تو اوریا مقبول جان صاحب کا بڑا بھلا ہوجاتا۔
ایک تو احباب نے ان سوڈو انٹیلیکچولز کے لنک بھیج بھیج کر ناک میں دم کر رکھا ہے اوربندہ مروت میں یہ بھی نہیں کہ سکتا کہ بھائ، ایسی بے پرکی تو ہم نے مظہر کلیم سے بھی نا سنی، آپ کو ذرا احساس تو ہونا چاہیے کہ یہ نادان دوست ہم اصحاب میمنہ کو کس قدر مضحکہ خیز دفاعی پوزیشن میں لا کھڑا کرتے ہیں؟ تحقیق سے ان کو کوئ واسطہ ہو نا ہوکہ ہر ایک کو اپنی راے کا حق ہے لیکن بقول شخصے، اپنے حقائق کا نہیں۔ کم از کم ڈالڈا ملاتے ہوے کچھ تو خیال کریں کہ اس تکنیکی دور میں انکی اس بے سروپا باتوں کو جھٹلانا اور جھوٹے کو گھر تک چھوڑ کر آنا کس قدر آسان ہے۔
تو محترم کا یہ کالم ایک برقی ڈاک میں ملا۔ مزاح پڑھ کر طبعیت باغ باغ ہو گئ کہ یہ دفاعی میکینزم ہے۔ اگر خون جلانا شروع کریں تو قومی اخبار ختم ہونے سے پہلے بلند فشار خون کی بنا پر جان جان آفرین کے سپرد ہوجائے۔اب اسکا پہلا پیراگراف پڑھیں اورمندرجہ ذیل ویڈیو دیکھ لیں، پھر بتائیں کہ یہ سلیمانی ٹوپی پہنے ہوئے پلسی کہاں چھپے ہیں جنہوں نے بقول جان صاحب کے “اسے دھکیل کر پیچھے کر دیا”؟
Marlon Brando’s Oscar® win for ” The Godfather” by WhiteWolf-Cree
اب اس مضحکہ خیز کالم کا دوسرا پیراگراف پڑھیں اور سر پیٹیں۔ جان صاحب، اگر تھوڑی سی تحقیق کر لیتے تو نو اینڈ ان سایٹ، عراق فار سیل، عراق ان فریگمنٹس، ریتھنک افغانستان، انسائڈ گواتنامو، انسائڈ عراق، اینڈ آف امریکہ، بش وار، رولز آف انگیجمنٹ، انڈیپینڈنٹ انٹروینشن, فارن ہایٹ نائن الیون اور اس جیسی بیسیوں ڈاکومنٹریز مل جاتیں جن پر عراق و افغانستان میں ہونے والے مظالم پر روشنی ڈالی گئی ہے اورامریکی جارحیت پر کھل کر تنقید کی گئ ہے۔ سب چھوڑیں، ٹیکسی ٹو دی ڈارک سائڈ جیسی رلا دینے والی دستاویزی فلم جو عراق افغانستان و گوانتناموبے میں امریکی مظالم سے کو بے نقاب کرتی ہے ۲۰۰۷ میں آسکر ملا۔ آپ کو پینٹاگان پیپرز بھی کسی قطار و شمار میں نظر نا آتی ہوگی کہ حقیقت سے آپکی تحاریر کا موضع بھی نہیں ملتا۔ آپ کو ایوارڈ یافتہ و نامزد ڈاکومنٹریز میں یقینا وار گیم، اینڈرسن پلاٹون،بروکن رینبو، ہیل فائر جرنی فرام ہیروشیما، ہو کلڈ ونسنٹ چن ، فور لٹل گرلز بھی نظر نا آئ ہونگی۔ بس اب مزید کچھ کہنے سننے کی سکت کہاں بس اتنا کہتا چلوں کہ اگر آپ کو محترمہ شرمین عبید کا ایورڈ لینا پسند نہیں تو نا سہی، حالات و واقعات میں دروغ گوئ سے کام لیے بغیر بھی یہ مدعا آرام سے بیان کیا جا سکتا ہے۔ نیز شرمین عبید کو یہ ایوارڈ ایک امریکی ڈائریکٹر ڈینیل ینگی کے ساتھ ملا ہے، مارلن برانڈو کی طرح ان کی تن تنہا اداکاری پر نہیں، اب بے چارے ینگی کا کیا قصور جان صاحب کہ وہ بھی ایوارڈ کو ٹھوکر مار دے۔آپ کی دروغ گوئ پر ہمارا تو کچھ ایسا ہی عالم ہے کہ
حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو مَیں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو مَیں