عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

علامہ اقبال کے گمشدہ دیوان رموز ٹوئٹری کا تنقیدی جائزہ

شاعر مشرق پر سرقے کے الزامات تو کوئی خیر کوئی ایسی نئی بات نہیں-حاسدین نے کہا کہ خوشحال خاں خٹک کا کلام چراتے ہیں، کچھ نے کہا کہ نطشے کے سوپر مین کو مشرف با اسلام کیا اور فلسفہ خودی پڑھا کر جبرا مرد مومن بنایا ، ائن رینڈ کا جان گالٹ بحرحال امتداد زمانہ سے بچا رہا ، کچھ ناخلف حکیم الامت پر فقط رومی کے ریختہ مترجم ہونے کا الزام دھرتے ہیں، لب پہ آتی ھے دُعا بن کے تمنا پر تو بہت سوں کو اصرار ہے کہ میٹیلڈا بیتھم ایڈورڈ کا حوالہ دینا اخلاقی طور پر لازم تھا، پر بھائی ناقدین کی زبان کون پکڑ سکتا ہے ، وہ تو مارٹن لوتھر کنگ کے مقالے میں چوریاں تلاشتے ہیں، عرفی تو میندش زغوغائے رقیباں وغیرہ۔

لیکن آج ہمارا موضوع خود کو مباح الدم قرار دلوانا قطعی نہیں، بلکہ ڈاکٹر اقبال کے گمشدہ دیوان المعروف رموز ٹوئٹری کے فاونڈ فٹیج سے منسوب ، عروض اور وزن کے قید و بند سے آزاد ان اہم اشعار کی طرف احباب کی توجہ دلانا مقصود ہے جو ہمیں جا بجا سماجی رابطے کی سائیٹوں پر ڈبلیو گیارہ کے طغروں کی طرح چسپاں نظر آتے ہیں۔ ضمیر جعفری نے اقبال شناسی کے فقدان کے ضمن میں کہا تھا

بپا ہم سال میں اک مجلس اقبال کرتے ہیں
پھر اْسکے بعد جو کرتے ہیں وہ قوال کرتے ہیں

یہاں وہی کچھ سوشل میڈیا کے قوال جنھیں جاوید نامہ، اسرار و رموز۔ پیامٍ مشرق زبور عجم، پس چہ باید کرد اور ارمغانِ حجاز یقینا ازبر ہیں، منسوبی اور سینہ زوری کی لے پر، مان نا مان یہ تیرا دیوان کے تحت شاعر مشرق کے گمشدہ دیوان کی معرفت کی دھن میں مگن ہیں۔راقم جیسے رجعت پسند کا تو خیال ہے کہ برنابس کی طرح یہاں بھی ایسے ایسے اشعار علامہ کی ایما پر کہے گئے ہیں کہ الامان والحفیظ، یہاں ایما سے مراد جرمن عفیفہ ایما ویگناسٹ ہرگز نہیں، ہر قسم کی مماثلات محض اتفاقی ہے۔ اب یہی دیکھیں مثلا

صبح کو باغ میں شبنم پڑتی ہے فقط اس لئے
کہ پتا پتا کرے تیرا ذکر با وضو ہوکر

یہاں ندرت خیال کے پوائنٹ تو بالکل بنتے ہیں لیکن نثر اور نظم کے درمیان کے اس پل صراط پر چلنا ہم قدامت پرستوں کے لئے تو امر محال تھا – شائد اقبال کی جدیدت کی رگ پھڑکی ہو یا پھر یہ

اپنے کردار پر ڈال کہ پردہ اقبال
ہر شخص کہہ رہا ہے زمانہ خراب ہے

یہ شعر تو وصی شاہ کے دیوان کی طرح قرب قیامت کی نشانی معلوم ہوتا ہے لیکن اگر آپکی تشنگی نہیں ہوئی توماڈرن ارمغان حجاز کے ناوک مژگاں میں تیر بہت۔

حسن کردار سے نور مجسم ہوجا
کہ ابلیس بھی تجھے دیکھے تو مسلمان ہوجائے

اور

ہنسی آتی ہے مجھے حسرت انسان پر
گناہ کرتا ہے خود، لعنت بھیجتا ہے شیطان پر

ہمارا تو واثق گمان ہے کہ ایسی شدید ترین بے وزنی کی کیفیت اور قواعد کی دھجیاں اڑاتے اشعار دیکھ کر انسان کا روز حشر پر ایمان مزید مضبوط ہوجاتا ہوگا کہ ایسے بدبختوں سے تو خدا ہی نپٹے. ہم اس دیوان کو اقبال کا کبھی نا مانتے ، لیکن جب ان فیس بکی اقبال شناسوں نے ہمیں اس دیوان سے یہ تحریف دکھائی کہ

اشعار مرے یوں تو زمانے کے لیے ہیں
کچھ شعر فقط ٹرک کے پیچھے لگانے کے لیے ہیں

تو چار و نا چار ہم نے بھی ہامی بھر لی ، مگر اب اگر اقبال غزل سرا ہو تو کیا کہیں، یہ بھی ملاحظہ کریں

عشق قاتل سے بھی مقتول سے ہمدردی بھی
یہ بتاکس سے محبت کی جزا مانگے گا
سجدہ خالق کو بھی ابلیس سے یارانہ بھی
حشر میں کس سے عقیدت کا صلہ مانگے گا؟

اور تو اور، تنِ حرم میں چھُپا دی ہے رُوحِ بُت خانہ کے مصداق اس کرشمہ ساز دیوان کی مندرجہ زیل رباعی کو ایسے پھیلایا گیا کہ جیسے فیک نیوز سمجھ کے اینٹی ویکسرز نے چُن لیا ہو

تم حیا و شریعت کے تقاضوں کی بات کرتے ہو
ہم نے ننگے جسموں کو ملبوس حیا دیکھا ہے
دیکھے ہیں ہم نے احرام میں لپٹے کئی ابلیس
ہم نے کئی بار مہ خانے میں خدا دیکھا ہے

شومئی قسمت کہیں یا نفرین کشف ، یہ جس کی اذانوں سے فاش سرِ کلیم وخلیل​ کی بے اقبالیاں بھی انہی کے نام سے منسوب ہوئیں کہ

ملاقاتیں عروج پر تھیں تو جواب اذاں تک نا دیااقبال
صنم جو روٹھا ہے تو آج موذن بنے بیٹھے ہیں

اب اس پر تو ہم نے مرزا سے صاف کہہ دیا تھا گر اس فیس بکی طغرے والے شاعر کا سراغ ملا تو مفعول فاعلاتن مفعول فاعلاتن اور فاعلتن فاعلتن فاعلتن سےفاعل و مفعول کی ایف آئی آر درج کروانے کی نوبت آجائے گی۔

اقبالیات کی خاص بات اسکی عالمگیریت ہے، لحاظہ کسی موضوع پر بھی نسبت کی ضرورت ہو، اقبال کا نام لگانے کی دیر ہے، مثلا عالم رویا ہی دیکھیں

سونے دو اگر وہ سو رہے ہیں غلامی کی نیند
ہوسکتا ہے وہ خواب آزادی کا دیکھ رہے ہوں

یا دیار مغرب کی نفی ہو

یہی درس دیتا ہے ہمیں ہر شام کا سورج اقبال
مغرب کی طرف جاو گے تو ڈوب جاو گے

احقر کو غالب گمان ہے کہ پوسٹ کرنے والے نے اسی وجہ سے اقبال کو شاعر مشرق مانا، ورنہ تو بقول اقبال امروزی

دل میں خدا کا ہونا لازم ہے اقبال
سجدوں میں پڑے رہنے سے جنت نہیں ملتی

 گمان ہے کہ یہ والا شعر دیوان میں درج ہوتے ہوتے رہ گیا ہوگا، جبھی اس گمشدہ دیوان میں ملا، ہزاروں سجدے تڑپ رہے تھے اس جبین نیاز میں سے اگلا والا تھا ۔لیکن سجدوں پر فتاوی بھی نئے شاعر مشرق کا ہی ہنر ہے کہ دین مْلّا فی سبیل اللہ فساد

تیرے سجدے کہیں تجھے کافر نہ کردیں اقبال
تو جھکتا کہیں اور ہے، سوچتا کہیں اور ہے

راقم کا خیال ہے کہ یہ تو پیار ہے کسی اور کا تجھے چاہتا کسی اور ہے کی زمین میں لکھا گیا ہے لیکن دروغ برگردن قاری۔ سوچا تھا اور لکھیں لیکن اس نئے دیوان کے مندرجات پڑھنے کے بعد فشار خوں قصر سلطانی کے گنبد پر یہ کہتا پایا گیا کہ اس محفل سے خوشتر ہے کسي صحرا کي تنہائي۔ اب مسرور شاہ جہاں پوری کے اس شعر پر اختتام کرتا ہوں کہ

مرحوم شاعروں کا جو مل جائے کچھ کلام
سرقے کا لے کے جام چلو شاعری کریں

Share

Leave a Reply

You can use these HTML tags and attributes: <a href="" title=""> <abbr title=""> <acronym title=""> <b> <blockquote cite=""> <cite> <code> <del datetime=""> <em> <i> <q cite=""> <s> <strike> <strong>