عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

عقلیت کا فریب۔ترجمان القرآن۔ شعبان ۱۳۵۳ھ۔ مارچ

تنقیحات

تنقیحات

عقلیت کا فریب – 1اسلامی تعلیم وتربیت کے لحاظ سے نیم پختہ یا بالکل خام نوجوان کے مذہبی خیالات پر مغربی تعلیم اور تہذیب کا جو اثر ہوتا ہے اس کا اندازہ ان تحریروں اور تقریروں سے ہوسکتا ہے جو اس قسم کے لوگوں کی زبان وقلم سے آئے دن نکلتی رہتی ہیں۔ مثال کے طور پر حال ہی میں صوبہ متحدہ کے ایک مسلمان گریجویٹ صاحب کا ایک مضمون ہماری نظر سے گزرا ۔ جس میں انہوں نے اپنی سیاحت چین وجاپان کا حال بیان کرتے ہوئے لکھا ہے :۔”ہمارے ساتھ جو چینی مسافر ہیں وہ انتہا کے بلانوش اور شراب خور ہیں۔ سور کا گوشت تو ان کی جان ہے۔ اب میں نے عسائیت کی ترقی کا راز سمجھا‘ چینی اب قدیم مذہب کی پیروی کو نئی تعلیم کے ساتھ عار پاتا ہے۔ اس کو اسلام قبول کرنے میں تامل نہ ہوتا اگر وہ اس کو سمجھا ہوتا مگر اسلام اس کو اس کی تمام مرغوب عذاوں سے محروم کردیتا ہے۔ چارو ناچار عیسائی ہوجاتا ہے۔ کچھ عجیب نہیں کہ آئندہ چین کا سرکاری مذہب عیسائیت ہوجائے۔ میں سور کے گوشت کے معاملہ میں اہل یورپ اور اہل چین کے نو مسلموں کے ساتھ ذرا ڈھیل دینا پسند کرتا ہوں قرآن سے بھی مجھے اس کے قطعی حرام ہونے میں شک ہے۔ زیادہ بریں نیست کہ اہل عرب کے لیے کسی خاص وجہ سے حرام کردیا گیا ہو۔ مگر ایسے ممالک جہاں ان کے بغیر (فمن اضطر غیر باغ ولاعاد) ہوجائے تو کیاحرج ہے۔؟” ”بہرحال قرآن کا یہی ایک حکم ہے جس کی ممانعت عمومی کی علت میری سمجھ میں اب تک نہیں آئی ورنہ اصولاً معدہ اور محرکات اخلاق میں اس قدر بعد ہے کہ مذہب ہمارے کھانے کا مینو بھی تیار کرے تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ وہ ہم کو آہن گری اور زرگری وخیاطی وغیرہ کاکام بھی کیوں نہ سکھائے۔ میرا خیال ہے کہ دنیا میں اسلام کے ترقی نہ کرنے کا راز اسی میں پنہاں ہے کہ وہ آدمی کے تمام حقوق سلب کرکے اس کو ایک لاشہ بے جان اور ایسا بے حس بچہ بنادیتا ہے کہ وہ اپنی دنیاوی ترقی کی راہیں سب بھول جاتا ہے۔ ور مذہب درحقیقت اسی قدر ہونا چاہیے جیسا کہ عیسائیوں نے سمجھ رکھا ہے۔”اس کے بعد وہ شنگھائی کے حالات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ خدا کی اس بے شمار خلقت کو خوش وخرم و خوشحال دیکھ کر دل گواہی نہیں دیتا کہ یہ تمام کے تمام چند سال کے بعد دوزخ کا ایندھن بنائے جائیں گے گویا ان کی پیدائش کا یہی ایک مقصد خدا کے پاس رہ گیا ہے۔ پھر وہ سب کے سب الاماشاءاللہ چند نفوس کے علاوہ اگر بت پرست اور کافر ہیں تو انہوں نے دوزخ میں رکھے جانے کا کیا یہی ایک قصور کیا ہے۔ کہ انہوں نے خدا کی زمین کو معمور کردیا ہے۔ نہ وہ حاجیوں کو قتل وغارت کرتے ہیں۔ نہ ان میں قوم لوط کا عمل ہے۔ نہ وہ کسی مال کو ہضم کرلیتے ہیں اور نہ اس کو جائز کرنے کے لیے تاویلیں کرتے ہیں۔ خاموشی سے اس زندگی کو بحسن وخوبی طے کررہے ہیں۔ پھر بھی ومستحق دوزخ ہیں آخر کیوں؟ یقیناً مشرکانہ عقیدہ ایک سودائے خام ہے۔ لیکن یہ تو بتاو کہ اگر ایک شخص ایک ایسی ہستی کا فطرتاً قائل ہوجاتا ہے جو اس کو مارتی اور جلاتی ہے تو محض اس لیے کہ اس کی ماہیت اس کی سمجھ سے اتنی ہی باہر ہے جتنی ہماری سمجھ سے۔ یا وہ عربی کو خدا کی زبان نہیں سمجھتا۔ تم اس کے دشمن ہو اور وہ تمہارا دشمن ہوجاتا ہے۔ مگر نہیں تمہارے نزدیک یہ سب کچھ ضروری نہیں ہے۔ ضروری تو یہ ہے کہ پائجامہ خاص وضع کا ہو۔ کرتے کی کاٹ ایسی ہو۔ فلاں قسم کا کھانا کھائے۔ منہ پر چار انگلی کی داڑھی ہو۔ کبھی اپنے ملکی مدرسوں میں قدم نہ رکھے۔ اس واسطے کہ وہاں مذہب کی زبان اور مذہب کا فن تم کو نہیں سکھایا جاتا۔““ جاپان کی بندرگاہ کوبے کے متعلق فرماتے ہیں۔”دو گھنٹہ تک میں کوبے میں پھرتا رہا ایک بھیک مانگنے والا مجھ کو نہ ملا اور نہ کوئی پھٹے پرانے کپڑوں میں بدحال۔ یہ ہے اس قوم کی ترقی کا حال جو نہ مذہب کو جانتی ہے اور نہ خدا کو۔““ پھر وہ بقول خود”موعظئہ حسنہ“” شروع کر تے ہیں۔”یاد رکھو کو احسان اصل دین ہے اور احسان کسی زبان اور فن کا محتاج نہیں اس کا فطری مقصود یہ ہے کہ ہم آئندہ زندگی میں یا خود اس زندگی میں اپنے اعمال کے جواب دہ ہیں اور ہوں گے۔ یہی دراصل مذہب اسلام ہے۔ اس سے زیادہ جس چیز کو تم نے مذہب کا نام دے رکھا ہے وہ محض تمہارے نفس کا دھوکا ہے۔ یا تمہارے دماغ کا خلل ہے۔ جس روز ان دونوں باتوں پر مذہب کو محدود کردو گے اور اپنی ساری بیڑیاں شریعت کی توڑ ڈالو گے توتم بھی قوموں کے ساتھ بام ترقی پر پہنچو گے۔ بلکہ یوں کہو کہ تم قوموں میں ضمیر پیداکردو گے جن کے ہاتھ سے اگر دنیا نہیں گئی ہے تو آسمانی بادشاہت بھی نہ جائے گی۔ تم خود کوئی قوم نہیں ہو بلکہ قوموں کے مصلح ہو۔ مگر خدارا اس کے کہنے کا موقع تو نہ دو کہ فلاح قوم برسراوج ہے مگر جو ان میں مسلمان ہیں۔ ان کی حالت زبوں ہے۔ اور یقیناً اس زبونی کا ذمہ دار ان کا عجیب وغریب مذہب ہے۔““  یہ تحریر ہماری نئی نسل کی عام دماغی حالت کا ایک واضح نمونہ ہے۔ مسلمان گھر میں پیدا ہوئے۔ مسلم سوسائٹی کے رکن کی حیثیت سے پلے بڑھے‘ مسلمانوں کے ساتھ معاشرت وتمدن کی بندوشوں میں بندھے۔ اس لیے اسلام کی محبت‘ مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی اور مسلمان رہنے کی خواہش گویا ان کی گھٹی میں پڑی اور ان کے دلوں میں اس طرح بیٹھ گئی کہ اس میں ان کے ارادے اور اپنی عقل وفکری قوتوں کا دخل نہ تھا۔ مگر قبل اس کے کہ اس اضطراری و غیر شعوری اسلام کو تعلیم و تربیت کے ذریعہ سے اختیاری اور شعوری اسلام بنایا جاتا ، اور ان میں یہ صلاحیت پیدا کی جاتی کہ وہ اسلامی تعلیمات کو پوری طرح سمجھ کر مسلمان ہوتے اور عملی زندگی میں اس کے احکام وقوانین کو برت کر بھی دیکھ لیتے۔ انہیں انگریزی مدرسوں اور کالجوں میں بھیج دیا گیا جہاں ان کے قوائے ذہنی وفکری کی پرورش بالکل غیر اسلامی تعلیم وتربیت میں ہوئی اور ان کے دماغوں پر مغربی افکار اور مغربی تہذیب کے اصول اس طرح چھا گئے کہ ہر چیز کو وہ مغرب کی نظر سے دیکھنے اور ہر مسئلہ پر مغرب ہی کے ذہن سے غور کرنے لگے اور مغربیت کے اس استبلا سے آزاد ہوکر سوچنا اور دیکھنا ان کے لیے ناممکن ہوگیا۔ مغرب سے انہوں نے عقلیت (Rationalism) کا سبق سیکھا مگر خود عقل ان کی اپنی نہ تھی بلکہ یورپ سے ہی حاصل کی ہوئی تھی۔ اس لئے ان کی عقلیت فرنگی ہوگئی نہ کہ آزاد عقلیت۔ انہوں نے مغرب سے تنقید کا درس بھی لیا مگر یہ آزاد تنقید کا درس نہ تھا بلکہ اس چیز کا درس تھا کہ مغرب کے اصولوں کو برحق مان کر ان کے معیار پر ہر اس چیز کو جانچو جو مغربی نہیں ہے۔ لیکن خود مغرب کے اصولوں کو تنقید سے بالاتر سمجھو۔ اس تعلیم وتربیت کے بعد جب یہ لوگ کالجوں سے فارغ ہوکر نکلے اور زندگی کے میدان عمل میں انہوں نے قدم رکھا تو ان کے دل ودماغ میں بعد المشرقین واقع ہوچکا تھا۔ دل مسلمان تھے۔ اور دماغ غیر مسلم۔ رہتے مسلمانوں میں تھےِ ‘ شب وروز کے معاملات مسلمانوں کے ساتھ تھے۔ اپنے گردو پیس کے مسلمانوں کے مذہبی وتمدنی زندگی کے اعمال دیکھ رہے تھے۔ ہمدردی و محبت کے رشتے مسلمانوں سے وابستہ تھے۔ مگر سوچنے اور سمجھنے اور رائے قائم کرنے کی جتنی قوتیں تھیں وہ سب مغربی سانچوں میں ڈھلی ہوئی تھیں۔ جن سے نہ اسلام کا کوئی قاعدہ مطابقت رکھتا تھا۔ اور نہ مسلمانوں کا کوئی عمل۔ اب انہوں نے مغربی معیار کے مطابق اسلام اور مسلمانوں کی ہر چیز پر تنقید شروع کی اور ہر اس چیز کو غلط اور قابل ترمیم سمجھ لیا جسے اس معیار کے خلاف پایا خواہ اسلام کے اصول و فروع میں سے ہو یا محص مسلمانوں کا عمل ہو۔ ان میں سے بعض نے تحقیق حال کے لیے کچھ اسلام کا مطالعہ بھی کیا۔ مگر تنقید وتحقیق کا معیار وہی مغربی تھا۔ ان کی ذہنیت کے ٹیڑھے سوراخ میں اسلام کی سیدھی میخ آخر بیٹھتی کیوں کر؟ مذہبی مسائل پر جب یہ حضرات اظہار خیال کرتے ہیں تو ان کی باتوں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ بغیر سوچے سمجھے تقریر فرما رہے ہیں۔ نہ ان کے مقدمات درست ہوتے ہیں نہ منطقی اسلوب پر ان کو ترتیب دیتے ہیں اور نہ صحیح نتائج اخذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ کلاس کرتے وقت خود اپنی پوزیشن بھی متعین نہیں کرتے۔ ایک ہی سلسلہ کلام میں مختلف حیثیتں اختیار کرجاتے ہیں ابھی ایک حیثیت سے بول رہے تھے کہ دفعتاً ایک دوسری حیثیت اختیار کرلی اور اپنی پچھلی حیثیت کے خلاف بولنے لگے۔ سستی فکر (loose thinking) ان کے مذہبی ارشادات کی نمایاں خصوصیت ہے۔ مذہب کے سوا دوسرے جس مسئلے پر بھی بولیں گے ہوشیار اور چوکنے ہوکر بولیں گے۔ کیونکہ وہاں اگر کسی قسم کی بے ضابطگی ہوگئی تو جانتے ہیں کہ اہل علم کی نگاہ میں کوئی وقعت باقی نہیں رہے گی۔ لیکن مذہب چونکہ ان کی نگاہ میں کوئی اہمیت نہیں رکھتا اور اس کو وہ اتنا وزن ہی نہیں دیتے کہ اس پر کلام کرتے وقت اپنے دماغ پر زور دینا ضروری سمجھیں اس لیے یہاں وہ بالکل بے فکری کے ساتھ ڈھیلی ڈھالی گفتگو فرماتے ہیں۔ گویا کھانا کھاکر آرام کرسی پر دراز ہیں اور محض تفریح کے طور پر بول رہے ہیں۔ جس میں ضوابط کلام کو ملحوظ رکھنے کی کوئی حاجت ہی نہیں۔ دوسری بات جو ان کی تحریروں میں نمایاں نظر آتی ہے وہ خیالات کی سطحیت اور معلومات کی کمی ہے مذہب کے سوا کسی اور مسئلے میں وہ اتنی کم معلومات اور اس قدر کم غورو فکر کے ساتھ بولنے کی جرات نہیں کرسکتے۔ کیونکہ وہاں اگر تحقیق کے بغیر ایک کلمہ منہ سے نکل جائے تو آبرو جاتی رہتی ہے لیکن مذہب کے معاملہ میں وہ تحقیق اور مطالعہ اور غورو فکر کو ضروری نہیں سمجھتے۔ سرسری طور پر جو کچھ معلوم ہوگیا اس پر رائے قائم کرلی اور بے تکلف اس کو بیان کردیا۔ اس کے لیے کہ کسی گرفت کا یہاں خوف ہی نہیں گرفت اگر کرے گا تو مولوی کرے گا اور مولوں کے متعلق یہ بات پہلے ہی اصول موضوعہ کے طور پر داخل مسلمات ہوچکی ہے کہ وہ تاریک خیال‘ دقیانوسی اور تنگ نظر ہوتا ہے۔ فاضل مضمون نگار کی زیر نظر تحریر جشم بد دور ان دونوں خصوصیات کی حامل ہے سب سے پہلے تو ان کے مضمون سے یہی نہیں معلوم ہوتا کہ وہ مسلم کی حثیت سے کلام کررہے ہیں یا غیر مسلم کی حیثیت سے۔ اسلام کے متعلق گفتگو کرنے والے کی دو ہی حیثیت ہوسکتی ہیں۔ مسلم ہوگا یا غیر مسلم۔ جو شخص مسلم کی حیثیت سے کلام کرے گا عام اس سے کہ وہ خوش عقیدہ (Orthodox) ہو یا آزاد خیال یا اصلاح طلب بہرحال اس کے لیے لازم ہوگا کہ دائرہ اسلام کے اندر رہ کر کلام کرے یعنی قرآن کو منتہائے کلام (Final Authority) سمجھے اور ان اصول دین و قوانین شریعت کو تسلیم کرے جو قرآن نے مقرر کیے ہیں۔ کیونکہ اگر وہ قرآن کو سند نہ مانے گا اور کسی ایسی بات میں کلام کی گنجائش سمجھے گا جو قرآن سے ثابت ہو‘ تو دائرہ اسلام سے باہر نکل آئے گا۔ اور اس دائرے سے نکلنے کے بعد اس کی مسلمانہ حیثیت باقی ہی نہ رہے گی کہ وہ اس میں کلام کرسکے۔ رہی دوسری حیثیت یعنی یہ کہ بولنے والا غیر مسلم ہو تو اس حیثیت میں اسے پورا حق ہوگا کہ قرآن آصول اور اس کے احکام پر جیسی چاہے تنقید کرے اس لیے کہ وہ اس کتاب کو مستنہا کلام نہیں مانتا۔ لیکن یہ حیثیت اختیار کرنے کے بعد اسے مسلم کی حیثیت سے گفتگو کرنے اور مسلمان بن کر مسلمان کو اسلام کے معنی سمجھانے اور اسلام کی ترقی وسائل بتانے کا کوئی حق نہیں ہوگا۔ ایک صاحب عقل وشعور آدمی جب سوچ سمجھ کر اسلام کے متعلق گفتگو کرے گا تو وہ سب سے پہلے یہ فیصلہ کرے گا کہ وہ ان دونوں حیثیتوں میں سے کون سی حیثیت اختیار کرتا ہے۔ پھر وہ جو حیثیت بھی اختیار کرے گا۔ اس کے عقلی شرائط کو ملحوظ رکھے گا۔ کیونکہ بیک وقت اپنے آپ کو مسلمان بھی کہنا اور قران کے مقرر کیے ہوئے اصول وقوانین پر نکتہ چینی کا حق بھی استعمال کرنا قرآن کی سند میں کلام بھی کرنا اور مسلمانوں کو موعظہ حسنہ بھی سنانا کسی عاقل کا فعل نہیں ہوسکتا۔ یہ نقیضین کو جمع کرنا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ایک شخص بیک وقت مسلم بھی ہو اور غیر مسلم بھی۔ دائر اسلام کے اندر بھی ہو اور باہر بھی۔مضمون نگار صاحب کی عملی قابلیت اور ان کی معقولیت کی طرف سے اہم اتنے بدگمان نہیں ہیں کہ ان سے یہ امید رکھیں کہ اگر وہ اسلام کے سوا کسی مسئلہ پر کلام فرماتے تو ان میں بھی اس طرح دو مختلف حیثیتوں کو بیک وقت اپنے اندر جمع کرلیتے۔ ہم ان سے یہ توقع نہیں رکھتے کہ وہ قیصر ہند کی عدلات میں بیٹھ کر قیصر ہند کے منظور کیے ہوئے قوانین پر نکتہ چینی کرنے کا حق استعمال فرمائیں گے نہ ہم ان سے اس جرات کی امید رکھتے ہیں کہ وہ کسی مسلک فکر (School of thought) کی پیروی کا دعویٰ کرنے کے بعد ان اصولوں پر مخالفانہ نکتہ چینی کریں گے جن پر وہ مذہب قائم ہے۔ لیکن طرفہ ماجرا ہے کہ اسلام کے معاملہ میں انہوں نے دو بالکل مختلف حیثییں اختیار کی ہیں اور یہ محسوس تک نہیں کیا کہ وہ بار بار اپنی پوزیشن بدل رہے ہیں۔ ایک طرف وہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں مسلمان کا سا نام رکھتے ہیں۔ مسلمانوں کی زبوں حالی پر رنج فرماتے ہیں۔ اسلام کی ترقی کی خواہش ظاہر کرتے ہیں۔ مسلمانوں کو ”احسان“” یعنی ”اصل دین”“ کا وعظ سناتے ہیں۔ دوسری طرف اس کتاب کے مقرر کیے ہوئے اصول اور قوانین پر نکتہ چینی بھی کرتے ہیں۔ جس پر اسلام کی بنیاد قائم ہے اور جس کر آخری سند تسلیم کرنا مسلمان کے لیے لازمی شرط ہے۔ قرآن ایک نہیں چار جگہ بالتصریح سور(1) کے گوشت کو حرام قرار دیتا ہے۔ مگر آپ اس معاملہ میں ڈھیل دینا پسند فرماتے ہیں۔ اور لطف یہ ہے کہ ڈھیل دینے کی یہ خواہش بھی ”ترقی اسلام“” کے لیے ہے۔ گویا ترقی اسلام کی فکر آپ کو قرآن سے بھی زیادہ ہے! یا کوئی اسلام قرآن سے باہر بھی ہے جس کی ترقی آپ چاہتے ہیں۔ قرآن فی الواقع انسان کے لیے کھانے کا مینو تیار کرتا ہے کھانے کی چیزوں میں حرام وحلال خبیث و طیب کا فرق قائم کرتا ہے اور صاف کہتا ہے کہ تم اپنے اختیار سے کسی شے کو حلال اور حرام قرار دینے کا حق نہیں رکھے۔ مگر آپ کو اپنے حق پر اصرار ہے اور خود قرآن کا یہ حق تسلیم کرنے میں تامل ہے کہ وہ کھانے پینے میں مذہب کو دخل دے۔ قرآن مذہب کو ان حدود میں نہیں رکھتا۔ جن میں سینٹ (نہ کہ مسیح) متبعین نے اس کو محدود کیا ہے۔ وہ لباسِ اکل وشربِ‘ نکاح وطلاقِ‘ وراثت‘ لین دین‘ سیاست‘ عدالت‘ تعزیرات وغیرہ کے قوانین وضع کرتا ہے۔ مگر آپ اس قسم کی قانون سازی کو غلط سمجھتے ہیں۔ اس کو ترقی اسلام میں مانع قرار دیتے ہیں۔ اس پر الزام رکھتے ہیں کہ وہ انسان کو ایک لاشہ بے جان اور بے بس بچہ بنا دیتا ہے۔ اور تجویز کرتے ہیں کہ مذہب اسی قدر ہونا چاہیے جس قدر عیسائیوں (دراصل پولوسیوں) نے سمجھا ہے۔ قران نے خود قوانین شریعت بنائے ہیں اور ان کو حدود اللہ سے تعبیر کرکے ان کی پابندی کا حکم دیا ہے۔ مگر آپ شریعت کی ان حدود کو بیڑیوں سے تعبیر کرتے ہیں اور سینٹ پال کی طرح مذہب کی توسیع وترقی کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔ کہ ان بیڑیوں کو توڑ ڈالا جائے۔ قرآن کے نزدیک ایمان نجات کی پہلی اور لازمی شرط ہے اور جو لوگ خدا پر ایمان نہیں رکھتے ان کے متعلق بالفاظ صریح کہتا ہے کہ وہ دوزخ کا ایندھن بنائے جائیں گے۔ (1) خواہ وہ بے شمار ہوں یا شمار میں آجائیں۔ خوشحال ہوں یا بدحال‘ مگر اپ کا یہ حال ہے کہ کافروں اور بت پرستوں کی بے شمار خلقت کو خوش وخرم وخوشحال دیکھ کر آپ کا دل گواہی نہیں دیتا کہ چند سال بعد وہ سب دوزخ کا ایندھن بنائے جائیں گے۔ اور آپکی سمجھ میں نہیں آتا کہ انہوں نے خدا کی زمین کو معمور کردینے کے سوا اور کون سا قصور کیاہے سوال یہ ہے کہ قرآن سے اتنا کھلا اختلاف رکھتے ہوئے آپ مسلمان کیسے رہ سکتے ہیں۔ اور مسلمان ہوتے ہوئے آپ قران سے اختلاف کیونکر کرسکتے ہیں۔؟ اگر آپ مسلمان ہیں تو قرآن سے اختلاف نہ فرمائیے اور اگر قرآن سے اختلاف کرنا چاہتے ہیں تو دائرہ اسلام سے باہر کھڑے ہوکر اختلاف کیجئے۔جو شخص کسی مذہب کے اصول اور احکام وقوانین سے مطمئن نہ ہو‘ جس کا دل ان کی صداقت پر گواہی نہ دیتا ہو جو ان کی علت و مصلحت کو سمجھنے سے عاجز ہو اور جس کے نزدیک ان میں سے بعض یا اکثر زبانیں قابل اعتراض ہوں ‘ اس کے لیے دو راستے کھلے ہوئے ہےں یا تو وہ مذہب سے نکل جائے ‘ پھر اس کو حق ہوگا کہ اس مذہب کے جس قاعدے اور جس حکم پرچاہے نکتہ چینی کرے یا اگر وہ اس عدم اطمینان کے باوجود اس مذہب میں رہنا چاہتا ہے تو اس کے خلاف مظاہرہ کرنے سے احتراز کرے اور مجتہد بن کر اس کے قواعد وضوابط پرتیشہ چلانے کے بجائے طالب علم بن کر اپنے شکوک وشبہات حل کرنے کی کوشش کرے۔ عقل و دانش کی رو سے تو اس حالت میں یہی دو طریقے ہوسکتے ہیں اور مرد عاقل جب کبھی ایسی حالت میں مبتلا ہوگا تو انہی میں سے کسی ایک طریقے کو اختیار کرے گا۔ لیکن فاضل مضمون نگار اور ان کی طرح بہت سے فرنگی تعلیم وتربیت پائے ہوئے حضرات کا حال یہ ہے کہ پہلا طریقہ اختیار کرنے کی اخلاقی جرات ان میں نہیں اور دوسرا طریقہ اختیار کرتے ہوئے انہیں شرم آتی ہے۔ اس لیے انہوں نے بیچ کا ایک غیر معقول طریقہ اختیار کررکھا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ ایک طرف مسلمانوں میں شامل بھی ہوتے ہیں۔ ترقی اسلام کی آرزو مند بھی بنتے ہیں‘ اسلام اور مسلمانوں کے درد میں تڑپتے بھی ہیں اور دوسری طرف اسلام کے خلاف وہ سب کچھ کہتے اور کرتے ہیں جو ایک غیر مسلم کہہ اور کرسکتا ہے۔ حدیث وفقہ تو درکنار قرآن تک پر نکتہ چینی کرنے سے باز نہیں رہتے اور ان تمام بنیادوں پر ضرب لگا جاتے ہیں جس پر اسلام قائم ہے۔ ان حضرات کو دعویٰ ہے کہ اہم ارباب عقل (Rationalists) ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہم کوئی ایسی بات نہیں مان سکتے جو عقل کے خلاف ہو۔ ملاؤں پر ان کا سب سے بڑا الزام یہی ہے کہ وہ عقل سے کام نہیں لیتے۔ مگر خود ان کا حال یہ ہے کہ مذہب کے معاملہ میں صریح متناقض باتیں کرتے ہیں‘ متضاد طرز عمل اختیار کرتے ہیں اور اپنی ایک بات کی تردید خود اپنی ہی دوسری بات سے کرجاتے ہیں۔ آخر یہ ریشنلز کی کون سی قسم ہی۔ جس کی ایجاد کا شرف ان روشن خیال محقیقین کو حاصل ہوا ہے۔ اب ذرا ان کی معلومات کی وسعت اور فکر کی گہرائی ملاحظہ فرمائیے۔ اسلام کی ترقی کے لیے آپ ضروری سمجھتے ہیں کہ مسیحیت کی طرح اسلام سے بھی شرعی حدود اٹھا دی جائیں اور اسلام صرف ایک عقیدہ کی حیثیت میں رہ جائے۔ کیونکہ مسیحیت کی ترقی کا راز جو آپ نے سمجھا ہے وہ یہ ہے کہ اس میں حلال وحرام کی قیود نہیں ہیں۔ اخلاقی پابندیاں نہیں ہیں۔ اس میں آدمی کے انسانی حقوق سلب کرکے اس کو ایک لاشہ بے جان اور بے بس بچہ نہیں بنایا گیا ہے۔ بلکہ اس کو آزادی دے دی گئی ہے کہ مسیح پر ایمان رکھ کر جو چاہے کرے مگر آپ نے یہ غور نہیں فرمایا کہ اسلام جس چیز کا نام ہے وہ قرآن میں ہے اور قرآن نے ایمان وعمل صالح کا مجموعہ کا نام اسلام رکھا ہے۔ عمل صالح کے لیے حدود و قیود مقرر کیے ہیں۔ قوانین بنائے ہیں اور انفرادی واجتماعی زندگی کے لیے ایک مکمل نظام عمل مقرر کیا ہے۔ جس کے بغیر اسلام بحیثیت ایک دین اور ایک تہذیب کے قائم نہیں ہوسکتا۔ اس نظام اور اس کی حدود کو منسوخ کرنے کا اختیار کسی مسلمان کو نہیں ہے کیونکہ اس کا نسخ قرآن کا نسخ ہے اور قرآن کا نسخ اسلام کا نسخ ہے اور جب اسلام خود ہی منسوخ ہوجائے تو اس کی ترقی کے کیا معنی؟ آپ خود کسی مذہب کو ایجاد کرکے اس کی اشاعت فرما سکتے ہیں مگر جو چیز قرآن کے خلاف ہے اس کو اسلام کے نام سے موسوم کرنے اور اس کی ترقی کو اسلام کی ترقی کہنے کا آپ کو کیا حق ہے۔؟ آپ اسلام صرف اس عقیدہ کا نام رکھتے ہیں کہ ۔”ہم آئندہ زندگی میں یا خود اس زندگی میں اپنے اعمال کے جوابدہ ہیں اور ہوں گے۔“” یہ بات غالباً آپ نے اس امید پر فرمائی ہے کہ اگر اسلام اس حد میں محدود ہوجائے تو بالکل نرم اور آسان ہوجائے گا اور خوب پھیلتا چلاجائے گا۔ لیکن اگر آپ اس عقیدہ کے معنی پر غور فرماتے تو آپ کو معلوم ہوجاتا کہ حد میں محدود ہونے کے بعد بھی اسلام آپ کی مرضی کے مطابق نہیں ہوسکتا۔ اس عقیدے کو مذہب قرار دینے کے لیے سب سے پہلے تو حیات اخروی پر ایمان لانا ضروری ہے۔ پھر جواب دہی کا مفہوم تین باتوں کا متقاضی ہے۔ ایک یہ کہ جس کے سامنے جواب دہی کرنی ہے اس کو متعین کرلیا جائے۔ اور اس کی بالادستی تسلیم کرلی جائے۔ دوسرے یہ کہ جواب دہی کی نوعیت متعین کی جائے اور زندگی کے اعمال میں اس لحاظ سے امتیاز کیا جائے کہ کن اعمال سے اس جواب دہی میں کامیابی نصیب ہوگی اور کون سے اعمال ناکامی کے موجب ہوں گے۔ تیسرے یہ کہ جواب دہی میں کامیابی اور ناکامی کے جدا جدا نتائج متعین کیے جائیں کیونکہ اگر ناکامی کا نتیجہ بھی وہی ہو جو کامیابی کا ہے یا سرے سے دونوں کا کوئی نتیجہ ہی نہ ہو تو جواب دہی بالکل بے معنی ہے۔ یہ اس عقیدہ کے عقلی لوازم ہیں جس کو آپ اصل دین قرار دے رہے ہیں اگر آپ کی تجویز کے مطابق اسی عقیدہ پر اسلام قائم کردیا جائے تب بھی وہی مصیبت پیش آئے گی جس سے آپ بچنا چاہتے ہیں۔ پھر وہی خدا کو ماننا لازم آئے گا جس کے بغیر جاپان آپ کو ترقی کے بام پر چڑھتا نظر آرہا ہے۔ پھر وہی شریعت کی بیڑیاں اور اخلاق کی زنجیریں تیار ہوجائیں گی جس کو آپ توڑنا چاہتے ہیں۔ اور جن کے وجود میں آپ کے نزدیک اسلام کے ترقی نہ کرنے کا راز پوشیدہ ہے۔ پھر وہی عذاب و ثواب کا جھگڑا نکل آئے گا اور خدا کی بے شمار خلقت کو اس عقیدے کے بغیر خوش وخرم حال دیکھ کر آپ کا دل پھر اس بات پر گواہی دینے سے انکار کردے گا کہ چند سال بعد یہ سب عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ براہ کرم اب ذرا غور کرکے کسی ایسی چیز کا نام اسلام رکھیے جس میں کسی قسم کی قید وبند نہ ہو۔ جس کو ماننے اور نہ ماننے کا نتیجہ یکساں ہو‘ جس میں صرف خدا کی زمین کو معمور کردینا دنیاو آخرت کی کامیابی کے لیے کافی ہو‘ اور جس پر ایمان نہ لانے والی بے شمار خلقت کو خوش وخرم و خوشحال دیکھ کر آپ کا دل گواہی دے سکے کہ وہ سب جنت کی بلبلیں بنائی جائیں گی۔ قرآن کی رو سے سور کے گوشت کا قطعی حرام ہونا آپ کے نزدیک مسلم نہیں ہے۔ آپ شک فرماتے ہیں کہ شاید اہل عرب کے لیے کسی خاص وجہ سے حرام کردیا گیا ہو۔ لیکن اگر آپ اس رائے کو ظاہر کرنے سے پہلے قرآن کھول کر پڑھ لیتے تو اس شک کی تحقیق ہوجاتی اس کتاب میں صاف لکھا ہوا ہے کہقُلۡ لَّاۤ اَجِدُ فِیۡ مَاۤ  اُوْحِیَ  اِلَیَّ  مُحَرَّمًا عَلٰی طَاعِمٍ یَّطْعَمُہٗۤ اِلَّاۤ  اَنۡ یَّكُوۡنَ مَیۡتَۃً اَوْ دَمًا مَّسْفُوۡحًا اَوْ لَحْمَ خِنۡزِیۡرٍ فَاِنَّہٗ رِجْسٌ اَوْ فِسْقًا اُہِلَّ لِغَیۡرِ اللہِ  بِہٖ ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیۡرَ بَاغٍ  وَّ لَا عَادٍ  فَاِنَّ رَبَّکَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۴۵﴾  (الانعام , 145)اے پیغمبر کہو کہ میری طرف جو وحی بھیجی گئی ہے اس میں سے کسی چیز کو جسے کوئی کھانے والا کھائے حرام نہیں پاتا الایہ کہ وہ مردار ہو‘ یا بہایا ہوا خون‘ یا سور کا گوشت کیونکہ وہ بہ تحقیق ناپاک ہے۔ یا نافرمانی کے طور پر اللہ کے سوا کسی اور نام سے ذبح کیا گیا ہو۔ پھر جو شخص مجبور ہوگیا بغیر اس کے کہ وہ نافرمان اور حد ضرورت سے تجاویز کرنے والا ہو تو تیرا رب بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔ اس آیت میں سور کے گوشت کو ہر ”طاعم”“ یعنی کھانے والے کے لیے حرام قرار دیا گیا ہے اور حرمت کی علت یہ قرار دی گئی ہے کہ وہ ”رجس“ (ناپاک)” ہے۔ کیا یہاں طاعم سے مراد عرب کا طاعم ہے اور کیا ایک ہی چیز عرب کے لیے رجس اور غیر عرب کے لیے طیب وطاہر ہوسکتی ہے اور کیا اسی طریقہ سے آپ مردار کھانے والوں کے لیے بھی ذرا ڈھیل دینا پسند فرمائیں گے۔ آپ سور کے معاملہ میں ڈھیل چاہتے ہیں تو خود اپنی طرف سے دے دیجئے مگر قرآن کے صریح الفاظ کے خلاف آپ کو یہ کہنے کا کیا حق ہے کہ قرآن سے اس کی قطعی ممانعت مشکوک ہے۔؟ آج کل کے نئے مجتہدین نے اجتہاد کے جو اصول وضع کیے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اسلام کے جس حکم کی خلاف ورزی کرنا چاہتے ہیں اس کے متعلق بلا تکلف کہہ دیتے ہیں کہ یہ خاص اہل عرب کے لیے تھا۔ خواہ قرآن میں اس تخصیص کی طرف کوئی ذرا سا اشارہ بھی نہ ہو اور تخصیص کے لیے وہ کوئی عقلی یا نقلی دلیل نہ رکھتے ہوں۔ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو بعید نہیں کہ ایک روز قرآن ہی کو اہل عرب کے لیے مخصوص کردیا جائے ۔اور  فَمَنِ اضْطُرَّ غَیۡرَ بَاغٍ  وَّ لَا عَادٍ   سے استدلال تو اتنا لطیف ہے کہ صاحب سفر نامہ کے علم و فضل کی داد دینے کو جی چاہتا ہے غالباً اس آیت کا ترجمہ انہوں نے یہ کیا ہوگا کہ جب سور کا گوشت کھانے کو بے اختیار جی چاہے تو کھالو مگر باغ میں بیٹھ کر نہ کھانا اور نہ اس کی عادت ڈالنا۔ سور کے گوشت میں اہل یورپ اور اہل چین کے ڈھیل دینے کی گنجائش اس آیت سے وہی شخص نکال سکتا ہے جو نہ اضطرار کے معنی جانتا ہو‘ نہ باغی کا مفہوم سمجھتا ہو اور نہ عادی کا۔ ورنہ جاننے والے کے لیے تو اتنی جرات کرنا بہت مشکل ہے۔ آیت کا مفہوم یہ نہیں کہ جن لوگوں کو مردار خوری یا خون آشامی کا چسکا لگا ہوا ہے جو لوگ سور کے گوشت پر جان دیتے ہوں یا جن کے ہاں ما اھل بہ لغیر  کے کھانے کا عام دستور ہو‘ وہ سب مجبوروں میں داخل ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو تحریم کا حکم ہی بے معنی ہوجاتا۔ کیونکہ اگر تحریم ان لوگوں کے لیے تھے جو ان چیزوں کے خوگر تھے تو استثناءسے فائدہ اٹھا کر وہ اپنی عادت کے مطابق انہیں کھاتے رہتے اور اگر تحریم ان لوگوں کے لیے تھی جو خود ہی ان سے مجتنب تھے تو ان کے لیے اس حکم کی ضرورت ہی نہ تھی۔ اضطرار(مجبوری( کے ساتھ غَیۡرَ بَاغٍ  وَّ لَا کی شرط لگا کر جو استثناءکیا گیا ہے اس کا مفہوم تو یہ ہے کہ جو شخص بھوک سے مررہا ہو اور حرام چیز کے سوا کوئی چیز اس کو نہ ملتی ہو ‘ وہ جان بچانے کے لیے حرام چیز کھا سکتا ہے۔ بشرطیکہ حد رخصت سے تجاوز نہ کرے۔ یعنی جان بچانے کے لیے جتنی مقدار ناگزیر ہو اس سے زیادہ نہ کھائے اور حدود اللہ کے تورنے کی خواہش اس کے دل میں نہ ہو۔ اسی بات کو ایک دوسری جگہ سور اور مردار وغیرہ چیزوں کی تحریم کا ذکر کرتے ہوئے اس طرح بیان کیا گیا ہے۔ فَمَنِ اضْطُرَّ فِیۡ مَخْمَصَۃٍ غَیۡرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍ ۙ(المائدہ , 3) یعنی جو شخص بھوک کی شدت سے مجبور ہوجائے بجائے اس کے کہ گناہ کی طرف کوئی میلان اس کے دل میں ہو وہ ایسی حالت میں حرام چیز کھا سکتا ہے کہاں یہ بات اور کہاں وہ کہ اہل یورپ اور اہل چین چونکہ سور کے گوشت پر جان دیتے ہیں لہٰذا فَمَنِ اضْطُرَّ غَیۡرَ بَاغٍ  وَّ لَا عَادٍ  سے فائدہ اٹھا کر ان کے لیے سور کو جائز کردیا جائے اور وہ بھی اس لیے کہ وہ اسلام میں داخل ہوسکیں اگر کسی طریقہ سے ہر قوم کی رغبتوں اور خواہش کا لحاظ کرکے اسلام کے قوانین میں ڈھیل دینے کا سلسلہ شروع ہوجائے تو شراب‘ جوا‘ زنا‘ سود اور ایسی ہی دوسری تمام چیزوں کو ایک ایک کرکے حلال کرنا پڑے گا۔ سوال یہ ہے کہ جولوگ خدا کے احکام ماننے اور اس کے قائم کیے ہوئے حدود کی پابندی کرنے اور اس کے حرام کو حرام سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہیں ان کو اسلام میں داخل کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ اسلام ان کا محتاج کب ہے کہ وہ ان کو راضی کرنے کے لیے کم وبیش پر سودا کرے؟ پہلے تو صرف سورہی کے حرام ہونے کی علت آپ کی سمجھ میں نہیں آئی تھی مگر پھر جو آپ نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ اصولاً معدہ اور محرکات اخلاق میں بون بعید ہے لہٰذا آپ نے یہ رائے قائم فرمائی کہ مذہب کو کھانے پینے کی چیزوں میں حلال و حرام کا امتیاز قائم کرنے کا سرے سے کوئی حق ہی نہیں ہے اس ارشاد سے یہ راز فاش ہوگیا کہ آپ جتنا قران کے متعلق جانتے ہیں حکمت طبیعی کے متعلق بھی اس سے زیادہ کچھ نہیں جانتے۔ قرآن سے ناواقف ہونا تو خیر ایک ”روشن خیال” تعلیم یافتہ آدمی“ کے لیے شرمناک نہیں ہے مگر سائنس سے اتنی بے خبری البتہ شرمناک ہے۔ آپ کو اب تک یہ معلوم نہیں ہوا کہ انسان کی نفس اور اس کی ترکیب جسمانی کے درمیان کیا تعلق ہے۔ اور اس کی ترکیب جسمانی غذا سے کیا تعلق رکھتی ہے جو چیز جسم کو اس کے ضائع شدہ اجزائے ترکیبی فراہم کرتی ہے‘ جس سے بدن کے تمام ریشے اور اعصاب از سر نو بنتے ہیں جو چند سال کے اندر پرانے جسم کی جگہ نیا جسم پورا پورا بنادیتی ہے۔ اس کی خصوصیات کا اثر نفس اور روح پر ہونا نہیں بلکہ نہ ہونا قابل تعجب ہے۔ اس حقیقت سے سائنٹیفک دنیا پہلے عموماً غافل تھی۔ مگر فن تغذیہ (Dietetics) پر حال میں جو تحقیقات ہوئی ہیں ان سے یہ راز منکشف ہوگیا ہے کہ انسان کے اخلاق اور اس کی ذہنی قوتوں پر اس کی غذا کا اثر ضرور مترتب ہوتا ہے۔ چنانچہ آج کل کے حکماءاس تجسس میں لگے ہوئے ہیں کہ مختلف قسم کی غذاوں سے ہمارے نفس اور قوائے فکری پر کیا اثرات ہوئے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے گریجویٹ دوست کی سائینٹفک معلومات تازہ (Up-to-date) نہیں ہیں‘ ورنہ وہ اتنی جرات کے ساتھ یہ دعویٰ نہ کردیتے کہ اصولاً معدہ اور محرکات اخلاق میں بعد ہے۔ترجمان القرآن۔ شعبان ۱۳۵۳ھ۔ مارچ

Share