فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

March 30, 2012

ٹیورنگ کی مشین

Filed under: تحقیق — ابو عزام @ 6:00 am

ایلن ٹیورنگ ایک برطانوئ ریاضی دان، منطقیات کا ماہر اور آج کی اصطلاح کے مطابق ایک  کمپیوٹر سائنسدان تھا۔ اس نے کمپیوٹر سائنس کی تخلیق و ترقی میں انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے۔ الگارتھم اور جدید کمپیوٹرائزڈ حسابیات کو ٹیورنگ مشین کی مدد سے حل کرنے کا نظریہ،  جسے نظریاتی کمپیوٹر سائینس کی اساس قرار دیا جاتا ہے، اسی کے ذہن کی پیداوار ہے۔

عمومی طور پر ٹیورنگ کا سب سے بڑا کارنامہ دوسری جنگ عظیم میں اتحادیوں کے لیے جرمنوں کے خفیہ پیغامات کو توڑنے کی مشین ایجاد کرنا سمجھا جاتا ہے۔ جرمنوں کے خفیہ پیغامات ارسال کرنے کے لیے کرپٹاگرافی کا سہارا لیا اور ایک مشین اینگما کے نام سے ایجاد کی جو کہ جنگی پیغامات کو خفیہ طور پر لکھ کر منزل مقصود پر اپنی غیر خفیہ حالت میں پڑھنے میں ممد و معاون ثابت ہوتی تھی۔ ٹیورنگ نے اپنی ذہانت سے اس خفیہ پیغام کو توڑا اور ایک مشین ایجاد کی جو کہ ایسے تمام خفیہ پیغامات کو توڑکر ان کی اصل شکل میں دکھا سکتی تھی۔ یہ ایجاد چونکہ دفاعی اہمیت کی حامل تھی لہذا اسے نہایت خفیہ رکھا گیا اورعرصہ دراز تک ایلن ٹیورنگ کا کام منظر عام پر نا آسکا۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے تن تنہا دوسری جنگ عظیم کو کم از کم دو سال مختصر کرنے میں مدد کی اور لاکھوں جانوں کو ضائع ہونے سے بچایا۔

ٹیورنگ کی مشہور زمانہ مشین یہ دوسری جنگ عظیم کی خفیہ کوڈ حل کرنے والی مشین نہیں بلکہ آپ کو یہ جان کہ حیرت ہوگی کہ ٹیورنگ کی مشین درحقیقت ایک نظریاتی مشین ہے، اس کے لاامتنہای ٹیپ کے تقاضے کی وجہ سے اس کو بنانا ممکن نہیں۔ لیکن ٹیورنگ نے نظریاتی طور پر ثابت کیا کہ ایک عمومی مشین سے مختلف النواع مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے۔ یہ مخصوص مشینوں کے دور میں ایک بہت بڑی بات تھی جب عمومی کام کی مشینوں کا کوئ تصور موجود نا تھا۔ اگر ٹیورنگ کے نظریے کو نکال دیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ اکاونٹنگ کے لئے ایک طرح کا کمپیوٹر ہوتا اور ورڈ پراسسنگ کے لئے دوسری طرح کا اور ڈیزائننگ کے لئے اور طرح کا۔ وان نیومین آرکیٹیکچر کی طرح ٹیورنگ مشین نے بھی  کمپیوٹنگ کی دنیا میں نہایت بنیادی تبدیلی لاتے ہوے سائنسدانوں کو اس سوچ پر قائل کیا کہ ایک عمومی مشین کا وجود ممکن ہے جو مختلف النواع کے کام کر سکتی ہے۔ یہیں سے پراگرام اور جنرل پرپس کپمیوٹر کی ابتدا ہوتی ہے۔

ٹیورنگ کی مشین دراصل اسٹیٹ مشین کی ایک قسم ہے۔ ایک ایسا نظریاتی کمپیوٹر جس میں لامحدود لمبائی کا ایک ٹیپ ہو، ایک عدد ہیڈ جو کہ دائیں اور بایئں ہل جل کر لکھ پڑھ  سکتا ہو٫ اس کی مدد سے آپ جمع، تفریق اور دیگر ریاضی کے کام، کیلکولس، شماریات، منطقی مسائل غرضیکہ ہر وہ کام جو کہ ‘پراگرام’ ہو سکتا ہو حل کر سکتے ہیں۔ درحقیقت یہ مشین جدید پراگرامنگ یا اس سے پہلے کے پنچ کارڈز کی ایک ابتدائ نظریاتی شکل تھی۔

مصنوعی ذہانت میں بھی ٹیورنگ کا کام نہایت اہمیت کا حامل ہے اور یہ کہنا غلط نا ہوگا کہ کمپیوٹر سائینس کی اس شاخ کی ایجاد کا سہرا ایلن ٹیورنگ کے سر ہی جاتا ہے۔ اس کا بنایا ہوا ٹیورنگ ٹیسٹ آج بھی مصنوعی ذہانت کی معراج مانا جاتا ہے۔ نیز ایلن ٹیورنگ کے نام پر قائم ٹیورنگ انعام جو اس سال جوڈیا پرل کو ملا ہے، کمپیوٹرسائنس کی دنیا کا نوبل انعام سمجھا جاتا ہے۔ ریڈیو لیب کا یہ پاڈکاسٹ ایلن ٹیورنگ کے تعارف کے زمن میں سننے سے تعلق رکھتا ہے۔

Share

March 29, 2012

کھوکھلے خواب

Filed under: پاکستان,سیاست,مشاہدات — ابو عزام @ 10:31 pm

مارچ ۲۳ کے تناظر میں لکھی گئی یہ تحریر تو شائد کلمہ ابتذال کلیشے ہی قرار پاے لیکن بقول فیض، کبھی کبھی ایسا بھی لکھنا چاہیے۔

یہ لوگ کون ہیں اور کونسے خواب دیکھ رہے ہیں؟ کیا یہی وہ رویا اقبال ہے جس کا چہار دانگ عالم چرچا ہے، کیا یہی وہ خواب ہیں جس کی تعبیر اسلامی جمہوریہ پاکستان کی صورت میں قائم ہونے والی ایک اسلامی فلاحی ریاست ہے؟

 ہم اسے توہم و اغفال و تجسم ہذیان تو قرار دے سکتے ہیں لیکن زمینی حقائق سے دور ان پوش و کلچرڈ گلچین کا اساس مملکت خداداد سے کیا لینا دینا۔ اردش کے استعمال کے بنا چارہ نہیں کہ اس شماریات کا سیمپل سائز تو خدا جانے کس قسم کا آوٹلائر ہے، کوئ باشرع جوان نہیں، کوئ حجابی خاتون نہیں، ٹک ذکر دین نہیں، کہیں نظام مصطفوی کی پکار نہیں، فکر ہے تو بس اس بات کی کہ پاکستان کا ویزہ لینے کے لیے لوگوں کی لاین لگ جائے۔ مستعار لی گئی  مغربی عقل کے یہ متوالے پھر اسلامی جمہوریہ پاکستان اورمملکت ناروے و ریاست آسٹریلیا ومملکت نیدرلینڈز میں کیا فرق دیکھتے ہیں جہاں کی ہیومن ڈویلپمینٹ انڈیکس ٹاپ تھری میں شمار ہوتی ہے۔ اداروں کی مضبوطی کی خواہش یا قانون کی بالادستی بات تو بجا ٹھری لیکن نظریات کے فرق میں برہان قاطع کیا ہے؟ جس اساس پرمملکت پاکستان کا وجود ٹھرا، اس کا تذکرہ ندارد، کہیں تو بہر خدا آج ذکر یار چلے۔ کیا یہی مملکت پاکستان کے حصول کا خواب تھا؟ اگریہی بات ٹھری تو پھردو قومی نظریے پر  دو حرف بھیجیے اور اسے خلیج بنگال کی طرح اس بار بحیرہ عرب میں ڈبو دیں، قرار داد مقاصد کو آگ لگا دیں، اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کو سیکیولر جمہوریہ قرار دیتے ہوئے ایک “ترقی یافتہ” ملک بنانے کی جدوجہد کے لیے کمر باندھ لیں۔

قومی لباس سے محروم تن بدن پر موجود جن خمار آلود آنکھوں نے یہ اسکرپٹڈ خواب بنے ہیں انہیں میں استعمارانہ نظام کے خواب، سرمایہ دارانہ نظام کے خواب، گلوبل معیشیت کے خواب یا کالونیلزم کے خواب ہی گردان سکتا ہوں۔ مملکت خداداد کے مستقبل کے لیے اقامت دین اور قیام نظام مصطفے صلی اللہ  علیہ وسلم ہی ایک خواب ہے جس کوغلامان مصطفی کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور اس کی تعبیر کی سعی کرتے ہیں۔

ڈرائنگ روم کی سیاست کرنے والے جو لوگ اپنی زبان میں خواب بھی نہیں دیکھ سکتے ان سے فسانوی حقیقت کا حق بھی چھین لیا جاتا ہے۔

Share

March 27, 2012

دی ہنگر گیمز از سوزن کولنز

Filed under: ادبیات,کتابیات — ابو عزام @ 6:49 am

ہمارے مقرر کردہ  جدول کے مطابق تو دی ہنگر گیمز از سوزن کولنزکی آمد میں وقت تھا لیکن پاپولر کلچر کا برا ہو کہ ہمیں اسکا مطالعہ جلد شروع کرنا پڑا، کتاب اسقدر دلچسپ ہے کہ پتا نہیں چلا کیسے وقت گذر گیا۔ اسرار و ایکشن سے بھرپور،۲۰۰۸ میں چھپنے والے اس تقریبا چار سو صفحات کا یہ ناول پچھلے ۵۵۰ دنوں سے ایمزن کی ٹاپ ۱۰۰ کتب میں شامل ہے۔ اس کتاب کا مرکزی ۔ کردار کیٹنس ایورڈین نامی ایک ۱۶ سالہ لڑکی ہے جو پانم نامی ملک کے غریب ترین ضلع نمبر ۱۲  میں اپنی ماں اور چھوٹی بہن کے ساتھ رہتی ہے۔ پانم جو ماضی میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ نامی ملک ہوا کرتا تھا ، وہاں تقریبا۷۴ سال قبل اضلاع نے مرکز یعنی کیپٹل کے خلاف جنگ شروع کی  لیکن مرکز نے اس بغاوت کو سختی سے کچل دیانیز ہتھیار ڈالنے کی شرائط میں یہ شامل کیا گیا کہ ہر سال، ہر ضلع سے ایک عدد لڑکے اور ایک عدد لڑکی کو ‘ہنگر گیمز’ یا بازی ہاے بھوک نامی کھیلوں میں بھیجا جاے گا۔ یہ کھیل روم کے گلیڈیٹرز کے کھیلوں سے زیادہ مختلف نہیں ہوا کرتے۔ ۲۴ عدد لڑکے اور لڑکیاں ایک میدان جنگ میں داخل ہوتے ہیں اور ان میں سے صرف ایک فرد زندہ سلامت جیت کر باہر آسکتا ہے۔

اس کتاب کے مزید دو حصے بھی ہیں لیکن کہانی کا پر حصہ ایک کتاب میں میں مکمل ہے۔ دی ہنگر گیمز پر بننے والی فلم بھی نہایت کامیاب قرار پائ ہے لیکن راقم کا خیال ہے کہ اس کتاب کو پڑھنے میں جتنا مزا آیا ہے وہ فلم دیکھنے میں نہیں آسکتا۔اس کتاب میں سوزن کولنز نے معاشی نا ہمواریوں، طبقاتی تقسیم، افلاس، انسانی جذبات اور زندہ رہنے کی خواہش جیسے بہت سے مختلف موضوعات سے بحث کی ہے۔ عمومی طور پر یہ کتاب ان قارئین کے لیے  لکھی گئی ہے جو اپنے لڑکپن سے گذر رہے ہوں لیکن ہر عمر کے سائ-فائ و اسرار وآخرالزماں مطلق العنانی لٹریچر کےقدردانوں کے لیے یہ کتاب نہایت خوب انتخاب ہے۔ کیٹنس ایورڈین، اسکی ۱۲ سالہ بہن پرم، اس کی بیمار ماں، وفاق کا مطلق العنان حکمران صدر سنو، دیگر اضلاع کے مقابل کرداروں، انکی ہتھیاروں کی مہارت اور ساینسی ایجادات سے بھرپور یہ ناول جارج آرویل کی ۱۹۸۴ اور اینڈرز گیم کا اسرار انگیز امتزاج ہے۔ کچھ لوگ اسے بیٹل رویال نامی جاپانی ناول کا چربہ بھی قرار دیتے ہیں جو کہ ہمارے اس ناول کے محدود مطالعے کی بنا پر کافی حد تک درست لگتا ہے۔ آپ پڑھ کر بتایں کہ آپ کودی ہنگر گیمز کیسا لگا؟

Share

March 22, 2012

آور لیڈی آف ایلس بھٹی از محمد حنیف

Filed under: ادبیات,کتابیات — ابو عزام @ 12:02 am

محمد حنیف کے مکتبہ فکر سے تو ہمارا قطبین کا فاصلہ ٹھرا لیکن انکی ندرت خیال اور خوبی نثر کی تعریف نا کرنا ایک بڑی ادبی ناانصافی ہوگی۔ کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگوز کے بعد انکا تازہ ناول آور لیڈی آف ایلس بھٹی کل ہی ختم کیا اور امید ہے کہ ہماری یہ پیشن گوئ صحیح ثابت ہوگی کہ جلد ہی برصغیر کے انگریزی مصنفین میں انکا نام امیتابھ گھوش اور اروندھتی رائےکے پاے کا قرار دیا جاے گا۔ اس ناول کو ایک بار اٹھانے کے بعد رکھنے کو قطعی دل نہیں چاہتا، سسپنس کا برقرار رکھتے ہوے مصنف نے جس طرح کہانی کا تاروپود باندھا ہے وہ اپنی مثال آپ  ہے۔

محمد حنیف کو  تاریک طنز یا ڈارک کامیڈی پر خاص عبور حاصل ہے۔ وہ مھیب و موحش صورتحال کو اس پاے میں بیان کرتے ہیں کہ افسردگی کا وہ منظر آپ کی آنکھوں کے سامنے گھوم جاتا ہے اور لیکن اس طرح کہ اس کی سنگینی میں طنز و مزاح کے نشتر سے ناگفتنی سا شگاف پڑا ہو۔ آور لیڈی آف ایلس بھٹی ایک عیسائ نرس ایلس کی بپتا ہے جو فرنچ کالونی جسے آپ کراچی کی عیسی نگری کا متبادل سمجھ لیں، کی رہایشی ہے اور جیل سے باہر آنے کے بعد اپنی زندگی کو عام ڈگر پر لانے کے لیے روز شب محنت کرنے کو تیار۔ اسی دوران اس کی مدبھیڑ پولیس کے ایک مخبر اور سابق جونیر مسٹر فیصل آباد  ٹیڈی سے ہوجاتی اورمہر و ماہ کے اس ٹکراو سے کہانی کے ہمہ جہتی پہلو نکلنا شروع ہوجاتے ہیں۔ مصنف کو کردار سازی میں ملکہ حاصل ہے، ان کے زیادہ تر کردار یک رخی لیکن مضبوط ہوتے ہیں چاہے وہ جیل کا ساتھی نور ہو، ایلس کا باپ جوزف بھٹی ہو جو ‘مسلوں کی دعاوں’ سے السر کا علاج کرتا ہے،انکاونٹر اسپیشلسٹ انسپکٹر ملنگی ہو، سسٹر حنا علوی جیسی خرانٹ ہیڈ نرس ہو، ناٹ-ابوزر کا پراسرار کردار ہو  یا چریا وارڈ کے بے نام و نشان مریض، یہ تمام کردار ناول کے کینوس پر پھیلے نظر آتے ہیں، اس طرح کہ ان کے انفرادی رنگ نمایاں تو ہوں لیکن ان رنگوں کا یہ امتزاج ایک جاندار پلاٹ کی صورت میں قاری کو متجسس و منہمک رکھے۔

مصنف کے قرطاس پر منظر نگاری اور حالات و واقعات کے تانے بانے کچھ اسطرح بنے جاتے ہیں کہ قاری عش عش کر اٹھتا ہے ۔ ٹایم لاین کو اور لیپ کرنا یعنی حالات و واقعات کو متوازی چلاتے ہوے ایک نقطے پر مرکوز کرنا محمد حنیف صاحب کا اوج کمال ہے۔ آور لیڈی آف ایلس بھٹی ایک بہترین رولر کوسٹر کی طرح آپ کو بور نہیں ہونے دیتی،ہوسکتا ہے میری طرح آپ کو تین چوتھای ناول کے بعد انجام کی بھنک پڑ جاے لیکن سسپنس کا عنصر آخر تک باقی رہتا ہے۔ کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگوز کی طرح اس کتاب کا انجام بھی غیر روایتی اور کتاب کی طرح ہی آزاد از قیود و رسوم ہے، کیا ہیپی اینڈنگ اور رزمیہ اختتام کے علاوہ بھی کوئ اور انجام ہوتا ہے؟ یہ بات آپ کتاب پڑھ کر ہی جان پائیں گے۔

مصنف کی تحریر کی ایک بنیادی خوبی ناول میں تجسس و رومانویت کا مخفی عنصر ہے جس پر امتداد زمانہ کی گرد سے مہین جالے بن دیے جاتے ہیں لیکن یہ ابن صفی کی طرز کی تحریر نہیں۔ ان کا قلم طنز میں ڈوبا ہوا ایک نشتر ہے جسے وہ بے رحمی و سہل انگاری سے معاشرتی اقدار کی پردہ دری کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جیسے کہ میں کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگوزکے تبصرے میں کہ چکا ہوں، محمد حنیف کے لیے کوئ چیز مقدس گاے نہیں۔ معاشرتی اقدار پر طنز، اقلیتوں سے سلوک اور ان کی کمیونٹی کے مسائل، کراچی میں امن و امان کی سريع الزوال صورتحال، پادری و بشپ و محراب و منبر سے لے کر چوڑا چمار، ہر جہت پر ان کے قلم کی سیاہی اس طرح بلا تفریق چھینٹے اڑاتی ہے کہ دامن بچانا مشکل ہوتا ہے۔ اگر میں آپ سے یہ کہوں کہ یہ ناول ‘سیونگ فیس’، ‘اے سیپریشن’ اور ‘نیو ٹیسٹمنٹ’ کا امتزاج ہے تو یقین کریں یہ بلکل غلط نا ہوگا۔

رینڈم ہاوس انڈیا کا شائع کردہ تقریبا ڈھائ سو صفحات کا یہ ناول ایک جرمن خطاط کے خط سبون میں طبع ہوا ہے۔ ہمیں علم نہیں کہ پاکستان کے کسی پبلشر نے اسے شائع کرنا گوارا کیوں نہیں کیا۔اس کا انتساب حسن درس کے نام ہے۔ کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگوز میں حنیف صاحب نے اردو استعارات استعمال کرنے سے گریز کیا تھا، شاید مین بکر پرائز کی امید میں انہوں نے کسی قسم کا خطرہ لینا گورا نا کیا لیکن اس مرتبہ انہوں نے ناول کے حسب حال تراکیب کو اسطرح مستعمل رکھا ہے کہ کہیں زیادتی محسوس نہیں ہوتی اور خصوصا اہل زبان و مکاں کو خصوصی چٹخارہ مل جاتا ہے۔ تکنیکی طور پر ری ایکارپوریشن یا کردار کا اعادہ  ناول میں ایک مشکل اسلوب صنف ہے لیکن راقم کی راے میں مصنف کو کردار سازی میں ملکہ حاصل ہے مثلا ناٹ-ابوذر کے کردار کی ری کوپریشن ایک نہایت عمدہ اور غیر متوقع بات تھی جسے آپ ناول پڑھنے کے بعد ہی سراہ سکیں گے۔ یہ کتاب انگریزی ادب کے ہر قاری کے لیے ایک نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں جو پاکستان کے حالات سے شناسای رکھتا ہو۔

Share

March 16, 2012

کاش کہیں سے تھوڑی عقل مل جاتی

Filed under: پاکستان,خبریں,سیاست,طنزومزاح — ابو عزام @ 3:00 am

تو اوریا مقبول جان صاحب کا بڑا بھلا ہوجاتا۔

ایک تو احباب نے ان سوڈو انٹیلیکچولز کے لنک بھیج بھیج کر ناک میں دم کر رکھا ہے اوربندہ مروت میں یہ بھی نہیں کہ سکتا کہ بھائ، ایسی بے پرکی تو ہم نے مظہر کلیم سے بھی نا سنی، آپ کو ذرا احساس تو ہونا چاہیے کہ یہ نادان دوست ہم اصحاب میمنہ کو کس قدر مضحکہ خیز دفاعی پوزیشن میں لا کھڑا کرتے ہیں؟ تحقیق سے ان کو کوئ واسطہ ہو نا ہوکہ ہر ایک کو اپنی راے کا حق ہے لیکن بقول شخصے، اپنے حقائق کا نہیں۔ کم از کم ڈالڈا ملاتے ہوے کچھ تو خیال کریں کہ اس تکنیکی دور میں انکی اس بے سروپا باتوں کو جھٹلانا اور جھوٹے کو گھر تک چھوڑ کر آنا کس قدر آسان ہے۔

تو محترم کا یہ کالم ایک برقی ڈاک میں ملا۔  مزاح  پڑھ کر طبعیت باغ باغ ہو گئ کہ یہ دفاعی میکینزم ہے۔ اگر خون جلانا شروع کریں تو قومی اخبار ختم ہونے سے پہلے بلند فشار خون کی بنا پر جان جان آفرین کے سپرد ہوجائے۔اب اسکا پہلا پیراگراف پڑھیں اورمندرجہ ذیل ویڈیو دیکھ لیں، پھر بتائیں کہ یہ سلیمانی ٹوپی پہنے ہوئے پلسی کہاں چھپے ہیں جنہوں نے بقول جان صاحب کے “اسے دھکیل کر پیچھے کر دیا”؟

Marlon Brando’s Oscar® win for ” The Godfather” by WhiteWolf-Cree

اب اس مضحکہ خیز کالم کا دوسرا پیراگراف پڑھیں اور سر پیٹیں۔ جان صاحب، اگر تھوڑی سی تحقیق کر لیتے تو نو اینڈ ان سایٹ، عراق فار سیل، عراق ان  فریگمنٹس، ریتھنک افغانستان، انسائڈ گواتنامو، انسائڈ عراق،  اینڈ آف امریکہ، بش وار، رولز آف انگیجمنٹ، انڈیپینڈنٹ انٹروینشن, فارن ہایٹ نائن الیون اور اس جیسی بیسیوں ڈاکومنٹریز مل جاتیں جن پر عراق و افغانستان میں ہونے والے مظالم پر روشنی ڈالی گئی ہے اورامریکی جارحیت پر کھل  کر تنقید کی گئ ہے۔ سب چھوڑیں، ٹیکسی ٹو دی ڈارک سائڈ جیسی رلا دینے والی دستاویزی فلم جو عراق افغانستان و گوانتناموبے میں امریکی مظالم سے کو بے نقاب کرتی ہے ۲۰۰۷ میں آسکر ملا۔ آپ کو پینٹاگان پیپرز بھی کسی قطار و شمار میں نظر نا آتی ہوگی کہ حقیقت سے آپکی تحاریر کا موضع بھی نہیں ملتا۔ آپ کو ایوارڈ یافتہ و نامزد ڈاکومنٹریز میں یقینا وار گیم، اینڈرسن پلاٹون،بروکن رینبو،  ہیل فائر جرنی فرام ہیروشیما، ہو کلڈ ونسنٹ چن  ، فور لٹل گرلز بھی نظر نا آئ ہونگی۔ بس اب مزید کچھ کہنے سننے کی سکت کہاں بس اتنا کہتا چلوں کہ اگر آپ کو محترمہ شرمین عبید کا ایورڈ لینا پسند  نہیں تو نا سہی، حالات و واقعات میں دروغ گوئ سے کام لیے بغیر بھی یہ مدعا آرام سے بیان کیا جا سکتا ہے۔ نیز شرمین عبید کو یہ ایوارڈ ایک امریکی ڈائریکٹر ڈینیل ینگی کے ساتھ ملا ہے، مارلن برانڈو کی طرح ان کی تن تنہا اداکاری پر نہیں، اب بے چارے ینگی کا کیا قصور جان صاحب کہ وہ بھی ایوارڈ کو ٹھوکر مار دے۔آپ کی دروغ گوئ پر ہمارا تو کچھ ایسا ہی عالم ہے کہ

حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو مَیں

مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو مَیں


Share

March 15, 2012

برٹانیکا اب ہم میں نہیں رہے

Filed under: خبریں,طنزومزاح,کتابیات — ابو عزام @ 11:53 am

 ہاے برقی کتاب، تیرا برا ہو کہ تو نے ہم سے ایک ۲۴۴ سالہ ہمدم دیرینہ، انسائکلوپیڈیا برٹانیکا چھین لیا۔ اب بتا کہ پطرس کے انجام بخیر پر کنڈل کا تکیہ لگایا جاے گا؟ ہم تو بس اس نثر کو  روتے ہیں کہ اس دور عدو کتب ہاے ورق میں اسکا کیا مماثل ہو۔

پطرس۔۔ حضرات اندر تشریف لے آئیے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ میرے پاس صرف ایک کرسی ہے۔ لیکن جاہ و حشمت کا خیال بہت پوچ خیال ہے۔ علم بڑی نعمت ہے، لہذا اے میرے فرزندو، اس انبار سے چند ضخیم کتابیں انتخاب کرلو اور ان کو ایک دوسرے کے اوپر چُن کر ان پر بیٹھ جاؤ۔ علم ہی تم لوگوں کا اوڑھنا اور علم ہی تم لوگوں کا بچھونا ہونا چاہیئے۔

کمرے میں ایک پر اسرار سا نور چھا جاتا ہے۔ فرشتوں کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ سنائی دیتی ہے

Share

March 11, 2012

اپنے حصے کے بے وقوف

Filed under: طنزومزاح,مشاہدات — ابو عزام @ 9:58 pm

ہر قوم کو اپنے حصے کے بیوقوفوں کا کوٹہ ضرور ملتا ہے، یہ دنیا کی تکنیکی طور پر سب سے زیادہ ترقی یافتہ قوم کے لوگ ہیں، ملاحظہ کریں۔

Share

March 10, 2012

جینٹلمین بسمہ اللہ از اشفاق حسین

Filed under: ادبیات,طنزومزاح,کتابیات — ابو عزام @ 8:54 pm

مزاح کے عہد یوسفی میں رہنے اور یوسفی پڑھ لینے کے بعد اکثر یہ بیماری لاحق ہو جاتی ہے کہ ایرے غیرے کسی مزاح نگار کو خاطر میں لانے کا قطعی دل نہیں چاہتا اور وہ بھی ایک سابق فوجی کو، بھلا فوج اور مزاح کا کیا ربط۔ لیکن  جینٹلمین بسمہ اللہ از اشفاق حسین اگر ادب کا کوئ شاہکار نہیں تو کوئ ایسی بری کتاب بھی نہیں۔ پاپ کورن فلم کی طرح اسے پاپ کورن کتاب قرار دیا جاسکتا ہے۔ہم نے اپنے کئ دوستوں کو آی ایس ایس بی کی امید میں جس لگن سے تیاری کرتے دیکھا، اکر وہ یہ کتاب پڑھ لیتے توشائد نتائج مختلف ہوتے۔

تو کچھ ایسا ہوا کہ ۵۲ ہفتوں میں ۵۲ کتابوں کے عہد میں ہم نے دو چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں کر لیں۔ ایک تو یہ کہ فصوص الحکم کو ایک ہفتے کے بجائے ابھی تک پڑھ رہے ہیں کہ یہ متن کا تقاضہ ہے نیز کیرن ٓآرمسٹرانگ کی کتاب کی جگہ ہم نے فائنمین کی کتاب اور اگاتھا کرسٹی کی جگہ جینٹلمین بسم اللہ پڑھ لی۔  جینٹلمین بسم اللہ چھوٹی سی کتاب ہے اور روانی سے جلد ہی پڑھی جاسکتی ہے۔ آدھی کتاب بعد از عشا ختم کی اور پھر فجر کے بعد ناشتے سے پہلے بقایا، لہذا اگر نیند کا وقفہ نکال دیں تو ایک نشست میں ختم کی جا سکتی ہے۔

تقریبا دو سو صفحات کی اس کتاب کو کرنل اشفاق حسین کی ابتدای فوجی سوانح  عمری قرار دیا جا سکتا ہے۔  یہ کتاب کوی ادبی شاہکار نہیں اور نا ہی اس میں مزاح کی کوی  ندرت خیال کا عنصر شامل ہے۔ جینٹلمین بسمہ اللہ میں سولہ عدد مضامین شامل ہیں جن کے نام بالترتیب باعث تحریرآنکہ،  پہلی ملاقات۔ بورڈ یاترا، آغاز سفر… انجام تمنّا، ذائقوں کا ورثہ، گردش وقت یہاں آن کر تھم جاتی ہے، لہو گرم رکھنے کے سو سو بہانے، آنچل کے سایوں سے پیڑوں کی چھاؤں تک ،دل مردہ دل نہیں ہے ،جنٹلمین!بسم الله!!، آداب فلم بینی، معمولات کیڈٹ، یہ تھے ہمارے اساتذہ کرام، دکھوں کے ساجھی، ہوا بردوش، اڑنے نہ پائے تھے کہ اور  تھینک یو! الله میاں ہیں۔

کتاب کی جلد پر اشفاق حسین صاحب کا تعارف کچھ یوں ہے کہ انکا تعلق لاہور سے ہے. پنجاب یونیورسٹی سے صحافت اور انگریزی ادب میں ایم اے کرنے کے علاوہ وہ انٹرنیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجیز  سے عربی میں ایڈوانس لیول انٹر پریٹر شپ کے ڈپلومہ ہولڈر ہیں. تقریباً ۲۹ سال پاک فوج سے وابستہ رہے اور مختلف حیثیتوں میں، مختلف فارمیشنز اور آئی ایس پی آر میں تعینات رہے. کالج آف آرمی ایجوکیشن، اپرٹوپہ اور ملٹری کالج جہلم میں تدریسی فرائض انجام دینے کے علاوہ وہ سعودی عرب میں بطور مترجم بھی تعینات رہے. ٢٠٠٢ء میں انٹر پبلک ریلیشنز کے ڈپٹی ڈائریکٹر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے. جناب والا سات عدد کتابیں لکھ چکے ہیں. جن میں طنزومزاح کی شگفتہ کتابیں،جنٹلمین بسم اللہ جنٹلمین الحمدالله، جنٹلمین الله الله اور جنٹلمین سبحان الله شامل ہیں. ان کی کتابوں کے اب تک پینسٹھ سے زائد ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ آئی ایس  پی آر میں رہتے ہوئے، انہوں نے فوج کے لئے مختلف دستاویزی فلمیں اور فوجی زندگی پر ڈرامے تیار کئے. اٹلی میں ہر سال ہونے والی مسلح افواج کی دستاویزی فلموں کی نمائش میں ان کی تین دستاویزی فلموں کو بین الاقوامی انعامات سے نوازا گیا. میجر شبّیر شریف شہید پر ان کی کتاب “فاتح سبونہ” پر مبنی طویل دورانیے کا ایک کھیل پروڈکشن کے آخری مراحل میں ہے.

اس کتاب کا ایک اقتباس مندرجہ زیل ہے۔

دل مردہ دل نہیں ہے …..

دوسرے روز اکیڈمی پہنچے. بسوں سے اتر کر ہمارا ارادہ سیدھا کمروں کی جانب جانے کا تھا.لیکن بسوں کو گھیر رکھا تھا انسٹرکروں نے. نیچے اترتے ہی انہوں نے ہمیں فالن کیا اور لیفٹ رائٹ لیفٹ رائٹ کراتے ہوئے سیدھا ڈرل سکیئر میں لے گئے. تمام سامان پشت پر لدا ہوا تھا. تھکن سے ہم لڑکھڑائے جاتے تھے لیکن اسٹاف تھے کہ چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھاۓ ہوئے تھے”صاب بازو پورا ہلائیں” “گھٹنا بیلٹ لیول تک اٹھائیں”. ہم حیران ہو کر کبھی اپنے بازوؤں کو دیکھتے اور کبھی پریشن ہو کر صوبیدار میجر کی طرف ک ڈرل کروانے کا نشہ یہ کسی اور وقت پورا نہیں کر سکتے؟ خدا خدا کر کے ڈرل سے جن چھوٹی لیکن کمروں میں جانے کی اجازت اب بھی نہیں تھی.حکم لگا کہ پہلے رائفلوں کی صفائی ہوگی. فوجی کی زندگی میں اس بات کو ایمان کا درجہ حاصل ہے کہ وہ خود کتنا ہی خستہ کیوں نہ ہو اس کا ہتھیار ہر وقت تروتازہ رہنا چاہیے. رائفلوں کی صفائی کر کے کمروں میں پہنچے تو ہمیں بستروں سے دور رکھنے کا ایک اور بہانہ بتایا گیا. یہ دلچسپ بھی تھا اور کامیاب بھی.

سینئروں نے بتایا کہ پرموک مشق کے اختتام کی روایت ہے کہ تمام سینئر کیڈٹ چند گھنٹوں کے لیے خود کو جونیئر قرار دیتے ہیں اور جونیئر کیڈٹوں کو اختیار ہوتا ہے کہ ان سے جو چاہیں سلوک کریں.اعلان کیا گیا کہ تمام سینئر کیڈٹ شام سات بجے تک جونیئر رہیں گے. یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح تمام جونیئر کیڈٹوں میں پھیل گئی.بس پھر کیا تھا کسی کو یاد نہ رہا کہ گزشتہ پانچ دنوں کی صحرا نوروی نے پیروں میں ابلے ڈال رکھے ہیں نیندیں حرام ہونے سے آنکھیں غبار آلودہ ہیں. بستر کو مسکن بنایا جاۓ.بس ایک ہی دھن سوار تھی کہ اس مختصر سی مہلت میں سینئر کیڈٹوں کو ہر اس سلوک سے نواز دیا جاۓ جو انہوں نے ہم پر روا رکھا تھا.

ایک کمپنی کا کیڈٹ سی ایس ایم(کمپنی سارجنٹ میجر) ہاتھ آگیا. موصوف کمپنی میں ڈسپلن قائم رکھنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں. ظاہر ہے بلحاظ عہدہ ان کی زبان میں تھوڑی سی ترشی ضروری ہے. اور آنکھ میں سرخ ڈوروں کا ہونا معمولی بات. لیکن یہاں معاملہ یہ نہیں تھا کہ وہ اپنی حرکتوں میں حق بجانب تھے یا نہیں ‘ان کا قصور یہ تھا کہ وہ ان سینئروں میں شامل تھے جنھیں آج جوںیئر قرار دے دیا گیا تھا. کسی کو یاد نہ رہا کہ چند گھنٹوں بعد انہیں پھر سی ایس ایم کے روپ میں آجانا ہے.

جونیئر کیڈٹوں نے درزی کے تعاون سے کچھ رنگین کپڑے ادھار منگواۓ. سی ایس ایم کو پہناۓ گۓ. رخساروں پر غازہ’ ہونٹوں پر سرخی اور آنکھوں میں کاجل اتارا گیا.اور پھر آنکھوں پر عینکیں چڑھا انہیں کمپنی میں گھمایا گیا. اس سری تیاری کے دوران ایک شور تھا کہ کانوں کے پردے پھاڑ ڈالتا تھا. جونیئرکیڈٹ امڈے چلے آتے تھے.کوئی اس “نازنین” کے آٹوگراف لینے کو ٹوٹا پڑتا تھا، کوئی اس سے شام کی کسی حسین ساعت میں مونا لیزا ریسٹورنٹ میں ملنے کا وعدہ لینے پر بضد تھا. کوئی اس کے لیے “جھانجھراں” منگا دینے کو تیار تھا بشرطیکہ وہ “ہاں” کر لے اور کوئی اس کے مربعوں پر منشی ہو جانے کو زندگی کی آخری خواہش قرار دے رہا تھا. بیچاری دوشیزہ ٹکر ٹکر کبھی اس مضطرب کو دیکھتی جو چیخ چیخ کر اپنی وفاؤں کا یقین دلا رہا تھا تو کبھی اس مرغ بسمل کو’ کہ اس کے قدموں میں لوٹا جاتا تھا اور پکار پکار کر کہتا تھا…

 اکیلے نہ جانا’ ہمیں چور کر تم

 تمہارے بنا ہم’ بھلا کیا جئیں گے

باقی سینئر کیڈٹوں کے حلیے تو بدلتے رہے لیکن سی ایس ایم کی دوشیزگی کو آخر وقت تک برقرار رکھا گیا.

Share

March 8, 2012

آئنسٹائن کا منطقی معما

Filed under: عمومیات — ابو عزام @ 10:00 pm

البرٹ آئنسٹائن سے منسوب اس منطقی معمے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے دنیا کے صرف دو فیصد لوگ ہی حل کرسکتے ہیں۔ دروغ برگردن راوی۔ اس کے حل کے لیے کاغذ اور قلم درکار ہوگا، ذرا ذہن آزمائیں۔

پچھلے منطقی معمے کی طرح اس معمے میں بھی کوئ  چالاکی کی بات نہیں، صرف منطقی استدلال کی ضرورت ہے۔

 ایک گلی میں مختلف رنگوں کے پانچ  گھر ہیں۔

ان گھروں میں مختلف قومیتوں کے لوگ رہتے ہیں

 ان پانچ میں سے ہر فرد جداگانہ تشخص کا مالک ہے۔ مختلف قسم کا مشروب پیتا ہے، سگریٹ کا مختلف برانڈ استعمال کرتا ہے اور مختلف قسم کا پالتو جانور رکھتا ہے

آپ سے سوال یہ ہے کہ مچھلی کا مالک کون ہے۔

 اشارے

برطانوی سرخ گھر میں رہتا ہے

سویڈش شخص نے پالتو جانوروں کے طور پر کتوں کو رکھا ہوا ہے۔

ڈنمارک کا شہری چاے کو مشروب کے لیے استعمال کرتا ہے۔

ہرے رنگ کا گھر سفید گھر کے بلکل ساتھ اس کی بایں جانب واقع ہے

 ہرے گھر میں رہنے والے کو کافی پسند ہے

جو شخص گولڈلیف سگریٹ پیتا ہے اس نے پرندے پالے ہوے ہیں

پیلے گھر کا مالک ڈنہل نامی سگریٹ پیتا ہے

درمیان میں واقع گھر میں رہنے والا شخص دودھ پینے کا شوقین ہے۔

ناروے کا باشندہ پہلے گھر میں رہتا ہے

جو شخص کیپسٹن سگریٹ پیتا ہے وہ اس شخص کے برابر میں رہتا ہے جس کے پاس پالتو بلیاں ہیں

 گھوڑے پالنے والا ڈنہل سگریٹ پینے والا کا بالکل ساتھ والا ہمسایہ ہے

جو شخص مارلبرو سگریٹ پیتا ہے اسے روح افزا بہت پسند ہے

جرمن کو گولڈ فلیک سگریٹ پینا پسند ہے۔

ناروے کا شہری نیلے گھر کے برابر میں رہتا ہے۔

 کیپسٹن پینے والے کا پڑوسی پانی کو بہترین مشروب گردانتا ہے

Share

March 7, 2012

خَلْقَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِيْنٍ

Filed under: تحقیق,مشاہدات — ابو عزام @ 1:39 am
“حیرت انگیز بات یہ ہے کہ آپ کے جسم میں ہر ایٹم ایک منفجر یا پھٹے ہوے ستارے سے آیا ہے،  آپ کےبائیں ہاتھ میں جو ایٹم ہیں وہ شاید وہ کسی دوسرے ستارے سے آے ہوں اور  دائیں ہاتھ  کے جوہر کسی مختلف ستارے کی باقیات ہوں. طبعیات میں یہ واقعی سب سے زیادہ شاعرانہ بات ہوسکتی ہے جو میرے علم میں ہے۔۔۔ آپ سب ستاروں کی مٹی ہیں۔”

Share
Older Posts »

Powered by WordPress