فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

March 26, 2013

باب اول: بڑے سوالات – خدا اور اسٹیفن ہاکنگ, آخر یہ کس کی تخلیق ہے؟

Filed under: ادبیات,کتابیات,مذہب — ابو عزام @ 6:36 pm

گذشتہ سے پیوستہ۔  ڈاکڑ جان لینکس، آکسفرڈ یونیورسٹی کے ماہر ریاضیات پروفیسر کی شہرہ آفاق کتاب کا ترجمہ و تخلیص

باب اول: بڑے سوالات

اسٹیفن ہاکنگ بلاشبہ  اس وقت دنیا کے سب سے مشہور سائنسدان ہیں۔ وہ حال ہی میں کیمبرج کے لیوسیشئین پروفیسرشپ  کے عہدے سے سبکدوش ہوئے۔  یہ وہ منصب ہے جس پر کبھی سر اسحق نیوٹن براجماں رہے۔ ہاکنگ نے یہ مقام بہت امتیاز کے ساتھ حاصل کیا ہے۔ ان کو ملکہ عالیہ نے’اعزازی ساتھی‘ بنادیا اور ان کا تعلیمی کریئر پوری دنیا سے حاصل ہونے والے اعزازت سے مزین ہے۔

وہ صبر و برداشت کے بھی ایک علامت رہے ہیں کیوں کہ وہ چالیس سال سے زیادہ عرصے تک اعصابی بیماری کی تباہ کاری کو سہنے کے باوجود فارغ نہیں بیٹھے۔ بیماری کا زیادہ تر عرصہ انہوں نے ویل چیئر پر گزارا جبکہ ان کو ابلاغ کے لیے خاص طور پر ڈیزائن کردہ صوتی تالیف کار آلہ( سینتھائزر) پر انحصار کرنا پڑتا تھا جس کو بہت جلد دنیا بھر میں ایک قابل شناخت ”آواز“ کے طور پر پہچانا جانے گا۔

 اپنے بہت سے ممتاز ساتھیوں اور شاگردوں کے ساتھ مل کر ہاکنگ نے ریاضیاتی طبعیات کی سرحدوں کو دریافت کیا خاص طور پر سیاح سوراخوں کی رازوں کا ان کا مخالف وجدان قابل ذکر ہے۔ یہ کام ”ہاکنگ تابکاری“ کی پیش گوئی پر منتج ہوا تھا ، جس کی اگر تجربے کے ذریعے تصدیق کی جاتی تو وہ نوبل انعام کے حقدار قرار پاتے۔

ان کی ہاتھوں ہاتھ بکنے والی سب سے زیادہ فروخت والی کتاب ’’وقت کی مختصر تاریخ‘‘ میں ہاکنگ بنیادی طبعیات کی پیچیدہ دنیا کو کافی کی میز پر لے آئے(اگرچہ بہت سارے لوگ اس سے زیادہ مواد کی تلاش کا اعتراف کرچکے ہیں)۔ اس کتاب کے بعد اسی سطح کی کئی اور کتابیں سامنے آئیں جن میں عظیم سائنس کے رموز نے قارئین کے وسیع حلقے کو بہت زیادہ متاثرکیا۔

چونکہ ان کتابوں کا تعلق کائنات کی ابتدا/ تخلیق سے ہے ‘اس لیے ان کو لازمی طورپر خالق کے وجود کے موضوع کو زیرغور لانا چاہیے تھا۔ تاہم انہوں نے اس موضوع پر تشنگی کو باقی رکھنے کے لیے”وقت کی مختصر تاریخ“ کو بہ تکرار پیش کیے جانے والے بیان ”کہ اگر طبعیات کو ہر چیز کے تصور“(وہ تصور جس نے فطرت کی چار بنیادی قوتوں‘ مضبوط اور کمزورجوہری طاقتوں‘برقناطیسیت اور کششِ ثقل) کو تلاش کرنا ہوتا تو ہم” خدا کے ذہن کو پہچانتے“کے ساتھ ختم کیا۔

اپنی تازہ ترین تصنیف ”عظیم ڈیزائن“ جو انہوں نے لیونارڈو لیڈونو کے ساتھ مشترکہ طور پر تحریر کی ہے میں ان کی محتاط طبعی/کم گوئی غائب ہوگئی ہے اور انہوں نے کائنات کی الٰہی تخلیق کے عقیدے کو چیلنج کیا ہے۔ ان کے مطابق یہ خدا کی خواہش نہیں بلکہ طبعیات کے قوانین ہیں جو کائنات کی تخلیق کے بارے میں وضاحت فراہم کرتے ہیں۔ وہ دلیل دیتے ہیں کہ بِگ بینگ (بِگ بینگ موجودہ آفاقی ماڈل کے بارے میں اوائل کی وضاحت کرنے والا ایک نظریہ ہے‘ مترجم) ان قوانین کامنطقی نتیجہ تھا ”کیوں کہ یہ کشش ثقل کے قانون کی طرح کا قانون ہے کہ کائنات خود کسی چیز کے بغیر خود کو تخلیق کرسکتی اور کرتی ہے۔“

’’عظیم ڈیزائن‘‘ کا عنوان بیشتر لوگ کے نزدیک ’’عظیم ڈیزائنر کی بات کرتا ہوگا‘‘ لیکن دراصل یہی وہ بات ہے جس سے انکار کے لیے اس کتاب کو ترتیب دیا گیا ہے۔ ہاکنگ کا عظیم خلاصہ ہے کہ ”خودرو تخلیق اس بات کی دلیل ہے کہ نہ ہونے سے پہلے کوئی چیز ہے‘ کائنات قائم ہے‘ ہم کیوں زندہ ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ نیلے ٹچ کاغذ کو روشن کرنے کے لیے خدا کو بلایا جائے تو کائنات کام کرنا شروع کردے گی“۔

میں چاہتاہوں کہ اس کتاب میں ہاکنگ کی سائنس نہیں اس پر بات کروں جو اس نے خدا کے وجود یا عدم وجود کے بارے میں اس کتاب سے اخذ کیا ہے۔ اگرچہ ہاکنگ کی اس دلیل کو کہ سائنس غیر ضروری طور پر خدا کو دکھاتا ہے‘ کوانقلابی قرار دے کر سراہا گیا لیکن یہ دلیل نئی ہرگز نہیں ہے۔ برسوں تک دیگر سائنسدان اسی طرح کے دعوے کرتے رہے ہیں، جنہوں نے کہا کہ ہمارے اردگر دنیا کی رعب دار، جدید پیچیدگی کی صرف کائنات (کمیت /تونائی) کے بنیادی شے کے حوالے سے تشریح کی جاسکتی ہے یا پھر طبیعاتی قوانین، جیسے کشش ثقل کا قانون جو کائنات کے رویے کی وضاحت کرتا ہے۔

اس کتاب پر صرف ایک نظر ڈالنے سے یہ پتہ چلانا مشکل ہے کہ ہاکنگ کی یہ نئی کتاب اس کی تصنیف ’وقت کی مختصر تاریخ‘‘ میں کیسا اضافہ کرتی ہے۔

عظیم ڈیزائن ان بڑے سوالوں کی ایک فہرست سے شروع ہوتی ہے جو لوگ اکثر پوچھتے تھے:” ہم اپنے آپ کو جس دنیا میں پاتے ہیں اس کو کیسے سمجھ سکتے ہیں؟ کائنات کیسا برتاﺅ کرتی ہے؟ حقیقت کی فطرت کیا ہے؟ یہ سب کچھ کہاں سے آیاہے؟ کیا کائنات کو کسی خالق کی ضرورت تھی؟“

ایسے معروف شخص کے طرف سے آئے یہ سوالات اس خیال کو مضبوط تر بناتے ہیں کہ بین الاقوامی سائنسدان مابعد الطبعیات سے متعلق اِن عمیق سوالات کے بارے میں کس طرح کی فہم و فراست رکھتا ہے۔ بہرحال ان سوالوں کی جو ہم سب وقتاً فوقتاً پوچھتے ہیں ایک عظیم دماغ کی طرف سے وضاحت اور جواب بہرحال بڑی مسحورکن بات معلوم ہوتی ہے۔

فلسفے کا ایک ناکافی تصور:

اگر یہ ایسا ہی ہے جس کی ہمیں توقع ہے تو ہم صدمے سے دوچار ہیں کیوں کہ آگے کے الفاظ میں ہاکنگ فلسفے کو مسترد کرتے ہیں۔ اپنے سوالات کی فہرست کا حوالہ دیتے ہوئے موصوف رقم طراز ہیں ”روایتی طورپر یہ سوالات فلسفے کے لیے ہیں لیکن فلسفے کی موت ہوچکی ہے۔ اس کوسائنس‘ خاص کر طبعیات میں جدید ترقی کے ساتھ جاری نہیں رکھا گیا ہے ۔نتیجتاً سائنسدان علم کی دریافت  میں ہمارے مشعل بردار بن چکے ہیں۔‘‘

فلسفہ کو(وہ مضمون جس کو اس کی اپنی کیمبرج یونیورسٹی میں نمائندگی اور وقعت دی گئی ) مسترد کرنے کے اس بے جا زعم  سے قطع نظر یہ پریشان کن ثبوت فراہم کرتا ہے کہ کم از کم ہاکنگ جیسے ایک سائنسدان  نے بذات خود فلسفے کو اتنی اہمیت نہیں دی جس سے ان کو احساس ہوتا کہ پوری کتاب میں وہ خود اس کے ساتھ مصروف رہے ہیں‘‘

 پہلی بات میں نے یہ محسوس کی کہ ہاکنگ کا فلسفے کے بارے میں بیان دراصل خود ایک فلسفیانہ بیان ہے۔ یہ بہ دیہی طور پر سائنسی بیان نہیں ہے‘یہ سائنس کے بارے میں خالص فلسفیانہ بیان ہے۔ اس لیے اس کا بیان کہ فلسفہ کی موت ہوچکی ہے اپنی ہی تردید کرتا ہے۔ یہ منطقی بے ربطی کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔

فلسفے کی طرف ہاکنگ کا رویہ نمایاں طور ہر البرٹ آئن سٹائن کے اس خط کے برعکس ہے جس میں انہوں تاریخ اور سائنس کے فلسفے سے طبعیات تک تعلیم کی حمایت کی تھی۔

’’میں آپ کے ساتھ طریقیات کے علاوہ تاریخ اور سائنسی فلسفے کی تعلیمی قدر و اہمیت پر متفق ہوں۔ آج بہت سارے لوگ اور حتیٰ کے پیشہ ور سائنسدان مجھے اس فرد کی طرح دکھائی دیتے ہیں جس نے ہزاروں درختوں کو دیکھا ہوتا ہے لیکن کبھی جنگل نہیں گیا۔‘‘

تاریخ کا علم اور فلسفیانہ پس منظر ان تعصبات سے پاک رکھتی ہیں جن میں اس کے نسل کے اکثر سائنسدان مبتلا تھے۔ میرے خیال میں فلسفیانہ بصیرت کی بدولت حاصل ہونے والی اہلیت تعصبات سے آزادی ایک محض ماہر اور سچ کے حقیقی متلاشی کے درمیان لکھیر کھنچتی ہے‘‘

مزید برآں، ہاکنگ کا بیان کہ ’’سائنسدان دریافت کے معشل بردار بن چکے ہیں‘‘ سائنسیت سے ٹکراؤ ہے جو کہتی ہے کہ سائنس صرف سچ کی طرف ایک راستہ ہے۔ یہ سیکولر فکر کی اس تحریک کی نظریاتی خصوصیت ہے جس کو’’نئی دہریت‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے اگرچہ یہ خیال صرف اس لحاظ سے نیا ہے کہ  اب اس کو دانشورانہ مواد کی صورت کے بجائے جارحانہ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔

سائنسی دنیا کے ایک سپر اسٹار کو تو چھوڑیے ایک عام سائنسدان کے لیے یہ بات عقلمندی والی معلوم نہیں ہوتی  کہ وہ ایک طرف فلسفے کی تحقیر کرے اور پھر فورا غیرمعمولی فلسفیانہ موقف اختیار کرے خاص کر جب اس کو قارئین کو قائل کرنے  کے لیے ترتیب دی گئی کتاب کی ابتدا میں پیش کیا جائے۔

نوبل لیوریت سر پیٹر میداوار نے اس خطرے کی نشاندہی پہلے ہی اپنی کتاب ’نوجوان سائنسدانوں کو مشورہ‘‘ میں کردی تھی جو تمام سائنسدانوں کو لازمی پڑھنا چاہیے۔

’’

کسی سائنسدان کے لیے اپنے اور اپنے پیشے کی ساکھ کو خراب کرنے کا اس سے تیز طریقہ نہیں ہوسکتا کہ وہ صاف صاف اعلان کردے، خاص کراس وقت جب اس طرح اعلان کی ضرورت نہ ہو کہ سائنس ہر سوال کا جواب جانتی ہے یا جلد جان جائے گی اور وہ سوال جن کو سائنسی جواب نہیں مل پاتے وہ کسی طرح غیرسوال یا جعلی سوال ہیں جو کوئی بے ہی وقوف پوچھتا ہے اور صرف ایک اجڈ ہی اس کا جواب دینے کا دعویٰ کرے گا۔‘‘

میداوار آگے رقم طراز ہیں ۔’’تاہم سائنس کی حد کا وجود ان بچگانہ اور عنصری سوالات جن کا تعلق پہلی اور آخری چیزوں سے ہوتا ہے سے واضح ہوجاتا ہے جیسے ’’ہر چیز کی شروعات کیسے ہوئی؟‘‘’’ہم یہاں کس لیے ہیں؟ آخری زندگی رہنے کا مقصد کیا ہے؟‘‘ وہ آگے لکھتا ہے کہ ان سوالات کے جوابوں کے لیے ہمیں تصوریاتی ادب اور مذہب کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔

فرانسز کولنز پر بھی یکساں طور پر سائنس کی حدود واضح ہیں۔ وہ لکھتے ہیں سائنس ان جیسے سوالوں کا جواب دینے میں بے بس ہے کہ ’دنیا کیوں وجود میں آئی؟ انسانی وجود کے معانی کیا ہیں؟ مرنے کے بعد کیا ہوگا؟‘‘

میداوار اور کولنز صریحاٍ سائنس کے بارے میں پرجوش ہیں۔  پس ہمیں اعلیٰ سطح پر مخلص سائنسدانوں میں کوئی بے ربطی نہیں دکھائی دیتی جبکہ وہ بیک وقت یہ ادراک کرلیتے ہیں کہ سائنس ہر سوال کا بشمول کچھ گہرے سوالات کے جو ایک انسان پوچھ سکتا ہے جواب فراہم نہیں کرسکتی ہے۔

مثال کے طور یہ بات بڑے پیمانے پر تسلیم شدہ  ہے کہ سائنس میں اخلاقی اساس کا پایا جانا بہت ہی مشکل ہے۔ البرٹ آئن سٹائن نے اس کو واضح طور پر دیکھا تھا۔ ۱۹۳۰ میں برلن میں سائنس اور مذہب کے بارے میں ایک بحث کے دوران انہوں نے کہا کہ خوبصورتی کا انسانی احساس اور ہماری مذہبی جلبتیں استدلالی صلاحیتوں کو عظیم کامیابیوں کے طرف لے جانے میں معاون ہوتی ہیں۔ آپ بجا طور پر سائنس کی اخلاقی بنیادوں کی بات کرتے ہیں لیکن آپ یک دم پلٹ کر اخلاقیات کی سائنسی بنیادوں کی بات نہیں کرسکتے ہیں۔‘‘

آئن سٹائن اس نکتے پر پہنچ گئے کہ سائنس اخلاقیات کی بنیاد فراہم نہیں کرتی۔’’ اخلاقیات کی سائنسی فارمولے کی سطح پر کمی کی ہر کوشش ناکام ہوگی‘‘

رچرڈ فین مین نے جو خود بھی نوبل انعام جیتنے والے ماہرطبیعات ہیں آئن سٹائن کے ان خیالات سے اتفاق کیا ہے’’حتیٰ کے عظیم قوتیں اور اہلیت بھی ان کو استعمال کرنے کی ہدایات فراہم کرتی دکھائی نہیں دیتی۔ مثال کے طور پرعلم کا عظیم مجموعہ کہ طبعیاتی دنیا  جس طرح کا برتاو کرتی ہے صرف اس پر قائل کرتی ہے کہ یہ رویہ بے معنی قسم کا ہے۔ سائنس براہ راست اچھائی یا برائی نہیں سکھاتی۔‘‘ ایک اور جگہ وہ لکھتے ہیں’’ اخلاقی قدریں سائنس کے دائرہ کار سے باہر ہوتی ہیں‘‘

تاہم ہاکنگ اس کا انکار کرتے دکھائی دیتے ہیں جب وہ سائنس کو وہ کردار تفویض کرتے ہیں جو اس کی استعداد سے بڑھ کرہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ وہ فلسفے کی بے توقیری کرنے کے بعد اسی کے ساتھ مصروف ہوجاتے ہیں۔ حتیٰ کہ وہ سائنس کی تعریف اور اطلاق ان حتمی سولات پر بھی کرتے ہیں جیسے خدا کا وجود، اس طرح ہاکنگ مابعد الطعبیات پر گفتگو کرتے ہیں۔ اب ہمیں یہ وضاحت کرنے دیں کہ میں اس کے لیے ہاکنگ کو قصور وار نہیں ٹھیراتا، میں خود اس پوری کتاب میں مابعد الطعبیات کے پر گفتگو کرتا رہوں گا۔ میرا اعتراض تو یہ ہے کہ وہ اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتے۔

جاری یے۔

Share

February 4, 2013

ہاں تو میاں، تمہارا پی ایچ ڈی کیسا چل رہا ہے؟

Filed under: تحقیق — ابو عزام @ 6:27 pm

اکثربے تکلف احباب دل دکھانے کو گاہے بگاہے یہ سوال کیا کرتے ہیں کہ بھئی تمہارا پی.ایچ.ڈی کب مکمل ہو رہا ہے یا تمہاری تحقیق کا کیا حال ہےیا تمہارا مقالہ تو ختم ہو کر ہی نہیں دے رہا وغیرہ وغیرہ. اس ضمن میں جامعہ اسٹینفورڈ کے فارغ التحصیل،  پی ایچ ڈی کامکس کے خالق ہورہے چام کا کہنا ہے کہ گریجویٹ اسکول کا پہلا اصول یہ ہے کہ گریجویٹ اسکول کے طالبعلم سے ازراہ ہمدردی مندرجہ بالا سوالات نا کئے جائیں، شکریہ۔

phd0227

یہ تو خیر جملہ معترضہ ٹھرا۔ یہاں کوشش یہ ہے کہ عام فہم انداز میں یہ بتانے کی کوشش کی جاۓ کہ راقم کے مقالے کا موضوع کیا ہے. مجھے علم ہے کہ اس کوشش میں نا تو میں عام فہمی سے انصاف کر پاوں گا اور نا تکنیکیت سے، اور دونوں طرف سے بری بھلی سننے کو ملیں گی، لیکن  کیا خوب کہا مرزا نوشہ نے کہ اپنے جی میں ہم نے ٹھانی اور ہے۔

 اس سے قبل تھوڑا سا پی.ایچ.ڈی کی پوسٹ گریجویٹ اکیڈمک ڈگری کا تعارف ہو جاۓ. “پی.ایچ.ڈی” یا “ڈاکٹر آف فلاسفی” ایک اکیڈمک یا تعلیمی ڈگری ہے جو درحقیقت کسی موضوع پر کی جانے والی اس اصل تحقیق کے نتیجے میں ملنے والی تحقیقی منزلت یا اجازہ کا نام ہے ۔ اس ڈگری کا منتہا ایک مقالہ و ‘ڈاکٹر؛ کا سابقہ ہوا کرتا ہے لیکن اصل محصول تحقیق کی عادت ۔ ڈاکٹر عنیقہ ناز مرحومہ  نے اسی موضوع پر راقم کی ایک تحریر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا  کہ

پی ایچ ڈی اسپیشلائزین نہیں…، بہت سے لوگ اسی غلط فہمی میں ہیں۔ یہ دراص ایک طرح کی تربیت ہے دماغ کو آزاد روی سے سوچنے کی طرف لے جانے کی۔ اس لئے اسکی تحقیق کے عنوان سے لیکر نتائج کو جمع کرنا اور پھر انکا دفاع کرنا پی ایچ ڈی کرنے والے کی ذمہ داری ہوتا ہے۔ جبکہ ماسٹرز کی ڈگری تک یہ ٹریننگ نہیں ہوتی۔

پی ایچ ڈی کا مطلب ویژن یا بصیرت پیدا کرنا ہوتا ہے۔ اپنے راستے خود متعین کرنا،امشاہدات سے اپنے ذاتی نتائج نکالنے کی اہلیت رکھنا، اس وقت جب تمام لوگ سمجھتے ہیں کہ رات نجانے کتنی لمبی ہے اس چیز کی اہلیت رکھنا کہ صبح کے آنے کے آثار ہیں یا نہیں

عمومی طور پر پی ایچ ڈی کے دو حصّے ہوا کرتے ہیں ایک “کورس ورک ” کہلاتا ہے جس میں محقق، تحقیقی کورسز کو مکمل کرتے ہیں۔ اس کو اکثر ممالک میں ایم فل یا ماسٹر آف فلاسفی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ دوسرا حصّہ مقالے کا ہوتا ہے.ہماری جامعہ کے ڈین ڈاکٹر ایکرمین نے اورینٹیشن کے دوران طلبا کو ڈرانے کے لئے خصوصی طور پر بتایا کہ شماریاتی طور پر پچاس فیصد طلبا جو پی.ایچ.ڈی کے پروگرام میں داخلہ لیتے ہیں. اے.بی.ڈی ہو کر پروگرام کو چھوڑ دیتے ہیں. اے.بی.ڈی کا مطلب ہوتا ہے “آل بٹ ڈسرٹیشن” یعنی اگر آپکا کورس ورک مکمل ہو جاۓ لیکن مقالہ مکمل نہ ہو تو آپکو اے.بی.ڈی یا ریسرچ ڈاکٹریٹ کہا جاتا ہے.امریکا میں “پی.ایچ.ڈی” کا عمومی وقت پانچ سے سات سال کا ہوتا ہے اسی طرح سے دوسرے یورپی  ممالک مثلآ برطانیہ میں پی ایچ ڈی کچھ کم عرصے کے دوران مکمل کیا جا سکتا ہے ۔

phd022509s

راقم کی تحقیق کمپیوٹر سائنس کی ذیلی شاخ آرٹیفیشل انٹیلیجنس یا مصنوعی ذہانت کی دو ذیلی شاخوں مشین لرننگ اور ڈیٹا مائننگ سے تعلق رکھتی ہے۔ راقم اپنی تحقیق کو ایک جملے میں آسانی کے لئے،عام فہم غیر تکنیکی الفاظ میں بیان کرے تو کچھ  اسطرح کہا جا سکتا ہے کہ

 ڈیٹا کے کسی مجموعہ میں عمومی طور پر نہ پائی جانے والی اشیاء کی احتمالی دلچسپی کا شماریاتی پیمانہ

یہ تحقیق دراصل تین مختلف مطالعوں کے علاقہ جات کا مجموعہ ہے.

اولا – احتمالی گرافیکل نمونہ جات

 ثانیا – امکانیاتی پیمانہ ہاۓ شماریاتی دلچسپی 

اور ثالثا – دور افتادہ عوامل کی تلاش اور توجیح

ان تین مطالعوں کےعلاقوں کے تحقیقی ادغام و اشتراک سے راقم کی کوشش ہے کہ ایک ایسا الگورتھم یا طریقہ کار معرض وجود میں آسکے جو شماریاتی اصولوں کی بناء پر پیمانہ ہاے دلچسپی کو ڈھونڈھنے میں ہماری مدد کرتا ہو ۔

Scalable-pattern-mining-with-Bayesian-networks-as-background-knowledge-Fast-discovery-of-interesting-patterns-based-on-Bayesian-network-background-knowledge

پی.ایچ.ڈی کے مقالہ کا بنیادی مقصد علمی معرفت کی ہئیت میں تبدیلی لانا ہوتا ہے. کسی بھی علمی میدان میں، معرفت علم میں تغیر و تبدل ہی  پی.ایچ.ڈی کی تحقیق کا اصل مقصد ہوتا ہے۔ اگر ڈاکٹریٹ کی تحقیق کے دوران کسی مسئلے کا حل تلاش کیا جا رہا ہے تو اس بات کا قوئ امکان ہے کہ یہ مسئلہ اس سے پہلے کسی ریسرچر، کسی محقق، یا کسی عالم کے زیر مطالعہ رہا ہوگا. یا اس نے اپنے مقالہ میں یا تحقیقی کام میں اس کا ذکر ایک مسئلے کے طور پر یا مستقبل میں کئے جانے والے کام کے طور پر کیا ہوگا.

تحقیقی ادب کے مطالعے سے ہمیں جا بجا یہ پتا چلتا ہے کہ اے پرائوری یا استدلالی قوانین کی زیادتی ڈیٹا مائننگ  کی دنیا میں ایک بڑا مسئلہ ہے. ایک آسان مثال سمجھنے کے لیے یہ دی جا سکتی ہے کہ اگر آپ کسی مارکیٹ کے خرید و فروخت کے مجموعے کو دیکھیں تو اس میں ڈبل روٹی، انڈے اور دودھ کی ایک ساتھ فروخت زیادہ نظر آئیگی. ان استدلالی قوانین کی حمایت اور اعتماد بھی اس مجموعے میں زیادہ ہوگا. اس حمایت اور اعتماد کو شماریاتی احتمالی دلچسپی کے پیمانوں میں سے ایک قرار دیا جا سکتا ہے اسی طرح سے شماریاتی امکانی دلچسپی کے پیمانے لٹریچر یا تحقیقی ادب میں اور بھی بہت سے پاۓ جاتے ہیں. مثلآ اٹھاؤ یا لفٹ، پئرسن کورلیشن، آڈ ریشو، لیپلاس تصیح  وغیرہ

interestingness measures

ان پیمانوں کا مجموعی اطلاق کر کے ہم اس بات کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اشیاء کا باہمی تعلق کتنا گہرا ہے.مثلآ ان استدلالی اصولوں کی بناء پر یہ مفروضہ بڑی آسانی سے قائم کیا جا سکتا ہے کہ اگر کسی شخص نے بانگ درا اور ضرب کلیم خریدی ہو تو اسے بال جبرئیل بھی یقینآ پسند آئیگی اس تعلق کو بہترین طریقے سے بیان کرنے کا کام گراف کی مدد سے بناۓ گئے احتمالی نمونوں سے کیا جا سکتا ہے. مثلآ اگر اسی بات کو شماریاتی احتمالی طور پر بیان کرنا ہو کہ بارش یا فواروں کا گھاس کے گیلا ہونے پر کیا اثر ہوتا ہے تو اسے اس مندرجہ ذیل سادہ گراف کی مدد سے با آسانی بیان کیا جا سکتا ہے.

bayesianGraph

اس احتمالی نمونے کو بائزین یقین کا اتصالی نمونہ یا بائزین بیلیف نیٹورک کہا جاتا ہے. عام استدلالی نمونہ جات کی بہ نسبت بائزین بلیف نیٹ ورک میں سلف اور خلف دونوں طرح کے استدلال کرنے کی سہولت حاصل ہوتی ہے. مثلآ مندرجہ بالا مثال سے ہم دیکھہ سکتے ہیں کہ گھاس کے گیلا ہونے سے بارش کے وقوع اور اس کا ماخوذ دونوں کس قدر آسانی کے ساتھہ معلوم کیے جا سکتے ہیں.

bayesTheorem

بائزین بلیف نیٹ ورک احتمالی گراف نمونوں کی ایک قسم ہے اسکی مدد سے آپ کسی ماہر فن کی راۓ کو ایک گراف کے نمونے میں محفوظ کر سکتے ہیں. تمام امکانات کو “سی.پی.ٹی” یعنی مشروط امکانات کے جدول میں بھی محفوظ کیا جا سکتا ہے. سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس اتصالی نمونے  میں چونکہ مختلف گروہوں کے باہمی تعلقات کو امکانات کی مد میں ظاہر کیا جاتا ہے اس لیے اس پر اشیاء کی دلچسپی کے احتمالی پیمانہ جات یا انٹرسٹنگنس میشرز کا آسانی سے اطلاق ہو سکتا ہے جیسا کہ قطری جامعہ کے رانا ملہاس اور ظاہر الغبری کے کام سے دیکھا جا سکتا ہے.

Bayes Theorem.088

اس مختصر اور کسی قدر تکنیکی تمہید کے بعد اب آپ کو یہ سمجھنے میں آسانی ہوگی کہ راقم کی تحقیق اس موضوع پر ہے کہ کس طرح سے کسی ڈیٹا سیٹ میں کم تعداد میں پاۓ جانے والی اشیاء کی دلچسپی اور افادیت کی درجہ بندی بائزئن اتصالی نمونے کے ذریعے کی جاۓ نیز وہ کونسے ایسے شماریاتی، امکاناتی پیمانے ہیں جو کم پاۓ جانے والے عناصر کی موجودگی کے لئے زیادہ حساسیت رکھتے ہیں. راقم کا الگارتھم اور طریقہ کار، ٹریننگ ڈیٹا پر بائزین بلیف نیٹ ورک کو استعمال کرتے ہوئے حالات کے پس منظر کی نمائندگی کرنا اور اسکے بعد اس پر شماریاتی دلچسپی کے امکانات کا حساب نکالنا ہے.  بعدازاں ٹیسٹ ڈیٹا سیٹ پر بھی انہی شماریاتی امکانات کا دوبارہ حساب لگایا جاے گا اور ان دونوں شماریاتی امکانات کی تفریق اس بات کو وضاحت دیگی کہ دونوں عناصر میں کس قدر فرق موجود ہے.، جس کی بنیاد پر اسکی افادیت کی درجہ بندی کی جاسکتی ہے۔

LightSummerReading

اب میری تحقیق اس مرحلے میں داخل ہو چکی ہے جس میں میں ایسے شماریاتی احتمالی امکانات کے پیمانوں پر خاص توجہ دے رہا ہوں جو صرف اس وقت زیادہ تبدیل ہوتے ہیں جب کوئی نایاب دلچسپی کا عنصر ڈیٹا سیٹ میں نظر آتا ہے مثلآ اگر آپ کی ساری خریداری کراچی میں ہو اور دن بھر کا خرچا عموما پانچ سو سے کم رہتا ہو اور اب اچانک آپ کے اکاؤنٹ میں لاہور کی ایک ٹرانزیکشن آجاۓ جو دس ہزار روپے کی ہو توفراڈ کے ماہرین کے لئے یہ نہایت غیر معمولی اور نادر دلچسپی کی چیز ہے لیکن اس کا تناسب پورے ڈیٹا سیٹ یا اسٹریم میں بہت کم ہوتا ہے.یہ ایک آسان مثال ہے جو یوکلیڈین فاصلے سے بھی نکالی جا سکتی ہے لیکن اگر ڈیٹا ہمہ جہتی ہو تو فاصلے اور گروہ بندی کے طریقہ کار اتنے کار آمد نہیں رہتے۔ فاصلہ ماپنے کے طریقہ کار کی بنسبت اس تحقیقی طریقے کار کا ایک اور بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس انکشاف کو اتصالی ماڈل کے ذریعے نہایت آسانی کے ساتھہ واضح طریقے سے بیان کیا جا سکتا ہے.نیز کسی ماہر کے ذریعے اس نمونے کو تبدیل کرنا بھی نسبتاآسان کام ہے.

History-Bayesian-Inference-Network-Adnan-Masood-Adnan-Darwiche

اس وقت میرے تحقیقی سوالات کا دائرہ کار انہی امور کے تجربات کے گرد گھوم رہا ہے کہ کونسے ایسے امکاناتی دلچسپی کے پیمانہ جات ہیں جن کی درجہ بندی سے استثنائی اشیاء کو بہترین طریقے سے جانا جا سکتا ہے. ان تجربات میں انسامبل طریقہ کار کو بھی مد نظر رکھا جا رہا ہے جس کے مطابق کسی ایک امکاناتی دلچسپی کے پیمانے کے بجاۓ عصر کلّی کو دیکھا جاۓ اور مختلف پیمانہ جات کو ان کی بنا پر ضم کردیا جاۓ.کورس ورک ختم کرنے اور تحقیقی کام میں اس مقام تک پہنچنے میں مجھے تقریبآ چارسال کا عرصہ لگا ہے اور امید ہے کہ ایک سے ڈیڑھ سال کے دوران ان تحقیقی سوالات کے جوابات دینے کے قابل ہو جاؤنگا اور اپنا مقالہ مکمل کر لوں گا، انشا اللہ.۔

امید ہے کہ آپکو یہ مضمون پسند آیا ہوگا اور احقر کے تحقیقی کام سے گو نہ گو آشنائی حاصل ہو گئی ہوگی۔

نوٹ – یہ مضمون ہماری والدہ محترمہ کی ۵۹ ویں سالگرہ کے موقع پر ان کو اور والد صاحب کو اپنے تحقیقی کام کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کے لئے لکھا گیا تھا جس کو بعد ازاں عمومی مصرف کے لئے یہاں پیش کیا گیا۔

path-to-phd

Share

January 31, 2013

خدا اور اسٹیفن ہاکنگ, آخر یہ کس کی تخلیق ہے؟

Filed under: ادبیات,کتابیات,مذہب — ابو عزام @ 10:25 pm

خدا اور اسٹیفن ہاکنگ, آخر یہ کس کی تخلیق ہے؟

ڈاکڑ جان لینکس، آکسفرڈ یونیورسٹی کے ماہر ریاضیات پروفیسر کی شہرہ آفاق کتاب کا ترجمہ و تخلیص

God and Stephen Hawking

 

پیش لفظ

میں نے یہ مختصر کتاب اس اُمید کے ساتھ تحریر کی ہے کہ یہ قارئین کو خدا اور سائنس سے متعلق بحث کو سمجھنے میں مدد فراہم کرے گی۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے پوری کوشش کی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو تکنیکی اُمورسے صرفِ نظر کرتے ہوئے دلیل تک محدود رہوں۔ میں سمجھتا ہوں ہم میں سے جنہوں نے ریاضی اور فطری سائنسز میں تعلیم حاصل کررکھی ہے اُن کی ذمہ داری ہے کہ سائنس کی عمومی تفہیم بیان کریں۔ خاص طور پر اس بات کی نشاندہی کرنا ہمارا فرض ہے کہ سائنسدانوں کا ہر بیان سائنسی حقیقت نہیں ہوتی ہے اس لیے وہ معتبر سائنس پر سند نہیں بن جاتے اگرچہ وہ سند اکثر غلط طوراُن سے منسوب کی جاتی ہے۔ بے شک اس کا اطلاق اتنا ہی مجھ پر بھی ہوتا ہے جتنا کسی اور پر ہوتا ہے‘ اس لیے میری قارئین سے گزارش ہے کہ میری ہر دلیل کی بغور جانچ پڑتال کریں۔ میں ایک ریاضی دان ہوں اور یہ کتاب ریاضی کے بارے میں نہیں ہے پس کسی بھی ریاضیاتی نتیجے کا درست ہونا جس کو میں نے ثابت کیا ہو اس بات کی ضمانت نہیں دیتا کہ میں نے کہیں اورجو کچھ کہا ہے وہ بھی درست ہوگا۔ تاہم مجھے اپنے قارئین کی صلاحیت پر بھروسہ ہے کہ وہ کسی بھی دلیل کا اس کے خلاصے تک تعاقب کریں گے۔ لہٰذا میں یہ کہتا ہوں کہ میں نے جو کچھ لکھا ہے اس کا فیصلہ میرے قارئین کریں گے۔

تعارف

خدا ان دِنوں موضوع بحث ہے‘ ہمیں یہ یقین دلانے کے لیے سائنسدانوں نے ان عنوانات کے تحت ایک کے بعد دوسری کتاب لکھی کی ہے، جیسے فرانسزکولنز کی’’خداکی زبان‘‘ رچرڈ ڈاؤکنز کی ’’خدا کا فریب‘‘ ، وکٹر اسٹینجرکی ’’خدا: ناکام مفروضہ‘‘، رابرٹ ونسٹن کی ’’خدا کی کہانی‘‘ وغیرہ وغیرہ۔

ان میں سے بعض کتابوں نے ’’بیسٹ سیلرز‘‘ کا درجہ پایا ہے کیوں کہ لوگ یقیناًیہ جاننا چاہتے ہیں کہ سائنسدان کیا کہہ رہے ہیں۔ اور یہ حیران کن نہیں ہے کہ کیونکہ ہمارے بناوٹی جدید دنیا میں سائنس زبردست ثقافتی اور دانشورانہ اختیار کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کی ایک وجہ ٹیکنالوجی کی تخلیقات کی غیر معمولی کامیابی ہے جن سے ہم سب فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ اس کی اور بڑی وجہ اس کی متاثرکن صلاحیت ہے جس نے ہمیں عجائباتِ عالم کی عمیق بصیرت عطا کی ہے جس کا ابلاغ ٹیلی وژن کی خوبصورت ڈاکیومنٹریوں کے ذریعے کیا جاتا ہے۔

بہت سارے لوگ جو بخوبی آگاہ ہیں کہ سائنس کی فراہم کردہ مادی ترقی ان کی گہری انسانی ضروریات کوپورا نہیں کرسکتی ، اب سائنسدانوں کی طرف متوجہ ہوکر یہ جاننا چاہتے ہیں کہ وہ اُن کے وجود سے جُڑے بڑے سوالات کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ ہم یہاں کیوں ہیں؟ہمارا مقصدِ زندگی کیا ہے؟ ہم کہاں جارہے ہیں؟ کیا صرف یہی کائنات ہے جس کا وجود ہے یا پھر اس سے آگے بھی کچھ ہے؟

اور یہ سوالات لامحالہ ہمیں خدا کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔ پس ہم کروڑوں لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ سائنس خدا کے بارے میں کیا کہتی ہے؟ مذکورہ بالا ’بیسٹ سیلرز‘ کتابوں میں سے بعض دہریوں کی تصنیف کردہ ہیں۔ لیکن یہ اہم بات ہے کہ یہ تمام دہریوں کی تصنیف نہیں ہیں۔ پس درحقیقت یہ ایک بہت ہی بچگانہ حرکت ہوگی ہے کہ اس بحث کوسائنس اور مذہب کے درمیان تصادم قرار دے کر قلم زد کردیا جائے۔
اس تصورِ ’’مخالفت‘‘ کو بہت پہلے ہی غیرمعتبر قرار دیا جاچکا ہے۔ مثال کے طور پر ہماری فہرست میں موجود پہلے مصنف ، فرانسز کولنز کو ہی لے لیجیے جو امریکا میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کے ڈائریکٹر اور ہومین جینوم( لونیت)پروجیکٹ کے سابق سربراہ ہیں۔ اس پروجیکٹ کے سربراہ کے طور پر ان کا پیشرو جم واٹسن کو(فرانسز کریک کے ساتھ مشترکہ طور پر) ڈی این اے کے دو مخنی ساخت کی دریافت پر نوبل انعام سے نواز جاچکا ہے۔کولنز ایک عیسائی جبکہ واٹس ایک دہریہ ہیں۔ یہ دونوں اعلیٰ پایے کے سائنسدان ہیں، جو اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ دراصل یہ ان کی سائنس نہیں تھی بلکہ دنیا کے بارے میں اُن کا تصور تھا جس نے ان کو تقسیم کیا۔ اگرچہ یہ ایک حقیقی تنازعہ ہے لیکن یہ سائنس بمقابلہ مذہب نہیں ہے۔ یہ خداپرستی اور الحاد کے درمیان ہے اور سائنس دان دونوں طرف ہیں۔ اور یہی چیز اس بحث کو مزید دلچسپ بناتی ہے کیوں کہ ہم ایک حقیقی سوال پر توجہ مرکوز کرسکتے ہیں۔کیا سائنس خدا کی طرف اشارہ کرتی ہے‘ اس سے دور لے کر جاتی ہے یا یہ خدا کے مسئلہ میں غیرجانبدار ہے؟

یہ چیز بالکل واضح ہے۔ خدا کی ذات میں دلچسپی میں یہ غیرمعمولی اضافہ دراصل سیکولرائزیشن کے نام نہاد مفروضہ کو چیلنج کرتا ہے جس نے ’روشن خیالی‘ کے بعد بہت جلدبازی میں یہ قیاس کرلیا کہ مذہب بالآخر تنرلی کا شکار ہوکر ختم ہوجائے گا ،یا پھر کم از کم یورپ سے اس کا خاتمہ ہوجائے گا۔ درحقیقت، یہ بعینہ سیکولرائزیشن کی متصور ناکامی ہے جو خدا کے سوال کو ایجنڈے سے زیادہ اہمیت دے رہا ہے۔
’خد ا کی واپسی‘(God is Back) کے مصنفین اکانومسٹ کے ممتاز صحافیوں جان میکلتھ ویٹ اور اڈریان ولڈریگ کے مطابق مذہب صرف ناخواندہ لوگوں کے لیے نہیں ہے بلکہ دنیا کے اکثر حصوں میں بعینہ وہ بڑھتا ہوا متحرک تعلیم یافتہ متوسط طبقہ اب عقیدہ کی اس گاڑی کو چلارہا ہے جس کے متعلق مارکس اور ویبر نے یہ قیاس کرلیا تھا کہ وہ اس طرح کے توہمات کو ختم کردے گا۔ یہ خاص پیش رفت قابل فہم طور پر سیکولر طبقہ ، خاص طور پر ان میں موجود دہریوں کو غضب ناک کرنے کا سبب بنا ہے۔

یہ احتجاج یورپ میں زیادہ شدید ہے شاید اس لیے کہ دہریوں کے خیال میں یورپ وہ جگہ ہے جہاں انہوں نے زیادہ کچھ کھویا ہے۔وہ غالباً درست سمجھتے ہیں‘اور ایسی علامات ہیں جن کی بنا پر کہا جاسکتا ہے کہ وہ یورپ میں پسپائی اختیار کر رہے ہیں۔ رچرڈ ڈاؤکنز ،جو اب تک ایک جتھے کے رہنما ہیں کا احتجاج بڑھتا ہواتیز سے کرخت کے درجے میں داخل ہوچکا ہے کیوں کہ اس کی دلیل کی منطق شکستگی سے دوچار ہوچکی ہے ‘ کم از کم یہ دکھائی دیتا ہے،حتیٰ کہ اس کے بہت سارے ساتھی دہریوں نے بھی اس کو محسوس کیا ہے۔ وہ اپنے اس عقیدے کی تبلیغ کے لیے مریدوں کی بھرتی کے ذریعے ’’عوامی شعوری سطح بڑھانے‘‘ کے لیے پرعزم ہیں کہ صرف دہریت ہی دنیا میں قابل احترام دانشورانہ نقطہ نظر ہے۔

اس کی مہم  بسوں پر پوسٹرز چپکانے اور بچوں کے لیے موسم گرما کے دہریت کیمپوں کے انعقاد تک جا پہنچی ہے۔ اور یقیناًگریبانی کوٹ پر سرخ رنگ کے بڑے بیجز جن پر دہریوں کے لیے اے رقم تھا وہ بھی بھولنے والی چیز نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اعلیٰ مہارت و ذہانت سے ڈیزائن کی گئیں ٹی شرٹس بھی اس کی تیارکردہ تھے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس کی اِس مہم سے اُس کا کوئی تعلق تھا یا نہیں لیکن اسی مہم کے دوران دہریوں کے کورس میں اسٹفین ہاکنگ کی طاقت ور سائنسی آواز کا اضافہ ہوا۔ اور دنیا ان ہیڈلائنز سے بھرگئی کہ ’’اسٹیفن ہاکنگ کہتا ہے کہ کائنات خدا کی تخلیق نہیں ہے‘‘، ’’اسٹیفن ہاکنگ کہتا ہے کہ فزکس نے خدا کے لیے کوئی جگہ نہیں چھوڑی ہے‘‘ اور یہی باتیں مختلف تغیرات کے ساتھ پیش ہورہی تھیں۔

ان ہیڈلائنز میں ہاکنگ کی نئی تصنیف ’’گرانڈ ڈیزائن‘‘کا حوالہ دیا جارہا تھا جو اس کی لیونارڈ لوڈینو کے ساتھ مشترکہ تحریر تھی۔ یہ کتاب بہت جلد ’بیسٹ سیلز‘ کی فہرست میں سب سے اوپر چلی گئی۔ ہاکنگ کے قد کاٹھ کی دانشورانہ شخصیت کی طرف سے دہریت کے عوامی اعتراف نے اس بحث پر فوری اثر ڈالا۔ یہ بحث بہت ساری کتابوں کی فروخت کا سبب بھی بنی۔

ہمیں کیا سوچنا ہے؟اگر ایسا ہے، تو پھر؟کیا بحث کے لیے مزید کچھ باقی نہیں بچا؟ کیا تمام علمائے مذہب کو فوراً مستعفی ہوجانا چاہیے؟کیا چرچ کے تمام کارکنوں کو اپنی ٹوپیاں لٹکا کر گھروں کو روانہ ہونا چاہیے؟ کیا فزکس کے عظیم ماسٹر نے کائنات کے عظیم مصور کو شہ مات دے دی؟

خدا کو چلتا کرنے کا دعویٰ یقیناًمبالغہ آرائی تھی۔ آخر کار ماضی کے عظیم سائنسدانوں کی اکثریت خدا پر یقین رکھتی تھی۔ اور بہت سارے اب بھی رکھتے ہیں۔ کیاگلیلیو، پلر، نیوٹن اور میکس وِل خدا کے معاملے میں غلطی پر تھے؟

جب اتنا کچھ خطرے میں ہو تو ہمیں یقیناًہاکنگ سے کہنا چاہیے کہ وہ اپنے دعویٰ کے حق میں ثبوت پیش کریں۔کیا اس کے دلائل کی چانچ پڑتال نہیں ہونی چاہیے؟ میرے خیال میں ہمیں جاننے کا حق ہے۔
لیکن ہم اُس وقت تک جان نہیں سکتے جب تک ہم اس کو دیکھ نہ لیں۔

پس آئیے ہم یہی کرتے ہیں۔

جاری ہے۔

Share

January 5, 2013

ستم کا آشنا تھا وہ، سبھی کے دل دکھا گیا

Filed under: سیاست,مذہب,مشاہدات — ابو عزام @ 4:44 pm

محترم قاضی حسین احمد اپنے خالق حقیقی سے جاملے ۔ إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ

روایت و حکائت و درائت کا تقاضا تو یہ ٹھیرا کہ میں تحریک اسلامی کے بطل جلیل کے بارے میں کچھ عام سی باتیں لکھوں، جیسے کہ آج ہم سے ایک عظیم  رہنما جدا ہوگیا،  ان کی وفات کا خلا کبھی پورا نہیں ہوگا، صداقت و امانت و دیانت کا پیکر ہمیں چھوڑ کر چلا گیا وغیرہ وغیرہ۔ لیکن یہ سب عمومیات آپ کل کے اخباروں اور سوشل میڈیا پر دیکھ سکتے ہیں۔ میری آنکھیں تو اسوقت اپنے اس قائد کے غم میں پرنم ہیں جو ایک سچا انقلابی تھا۔ جو وقت کے دھارے کے ساتھ بہنے کاقائل نا تھا بلکہ جس نے اپنے قول و عمل سے عملا مسلم لیگ کی بی ٹیم کا کردار ادا کرنے والی جماعت کو تحریک اسلامی کی ایک متحرک و منظم قوت میں تبدیل کیا جسے عدو و یگانہ سب تسلیم کرتے ہیں۔ مجھے تو اس بات کا غم کھاے جاتا ہے کہ اس دور قحط الرجال میں اب کون ہے جو اس جرات رندانہ سے تاریخ کے دھارے کا رخ موڑے گا۔  کون ہے جو ہمیشہ یہ امید بندھاتا رہے گا کہ میرے بچوں، انقلاب کا آنا تو ٹھر گیا ہے،  قوم مخلص اور ایماندار قیادت سے محروم  ہے،بیداری کی لہرآنے والی ہے، بس دین کا کام کرے جاو اور تنائج اللہ پر چھوڑ دو، وہی اپنے دین کا بول بالا کرنے والا ہے۔

اللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ

207754_473854839327487_1990456438_n

میرا وہ قائد اپنے رب کے پاس چلا گیا ہے جس کے ساتھ  میں نے زمین پر بیٹھ کرکھانا کھایا، جس کے مشفق چہرے سے پھوٹتا نور آج بھی میری یاداشت میں اسی طرح تازہ ہے جیسے کہ یہ کل ہی کی بات ہو۔ وہ جو پاکستان کی سب سے بڑی اسلامی تحریک کا روح رواں تھا اور مودودی و قطب و بنا کے ورثے کا امین تھا، جسے اسلامی مملکتوں کے سربراہان اپنے باہمی مسائل میں ثالث کرتے، لیکن وہ ایسا عملی انقلابی تھا کہ سکوں نا آشنا رہنا اسے سامان ہستی ٹھرا، جو کارکنوں کے ساتھ صف اول میں پولیس کے ڈندے کھانے کے لئے موجود رہتا، جو نا جاگیردار تھا اور نا تاحیات سربراہ، بلکہ ہر عام کارکن کی طرح دریاں اٹھانے والا شخص بالاخر مملکت خداداد میں تحریک اسلامی کی قائدانہ آواز بنا۔  جو لسانی غنڈوں کے ہاتھوں ہونے والے شہادتوں کے قافلوں کو اپنے آنسووں سے الوداع کہتا اور مقتل میں انکی نماز جنازہ پڑھاتا،  اقبالیات کا وہ خوشہ چیں اب ہمارے درمیاں نا رہا جس کی آواز کی گھن گرج رزم خود باطل ہو تو فولاد ہے مومن کا عملی نمونہ تھی۔

تمہارے بعد کہاں يہ وفا کے ہنگامے
کوئي کہاں سے تمہارا جواب لائے گا

اتحاد بین المسلمین اور بین المسالکی ہم آہنگی کاعلمبردار، ایک قائد جوسراپا عمل تھا اور غلطی اسی سے سرزرد ہوتی ہے جو باعمل ہو۔ کنارے پر بیٹھ کر پتھر مارنے والا جو کچھ نا کرے وہی فیصلے کی انسانی غلطیوں سےمبرا ہونے کامدعی ہوسکتا ہے، میرا قائد سزاوار ہو  تو اپنی خطا پر عوامی ندامت و برات کا  اظہار کرتا،  حق بات کہتا اور ڈٹ جاتا، جس نے امت کو جہاد فی سبیل اللہ کا بھولا سبق یاد دلایا اور فساد فی الارض کی تفریق سکھائ، جس نے افغانستان میں غیر اسلامی سخت گیری کے خلاف اسوقت آواز بلند کی جب ایسی بات کرنا، خصوصا کسی مذہبی شخصیت کے لئے سیاسی خودکشی تھی۔ جو گولیوں کی بوچھاڑ میں کھڑا رہا کہ اگر آج وہ پچھلے دروازے سے چلا جاے تو کل کون کھڑا رہے گا۔ افسوس کہ فتنوں اور جیکٹوں کے اس دور نارسا میں جب اسلام کی اخلاقی اقدار پر بات کرنے والا کوئ نہیں، جب دین مصطفوی کے محاسن اخلاق و درس نصیحت اس امت مرحوم کا نوحہ بن چکے ہیں، وہ مرد قلندر جو امت مسلمہ کی نشاط ثانیہ کا علمبردار تھا ،عزم، حوصلہ اور خلوص جس کی زندگی کا خاصہ تھا، ہمیں روتا بلکتا چھوڑ کر اپنے رب کے پاس یہ کہتا ہوا چلا گیا کہ

میرے عزیزو – جنت میں ملاقات ہوگی

يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً فَادْخُلِي فِي عِبَادِي وَادْخُلِي جَنَّتِي
Share

واقعیت بودن

Filed under: تحقیق,مذہب — ابو عزام @ 7:33 am

کیا حقیقت ایتھر ہے، ایک ریاضی کی نظم ہے یا کہ ٹھوس اجزا کا مجموعہ؟ ٹھوس کیا ہے، تعمیر کا بنیادی منبع الوجود کیا ہے؟

حقیقت موجودات پر ریڈیولیب کی ایک سائنسی نظر، ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ۔

 

Share

October 15, 2012

تنقید برعقل محض از ایمانوئل کانٹ

Filed under: ادبیات,کتابیات — ابو عزام @ 9:39 pm

Critique of Pure Reason تنقید برعقل محض  یا

از ایمانوئل کانٹ فلسفے کی ایک نہائت اہم کتاب ہے۔ اس کتاب کا تنقیدی جائزہ دنیا کی سو عظیم کتابوں میں ستار طاہر نے کیا تھا جو درج زیل ہے۔

شو پنہارے کانٹ کے حوالے سے ہیگل کے فلسفے پر جو راۓ دی ہے اسے پڑھ کر خاصا تعجب ہوتا ہے کہ شو پنہارے نے ہیگل کے لئے خاصی توہین آمیز اور عامیانہ زبان استعمال کی ہے اس نے ایک طرح سے ہیگل کو مجمع باز اور چھچھورا قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اصل فلسفی تو کانٹ تھا.جس نے نہ صرف پورے ایک دور کو بلکہ آنے والی نسلوں کو متاثر کیا ہے لیکن مجمع باز ہیگل نے بڑی شہرت حاصل کرلی جس کا وہ قطعی حقدار نہ تھا.

١٧٢٤ میں پروشیا کے شہر کونگز برگ میں پیدا ہونے والا عمانوایل کانٹ بہت دلچسپ شخصیت کا مالک تھا وہ خاموش طبع’ پستہ قامت شخص تھا. جس نے اپنی ساری عمر اسی شہر میں گزاردی اگرچہ وہ جغرافیے کے موضوع پر لیکچر دینے کا عادی تھا. لیکن خود کبھی اپنے شہر سے باہر نکلنے کی جرات نہ کر سکا. کانٹ کے آباو اجداد صدیوں پہلے اسکاٹ لینڈ سے نقل وطن کر کے پروشیا آئے تھے. اس کی والدہ کٹر مذہبی خیالات رکھنے والی خاتون تھی. بچپن میں کانٹ پر اپنی ماں کا اتنا شدید اثر تھا کہ وہ سختی سے مذہبی امور اور عقائد پر عمل کرتا تھا. لیکن پھر وہ اپنی زندگی میں مذہب سے اتنا دور ہو گیا کہ کبھی گرجے کا رخ نہ کیا.

کانٹ کا دور فریڈرک اعظم جیسے شہنشا اور والتئیر جیسے فلسفی کا دور ہے. اس دور میں یہ ممکن ہی نہ تھا کہ نوجوانی کے دنوں میں کانٹ کے دل میں بعض مسائل اور نظریات کے بارے میں شکوک پیدا نہ ہوتے’ کانٹ کے سلسلے میں یہ بات بہت اہم ہے کہ ابتدائی عمر میں جن لوگوں کا اثر اس پر بہت گہرا رہا. بعد میں انہی لوگوں سے اسی شدید اختلاف پیدا ہوا اور کانٹ نے ان کی نفی کی ان میں برطانوی فلسفی ہیوم خاص طور قابل ذکر ہے ہیوم ایک طرح سے اسکا “محبوب دشمن” بن گیا تھا. کانٹ سیدھا سادہ آدمی تھا. لیکن جب ہم اس کے فلسفیانہ نظریات کے مختلف مدراج کا جائزہ لیتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ روایت پرست اور کسی حد تک رجعت پسندانہ خیالات کا مالک کس طرح عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ آزاد خیال اور بے باک فلسفی کا روپ دھار گیا. اگر وہ اپنی آخری تصنیف کی اشاعت کے وقت ستر برس سے زائد عمر کا نہ ہو چکا ہوتا تو یقینا اسے زندان میں ڈال دیا جاتا اور فلسفے کی دنیا کو ایک اور شہید مل جاتا لیکن عمر بزرگی کی وجہ سے اس کو نظر انداز کر دیا گیا تھا.

کانٹ کا عظیم ترین کارنامہ اس کی کتاب ہے یعنی “تنقید برعقل محض” جو ۱۷۸۱ میں شائع  ہوئ۔ اس کتاب کی اشاعت فلسفے کی دنیا میں ایک انقلاب کی حیثیت رکھتی ہے. “تنقید برعقل محض”وہ تصنیف ہے جو اپنی اشاعت سے لیکر اب تک بحث اور غور و فکر کا موضوع بنی رہی ہے. کانٹ نے اس کتاب میں جو فلسفہ پیش کیا اس نے دنیا کے فکری اور فلسفیانہ نظام کو بڑی شدّت سے متاثر کیا. فلسفے کا ایک نیا مکتب اس کتاب کے حوالے سے معرض وجود میں آتا ہے ایسی عظیم لافانی کتاب لکھنے والے کی زندگی کی ایک بھرپور جھلک بھی اس کے فلسفے کو سمجھنے میں خاصی مدد دیتی ہے.

١٧٥٥ میں کانٹ نے پرائیویٹ لیکچرار کی حیثیت سے کوئنگسبرگ کی یونیورسٹی میں درس دینا شروع کردیا. پندرہ برس تک وہ اسی حیثیت سی اس یونیورسٹی کے ساتھ منسلک رہا. وہ پروفیسر کے عہدے کا حقدار بھی تھا اور طلبگار بھی. اس سلسلے میں اس کی درخواستوں کو مسلسل نامنظور کیا جاتا رہا. بالآخر ١٧٧٠ میں اسے مابعد الطبیعات اور منطق کے مضامین کا پروفیسر بنا دیا گیا اس کی خاموش طبعی کی وجہ سے اس کے بارے میں کوئی یہ توقع نہ کر سکتا تھا کہ وہ فلسفے کی دنیا میں ہیجان پیدا کردیگا. ایسا سیدھا آدمی انسانوں کی زندگیوں کو چونکانے کی صلاحیت سے بظاہر محروم دکھائی دیتا تھا. وہ شرمیلا آدمی اندر سے بڑا شجاع تھا. خود کانٹ نے ایک بار لکھا تھا. “یہ میری خوش قسمتی ہے کہ میں مابعد الطبیعات کا عاشق ہوں لیکن میری اس محبوبہ نے میرے ساتھ نہت کم التفات کیا ہے.” وہ مابعد الطبیعات میں گہری دلچسپی لیتا تھا. ایک زمانہ اس پر ایسا بھی آیا جس کے بارے میں وہ خود کہتا ہے “میں مابعد الطبیعات کے تاریک پامال میں پھنسا رہا. یہ ایک ایسا سمندر ہے جسکا نہ کوئی کنارہ ہے نہ روشنی دکھانے والا مینار” لیکن اسی کانٹ نے مابعد الطبیعات میں تہلکہ خیز انقلاب پیدا کر کے ساری دنیا کو چونکا دیا. اپنی زندگی کے خاموش زمانے میں کانٹ کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ وہ مابعد الطبیعات میں گہری دل چسپی لے رہا ہے. تب سیاروں’ زلزلوں’ آتش فشاں پہاڑوں’ ہواؤں کے بارے میں لکھا کرتا تھا.١٧٥٥ میں شائع ہونے والی اس کتاب “تھیوری آف ہیونز” کو ایک خاصی اچھی کتاب سمجھا گیا لیکن اس پر کوئی لمبی چوڑی بحث نہ ہوئی.١٧٩٨ میں اس نے اپنے نظریات کو وسعت دی اور اس کی کتاب ایتھنز وپولوجی شائع ہوئی. اس کتاب میں اس نے لکھا ہے کہ انسان کی زندگی کی سحر جنگلوں اور جانوروں کی معیت میں ہوئی. اس لیے ابتدائی دور کا انسان’ آج کے انسان سے بیحد مختلف تھا کانٹ نے اس کتاب میں اعتراف کیا. “قدرت نے پھر کس طرح انسان کی ارتقائی نشوونما میں حصّہ لیا اور کن اسباب وعوامل کی وجہ سے انسان موجودہ مقام تک پہنچا. اس کے بارے میں ہمیں کچھ علم تو نہیں. ڈارون نے انسانی انواع پر عظیم اور چونکا دینے والا کام کیا جس سے کانٹ کے ان خیالات و نتائج کی تائید ملتی ہے.

کانٹ کے افکار ونظریات کے بارے میں کہا جا سکتا ہے اس معمولی اور سادہ انسان کے عظیم دماغ میں خیالات آہستہ آہستہ جمع ہوئے اور پھر منظم صورت اختیار کرتے تھے. وہ بمشکل پانچ فٹ کا شخص ہوگا. شرمیلا’ سمٹا سمٹایا لیکن اس کے چھوٹے قد کے فلسفی کا دماغ بڑا تھا. ایسے خیالات اور افکار کی اماجگاہ جنہوں نے پوری فکرانسانی کو تبدیل کر دیا. اس کے سوانح نگار نے اسکی زندگی کو چند افعال میں پیش کیا ہے وہ لکھتا ہے.”کانٹ کی زندگی چنداعمال پر مشتمل تھی. بندھے ٹکے اوقات پر اس کے روز مرہ کے ان اعمال میں کبھی فرق نہ آیا.صبح بیدار ہونا’ کافی پینا’ لکھنا’ لیکچر دینا’ کھانا اور سیر کرنا اس کا ہر کام عین وقت پر ہوتا تھا نہ ایک منٹ آگے نہ ایک منٹ پیچھے”. اور پھر جب عما نوایل کانٹ اپنے بھورے رنگ کے کوٹ میں ملبوس’ چھڑی ہاتھ میں لیے اپنے گھر کے دروازے میں نمودار ہوتا تو اس کے ہمساۓ گھڑیاں ملاتے. کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اس وقت ساڑھے تین بجے ہیں. ہر طرح کے موسموں میں وہ ٹھیک وقت پراپنے گھر سے نکلتا اور پیدل چلتا ہوا دکھائی دیتا. وہ دبلا پتلا کمزور انسان تھا. لیکن اس کا ذہن اور دماغ بہت قوی تھا وہ اگر کبھی بیمار بھی ہوتا تو ڈاکٹروں کا احسان نہ اٹھاتا وہ سمجھتا کہ ڈاکٹروں سے دور ہی رہنا چاہیے. اپنے انداز میں وہ اپنا علاج کرلیا کرتا تھا. اس لیے اس نے اسی برس کی طویل عمر پائی اس نے ستر برس کی امر میں ایک مقالہ تحریر کیا تھا. جس کا موضوع دماغی قوت اور بیماری کے احساسات پر قابو پانا تھا. اس کی پسندیدہ عادات میں ایک عادت یہ تھی کہ وہ طویل عرصے تک ناک سے سانس لیتا تھا. خاص طور پر جب گھر سے باہر ہوتا تو کبھی اپنا منہ کھلا نہ رکھتا اور چلتے ہوئے ناک سے سانس لیتا. وہ ہر کام بڑی احتیاط سے کرنے کا عادی تھا. ہر بات کو پہلے سوچتا. اچھی طرح غور کرتا اور پھر کہیں اس پرعمل کرتا. زندگی میں دوبار اس نے شادی کرنے کا فیصلہ کیا. لیکن پہلی بار یوں ہوا کہ جس خاتون سے شادی کرنا چاہتا تھا اس سے عرض مدعا نہ کر سکا اور اس خاتون نے ایک دوسرے شخص سے شادی کرلی. دوسری بار جس خاتون سے وہ شادی کرنا چاہتا تھا وہ خاتون اس شہر سے ہی چلی گئی. اور کانٹ کو اس سے بات کرنے کا موقع ہی نہ مل سکا. کانٹ ساری عمر کنوارہ رہا غالبا وہ بھی نطشے کی طرح یہ سمجھتا تھا کہ شادی شدہ آدمی کام کا نہیں رہتا. ٹالیرانڈ نے تو صاف کہا تھا کہ شادی شدہ آدمی کی مجبوری یہ ہوتی ہے کہ وہ روپے کے لیے سب کر گزرتا ہے اور یقینی بات ہے کہ کانٹ ایسا آدمی تھا جو اپنی زندگی کے اصولوں کو محض شادی کی مسرت پر قربان نہیں کر سکتا تھا.

وہ اپنی عظیم تصنیف “تنقیدبرعقل محض” پر کام کرتا رہا خاموشی سے…….کسی کو علم نہ تھا کہ وہ کیا لکھ رہا ہے. کسی کو علم نہ تھا کہ وہ ایک بڑے طوفان کو تخلیق کر رہا ہے وہ بار بار لکھتا اور نظر ثانی کرتا با لآخر اس کی یہ کتاب ١٧٧١ میں مکمل ہو گئی. اس وقت کانٹ کی عمر ستاون برس ہو چکی تھی. دنیا کا کوئی فلسفی اس عمر میں جا کر ایسی کتاب کا خالق بنتا ہوا دکھائی نہیں دیتا جس نے سارے فکری نظام کو ہلا کر رکھ دیا.

تنقید برعقل محض (Critique of Pure Reason)

اس عنوان کا مفہوم کیا بنتا ہے کتاب کے عنوان سے تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ “عقل محض” پر تنقیدی حملہ کیا گیا ہے حالانکہ کانٹ ایسا نہیں کرتا تھا یہاں “کریٹیک” کا لفظ تنقیدی تجزیے کے معنوں میں استعمال ہوا ہے. اس عظیم تصنیف میں کانٹ ہمیں بتاتا ہے کہ عقل ہے کیا اور عقل محض کیا ہے. اس کے امکانات کیا ہیں اسکی حدود کیا ہیں. عقل محض سے اسکی مرد علم ہے ایسا علم جو حواس کے ذریعے حاصل نہیں ہوتا جو ہر طرح کے حیاتی تجربات سے آزاد ہوتا ہے. یہ علم مختلف ذہنی ساختوں سے جنم لیتا ہے. اپنے اس فلسفے کے حوالے سے کانٹ برطانوی مکتب کے عظیم فلسفیوں ہیوم اور لاک کو چیلنج کرتا ہے جو علم کا منبع حواس کو قرار دیتے ہیں. ہیوم کا خیال تھا کہ نہ روح ہوتی ہے نہ سائنس ہمیں جو کچھ نصیب ہوتا ہے وہ حواس کے ذریعے ملتا ہے. کانٹ نے اس کی شدید انداز میں نفی کی اس نے اپنی کتاب میں لکھا.

میرا بڑا مسئلہ یہ رہا ہے کہ ہم عقل سے امید رکھتے ہوئے کیا حاصل کر سکتے ہیں اور یہ سوال اس صورت میں زیادہ واضح ہو جاتا ہے کہ جب ہم تمام مواد اور تجربے کی اعانت کو ایک طرف رکھ دیں تب عقل کس حد تک ہمیں کیا دے سکتی ہے.!

اپنے اس سوال کے حوالے سے کانٹ اپنی اس عظیم تہلکہ خیز کتاب میں ذہنی ڈھانچے اور دماغ کے مختلف مدراج کو بیان کرتے ہوئے ایسے امکانات کی نشاندہی کرتا ہوا ملتا ہے جو پہلے کبھی ہمارے سامنے نہ آئے تھے وہ اپنی اس کتاب کے حوالے سے بہت بڑا دعویٰ کرتا ہے اتنا بڑا دعویٰ شید ہی کسی فلسفی نے کیا ہوگا. وہ تنقید برعقل محض میں لکھتا ہے.

اس کتاب میں میں نے یہ مقصد رکھا ہے کہ تکمیل کو اپنا ہدف بناؤں میں نے یہ کاوش کی ہے کہ کوئی بھی مابعد الطبیعاتی مسئلہ ایسا نہ ہو جس کا جواب اورحل اس کتاب میں موجود نہ ہو یا پھر کم از کم اس مسئلے کے حل کے لیے اس کی کلید فراہم نہ کردوں.

کانٹ تنقید برعقل محض میں بتاتا ہے.

“تجربہ ایسی چیز نہیں ہے کہ جس پر علم کا انحصار ہو تجربے کی بدولت ہم خالص علم حاصل نہیں کر سکتے تجربہ ہاںمیں یہ بتاتا ہے کہ “کیا ہے “؟ لیکن یہ بتانا اس کے بس میں نہیں کہ کیوں ہے؟ اور پھر لازم نہیں کہ تجربہ ہمیں صحیح معنوں میں یہ بھی بتا سکے کہ کیا ہے؟ کی اصل کیا ہے.”انسان کے اندر کی سچائی تجربے سے آزاد ہونی چاہیے .”

ہم تجربے کی بدولت کہاں تک آگے بڑھ سکتے ہیں؟اسکا جواب ریاضی سے ملتا ہے ریاضی کا علم یقینی بھی ہے اور ناگزیز بھی ہم مستقبل کے بارے میں ریاضی کے اصول کو توڑ کر محض تجربے کی بناء پر علم حاصل نہیں کر سکتے.ہم یہ یقین کر سکتے ہیں کہ مستقبل میں سورج مغرب میں طلوع ہو سکےگا. یہ بھی یقین کر سکتےہیں کہ آگ لکڑی کو نہ لگے گی لیکن ہم پوری زندگی یہ بات تسلیم نہیں کر سکتے کہ دوا اور دو چار کے علاوہ بھی کچھ ابن سکتے ہیں. یہ سچائی تجربے سے پہلے کی ہے لازمی اور ناگزیز سچائیاں تجربے کی محتاج نہیں ہوتی ہے اور ایسی سچائیاں کبھی غلط ہو ہی نہیں سکتی ہیں..

تجربے کا حاصل انفرادی اور منتشر ہیجان کے علاوہ کچھ نہیں. سچائیاں ہمارے دماغ کی پیداوار ہیں. ہمارے ذہنی اور دماغی ساخت سے جنم لیتی ہیں. ذہن ایسا نہیں ہے کہ جیسے برطانوی فلسفیوں نے کہا ہے کہ اس پر موم رکھی ہو اور اسے حرارت ملے تو اس پر نقش بیٹھ جاتا ہے. ذہن مفعول نہیں فاعل ہے. ذہن مجرو احساسات اور کیفیات کا بھی نام نہیں. ذہن ایک افعال عضو ہے جو ہیجانات کو خیالات میں تبدیل کرتا ہے جو منتشر اور گمراہ تجربات کے دوہرے پن کو منظم خیالات کی شکل دیتا ہے. کانٹ اپنے اس فلسفے کو (ماورائی) فلسفے کا نام دیتا ہے اور اسی نام سے شھرت حاصل ہوتی ہے. اس حوالے سے کانٹ کو لازوال مقام حاصل ہوا ہے.

وہ ان دو مراحل کا ذکر کرتا ہے جو ایک خاص طریقہ کار سے گزرتے ہوئے ہیجانات کے خام مواد کو خیال کی شکل دیتے ہیں. پہلا مرحلہ ہیجان کا وہ ہے جب زبان و مکان کا احساس اور تصور پیدا ہوتا ہے. دوسرے مرحلے میں یہ تصور خیال کی صورت اختیار کرتا ہے.

کانٹ اپنے فلسفے میں احساس زمان اور احساس مکان کو بیحد اہمیت دیتا ہے کیونکہ تصورات اور خیالات کی تشکیل میں یہ دونوں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں. زمان و مکان کا صحیح احساس ہی خیالات کی تنظیم کرتا ہے. ہیوم اور لاک نے ذہن اور دماغ کو محض پیسو باکس کا نام دیا تھا لیکن کانٹ نے دماغ کو خیالات اور عقل کا سرچشمہ اور گنجینہ ثابت کر دکھایا ہے. کانٹ کے فلسفے کو سمجھنے کے لیےول ڈرانٹ کے اس ٹکرے کو غور سے پڑھیے جو اس کے نظریات کا نچوڑ ہے.

Sensation is unorganized stimulus, perception is organized sensation, conception is organized perception, science is organized knowledge, wisdom is organized life: each is a greater degree of order, and sequence, and unity. Whence this order, this sequence, this unity? … it is our purpose that put order and sequence and unity upon this importunate lawlessness; it is ourselves, our personalities, our minds, that bring light upon these seas۔

 

وہ عقل کو منبع اور سچائی قرار دیتا ہے. حواس کے ذریعے سے حاصل ہونے والے تجربوں کو غلط کہتا ہے. کیونکہ ان میں انتشار ہوتا ہے ان میں نظم اور وحدت کا فقدان ہوتا ہے کانٹ کا ایک جملہ ہے.

Perceptions without conceptions are blind

یہ ذہن اور دماغ ہے جو “بحران” کو دور کرتا ہے اور تجربے سے مادرا اصلی سچائیوں تک لے جاتاہے. وہ لکھتا ہے کہ جو قوانین خیالات کے ہیں ووہی قوانین اشیاء پر لاگو ہوتے ہیں. کیونکہ اشیاء کا علم خیالات کے حوالے سے ہوتا ہے. اس لیے اشیاء کے لیے ان قوانین کی متابعت ناگزیر ہے. کانٹ کے فسلفے کے سمجھنے کا لیے شو پہار کی راۓ بھی بیحد مدد دیتی ہے.شو پہار نے کانٹ کے بارے میں لکھا تھا.

“Kant s greatest merits distinction phenomenon from the thing in itself”

کانٹ نے “تنقید برعقل محض”میں ایک جگہ لکھا ہے. “ہم کسی ایسے تجربے کا ذکر ہی نہیں کر سکتے جس کی وضاحت اور تشریح مکان،زمان اور اسباب علت سے نہ ہو سکتی ہو.” کانٹ کے فلسفے سے کلیسیا اورمذہبی دنیا اور اس کے تعلقات میں انقلاب آیا. اختلافات کا ایک باب واہوا جو کبھی بند نہ ہو سکا. حواس کو ترک کر کے عقل محض کو زندگی کے معنی و مقصد قرار دے کر کانٹ نے فلسفے کا ایسا نظام قائم کیا جس نے پہلے نظریات کو یکسر رد کردیا. سارتر جیسے عظیم مفکر اور دانشور نے کانٹ کی شخصیت اور اس کے افکار کے تضاد کو بارے موثر انداز میں نمایاں کیا ہے وہ لکھتاہے. “یہ سیدھا سادہ عام پروفیسر ظاہر اور باطن کے عظیم ترین تضاد کا حامل تھا. لوگ اسی دیکھ کر اپنی گھڑیوں کا وقت درست کرتے تھے لیکن وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ اسے شخص نے ان کی زندگیوں کے ساتھ وابستہ عقائد کو سفاکی سے قتل کردیا ہے.”

کانٹ نے مذہب کو اخلاقی قوانین اور اصول کے تابع کردیا.اس نے اپنی بنیادی کتاب اور فلسفے “تنقید برعقل محض” کو وسعت دے کر اس کا اطلاق بعد کے دور میں دگیر موضوعات پر کیا. چھیاسٹھ برس کی عمر میں اس کی کتاب “کریٹیک آ منجمنٹ ” شائع ہوئی. انہتر برس کی عمر میں اس نے کتاب لکھی.

Religion within the limits of pure reason

یہ کتاب جو اس کے بنیادی فلسفے کا مذہب پر اطلاق کرتی ہے. اس کی سب سے “ہیباک” کتاب کا درجہ رکھتی ہے اور پھر یہ ذہن میں رکھیے کہ اس کتاب کو اس نے انہتر برس میں لکھا.وہ لکھتا ہے کہ مذہب کی نظریاتی عقل کی منطق پر نہیں رکھنی چاہیے. بلکہ اس کی بنیاد عملی عقل اور اخلاقیات پر استوار ہونی چاہیے. اس کا مطلب یہ ہوا کہ بائیبل جیسی مذہبی کتاب کو اخلاقی قواعد پر جانچ جاۓگا اس محض روحانی حیثیت کو سامنے نہ رکھا جاۓ گا. گرجے اور مذہبی عقائد اگر اخلاقی ذمہ داری کو پورا نہیں کرتے اور محض ذمہ داری، اجارہ داری برقرار رکھنے میں کوشاں ہیں تو پھر وہ اپنا فرض صحیح طور پر روا نہیں کر رہے. کانٹ لکھتا ہے.

یسوع خدا کی بادشاہت کو زمین کے قریب لے آیا تھا. لیکن یسوع کو غلط سمجھا گیا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ خدا کی بادشاہت قائم ہونے کے بجاۓ پادری کی بادشاہت دنیا پر قائم ہو گئی.”

“معجزے کسی مذہب کی صداقت کو ثابت نہیں کر سکے”. کانٹ کے اس نظریے “عقل محض” اور اس کے مذہب پر اطلاق کی وجہ سے بڑی لے دے ہوئی. اس کے خلاف حکومت نے ایک بڑا فیصلہ کیا تھا لیکن اس کی عمر اور بڑھاپے کی وجہ سے نظر انداز کر دیا گیا. ورنہ یہ بھی ممکن تھا کہ اس کی بقیہ زندگی زندان میں بسر ہوتی. اس کتاب کو جو مذہب کے حوالے سے تنقید بر عقل محض سے تعلق رکھتی ہے. اس ناشر نے شائع کرنے اسے انکار کردیا جو اسی پہلے شائع کرنے کا فیصلہ کر چکا تھا. کانٹ نے بڑی بہادری کا ثبوت دیا اور یہ کتاب اپنے دوستوں کو بھیج دی جینا کا علاقہ جرمنی کی حدود سے باہر تھا. اس لیے اسی جینا یونیورسٹی نے شائع کیا. اس کتاب کی اشاعت پر جینا کا بادشاہ بیحد ناراض ہوا. اس نے ایک شاہی فرمان کانٹ کے نام جاری کیا جس میں کانٹ کی شدید مذمّت کی گئی کہ اس نظریات کی وجہ سے مقدّس کتابوں کی بے حرمتی ہوئی ہے اور عیسائی اعتقادات کی بیخ کی گئی ہے. اسے متنبہ کیا گیا کہ وہ مستقبل میں ایسی کوئی تحریر نہ لکھ اور اپنے فرائض کو اس طرح ادا کرے کہ اعتقادات پر حرف نہ آئے. ساتھ ہی یہ وارننگ بھی دی گئی کہ اگر اس نے آئندہ احتیاط نہ برتی تو پھر ناخوشگوار نتائج پیدا ہونگے.

کانٹ نے خاموشی اخیار کے رکھی اصل میں وہ جو کچھ کہنا چاہتا تھا وہ اپنی اس کتاب کے حوالے سے کہ چکا تھا. ١٨٠٤ میں کانٹ کا انتقال ہوا.

Share

October 7, 2012

قصہ شہر فرشتگاں کے اردو مشاعرے کا

Filed under: ادبیات,شاعری,طنزومزاح — ابو عزام @ 10:22 pm

اب آغاز قصے کا کرتا ہوں

ذرا کان دھرکو سنو اور منصفی کرو

دو درویش پہنچے مومن لاج پیرزادہ کا ترنم سننے

دیکھا ہمارے وی سی صاحب تو غائب ہیں

شاید کچھ تنظیمی کام آن پڑے ہوں

پرحسیں ہاتھ کے کنگن والے وصی شاہ موجود

سنا کہ موے فرنگیوں نے قاسم صاحب کو ویزا نہ دیا

ہم سوچتے رہے پھرشاہ صاحب کو کیونکر ملا

کہ وہ تو حواس انسانی و اردو ادب کے جرائم کیلئے

ہیگ میں مطلوب ہیں

پھر یکایک راشد بھائ گویا ہوے کہ

تجھے قسم کہ اگر یہاں بیٹھا تو

 تعلق رفتگاں میں ایسی دراڑ پڑے گی کہ۔۔۔

بس پھر الٹے پانوں لوٹ آے


ایک نہائت آزاد نظم بقلم خود

Share

October 3, 2012

اردو مرکز لاس اینجلس میں مشاعرہ

Filed under: ادبیات — ابو عزام @ 10:36 am

ہفتہ چھ اکتوبر کو مومن لاج، ٹارینس میں ہونے والے مشاعرے کا اشتہاری دعوت نامہ

Share

September 23, 2012

سیرت کا پیغام

Filed under: کتابیات,مذہب,مشاہدات — ابو عزام @ 7:34 pm

انسانی تاریخ کے منظر میں ہمارے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی بلند و بلا شخصیت اتنی ابھرتی ہوئی نظر آتی ہے کہ جب ابتدا سے لیکر اب تک کے بڑے سے بڑے تاریخی انسان جن کو دنیا اکابر میں شمار کرتی ہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم کے مقابلے میں لاۓ جاتے تو آپ کے آگے بونے نظر آتے ہیں. دنیا کے اکابر میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جس کے کمال کی چمک دھمک انسانی زندگی کے ایک دو شعبوں سے آگے بڑھ سکی. کوئی نظریات کا بادشاہ ہے مگر عملی قوت نہیں رکھتا ہے. کوئی عمل کا پتلا ہے مگر فکر میں کمزور ہے. کسی کے کمالات سیاسی تدبر تک محدود ہیں. کوئی محض فوجی ذہانت کا مظہر ہے. کسی کی نظر اجتماعی زندگی کے ہر ایک پہلو سے اتنی زیادہ گہری جمی ہیں کہ دوسرے پہلو اوجھل ہو گئے ہیں.کسی نے اخلاق اور روحانیت کو نظر انداز کر دیا. غرض تاریخ میں یک رخےہیرو ہی نظر اتے ہیں مگر تنہا آنحضور صلی الله علیہ وسلم ہی کی شخصیت ایک ایسی ہے جس میں تمام کمالات جمع ہیں. وہ خود ہی فلسفی اورحکیم بھی ہے اور خود ہی اپنے فلسفے کو عملی زندگی میں نافذ کرنے والا بھی. وہ سیاسی مدبر بھی ہے، فوجی لیڈر بھی ہے، وضع قانون بھی ہے معلم اخلاق بھی ہے، مذہبی اور روحانی پیشوا بھی ہے. اس کی نظر انسان کی پوری زندگی پر پھیلتی ہے اور چھوٹی سے چھوٹی تفصیلات تک دی جاتی ہے. کھانے اورپینے کے آداب اور جسم کی صفائی کے طریقوں سے لیکر بین الاقوامی تعلقات تک ایک ایک چیز کے متعلق وہ احکام اور ہدایت دیتا ہے، اپنے نظریات کے مطابق ایک مستقبل تہذیب وجود میں لاکر دکھا دیتا ہے اورزندگی کے تمام مختلف پہلوؤں میں ایسا صحیح توازن  قائم کرتا ہے کہ افراط و تفریط کا کہیں نشان تک نظرتک نہیں آتا. کیا کوئی دوسرا شخص اس جامعیت کا پیش کیا جا سکتا ہے؟

سیرت کا پیغام تفہیمات، چہارم۔

سید ابوالاعلیٰ مودودی

Share

September 17, 2012

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کمال نفس اور مکارم اخلاق

Filed under: کتابیات,مذہب — ابو عزام @ 1:00 am

بردباری، قوت برداشت، قدرت پا کر درگزر اور مشکلات پر صبر ایسے اوصاف تھے جنکے زریعہ الله نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی تربیت کی تھی. ہر حلیم و بردباری کی کوئی نہ کوئی لغزش اور کوئی نہ کوئی زبان کی بے احتیاطی جانی جاتی ہے مگر صلی الله علیہ وسلم کی بلندی کردار کا عالم یہ تھا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے خلاف دشمنوں کی ایذا ارسانی اور بدمعاشوں کی خود سری و زیادتی جس قدر بڑھتی گئی آپ صلی الله علیہ وسلم کے صبرو حلم میں اسی قدر اضافہ ہوتا گیا.

حضرت عائشہ رضی الله تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو جب بھی دو کاموں کے درمیان اختیار دیا جاتا تو آپ صلی الله علیہ وسلم وہی کام اختیار فرماتے تھے جو آسان ہوتا، جب تک کہ گناہ کا کام نہ ہوتا. اگر گناہ کا کام ہوتا تو آپ صلی الله علیہ وسلم سب سے بڑھ کر اس سے دور رہتے. آپ صلی الله علیہ وسلم نے کبھی اپنے نفس کے لیے انتقام نہ لیا! البتہ اگر الله کی حرمت چاک کی جاتی تو آپ صلی الله علیہ وسلم الله کے لیے انتقام لیتے.

آپ صلی الله علیہ وسلم سب سے بڑھ کر غیظ و غضب سے دور تھے اور سب سے جلد راضی ہو جاتے تھے.

جود و کرم کا وصف ایسا تھا کہ اسکا اندازہ ہی نہیں کیا جا سکتا. آپ صلی الله علیہ وسلم اس شخص کی طرح بخشش و نوازش فرماتے تھے جسے فقر کا اندیشہ ہی نہ ہو. ابن عبّاس رضی الله تعالیٰ عنہا کابیان ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم سب سے بڑھ کر پیکر جود و سخا تھے. اور آپ صلی الله علیہ وسلم کا دریاۓ سخاوت رمضان میں اس وقت زیادہ جوش پر ہوتا جب حضرت جبریل علیہ السلام آپ صلی الله علیہ وسلم سے ملاقات فرماتے اور حضرت جبریل علیہ السلام رمضان میں آپ صلی الله علیہ وسلم سے ہر رات ملاقات فرماتے اور قرآن کا دور کراتے. پس رسول صلی الله علیہ وسلم خیر کی سخاوت میں (خزائن رحمت سے مالا مال کر کے) بھیجی ہوئی ہو اسے بھی زیادہ پیش پیش ہوتے تھے.. حضرت جابر کا ارشاد ہے کہ ایسا کبھی نہ ہوا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم سے کوئی چیز مانگی گئی ہو اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے نہیں کہہ دیا ہو..

شجاعت، بہادری اور دلیری میں بھی آپ کا مقام سب سے بلند اور معروف تھا. آپ صلی الله علیہ وسلم سب سے زیادہ دلیر تھے. نہایت کٹھن اور مشکل مواقع پر جبکے اچھے اچھے جانبازوں اور بہادروں کے پاؤں اکھڑ گئے آپ صلی الله علیہ وسلم اپنی جگہ برقرار رہے اور پیچھے ہٹنے کی بجاۓ آگے ہی بڑھتے گئے. پاۓ ثبات میں ذرا لغزش نہ آئی بڑے بڑے بہادر بھی کبھی نہ کبھی بھاگے اور پسپا ہوئے. مگر آپ صلی الله علیہ وسلم میں یہ بات کبھی نہیں پائی گئی. حضرت علی رضی الله تعالیٰ عنہ کابیان ہے کہ جب زور کا رن پڑتا اور جنگ کے شعلے خوب بھڑک اٹھتے تو ہم رسول صلی الله علیہ وسلم کی آڑ لیا کرتے تھے. آپ صلی الله علیہ وسلم سے بڑھ کر کوئی شخص دشمن کے قریب نہ ہوتا.

حضرت انس کا بیان ہے کہ ایک رات اہل مدینہ کو خطرہ محسوس ہوا لوگ شور کی طرف دوڑتے تو راستے میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم واپس آتے ہوئے ملے. آپ صلی الله علیہ وسلم لوگوں سے پہلے ہی آواز کی جانب پہنچ( کر خطرے کے مقام کا جائزہ لے) چکے تھے. اس وقت آپ صلی الله علیہ وسلم ابو طلحہ رضی الله تعالیٰ عنہ کے بغیر زین کے گھوڑے پر سوار تھے. گردن میں تلوار حمائل کر رکھی تھی اور فرما رہے تھے، ڈرو نہیں ڈرو نہیں. ( کوئی خطرہ نہیں).

آپ صلی الله علیہ وسلم سب سے زیادہ حیاواراور پست نگاہ تھے. ابو سعید خدری رضی الله تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم پردہ نشین کنواری عورت سے بھی زیادہ حیا وار تھے. جب آپ صلی الله علیہ وسلم کو کوئی بات ناگوار گزرتی تو چہرے سے پتا لگ جاتا. اپنی نظریں کسی کے چہرے پرگاڑتے نہ تھے. نگاہ پست رکھتے تھے اور آسمان کی بہ نسبت زمین کی طرف نظر زیادہ دیر تک رہتی تھی. عموما نیچی نگاہ سے تاکتے. حیا اور کرم نفس کا علم یہ تھا کہ کسی سے ناگوار بات رو رو نہ کہتے اور کسی کی کوئی ناگوار بات آپ صلی الله علیہ وسلم تک پہنچتی تو نام لیکر اس کا ذکر نہ کرتے بلکہ یوں فرماتے کہ کیا بات ہے کہ کچھ لوگ ایسا کر رہے ہیں. فرزدق کے اس شعر کےسب سے زیادہ صحیح مصداق آپ صلی الله علیہ وسلم تھے:

یغضی حیاء و یغضی من مھا ہته فلا یکلم الا حین یبتسم

آپ حیاء کے سبب اپنی نگاہ پست رکھتے ہیں اور اپ کی ہیبت کے سبب نگاہیں پست رکھی جاتی ہیں’ چناچہ آپ سے اسی وقت گفتگو کی جاتی ہے جب آپ تبسم فرما رہے ہوں

آپ صلی الله علیہ وسلم سب سے زیادہ عادل، پاک و امن، صادق اللہجہ اور عظیم الامانتہ تھے. اس کا اعتراف آپ صلی الله علیہ وسلم کے دوست دشمن سب کو ہے. نبوت سے پہلے آپ صلی الله علیہ وسلم کو امین کہا جاتا تھا اور دور جاہلیت میں آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس فیصلے کے لئے مقدمات لاۓ جاتے تھے. جامع ترمذی میں حضرت علی سے مروی ہے کہ ایک بار ابو جہل نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے کہا: ہم آپ کو جھوٹا نہیں کہتے البتہ آپ صلی الله علیہ وسلم جو کچھ لیکر آئے ہیں اسے جھٹلاتے ہیں. اس پر الله تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:

“یہ لوگ آپ صلی الله علیہ وسلم کو نہیں جھٹلاتے بلکہ یہ ظالم الله کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں “

ہرقل نے ابو سفیان سے دریافت کیا کہ کیا اس (نبی صلی الله علیہ وسلم) نے جو بات کہی ہے اس کے کہنے سے پہلے تم لوگ ان پر جھوٹ کا الزام لگاتے تھے؟ تو ابو سفیان نے جواب دیا کہ نہیں

آپ صلی الله علیہ وسلم سب سے زیادہ متواضع اور تکبر سے دور تھے. جس طرح بادشاہوں کے لیے ان کے خدّام و حاشیہ بردار کھڑے رہتے ہیں اس طرح اپنے لیے صحابہ کرام رضی الله تعالیٰ عنہ کو کھڑا ہونے سے منع فرماتے تھے. مسکینوں کی عیادت کرتے تھے، فقراء کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے تھے، غلام کی دعوت منظور فرماتے تھے. صحابہ کرام رضی الله تعالیٰ عنہ میں کسی امتیاز کے بغیر ایک عام آدمی کی طرح بیٹھتے تھے، حضرت عائشہ رضی الله تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم اپنے جوتے خود ٹانکتے تھے، اپنے کپڑے خود سیتے تھے اور اپنے ہاتھ سے اس طرح کام کرتے تھے جیسے تم میں سے کوئی آدمی اپنے کام کاج کرتا ہے. آپ صلی الله علیہ وسلم بھی انسانوں میں سے ایک انسان تھے اپنے کپڑے خود ہی دیکھتے کہ کہیں اس میں جوں نہ ہو اپنی بکری خود دہتے تھے اور اپنا کام خود کرتے تھے۔

آپ صلی الله علیہ وسلم سب سے بڑھ کر عہد کی پابندی اور صلہ رحمی فرماتے تھے، لوگوں کے ساتھ سب سے زیادہ شفقت اور رحم و مروت سے پیش آتے تھے، رہائش اور ادب میں سب سے اچھے تھے. آپ صلی الله علیہ وسلم کا اخلاق سب سے زیادہ کشادہ تھا. بدخلقی سے سب سے زیادہ دورو نفور تھے. نہ عادتا فحش گو تھے نہ بہ تکلف فحش کہتے تھے، نہ لعنت کرتے تھے. نہ بازار میں چیختے چلاتے تھے نہ برائی کا بدلہ۔ برائی سے دیتے تھے، بلکہ مافی اور درگزر سے کام لیتے تھے کسی کو اپنے پیچھے چلتا ہوا نہ چھوڑتے تھے. اور نہ کھانے پینے میں اپنے غلاموں اور لونڈیوں پر ترفع اختیار فرماتے تھے. اپنے خادم کا کام خود ہی کر دیتے تھے. کبھی اپنے خادم کو اف نہیں کہا. نہ اس پر کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے پرعتاب فرمایا. مسکینوں سے محبت کرتے، ان کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے اور ان کے جنازوں میں حاضر ہوتے تھے. کسی فقر کی وجہ سے حقیر نہیں سمجھتے تھے. ایک بار آپ صلی الله علیہ وسلم سفر میں تھے. ایک بکری کاٹنے پکانے کا مشورہ ہوا. ایک نے کہا’ ذبح کرنا میرے ذمہ، دوسرے نے کہا کھال اتارنا میرے ذمہ، تیسرے نے کہا پکانا میرے ذمہ، نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ایندھن کی لکڑیاں جمع کرنا میرے ذمہ، صحابہ نے عرض کیا. ہم آپ صلی الله علیہ وسلم کاکام کر دینگے آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میں جانتا ہوں کہ تم لوگ میرا کام کردوگے لیکن میں پسند نہیں کرتا کہ تم امتیاز حاصل کرو کیونکہ الله اپنے بندوں کی یہ حرکت ناپسند کرتا ہے کہہ اپنے آپ کو اپنے رفقاء میں ممتاز سمجھے”. اس کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم نے اٹھ کر لکڑیاں جمع فرمائیں.

آیئے ذرا ہند بن ہالہ کی زبانی رسول صلی الله علیہ وسلم کے اوصاف سنیں. ہند اپنی ایک طویل روایت میں کہتے ہیں: رسول الله صلی الله علیہ وسلم پیہم غموں سے دو چار تھے. ہمیشہ غورو فکر فرماتے رہتے تھے. آپ صلی الله علیہ وسلم کے لیے راحت نہ تھی. بلا ضرورت نہ بولتے تھے. دیر تک خاموش رہتے تھے. ازاول تا آخر بات پورے منہ سے کرتے تھے، یعنی صرف منہ کے کنارے سے نہ بولتے تھے. جامع اور دو ٹوک کلمات کہتے تھے جن میں فضول گوئی ہوتی تھی اور نہ کوتاہی.

نرم خو تھےجفاجو اور حقیر نہ تھے، نعمت معمولی بھی ہوتی تو اس کی تعظیم کرتے تھے. کسی چیز کی مذمّت نہیں فرماتے تھے. کھانے کی نہ برائی کرتے تھے. نہ تعریف حق کو کوئی نقصان پہنچاتا تو جب تک انتقام نہ لیتے آپ صلی الله علیہ وسلم کے غضب کو روکا نہ جا سکتا تھا. البتہ کشادہ دل کے تھے؛ اپنی نفس کے لیے نہ غضبناک ہوتے نہ انتقام لیتے. جب اشارہ فرماتے تو پوری ہتھیلی سے اشارہ فرماتے اور تعجب کے وقت ہتھیلی پلٹتے. جب غضبناک ہوتے تو رخ پھیر لیتے اور جب خوش ہوتے تو نگاہ پست فرمالیتے. آپ صلی الله علیہ وسلم کی بیشتر ہنسی تبسسم کی صراط میں تھی. مسکراتے تو دانت اولوں کی طرح چمکتے
لا یعنی بات سے زبان کو روکھے رکھتے. ساتھیوں کو جوڑتے تھے، توڑتے نہ تھے. ہر دم قوم کے معزز آدمی کی تکریم فرماتے تھے. اور اسی کو ان کا والی بناتے تھے. لوگوں (کے شر) سے محتاط رہتے اور ان سے بچاؤ اختیار فرماتے رہتے تھے . لیکن اس کے لیے کسی سے اپنی خندہ چبینی ختم نہ فرماتے تھے…

اپنے اصحاب رضی الله تعالیٰ عنہ کی خبر گیری کرتے اور لوگوں کے حالت دریافت فرماتے. اچھی چیز کی تحسین و تصویب فرماتے اور بری چیز کی تقبیح و توہین. معتدل تھے، افراط و تضریط سے دور تھے. غافل نہ ہوئے تھے کہ مبادا لوگ بھی غافل یا ملول خاطر ہو جائیں. ہر حالت کیلئے مستعد رہتے تھے. حق سے کوتائی نہ فرماتے تھے، نہ حق سے تجاوز فرما کرنا حق کی طرف لے جاتے تھے. جو لوگ آپ صلی الله علیہ وسلم کے قریب رہتے تھے وہ سب سے اچھے لوگ تھے اور ان میں ابھی آپ صلی الله علیہ وسلمکے نزدیک افضل وہ تھا جو سب سے بڑھ کر خیر خواہ ہو؛ اور سب سے زیادہ قدر آپ صلی الله علیہ وسلم کے نزدیک اس کی تھی جو سب سے اچھا غمگسارومدد گار ہو..

آپ صلی الله علیہ وسلم اٹھتے بیٹھتے الله کا ذکر ضرور فرماتے جگہیں متعین نہ فرماتے. یعنی اپنے لیے کوئی امتیازی جگہ مقرر نہ فرماتے. جب قوم کے پاس پہنچتے تو مجلس میں جہاں جگہ مل جاتی بیٹھ جاتے اور اسی کا حکم بھی فرماتے. سب اہل مجلس پر برابر توجہ فرماتے، حتیٰ کہ کوئی جلیس یہ نہ محسوس کرتا کہ کوئی شخص آپ صلی الله علیہ وسلم کے نزدیک اس سے زیادہ با عزت ہے. کوئی کسی ضرورت سے آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس بیٹھتا یا کھڑا ہوتا تو آپ صلی الله علیہ وسلم اتنے صبر کے ساتھ اس کے لیے روکے رہتے کہ خود ہی واپس ہوتا ہے. کوئی کسی ضرورت کا سوال کر دیتا تو آپ اسے عطا کئے بغیر یا اچھی بات کہے بغیر واپس نہ فرماتے آپ نے اپنی خندہ جبینی اور اخلاق سے سب کو نوازا، یہاں تک کہ آپ سب کے لیے باپ کا درجہ رکھتے تھے اور سب آپ صلی الله علیہ وسلم کے نزدیک یکساں حق رکھتے تھے، کسی کو فضلیت تھی تو تقوی کی پنیاد پر. آپ صلی الله علیہ وسلم کی مجلس حلم ہ حیاء اور صبر ق امانت کی مجلس تھی. اس میں آوازیں بلند نہ کی جاتی تھیں اور نہ حرمتوں پر عیب لگتے رہتے تھے. یعنی کسی کی بے آبروئی کا اندیشہ نہ تھا، لوگ تقویٰ کی بوتل بہم محبت و ہمدردی رکھتے تھے. بڑے کا احترام کرتے تھے چھوٹے پر رحم کرتے تھے، حاجتمند کو نوازتے تھے اور اجنبی کو انس عطا کرتے تھے

آپصلی الله علیہ وسلم کے چہرے پر ہمیشہ بشاشت رہتی سہل خو اور نرم پہلو تھے جفا جو اور سخت خونہ تھے. نہ چیختے چلاتے تھے، نہ فحش کہتے تھے نہ زیادہ عتاب فرماتے تھے نہ بہت تعریف کرتے تھے. جس چیز کی خواہش نہ ہوتی اس سے تغافل برتتے تھے. آپ صلی الله علیہ وسلم سے مایوسی نہیں ہوتی تھی. آپ صلی الله علیہ وسلم نے تین باتوں سے اپنے نفس کو محفوظ رکھا؛(١)ریاء سے (٢)کسی چیز کی کثرت سے (٣)اور لا یعنی بات سے. اور تین باتوں سے لوگوں کو محفوظ رکھا یعنی آپ صلی الله علیہ وسلم (١) کسی کی مذمّت نہیں کرتے تھے (٢) کسی کو عار نہیں دلاتے تھے (٣) اور کسی کی عیب جوئی نہیں کرتے تھے. آپ صلی الله علیہ وسلم وہی بات نوک زبان پر لاتے تھے جس میں ثواب کی امید ہوتی. جب آپ صلی الله علیہ وسلم تکلم فرماتے تو آپ صلی الله علیہ وسلم کے ہم نشین یوں سر جھکاۓ ہوتے گویا سروں پر پرندے بیٹھے ہیں، اور جب آپ صلی الله علیہ وسلم خاموش ہوتے تو لوگ گفتگو کرتے. لوگ آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس گپ بازی نہ کرتے. آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس جو کوئی بولتا ہے سب اس کے لیے خاموش رہتے. یہاں تک کہ وہ اپنی بات پوری کر لیتا. ان کی بات وہی ہوتی جو ان کا پہلا شخص کرتا. جس بات سے سب لوگ ہنستے اس سے آپ صلی الله علیہ وسلم بھی ہنستے اور جس بات پر سب لوگ تعجب کرتے اس پر آپ صلی الله علیہ وسلم بھی تعجب کرتے. اجنبی آدمی درشت کلامی سے کام لیتا تو اس پر آپ صلی الله علیہ وسلم صبر کرتے اور فرماتے “جب تم لوگ حاجتمند کو دیکھو کہ وہ اپنی حاجت کی طلب میں ہے تو اسے سامان ضرورت سے نواز دو”. آپ صلی الله علیہ وسلم احسان کا بدلہ دینے والے کے سوا کسی سے ثنا کے طالب نہ ہوتے تھے.

خارجہ بن زید رضی الله تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم اپنی مجلس میں سب سے زیادہ با وقار ہوتے. اپنے پاؤں وغیرہ نہ پھیلاتے، بہت خاموش رہتے. بلا ضرورت نہ بولتے. جو شخص نہ مناسب بات بولتا اس سے رخ پھیر لیتے. آپ صلی الله علیہ وسلم کی ہنسی مسکراہٹ تھی اور کلام دو ٹوک؛ نہ فضول نہ کوتاہ. آپ صلی الله علیہ وسلم کے صحابہ رضی الله تعالیٰ عنہ کی ہنسی بھی آپ کی توقیر و اقتدار میں مسکراہٹ ہی کی حد تک ہوتی

حاصل یہ کہ نبی صلی الله علیہ وسلم بے نظیر صفات کمال سے آراستہ تھے. آپ صلی الله علیہ وسلم کے رب نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو بے نظیر ادب سے نوازا تھے، حتیٰ کہ اس نے خود آپ صلی الله علیہ وسلم کی  تعریف میں فرمایا

یقیناً آپ صلی الله علیہ وسلم عظیم اخلاق پر ہِیں

 

 اور یہ ایسی خوبیاں تھیں جن کی وجہ سے لوگ آپ صلی الله علیہ وسلم کی طرف کھینچ آئے، دلوں میں آپکی محبت بیٹھ گئی اور آپ صلی الله علیہ وسلم کو قیادت کا وہ مقام حاصل ہوا کہ لوگ آپ صلی الله علیہ وسلم پر دا رفتہ ہو گئے. ان ہی خوبیوں کے سبب آپ صلی الله علیہ وسلم کی قوم کی اکڑ اور سختی نرمی میں تبدیل ہوئی یہاں تک کہ الله کے دین میں فوج درفوج داخل ہو گئی.

مندرجہ بالا الفاظ میں جن خوبیوں کا ذکر کیا ہے وہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے کمال اور عظیم صفات کے مظاہر کی چند چوٹی چوٹی لکیریں ہیں، ورنہ آپ کے مجدو شرف اورشمائل و خصائل کی بلندی اور کمال کا یہ علم تھا کہ انکی حقیقت اور تہ تک رسائی ممکن ہے اور نہ اس کی گہرائی ناپی جا سکتی ہے،

بھلا عالم وجود کے اس سب سے عظیم بشر کی عظمت کی انتہا تک کس کی رسائی ہو سکتی ہے جس نے مجد وکمال کی سب سے بلند چوٹی پر اپنا نشیمن بنایا اور اپنے رب کے نور سے اس طرح منور ہوا کہ کتاب الہی ہی کو اسکا وصف اور خلق قرار دیا گیا..

قاری نظر عطا ہے حقیقت میں ہے قرآن

اقتباس از رحیق المختوم، تصنیف صفی الرحمن مبارکپپوری

Share
« Newer PostsOlder Posts »

Powered by WordPress