فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

March 16, 2012

کاش کہیں سے تھوڑی عقل مل جاتی

Filed under: پاکستان,خبریں,سیاست,طنزومزاح — ابو عزام @ 3:00 am

تو اوریا مقبول جان صاحب کا بڑا بھلا ہوجاتا۔

ایک تو احباب نے ان سوڈو انٹیلیکچولز کے لنک بھیج بھیج کر ناک میں دم کر رکھا ہے اوربندہ مروت میں یہ بھی نہیں کہ سکتا کہ بھائ، ایسی بے پرکی تو ہم نے مظہر کلیم سے بھی نا سنی، آپ کو ذرا احساس تو ہونا چاہیے کہ یہ نادان دوست ہم اصحاب میمنہ کو کس قدر مضحکہ خیز دفاعی پوزیشن میں لا کھڑا کرتے ہیں؟ تحقیق سے ان کو کوئ واسطہ ہو نا ہوکہ ہر ایک کو اپنی راے کا حق ہے لیکن بقول شخصے، اپنے حقائق کا نہیں۔ کم از کم ڈالڈا ملاتے ہوے کچھ تو خیال کریں کہ اس تکنیکی دور میں انکی اس بے سروپا باتوں کو جھٹلانا اور جھوٹے کو گھر تک چھوڑ کر آنا کس قدر آسان ہے۔

تو محترم کا یہ کالم ایک برقی ڈاک میں ملا۔  مزاح  پڑھ کر طبعیت باغ باغ ہو گئ کہ یہ دفاعی میکینزم ہے۔ اگر خون جلانا شروع کریں تو قومی اخبار ختم ہونے سے پہلے بلند فشار خون کی بنا پر جان جان آفرین کے سپرد ہوجائے۔اب اسکا پہلا پیراگراف پڑھیں اورمندرجہ ذیل ویڈیو دیکھ لیں، پھر بتائیں کہ یہ سلیمانی ٹوپی پہنے ہوئے پلسی کہاں چھپے ہیں جنہوں نے بقول جان صاحب کے “اسے دھکیل کر پیچھے کر دیا”؟

Marlon Brando’s Oscar® win for ” The Godfather” by WhiteWolf-Cree

اب اس مضحکہ خیز کالم کا دوسرا پیراگراف پڑھیں اور سر پیٹیں۔ جان صاحب، اگر تھوڑی سی تحقیق کر لیتے تو نو اینڈ ان سایٹ، عراق فار سیل، عراق ان  فریگمنٹس، ریتھنک افغانستان، انسائڈ گواتنامو، انسائڈ عراق،  اینڈ آف امریکہ، بش وار، رولز آف انگیجمنٹ، انڈیپینڈنٹ انٹروینشن, فارن ہایٹ نائن الیون اور اس جیسی بیسیوں ڈاکومنٹریز مل جاتیں جن پر عراق و افغانستان میں ہونے والے مظالم پر روشنی ڈالی گئی ہے اورامریکی جارحیت پر کھل  کر تنقید کی گئ ہے۔ سب چھوڑیں، ٹیکسی ٹو دی ڈارک سائڈ جیسی رلا دینے والی دستاویزی فلم جو عراق افغانستان و گوانتناموبے میں امریکی مظالم سے کو بے نقاب کرتی ہے ۲۰۰۷ میں آسکر ملا۔ آپ کو پینٹاگان پیپرز بھی کسی قطار و شمار میں نظر نا آتی ہوگی کہ حقیقت سے آپکی تحاریر کا موضع بھی نہیں ملتا۔ آپ کو ایوارڈ یافتہ و نامزد ڈاکومنٹریز میں یقینا وار گیم، اینڈرسن پلاٹون،بروکن رینبو،  ہیل فائر جرنی فرام ہیروشیما، ہو کلڈ ونسنٹ چن  ، فور لٹل گرلز بھی نظر نا آئ ہونگی۔ بس اب مزید کچھ کہنے سننے کی سکت کہاں بس اتنا کہتا چلوں کہ اگر آپ کو محترمہ شرمین عبید کا ایورڈ لینا پسند  نہیں تو نا سہی، حالات و واقعات میں دروغ گوئ سے کام لیے بغیر بھی یہ مدعا آرام سے بیان کیا جا سکتا ہے۔ نیز شرمین عبید کو یہ ایوارڈ ایک امریکی ڈائریکٹر ڈینیل ینگی کے ساتھ ملا ہے، مارلن برانڈو کی طرح ان کی تن تنہا اداکاری پر نہیں، اب بے چارے ینگی کا کیا قصور جان صاحب کہ وہ بھی ایوارڈ کو ٹھوکر مار دے۔آپ کی دروغ گوئ پر ہمارا تو کچھ ایسا ہی عالم ہے کہ

حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو مَیں

مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو مَیں


Share

March 15, 2012

برٹانیکا اب ہم میں نہیں رہے

Filed under: خبریں,طنزومزاح,کتابیات — ابو عزام @ 11:53 am

 ہاے برقی کتاب، تیرا برا ہو کہ تو نے ہم سے ایک ۲۴۴ سالہ ہمدم دیرینہ، انسائکلوپیڈیا برٹانیکا چھین لیا۔ اب بتا کہ پطرس کے انجام بخیر پر کنڈل کا تکیہ لگایا جاے گا؟ ہم تو بس اس نثر کو  روتے ہیں کہ اس دور عدو کتب ہاے ورق میں اسکا کیا مماثل ہو۔

پطرس۔۔ حضرات اندر تشریف لے آئیے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ میرے پاس صرف ایک کرسی ہے۔ لیکن جاہ و حشمت کا خیال بہت پوچ خیال ہے۔ علم بڑی نعمت ہے، لہذا اے میرے فرزندو، اس انبار سے چند ضخیم کتابیں انتخاب کرلو اور ان کو ایک دوسرے کے اوپر چُن کر ان پر بیٹھ جاؤ۔ علم ہی تم لوگوں کا اوڑھنا اور علم ہی تم لوگوں کا بچھونا ہونا چاہیئے۔

کمرے میں ایک پر اسرار سا نور چھا جاتا ہے۔ فرشتوں کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ سنائی دیتی ہے

Share

March 11, 2012

اپنے حصے کے بے وقوف

Filed under: طنزومزاح,مشاہدات — ابو عزام @ 9:58 pm

ہر قوم کو اپنے حصے کے بیوقوفوں کا کوٹہ ضرور ملتا ہے، یہ دنیا کی تکنیکی طور پر سب سے زیادہ ترقی یافتہ قوم کے لوگ ہیں، ملاحظہ کریں۔

Share

March 10, 2012

جینٹلمین بسمہ اللہ از اشفاق حسین

Filed under: ادبیات,طنزومزاح,کتابیات — ابو عزام @ 8:54 pm

مزاح کے عہد یوسفی میں رہنے اور یوسفی پڑھ لینے کے بعد اکثر یہ بیماری لاحق ہو جاتی ہے کہ ایرے غیرے کسی مزاح نگار کو خاطر میں لانے کا قطعی دل نہیں چاہتا اور وہ بھی ایک سابق فوجی کو، بھلا فوج اور مزاح کا کیا ربط۔ لیکن  جینٹلمین بسمہ اللہ از اشفاق حسین اگر ادب کا کوئ شاہکار نہیں تو کوئ ایسی بری کتاب بھی نہیں۔ پاپ کورن فلم کی طرح اسے پاپ کورن کتاب قرار دیا جاسکتا ہے۔ہم نے اپنے کئ دوستوں کو آی ایس ایس بی کی امید میں جس لگن سے تیاری کرتے دیکھا، اکر وہ یہ کتاب پڑھ لیتے توشائد نتائج مختلف ہوتے۔

تو کچھ ایسا ہوا کہ ۵۲ ہفتوں میں ۵۲ کتابوں کے عہد میں ہم نے دو چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں کر لیں۔ ایک تو یہ کہ فصوص الحکم کو ایک ہفتے کے بجائے ابھی تک پڑھ رہے ہیں کہ یہ متن کا تقاضہ ہے نیز کیرن ٓآرمسٹرانگ کی کتاب کی جگہ ہم نے فائنمین کی کتاب اور اگاتھا کرسٹی کی جگہ جینٹلمین بسم اللہ پڑھ لی۔  جینٹلمین بسم اللہ چھوٹی سی کتاب ہے اور روانی سے جلد ہی پڑھی جاسکتی ہے۔ آدھی کتاب بعد از عشا ختم کی اور پھر فجر کے بعد ناشتے سے پہلے بقایا، لہذا اگر نیند کا وقفہ نکال دیں تو ایک نشست میں ختم کی جا سکتی ہے۔

تقریبا دو سو صفحات کی اس کتاب کو کرنل اشفاق حسین کی ابتدای فوجی سوانح  عمری قرار دیا جا سکتا ہے۔  یہ کتاب کوی ادبی شاہکار نہیں اور نا ہی اس میں مزاح کی کوی  ندرت خیال کا عنصر شامل ہے۔ جینٹلمین بسمہ اللہ میں سولہ عدد مضامین شامل ہیں جن کے نام بالترتیب باعث تحریرآنکہ،  پہلی ملاقات۔ بورڈ یاترا، آغاز سفر… انجام تمنّا، ذائقوں کا ورثہ، گردش وقت یہاں آن کر تھم جاتی ہے، لہو گرم رکھنے کے سو سو بہانے، آنچل کے سایوں سے پیڑوں کی چھاؤں تک ،دل مردہ دل نہیں ہے ،جنٹلمین!بسم الله!!، آداب فلم بینی، معمولات کیڈٹ، یہ تھے ہمارے اساتذہ کرام، دکھوں کے ساجھی، ہوا بردوش، اڑنے نہ پائے تھے کہ اور  تھینک یو! الله میاں ہیں۔

کتاب کی جلد پر اشفاق حسین صاحب کا تعارف کچھ یوں ہے کہ انکا تعلق لاہور سے ہے. پنجاب یونیورسٹی سے صحافت اور انگریزی ادب میں ایم اے کرنے کے علاوہ وہ انٹرنیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجیز  سے عربی میں ایڈوانس لیول انٹر پریٹر شپ کے ڈپلومہ ہولڈر ہیں. تقریباً ۲۹ سال پاک فوج سے وابستہ رہے اور مختلف حیثیتوں میں، مختلف فارمیشنز اور آئی ایس پی آر میں تعینات رہے. کالج آف آرمی ایجوکیشن، اپرٹوپہ اور ملٹری کالج جہلم میں تدریسی فرائض انجام دینے کے علاوہ وہ سعودی عرب میں بطور مترجم بھی تعینات رہے. ٢٠٠٢ء میں انٹر پبلک ریلیشنز کے ڈپٹی ڈائریکٹر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے. جناب والا سات عدد کتابیں لکھ چکے ہیں. جن میں طنزومزاح کی شگفتہ کتابیں،جنٹلمین بسم اللہ جنٹلمین الحمدالله، جنٹلمین الله الله اور جنٹلمین سبحان الله شامل ہیں. ان کی کتابوں کے اب تک پینسٹھ سے زائد ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ آئی ایس  پی آر میں رہتے ہوئے، انہوں نے فوج کے لئے مختلف دستاویزی فلمیں اور فوجی زندگی پر ڈرامے تیار کئے. اٹلی میں ہر سال ہونے والی مسلح افواج کی دستاویزی فلموں کی نمائش میں ان کی تین دستاویزی فلموں کو بین الاقوامی انعامات سے نوازا گیا. میجر شبّیر شریف شہید پر ان کی کتاب “فاتح سبونہ” پر مبنی طویل دورانیے کا ایک کھیل پروڈکشن کے آخری مراحل میں ہے.

اس کتاب کا ایک اقتباس مندرجہ زیل ہے۔

دل مردہ دل نہیں ہے …..

دوسرے روز اکیڈمی پہنچے. بسوں سے اتر کر ہمارا ارادہ سیدھا کمروں کی جانب جانے کا تھا.لیکن بسوں کو گھیر رکھا تھا انسٹرکروں نے. نیچے اترتے ہی انہوں نے ہمیں فالن کیا اور لیفٹ رائٹ لیفٹ رائٹ کراتے ہوئے سیدھا ڈرل سکیئر میں لے گئے. تمام سامان پشت پر لدا ہوا تھا. تھکن سے ہم لڑکھڑائے جاتے تھے لیکن اسٹاف تھے کہ چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھاۓ ہوئے تھے”صاب بازو پورا ہلائیں” “گھٹنا بیلٹ لیول تک اٹھائیں”. ہم حیران ہو کر کبھی اپنے بازوؤں کو دیکھتے اور کبھی پریشن ہو کر صوبیدار میجر کی طرف ک ڈرل کروانے کا نشہ یہ کسی اور وقت پورا نہیں کر سکتے؟ خدا خدا کر کے ڈرل سے جن چھوٹی لیکن کمروں میں جانے کی اجازت اب بھی نہیں تھی.حکم لگا کہ پہلے رائفلوں کی صفائی ہوگی. فوجی کی زندگی میں اس بات کو ایمان کا درجہ حاصل ہے کہ وہ خود کتنا ہی خستہ کیوں نہ ہو اس کا ہتھیار ہر وقت تروتازہ رہنا چاہیے. رائفلوں کی صفائی کر کے کمروں میں پہنچے تو ہمیں بستروں سے دور رکھنے کا ایک اور بہانہ بتایا گیا. یہ دلچسپ بھی تھا اور کامیاب بھی.

سینئروں نے بتایا کہ پرموک مشق کے اختتام کی روایت ہے کہ تمام سینئر کیڈٹ چند گھنٹوں کے لیے خود کو جونیئر قرار دیتے ہیں اور جونیئر کیڈٹوں کو اختیار ہوتا ہے کہ ان سے جو چاہیں سلوک کریں.اعلان کیا گیا کہ تمام سینئر کیڈٹ شام سات بجے تک جونیئر رہیں گے. یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح تمام جونیئر کیڈٹوں میں پھیل گئی.بس پھر کیا تھا کسی کو یاد نہ رہا کہ گزشتہ پانچ دنوں کی صحرا نوروی نے پیروں میں ابلے ڈال رکھے ہیں نیندیں حرام ہونے سے آنکھیں غبار آلودہ ہیں. بستر کو مسکن بنایا جاۓ.بس ایک ہی دھن سوار تھی کہ اس مختصر سی مہلت میں سینئر کیڈٹوں کو ہر اس سلوک سے نواز دیا جاۓ جو انہوں نے ہم پر روا رکھا تھا.

ایک کمپنی کا کیڈٹ سی ایس ایم(کمپنی سارجنٹ میجر) ہاتھ آگیا. موصوف کمپنی میں ڈسپلن قائم رکھنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں. ظاہر ہے بلحاظ عہدہ ان کی زبان میں تھوڑی سی ترشی ضروری ہے. اور آنکھ میں سرخ ڈوروں کا ہونا معمولی بات. لیکن یہاں معاملہ یہ نہیں تھا کہ وہ اپنی حرکتوں میں حق بجانب تھے یا نہیں ‘ان کا قصور یہ تھا کہ وہ ان سینئروں میں شامل تھے جنھیں آج جوںیئر قرار دے دیا گیا تھا. کسی کو یاد نہ رہا کہ چند گھنٹوں بعد انہیں پھر سی ایس ایم کے روپ میں آجانا ہے.

جونیئر کیڈٹوں نے درزی کے تعاون سے کچھ رنگین کپڑے ادھار منگواۓ. سی ایس ایم کو پہناۓ گۓ. رخساروں پر غازہ’ ہونٹوں پر سرخی اور آنکھوں میں کاجل اتارا گیا.اور پھر آنکھوں پر عینکیں چڑھا انہیں کمپنی میں گھمایا گیا. اس سری تیاری کے دوران ایک شور تھا کہ کانوں کے پردے پھاڑ ڈالتا تھا. جونیئرکیڈٹ امڈے چلے آتے تھے.کوئی اس “نازنین” کے آٹوگراف لینے کو ٹوٹا پڑتا تھا، کوئی اس سے شام کی کسی حسین ساعت میں مونا لیزا ریسٹورنٹ میں ملنے کا وعدہ لینے پر بضد تھا. کوئی اس کے لیے “جھانجھراں” منگا دینے کو تیار تھا بشرطیکہ وہ “ہاں” کر لے اور کوئی اس کے مربعوں پر منشی ہو جانے کو زندگی کی آخری خواہش قرار دے رہا تھا. بیچاری دوشیزہ ٹکر ٹکر کبھی اس مضطرب کو دیکھتی جو چیخ چیخ کر اپنی وفاؤں کا یقین دلا رہا تھا تو کبھی اس مرغ بسمل کو’ کہ اس کے قدموں میں لوٹا جاتا تھا اور پکار پکار کر کہتا تھا…

 اکیلے نہ جانا’ ہمیں چور کر تم

 تمہارے بنا ہم’ بھلا کیا جئیں گے

باقی سینئر کیڈٹوں کے حلیے تو بدلتے رہے لیکن سی ایس ایم کی دوشیزگی کو آخر وقت تک برقرار رکھا گیا.

Share

March 8, 2012

آئنسٹائن کا منطقی معما

Filed under: عمومیات — ابو عزام @ 10:00 pm

البرٹ آئنسٹائن سے منسوب اس منطقی معمے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے دنیا کے صرف دو فیصد لوگ ہی حل کرسکتے ہیں۔ دروغ برگردن راوی۔ اس کے حل کے لیے کاغذ اور قلم درکار ہوگا، ذرا ذہن آزمائیں۔

پچھلے منطقی معمے کی طرح اس معمے میں بھی کوئ  چالاکی کی بات نہیں، صرف منطقی استدلال کی ضرورت ہے۔

 ایک گلی میں مختلف رنگوں کے پانچ  گھر ہیں۔

ان گھروں میں مختلف قومیتوں کے لوگ رہتے ہیں

 ان پانچ میں سے ہر فرد جداگانہ تشخص کا مالک ہے۔ مختلف قسم کا مشروب پیتا ہے، سگریٹ کا مختلف برانڈ استعمال کرتا ہے اور مختلف قسم کا پالتو جانور رکھتا ہے

آپ سے سوال یہ ہے کہ مچھلی کا مالک کون ہے۔

 اشارے

برطانوی سرخ گھر میں رہتا ہے

سویڈش شخص نے پالتو جانوروں کے طور پر کتوں کو رکھا ہوا ہے۔

ڈنمارک کا شہری چاے کو مشروب کے لیے استعمال کرتا ہے۔

ہرے رنگ کا گھر سفید گھر کے بلکل ساتھ اس کی بایں جانب واقع ہے

 ہرے گھر میں رہنے والے کو کافی پسند ہے

جو شخص گولڈلیف سگریٹ پیتا ہے اس نے پرندے پالے ہوے ہیں

پیلے گھر کا مالک ڈنہل نامی سگریٹ پیتا ہے

درمیان میں واقع گھر میں رہنے والا شخص دودھ پینے کا شوقین ہے۔

ناروے کا باشندہ پہلے گھر میں رہتا ہے

جو شخص کیپسٹن سگریٹ پیتا ہے وہ اس شخص کے برابر میں رہتا ہے جس کے پاس پالتو بلیاں ہیں

 گھوڑے پالنے والا ڈنہل سگریٹ پینے والا کا بالکل ساتھ والا ہمسایہ ہے

جو شخص مارلبرو سگریٹ پیتا ہے اسے روح افزا بہت پسند ہے

جرمن کو گولڈ فلیک سگریٹ پینا پسند ہے۔

ناروے کا شہری نیلے گھر کے برابر میں رہتا ہے۔

 کیپسٹن پینے والے کا پڑوسی پانی کو بہترین مشروب گردانتا ہے

Share

March 7, 2012

خَلْقَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِيْنٍ

Filed under: تحقیق,مشاہدات — ابو عزام @ 1:39 am
“حیرت انگیز بات یہ ہے کہ آپ کے جسم میں ہر ایٹم ایک منفجر یا پھٹے ہوے ستارے سے آیا ہے،  آپ کےبائیں ہاتھ میں جو ایٹم ہیں وہ شاید وہ کسی دوسرے ستارے سے آے ہوں اور  دائیں ہاتھ  کے جوہر کسی مختلف ستارے کی باقیات ہوں. طبعیات میں یہ واقعی سب سے زیادہ شاعرانہ بات ہوسکتی ہے جو میرے علم میں ہے۔۔۔ آپ سب ستاروں کی مٹی ہیں۔”

Share

March 6, 2012

وسعت کائنات کی ایک جھلک

Filed under: تحقیق,مشاہدات — ابو عزام @ 10:34 pm

وسعت کائنات کی ایک نہایت خوبصورت تصویری جھلک۔

فبای الا ربکما تکذبان

Share

March 4, 2012

آپ کیوں پروا کریں ہیں کہ لوگ کیا سوچتے ہیں” از رچرڈ فائنمن”

Filed under: ادبیات,تحقیق,کتابیات — ابو عزام @ 11:57 am

 ہفتوں میں ۵۲ کتابیں  پڑھنے کا جو بار گراں ہم نے اٹھایا تھا اس کو پورا کرنے کی ایک ہی صورت نظر آتی ہے کہ کتب ہاے مطالعہ مختلف اشکال میں ہر وقت موجود رہیں،  یعنی صوتی، برقی   اور ورقی۔ اسی طرح سے ہم اینڈرز گیم بھی ختم کرنے میں کامیاب ہوئے تھے کہ جہاں سے ورقی کتاب کا تعطل ٹوٹا، وہاں سے دوران سفر سیارہ صوتی کتب پر منتقل کیا اور جب کتاب تک دسترس نا رہی تو کنڈل نکال لیا ۔ اب نوبل انعام یافتہ ڈاکٹررچرڈ فائنمن” کی کتاب  “آپ کیوں پروا کریں ہیں کہ لوگ کیا سوچتے ہیں” کا مطالعہ بھی کچھ اسی طرح ختم ہوا۔

رچرڈ فائنمن کا شمار دور جدید کی طبعیات کے موجدین میں کیا جاتا ہے خصوصا کوانٹم کمپیوٹنگ پر انکا کام سیمینری یا مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کتاب کو پڑھنے سے پیشتر “آپ یقینا مزاق کر رہے ہیں مسٹر فائنمن” پڑھ لیں تو بہت بہتر ہوگا کیونکہ آپ کیوں پروا کریں ہیں کہ لوگ کیا سوچتے ہیں” از رچرڈ فائنمن” میں اس پچھلی کتاب کے کئی حوالہ جات استعمال کئے گئے ہیں ۔مزاح، سائنسی تراکیب اور سوانح پر مبنی  یہ کتاب بنیادی طور پر دو حصوں پر مشتمل ہے، پہلا حصہ جہاں   ڈاکٹرفائنمن اپنے مخصوص مزاحیہ انداز میں زندگی میں پیش آنے والے مختلف مشاہدات پر بات کرتے نظر آتے ہیں اور دوسرا حصہ خلائ جہاز چیلینجر کی تباہی کے اسباب کی تلاش میں بننے والے کمیشن کی رپورٹ اور اس کے دوران فائنمن کو پیش آنے والے مختلف واقعات پر مشتمل ہے۔ اس دوسرے حصے میں خصوصی طور پر ایک سائنسدان کی حکومت کی افسر شاہی کے طور طریقوں پر تنقید  قابل  مطالعہ ہے۔ یہ کہنا کچھ غلط نا ہوگا کہ یہ کتاب ڈاکٹر فائنمن کی پہلی کتاب کے مقابلے میں کم دلچسپ ہے اور اسکی بنیادی وجہ اسی رپورٹ کی شمولیت ہے۔ نیز اس میں دوسروں کے کچھ خطوط بھی شامل کر دئے گئے ہیں جو فائنمین کے طریقہ تصنیف سے میل نہیں کھاتے۔ لیکن اس کتاب کے آخر میں موجود ایک مضمون جو کہ سائنسدانوں کے سماجی  رجحانات یا “ویلیو آف سائنس” کے موضوع پر لکھا گیا ہے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔

رچرڈ فائنمن کا کسی چیز کو سمجھانے کا انداز بہت سہل انگیز ہے۔ ان کا نظریہ تھا کہ آسان طریقہ اپنانے سے جو نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں اس کو زبردستی مشکل بنا کر پیش کرنا، صرف اس لئے کہ وہ دقیق لگنے کی وجہ سے اہم لگے، سائنس کی بنیادی تعلیمات کے خلاف ہے۔ اس کتاب میں فائنمن نے اپنے اسی نظریے کو  خلائ جہاز چیلینجر کی تباہی کے اسباب کی تلاش میں  استعمال کیا  ہے۔اس کتاب کی ابتدا انکی منگیتر آیرین کے ٹی بی میں مبتلا ہونے اور خاندان کی مخالفت کےباوجود فائنمن کی اپنی لڑکپن کی محبت سے شادی سے ہوتی ہے۔فائنمین کے والد کا کہنا تھا کہ کسی فرد کی ناکامی کا سبب تلاش کرنا ہو تو عورت کو تلاش کرو، لیکن فائنمین نے ان کا کہا غلط ثابت کر دکھایا۔ اس وقت فائنمن پرنسٹن میں پی ایچ ڈی کے طالبعلم تھے اور نہایت کسمپرسی کی زندگی گذار رہے تھے۔ اس عظیم سائنسدان نے اپنے  ہوٹل میں ٹھرنے کے پیسے نا ہونے کی وجہ سے سردی میں  کچرے کے ڈھیر پر سونے کی داستان اتنے آرام سے بیان کی   جیسے یہ کوئ خاص واقعہ ہی نا ہو۔ اس کے بعد فائنمن کامینہٹن پراجیکٹ پر کام، ، کچھ نسوانی حقوق کے علمبرداروں کا انہیں خواتین کو طبعیات کی ایک مثال میں تیز گاڑی چلانے کے لئے استعمال کرنے پر لعن طعن کرنا، فائنمن کا سستا ہوٹل تلاش کرنے کے طریقوں کا بیان وغیرہ شامل ہیں۔ اس کتاب کو پڑھنے سے پتا  چلتا ہے کہ ایک عظیم سائنسدان اور اس صدی کے ذہین ترین افراد میں سے ایک فرد عام زندگی میں ہمارے اور آپ کے جیسا ایک انسان ہوتا ہے جو ہماری طرح غلطیاں کرتا ہے اور ان سے سیکھتے ہوے ایسے کام کر گذرتا ہے کہ دنیا اسے طویل عرصے تک یاد رکھتی ہے۔ فائنمن اس کتاب میں ہمیں بتاتے ہیں کہ ایک سائنسدان جب سماجی و معاشرتی چیزوں پر بات کرتا ہے تو وہ اس بارے میں اتنا ہی غلط ہوتا ہے جتنا کہ کوئ عام آدمی، کیونکہ سماجی ومعاشرتی مسائل کا کوئ سائنسی پیمانا نہیں ہوتا، اس لئے اس پر سائنسی طریقہ کار کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔

فائنمین کو بچوں سے خصوصی لگاو تھا۔ وہ لکھتے ہیں کہ سائنسی تجسس بچپن سے بیدار کرنے کی چیز ہے۔ اگر کوئی بچہ کسی سائنسی مسئلے کو عام حالات میں مشاہدے کی بنیاد پر دلچسپ سمجھتا ہے تو جان لیں کہ وہ ایک سائنسدان بننے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔کتاب میں لکھے گئے ایک واقعے کے مطابق انہوں نے ایک بچے کو لاامتناہیت کا نظریہ سمجھاتے ہوے کہا کہ تم مجھے کوئ بھی عدد بتاو، میں تمہیں اس سے تین گنا بڑا عدد بتاتا ہوں اور اس طرح سے کھیل کھیل میں مختلف مثالوں سے اس بچے کو لاامتناہی اعداد کے مشکل نظریے سے روشناس کرایا۔  ایک ملحد ہونے کے باوجود فائنمن کا وجود خداوندی، مذہب اور سائنس کے تقابل کے بارے میں رویہ و طریقہ کار آج کل کےملحدین کے لئے مشعل راہ ہے۔  اگناسٹک اور ایتہیسٹ کے درمیان اگر آپ  کو فرق معلوم کرنا ہو تو فائنمین کے لیکچرز کا مطالعہ مفید ہے۔ بڑی آسان زبان میں وہ مذہب و سائنس کا فرق بیان کرتے ہوے کہتے ہیں

طریق مذہب، ایمان۔ طریق سائنس، تشکیک

انکا سفر جاپان اور شاہی خاندان سے تعارو ، نوبل انعام کے وقت بادشاہ سے ملاقات اور انکی بے وقوفانہ حرکات کا بیان نہایت دلچسپ ہے جس میں انہوں نے بادشاہ سے ملانے کے لئے ہاتھ بڑھا دیا جو کہ روایات و آداب کے سخت خلاف ہے۔ اس کتاب میں فائنمین کے  بارے میں لکھے کچھ خطوط اور ان کےاپنے لکھے ہوئے چند خطوط جن میں وارسا سے لکھا گیا ایک خط شامل ہے لائق مطالعہ ہیں۔ فائنمین  کے کردار کی خاص بات تشکیک کو خصوصی اہمیت   دینا اور اتھارٹی پر عدم اطمینان رکھنا ہے جو کہ ان کی تحاریر میں  بدرجہ اتم ملتا ہے۔  صاحب کتاب کی تعریف میں کیا کہوں، ان کی دوسری اہلیہ کے نے اپنی طلاق  کی درخواست میں وجہ علیہدگی پر لکھا

 یہ صاحب صبح اٹھتے ہی کیلکلس کے مسائل پر سوچنا شروع کر دیتے ہیں۔ پھر گاڑی چلاتے وقت بھی یہی کرتے ہیں اور کمرے میں بیٹھ کر بھی، اور رات کو بستر پر لیٹ کر بھی کیلکلس کے مسائل پر ہی غورو فکر کرتے ہیں

Share

February 28, 2012

نیلی آنکھیں، ایک منطقی معما

Filed under: تحقیق,عمومیات — ابو عزام @ 8:44 pm

کمپوٹر سائنس کے طالبعلموں کے لیے جان کونوے اور اسکے گیم آف لایف کا نام جانا پہچانا ہے۔ لیکن جان کونوے کے بیان کردہ کامن نالج یا عمومی علم نامی حسابی انطباق پر مبنی اس نیلی آنکھوں والی پہیلی کو دنیا کے مشکل ترین منطقی معموں میں شمار کیا جاتا ہے۔ ذہن لڑایں اور دیکھیں کہ کیا آپ اسے حل کرسکتے ہیں؟

مختلف رنگ کی آنکھوں کےافراد کا ایک گروہ ایک دور پرے جزیرے پر رہتا ہے۔ یہ تمام افرد علم منطق میں طاق ہیں اور اگر کسی بات کا منطقی نتیجہ ہو تو اسکا فورا استنباط کرسکتے ہیں۔ ان میں سے کوئی فرد اپنی آنکھوں کا رنگ نہیں جانتا۔ ہر رات آدھی رات کے وقت، ایک کشتی جزیرے پر آ کر رک جاتی ہے. جزیرے پر جس شخص کو اپنی آنکھوں کا رنگ معلوم ہو وہ جزیرہ چھوڑ کر جاسکتا ہے۔ اس جزیرے کا ہر شخص ہر وقت دوسرے تمام افراد کو دیکھ اور گن سکتا ہے اور وہ ہر دوسرے شخص کی آنکھوں کا رنگ (خود کوچھوڑ کر) جانتا ہے۔ لیکن کوئی بھی کسی کو کسی کی آنکھ کا رنگ نہیں بتا سکتا اور نا ہی کوئی کسی سے پوچھ سکتا ہے۔ اس جزیرے پر موجود ہر شخص ان تمام قوانین سے واقف ہے اور نہایت قانون پسند ہے۔

اس جزیرے پر ۱۰۰ نیلی آنکھوں والے لوگ ہیں، ۱۰۰ لوگ بھوری آنکھوں والے لوگ ہیں اور ایک سردار ہے جس کی آنکھیں ہری ہیں۔ لیکن کس رنگ کی کتنی آنکھوں والے لوگ موجود ہیں، یہ تعداد لوگوں کے علم میں نہیں۔ مثلا کوئی بھی وہ شخص، جس کی نیلی آنکھیں ہوں ایک وقت میں ۹۹ نیلی آنکھوں والوں، ۱۰۰ بھوری آنکھوں والوں اور ایک سبز آنکھوں والے فرد کو دیکھ سکتا ہے۔ لیکن اس طرح اسے اپنی آنکھوں کا رنگ نہیں پتا چل سکتا کیونکہ اس کی دانست میں ۱۰۱ بھوری آنکھوں بھی ہوسکتے ہیں، دو ہری آنکھوں والے بھی اور ۱۰۰ نیلی آنکھوں والے بھی کیونکہ اسے اپنی آنکھوں کا رنگ نہیں معلوم۔

ایک دوپہر سردار نے میں آنکھوں کا رنگ نا بتانے کے قانون کو صرف ایک مرتبہ توڑتے ہوے کہا

“میں دیکھ سکتا ہوں کہ تم میں سے کم از کم ایک فرد کی آنکھیں نیلی ہیں”

اب بتایں کہ کتنے لوگ جزیرہ چھوڑ کر جایں گے اور کس رات کو؟

نیز اس جزیرے پر کوئی عکس یا عکاسی کرتی سطحیں یا پانی یا آینہ موجود نہیں۔ اس پہیلی کا جواب کوئی چال نہیں بلکہ منطقی انطباق ہے۔ اس میں انداذہ لگانے یا جنیات وغیرہ سے جواب ثابت نہیں ہوگا۔ سردار کسی خاص فرد کو نہیں بتا رہا کہ اس کی آنکھوں کا رنگ نیلا ہے بلکہ سب سے کہ رہا ہے کہ میں نے کم از کم ایک شخص کی آنکھیں نیلی دیکھی ہیں۔ اور اس کا جواب یقینا یہ بھی نہیں ہے کہ کوئی بھی جزیرہ چھوڑ کر نہیں جاے گا۔

!بوجھو تو جانیں

Share

February 27, 2012

اسباق و دروسہاے انٹرنیٹ – خان اکیڈمی

Filed under: خبریں,مشاہدات — ابو عزام @ 8:22 pm

انٹرنیٹ پر موجود اسباق و لیکچرز کا ذکر ہو اور خان اکیڈمی کا نام نا آے، یہ کیسے ہو ممکن ہے۔ خان اکیڈمی ایک غیر منافع بخش تعلیمی تنظیم ہے جسے۲۰۰۶ میں  امریکی معلم اور  ایم ائی ٹی  یونیورسٹی کے ایک گریجویٹ سلمان خان  نے تخلیق کیا تھا. خان اکیڈمی کا مشن ہے کہ کسی کو بھی، کہیں بھی ایک اعلی معیار کی تعلیم فراہم کی جاسکے اور اس کار خیر کے لیے انٹرنیٹ کی مدد لی جاے۔ ۲۶۰۰ سے زاِئد ویڈیو اسباق کے ذریعے ریاضی، تاریخ، صحت کی دیکھ بھال اور ادویات، طبعیات، علم کیمیا، کمپیوٹر سائنس، حیاتیات، فلکیات، معاشیات کے علاوہ سیکڑوں دیگر مضامین کو بلامعاوضہ سیکھا جاسکتا ہے۔

خان اکیڈمی

خان اکیڈمی – یو ٹیوب چینل

Share
« Newer PostsOlder Posts »

Powered by WordPress