فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

April 27, 2010

اردو زبان میں گالیوں کے ارتقا کا مختصر تنقیدی جائزہ

Filed under: ادبیات,طنزومزاح — ابو عزام @ 9:56 pm

راقم کا یہ مضمون ‘فیروزالمغلظات’ کے پہلے ایڈیشن میں چھپنے کے کے لئے تیار ہے۔ آپ قارئین سے تنقید و تبصرے کی گذارش ہے۔

اتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب

گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا

ہر زبان میں گالیاں ایک منفرد نثری و گفتنی حیثیت کی حامل ہوتی ہیں۔ کسی کے اہل زبان ہونے کا پتا لگانا ہو تو ان کی گالیوں کا موازنہ کریں ، وہیں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ تارکین وطن کی گالیاں ان کے اپنے ملک میں عہد قیام کی نشانی ہوتی ہیں۔ سیانے کہتے ہیں کہ کسی زبان کو سیکھنا ہو تو اسکے لئے سب سے پہلے اس کی گالیاں سیکھنی چاھئیں۔ اس سیانے نے یہ بات ایک گالی دیتے ہوئے کہی۔

گالیاں دینے کے بھی آداب ہوتے ہیں کہ واقعہ مشہور ہے جو جامعہ کراچی میں ہمارے اردو کے استاد محترم سناتے تھے کہ مرزا نوشہ اسد اللہ خان غالب کے مخالف انہیں‌ خطوط میں‌ گالیاں لکھتے رہتے تھے۔ ایک بار کسی مخالف نے انہیں ماں‌ کی گالی لکھ دی۔ مرزا اسے پڑھ کر ہنسے اور بولے، اس بیوقوف کو گالی دینے کا بھی شعور نہیں ہے۔ بوڑھے اور ادھیڑ عمر شخص کو بیٹی کی گالی دینی چاہئیے تاکہ اسے غیرت آئے۔ جوان آدمی کو ہمیشہ جورو کی گالی دو کہ اسے جورو سے بہت لگاؤ ہوتا ہے اور بچے کوہمیشہ ماں‌ کی گالی دیتے ہیں کیونکہ وہ سب سے زیادہ ماں سے مانوس ہوتا ہے۔

غالب کو گالیوں سے خاص لگاو تھا؛ اکثر بول چال میں اس کا التزام رکھتے تھے۔ قبلہ راشد بھائی اس زمن میں فرماتے ہیں، نقل کفر کفر نا باشد کہ “خداوند نے انگریزی زبان گالیاں دینے کے لیئے بنائی ہے”۔ کہ اردو زبان کی گالی دل پر جا لگتی ہے اور انگریزی میں دی گئی گالی کو ہنسی خوشی مذاق ہی مذاق میں ٹالا جا سکتا ہے۔

ہم اس قبیل سے تعلق رکھتے ہیں جہاں گالیاں دینا سخت معیوب سمجھا جاتا تھا۔ ہماری سب سے بڑی گالی ‘چغد’ یا ‘بھینس کا منہ’ ہوا کرتی تھی جس پر بہت ڈانٹ سننے کوملتی۔ پطرس مرحوم نے اپنے مضمون ‘میں ایک میاں ہوں’ میں ہماری کیفیت سے اتفاق کیا ہے جس پر ہم انکے بڑے ممنون ہیں۔

گالی کا تہذیب یا بدتہذیبی سے بڑا گہرا تعلق ہوتا ہے۔ ذخیرہ الفاظ کیطرح یہ بھی ایک زبان کے زندہ ہونے کی نشانی ہوتی ہیں مثلا اربن ڈکشنری کو ہی لیجئے۔ راقم کاماننا ہے کہ اردو کی گالیاں فاعل و مفعول کے بغیر لا معنی ہوتی ہیں الا یہ کہ یہ امور وضاحت طلب نہ ہوں۔ انگریزی زبان کی بہت سی زود زبان گالیاں اردو میں بلا فاعل بے معنی ہو کر رہ جاتی ہیں مثلا انگریزی کی ‘ف’ کی گالی اردو میں سراسر بے معنی ہے۔ اسی طرح محرمات کی گالی جو اردو کی گالیوں کی بنیادی اصطلاحات میں سے ہے انگریزی زبان میں نہایت بودی ٹھرے گی ۔ اسی طرح انگریزی کی’ش’ والی گالی اردو میں بچوں کی مخلوط محفل کے رد میں استعمال ہونے والی چڑ،  یا حیدرآبادی زبان میں نکمے آدمی کے لئے استعمال ہونے والا لفظ بنے گی اور اس کے لئے بھی فاعل کی موجودگی ضروری ہے مثلا ‘اجی کیا پاجامہ آدمی ہیں آپ، یہ بلی کا گو لے کر آے کیا” اور یہ بلکل پارلیمانی گفت و شنید میں مستعمل ہو سکتی ہے۔۔ پنجابی زبان کو گالیوں کے حوالے سے بڑا بدنام قرار دیا جاتا ہے مثلا ہمارے عزیز دوست اطہر الہی جو آجکل ہالینڈ سے معاشیات میں  پی آیچ ڈی کر رہے ہیں فرماتے ہیں کہ ملتان میں جمعہ کا خطبہ سنا اور پہلی بار اتنی ساری پنجابی زبان بغیر گالی کے سنی تو کانوں پر یقین نہ آیا۔ چٹکی لے کر یقین دلایا گیا کہ خواب نہیں تھا۔

پارلیمانی زبان کا مفروضہ بھی اب پرانا ہوچلا کہ اب جو زبان پارلیمان میں بولی جاتی ہے اس سے ادارہ گالیوں کی لغت ‘فیروزالمغلظات’ بنانے کا کام لیتاہے۔ ہمارے وزیر قانون کے قانون کے لمبے ہاتھ تو سبھی کو یاد ہیں مگر اس کے علاوہ اب ہمارے معزز ایونوں میں اس طرح باتیں ہوتی ہیں‌کہ

“وزیر قانون عبد الرشید عباسی نے کہا کہ دنیا میں بڑے بڑے واقعات ہو جاتے ہیں ماں بہن کی گالی برداشت نہیں ہے دونوں صاحبان معذرت کر لیں’ یا پھر آزاد کشمیر کی اسمبلی کے رکن نے کہا کہ ‘”میرے سامنے ایک رکن نے ماں کی گالی دی پھراس پر یہ بھی انصاف ہوناچاہیے اس موقع پرانہوں نے مصطفیٰ گیلانی کوایوان سے باہر بھیج دیا۔”  وغیرہ

گالیوں کے آداب کے سلسلے میں عرض کرتے چلیں کہ اردو زبان کی گالیوں کی تین مختلف اصناف ہیں۔ وہ گالیاں جو مہذب محفل میں  کچھ جھجک کے ساتھ دی جاسکتی ہیں مثلا اکبر الہ آبادی کی گالیاںوغیرہ۔ دوسری جو یاروں دوستوں کے ہمراہ دی جاتی ہیں مثلا بھینس کا منہ اور تیسری قسم مزید شدید جیسے کسی کو پرویز مشرف یا میر جعفر کہ دینا، یہ دل آزاری کی بدترین قسم ہے۔

گالیوں کے آداب کے سلسلے میں آبِ گم  میںمشتاق احمد یوسفی کہتے ہیں کہ

بزرگوار موجودہ الہ دین یعنی رحیم بخش کو عام طور پر الہ دین ہی کہتے تھے۔ البتہ کوئی خاص کام مثلاً پیر دبوانے ہوں یا بے وقت چلم بھروانی ہو یا محض پیار اور شفقت جتانی ہو تو الہ دین میاں کہ کر پکارتے۔ لیکن گالی دینی ہو تو اصل نام لیکر گالی دیتے تھے

مزید آداب مغلظات کے سلسلے میں مثال سے فرماتے ہیں کہ

۔” خلیفہ نے غصے سے بے قابو ہو کر دو مرتبہ اسے “ تیرا دھنی مرے! کی گالی دی تو بشارت سناٹے میں آگئے۔ لیکن سرِ دست وہ گھوڑے کو قابو میں لانا چاہ رہے تھے۔

اور بسا اوقات گالیوں کا استعمال بوقت ضرورت مدعا کے بیان کے لئے بھی کیا جا سکتا ہے مثلا

“کوئی جوان عورت مچھلی لینے آتی تو مچھلی والا ڈھال ڈھال کر بلی کوآرزو بھری گالیاں دینے لگتا۔”

گالی کے لئے خاص الفاظ کا استعمال بھی لازم نہیں۔ منٹو کا ٹوڈی بچہ، انگریزی پٹھو وغیرہ سے زیادہ گندی تہزیبی گالی ‘کھول دو’ ہے جو کہ حالات و واقعات کے تانوں بانوں سے حساسیت کی ہر رمق کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے۔

تہذیبی گالیوں کی مد میں توبۃ النصوح میں ڈپٹی نذیر احمد لکھتے ہیں

دوسرا ناہنجار، صبح اٹھا اور کبوتر کھول باپ  دادے کا نام اچھالنے کو کوٹھے پر چڑھا، پہر سوا پہر دن چڑھے تک کوٹھے پر  دھما چوکڑی مچائی، مارے باندھے مدرسے گیا، عصر کے بعد پھر کوٹھا ہے  اور کنکوا ہے، شام ہوئی اور شطرنج بچھا۔ ا توار کو مدرسے سے چھٹی  ملی تو بٹیریں لڑائیں۔ تیسرے نالئق، بڑے میاں سو بڑے میاں چھوٹے میاں  سبحان اللہ ، محل رنالں، ہمسائے عاجز، اس کو مار اس کو چھیڑ، چاروں طرف ایک تراہ تراہ مچ رہی ہے۔ غرض کچھ اسطرح کے بے سرے بچے  ہیں، ناہموار، آوارہ، بے ادب، بے تمیز، بے حیا، بے غیرت، بے ہنر، بد مزاج، بد  زبان، بد وضع کہ چند روز سے دیکھ دیکھ کرمیری آنکھوں میں خون اترتا

اور

“لڑ کے گالیاں بہت بکتے ہیں، لڑکیاں کوسنے کثرت سے دیا  کرتی ہیں۔ قسم کھانے میں جیسے وہ بیباک ہیں یہ بھی بے دھڑک ہیں،

گالیاں دینے پر جھڑکتے ایسے ہیں

” اس نے بکیں تو جھک مارا اور تم نے  زیادہ بکیں تو زیادہ جھک مارا۔”

قدرت اللہ شہاب نے ّ شہاب نامہ ّ میں ملک امیر محمد کا ذکر کرتے ہوئے ایک دلچسپ واقع رقم کیا ہے. لکھتے ہیں کہ

چوہدری ظہور الاہی سیاست کے افق پر نمودار ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے فوجی آمر ایوب کے نزدیک ہو گئے….پہلے تو نواب نے چوھدری ظہور الہی کو موٹی موٹی اور غلیظ گالیاں دیں اور ساتھ ہی کاغذوں کا ایک پلندہ ایوب کے سامنے رکھ دیا ، جو کہ ایک ایس پی نے ابھی ابھی پیش کیا تھا، اور فرمایا کہ حضور ان کاغذات میں اس (گالی) آدمی کا کچا چٹھا ہے . ساتھ میں یہ بھی فرمایا کہ جناب ابھی تو میں نے اپنا شکاری کتا اس پہ نہیں چھوڑا’

وزرا کا یہ وطیرہ تو تبدیل نہیں ہوا، اب تک ہے کہ

” کسٹم حکام کو خدشہ تھا کہ وزیرموصوف کے بنکاک سے انے والےمہمانوں کے پاس غیر قانونی سامان ہے-اٍسی لئے أنہوں نے تلاشی کرنا چاہی تو چوہدری صاحب طیش میں اکر کسٹم حکام پر برس پڑے-انہیں گالیاں دیں اور نوکری سے گو شمالی کا قصیدہ گایا-ایرپورٹ کے کیمروں نے چوہدری صاحب کی توتکار و دھکم پیل ثبوت کے لئے محفوظ کرلی-اٍسی وزیر کے خلاف لاہور کے تھانوں میں عملے کو گالیاں و دھمکیاں دینے پر رپٹ درج ہے-تھانہ نو لکھا کے انسپکٹر نوید گجر نے صحافیوں کو بتایا کہ وزیر نے ایک ملزم انتظار شاہ کو فوری رہا نہ کرنے کی پاداش میں تھانے کے عملے کو ننگی گالیاں اور نوکری سے برخواست کروانے کی دھمکیاں دیں-لچھے دار زبان استعمال کرنے پر پولیس کے اعلی افیسرز نے وزیر کے خلاف رپٹ درج کرنے کا حکم دیا-۔۔-میڈیا کو نام نہ شائع کرنے پر ایک آفیسر نے بتایا کہ چوہدری اور أنکے بھائی جرائم پیشہ افراد کی سفارشیں کرتے ہیں اور انکار کی صورت میں جیل کے عملے کو غلیظ گالیاں و سفاکانہ دھمکیاں سننی پڑتی ہیں-حسب سابق چوہدری عبدالغفور نے بائیس مئی کو پریس کانفرنس میں تمام الزامات کی تردید کی-“

یہ تو رہی موجودہ بے ادب دنیا میں وزرا کی روش۔  نیاز فتح پوری نے مولانا حالی کے نام ایک خط میں لکھا تھا۔

” مولانا! آپکا اسلوب بیان میں مجھ وداع ِجاں چاہتا ہے ۔ اگر آپ کی زبان میں مجھے کوئی گالیاں بھی دے تو ہل من مزید کہتا رہوں گا۔“

تولہذا قارئین ہل من مزید کہتے رہیں۔ اگر آپ کو ہمارے اس مضمون سے کوئی تکلیف پہنچی ہو تو ‘فیروز المغلظات’ کا مطالعہ افاقہ دے گا۔ وہ تمام لوگ جنہیں اس مضمون میں حقیقی گالیوں کے فقدان یا شدید کمی پر افسوس ہوا ہے اوراب کسی احتیاج کے تحت ٹھنڈا گوشت پڑھ رہے ہیں فورا ذہنی معالج سے رجوع کریں یا وزارت قانون میں نوکری کے اشتہارات دیکھیں۔

Share

April 24, 2010

کچھ برادرم راشد کامران کے بارے میں

Filed under: ادبیات,طنزومزاح — ابو عزام @ 1:08 am
سنا ہے گیدڑ کی موت آتی ہے تو شہر کی طرف دوڑتا ہے۔ ہماری جو رگ ظرافت پھڑکی توسوچا راشد بھائی کے بارے میں کچھ سخن آرائی کی جائے۔
محترم راشد بھائی ہمارے دیرینہ “بھائی-دوست” ہیں کیونکہ “دوست-دوست” اپنی مرضی سے بنائے جاتے ہیں – محترم سے ہماری دوستی پندرہ سال کے عرصے پر محیط ہے جو ہماری آدھی اور ان کی ایک  چوتھائی عمر بنتی ہے۔ ہم انہیں ١٩٩٦ سے اس مضمون کی تاریخ اشاعت تک جانتے ہیں، (وکیل صاحب – ہماری وصیت میز کی اوپر والی دراز میں رکھی ہے)۔
راشد بھائی پنجوقتہ لبرل آدمی ہیں۔ اپنے آپ کو مشرق کا بل ماہر گردانتے ہیں اور شائد اسی بنا پر مسجد سے نکلتے وقت ٹوپی فورا اتار لیتے ہیں کہ دعوی تجدد پر حرف نا آئے۔  جماعت اسلامی سے انہیں وہی پرخاش ہے جو منٹو کو ستر سے اور عصمت چغتائی کو رضائی سے تھی لیکن البرٹ پنٹو کے برعکس راشد بھائی کو غصہ بلکل نہیں آتا۔ نہایت بزلہ سنج اور حاضر جواب واقع ہوئے ہیں ۔ وقوع سے یاد آیا کہ ان کا جغرافیہ زیادہ تر ٹی وی اور میک بک کے درمیان پایا جاتا ہے۔ دھول دھپے کے قائل نہیں لیکن یاروں کے یار ہیں لہذا کبھی کبھی ہمارے ساتھ دوڑ بھاگ لیا کرتے ہیں۔ مگر جب سے پچھلی بار کے ٹریل رن (پہاڑی راستوں اور جنگلات کی دوڑ)‌ میںچند مستورات فرنگ نے انکے کندھوں کے سہارے سے دریا پار کئے ہیں، اب یہ شہری میراتھن میں بھی دریاوں کی موجودگی پر اصرار کرتے ہیں۔ منتظمین کا کہنا ہے کہ یہ ممکن نہیں، دیکھیں یہ بیل کیسے منڈھے چڑھتی ہے۔
خوش شکل آدمی ہیں، شب دیجور کی پھبتی حاسدوں کی سازش ہے، ان نامرادوں کا منہ کالا۔ اسی وجاہت کی بنا پر شائد اسی بنا پر جامعہ کراچی میں کلاس کی خواتین انہیں راشد بھائی کہ کر بلاتی تھی، شائد اس میں پیری و کہن سالی کا بھی کچھ دخل ہو پر راقم کو بہتان طرازی سے کیا لینا دینا۔
محترم ایپل کے بانی اسٹیو جابس کے بڑے معتقد ہے، انکو اپنا پیرومرشد مانتے ہیں کہ حضرت جابس کی تخلیق کردہ ہر چیز کو انتہائی ادب سے بھاری ہدیہ دے کر خریدتے ہیں اور قصر راشد کی زینت بناتے ہیں۔ اس جامع مجموعہ کی بنا پر ایپل والے ان کے گھر پر اپنا بورڈ لگانے لگے تھے کہ بڑی مشکل سے روکا گیا۔ تجدد کا پائے چوبیں کہ پسندیدہ مشروب ‘موکا’ کافی ٹھرا۔ پچھلی دفعہ معمول کے بلڈ ٹیسٹ میں کیفین کا تناسب اتنا تھا کہ اسے تحقیق کے لئے اسٹار بکس بھیجا گیا اورمحترم کو اعزازی رکنیت ملی۔
ریاست بہار سے تعلق کے باوجود بہت عمدہ اردو نثر لکھتے ہیں، بلکل پتا نہیں لگتا۔ ، جی ہاں کبھی کبھی سرقے کے بغیر بھی۔ اپنی شاعری کو امام دین اور میر کا سنگم قرار دیتے ہیں جس پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں بشرطیکہ ان کی تازہ غزل ہمیں نا سننی پڑئے۔ خود ہی کہا کرتے ہیں کہ “شاعری بچوں کے کھیلنے کی چیز نہیں۔۔”، مزید صرف بالغان کے لئے۔
راشد بھائ کا حافظہ نہائت عمدہ ہے، شعر اور ادھار کبھی نہیں بھولتے۔ ہم کبھی کوئئ شعر اٹک جائے تو انہیں ہی فون ملاتے ہیں۔ انکا ہمارا سامنا ابتداجامعہ کراچی میں ہوا اور ہم ان کے علم و فن کے گرویدہ ہو گئے۔ وسیع المطالعہ ہیں، کل ہی بتا رہے تھے کہ میبل اور میں کا پلاٹ‌ زرا ڈھیلا ہے اور میبل اصل میں ‘سویرے جو کل میری انکھ کھلی’ والے لالا کا بھائی تھا۔ سیاست اور دیگر  اس صنف کے تمام کاموں میں بائیں بازو کو ترجیح دیتے ہیں لیکن ہماری رائے میں‌ کلازٹ کنزرویٹو ہیں، باہرنکلنے کا انتظار ہے لیکن شاید ٹام کروز کے ساتھ اچھی جم رہی ہے۔
ً
ہم چونکہ انکے غیر معنوی لنگوٹیا ہیں اور انہیں جامعہ کے پواینٹ اغوا کرنے کے زمانے سے جانتے ہیں لہذا ہماری راے کو اس کم سخن، نابغہ روزگار ہستی کے بارے میں ہرگز درخور اعتنا نا گردانئے گا۔ آج کل محترمی روزی اور روزگار کے سلسلے میں بیرون ملک مقیم ہیں، حاسدوں کا کہنا ہے کہ اس میں روزگار کم اور روزی کا ہاتھ زیادہ ہے۔ شائد یہی منشا ہے کہ رومانیت کی علامت ہسپانوی زبان کے انتہائی رسیا ہیں. بلکل اہل زبان کی طرح بولتے ہیں اگر اہل زبان موجود نا ہوں اور جیسا کہ فراز نے کہا
زبان یار کیلاشی، ما از حرف بیگانہ
اس زمن میں ہمیں گالف والے چیتے اور اپیلیشین ٹریل کا کافی عمل دخل معلوم ہوتا ہے۔ بہرحال، ہمارے دائی شریک بھائی ہیں اور ہمیں نہایت عزیز۔ اسی لئے اس سے پہلے کہ کوئ اور ہجو معاف کیجیے گا تعارف لکھے، ہم نے ابتدا کی۔ اب یہ مضمون کا اختتام ہے اور یہاں پر عموما دیکھا گیا ہے کہ راقم کہے سنے کی معافی چاھتا ہے لیکن ادارہ اس زمن میں یہ کہے گا کہ اس تمام کی تمام یاوہ گوئی کا بھرپور ذمہ دار ہے اور اگر کسی قاری کو برا لگتا ہے تو لگا کرے۔
باقی یار زندہ صحبت باقی
Share

April 21, 2010

جون ایلیا اورعبید اللہ علیم- ‘ویران سرائے کا دیا’ کی تعارفی تقریب

Filed under: ادبیات — ابو عزام @ 10:32 pm

حصہ اول

حصہ دوم

حصہ سوم

Share

April 18, 2010

تہذیبی نرگسیت -ایک تہذیبی مرعوب کی سرگذشت کا اصولی جواب – حصہ دوم

Filed under: عمومیات — ابو عزام @ 11:36 pm
پچھلے حصہ میں ہم نے’تہذیبی نرگسیت’  کے بنیادی تضادات اور نصوص قطعیہ پر اس کے اعترضات پراجمالی روشنی ڈالی تھی ۔ اس قسط میں ہمارا منشا ہے کہ مذید تفصیل سے اس کی سطحیت کو اجاگر کریں ۔ اس زمن میں ہماری کوشش یہ ہوگی کہ مختصر پیرائے میں حصہ اول پر کئے جانے والے اعتراضات کا جواب دینے کے ساتھ ساتھ معروضی شکل میں اس کتاب کے اہم نکات کو بھی بیان کردیں۔
اس ‘فتنہ نرگسیت’ کی بنیادی اغلاط کا احاطہ ان پانچ نکات سے کیا جاسکتا ہے۔ راقم کا اس کتاب کے چیدہ چیدہ نکات نکال کر سیاق و سباق کے بغیر نقل کر کہ اس کی تضحیک کرنا مقصد نہیں لہذا اپنی تشفی کے لئے کتاب کا ملاحظہ ضرور کریں۔

١. اسلام مکمل ضابطہ حیات نہیں ہے – ‘ایک بنیادی دعوی جس پر کئی دوسرے دعووں کے محل تعمیر کئے گئے ہیں، یہ ہے کہ اسلام مکمل ضابطہ حیات ہےحالانکہ قران اور حدیث نے ایسا کوئی دعوی نہیں کیا ہے۔ یہ دعوی تہذیبی فخر کاے لئے قائم کئے گئے مفروضوں میں سے ہے۔۔۔’ صفحہ 96۔
٢.  “قران نے نظام مملکت پر کوئی ضابطہ نہیں دیا جو بے حد اہم موضوع ہے۔”  صفحہ 97
٣. ‘دوسرا بڑا مفروضہ جس پر تہذیبی نرگسیت کی بنیاد ہے، یہ ہے کہ اسلام کو ہر دوسرے دین پر غالب کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ قران و حدیث میں اس مفروضہ کی بھی کوئی بنیاد نہیں’ صفحہ 100
٤. نصوص میں تبدیلی کی اجازت:’۔۔۔عملا اسلامی معاشرہ شدید دباو اور دو دلی کا شکار ہے- جس کے باعث ریا کاری زوروں پر ہے۔ ۔ ایک طرف اسلامی قوانین اور اعتقاد ہیں جن میں‌علما کہ بقول کسی تبدیلی یا ترمیم کی گنجایش نہیں مثلا قتل، زنا، چوری اور دیگر فوجداری جرائم اور غلام لونڈی کی اجازت۔’ صفحہ 65
٥.  وحدت ادیان اور تہذیبوں کے ملاپ کا فلسفہ ‘حکمت اور پارسائی کا دعوی اگر تھوڑی دیر کے لئے چھوٹ دیا چاے تو لگے گا کہ یہ ترانہ سننے یا گانے سے کسی تہذیب یا دین کا تختی نہیں الٹ جاتا’ ص 86 اور ‘انسان کو روح کی کتنی غذا چاھئے؟ یعنی اگر عبادت ہی روح کی خوراک ہے تو کتنی عبادت؟ اسلام کے مطابق دن میں پانچ مرتبہ ایک مقررہ معمول کے مطابق عبادت اور رمضان میں اس سے کچھ اور زیادہ؟ ۔۔لیکن مسیحت میں ہفتہ وار اور ہندوں میں دن میں ایک بار دیوی دیوتا کے آگے حاضری یا پرنام روح کو تروتازہ کر دیتا ہے ص 114 ۔ “مذہب پر عمل کرنا اگر روحانیت ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ دنیا کہ چاروں مستعد مذاہب  کے عقائد اور عملیات میں اتنی شدید تفاوت کے کیا معنی ہیں؟۔۔۔ص 118
اگر قاری نےقران و حدیث کا سمجھ کر مطالعہ کیا ہو تو یہ تمام مفروضات آن واحد میں باطل نظرآتے ہیں ۔ راقم انشااللہان باطل عقائد و اعتراضات کا مرحلہ وار جواب دینے کی سعی کرئے گا لیکن اس سے پہلے حصہ اول کے اعتراضات پر مختصرا بات کی جائے۔
پہلا اعتراض جو اس زمن میں کیا گیا ہے وہ ‘بگ پکچر’ یا اس کتاب کے مکمل پیغام کو نا دیکھنا ہے۔ اس سلسلے میں ہم یہ عرض کرتے چلیں کہ اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے واضع احکامات اور اساس دین پر تنقید کرکے تجدید و اصلاح کی کوشش کرنا مسلم امتہ کی جڑیں کھوکھلی کرنا ہے۔ بلاشبہ اس کتاب میں خود تنقیدی کا جو درس دیا گیا ہے، خود انکساری کی جو حکمت پیش کی گئی ہے یا امت مسلمہ کو درپیش مسائل کاجو بیان ہے اس سے راقم بڑی حد تک متفق ہے لیکن بنیادی سوال یہ ہے آپ کا ایمان عقل اور تجربہ پر منتج ہے یا خدا اور اس کے رسول پر؟ اگر پہلی بات ہے تو آپ کو اسلام اور اسکی اصلاح سے کوئی واسطہ نہیں، اگر آپ کلام الہی کو لا ریب فیہ نہیں مانتے اور ایمان بلغیب کو قرون اولی  کی داستان سمجھتے ہیں تو آپکو مسلمان بن کر گفتگو کرنے اور اصلاح مسلمین کا بیڑا اٹھانے کی کیا غرض؟ اس کے علاوہ اگر اس کتاب کو ‘بٹوین دی لاینز’ پڑھا جائے تو آپ اس میں بتدریج الحاد، تشکیک، نیچریت، مادیت، مرعوبیت، وحدت ادیان اور دین سے عمومی بیزاری کی کیفیت متشرح ہوتے دیکھ سکتے ہیں۔ مضامین برائے روحانیت (صفحہ 114تا 122) اس زمن میں اہم ہیں کہ اس میں ‘آرگنایزڈ ریلیجن’ یا منظم مذہب سے بیزاری صاف ظاہر ہے اور دین کو ایک انفرادی معاملہ قرار دینے کی سعی لا حاصل کی گئی ہے۔
دوسرا اعتراض اختلاف کی حیثیت پر ہے کہ جناب یہاں ہم نے آپ کی بات سے اختلاف کیا اور جھٹ سے آپ نے ہمیں دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا۔ اس کا مطلب یہ کہ اسلام اختلاف کی الف تک بھی نا آنے دے۔ یہ بات بے بنیاد ہے۔معروضات پر اختلافات میں کوئ مسئلہ نہیں مگر اگر آپ نصوص قطعیہ یعنی قران و حدیث کو اپنی منشا کے مطابق تبدیل کرنا چاہیں تو اس کی قطعی اجازت کسی بھی دین میں نہیں دی جاسکتی۔  “مسلم‘ عقلی اور تجربی فوائد پر ایمان نہیں لاتا بلکہ خدا اور رسول پر ایمان لاتا ہے۔ اس کا مذہب یہ نہیں ہے کہ کسی چیز کا فائدہ عقل و تجربہ سے ثابت ہوجائے تب وہ اس کو قبول کرے اور کسی چیز کی مضرت عقلی و تجربی حیثیت سے مبرہن ہوجائے تب وہ اس سے اجتناب کرے بلکہ اس کا مذہب یہ ہے کہ جو حکم خدا اور رسول سے ثابت ہوجائے وہ واجب الاتباع ہے اور جو ثابت نہ ہو وہ قابل اتباع نہیں۔” ہر دین اپنی بالا دستی چاہتا ہے اور اپنے قوانین کی پاسداری کو ضروری گردانتا ہے۔اسلام چونکہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے لہذا اس کی بنیادی شرایط پر اعتراض ممکن نا ہوگا۔ اسکی چھوٹی سی مثال کسی ایسے ملک کی شہریت لینے سے ثابت ہوتی ہے جہاں ملٹری سروس یا کم از کم اس پر آمادگی لازمی ہومثلا جنوبی کوریا، امریکہ وغیرہ۔ اگر آپ امریکہ کے شہری بننا چاہتے ہیں تو آپکو اس بات کا حلف لینا ہوگا کہ آپ اس کی حفاظت کے لئے وقت پڑنے پر ہتھیار اٹھائیں گےورنہ اس کا نتیجہ قید و بند کی صورت میں نکلے گا۔ بلکل اسی طرح دین اسلام صرف ایک مذہب یا عبادات کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک نظام حیات , دین یا مکمل ضابطہ حیات ہے جو اپنی مکمل اطاعت کاتقاضہ کرتا ہے اور اس کے بنیادی قوانین سے اختلاف قابل تعزیر فعل ہے۔
3۔ منقولات چہ معنی؟ : تیسرا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ یہ منقولات بیان کرنا اور علمی استدلال سے بات نا کرنا کج بحثی کی دلیل ہے۔ میرا ان حضرات سے یہ کہنا ہے کہ اس زمن میں موصوف، صاحب کتاب کے بارے میں کیا خیال ہے کہ جنہوں نے دعوی اصلاح مسلمین کا کیا ہے اور اپنا فریمورک لبرل نرگسیت ٹہرایا ہے۔ میں تو صرف انہیں اسلام کے بنیادی ماخذ جو متفق علیہ ہے،  سے جواب دینے کی کوشش کر رہا ہوں تو آپ سے ملائیت پر محمول کرتے ہیں۔ اگر آپ کو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں قرون اولی کے قصےلگتے ہیں تو میں تو اسے آپکی عقل کا فتور ہی ٹھراوں گا ۔ فرنگ سے ادھار لی گئی عقلیت کے لئے ہی قران و حدیث کی سند کسی بات کو قوی کرنے کے بجائے کمزور کرنے کا باعث بنتی ہے۔
چوتھا اعتراض اس مظمون کی طوالت اور حوالہ جات یا اقتباسات کے بارے میں تھا جس کے بارے میں احقر صرف یہی کہ سکتا ہے کہ یہ طوالت اس موضوع کا تقاضا ہے نیز اگر کسی اور عالم نے اس ضمن میں کما حقہ جواب دے رکھا ہوتو راقم اس کو دوبارہ اپنے الفاظ میں بیان کرنے سے اقتباس کرنے کو بہتر سمجھتا ہے۔
اگر صاحب کتاب کا مقصد اصلاح ٹھرا تھا تو اسلام کی بنیادی تعلیمات کو تنقید کا نشانہ بنانااور اسکے آفاقی دین اور ضابطہ حیات ہونے پر شکوک و شبہات کا آظہار کرنے کے کیا معنی ہیں؟ موجودہ زمانے میں‌ مسلمانوں کے اجتماعی مسائل کا حل مغربی اقوام کی تقلید میں تلاش کرنا کسی مرعوب ذہن کے لئے تو ممکن ہو سکتا ہے لیکن کسی ایسے مسلمان کے لئے نہیں جو اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کو اپنی اور امت مسلمہ کی نجات کا ذریعہ جانتا ہو۔
مبارک حیدر صاحب کے اعترضات بجا کہ آج مسلمان قول و عمل کے تضاد کا شکار ہیں۔ دین اسلام کی روح پر عمل نا کرنے کی وجہ سے ہماری کثیر عددی طاقت کے با وجود آج مسلمانوں کی حالت دنیا کے ملکوں میں دگرگوں ہے۔ لیکن کیا یہی وہ حالت نہیں جس کے بارے میں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔
عنقریب (کافر ) قومیں تمہارے خلاف اس طرح جمع ہو جائیں گی جس طرح بھوکے کھانے کے برتن پر جمع ہو جاتے ہیں ۔ ہم نے دریافت کیا: کیا اس وقت ہم تعداد میں بہت تھوڑے ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: ( نہیں) بلکہ ان دنوں تمہاری تعداد بہت زیادہ ہو گی لیکن تم سیلاب کے جھاگ کی طرح ہو جاؤ گے اور اللہ تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہارے رعب اور دبدبے کو نکال کر تمہارے دلوں میں (کمزوری) وھن ڈال دے گا۔ ہم نے پوچھا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ! یہ وہن کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا : دنیا سے محبت اور موت سے نفرت“
(احمد 350/5، ابوداود: کتاب الفتن والملاحم (4297)
اسی زمن میں میں نعیم صدیقی مرحوم کا یہ اقتباس پیش کرنا چاہوں گا۔
Naeem Siddiqi
اب ہم پہلے نقطہ اعتراض پر بات کریں گے جس کے بارے میں صاحب کتاب کا کہنا ہے کہ ۔ اسلام مکمل ضابطہ حیات نہیں ہے – ‘ایک بنیادی دعوی جس پر کئی دوسرے دعووں کے محل تعمیر کئے گئے ہیں، یہ ہے کہ اسلام مکمل ضابطہ حیات ہےحالانکہ قران اور حدیث نے ایسا کوئی دعوی نہیں کیا ہے۔ یہ دعوی تہذیبی فخرکے لئے قائم کئے گئے مفروضوں میں سے ہے۔۔۔’ صفحہ 96۔
نیز مزید  آپ کہتے ہیں کہ ‘مسلمانوں کو بھی یہ حق حاصل تھا کہ فاتح تہذیب کی حیثیت سے اپنے نظریہ حیات کو مکمل ضابطہ حیات کہتے – لیکن یہ سب زراعتی معاشروں کے دور تک ممکن تھا’صفحہ 96۔
یہ باتیں ایسے دیوانے کی بڑ سے زیادہ نہیں کہ جو اسلام کا مارٹن لوتھر کنگ بننا چاھتا ہو لیکن اسے اسلام کی بنیادی اصطلاحات سے کوئی غرض نہ ہو۔
اسلام دین اور مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اس بات میں قران مجید کی تصریحات بالکل صاف ہیں۔ مکمل ضابطہ حیات ہونے کا دعوی کرنے والا ہی یہ بات کہ سکتا ہے کہ جب کسی معاملہ میں خدا اور رسول کا حکم آجائے تو مومنوں کو ماننے یا نہ ماننے کا اختیار باقی نہیں رہتا۔
ترجمہ: کسی مومن مرد اور عورت کو یہ حق نہیں کہ جب کسی معاملہ میں اللہ اور اس کا رسول فیصلہ کردے تو ان کے لیے اپنے اس معاملہ میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار باقی رہے۔ جس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی وہ کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا ہوگیا (الاحزاب 36)
ایک ایسا دین ہی جو مکمل ضابطہ حیات ہونے کا مدعی ہو کہتا ہے کہ فیصلہ صرف کتاب الہیٰ کے مطابق ہونا چاہیئے۔ خواہ وہاں لوگوں کی خواہشات کے مطابق ہو یا نہ ہو۔
ترجمہ: تو ان کے درمیان اسی کتاب کے مطابق فیصلہ کر جو اللہ نے اتاری ہے اور جو حق تیرے پاس اللہ کی طرف سے آیا ہے اس کو چھوڑ کر ان کی خواہشات کی پیروی نہ کر۔ (المائدہ 56)
اور وہی دین‌ کہتا ہے کہ کتاب اللہ میں سے کچھ کو ماننا اور کچھ کو رد کردینا۔ دنیا اور آخرت میں رسوا کن ہے۔
ترجمہ: کیا تم کتاب کی بعض باتوں کو مانتے ہو اور بعض کو نہیں مانتے؟ تم میں سے جو کوئی ایسا کرتا ہے اس کی سزا بجزا اس کے اور کچھ نہیں ہے کہ دنیا کی زندگی میں اس کے رسوائی ہو اور آخرت میں ایسے لوگ شدید ترین عذاب کی طرف پھیردئیے جائیں گے۔ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے غافل نہیں ہے۔ (البقرہ 85)
مزید براں فرمایا کہ
وہ کہتا ہے کہ اے ایمان لانے والو‘ اللہ اور اس کے رسول اور اپنے اولی الامر کی اطاعت کرو اور اگر تم حقیقت میں اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتے ہو تو جس کسی معاملہ میں تمہارے درمیان نزاع پیدا ہو، اس کے لیے اللہ اور اس کے رسول کی طرف رجوع کرو۔ یہی بہتر طریقہ ہے اور انجام کے اعتبارسے بھی یہی اچھا ہے۔ کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ایمان لائے ہیں اس کتاب پر جو تیری جانب بھیجی گئی ہے اور ان کتابوں پر جو تجھ سے پہلے بھیجی گئی تھیں مگر چاہتے ہیں کہ خدا کے نافرمان انسان کو اپنے معاملہ میں حکم بنائیں حالاں کہ انہیں اس کے چھوڑدینے کا حکم دیا گیا ہے اور شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ انہیں بھٹکا کر راہ راست سے دور ہٹالے جائے۔ جب کبھی ان سے کہا گیا کہ آﺅ اس کتاب کی طرف جو اللہ نے ا تاری ہے اور آﺅ رسول کی طرف تو تو نے منافقین کو دیکھا کہ وہ تجھ سے کنی کاٹا جاتے ہیں…. ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے، اس لیے بھیجا ہے کہ کہ حکم الہیٰ کے مطابق اس کی اطاعت کی جائے…. نہیں! تیرے پردوردگار کی قسم وہ ہرگز بھی کافی نہیں ہے۔ ضروری ہے کہ جو فیصلہ تو کرے اس پر وہ اپنے دل میں کسی قسم کی تنگی بھی محسوس نہ کریں اور بے چون و چرا اس کےآگے سرجھکادیں۔“ (النساء۸‘۹)
اب کوئی یہ کہے کہ ان تمام منقولات سے کتاب کی اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ذندگی میں تو ثابت ہوتی ہے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد نہیں تو پھر اس فرد کی عقل پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے کہ اس نے اسلام کی آفاقیت اور ہمیشگی کی دلیل نہیں دیکھی۔

۱:… ”الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا۔“ (المائدہ:۳)
ترجمہ:… ”آج کے دن میں نے تمہارا دین مکمل کردیا اور تم پر نعمت تمام کردی اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسند کیا۔“

۲:… ”و من یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ‘ و ھو فی الآخرة من الخاسرین۔“ (آل عمران:۸۵)
ترجمہ:… ”اور جو شخص اسلام کے علاوہ کسی دوسرے دین و مذہب کو اپنائے گا‘ اللہ کے ہاں اسے قبولیت نصیب نہیں ہوگی اور وہ آخرت میں خسارہ میں ہوگا۔“

یہ فکر کہ اسلام مکمل ضابطہ حیات نہیں صرف مبارک حیدر صاحب پر ہی منتج نہیں بلکہ دیگر تجدد پسند مرعوبیت اور لبرل نرگسیت کے علمبرداروں میں‌بھی یہ رواج عام ہے۔ مثلا اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر خالد مسعودفرماتے ہیں کہ اسلام مکمل ضابطہ حیات نہیں ہے یہ مولانا مودودی کی فکر تھی‘ اسلام صرف مکمل دین ہے اسے مکمل ضابطہ حیات کہنا درست نہیں اس کے معنی دوسرے ہیں‘ (روز نامہ نوائے وقت کراچی، ۷ /نومبر ۲۰۰۷ء ص:۸)
تو اگراسلام مکمل ضابطہٴ حیات نہیں ہے تو وہ مکمل دین کیونکر ہوسکتا ہے؟ اسلئے کہ خود اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:

”ان الدین عنداللہ الاسلام“ (آلِ عمران: ۱۹)
بے شک دین اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسلام ہے
اگر اسلام دین مکمل نہیں تو پھر ناقص ٹھرا کہ اسے اپنے نفاذ کے لئے کسی اور دین یا نظریہ حیات کا سہارا لینا پڑے گا۔ کیا یہ ممکن ہے کہ دین مغرب، دین پادشاہی یا دین الحاد یا کوئی بھی اور نظام اس بات کی اجازت دے کہ اسلام کو مکمل طور پراختیار کیا جاے؟ اس سے بڑا سوال یہ اٹھتا ہے کہ دین و مذہب، اپنے ماننے والوں کو مکمل ضابطہٴ حیات فراہم نہ کرتا ہو وہ قابلِ تقلید اور لائقِ اقتداء ہے؟  بالفرض اگر اسلام مکمل ضابطہٴ حیات نہیں تھا تو کیا یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرض نہ تھا کہ وہ اپنی امت کو بتلاتے کہ اسلام میں فلاں فلاں جگہ نقص اور کمی ہے، اور اس کی تکمیل کے لئے فلاں فلاں دین و مذہب اور قانون و دستور سے مدد لی جائے؟ مگر دنیائے اسلام جانتی ہے کہ آقائے دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی کسی قسم کی کوئی نشاندہی نہیں فرمائی، تو کیا کہا جائے کہ …نعوذباللہ… آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کے ساتھ خیانت کی ہے؟ کیا ایسا کہنا سمجھنا یا سوچنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت و نبوت کے انکار کے مترادف نہیں؟(‬۲۰۰۷ ماہنامہ بینات, ذوالحجہ۱۴۲۸ھ جنوری۲۰۰۸ء, جلد 70, شمارہ)
اس حصہ کا اختتام سید مودودی کے مندرجہ زیل اقتباس سے کرتا ہوں جو کہ اس ‘فتنہ نرگسیت’ کے تجدد پر اتمام حجت کرتا ہے اور راقم کو ‘ری انونٹنگ دی وہیل’ کی حاجت نہیں ۔انشااللہ اگلے حصہ میں غلبہ اسلام کے متعلق اٹھا ئے گئے سوالات پر گفتگو کی جائے گی۔
ہمارے روشن خیال اور تجدد پسند” حضرات جب کسی مسئلہ پر گفتگو فرماتے ہیں تو ان کی آخری حجت جو ان کے نزدیک سب سے قوی حجت ہوتی ہے یہ ہوتی ہے کہ زمانے کا رنگ یہی ہے۔ ہوا کا رخ اسی طرف ہے۔ دنیا میں ایسا ہی ہورہا ہے۔ پھر ہم اس کی مخالفت کیسے کرسکتے ہیں۔ اور مخالفت کرکے زندہ کیسے رہ سکتے ہیں۔ اخلاق کا سوال ہو ۔ وہ کہیں گے کہ دنیا کا معیار اخلاق بدل چکا ہے۔ مطلب یہ نکلا کہ مسلمان اس پرانے معیار اخلاق پر کیسے قائم رہیں؟ پردے پر بحث ہو ارشاد ہوگاکہ دنیا سے پردہ اٹھ چکا ہے۔ مراد یہ ہوئی کہ جو چیز دنیا سے اٹھ چکی اس کو مسلمان کیسے نہ اٹھائیں۔ تعلیم پر گفتگو ہو۔ ان کی آخری دلیل یہ ہوگی کہ دنیا میں اسلامی تعلیم کی مانگ ہی نہیں۔ مدعا یہ کھلا کہ مسلمان بچے وہ جنس بن کر کیسے نکلیں جس کی مانگ ہی نہیں۔ اور وہ مال کیوں نہ بنیں جس کی مانگ ہے۔ سود پر تقریر ہو۔ ٹیپ کا بند یہ ہوگا کہ اب دنیا کاکام اس کے بغیر نہیں چل سکتا۔ گویا مسلمان کسی ایسی چیز سے احتراز کیسے کرسکتے ہیں جو اب دنیا کا کام چلانے کے لیے ضروری ہوگئی ہے۔ غرض یہ کہ تمدن‘ معاشرت‘ اخلاق‘ تعلیم‘ معیشت‘ قانون‘ سیاست اور زندگی کے دوسرے شعبوںمیں سی جس شعبے میں بھی وہ اصول اسلام سے ہٹ کر فرنگیت کا اتباع کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے زمانے کا رنگ اور ہوا کا رخ اور دنیا کی رفتار وہ آخری حجت ہوتی ہے جو اس تقلید مغربی یا درحقیقت اس جزوی ارتداد کے جوار پر برہان قاطع سمجھ کر پیش کی جاتی ہے۔ اور خیال کیا جاتا ہے کہ عمارت اسلامی کے اجزاءمیں سے ہر اس جز کوساقط کردینا فرض ہے جس پر اس دلیل سے حملہ کیا جائے۔
ہم کہتے ہیں کہ شکست وریخت کی یہ تجویزیں جن کو متفرق طور پر پیش کرتے ہو‘ ان سب کو ملا کر ایک جامع تجویز کیوں نہیں بنالیتے؟ مکان کی ایک ایک دیوار‘ ایک ایک کمرہ اور ایک ایک دالان کو گرانے کی علیحدہ علیحدہ تجویزیں پیش کریں‘ اور ہر ایک پر فرداً فرداً بحث کرنے میں فضول وقت ضائع ہوتا ہے۔ کیوں نہیں کہتے کہ یہ پورا مکان گرا دینے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ اس کا رنگ زمانے کے رنگ سے مختلف ہے۔ اس کا رخ ہوا کے رخ سے پھرا ہوا ہے اور اس کی وضع ان مکانوں سے کسی طرح نہیں ملتی جواب دنیا میں بن رہے ہیں۔
جن لوگوں کے حقیقی خیالات یہی ہیں ان سے تو بحث کرنا فضول ہے۔ ان کی لیے تو صاف اور سیدھا جواب یہی ہے کہ اس مکان کو گرانے او راس کی جگہ دوسرا مکان بنانے کی آپ زحمت کیوں اٹھاتے ہیں؟ جو دوسرا خوش وضع‘ خوشنما اور خوش رنگ مکان آپ کو پسند آئے اس میں تشریف لے جائیے۔ اگر دریا کے دھارے پر بہنے کا شوق ہے تو اس کشتی کا لیبل کھرچنے کی تکلیف بھی کیوں اٹھائیے۔ جو کشتیاں پہلے سے بہہ رہی ہیں انہی میں سے کسی میں نقل مقام فرما لیجئے جو لوگ اپنے خیالات اپنے اخلاق‘ اپنی معاشرت‘ اپنی معیشت‘ اپنی تعلیم‘ غرض اپنی کسی چیز میں بھی مسلمان نہیں ہیں اور مسلمان رہنا نہیں چاہتی ان کے برائے نام مسلمان رہنے سے اسلام کا قطعاً کوئی فائدہ نہیں بلکہ سراسر نقصان ہے۔ وہ خدا پرست نہیں‘ ہوا پرست ہیں‘ اگر دنیا میں بت پرستی کا غلبہ ہوجائے تو یقیناً وہ بتوں کو پوجیں گے اگر دنیا میں برہنگی کا رواج عام ہوجائے تو یقیناً وہ اپنے کپڑے اتار پھینکیں گے۔ اگر دنیا نجاستیں کھانے لگے تویقیناً وہ کہیں گے کہ نجاست ہی پاکیزگی ہے اور پاکیزگی تو سراسر نجاست ہے۔ ان کے دل اور دماغ غلام ہیں اور غلامی ہی کے لیے گھڑے گئے ہیں۔ آج فرنگیت کا غلبہ ہے اس لیے اپنے باطن سے لے کر ظاہر کے ایک ایک گوشے تک وہ فرنگی بننا چاہتے ہیں۔ کل اگر حبشیوں کا غلبہ ہوجائے تو یقیناً وہ حبشی بنیں گے۔ اپنے چہروں پر سیاہیاں پھیریں گے۔ اپنے ہونٹ موٹے کریں گے۔ اپنے بالوں میں حبشیوں کے سے گھونگھر پیدا کریں گے۔ ہر اس شے کی پوجا کرنے لگیں گے۔ جو حبش سے ان کو پہنچے گی۔ ایسے غلاموں کی اسلام کو قطعاً ضرورت نہیں۔ بخدا اگرکروڑوں کی مردم شماری میں سے ان سب منافقوں اور غلام فطرت لوگوں کے نام کٹ جائیں اور دنیا میں صرف چند ہزار وہ مسلمان رہ جائیں جن کی تعریف یہ ہو کہ یُّحِبُّہُمْ وَیُحِبُّوۡنَہٗۤ ۙ اَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیۡنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الْکٰفِرِیۡنَ ۫ یُجَاہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ وَلَا یَخَافُوۡنَ لَوْمَۃَ لَآئِمٍ (المائدہ , 54)تو اسلام اب سے بدرجہا زیادہ طاقتور ہوگا اور ان کروڑوں کا نکل جانا اس کے حق میں ایسا ہوگا جیسے کسی مریض کے جسم سے پیپ اور کچ لہو نکل جائے۔
نَخْشٰۤی اَنۡ تُصِیۡبَنَا دَآئِرَۃٌ ؕ (المائدہ , 52)
ہم کو خوف ہے کہ ہم مصیبت آجائے گی۔
یہ آج کوئی نئی آواز نہیں بہت پرانی آواز ہے۔ جو منافقوں کی زبان سے بلند ہوتی رہی ہے۔ یہی آواز نفاق کی اس بیماری کا پتہ دیتی ہے جو دلوں میں چھپی ہوئی ہے۔ اسی آواز کو بلند کرنے والے ہمیشہ مخالفین اسلام کے کیمپ کی طرف لپکتے رہے ہیں۔ ہمیشہ سے انہوں نے اللہ کی قائم کی ہوئی حدوں کو پاﺅں کی بیڑیاں اور گلے کا طوق ہی سمجھا ہے۔ ہمیشہ سے ان کو احکام خدا و رسول کا اتباع گراں ہی گزرتا ہے۔ اطاعت میں جان ومال کا ضیاع اور نافرمانی میں حیات دنیا کی ساری کامرانیاں ہمیشہ سے ان کو نظر آتی رہی ہیں۔ پس ان کی خاطر خدا کی شریعت کو نہ ابتداءمیں بدلا گیا تھا‘ نہ اب بدلا جاسکتا ہے اور نہ کبھی بدلا جائے گا۔ یہ شریعت بزدلوں اور نامردوں کے لیے نہیں اتری ہے۔ نفس کے بندوں اور دنیا کے غلاموں کے لیے نہیں اتری ہے۔ ہوا کے رخ پر اڑنے والے خش و خاشاک‘ اور پانی کے بہاﺅ پر بہنے والے حشرات الارض اور ہر رنگ میں رنگ جانے والے بے رنگوں کے لیے نہیں اتری ہے۔ یہ ان بہادر شیروں کے لیے اتری ہے جو ہوا کا رخ بدل دینے کا عزم رکھتے ہیں۔ جو دریاﺅں کی روانی سے لڑنے اور اس کے بہاﺅ کو پھیر دینے کی ہمت رکھتے ہیں۔ جو صبغتہ اللہ کو دنیا کے ہر رنگ سے زیادہ محبوب رکھتے ہوں اور اسی رنگ میں تمام دنیا کو رنگ دینے کا حق رکھتے ہوں۔ مسلمان جس کا نام ہے وہ دریا کے بہاﺅ پر بہنے کے لیے پیدا ہی نہیں کیا گیا ہے۔ اس کی آفرینیشن کا تو مقصد ہی یہ ہے کہ زندگی کے دریا کو اس پر رواں کردے جو اس کے ایمان و اعتقاد میں راہ راست ہے۔ صراط مستقیم ہے۔ اگر دریا نے اپنا رخ اس راستہ سے پھیر دیا تو اسلام کے دعوے میں وہ شخص جھوٹا ہے۔ جو اس بدلے ہوئے رخ پر بہنے ک لیے راضی ہوجائے۔ حقیقت میں جو سچا مسلمان ہے وہ اس غلط رو دریا کی رفتار سے لڑے گا۔ اس کا رخ پھیرنے کی کوشش میں اپنی پوری قوت صرف کردے گا۔ کامیابی اور ناکامی کی اس کو قطعاً پرواہ نہ ہوگی۔ وہ ہر اس شخص کو گوارا کرلے گا جو اس لڑائی میں پہنچے یا پہنچ سکتا ہو۔ حتیٰ کہ اگر دریا کی روانی سے لڑتے لڑتے اس کے بازو ٹوٹ جائیں۔ اس کے جوڑ بند ڈھیلے ہوجائیں اور پانی کی موجیں اس کو نیم جان کرکے کسی کنارے پر پھینک دیں تب بھی اس کی روح ہر گز شکست نہ کھائے گی۔ ایک لمحہ کے لیے بھی اس کے دل میں اپنی اس ظاہری نامرادی پر افسوس یا دریا کی رو پر بہنے والے کافروں یا منافقوں کی کامرانیوں پر رشک کا جذبہ راہ نہ پائے گا۔
قرآن تمہارے سامنے ہے۔ انبیاءعلیہم السلام کی سیرتیں تمہارے سامنے ہیں ۔ ابتداءسے لے کر آج تک علمبرداران اسلام کی زندگی تمہارے سامنے ہیں۔ کیا ان سب سے تم کو یہی تعلیم ملتی ہے کہ ہوا جد ھر اڑائے ادھر اڑ جاﺅ؟ پانی جدھر بہائے ادھر بہہ جاﺅ؟ زمانہ جو رنگ اختیار کرے اسی رنگ میں رنگ جاﺅ؟ اگر مدعا یہی ہوتا تو کسی کتاب کے نزول اور کسی نبی کی بعث کی ضرورت ہی کیا تھی۔ ہوا کی موجیں تمہاری ہدایت کے لیے اور حیات دنیاکا بہاﺅ تمہاری رہنمائی کے لیے اور زمانے کی نیرنگیاں تمہیں گرگٹ کی روش سکھانے کے لیے کافی تھیں۔ خدا نے کوئی کتاب ایسی ناپاک تعلیم دینے کے لیے نہیں بھیجی اور نہ اس غرض کے لیے کوئی نبی مبعوث کیا۔ ذات حق کی طرف سے تو جو پیغام آیا ہے۔ اس لیے آیا ہے کہ دنیا جن غلط راستوں پر چل رہی ہے ان سب کو چھوڑ کر ایک سیدھا راستہ مقرر کرے۔ اس کے خلاف جتنے راستے ہوں ان کو مٹائے اور دنیا کو ان سے ہٹانے کی کوشش کرے‘ ایمانداروں کی ایک جماعت بنائے جو نہ صرف خود اس سیدھے راستے پر چلیں بلکہ دنیا کو بھی اس کی طرف کھینچ لانے کی کوشش کریں۔ انبیاءعلیہم السلام اور ان کے متبعین نے ہمیشہ اسی غرض سے جہاد کیا ہے۔ اس جہاد میں اذیتیں اٹھائی ہیں۔ نقصان برداشت کیے ہیں۔ اور جانیں دی ہیں۔ ان میں سے کسی نے مصائب کے خوف یا منافع کے لالچ سے رفتار زمانہ کو کبھی اپنا مقتدا نہیں بنایا۔ اب اگر کوئی شخص یا کوئی گروہ ہدایت آسمان کے بتائے ہوئے راستہ پر چلنے میں نقصان اور مشکلات اور خطرات دیکھتا ہے اور ان سے خوفزدہ ہوکر کسی ایسے راستے پر جانا چاہتا ہے جس پر چلنے والے اس کو خوشحال‘ کامیاب اور سربلند نظر آتے ہیں تو وہ شوق سے اپنے پسندیدہ راستے پر جائے۔ مگر وہ بزدل اور حریص انسان اپنے نفس کو دنیا کو یہ دھوکہ دینے کی کوشش کیوں کرتا ہے کہ وہ خدا کی کتاب اوراس کے نبی کے  بتائے ہوئے طریقے کو چھوڑ کر بھی اس کا پیرو ہے؟ نافرمانی خود ایک بڑا جرم ہے۔ اس پرجھوٹ اور فریب اور منافقت کا اضافہ کرکے آخر کیا فائدہ اٹھانا مقصود ہے۔؟
یہ خیال  کہ زندگی کا دریا جس رخ پربہہ گیا اس سے وہ پھیرا نہیں جاسکتا عقلاً بھی غلط ہے اور تجربہ ومشاہدہ بھی اس کے خلاف گواہی دیتا ہے۔ دنیا میں ایک نہیں سینکڑوں انقلاب ہوئے ہیں اور ہر انقلاب نے اس دریا کے رخ کو بدلا ہے۔ اس کی سب سے زیادہ نمایاں خود اسلام ہی میں موجود ہے۔ محمد جب دنیا میں تشریف لائے تو زندگی کا دریا کس رخ پر بہہ رہا تھا؟ کیا تمام دنیا پر کفرو شرک کا غلبہ نہ تھا؟ کیا استبداد اور ظلم کی حکومت نہ تھی؟ کیا انسانیت کو طبقات کی ظالمانہ تقسیم نے داغدار نہ بنا رکھا تھا؟ کیا اخلاق پر خواحش‘ معاشرت پر نفس پرستی‘ معیشت پر ظالمانہ جاگیرداری و سرمایہ داری اور قانون کی بے اعتدالی کا تسلط نہ تھا۔ مگر ایک تن واحد نے اٹھ کر تمام دنیا کو چلینج دے دیا۔ تمام ان غلط خیالات اور غلط طریقوں کو رد کردیا جو اس وقت دنیا میں رائج تھے۔ ان سب کے مقابلہ میں اپنا ایک عقیدہ اور اپنا ایک طریقہ پیش کیا اور چند سال کی مختصر مدت میں اپنی تبلیغ اور جہاد سے دنیا کے رخ کو پھیر کر اور زمانہ کے رنگ کو بدل کر چھوڑا۔
تازہ ترین مثال اشتراکی تحریک کی ہے۔ انیسویں صدی میں سرمایہ داری کا تسلط اپنی انتہا کو پہنچ چکا تھا۔ کوئی بزدل مرغ باد نما اس وقت یہ تصور بھی نہ کرسکتا تھا۔ کہ جو نظام ایسی ہولناک سیاسی اور جنگی قوت کے ساتھ دنیا پر مسلط ہے اس کو الٹ دینا بھی ممکن ہے۔ مگر انہی حالات میں ایک شخص کارل مارکس نامی اٹھا اور اس نے اشتراکیت کی تبلیغ شروع کی۔ حکومت نے اس کی مخالفت کی‘ وطن سے نکالا گیا۔ ملک ملک کی خاک چھانتا پھرا۔ تنگ دستی اور مصیبت سے دوچار ہوا۔ مگر مرنے سے پہلے اشتراکیوں کی ایک طاقت ور جماعت پیدا کرگیا۔ جس نے چالیس سال کے اندر نہ صرف روس کی سب سے زیادہ خوفناک طاقت کو الٹ کر رکھ دیا بلکہ تمام دنیا میں سرمایہ داری کی جڑیں ہلا دیں اور اپنا ایک معاشی اور تمدنی نظریہ اس قوت کے ساتھ پیش کیا کہ آج دنیا میں اس کے متبعین کی تعداد روز بروز بڑھتی چلی جارہی ہے۔ اور ان ممالک کے قوانین بھی اس سے متاثر ہورہے ہیں جن پر سرمایہ داری کی حکومت گہری جڑوں کے ساتھ جمی ہوئی ہے۔
مگر انقلاب یا ارتقاءہمیشہ قوت ہی کے اثر سے رونما ہوا ہے۔ اور قوت ڈھل جانے کا نام نہیں ڈھال دینے کا نام ہے۔ مڑجانے کو قوت نہیں کہتے۔ موڑد ینے کو کہتے ہیں۔ دنیا میں کبھی نامردوں اور بزدلوں نے کوئی انقلاب پیدا نہیں کیا۔ جو لوگ اپنا کوئی اصول‘ کوئی مقصد حیات‘ کوئی نصب العین نہ رکھتے ہوں جو بلند مقصد کے لیے قربانی دینے کا حوصلہ نہ رکھتے ہوں۔ جن کو دنیا میں محض آسائش اور سہولت ہی مطلوب ہو۔ جو ہر سانچے میںڈھل جانے اور ہر دباﺅ سے دب جانے والے ہوں۔ ایسے لوگوں کا کوئی قابل ذکر کارنامہ انسانی تاریخ میں نہیں پایا جاتا۔ تاریخ بنانا بہادر مردوں کاکام ہے۔ انہی نے اپنے جہاد اور اپنی قربانیوں سے زندگی کے دریا کا رخ پھیرا ہے۔ دنیا کے خیالات بدلے ہیں۔ مناہج عمل میں انقلاب برپا کیا ہے۔ زمانے کی رنگ میں رنگ جانے کی بجائے زمانے کو خود اپنے رنگ میں رنگ کر چھوڑا ہے۔
پس یہ نہ کہو کہ دنیا جس راستہ پر جاری ہے اس سے وہ پھیری نہیں جاسکتی اور زمانے کی جو روش ہے اس کا اتباع کیے بغیر چارہ نہیں ۔ مجبوری کا جھوٹا دعویٰ کرنے کی بجائے تم کو خود اپنی کمزوری کا سچا اعتراف کرنا چاہیے اور جب اس کا اعتراف کرلو گے تو تم کو یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ کمزور کے لیے دنیا میں نہ کوئی مذہب ہوسکتا ہے‘ نہ کوئی اصول اور نہ کوئی ضابطہ اس کو تو ہر زور آور سے دبنا پڑے گا۔ ہر طاقتور کے آگے جھکنا پڑے گا۔ ۔ وہ کبھی اپنے کسی اصول اور کسی ضابطہ کا پابند نہیں ہوسکتا۔ اگر کوئی مذہب اس کے لیے اپنے اصول بدلتا چلا جائے تو وہ سرے سے کوئی مذہب ہی نہ رہے گا۔

Share

الرحيق المختوم کا مختصر تعارف

Filed under: مذہب — ابو عزام @ 12:49 am
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ سبحان تعالی نے تمام دنیا کے لئے رحمت بنا کر بھیجا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور بہت کچھ لکھنا باقی ہے لیکن صفي الرحمن المباركپوری کی کاوش، ‘الرحيق المختوم’ سیرت طیبہ پر ایک نہایت عمدہ اضافہ ہے اور ہر عاشق رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک انمول تحفہ۔
الرحيق المختوم کی کو حياة الرسول صلى الله عليه وسلم کے  موتمر العالم السلامی (مسلم ورلڈ لیگ) کے تحت  ١٩٧٩ میں منعقد ہونے والےعالمی مقابلہ میں پہلا انعام ملا۔ یہ کتاب اپنی سلاست و روانی کے ساتھ ساتھ تاریخی پس منظر کو سیرت طیبہ کے ساتھ پرو کر بیان کرنے کے حوالے سے بہترین علمی شاہکار کا درجہ رکھتی ہے۔ جدید قاری جو خصوصا مغربی کتابوں کے مدلل اور حوالہ جاتی انداز بیان سے محسور ہوتا ہے، ابو ہِشام کی الرحيق المختوم اس کے لئے بہترین زاد راہ ہے۔
یہ کتاب عربوں کی طویل تاریخ کوبہترین، مختصر اور پراثر پیراے میں بیان کرتے ہوے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے وقت سرزمین عرب کے حالات کا جس علمی انداز میں نقشہ کھینچتی ہے وہاں حالی کا مسدس چراغ دکھاتا معلوم ہوتا ہے۔ ابتدائیا عربی زبان میں لکھی گئی اس کتاب کا دنیا کی بیشتر زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے ۔ کم و بیش  ٥٥٠ صفحات کی یہ کتاب سیرت طیبہ کے ابتدائی ماخذات سے استفاذہ کرتے ہوئے ایک ایسا علمی اور تاریخی پس منظر کھینچتی ہے کہ جس میں ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک داعی حق، سپاہ گر،منصف، مقرر، شہری، جرنیل، سپاہی، الفقروفخری حکمران، شوہراور دیگر کئی بشری کیفیات میں دیکھتے ہیں۔ یہ کتاب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ہے، محسن انسانیت کی زندگی جس نے ہمیشہ اپنے آپ کو انا بشر مثلکم کہا اور اس کتاب کو پڑھنے سے ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں پیش آنے والے ان واقعات کا پتا چلتا ہے جو کہ مافوق الفطرت انداز بیاں سے لکھی گئی کتابوں میں نہیں ملتے۔ اگر آپ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو من الحیث النبی اور من الحیث البشر جاننا چاہتے ہیں، اگر آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کن صعوبتوں سے گذر کر یہ دین آپ تک پہنچا ہے تو سیرت طیبہ کی اس کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔
کسی غمگسار کی محنتوں کا یہ خوب میں نے صلہ دیا
کہ جو میرے غم میں گھلا کیا اسے میں نے دل سے بھلا دیا
جو جمال روئے حیات تھا، جو دلیل راہ نجات تھا
اسی راہبر کے نقوش پا کو مسافروں نے مٹا دیا
میں تیرے مزار کی جالیوں ہی کی مدحتوں میں مگن رہا
تیرے دشمنوں نے تیرے چمن میں خزاں کا جال بچھا دیا
تیرے حسن خلق کی اک رمق میری زندگی میں نہ مل سکی
میں اسی میں خوش ہوں کہ شہر کے دروبام کو تو سجا دیا
تیرے ثور و بدر کے باب کے میں ورق الٹ کے گزر گیا
مجھے صرف تیری حکایتوں کی روایتوں نے مزا دیا
کبھی اے عنایت کم نظر! تیرے دل میں یہ بھی کسک ہوئی
جو تبسم رخ زیست تھا اسے تیرے غم نے رلا دیا
عنایت علی خاں-
سیرت طیبہ کی کتابیں بحوالہ وکیپیڈیا
السيرة النبوية لابن إسحاق.
السيرة النبوية لابن هشام.
الروض الأنف في تفسير سيرة ابن هشام لأبي القاسم السهيلي.
تهذيب سيرة ابن هشام لعبد السلام هارون.
الدرر في اختصار المغازي والسير لابن عبد البر.
الشفا بتعريف حقوق المصطفى مذيلا بالحاشية المسماة مزيل الخفاء عن ألفاظ الشفاء للقاضي عياض.
قاعدة تتضمن ذكر ملابس النبي وسلاحه ودوابه لتقي الدين ابن تيمية.
الطب النبوي لابن القيم.
زاد المعاد في هدي خير العباد لابن القيم.
مختصر زاد المعاد لمحمد بن عبد الوهاب التميمي.
البداية والنهاية لأبو الفداء ابن كثير القرشي الدمشقي.
السيرة النبوية لأبو الفداء ابن كثير القرشي الدمشقي.
قصص الأنبياء لأبو الفداء ابن كثير القرشي الدمشقي.
ألفية العراقي في السيرة لأبو الفضل زين الدين العراقي.
سبل الهدى والرشاد في سيرة خير العباد وذكر فضائله وأعلام نبوته وأفعاله وأحواله في المبدأ والمعاد للصالح الشامي.
مختصر سيرة الرسول صلى الله عليه وسلم لمحمد بن عبد الوهاب التميمي.
نور اليقين في سيرة سيد المرسلين لمحمد الخضري.
الرحيق المختوم لصفي الرحمن المباركفوري.
محمد صلى الله عليه وسلم لمحمد رضا.
القول المبين في سيرة سيد المرسلين لمحمد الطيب النجار.
السيرة النبوية لعلي محمد الصلابي.
نبي الرحمة لمحمد مسعد ياقوت.
رجال حول الرسول لخالد محمد خالد.
حياة محمد، لمحمد حسنين هيكل
محمد..الإنسان الكامل، لمحمد علوي المالكي

Share

April 14, 2010

خط گدی نشینوں کا – علاج ریسیشن کا

Filed under: طنزومزاح,مذہب — ابو عزام @ 11:52 pm
خاکسار کی قسمت کے ستارے چمک اٹھے کہ آج جب ہم خطوط  دیکھنےکے لئے ڈاک کا ڈبہ کھولا تو بھارت سے ایک عرس کی دعوت تھی۔ چونکہ عرس کے لغوی معنی شادی کے ہوتے ہیں لحاظہ پہلا گمان تو یہ ہوا کہ آخرکار شعیب اور ثانیہ کی شادی کا دعوت نامہ موصول ہو ہی گیا، دیر آید درست آید، ‘حیدرآبادی کس طرح اپنے یاراں کو بھول سکتے جی’، سوچ کر ہم نے خط کھولنے کی سعی کی لیکن یہ کچھ مختلف لگا، ارے بھی یہ تو ‘درگاہ شریف اجمیر’ سے “صاحبزادہ سید امین الدین معینی خاص معلم اور گدی نشین آستانہ عالیہ حضور غریب نواز ‘زینت ہاوس اور حاجی محل’ درگاہ اجمیر شریف” کا نامہ تھا۔ کہاں یہ ناچیز اور کہاں محترم گدی نشین صاحبزادہ لمبے نام والے ۔۔۔ یہ تو نایجیریا کے شہزادے کی ای میل کے بعد دوسرا بڑا واقعہ ہے جو ہمیں کسی ‘صاحبزادے؛ نے خط لکھا۔ وہ نایجیریا کے شہزادے نے ابھی تک ہمارے اکاونٹ میں پیسے منتقل نہیں کراے مگر ہمیں یقین ہے بہت مصروف ہوگا، جیسے ہی فرصت ملے گی کرا دے گا۔ بہرطور، صاحبزادہ معینی کے خط کو کھولا اور عقیدت سے پڑھنا شروع کیا۔ حضرت نے فرمایا کہ ‘جنتی دروازہ‘  عاشقان کے لئے کھولا جائے گا، ‘اگر آپ یا آپ کے دوست و احباب بھی صحت، رہایش، شادی، اولاد، حمل، نیشنیلٹی، گرین کارڈ، ڈراونگ لائسنس، مقدمات، تجارت، بے روزگاری، بلا و جادو وغیرہ کے مسائل سے پریشان ہوں تو بذات خود شرکت کر کے فیضیاب ہو سکتے ہیں۔۔۔” واہ جناب، یعنی ہم نے خواہ مخواہ ڈرائونگ ٹیسٹ کی تیاری کی تھی ، پہلے پتا ہوتا تو آی این ایس کے بجائے معینی صاحب کو فون ملاتے اور ریکروٹر کے بجاے حضرت کو ریسیومے بھیجتے۔ انہوں نے اپنا بینک اکاونٹ بھی ہمیں ارسال کردیا تھا تاکہ سند رہے اور وقت ضرورت کام آے۔ مزید براں حضرت نے دیگر افراد سے چندہ وصولی کے لئے ایک کوپن بھی ارسال کردیا، آپکی دور اندیشی کی داد دینے کو جی چاھتا ہے۔ گدی نشینی کے لئے اگر کوئی کوالفیکیشن کا امتحان ہوتا تو آپ اس میں نمبر ایک آتے۔ ہم آپ سے یہ پوچھنے والے تھے کہ حضور، اگر گستاخی نہ ہو تو یہ بتائیں کہ ہمارا پتا آپ کے پاس کیسے آیا اور یہ کہ ایک قبر کے مجاور کے پاس اتنی رقم کہاں سے آئی کہ وہ لوگوں کو امریکہ اور برطانیہ خطوط بھیجا کرے لیکن سوچا کہ یہ حد ادب ہوگا اور کہیں حضرت ناراض نہ ہو جائیں۔ لیکن ہم نے ٹھان لئ ہے کہ صدر اوبامہ کو خط لکھیں گے اور یہ خط اس کے ساتھ بھیج کر کہیں گے دیکھیں صدر صاحب، ریسیشن اور کساد بازاری، جنگوں، صحت عامہ کے مسائل سے اب نبرد آزما ہونے کے لیے کوئ زیادہ محنت کی ضرورت نہیں۔ یہ رہا پتا، چیک ‘اجمیر شریف’ بھیجیں اور مسائل حل! امید ہے کہ وہ ہماری درخواست کو درخور اعتنا سمجھیں گے۔
نیز ‘جنتی دروازے’ پر بھی ہم پریشان تھے کہ پچھلے سال حج کے دوران ہمیں نہ تو مسجدالحرام میں کوئی جنتی دروازہ بتایا گیا نا ہی مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں۔ (کہیں معاذاللہ یہ ریاض الجنتہ کا متبادل تو نہیں پیش کیا جا رہا)؟

ہمارے آقا اور مولا صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فرمایا تھا
وعن أبي سعيد الخدري -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-:  لا تشد الرحال إلا إلى ثلاثة مساجد: المسجد الحرام، ومسجدي هذا، والمسجد الأقصى   متفق عليه.
تین مساجد کے علاوہ سفر کے لئے  کجاوئے نا کسے جائیں: مسجد الحرام ،یہ مسجد (مسجد النبوی)، مسجد الأقصیٰ .(١)
١۔صحیح بخاری؛ صحیح مسلم
ہمیں تو دن میں کئی دفعہ ایاک نعبد وایاک نستعین کا حکم ہے نیز اقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم  نے کہا کہ

لَا تَجعَلُوا بُيُوتَكُم قُبُورًا ولا تَجعَلُوا قَبرِي عِيدًا وَصَلُّوا على فإن صَلَاتَكُم تَبلُغُنِي حَيثُ كُنتُم
: تُم لوگ اپنے گھروں کو قبروں کی طرح مت بنانا اور نہ ہی میری قبر کو بار بار آنے والی جگہ بنانا اور میرے لیے رحمت کی دُعا کیا کرو بے شک تُم لوگ کہیں بھی ہو تُمہاری یہ رحمت کے دُعا مجھ تک پہنچتی ہے – سنن ابو داؤد /کتاب المناسک کی آخری حدیث ،

جناب نے انڈیا سےامریکہ تک خط بھیجنے کا قصد کیا تو ہم نے سوچا کہ کوئی دعوت و ارشاد کی اہم بات تو ہوگی لیکن اس دعوت نامے میں تو کچھ ایسا نظر نہیں آیا، شرک و بدعت کا خزینہ ہے بہرحال۔ آپ پڑھنے والے زرا روشنی ڈالیں کہ یہ کیا ماجرا ہے، ہم تو بڑے تذبذب کا شکار ہیں۔

Ajmair LetterAjmair Letter

Ajmair Letter

Share

April 13, 2010

انّا للہ و انّا الیہ راجعون

Filed under: خبریں — ابو عزام @ 11:06 pm

ڈاکٹر اسرار احمد، خادم قران ، داعی اور عالم دین اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ اناللہ وانا علیہ راجعون- اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین۔

ڈاکٹر صاحب کی تمام زندگی خدمت قران اور دعوت دین کی کوششوں میں گزری ۔1971 میں  آپ نے جسموں کی مسیحائی کو خیر آباد کہا اور اللہ کے کلام کے زریعہ ذہنوں کی آبیاری کی سعی شروع کی۔ آپ کی قران سے محبت مثالی تھی؛ انجمن خدام قران، دورہ تفسیر اور 60 سے زائد کتابیں آپ کی محنت شاقہ کا ثمر ہیں جس کی جزا صرف ان کے رب کے پاس ہے. آپ کے دورہ قرآن کی آڈیو ایم پی تھری یہاں سے سنی جا سکتی ہے.الحمدللہ راقم اس سے فیضیاب ہوتا رہتا ہے اور میں نے تفہیم القران کے بعد اس کو ایک جامع اور عملی دروس کا مجموعہ پایا ہے۔ یہ علم نافع ڈاکٹر اسرار احمد کا صدقہ جاریہ ہے اور ہمارے لئے قران سمجھنے کی دعوت عام؛ ایک ایسی دعوت جو یہ مرد مومن اپنی ساری زندگی دیتا رہا۔

اس قحط الرجال کے دور میں ایک اور تحریکی فرد، داعی ور محقق داعی اجل کو لبیک کہ گئے اور یہ کار گراں متاخرین کے نا آزمودہ کندھوں پر منتقل ہو گیا۔
آسمان تیری لحد پر شبنم فشانی کرے۔
Share

اردو بلاگران کے نام

Filed under: عمومیات — ابو عزام @ 8:54 am

ہم اُس قبیلہ وحشی کے دیوتا ہیں کہ جو
پجاریوں کی عقیدت پہ پھول جاتے ہیں
اور ایک رات کے معبود صبح ہوتے ہی
وفاپرست صلیبوں پہ جھول جاتے ہیں

فراز

Share

April 12, 2010

کمپیوٹرسائنس میں اردو زبان پر تحقیقاتی کام

Filed under: تحقیق — ابو عزام @ 10:57 pm

تحقیق و تحریر کی دنیا میں اردو زبان کی تاریخ، اردو ادب کے ارتقا،اردو زبان کے وسیع پیمانے پرمستعمل ہونے اور اس پر دیگر زبانوں کے اثرات،اردو کے رسم الخط اور طریق وغیرہ پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے. میری اس تحریر کا مقصد علم کمپیوٹر میں اردو زبان میں ہونے والی تحقیق خاص طور پر ڈیٹا مایننگ یا مشین لرننگ کی دنیا میں لکھے جانے مقالہ جات کا مختصر تعارف کرانا ہے .اس زمن میں میری مرکزی توجہ سن ٢٠٠٠ کے بعد سے ہونے والے تحقیقی سرگرمیوں خاص طور پر ماسٹرز. ڈاکٹریٹ یا پی ایچ ڈی کے ان مقالہ جات پر ہوگی جو یو ایم ائی  پروکوویسٹ پر چھپ چکے ہیں.

کمپیوٹر سائنس  میں اردو کا زیادہ تر کام اس کے رسم الخط ، شناخت برائے بصری الفاظ اور الفاظ کی پہچان پر ہے مثلاّ

Robust Urdu character recognition using Fourier descriptors
by Lodhi, Saeed M., Ph.D., University of Denver, 2004, 190 pages

AlphaRank: A new smoothing algorithm based on combination of link analysis techniques and frequency based methods
by Mukhtar, Omar, M.S., State University of New York at Buffalo, 2009, 81 pages; AAT 1469108

Arabic handwriting recognition using machine learning approaches
by Ball, Gregory Raymond, Ph.D., State University of New York at Buffalo, 2007, 107 pages

لیکن اس کے علاوہ  دیگر کئی موضوعات بھی معدودے چند ملتے ہیںمثلاّ مشینی تراجم ، اردو گرامر یعنی قوائد کی تلاش، اردوزبان میں ڈومین، اردو املا کی درستگی مشینی طریقے سے، اردو میں تعدد الفاظ وغیرہ وغیرہ . مشین لرننگ کے حوالے سے یہ کہتے چلیں کے یہ مختلف پروگرامنگ کے قوائد یا  الگورتھم(جو کہ مسلم ساینسدان الخوارزمی کے نام سے معروف لفظ ہے) کو استعمال کرتے ہوے کمپیوٹر کے سیکھنے کا عمل ہے جس میں کمپیوٹر پروگرام پرانے ڈیٹا اور اس پر کیے گئے فیصلوں کو دیکھتے ہو ئے نئے فیصلے خود سے کرنا سیکھتا ہے. یہ ٹیکنالوجی  ، صوتی و بصری املا، گرامر اور اسپیل چیکنگ کے علاوہ کولیبریٹو فلٹرنگ جسے آسان الفاظ میں چیزوں کی پسندیدگی اور نا پسندیدگی کا پیمانہ ناپنے کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔

اس زمن میں یہ کہتے چلیں کہ مشین لرننگ میں اردو زبان پر عمومی طور پر کچھ زیادہ  قابل ذکر کام نہیں ہوا ہے یا میرے ناقص علم میں نہیں لیکن کچھ افراد جنہوں نے اس زمن میں کوششیں کی ہیں اس زمن میں اردو میں تعدّد الفاظ کی تحقیق میںقرۃالعین خان کا کام نظر آتا ہے .

A study of word frequency in written Urdu
by Khan, Quratulain H., M.A., University of Windsor (Canada), 2006, 40 pages;

خصوصی طور پر اردو میں نہیں لیکن ٹرانسلٹریشن پر ہندی، اردو اور دیگر جنوبی ایشیای زبانوں کی ‘اسٹیمنگ’ یا تناآوری پر یہ مقالہ اچھی روشنی ڈالتا ہے

Transliteration based Search Engine for Multilingual Information Access
Proceedings of CLIAWS3, Third International Cross Lingual Information Access Workshop, Bounder, Colorado.

اونٹولوجی بلڈنگ پر مندرجہ زیل مقالہ نیم اینٹیٹی پئر کی اردو میں‌اچھی مثال ہےجس کو استعمال کرتے ہوے اردو اونٹولوجی پر کام بڑھایا جا سکتا ہے۔ اونٹولوجی ایسے ذخیرہ الفاظ کو کہا جاتا ہے جو کہ کسی ربط کے تحت ایک دوسرے سے جڑے ہوں‌اور ان کے درمیان کوئی معنوی ربط کی کیفیت ہو

NE tagging for Urdu based on bootstrap POS learning
Human Language Technology Conference archive
Proceedings of the Third International Workshop on Cross Lingual Information Access: Addressing the Information Need of Multilingual Societies

منیسوٹا یونیورسٹی کے کاشف ریاض صاحب نے اس زمن میں کافی قابل قدر خدمات انجام دیں ہیں۔ انکا مقالہ اردو میں ذخیرہ الفاظ یا کورپس کی تعمیر اور اس پر معنوی تجزیہ ‘لیٹنٹ سمینٹک انالسسز’ پر روشنی ڈالتا ہے۔ اسکے علاوہ ایک اہم مشین لرننگ الگورتھم ‘ٹی ایف آی ڈی ایف’ کی اردو میں‌ تعمیل کی بھی تفصیلات فراہم کرتا ہے۔

Concept Search in Urdu
Kashif Riaz, University of Minnesota
PIKM’08, October 30, 2008, Napa Valley, California, USA.

اسٹیمنگ کو بیان کرتے ہوے کاشف ریاض لکھتے ہیں

“The state of the art search engines like Google and Yahoo are keyword-based. There are very few Urdu keyword-based search engines but they simply use word match technique and don’t use any stemming, stop word removal or language identification. Keyword-based engines score and rank documents based upon the presence of the query term along with other criteria like Page Rank in earlier versions of Google. Keyword searching increases information seeking time for the user. This manifests itself in two ways: First, keyword search retrieves a non-relevant document that contains a keyword e.g. the query tem plane could mean airplane or co-ordinate plane. Second, keyword search misses documents that are relevant but don’t contain the query term automobile and car.”

کاشف ریاض صاحب کے یہ دیگر دو مقالہ بھی اردو میں مشین لرننگ کے کام میں اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ابتدائی ذخیرہ الفاظ یا کورپس کی تعمیراور اردو میں ‘ائی آر’ انفارمیشن ریٹریول یعنی معلومات کا حصول سرچ انجن کی تعمیر اورالفاظ کی مشینی سمجھ بوجھ میں بڑا گہرا اور بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔

A study in Urdu corpus construction
International Conference On Computational Linguistics
Proceedings of the 3rd workshop on Asian language resources and international standardization – Volume 12

Baseline for Urdu IR evaluation
Conference on Information and Knowledge Management
Proceeding of the 2nd ACM workshop on Improving non english web searching

اردو زبان کا ذخیرہ الفاظ کارنیگی میلن یونیورسٹی نے بھی جمع کیا ہے جو کہ یہاں دستیاب ہے.

جیسا کہ اولا عرض کیا تھا کہ اس کاوش کا مقصد اردو زبان پر ہونے والے کمپیوٹر ساینس کے تحقیقاتی کام پر مختصر روشنی ڈالنا ہے جو کہ شائد محققین کے لئے کسی قدر سودمند ثابت ہو۔راقم تعلیمی لحاظ سے علم کمپیوٹر میں مشین لرننگ میں پی ایچ ڈی کا طالبعلم ہے ۔ حالانکہ میرا مقالہ اردو یا زبان و کلام کی صنف سے کافی جدا ہے لیکن اردو کی تحقییق کا کام ایک مشغلہ ٹھرا. اپنی رائے اور میری  غلطیوں  سے آگاہ کیجیے اور اگر کوئی اہم تحقیقی کام یہاں بیان نہیں ہوا تو ضرور بتائیں تاکہ راقم اصلاح کر سکے.

حوالہ جات

منظرنامہ » کیا اردو اپنا مقام حاصل کر سکے گی؟ آخری جز (از: راشد …

اردو زبان پر سن 2000 سے  چھپنے والے عمومی مقالہ جات کی نامکمل فہرست

  • D. Becker, B. Bennett, E. Davis, D. Panton, and K. Riaz. “Named Entity Recognition in Urdu: A Progress Report”.  Proceedings of the 2002 International Conference on Internet Computing. June 2002.
  • D. Becker, K. Riaz. “A Study in Urdu Corpus Construction.” Proceedings of the 3rd Workshop on Asian Language Resources and International Standardization at the 19th International Conference on Computational Linguistics. August 2002.
  • P. Baker, A. Hardie, T. McEnery, and B.D. Jayaram. “Corpus Data for South Asian Language Processing”. Proceedings of the 10th Annual Workshop for South Asian Language Processing, EACL 2003.
  • K. Riaz, “Challenges in Urdu Stemming” Future Directions in Information Access. Glasgow, August 2007
  • K. Riaz, “Stop Word Identification in Urdu” ,Conference of Language and Technology, Bara Gali, Pakistan, August 2007
  • An analysis of Urdu and English editorial coverage of the 2007 Emergency from Pakistani newspapers by Shoeb, Nadia Farrah, M.A., Georgetown University, 2008, 140 pages;
  • Mourning Indo-Muslim modernity: Moments in post-colonial Urdu literary culture by Naqvi, Syed Nauman, Ph.D., Columbia University, 2008, 244 pages;
  • Shifting dunes: Changing meanings of Urdu in India by Ahmad, Rizwan, Ph.D., University of Michigan, 2007, 242 pages;
  • The desert of continuity: N. M. Rashed, modernism, and Urdu poetry by Pue, A. Sean, Ph.D., Columbia University, 2007, 324 pages;
  • A literature of the sublime in late colonial India: Romanticism and the epic form in modern Hindi and Urdu by Sahota, Guriqbal S., Ph.D., The University of Chicago, 2006, 343 pages;
  • A study of word frequency in written Urdu by Khan, Quratulain H., M.A., University of Windsor (Canada), 2006, 40 pages;
  • Making a worldly vernacular: Urdu, education, and Osmania University, Hyderabad, 1883–1938 by Datla, Kavita Saraswathi, Ph.D., University of California, Berkeley, 2006, 214 pages
  • Negation in modern Hindi-Urdu: The development of nahII by Lampp, Claire M., M.A., The University of North Carolina at Chapel Hill, 2006, 48 pages
  • Peripheries in Kashmiri and Hindi-Urdu by Manetta, Emily Walker, Ph.D., University of California, Santa Cruz, 2006, 220 pages
  • Relocating the postcolonial self: Place, metaphor, memory and the Urdu poetry of Mustafa Zaidi (1930–1970) by Steele, Laurel, Ph.D., The University of Chicago, 2005, 519 pages
  • Education, the state and subject: Constitution of gendered subjectivities in/through school curricula in Pakistan. A post-structuralist analysis of social studies and Urdu textbooks for grades I—VIII by Naseem, Muhammad Ayaz, Ph.D., McGill University (Canada), 2004
  • Hemispheric differences during reading in Urdu by Adamson, Maheen Mausoof, Ph.D., University of Southern California, 2004, 229 pages
  • Robust Urdu character recognition using Fourier descriptors by Lodhi, Saeed M., Ph.D., University of Denver, 2004, 190 pages
  • Banaras, Urdu, poetry, poets by Lee, Christopher R., Ph.D., Syracuse University, 2002, 343 pages
  • The intertextuality of women in Urdu literature [micorform] : a study of Fahmida Riaz and Kishwar Naheed by Yaqin, Amina, Dr., University of London (United Kingdom), 2001
  • To die and yet live: Karbala in Urdu discursive landscapes by Hyder, Syed Akbar Adeel, Ph.D., Harvard University, 2000, 335 pages
Share

تہذیبی نرگسیت -ایک تہذیبی مرعوب کی سرگذشت کا اصولی جواب – حصہ اول

Filed under: عمومیات — ابو عزام @ 1:38 am

ذکر بی بی سی اردو پر سنا، برادرم راشد کامران نے کتاب مستعار دی اور ہم نے پڑھی۔ مبارک حیدر صاحب کی اس تصنیف کو منفرد کہنا تو کسی لحاظ سے درست نا ہوگا کیونکہ انکے رقم کیے گیے شکوک شبہات نئے نہیں اور ان سے رسائل و مسائل، خطبات اور تنقیحات جیسی کتابوں میں خاصی بحث کی جا چکی ہے، صرف انداز بیاں میں واقعات کی ترتیب مختلف ہے، مرعوبیت کا وہی عالم ہے۔ ان چند ابتدائی سطروں سے شائد قاری کو لگے کہ میں ایک بلاگ برائے بطلان لکھنے لگا ہوں جو کہ مبارک حیدر صاحب کی کتاب کو تنقید برائے تنقید کا نشانہ بنائے گا، یہ بات حقیقت سے بعید تر ہوگی۔ اس کتاب کی کچھ باتوں مثلا ‘خود تنقیدی’ سے مجھے بھرپور اتفاق ہے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ امت مسلمہ کے لیے ضروری ہے کہ یہ وہ اپنے مسائل کا حل اپنی خامیوں اور کوتاہیوں میں تلاش کرے لیکن راقم کسی ایسے فرد کو جو نصوص قطعیہ کو اپنی مرعوبیانہ سوچ کا نشانہ بناے اوراساس دین و تحریک اسلامی کی بنیادوں پر ضرب لگانے کی سعی لا حاصل کرے، جواب دینا اپنی دینی اور آخلاقی ذمہ داری سمجھتا ہے۔ خود احتسابی کا عمل نہایت ضروری ، بحیثیت امت اور بحیثیت فرد لیکن صاحب کتاب نے جس بے دردی کے ساتھ دین اسلام کی بنیادی اساس یعنی اقامت دین اور ‘ان الدین عنداللہ السلام’ کو روندا اور اس کو نام نہاد تہذیبی نرگسیت کا موجب گردانا، راقم اس تقابل سے اختلاف رکھتا ہے کہ اپنے اعمال اور برگشتگیوں کی ذمہ داری دین الہیہ پر ڈالی جاے، صلاہ کو میکانیکی حرکات کا مجمعوعہ کہا جاے اور قران کی آیات و احکامات کو ناکافی مان کر اس کا تمسخر اڑایا جاے۔ صاحب کتاب یقینا ہمیں بھی ‘نرگسی’ خیال دیں گے لیکن یہ عبودیت ہے، نرگسیت نہیں۔ کسی ملامت کرنے والے کا خوف ایمان والوں کو اللہ کے دین کو بیان کرنے سے نہیں روک سکا اور نام نہاد ترقی پسند سوچیں جس اسلام کو ترقی سے نا مطابق  یا ‘انکمپیٹبل’ سمجھتی ہیں انہیں اس سطحی سستی شہرت کے حصول کے لئے آیات الہیہ کا بلا سوچے سمجھے مذاق اڑانے کی کھلی چھٹی نہیں دی جا سکتی  .  احقر نا تو عالم ہے اور نا ادیب – تمام خامیاں میری اپنی ہیں اور تمام توفیق اللہ سبحان تعالی کی طرف سے. اس بلاگ پوسٹ کا انداز تقریری ہے اور شاید اردو ادب کے قواعد کو ناگفتبہ حالات سے بھی گزاراگیا ہو جس کے لیے میں معذرت خواہ ہوں۔ اصلاح کا طالب ہوں اور اللہ سبحان تعالی سے درگزر کا طلبگار

تہذیبی نرگسیت

تہذیبی نرگسیت

اس تحریر کے اس حصہ سے ہمارا منشا ہے کہ اس بات پر اتمام حجت کیا جاے کہ ‘تہذیبی نرگسیت’ اور عبوبیت دو علیہدہ چیزیں ہیں اور اقامت دین کے لیے اگر کوئی رب کی بندگی کا حق بجا لاے تو اس کی کوتاہیوں پر پکڑ تو بجا اور احتساب لازم لیکن امت کی بشری غلطیوں  کو خالق کی کتاب کی خامی  اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی آفاقی تعلیمات کی کمی پر محمول کرنا بڑی بد نصیبی ہوگی۔ مبارک حیدر کی یہ تصنیف صاف اور کھلے انداز میں‌ تحریک اسلامی کی فکری اساس پر تنقید کرتی نظر آتی ہے جس کی ‘براے تعمیر’ کاوش پر شائد وہ مبارکباد کے مستحق ٹھرتے اگر یہ کتاب تضاداد کا مجموعہ نہ ہوتی۔ پہلا اور بنیادی سوال فریمورک یا ضابطے کا ہے کہ یہ کتاب کس حیثیت میں لکھی جا رہی ہے۔ بحیثیت مسلمان ہمارا عقیدہ ہے کہ قران اللہ (سبحانہ و تعالی)کی کتاب ہے اور کسی بھی نقص اور خامی سے پاک ہے-
ذالک الکتاب لا ریب فیہ

۔ اس کے آحکامات اسی ذات باری کی طرف سے ہیں جس نے انسان کو پیدا کیا اوروہ اسکی فطرت کو سب سے بہتر جانتا ہے۔ جناب مبارک حیدر لکھتے ہیں
تہزیبی نرگسیت

تہزیبی نرگسیت

تو لہذا اگر اساس دین’لا ریب فی’ آپ کا یہ ایمان نہٰیں، اس کتاب کی کچھ باتیں آپکی روشن خیالی سے ٹکراتی ہیں‌اور آپ برسر عام اس کے قوانین کو دنیاوی قوانین سے ہیچ جانتے ہیں تو ٹھیک ہے، کسی ناقص کتاب کے ماننے، اس کتاب کے خالق اور پہنچانے والے اور اس کے اتباع میں جان لٹانے والوں پر ‘صلی اللہ علیہ وسلم’ اور ‘رضی اللہ تعالی عنہ’ لکھنا چہ معنی؟ آپ ان لوگوں میں سے ہیں جو کہ  خود بدلتے نہیں قران کو بدل دیتے ہیں ۔ ہم آپ کے آختلافی حق کو تسلیم کرتے ہیں لیکن اب آپکی بات اس حیثیت سے سننی جاے گی کہ آپ الہامی پیغام میں‌تبدیلی کے قائل اور نقص کے حامی ہیں۔ میں  مبارک صاحب کو دائرہ اسلام سے خارج کرنے کی قطعی کوشش نہیں کر رہا، ان کا ایمان انکے اور انکے رب کے درمیان ہے اور بقول ابن انشا، اب اس دائرہ میں لوگ داخل کم اور نکالے زیادہ جاتے ہیں، میرا مقصد یہاں بنیادی اصطلاحات ‘پری ریکوزیٹس’ متعین کرنا ے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی فرد روزے پر بات کرنا چاہے اور مانتا ہو کہ  خدا دوہیں تو یہ بات لا حاصل ہوگی ۔ اگر آپ اللہ کی کتاب اور اسکے قوانین پر انسانی قوانین کو افضل سمجھتے ہیں تو یہ بات اب ایمان بالغیب اور ربوبیت کی اسناد متعین کرنے سے نا ہو پاے گی کیونکہ اگر مقدس صحیفہ اللہ کا کلام نہیں بلکہ ارتقا کی منزل کا ایک زینہ ہے پھر محراب و ممبر کی گزارش چہ مانند۔
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلامَ دِينًا
سورة المائدة – سورة 5 – عدد آياتها 120
“آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو بحیثیت دین پسند کر لیا “

مبارک حیدر صاحب نا تو پہلے فرد ہیں اور نا ہی آخری ہونگے جنہوں نے اس موضوع پر قلم اٹھایا۔ اس کی ایک مثال ۔ شعبان ۱۳۵۳ھ۔ کی مولانا مودودی کی تحریر ہے جو ایک ایسے ہی بے سروپا اعتراضات کے جواب میں لکھی گئی تھی اور اس مظمون کے آخر میں مکمل متن موجود ہے۔ اس کا ایک چھوٹا سا اقتباس یہ ہے
سوال یہ ہے کہ قرآن سے اتنا کھلا اختلاف رکھتے ہوئے آپ مسلمان کیسے رہ سکتے ہیں۔ اور مسلمان ہوتے ہوئے آپ قران سے اختلاف کیونکر کرسکتے ہیں۔؟ اگر آپ مسلمان ہیں تو قرآن سے اختلاف نہ فرمائیے اور اگر قرآن سے اختلاف کرنا چاہتے ہیں تو دائرہ اسلام سے باہر کھڑے ہوکر اختلاف کیجئے۔
جو شخص کسی مذہب کے اصول اور احکام وقوانین سے مطمئن نہ ہو‘ جس کا دل ان کی صداقت پر گواہی نہ دیتا ہو جو ان کی علت و مصلحت کو سمجھنے سے عاجز ہو اور جس کے نزدیک ان میں سے بعض یا اکثر زبانیں قابل اعتراض ہوں ‘ اس کے لیے دو راستے کھلے ہوئے ہےں یا تو وہ مذہب سے نکل جائے ‘ پھر اس کو حق ہوگا کہ اس مذہب کے جس قاعدے اور جس حکم پرچاہے نکتہ چینی کرے یا اگر وہ اس عدم اطمینان کے باوجود اس مذہب میں رہنا چاہتا ہے تو اس کے خلاف مظاہرہ کرنے سے احتراز کرے اور مجتہد بن کر اس کے قواعد وضوابط پرتیشہ چلانے کے بجائے طالب علم بن کر اپنے شکوک وشبہات حل کرنے کی کوشش کرے۔ عقل و دانش کی رو سے تو اس حالت میں یہی دو طریقے ہوسکتے ہیں اور مرد عاقل جب کبھی ایسی حالت میں مبتلا ہوگا تو انہی میں سے کسی ایک طریقے کو اختیار کرے گا۔ لیکن فاضل مضمون نگار اور ان کی طرح بہت سے فرنگی تعلیم وتربیت پائے ہوئے حضرات کا حال یہ ہے کہ پہلا طریقہ اختیار کرنے کی اخلاقی جرات ان میں نہیں اور دوسرا طریقہ اختیار کرتے ہوئے انہیں شرم آتی ہے۔ اس لیے انہوں نے بیچ کا ایک غیر معقول طریقہ اختیار کررکھا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ ایک طرف مسلمانوں میں شامل بھی ہوتے ہیں۔ ترقی اسلام کی آرزو مند بھی بنتے ہیں‘ اسلام اور مسلمانوں کے درد میں تڑپتے بھی ہیں اور دوسری طرف اسلام کے خلاف وہ سب کچھ کہتے اور کرتے ہیں جو ایک غیر مسلم کہہ اور کرسکتا ہے۔ حدیث وفقہ تو درکنار قرآن تک پر نکتہ چینی کرنے سے باز نہیں رہتے اور ان تمام بنیادوں پر ضرب لگا جاتے ہیں جس پر اسلام قائم ہے
تہذیبی مرعوبیت کے شکار افراد جو اسلام کو ‘ماڈرنایز’ کرنا چاہتے ہیں بہت سے مختلف رنگوں میں پاے جاتے ہیں۔ ان کی کچھ اقسام مندرجہ زیل ہیں
۔١. خود بدلتے نہیں قران کو بدل دیتے ہیں – کچھ وہ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ یہ قرون اولی کی کہانیاں ہیں اورانکا جدید دور میں کیا کام اور کچھ وہ ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ جب اللہ تبارک تعالی نے زنا کی سزا مقرر فرمائ تو وہ ایک پرانے دور کے لیے تھی، ماڈرن انسان اب ان بربریت کی سزاوں کا مستحق نہیں..

ان غلاموں کا یہ مسلک ہے کہ ناقص ہے کتاب
کہ سکھاتی نہیں مومن کو غلامی کے  طریق

٢. ۔ان میں ایسے بہتیرے لوگ ہیں جو انوع تہذیب سے بہت متاثر ہیں، جو اسلام کو ہزاروں دیگر تہذیبوں میں سے صرف ایک تہذیب سمجھتے ہیں جس کا ‘درست’ ہونا یا نا ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا بلکہ یہ تو صرف افراد کا مجمعوعہ اور تحریک تھی جو اپنے وقت پر اٹھی، عروج پایا اور زوال کا شکار ہو گئی، اب اسکی باقیات ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ رومن سلطنت اوربلادحرمین ویٹیکن کا درجہ حاصل کرلے گا۔
٣.   ان مرعوب لوگوں میں مادی اور تخلیقی انداز میں سہمے لوگ بھی ہیں جو یہ سوچتے ہیں کہ لاس اینجلس، نیویارک، سڈنی، لندن یا ٹوکیو ڈاون ٹاون کی رنگینیاں، ان شہروں کا امن و سکون، اس کے لاکھوں باسی جنھوں نے کبھی اپنے حقیقی رب کا نام بھی نہیں سنا کس وجہ سے اتنے ترقی یافتہ ہیں، کیا انسان کو دین کی کوئی ضرورت ہے؟اسکے جواب میں ہی  انکے رب نے فرما دیا کے
40:4] نہیں جھگڑا کرتے اللہ کی آیات میں مگر وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا۔ سو دھوکے میں نہ ڈالے تمہیں ان کی چلت پھرت ملکوں میں۔
اگر ہمیں مٹی میں‌ مل جانا ہے تو یہ عبادات و اعتقادات کس کام کہ۔ ساوتھ امریکہ میں کروڑوں لوگ بستے ہیں، برازیل کیا سارا کا سارا جھنم میں جانے والا ہیں، کیسی باتیں کرتے ہو؟
٤ .۔ جن لوگوں کے لیے یہ تمام الحاد کی شیطانی فتنہ پردیزیاں اتنی آسانی سے ایمان کو ڈانوں ڈول نہیں کرتیں، وہ اپنے آپ کو ماڈرن مجدد کے فتنے میں پاتے ہیں۔ (اگر آپ اپنے آپ کو یہ کہتا پاتے ہیں کہ شیطان، فتنہ۔۔۔یہ کس قسم کی باتیں ہیں؟ علمی دلائل سے بات کریں جناب۔ تو محترم، میں یہ جواب منالحیث مسلم لکھ رہا ہوں اور چاھے یہ فرشتے، شیاطین، وسوسے اور خدا کا تصور آپکو کتنا ہی بعید القیاس لگے، میں اس پر اسی شدت سے ایمان رکھتا ہوں جتنا کہ اپنے رب کےعطا کردہ حواس خمسہ پر بلکہ اس سے کہیں زیادہ۔)۔ فتنہ ماڈرن  مجدد کیا ہے، وہ یہ ہے کہ ماڈرنایزیشن کو احیا دین بنا کر لاگو کرنے کی کوشش کی، جیو اور جینے دو کی پالیسی اپنائی جاے اور لبرل سوچ کی موجودہ تحاریک اور قوانین سے اسلام کو ہم آہنگ کیا جاے۔
ان تمام لوگوں نے اپنے دین اور اپنے رب کو بہت چھوٹا جانا اور اسکی قدر نا کی جیسا کہ اسکی عبودیت کا حق تھا۔
آپ کسی انگریزی تعلیم یافتہ شخص سے کسی مذہبی مسئلے پر گفتگو کیجئے اور اس کی ذہنی کیفیت کا امتحان لینے کے لیے اس سے مسلمان ہونے کا اقرار کرلیجئے پھر اس کے سامنے مجرو حکم شریعت بیان کرکے سند پیش کیجئے۔ وہ فوراً اپنے شانے ہلائے گا اور بڑے عقل پرستانہ انداز میں کہے گا کہ یہ ملائیت ہے‘ میرے سامنے عقلی دلیل لاﺅ‘ اگر تمہارے پاس معقولات نہیں صرف منقولات ہی منقولات ہیں تو میں تمہاری بات نہیں مان سکتا۔ بس انہی چند فقروں سے یہ راز فاش ہوجائے گا کہ اس شخص کو عقلیت کی ہوا بھی چھو کر نہیں گزری ہے‘ اس غریب کو برسوں کی تعلیم و تربیت علمی کے بعد اتنا بھی معلوم نہ ہوسکا کہ طلب حجت کے عقلی لوازم کیا ہےں اور طالب حجت کی صحیح پوزیشن کیا ہوتی ہ

ایسے لوگ مزید براں بے پرکی تاویلات سے نتایج اخذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو کہ علمی دیوالیہ کا ثبوت دیتا ہے۔ مثلا وہ یہ کہتے نہیں چوکتے کہ خود تنقیدی کی تحریک اسلامی میں مثال نہیں ملتی لیکن خلافت و ملوکیت کا تذکرہ چھوڑ دیتے ہیں۔ کتمان حق یا علم چھپانے کا یہ عالم ہے کہ فروعات و سنن کی دلیلوں کو نصوص پر لگاتے ہیں اور اپنی باتوں کا لوہا منوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے لوگ شاید اپنی بات کے زور میں یہ بات بھول جاتے ہیں کہ اختلاف راے کو اسلام نے پسند کیا۔ صحابہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی راے سے اختلاف کیا جو یہ ثابت کرتا ہے کہ ذاتی راے سے اگر وہ وحی نہ ہو اختلاف کرنے میں کوئی مضایقہ نہیں اور جیسا کہ مبارک صاحب نے خود بھی لکھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی راے کو پسند فرمایا۔ اسلام اختلاف راے کے خلاف نہیں، نا ہی اجتہاد کا دروازہ بند کرتا ہے لیکن یہ اصول سمجھ لینا چاھیے کہ نصوص قطعیہ میں نا تو اجتہاد ہے اور نا ہی اس میں مسلمان کے لیے اختلاف کی گنجایش ہے۔
انما کان قول المومنین اذا دعو اِلی اللہ ورسولہ لیحکم بینھم ان یقولو سمعنا واطعنا (النور۔51)
ایمان لانے والوں کا کام تو یہ ہے کہ جب ان کو اللہ اور رسول کی طرف بلایا جائے تاکہ رسول ان کے درمیان حکم کرے تو وہ کہیں کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی۔
مثلا رمضان کا روزہ ہر صحتمند مسلمان پر فرض ہے، اب دنیا کا کوئی فقیہ اس حکم کو تبدیل نہیں کرسکتا۔ یہی فقہی اصول قران کریم کے تمام احکامات پر لاگو ہوتا ہے۔ اگر یہ بندش آپ کو بری لگے تو مسلمان کہلانا یعنی مطیع ہونے کے کیا معنی ہیں؟ اسلام کی بنیاد اللہ اور رسول پر ایمان ہے، سید ابولعلی مودودی تنقیحات میں لکھتے ہیں
اسلام کی تعلیم میں یہ قاعدہ اصل اور اساس کی حیثیت رکھتا ہے‘ وہ پہلے احکام نہیں دیتا بلکہ سب سے پہلے اللہ اور رسول پر ایمان لانے کی دعوت دیتا ہے۔ جتنی حجتیں ہیں‘ سب اسی ایک چیز پر تمام کی گئی ہیں۔ ہر عقلی دلیل اور فطری شہادت سے انسان کو اس امر پر مطمئن کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ خدائے واحد ہی اس کا الٰہ ہے اور محمد خدا کے رسول ہیں۔ آپ جس قدر عقلی جانچ پڑتال کرنا چاہتے ہیں‘ اس بنیادی مسئلہ پر کرلیجئے۔ اگر کسی دلیل اور کسی حجت سے آپ کا دل اس پر مطمئن نہ ہو تو آپ کو داخل اسلام ہونے پر مجبور نہیں کیا جائے گا اور نہ احکام اسلامی میں سے کوئی حکم آپ پر جاری ہوگا۔ لیکن جب آپ نے اس کو قبول کرلیا تو آپ کی حیثیت ایک ”مسلم“ کی ہوگئی اور مسلم کے معنی ہی مطیع کے ہیں۔ اب یہ ضروری نہیں کہ اسلام کے ہر ہر حکم پر آپ کے سامنے دلیل و حجت پیش کی جائے اور احکام کی اطاعت کرنے کا انحصار آپ کے اطمینان قلب پر ہو۔ مسلم بن جانے کے بعد آپ کا اولین فرض یہ ہے کہ جو حکم آپ کو خدا اور رسول کی طرف سے پہنچے بے چوں و چرا اس کی اطاعت میں سر جھکا دیں۔
انما کان قول المومنین اذا دعو اِلی اللہ ورسولہ لیحکم بینھم ان یقولو سمعنا واطعنا (النور۔51)
ایمان لانے والوں کا کام تو یہ ہے کہ جب ان کو اللہ اور رسول کی طرف بلایا جائے تاکہ رسول ان کے درمیان حکم کرے تو وہ کہیں کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی۔
ایمان اور ایسی طلب حجت جو تسلیم و اطاعت کے لیے شرط ہو‘ باہم متناقض ہیں اور ان دونوں کا اجتماع صریح عقل سلیم کے خلاف ہے۔ جو مومن ہے وہ اس حیثیت سے طالب حجت نہیں ہوسکتا اور جو ایسا طالب حجت ہے‘ وہ مومن نہیں ہوسکتا۔
اگر اس دنیا میں لوگوں کو مذہب اسلام کے ماننے یا نا ماننے پر منقسم کرنا ہو تو اس کی دو طرح سے تقسیم ہو سکتی ہے۔
اولا – وہ لوگ جواپنے آپ کو مسلمان کہتے  ہوں
دوم – وہ لوگ جو اپنے آپ کو مسلمان کے علاوہ کچھ اور کہتے ہو ں یا وہ لوگ جن تک اسلام کا پیغام نہیں پہنچا
اگر آپ اپنے آپ کو اول درجہ میں گردانتے ہیں تو دوم طبقے کے لیے دعوت و تبلیغ آپ کا فریضہ ٹھرا۔
نیز اگر آپ اسلامی نظام کو ‘ضابطہ حیات’، اللہ مالک کائینات کی طرف سے نازل کردہ نظام سمجھتے ہیں جسے قران کے مطابق پوری جنس دین پرغالب کرنا خالق کی مشیت ٹھری تو آپ کی بے قراری کا کیا عالم ہوگا کہ آپ اس دین کو نافذ کرنے کے لیے تن من دھن سے قربانیاں دیں اور لوگوں کو آتش دوزغ سے بچانے کے لیے ہر وقت بے قرار رہیں۔ اگر آپ ان لوگوں میں نہیں تو ذیادہ تر امکان یہ ہے کہ اس کی وجہ ایمان کی کمزوری اور کسالہت ہے کہ آپ نے اس نہایت اہم کام اقامت دین کو اپنی زندگی کی ترجیحات میں شامل نہ کیا۔ اللہ آپ کو اسکی توفیق دے۔ بدترین درجہ ان افراد کا ہے جو اہلیت کے باوجود نا تو خود یہ کوشش کرتے ہیں‌ بلکہ دوسرے لوگ جب اس امر کی سعی کرتے ہیں‌ تو اس میں مین میخ‌ نکالتے ہیں، اور صاحب کتاب تو یہاں پورے مقصد خلافت علی منہاج النبوہ  ہی کا انکار کرنے پر تلے ہیں۔ انکا اصرار ہے کہ چونکہ مسلمانوں کے اپنے اعمال درست نہیں، اسلام کا یہ دعوی کرنا سرے سے ہی غلط ہے کہ وہ دین حق ہے اور غالب ہونے کے لئے آیا ہے۔ خطبہ حجتہ الوداع میں ہمارے ہادیٴ برحق نے ارشاد فرمایا ہے:”لوگو! میری بات سنو اور سمجھو۔ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے۔ دیکھو میرے بعد کہیں گمراہ نہ ہوجانا کہ آپس ہی میں ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے لگو۔ لیکن یہ تنگ نظر بیرونی تہذیب سے متاثر افراد طالبان کے ظلم و ستم کو اسلامی ریاست کا جاری و ساری عمل قرار دیتے ہیں، یہاں اسلام کی خوش خلقی اور عفو و درگذر کی ساری مثالیں انکے ذہن سے محو ہو جاتی ہیں۔
یہ وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ
e=mc^2
غلط ہے کیونکہ اس سے ایٹم بن بنا نا کہ یہ کہیں کہ لوگوں کو مارنے والے غلط لوگ تھے، اکژیت ان لوگوں کی ہے جو اس توانای سے بجلی بنا کر اسپتال اور شفاخانوں میں لوگوں کا علاج کرتے ہیں۔ غلط
e=mc^2
نہیں ہے، لوگ غلط ہیں۔
خود بدلتے نہیں قران کو بدل دیتے ہیں

اگلے حصے میں ہم اس کتاب کی کچھ اصطلاحات اور ان کے غلط استعمال پر گفتگو کریں گے انشااللہ۔

مزید مطالعہ کے لئے دیکھیےعقلیت کا فریب سید ابولعلی مودودی ترجمان القرآن۔ شعبان ۱۳۵۳ھ۔ مارچ

Share
Older Posts »

Powered by WordPress