ہمارے مقرر کردہ جدول کے مطابق تو دی ہنگر گیمز از سوزن کولنزکی آمد میں وقت تھا لیکن پاپولر کلچر کا برا ہو کہ ہمیں اسکا مطالعہ جلد شروع کرنا پڑا، کتاب اسقدر دلچسپ ہے کہ پتا نہیں چلا کیسے وقت گذر گیا۔ اسرار و ایکشن سے بھرپور،۲۰۰۸ میں چھپنے والے اس تقریبا چار سو صفحات کا یہ ناول پچھلے ۵۵۰ دنوں سے ایمزن کی ٹاپ ۱۰۰ کتب میں شامل ہے۔ اس کتاب کا مرکزی ۔ کردار کیٹنس ایورڈین نامی ایک ۱۶ سالہ لڑکی ہے جو پانم نامی ملک کے غریب ترین ضلع نمبر ۱۲ میں اپنی ماں اور چھوٹی بہن کے ساتھ رہتی ہے۔ پانم جو ماضی میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ نامی ملک ہوا کرتا تھا ، وہاں تقریبا۷۴ سال قبل اضلاع نے مرکز یعنی کیپٹل کے خلاف جنگ شروع کی لیکن مرکز نے اس بغاوت کو سختی سے کچل دیانیز ہتھیار ڈالنے کی شرائط میں یہ شامل کیا گیا کہ ہر سال، ہر ضلع سے ایک عدد لڑکے اور ایک عدد لڑکی کو ‘ہنگر گیمز’ یا بازی ہاے بھوک نامی کھیلوں میں بھیجا جاے گا۔ یہ کھیل روم کے گلیڈیٹرز کے کھیلوں سے زیادہ مختلف نہیں ہوا کرتے۔ ۲۴ عدد لڑکے اور لڑکیاں ایک میدان جنگ میں داخل ہوتے ہیں اور ان میں سے صرف ایک فرد زندہ سلامت جیت کر باہر آسکتا ہے۔
اس کتاب کے مزید دو حصے بھی ہیں لیکن کہانی کا پر حصہ ایک کتاب میں میں مکمل ہے۔ دی ہنگر گیمز پر بننے والی فلم بھی نہایت کامیاب قرار پائ ہے لیکن راقم کا خیال ہے کہ اس کتاب کو پڑھنے میں جتنا مزا آیا ہے وہ فلم دیکھنے میں نہیں آسکتا۔اس کتاب میں سوزن کولنز نے معاشی نا ہمواریوں، طبقاتی تقسیم، افلاس، انسانی جذبات اور زندہ رہنے کی خواہش جیسے بہت سے مختلف موضوعات سے بحث کی ہے۔ عمومی طور پر یہ کتاب ان قارئین کے لیے لکھی گئی ہے جو اپنے لڑکپن سے گذر رہے ہوں لیکن ہر عمر کے سائ-فائ و اسرار وآخرالزماں مطلق العنانی لٹریچر کےقدردانوں کے لیے یہ کتاب نہایت خوب انتخاب ہے۔ کیٹنس ایورڈین، اسکی ۱۲ سالہ بہن پرم، اس کی بیمار ماں، وفاق کا مطلق العنان حکمران صدر سنو، دیگر اضلاع کے مقابل کرداروں، انکی ہتھیاروں کی مہارت اور ساینسی ایجادات سے بھرپور یہ ناول جارج آرویل کی ۱۹۸۴ اور اینڈرز گیم کا اسرار انگیز امتزاج ہے۔ کچھ لوگ اسے بیٹل رویال نامی جاپانی ناول کا چربہ بھی قرار دیتے ہیں جو کہ ہمارے اس ناول کے محدود مطالعے کی بنا پر کافی حد تک درست لگتا ہے۔ آپ پڑھ کر بتایں کہ آپ کودی ہنگر گیمز کیسا لگا؟
اجی حضرت ، یہ اچھی بھلی کتب کے ریویو لکھتے لکھتے آپ کس طرف کو چل دیے ؟
خدشہ ہے اگلی پوسٹ اس ویمپائر سیریز پر نہ آ جائے۔
😀
Comment by عثمان — March 27, 2012 @ 1:32 pm
تبصرے کا شکریہ عثمان صاحب، کیا خوب قیافہ شناس ہیں کہ آپ نے فورا بھانپ لیا کہ اس گاڑی کا اگلا اسٹیشن بریکنگ ڈان ہے 🙂
امید ہے ایسی نوبت نا آے گی، بس تھوڑا مطالعے میں تنوع لا رہا ہوں، ورنہ گوئڈل ایسکر باخ ہی پڑھتے رہے تو غبی نا ہو جائیں گے
Comment by ابو عزام — March 28, 2012 @ 6:46 am