “کھلتا کسی پہ کیوں میرے دل کا معاملہ – بن یامین کے قلم سے” پر پڑھے جاسکتے ہیں۔اپنے پہلے مضمون ‘انقلاب لے لو- انقلاب‘ میں‌وہ لطیف پیرائے میں‌ وطن عزیز کی ‘انقلابی’ صورتحال کو قلمبند کرتے نظر آتے ہیں۔

بن یامین، اردو بلاگستان میں خوش آمدید۔ آپ کی مزید تحاریر کا شدت سے انتظار رہے گا۔

Share

January 22, 2011

تھامس جیفرسن کےنسخہ ترجمہ قران کے تعاقب میں – ایک تصویری کہانی

Filed under: تحقیق,سفر وسیلہ ظفر — ابو عزام @ 12:00 am
ہائیں؟ کیا مطلب جیفرسن کا نسخہ قران یہاں موجود نہیں؟
Library of Congress
عالم حیرت میں انگشت بدنداں یہ بات ہم نے لائبرری آف کانگریس میں ہونے والی تھامس جیفرسن کے کتب خانے کی نمائش کی نگرانی پر مامور سیکورٹی گارڈ سے پوچھی ۔ واشنگٹن ڈی سی میں واقع لائبرری آف کانگریس دنیا کی سب سے بڑی لائبرری سمجھی جاتی ہے۔ یہاں پر تھامس جیفرسن، امریکہ کے تیسرے صدر کے زیر استعمال ہونے والا وہ تاریخی ترجمہ قران موجود ہے جو برطانوی محقق و مترجم جارج سیل نے 1734 میں کیا تھا۔ اس ترجمہ قران کو پہلا انگریزی علمی ترجمہ سمجھا جاتا ہے۔اس سے پہلے الیگزینڈر راس کا ترجمہ قران درحقیقت ایک فرانسیسی ترجمے کا انگریزی ترجمہ تھا۔اسی نادر و نایاب ترجمہ قران پر امریکہ کے پہلے مسلم کانگریس ممبر کیتھ ایلیسن نے حلف اٹھایا تھا اور اسی کی تلاش ہمیں کشاں کشاں اس کتب خانے تک کھینچ لائی تھی.ہماری طرح  صدر تھامس جیفرسن کو کتابیں پڑھنے اور جمع کرنے کا بہت شوق تھا۔ اس نے ایک دفعہ ایک مشہور امریکی سیاستدان جان ایڈمز سے کہا تھا کہ ‘میں .کتابوں کے بغیر نہیں جی سکتا’۔راقم نے بھی راشد بھائی سے ایک دفعہ بلکل یہی بات کہی تھی لیکن جب انہوں نے ہمارا یہی قول حیدرآبادی بریانی پر بھی صادق بتایا تو ہم نے اصرار کرنا مناسب نا سمجھا۔ یہ تو خیر جملہ معترضہ تھا، بہرحال بات ہو رہی تھی کہ اگر یہ ترجمہ اس نمائش میں موجود نہیں تو آخر گیا کہاں؟

Jefferson's Library

۔ کمپیوٹر کے مطابق یہ ترجمہ قران بلکل سامنے والے شیلف کی تیسری دراز میں ہونا چاہئے تھا لیکن ہماری حیرت کی انتہا نا رہی کہ جب کمپیوٹر کے کیٹالاگ کے برخلاف مصحف اس دراز میں نا نظر آیا؟

Library of Congress Jefferson's Quran

اگر کسی نے اسے پڑھنے کے لئے نکلوایا ہو تو دنیا کی سب سے بڑئی لائبرری سے کم از کم یہ تو توقع کی جاسکتی ہے کے وہ اپنے کیٹالاگ کو درست حالت میں رکھے ۔ اب ہمیں یہ کھٹکا ہوا کہ یہ نسخہ قران کہیں کسی اسلام دشمنی کی وجہ سے تو نہیں‌ہٹا دیا گیا؟ پاکستانی ہونے کے ناطے اتنی کانسپیریسی تھیوری بنانے کا حق تو ہمیں حاصل ہے۔ تو پھر کیا تھا، ہم نے اس بات کی ٹھان لی کہ آج اس نسخہ ترجمہ قران کی تلاش کر کر رہیں گے چاہے ہمیں گنتناموبے ہی کیوں نا بھیج دیا جائے، غضب خدا کا۔

Library of Congress Jefferson's Quran

جب سیکیورٹی گارڈ سے کوئی خاص مدد نا مل سکی تو ہم نے کسی ثقہ لائبریرین کی تلاش شروع کی۔ ایک والنٹیر کتب خانے کا نگران نظر آیا تو اس سے اس بابت دریافت کی۔ مرد ابیض بولا کہ شائد یہ مصحف آپکو نایاب کتب کے خصوصی کمرے میں ملے ۔ ہم نے راستہ پوچھا تو اس نے کہا کہ نایاب کتب کی دسترس کے لئے محقق ہونا شرط ہے اور ایک کارڈ بنوانا پڑتا ہے۔ کانسپریسی تھیوری کے پکوڑوں کی خوشبو اب زور پکڑنے لگی تھی۔ ہم نے پوچھا اے درویش، کارڈ بنوانے کا پتا بتا، اس نے کہا سڑک پار کرو اور جیمز میڈیسن والی عمارت کے کمرہ نمبر 140 میں جا کر ایک ایشیائی نژاد محققہ سے ملو تو شائد مراد بر آئے ۔

Madison Building

اندھا کیا چاہے لائبرری کارڈ، ہم نے آو دیکھا نا تاو، ظہر و عصر کی قصر ادا کرتے کے ساتھ ہی سیدھا لائبرری آف گانگریس کی دوسری عمارت کی راہ لی۔ چشم تصور میں‌ ہمیں‌ ڈین براون کی کتابوں کے ہیرو رابرٹ لینگڈن سے ہو بہو مشابہت تھی جو کہ لاسٹ سبمل کے دوران ڈی سی کی خاک چھانتا پھرتا ہے، کمرہ نمبر 140 بھاگتے دوڑتے پہنچے

Reading Registration - Madison Building

جب وہاں‌ دیکھا تو لکھا تھا کہ لائبرری کارڈ صرف محققین کو جاری کئے جاتے ہیں۔ ہم پی ایچ ڈی کے ظالبعلم تو ہیں لیکن بایزین بیلیف نیٹورک اور مشین لرننگ کا نادر کتابوں سے کوئی دور کا تعلق نہیں لیکن پھر بھی ہم نے قسمت آزمائی کا سوچا کہ شائد یاوری کرئے۔

Reading Registration - Madison Building 2.JPG

پہلا مرحلہ شناخت کاتھا، پھرکپمیوٹر پر فارم بھرنے کے بعد ایک خاتون نے کتب خانے کے کارڈ کےلئے تصویر لی اور کارڈ ہمارے ہاتھ میں تھماتے ہوئے نوید دی کہ اب ہم دو سال تک اب کتب خانے کے بیشتر کمروں میں جانے کے اہل ہیں۔

Registration for Library Card - Madison Building

اتنی جلد تو ہمیں ہماری عزیز لیاقت نیشنل لائبرری کا کارڈ تو کیا بس کا رعایتی کارڈ بھی پرنسپل کے دفتر سے نا ملا

Library Card

. بہرحال، انکا شکریہ ادا کرتے ہوئے اگلے مرحلے کی طرف بڑھے جو ریسرچ اسسٹنٹ سے ملنے کا تھا. ہم نے ریسرچ اسسٹنٹ سے ترجمہ قران کے محل و وقوع کے بارے میں پوچھا تو اس نے اپنے کمپیوٹر میں ڈھونڈنا شروع کیا اور کچھ دیر میں‌بتایا کہ یہ نادر کتابوں کے کمرئے میں موجود ہے لیکن فون کر کے کنفرم کر لیتے ہیں ۔ محترمہ نے فون گھمایا اور ہمیں تھما دیا ۔ اب جب ہم نے دوسری طرف موجود لایبریرین سے پوچھا کہ کیا ہم جیفرسن کے قران کا مطالعہ کر سکتے ہیں تو انہوں نے ٹکا سا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہم 4:15 کے بعد کتابوں‌کو نہیں نکالنے۔ یاد رہے کہ نادر کتابوں کے کمرے کا وقت 5:00 بجے ختم ہو جاتا ہے۔ہمیں بڑی مایوسی ہو چلی تھی لیکن آخری حربے کے طور پر التجائی لہجے میں‌درخواست کی کہ جیسے جامعہ میں محتمن سے ایک ایک نمبر کے لئے دست سوال دراز کیا جاتا تھا ۔ گویا ہوئے کہ محترمہ، ہم مغرب کے گرم پانیوں کی سنہری ریاست سے آپ کے اس یخ بستہ برف کے تندور میں‌آئے ہیںاور کل صبح روانگی ہے، اگر آپ کی نظر عنائت ہو توفدوی عمر بھر مشکور رہے گا۔بقول یوسفی خمری کو فون پر ہی ہمارئ مسکین صورت پر رحم آگیا اور بلا سوال و جواب اس نے ہمیں‌ کہا کہ فورا پہنچو۔ ہم نے اسسٹنٹ ریسرچر سے کمرے کا راستہ پوچھا تو اس نے ہمیں سرنگ کا شارٹ کٹ بتاتے ہوئے نقشہ دیا اور ہم بھاگتے ہوئے نادر کتابوں کے سیکشن کے طرف روانہ ہوئے۔

Jefferson's Library -Rare Books Section - tunnel

واشنگٹن ڈی سی میں بہت سی سرکاری اور وفاقی عمارتوں کو ایک دوسرے سے سرنگوں کے ذریعے جوڑا گیا ہے۔ یہ سرنگیں واضع نشانیوں کی عدم موجودگی میں تو شائد بھول بھلیوں کا کام دیں لیکن قسمت نے یاوری کی اور ہم نشانات دیکھتے ہوئے بغیر جی پی اسی کی مدد کے آسانی سے نادر کتب کے فلور پر پہنچ گئے

Jefferson's Library -Rare Books Section



Jefferson's Library - Quran - Rare Books Section - Locker

Jefferson's Library - Rare Books Section - Locker

یہاں پہنچ کہ پتا چلا کہ ابھی تو ایک اور فارم بھرنا ہے اور اپنی ہر چیز کو ایک عدد لاکر میں رکھنا ہے۔ حکمِ صیّاد ہے تا ختم، ایک بڑی سی کنجی والے لاکر میں تمام بوریا بستر ڈالا اور سنہرے دروازے والے نادر کتب کے کمرے تک جا پہنچے

Jefferson's Library - Quran - Rare Books Section

وہاں دعا مانگتے ہوئے اور ڈرتے ڈرتے داخل ہوئے کہ کہیں وقت کو بہانہ بنا کر لائبریرین داغ مفارقت نا دے دے لیکن محترمہ وعدے کی پکی تھیں انہوں نے ہم سے ایک فارم بھروایا کہ اگر ہم نے کسی نادر کتاب کو کسی قسم کا نقصان پہنچایا یا کوئی چیز خراب کی تو جو چور کی سزا وہ ہماری۔

Jefferson's Library - Quran - Rare Books Section

ان تمام کاغذی کاروایوں سے فارغ ہونے کے بعد اب ہم ریڈنگ روم میں میز کرسی پر جا بیٹھے۔ لایبریرین ایک رحل لایا اور اس کے ساتھ ترجمہ قران کے دو نسخے، جلد اور اور دوم۔ مرد بیضا کے ہاتھ میں رحل دیکھی تو وہ کچھ مسلمان مسلمان سا لگنے لگا لیکن جب آس پاس نظر دوڑای تو پتا چلا کہ نادر کتب کے لئے یہی رائج طریقہ مطالعہ ہے کہ کتاب کو کم سے کم ہاتھ لگے۔ اس نے پھر ایک کپڑے کی پٹی سی جس کے دونوں طرف ہلکے اوزان بندھے تھے ترجمہ کھول کر اس پر ڈال دی اور خاموشی سے اپنی میز پر جا کر مطالعے میں منہمک ہو گیا۔

Jefferson's Library - Quran

اس نادر نسخے کو اتنے قریب سے دیکھنے اور آخرکار ہاتھ لگانے سے ہم پر شادی مرگ کی سی کیفیت طاری تھی، اس اولین نسخہ ترجمہ قران میں ایک طویل تمہید ‘پریلمنری ڈسکورس’ کے نام سے موجود ہے جو عرب اور اسلام کے ابتدائی حالات کے بارے میں ایک مفصل مضمون ہے۔ اس ترجمے پر کئی اعتراضات اٹھائے جا چکے ہیں جن میں‌سے بنیادی اعتراض اس بات پر ہے کہ اس زمانے کے تراجم نے اسلام کو یہودیت اور عیسائیت کی طرح ایک الہامی مذہب کے بجائے ایک گروہ یا ‘کلٹ’کی طرح پیش کیا جاتا ہے جس کی ایک رمق جارج سیل کے اپنے مقولے سے ملتی ہے جس میں وہ کہتے ہیں۔

” محمد نے عربوں کو وہ بہترین‌ دین دیا جو کہ کم از کم ان بت پرستوں کے قانون دانوں کے دئے گئے ضابطوں سے بہت بہتر تھا۔ مجھے علم نہیں کہ انکو اس طرح کی عزت و احترام کے برابر کیوں نا سمجھا جائے جیسا کہ ماینوس اور نوما (یونانی اور رومی فلاسفر بادشاہوں) کو دیا جاتا ہے لیکن یہ عیسی اور موسی کے ہرگز برابر نا ہوگا کہ انکے قوانین الہامی تھے۔ انکو ایک ایسے عالم کے طور پر ضرور ماننا چاہئے کہ جس نے بت پرستی کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک خدا کے لئے دین کی داغ بیل ڈالی اور پہلے سےبنے قوانین صنم پرستی کے ذریعے پادشاہت کی آرزو نا کی۔”

صلی اللہ علیہ والہ وسلم

بہرطور، جارج سیل کے ترجمے پر کئی رائے ہو سکتی ہیں جو کہ ایک ماہر تراجم اور ایک اور مضمون کی متقاضی ہیں لیکن ہمیں اسکی تلاش اور مطالعے میں بے حد لطف آیا۔ باہر نکلے تو شام کا وقت تھا اور کیپٹل بلڈنگ کی عمارت پر سے سورج اپنی روشنی سمیٹتا نظر آیا۔ ہم نے ستارئے سفر کے ڈھونڈنا شروع کئے کہ ایمسٹرڈم فلافل پر رش نا بڑھ جائے۔بھوک زوروں پر ہے۔

Jefferson's Library -Capitol Building

مضمون کے حوالہ جات

قران کے انگریزی تراجم کا علمی جائزہ

جارج سیل

جارج سیل کا ترجمہ قران – گٹن برگ پراجیکٹ

مسلم کانگریسمین کا قران پر حلف – این پی آر

ایلیسن کا قران پر حلف – اسنوپس

لایبرری آف کانگریس – جیفرسن کا ترجمہ قران

Share

January 11, 2011

تعصبانہ القابات اور مکارم اخلاق

Filed under: مذہب,مشاہدات — ابو عزام @ 11:06 pm

چپکے سے کھانا کھاتے ہو یا بلاوں اس چپٹے کو؟

ہیوسٹن شہر کے اس حلال چاینیز ریسٹورانٹ میں جب یہ آواز میرے کان میں پڑی تو پہلے تو کچھ لمحوں کے لئے اپنی سماعت پر یقین نا آیا لیکن بعد میں صاحب گفتگو کو دیکھا تو ایک والد بزرگوار اپنے جگر گوشے کو کھانا نا کھانے پر ایک ایشیائی بیرے سے پٹوانے کی دھمکی دئے رہے تھے جو کہ اس پوری صورتحال سے بے خبر بفے میں رکابیاں درست کر رہا تھا۔

کلا، ہبلا، چنا، چینا، مکسا، چپٹا وغیرہ ان تعصبانہ اور غیر اخلاقی الفاظ میں سے کچھ ہیں جو کہ بیرون ملک پاکستانی حضرات بلا سوچے سمجھے مختلف قومیتوں کے افراد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ ان تضحیک آمیز نسلی القابات ‘ریشیل سلرز’ کا استعمال مغربی معاشروں میں تو برا سمجھا ہی جاتا ہے لیکن یہ ہمارے اپنے مذہبی و معاشرتی اقدار کے بھی یکسر خلاف ہے۔ جیسا کہ سورۃ الحجرات میں فرمایا گیا

لوگو، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنادیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ در حقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیز گار ہے (28)

اور مزید فرمایا کۓ

آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو(21) اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد کرو(22)۔

خطبہ حجتہ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

کسی عرب کو عجمی پر کوئی فوقیت حاصل ہے نہ کسی عجمی کو کسی عربی پر۔ نہ کالا گورے سے افضل ہے نہ گورا کالے پر۔ ہاں بزرگی اور فضیلت کا کوئی میعار ہے تو وہ تقوی ہے۔ انسان سارے ہی آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں اور آدم علیہ السلام کی حقیقت اسکے سوا کیا ہے کہ وہ مٹی کے بناۓ گۓ۔ اب فضیلت اور برتری کے سارے دعوے خون و مال کے سارے مطالبےاور سارے انتقام میرے پاؤں تلے روندے جا چکے ہیں

اس کے جواب میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ تضحیک آمیز الفاظ تھوڑا ہی ہیں، یہ تو ایک گروہ کی علامت کے طور پر کہاجا رہا ہے۔ تو پھر ان سے پوچھا جائے کہ جب انگلستان میں آپکو ‘پاکی ‘ کہ کر بلایا جاتا ہےتو آپکا خون کیوں کھولنے لگتا ہے؟ ہم سب جانتے ہیں کہ نسلی تضحیک کےکیا معنی ہوتے ہیں۔ اگر آپ یہ الفاظ اس نسل کے فرد کے سامنے کہیں گے تو اسے برا لگے گا اور یہی نسل پرستانہ رویہ ہے جس سے منع کیا گیا ہے۔ حالانکہ نیگرو کے معنی سیاہ فام ہی کے ہوتے ہیں مگر اس کا مترادف استعمال لفظ ‘نگر’ جسے این ورڈ کے نام سے جانا جاتا ہے، ایک نہایت معیوب گالی سمجھی جاتی ہے اور اسی وجہ سے لفظ نیگرو کا استعمال بھی تقریبا متروک ہو چلا ہے۔ اس لمبی تمہید سے میرا مقصد اس اخلاقی تنزل کی طرف توجہ دلانا ہے جس میں ہماری قوم مبتلا ہے لہذا اگلی دفعہ اگر آپ کسی کو اسکی رنگ و نسل اور قومیت کی نسبت سے حوالہ دینے کے لئے منہ کھولنے لگیں تو یہ ضرور سوچئے گا کہ اگر وہ آپکی بات سمجھ سکے تو اسکے دل پر کیا گذرئے گی اور سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں کیا فرمایا ہے۔

وَمَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلاغُ الْمُبِينُ

Share

December 29, 2010

لاس اینجلس کے ساحل سے لے کر تابہ خاک نیویارک

Filed under: سفر وسیلہ ظفر,مشاہدات — ابو عزام @ 1:50 pm
کہتے ہیں سفر وسیلہ ظفر ہے، کل شام بروز جمعرات، برادرم راشد کامران اور بندہ ناچیز ایک طویل سفر پر روانہ ہو رہے ہیں۔ ارادہ ہے کہ براعظم شمالی امریکہ کے ایک ساحل بحر الکاہل سے بحر اوقیانوس تک کا تقریبا 4000 میل کا سفر کم و بیش پانچ دن میں طے کیا جائے ۔درمیان میں جنوبی ریاستوں سے گذرتے ہوئے اس مختصر وقت میں بائبل بیلٹ اور قدامت  و جدت کے تقابل کا ارادہ ہے ۔دوستوں کے ہاں قیام کا ارادہ ہے اور چونکہ ایک عددایس ایل آر کیمرہ بھی ساتھ ہوگا تو کچھ تصویر کشی کا  شوق بھی پورا کیا جائے گا ۔  گرم پانیوں سے برفیلے طوفانوں کے اس سفر میں تقریبا سولہ ریاستوں سے گذر ہوگا جن میں بلا ترتیب کیلیفورنیا، ایریزونا،نیو میکسیکو، ٹیکساس، لوزیانا، مسیسپی، الاباما، جارجیا، ٹینیسی، کینٹکی، ورجینیا، میری لینڈ، واشنگٹن، ڈی سی، نیو یارک، نیو جرسی اور کنیکٹیکٹ شامل ہیں۔ ان ریاستوں میں سے کچھ میں برفانی طوفانوں کی وجہ سے ہنگامی حالات کا اعلان ہے۔ راشد بھائی کا کہنا ہے کہ گاڑی میں چینوں ‘پہیوں کے سلاسل ‘  کے بغیر سفر کچھ ایسا ہوگا کہ
امیر شہر نے کاغذ کی کشتیاں دیکر
سمندروں کے سفر پر کیا روانہ ہمیں
اس روٹ کی لمبائی کا اندازہ آپ اسطرح لگا سکتے ہیں کہ اگر ہم کراچی سے یہ سفر شروع کرتے تو اختتام مشرقی یورپ کے ملک سلوینیا،اٹلی کے شہر یودین یاجنوب مشرق میں رنگون برما  تک ہو سکتا تھا۔ اس سفر کا نقشہ آپ نیچے دیکھ سکتے ہیں۔
میری کوشش ہوگی کہ اس سفر میں آنے والی دلچسپ چیزوں کو قلمبند کر سکوں، خصوصا ارادہ یہ ہے کہ راستے میں آنے والی ہر ریاست کی کم از کم ایک مسجد میں‌نماز ادا کی جائے، مقامی مطبخ میں کھانا کھایا جائے اور ہر ریاست کے ستار بخش (اسٹار بکس کا اسم مستعمل) کے ذائقے کی درجہ بندی کی جائے۔ راشد بھائی کا مزید خیال ہے کہ ساوتھ میں اسکارلٹ او ہیرا کی تلاش بھی بعید از امکان نہیں تاہم ہم اس سلسلے میں مہر بہ لب ہیں۔
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزارہا شجرِ سایہ دار راہ میں ہیں


View Larger Map

Share

December 23, 2010

لنگڑی بطخ کانگریس

Filed under: پاکستان,سیاست,مشاہدات — ابو عزام @ 3:16 pm
نہیں‌ جناب ، یہ لقب ہمارا دیا ہوا نہیں بلکہ کئ مغربی ممالک کی سیاست میں ‘لیم ڈک’ یا لنگڑی بطخ ایسے سیاسی فرد یا جماعت کو کہا جاتا ہے جو کہ
.۔1 دوسری مدت کا انتخاب ہار گئے ہوں اور پہلی مدت کے اختتام پر ہوں
.۔2 دوسری مدت کے لئے انتخاب نا لڑنے کا فیصلہ کیا ہو اور موجودہ مدت ختم ہونے والی ہو
.۔ 3 دفتر ی میعاد کی حد کو پہنچ گئے ہوں کہ اب اگلے انتخاب کے لئے نا اہل ہوں
۔4 اس دفتری عہدے کو  انکی معیاد پوری ہونے پر ختم ہوجانا ہو۔
 
ان لنگڑی بطخ حکام کی چونکہ  سیاسی قوت کمزور ہوتی ہے کہ چل چلاو کا وقت ہے،  لہذا دیگر منتخب عہدے دار  ان کے ساتھ تعاون کی طرف راغب کم کم ہی ہوتے ہیں. آج کل کی امریکی کانگریس اپنے لیم ڈک سیشن میں ہے لیکن سنبھالا لیتے ہوئے قوانین پر قوانین پاس کرتی جا رہی ہے کہ سند رہے اور بوقت الیکشن کام آئے۔
 
برطانوی انداز کی مقننہ میں زیادہ تر تکنیکی طور پر تو لیم ڈک سیشن نہیں ہوا کرتا لیکن اگر دیکھا جائے جائے تو  مملکت خداداد، ہمارے وطن عزیز کی لولی لنگڑی جمہوریت اور اس کے مقننہ کے ادارے شازونادر ہی لنگڑی بطخ سیشن سے باہر آتے ہیں۔ کبھی مڈ ٹرم کا خوف، کبھی بھاری بوٹوں کی آواز کا ڈر تو کبھی بیچ منجدھار میں سیاسی جماعتوں کے اتحاد ٹوٹنے کا خدشہ – اس لئے ہمارا مشورہ ہے کہ ایوان زیریں و بالا کا اجتماعی نام ‘مجالس بط بہ لنگ’ رکھ دیا جائے۔ باقی اہم فیصلے تو سب ہی جانتے ہیں کہ کہاں کئے جاتے ہیں۔
Share

December 19, 2010

لبرلزم کا الگارتھم

Filed under: مذہب,مشاہدات — ابو عزام @ 8:50 am
کل سویرے بٹ صاحب تشریف لے آئے ۔تکلفات و اداب و تسلیمات کے بعد گویا ہوئے کہ میاں، ہمیں اس بات پر سخت اعتراض ہے کہ ثنائی تلاش ‘باینری سرچ’ کے طریق عمل / خوارزمية  ‘الگارتھم’ کی اوسط پیچیدگی لاگ این کیوں ہے؟ ہم اس کے قطعی قائل نہیں۔ ہم نے ڈرتے ڈرتے پوچھا کہ حضور، صبح صبح اس واردات قلب کا کوئی سبب تو کہنے لگے کہ کہ ہمارے تمام پراگرامات اور اعداد و شمار اس سے پیشتر ہی حل ہو جاتے ہیں، لاگ این کی نوبت ہی نہیں آتی۔
آپ اسے کمپیوٹر سائنس کا ایک لطیفہ کہہ لیں لیکن پھر ہماری بحث کرنے کی ہمت نہ پڑی۔ وجہ یہ تھی کہ ایک کنہہ مشق پراگرامر ہونے کے باوجود بٹ صاحب اصول کمپیوٹر سائنس یا تھوری سے کچھ خاص شغف نا رکھتے تھے اور نا ہی علوم الحاسبہ میں انہیں کوئی خاص دخل تھا۔ اب یہی سوال اگر مرزا ہم سے کرتے تو انکے اہل فن ہونے پر ہم اس مسئلہ اثباتی پر نا صرف سنجیدگی سے غور کرتے بلکہ استدلال بھی طلب کرتے کہ ایک اوسط پیچیدگی کو بہترین کیس سے محض کچھ خصوصی ڈیٹا سیٹ کی بنیاد پر تشبیہ دینے کی مبتدیانہ غلطی ان سے ہرگز متوقع نا ہوتی۔
اب اس طویل تمثیل کے بعد امید ہے کہ یہ بات واضع ہو چکی ہوگی کہ اس تحریر سے  راقم کا منشا علوم دینیہ میں غیر اہل فن کی تشنیع کا رد ہے۔ جیسا کہ پچھلے دنوں محترمی باذوق (اللہ انہیں جزاے خیر دے) کے بلاگ پر دیکھنے میں‌آیا کہ ہمارے نام نہاد لبرل افراد دیگر کسی بھی دنیاوی تکنیکی معاملے میں‌بلا سوچے سمجھے اور بلاتحقیق کے زبان کھولتے تو ڈرتے ہیں‌ لیکن جب دین کی بات آئے تو ہر فرد فقیہ و مجتہد نظر آتا ہے۔ اگر بٹ صاحب علم طبیعیات یا کیمیا کے ماہر ہیں تو ہم نے کبھی یہ دعوی نا کیا کہ ہمیں نظریہ اضافیت کے کلیہ میں مربع پر اعتراض ہے، اسے مکعب ہونا چاہیے تھا۔ یہ لوگ ضعف کا وردان کرتے ہوئے آحادیث پر اعتراضات جڑتے نظر آتے ہیں صرف اس وجہ سے کہ یا تو وہ قول رسول صلی اللہ علیہ وسلم انکے مزاج نازک پر بارگراں ہے یا پھر زمانے کا وہ چلن نہیں‌۔ ہم جان کی امان پائیں تو ان سے پوچھیں کہ حضور کیا آپ اہل فن ہیں؟ کہ اگر امام احمد یا  شیخ البانی اصول روایت و درایت پر  یہ اعتراض کریں اور صحیح ابوداود تصنیف کریں تو کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے کہ دین کسی کہ تحقیق کا حق سلب نہیں کرتا شرط صرف اہل فن ہونا ٹہرا۔ اگر آپ کسی محدث کو درء الشبهات حول حديث بول الإبل میں نہیں مبتلا دیکھتے کہ وہ بخاری و مسلم کی اس متفق علیہ روایت پر شبہ کر رہا ہوتو طالبعلم ہونے کا تقاضہ ہے کہ بول الإبل بين الإسلام والعلم الحديث کو پڑھا اور سمجھا جائے نا کہ اپنی مرضی سے قول رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو موجودہ سماجی و تہذیبی اقدار کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی جائے ۔ ہم تو آج کے لبرل حضرات کے اس آیت مبارکہ پر اعتراضات کا انتظار کر رہے ہیں کہ یہ عورت کی برابری اور اس کہ فہم و فراست کو کچھ اس طرح بیان کرتی ہے کہ موجودہ حقوق نسواں کے علمبرداروں کے حلق سے تو ہرگز نا اتر پائے۔

أَوَمَن يُنَشَّأُ فِي الْحِلْيَةِ وَهُوَ فِي الْخِصَامِ غَيْرُ مُبِينٍ -سورة الزخرف 18
کیا (اللہ کے حصے میں وہ اولاد ہے) جو پالی جاتی ہے زیوروں میں اور وہ بحث و حجت میں اپنا مدعا بھی واضح نہیں کرسکتی؟
اور ایک اور ترجمہ یہ ہے کہ
کیا جو کہ آرائش میں نشونما پائے اور مباحثہ میں قوت بیانیہ  نہ رکھے۔
تاویلات تو ہر چیز کی کی جاسکتی ہیں لیکن اگر ایک طالبعلم اور متلاشی حق بن کر سوچا جائے تو کیا یہ بات اظہر من الشمس نہیں کہ کسی نص کو محض اس بنا پر پر رد کرنا کہ دنیا کیا کہے گی محرومی کی بات ہے؟
لبرلوں کا کوئی بھی الگارتھم ہو، غلامان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تو بس یہی یہی ایمان ہے کہ عقل قرباں کن بہ پیش مصطفی۔
Share

November 1, 2010

وجود خداوندی، سائنس اور اسٹیفن ہاکنگ

Filed under: تحقیق,مذہب — ابو عزام @ 12:00 pm
قران سائنس کی کتاب نہیں، اسی طرح جس طرح قران فلسفے، منطق یا تاریخ کی کتاب نہیں حالانکہ اس سر چشمہ ہدایت میں بہت سے مختلف النواع مضامین کا بیا ن ہے ۔ یہ الہامی احکامات  کا وہ سرچشمہ ہے جس سے ہدایت حاصل کرنے کے لئے ایک بنیادی شرط لگائی گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ
هُدىً لِلْمُتَّقِينَ –  الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ
ہدایت ہے ان پرہیزگار لوگوں کے لئے جو غیب پر ایمان لاتے ہیں۔۔البقرہ
ان غیوب میں سب سے بڑا غیب اللہ سبحان تعالی کی ذات باری ہے۔ اگر اللہ تعالی چاہتا، جیسا کہ قران میں‌بھی ذکر ہوتا ہے، تو سارے انسان ایک طرح کے ہو سکتے تھے، اتباع اور وہ بھی بغیر دیکھے آمنا و صدقنا کہنا ہی تو اصل دار المتحان ہے۔ اگر آسمان پر کلمہ طیبہ لکھا آجائے تو کٹا  کافر بھی شائد مسلمان ہونے میں کچھ تامل نا کرے لیکن یہ منشا خداوندی نہیں کہ لوگوں پر غیب کو مطلع کر دیا جائے کہ پھر تو معرکہ حق و باطل و آزمایش میں غیب کا پرتو نا رہا اور ایمان بالغیب کی شرط پوری نا ہو پائی۔
دور حاضر کے عصری علوم خصوصا سائنس ایک تجزیاتی و تجرباتی علم ہے جہاں ہر چیز کو تجربے کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے۔ اگر کوئی چیز موجودہ تجرباتی آلات سے نہیں ناپی جا سکے تو علم ریاضی کا سہارا لیا جاتا ہے کہ اس کی مدد سے سیمیولیشن ‘نقلیت’ کے ذریعے ایسی چیزوں کا پتا چلایا جا سکتا ہے جو انسانی تجربے یا سطحی تخیل سے بظاہر ماورا ہوں مثلا کوانٹم طبعیات کی تین سے ذائد ڈایمنشنز  یا کوارک کے باہمی قوانین یا ایم تھیوری وغیرہ۔ لیکن صرف اس وجہ سے کہ سائنس آج اس بات کو نہیں جان سکی اس بات کی کوئی دلیل نہیں کہ مستقبل کے انسانی علوم کے اضافے اس فرق کو مٹا نا دیں گے اور انسانی علوم مزید ترقی نا کرتے رہیں گے۔ لیکن ایک بات نہایت صاف ہے کہ سائنس جو کہ ایک تغیراتی اور تجرباتی علم ہے، کبھی خدا کے وجود کو تجربے کی بنیاد پر ثابت نہیں کر سکتا کیونکہ وجود خداوندی کا تعلق غیب سے ہے جو انسان پر مطلع صرف اس وقت ہوگا جب کہ مشیت الہیہ ہو اور یوم الدین کا ظہور ہو۔
گزشتہ دنوں اس بات پر بڑی ہا ہا کا ر مچی کہ اسٹیون ہاکنگ نے خدا کے وجود کا انکار کردیا۔ میرا ناقص علم تو یہ کہتا  ہے  اگر کوئی سائنسدان خدا کے وجود کااقرار کرے یا اسے تجرباتی طور پر ساینسی بنیادوں پر ثابت کرنے کی بات کرے تو اس کے اس دعوے کو شبہ کی نظر سے دیکھنا زیادہ حق بجانب ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر خدا کا وجود کسی عقلی و تجرباتی پیٹری ڈش کے ذریعے ثابت کیا جا سکے تو غیب کا پردہ اور الحاد کا چیلنج ہی نا رہے۔
ایسا نہیں کہ سائنسدانوں کے خدا کے وجود کو ڈھونڈنے کی سعی نہ کہ ہو۔ گرینڈ ڈیزاین میں ہاکنگ خود لکھتا ہے کہ نیوٹن اور اس سے پہلے کئی علم طبعیات کے اکابرین خدا کے وجود بلکہ معجزات  کے قائل رہے ہیں۔ آینسٹاین کا کوانٹم طبعیات پرقول مشہور ہے کہ ‘خدا پانسے نہیں کھیلتا’ کیونکہ وہ کوانٹم میکانیات کے احتمالی قوانین سے مطمئن نا تھا – سائنسدان تھامس بائس جس کا بایس تھیورم آپ روزانہ اپنی ای میل میں جنک فلٹریشن کے لئے استعمال کرتے ہیں درحقیقت پادری تھامس بائس کی خدا کے وجود اور اس کی منشا کو ثابت کرنے کی ایک کاوش  تھی۔دوسری طرف سائنسدانوں کا ایک بہت بڑا طبقہ ہے کو کسی ماورا طبعی شے کے وجود کو ماننے میں حد درجے کا نالاں ہے۔ اسی کے رد میں مشہور زمانہ ایم آی ٹی کے فزکس پی ایچ ڈی فرینک ٹپلر نے اپنی کتاب ‘فزکس آف ایمورٹیلیٹی‘ لکھی جو کہ آج کل راقم کے زیر مطالعہ ہے۔
اس کتاب میں  فرینک ٹپلر نے اومیگا پاینٹ تھیوری کے نظریے کے مطابق حیات بعد الموت کے نظریے کی سائنسی بنیادوں پر توجیح و تشریح کی ہے نیز بعد میں اسے کوانٹم طبعیات سے بھی نتھی کیا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس کتاب پر ساینسدانوں کی طرف سے جا بجا اعتراضات اٹھائے گئے ہیں لیکن  فرینک ٹپلر ایک قد آور ساینسدان ہے، کوئی ہاتھ دیکھنے والا پروفیسر نہیں۔ اس کے باوجود بھی کہ اگر بہت سے ساینسدان اپنے اطراف میں جگہ جگہ خدا کی موجودگی کے اثرات دیکھتے ہیں اور غور و فکر کرنے والوں کی حیثیت میں‌متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے، سائنس کا بحیثیت تجرباتی علم، خدا کی موجودگی کی دلیل بنانا، غیب کے برخلاف ہوگا اور بر بنائے تعریف ناممکن۔
میں نے اسٹیفن ہاکنگ کی کتاب گرینڈ ڈیزاین کا مطالعہ کرنے سے پہلے یہ تحریر لکھنا مناسب نا سمجھی تھی  لیکن اب میں قارئین کو اس بات کی دعوت دوں گا کہ گرینڈ ڈیزاین خصوصا ساتویں باب، ‘اپیرینٹ مریکل’ یا واضح معجزہ کا مطالعہ کریں اور خود دیکھیں کہ رب العالمین نے کس نازک طریقے سے ‘کانسٹینٹس’ کو طے فرمایا ہے کہ اس میں سے زرا سی کمی بیشی انسانی زندگی اور نسل انسانی کے ہونے یا نا ہونے پر منتج ہو سکتی تھی۔
ان تمام باتوں کو لکھنے کے بعد بھی ہاکنگ علم احتمال و کوانٹم طبعیات کی رو سے بضد ہے کہ یہ سب بغیر خدا کے عین ممکن ہے۔ کہ خدا ، وقت اور چیزوں کا وجودکسی ابتدا اور انتہا کا محتاج نہیں اور یہ کہ ابتدا اور انتہا خود ایسے نظریات ہیں جو بگ بینگ کے بعد ‘ایکسپینشن’ کی وجہ سے پیدا ہوئے تو وہ سائنسی بنیادوں پر برحق ہے کہ ایمان و ایقان کا تعلق تجزیے و تجربے پر نہیں بلکہ وہ تو خدا کے عطا کردہ فہم و شعور کو استعمال میں‌لا کر  ایمان بالغیب کی جست کا نام ہے۔
راقم کی ناقص  رائے میں سائنسی تغیر پزیر تجزیات پر غیر تغیراتی الہامی کلام کو پرکھنا اور قران سے ان چیزوں کی توجیحات نکالنا کسی طرح موزوں نہیں۔نیز ساینسی علوم پر خدا کے ہونے یا نا ہونے کے علم کا دارومدار رکھنا گمراہی کا سبب ہے کہ
ذہن میں جو گھِر گیا لا انتہا کیوں کر ہوا
جو سمجھ میں آگیا پھر وہ خُدا کیوں کر ہوا

Share

October 31, 2010

سفر حج کی تصویری روداد

Filed under: مذہب — ابو عزام @ 9:23 pm

پچھلے سال اللہ تعالی نے حج کی سعادت نصیب فرمائی تو روز و شب کا ایک تصویری البم بنانے کا سوچا۔

سفر حج کی تصویری روداد

وجہ یہ تھی کہ جب میں روانہ ہو رہا تھا تو  چشم تصور کے سوا مجھے اس بات کا کوئی خاص اندازہ نا تھا کہ شیطان کو کنکریاں مارنے کی جگہ کیسی ہوگی یا منٰی کے خیموں میں رہایش کی کیا صورتحال ہوتی ہے۔ اس تصویری سرگزشت میں روز مرہ کی تصاویر موجود ہیں اور کچھ کارآمد نکات بھی۔ اگر فائدہ مند ہوں تو عاصی کو دعاوں میں‌یاد رکھئے گا۔ اللہ سبحان تعالی ہم سب کو سفر حج کی توفیق و سعادت نصیب فرمائے، آمین۔

Share

August 15, 2010

ہفتہ کتب و کتب خانہ : ایلوئن شرمین لائبریری کا تعارف

Filed under: عمومیات — ابو عزام @ 2:16 pm

بلاگستان پر ہفتہ کتب و کتب خانہ کا آغاز ہوا تو ہم نے سوچا کہ اپنی مادر علمی نووا ساوتھ ایسٹرن یونیورسٹی کے مرکزی کتب خانے کے بارے میں کچھ لکھتے چلیں۔

Alvin Sherman Library

٣٥٠٠٠ مربع فٹ پر قائم اس کتب خانے کا مکمل نام “ایلوئن شرمن لائبریری ،مرکز تحقیق و انفارمیشن ٹیکنالوجی ” ہے۔یہ امریکی ریاست فلوریڈا کی سب سے بڑی لائبریری ہے جو کہ این ایس یو کے طالب علموں اور باورڈ  کاؤنٹی کے باشندوں کے لئے بنایا گیا ایک مشترکہ منصوبہ ہے۔ ایلوئن شرمن لائبریری کاؤنٹی کمشنروں اور یونیورسٹی کی کاؤنٹی کےبورڈ کے درمیان ایک معاہدے کے تحت، روایتی سرکاری لائبریری کی خدمات بھی فراہم کرتا ہے. یہ کتب خانہ ٨ دسمبر ٢٠٠١ کو عوام کے لئے پہلی دفعہ کھولا گیا تھا ۔ این ایس یو میں اس کے علاوہ بھی چھوٹے چھوٹے کئی کتب خانے موجود ہیں لیکن مرکزی لائبریری کی شان ہی الگ ہے۔ اس کتب خانے کا نام اس کے سب سے بڑے عطیہ دہندہ ایلوین شرمن کے نام پر رکھا گیا ہے۔

Alvin Sherman Library

Alvin Sherman Library

اس پانچ منزلہ وسیع و عریض عمارت میں ہائی اسپیڈ وائرلیس انٹرنیٹ، 22 عدد مطالعےکے کمرے،ہزار سے زائد صارفین کی نشستیں اور ایک کیفے موجود ہے۔ اس کے علاوہ یہاں ایک نمائش آرٹ گیلری اور نگارخانہ موجود ہے جو مشہور گلاس آرٹسٹ ڈیل چیھولی اور دیگر آرٹسٹوں کی تخلیقات سے مزئن ہے ، اس کے علاوہ 500 سیٹ کا روز ا ور الفریڈ مینیاکی پرفارمنگ آرٹس سینٹر بھی لائبریری کا حصہ ہے۔

Alvin Sherman Library

، لائبریری کا ماحول کشادہ اورہائی ٹیک ہے ۔ یہاں موجود مواد میں برقی و کاغذی کتب، مقالہ جات و تحقیق کے سازوسامان ، خصوصی تحقیقی ڈیٹا بیس ،برقی کتابوں کے ڈاؤن لوڈ ، رسائل اور میگزین کے بیش بہا ذخائر موجود ہیں۔ اس کے علاوہ سی ڈیز ، ڈی وی ڈی ، بچوں اور نوجوانوں کے لئے خصوصی پروگرامات ، کتاب بحث گروپ ، تحقیق کے آلات اور وسائل کے استعمال کی تربیت کا انتظام ہے. سب سے اہم بات یہ کہ آپ ایک پیشہ ور لائبریری کے عملے کو اپنی ضروریات کی خدمت کرنے کے لئے تیار پائیں گے.

Alvin Sherman Library

اس کتب خانے کی ایک خاص بات یہاں موجود ‘موویبل شیلف’ یا متحرک الماریاں ہیں جن کی مدد سے کم جگہ میں‌زیادہ سے زیادہ کتب  کو جمع کیا جا سکتا ہے۔

Alvin Sherman Library

لائبریر ی کی کتابوں اور دیگر علمی و تفریحی مواد کے ذخیرے کی تفصیلات یہاں موجود ہیں.

Share

August 14, 2010

پی ایچ ڈی کا کیا مفہوم ہے؟

Filed under: تحقیق — ابو عزام @ 7:29 am

کمپیوٹر سائنس میں ڈاکٹریٹ کا طالبعلم ہونے کی بنا پراحباب یہ سوال اکثر پوچھا کرتے ہیں۔ مندرجہ ذیل تصویری مثال پی ایچ ڈی کے مرکزی خیال کو بہت اچھے طریقے سے اجاگر کرتی ہے۔ یہ تصویری مضمون ڈاکٹر میٹ مائٹ، اسسٹنٹ پروفیسر دارلعلوم کمپیوٹنگ، جامعہ یوٹاہ کی تحریری اجازت سے ترجمہ کر کے اس بلاگ پر شائع کیا جا رہا ہے۔ انگریزی متن یہاں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔

تصور کریں‌کہ مندرجہ ذیل دائرہ تمام موجودہ انسانی علم کو ظاہر کرتا ہے۔

جب آپ پرائمری اسکول ختم کرتے ہیں تو آپ کواس علم کا تھوڑا سا حصہ حاصل ہوتا ہے۔


جب آپ کالج کی تعلیم ختم کرتے ہیں تو آپ کا دائرہ علم مزیدبڑھ جاتا ہے۔

بیچلرز کی ڈگری کے ساتھ آپ کسی ایک ‌خصوصی مضمون میں مہارت حاصل کر لیتے ہیں۔

ماسٹرز کی ڈگری اس مضمون کی خصوصی مہارت کو مزید بڑھا دیتی ہے

تحقیقی مقالہ جات اور مضامین کا مطالعہ آپ کو اس خصوصی مضمون کے بارے میں موجودہ انسانی معلومات کی حد پر لے جاتا ہے۔

اس نہج پر پہنچ جانے کے بعد آپ اپنی توجہ اس حد پر مرکوز کر دیتے ہیں

آپ اس حد کو پار کرنے کے لیئے کچھ سال تک محنت و مشقت کرتے ہیں۔

کہ ایک دن، وہ حد اپنی جگہ سے ہٹ جاتی ہے

پی ایچ ڈی

اور اس دائرہ میں جو نشان پڑتا ہے اسے پی ایچ ڈی کہا جاتا ہے

اب آپکو دنیا مختلف لگتی ہے، اپنے دائرہ علم کے نشان کی مانند

اسی لئے ‘بگ پکچر’ یا عمومی دائرہ علم کی بڑی حقیقت کو فراموش نا کریں

علوم انسانی کی حدود کو پار کرنے کی کوششیں جاری رکھیں۔

Share
« Newer PostsOlder Posts »

Powered by WordPress