فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

February 5, 2012

ذکرامیرمینائی – حصہ دوم

Filed under: ادبیات,کتابیات — ابو عزام @ 3:00 am

 گذشتہ سے پیوستہ

کہا جاتا ہے کہ محسن کا کوروی نے جب اپنا مشہور نعتیہ قصیدہ”سمت کاشی سے چلا جانب متھرا بادل” لکھا توامیر مینائی کو خواب میں زیارت رسولّ نصیب ہوئی انہوں نے دیکھا کہ سرکار دوعالمّ نے اس قصیدے پر خوشنودی کا اظہار فرمایا.جب محسن کا کوروی کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے قسم کھالی کہ اب صرف مدح رسولّ ہی میں ساری صلاحتیں صرف کرینگے.انہوں نے عام گفتگو بھی کم کردی بس ہر وقت درود پڑھا کرتے اگر فکرشعر کرتے تو صرف نعت لکھتے.اسی سے متاثر ہو کر حضرت امیر مینائی نے پورا ایک دیوان ہی مدح رسولّ میں مرتب کر ڈالا.ان سے پہلے نعتیہ دیوان کی روایت اردو میں نظر نہیں آتی ہے حالانکہ عربی و فارسی میں متعدد نعتیہ دوا دین موجود ہیں.اسی دیوان امیر میں وہ مشہور نعت بھی شامل ہے جس کا ایک شعر مرحوم ناصر جہاں کی مترنم آواز میں بہت مقبول ہے.

جب مدینے کا مسافر کوئی پا جاتا ہوں

حسرت آتی ہے یہ پہنچا میں رہا جاتا ہوں

عشق رسولّ کا اثر الله کے شکر سے ہمارے خانوادےپر بہت رہا.محسن کے صاحبزادے نورالحسن نیرکا کوروی نے بھی وکالت چھوڑ کر لکھنے پڑھنے میں زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا ان کے سگے اور واحد بھانجے یعنی راقم کے دادا امیر احمد علوی نے بھی ڈپٹی کلکٹر چھوڑ کر قبل ازوقت وظیفہ لے لیا اور کاکوری میں گوشہ نشین ہو گئے.بقیہ زندگی لگ بھگ بائیس برس،تصنیف و تالیف میں صرف کردی.انکا ذکر یہاں یوں ضروری ہے کے انہوں نے بعض شعراء، انیس ، رند اور مظفر پر بڑامجتہدانہ کم کیااور جہاں تک مجھےعلم ہے امیر مینائی پر پہلی باقاعدہ اور مبسوط کتاب”طرہ امیر “کے نام سے تصنیف فرمائی.اس کتاب میں امیر مینائی کے محاسن شعری اور فنی خصوصیات کا تفصیلی ذکر کیا گیا ہے.یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ حضرت امیر مینائی کے بارے میں جو مصدقہ باتیں تذکروں میں پائی جاتی ہیں انکی بنیاد “طرہ امیر “کے مندرجات پر ہی ہے اس کے علاوہ حضرت امیر مینائی پر مصدقہ معلومات منشی فداعلی عیش کی تحریروں سے حاصل ہوتی ہیں.

منشی فدا علی عیش حضرت امیر مینائی کے ہم عصر اور شناسا تھے ان کا تزکرہ ١٨٦٩ء میں شائع ہوا اس کا نام منشی صاحب نے “مجموعہ داسوخت”رکھا تھا لیکن بعد میں یہ “شعلہ جوالہ” کے نام سے زیادہ مشہور  ہوا.اس کی پہلی جلد حضرت امیر مینائی کے نام سے ہی شروع ہوتی ہے.ان دو کتابوں کی موجودگی میں یہ دیکھ کر تعجب ہوتا ہے کہ امیر مینائی کی تاریخ پیدائش میں کئی جگہ فرق پایا گیا ہے.امیر کے معاصر داغ ،جلال ،تسلیم اور رند تھے ان سب کی زندگی ہی میں امیر مینائی کی تاریخ پیدائش ٢١ فروری ١٨٢٩ء مان لی گئی تھی لیکن پھر بھی بعض حضرات نے سال پیدائش ١٨٢٨ء لکھا ہے امیر احمد علوی کی تحقیق کی روشنی میں فرمان فتح پوری نے بھی قطعیت کے ساتھ یہ تسلیم کیا ہے کہ انتقال کے وقت حضرت امیر مینائی کی عمر ٧١ برس تھی جن حضرات نے اس سے اختلاف کیا ہے انہوں نے ہجری سال کو انگریزی تقویم کے مطابق بنانے میں قدرے تساہلی سے کام لیا ہے.

امیر مینائی نے خود بھی لکھا ہے کہ ان کا سال پیدائش ١٢٢٤ ہجری تھا.انہوں نے اپنے حالات اپنے بڑے بھائی طالب حسین مینائی کی تصنیف “آئینہ ایمان” کے دیپاچے میں تحریر کیے ہیں جس میں انہوں نے فرمایا ہے کہ ١٦٧٤ ہجری میں رام پور میں مفتی عدالت کا عہدہ قبول کرنے سے پہلے وہ تلاش روزگار میں کانپور اور ہمیرپور میں بھی رہے تھے.”طرہ امیر” کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ امیر مینائی کی ایک مختصر سوانح حیات ان کی زندگی ہی میں ان کے ایک شاگرد ممتاز علی آہ نے شائع کی تھی اور ایک شاگرد احسن الله خاں ثاقب نے ان کے خطوط کا  مجموعہ بھی شائع کرایا جو مکاتیب امیر مینائی کے نام سے منظرعام پرآیا.اصل میں یہ مجموعہ پہلے خطوط امیر احمد کے نام سے ١٩١٠ء میں چھپا تھا بعد میں اسکا دوسرا ایڈیشن ١٩٢٤ء میں مکاتیب امیر احمد مینائی کے نام سے نکلا.

امیر مینائی کی شاعری اور ان کے مقبول عام اشعار کی ستائش میں بہت کچھ لکھا گیا ہے لیکن ان کی نثر پر کام نسبتاً بہت کم ہوا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ جب بھی کہیں امیر مینائی کا ذکر چھڑتا ہے تو گفتگو ان کے نعتیہ کلام یا ان کی نامکمّل امیراللغات پر ہونے لگتی ہے انکی دوسری بہت اہم اور پراز معلومات نثری تصانیف نغمہ قدسی، شرح ہدایت السلطان ، سرمۂبصیرت، بہارہند، خیابان آفرینش ،محاورات مصادر اردو وغیرہ سے نہ تو زیادہ ترادب دوست حضراتواقف ہیں اور نہ انکی نثری تصانیف پر توجہ ہی کرتے ہیں حالانکہ نثری تصانیف میں حضرت امیر نے جو تذکرہ یادگار چھوڑا ہے اسکے ذکر کے بغیر امیر مینائی کی ہمہ جہت شخصیت کا بہت ہی اہم پہلو پردۂاخفا میں ہی رہ جاتا ہے.

انتخاب یادگار کی وجہ تالیف امیر مینائی نے یہ لکھی ہے کہ “ایک دیں نواب یوسف علی خاں وائی رام پور کو یہ خیال آیا کہ ایک تزکرہ شعرائے ماضی و حال کا ایسا ہو کے اس سے خاص وائی ریاست کے متوطن و متوسل شاعروں کی مختصر کیفیت سخن گوئی کی حقیقت نقش صفحہ روزگار ہوں “اس بڑے میں واقف کار حضرات کا کہنا ہے کے چونکہ یہ تزکرہ امیر مینائی نے نواب کی فرمائش پر لکھا تھا اس لیے مؤلف کو آزادانہ اظہار خیال کا موقع نہ مل سکا کیونکہ بہت سے معمولی شعراء رام پور کے حالات بھی نواب کی سفارش پر امیر نے اس میں شامل کیے.پہلے شعراء کی تعداد ٤٧ تھی بعد میں یہ بڑھ کر ساڑھے پانچ سو کے قریب ہو گئی.

لطیفہ یہ ہے کہ اس “بھرتی “کے باوجود راز یزدانی رام پوری نے “انتخاب یادگار “پر یہ اعتراض کیا ہے کے حضرت امیر مینائی نے شعرائے رام پور کے ساتھ انصاف نہیں کیا.ان کا کہنا ہے کہ دہلوی دبستان سے متاثر شاعروں کو بھی اہمیت نہیں دی گئی.صرف لکھنؤ کےشعراءکو دل کھول کر داد دی گئی ہے.اس اعتراض کے جواب میں نیاز فتح پوری نے نگار کے ایک مخصوص شمارے میں لکھا ہے کہ ایسی صورت میں جبکہ تذکرے کی ترتیب و اشاعت میں قدم قدم پر نواب دخل اندازی کر رہے تھے اور معمولی معمولی شاعروں کے نام شامل کرا رہے تھے.شعرائے لکھنؤ کو جھنڈے پر چڑھانے کا دعویٰ قطعی غلط ہے.بہر حال یہ تزکرہ ١٨٨٠ء میں پہلی بار شائع ہوا لیکن اسکی اشاعت میں انہیں جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ان کا ذکرامیرمینائی نے اپنے شاگرد اسد اللہ خاں کے نام ایک خط میں یوں کیا ہے.

“میں اپنی تالیف کو اس قابل نہیں سمجھتا ہوں کے ہدیہ احباب کروں علی الخصوص یہ تزکرہ جس میں مجھ کو حالات تاریخی اور انتخاب اشعار میں ایسی مداخلت ہے جیسے قلم کا دست کاتب میں.”      ” فقیر امیر ٢٩ نومبر ١٨٨١ء”

ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں.

“بندہ پرور اس تذکرے میں اگر کچھ محاسنہوں تو اہل ہنر جانیں اور جو اس میں بہ مجبوری قبائح ہیں قرار واقعی ان کو میرا دل جانتا ہے.مگر کیا کروں.مامور تھا ،مجبور تھا.اس کا اشارہ ہے آپ غور سے پڑھیے گا تو سمجھ جائیےگا کہ مؤلف مجبور تھا.”

اس معاملے میں اگر غیر جانبداری سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ ریاست رام پور کے حالات یا وہاں کے شب و روز کے بارے میں بلا کم و کاست کچھ لکھنے کی آزادی تو امیر کو نہ تھی مگر شعراءکے ذکر اور انکے کلام پر تبصرے انہوں نے پوری آزادی سے کیے ہیں یے ضرور ہے کے بہت سے غیر ضروری نام انہیں محض نواب کی سفارش پر تذکره میں شامل کرنا پڑے پھر بھی ان شعراءکے فن اور کلام کے حسن و قبتح پر تبصرے کی آزادی امیر مینائی کو بہر حال حاصل تھی.

جاری ہے

Share

February 3, 2012

ذکرامیرمینائی – حصہ اول

Filed under: ادبیات,کتابیات — ابو عزام @ 3:00 am

قلندرانہ شاعر، مرد متقی حضرت امیر مینائی سے راقم کا پہلا تعارف چوتھی جماعت میں اس وقت ہوا جب ہمارے ہمارے عزیز دوست اور امیر مینائی کے پڑ پوتے مبین احمد مینائی نے  خانوادہ مینائی سے اپنی وابستگی بتلاتے ہوئے کہا کی پی آئی بی کالونی کا مشہور مینا بازار دراصل امیر مینائی کے نام سے موسوم ہے۔ بیس سال گذرنے کے بعد آج بھی اس نجیب الطرفین خاندان سے ہمارے تعلقات تلمیذ قوئ ہیں۔ قیصر تمکین صاحب کی کتاب جس کا تبصرہ پچھلے دنوں شائع کیا، ان میں ایک عدد مضمون امیر مینائی کے بارے میں تھا جو کہ ان کی حیات و خدمات کا بہت خوب احاطہ کرتا ہے۔ اس کے اقتباسات اس بلاگ پر قسط وار شائع کرنے کا ارادہ ہے، امید ہے قاریئن کو پسند آے گا۔ پسندیدگی کی صورت میں محترم قیصر تمکین صاحب کی کتاب ضرور خرید کر علم دوستی کا ثبوت دیں کہ وہ ایسے مضامین سے بھرپور ہے۔

ذکر امیر از قیصر تمکین

ایک ایسے دور میں جب کہ علم وادب کے اطوار و اقدار ہی بدل چکے ہوں ،معجزہ فن کی ترکیب عوامی رابطہ اداروں کی مرہون منت بن چکی ہو اور افکار شائستہ و جمیل کوحیثیت آثار کہنہ و فرسودہ کی دے کرنسیاً منسیا قرار دیا جا چکا ہو،امیرزادگان انگلستان کا یہ اقدام کہ ایک مرد متقی و مجذوب عصر کی برسی منائیں ہر آئینہ داد و ستائش کا مستحق ہے.اظہار تعجب اس تقریب پریوں بھی ضروری ہے کہ حضرت امیر مینائی اپنی قلندرانہ پاکباز حیات واعمال کی بنا پر مجالس ادب کے ان مرکزی دھاروں سے بلکل الگ تھے جہاں ضرورت شعری کا عذر کر کے اخلاقی وشرعی ردا کی دھجیاں اڑانا امر مستحسن خیال کیا جاتا ہے.

عام طور پر یہ مان لیا گیا ہے کہ ادیب وفنکار کا منکرشریعت و شرافت ہونا ایک امر لازمی ہے.گویا اگر کردار میں کجی اور افعال پر از معائب نہ ہوں تو اسے سندفن اور رتبۂ شعر عطا ہی نہ ہو سکےگا.افسوس یہ ہے کہ اس مفروضے کی ترویج میں بڑا ہاتھ ترقی پسندوں کی بے راہ روی کا بھی رہا ہے.ترقی پسند جوانوں کے ایک بڑے حلقے نے سرعام یہ دعوے کیےکہ کوئی شاعر جب تک پینے اور پی کر بہکنے کا قائل نہ ہواسکی رموز شعر سے واقفیت ہی مشکوک رہے گی. امیر احمد مینائی کو یکسر فراموش کر دیے جانے اور ان کی خدمات کو زینت طاق نسیاں بنانے میں بھی یہی وجہ کار فرما رہی ہے کہ وہ متوازن شہری اور ثقہ بزرگ تھے اور ارتکاب انہوں نے کبھی بھی تمیز و تہذیب سے لا پرواہی کا نہیں کیا.اس پر طرہ یہ کہ تعلق ان کا ہمیشہ ہی مذہب کے اعلیٰ معیاروں اور اپنے الله و رسول سے رہا.جن احباب کی نظر میں مذہب.خواہ وہ کوئی مذہب کیوں نہ ہو بیل کے لیے لال رومال لہرانے کی سی کیفیت رکھتا ہووہ کسی ایسے شاعریا ادیب کو کیسے انگیز کر سکتے ہیں جس نے پورا ایک دیوان ہی نعت کا مرتب کر ڈالا ہو اور جو اپنے لیے موءجب افتخارو امتیاز یہی ایک بات سمجھاتا ہوں کہ اسے رحمتہ العالمینّ کی غلامی کا شرف حاصل ہے.امیر احمد مینائی کے اس مخلصانہ  و والہانہ دیوان نعت کے بارے میں حضرت جدامجد مولانامحسن کاکوروی نے فرمایا تھا-

یہ دیواں کیا ہے گویا اک گلستاں ہے ہدایت کا

ثمرہے یا کہ محبوب الٰہیّ کی رسالت کا

جب ١٨٥٧ءمیں فرنگی سازشوں اور سامراجی مظالم کے خلاف بغاوت کے شعلے لکھنؤ میں بھڑک اٹھے تو حضرت امیر مینائی شہر سے آٹھ میل دور مغرب میں اودھ کے مردم خیز قصبے کا کوری میں پناہ گیر ہوئے اور وہاں اپنے ہم عصر اور اس زمانے کے بلند پایاوکیل و مصنف محسن کاکوروی کے مکان پر قیام پذیر ہوئے.اپنے دوست کے اخلاص و مروت اورعشق رسول سے محسن کا کوروی بہت متاثر ہوئے.انہوں نے اپنے نومولود نواسے کا نام بھی امیر احمد رکھا-محسن کا کوروی  کے بیٹے نورالحسن نیر کا کوروی تھے جو ان دنوں ایسی فرہنگ مرتب کرنے میں مصروف تھے جس میں لکھنؤ اور اسکے اطراف و اکناف میں بولی جانے والی اور ہمہ وقت تغیر پذیر اردو زبان کے الفاظ و اصطلاحات جمع کی جا سکیں.اسی کوشش میں انہوں نے اپنی نادر روزگار لغت نوراللغات مرتب فرمائی اور اپنے گھر کو نور اللغات آفس کا نام دیا.یہی دفتر نوراللغات راقم الحروف کا ددھیال تھا.الانہ محسن کے نومولود نواسے امیر احمد اس خاکسار کی دادا تھے.اس طرح راقم اگرچہ براہ راست امیر زادگان میں نہیں ہے مگر پھر بھی ادب  و شعر کے وسیلے سے امیر مینائی مرحوم سے ایک واسطہ تو رکھتا ہی ہے چناں چہ آج کی تقریب اور اس میں شرکت کی سعادت سب سے زیادہ اسے خاکسار کے لیےموجب مسرت ہے. برسبیل تزکرہ ایک غلط فہمی کا ازالہ کرنا اس موقع پر نہ مناسب ہوگا.امیر مینائی علامہ محسن کا کوروی کے ہم عصراورقریبی دوست تھے لیکن تاریخ ادب اردو کے مصنف رام بابو سکسینہ نے لکھا ہے کہ حضرت محسن کا کوروی امیر مینائی کے خورد اور شاگرد تھےیہ غلط فہمی یوں ہوئے کہ وہ مصنف نوراللغات اور محسن کا کوروی کے باپ بیٹے کے رشتے سے نہ واقف تھے (انہیں معلوم نہیں تھا کہ نورالحسن نئیرکا کوروی مصنف نوراللغات اصل میں علامہ محسن کے صاحبزادے تھے .وہ مصنف نوراللغات کو بزرگ سمجھے)والد مرحوم مشیر احمد علوی ناظرکاکوروی نے سکسینہ صاحب کو اس غلطی کی طرف توجہ دلائی.سکسینہ صاحب نے وعدہ کیا کہ وہ کتاب کی بعد کی اشاعتوں میں اس کی تصحیح کر دینگے مگر یہ وعدہ پورا نہ ہو سکا اور اب تک لوگ راقم کے دادا امیر احمد علوی کو علامہ محسن کے نواسے کے بجاۓانکا بتا تصور کرتے ہیں.”افکار”کراچی کی اشاعت میں بھی یہی غلط فہمی حال ہی میں دہرائی گئی اور یہ لکھا گیا کے علامہ محسن راقم الحروف کے پر دادا تھے.

میں نے بہت سی باتیں بچپن میں اپنے بزرگوں سے سنی تھیں جن کی تصدیق یا تردید کا کبھی وقت نہ مل سکا .حال ہی میں میرے ایک استفسار کے جواب میں علامہ نورالحسن نیر کا کوروی کے پوتے مولوی اطہر محسن علوی نے مندرجہ ذیل باتیں بتائیں ان کا ذکر بہت ضروری ہے تاکہ حیات امیر کے سلسلے میں ایک اور بیان بھی ملحوظ خاطر رہے:

       “امیر مینائی ١٦ شعبان ١٢٢٤ ہجری (مطابق ١٨٢٦عیسوی)میں پیدا ہوئے

        ابتدائی تعلیم والد کی سر پرستی میں حاصل کی اس کے بعد علماۓ فرنگی محل

        اور دیگرعلماۓ عصر مثلاً سعدالله(شاگرد مفتی صدر الدین آزردہ)سے تحصیل علم کی.

        شاعری کا مشغلہ اگر تکمیل علم سے پہلے شروع ہو جاۓ تو علوم کے حصول میں

        رکاوٹ پیدا ہوتی ہے.امیر کے والد نے اس کا خیال رکھا.ایک بار امیر اپنے

        والد کے پیرداب رہے تھے والد نے پوچھا کہ تم شاعری بھی کرنے لگے ہو.

        ہم بھی سنیں ہمارا امیر کیسے شعر کہتا ہے.جواب میں امیر نے شرماتے ہوئے بتایا

        کہ بارش نہیں ہو رہی ہے.لوگ پریشان ہیں.موجودہ کیفیت کو میں نے اس طرح نظم

        کیا ہے..

                              “ابر آتا ہے ہر بار برستا نہیں پانی

                              اس غم سےہےیادوسرےاشکوں کی روانی”

شفیق باپ نے بیٹے کی کوششوں کو سراہا لیکن ساتھ میں ہدایت کی کے پہلے علوم متدادلہ سے کماحقہ واقفیت  پیدا کرلیں اس کے بعد شاعری کریں.یہی وجہ ہے کہ امیر احمد مرحوم نے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد شاعری کی طرف توجہ کی.جس ماحول میں تربیت ہوئی اسکا تقاضا تھا کہ وہ ایسا استاد تلاش کرتےجو ان کے مذاق کا ساتھ دیتا چناں چہ مظفرعلی خاں اسیر کا سا استاد ان کو مل گیا جو رکاکت وابتدال سے بلند تھا.اسیر ہی کی وساطت سے ١٨٥٢ء میں امیر کو واجد علی شاہ کے یہاں ملازمت حاصل ہوئی اسی دوران امیر نے ارشاد السلطان اور ہدایت السلطان نامی کتابیں لکھیں ابتدائی کلام کا مجموعہ جس کو بہارستان کے نام سےموسوم کیا تھا ١٨٥٧ء کے ہنگامے میں تلف ہوگیا چناں چہ اس زمانے کا جو رنگ تھا اس کا اندازہ پوری طرح نہیں کیا جا سکتا ہے جو تھوڑا بہت کلام ملتا ہے اس میں اخلاقی مضامین پاۓ جاتے ہیں.مثلاً…

حوصلہ عالی اگر ہو ہر جگہ معراج ہے

دار بھی ہے شاخ سدرہ دیدہ منصور میں

واجدعلی شاہ کی معزولی اور شہر کے ہنگاموں نے دیگر شرفا کی طرح امیر مینائی کو بھی لکھنؤ چھوڑنے پر مجبور کیا.امیر کاکوری چلے گئے جہاں محسن کا کوروی کی صحبت نے امیر کے نعت گوئی کے جذبے کو شہ دی.محسن کے قصیدے،ابیات نعت کی تضمین جو امیر نے کی وہ اسی فیض صحبت کا نتیجہ ہے.امیر مینائی مرحوم نے کاکوری کے کس گھر میں کب تک قیام کیا اسکا تزکرہ کہیں نہیں ملتا ہے.محسن کاکوروی کا جو مکان پھاٹک کے نام قصبے کے محلے باؤلی سے متصل تھا ان کے  پڑپوتے حافظ رضوان علوی نے کھدوادیا اس لیے اب اس کا یا وہاں کے کتب خانے کا کوئی بھی نشان نہیں ہے.احسن الله ثاقب جنہوں نے امیر مرحوم کے خطوط ترتیب دیے تھے انہوں نے بھی اس مسلے پر کوئی روشنی نہیں ڈالی.ثاقب کی اہمیت یہ ہے کہ وہ پہلے محسن کاکوروی کے شاگرد تھے جب ١٨٨٧ءمیں وو رامپور منتقل ہوئے تو حسب فرمائش محسن کاکوروی امیر مینائی کو اپنا کلام دکھانے لگے .

اپنے عارضی قیام لکھنؤ کے دوران ١٨٨٥ء میں امیر مینائی نے ایک جریدہ “دامن گلچیں” کے نام سے نکالا.ابتدائی پرچوں میں ہندوستان کے بہترین شعراءطبع آزمائی کرتے تھے.امیر، داغ، جلال،  ریاض اور شوق وغیرہ نے بھی اس میں اپنا کلام چھپوایا.منشی امیر مینائی کے اصرار پر محسن نے دو تین غزلیں بھیجیں ایک غزل کا مطلع تھا.


غزل کہنے میں ہے تعمیل ارشاد امیر

بعد مدّت آج محسن خامہ فرسائی ہوئی

غالباً اسی شعر کی وجہ سے بعض تزکرہ نگاروں نے جن میں رام بابو سکسینہ بھی شامل ہیں حضرت محسن کا کوروی کو امیر مینائی کا شاگرد بھی لکھ دیا ہے.امیر مینائی کا لکھنؤ میں قیام عارضی ہی رہا اور وہ بقول امیراحمدعلوی چند ماہ بعد رام پور واپس چلے گئے اور “دامن گلچیں” کی کلیاں مرجھا گئیں.

جاری ہے

Share

February 2, 2012

بیگمات کےآنسو از خواجہ حسن نظامی کا مختصر تعارف

Filed under: ادبیات,کتابیات — ابو عزام @ 8:06 am

راقم نے خواجہ حسن نظامی کا مضمون شہزادی کی بپتا نصاب میں پڑھا تھا اور اسکے نقوش آج تک یاداشت پر باقی ہیں۔ کچھ عرصے قبل بیگمات کے آنسوپڑھنے کا موقع ملا تو پوری کتاب ایک ہی نشست میں ختم کر ڈالی۔ اسکا مقدمہ ڈاکٹر عقیلہ جاوید اسسٹنٹ پروفیسر،شعبہ اردو، بہاءالدین زکریا یونیورسٹی نے لکھا ہے اور بہت خوب لکھا ہے۔ تمہید حسن نظامی بھی پڑھنے لائق ہے۔ بس لیکن جو قصے ہیں وہ دکھ بھری داستانیں ہیں جن سے کئی فلموں کے اسکرین پلے بن سکتے ہیں اور یقین ہے کہ بنے بھی ہونگے لیکن چونکہ یہ سب کہی سنی باتیں ہیں لہذا اس کی آزادانہ تحقیق کا بظاہر کوئ وسیلہ نہیں لیکن تاج دہلی کے لٹنے کی اس سے بہتر نوحہ گری ہمارے ناقص مطالعے میں تو نہیں۔ خواجہ صاحب اپنی اس کتاب کی بابت تمہید میں لکھتے ہیں

میں نے دہلی کے غدر ١٨٥٧کی نسبت بارہ حصّوں پر تاریخی واقعات لکھے ہیں جن میں پہلا حصّہ بیگمات کے آنسو بہت ہی زیادہ مقبول ہے. پہلے یہ کتاب چھوٹے سائز پر غدر دہلی کے نام سے شائع ہوئی تھی پھر اس کتاب میں نئے افسانوں کا اضافہ ہوا اور آنسو کی بوندیں نام رکھ کر شائع کیا.پھر اور افسانے بڑھا کر بیگمات کے آنسو نام رکھا گیا. اب تک اس کتاب کے دس ایڈیشن چھپ چکے ہیں. ان مضامین کی نسبت ہندوستان کے اکثر اہل قلم کا خیال ہے کہ یہ میری تحریروں میں سب سے اعلیٰ ہیں اور اردو انشاء پروازی میں ان کہ ایک بڑا درجہ ہے. میرے دوست اور آنریبل مولانا سر سید احمد خان بہادر کے پوتے سید راس مسعود صاحب عرف نواب مسعود جنگ بہادر نے اسی بنا پر کئی سال ہوئے مجھ سے خواہش کی تھی کے میں ان افسانو کا ایک خاص ایڈیشن شائع کروں جسکا کاغذ اور چھپائی اور لکھائی اورجلد بنوئی ایسی عمدہ ہو کہ اسکو لائبریریایڈیشن کہہ سکیں. میں نے اپنے دوست کے کہنے کے موافق اسکا اہتمام کیا ۔

اس کتاب کے مضامین میں بھکاری شہزادہ، شہزادے کا بازار میں گھسٹنا،یتیم شہزادے کی ٹھوکریں،شہزادی کی بپتا،فاقہ میں روزہ،بنت بہادر شاہ،یتیم شہزادے کی عید،دکھیا شہزادی کی کہانی،بیچاری شہزادی کا خاکی چھپر کھٹ،کفنی،جب میں شہزادہ تھا،مرزا مغل کی بیٹی،غدر کی زچہ،غمگین شہزادی،جب ساقی کے ہاتھ میں جام تھا،نرگس نظر کی مصیبت،شہزادہ انساماں،آخر کا بس ایک آنسو،ہندی اور گجراتی،نواب مسعود جنگ بہادر کا شکریہ اور ہر ایک آنسوشامل ہیں۔

اس کتاب کے پڑھنے سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ علامہ اقبال خواجہ صاحب کے بڑے مداح تھے اور انکی صحبت سے فیض پانے کے لیے وہ بار بار الہٰ آباد جاتے تھے اور مسلسل خط و کتابت جاری رکھنے میں بھی سعی بلیغ فرماتے تھے.انھوں نے اپنے دل پر اکبر کی شخصیت اور ان کے کلام کے تاثرکا بار ہا اعتراف کیا اور اپنے اکثر نظریات کو ان کی توجہ اورصحبت کا نتیجہ قرار دیا.علامہ کا کہنا تھا کہ “اکبر کے اسٹائل کی سادگی اور نوکیلے پن کا سراغ ان کی اپنی نظموں کے بعد اگر کسی جگہ تلاش کیا جائے تو وہ خواجہ صاحب کے نثر پاروں میں ہی ملےگا.”

 چوں کہ خواجہ صاحب کے لکھے ہوئے افسانے اور کہانیاں زیادہ تر انقلاب ١٨٥٧ کی بپتا سے متعلق ہیں اس لیے ان میں سوز و گداز کی کیفیت بھی پائی جاتی ہے،اس حوالے سے ان کہ اسلوب ملاحظہ فرمائیں:

“درگاہ حضرت چراغ دہلی کے ایک گوشے میں ایک قبول صورت عورت پھٹا ہوا کمبل اوڑھے رات کے وقت ہائےہائے کر رہی تھی.سردی کہ مہینہ دھواں دھار برس رہا تھا.تیز ہوا کے جھونکوں سے بوچھاڑ اس جگہ کو ترس رہی تھی جہاں اس عورت کہ بستر تھا……..یہ عورت سخت بیمار تھی.پسلی کے درد،بخار اور بے کسی میں اکیلی پڑی تڑپتی تھی..بخار کی بے ہوشی میں اس نے آواز دی. گلبدن. اری او گلبدن!مردار مر گی.جلدی آ اور مجھ کو دوشالہ اوڑھا دے.دیکھ بوچھاڑ اندر آتی ہے. پردے چھوڑ دے،روشنک تو ہی آ .گلبدن تو کہیں غارت ہو گئی.میرے پاس کوئلوں کی انگیٹھی لا.پسلی پر تیل مل.ارے درد،میرا سانس روکا جاتا ہے.”جب کوئی اس آواز پر بھی اس کے پاس نہ آیا تو اس نے کمبل چہرے سے ہٹا اور چاروں طرف دیکھا.اندھیرے لان میں خاک کے بچھونے پر تنہا پڑی تھی.چاروں طرف گھپ اندھیرا چھایا ہوا تھا.مینہ سناٹے سے برس رہا تھا،بجلی چمکتی تھی تو ایک سفید قبر کی جھلک دکھائی دیتی تھی جو اسکے باپ کی تھی.”یہ حالت دیکھ کر اس عورت نے ایک نعرہ مارا اور کہا بابا!میں تمہاری گل بانو ہوں.دیکھو اکیلی ہوں.اٹھو مجھے بخارچڑھ رہا ہے،آہ میری پسلی میں شدّت کا درد ہو رہا ہے،مجھے سردی لگ رہی ہے،میرے پاس اس بوسیدہ کمبل کے سوا اوڑھنے کو کچھ نہیں ہے.میری اماں مجھ سے بچھڑ گئیں.میں محلوں سے جلا وطن ہو گئی.بابا اپنی قبر میں مجھے بلالو.اچھی مجھے ڈر لگتا ہے.کفن سے منھ نکالو اور مجھ کو دیکھو،میں نے برسوں سے کچھ نہیں کھایا.میرے بدن میں اس گیلی زمین کے کنکر چبھتے ہیں.میں اینٹ پر سر رکھے لیٹی ہوں.

“میرا چھپر کھٹ کیا ہوا؟میرا دوشالہ کہاں گیا؟میری سیج کدھر گئی؟ابّا.ابّا.اٹھو جی کب تک سوؤ گے. ہائےدرد.افوہ.سانس کیوں کر لوں؟

مولانا عبدالماجد ریا آبادی کا یہ قول خواجہ صاحب کے لِیےحرف آخر ہے کہ
“ان کا سا البیلا انشاء پرداز اردومیں نہ کوئی ان کے زمانے میں پیدا ہو سکا اور نہ آج تک ہوا ہے.وہ صحیح معنوں میں عوامی انشاء پرواز تھے،ساز سے زیادہ سوز کے مالک.”

Share

January 31, 2012

تنقید کی موت از قیصر تمکین کا تعارف – دوسرا اور آخری حصہ

Filed under: ادبیات,کتابیات — ابو عزام @ 1:49 am

گذشتہ سے پیوستہ

 قیصر تمکین صاحب کی اردو زبان سے دلی محبت اور اسکی شکست و ریخت پر جلنا کڑھنا،  آپکی تحاریر میں متعدد بار دکھائ دیتا ہے۔  اسی زمن میں رطب اللسان ہیں۔

بہرحال یہاں کہنا صرف یہ تھا کہ بیسویں صدی جو ہماری زبان کی ترقی کے امکانات کی صدی تھی جس میں ہم نے بہتر سے بہتر ترقیوں کی خواہش کی تھی، فروعی مسائل میں ایسی الجھی کہ ادب و فن کی ترقی تو کجا خود زبان کا مستقبل ہی معرض بحث میں پڑ گیا.اس پر طرہ یہ کہ انگریزی ذریعہ تعلیم والے اسکولوں کی بھرمار اور لعنت نے مذہبی گھرانوں تک میں اردو کا ذبیحہ کر دیا.ہندوستان میں ہر سرکاری تقریب اور ہر محفل میں ہندی کہ بول بالارہتا ہے ،اسے قوم پرستی اور ملکی افتخار کہ نام دیا جاتا ہے لیکن انگریزی لکھنے اور پڑھنے والے ہندوستان میں ہی زیادہ ہیں.ہندوستان کہ نام ہی انڈیا ہے جو انگریزی ہے اور انگریزوں کہ دیا ہوا ہے.آج کل پورا ایک دبستان علم وادب ہندوستانیوں کہ ایسا ہے جو انگریزی حلقوں میں مساوی سلوک کہ حقدار اور عالمی عزت کہ حمل ہے لیکن وہ لوگ اپنی زبان (ہندی)کی حق تلفی کر کے انگریزی نہیں لکھتے پڑھتے ہیں.ہندوستان کے زیادہ تر ادیب انگریزی میں لکھنے کے باوجود اپنی مادری زبان یا علاقائی زبانوں سے اچھی طرح واقف ہوتے ہیں اس کے بر خلاف پاکستان میں جو طبقہ انگریزی بولنے،لکھنے یا پڑھنے کہ دعویٰ کرتا ہے اس کو اردو تو بہرحال نہیں آتی ہے لیکن انگریزی میں بھی بڑے بڑے صاحب لوگ بلکل صفر ہوتے ہیں.اس صورت حال کے لیے یہ نعرہ بہت بڑی حد تک صحیح ہے کہ پاکستان میں “نہ تو انگریزی آتی ہے اور نہ انگریزی جاتی ہے.”

آجکل اردو ادب کا ایک بڑا مسئلہ بے ادب مصنفین بھی ہیں جو کہ پیسے و تعلقات کے زور پر اپنی کتابیں چھپواتے اور انکاا’لوہا منواتے’  نظر آتے ہیں۔ قیصر تمکین صاحب اسی بارے میں لکھتے ہیں

ہمارے ادب میں (خاص طور پر انگلستان میں)ادب کے آخری پچیس سال کی تاریخ اصل میں اردو زبان کو ختم کرنے یا اس کہ چہرہ بہت ہی شعوری اور مخلصانہ طور پر مسخ کرنے کی کوششوں سے عبارت ہے.ان کوششوں میں تھوڑا حصّہ سمندر پار کے ملکوں میں جا بسنے والوں اور خام قلم کاروں کہ بھی ہے.نچلے طبقے یا پسے ہوئے اور پسماندہ افراد کے گروہ کے گروہ مشاعروں کو سستی تفریح کا ذریعہ بنانے میں منہک رہے ہیں.یہ کوشش کچھ زیادہ قابل تنقیص نہیں ہے کیوںکہ خام قلمکار ہی آگے بڑھ کر معتبر ادیب و شاعر بنتے ہیں.مغرب میں پیسے کی تنگی نہ ہونے کی وجہ سے ہر زید عمر بکر اپنی کتابیں خود چھپوانے لگا ہے.پیسے کوڑی سے مضبوط خضاب آلودہ حضرات نے ہندوستان و پاکستان کے ندیدے اور لالچی مدیران جرائد کو خطیر رقوم بھیج بھیج کر اپنے مشتبہ یا املا و انشا سے بے بہرہ کتب کی اشاعت کے اشتہارات بھی خوب شایع کراۓ(یہ طریقہ اب کچھ کم ہو رہا ہے ).کوکین،بردہ فروشی،غبن اور باقاعدہ ڈاکہ زنی میں ماخوزاداروں کے چلتی رقم قسم کے کامیاب حضرات نے ہوائی جہازوں کے ٹکٹ بھیج کر مستند ناقدین تک سے اپنے بارے میں بقول محمّد طفیل اکیس توپوں کی سلامی والے مضامین لکھائے.بہت سے امیر و رئیس حضرات نے اپنی سادہ و بے نمک تخلیقات کے ایسے ایسے کار چوبی نسخے چھپواۓ کے چغتائی کا مصوردیوان غالب تک ان کے سامنے پھیکا پڑگیا.گویا وہ صدی جو بڑی امنگوں کے ساتھ شروع ہوئی تھی اپنے آخری چوتھائی حصّے میں آ کر ابتدال و زوال کی سرگرمیوں کی داستان بن کر رہ ِگئ.
انہی پچیس برسوں میں برطانیہ میں مقیم اردو دوست آپس میں مربوط ہونے لگے.بازاری طریق فکر کے علاوہ بعض پراسرار وجوہ سے بھی ادیبوں اور شاعروں کی ایک ایسی کھپ دیکھتے ہی دیکھتے جہان فکر پر حاوی ہو گئی جو اپنی ناواقفیت پر مسرور اور لا علمی پر نازاں تھی.اسی زمانے میں شخصی بت پرستی اور ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنانے کی روش عام ہوئی.

اردو ادب کی حالیہ تاریخ مرتب کرنے پر ان الفاظ میں راے زنی کرتے ہیں

مشکل اس وقت یہ ہے کے بیسویں صدی کی ادبی تاریخ مرتب کرنے کے کسی منصوبے پر تا حال کسی ادارے یا یونیورسٹی نے کوئی پیش رفت نہیں کی ہے امریکا اور انگلستان میں اس طرح کا کام ہو رہا ہے اور جلد ہی امریکی اور انگریزی ادب کی جامع تاریخ ہمارے سامنے آ جاۓ گی.اصل میں جس وسیع پیمانے پر محنت کی ضرورت ہے اس طرح کے وسائل ہمارے ادب میں نہیں ہیں.صرف ایک صدی کی ادبی تاریخ مرتب کرنے کے لئے بھی کئی پڑھے لکھ حضرات کا تعاون درکار ہوگا. یہاں پچھلی صدی کے صرف ایسے مسائل پر مختصر روشنی ڈالی جا سکتی ہے جو اب تک برقرار ہیں.پھر بھی اگر ہم لوگ کوئی سیر حاصل تبصرہ کرنا چاہیں تو زیادہ مشکلات نو ہوں گی.ایک جلد آسانی سی تنقیدی مسائل و نگارشات اور فن تنقید پر مرتب کی جا سکتی ہے.اسکے بعد نظم،افسانہ،ناول اور عمرانی مسائل پر علاحدہ علاحدہ دو تین جلدیں مرتب ہو سکتی ہیں.ہاں غزل کے بارے میں ضرور مشکل پیش آے گی کیونکہ  یہاں اتفاق راۓ سے زیادہ اختلافات کی عمل داری ہے۔

رسم الخط کےبارے میں انکی راے نہایت سنجیدہ، مدلل اورراقم کے خیال میں برہان قاطع کا درجہ رکھتی ہے۔ لکھتے ہیں۔

پاکستان میں اردو کی جگہ”اردش” نے قومی زبان کا منصب اختیار کر لیا.دوسری طرف ہندوستان میں فارسی رسم الخط ترک کر کے دیونا گری لپی مسلط کرنے کی کاوشوں میں اچھے کہے الله والوں کی متاع دین و دانش لٹ گئی.اس دور میں رسم الخط کا پرانا مسلہ ایک بار پھر بڑی شدّت سے ابھر کر سامنے آیا.۔۔۔اب رسم الخط کہ سوال بھی خاصا غور طلب ہے.انگریز اردو دوست رالف رسل نے ایک مقالے میں اردو پرستوں کو مشورہ دیا کہ وو دیونا گری رسم الخط اختیار کر لیں.اسکی تائید متعدد حلقوں کی طرف سے کی گئی لیکن ایک بات جس کی طرف توجہ کم دی جاتی ہے وو یہ ہے کے رسم الخط کی تبدیلی سے اردو کا تشخص اور حیثیت عرفی ہی ختم ہو جاۓ گی .زبانوں کہ جزواعظم ان کا رسم الخط ہوتا ہے.اسٹالن کی آمریت کے دور میں مسلم ریاستوں کا تہذیبی تشخص ہر ممکن طریقے پر مٹانے کی کوشش کی گئی اور پہلا اور سب سے موثر کام یہ ہوا کہ وہاں مقامی زبانوں کا رسم الخط مٹا دیا گیا.لیکن اس تبدیلی سے فائدہ کیا ہوا؟کیا واقعی عالمی پیمانے کہ کلاسیکی ادب پیدا ہوا؟

اردو کے بعض حروف مثلاً ،ث،س،ص یا ذ،ز،ظ اور ض صوتی طور پر ایک سے لگتے ہیں لیکن رسم خط کی صراط میں ان سے بلکل ہی دوسرے مختلف المعانی حروف بنتے ہیں.”قائد” کو اگر ہندی یا رومن میں لکھا جائے گا تو پڑھا اسے “کائد” جائے گا.اس طرح الفاظ کہ روپ بدلنے سے پہلے لغت ہی کو بدلنا پڑیگا.”عقل” اور”اکل” کہ فرق سمجھانے کے لیے قاموس میں ترمیم لانی ہوگی جس کے لیے ضرورت پڑیگی کہ ایک پورا لغت بورڈ بٹھایا جائے. مگر جب اصل کوششیں ہی زبان کو مٹانے کی ہو رہی ہوں تو اس “قریب المرگ ” اور کمزور زبان کو بہتری کے لیے لغت بورڈ کیوں اور کہاں مرتب کرایا جا سکتا ہے.ٹوائن بی نے ایک جگہ لکھا ہے کہ کسی قوم کو مجہول بنانے کے لیے ضروری یہ ہے کہ وہاں کتاب خانوں کو آگ لگانے کے بجاۓ زبان کا رسم الخط بدل دیا جاۓ.قوم کا رشتہ خود بخود اپنے ماضی سے کٹ جائیگا.ہندوستان میں یہ تحریک چلی کہ اگر اردو کو دیونا گری لپی میں لکھا جائے تو اس زبان کہ ادب آسمان پر پہنچ جائے گا.لیکن پاکستان میں ایک خاصے با اثر حلقے کی طرف سے یہ آوازیں اٹھنے لگیں کہ اگر اردو والے رومن اسکرپٹ اختیار کر لیں تو ہماری زبان انگریزی اور چینی کو بھی میلوں دور چھوڑ جائے گی.یہ کہنے والے معلوم نہیں یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ یہ کام تو تقریباً اسی برس پہلے ترکی میں ہو چکا ہے لیکن وہاں کے زبان و ادب نے کیا ترقی کرلی ؟

اگر پاکستان کے احباب مصر ہیں کہ ہماری زبان کے لیے رومن اسکرپٹ اختیار کر لیا جائے اور بھرتی بندھو چاہتے ہینن کہ ہم دیونا گری لپی اپنا لیں تو ہمارے سامنے یعنی ایک عام اردو دوست کے لیے مسلہ یہ پیدا ہو جائے گا کہ وہ کس کہ مشورہ قبول کرے.کیا یہ بہترنا ہوگا کہ محبان اردو کی ایک عالمی کانفرنس صرف یہ طے کرنے کے لیے طلب کی جائے کہ ہماری زبان کے لیے کون س رسم الخط بہتر رہے گا.اردو کی بہتری کے بزعم خود خوا ہاں حضرات ہر بات کی ابتدا اس دعوے سے کرتے ہیں کہ اردو ایک کم مایہ اور پسماندہ زبان ہے اور اسے بھرپور اور ترقی یافتہ بنانے کے لیے پہلا قدم یہ ہے کہ اسکا رسم الخط بدل دیا جائے لیکن اردو رسم الخط میں اگر کچھ نقائص ہیں تو وہی عربی و فارسی میں بھی ہیں.اصولی طور پر ان دونوں کہ رسم الخط ہی بدلنا چاہیے.یہ کوشش مشرق وسطیٰ اور ایران میں کیوں نہیں کی جاتی ہے یہ وہ لوگ اپنا رسم الخط مٹانے کے خواہاں نہیں ہیں؟

قیصر تمکین صاحب کی تحریر میں موجودہ اردو کا ایک بڑا ذخیرہ الفاظ ملتا ہے۔ وہ دقیق عربی و فارسی اصطلاحات کے بجاےاردو اصطلاحات پر زور دیتے تھے اور اپنی زبان کو کبھی اردش سے آلودہ نہ ہونے دیتے۔ یہ کتاب اپنے نفس مضمون کی بنا پر تھوڑی مشکل سے پڑھی جاتی ہے لیکن اگر آپ کو اردو تنقید و ادب سے دلچسپی ہو تو اس کا ختم کرنا چنداں مشکل نہیں بلکہ آپ اسے بار بار پڑھیں گے۔  حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

Share

January 25, 2012

تنقید کی موت از قیصر تمکین کا تعارف – حصہ اول

Filed under: ادبیات,کتابیات — ابو عزام @ 9:01 pm

تنقید کی موت محترم قیصر تمکین صاحب کے مضامین کا ایک بیش قیمت مجموعہ ہے جسے راقم کی راے میں اردو نقد و نظر سے سے محبت رکھنے والے ہر قاری کو ضرور پڑھنا چاہیے ۔ صاحب تحریر کی اس کتاب پر نظر اردو کی عالمی کانفرنس کے دوران پڑی اور اس طرح اس نابغہ روزگار شخصیت کی تحریر و تصنیف سے تعارف  ہوا ۔ ان  کے انتقال پرمحترم حیدرآبادی کی یہ تحریر ، مرحوم کی خدمات و حیات کا نہایت عمدہ تذکرہ  ہے۔ قیصر تمکین صاحب کی دیگر کتب میں جنگ ہنسائی،خبرگیر (صحافتی دنیا کی داستان)، سو استکا ، الله کے بندے ، یروشلم یرو شلم ، یاسمین او یاسمین ، ، شعرونظر ، ہماری آواز،واہ، ایک کہانی،گنگا جمنی اور صدی کےموڑپرشامل ہیں۔

 تقریبا ۱۵۰ صفحات کی اس کتاب میں انکے بارہ عدد مضامین شامل ہیں  ۔ گذشتہ دہای کے اردو ادب کے منظر نامے سے آگاہی کے  لیے ان کا مطالعہ بے حد مفید ہے۔ ان میں بیسویں صدی کے رجحانات ، روۓادب،سوۓادب، تنقید کی موت، مغربی ادیب اور ہم، غزل کے امکانات، انہدام نظر، تہذیب عالی کا شوشہ کس لیے؟، ذکرامیر،جوش کی بد قسمتی،قاسمی  صاحب،ایک اعتراف،ایک ہدیہ عقیدت اور مجموعہ کلام یا استفہامیہ  شامل ہیں۔ قیصر تمکین صاحب ایک ہمہ جہت شخصیت تھے اور انکی تنقیدی نگاہ میں، روف پاریکھ صاحب کی طرح مغربی مفکرین کے لیے بھی وہی پیمانے ہیں جن سے وہ اپنے ہم عصر اردو لکھنے والوں کو پرکھتے تھے۔ وسیع المطالعہ تھے، ایک موقع پر لکھتے ہیں “ایلیٹ اور دوستوئیفسکی کا مطالعہ کرنے والے بہت ہی اچھے اور پڑھے لکھے لوگ بھی جیسے یہ مان چکے ہیں کہ وہ کوئی ماوراۓ تنقید نابغہ روزگار ہوں۔ ایلیٹ صاحب بڑے صاحب فکر شاعر اور ادیب و نقاد تھے.ان کی ادبی عظمت کا ہمہ وقت ذکر کرنے والے اردو داں حضرات کے لیےکیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ وہ ان حضرت کی مشرقی لندن کے غنڈوں اور نسل پرستوں جیسی زبان سے بھی اپنی واقفیت کا اظہار کریں کہ نسل انسانی ایک بڑے حصّے یہودیوں کو سب ہیومن  نیم وحشی اور  جیو ریٹ قرار دینے کا آفاقی معیار اردو تو کیا مشرق کے کسی بھی ادیب حتیٰ کہ ہندی کے نوفسطائی ادیبوں کے یہاں بھی نہ ملے گا “۔

قیصر صاحب انسانیت کے علمبردار تھے،  مزید فرماتے ہیں

.١٩٣٠ میں حضرت قبلہ ادب جناب ٹی ایس ایلیٹ صاحب نے تحریر فرمایا کہ یہودی تو چوہوں سے بھی گئے گزرے ہیں. ممکن ہے کہ ایسا لکھتے وقت ان کا ذہن نہ پختہ ہو مگر بعد کی عمر میں جب وہ نوبل انعام سے نوازے جا چکے تھے تب تو اپنی اس فسطائیت پر شرمندگی کا اظہار کر سکتے تھے.اپنی نسل پرستی پر مبنی تصنیفات کو رد کر سکتے تھے مگر ہمارے علم میں تو انکا کوئی ایسا جملہ یا تحریر موجود نہیں ہے جس میں اس سامراجی انداز نظر پر اظہار معذرت کیا گیا ہو.

انہوں نے ہمیشہ عمومی رجحانات پر تنقیدی نظر رکھی اور دریا کی روانی میں بہنے کو اپنی شان کے سوا سمجھا ، اسی زمن میں لکھتے ہیں

ہمارے بزرگوں میں جو سارے کے سارے دوسری جنگ عظیم کے کی پیداوار تھے.ایلیٹ کی ایک نظم ‘ویسٹ لینڈ’ کے بڑے چرچے تھے.ہم سمجھے کے اب یہ آکاش وانی ذرا دھیمی ہو گئی ہےاور قرت العینی جذباتی رومانیت(موصوفہ کے ایک ناول کی ابتدا ہی آیات ایلیٹ سا ہوتی ہے )کے زوال کے ساتھ ہی وہ دور “چیونگ گمی”بھی ختم ہو چکا ہے مگر حال ہی میں بی بی سی کی عالمی سروس کے دفاتر وقع بش ہاوس میں بعض ایسے بھی موحققین اردو ملے جوآج بھی ایلیٹ اوردوستوئیفسکی کا اسے طرح حوالہ دیتے ہیں جیسے اسٹوڈنٹس فیڈریشن ۔۔۔کی رکنیت کے زمانے میں کامریڈفلاں اورکامریڈفلاں لینن اور اسٹالین کے حوالہ جات سے ہم کو بہرہ ور فرماتے تھے. بہرحال ہم نے دوران گفتگو کئی باتوں کی طرف اشارہ کیا اوردوستوئیفسکی کی ضمن میں کہا کہ اس کے کرداروں کی فکری نراجیت ذہنی تشنج اور مذہبی عصبیت میں دراصل خود اسکی زندگی کے ایک نمایاں پہلو کی عکاسی ملتی ہے

انہیں بت شکنی بہت عزیز ہے اور وہ کسی بھی ادیب کو تنقید و تبصرے سے بالا نہیں سمجھتے۔ ایلیٹ کے بارے میں لکھتے ہیں

بہت سے لوگوں نے ایلیٹ کے فکرو فن پر تحسین محض ہی نہیں بلکہ منصفی و دیانت کے پہلوؤں سے بھی سوچ بچار کیا لیکن اردو میں جن حضرات نے ٹی ایس ایلیٹ کو پڑھا انہوں نے اسکو فکر و فن اور ادب کا مینارہ روشنی من کر اسکی ہاں میں ہاں ملانا باعث افتخار سمجھا اور اب تو یہ حال ہے کہ اردو کے ادبی حلقوں میں غالباً کوئی ایسا صاحب فکر ہے ہی نہیں جو یہ سوچ سکے کہ ٹی ایس ایلیٹ بھی ایک خاکی انسان تھا.ایک ایسا انسان جس کے بارے میں ام الکتاب کا ارشاد ہے کہ وہ مجموعہ خطا و نسیان ہوتا ہے اور جس کی کہاوتوں کے بارے میں دورائیں بھی ہو سکتی ہیں.

ان کی یہی راے ادب کی عمومی حیثیت اور ہماری غلامانہ ذہنیت پر بھی ہے۔ تنقید کی موت میں انگریزی ادب کے بارے میں لکھتے ہیں

ایک قبل لحاظ امر یہ ہے کہ ہندو پاکستان کی تمام جامعات میں انگریزی ادب خوب دھوم دھام سے پڑھایا جاتا ہے اور اس ادب کو کچھ اس طرح منزہ و طاہر اور ماوراۓ تنقید سمجھا جاتا ہے جیسے کوئی الہامی درجہ رکھتا ہو ہماری جامعات میں مغربی ادب کی خوبیاں ہمہ وقت معرض بحث رہتی ہیں

دانتے کے انفرنو کو مشق ستم بناتے ہوئے بجا طور پر کہتے ہیں

تقریبا ننانوے فیصدی کی حد تک اساتذہ و طلبا دانتے کی جہنم کے ناپاک ترین اور مکروہ ترین حصّوں سے یا تو ناواقف رہتے ہیں یا دیدہ دانستہ نا واقف رہنا مناسب سمجھتے ہیں.اطالوی ادب سے براہ راست واقفیت کے باوجود عزیز احمد جیسے صاحب شعور ادیب نے بھی دانتے کی صرف خوبیاں ہی گنائیں.انہو نے اسکے ذاتی تعصبات کا ذکر نہ کیا جنت کے آخری اور اعلیٰ ترین حصہ پر پہنچ کر شاعر نے جب بیانرچے کو دیکھا توکیا سوال کیا؟اس سوال کی توضیح و تشریح کلیسائی ادب نے کن کن پہلوؤں سے کی ہے؟کیا یہ فرض کرنا واقعی جائز بھی ہو سکتا ہے کہ عزیز احمد جیسا صاحب علم و شعور ان تشریحات سے بے خبر تھا!

وہ مغربی ادب کے مخالف نہیں لیکن وہ چاہتے ہیں کہ اس کو پڑھنے والے مغربی ادب و فکر سے آگہی حاصل کریں نا کہ اسے کوی مقدس صحیفہ گردانا شروع کردیں۔ اس زمن میں کہتے ہیں

مغربی ادب و فکر سے متاثر ہونے والے زیادہ تر ایسے اصحاب ہوتے تھے جن کا مقصد پیروی مغرب نہیں بلکه مغربی ادب و فکر سے آگہی حاصل کرنا ہوتا تھا.بہت سے حضرات اس لیے مغرب کا مطالعہ کرتے تھے کہ اس سے متاثر ہو کر اسکے مثبت و جاندار پہلوؤں سے متمتع ہو کر اپنے ادب میں بھی نئی نئی راہیں نکالیں.یہ جذبہ کسی طرح بھی قابل اعتراض نہیں ٹھرایا جا سکتا ہے مگر پھر بھی یہی حضرات صرف مغرب ہی میں پھنس کر کیوں رہ جاتے ہیں اور اپنے شعور و فکر سے کام لے کر مغربی افکار کے منفی و گمراہ کن رجحانات پر نظر کیوں نہیں ڈالتے؟

جاری ہے۔

Share

January 24, 2012

قرارداد سال نو – ۵۲ ہفتوں میں ۵۲ کتابیں

Filed under: ادبیات,عمومیات,کتابیات — ابو عزام @ 12:13 pm

تو جناب قصہ کچھ یوں ہے کہ ۵۲ ہفتوں میں ۵۲ کتابوں کی تحریک سے متاثر ہوکر ہم نے بھی اپنے نئے سال کی قراردادوں میں یہ بات شامل کی کہ ہر ہفتے ایک عدد کتاب ختم کی جائے۔ ان کتابوں کا انتخاب مشکل امر ٹہرا۔ اس سلسلے میں ہم نے مختلف بہترین کتب کی فہرستوں، اپنے کتب خانے، ذاتی پسند، دوستوں اور دیگر زرائع سے مدد لی اور کتب کی مندرجہ زیل فہرست مرتب کی ہے۔ ان میں سے کچھ کتابیں پہلے پڑھ چکا ہوں لیکن دوبارہ پڑھنے کی خواہش ہے۔ سپر فریکنامکس ختم کر کر اب مبارک حیدر صاحب کی کتاب شروع کر دی ہے لہذا متعین اہداف کا حصول ابھی تک تو بفضل تعالی زیادہ مشکل نہیں لگ رہا۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔
نصابی کتابوں، بلاگز، تکنیکی کتب، پاڈ کاسٹوں وغیرہ کے درمیان اچھی نان فکشن و فکشن کو پڑھنے کا موقع نہیں ملتا۔ ۵۲ ہفتوں کا یہ نظم اسی بات کی کوشش ہے کہ ہدف متعین کر کر اگر کام جائے تو کامیابی کا امکان زیادہ ہے۔ مندرجہ ذیل فہرست حتمی نہیں لہذا اس کے بارے میں اپنی رائے سے آگاہ کریں اور اگر آپ کی سفارشی کتاب زیادہ اچھی ہوئی تو اس کو اس فہرست میں شامل کیا جاسکتا ہے۔
🙂

Week

Title

Author

1/1/2012

تنقید کی موت

Qaiser Tamkeen

1/8/2012

Case of Exploding Mangoes

Mohammad Hanif

1/15/2012

Superfreaknomics

 Steven D. Levitt and
Stephen J. Dubner

1/22/2012

مغالطے، مبالغے

Mubarak Haider

1/29/2012

Ender’s Game

Orson Scott Card

2/5/2012

Pragmatic thinking and
learning

Andrew Hunt

2/12/2012

فصوص الحکم

Ibn-Al-Arabi

2/19/2012

A History of God: The 4,000-Year
Quest of Judaism, Christianity and Islam

Karen Armstrong

2/26/2012

And then there were none

Agatha Christie

3/4/2012

Our Lady of Alice Bhatti

Mohammad Hanif

3/11/2012

The Selfish Gene

Richard Dawkins

3/18/2012

Torah – Old Testament

3/25/2012

Lord of the flies

William Golding

4/1/2012

دنیا کی سو عظیم کتابیں

Sattar Tahir

4/8/2012

Think and Grow Rich

Napoleon Hill

4/15/2012

The Catcher in the Rye

J. D. Salinger

4/22/2012

New Testament

4/29/2012

No god but God: The Origins,
Evolution, and Future of Islam

Reza Aslan

5/6/2012

کلیات عصمت چغتای

Ismat Chugtai

5/13/2012

The Clash of Fundamentalisms:
Crusades, Jihads and Modernity

Tariq Ali

5/20/2012


تهافت التهافت: نقض كتاب الإمام الغزالي المسمى “تهافت الفلاسفة”. من أشهر كتبه

Ibn-e-Rushd

5/27/2012

شہاب نامہ

Qudratullah Shahab

6/3/2012

The Hunger Games

Suzanne Collins

6/10/2012

Anna Karenina

Leo Tolstoy

6/17/2012

بوستان سعدی

Sa’di

6/24/2012

Lolita

Vladimir Nabokov

7/1/2012

مجموعہ مشتاق احمد یوسفی

Mushtaq Ahmed Yusfi

7/8/2012

The Brothers Karamazov

Fyodor Dostoyevsky

7/15/2012

Tafheem-ul-Quran 1

Syed Abul Ala Maududi

7/22/2012

Tafheem-ul-Quran 2

Syed Abul Ala Maududi

7/29/2012

Tafheem-ul-Quran 3

Syed Abul Ala Maududi

8/5/2012

Tafheem-ul-Quran 4

Syed Abul Ala Maududi

8/12/2012

Tafheem-ul-Quran 5

Syed Abul Ala Maududi

8/19/2012

Tafheem-ul-Quran 6

Syed Abul Ala Maududi

8/26/2012

The Castle

Franz Kafka

9/2/2012

On Intelligence

Jeff Hawkins

9/9/2012

The Adventures of Huckleberry
Finn

Mark Twain

9/16/2012

اسلامی ریاست

Dr. Hameedullah

9/23/2012

The Stand

Stephen King

9/30/2012

Angela’s Ashes

Frank McCourt

10/7/2012

Catch-22

Joseph Heller

10/14/2012

Madame Bovary

Gustave Flaubert

10/21/2012

The Diary of Anne Frank

Anne Frank

10/28/2012

The Stories of Anton
Chekhov

Anton Chekhov

11/4/2012

Das Capital

Karl Marx

11/11/2012

The Great Gatsby

F. Scott Fitzgerald

11/18/2012

Love in the Time of
Cholera

Gabriel Garcia Marquez

11/25/2012

The Picture of Dorian
Gray

Oscar Wilde

12/2/2012

A tale of two cities

Charles Dickens

12/9/2012

Linchpin

Seth Godin

12/16/2012

جنٹلمین بسم اللہ

Ashfaq Hussain

12/23/2012

The Art of War

Sun Tzu

 

Share

January 16, 2012

گواہرِاسپاٹیفائی

Filed under: ادبیات — ابو عزام @ 8:11 am

اسپاٹیفائی کی سروس حال ہی میں استعمال کرنا شروع کی جس کی بنیادی وجہ اس پر بڑے پیمانے پر موجود اردو، فارسی اور عربی زبان کے مجموعات ہیں۔ اس سروس کی اچھی بات یہ ہے کہ آپ مختلف ڈوائسز پر پلے لسٹ بنا کر اسے آف لائن سن سکتے ہیں۔ اسپاٹیفائی پر ہمیں ضیا محی الدین کی آواز میں بڑی تعداد میں مختلف صوتی مجموعات ملے جن سے اس سے قبل واقفیت نا تھی۔ اس سے نثر و نظم کے بہت سے گواہر سے  آگاہی نصیب ہوئی۔ کچھ چیدہ چیدہ مجموعات کے پتے درج زیل ہیں۔

فیض صاحب کی محبت میں

خطوط غالب مجموعہ اول

خطوط غالب مجموعہ دوم

خطوط غالب مجموعہ سوم

  ضیا محی الدین کے ساتھ ایک شام پانچ متفرق حصے

Share

January 13, 2012

اے کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگوز از محمد حنیف کا مختصر تعارف

Filed under: ادبیات,پاکستان,سیاست,طنزومزاح — ابو عزام @ 6:32 pm

کل شب کافی عرصے بعد انگریزی کی ایک نان فکشن کتاب کے دو سو کے قریب صفحات ایک نشست میں ختم کیے، باقی اس سے قبل پورے ہفتےمیں مختلف مواقع میں پڑھ چکا تھا، غالبا اس سے پہلے لایف آف پای ہی ایسی نان فکشن کتاب تھی جس کے انداز بیاں نے توجہ کو اس قدر مرکوز رکھا اور صفحہ در صفحہ کس طرح گذرا پتا نہیں چلا۔ راشد بھای سے یہ کتاب کچھ ماہ پہلے مستعار لی تھی، شروع کی لیکن دو ابواب کے بعد کچھ سفر کی مصروفیتوں کی بنا پر ختم نا کر سکا۔ اب دوبارہ اٹھای تو سوچا کہ ختم کر کے ہی چھوڑوں گا۔ محمد حنیف کی اے کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگوز اپنے متنازع موضوع اور معترضانہ مواد کے باوجود یا شاید اسی وجہ سے ایک دلچسپ ناول ہے جو ۸۰ کی دہائ کی پاکستانی سیاست، فوج اور دور آمریت کے سماجی رجحانات پر ایک طنزیہ و تمسخرانہ نظر ڈالتا ہے۔

دو ہزار نو میں شائع ہونے والے اس ناول ’اے کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگوز‘ کے مصنف، ڈرامہ نگار اور صحافی محمد حنیف کو کامن ویلتھ رائٹرز کا انعام مل چکا ہے اور اگر وہ اپنی اسی طرح کی صف شکن تحاریر لکھتے رہے تو مین بکر پرایز کی لانگ لسٹ سے شارٹ لسٹ ہونے میں کچھ زیادہ وقت نا لگے گا۔ اس ناول کا مرکزی خیال آمریت اور اس کے خمیر سے اٹھنے ہونے والی وہ مضحکہ خیزعبودیت و اضطرار کی ملی جلی کیفیت ہے جو انسانی دماغ میں فوج کے حکومتی نظام سے پروان چڑھتی ہوتی ہے۔ راقم کا اپنا تجربہ ہے کہ جب سانحہ بہاولپور ہوا تو سن آٹھ برس کا تھا لیکن اس عمر میں بھی یہ خیال کہ ضیا الحق کے علاوہ کوئی اور بھی صدر مملکت ہو سکتا ہے ایک نہایت  عجیب و ناممکن بات لگتی تھی۔ غیرجماعتی انتخابات کے اعلان پر بھی ہم بڑے عرصے تک اسی وجہ سے خفا رہے رہے کہ ہماری دانست میں یہ وہ انتخابات تھے جن میں جماعت اسلامی کے سوا سب جماعتوں کو حصہ لینے کی آزادی تھی۔ اس سے آپ ہماری سیاسی بالیدگی کا اندازہ لگا سکتے ہیں لیکن یہ تو جملہ ہاے معترضہ ہیں، چلیے تبصرے کی جانب۔

محمد حنیف کے پڑھنے والے جانتے ہیں کہ ان کے نزدیک کوئی چیز بھی تنقید و تمسخر سے ماورا نہیں۔ دی کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگوز میں بھی یہی سب وشتم بدرجہ اتم موجود ہے۔ جنرل ضیا کی آنکھوں سے لیکرانکے غدودان معدہ تک،پاکستان کی اسلامایزشن کا الزام ہو یا جرنیلوں کی میٹنگ، بیگم شفیق جہاں ضیا الحق کا بیڈروم ہو یا حدود آرڈینینس کی شرائط، ان کا خامہ بے محابہ ایک شتر بے مہارکی طرح تمام حدود قیود سے آزاد اپنے مناظر اور کردار قرطاس پر بکھیرتا چلا جاتا ہے۔ حنیف صاحب کے کردار یک جہتی اور مناظر پر انکی گرفت قوی ہے۔اپنے کرداروں کے پس منظر سے پیش منظر تک کا تعارف وہ اسطرح کرواتے ہیں کہ ایک تشنگی سی باقی رہتی ہے اور یہی اسرار کا باعث بنتی ہے۔ ان کے کرداروں کا کینوس خاصہ بڑا ہے لیکن وہ سب کے ساتھ انصاف کرتے نظر آتے ہیں۔ امریکی سفیرآرنلڈ رافیل، سی آی اے کے چارلس کوگن، اسلم بیگ، بن لادن، کیانی، برگیڈیر ٹی ایم، جنرل اختر عبدالرحمان پر مبنی کردار ہوں یا بے بی او اور علی شگری کے فسانوی کردار، انکا قلم چابکدستی سے ان زندگیوں اور واقعات کو اس طرح سے جوڑتا ہے کہ قاری عش عش کر اٹھتا ہے۔

محمد حنیف نے خود تو اس کتاب کو ایک انٹرویو میں فکشن قرار دیا تھا لیکن بیشتر کیچ ٹوینٹی ٹو اور جارج آرویل کی طرز کے ‘فکشنات’ کی طرح انہوں نے اپنی کہانی کے تانے بانے حقیقی واقعات سے کچھ اس طرح جوڑے ہیں کہ پڑھنے والا حقیقیت و فسانے کے درمیان ایک خلا میں معلق رہتا ہے اور آہستہ آہستہ فسانہ فسانہ نہیں رہتابلکہ حقیقت کا روپ دھار لیتا ہے۔محمد حنیف کے افکارونظریات سے اختلاف تو بلکل ہوسکتا ہے لیکن ان کی ندرت خیال کی تعریف نا کرنا ناانصافی ہوگی۔ اندھی زینب کی بددعاوں سے لے کر کوے کی غیر قانونی پرواز ، شاہی قلعے کے سیکرٹری جنرل قیدی اور حرم کے قاضی کو کی جانے والی فون کال تک ان کے قلم کا نشتر ایسے زخم ادھیڑتا ہے کہ جو پاکستانی سیاسی و سماجی تناظر میں شجر ممنوعہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ میں اس ناول کی کہانی نہیں بیان کروں گا، بس اتنا کہتا چلوں گا کہ بقول مصنف انکا پہلا ناول ایک سیاسی تھرلر ہے اور یہ بات صد فیصد درست ہے۔

نازک طبع لوگوں کے لیے لیکن انتباہ ہے، غالب گمان ہمارا یہ ہے کہ یہ کتاب اور اس میں استعمال کی گی زبان و استعارات و مضامین طبعیت پر گراں گذرے گی۔ فحاشی کی تعریف میں تفرق ہو سکتا ہے لیکن مشتزنی سے لواطت اور راشد بھای کے الفاظ میں اعضاے بقاے نسل انسانی بلا شمار مستعمل ہیں لہذا احتیاط لازم اور جس کو ہو جان و دل عزیز اسکی گلی میں جاے کیوں۔

بی بی سی کی خبر ہے کہ اپنے پہلے ناول پر پیدا ہونے والے ردِ عمل کے بارے میں محمد حنیف نے بتایا تھا کہ ’اور کسی نے تو کوئی خاص ردِ عمل ظاہر نہیں کیا لیکن ایک صاحب نے انہیں مرکزی کردار (جنرل ضیا) کے بیٹے کا یہ پیغام پہنچایا کے ’میرے والد زندہ ہوتے تو پھر میں دیکھتا کہ وہ (حنیف) یہ ناول کیسے لکھتا‘۔
اس تبصرے کے اختتام حنیف صاحب کے کردار کورپورل لسارڈ کا یہ تاریخی جملہ نقل کرتا چلوں جو اس نے صوبیدار میجر کے اس استفسار پرکہ “یہ جو ہاٹ ڈاگ تم ہمارے لیے اتنے چاو سے لاے ہو، وہ حلال ہے کہ نہیں” کہا تھا،

it is a piece of f******* meat in a piece of f******* bread. If we can’t agree on that, what the hell am I doing here?”

اب محمد حنیف کی اگلی کتاب، آور لیڈی آف ایلس بھٹی کو پڑھنا ہے۔ اب یہاں معاملہ اس بار کچھ یوں ہے کہ کتاب ہماری ہے اور قبضہ راشد بھائی کا ہے۔ دیکھیں وہ کب عنایت کرتے ہیں۔

Share

January 5, 2012

حرم کا تحفہ

Filed under: ادبیات,شاعری,مذہب — ابو عزام @ 11:20 am

زندگی انساں کی اک دم کے سوا کچھ بھی نہیں

دم ہوا کی موج ہے، رم کے سوا کچھ بھی نہیں

گل تبسم کہہ رہا تھا زندگانی کو مگر

شمع بولی، گریۂ غم کے سوا کچھ بھی نہیں

راز ہستی راز ہے جب تک کوئی محرم نہ ہو

کھل گیا جس دم تو محرم کے سوا کچھ بھی نہیں

زائران کعبہ سے اقبال یہ پوچھے کوئی

کیا حرم کا تحفہ زمزم کے سوا کچھ بھی نہیں

 بانگ درا 

Share

January 1, 2012

عصری ادب اور سماجی رجحانات از ڈاکٹر روف پاریکھ کا تعارف

Filed under: ادبیات,تحقیق — ابو عزام @ 8:36 am

پچھلے ماہ کراچی ارٹس کونسل میں اردو کی عالمی کانفرنس میں ماہر لسانیات اور اردو لغت بورڈ کے سربراہ ڈاکٹر روف پاریکھ کو پہلی مرتبہ سننے کا اتفاق ہوا۔ موصوف کا مقالہ غالب کی اردو لغت پر تھا جس میں ان کا مدلل و پر مغزانداز تحریر نمایاں نظراتا تھا۔ تقریرنہایت ہی عمدگی سے کی جس میں کوئی بات بھرتی کی نا تھی، نہایت قابل ادمی ہیں اور قحط الرجال کے اس دور میں جہاں عمومی طور پر رسائل و جرائد میں سرقے کا رواج اور تحقیق کا فقدان ہے، امید کی اخری کرنوں میں سے ایک کرن۔ کانفرنس کے بعد حسب عادت ہم جیب ہلکی کرنے باہر موجود کتابوں کے اسٹالز پر جا پہنچے تو وہاں روف پاریکھ صاحب کی کتاب عصری ادب اور سماجی رجحانات نہائت مناسب داموں میسر تھی،فورا خریدی اور ایک ہی نشست میں ختم بھی کرلی، اسی کا تعارف درج زیل ہے۔

اکادمی بازیافت کی شائع کردہ تقریبا دو سو صفحات کی یہ کتاب عصری ادب اور سماجی رجحانات، ڈاکٹر صاحب کے مختلف کتابوں پر کئے گئے تبصرہ جات کا مجموعہ ہے، یعنی کتاب برائے کتابیات یا میٹا بک۔ اس میں تقریبا تیس کے قریب مختلف النوع کتب پر تبصرے شامل ہیں لیکن یہ محظ تبصرے نہیں بلکہ اردو لغت، الفاظ کے چناو، فن تحریر، موجودہ ادبی و ثقافتی رجحانات، سماجی عناصر اور دیگر ادبی عوامل پر سیر حاصل مباحث کا نادر مجموعہ ہے۔ اس کے چیدہ چیدہ مضامین میں اردو میں عربی الفاظ کا تلفظ ایک جائزہ، الفاظ کی سرگزشت، محمد حسین ازاد کا کتب خانہ، عورت اور اردو زبان ایک جائزہ، مجید لاہوری کی حرف و حکایت ایک جائزہ، زکر راجا بھوج اورمولوئ مدن کا اور عنائتیں کیا کیا شامل ہیں۔

عام ناقدین کی طرح ڈاکٹر صاحب تعریف میں بخل سے کام نہیں لیتے لیکن انکی تنقید کا نشتر بھی کسی مصلحت کا قائل نہیں، وہ موجودہ دور کی سریع التحریر پیڈ پبلشنگ کی روش سے سخت نالاں ہیں اور اپنی تحاریر میں اس کا برملا اظہار کرتے ہیں۔ مثلا موصوف نامی ایک کتاب کے بارے میں کہتے ہیں

“موصوفہ”کی تحریر سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ مشتاق احمد یوسفی سے متاثر ہیں (لیکن اس طرح نہیں جس طرح یونس بٹ یوسفی سے متاثر ہیں.کیوں کہ اب تو یوسفی صاحب یونس بٹ سے متاثر ہو گئے ہیں یعنی بلکل اس طرح جیسے مظلوم عوام سیلاب سے متاثر ہوتے ہیں)مگر اس متاثر ہونے کے باوجود موصوفہ نے یوسفی صاحب سے کوئی سبق نہیں سیکھا. یوسفی صاحب آج اردو کے عظیم ترین مزاح نگاروں میں شمار ہوتے ہیں تو اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ ہر لفظ سوچ سوچ کر اور سطر تول تول کر لکھتے ہیں.بلکہ لکھنے سے پہلے سو بار مٹاتے ہیں اور غالباً اسی لیے پنسل سے لکھتے ہیں کے مٹانا تو پڑے گا ہی.”آب گم “کے دیباچے میں خود ایک جگہ لکھا ہے کہ”خاکے اور مضامین لندن میں بڑی تیز قلمی سے لکھ ڈالے اور حسب عادت پال میں لگا دیے کے ڈیڑھ دو سال بعد نکل کر دیکھیں گے کہ کچھ دم ہے بھی”. اس میں”حسب عادت “کے الفاظ غور طلب ہیں.جو شخص اتنا تردد کرے اسے بڑا نثرنگار تو بننا ہی ہے.لیکن رفعت ہمایوں صاحبہ کو شاید مصنفہ بننے کی جلدی تھی لہٰذا مضامین کو پال میں لگا نے کی بجاۓ کچے ہی دستر خوان پر سجا دیے کہ قاری جانے اور اس کا ہاضمہ!

مندرجہ بالا پیراگراف جامع طریقے سے ایک پریشان کن رجحان کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جسے استاد جعفر نے اپنے تازہ مضامین میں یہاں اور یہاں بڑی خوبصورتی سے نشتر خامہ کا نشانہ بنایا ہے۔ڈاکٹر صاحب کو الفاظ سے بڑی محبت ہے۔ الفاظ کی سرگزشت نامی مضمون میں لکھتے ہیں

اس پر ہمیں خیال آیا کہ ہر زبان میں کچھ ایسے الفاظ ہوتے ہیں جو اس خطّے کے تہذیب و تمدن اور معاشرتی تصورات کو آشکارا کرتے ہیں.غیر قوم یا دوسرے کلچر کے لوگ ان کے لئے کوئی لفظ یا کوئی مترادف اپنے ہاں نہیں رکھتے اور اگر کوئی لفظ ہوتا بھی ہے تو اس مفہوم کو صحیح طور پر ادا نہیں کرتا.مَثَلاً فرانسیسی اور جرمن زبان میں بعض تہذیبی تصورات کے لئے جو لفظ ملتے ہیں ان کا ٹھیک ٹھیک انگریزی مترادف دستیاب نہیں ہوتا اور ان کی وضاحت میں ایک دو سطریں لکھنی پڑتی ہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ لفظ محض لفظ نہیں ہوتے بلکہ”تصورات”اور”خیالات”ہوتے ہیں اسکی مثال کے طور پا پر لفظ”عصمت”کو لے لیں،ہمارے ہاں عصمت و عفت کا جو تصور ہے وو مغربی تہذیب میں ناپید ہے.یہی وجہ ہے کہ انگریزی میں اس مفہوم کی ادائیگی کے لئے جو لفظ ملتے ہیں(مَثَلاً,purity,modesty chastity,integrity وغیرہ)وہ اسکے اصل مفہوم کو اور عصمت کے تصور کو صحیح معنوں میں ادا کرنے سے قاصر ہیں.کچھ یہی کیفیت ہماری اشیاۓ خوردو نوش اور رسم و رواج کی ہیں.مَثَلاً پان کو لیجئے،اسکے لوازمات ،خصوصیات اور اہمیت پر انگریزی میں ایک مضمون لکھ ڈالیے، لیکن جس انگریز نے زندگی بھر پان نہیں کھایا وہ خاک بھی نہیں سمجھے گا کہ پان ہوتا کیا ہے.ہاں اسے ایک عدد گلوری، سونف خوشبو اور مشکی قوام والے پان کی کھلا دیجیے اور پھر قدرت کا تماشا دیکھیں.انشاء الله دریاۓ ٹیمز کی دھلی ہوئی انگریزی میں پان پر لیکچر دیگا اور پھر لکھنوی لہجے میں آداب و تسلیمات کے بعد بیٹل لیف (betel leaf ) کی بجاۓ پان (paan) کہنے پر اصرار کریگا.(اگر بیہوش نہ ہوا ہوگا تو!)کیوں کہ پان محض کھانے کی چیز نہیں ایک تہذیب کہ نام ہے.

ہماری طرح ڈاکٹر صاحب بھی ماہنامہ افکار کے بند ہونے سے بڑے افسردہ تھے اور عمومی طور پر ادبی رسائل کی طرف لوگوں کے عدم توجہی کے رجحانات پرسیخ پا۔ لیکن اس میں وہ بڑا قصور ان ناشرین کا گردانتے ہیں جنہوں نے قیمتیں بڑھا بڑھا کر ادب کو لوگوں کی پہنچ سے دور کر دیا ہے۔ اس ضمن میں وہ پرانی کتابوں کے ٹھیلوں کی مثال دیا کرتے ہیں جہاں لوگوں کا ہجوم لگا ہوتا ہے کیونکہ لوگ پڑھنا چاہتے ہیں اور سستی کتابیں جو ان کی قوت خرید میں ہوں وہی لے سکتے ہیں اب وہ کسی بھی معیار کی ہوں۔ اپنے مضمون ادبی رسائل کا سیاپا میں رطب اللسان ہیں

ایک زمانہ تھا کہ اردو کے ادبی رسائل بڑی دھوم سے نکلا کرتے تھے اور ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے تھے.پاکستان بننے کے بعد بھی کوئی بیس پچیس سال تک یہ عالم تھا کہ کسی ادبی پرچے میں کوئی اچھا مضمون یا افسانہ شائع ہوتا تو اسکا چرچا ہوا کرتا تھا.کافی ہاوس یا چاۓ خانے میں ہونے والی غیر رسمی ادبی نشستوں میں ان پر گفتگو ہوتی تھی لیکن رفتہ رفتہ منظر بدلتا گیا.ادبی رسائل کہ بازار سرد ہو گیا،انکے خریدار نہ رہے،ادب سے لوگوں کی دلچسپی کم ہوتی گئی.ادب محض تعلقات عامہ،فوائد کے حصول اور وقتی شہرت کاذریعہ بن گیا.حد سے حد مٹھی بھر لوگ ایسے رہ گئے جن کو ادب سے واقعی اور حقیقی دلچسپی ہے،بلکہ کچھ لوگوں کا تو خیال ہے کہ ہم لوگ ادب سے دلچسپی رکھنے والی آخری نسل کے افراد ہیں.

لیکن عام رجحان کے برعکس صاحب کتاب ٹیکنالوجی کو مورد الزام نہیں ٹہراتے۔ مزید لکھتے ہیں۔

ادب کی اس کساد بازاری پر بعض حضرات سائنس اور ٹیکنالوجی کو بھی صلواتیں سناتے پائے گئے ہیں.انکا خیال ہے کے ٹی وی ،وی سی آر،ڈش اینٹینا،ویڈیو گیمزاور انٹرنیٹ کے اس دور میں اگر کسی کے پاس ادب کے لیے وقت ہے تو وہ اسے زیادہ دلچسپ اور رنگوں اور روشنیوں میں نہائ ہوئی مصروفیات میں گذارنا چاہتا ہے.جب سے سائنس کو عروج ہوا ہے،ادب زوال پذیر ہو گیا ہے .لہٰذا سائنسی ترقیوں کو ادب کا دشمن سمجھنا چاہیے وغیرہ .

مزید لکھتے ہیں کہ

لیکن اگر ہم مغرب پر نظر ڈالتے ہیں تو حیران کن نظارہ سامنے آجاتا ہے سائنس اور ٹیکنالوجی اور کمپیوٹر وغیرہ میں ہم سے دو سو سال آگے چلنے والی اقوام کو مطالعے سے بےپناہ شغف ہے.کچھ عرصے قبل ہیری پوٹر کے سلسلے کی نئی کتاب منظر عام پر آئ،مغربی معاشرے مے گویا زلزلہ آگیا.کئی روز تک خبروں کا موضوع بننے والی اور فروخت کے نۓ ریکارڈ قائم کرنے والی یہ کتاب بَچوں کا ناول ہے،جس کا ہیرو ہیری پوٹر جادو سے واقف ہے.انٹرنیٹ پر چند ماہ قبل ہی سے اس کتاب کی خبریں آرہیں تھیں.اسے آٹھ جولائی کو رات بارہ بجے کتابوں کی دوکان سے باہر کیا بچے ،کیا بڑے قطار لگاے کھڑے تھے.
کہاں ہیں وہ لوگ جو کہتے ہیں کے کمپیوٹر کی وجہ سے کتاب نہیں بکتی؟کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی وجہ سے کتابوں کی فروخت میں خاصا اضافہ ہوا ہے کیوں کہ انٹرنیٹ پر کتابوں کی خبروں اور ان پر تبصروں نے کتاب کی مانگ میں اضافہ کیا ہے.ہیری پوٹر کی کتابوں کی مصنفہ جے کے رولنگ کو معاوضے کے طور پر کئی ملین ڈالرمل چکے ہیں اور اس سلسلے کی آخری کتاب یعنی”ہیری پوٹر اینڈ دی گو بلٹ آف فائر” کی صرف دو دن میں پانچ لاکھ سے زیادہ کاپیاں فروخت ہو گی ہیں اور ان میں سے تقریبن ایک لاکھ کاپیاں انٹرنیٹ کےذریعے بکی ہیں.یہ کتابیں اڑتالیس لاکھ کی تعداد میں شائع ہوئی ہے اور خیال ہے کے مزید بیس لاکھ کاپیاں فوری طور پر چھاپنی پڑینگی. یہ ہے سائنسی طور پر ترقی یافتہ معاشرے میں کتاب کی اہمیت اور قدرو قیمت کا حال.

اور اس کی بنیادی وجہ فاضل مصنف کے نزدیک یہ ہے کہ

لیکن یہ تو مغربی معاشرے کی بات ہے.ہمارے ہاں کتابوں کی فروخت تیزی سے کم ہو رہی ہے.اسکی ایک بری وجہ مہنگائی،اقتصادی بدحالی اور ناشرین کی لوٹ کھسوٹ ہے جو کتابوں کی قیمتیں اتنی زیادہ رکھتے ہیں کہ جو پڑھنا چاہتا ہے وہ بھی کتاب خریدنے کی ہمّت نہیں کر سکتا.ان پڑھ لوگوں یا پڑھے لکھےبد زوقوں کا تو ذکر ہی جانے دیجئے .

محترم ماہر لسانیات کو اگلے ناقدین سے بڑی انسیت ہے، خصوصا کلیم الدین احمد جو نقوش کے میں لکھا کرتے تھے ان کا ایک اقتباس بطور دلیل شامل کرتے ہیں کہ “نقوش” کے طنز و مزاح نمبر میں انہو نے لکھا:

“شوکت تھانوی اور عظیم بیگ چغتائی اپنی شہرت کے باوجود بھی کوئی اہمیت نہیں رکھتے اصل یہ ہے کہ دونوں کی ذہنیت ترقی کے مدراج طے کرنے کے دوران ایک خاص مقام پر پہنچ کر رک گی ہے اور یہ ذہنیت وہی ہے جسے”انڈرگریجویٹ”ذہنیت کہتے ہیں.دونوں استعداد بہم پہچانے سے پہلے مصنف بن بیٹھے.ان کے کارناموں کو اگر کسی طالب علم کہ کارنامہ شمار کیا جاۓ تو لائق تحسین ہے.اس سے زیادہ وقعت دینا تنقید اور مذاق صحیح پر دانستہ ظلم کرتا ہے”مزید لکھتے ہیں کے :”انہیں لازم تھا کہ جو کچھ لکھتے اسے محض مشق سمجھتے.لکھتے اور لکھ کر پھاڑ دیتے اور آہستہ آہستہ مطالعہ، مشاہدہ، غوروفکر میں وسعت، باریکی اور گہرائی پیدا کرنے کی کوشش کرتے”.

پی ار کے شعبے پر چوٹ کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ

دراصل تعلقات عامہ کا شعبہ اب اتنا زور پکڑ گیا ہے کہ اسکے زور پر ٹین ڈبےوالے بھی آرٹ کاؤنسل کے کرتا دھرتا بن جاتے ہیں اور کہا یہ جاتا ہے کہ “جی ادب سے انہیں بہت لگاؤ ہے اس لیےبنا دیا ہے”. اس جلدی چھپنے،مصنف کہلانے اور صاحب کتاب بننے کے جنون نے بہت اچھے لکھنے والوں کو خراب و خوار کیا ہے

اور پھر جو انہوں نے لکھا تو ہماری اور راشد کامران بھائی کی دل کی بات لکھی جو یونس بٹ صاحب کی حالیہ کتب خرید کر پچھتا رہے ہیں۔

ڈاکٹر محمّد یونس بٹ کو ہی لیجیے،بہت اچھی اٹھان تھی.لگتا تھا کے اردو مزاح کے گلستاں میں ایک نو بہارناز کا اضافہ ہوا چاہتا ہے.لیکن ایک تو انھوں نے انگریزی مزاح اور مشتاق احمد یوسفی کے فقروں کو استعمال کرنا شروع کیا، دوسرے بسیار نویسی کے سبب خود کو بھی دہرانا شروع کیا اور تھوک کے بھاؤ لکھنے کی وجہ سے خود کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا لیا.

اور اخری اقتباس حاصل مضمون کے طور پر درج کرتا ہوں کہ

مرزا فرحت الله بیگ جیسے لکھنے والوں کو لوگوں نے زیادہ لکھنے پرطعنہ دیا تھا کہ انہیں لکھنے کہ ہیضہ ہو گیا ہے.جس پر انھوں نے کہا کہ بہت اچھا،اب مجھے لکھنے کہ قبض رہے گا.فرحت عبّاس شاہ کو تو خیر شاعری کہ ہیضہ ہو ہی گیا ہے اور ابھی بہت سے ایسے لکھنے والے ہیں کہ کم لکھیں تو اپنا، قارئین کا اور ادب کا سب کا بھلا کریں گے.برا ہوگا تو ناشرین کا جو فرحت عبّاس شاہ اور یونس بٹ وغیرہ کی کتابیں دھڑا دھڑ چھاپ کر نہال ہوئے جا رہے ہیں.

یہ تو جناب اس کتاب کا ایک نہائت سطحی سا تعارف تھا، اس تحریر کی تمام خرابیاں ہماری کم علمی اور نااہلی پر منطبق ہے، اس گوہر نایاب کتاب میں نہائت خوب علمی و ادبی بحثیں ہیں، الفاظ و املا کی ایسی نادر مثالیں ہیں کہ لفظوں سے محبت کرنے والے لوگ عش عش کر اٹھیں گے۔ ہدیہ ڈیڑھ سو روپے ہے اور امید ہے کہ لبرٹی یا اردو بازار سے یہ کتاب با اسانی مل سکتی ہے۔ اپنے تبصرہ جات سے ضرور اگاہ کیجئے گا۔

Share
« Newer PostsOlder Posts »

Powered by WordPress