فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

June 23, 2010

اداروں کا استحکام – کامیابی کی کلید

Filed under: پاکستان,خبریں,سیاست,عمومیات,مشاہدات — ابو عزام @ 10:55 pm
اخبارات میں خبر گرم ہے کہ صدر اوبامہ نے جنرل میک کرسٹل کو برطرف کردیا۔ جنرل صاحب نے کمانڈر انچیف (صدر مملکت) سے اپنے غیر ذمہ دارانہ طرز عمل پرمعذرت کی اور    امریکی حکومت کے اعلی اہلکاروں اور افغانستان میں امریکی سفیر کو تنقید کا نشانہ بنانے پر افسوس کا اظہار کیا۔
اس فور اسٹار جرنیل کے برطرف کئے جانے پرنا تو  بقول پیر پگارو ‘بوٹوں کی چاپ’ سنائی دی گئی، حیرت انگیز طور پر برگیڈ 1 نے وائٹ ہاوس کا محاصرہ نہ کیا اور نا ہی کوئی کور کمانڈر ڈسٹرکٹ آف کولمبیا ان کی ملاقات کے لئےلمحہ بہ لمحہ رابطے میں رہا۔ اس سے پہلے جب  صدر فورڈ نے جنرل ڈگلس مک آرتھر کودوران جنگ ایک غیر ذمہ دارانہ خط لکھنے کے الزام میں 10 اپریل 1951 کو برطرف کیا تو جنرل اپنی کئریر کی بلندیوں پر تھے اور انکے ساتھ تمام عوامی ہمدردیاں بھی شامل تھیں، اس قدر کہ انہیں اگلی مرتبہ ریپبلیکن پارٹی کی طرف سے صدارتی انتخاب کی بھی پیشکش کی گئی تھی اور انکی تقریر پر اسوقت کی کانگریس کے اراکین نے انہیں 50 مرتبہ ‘اسٹینڈینگ اویشن’ اٹھ کر داد دی۔ لیکن عجیب معاملہ ہے کہ نکالے جانے پر دارورسن سجے اور نا خلق خدانےعزیز ہموطنوں کی آواز سنی اور نا ہی جنرل نے قصر صدارت کا قصد کیا۔ سوئلین صدر کا حکم سنا اور چپکے سے گھر کی راہ لی.ڈیڑھ سو سال پہلےمارچ  1862 میں لنکن نے بھی جنرل مککیلن کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا تھا اور وہ بھی خاموشی سے گھر سدھار گئے تھے  کہ یہی جمہوری طریقہ ہے اور زندہ قومیں اپنے ہی گھر ڈاکے نہیں ڈالا کرتیں۔ فراز کیا خوب کہ گئےہیں کہ
مرا قلم نہیں اوزار اس نقب زن کا
جو اپنے گھر کی ہی چھت میں شگاف ڈالتا ہے
مرا قلم نہیں اس دزدِ نیم شب کا رفیق
جو بے چراغ گھروں پر کمند اچھالتا ہے
دور کیوں جائیں، پچھلے سال جب پڑوسی ملک میں لیفٹننٹ جنرل آویدیش پرکاش کولینڈ مافیا کے سلسلے میں سزا ہوئی تو کسی کا پندار آڑے نا آیا۔ آپ نے جنرل وجے کمار اورجنرل دیپک کپور کا نام سنا ہو یا نہیں، جارج فرنانڈس، پرناب مکھرجی اور اے کے انتھونی آپ کو ضرور یاد ہونگے کہ آخر الذکر افراد سویلین وزارت دفاع کے لیڈران ہیں جن کی سامنے سپہ سالار کو حد ادب یاد رکھنا پڑتی ہے ۔ اگر اپنی سنہری تاریخ پر نظر ڈالیں کہ جب خلیفہ دوئم رضی اللہ تعالی عنہ کا فرمان آیا تو معزول کمانڈر خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ  جیسا جری مجاہد بلا چون و چرا سر جھکاے واپسی کا سفر اختیار کرنے لگا اور جب وقت کے حکمران سلیمان بن عبدالمالک نےفاتح سندھ سپہ سالار ابن قاسم کو معزول کر کے شام طلب کیا تو وہ اتباع نظم اور رضا کی تصویر بن کر مقتل کی طرف روانہ ہوئے جب کہ فرزندادن سندھ کی تلواریں اس عظیم جرنیل کی حفاظت کے لئے بے قرار تھیں۔ اطاعت امیر و اولی الا مر، اداروں کی مضبوطی اور قانون کی حکمرانی کسی بھی زندہ معاشرے کے کلیدی اوصاف ہیں جو کہ آج ہمارے معاشرے سے معدوم ہوچکے ہیں۔

  

معاشرے میں رائج نظام کی طاقت اس کےاداروں کی مضبوطی میں پوشیدہ ہوتی ہے۔ چہے وہ فوج ہو، مقننہ ہو، عدلیہ ہو یا سول سروسز۔  ادارے جتنے زیادہ فعال ہونگےاور اپنے دائرہ کار میں اپنی ذمہ داریاں بخوبی نبھائں گے،وہ اتنا ہی طاقتورنظام بنا سکیں گے۔ اگر تعلیمی بورڈ جعلی ڈگریوں پر کسی دباو کو قبول نہ کرے، اگر الیکشن کمیشن صاف اور غیرجانبدارانہ انتخابات کروائے، اگر محکمہ تعلیم گھوسٹ اسکولوں کا خاتمہ اپنا مشن بنائے ، پولیس امن و آمان کو بلا دباو اپنی پہلی ترجیح خیال دے اور ہر ادارہ اپنی عملداری میں کام کرے تو کامیابی کی منزل زیادہ دور نہیں۔ لیکن کس کو الزام دیں کہ جب اپنے ہی لوگ ایک راہزن سپہ سالار کو بہترین حکمران قرار دینے پر تلے ہوں اور انکی واپسی شب و روزانتظار کر رہے ہوں۔ اسی زمن میں فراز کی سقوط ڈھاکہ کی نظم یاد آگئ، بر محل ہے سو چلو لکھتے چلیں۔

  

میں نے اب تک تمھارے قصیدے لکھے
اورآج اپنے نغموں سے شرمندہ ہوں
اپنے شعروں کی حرمت سے ہوں منفعل
اپنے فن کے تقاضوں سے شرمندہ ہوں
اپنےدل گیر پیاروں سےشرمندہ ہوں
جب کبھی مری دل ذرہ خاک پر
سایہ غیر یا دست دشمن پڑا
جب بھی قاتل مقابل صف آرا ہوئے
سرحدوں پر میری جب کبھی رن پڑا
میراخون جگر تھا کہ حرف ہنر
نذر میں نے کیا مجھ سے جو بن پڑا
آنسوؤں سے تمھیں الوداعیں کہیں
رزم گاہوں نے جب بھی پکارا تمھیں
تم ظفر مند تو خیر کیا لوٹتے
ہار نے بھی نہ جی سے اتارا تمھیں
تم نے جاں کے عوض آبرو بیچ دی
ہم نے پھر بھی کیا ہےگوارا تمھیں
سینہ چاکان مشرق بھی اپنے ہی تھے
جن کا خوں منہ پہ ملنے کو تم آئے تھے
مامتاؤں کی تقدیس کو لوٹنے
یا بغاوت کچلنے کو تم آئے تھے
ان کی تقدیر تم کیا بدلتے مگر
ان کی نسلیں بدلنے کو تم آئے تھے
اس کا انجام جو کچھ ہوا سو ہوا
شب گئی خواب تم سے پریشاں گئے
کس جلال و رعونت سے وارد ہوئے
کس خجالت سے تم سوئے زنداں گئے
تیغ در دست و کف در وہاں آئے تھے
طوق در گردن و پابجولاں گئے
جیسے برطانوی راج میں گورکھے
وحشتوں کے چلن عام ان کے بھی تھے
جیسے سفاک گورے تھے ویت نام میں
حق پرستوں پہ الزام ان کے بھی تھے
تم بھی آج ان سے کچھ مختلف تو نہیں
رائفلیں وردیاں نام ان کے بھی تھے
پھر بھی میں نے تمھیں بے خطا ہی کہا
خلقت شہر کی دل دہی کےلیئے
گو میرے شعر زخموں کے مرہم نہ تھے
پھر بھی ایک سعی چارہ گری کیلئے
اپنے بے آس لوگوں کے جی کیلئے
یاد ہوں گے تمھیں پھر وہ ایام بھی
تم اسیری سے جب لوٹ کر آئے تھے
ہم دریدہ جگر راستوں میں کھڑے
اپنے دل اپنی آنکھوں میں بھر لائے تھے
اپنی تحقیر کی تلخیاں بھول کر
تم پہ توقیر کے پھول برسائے تھے
جنکے جبڑوں کو اپنوں کا خوں لگ گیا
ظلم کی سب حدیں پاٹنے آگئے
مرگ بنگال کے بعد بولان میں
شہریوں کے گلے کاٹنے آگئے
ٓاج سرحد سے پنجاب و مہران تک
تم نے مقتل سجائے ہیں کیوں غازیو
اتنی غارتگری کس کی ایما پہ ہے
کس کے آگے ہو تم سر نگوں غازیو
کس شہنشاہ عالی کا فرمان ہے
کس کی خاطر ہے یہ کشت و خوں غازیو
کیا خبر تھی کہ اے شپرک زادگاں
تم ملامت بنو گے شب تار کی
کل بھی غا صب کے تم تخت پردار تھے
آج بھی پاسداری ہے دربار کی
ایک آمر کی دستار کے واسطے
سب کی شہ رگ پہ ہے نوک تلوار کی
تم نے دیکھے ہیں جمہور کے قافلے
ان کے ہاتھوں میں پرچم بغاوت کے ہیں
پپڑیوں پر جمی پپڑیاں خون کی
کہ رہی ہیں یہ منظر قیامت کے ہیں
کل تمھارے لیئے پیار سینوں میں تھا
اب جو شعلے اٹھے ہیں وہ نفرت کے ہیں
آج شاعر پہ بھی قرض مٹی کا ہے
اب قلم میں لہو ہے سیاہی نہیں
خون اترا تمھاراتو ثابت ہوا
پیشہ ور قاتلوں تم سپاہی نہیں
اب سبھی بے ضمیروں کے سر چاہیئے
اب فقط مسئلہ تاج شاہی نہیں
Share

June 17, 2010

حساب سود و زیاں

Filed under: ادبیات,طنزومزاح — ابو عزام @ 7:27 am
میں یہ ثابت کرنے کی کوشش نہیں‌ کر رہا کہ اگر سن پیدائش یاد رکھنے کا رواج بیک گردش چرخ نیلوفری اٹھ جائے تو بال سفید ہونا بند ہو جائیں گے۔ یا اگر کیلنڈر ایجاد نہ ہوا ہوتا تو کسی کے دانت نا گرتے۔ تاہم اس میں کلام نہیں کہ جس شخص نے بھی ناقابل تقسیم رواں دواں وقت کو پہلی بار سیکنڈ، سال۔ اور صدی میں تقسیم کیا، اس نے انسان کو صحیح معنوں میں پیری اور موت کا زائقہ چکھایا۔ وقت کو انسان جتنی بار تقسیم کرے گا، زندگی کی رفتار اتنی تیز اور نتیجتہ موت  اتنی ہی قریب ہوتی چلی جاے گی۔ اب جب کہ زندگی اپنے آپ کو کافی کے چمچوں اور گھڑی کی ٹک ٹک سے ناپتی ہے، تہذیب یافتہ انسان اس لوٹ کر نا آنے والے نیم روشن عہد کی ظرف پیچھے مڑ مڑ کر دیکھتا ہے جب وہ وقت کا شمار دل کی دھڑکنوں سے کرتا تھا اور عروس نو رات ڈھلنے کا اندازہ کانوں کے موتیوں کے ٹھنڈے ہونے اور ستاروں کے  جھلملانے سے لگاتی تھی
نہ گھڑے ہے واں نہ گھنٹہ    نہ شمار  وقت و ساعت
مگر اے چمکنے والو!     ہو تمہیں انہیں سجھاتے
کہ گئی ہے رات کتنی
از مشتاق احمد یوسفی، چراغ تلے ‘سنہ’
Share

May 20, 2010

آزادی اظہار – اسلامی اور مغربی تہذیبی اقدار کا تقابلی جائزہ

Filed under: مذہب,مشاہدات — ابو عزام @ 11:34 pm
آزادی اظہار رائے ‘ یا ‘فریڈم آف اسپیچ اینڈ ایکسپریشن’ آجکل کے حالات کے تناظر میں ایک اہم اور توجہ طلب موضوع ہے ۔ اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ اس بنیادی تفاوت کو سمجھا جائے جو کہ  اسلامی اور مغربی تہذیبی کے اقدار میں تصادم کا باعث ہے تاکہ بہتری کی سعی کی جا سکے ۔ ہم اس مضمون میں آزادی اظہار کے زمن میں اسلامی اور مغربی رویوں پرکچھ معروضی خیالات پیش کریں گے۔ اس تحریر میں ہم ان شکوک اور ‘کانسپیریسی تھوریز’ کا ازالہ کرنا چاہیں گے کہ شماتت کی جو  تحریک مغربی دنیا میں چل رہی ہے اس کا مرکز و منبع صیہونیت ہے اور اس بات پر کچھ روشنی ڈالیں گے کہ مغرب میں آزادی رائے پر اسقدر اصرار کیوں کیا جاتا ہےاور یہ بات مغرب کو سمجھانا اتنا مشکل کیوں ہے کہ تعظیم انبیا مسلمانوں کا جزو ایمان ہے اور انکی شان میں گستاخی ہمارے لئے نہایت غم و غصے کا باعث۔ اس مضمون کے ماخذات محققین کی تشفی کے لئے آخر میں درج ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی زندگی سے ہمیں یہ مثالیں واضع ملتی ہیں کہ اسلامی نظام زندگی میں ہر طرح کے اختلاف رائے کی اجازت ہے الا کہ وہ نصوص قطعی‌ یعنی اللہ اور اسکے رسول کے واضع احکامات کے خلاف نا ہو، شعائر اسلام کا مذاق نا اڑایا جائے  وغیرہ۔ رسول صلئ اللہ علیہ وسلم اور انبیا علیھم السلام کے سوا کوئی بھی فرد معصوم نہیں اور اسکے وہ افعال جو احکامات الہیہ کے خلاف ہوں، لایق تنقید ہیں۔ اسلامی نظام زندگی میں حقوق العباد کا جو نظریہ پیش کیا گیا ہے وہ نہایت جامع ہے جو کہ لغویات اور لوگوں کی دل آزاری اور ہنسی اڑانے سے باز رکھنے پراخلاقی قدغن لگاتا ہے۔ سورۃ الحجرات میں اللہ سبحانہ تعالی فرماتے ہیں
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا يَسْخَرْ قَومٌ مِنْ قَوْمٍ عَسَى أَنْ يَكُونُوا خَيْراً مِنْهُمْ وَلا نِسَاءٌ مِنْ نِسَاءٍ عَسَى أَنْ يَكُنَّ خَيْراً مِنْهُنَّ وَلا تَلْمِزُوا أَنفُسَكُمْ وَلا تَنَابَزُوا بِالأَلْقَابِ بِئْسَ الاِسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الإِيمَانِ وَمَنْ لَمْ يَتُبْ فَأُوْلَئِكَ هُمْ الظَّالِمُونَ۔ (الحجرات49:11)  ’’اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائے۔ عین ممکن ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ ہی  خواتین ، دوسری خواتین کا مذاق اڑائیں۔ ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔ ایک دوسرے کی عیب جوئی نہ کرو اور نہ ہی ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد کرو۔ ایمان کے بعد فسق و فجور کے نام بہت بری چیز ہیں۔ جو لوگ توبہ نہ کریں ، وہی ظالموں میں سے ہیں۔ ‘
لیکن جہاں پر عیب جوئی، غیبت اور بہتان طرازی سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے وہاں پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ مبارک یہ بھی ہے کہ :
إن أفضل الجهاد كلمة حق عند سلطان جائر
جابر بادشاہ کے سامنے کلمۂ حق کہنا ، افضل جہاد ہے ۔
مسند احمد ، المجلد الثالث ، مسند ابي سعيد الخدري رضي الله تعالىعنه
اس زمن میں ظلم و جبر کے خلاف آواز اٹھانا، حکام کی رائے سے اختلاف کرنا، عوامل سے جواب طلب کرنا اور اپنی رائے کا برملا اظہار کرنا اصحاب اور سلف کے طریقے سے ثابت ہے لہذا یہ کہنا کہ اسلام آزادی رائے کو سلب کرتا ہے، ایک بے بنیاد بات ہے۔ اسلام ان ابتدائی تہذیبوں میں سے ہے جہاں کوئی فرد مقدس گائے نہیں اور اس کی بنا خلافت راشدہ کی مثالوں سے صاف ملتی ہے۔ اسلام پر آزادی اظہار سلب کرنے کا الزام لگانے والے افراد کا مطالعہ محدود ہے کہ وہ سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ابواب سے واقف نہیں۔ غرضیکہ اسلام میں اختلاف رائے کا بنیادی اصول دینی احکامات کے بارئے میں یہ ہے کہ جو احکام کتاب و سنت میں واضح طور پر بیان فرما دیے گئے ہیں انسے اختلاف کرنا کسی بھی شخص کے لئے جائز نہیں ہے۔ دوسری قسم کے معاملات وہ ہیں جس میں کسی آیت یا حدیث کی مختلف توجیہات ممکن ہوں، اس میں قیاس کیا جا سکتا ہو اور ایک توجیہ یا قیاس کرنے والا عالم ایک معنی کو اختیار کر لے اور دوسرا دوسرے معنی کو، تو ایسا اختلاف جائز ہے۔ جہاں تک دنیوئ معاملات کا خیال ہے، اس کے بارئے میں جیسا کہ فرمایا گیا
صحیح مسلم ، کتاب الفضائل ، حدیث نمبرات : ٣١ ، ٣٢
باب : وجوب امتثال ما قالہ شرعاً دون ما ذکرہ من معایش الدنیا علیٰ سبیل الرّای ۔
( باب : آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) جوشرع کا حکم دیں ، اُس پر چلنا واجب ہے ۔ اور جو بات دنیا کی معاش کی نسبت اپنی رائے سے فرما دیں ، اُس پر چلنا واجب نہیں )۔
١) طلحہ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے روایت ہے ، میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ گذرا ۔ کچھ لوگوں پر ، جو کھجور کے درختوں کے پاس تھے ، آپ نے فرمایا : یہ لوگ کیا کرتے ہیں ؟ لوگوںنے عرض کیا ، پیوند لگاتے ہیں یعنی نر کو مادہ میں رکھتے ہیں اور وہ گابہہ ہو جاتی ہے ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا : میں سمجھتا ہوں اس میں کچھ فائدہ نہیں ہے ۔ یہ خبر اُن لوگوں کو ہوئی تو انھوں نے پیوند کرنا چھوڑ دیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو بعد میں یہ خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا : اگر اس میں اُن کو فائدہ ہے تو وہ کریں ، میں نے تو ایک خیال کیا تھا۔ میرے خیال پر مواخذہ مت کرو۔ لیکن جب میں اللہ کی طرف سے کوئی حکم بیان کروں تو اس پر عمل کرو ، اس لیے کہ میں اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنے والا نہیں۔
٢) رافع بن خدیج سے روایت ہے … ……… آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا اگر تم یہ کام نہ کرو تو شاید بہتر ہوگا۔ انہوں نے گابہہ کرنا چھوڑ دیا تو کھجوروں کی افزائش گھٹ گئی۔ لوگوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے یہ بیان کیا ۔ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا : میں تو آدمی ہوں جب کوئی دین کی بات تم کو بتلاؤں تو اس پر چلو اور جب کوئی بات مَیں اپنی رائے سے کہوں تو آخر مَیں آدمی ہوں ( یعنی آدمی کی رائے ٹھیک بھی پڑتی ہے ، غلط بھی ہوتی ہے )۔
٣) انس(صلی اللہ علیہ وسلم) سے روایت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا : اگر نہ کرو تو بہتر ہوگا۔ انہوں نے نہیں کیا ، اور آخر خراب کھجور نکلی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) ادھر سے گزرے اور لوگوں سے پوچھا : تمھارے درختوں کو کیا ہوا ؟ انھوں نے کہا آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے ایسا فرمایا تھا کہ گابہہ نہ کرو ، ہم نے نہ کیا ، اس وجہ سے خراب کھجور نکلی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا : تم اپنے دنیا کے کاموں کو مجھ سے زیادہ جانتے ہو۔
یہ معاش اور ‘سیکولر’ کاموں میں آزادی اظہار و روش کی ایک بہترین مثال ہے اور دینی معاملات میں یہ اصول متعین کرتی ہے کہ ‘جو کچھ تمھیں رسول دیں ، اسے لے لو اور جس چیز سے منع کریں اس سے رُک جاؤ۔ ( الحشر : ٧ ) اور دنیاوی معاملات میں انفرادی آزادی پر دلالت کرتی ہے۔
اب ہم مغربی تہذیب میں آزادی اظہار پر بات کرتے ہیں۔ اس زمن میں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ آزادی اظہار کا تعلق مغربی تہزیب کے ارتقا سے ہے جو اسکو اس معاشرت کا بنیادی عنصربناتی ہے۔ تاریخی طور پرجب یورپ میں کلیسا کی حکمرانی تھی تو اس کے خلاف بولنےکے بہت برے نتایج نکلا کرتے تھے، گلیلیو کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ صدیوں کا ‘وچ ہنٹ’ کلیسا کے مظالم کی ایک چھوٹی سی مثال ہے جس نے مغربی اقوام کو آزادی اظہارپر پابندی اور ظلم و جبر کو ایک ہی سکے کے دو رخ سمجھنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اسی لئے مغربی اقوام نے اپنے قوانین اور آئین میں آزادی اظہار کو بنیادی حیثیت دی ہے۔ امریکہ کے قیام کے بنیادی مقاصد میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ ملک یوروپ سے بھاگ کر آئے ہوئے ان مسافروں ‘پلگرمز’ کی بدولت وجود میں آیا جو یورپ میں کلیسا کہ ظلم و ستم سے تنگ آ کر نئی دنیا میں پناہ لینے آئے تھے لہذا یہاں انہیں تحریر و تقریر، مذہب اور تمام عقائد پر عمل کرنے کی مکمل آزادی ہوگئ ۔
۔ اس زمن میں یہ بات توجہ کی حامل ہے کہ کسی بھی مغربی ملک میں آزادی اظہار مطلق، ‘ایبسولوٹ’ یعنی اپنی سراسریا مکمل اصولی شکل میں عملی طور پر نافذ نہیں۔ اب جو باتیں آپ پڑھیں گے وہ تضاداد کا مجموعہ نظر آئیں گی لیکن یہی آزادی اظہار کی حقیقت ہے۔ منافرتی تحریر و تقریر پر قدغن یورپ کے بیشتر ممالک میں رائج ہے جو کہ آزادی اظہار کے بنیادی مطلق اصولوں کے خلاف ہے۔ اسی طرح فرانس، آسٹریا اور جرمنی میں ایسی تحریرو تقریر جو ہالوکاسٹ یا دوسری جنگ عظیم میں یہودیوں کے قتل عام کا انکار کرئے، قانونا منع ہیں۔آئرلینڈ میں مذہبی سب و شتم یا بلاسفیمی قانونا جرم ہے۔ لیکن امریکہ میں جس کو ہمارئے یہاں کے ٹی وی دانشور مطلق یہودی نواز سمجھتے ہیں ،درحقیقت اس بات کی قانونا اجازت ہے کہ ہالوکاسٹ ( دوسری جنگ عظیم میں نازی جرمنوں کے ہاتھوں یہودیوں، روسیوں، معذوروں، بے خانماں لوگوں کے قتل عام ) کا انکار کر سکیں۔ امریکی(اور دیگر مغربی ) ادیبوں نے ہالوکاسٹ کے خلاف کتابیں لکھی ہیں اور ڈیوڈ ڈیوک جیسے لوگ آزاد گھومتے ہیں جو کھلے عام اس انسانی سانحے کو فراڈ قرار دیتے ہیں، یہ آزادی اظہار کی ایک تلخ لیکن حقیقی مثال ہے۔ اس زمن میں ہمیں اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ کہیں ہم غلطی سے جس ‘دشمن کے دشمن’ کو اپنا دوست سمجھ رہے ہیں، کہیں اسکا اپنا کوئی مخفی ایجنڈا تو نہیں؟ ڈیوڈ ڈیوک اور اس جیسے کئی سفیدفام نسل پرست یہودی مخالف یا ‘اینٹی سیمیٹک’  بنیادی طور پر اپنی نسل پرستانہ نازی زہنیت کی بنا پر ہیں اور ان سے کسی بھی قسم کا اتحاد و تعلق مسلمانوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔
لیکن ریاستہاے متحدہ امریکہ میں بھی  آزادی راے کے قانون کو مطلق آزادی حاصل نہیں مثلا جہاں نفرت آمیز، نسلی، جنسی و سیاسی تنقید،  تحریر و تقریرکی عمومی طور پر پوری آزادی ہے وہاں فحاشی، بچوں سے متعلق جنسی مواد اور کوئی ایسی تحریر و تقریر جوامن عامہ کے لئے لازمی خطرے کا باعث ہو قانونا منع ہے۔ اور تو اور گالی دینے پر بھی آپ کو قانونا جرمانا ہو سکتا ہے۔ آپ امریکی صدر کی شان یا ہجو میں جو چاھے کہیں لیکن کسی بھی قسم کی پر تشدد دھمکی آپکو فورا جیل کا منہ دکھا سکتی ہے۔ من الحیث المسلم اب آپ یہ سوچ رہے ہونگے کہ تشدد پر ابھارنا جرم لیکن مقدس ہستی کا مذاق اڑانا جرم نہیں، یہ کیسا انصاف ہے؟ لیکن بدقسمتی سے یہی وہ اختلاف اقدار اور تفاوت ہے جو مغرب اور اسلامی اقدار کو آزادی اظہار کے بارے میں جداگانہ تشخص دیتا ہے۔
اظہار رائے کی آزادی صرف رائے کی آزادی کا نام نہیں بلکہ تحریر و تقریر و عمل کی آزادی کا بھی نام ہے جسے امریکہ میں پہلی ائینی ترمیم کی حمایت حاصل ہے۔ عمل کی آزادی کی بنیادی شرط یہ رکھی جاتی ہے کہ اس سے کسی دوسرے کو تکلیف نا پہنچے۔ اس زمن میں ہم برطانیہ میں عوامی مقامات پر شراب نوشی کی مثال دینا چاہیں گے جو کہ قانونا جائز ہے جبکہ امریکہ میں یہ قطعی خلاف قانون ہے کہ عوامی مقامات جیسے سڑک، پارک وغیرہ پر مے نوشی کی جائے ۔ اکثر برطانوی نژاد امریکی اسے بنیادی حقوق کے خلاف سمجھتے ہیں۔ اسی طرح زنانہ پستان کی ستر پوشی کی جو حدود برطانیہ، اسرائیل یا آسٹریلیا میں قانونی ہیں وہ امریکہ کی بیشترریاستوں میں قطعی غیر قانونی قرار دی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ نجی ادارے اپنے قوانین بھی رکھتے ہیں جو آزادی اظہار میں مذید قدغنیں لگانے میں قانونا آزاد ہیں مثلا کوئی ایسا لفظ یا فقرہ جس سے کسی ملازم کی دل آزاری ہوتی ہواسے نجی اداروں میں ادا کرنے کی سختی سے ممانعت ہے۔ کسی کو رنگ، نسل، زبان، جنسی میلان یا مذہب کی بنیاد پر تفریق کا نشانہ بنانا تو منع ہے ہی لیکن اسے اس تناظر میںصرف مخاطب کرنا بھی آپکو نوکری سے ہاتھ دھونے کی نوبت دلا سکتاہے۔ لیکن اسی کی دوسری منفی حد فرانس میں عوامی مقامات پر حجاب پر عائد پابندی ہے جو آزادی اظہار کے بنیادی اصولوں کی نفی ہے۔ غرضیکہ جس آزادی اقدار و اظہار پر مغرب فخر کرتا ہے،یہاں اسی پر کئی بنیادی قدغنیں بھی لگائی جاتی ہیں لیکن عمومی رجحان یہی ہے کہ یہ ایک آزاد ملک ہے اور یہاں ہر فرد کو اپنے نظریہ، عقیدے کی مکمل آزادی ہے اور آزادی اظہار کا مکمل حق حاصل ہے۔ یہ بات وسیع پس منظر میں بہت حد تک درست ہے اور دعوت دین کے لئے رحمت کا باعث بھی۔ اب اگر کوئی یہ کہے کہ جناب مسلم ممالک میں توآزادی رائے کاعشر عشیر بھی حاصل نہیں، آپ مغرب کو نصیحت کرنے چلے ہیں تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ اول تو اسلامی نظام بیشتر مسلم اکثریتی ممالک میں اپنی اصل روح کے ساتھ موجود نہیں ورنہ آپ عوام الناس کو حکمرانوں سے انکے اعمال کا جواب طلب کرتے دیکھتے دوم یہ کہ  ہماری آزادی رائے بھی مغرب کی طرح مطلق نہیں بلکہ ہماری اسلامی اقدار کی پابند ہے۔ ہم آزادی رائے کے نعرے کے تلے مادر پدر آزاد نہ ہونگے مثلا فحاشی ، عریانی اور بیہودہ مواد کی تقسیم بیشتر مغربی ممالک میں آزادی اظہار کے تحت بالغان کے لئے جائز ہے لیکن یہ اسلامی ریاست میں سراسر نا جائز ہوگی وغیرہ۔ لیکن جہاں تک اختلاف رائے اور احتساب کی بات ہے، اس کی ایک اسلامی ریاست میں مکمل آزادی ہوگی۔
اس طویل تمہید و گفتگو سے ہمارا مدعا یہ بیان کرنا ہے کہ آزادی اظہار کسی بھی جگہ لا محدود نہیں۔ فرق صرف اس بات کا ہے کہ معاشرہ کس بات کوبرداشت کرتا ہے اور کس بات کو برا جانتا ہے، یہ فرق ہر اس معاشرے میں پایا جاتا ہے کہ جہاں معروف و منکر کی حدود انسان کی بنائ گئ ہوں۔ نیز چونکہ ہم اسلامی تہذیب سے وابستہ ہیں جہاں انبیا کی تعظیم کی جاتی ہے اور انکی تضحیک ایک قابل تعزیز فعل ہے، ہم یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ یہی اصول شائد مغربی معاشرے میں بھی لاگو ہونگے یا کم از کم وہ ہمارے جذبات کا خیال کریں گے جو کہ ایک مغالطہ ہے۔
دوسری طرف المیہ یہ ہے کہ مغرب میں ‘آیکنوکلاسٹ’ طبقے کی بہتات نہیں تو قابل توجہ موجودگی ہے جو کہ معاشرے کی تمام حدود و قیود کو پامال کرنے کے درپے رہتا ہے مثلا فری ٹاپ، نامبلا، اسکیپٹک سوسائیٹی وغیرہ ۔مذہب کو تفنن کا نشانہ بنانا اور اس پر آوازے کسنا برطانیہ میں تو عوامی مزاج کا حصہ ہے جس کی بنا پر سابق وزیر اعظم ٹونی بلئر کو اپنے عملی کیتھولک ہونے کا اعلان وزارت عظمی سے مستعفی ہونے کے بعد کرنا پڑا کیونکہ انکے بقول مذہبی افراد کو پاگل یا ‘نٹس’ سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح دائیں بازو کے قدامت پسند جو مسلمانوں سے نالاں رہتے ہیں، بائیں بازو کے افراد جو مذہب سے ہی عمومی طور پر بیزار ہیں اور ملحدانہ خیالات کے حامی لوگ مختلف حیلوں سے آزادی اظہار کی آڑ میں نفرت و تفنگ کے تیر چلاتے ہیں اور چونکے انہیں اس بات کا علم ہے کہ یہ مسلمانوں کو یہ امر انتہائی ناگوار گذرتا ہے، اس کو بار بار کرنے پر مصر نظر آتے ہیں۔
اس امرمیں اس بات کا خیال رکھنا چاھیے کہ انسانی فطرت بنیادی طور پر حلم اور اچھائی کی طرف مائل ہوتی ہے اور مغرب میں عمومی طور پر لوگ اس قسم کی لغویات کے حامی نہیں ہوتے۔ عام طور پر لوگ چاھے آپ کے نظریے سے اختلاف ہی کیوں نا رکھتے ہوں دل آزاری سے حد درجہ پرہیز کرتےہیں لیکن ہر دوسرے معاشرے کیطرح یہ خاموش اکثریت میں ہیں ۔ اسی وجہ سے معمولی ‘فرنج’ طبقات کو واضع ہونے کا موقع مل جاتا ہے جیسے ‘ساوتھ پارک’ کی طرح کے شو ہیں جن کا مقصد ہی ہر بات کا مذاق اڑانا ہے چاھے وہ کوئی فرد ہو یا مذہب، نظریہ ہو یا مقدس ہستی۔ اس کے خالقین میٹ اور ٹرے اپنے آپ کو ملحد گردانتے ہیں اورریٹنگس کے علاوہ انکا کوئی خدا نہیں۔ ان لوگوں سے کسی قسم کے سنجیدہ مکالمے کی توقع کرنا فضول ہے ۔ یہ لوگ اظہار رائے کی آزادی کے قوانین کافائدہ اٹھا کر لوگوں کی دل آزاری کرتے ہیں جس کی لپیٹ میں مسلمان، عیسائی، مورمن، ساینٹولوجسٹ، یہودی، ملحدین، سیاستدان، اکابرین وغیرہ سب آتے ہیں اورسب کو تضحیک و فضیحت، سب و شتم میں برابر کا حصہ ملتا ہے۔ یہ نا توکوئی یہودی و صیہونی سازش ہے اور نا کوئی کانسپیریسی پلاٹ، ہمیں حقیقت کو آنکھیں کھول کر دیکھنے اور اپنے تمام مسائل کے لئے’کانسپیریسی تھیوریز’ اور صیہونی سازشوں کو الزام دینے سے اجتناب کی اشد ضرورت ہے۔
جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے، اگر آپ ان افراد کی آواز کو دبانے یا سینسر کرنے کی بات کریں تو یہ آزادی رائے کی مغربی اقدار پر حملہ تصور ہوگا۔ جس طرح ہم مسلمانوں کو اپنی اقدار پیاری ہیں اسی طرح دین مغرب بھی اپنی بالادستی چاہتا ہے اور یہیں پر ان تہذیبی اقدار کا ٹکراو ہوتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین جیسے افراد کو مغربی ممالک اسلام دشمنی میں پناہ دیتے ہیں جبکہ ظاہری طور پرحقیقت یہ ہے (دلوں کے حال اللہ بہتر جانتا ہے) کہ انکو انکی اظہار رائے پر مبینہ عقوبت و ایذا رسانی ‘پرسیکیوشن’ سے بچنے کے لئے پناہ دی جاتی ہے ۔ اسی طرح جیسے دیگر ہزاروں افراد اسایلم یا سیاسی پناہ گزینی کی درخواست پر بیرون ملک جاتے ہیں۔ قادیانی بھی اسی رعائت کا فائدہ اٹھا کر اپنے آپ کو مظلوم اقلیت جتا کر ہمدردیاں اور ویزے سمیٹتے ہیں (میرے خیال میں قادیانی وہ اقلیت ہیں جن کی آنے والی نسلوں کو تنہا کر کے دعوت و تبلیغ کابیش قیمت موقع ضائع کیا گیا ورنہ مخلصانہ کوششوں سےانکو واپس دائرہ  اسلام میں لانا شائد اتنا مشکل نا ہوتا)۔ شاتم الرسول تھیو وین گوہ کے واصل جھنم کئے جانے جیسے واقعات آزادی مذہب و اظہار کی ہمدردی  کے ان مغربی جذبات کو تقویت دیتے ہیں اور اس زمن میں افراد، ادارے اور حکومتیں اظہار رائے کی آزادی کو بچانے کی کوششوں کے لئے مختلف اقدامات کرتے ہیں ۔ اس زمن میں کیر کے نہاد عود کاانگریزی مضمون پڑھنے کے قابل ہے.
تو اس طرح کے واقعات میں من الحیث المسلم ہمارا ردعمل کیا ہونا چاہیےِ؟ یہ ایک نہایت دقیق سوال ہے کیونکہ عملیت کی اشکال میں اختلاف انسانی فظرت کا خاصہ ہے۔ میری نہایت ناقص رائے میں جسے شائد کچھ لوگ ناقابل عمل بھی قرار دیں، اللہ سبحانہ تعالی میری غلطیوں سے درگذر فرمائے، ہمیں ایک حقیقی داعی کی طرح دعوت الی اللہ اور رائے عامہ کی بیداری پر کام کرنا پڑئے گا۔ جس طرح یہودیوں نے ہالوکاسٹ کو شجر ممنوعہ قرار دلوایا ہے، ہمیںمغربی آزادی رائے کی حدود کو مد نظر رکھتے ہوئے، عصمت انبیا و مقدس ہستیوں کے تقدس کو منوانا ہوگا جو کہ ایک دشوار اور محنت طلب کام ہے۔  مغربی تخیل میں ایک قتل عام’ہالوکاسٹ’ کو مقدس ہستی کے ‘محض کارٹون’ (نعوذباللہ)سے مقابلے کی کوئی نسبت نہیں لہذا اسے اس بات پر قائل کرنا کہ یہ مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے والی بات ہے ایک نہایت دشوار کام ہے۔ آپ چاھے جتنا تلملا لیں، ایک عام مغربی ذہن کو ان دونوں باتوں کو ایک طرح کی آزادی رائے سمجھنے میں اتفاق نا ہوگا کیونکہ ایک طرف آزادی اظہار و تحریر کی ایک شکل ہے اور دوسری طرف وسیع پیمانے پر نسل کشی کا دن منانا ، اسکا موازنہ مغربی سوچ میں آزادی اظہار کی کوئی مماثلت نہیں رکھتا۔ آپ اس بات کو کہنے پر راقم کو زندیق قرار دے سکتے ہیں لیکن اس سے زمینی حقائق تبدیل نہیں ہونگے۔
لیکن ایک داعی کا فرض ہے کہ وہ لوگوں کو اللہ سبحان تعالی کی طرف بلائے اور ہمارئے حسن سلوک سے اگر وہ مسلمان نا بھی ہوں تو کم از کم مسلمانوں کے متعلق اچھے خیالات رکھیں۔ یقین کریں جس دن ہماری دعوت و تبلیغ اور معاشرے میں دخول سے کسی فرد کو یہ احساس ہوا کہ اسکا یہ قبیح فعل اسکے مسلمان دوست کی دل آزاری کا سبب بنے گا، یہ تحریک اپنی موت آپ مرجائگی۔ پر امن طریقے سے اور احسن طور پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرواناہماری دینی غیرت اور حمیت کا تقاضا ہے لیکن خیال رہےکہ بات ہمیشہ ، حکمت و موعظت کے ساتھ پیش کرنا چاہئے جیسا کہ حکمت و موعظت ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ کا طرہ امتیاز رہی ہے ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی تبلیغ درج ذیل آیت کی جیتی جاگتی تصویر تھی۔
(اے نبی) آپ (لوگوں کو ) اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ دعوت دیجئے اور ان سے ایسے طریقے سے گفتگو کیجئے جو بہترین ہو۔
( سورة النحل : 16 ، آیت : 125 )
آپ اسے میری سادگی سے تعبیر کرسکتے ہیں لیکن مشاہدے اور مطالعے سے میرا یہی نتیجہ ہے کہ دارالکفر میں دعوت الی اللہ اوردارالسلام میں اقامت دین کی جدوجہد ان تمام مسائل کا مستقل حل ہے۔
نیز یہ کہ ہالوکاسٹ ایک انسانی المیہ تھا چاھے وہ کسی قوم، مذہب یامسلک کے لوگوں کے ساتھ ہوا ہو، اس کی حمائت کرنا مسلمان ہوتے ہوئے ہمیں قطعی زیب نہیں دیتا۔ آپ اسکی تاریخی حیثیت پر علمی بحث کرنے کی مکمل آزادی رکھتے ہیں لیکن اپنے دل سے یہ پوچھ لیجئے گا کہ بقول سخصے یہ کہیں بغض معاویہ رضی اللہ عنہ میں حب علی  رضی اللہ عنہ تو نہیں؟
اے ایمان والو! اﷲ کے لئے مضبوطی سے قائم رہتے ہوئے انصاف پر مبنی گواہی دینے والے ہو جاؤ اور کسی قوم کی سخت دشمنی (بھی) تمہیں اس بات پر برانگیختہ نہ کرے کہ تم (اس سے) عدل نہ کرو۔ عدل کیا کرو (المائدہ)
اللہ سبحان تعالی ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۃ حسنہ پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
حوالہ جات
Share

May 18, 2010

منصف ہو تو پھر حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے

Filed under: پاکستان,خبریں,سیاست,مشاہدات — ابو عزام @ 11:53 pm
تھی خبر گرم کہ غالب کے اڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشا نہ ہوا
اس شعر کے مصداق صدارتی اختیارات کے تحت رحمن ملک صاحب آزاد ہیں کہ آج روپوشی کی سزا ‘معاف’ ہوئی ہے تو کل کلاں بدعنوانی کے ریفرینس بھی ختم کر دیے جایئں گے۔ بڑے لوگوں کی بڑی باتیں۔
ہم توبس اس بات کو جاننے کی تگ و دو میں ہیں کہ کہ یہ صدارتی اختیارات براے ‘دست برداری’ امیونٹی اور معافی کی ابتدا مقننہ میں کہاں سے ہوئی۔ مملکت کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان، اور پیغمبراسلام، علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ عمل کہ عامل ریاست ہونے کے باوجود ایک یہودی آکر گریبان تھامے اور اپنا حق مانگ سکے۔ اسلامی ریاست کے خلیفہ ثانی کا یہ عمل کہ ایک عام شہری کرتے کے کپڑے کا حساب مانگ لے اورامیر المومنین علی رضی اللہ تعالی عنہ اپنی کمان ایک یہودی کہ ہاتھ شرعی عدالت میں ہار جائیں۔ اگر یہ قرون اولی کی مثالیں ہیں تو اسکی موجودہ دور میں تعمیل کا فرض کس کی ذمہ داری ہےِ؟ صرف حکمرانوں کی یا گریبان پکڑنے کی جرات رکھنے والی رعایا کا بھی کوئی فرض بنتا ہے؟
اور چلیں اگر آپکا قبلہ لندن و امریکہ ہے تو انکی مثالیں ہی اپنا لیں۔ کینتھ لے بھری عدالت میں‌ اسوقت کے حاضر امریکی صدر بل کلنٹن کو رسوا کرتا ہے، امریکی ایوان سینٹ میں قرارداد پیش کی جاتی ہے اور برطرفی ‘امپیچمنٹ’ کا ٹرائل کیا جاتا ہے۔ وقت کا صدر نکسن اپنے مخالفین کی باتیں ریکارڈ کرنے کے الزامات کے تحت ‘واٹر گیٹ’ اسکینڈل میں ملوث ہونے پراستعفی دیتا ہے اور اینڈریو جیکسن سے لے کر صدر اوباما تک لوگ انصاف کے نام سے تھراتے ہیں۔ گونروں، سینٹروں اور کانگریس کے ممبران تو کسی گنتی میں ہی نہیں کہ انصاف کا ہتھوڑا سب پر یکساں پڑتا ہے۔ معافی یا کلیمنسی کی مثالیں انکی تاریخ میں‌بھی ملتی ہیں مثلا ہنری فورڈ کا نکسن کو صدر بننے کے بعد معاف کرنا لیکن میری ناقص معلومات میں زرداری جیسی ‘حاضر’ معافی کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ ہاں صدر بش پر لاکھوں بے گناہوں کے خون کا مقدمہ چلنے کا انتظار ہے کہ انصاف کی جے جے کار ہو پر کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک۔
بہرحال، کہتے ہیں رچرڈ شیر دل نے اپنے قاتل کو معاف کر دیا تھا، رحمان ملک تو خیر اپنے ہی آدمی ہیں۔ پچاس ہزار میٹرک ٹن تیل کا کوٹا کیا چیز ہے، اختیارات ہوںاوراستعمال نا کئے جائیں تو انکو زنگ لگ جاتا ہے۔ ہم تو ‘انوسنٹ ٹل پروون گلٹی’ یا ‘معصوم تا ثبوت گناہ’ کے نظریہ کے حامی ہیں پر کیا کریں، تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے۔
باقی یار زندہ، صحبت باقی۔
Share

May 10, 2010

زیست سے تنگ ہو اے داغ تو کیوں جیتے ہو؟

Filed under: ادبیات,شاعری — ابو عزام @ 11:08 pm

عذر آنے میں بھی ہے اور بلاتے بھی نہیں
باعث ترک ملاقات بتاتے بھی نہیں

منتظر ہیں دمِ رخصت کہ یہ مرجائے تو جائیں
پھر یہ احسان کہ ہم چھوڑ کے جاتے بھی نہیں

سر اٹھاؤ تو سہی آنکھ ملاؤ تو سہی
نشۂ مے بھی نہیں نیند کے ماتے بھی نہیں

کیا کہا؟، پھر تو کہو، “ہم نہیں سنتے تیری“
نہیں سنتے تو ہم ایسوں کو سناتے بھی نہیں

خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں

مجھ سے لاغر تری آنکھوں میں کھٹکتے تو رہے
تجھ سے نازک مری نظروں میں سماتے بھی نہیں

دیکھتے ہی مجھے محفل میں یہ ارشاد ہوا
کون بیٹھا ہے اسے لوگ اٹھاتے بھی نہیں

ہوچکا قطع تعلق تو جفائیں کیوں ہوں
جن کو مطلب نہیں رہتا وہ ستاتے بھی نہیں

زیست سے تنگ ہو اے داغ تو کیوں جیتے ہو؟
جان پیاری بھی نہیں، جان سے جاتے بھی نہیں

Share

April 27, 2010

اردو زبان میں گالیوں کے ارتقا کا مختصر تنقیدی جائزہ

Filed under: ادبیات,طنزومزاح — ابو عزام @ 9:56 pm

راقم کا یہ مضمون ‘فیروزالمغلظات’ کے پہلے ایڈیشن میں چھپنے کے کے لئے تیار ہے۔ آپ قارئین سے تنقید و تبصرے کی گذارش ہے۔

اتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب

گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا

ہر زبان میں گالیاں ایک منفرد نثری و گفتنی حیثیت کی حامل ہوتی ہیں۔ کسی کے اہل زبان ہونے کا پتا لگانا ہو تو ان کی گالیوں کا موازنہ کریں ، وہیں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ تارکین وطن کی گالیاں ان کے اپنے ملک میں عہد قیام کی نشانی ہوتی ہیں۔ سیانے کہتے ہیں کہ کسی زبان کو سیکھنا ہو تو اسکے لئے سب سے پہلے اس کی گالیاں سیکھنی چاھئیں۔ اس سیانے نے یہ بات ایک گالی دیتے ہوئے کہی۔

گالیاں دینے کے بھی آداب ہوتے ہیں کہ واقعہ مشہور ہے جو جامعہ کراچی میں ہمارے اردو کے استاد محترم سناتے تھے کہ مرزا نوشہ اسد اللہ خان غالب کے مخالف انہیں‌ خطوط میں‌ گالیاں لکھتے رہتے تھے۔ ایک بار کسی مخالف نے انہیں ماں‌ کی گالی لکھ دی۔ مرزا اسے پڑھ کر ہنسے اور بولے، اس بیوقوف کو گالی دینے کا بھی شعور نہیں ہے۔ بوڑھے اور ادھیڑ عمر شخص کو بیٹی کی گالی دینی چاہئیے تاکہ اسے غیرت آئے۔ جوان آدمی کو ہمیشہ جورو کی گالی دو کہ اسے جورو سے بہت لگاؤ ہوتا ہے اور بچے کوہمیشہ ماں‌ کی گالی دیتے ہیں کیونکہ وہ سب سے زیادہ ماں سے مانوس ہوتا ہے۔

غالب کو گالیوں سے خاص لگاو تھا؛ اکثر بول چال میں اس کا التزام رکھتے تھے۔ قبلہ راشد بھائی اس زمن میں فرماتے ہیں، نقل کفر کفر نا باشد کہ “خداوند نے انگریزی زبان گالیاں دینے کے لیئے بنائی ہے”۔ کہ اردو زبان کی گالی دل پر جا لگتی ہے اور انگریزی میں دی گئی گالی کو ہنسی خوشی مذاق ہی مذاق میں ٹالا جا سکتا ہے۔

ہم اس قبیل سے تعلق رکھتے ہیں جہاں گالیاں دینا سخت معیوب سمجھا جاتا تھا۔ ہماری سب سے بڑی گالی ‘چغد’ یا ‘بھینس کا منہ’ ہوا کرتی تھی جس پر بہت ڈانٹ سننے کوملتی۔ پطرس مرحوم نے اپنے مضمون ‘میں ایک میاں ہوں’ میں ہماری کیفیت سے اتفاق کیا ہے جس پر ہم انکے بڑے ممنون ہیں۔

گالی کا تہذیب یا بدتہذیبی سے بڑا گہرا تعلق ہوتا ہے۔ ذخیرہ الفاظ کیطرح یہ بھی ایک زبان کے زندہ ہونے کی نشانی ہوتی ہیں مثلا اربن ڈکشنری کو ہی لیجئے۔ راقم کاماننا ہے کہ اردو کی گالیاں فاعل و مفعول کے بغیر لا معنی ہوتی ہیں الا یہ کہ یہ امور وضاحت طلب نہ ہوں۔ انگریزی زبان کی بہت سی زود زبان گالیاں اردو میں بلا فاعل بے معنی ہو کر رہ جاتی ہیں مثلا انگریزی کی ‘ف’ کی گالی اردو میں سراسر بے معنی ہے۔ اسی طرح محرمات کی گالی جو اردو کی گالیوں کی بنیادی اصطلاحات میں سے ہے انگریزی زبان میں نہایت بودی ٹھرے گی ۔ اسی طرح انگریزی کی’ش’ والی گالی اردو میں بچوں کی مخلوط محفل کے رد میں استعمال ہونے والی چڑ،  یا حیدرآبادی زبان میں نکمے آدمی کے لئے استعمال ہونے والا لفظ بنے گی اور اس کے لئے بھی فاعل کی موجودگی ضروری ہے مثلا ‘اجی کیا پاجامہ آدمی ہیں آپ، یہ بلی کا گو لے کر آے کیا” اور یہ بلکل پارلیمانی گفت و شنید میں مستعمل ہو سکتی ہے۔۔ پنجابی زبان کو گالیوں کے حوالے سے بڑا بدنام قرار دیا جاتا ہے مثلا ہمارے عزیز دوست اطہر الہی جو آجکل ہالینڈ سے معاشیات میں  پی آیچ ڈی کر رہے ہیں فرماتے ہیں کہ ملتان میں جمعہ کا خطبہ سنا اور پہلی بار اتنی ساری پنجابی زبان بغیر گالی کے سنی تو کانوں پر یقین نہ آیا۔ چٹکی لے کر یقین دلایا گیا کہ خواب نہیں تھا۔

پارلیمانی زبان کا مفروضہ بھی اب پرانا ہوچلا کہ اب جو زبان پارلیمان میں بولی جاتی ہے اس سے ادارہ گالیوں کی لغت ‘فیروزالمغلظات’ بنانے کا کام لیتاہے۔ ہمارے وزیر قانون کے قانون کے لمبے ہاتھ تو سبھی کو یاد ہیں مگر اس کے علاوہ اب ہمارے معزز ایونوں میں اس طرح باتیں ہوتی ہیں‌کہ

“وزیر قانون عبد الرشید عباسی نے کہا کہ دنیا میں بڑے بڑے واقعات ہو جاتے ہیں ماں بہن کی گالی برداشت نہیں ہے دونوں صاحبان معذرت کر لیں’ یا پھر آزاد کشمیر کی اسمبلی کے رکن نے کہا کہ ‘”میرے سامنے ایک رکن نے ماں کی گالی دی پھراس پر یہ بھی انصاف ہوناچاہیے اس موقع پرانہوں نے مصطفیٰ گیلانی کوایوان سے باہر بھیج دیا۔”  وغیرہ

گالیوں کے آداب کے سلسلے میں عرض کرتے چلیں کہ اردو زبان کی گالیوں کی تین مختلف اصناف ہیں۔ وہ گالیاں جو مہذب محفل میں  کچھ جھجک کے ساتھ دی جاسکتی ہیں مثلا اکبر الہ آبادی کی گالیاںوغیرہ۔ دوسری جو یاروں دوستوں کے ہمراہ دی جاتی ہیں مثلا بھینس کا منہ اور تیسری قسم مزید شدید جیسے کسی کو پرویز مشرف یا میر جعفر کہ دینا، یہ دل آزاری کی بدترین قسم ہے۔

گالیوں کے آداب کے سلسلے میں آبِ گم  میںمشتاق احمد یوسفی کہتے ہیں کہ

بزرگوار موجودہ الہ دین یعنی رحیم بخش کو عام طور پر الہ دین ہی کہتے تھے۔ البتہ کوئی خاص کام مثلاً پیر دبوانے ہوں یا بے وقت چلم بھروانی ہو یا محض پیار اور شفقت جتانی ہو تو الہ دین میاں کہ کر پکارتے۔ لیکن گالی دینی ہو تو اصل نام لیکر گالی دیتے تھے

مزید آداب مغلظات کے سلسلے میں مثال سے فرماتے ہیں کہ

۔” خلیفہ نے غصے سے بے قابو ہو کر دو مرتبہ اسے “ تیرا دھنی مرے! کی گالی دی تو بشارت سناٹے میں آگئے۔ لیکن سرِ دست وہ گھوڑے کو قابو میں لانا چاہ رہے تھے۔

اور بسا اوقات گالیوں کا استعمال بوقت ضرورت مدعا کے بیان کے لئے بھی کیا جا سکتا ہے مثلا

“کوئی جوان عورت مچھلی لینے آتی تو مچھلی والا ڈھال ڈھال کر بلی کوآرزو بھری گالیاں دینے لگتا۔”

گالی کے لئے خاص الفاظ کا استعمال بھی لازم نہیں۔ منٹو کا ٹوڈی بچہ، انگریزی پٹھو وغیرہ سے زیادہ گندی تہزیبی گالی ‘کھول دو’ ہے جو کہ حالات و واقعات کے تانوں بانوں سے حساسیت کی ہر رمق کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے۔

تہذیبی گالیوں کی مد میں توبۃ النصوح میں ڈپٹی نذیر احمد لکھتے ہیں

دوسرا ناہنجار، صبح اٹھا اور کبوتر کھول باپ  دادے کا نام اچھالنے کو کوٹھے پر چڑھا، پہر سوا پہر دن چڑھے تک کوٹھے پر  دھما چوکڑی مچائی، مارے باندھے مدرسے گیا، عصر کے بعد پھر کوٹھا ہے  اور کنکوا ہے، شام ہوئی اور شطرنج بچھا۔ ا توار کو مدرسے سے چھٹی  ملی تو بٹیریں لڑائیں۔ تیسرے نالئق، بڑے میاں سو بڑے میاں چھوٹے میاں  سبحان اللہ ، محل رنالں، ہمسائے عاجز، اس کو مار اس کو چھیڑ، چاروں طرف ایک تراہ تراہ مچ رہی ہے۔ غرض کچھ اسطرح کے بے سرے بچے  ہیں، ناہموار، آوارہ، بے ادب، بے تمیز، بے حیا، بے غیرت، بے ہنر، بد مزاج، بد  زبان، بد وضع کہ چند روز سے دیکھ دیکھ کرمیری آنکھوں میں خون اترتا

اور

“لڑ کے گالیاں بہت بکتے ہیں، لڑکیاں کوسنے کثرت سے دیا  کرتی ہیں۔ قسم کھانے میں جیسے وہ بیباک ہیں یہ بھی بے دھڑک ہیں،

گالیاں دینے پر جھڑکتے ایسے ہیں

” اس نے بکیں تو جھک مارا اور تم نے  زیادہ بکیں تو زیادہ جھک مارا۔”

قدرت اللہ شہاب نے ّ شہاب نامہ ّ میں ملک امیر محمد کا ذکر کرتے ہوئے ایک دلچسپ واقع رقم کیا ہے. لکھتے ہیں کہ

چوہدری ظہور الاہی سیاست کے افق پر نمودار ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے فوجی آمر ایوب کے نزدیک ہو گئے….پہلے تو نواب نے چوھدری ظہور الہی کو موٹی موٹی اور غلیظ گالیاں دیں اور ساتھ ہی کاغذوں کا ایک پلندہ ایوب کے سامنے رکھ دیا ، جو کہ ایک ایس پی نے ابھی ابھی پیش کیا تھا، اور فرمایا کہ حضور ان کاغذات میں اس (گالی) آدمی کا کچا چٹھا ہے . ساتھ میں یہ بھی فرمایا کہ جناب ابھی تو میں نے اپنا شکاری کتا اس پہ نہیں چھوڑا’

وزرا کا یہ وطیرہ تو تبدیل نہیں ہوا، اب تک ہے کہ

” کسٹم حکام کو خدشہ تھا کہ وزیرموصوف کے بنکاک سے انے والےمہمانوں کے پاس غیر قانونی سامان ہے-اٍسی لئے أنہوں نے تلاشی کرنا چاہی تو چوہدری صاحب طیش میں اکر کسٹم حکام پر برس پڑے-انہیں گالیاں دیں اور نوکری سے گو شمالی کا قصیدہ گایا-ایرپورٹ کے کیمروں نے چوہدری صاحب کی توتکار و دھکم پیل ثبوت کے لئے محفوظ کرلی-اٍسی وزیر کے خلاف لاہور کے تھانوں میں عملے کو گالیاں و دھمکیاں دینے پر رپٹ درج ہے-تھانہ نو لکھا کے انسپکٹر نوید گجر نے صحافیوں کو بتایا کہ وزیر نے ایک ملزم انتظار شاہ کو فوری رہا نہ کرنے کی پاداش میں تھانے کے عملے کو ننگی گالیاں اور نوکری سے برخواست کروانے کی دھمکیاں دیں-لچھے دار زبان استعمال کرنے پر پولیس کے اعلی افیسرز نے وزیر کے خلاف رپٹ درج کرنے کا حکم دیا-۔۔-میڈیا کو نام نہ شائع کرنے پر ایک آفیسر نے بتایا کہ چوہدری اور أنکے بھائی جرائم پیشہ افراد کی سفارشیں کرتے ہیں اور انکار کی صورت میں جیل کے عملے کو غلیظ گالیاں و سفاکانہ دھمکیاں سننی پڑتی ہیں-حسب سابق چوہدری عبدالغفور نے بائیس مئی کو پریس کانفرنس میں تمام الزامات کی تردید کی-“

یہ تو رہی موجودہ بے ادب دنیا میں وزرا کی روش۔  نیاز فتح پوری نے مولانا حالی کے نام ایک خط میں لکھا تھا۔

” مولانا! آپکا اسلوب بیان میں مجھ وداع ِجاں چاہتا ہے ۔ اگر آپ کی زبان میں مجھے کوئی گالیاں بھی دے تو ہل من مزید کہتا رہوں گا۔“

تولہذا قارئین ہل من مزید کہتے رہیں۔ اگر آپ کو ہمارے اس مضمون سے کوئی تکلیف پہنچی ہو تو ‘فیروز المغلظات’ کا مطالعہ افاقہ دے گا۔ وہ تمام لوگ جنہیں اس مضمون میں حقیقی گالیوں کے فقدان یا شدید کمی پر افسوس ہوا ہے اوراب کسی احتیاج کے تحت ٹھنڈا گوشت پڑھ رہے ہیں فورا ذہنی معالج سے رجوع کریں یا وزارت قانون میں نوکری کے اشتہارات دیکھیں۔

Share

April 24, 2010

کچھ برادرم راشد کامران کے بارے میں

Filed under: ادبیات,طنزومزاح — ابو عزام @ 1:08 am
سنا ہے گیدڑ کی موت آتی ہے تو شہر کی طرف دوڑتا ہے۔ ہماری جو رگ ظرافت پھڑکی توسوچا راشد بھائی کے بارے میں کچھ سخن آرائی کی جائے۔
محترم راشد بھائی ہمارے دیرینہ “بھائی-دوست” ہیں کیونکہ “دوست-دوست” اپنی مرضی سے بنائے جاتے ہیں – محترم سے ہماری دوستی پندرہ سال کے عرصے پر محیط ہے جو ہماری آدھی اور ان کی ایک  چوتھائی عمر بنتی ہے۔ ہم انہیں ١٩٩٦ سے اس مضمون کی تاریخ اشاعت تک جانتے ہیں، (وکیل صاحب – ہماری وصیت میز کی اوپر والی دراز میں رکھی ہے)۔
راشد بھائی پنجوقتہ لبرل آدمی ہیں۔ اپنے آپ کو مشرق کا بل ماہر گردانتے ہیں اور شائد اسی بنا پر مسجد سے نکلتے وقت ٹوپی فورا اتار لیتے ہیں کہ دعوی تجدد پر حرف نا آئے۔  جماعت اسلامی سے انہیں وہی پرخاش ہے جو منٹو کو ستر سے اور عصمت چغتائی کو رضائی سے تھی لیکن البرٹ پنٹو کے برعکس راشد بھائی کو غصہ بلکل نہیں آتا۔ نہایت بزلہ سنج اور حاضر جواب واقع ہوئے ہیں ۔ وقوع سے یاد آیا کہ ان کا جغرافیہ زیادہ تر ٹی وی اور میک بک کے درمیان پایا جاتا ہے۔ دھول دھپے کے قائل نہیں لیکن یاروں کے یار ہیں لہذا کبھی کبھی ہمارے ساتھ دوڑ بھاگ لیا کرتے ہیں۔ مگر جب سے پچھلی بار کے ٹریل رن (پہاڑی راستوں اور جنگلات کی دوڑ)‌ میںچند مستورات فرنگ نے انکے کندھوں کے سہارے سے دریا پار کئے ہیں، اب یہ شہری میراتھن میں بھی دریاوں کی موجودگی پر اصرار کرتے ہیں۔ منتظمین کا کہنا ہے کہ یہ ممکن نہیں، دیکھیں یہ بیل کیسے منڈھے چڑھتی ہے۔
خوش شکل آدمی ہیں، شب دیجور کی پھبتی حاسدوں کی سازش ہے، ان نامرادوں کا منہ کالا۔ اسی وجاہت کی بنا پر شائد اسی بنا پر جامعہ کراچی میں کلاس کی خواتین انہیں راشد بھائی کہ کر بلاتی تھی، شائد اس میں پیری و کہن سالی کا بھی کچھ دخل ہو پر راقم کو بہتان طرازی سے کیا لینا دینا۔
محترم ایپل کے بانی اسٹیو جابس کے بڑے معتقد ہے، انکو اپنا پیرومرشد مانتے ہیں کہ حضرت جابس کی تخلیق کردہ ہر چیز کو انتہائی ادب سے بھاری ہدیہ دے کر خریدتے ہیں اور قصر راشد کی زینت بناتے ہیں۔ اس جامع مجموعہ کی بنا پر ایپل والے ان کے گھر پر اپنا بورڈ لگانے لگے تھے کہ بڑی مشکل سے روکا گیا۔ تجدد کا پائے چوبیں کہ پسندیدہ مشروب ‘موکا’ کافی ٹھرا۔ پچھلی دفعہ معمول کے بلڈ ٹیسٹ میں کیفین کا تناسب اتنا تھا کہ اسے تحقیق کے لئے اسٹار بکس بھیجا گیا اورمحترم کو اعزازی رکنیت ملی۔
ریاست بہار سے تعلق کے باوجود بہت عمدہ اردو نثر لکھتے ہیں، بلکل پتا نہیں لگتا۔ ، جی ہاں کبھی کبھی سرقے کے بغیر بھی۔ اپنی شاعری کو امام دین اور میر کا سنگم قرار دیتے ہیں جس پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں بشرطیکہ ان کی تازہ غزل ہمیں نا سننی پڑئے۔ خود ہی کہا کرتے ہیں کہ “شاعری بچوں کے کھیلنے کی چیز نہیں۔۔”، مزید صرف بالغان کے لئے۔
راشد بھائ کا حافظہ نہائت عمدہ ہے، شعر اور ادھار کبھی نہیں بھولتے۔ ہم کبھی کوئئ شعر اٹک جائے تو انہیں ہی فون ملاتے ہیں۔ انکا ہمارا سامنا ابتداجامعہ کراچی میں ہوا اور ہم ان کے علم و فن کے گرویدہ ہو گئے۔ وسیع المطالعہ ہیں، کل ہی بتا رہے تھے کہ میبل اور میں کا پلاٹ‌ زرا ڈھیلا ہے اور میبل اصل میں ‘سویرے جو کل میری انکھ کھلی’ والے لالا کا بھائی تھا۔ سیاست اور دیگر  اس صنف کے تمام کاموں میں بائیں بازو کو ترجیح دیتے ہیں لیکن ہماری رائے میں‌ کلازٹ کنزرویٹو ہیں، باہرنکلنے کا انتظار ہے لیکن شاید ٹام کروز کے ساتھ اچھی جم رہی ہے۔
ً
ہم چونکہ انکے غیر معنوی لنگوٹیا ہیں اور انہیں جامعہ کے پواینٹ اغوا کرنے کے زمانے سے جانتے ہیں لہذا ہماری راے کو اس کم سخن، نابغہ روزگار ہستی کے بارے میں ہرگز درخور اعتنا نا گردانئے گا۔ آج کل محترمی روزی اور روزگار کے سلسلے میں بیرون ملک مقیم ہیں، حاسدوں کا کہنا ہے کہ اس میں روزگار کم اور روزی کا ہاتھ زیادہ ہے۔ شائد یہی منشا ہے کہ رومانیت کی علامت ہسپانوی زبان کے انتہائی رسیا ہیں. بلکل اہل زبان کی طرح بولتے ہیں اگر اہل زبان موجود نا ہوں اور جیسا کہ فراز نے کہا
زبان یار کیلاشی، ما از حرف بیگانہ
اس زمن میں ہمیں گالف والے چیتے اور اپیلیشین ٹریل کا کافی عمل دخل معلوم ہوتا ہے۔ بہرحال، ہمارے دائی شریک بھائی ہیں اور ہمیں نہایت عزیز۔ اسی لئے اس سے پہلے کہ کوئ اور ہجو معاف کیجیے گا تعارف لکھے، ہم نے ابتدا کی۔ اب یہ مضمون کا اختتام ہے اور یہاں پر عموما دیکھا گیا ہے کہ راقم کہے سنے کی معافی چاھتا ہے لیکن ادارہ اس زمن میں یہ کہے گا کہ اس تمام کی تمام یاوہ گوئی کا بھرپور ذمہ دار ہے اور اگر کسی قاری کو برا لگتا ہے تو لگا کرے۔
باقی یار زندہ صحبت باقی
Share

April 21, 2010

جون ایلیا اورعبید اللہ علیم- ‘ویران سرائے کا دیا’ کی تعارفی تقریب

Filed under: ادبیات — ابو عزام @ 10:32 pm

حصہ اول

حصہ دوم

حصہ سوم

Share

April 18, 2010

تہذیبی نرگسیت -ایک تہذیبی مرعوب کی سرگذشت کا اصولی جواب – حصہ دوم

Filed under: عمومیات — ابو عزام @ 11:36 pm
پچھلے حصہ میں ہم نے’تہذیبی نرگسیت’  کے بنیادی تضادات اور نصوص قطعیہ پر اس کے اعترضات پراجمالی روشنی ڈالی تھی ۔ اس قسط میں ہمارا منشا ہے کہ مذید تفصیل سے اس کی سطحیت کو اجاگر کریں ۔ اس زمن میں ہماری کوشش یہ ہوگی کہ مختصر پیرائے میں حصہ اول پر کئے جانے والے اعتراضات کا جواب دینے کے ساتھ ساتھ معروضی شکل میں اس کتاب کے اہم نکات کو بھی بیان کردیں۔
اس ‘فتنہ نرگسیت’ کی بنیادی اغلاط کا احاطہ ان پانچ نکات سے کیا جاسکتا ہے۔ راقم کا اس کتاب کے چیدہ چیدہ نکات نکال کر سیاق و سباق کے بغیر نقل کر کہ اس کی تضحیک کرنا مقصد نہیں لہذا اپنی تشفی کے لئے کتاب کا ملاحظہ ضرور کریں۔

١. اسلام مکمل ضابطہ حیات نہیں ہے – ‘ایک بنیادی دعوی جس پر کئی دوسرے دعووں کے محل تعمیر کئے گئے ہیں، یہ ہے کہ اسلام مکمل ضابطہ حیات ہےحالانکہ قران اور حدیث نے ایسا کوئی دعوی نہیں کیا ہے۔ یہ دعوی تہذیبی فخر کاے لئے قائم کئے گئے مفروضوں میں سے ہے۔۔۔’ صفحہ 96۔
٢.  “قران نے نظام مملکت پر کوئی ضابطہ نہیں دیا جو بے حد اہم موضوع ہے۔”  صفحہ 97
٣. ‘دوسرا بڑا مفروضہ جس پر تہذیبی نرگسیت کی بنیاد ہے، یہ ہے کہ اسلام کو ہر دوسرے دین پر غالب کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ قران و حدیث میں اس مفروضہ کی بھی کوئی بنیاد نہیں’ صفحہ 100
٤. نصوص میں تبدیلی کی اجازت:’۔۔۔عملا اسلامی معاشرہ شدید دباو اور دو دلی کا شکار ہے- جس کے باعث ریا کاری زوروں پر ہے۔ ۔ ایک طرف اسلامی قوانین اور اعتقاد ہیں جن میں‌علما کہ بقول کسی تبدیلی یا ترمیم کی گنجایش نہیں مثلا قتل، زنا، چوری اور دیگر فوجداری جرائم اور غلام لونڈی کی اجازت۔’ صفحہ 65
٥.  وحدت ادیان اور تہذیبوں کے ملاپ کا فلسفہ ‘حکمت اور پارسائی کا دعوی اگر تھوڑی دیر کے لئے چھوٹ دیا چاے تو لگے گا کہ یہ ترانہ سننے یا گانے سے کسی تہذیب یا دین کا تختی نہیں الٹ جاتا’ ص 86 اور ‘انسان کو روح کی کتنی غذا چاھئے؟ یعنی اگر عبادت ہی روح کی خوراک ہے تو کتنی عبادت؟ اسلام کے مطابق دن میں پانچ مرتبہ ایک مقررہ معمول کے مطابق عبادت اور رمضان میں اس سے کچھ اور زیادہ؟ ۔۔لیکن مسیحت میں ہفتہ وار اور ہندوں میں دن میں ایک بار دیوی دیوتا کے آگے حاضری یا پرنام روح کو تروتازہ کر دیتا ہے ص 114 ۔ “مذہب پر عمل کرنا اگر روحانیت ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ دنیا کہ چاروں مستعد مذاہب  کے عقائد اور عملیات میں اتنی شدید تفاوت کے کیا معنی ہیں؟۔۔۔ص 118
اگر قاری نےقران و حدیث کا سمجھ کر مطالعہ کیا ہو تو یہ تمام مفروضات آن واحد میں باطل نظرآتے ہیں ۔ راقم انشااللہان باطل عقائد و اعتراضات کا مرحلہ وار جواب دینے کی سعی کرئے گا لیکن اس سے پہلے حصہ اول کے اعتراضات پر مختصرا بات کی جائے۔
پہلا اعتراض جو اس زمن میں کیا گیا ہے وہ ‘بگ پکچر’ یا اس کتاب کے مکمل پیغام کو نا دیکھنا ہے۔ اس سلسلے میں ہم یہ عرض کرتے چلیں کہ اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے واضع احکامات اور اساس دین پر تنقید کرکے تجدید و اصلاح کی کوشش کرنا مسلم امتہ کی جڑیں کھوکھلی کرنا ہے۔ بلاشبہ اس کتاب میں خود تنقیدی کا جو درس دیا گیا ہے، خود انکساری کی جو حکمت پیش کی گئی ہے یا امت مسلمہ کو درپیش مسائل کاجو بیان ہے اس سے راقم بڑی حد تک متفق ہے لیکن بنیادی سوال یہ ہے آپ کا ایمان عقل اور تجربہ پر منتج ہے یا خدا اور اس کے رسول پر؟ اگر پہلی بات ہے تو آپ کو اسلام اور اسکی اصلاح سے کوئی واسطہ نہیں، اگر آپ کلام الہی کو لا ریب فیہ نہیں مانتے اور ایمان بلغیب کو قرون اولی  کی داستان سمجھتے ہیں تو آپکو مسلمان بن کر گفتگو کرنے اور اصلاح مسلمین کا بیڑا اٹھانے کی کیا غرض؟ اس کے علاوہ اگر اس کتاب کو ‘بٹوین دی لاینز’ پڑھا جائے تو آپ اس میں بتدریج الحاد، تشکیک، نیچریت، مادیت، مرعوبیت، وحدت ادیان اور دین سے عمومی بیزاری کی کیفیت متشرح ہوتے دیکھ سکتے ہیں۔ مضامین برائے روحانیت (صفحہ 114تا 122) اس زمن میں اہم ہیں کہ اس میں ‘آرگنایزڈ ریلیجن’ یا منظم مذہب سے بیزاری صاف ظاہر ہے اور دین کو ایک انفرادی معاملہ قرار دینے کی سعی لا حاصل کی گئی ہے۔
دوسرا اعتراض اختلاف کی حیثیت پر ہے کہ جناب یہاں ہم نے آپ کی بات سے اختلاف کیا اور جھٹ سے آپ نے ہمیں دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا۔ اس کا مطلب یہ کہ اسلام اختلاف کی الف تک بھی نا آنے دے۔ یہ بات بے بنیاد ہے۔معروضات پر اختلافات میں کوئ مسئلہ نہیں مگر اگر آپ نصوص قطعیہ یعنی قران و حدیث کو اپنی منشا کے مطابق تبدیل کرنا چاہیں تو اس کی قطعی اجازت کسی بھی دین میں نہیں دی جاسکتی۔  “مسلم‘ عقلی اور تجربی فوائد پر ایمان نہیں لاتا بلکہ خدا اور رسول پر ایمان لاتا ہے۔ اس کا مذہب یہ نہیں ہے کہ کسی چیز کا فائدہ عقل و تجربہ سے ثابت ہوجائے تب وہ اس کو قبول کرے اور کسی چیز کی مضرت عقلی و تجربی حیثیت سے مبرہن ہوجائے تب وہ اس سے اجتناب کرے بلکہ اس کا مذہب یہ ہے کہ جو حکم خدا اور رسول سے ثابت ہوجائے وہ واجب الاتباع ہے اور جو ثابت نہ ہو وہ قابل اتباع نہیں۔” ہر دین اپنی بالا دستی چاہتا ہے اور اپنے قوانین کی پاسداری کو ضروری گردانتا ہے۔اسلام چونکہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے لہذا اس کی بنیادی شرایط پر اعتراض ممکن نا ہوگا۔ اسکی چھوٹی سی مثال کسی ایسے ملک کی شہریت لینے سے ثابت ہوتی ہے جہاں ملٹری سروس یا کم از کم اس پر آمادگی لازمی ہومثلا جنوبی کوریا، امریکہ وغیرہ۔ اگر آپ امریکہ کے شہری بننا چاہتے ہیں تو آپکو اس بات کا حلف لینا ہوگا کہ آپ اس کی حفاظت کے لئے وقت پڑنے پر ہتھیار اٹھائیں گےورنہ اس کا نتیجہ قید و بند کی صورت میں نکلے گا۔ بلکل اسی طرح دین اسلام صرف ایک مذہب یا عبادات کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک نظام حیات , دین یا مکمل ضابطہ حیات ہے جو اپنی مکمل اطاعت کاتقاضہ کرتا ہے اور اس کے بنیادی قوانین سے اختلاف قابل تعزیر فعل ہے۔
3۔ منقولات چہ معنی؟ : تیسرا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ یہ منقولات بیان کرنا اور علمی استدلال سے بات نا کرنا کج بحثی کی دلیل ہے۔ میرا ان حضرات سے یہ کہنا ہے کہ اس زمن میں موصوف، صاحب کتاب کے بارے میں کیا خیال ہے کہ جنہوں نے دعوی اصلاح مسلمین کا کیا ہے اور اپنا فریمورک لبرل نرگسیت ٹہرایا ہے۔ میں تو صرف انہیں اسلام کے بنیادی ماخذ جو متفق علیہ ہے،  سے جواب دینے کی کوشش کر رہا ہوں تو آپ سے ملائیت پر محمول کرتے ہیں۔ اگر آپ کو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں قرون اولی کے قصےلگتے ہیں تو میں تو اسے آپکی عقل کا فتور ہی ٹھراوں گا ۔ فرنگ سے ادھار لی گئی عقلیت کے لئے ہی قران و حدیث کی سند کسی بات کو قوی کرنے کے بجائے کمزور کرنے کا باعث بنتی ہے۔
چوتھا اعتراض اس مظمون کی طوالت اور حوالہ جات یا اقتباسات کے بارے میں تھا جس کے بارے میں احقر صرف یہی کہ سکتا ہے کہ یہ طوالت اس موضوع کا تقاضا ہے نیز اگر کسی اور عالم نے اس ضمن میں کما حقہ جواب دے رکھا ہوتو راقم اس کو دوبارہ اپنے الفاظ میں بیان کرنے سے اقتباس کرنے کو بہتر سمجھتا ہے۔
اگر صاحب کتاب کا مقصد اصلاح ٹھرا تھا تو اسلام کی بنیادی تعلیمات کو تنقید کا نشانہ بنانااور اسکے آفاقی دین اور ضابطہ حیات ہونے پر شکوک و شبہات کا آظہار کرنے کے کیا معنی ہیں؟ موجودہ زمانے میں‌ مسلمانوں کے اجتماعی مسائل کا حل مغربی اقوام کی تقلید میں تلاش کرنا کسی مرعوب ذہن کے لئے تو ممکن ہو سکتا ہے لیکن کسی ایسے مسلمان کے لئے نہیں جو اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کو اپنی اور امت مسلمہ کی نجات کا ذریعہ جانتا ہو۔
مبارک حیدر صاحب کے اعترضات بجا کہ آج مسلمان قول و عمل کے تضاد کا شکار ہیں۔ دین اسلام کی روح پر عمل نا کرنے کی وجہ سے ہماری کثیر عددی طاقت کے با وجود آج مسلمانوں کی حالت دنیا کے ملکوں میں دگرگوں ہے۔ لیکن کیا یہی وہ حالت نہیں جس کے بارے میں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔
عنقریب (کافر ) قومیں تمہارے خلاف اس طرح جمع ہو جائیں گی جس طرح بھوکے کھانے کے برتن پر جمع ہو جاتے ہیں ۔ ہم نے دریافت کیا: کیا اس وقت ہم تعداد میں بہت تھوڑے ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: ( نہیں) بلکہ ان دنوں تمہاری تعداد بہت زیادہ ہو گی لیکن تم سیلاب کے جھاگ کی طرح ہو جاؤ گے اور اللہ تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہارے رعب اور دبدبے کو نکال کر تمہارے دلوں میں (کمزوری) وھن ڈال دے گا۔ ہم نے پوچھا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ! یہ وہن کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا : دنیا سے محبت اور موت سے نفرت“
(احمد 350/5، ابوداود: کتاب الفتن والملاحم (4297)
اسی زمن میں میں نعیم صدیقی مرحوم کا یہ اقتباس پیش کرنا چاہوں گا۔
Naeem Siddiqi
اب ہم پہلے نقطہ اعتراض پر بات کریں گے جس کے بارے میں صاحب کتاب کا کہنا ہے کہ ۔ اسلام مکمل ضابطہ حیات نہیں ہے – ‘ایک بنیادی دعوی جس پر کئی دوسرے دعووں کے محل تعمیر کئے گئے ہیں، یہ ہے کہ اسلام مکمل ضابطہ حیات ہےحالانکہ قران اور حدیث نے ایسا کوئی دعوی نہیں کیا ہے۔ یہ دعوی تہذیبی فخرکے لئے قائم کئے گئے مفروضوں میں سے ہے۔۔۔’ صفحہ 96۔
نیز مزید  آپ کہتے ہیں کہ ‘مسلمانوں کو بھی یہ حق حاصل تھا کہ فاتح تہذیب کی حیثیت سے اپنے نظریہ حیات کو مکمل ضابطہ حیات کہتے – لیکن یہ سب زراعتی معاشروں کے دور تک ممکن تھا’صفحہ 96۔
یہ باتیں ایسے دیوانے کی بڑ سے زیادہ نہیں کہ جو اسلام کا مارٹن لوتھر کنگ بننا چاھتا ہو لیکن اسے اسلام کی بنیادی اصطلاحات سے کوئی غرض نہ ہو۔
اسلام دین اور مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اس بات میں قران مجید کی تصریحات بالکل صاف ہیں۔ مکمل ضابطہ حیات ہونے کا دعوی کرنے والا ہی یہ بات کہ سکتا ہے کہ جب کسی معاملہ میں خدا اور رسول کا حکم آجائے تو مومنوں کو ماننے یا نہ ماننے کا اختیار باقی نہیں رہتا۔
ترجمہ: کسی مومن مرد اور عورت کو یہ حق نہیں کہ جب کسی معاملہ میں اللہ اور اس کا رسول فیصلہ کردے تو ان کے لیے اپنے اس معاملہ میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار باقی رہے۔ جس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی وہ کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا ہوگیا (الاحزاب 36)
ایک ایسا دین ہی جو مکمل ضابطہ حیات ہونے کا مدعی ہو کہتا ہے کہ فیصلہ صرف کتاب الہیٰ کے مطابق ہونا چاہیئے۔ خواہ وہاں لوگوں کی خواہشات کے مطابق ہو یا نہ ہو۔
ترجمہ: تو ان کے درمیان اسی کتاب کے مطابق فیصلہ کر جو اللہ نے اتاری ہے اور جو حق تیرے پاس اللہ کی طرف سے آیا ہے اس کو چھوڑ کر ان کی خواہشات کی پیروی نہ کر۔ (المائدہ 56)
اور وہی دین‌ کہتا ہے کہ کتاب اللہ میں سے کچھ کو ماننا اور کچھ کو رد کردینا۔ دنیا اور آخرت میں رسوا کن ہے۔
ترجمہ: کیا تم کتاب کی بعض باتوں کو مانتے ہو اور بعض کو نہیں مانتے؟ تم میں سے جو کوئی ایسا کرتا ہے اس کی سزا بجزا اس کے اور کچھ نہیں ہے کہ دنیا کی زندگی میں اس کے رسوائی ہو اور آخرت میں ایسے لوگ شدید ترین عذاب کی طرف پھیردئیے جائیں گے۔ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے غافل نہیں ہے۔ (البقرہ 85)
مزید براں فرمایا کہ
وہ کہتا ہے کہ اے ایمان لانے والو‘ اللہ اور اس کے رسول اور اپنے اولی الامر کی اطاعت کرو اور اگر تم حقیقت میں اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتے ہو تو جس کسی معاملہ میں تمہارے درمیان نزاع پیدا ہو، اس کے لیے اللہ اور اس کے رسول کی طرف رجوع کرو۔ یہی بہتر طریقہ ہے اور انجام کے اعتبارسے بھی یہی اچھا ہے۔ کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ایمان لائے ہیں اس کتاب پر جو تیری جانب بھیجی گئی ہے اور ان کتابوں پر جو تجھ سے پہلے بھیجی گئی تھیں مگر چاہتے ہیں کہ خدا کے نافرمان انسان کو اپنے معاملہ میں حکم بنائیں حالاں کہ انہیں اس کے چھوڑدینے کا حکم دیا گیا ہے اور شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ انہیں بھٹکا کر راہ راست سے دور ہٹالے جائے۔ جب کبھی ان سے کہا گیا کہ آﺅ اس کتاب کی طرف جو اللہ نے ا تاری ہے اور آﺅ رسول کی طرف تو تو نے منافقین کو دیکھا کہ وہ تجھ سے کنی کاٹا جاتے ہیں…. ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے، اس لیے بھیجا ہے کہ کہ حکم الہیٰ کے مطابق اس کی اطاعت کی جائے…. نہیں! تیرے پردوردگار کی قسم وہ ہرگز بھی کافی نہیں ہے۔ ضروری ہے کہ جو فیصلہ تو کرے اس پر وہ اپنے دل میں کسی قسم کی تنگی بھی محسوس نہ کریں اور بے چون و چرا اس کےآگے سرجھکادیں۔“ (النساء۸‘۹)
اب کوئی یہ کہے کہ ان تمام منقولات سے کتاب کی اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ذندگی میں تو ثابت ہوتی ہے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد نہیں تو پھر اس فرد کی عقل پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے کہ اس نے اسلام کی آفاقیت اور ہمیشگی کی دلیل نہیں دیکھی۔

۱:… ”الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا۔“ (المائدہ:۳)
ترجمہ:… ”آج کے دن میں نے تمہارا دین مکمل کردیا اور تم پر نعمت تمام کردی اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسند کیا۔“

۲:… ”و من یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ‘ و ھو فی الآخرة من الخاسرین۔“ (آل عمران:۸۵)
ترجمہ:… ”اور جو شخص اسلام کے علاوہ کسی دوسرے دین و مذہب کو اپنائے گا‘ اللہ کے ہاں اسے قبولیت نصیب نہیں ہوگی اور وہ آخرت میں خسارہ میں ہوگا۔“

یہ فکر کہ اسلام مکمل ضابطہ حیات نہیں صرف مبارک حیدر صاحب پر ہی منتج نہیں بلکہ دیگر تجدد پسند مرعوبیت اور لبرل نرگسیت کے علمبرداروں میں‌بھی یہ رواج عام ہے۔ مثلا اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر خالد مسعودفرماتے ہیں کہ اسلام مکمل ضابطہ حیات نہیں ہے یہ مولانا مودودی کی فکر تھی‘ اسلام صرف مکمل دین ہے اسے مکمل ضابطہ حیات کہنا درست نہیں اس کے معنی دوسرے ہیں‘ (روز نامہ نوائے وقت کراچی، ۷ /نومبر ۲۰۰۷ء ص:۸)
تو اگراسلام مکمل ضابطہٴ حیات نہیں ہے تو وہ مکمل دین کیونکر ہوسکتا ہے؟ اسلئے کہ خود اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:

”ان الدین عنداللہ الاسلام“ (آلِ عمران: ۱۹)
بے شک دین اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسلام ہے
اگر اسلام دین مکمل نہیں تو پھر ناقص ٹھرا کہ اسے اپنے نفاذ کے لئے کسی اور دین یا نظریہ حیات کا سہارا لینا پڑے گا۔ کیا یہ ممکن ہے کہ دین مغرب، دین پادشاہی یا دین الحاد یا کوئی بھی اور نظام اس بات کی اجازت دے کہ اسلام کو مکمل طور پراختیار کیا جاے؟ اس سے بڑا سوال یہ اٹھتا ہے کہ دین و مذہب، اپنے ماننے والوں کو مکمل ضابطہٴ حیات فراہم نہ کرتا ہو وہ قابلِ تقلید اور لائقِ اقتداء ہے؟  بالفرض اگر اسلام مکمل ضابطہٴ حیات نہیں تھا تو کیا یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرض نہ تھا کہ وہ اپنی امت کو بتلاتے کہ اسلام میں فلاں فلاں جگہ نقص اور کمی ہے، اور اس کی تکمیل کے لئے فلاں فلاں دین و مذہب اور قانون و دستور سے مدد لی جائے؟ مگر دنیائے اسلام جانتی ہے کہ آقائے دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی کسی قسم کی کوئی نشاندہی نہیں فرمائی، تو کیا کہا جائے کہ …نعوذباللہ… آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کے ساتھ خیانت کی ہے؟ کیا ایسا کہنا سمجھنا یا سوچنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت و نبوت کے انکار کے مترادف نہیں؟(‬۲۰۰۷ ماہنامہ بینات, ذوالحجہ۱۴۲۸ھ جنوری۲۰۰۸ء, جلد 70, شمارہ)
اس حصہ کا اختتام سید مودودی کے مندرجہ زیل اقتباس سے کرتا ہوں جو کہ اس ‘فتنہ نرگسیت’ کے تجدد پر اتمام حجت کرتا ہے اور راقم کو ‘ری انونٹنگ دی وہیل’ کی حاجت نہیں ۔انشااللہ اگلے حصہ میں غلبہ اسلام کے متعلق اٹھا ئے گئے سوالات پر گفتگو کی جائے گی۔
ہمارے روشن خیال اور تجدد پسند” حضرات جب کسی مسئلہ پر گفتگو فرماتے ہیں تو ان کی آخری حجت جو ان کے نزدیک سب سے قوی حجت ہوتی ہے یہ ہوتی ہے کہ زمانے کا رنگ یہی ہے۔ ہوا کا رخ اسی طرف ہے۔ دنیا میں ایسا ہی ہورہا ہے۔ پھر ہم اس کی مخالفت کیسے کرسکتے ہیں۔ اور مخالفت کرکے زندہ کیسے رہ سکتے ہیں۔ اخلاق کا سوال ہو ۔ وہ کہیں گے کہ دنیا کا معیار اخلاق بدل چکا ہے۔ مطلب یہ نکلا کہ مسلمان اس پرانے معیار اخلاق پر کیسے قائم رہیں؟ پردے پر بحث ہو ارشاد ہوگاکہ دنیا سے پردہ اٹھ چکا ہے۔ مراد یہ ہوئی کہ جو چیز دنیا سے اٹھ چکی اس کو مسلمان کیسے نہ اٹھائیں۔ تعلیم پر گفتگو ہو۔ ان کی آخری دلیل یہ ہوگی کہ دنیا میں اسلامی تعلیم کی مانگ ہی نہیں۔ مدعا یہ کھلا کہ مسلمان بچے وہ جنس بن کر کیسے نکلیں جس کی مانگ ہی نہیں۔ اور وہ مال کیوں نہ بنیں جس کی مانگ ہے۔ سود پر تقریر ہو۔ ٹیپ کا بند یہ ہوگا کہ اب دنیا کاکام اس کے بغیر نہیں چل سکتا۔ گویا مسلمان کسی ایسی چیز سے احتراز کیسے کرسکتے ہیں جو اب دنیا کا کام چلانے کے لیے ضروری ہوگئی ہے۔ غرض یہ کہ تمدن‘ معاشرت‘ اخلاق‘ تعلیم‘ معیشت‘ قانون‘ سیاست اور زندگی کے دوسرے شعبوںمیں سی جس شعبے میں بھی وہ اصول اسلام سے ہٹ کر فرنگیت کا اتباع کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے زمانے کا رنگ اور ہوا کا رخ اور دنیا کی رفتار وہ آخری حجت ہوتی ہے جو اس تقلید مغربی یا درحقیقت اس جزوی ارتداد کے جوار پر برہان قاطع سمجھ کر پیش کی جاتی ہے۔ اور خیال کیا جاتا ہے کہ عمارت اسلامی کے اجزاءمیں سے ہر اس جز کوساقط کردینا فرض ہے جس پر اس دلیل سے حملہ کیا جائے۔
ہم کہتے ہیں کہ شکست وریخت کی یہ تجویزیں جن کو متفرق طور پر پیش کرتے ہو‘ ان سب کو ملا کر ایک جامع تجویز کیوں نہیں بنالیتے؟ مکان کی ایک ایک دیوار‘ ایک ایک کمرہ اور ایک ایک دالان کو گرانے کی علیحدہ علیحدہ تجویزیں پیش کریں‘ اور ہر ایک پر فرداً فرداً بحث کرنے میں فضول وقت ضائع ہوتا ہے۔ کیوں نہیں کہتے کہ یہ پورا مکان گرا دینے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ اس کا رنگ زمانے کے رنگ سے مختلف ہے۔ اس کا رخ ہوا کے رخ سے پھرا ہوا ہے اور اس کی وضع ان مکانوں سے کسی طرح نہیں ملتی جواب دنیا میں بن رہے ہیں۔
جن لوگوں کے حقیقی خیالات یہی ہیں ان سے تو بحث کرنا فضول ہے۔ ان کی لیے تو صاف اور سیدھا جواب یہی ہے کہ اس مکان کو گرانے او راس کی جگہ دوسرا مکان بنانے کی آپ زحمت کیوں اٹھاتے ہیں؟ جو دوسرا خوش وضع‘ خوشنما اور خوش رنگ مکان آپ کو پسند آئے اس میں تشریف لے جائیے۔ اگر دریا کے دھارے پر بہنے کا شوق ہے تو اس کشتی کا لیبل کھرچنے کی تکلیف بھی کیوں اٹھائیے۔ جو کشتیاں پہلے سے بہہ رہی ہیں انہی میں سے کسی میں نقل مقام فرما لیجئے جو لوگ اپنے خیالات اپنے اخلاق‘ اپنی معاشرت‘ اپنی معیشت‘ اپنی تعلیم‘ غرض اپنی کسی چیز میں بھی مسلمان نہیں ہیں اور مسلمان رہنا نہیں چاہتی ان کے برائے نام مسلمان رہنے سے اسلام کا قطعاً کوئی فائدہ نہیں بلکہ سراسر نقصان ہے۔ وہ خدا پرست نہیں‘ ہوا پرست ہیں‘ اگر دنیا میں بت پرستی کا غلبہ ہوجائے تو یقیناً وہ بتوں کو پوجیں گے اگر دنیا میں برہنگی کا رواج عام ہوجائے تو یقیناً وہ اپنے کپڑے اتار پھینکیں گے۔ اگر دنیا نجاستیں کھانے لگے تویقیناً وہ کہیں گے کہ نجاست ہی پاکیزگی ہے اور پاکیزگی تو سراسر نجاست ہے۔ ان کے دل اور دماغ غلام ہیں اور غلامی ہی کے لیے گھڑے گئے ہیں۔ آج فرنگیت کا غلبہ ہے اس لیے اپنے باطن سے لے کر ظاہر کے ایک ایک گوشے تک وہ فرنگی بننا چاہتے ہیں۔ کل اگر حبشیوں کا غلبہ ہوجائے تو یقیناً وہ حبشی بنیں گے۔ اپنے چہروں پر سیاہیاں پھیریں گے۔ اپنے ہونٹ موٹے کریں گے۔ اپنے بالوں میں حبشیوں کے سے گھونگھر پیدا کریں گے۔ ہر اس شے کی پوجا کرنے لگیں گے۔ جو حبش سے ان کو پہنچے گی۔ ایسے غلاموں کی اسلام کو قطعاً ضرورت نہیں۔ بخدا اگرکروڑوں کی مردم شماری میں سے ان سب منافقوں اور غلام فطرت لوگوں کے نام کٹ جائیں اور دنیا میں صرف چند ہزار وہ مسلمان رہ جائیں جن کی تعریف یہ ہو کہ یُّحِبُّہُمْ وَیُحِبُّوۡنَہٗۤ ۙ اَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیۡنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الْکٰفِرِیۡنَ ۫ یُجَاہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ وَلَا یَخَافُوۡنَ لَوْمَۃَ لَآئِمٍ (المائدہ , 54)تو اسلام اب سے بدرجہا زیادہ طاقتور ہوگا اور ان کروڑوں کا نکل جانا اس کے حق میں ایسا ہوگا جیسے کسی مریض کے جسم سے پیپ اور کچ لہو نکل جائے۔
نَخْشٰۤی اَنۡ تُصِیۡبَنَا دَآئِرَۃٌ ؕ (المائدہ , 52)
ہم کو خوف ہے کہ ہم مصیبت آجائے گی۔
یہ آج کوئی نئی آواز نہیں بہت پرانی آواز ہے۔ جو منافقوں کی زبان سے بلند ہوتی رہی ہے۔ یہی آواز نفاق کی اس بیماری کا پتہ دیتی ہے جو دلوں میں چھپی ہوئی ہے۔ اسی آواز کو بلند کرنے والے ہمیشہ مخالفین اسلام کے کیمپ کی طرف لپکتے رہے ہیں۔ ہمیشہ سے انہوں نے اللہ کی قائم کی ہوئی حدوں کو پاﺅں کی بیڑیاں اور گلے کا طوق ہی سمجھا ہے۔ ہمیشہ سے ان کو احکام خدا و رسول کا اتباع گراں ہی گزرتا ہے۔ اطاعت میں جان ومال کا ضیاع اور نافرمانی میں حیات دنیا کی ساری کامرانیاں ہمیشہ سے ان کو نظر آتی رہی ہیں۔ پس ان کی خاطر خدا کی شریعت کو نہ ابتداءمیں بدلا گیا تھا‘ نہ اب بدلا جاسکتا ہے اور نہ کبھی بدلا جائے گا۔ یہ شریعت بزدلوں اور نامردوں کے لیے نہیں اتری ہے۔ نفس کے بندوں اور دنیا کے غلاموں کے لیے نہیں اتری ہے۔ ہوا کے رخ پر اڑنے والے خش و خاشاک‘ اور پانی کے بہاﺅ پر بہنے والے حشرات الارض اور ہر رنگ میں رنگ جانے والے بے رنگوں کے لیے نہیں اتری ہے۔ یہ ان بہادر شیروں کے لیے اتری ہے جو ہوا کا رخ بدل دینے کا عزم رکھتے ہیں۔ جو دریاﺅں کی روانی سے لڑنے اور اس کے بہاﺅ کو پھیر دینے کی ہمت رکھتے ہیں۔ جو صبغتہ اللہ کو دنیا کے ہر رنگ سے زیادہ محبوب رکھتے ہوں اور اسی رنگ میں تمام دنیا کو رنگ دینے کا حق رکھتے ہوں۔ مسلمان جس کا نام ہے وہ دریا کے بہاﺅ پر بہنے کے لیے پیدا ہی نہیں کیا گیا ہے۔ اس کی آفرینیشن کا تو مقصد ہی یہ ہے کہ زندگی کے دریا کو اس پر رواں کردے جو اس کے ایمان و اعتقاد میں راہ راست ہے۔ صراط مستقیم ہے۔ اگر دریا نے اپنا رخ اس راستہ سے پھیر دیا تو اسلام کے دعوے میں وہ شخص جھوٹا ہے۔ جو اس بدلے ہوئے رخ پر بہنے ک لیے راضی ہوجائے۔ حقیقت میں جو سچا مسلمان ہے وہ اس غلط رو دریا کی رفتار سے لڑے گا۔ اس کا رخ پھیرنے کی کوشش میں اپنی پوری قوت صرف کردے گا۔ کامیابی اور ناکامی کی اس کو قطعاً پرواہ نہ ہوگی۔ وہ ہر اس شخص کو گوارا کرلے گا جو اس لڑائی میں پہنچے یا پہنچ سکتا ہو۔ حتیٰ کہ اگر دریا کی روانی سے لڑتے لڑتے اس کے بازو ٹوٹ جائیں۔ اس کے جوڑ بند ڈھیلے ہوجائیں اور پانی کی موجیں اس کو نیم جان کرکے کسی کنارے پر پھینک دیں تب بھی اس کی روح ہر گز شکست نہ کھائے گی۔ ایک لمحہ کے لیے بھی اس کے دل میں اپنی اس ظاہری نامرادی پر افسوس یا دریا کی رو پر بہنے والے کافروں یا منافقوں کی کامرانیوں پر رشک کا جذبہ راہ نہ پائے گا۔
قرآن تمہارے سامنے ہے۔ انبیاءعلیہم السلام کی سیرتیں تمہارے سامنے ہیں ۔ ابتداءسے لے کر آج تک علمبرداران اسلام کی زندگی تمہارے سامنے ہیں۔ کیا ان سب سے تم کو یہی تعلیم ملتی ہے کہ ہوا جد ھر اڑائے ادھر اڑ جاﺅ؟ پانی جدھر بہائے ادھر بہہ جاﺅ؟ زمانہ جو رنگ اختیار کرے اسی رنگ میں رنگ جاﺅ؟ اگر مدعا یہی ہوتا تو کسی کتاب کے نزول اور کسی نبی کی بعث کی ضرورت ہی کیا تھی۔ ہوا کی موجیں تمہاری ہدایت کے لیے اور حیات دنیاکا بہاﺅ تمہاری رہنمائی کے لیے اور زمانے کی نیرنگیاں تمہیں گرگٹ کی روش سکھانے کے لیے کافی تھیں۔ خدا نے کوئی کتاب ایسی ناپاک تعلیم دینے کے لیے نہیں بھیجی اور نہ اس غرض کے لیے کوئی نبی مبعوث کیا۔ ذات حق کی طرف سے تو جو پیغام آیا ہے۔ اس لیے آیا ہے کہ دنیا جن غلط راستوں پر چل رہی ہے ان سب کو چھوڑ کر ایک سیدھا راستہ مقرر کرے۔ اس کے خلاف جتنے راستے ہوں ان کو مٹائے اور دنیا کو ان سے ہٹانے کی کوشش کرے‘ ایمانداروں کی ایک جماعت بنائے جو نہ صرف خود اس سیدھے راستے پر چلیں بلکہ دنیا کو بھی اس کی طرف کھینچ لانے کی کوشش کریں۔ انبیاءعلیہم السلام اور ان کے متبعین نے ہمیشہ اسی غرض سے جہاد کیا ہے۔ اس جہاد میں اذیتیں اٹھائی ہیں۔ نقصان برداشت کیے ہیں۔ اور جانیں دی ہیں۔ ان میں سے کسی نے مصائب کے خوف یا منافع کے لالچ سے رفتار زمانہ کو کبھی اپنا مقتدا نہیں بنایا۔ اب اگر کوئی شخص یا کوئی گروہ ہدایت آسمان کے بتائے ہوئے راستہ پر چلنے میں نقصان اور مشکلات اور خطرات دیکھتا ہے اور ان سے خوفزدہ ہوکر کسی ایسے راستے پر جانا چاہتا ہے جس پر چلنے والے اس کو خوشحال‘ کامیاب اور سربلند نظر آتے ہیں تو وہ شوق سے اپنے پسندیدہ راستے پر جائے۔ مگر وہ بزدل اور حریص انسان اپنے نفس کو دنیا کو یہ دھوکہ دینے کی کوشش کیوں کرتا ہے کہ وہ خدا کی کتاب اوراس کے نبی کے  بتائے ہوئے طریقے کو چھوڑ کر بھی اس کا پیرو ہے؟ نافرمانی خود ایک بڑا جرم ہے۔ اس پرجھوٹ اور فریب اور منافقت کا اضافہ کرکے آخر کیا فائدہ اٹھانا مقصود ہے۔؟
یہ خیال  کہ زندگی کا دریا جس رخ پربہہ گیا اس سے وہ پھیرا نہیں جاسکتا عقلاً بھی غلط ہے اور تجربہ ومشاہدہ بھی اس کے خلاف گواہی دیتا ہے۔ دنیا میں ایک نہیں سینکڑوں انقلاب ہوئے ہیں اور ہر انقلاب نے اس دریا کے رخ کو بدلا ہے۔ اس کی سب سے زیادہ نمایاں خود اسلام ہی میں موجود ہے۔ محمد جب دنیا میں تشریف لائے تو زندگی کا دریا کس رخ پر بہہ رہا تھا؟ کیا تمام دنیا پر کفرو شرک کا غلبہ نہ تھا؟ کیا استبداد اور ظلم کی حکومت نہ تھی؟ کیا انسانیت کو طبقات کی ظالمانہ تقسیم نے داغدار نہ بنا رکھا تھا؟ کیا اخلاق پر خواحش‘ معاشرت پر نفس پرستی‘ معیشت پر ظالمانہ جاگیرداری و سرمایہ داری اور قانون کی بے اعتدالی کا تسلط نہ تھا۔ مگر ایک تن واحد نے اٹھ کر تمام دنیا کو چلینج دے دیا۔ تمام ان غلط خیالات اور غلط طریقوں کو رد کردیا جو اس وقت دنیا میں رائج تھے۔ ان سب کے مقابلہ میں اپنا ایک عقیدہ اور اپنا ایک طریقہ پیش کیا اور چند سال کی مختصر مدت میں اپنی تبلیغ اور جہاد سے دنیا کے رخ کو پھیر کر اور زمانہ کے رنگ کو بدل کر چھوڑا۔
تازہ ترین مثال اشتراکی تحریک کی ہے۔ انیسویں صدی میں سرمایہ داری کا تسلط اپنی انتہا کو پہنچ چکا تھا۔ کوئی بزدل مرغ باد نما اس وقت یہ تصور بھی نہ کرسکتا تھا۔ کہ جو نظام ایسی ہولناک سیاسی اور جنگی قوت کے ساتھ دنیا پر مسلط ہے اس کو الٹ دینا بھی ممکن ہے۔ مگر انہی حالات میں ایک شخص کارل مارکس نامی اٹھا اور اس نے اشتراکیت کی تبلیغ شروع کی۔ حکومت نے اس کی مخالفت کی‘ وطن سے نکالا گیا۔ ملک ملک کی خاک چھانتا پھرا۔ تنگ دستی اور مصیبت سے دوچار ہوا۔ مگر مرنے سے پہلے اشتراکیوں کی ایک طاقت ور جماعت پیدا کرگیا۔ جس نے چالیس سال کے اندر نہ صرف روس کی سب سے زیادہ خوفناک طاقت کو الٹ کر رکھ دیا بلکہ تمام دنیا میں سرمایہ داری کی جڑیں ہلا دیں اور اپنا ایک معاشی اور تمدنی نظریہ اس قوت کے ساتھ پیش کیا کہ آج دنیا میں اس کے متبعین کی تعداد روز بروز بڑھتی چلی جارہی ہے۔ اور ان ممالک کے قوانین بھی اس سے متاثر ہورہے ہیں جن پر سرمایہ داری کی حکومت گہری جڑوں کے ساتھ جمی ہوئی ہے۔
مگر انقلاب یا ارتقاءہمیشہ قوت ہی کے اثر سے رونما ہوا ہے۔ اور قوت ڈھل جانے کا نام نہیں ڈھال دینے کا نام ہے۔ مڑجانے کو قوت نہیں کہتے۔ موڑد ینے کو کہتے ہیں۔ دنیا میں کبھی نامردوں اور بزدلوں نے کوئی انقلاب پیدا نہیں کیا۔ جو لوگ اپنا کوئی اصول‘ کوئی مقصد حیات‘ کوئی نصب العین نہ رکھتے ہوں جو بلند مقصد کے لیے قربانی دینے کا حوصلہ نہ رکھتے ہوں۔ جن کو دنیا میں محض آسائش اور سہولت ہی مطلوب ہو۔ جو ہر سانچے میںڈھل جانے اور ہر دباﺅ سے دب جانے والے ہوں۔ ایسے لوگوں کا کوئی قابل ذکر کارنامہ انسانی تاریخ میں نہیں پایا جاتا۔ تاریخ بنانا بہادر مردوں کاکام ہے۔ انہی نے اپنے جہاد اور اپنی قربانیوں سے زندگی کے دریا کا رخ پھیرا ہے۔ دنیا کے خیالات بدلے ہیں۔ مناہج عمل میں انقلاب برپا کیا ہے۔ زمانے کی رنگ میں رنگ جانے کی بجائے زمانے کو خود اپنے رنگ میں رنگ کر چھوڑا ہے۔
پس یہ نہ کہو کہ دنیا جس راستہ پر جاری ہے اس سے وہ پھیری نہیں جاسکتی اور زمانے کی جو روش ہے اس کا اتباع کیے بغیر چارہ نہیں ۔ مجبوری کا جھوٹا دعویٰ کرنے کی بجائے تم کو خود اپنی کمزوری کا سچا اعتراف کرنا چاہیے اور جب اس کا اعتراف کرلو گے تو تم کو یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ کمزور کے لیے دنیا میں نہ کوئی مذہب ہوسکتا ہے‘ نہ کوئی اصول اور نہ کوئی ضابطہ اس کو تو ہر زور آور سے دبنا پڑے گا۔ ہر طاقتور کے آگے جھکنا پڑے گا۔ ۔ وہ کبھی اپنے کسی اصول اور کسی ضابطہ کا پابند نہیں ہوسکتا۔ اگر کوئی مذہب اس کے لیے اپنے اصول بدلتا چلا جائے تو وہ سرے سے کوئی مذہب ہی نہ رہے گا۔

Share

الرحيق المختوم کا مختصر تعارف

Filed under: مذہب — ابو عزام @ 12:49 am
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ سبحان تعالی نے تمام دنیا کے لئے رحمت بنا کر بھیجا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور بہت کچھ لکھنا باقی ہے لیکن صفي الرحمن المباركپوری کی کاوش، ‘الرحيق المختوم’ سیرت طیبہ پر ایک نہایت عمدہ اضافہ ہے اور ہر عاشق رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک انمول تحفہ۔
الرحيق المختوم کی کو حياة الرسول صلى الله عليه وسلم کے  موتمر العالم السلامی (مسلم ورلڈ لیگ) کے تحت  ١٩٧٩ میں منعقد ہونے والےعالمی مقابلہ میں پہلا انعام ملا۔ یہ کتاب اپنی سلاست و روانی کے ساتھ ساتھ تاریخی پس منظر کو سیرت طیبہ کے ساتھ پرو کر بیان کرنے کے حوالے سے بہترین علمی شاہکار کا درجہ رکھتی ہے۔ جدید قاری جو خصوصا مغربی کتابوں کے مدلل اور حوالہ جاتی انداز بیان سے محسور ہوتا ہے، ابو ہِشام کی الرحيق المختوم اس کے لئے بہترین زاد راہ ہے۔
یہ کتاب عربوں کی طویل تاریخ کوبہترین، مختصر اور پراثر پیراے میں بیان کرتے ہوے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے وقت سرزمین عرب کے حالات کا جس علمی انداز میں نقشہ کھینچتی ہے وہاں حالی کا مسدس چراغ دکھاتا معلوم ہوتا ہے۔ ابتدائیا عربی زبان میں لکھی گئی اس کتاب کا دنیا کی بیشتر زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے ۔ کم و بیش  ٥٥٠ صفحات کی یہ کتاب سیرت طیبہ کے ابتدائی ماخذات سے استفاذہ کرتے ہوئے ایک ایسا علمی اور تاریخی پس منظر کھینچتی ہے کہ جس میں ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک داعی حق، سپاہ گر،منصف، مقرر، شہری، جرنیل، سپاہی، الفقروفخری حکمران، شوہراور دیگر کئی بشری کیفیات میں دیکھتے ہیں۔ یہ کتاب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ہے، محسن انسانیت کی زندگی جس نے ہمیشہ اپنے آپ کو انا بشر مثلکم کہا اور اس کتاب کو پڑھنے سے ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں پیش آنے والے ان واقعات کا پتا چلتا ہے جو کہ مافوق الفطرت انداز بیاں سے لکھی گئی کتابوں میں نہیں ملتے۔ اگر آپ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو من الحیث النبی اور من الحیث البشر جاننا چاہتے ہیں، اگر آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کن صعوبتوں سے گذر کر یہ دین آپ تک پہنچا ہے تو سیرت طیبہ کی اس کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔
کسی غمگسار کی محنتوں کا یہ خوب میں نے صلہ دیا
کہ جو میرے غم میں گھلا کیا اسے میں نے دل سے بھلا دیا
جو جمال روئے حیات تھا، جو دلیل راہ نجات تھا
اسی راہبر کے نقوش پا کو مسافروں نے مٹا دیا
میں تیرے مزار کی جالیوں ہی کی مدحتوں میں مگن رہا
تیرے دشمنوں نے تیرے چمن میں خزاں کا جال بچھا دیا
تیرے حسن خلق کی اک رمق میری زندگی میں نہ مل سکی
میں اسی میں خوش ہوں کہ شہر کے دروبام کو تو سجا دیا
تیرے ثور و بدر کے باب کے میں ورق الٹ کے گزر گیا
مجھے صرف تیری حکایتوں کی روایتوں نے مزا دیا
کبھی اے عنایت کم نظر! تیرے دل میں یہ بھی کسک ہوئی
جو تبسم رخ زیست تھا اسے تیرے غم نے رلا دیا
عنایت علی خاں-
سیرت طیبہ کی کتابیں بحوالہ وکیپیڈیا
السيرة النبوية لابن إسحاق.
السيرة النبوية لابن هشام.
الروض الأنف في تفسير سيرة ابن هشام لأبي القاسم السهيلي.
تهذيب سيرة ابن هشام لعبد السلام هارون.
الدرر في اختصار المغازي والسير لابن عبد البر.
الشفا بتعريف حقوق المصطفى مذيلا بالحاشية المسماة مزيل الخفاء عن ألفاظ الشفاء للقاضي عياض.
قاعدة تتضمن ذكر ملابس النبي وسلاحه ودوابه لتقي الدين ابن تيمية.
الطب النبوي لابن القيم.
زاد المعاد في هدي خير العباد لابن القيم.
مختصر زاد المعاد لمحمد بن عبد الوهاب التميمي.
البداية والنهاية لأبو الفداء ابن كثير القرشي الدمشقي.
السيرة النبوية لأبو الفداء ابن كثير القرشي الدمشقي.
قصص الأنبياء لأبو الفداء ابن كثير القرشي الدمشقي.
ألفية العراقي في السيرة لأبو الفضل زين الدين العراقي.
سبل الهدى والرشاد في سيرة خير العباد وذكر فضائله وأعلام نبوته وأفعاله وأحواله في المبدأ والمعاد للصالح الشامي.
مختصر سيرة الرسول صلى الله عليه وسلم لمحمد بن عبد الوهاب التميمي.
نور اليقين في سيرة سيد المرسلين لمحمد الخضري.
الرحيق المختوم لصفي الرحمن المباركفوري.
محمد صلى الله عليه وسلم لمحمد رضا.
القول المبين في سيرة سيد المرسلين لمحمد الطيب النجار.
السيرة النبوية لعلي محمد الصلابي.
نبي الرحمة لمحمد مسعد ياقوت.
رجال حول الرسول لخالد محمد خالد.
حياة محمد، لمحمد حسنين هيكل
محمد..الإنسان الكامل، لمحمد علوي المالكي

Share
« Newer PostsOlder Posts »

Powered by WordPress