فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

December 18, 2013

الگارتھم بمقابلہ لاگرتھم

Filed under: تحقیق,سائینس و ٹیکنالوجی,کتابیات — ابو عزام @ 8:38 pm

آج  شام کرسٹوفر اسٹائن کی تصنیف “آٹومیٹ دس” پڑھتے ہوئے صفحہ ۱۰۲ پرلفظ  الگارتھم کی تاریخ پر مبنی ایک پیراگراف نظر آیا۔ اکثر و بیشتر لوگوں کو الگوردم اور لاگرتھم کے الفاظ میں اشتباہ ہوتا ہے ، یہ دونوں بلکل مختلف اصطلاحات ہیں اور دونوں  الخوارزمی سے منسلک نہیں۔  الگارتھم کسی مسئلے کوحل کرنے کے لیۓ ، اصول و ضوابط کی (عموما مرحلہ بہ مرحلہ) ترتیب شدہ شکل کو کہا جاتا ہے جبکہ لاگرتھم شارع کا منعکس عمل ہے جس  کی مدد سے بڑی قدروں کو چھوٹی قدروں میں تبدیل کر کر بڑے اعداد کے حساب کتاب کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

automate_this

صفحہ نمبر ۱۰۲ پر آٹومیٹ دس کے مصنف الگارتھم کے بارے میں شابرت کے حوالے سے لکھتے ہیں

“The word algorithm comes from Abu Abdullah Muhammad ibn Musa Al-Khwarizmi, a Persian mathematician from the ninth century who produced the first known book of algebra, Al-Kitab al-Mukhtasar fi Hisab al-Jabr wa l-Muqabala (The Compendious Book on Calculation by Completion and Balancing). Algebra’s name comes straight from the al-Jabr in the book’s title. As scholars disseminated Al-Khwarizmi’s work in Latin during the Middle Ages, the translation of his name—“algorism”—came to describe any method of systematic or automatic calculation”

لفظ الگارتھم، انیسیوں صدی میں فارس کے ایک ریاضی دان  ابو عبداللہ محمد ابن موسی الخوارزمی سے منسوب ہے جو  الجبرا کے موضوع پر پہلی معلوم کتاب کے مصنف ہیں۔ ۔اس کتاب کا نام كتاب المختصر في حساب الجبر والمقابلة  تھا۔ ریاضی کی صنف الجبرا اسی کتاب کے نام سے ماخوذ ہے۔ جب علما نے الخوارزمی کے کام کو لاطینی زبان میں ڈھالنا شروع کیا تو الخوارزمی کے نام کا لاطینی تلفط، الگورزم، اصول و ضوابط کی (عموما مرحلہ بہ مرحلہ) ترتیب شدہ شکل میں حساب کتاب کا متبادل قرار پایا۔

حوالہ جات

الخوارزم

آٹومیٹ دس از کرسٹوفر اسٹائنر

Share

December 16, 2013

سقوط ڈھاکہ

Filed under: ادبیات,پاکستان,شاعری — ابو عزام @ 1:34 pm

اب کس کا جشن مناتے ہو؟ اس دیس کا جو تقسیم ہوا
اب کس کے گیت سناتے ہو؟ اس تن من کا جو دونیم ہوا

اس خواب کا جو ریزہ ریزہ ان آنکھوں‌ کی تقدیر ہوا
اس نام کا جو ٹکڑا ٹکڑا گلیوں میں بے توقیر ہوا

اس پرچم کا جس کی حرمت بازاروں میں نیلام ہوئی
اس مٹی کا جس کی حرمت منسوب عدو کے نام ہوئی

اس جنگ کو جو تم ہار چکے، اس رسم کا جو جاری بھی نہیں
اس زخم کا جو سینے پہ نہ تھا، اس جان کا جو واری بھی نہ تھی

اس خون کا جو بدقسمت تھا راہوں میں بہایا تن میں رہا
اس پھول کا جو بےقیمت تھا آنگن میں کھلایا یا بن میں رہا

اس مشرق کا جس کو تم نے نیزے کی انی مرہم سمجھا
اس مغرب کا جس کو تم نے جتنا بھی لوٹا کم سمجھا

ان معصوموں کا جن کے لہو سے تم نے فروزاں راتیں‌ کیں۔
ان مظلوموں کا جن سے خنجر کی زباں میں باتیں‌ کیں۔

اس مریم کا جس کی عفت لٹتی ہے بھرے بازاروں میں
اس عیسی کا جو قاتل ہے اور شامل ہے غمخواروں میں

ان نوحہ گروں کا جنہیں ہم نے خود قتل کیا خود روتے ہیں
ایسے بھی کہیں دمساز ہوئے ایسے جلاد بھی ہوتے ہیں

ان بھوکے ننگے ڈھانچوں کا جو رقص سرِ بازار کریں
یا ان ظالم قزاقوں کا جو بھیس بدل کر وار کریں

یا ان جھوٹے اقراروں کا جو آج تلک ایفا نہ ہوئے
یا ان بےبس لاچاروں‌ کا جو اور بھی دکھ کا نشانہ ہوئے

اس شاہی کا جو دست بدست آئی ہے تمہارے حصے میں
کیوں ننگ وطن کی بات کرو کیا رکھا ہے یس قصے میں

آنکھوں‌ میں چھپائے اشکوں کو ہونٹوں میں وفا کے بول لیئے
اس جشن میں بھی شامل ہوں نوحوں سے بھرے کشکول لئے

احمد فراز

Share

December 2, 2013

محمد علی ردولوی پر تحقیقی مقالہ

Filed under: ادبیات,تحقیق — ابو عزام @ 4:13 pm

چوہدری محمد علی ردولوی (۱۸۸۲ تا ۱۹۵۹) کا نام ہم نے پہل بار ضیا محی الدین کی محفل میں سنا۔ ان کے مضامین مثلا  بیوی کیسی ہونی چاہیے، میر باقر یا اپنئ بیٹی ہما خانم کے نام خط  نہایت عمدہ نثر پارے ہیں۔ اپنی صریح کم علمی کے باعث سوچا کہ احباب سے پتا کروں کہ یہ حضرت کون تھے کہ اسی اثنا میں محترمہ ثریا شمیل کے مندرجہ ذیل تحقیقی مقالے پر نظر پڑی، اس میں محمد علی ردولوی صاحب  کے حیات و فن پر سیر حاصل گفتگو ہے۔ امید ہے کہ قارئین کو پسند آئے گا۔

Muhammad Ali Rudaulvi Dissertation
چوہدری-محمد-علی-ردولوی-حیات اور فن۔

Share

Powered by WordPress