عذر آنے میں بھی ہے اور بلاتے بھی نہیں
باعث ترک ملاقات بتاتے بھی نہیں
منتظر ہیں دمِ رخصت کہ یہ مرجائے تو جائیں
پھر یہ احسان کہ ہم چھوڑ کے جاتے بھی نہیں
سر اٹھاؤ تو سہی آنکھ ملاؤ تو سہی
نشۂ مے بھی نہیں نیند کے ماتے بھی نہیں
کیا کہا؟، پھر تو کہو، “ہم نہیں سنتے تیری“
نہیں سنتے تو ہم ایسوں کو سناتے بھی نہیں
خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
مجھ سے لاغر تری آنکھوں میں کھٹکتے تو رہے
تجھ سے نازک مری نظروں میں سماتے بھی نہیں
دیکھتے ہی مجھے محفل میں یہ ارشاد ہوا
کون بیٹھا ہے اسے لوگ اٹھاتے بھی نہیں
ہوچکا قطع تعلق تو جفائیں کیوں ہوں
جن کو مطلب نہیں رہتا وہ ستاتے بھی نہیں
زیست سے تنگ ہو اے داغ تو کیوں جیتے ہو؟
جان پیاری بھی نہیں، جان سے جاتے بھی نہیں
راقم کا یہ مضمون ‘فیروزالمغلظات’ کے پہلے ایڈیشن میں چھپنے کے کے لئے تیار ہے۔ آپ قارئین سے تنقید و تبصرے کی گذارش ہے۔
اتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا
ہر زبان میں گالیاں ایک منفرد نثری و گفتنی حیثیت کی حامل ہوتی ہیں۔ کسی کے اہل زبان ہونے کا پتا لگانا ہو تو ان کی گالیوں کا موازنہ کریں ، وہیں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ تارکین وطن کی گالیاں ان کے اپنے ملک میں عہد قیام کی نشانی ہوتی ہیں۔ سیانے کہتے ہیں کہ کسی زبان کو سیکھنا ہو تو اسکے لئے سب سے پہلے اس کی گالیاں سیکھنی چاھئیں۔ اس سیانے نے یہ بات ایک گالی دیتے ہوئے کہی۔
گالیاں دینے کے بھی آداب ہوتے ہیں کہ واقعہ مشہور ہے جو جامعہ کراچی میں ہمارے اردو کے استاد محترم سناتے تھے کہ مرزا نوشہ اسد اللہ خان غالب کے مخالف انہیں خطوط میں گالیاں لکھتے رہتے تھے۔ ایک بار کسی مخالف نے انہیں ماں کی گالی لکھ دی۔ مرزا اسے پڑھ کر ہنسے اور بولے، اس بیوقوف کو گالی دینے کا بھی شعور نہیں ہے۔ بوڑھے اور ادھیڑ عمر شخص کو بیٹی کی گالی دینی چاہئیے تاکہ اسے غیرت آئے۔ جوان آدمی کو ہمیشہ جورو کی گالی دو کہ اسے جورو سے بہت لگاؤ ہوتا ہے اور بچے کوہمیشہ ماں کی گالی دیتے ہیں کیونکہ وہ سب سے زیادہ ماں سے مانوس ہوتا ہے۔
غالب کو گالیوں سے خاص لگاو تھا؛ اکثر بول چال میں اس کا التزام رکھتے تھے۔ قبلہ راشد بھائی اس زمن میں فرماتے ہیں، نقل کفر کفر نا باشد کہ “خداوند نے انگریزی زبان گالیاں دینے کے لیئے بنائی ہے”۔ کہ اردو زبان کی گالی دل پر جا لگتی ہے اور انگریزی میں دی گئی گالی کو ہنسی خوشی مذاق ہی مذاق میں ٹالا جا سکتا ہے۔
ہم اس قبیل سے تعلق رکھتے ہیں جہاں گالیاں دینا سخت معیوب سمجھا جاتا تھا۔ ہماری سب سے بڑی گالی ‘چغد’ یا ‘بھینس کا منہ’ ہوا کرتی تھی جس پر بہت ڈانٹ سننے کوملتی۔ پطرس مرحوم نے اپنے مضمون ‘میں ایک میاں ہوں’ میں ہماری کیفیت سے اتفاق کیا ہے جس پر ہم انکے بڑے ممنون ہیں۔
گالی کا تہذیب یا بدتہذیبی سے بڑا گہرا تعلق ہوتا ہے۔ ذخیرہ الفاظ کیطرح یہ بھی ایک زبان کے زندہ ہونے کی نشانی ہوتی ہیں مثلا اربن ڈکشنری کو ہی لیجئے۔ راقم کاماننا ہے کہ اردو کی گالیاں فاعل و مفعول کے بغیر لا معنی ہوتی ہیں الا یہ کہ یہ امور وضاحت طلب نہ ہوں۔ انگریزی زبان کی بہت سی زود زبان گالیاں اردو میں بلا فاعل بے معنی ہو کر رہ جاتی ہیں مثلا انگریزی کی ‘ف’ کی گالی اردو میں سراسر بے معنی ہے۔ اسی طرح محرمات کی گالی جو اردو کی گالیوں کی بنیادی اصطلاحات میں سے ہے انگریزی زبان میں نہایت بودی ٹھرے گی ۔ اسی طرح انگریزی کی’ش’ والی گالی اردو میں بچوں کی مخلوط محفل کے رد میں استعمال ہونے والی چڑ، یا حیدرآبادی زبان میں نکمے آدمی کے لئے استعمال ہونے والا لفظ بنے گی اور اس کے لئے بھی فاعل کی موجودگی ضروری ہے مثلا ‘اجی کیا پاجامہ آدمی ہیں آپ، یہ بلی کا گو لے کر آے کیا” اور یہ بلکل پارلیمانی گفت و شنید میں مستعمل ہو سکتی ہے۔۔ پنجابی زبان کو گالیوں کے حوالے سے بڑا بدنام قرار دیا جاتا ہے مثلا ہمارے عزیز دوست اطہر الہی جو آجکل ہالینڈ سے معاشیات میں پی آیچ ڈی کر رہے ہیں فرماتے ہیں کہ ملتان میں جمعہ کا خطبہ سنا اور پہلی بار اتنی ساری پنجابی زبان بغیر گالی کے سنی تو کانوں پر یقین نہ آیا۔ چٹکی لے کر یقین دلایا گیا کہ خواب نہیں تھا۔
پارلیمانی زبان کا مفروضہ بھی اب پرانا ہوچلا کہ اب جو زبان پارلیمان میں بولی جاتی ہے اس سے ادارہ گالیوں کی لغت ‘فیروزالمغلظات’ بنانے کا کام لیتاہے۔ ہمارے وزیر قانون کے قانون کے لمبے ہاتھ تو سبھی کو یاد ہیں مگر اس کے علاوہ اب ہمارے معزز ایونوں میں اس طرح باتیں ہوتی ہیںکہ
“وزیر قانون عبد الرشید عباسی نے کہا کہ دنیا میں بڑے بڑے واقعات ہو جاتے ہیں ماں بہن کی گالی برداشت نہیں ہے دونوں صاحبان معذرت کر لیں’ یا پھر آزاد کشمیر کی اسمبلی کے رکن نے کہا کہ ‘”میرے سامنے ایک رکن نے ماں کی گالی دی پھراس پر یہ بھی انصاف ہوناچاہیے اس موقع پرانہوں نے مصطفیٰ گیلانی کوایوان سے باہر بھیج دیا۔” وغیرہ
گالیوں کے آداب کے سلسلے میں عرض کرتے چلیں کہ اردو زبان کی گالیوں کی تین مختلف اصناف ہیں۔ وہ گالیاں جو مہذب محفل میں کچھ جھجک کے ساتھ دی جاسکتی ہیں مثلا اکبر الہ آبادی کی گالیاںوغیرہ۔ دوسری جو یاروں دوستوں کے ہمراہ دی جاتی ہیں مثلا بھینس کا منہ اور تیسری قسم مزید شدید جیسے کسی کو پرویز مشرف یا میر جعفر کہ دینا، یہ دل آزاری کی بدترین قسم ہے۔
گالیوں کے آداب کے سلسلے میں آبِ گم میںمشتاق احمد یوسفی کہتے ہیں کہ
بزرگوار موجودہ الہ دین یعنی رحیم بخش کو عام طور پر الہ دین ہی کہتے تھے۔ البتہ کوئی خاص کام مثلاً پیر دبوانے ہوں یا بے وقت چلم بھروانی ہو یا محض پیار اور شفقت جتانی ہو تو الہ دین میاں کہ کر پکارتے۔ لیکن گالی دینی ہو تو اصل نام لیکر گالی دیتے تھے
مزید آداب مغلظات کے سلسلے میں مثال سے فرماتے ہیں کہ
۔” خلیفہ نے غصے سے بے قابو ہو کر دو مرتبہ اسے “ تیرا دھنی مرے! کی گالی دی تو بشارت سناٹے میں آگئے۔ لیکن سرِ دست وہ گھوڑے کو قابو میں لانا چاہ رہے تھے۔
اور بسا اوقات گالیوں کا استعمال بوقت ضرورت مدعا کے بیان کے لئے بھی کیا جا سکتا ہے مثلا
“کوئی جوان عورت مچھلی لینے آتی تو مچھلی والا ڈھال ڈھال کر بلی کوآرزو بھری گالیاں دینے لگتا۔”
گالی کے لئے خاص الفاظ کا استعمال بھی لازم نہیں۔ منٹو کا ٹوڈی بچہ، انگریزی پٹھو وغیرہ سے زیادہ گندی تہزیبی گالی ‘کھول دو’ ہے جو کہ حالات و واقعات کے تانوں بانوں سے حساسیت کی ہر رمق کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے۔
تہذیبی گالیوں کی مد میں توبۃ النصوح میں ڈپٹی نذیر احمد لکھتے ہیں
دوسرا ناہنجار، صبح اٹھا اور کبوتر کھول باپ دادے کا نام اچھالنے کو کوٹھے پر چڑھا، پہر سوا پہر دن چڑھے تک کوٹھے پر دھما چوکڑی مچائی، مارے باندھے مدرسے گیا، عصر کے بعد پھر کوٹھا ہے اور کنکوا ہے، شام ہوئی اور شطرنج بچھا۔ ا توار کو مدرسے سے چھٹی ملی تو بٹیریں لڑائیں۔ تیسرے نالئق، بڑے میاں سو بڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اللہ ، محل رنالں، ہمسائے عاجز، اس کو مار اس کو چھیڑ، چاروں طرف ایک تراہ تراہ مچ رہی ہے۔ غرض کچھ اسطرح کے بے سرے بچے ہیں، ناہموار، آوارہ، بے ادب، بے تمیز، بے حیا، بے غیرت، بے ہنر، بد مزاج، بد زبان، بد وضع کہ چند روز سے دیکھ دیکھ کرمیری آنکھوں میں خون اترتا
اور
“لڑ کے گالیاں بہت بکتے ہیں، لڑکیاں کوسنے کثرت سے دیا کرتی ہیں۔ قسم کھانے میں جیسے وہ بیباک ہیں یہ بھی بے دھڑک ہیں،
گالیاں دینے پر جھڑکتے ایسے ہیں
” اس نے بکیں تو جھک مارا اور تم نے زیادہ بکیں تو زیادہ جھک مارا۔”
قدرت اللہ شہاب نے ّ شہاب نامہ ّ میں ملک امیر محمد کا ذکر کرتے ہوئے ایک دلچسپ واقع رقم کیا ہے. لکھتے ہیں کہ
چوہدری ظہور الاہی سیاست کے افق پر نمودار ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے فوجی آمر ایوب کے نزدیک ہو گئے….پہلے تو نواب نے چوھدری ظہور الہی کو موٹی موٹی اور غلیظ گالیاں دیں اور ساتھ ہی کاغذوں کا ایک پلندہ ایوب کے سامنے رکھ دیا ، جو کہ ایک ایس پی نے ابھی ابھی پیش کیا تھا، اور فرمایا کہ حضور ان کاغذات میں اس (گالی) آدمی کا کچا چٹھا ہے . ساتھ میں یہ بھی فرمایا کہ جناب ابھی تو میں نے اپنا شکاری کتا اس پہ نہیں چھوڑا’
وزرا کا یہ وطیرہ تو تبدیل نہیں ہوا، اب تک ہے کہ
” کسٹم حکام کو خدشہ تھا کہ وزیرموصوف کے بنکاک سے انے والےمہمانوں کے پاس غیر قانونی سامان ہے-اٍسی لئے أنہوں نے تلاشی کرنا چاہی تو چوہدری صاحب طیش میں اکر کسٹم حکام پر برس پڑے-انہیں گالیاں دیں اور نوکری سے گو شمالی کا قصیدہ گایا-ایرپورٹ کے کیمروں نے چوہدری صاحب کی توتکار و دھکم پیل ثبوت کے لئے محفوظ کرلی-اٍسی وزیر کے خلاف لاہور کے تھانوں میں عملے کو گالیاں و دھمکیاں دینے پر رپٹ درج ہے-تھانہ نو لکھا کے انسپکٹر نوید گجر نے صحافیوں کو بتایا کہ وزیر نے ایک ملزم انتظار شاہ کو فوری رہا نہ کرنے کی پاداش میں تھانے کے عملے کو ننگی گالیاں اور نوکری سے برخواست کروانے کی دھمکیاں دیں-لچھے دار زبان استعمال کرنے پر پولیس کے اعلی افیسرز نے وزیر کے خلاف رپٹ درج کرنے کا حکم دیا-۔۔-میڈیا کو نام نہ شائع کرنے پر ایک آفیسر نے بتایا کہ چوہدری اور أنکے بھائی جرائم پیشہ افراد کی سفارشیں کرتے ہیں اور انکار کی صورت میں جیل کے عملے کو غلیظ گالیاں و سفاکانہ دھمکیاں سننی پڑتی ہیں-حسب سابق چوہدری عبدالغفور نے بائیس مئی کو پریس کانفرنس میں تمام الزامات کی تردید کی-“
یہ تو رہی موجودہ بے ادب دنیا میں وزرا کی روش۔ نیاز فتح پوری نے مولانا حالی کے نام ایک خط میں لکھا تھا۔
” مولانا! آپکا اسلوب بیان میں مجھ وداع ِجاں چاہتا ہے ۔ اگر آپ کی زبان میں مجھے کوئی گالیاں بھی دے تو ہل من مزید کہتا رہوں گا۔“
تولہذا قارئین ہل من مزید کہتے رہیں۔ اگر آپ کو ہمارے اس مضمون سے کوئی تکلیف پہنچی ہو تو ‘فیروز المغلظات’ کا مطالعہ افاقہ دے گا۔ وہ تمام لوگ جنہیں اس مضمون میں حقیقی گالیوں کے فقدان یا شدید کمی پر افسوس ہوا ہے اوراب کسی احتیاج کے تحت ٹھنڈا گوشت پڑھ رہے ہیں فورا ذہنی معالج سے رجوع کریں یا وزارت قانون میں نوکری کے اشتہارات دیکھیں۔
ہمارے روشن خیال اور تجدد پسند” حضرات جب کسی مسئلہ پر گفتگو فرماتے ہیں تو ان کی آخری حجت جو ان کے نزدیک سب سے قوی حجت ہوتی ہے یہ ہوتی ہے کہ زمانے کا رنگ یہی ہے۔ ہوا کا رخ اسی طرف ہے۔ دنیا میں ایسا ہی ہورہا ہے۔ پھر ہم اس کی مخالفت کیسے کرسکتے ہیں۔ اور مخالفت کرکے زندہ کیسے رہ سکتے ہیں۔ اخلاق کا سوال ہو ۔ وہ کہیں گے کہ دنیا کا معیار اخلاق بدل چکا ہے۔ مطلب یہ نکلا کہ مسلمان اس پرانے معیار اخلاق پر کیسے قائم رہیں؟ پردے پر بحث ہو ارشاد ہوگاکہ دنیا سے پردہ اٹھ چکا ہے۔ مراد یہ ہوئی کہ جو چیز دنیا سے اٹھ چکی اس کو مسلمان کیسے نہ اٹھائیں۔ تعلیم پر گفتگو ہو۔ ان کی آخری دلیل یہ ہوگی کہ دنیا میں اسلامی تعلیم کی مانگ ہی نہیں۔ مدعا یہ کھلا کہ مسلمان بچے وہ جنس بن کر کیسے نکلیں جس کی مانگ ہی نہیں۔ اور وہ مال کیوں نہ بنیں جس کی مانگ ہے۔ سود پر تقریر ہو۔ ٹیپ کا بند یہ ہوگا کہ اب دنیا کاکام اس کے بغیر نہیں چل سکتا۔ گویا مسلمان کسی ایسی چیز سے احتراز کیسے کرسکتے ہیں جو اب دنیا کا کام چلانے کے لیے ضروری ہوگئی ہے۔ غرض یہ کہ تمدن‘ معاشرت‘ اخلاق‘ تعلیم‘ معیشت‘ قانون‘ سیاست اور زندگی کے دوسرے شعبوںمیں سی جس شعبے میں بھی وہ اصول اسلام سے ہٹ کر فرنگیت کا اتباع کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے زمانے کا رنگ اور ہوا کا رخ اور دنیا کی رفتار وہ آخری حجت ہوتی ہے جو اس تقلید مغربی یا درحقیقت اس جزوی ارتداد کے جوار پر برہان قاطع سمجھ کر پیش کی جاتی ہے۔ اور خیال کیا جاتا ہے کہ عمارت اسلامی کے اجزاءمیں سے ہر اس جز کوساقط کردینا فرض ہے جس پر اس دلیل سے حملہ کیا جائے۔ہم کہتے ہیں کہ شکست وریخت کی یہ تجویزیں جن کو متفرق طور پر پیش کرتے ہو‘ ان سب کو ملا کر ایک جامع تجویز کیوں نہیں بنالیتے؟ مکان کی ایک ایک دیوار‘ ایک ایک کمرہ اور ایک ایک دالان کو گرانے کی علیحدہ علیحدہ تجویزیں پیش کریں‘ اور ہر ایک پر فرداً فرداً بحث کرنے میں فضول وقت ضائع ہوتا ہے۔ کیوں نہیں کہتے کہ یہ پورا مکان گرا دینے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ اس کا رنگ زمانے کے رنگ سے مختلف ہے۔ اس کا رخ ہوا کے رخ سے پھرا ہوا ہے اور اس کی وضع ان مکانوں سے کسی طرح نہیں ملتی جواب دنیا میں بن رہے ہیں۔جن لوگوں کے حقیقی خیالات یہی ہیں ان سے تو بحث کرنا فضول ہے۔ ان کی لیے تو صاف اور سیدھا جواب یہی ہے کہ اس مکان کو گرانے او راس کی جگہ دوسرا مکان بنانے کی آپ زحمت کیوں اٹھاتے ہیں؟ جو دوسرا خوش وضع‘ خوشنما اور خوش رنگ مکان آپ کو پسند آئے اس میں تشریف لے جائیے۔ اگر دریا کے دھارے پر بہنے کا شوق ہے تو اس کشتی کا لیبل کھرچنے کی تکلیف بھی کیوں اٹھائیے۔ جو کشتیاں پہلے سے بہہ رہی ہیں انہی میں سے کسی میں نقل مقام فرما لیجئے جو لوگ اپنے خیالات اپنے اخلاق‘ اپنی معاشرت‘ اپنی معیشت‘ اپنی تعلیم‘ غرض اپنی کسی چیز میں بھی مسلمان نہیں ہیں اور مسلمان رہنا نہیں چاہتی ان کے برائے نام مسلمان رہنے سے اسلام کا قطعاً کوئی فائدہ نہیں بلکہ سراسر نقصان ہے۔ وہ خدا پرست نہیں‘ ہوا پرست ہیں‘ اگر دنیا میں بت پرستی کا غلبہ ہوجائے تو یقیناً وہ بتوں کو پوجیں گے اگر دنیا میں برہنگی کا رواج عام ہوجائے تو یقیناً وہ اپنے کپڑے اتار پھینکیں گے۔ اگر دنیا نجاستیں کھانے لگے تویقیناً وہ کہیں گے کہ نجاست ہی پاکیزگی ہے اور پاکیزگی تو سراسر نجاست ہے۔ ان کے دل اور دماغ غلام ہیں اور غلامی ہی کے لیے گھڑے گئے ہیں۔ آج فرنگیت کا غلبہ ہے اس لیے اپنے باطن سے لے کر ظاہر کے ایک ایک گوشے تک وہ فرنگی بننا چاہتے ہیں۔ کل اگر حبشیوں کا غلبہ ہوجائے تو یقیناً وہ حبشی بنیں گے۔ اپنے چہروں پر سیاہیاں پھیریں گے۔ اپنے ہونٹ موٹے کریں گے۔ اپنے بالوں میں حبشیوں کے سے گھونگھر پیدا کریں گے۔ ہر اس شے کی پوجا کرنے لگیں گے۔ جو حبش سے ان کو پہنچے گی۔ ایسے غلاموں کی اسلام کو قطعاً ضرورت نہیں۔ بخدا اگرکروڑوں کی مردم شماری میں سے ان سب منافقوں اور غلام فطرت لوگوں کے نام کٹ جائیں اور دنیا میں صرف چند ہزار وہ مسلمان رہ جائیں جن کی تعریف یہ ہو کہ یُّحِبُّہُمْ وَیُحِبُّوۡنَہٗۤ ۙ اَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیۡنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الْکٰفِرِیۡنَ ۫ یُجَاہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ وَلَا یَخَافُوۡنَ لَوْمَۃَ لَآئِمٍ (المائدہ , 54)تو اسلام اب سے بدرجہا زیادہ طاقتور ہوگا اور ان کروڑوں کا نکل جانا اس کے حق میں ایسا ہوگا جیسے کسی مریض کے جسم سے پیپ اور کچ لہو نکل جائے۔نَخْشٰۤی اَنۡ تُصِیۡبَنَا دَآئِرَۃٌ ؕ (المائدہ , 52)ہم کو خوف ہے کہ ہم مصیبت آجائے گی۔یہ آج کوئی نئی آواز نہیں بہت پرانی آواز ہے۔ جو منافقوں کی زبان سے بلند ہوتی رہی ہے۔ یہی آواز نفاق کی اس بیماری کا پتہ دیتی ہے جو دلوں میں چھپی ہوئی ہے۔ اسی آواز کو بلند کرنے والے ہمیشہ مخالفین اسلام کے کیمپ کی طرف لپکتے رہے ہیں۔ ہمیشہ سے انہوں نے اللہ کی قائم کی ہوئی حدوں کو پاﺅں کی بیڑیاں اور گلے کا طوق ہی سمجھا ہے۔ ہمیشہ سے ان کو احکام خدا و رسول کا اتباع گراں ہی گزرتا ہے۔ اطاعت میں جان ومال کا ضیاع اور نافرمانی میں حیات دنیا کی ساری کامرانیاں ہمیشہ سے ان کو نظر آتی رہی ہیں۔ پس ان کی خاطر خدا کی شریعت کو نہ ابتداءمیں بدلا گیا تھا‘ نہ اب بدلا جاسکتا ہے اور نہ کبھی بدلا جائے گا۔ یہ شریعت بزدلوں اور نامردوں کے لیے نہیں اتری ہے۔ نفس کے بندوں اور دنیا کے غلاموں کے لیے نہیں اتری ہے۔ ہوا کے رخ پر اڑنے والے خش و خاشاک‘ اور پانی کے بہاﺅ پر بہنے والے حشرات الارض اور ہر رنگ میں رنگ جانے والے بے رنگوں کے لیے نہیں اتری ہے۔ یہ ان بہادر شیروں کے لیے اتری ہے جو ہوا کا رخ بدل دینے کا عزم رکھتے ہیں۔ جو دریاﺅں کی روانی سے لڑنے اور اس کے بہاﺅ کو پھیر دینے کی ہمت رکھتے ہیں۔ جو صبغتہ اللہ کو دنیا کے ہر رنگ سے زیادہ محبوب رکھتے ہوں اور اسی رنگ میں تمام دنیا کو رنگ دینے کا حق رکھتے ہوں۔ مسلمان جس کا نام ہے وہ دریا کے بہاﺅ پر بہنے کے لیے پیدا ہی نہیں کیا گیا ہے۔ اس کی آفرینیشن کا تو مقصد ہی یہ ہے کہ زندگی کے دریا کو اس پر رواں کردے جو اس کے ایمان و اعتقاد میں راہ راست ہے۔ صراط مستقیم ہے۔ اگر دریا نے اپنا رخ اس راستہ سے پھیر دیا تو اسلام کے دعوے میں وہ شخص جھوٹا ہے۔ جو اس بدلے ہوئے رخ پر بہنے ک لیے راضی ہوجائے۔ حقیقت میں جو سچا مسلمان ہے وہ اس غلط رو دریا کی رفتار سے لڑے گا۔ اس کا رخ پھیرنے کی کوشش میں اپنی پوری قوت صرف کردے گا۔ کامیابی اور ناکامی کی اس کو قطعاً پرواہ نہ ہوگی۔ وہ ہر اس شخص کو گوارا کرلے گا جو اس لڑائی میں پہنچے یا پہنچ سکتا ہو۔ حتیٰ کہ اگر دریا کی روانی سے لڑتے لڑتے اس کے بازو ٹوٹ جائیں۔ اس کے جوڑ بند ڈھیلے ہوجائیں اور پانی کی موجیں اس کو نیم جان کرکے کسی کنارے پر پھینک دیں تب بھی اس کی روح ہر گز شکست نہ کھائے گی۔ ایک لمحہ کے لیے بھی اس کے دل میں اپنی اس ظاہری نامرادی پر افسوس یا دریا کی رو پر بہنے والے کافروں یا منافقوں کی کامرانیوں پر رشک کا جذبہ راہ نہ پائے گا۔قرآن تمہارے سامنے ہے۔ انبیاءعلیہم السلام کی سیرتیں تمہارے سامنے ہیں ۔ ابتداءسے لے کر آج تک علمبرداران اسلام کی زندگی تمہارے سامنے ہیں۔ کیا ان سب سے تم کو یہی تعلیم ملتی ہے کہ ہوا جد ھر اڑائے ادھر اڑ جاﺅ؟ پانی جدھر بہائے ادھر بہہ جاﺅ؟ زمانہ جو رنگ اختیار کرے اسی رنگ میں رنگ جاﺅ؟ اگر مدعا یہی ہوتا تو کسی کتاب کے نزول اور کسی نبی کی بعث کی ضرورت ہی کیا تھی۔ ہوا کی موجیں تمہاری ہدایت کے لیے اور حیات دنیاکا بہاﺅ تمہاری رہنمائی کے لیے اور زمانے کی نیرنگیاں تمہیں گرگٹ کی روش سکھانے کے لیے کافی تھیں۔ خدا نے کوئی کتاب ایسی ناپاک تعلیم دینے کے لیے نہیں بھیجی اور نہ اس غرض کے لیے کوئی نبی مبعوث کیا۔ ذات حق کی طرف سے تو جو پیغام آیا ہے۔ اس لیے آیا ہے کہ دنیا جن غلط راستوں پر چل رہی ہے ان سب کو چھوڑ کر ایک سیدھا راستہ مقرر کرے۔ اس کے خلاف جتنے راستے ہوں ان کو مٹائے اور دنیا کو ان سے ہٹانے کی کوشش کرے‘ ایمانداروں کی ایک جماعت بنائے جو نہ صرف خود اس سیدھے راستے پر چلیں بلکہ دنیا کو بھی اس کی طرف کھینچ لانے کی کوشش کریں۔ انبیاءعلیہم السلام اور ان کے متبعین نے ہمیشہ اسی غرض سے جہاد کیا ہے۔ اس جہاد میں اذیتیں اٹھائی ہیں۔ نقصان برداشت کیے ہیں۔ اور جانیں دی ہیں۔ ان میں سے کسی نے مصائب کے خوف یا منافع کے لالچ سے رفتار زمانہ کو کبھی اپنا مقتدا نہیں بنایا۔ اب اگر کوئی شخص یا کوئی گروہ ہدایت آسمان کے بتائے ہوئے راستہ پر چلنے میں نقصان اور مشکلات اور خطرات دیکھتا ہے اور ان سے خوفزدہ ہوکر کسی ایسے راستے پر جانا چاہتا ہے جس پر چلنے والے اس کو خوشحال‘ کامیاب اور سربلند نظر آتے ہیں تو وہ شوق سے اپنے پسندیدہ راستے پر جائے۔ مگر وہ بزدل اور حریص انسان اپنے نفس کو دنیا کو یہ دھوکہ دینے کی کوشش کیوں کرتا ہے کہ وہ خدا کی کتاب اوراس کے نبی کے بتائے ہوئے طریقے کو چھوڑ کر بھی اس کا پیرو ہے؟ نافرمانی خود ایک بڑا جرم ہے۔ اس پرجھوٹ اور فریب اور منافقت کا اضافہ کرکے آخر کیا فائدہ اٹھانا مقصود ہے۔؟یہ خیال کہ زندگی کا دریا جس رخ پربہہ گیا اس سے وہ پھیرا نہیں جاسکتا عقلاً بھی غلط ہے اور تجربہ ومشاہدہ بھی اس کے خلاف گواہی دیتا ہے۔ دنیا میں ایک نہیں سینکڑوں انقلاب ہوئے ہیں اور ہر انقلاب نے اس دریا کے رخ کو بدلا ہے۔ اس کی سب سے زیادہ نمایاں خود اسلام ہی میں موجود ہے۔ محمد جب دنیا میں تشریف لائے تو زندگی کا دریا کس رخ پر بہہ رہا تھا؟ کیا تمام دنیا پر کفرو شرک کا غلبہ نہ تھا؟ کیا استبداد اور ظلم کی حکومت نہ تھی؟ کیا انسانیت کو طبقات کی ظالمانہ تقسیم نے داغدار نہ بنا رکھا تھا؟ کیا اخلاق پر خواحش‘ معاشرت پر نفس پرستی‘ معیشت پر ظالمانہ جاگیرداری و سرمایہ داری اور قانون کی بے اعتدالی کا تسلط نہ تھا۔ مگر ایک تن واحد نے اٹھ کر تمام دنیا کو چلینج دے دیا۔ تمام ان غلط خیالات اور غلط طریقوں کو رد کردیا جو اس وقت دنیا میں رائج تھے۔ ان سب کے مقابلہ میں اپنا ایک عقیدہ اور اپنا ایک طریقہ پیش کیا اور چند سال کی مختصر مدت میں اپنی تبلیغ اور جہاد سے دنیا کے رخ کو پھیر کر اور زمانہ کے رنگ کو بدل کر چھوڑا۔تازہ ترین مثال اشتراکی تحریک کی ہے۔ انیسویں صدی میں سرمایہ داری کا تسلط اپنی انتہا کو پہنچ چکا تھا۔ کوئی بزدل مرغ باد نما اس وقت یہ تصور بھی نہ کرسکتا تھا۔ کہ جو نظام ایسی ہولناک سیاسی اور جنگی قوت کے ساتھ دنیا پر مسلط ہے اس کو الٹ دینا بھی ممکن ہے۔ مگر انہی حالات میں ایک شخص کارل مارکس نامی اٹھا اور اس نے اشتراکیت کی تبلیغ شروع کی۔ حکومت نے اس کی مخالفت کی‘ وطن سے نکالا گیا۔ ملک ملک کی خاک چھانتا پھرا۔ تنگ دستی اور مصیبت سے دوچار ہوا۔ مگر مرنے سے پہلے اشتراکیوں کی ایک طاقت ور جماعت پیدا کرگیا۔ جس نے چالیس سال کے اندر نہ صرف روس کی سب سے زیادہ خوفناک طاقت کو الٹ کر رکھ دیا بلکہ تمام دنیا میں سرمایہ داری کی جڑیں ہلا دیں اور اپنا ایک معاشی اور تمدنی نظریہ اس قوت کے ساتھ پیش کیا کہ آج دنیا میں اس کے متبعین کی تعداد روز بروز بڑھتی چلی جارہی ہے۔ اور ان ممالک کے قوانین بھی اس سے متاثر ہورہے ہیں جن پر سرمایہ داری کی حکومت گہری جڑوں کے ساتھ جمی ہوئی ہے۔مگر انقلاب یا ارتقاءہمیشہ قوت ہی کے اثر سے رونما ہوا ہے۔ اور قوت ڈھل جانے کا نام نہیں ڈھال دینے کا نام ہے۔ مڑجانے کو قوت نہیں کہتے۔ موڑد ینے کو کہتے ہیں۔ دنیا میں کبھی نامردوں اور بزدلوں نے کوئی انقلاب پیدا نہیں کیا۔ جو لوگ اپنا کوئی اصول‘ کوئی مقصد حیات‘ کوئی نصب العین نہ رکھتے ہوں جو بلند مقصد کے لیے قربانی دینے کا حوصلہ نہ رکھتے ہوں۔ جن کو دنیا میں محض آسائش اور سہولت ہی مطلوب ہو۔ جو ہر سانچے میںڈھل جانے اور ہر دباﺅ سے دب جانے والے ہوں۔ ایسے لوگوں کا کوئی قابل ذکر کارنامہ انسانی تاریخ میں نہیں پایا جاتا۔ تاریخ بنانا بہادر مردوں کاکام ہے۔ انہی نے اپنے جہاد اور اپنی قربانیوں سے زندگی کے دریا کا رخ پھیرا ہے۔ دنیا کے خیالات بدلے ہیں۔ مناہج عمل میں انقلاب برپا کیا ہے۔ زمانے کی رنگ میں رنگ جانے کی بجائے زمانے کو خود اپنے رنگ میں رنگ کر چھوڑا ہے۔پس یہ نہ کہو کہ دنیا جس راستہ پر جاری ہے اس سے وہ پھیری نہیں جاسکتی اور زمانے کی جو روش ہے اس کا اتباع کیے بغیر چارہ نہیں ۔ مجبوری کا جھوٹا دعویٰ کرنے کی بجائے تم کو خود اپنی کمزوری کا سچا اعتراف کرنا چاہیے اور جب اس کا اعتراف کرلو گے تو تم کو یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ کمزور کے لیے دنیا میں نہ کوئی مذہب ہوسکتا ہے‘ نہ کوئی اصول اور نہ کوئی ضابطہ اس کو تو ہر زور آور سے دبنا پڑے گا۔ ہر طاقتور کے آگے جھکنا پڑے گا۔ ۔ وہ کبھی اپنے کسی اصول اور کسی ضابطہ کا پابند نہیں ہوسکتا۔ اگر کوئی مذہب اس کے لیے اپنے اصول بدلتا چلا جائے تو وہ سرے سے کوئی مذہب ہی نہ رہے گا۔
Powered by WordPress