فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

July 7, 2012

فارنہائٹ 451 از رے بریڈبیری

Filed under: ادبیات,کتابیات — ابو عزام @ 3:08 pm

رے بریڈ بیری کی کتاب حالانکہ فارنہاٹٹ ۴۵۱  میری باون ہفتوں میں باون کتابوں کی فہرست میں موجود نہیں لیکن پھر بھی اس پر مختصر تبصرہ اس لئے ضروری سمجھا کیونکہ رے بریڈ  بیری کی حال میں ہی وفات ہوئی ہے اور انکی یہ کتاب ماضی میں میرے زیر مطالعہ رہی ہے۔ ان کی دو کتابیں  فارنہائٹ۴۵۱ اور مارشین کرانکل سائنس فکشن اورسماجی تبصرہ نگاری میں خاصی اہمیت کی حامل ہیں۔

فارنہایٹ ۴۵۱ رے بریڈبیری کیے طرز تحریر کی نمائندہ تصنیف ہے جو 1953 میں لکھی گئی لیکن آج کے ۲۴ گھنٹے کے میڈیا دور میں خصوصا بڑی اہم اہمیت کی حامل ہے۔ اس کتاب کو سائنس  فکشن کے ساتھ مستقبل کی سوشل کامینٹری یا معاشرتی تجزیے کا بہترین امتزاج کہا جا سکتا ہے۔ رے بریڈ بیری نے اس کہانی کا پلاٹ سائنس فکشن، تاریخ، معاشرتی رجحانات کو ایک فیوچریسٹک یا مستقبل کےایسے معاشرے میں قائم کیا ہے جہاں پر لوگ کتابیں نہیں پڑھتے بلکہ ٹی وی اور ریڈیو کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں کتابیں پڑھنا جرم  ہے اور حکومت وقت کی جانب سے حکم ہے کہ ہر کتاب کو اسکے پاے جانے کے ۲۴ گھنٹوں کے اندر جلا دیا جاے۔ لیکن یہ رجحان عوام الناس میں کچھ اسطرح سرائیت کر گیا ہے کہ اب وہ بھی کتابوں کو اپنا دشمن گردانتے ہیں۔

 جس طرح جارج ارویل کی ائنیمل فارم اور ۱۹۸۴  تمثیلی انداز میں معاشرتی برائیوں کے بخیے ادھیڑتی نظر آتی ہے،اسی طرح فارنہاٹٹ ۴۵۱ بھی کسی زندہ معاشرے میں کتاب کی اہمیت پر ایک اہم تصنیف ہے۔ اس کتاب کی وجہ تسمیہ اس درجہ حرارت کی نسبت ہے جس پر کاغذ بھڑک اٹھتا ہے۔ فارنہایٹ ۴۵۱  کا مرکزی خیال ایک ایسا معاشرہ ہے جہاں کتابوں کو جلا  دیا جاتا ہے اور اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس معاشرے میں باغیانہ خیالات یا ایسے افکار جو عمومی راے سے ہٹ کر ہوں انہیں پنپنے کا موقع نا ملے۔ نیز ایسے افکار جو ریاست کی سوچ سے  متضادانہ روش کے حامل ہوں انہیں کتابوں اور دانشورانہ گفتگو کی مدد سے پروان نہ چڑھنے دیا جاۓ بلکہ انکو وہیں پردبا دیا جاۓ۔ اس آتش زنی کے ذریعےباغیانہ رویے کو روکا جاۓ اور لوگوں کی سوچ پر لا محالہ اسطرح سے پہرے بٹھاے جائیں کہ نئے افکار پھلنے پھولنے سےرک جائیں۔ جب لوگوں کا کتاب پڑھنے، دانشورانہ گفتگو و تبادلہ خیال کا موقع نہ دیا جاے گا تو لازما انکی آزادانہ سوچ کا راستہ رک جاۓ گا. یہ کتاب ایک فکری تجربہ ہے اس بات کا کہ کتابوں کو جلانے سے معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

 زیر تبصرہ کتاب کا مرکزی کردار مونٹاگ ایک فائرمین  ہے جوآگ کے محکمے میں کام کرتا ہےاور اس کا کام ہے کہ وہ کتابوں کو آگ لگاے۔ مستقبل کے ایک امریکی شہر کے گرد گھومتی یہ کتاب متضادات سے تعلق رکھتی ہے۔ یہاں فائر مین کا کام یہ ہے کہ وہ آگ لگاۓ،  بجاۓ اس کے کہ وہ آگ بجھاۓ، اس معاشرے کا حال یہ ہے کہ اس میں لوگ کتابیں نہیں پڑھتے ، نہ وہ فطرت سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور نہ قدرتی مناظرسے حظ اٹھاتے ہیں۔ نہ ہی وہ سوچ و بچار میں وقت صرف کرتے ہیں اور نہ ہی  آزادانہ سوچ کے حامل  ہیں۔ انکی پسند ہے تیز گاڑیاں،  ٹیلیویژن دیکھنااور ریڈیو سننا۔ مصنف ہیڈ فون کی طرز کے آلے کو گھونگے کے خول کا ریڈیو کہتے ہیں، واضع رہے کہ یہ کتاب  1953میں لکھی گئی تھی جب تک آی پاڈ اور والک مین  کا وجود نا تھا۔ یہ کتاب بہت پہلے لکھی گئی ہے لیکن اگر سوچیں تو اس میں سے بہت ساری باتیں آج سچ ثابت ہوتی ہیں کہ کتنے فیصدی لوگ آج کتابیں پڑھتے ہیں اور اسکی بنسبت کتنے لوگ ٹی وی دیکھتے ہیں یا ریڈیو سنتے ہیں۔ لہذا بنیادی طور پر جس مستقبل کے بارے میں رے بریڈ بیری نے یہاں بات کی ہے وہ ١٩٥٣ میں جب یہ کتاب لکھی گئی تھی اس وقت خلائی اور افسانوی بات تھی لیکن اب 2012  میں یہ بات بہت حد تک درست ثابت ہوچکی ہے۔

 گاے مونٹاگ کا مرکزی کردار اپنی بیوی کی خودکشی کی کوشش پر دلشکستہ ہے جو زندگی کی یکسانیت اور عامیانہ پن سے تنگ آکر خودکشی کرنا چاہتی ہے۔  وہ اس کے بعد ایک خاتون کلیرس  مکلین سے ملتا ہے جو خاصی زندہ دل ہے اور اس کے سوالات زیادہ تر کیوں کے بارے میں ہوتے ہیں کہ کہ  کیسے۔ اس تجسس کی پڑیا سے ملاقات سے مونٹاگ کے دل میں بھی زندگی کو مکمل طور پر جینے کا حوصلہ پیدا ہوتا ہے اور اسے بھی بہت سی چیزوں سے تجسّس آمیز رشتہ جوڑنے کا موقع ملتا ہے۔ اسی دوران اسے کتابیں پڑھنے کا شوق چراتا ہے اور پھر ایک دن جب وہ اپنے کام پر نہیں جاتا تو اس کا باس جو کہ کتابوں کا دانشوارانہ انداز میں نہایت سخت مخالف ہے، اس کے گھر آکر اس سے کہتا ہے کہ اگر تمہیں یہ  کتابیں پڑھنی ہیں تو تمہارے پاس چوبیس گھنٹوں کا وقت ہے۔ اس دوران وہ کتاب کی مخالفت میں اور کتاب جلانے کی حمایت میں ایک لمبی سی تقریر کرتا ہے جو کہ لائق مطالعہ ہے۔ اس کے بعد مونٹاگ 24 گھنٹوں میں بہت سی کتابیں پڑھنے کی کوشش شروع کرتا ہے اور جب مطالعہ میں بیوی کی مدد طلب کرتا ہے تو اسکی بیوی ٹکا سا جواب دیتے ہوے کہتی ہے کہ تمہیں یہ کتابیں پڑھنے کی کیا ضرورت ہے، ٹی وی دیکھو جو زیادہ مزیدارکام ہے۔اس اثنا میں اسکی ملاقات انگریزی کے پروفیسر فیبر سے ہوتی ہےجو اسے سمجھاتا ہے کہ کتاب کو پڑھنے اور سمجھنے کے لیے ایک ماحول درکار ہوتا ہے۔ تمہارے پاس کتابیں سمجھنے اور اس سے جو آگاہی حاصل ہو اس پہ عمل کرنے کا اختیار موجود ہونا چاہیے ۔انفرادی طور پر سوچنے   کی آزادی اگر موجود ہو تو  کتابیں فائدہ مند ہوتی ہیں۔خالی رٹو طوطے کی طرح پڑھنے سے کچھ خاص فائدہ نہیں مل سکتا۔ اس کے بعد کہانی مونٹاگ کی آگہی، اس کے ارباب اختیار سے ٹکراو اور بلاخر اس کے مجرم ٹھرنے پر منتج ہوتی ہے۔ مونٹاگ کی کتب بینوں اور دانشور گروہ کی تلاش، نیوکلائ ہتھیاروں کی مخالفت اور معاشرے کی ازسر نو تشکیل اس تصنیف کے اہم پہلو ہیں۔ اس دوران کئی سائنسی ایجادات کے روز مرہ استعمال کا تذکرہ ہے اور راقم کا غالب گمان ہے کہ اس پر تجسس ناول کا  مطالعہ آپ کو قطعی طور پر بور نا ہونے دے گا، لیکن ہوسکتا ہےکہ یہ مختصر جائزہ آپ کو سلا دے 🙂

اس ناول کے مندرجہ بالا مختصر خلاصے سے اپ کو اندازہ ہو گیا ہوگا کہ رے بریڈبیری کے خیالات عام ڈگر سے ہٹ کر ہوا کرتے ہیں۔ مثلا  تعلیمی نظام کے بارے میں انکا نقطہ نظر یہ تھا۔

لائبریریوں نے مجھے پالا ہے. میں کالجوں اور یونیورسٹیوں پر یقین نہیں ہے. میں لائبریریوں پر یقین رکھتا ہوں کیونکہ زیادہ تر طالب علموں کے پاس پیسہ نہیں ہوتا. جب میں نے ہائی اسکول سے گریجویشن کیا، یہ کساد بازاری کا دور تھا اور ہمارے پاس بلکل پیسہ نہیں تھا. میں کالج جا نہیں سکتا تھا لہذا میں دس سال تک ہر ہفتے تین دن لائبرری جا کر تعلیم حاصل کرتا رہا۔

Share

July 3, 2012

سائنسدان نیل ٹائسن کا ملحدین کو دندان شکن جواب

Filed under: مذہب,مشاہدات — ابو عزام @ 7:12 am

کیونکہ کبھی کبھی جب تک عنوان کلیشے نا ہو، اردو بلاگستان پر تحریر کچھ ادھوری سی معلوم ہوتی ہے۔

 نیل ڈیگراس ٹائسن ایک مشہور امریکی ماہر فلکیات، سائنسی امور کے مصنف و مبصر ہیں۔ الحاد کے علمبردار اکثر انہیں اپنا حامی قرار دیتے ہیں جس سے وہ سخت نالاں ہیں۔ وہ ایتھیسٹ یا ملحد لے بجاےاپنے ٓآپ کو اگناسٹک گردانتے ہیں اور روحانیت پر انکا ایک سائنسدان کئ حیثیت سے مندرجہ زیل موقف ہمارے جدید عسکری ملحدین کے لیے ایک بہترین مثال ہے۔

گذارش یہ ہے کہ تبصرہ کرنے سے پہلے نیل ٹائسن کیا کہ رہے ہیں اسے سن اور سمجھ لیا جاے تو راقم کا مدعا واضع ہو جا؁ے گا۔

Share

June 16, 2012

تشکیک و تیقن

Filed under: مذہب,مشاہدات — ابو عزام @ 7:52 am

انگریزی مثل مشہور ہے کہ  جنگی خندقوں میں کوئی ملحد نہیں ہوتا۔

لیکن یہ مثل صرف خندقوں تک محدود نہیں، تشکیک و تیقن کا یہ فرق انسانی زندگی اور سوچ کے ارتقا میں ہر جگہ نہایت نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ میوٹیشن یا تغیر، جس کو ارتقاء کا بنیادی ستون ٹھرایا سمجھا جاتا ہے، اس تغیر کی مختلف امثال در حقیقت ایمانیات کا ایک لٹمس ٹیسٹ ہیں۔  مثال کے طور پر انسانی آنکھ جیسا ایک پیچیدہ عضو ہی لے لیں جسے ڈارون نے ہمیشہ نظریہ ارتقا کے لئے ایک پریشان کن شے سمجھا کہ یہ کیونکر وجود میں آئ۔ کروڑوں سال قبل آپ ہو ہم جب پرایمورڈیل مالیکیولر ملغوبوں میں غوطے کھا رہے تھے تب تو کسی جاندار کے پاس آنکھ موجود نا تھی، پھر ہوا یوں کہ میوٹیشن سے ایک باریک سی جھلی بنی کہ جس سے روشنی کی سمت کا اندازہ ہوتا، اور اس کے بعد یہ جھلی ہزاروں لاکھوں سال میں بڑھ کر پن ہول کیمرہ کی شکل اختیار کر گئی اور پھر اس میں فوکس کرنے کی صلاحیت آئ اور اس طریقے سے آج کی موجودہ پیچیدہ انسانی آنکھ معرض وجود میں آئی۔ ان تمام تغیرات کے بارے میں بہت آسانی سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ سب تو قبلہ میوٹیشن کی برکات ہیں، ایک سیلفش جین ہے جو میوٹیٹ کرتا رہا،۔ لیکن جب ہم نظریہ میوٹیشن کواس قدرآسانی سے بیان کرتے ہیں کہ گویا ہر چیزمیوٹیشن کے ذریعے وجود میں آئی، تو ہمیں اس بات کا چنداں احساس نہیں ہوتا کہ اس تغیروارتقاء کے پیچھے کیا کوئ گرانڈ پلان بھی موجود ہے؟ کیا یہ وحی خفی کسی ذات باری کی جانب سے ہے جو اس سمت کو متعین کرتی ہے یا یہ سب خودبخود ہوتا چلا جارہا ہے؟پرابیبلٹی اور پلاسیبیلٹی کی کمی بھی، اس خیال کو کہ میوٹیشن خود بخود ہوگئی ہے، کسی خالق کی موجودگی کے امکان کے قرب میں پھٹکنے نہیں دیتی کہ اس سے انٹیلیکچولزم پر حرف آتا ہے۔ ہمارےنزدیک بہت آسان بات ہے یہ کہہ دیں کہ بس جناب، سروائووال آف دا فٹسٹ، اور میوٹیشن خودبخود آنکھ بنا دیتی ہے۔ لیکن اسکی وجوہات کہ میوٹیشن کیونکرہوئ، اور یہ میوٹیشن کسی منفی سمت میں کیوں نہیں جاتی، یہ سوالات طوالت کی بنا پراصحاب تشکیک یا اسکیپٹکس اکثر چھوڑ دیا کرتے ہیں۔ یہی تشکیک و تیقن کی تقسیم کا بنیادی کا خاصہ ہے۔ میوٹیشن میں زندقہ، تغیروارتقاء سے آنکھ بننے کے عمل کو دیکھتا ہے، اہل ایمان اسی امر میں خدا کی قدرت کا سراغ پاتا ہے۔ ایک کو میوٹیشن کی خودی پر ایمان ہے گو کہ وہ لیب میں ری پروڈیوسیبل نا ہو اور دوسرے کو اس میں خدای اسرار نظر آتے ہیں جسے الحاد و زندقہ ذہنی کمزوری گرداننے میں چنداں شرم محسوس نہیں، کرتے۔

اب انسانی ذہانت کو دیکھیں۔ سائنسی دعووں کومد نظر رکھا جاۓ تو ایپس اور انسانی ڈی آین آے میں محض ایک فیصدی فرق ہے۔ اب اس ایک فیصدی فرق نے ہمیں چاند پر پہنچایا، اشرف المخلوقات کا درجہ دیا، اس ایک فیصدی فرق کے ذریعے آج بنی نوع انسانی کے خلائ جہازوائجر اول  اور وائجر دوئم نظام شمسی کی حدود پار کرنے والے ہیں۔ اگر ہم سب ایک ہی پرائمورڈیل سوپ سے معرض وجود میں آے تو اس بات میں کیا استجاب لازم نہیں کہ کسی اور مخلوق میں اس درجہ کی ذہانت کیوں نہیں پائی جاتی؟ آپ شاید اس سے امر کو اسپیشیزم  گردانیں لیکن کیا وجہ ہے کہ ہم کسی ڈالفن کو اسکوبا ٹینک لگائے موٹر کار چلاتے ہوئے نہیں دیکھتے۔ اگر تمام مخلوقات کے لیے ابتدا ایک ہے اور کوئ منصوبہ ساز نہیں، تو پرابیبلٹی کے حساب سے ان کروڑوں سالوں میں کوئ تو ایسی مخلوق ہوتی جس کی ذہانت کا معیار وہی ہوتا کہ جو حضرت انسان کی ذہانت کا معیار ہے؟ زمین کو اس وقت ایک کلوزڈ سسٹم سمجھ کر اس سوال پر غور کریں تو شائد یہ بات واضع ہو کہ جب ایک ہی طرح کے ڈی این اے سے سب کی تخلیق ہوئی ہے تو پھر یہ کیا وجہ ہے کہ ہم سے جنیاتی طور پر قریب ترین دوسری مخلوق جوکہ جسمانی طاقت میں آَٹھ گنا زیادہ مضبوط ہے، ذہانت سے اسقدر عاری کیوں؟ ڈاینوسارس نہایت کامیاب مخلوق تھے کہ جنہوں نے زمین پر کروڑوں سال حکومت کی، حضرت انسان کو تو فقط ایک لاکھ کچھ سال ہی ہوے، ان دیوہیکل جانوروں میں بھی کوئ قابل ذکر ذہانت کا عنصر نا دکھائ دیا۔ اگر تشکیک کی عینک ہٹا کر دیکھیں تو درحیقت یہاں پر بھی ٹکراو یقین اور شک کا ہے۔ اہل ایمان کا یقین اس استعارے کو سمجھتا ہے کہ کیا وجہ ٹھری کہ خلیفہ رب العزت اور اشرف المخلوقات کا درجہ صرف حضرت انسان کہ حق میں آیا ہے. جب کہ اہل تشکیک اور زندقہ اس امر کو محض ایک عارضی غیر حل شدہ مسئلہ گردانتے ہیں.

حاصل مطالعہ یہ ٹھرا کہ

ذَلِكَ الْكِتَابُ لا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ

یعنی  کہ اس کتاب میں کوئ شک نہیں اور ہدایت اس کے لیے جو غیب پر ایمان لایا۔ منطق کہے یہ کیسا سرکلر ریفرنس ہے؟ کوئ پیر ریویو نہیں اور تھیسس کہتا ہے کہ اس کتاب میں کوئ شک نہیں۔ امرغریب یہ کہ اگرتخلیق کے عمل کو بلکل صاف صاف کھول کھول کر بیان کر دیا جاۓ کہ مالک کل کی وحدانیت، وجود اور مالک سموت الرض ہونے کو لیب میں ریپروڈیوسیبل کردیا جائے تو پھر غیب کیا تھا؟ یہ ایک کیچ ۲۲ کی کیفیت ہے جو کہ اہل ایمان کو تشکیک و زندقہ کے مسلسل تضحیک و تشنیع کا نشانہ بناے رکھتی ہے اور ہر گزرتا لمحہ انکے ایمان میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ اگر آسمان پر امر الہی سے کلمہ لا الہٰ الاللہ محمّد الرسول الله لکھا ہوا آجاۓ تو ظاہر ہے کہ کوئی بھی کافر نہ رہے۔ اگر سب کو مسلم بنانا خالق کی منشا ہوتی تو خدا کے نزدیک یہ کیا امر مشکل تھا، مگر غیب کو کھول کر بیان کر دینا حکمت الہی نہیں، ایمان بالغیب نام ہی اس تشکیک کے پردے کو دل سے ہٹا کر یقین محکم رکھنے  کا ہے ۔ یہ تو در حقیقت سب نظر کا فرق ہے کہ جس چیز کو اہل ایمان یقین کی نگاہ سے حکمت الہیہ اور تخلیق الہیہ گردانتے ہیں وہی زندقہ اور اہل تشکیک کو میوٹیشن یا خود بخود ہونے والی شہ دکھائ دیتی ہے. خدا کے وجود اور عدم وجود پر منطق کی دلیل یہ ہے کہ  اگر آپ انہونی کو ہٹا دیں تو جو چیزسب سے زیادہ منطقی ہوگی وہی چیز حقیقت کہلائے گی۔ سوال یہ ہے کہ خدا کے وجود کا انہونی ہونا کس منطق سے ثابت ہے، اسی منطق سے جو میوٹیشن کے خودبخود ہونے کو تو امر واقعی گرداننے میں چنداں گرفتہ نا ہو لیکن عدم دلیل کی بنا پر اہل ایمان کو اگناسٹزم کے شک کا فائدہ بھی نا دے؟

خردکے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں
تیرا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں

Share

June 4, 2012

معمول – اداس نسلیں از عبداللہ حسین سے ایک اقتباس

Filed under: ادبیات,کتابیات — ابو عزام @ 5:08 am

“وہ عظیم شخصیت جو جنم نہ لے سکیں. جنہیں گھر باہر کے’ روز مرہ کے چھوٹے بڑے کام کرنے پڑے ‘ جن کا وقت اسی طرح ضائع ہو گیا. ہم یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ یہ ضابطہ جو ہم نے اپنے اوپرعائد کر لیا ہے اور جس کے تحت ہم زندگی بسر کرتے ہیں کس کام کا ہے. حصول مسرت کا یہ معیار  جو ہم نے قائم کیا ہے یا جو قائم کیا کرایا ہمیں ملا ہے کس حد تک صحیح ہے. ہم جو اتنا دکھ سہتے ہیں’اتنی محنت کرتے ہیں’ اتنے جھوٹ بولتے ہیں’ اتنی چاہتیں اتنی حسرتیں دل میں دباۓ رکھتے ہیں’ اتنی طاقتور خواہشیں پوری نہی کر سکتے کہ دل و دماغ کے روگی ہوں جاتے ہیں’ اتنی اخلاقی قدروں کو سمیٹتے ہیں’ اتنی اخلاقی قدروں کو قربان کرتے ہیں…. وقت کی کمی کی وجہ سے ان لوگوں سے نہیں مل سکتے جن سے بہت ملنا چاہتے ہیں’ دوستی کرنا چاہتے ہیں یا ہمدردی کی توقع رکھتے ہیں یا ایسے لوگوں کو نہیں مل پاتے جن کو ہم نہیں جانتے لیکن جن سے مل لیتے تو بہت خوش ہوتے.ان جگہوں پر نہیں جا سکتے جن کا صرف نام سن رکھا ہے’ جو کچھ سوچتے ہیں کہہ نہیں سکتے’ جو کہتے ہیں کر نہیں سکتے’ قطعی طور پر برے آدمی سے قطع تعلق اور اچھے آدمی سے دوستی نہیں کر سکتے’ غرض یہ کہ کسی ڈھنگ سے بھی زندگی کو بہتر طور پر بسر نہیں کر سکتے حالانکہ ہم میں سے کتنے ہی ہیں جو وہ سب کرنا چاہتے ہیں جو نہیں کر سکتے اور وہ سب کچھ نہیں کرنا چاہتے جو کر رہے ہیں’ تو چاہنے اور کرنے میں یہ تضاد’ یہ بعد کیوں ہے؟ اور اس سے کیا حاصل ہے اور یہ مصنوعی ہے یا حقیقی؟کیا یہ سب کچھ جو ہم بھگتتے ہیں محض اس لئے ہے کہ ہم اپنے گھر کو’ جو چند دیواروں اور کھڑکیوں کا مجموعہ ہوتا ہے’ سلامت رکھنا چاہتے ہیں’ یا اپنے خاندان کو جو چند افراد پر مشتمل ہوتا ہے’ یکجا رکھنا چاہتے ہیں یا اپنی جائداد کو جس میں کھانا پکانے کے برتن’ کپڑے اور چند آسائش کی اشیاء ہوتی ہیں’ قبضے میں رکھنا چاہتے ہیں. کیا ہم اپنی شخصیت کو محض اس لئے نظر انداز کر دیتے ہیں کہ بنیادی ضرورتوں کو پورا کر سکیں’ اپنی علیحدگی’ اپنی انفرادیت کو محض اس لئے ضائع کردیتے ہیں کہ کمتر انسانی جذبوں کی تسکین کر سکیں. کیا ہمیں ادنیٰ اور اعلیٰ کا فرق معلوم ہے؟ کیا ہم مسرت کا مطلب جانتے ہیں’ علم اور جہالت میں کیا ہم تمیز کر سکتے ہیں؟ کیا ہم محض اس لئے اس قدیم’ انسان کش ضابطے کو برقرار رکھے ہوئے ہیں کہ اس سے شخصی غرور کو جلا ملتی ہے؟ کہ ہم اپنے حقیر گھروں اور خاندانوں میں ایک کھوکھلی’ مغرور اور محتاط زندگی بسر کرتے رہیں. یا وہ نوجوان’ جو ابھی زندگی میں قدم رکھ رہے ہیں’ اپنے مکان کو گرنے سے بچانے اور کنبے کو خوراک مہیا کرنے کی خاطر روزانہ زندگی کے چھوٹے موٹے کام کرتے رہیں اور خوشی کے بجاۓ غرور اور تنفر حاصل کریں. ائر پھر ہم میں سے چند ایک ان کاموں میں کمال حاصل کر لیں اور نمایاں مقام پر پہنچیں اور حاسدانہ عزت کی نگاہ سے دیکھے جائیں اور اس طرح زیادہ مغرور اور زیادہ ناخوش ہو جائیں اور اپنے ساتھی لوگوں میں گھلنے ملنے کی بجاۓ انہیں مرعوب کرنے کی طرف مائل ہوں اور بدلے میں ان سے حقارت حاصل کریں. عوامی زندگی کے یہ نمایاں لوگ’ سیاست دان اور تعلیمی اداروں کے سربراہ اور بڑی عدالتوں کے منصف’ ان کی زندگی بھر کی کمائی کیا ہے؟ حقارت اور عمومیت! کیا وہ بس ان دو چیزوں کے لئے ایک انتہائی مردہ دل اور پر کوفت زندگی بسر کرتے ہیں؟

 ” اگر ہم ایک اونچی چٹان پر اکیلے بیٹھ کر سوچیں تو ہمیں پتا چلے گا کہ خوشی تو ایک معمولی شے  ہے اور اسے حاصل کرنا تو بڑا آسان ہے’ یعنی آپ اسے محض چٹان پر چڑھ کر بھی حاصل کر سکتے ہیں جب کہ آپ تنہا ہیں اور آپ کے ساتھ آپ کی ساری شخصیت ہے ساری انفرادیت ہے’ آپکی عظمت اور نیکی اور عقل ہے اور آپ ہر لحاظ سے مکمل ہیں اور قطعی طور پر مطمئن اور خوش قسمت ہیں اور آپکو بھوک نہیں لگ رہی چناچہ آپ ابھی کچھ دیر اور یہاں رک سکتے ہیں اور زندگی کے عظیم مقدس مسائل پر’ محبت اور موت پر غور کر سکتے ہیں اور دیانت داری سے اپنی راۓ وضع کر سکتے ہیں. اس وقت آپ کے پاس وہ بیش بہا آزادی کا احساس ہوتا ہے جس کے لئے’ مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے’ کہ ہم پیدا کئے گئے ہیں اور ہم سوچتے ہیں کہ تھوڑی دیر میں نیچے جائیں گے اور فلاں فلاں کام کرینگے یا نہیں کرینگے کہ ان کا کرنا نہ کرنا ہمارے اختیار میں ہے…..مگر خوفناک بات یہ ہے کہ جب ہم نیچے جاتے ہیں تو ایک ایک کر کے ساری چیزیں ساتھ چھوڑ جاتی ہیں اور آخیر میں ہماری وہی پرانی’ کمزور’ گمنام شخصیت رہ جاتی ہے جس کے سامنے روزانہ معمول کے ایسے کام ہوتے ہیں جو ہر حالت میں کرنا ہوتے ہیں اور اپنے معمولی پن کے باوجود ہمارے اختیار سے باہر ہوتے ہیں. اس طرح ہم آنا فانا عمومیت کے اس سمندر میں گم ہو جاتے ہیں اور ہجوم سے الگ ہماری کوئی شخصیت’ کوئی آزادی نہیں رہتی. ہم خوشی کے اس معیار کو بھی بھول جاتے ہیں جو کچھ دیر قبل ہم نے قائم کیا تھا’ اور ایک دوسری قسم کی مسرت’ جو تقابل اور کبر نفس سے پھوٹتی ہے’ ہم پر قبضہ کر لیتی ہے. یہ زندگی کی سفا کی کا ایک منظر ہے کہ ہم جانے بوجھے اور محسوس کیے بغیر’ تیزی کے ساتھ اعلیٰ سےادنیٰ کی طرف سفر کرتے ہیں..

 “تو کیا طمانیت اور عقل و دانش کی یہ قربانی جو دی جاتی ہے حق بجانب ہے؟ وہ بے پناہ جور وستم جو ہم جھیلتے ہیں’ کیا ہماری زندگی’ ساری انسانی زندگی اس قابل ہے کہ اس کے لئے اتنی دل شکنی قبول کی جاۓ’ بتاؤ کیا ساری انسانی زندگی کی کوئی وجہ ہے؟”

اداس نسلیں از عبداللہ حسین

Share

May 31, 2012

سفر حیات، اداس نسلیں از عبداللہ حسین سے ایک اقتباس

Filed under: ادبیات,کتابیات,مشاہدات — ابو عزام @ 1:31 am

ہم باتیں کرتے ہیں اور باتیں اور باتیں حتی کہ ایک روز بیٹھے بٹھاۓ ہمیں احساس ہوتا ہے کہ یہ اس قدر بے سود ہے اور یہ احساس بڑا خوفناک ہوتا ہے. تمہیں کبھی ہوا ہے؟ اس کے باوجود ہم چلتے جاتے ہیں. منزل سے منزل کی طرف’ چہرے سے چہرے کی طرف ‘ بات سے بات کی طرف حتی کہ ہم تھک جاتے ہیں اور اداس ہو جاتے ہیں اور ہمارے دل سے امن غائب ہو جاتا ہے. پھر خاموش جنگلوں کی آرزو پیدا ہوتی ہے. تمہیں پتا ہے دل میں کسی آرزو کا پیدا ہونا سکون کے کھو جانے کی نشانی ہے؟ آرزو جو کبھی نہ کبھی حسرت بن جاتی ہے. خاموش جنگل اور ساتھی کے طور پر ایک گھوڑا یا کتا’ اور چمکدار موسم’ اور خیال آرائی’ تاکہ ہم چلے جائیں چلے جائیں اور بڑی بڑی عظیم مقدس باتوں کے بارے میں سوچیں . اس وقت ان بیشمار چھوٹی چھوٹی غیر ضروری باتوں کے لئے ہمارے دل میں نفرت پیدا ہو جاتی ہے جن میں ہم عمر بھر مصروف رہے اور ہم عظیم فکر کے لئے تڑپتے ہیں جو کبھی ہمارے ذہن میں پیدا نہ ہوئی. ایک وقت اتا ہے جب ماضی کی چھوٹی سے چھوٹی بات ہمیں اداس کر دیتی ہے. کوئی چہرہ’ کوئی لفظ’ کوئی پرانی دھن جو ہم نے کسی غیر آباد گلی میں سے گزرتے ہوئے دور سے سنی تھی. ہم اس بچے کی طرح محسوس کرتے ہیں جو ہر وقت رونے کے لئے تیار رہتا ہے..

دراصل ہم تھک چکے ہوتے ہیں’ اس مستقل عجلت سے جو ہماری زندگی میں راہ پا جاتی ہے’ جو مسلسل ہمیں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے پر مجبور کرتی ہے’ ان جگہوں پر لے جاتی ہے جہاں جا کر ہم کبھی خوش نہیں ہوتے. دراصل ہم محض اکتا چکے ہوتے ہیں’ عمر بھر سے جو ہم نے جہالت میں بسر کی’ وہ گئے گزرے زمانے جو ہم نے ضائع کر دیئے’ ہمارے خوف’ ہمارے جذبے’ ہماری اپنی جوانی اور بڑھاپا جو ہم نے بچوں کی طرح گزارا’ یا احمقوں کی طرح. اس وقت سڑک پر جاتی ہوئی ایک بس بھی ہمیں سارا وقت یاد دلا دیتی ہے کہ ہم ایک گاڑی کی طرح سرگرداں رہےجو اپنی لائنوں پر چلے جاتی ہے’ چلے جاتی ہے’ لائنیں جو اسے لئے جاتی ہیں’ پوچھے بغیر’ جانے بغیر’ پہچانے بغیر’ ہمیں ہانکا جاتا ہے’ ہم ہنکے جاتے ہیں. اپنی خوراک’ اپنی باتوں اور اپنے جذبوں کا بوجھ اٹھاۓ ہوئے. ہماری کتابیں’ ڈگریاں’ بہترین درزیوں کے ہاں کے سلے ہوئے سوٹ جن کا ذکر کرنے سے ہم کبھی نہیں چوکتے’ خوشنما رنگوں کی ٹائیاں’ ٹوپیاں اور خوشبوئیں جو ہم نے اعلیٰ درجے کی دوکان سے خریدیں’ سب کو کندھے پر لادے’ اپنی ساری امارت کو اٹھاۓ’ ہر قسم کے خیال کو قبول کرتے ہوئے….. خیال جو پڑاؤ سے پڑاؤ تک غائب ہو جاتا ہے…. کھاتے کھاتے اور کھاتے ہوئے’ اور باتیں کرتے ہوئے. باتیں؟ ان جگہوں کی جو ہم نے دیکھیں’ ان چیزوں کی جو ہماری ملکیت ہیں’ ہماری رائیں اور قیاس آرائیاں جن کا کوئی وجود نہیں ہوتا’ جو کسی کے لئے اہمیت نہیں رکھتیں’ ہمارے اپنے لئے بھی نہیں.. اس کے باوجود انہیں اخلاق اور توجہ کے ساتھ سنا جاتا ہے اور جواب میں جو کچھ کہا جاتا ہے اسے ہم توجہ اور اخلاق کے ساتھ نوٹ کرتے ہیں’ انہیں اہمیت دیئے بغیر’ ان کی پرواہ کئے بغیر.

تمہیں پتا ہے دنیا میں ہم کتنی نرمی’ کتنے اخلاق’ کتنی مکّاری سے ایک دوسرے کے ساتھ پیش آتے ہیں. ہم دنیا بھر کا سفر کرتے ہیں اور رائیں قائم کر لیتے ہیں اور پھر انہیں وقت گزارنے یا ایک دوسرے کو مرعوب کرنے کے لئے ہتھیاروں کے طور پر استعمال کرتے ہیں. اور ہماری رائیں کیا ہوتی ہیں؟ یہی کہ روضہ تاج محل خوبصورت عمارت ہے اور چین کے مجلسی حالات بہتر ہو رہے ہیں یا نہیں ہو رہے ہے اور دنیا میں اچھے شاعر پیدا ہونے بند ہو گئے ہیں. ہم انہیں بار بار دوہراتے ہیں حتی کہ اپنی تقریر میں ماہر ہو جاتے ہیں’ ٹورسٹ گائیڈ کی طرح. پھر ہم اس کا استعمال شروع کرتے ہیں. ہر ایک کے پاس اپنا اپنا سکہ بند طریقہ ہے’ برسوں کے تجربے اور مشق کے بعد اپنایا ہوا رویہ’ غیر شخصی سرسری پن’ یا محتاط’ شخصی اور منہمک رویہ. ہم بہر حال ہر منزل پر’ ہر طریقے سے اپنے آس پاس کے لوگوں کو ہم خیال بنانے کی’ دوسرے لفظوں میں انہیں مرعوب کرنے کی انتہائی جدوجہد کرتے ہیں’ ان کی کوئی پرواہ کئے بغیر’ اور مستقل یہ جانتے ہوئے کہ ہماری زرہ برابر پروا ان کو نہیں ہے. ہم اپنی زندگی کے خلا کو چھوٹی موٹی باتوں سے پر کرنے کی کوشش کرتے ہیں’ گفتگو جو تسکین بخش بھی اتنی ہی ہوتی ہے جتنی کہ گمراہ کن. اور پھر وہ وقت آتا ہے’ وہ جو ہم تھک جاتے ہیں اور پیچھے رہ جاتے ہیں اور بس کا تیل ختم ہو جاتا ہے اور ہمارا سارا بوجھ سڑک کے کنارے بکھر جاتا ہے’ کچھ مردہ کچھ نیم مردہ’ اور دفعتا حقیقت ہمارے سامنے آجاتی ہے’ کہ یہ سب اس قدر بے سود تھا’ سب! کہ بلآخر ہم وہاں پہنچ گئے ہیں جہاں سکون نہیں ہے اور ہم واپس نہیں جا سکتے’ کہ جہاں محض نقصان عظیم کا احساس ہے’ کہ ہم پرانی بس کی طرح بدصورت اور بیکار ہیں اور ان چاہے’ ان جانے سڑک کے کنارے کھڑے ہیں’ بختاور ہیں تو توڑ پھوڑ کر دوبارہ ڈھالے جائیں گے’ بد بخت ہیں تو محض نظر انداز کر دیئے جائیں گے..

” اب ہم پریشان ہیں’ تنہائی کے خوف سے ہراساں ہیں’ تنہا ہیں’ بے حد تنہا ہیں. کیوں؟ کیا ہم صرف اس دن کے لی اتنی مدت سے رہنے آرہے تھے؟ ہمارا نصب العین’ ہمارے الفاظ’ احساسات’ جذبات’ وہ کام برسہا برس کی مشق سے جن میں ہم نے مہارت حاصل کی’ دور دراز کے سفر’ دوست’ فہم جو ہم نے تقریر اور میل جول کے زریعے تیز کیا’ ہماری ہر دلعزیزی جو ہمارے ارد گرد اور ساتھ ساتھ چلتی تھی’ سب ختم ہو گیا؟ کیوں؟ کیوں؟ اب ہم سوچنے سے قاصر ہیں کہ کبھی سوچ ہی نہیں پاۓ. پر ہم جانتے ہیں’ جیسا کے ہم کئی اور باتیں جانتے ہیں’ کہ ہم نے جس چیز کی تلاش کی اسے پایا اور جس کے لئے اب حیران پریشان کھڑے ہیں اس کی تلاش ہی میں کبھی نہ نکلے’ صاف سیڑھی بات ہے. چناچہ اب تم چین کی بنسری بجاؤ اور قناعت سے بیٹھ کر خاتمہ بالخیر کا انتظار کرو’ انتظار کرو اور نچلے بیٹھو’ نچلے بیٹھو کہ یہی اصل مقام ہے. پر چین کی بنسری بجاۓ نہی بجتی اور ہم انتظار نہی کر سکتے. ہم جانتے ہیں کہ جتنے بھی انہماک اور لاپروائی اور صبر کے ساتھ انتظار کریں جب موت آ ئےگی تو ہمیں پریشان کر دیگی’ جیسے کہ ہر کسی کو کر دیتی ہے. باوجود ساری باتوں کے’ جب یہ آتی ہے تو خوف زدہ کر دیتی ہے. زندگی میں پہلی بار ہم سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں… ایک چمکیلی خوشگوار صبح کو اپنے بائیں باغ میں کھڑا خرگوشوں اور مرغیوں کو ناشتہ کھلا رہا ہوں. پرانا کڑوا تمباکو پی رہا ہوں اور اپنے پوتے پوتیوں کو سبزے پر کھیلتے کودتے دیکھ رہا ہوں. میری طبعیت میں ٹھہراؤ اور ربودگی آ چکی ہے اور میں سنبھل سنبھل کر اطمینان سے چلتا پھرتا ہوں. نوجوان آدمی کام پرجاتے ہوئے پاس سے گزرتے ہیں اور جھک کر سلام کرتے ہیں….. “قابل عزت بزرگ. سلیقے سے بسر کی ہوئی زندگی” وہ ایک دوسرے سے کہتے ہیں. پھر سامنے ایک اور چلا آتا ہے. ایک سفید سر والا دانا شخص’ چھڑی کے سہارے اپنے اپ کو سنبھالے’ وقار اور اطمینان کے ساتھ چلتا ہوا. نوجوان آدمی جھک کر سلام کرتے ہیں اور پہلی والی بات آپس میں دوہراتے ہیں. وہ اخلاق سے مسکرا کر جواب دیتاہے اور میرے سامنے آکر چند منٹ کے لئے رک جاتا ہے. ہم ایک دوسرے کو سلام کرتے ہیں اور موسم کے متعلق اظہار رائے کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی صحت کے متعلق پوچھ گچھ کرتے ہیں’ پھر خاموش ہو جاتے ہیں. اب کہنے کے لئے کچھ نہیں ہے. ساری باتیں اتنی غیر ضروری معلوم ہوتی ہیں. خرگوشوں کا ناشتہ اور چمکدار موسم اور دو خوشنما’ سجے سجاۓ بڈھے’ خالی الذہن اور مطمئن’ ایک دوسرے کے ڈھونگ کو جانتے ہوئے اور چھپائے ہوئے’ بلا وجہ نادم اور خوش مزاج ……. پھر وہی بات کرنے کے انداز میں کھنکارتا ہے اور محض ہاتھ سے سلام کر کے چلا جاتا ہے. میں پیچھے مڑ کر نہی دیکھتا لیکن میں جانتا ہوں اور ذہن کی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں. نہایت سلیقے سے خالی کی ہوئی ایک زندگی’ بے وجہ’ بے جواز.. جانتا ہوں کہ وہ مجھے دیکھ رہا ہے. ہم دونوں ایک دوسرے کو اچھی طرح سے جانتے ہیں پر کبھی تسلیم نہیں کرتے

اداس نسلیں از عبداللہ حسین

Share

May 28, 2012

اداس نسلیں از عبداللہ حسین

Filed under: ادبیات,کتابیات — ابو عزام @ 2:42 pm

کچھ کتابیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں پڑھنے کے بعد آپ کو کم از کم اس صنف میں موجود دیگر کتب انکےآگے ہیچ لگنے لگتی ہیں، اپنی کم علمی کم مائگی کا احساس بڑھتا جاتا ہے کہ میاں، تم نے تو اس شہرہ آفاق ناول کو آج تک نہ پڑھا تھا اور بلاوجہ اردو ادب سے واقفیت کی ڈینگیں مارتے رہے وغیرہ وغیرہ۔ عبداللہ حسین کا ناول ‘اداس نسلیں’ بھی اسی قسم کی ایک نہایت اہم و دلچسپ کتاب ہے جو فکشن اور نان فکشن کے درمیانے احاطے میں با آسانی چہل قدمی کرتے ہوئے تین نسلوں کی سرگذشت سناتی ہے۔ ۱۹۶۳ میں چھپنے والے  اس ضخیم ناول کو اکثر برصغیر کے بٹوارے کی داستاں گردانا جاتا ہے لیکن پیش منظر میں بہت سے دیگر نہایت اہم موضوعات  زیر بحث رہے جن میں مقصد حیات، طبقاتی تقسیم، غربت و استحصال، سماجی اقدار، مذہب و کلچر کا آپسیں رشتہ، مذہب، الحاد اور عقل کے باہمی تعلق پر مکالمے شامل ہیں۔ اس کتاب کو سنگ میل پبلشرز نے شائع کیا ہے اور اسکا انگریزی ترجمہ بھی ویری نیشنز کے نام سے ایمزن پر دستیاب ہے جس کے بارے میں سننے میں آیا ہے کہ وہ ایک مبتدی کی ایک ماہر ہنر کے کام کو نقل کرنے کی کوشش ہے۔، واللہ عالم،

‘اداس نسلیں’ کا مرکزی کردار نعیم نامی ایک شخص ہے جس کی زندگی کے مختلف ادوار برصغیر کے مختلف سماجی میلانات اور سیاسی ادوارکے متوازی حرکت کرتے ہیں۔ گاوں کی سادہ محنت کش زندگی سے ہونے والی ابتدا، پھر مراعات یافتہ طبقے میں پلنا بڑھنا، گاوں کی زندگی میں واپسی، جنگ عظیم میں شرکت اور جنگ کی تمام ہولناکیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا، اور پھر رومانویت کی ایک داستان جس میں طبقاتی تقسیم زوروں پر دکھائ دیتی ہے۔ عبداللہ حسین نے سیاسی و سماجی بھول بھلیوں میں بھٹکتے اس شخص کی زندگی کے اتار چڑھاو سے ایک ایسی داستاں کا جال بنا ہے کہ جو قاری کو مستقل اپنے شکنجے میں جکڑے رکھتا ہے۔

یہ ناول ایک ‘ایپک’ داستاں ہے اور مہابھارت سے لے کر ہومر سے لے کر ایپک کی ایک خوبی اسکی طوالت ہوتی ہے۔ ۴۵۰ صفحات کی اس کتاب کو ایک کنٹیمپرری ایپک کہا جاسکتا ہے جس کے مصنف نے نا تو خود سے بٹوارہ دیکھا اور نا ہی انکی مادری زبان اردو ہے لیکن مکالمہ سازی، پلاٹ، کردار سازی اور قصہ گوئ میں عبداللہ حسین کو جو ملکہ حاصل ہے وہ عالمی ادب میں چیدہ چیدہ مصنفین کے پاس ہی نظر آتا ہے۔ لائف آف پائ کی تمثیل تو شائد مہمل ٹھرے لیکن ۱۷۷۶ کے ڈیوڈ میکیلگ بھی عبداللہ حسین سے تنوع سیکھ سکتے ہیں۔ دو کسانوں کی باہمی عامیانہ گفتگو ہو، نعیم اور انیس کا فلسفیانہ مکالمہ ہو، روشن علی آغا کی غدر میں سنہرے بالوں والے انگریز کو جان ہتیلی پر رکھ کر  بچانے کی لرزہ خیز کہانی ہو یا اینی بیسنٹ کا مجلس خدام ہند پر تبصرہ، مصنف نے اس خوبی سے ان تمام موضوعات کو ایک جامع ناول میں یکجا کیا ہے کہ ہر ایک کردار جدا بھی ہے اور بڑے کینوس کا حصہ بھی۔

یہ ناول اشفاق حسین کی طرح ‘پریچی’ نہیں، منٹو کی طرح ‘ایکسپلسٹ’ نہیں اور بانو قدسیہ کی طرح ‘انکلسوڈ’ نہیں۔ انگریزی کے اصطلاحات استعمال کرنے کی معذرت لیکن اداس نسلیں کے مصنف نے بھی اس امر میں کوئ شرم محسوس نا کی۔ مذہب و الحاد پر جس قسم کی عمیق و جداگانا بحث ہمیں انکے یہاں ملتی ہے اس کا عشر عشیر بھی آج کے ترقی پسند لٹریچر میں نظر نہیں آتا۔ عبداللہ حسین کے اس ناول نے جدید واقعہ گوئ کو درویش کے قصوں سے ملا کر ایک ایک نئی صنف کی بنیاد ڈالی ہے۔ ایک مچھیرے کی روداد پر لکھتے ہیں

. نیند پھر بھی نہ آئی. میں اٹھ کر چٹائی آگ کے قریب لے گیا. مگر چند ہی سانس لئے ہونگے کہ گرمی کی شدّت سے بلبلا اٹھا. اب میں اکڑوں بیٹھا تھا اور اپنی جسمانی حالت پر غور کر رہا تھا کہ سوچتے سوچتے مجھے ایک تجویز سوجھی. میں نے ٹوکری اٹھائی اور گندی مچھلیوں کو چن چن کر ایک طرف رکھا. “نیند تو آتی نہیں. آؤ تم سے گپیں ماریں. میں نے کہا اور ایک سڑی  ہوئی مچھلی اٹھائی. مچھلی کی باچھیں کھلی ہوئی تھی.

” میرا باپ زندہ ہوتا تو تمہیں مرنے سے پہلے ہی چھوڑ دیتا. لیکن میں تمہیں آسانی سے نہیں چھوڑنے کا کان کھول کر سن لو. میں نے کہا. “تم لکھ ہنسو’ لیکن تمہارے بچے اور دوسرے رشتہ دار تمہاری موت پر آنسو بہا رہے ہونگے.مچھلی اسی طرح ہنستی رہی. مجھے اس پر غصہ آگیا. ‘ تم سوتی نہیں؟ بے آرام جانور. تمھ مارے بھی ایک عرصہ ہو گیا پر بے دید آنکھیں اسی طرح کھلی ہیں. نہ خود سوتی ہیں نہ کسی کو سونے دیتی ہو لو…..’ یہ کہ کر میں نے اسے آگ میں اچھال دیا. تھوڑی ہی دیر میں خشک مچھلی تر ترا کر جلنے لگی. مگر اس کی آنکھیں اسی طرح کھلی تھی اور آگ میں پڑی ہوئی وہ ابھی تک ہنس رہی تھی. میں نے غصّے میں دوسری مچھلی کو بھی اٹھا کر آگ میں پھینکا. یہ مقابلتا سنجیدہ چہرے والی مچھلی تھی  لیکن یہ بھی جاگ رہی تھی. جلتی ہوئی مچھلی کی چربی کی بو ہر طرف پھیل رہی تھی جو کہ اگر تم نے کبھی سونگھی ہے بچو تو تمہیں پتا ہوگا کہ کافی اشتہاء آور ہوتی ہے مگر آدھی رات کے وقت میں نے زیادہ کھانا مناسب نہ سمھجا اور بھوک کو کسی اور وقت پر ٹال کر ایک اور مچھلی اٹھائی.
“تمہاری جلد بڑی خوبصورت اور نرم ہے. شاید کوئی گاہک مل جاۓ. تم آرام کرو.” یہ کہہ کر میں نے اسے ایک طرف رکھ دیا.
“یہ تجویز کارگر ثابت ہوئی اور کافی دیر تک اس کے ساتھ گپ شپ کرنے اور ناکارہ مچھلیوں کو جلانے کے بعد میں خود بخود سو گیا.

اور جلیانوالہ باغ کا سانحہ ایک عام فرد کی آنکھوں سے دیکھیں۔

“دروازے میں سے ابھی تک چلاتے ہوئے لوگ داخل ہو رہے تھے. مسلمان اپنے خدا اور مذہبی رہنماؤں کا نام لے کر اور ہندو اور سکھ اپنے اپنے خداؤں کو پکار پکار کر نعرے لگا رہے تھے. جب میں مڑا تو سب لوگ ایک سیاہ داڑھی والے شخص کی طرف دیکھ رہے تھے جو ایک اونچی جگہ پر کھڑا مجمعے کو چپ کرانے کے لیے ہاتھ پاؤں مر رہا تھا. اس کی داڑھی ہوا میں ہل رہی تھی لیکن وہ اپنی کوشش میں کچھ زیادہ کامیاب نہ رہا.دیکھتے ہی دیکھتے اس کے پیچھے ایک گورا نمودار ہوا جس نے فوجی افسروں کی وردی پہن رکھی تھی.اس نے دھکا دے کر کالی داڑھی والے کو نیچے گرا دیا اور اسی کی طرح ہاتھ ہلا ہلا کر کچھ کہنے لگا. ایک لمحے کے لیے خاموشی چھا گئ اور اس کی انتہائی غصیلی آواز ہمارے کانوں میں آئ. اس کی بات کسی کی سمجھ میں نہ آئی لیکن اسکی حرکات و سکنات سے ظاہر تھا کہ وہ ہمیں وہاں سے دفع ہو جانے کو کہہ رہا ہے. اچانک شور پھر بلند ہوا اور اسکی آواز دب گئی. ایک طرف سے کسی نے جوتا اتار کر اسکی طرف پھینکا. پھر ہر طرف سے جوتوں کی یلغار شروع ہوئی. ساتھ ساتھ مجمع مکمل حرکت میں تھا.کیونکہ اس دھکم پیل میں ایک جگہ روکنا سخت مشکل تھا. اب آس پاس سے ہزاروں نئے اور پرانے جوتے پھینکے جا رہے تھے اور ہوا میں جوتوں کی یلغار تھی جیسے دریا کی سطح پر سے مرغابیوں کی زار اڑ کر ایک لمحے کے لیے اندھیرا کر دیتی ہے……لیکن فوجی افسر کے ارد گرد کے لوگ ڈرے ہوئے چپ چاپ کھرے ہوئے تھے اور پیچھے سے آنے والے جوتے ان کے سروں پر گر رہے تھے. اس وقت میں نے ہوشیاری سے کام لے کر اپنے جوتے سنبھال کر رکھے کیونکہ  میرے پاس’ تم جانتے ہو بچوں کہ جوتوں کا صرف ایک ہی جوڑا ہے. جب جوتے ختم ہو گئے تو لوگوں نے اپنے کپڑے اتاراتار کر پھینکنے شروع کر دیئے. اب پگڑیوں ‘ قمیضوں اور بنیانوں کے گولوں کی بوچھاڑ ہو رہی تھی اور جلد ہی آدھے سے زیادہ لوگ ننگے بدن ہو گئے بلکہ بعض تو بےحیائی سے کام لے کر سب کچھ ہی نکال کر پھرنے لگے. جب سب کچھ ختم ہو گیا تو صرف شور باقی رہ گیا جو کہ ہجوم اور وہ فوجی افسر مل کر مچا رہے تھے. اتنے میں میرے آگے کھڑا ہوا ایک شخص مڑا اور میری ٹوکری کی طرف بڑھا. میں پیچھے ہٹا تو عقب میں دس بارہ ہاتھوں نے ٹوکی گھسیٹ لی اور اس میں سے مچھلیاں اٹھا کر خونباز نظروں سے مجھے دیکھنے لگا. پھر پورے زور سے انہوں نے مچھلیاں ہزاروں انسانی سروں کے اوپر سے اس طرف کو پھینکیں. جن لوگوں پر وہ گریں انہوں نے اٹھا کر آگے پھینکیں’ پھر آگے’ اور آگے’ اور اسی طرح ایک مچھلی جا کر فوجی افسر کی آنکھوں کے درمیان لگی. اس نے وہیں پر اسے پکڑ لیا اور یل لحظے تک اسے دیکھتا رہا’ پر سر اٹھا لر مجمعے کو دیکھا’ پھر مچھلی کو ‘ پھر مجمعے کو. دفعتا اس نے مچھلی مچھلی سر سے بلند کی اور پوری طاقت سے اسے سامنے کھڑے شخص کے منہ پر کھینچ مارا. پھر اس نے بازو ہوا میں پھینکے اور پاگلوں کی طرح چیخ مار کر چلایا. اسی وقت گولی چلنی شروع ہوئی..

اس کتاب کو ختم کرنے میں وقت کی کم کی وجہ سے مجھے تقریبا ایک ہفتہ لگا۔ اگر آپ نے اردو ناول کے صف اول کی کتاب پڑھنی ہے تو اداس نسلیں آپ کی تپائ پر یقینا دھرا ہونا چاہیے۔

Share

May 24, 2012

حقیقت تمثیل از ابن عربی

Filed under: تحقیق,کتابیات,مذہب,مشاہدات — ابو عزام @ 12:49 pm

فصوص الحکم میں  ابن عربی حکمت قدوسیہ فص کلمۂ ادریسیہ کے بیان میں کہتے ہیں

یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ کسی مسئلے کی تحقیق جدا ہوتی ہے اور مثال کے طور پر یا عبرت لینے یا نصیحت پکڑنے کے لیے کسی جانور کے فرضی قصّے کا بیان کرنا یا غلط، مگر مشہور واقعے کی طرف اشارہ کرنا درست ہے. کیونکہ اس وقت مقصود صرف تمثیل اور عبرت ہوتی ہے..

واقعات اور مسائل کی تحقیق و تنقید کا مقام دوسرا ہوتا ہے.مثلاً کوئی کہے کہ حریص کو کچھ نہیں ملتا. بلکہ جو کچھ اپنا تھا اس کو بھی کھو دیتا ہے. جیسے ایک حریص کتا جس کے منہ میں گوشت کا ٹکڑا تھا. ندی پر سے گزر رہا تھا. اس نے ندی میں اپنا سایہ دیکھا’ اس نے سمجھا کہ ایک دوسرا کتا منہ میں گوشت کا ٹکڑا پکڑا لیے جا رہا ہے. حریص کتا اپنا منہ کھول کر اس کے گوشت کے ٹکرے کو چھینے کے لیے جھپٹا. اور اپنا گوشت کا ٹکڑا بھی کھو دیا. دیکھو اس واقعے سے صرف حرص کی مذمّت مقصود ہے. اور وہ اس سے حاصل ہے.یہ بات کہ واقعی کسی کتے نے ایسا کیا’ یا نہیں’ ہمارے مقصود سے خارج ہے.

ہیت دانوں کے دو فرقے ہیں.

بعض زمین کو مرکز علم سمجھتے ہیں اور یہ بطلیموسی کہلاتے ہیں.۱
بعض آفتاب کو اپنے سیاروں کا مرکز سمجھتے ہیں. اور یہ فیثا غورثی کہلاتے ہیں.۲

تابعین فیثا غورث کے خیال میں ہر ایک ثابتہ آفتاب ہے اور اس کا نور ذاتی ہے

بعض ثابتے ہمارے آفتاب سے بہت بڑے ہیں. کہکشاں ہیں. جس کو عربی میں مجرہ کہتے ہیں کروڑ ہا کروڑ آفتاب ہیں. دودو ثابتے یا آفتاب با ہم ایک دوسرے کے اطراف گردش کرتے ہیں. اور دودو کا جوڑا. اور ایک جوڑے کے اطراف گردش کرتا ہے بعض کے پاس قمر زمین کے اطراف گردش کرتا ہے اور زمین مع قمر کے آفتاب کے گرد گردش کرتی ہے. آفتاب مع تمام سیارات کے کسی بہت بڑے آفتاب کے گرد گردش کرتا ہے. اور تمام آفتاب ہاۓ عالم ایک شمس الشموس کے اطراف گردش کرتے ہیں. زمین کو ساکن ماننے والوں کے پاس ستاروں کی جو ترتیب ہے اس کو شیخ نے یہاں بطور تمثیل کے بیان کیا ہے. اور یہاں صرف علوۓ مکان کی مثال مقصود ہے نہ کہ تائید نظام بطلیموسی.

ہم کو بحیثیت مذہبی آدمی اور صوفی ہونے کے نہ نظام فیثا غورث سے غرض ہے نہ نظام بطلیموسی سے. اس مسئلے کو یاد رکھو. یہ بہت سی جگہ نفع دیگا.

Share

May 15, 2012

فصوص الحکم از ابن عربی

Filed under: ادبیات,کتابیات,مذہب — ابو عزام @ 12:23 pm

ابن عربی کا نام تصوف و فلاسفہ سےآگاہی رکھنے والوں کے لیے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ انکی مشہور زمانہ کتاب  فصوص الحکم کا اردو ترجمہ از مولانا عبدلقدیر صدیقی کچھ عرصے پہلے پڑھنا شروع کیا۔ اس کتاب کے ساتھ ساتھ اسکے عربی متن اور انگریزی ترجمے کو بھی ساتھ رکھا ، منشا یہ تھا کہ زبان و بیان کے تعلق سے ترجمے اور معنویت میں زیادہ فرق نا آئے، اس وجہ سے اس اصطلاحات سے پر دقیق کتاب کا مطالعہ مزید مشکل اور گھمبیر ہونے کے ساتھ ساتھ طول پکڑتا چلا گیا۔ تقریبا ساڑھے چار سو صفحات کی اس کتاب میں جو کہ فصوص الحکم کا ترجمہ و تشریح ہے اس میں اصل کتاب کا متن تو سو صفحات سے کچھ زیادہ نا ہوگا۔ ابن عربی کے متن پر اضافہ جات میں طریق اکبریہ ، شیخ کا ایک دوسرا طریقہ، شیخ کے معاصرین، شارحین فصوص الحکم ، شیخ کی تصانیف، طریقہ ترجمہ و شرح ، عقائد شیخ اکبر، شیخ کا فلسفہ وغیرہ شامل ہیں۔ اس کتاب کے کئی مختلف النوع انگریزی تراجم ایمزن پر موجود ہیں۔

فصوص الحکم یا حکمت کے موتیوں، جواہر  مندرجہ زیل مضامین پر مشتمل ہے۔

۱                                                           فص آدمیہ

۲                                                           فص شیشیہ

۳                                                           فص نوحییہ

۴                                                           فص ادریسیہ

۵                                                           فص مہمیتہ (ابراہیمیہ)

۶                                                           فص اسحاقیہ

۷                                                           فص اسماعیلیہ

۸                                                           فص یعقوبیہ

۹                                                           فص یوسفیہ

۱۰                                                         فص ہودیہ

۱۱                                                         فص صالحیہ

۱۲                                                        فص شعییہ

۱۳                                                        فص لوطیہ

۱۴                                                         فص عزیزیہ

۱۵                                                         فص عیسویہ

۱۶                                                         فص سلیمانیہ

۱۷                                                         فص داؤدیہ

۱۸                                                         فص یونسیہ

۱۹                                                        فص ایوبیہ

۲۰                                                         فص یحیویہ

۲۱                                                         فص زکرویہ

۲۲                                                         فص الیاسیہ

۲۳                                                         فص لقمانیہ

۲۴                                                         فص ہارونیہ

۲۵                                                         فص لقمانیہ

۲۶                                                         فص خالدیہ

۲۷                                                         فص محمدیہ

تعارف میں مفسر لکھتے ہیں کہ الشیخ محی الدین محمد بن علی بن محمد العربی الطائی الحاتمی.. یہ قبیلہ بنی طے اور حاتم طائ کی اولاد میں سے ہیں۔ سترھویں رمضان ٥٦٩ء میں تولد ہوئے.آپ کی تاریخ ولادت “نعمت” ہے. مولد مریسیہ از متعلقات اندلس یا اسپین یا ہسپانیہ اور وفات. بائیس ربیع الثانی ٦٣٨ء میں اس جہاں فنی سے جہاں باقی کی طرف توجہ کی. آپ کا سال وفات “صاحب الارشاد” سے نکلتا ہے۔

فصوص الحکم کی بہت سی زبانوں میں تفسیر و تشریح کی گئی ہے۔ عربی میں حسب ذیل شروح فصوص الحکم موجود ہیں۔

شیخ موید الدین بن محمود الجندی.
شیخ صدر الدین القونوی.
داؤد بن محمود الرومی القیصری.
نور الدین عبدالرحمان جامی
عبدالغنی النابلسی۔
الکاشانی.

فارسی شروح کچھ یوں ہیں۔

 نعمت الله شاہ ولی
مولوی احمد حسین کان پوری

اردو ترجموں میں  عبدالغفوردوستی اور مولوی سید مبارک شامل ہیں۔

اس کتاب کا نفس موضوع تصوف ہے اور اس میں کئی پیچیدہ مسائل سے گفتگو کی گئی ہے۔ شرح کا کام عبدالقدیر صدیقی صاحب نے خوب کیا ہے اس لیے اس تعارف میں انکے اقتباسات جا بجا مستعمل ہیں۔ اپنی شرح کے بارے میں لکھتے ہیں کہ

دیگر شارحین فصوص الحکم میں شیخ قرآن شریف میں انبیاء کے قصوں. اور ان کے حالات میں جو کچھ آیا. ان سے یا تو بطور اعتبار کے مسائل توحید و تصوف کو استنباط کرتے ہیں مگر شیخ کے قول کی تاویل نہیں کرتے. نہ ان کے عقائد سے جو فتوحات مکیہ کے شروع میں بیان کئے گئے ہیں، توفیق و تطبیق دینے کی سعی کرتے ہیں دوسرے شارحین کے برخلاف’ فقیر شیخ کے قول کی تاویل کرتا ہے. اور ان کے عقائد کے ساتھ توفیق دیتا ہے.لوگوں کو شیخ کی طرز تحریر سے واقف نہ ہونے کی وجہ سے بڑی بڑی غلط فہمیاں ہو رہی ہیں. بعض ان کو قطب معرفت سمجھتے ہیں. اور قرآن شریف کی آیتوں کی تاویل کرتے ہیں. مگر شیخ کے اقوال کی تاویل نہیں کرتے اور بعض ان کے برعکس شیخ کی تکفیر میں بھی تقصیرنہیں کرتے.

افلاطون کا ذکر اابن عربی کی اکیلیز ہیل ہے، اس بابت میں  طریق ترجمہ و شرح میں رقم طراز ہیں کہ

 بعض نادان یورپ زدہ’ شیخ کے فلسفے یا حکمت کو افلاطون کا فلسفہ سمجھتے ہیں. مگر ان کی سمجھ میں نہیں آیا’ کہ تمام کتاب جندی بغدادی’ ابو یزید بسطامی. سہیل بن عبدالله تستری کے اقوال اور آیات قرآن مجید و احادیث شریف سے بھری پڑی ہے. اور اپنے کشف کا بھی جابجا ذکر کرتے ہیں.مگر اس میں افلاطون کا کہیں’ایک جگہ بھی ذکر نہیں ہے. اول تو یہ ثابت ہی کب ہوا ہے کہ فلسفہ افلاطون کی کتاب شیخ کو پہنچی بھی تھی.کسی دشمن مسلمانان نے لگا دیا کہ شیخ نے افلاطون سے لیا. اور مقلدوں کے لئےبس آیت اتر آئی. ظالم اڑاتے ہیں کہ امام ابو حنفیہ نے رومن لا سے لیا. یا تو راة انور شیرواں سے لیا. ان کو معلوم نہیں کہ عقائد و فقہ کے اصول ہیں کیا. یہاں قرآن و حدیث کی شرح و تفسیر تو ہو سکتی ہے ان سے احکام استنباط کا کئے جاتے ہیں. ان کے خلاف ایک مسلہ بھی چل نہیں سکتا. یہ کمال جہل و تقلید میں. کمال علم و تحقیق کا ادعا ہے ہم کو دشمنوں کے کہنے سے تکلیف نہیں ہوتی. دوستوں کے دشمنوں کا ساتھ دینے سے ایذا ہوتی ہے.

شیخ کے کلام میں بکثرت مشاکلہ ہے.مشاکلہ عربی زبان میں بھی ہے. اور دوسری زبانوں میں بھی.اشعار میں بھی ہے’اور نثر میں بھی. کلام الله میں بھی. اور دوسروں کے کلام میں بھی. مشاکلہ کیا ہے. ایک لفظ پہلے آتا ہےاور اپنے اصلی معنی میں رہتا ہے.. پھر وہی لفظ دوبارہ آتا ہے. اور اس سے دوسرے معنی؛ مراد لیے جاتے ہیں.مثلاً ایک شخص کہے.تمنے مجھے خباثت کی.اب میں بھی دیکھو کیسی خباثت کرتا ہوں یعنی خباثت کا انتقام لیتا ہوں عرب شاعر کہتا ہے..

” قالو اقترح شیاء نجدلک طبخة، قلت أطبخوالي حبثه و قميصا “

“لوگوں نے کہا کچھ کھانے کی فرمائش کرو. ہم اس کو اچھی طرح سے پکائیں گے.”

میں نے کہا ایک جبہ و قمیض پکاؤ. یعنی ایک جبہ و قمیض سی دو.

قرآن مجید میں ہے

“ومکرو او مکرالله والله خیرالماکرین”… انہوں نے مکر کیا اور الله نے اس کی سزا دی.الله مکاروں کو سزا دینے میں بہت سخت ہے.

ابن عربی کا اسلوب اور کتاب کا موضوع فلسفہ و تصوف کا ایک ایسا امتزاج ہے جس کے بارے میں زیادہ کہنے سننے کی گنجائش نہیں، وہ صرف پڑھنے سے ہی تعلق رکھتا ہے۔ ایک جدید تعلیم یافتہ فرد کے لیے اس میں معنویت کی ایک دنیا چھپی ہے۔ مصنف فصوص لکھتے ہیں۔

زمانه عدم اور زمانه وجود مثل معاً ہیں. جس طرح اشاعرہ کے پاس اعراض و صفات پر ہو رہا ہے. اور ہرآن’ ہر لحظہ تجدد امثال اعراض پر ہو رہا ہے. اسی طرح صرف ذات حق موجود مستقبل ہے. اس کے سواۓ جتنے موجودات ہیں. سب غیر مستقل ہیں. دائمی طور پر محتاج الی الحق ہیں ہر آن ہر لحظ متجدد ہیں.

تجدد امثال کا مسئلہ جو حصول تخت بلقیس میں چھیڑا گیا ہے. مشکل ترین مسائل سے ہے مگر اس قصے میں ابھی جو میں نے بیان کیا اس کے سمجھنے والے کے لیے کچھ  دشوار نہیں. آصف بن برخیا کی فضلیت و بزرگی یہی ہے کہ وہ ادو جود ‘ وہ تجدید تخت بلقیس’ وہ تجلی الٰہی جو تخت بلقیس پر ملک سبا میں ہو رہی تھی. اس کو سلیمان کے سامنے مجلس میں کھینچ لیا.اور تخت موجود ہو گیا. پس حقیقت میں تخت نے نہ قطع مسافت کی.نہ اس کے لیے زمین لپیٹ دی گئی اور نہ دیواروں کو تھوڑا پھوڑا. اس مسئلے کو وہی سمجھتا ہے’ جو تجدد امثال کو منتا ہے. جو تجلی الٰہی کو اپنی طرف متوجہ کر سکتا ہے.

یہ تصرف بعض اصحاب سلیمان علیہ السلام سے ظاہر ہوا تا کہ اس کا اثر بلقیس اور ان کے ہمراہیوں کے دلوں پر عظمت و مرتبت سلیمان علیہ السلام کے لیے پڑھے. اس تصرف کا سبب یہ ہے کہ سلیمان علیہ السلام’ داؤد علیہ السلام کو الله تعالیٰ کی طرف سے عطیہ وہیہ تھے. الله تعالیٰ فرماتے ہے. ” ووھبنا لداود سلیمان ” ہم نے داؤد کو سلیمان عطا کیا. ہبہ کیا ہے. واہب کا موہوب لہ بطور انعام دینا. نہ بطور جزاۓ عمل اور نہ بر بناۓ استحقام. پس سلیمان الله تعالیٰ کی نعمت سابقہ و حجت بالغہ اور اعداد کے لیے سر شکن ضرب ہیں.

اب سلیمان کے علم پر غور کرو.الله تعالیٰ فرماتا ہے ” ففھمنھا سلیمان ” ہم مستقراعندہ ” آیا ہے. یعنی تخت بلقیس’ سلیمان کے پاس حاضر و قرار پذیر تھا. آصف کا تخت کو حاضر کرنا نظر تحقیق میں ہمارے پاس اتحاد زمان کے ساتھ نہ تھا بلکہ وہاں اعدام و ایجاد’اور سبا سے معدوم کرنا اور بار سلیمانی میں موجود کرنا تھا. اس کو تجدد و امثال کہتے ہیں  ہر آن ہر شے قہر احدیت سے معدوم ہوتی ہے. اور پھر اسکو رحمت امتنانی موجود کرتی ہے. مگر عارفین کے سوا اس کو کوئی محسوس نہیں کرتا.دیکھو قرآن شریف میں ہے. ” بل ھم فی لبس من خلق جدید “

یعنی بلکہ انکو التباس اور دھوکا ہو گیا ہے. تازہ پیدائس و خلق جدید سے کہ وہی اگلی شے ہے. ان پر کوئی زمانہ ایسا نہیں گزرتا کہ جس شے کو دیکھ رہے ہوں ‘ نہ دیکھا ہو…

جب معلوم ہو گیا کہ ہر شے میں تجدد امثال ہے.اعدام و ایجادہے. نیستی کے ساتھ ہستی لگی ہوئی ہے. ایسا نہیں ہے کہ ایک شے موجود ہو کر حق فیوم کی طرف دائمی موحتاج نہ رہی ہو بلکہ ہر شے کو آن امداد وجود ہوتی ہے.اور قیوم جل جلالہ کی طرف دائمی احتیاج رہتی ہیں. بہر حال تخت بلقیس کو ملک سب میں نیست و نابود ہونا اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے حضور میں ہست موجود ہونا یہ  دونوں عمل ساتھ ساتھ تھے. اور یہ ہر دم میں ہر سانس میں تجدید حلق’ اور تازہ امداروجود کا نتیجہ ہے. اس کا علم ہر شخص کو نہیں ہوتا. بلکہ انسان خود کو نہیں سمجھتا،. کہ وہ ہر آن لا یکون اور پھر یکون ہوتا ہے. معدوم ہوتا ہے’ موجود ہوتا ہے.یہاں ثم اور پھر مہلت کے لیے نہ سمجھو بلکہ یہاں ثم اور پھر لفظ صرف تقدم  تقرم بالعیتہ کا مقتضی ہے جیسے کہتے ہیں کہ اول ہاتھ پڑتا ہے پھر کنجی پھرتی ہے.یہاں حرکت ید کو حرکت مفتاح پر تقدیم بالعیتہ ہے ایسا ہر گز نہیں کہ ہاتھ پڑنے کیے زمانے کے بعد کنجی پھرتی ہے. عربی زبان میں بعض خاص  خاص مقام میں “ثم بلا”  مہلت بھی مستعمل ہوتا ہے. وک شاعر کہتا ہے ” کھزالردینی ثم اضطرب ” جیسے نیزہ روینی کا ہلانا  پھر اس کا ھل جانا ظاہر ہے کہ نیزے کے ہلانے کا زمانہ اور اس کے ہلنے کا زمانہ یہ ساتھ ساتھ ہیں. اور یہاں ثم اور پھر مہلت کا مقتضیٰ بندے کا ظہور حق تعالیٰ پر موقف ہے اور بندے کے اعمال اس کی وجہ سے صادر ہوئے ہیں. حق تعالیٰ کا اسم الباطن والا ہے جب تم خلق کو دیکھو اس پر غور کرو. تو معلوم ہو جاۓ گا کہ کون کس اعتبار سے اول ہے.ظاہر ہے باطن ہے.

اسمائےالٰہی کی معرفت اور ان کی نسبت سے عالم میں تصرف نصیب ہوتا ہے. پس یہ معرفت حضرت سلیمان علیہ السلام کو بھی حاصل تھی بلکہ سلیمان علیہ السلام نے جو دعا کی تهی. “رب هبلی ملکا لا ینبغی لاحد من بعدی”  میرے پروردگار مجھے ایسی بادشاہی عطا کر کہ میرے بعد پھر کسی کو حاصل نہ ہو. وہ بادشاہی’ وہ ملک اصل میں یہی معرفت اسماۓ الٰہی ہے. کیا ایسی حکومت کسی کو سلیمان کے سوا ملی ہی نہیں. قطب وقت. وقت زمانہ. تو تمام عالم کا شہنشاہ. اور حاکم علی الاطلاق ہوتا ہے. بیشک قطب زمانہ حاکم علی الاطلاق ہوتا ہے. اسی میں تجلی اعظم رہتی ہے.  حضرت سلیمان علیہ السلام  کی مراد ملک سے ظاہر و عالم شہادت کی حکومت اور تصرف عام ہے. دیکھو محمّد صلی الله علیہ وسلم کو الله نے سب کچھ دے رکھا تھا. آپ کی باطنی حکومت اس سے زیادہ ہی تھی. مگر آپ نے عالم شہادت میں اس کو ظاہر نہیں کیا.

ابن عربی کی دیگر تصانیف مندرجہ زیل ہیں

عقلہ المستوفرہ.
عقیدہ مختصرہ.
عنقائے معرب.
قصیدہ البلادرات تقعینیہ..
القول النفیس..
کتاب تاج الرسائل..
کتاب الثمانیہ و الثلا ثین وھو کتاب الازل..
کتاب الجلالہ…’
کتاب مااتی بہ الوارد.
کتاب النقبا..
کتاب الیادہو کتاب الہود.
مجموعہ رسائل ابن العربی
مراتب الوجود.
مواقع النجوم.
فتوحات مکیہ       چار بڑی بڑی جلدوں میں.
نقش النصوص   اس کی شرح مولانا جامی نے کی ہے اور اس کا نام النصوص ہے
تفسیر صغیر       جو مطبوعہ مصر ہے’ عام طور سے ملتی ہے..
تفسیر کبیر         جو سنتے ہیں کہ فرانس کے کتب خانے میں قلمی ہے..

Share

May 10, 2012

کوانٹم طبعیات اور ہگز بوسون

Filed under: تحقیق,عمومیات,مشاہدات — ابو عزام @ 7:49 pm

 اگر آپ نے راقم کی طرح نوے کی دہائ میں کالج اور جامعہ کی تعلیم مکمل کی ہو تو آپکو یاد ہوگا کہ ہمارے نصاب میں کوانٹم طبعیات کے بارے میں کچھ  زیادہ  تذکرہ نا ہوتا تھا ۔ذراتی طبعیات مں کوارکس کا ذکر تو سنا لیکن اس کی اسپن اور چارم سے کوئ خاص یاداللہ نہ ہو پائ۔ اگر آپ کا بھی یہی حال ہے تو حل حاضر ہے۔ اس ماہ  کا سائنٹفک امیرکن کا شمارہ راشد کامران سے مستعار لے لیں

اور اگر یہ ممکن نا ہو تو یہ چھوٹی سے ویڈیو جو پی ایچ ڈی کامکس والوں نےہگز بوسون ذرے پر بنائ ہے وہ دیکھ لیں،یقینا افاقہ ہوگا۔

Share

May 8, 2012

ایک مشاعرہ ہاے فرنگ کی مختصر روداد

Filed under: ادبیات,شاعری,مشاہدات — ابو عزام @ 5:04 am

جب سے ہمارے عزیز دوست راشد کامران نے چوغہ انٹرورٹیہ پہنا ہے یا یہ کہا جائے کہ کلازٹ میں جا بسے ہیں، ہمیں ادبی محفلیں اکیلے ہی نمٹانی پڑ رہی ہیں۔ اسی طرح کی ایک محفل مشاعرہ لاس اینجلس ٹایمز کے کتب میلے میں بھی برپا تھی جہاں پہنچ کر ہم نے سوچا کہ چلو آج انگریزی مشاعرہ بھی سنتے ہیں۔ سچ بتایں تو بڑی مایوسی ہوئ،نا تو داد و تحسین کے ڈونگرے، نا مکرر کی تکراروں میں پان کی گلوری کی پچکار، نا کوئ صدر مجلس، نا ہی  کوئ شاعروں کا پینل اور تقدیم و تاخیر کا اصرار۔  بھلا یہ بھی کوئ مشاعرہ ہوا۔شعر معنویت سے بھرپور و گہرے ہونا ہی تو سب کچھ نہیں ہوتا، بقول ہمارے جامعہ کے ساتھی شعیب سلیم کے، ٹیمپو بننا چاہیے۔

  اب زرا رنگ حنا پر کچھ تازہ کلام ملاحظہ ہو جس میں مملکت خداداد کا بھی نام آتا ہےکہ یہاں سرخ رنگ کمیاب ہے۔

یہ نظم بھی خاص ہے کہ اس میں شعرا کے جھوٹ کی فہرست بنی گئِ ہے۔

یہ صاحب اپنے آپ کوجدید دور کا شاعر کہتے ہیں اور ریپ کے انداز میں شاعری کرتے ہیں۔فیس بک پر انکی شاعری کا کوئ جواب نہیں، یعنی کہ سوشل میڈیا نے انسانی تعلقات پر جو گھرے اثرات مرتب کئے ہیں، وہ انکی زبانی ہی سنیے۔

بہرحال، حاصل کلام یہ ہے کہ دیسی مشاعری دیسی مشاعرہ ہی ہوتا ہے۔ رسائٹل کیا جانے زعفران کا بھاو!

Share
« Newer PostsOlder Posts »

Powered by WordPress