خدا اسداللہ غالب کی مغفرت کرئے، کیا خوب کہا کہ برس ہا برس بعد بھی نثر پر بہار ٹھری۔
’’تم کو وہ محمد شاہی روشیں پسند ہیں ۔ یہاں خیریت ہے وہاں کی عافیت مطلوب ہے… ہائے کیا اچھا شیوہ ہے جب تک یوں نہ لکھو، وہ خط ہی نہیں ہے۔ چاہِ بے آب ہے ابرِ بے باراں ہے، نخل بے میوہ ہے خانہ بے چراغ ہے‘‘
اسی ضمن میں کل ایک جملہ راقم کے مطالعے میں آیا کہ
امراہم و اعظم و اجل و اعلی میں اشتغال بارہا امر سہل سے ذہول کا باعث ہوتا ہے
یعنی کہ اہم کام میں انہماک سےدوسرے ضمنی کام پر توجہ نہیں رہتی۔ اس پر تو وہ مثل دریاآبادی کی صادق آتی ہے
شروع میں اسلوب بیان ذرا ثقیل تھا اور تذکرہ میں تو ثقیل سے گزر کراثقل ہو گیا۔
اب ہم جیسے ناکارہ لوگ اکثر اس مخمصے میں گرفتار رہتے ہیں کہ ابوالکلام آزاد کی دقیق نثر اور جدید تقریر کی ابے اوے کے درمیان یہ استعاری پل صراط بھلا کیونکر عبور ہو۔
راشد بھائی کی محبت کہ انہوں نے ہمارے ڈاکٹر بننے کی خوشی میں ایک نہایت عمدہ کتاب تحفتا عنایت کی، تھنکنگ فاسٹ اینڈ سلو۔
اس کتاب کا تعارف کبھی اور سہی لیکن اس میں ڈاکٹر اوپن ہائمر کے ایک مقالے کا ذکر آیا، اس کا عنوان تھا
اب یہ عنوان خود ہی دریا کو کوزے میں بند کرتا ہے، بقیہ مضمون بھی نہائت عمدہ و سہل المطالعہ ہے۔
حوالہ جات
ڈاکٹر رئیسہ پروین – غالبؔ کے خطوط کی اہمیت، ایک تعارف
اسلوبیاتی تجزئیے مرزا خلیل احمد بیگ مصنف کی کتاب ’تنقید اور اسلوبیاتی تنقید سے