فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

May 10, 2010

زیست سے تنگ ہو اے داغ تو کیوں جیتے ہو؟

Filed under: ادبیات,شاعری — ابو عزام @ 11:08 pm

عذر آنے میں بھی ہے اور بلاتے بھی نہیں
باعث ترک ملاقات بتاتے بھی نہیں

منتظر ہیں دمِ رخصت کہ یہ مرجائے تو جائیں
پھر یہ احسان کہ ہم چھوڑ کے جاتے بھی نہیں

سر اٹھاؤ تو سہی آنکھ ملاؤ تو سہی
نشۂ مے بھی نہیں نیند کے ماتے بھی نہیں

کیا کہا؟، پھر تو کہو، “ہم نہیں سنتے تیری“
نہیں سنتے تو ہم ایسوں کو سناتے بھی نہیں

خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں

مجھ سے لاغر تری آنکھوں میں کھٹکتے تو رہے
تجھ سے نازک مری نظروں میں سماتے بھی نہیں

دیکھتے ہی مجھے محفل میں یہ ارشاد ہوا
کون بیٹھا ہے اسے لوگ اٹھاتے بھی نہیں

ہوچکا قطع تعلق تو جفائیں کیوں ہوں
جن کو مطلب نہیں رہتا وہ ستاتے بھی نہیں

زیست سے تنگ ہو اے داغ تو کیوں جیتے ہو؟
جان پیاری بھی نہیں، جان سے جاتے بھی نہیں

Share

April 27, 2010

اردو زبان میں گالیوں کے ارتقا کا مختصر تنقیدی جائزہ

Filed under: ادبیات,طنزومزاح — ابو عزام @ 9:56 pm

راقم کا یہ مضمون ‘فیروزالمغلظات’ کے پہلے ایڈیشن میں چھپنے کے کے لئے تیار ہے۔ آپ قارئین سے تنقید و تبصرے کی گذارش ہے۔

اتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب

گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا

ہر زبان میں گالیاں ایک منفرد نثری و گفتنی حیثیت کی حامل ہوتی ہیں۔ کسی کے اہل زبان ہونے کا پتا لگانا ہو تو ان کی گالیوں کا موازنہ کریں ، وہیں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ تارکین وطن کی گالیاں ان کے اپنے ملک میں عہد قیام کی نشانی ہوتی ہیں۔ سیانے کہتے ہیں کہ کسی زبان کو سیکھنا ہو تو اسکے لئے سب سے پہلے اس کی گالیاں سیکھنی چاھئیں۔ اس سیانے نے یہ بات ایک گالی دیتے ہوئے کہی۔

گالیاں دینے کے بھی آداب ہوتے ہیں کہ واقعہ مشہور ہے جو جامعہ کراچی میں ہمارے اردو کے استاد محترم سناتے تھے کہ مرزا نوشہ اسد اللہ خان غالب کے مخالف انہیں‌ خطوط میں‌ گالیاں لکھتے رہتے تھے۔ ایک بار کسی مخالف نے انہیں ماں‌ کی گالی لکھ دی۔ مرزا اسے پڑھ کر ہنسے اور بولے، اس بیوقوف کو گالی دینے کا بھی شعور نہیں ہے۔ بوڑھے اور ادھیڑ عمر شخص کو بیٹی کی گالی دینی چاہئیے تاکہ اسے غیرت آئے۔ جوان آدمی کو ہمیشہ جورو کی گالی دو کہ اسے جورو سے بہت لگاؤ ہوتا ہے اور بچے کوہمیشہ ماں‌ کی گالی دیتے ہیں کیونکہ وہ سب سے زیادہ ماں سے مانوس ہوتا ہے۔

غالب کو گالیوں سے خاص لگاو تھا؛ اکثر بول چال میں اس کا التزام رکھتے تھے۔ قبلہ راشد بھائی اس زمن میں فرماتے ہیں، نقل کفر کفر نا باشد کہ “خداوند نے انگریزی زبان گالیاں دینے کے لیئے بنائی ہے”۔ کہ اردو زبان کی گالی دل پر جا لگتی ہے اور انگریزی میں دی گئی گالی کو ہنسی خوشی مذاق ہی مذاق میں ٹالا جا سکتا ہے۔

ہم اس قبیل سے تعلق رکھتے ہیں جہاں گالیاں دینا سخت معیوب سمجھا جاتا تھا۔ ہماری سب سے بڑی گالی ‘چغد’ یا ‘بھینس کا منہ’ ہوا کرتی تھی جس پر بہت ڈانٹ سننے کوملتی۔ پطرس مرحوم نے اپنے مضمون ‘میں ایک میاں ہوں’ میں ہماری کیفیت سے اتفاق کیا ہے جس پر ہم انکے بڑے ممنون ہیں۔

گالی کا تہذیب یا بدتہذیبی سے بڑا گہرا تعلق ہوتا ہے۔ ذخیرہ الفاظ کیطرح یہ بھی ایک زبان کے زندہ ہونے کی نشانی ہوتی ہیں مثلا اربن ڈکشنری کو ہی لیجئے۔ راقم کاماننا ہے کہ اردو کی گالیاں فاعل و مفعول کے بغیر لا معنی ہوتی ہیں الا یہ کہ یہ امور وضاحت طلب نہ ہوں۔ انگریزی زبان کی بہت سی زود زبان گالیاں اردو میں بلا فاعل بے معنی ہو کر رہ جاتی ہیں مثلا انگریزی کی ‘ف’ کی گالی اردو میں سراسر بے معنی ہے۔ اسی طرح محرمات کی گالی جو اردو کی گالیوں کی بنیادی اصطلاحات میں سے ہے انگریزی زبان میں نہایت بودی ٹھرے گی ۔ اسی طرح انگریزی کی’ش’ والی گالی اردو میں بچوں کی مخلوط محفل کے رد میں استعمال ہونے والی چڑ،  یا حیدرآبادی زبان میں نکمے آدمی کے لئے استعمال ہونے والا لفظ بنے گی اور اس کے لئے بھی فاعل کی موجودگی ضروری ہے مثلا ‘اجی کیا پاجامہ آدمی ہیں آپ، یہ بلی کا گو لے کر آے کیا” اور یہ بلکل پارلیمانی گفت و شنید میں مستعمل ہو سکتی ہے۔۔ پنجابی زبان کو گالیوں کے حوالے سے بڑا بدنام قرار دیا جاتا ہے مثلا ہمارے عزیز دوست اطہر الہی جو آجکل ہالینڈ سے معاشیات میں  پی آیچ ڈی کر رہے ہیں فرماتے ہیں کہ ملتان میں جمعہ کا خطبہ سنا اور پہلی بار اتنی ساری پنجابی زبان بغیر گالی کے سنی تو کانوں پر یقین نہ آیا۔ چٹکی لے کر یقین دلایا گیا کہ خواب نہیں تھا۔

پارلیمانی زبان کا مفروضہ بھی اب پرانا ہوچلا کہ اب جو زبان پارلیمان میں بولی جاتی ہے اس سے ادارہ گالیوں کی لغت ‘فیروزالمغلظات’ بنانے کا کام لیتاہے۔ ہمارے وزیر قانون کے قانون کے لمبے ہاتھ تو سبھی کو یاد ہیں مگر اس کے علاوہ اب ہمارے معزز ایونوں میں اس طرح باتیں ہوتی ہیں‌کہ

“وزیر قانون عبد الرشید عباسی نے کہا کہ دنیا میں بڑے بڑے واقعات ہو جاتے ہیں ماں بہن کی گالی برداشت نہیں ہے دونوں صاحبان معذرت کر لیں’ یا پھر آزاد کشمیر کی اسمبلی کے رکن نے کہا کہ ‘”میرے سامنے ایک رکن نے ماں کی گالی دی پھراس پر یہ بھی انصاف ہوناچاہیے اس موقع پرانہوں نے مصطفیٰ گیلانی کوایوان سے باہر بھیج دیا۔”  وغیرہ

گالیوں کے آداب کے سلسلے میں عرض کرتے چلیں کہ اردو زبان کی گالیوں کی تین مختلف اصناف ہیں۔ وہ گالیاں جو مہذب محفل میں  کچھ جھجک کے ساتھ دی جاسکتی ہیں مثلا اکبر الہ آبادی کی گالیاںوغیرہ۔ دوسری جو یاروں دوستوں کے ہمراہ دی جاتی ہیں مثلا بھینس کا منہ اور تیسری قسم مزید شدید جیسے کسی کو پرویز مشرف یا میر جعفر کہ دینا، یہ دل آزاری کی بدترین قسم ہے۔

گالیوں کے آداب کے سلسلے میں آبِ گم  میںمشتاق احمد یوسفی کہتے ہیں کہ

بزرگوار موجودہ الہ دین یعنی رحیم بخش کو عام طور پر الہ دین ہی کہتے تھے۔ البتہ کوئی خاص کام مثلاً پیر دبوانے ہوں یا بے وقت چلم بھروانی ہو یا محض پیار اور شفقت جتانی ہو تو الہ دین میاں کہ کر پکارتے۔ لیکن گالی دینی ہو تو اصل نام لیکر گالی دیتے تھے

مزید آداب مغلظات کے سلسلے میں مثال سے فرماتے ہیں کہ

۔” خلیفہ نے غصے سے بے قابو ہو کر دو مرتبہ اسے “ تیرا دھنی مرے! کی گالی دی تو بشارت سناٹے میں آگئے۔ لیکن سرِ دست وہ گھوڑے کو قابو میں لانا چاہ رہے تھے۔

اور بسا اوقات گالیوں کا استعمال بوقت ضرورت مدعا کے بیان کے لئے بھی کیا جا سکتا ہے مثلا

“کوئی جوان عورت مچھلی لینے آتی تو مچھلی والا ڈھال ڈھال کر بلی کوآرزو بھری گالیاں دینے لگتا۔”

گالی کے لئے خاص الفاظ کا استعمال بھی لازم نہیں۔ منٹو کا ٹوڈی بچہ، انگریزی پٹھو وغیرہ سے زیادہ گندی تہزیبی گالی ‘کھول دو’ ہے جو کہ حالات و واقعات کے تانوں بانوں سے حساسیت کی ہر رمق کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے۔

تہذیبی گالیوں کی مد میں توبۃ النصوح میں ڈپٹی نذیر احمد لکھتے ہیں

دوسرا ناہنجار، صبح اٹھا اور کبوتر کھول باپ  دادے کا نام اچھالنے کو کوٹھے پر چڑھا، پہر سوا پہر دن چڑھے تک کوٹھے پر  دھما چوکڑی مچائی، مارے باندھے مدرسے گیا، عصر کے بعد پھر کوٹھا ہے  اور کنکوا ہے، شام ہوئی اور شطرنج بچھا۔ ا توار کو مدرسے سے چھٹی  ملی تو بٹیریں لڑائیں۔ تیسرے نالئق، بڑے میاں سو بڑے میاں چھوٹے میاں  سبحان اللہ ، محل رنالں، ہمسائے عاجز، اس کو مار اس کو چھیڑ، چاروں طرف ایک تراہ تراہ مچ رہی ہے۔ غرض کچھ اسطرح کے بے سرے بچے  ہیں، ناہموار، آوارہ، بے ادب، بے تمیز، بے حیا، بے غیرت، بے ہنر، بد مزاج، بد  زبان، بد وضع کہ چند روز سے دیکھ دیکھ کرمیری آنکھوں میں خون اترتا

اور

“لڑ کے گالیاں بہت بکتے ہیں، لڑکیاں کوسنے کثرت سے دیا  کرتی ہیں۔ قسم کھانے میں جیسے وہ بیباک ہیں یہ بھی بے دھڑک ہیں،

گالیاں دینے پر جھڑکتے ایسے ہیں

” اس نے بکیں تو جھک مارا اور تم نے  زیادہ بکیں تو زیادہ جھک مارا۔”

قدرت اللہ شہاب نے ّ شہاب نامہ ّ میں ملک امیر محمد کا ذکر کرتے ہوئے ایک دلچسپ واقع رقم کیا ہے. لکھتے ہیں کہ

چوہدری ظہور الاہی سیاست کے افق پر نمودار ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے فوجی آمر ایوب کے نزدیک ہو گئے….پہلے تو نواب نے چوھدری ظہور الہی کو موٹی موٹی اور غلیظ گالیاں دیں اور ساتھ ہی کاغذوں کا ایک پلندہ ایوب کے سامنے رکھ دیا ، جو کہ ایک ایس پی نے ابھی ابھی پیش کیا تھا، اور فرمایا کہ حضور ان کاغذات میں اس (گالی) آدمی کا کچا چٹھا ہے . ساتھ میں یہ بھی فرمایا کہ جناب ابھی تو میں نے اپنا شکاری کتا اس پہ نہیں چھوڑا’

وزرا کا یہ وطیرہ تو تبدیل نہیں ہوا، اب تک ہے کہ

” کسٹم حکام کو خدشہ تھا کہ وزیرموصوف کے بنکاک سے انے والےمہمانوں کے پاس غیر قانونی سامان ہے-اٍسی لئے أنہوں نے تلاشی کرنا چاہی تو چوہدری صاحب طیش میں اکر کسٹم حکام پر برس پڑے-انہیں گالیاں دیں اور نوکری سے گو شمالی کا قصیدہ گایا-ایرپورٹ کے کیمروں نے چوہدری صاحب کی توتکار و دھکم پیل ثبوت کے لئے محفوظ کرلی-اٍسی وزیر کے خلاف لاہور کے تھانوں میں عملے کو گالیاں و دھمکیاں دینے پر رپٹ درج ہے-تھانہ نو لکھا کے انسپکٹر نوید گجر نے صحافیوں کو بتایا کہ وزیر نے ایک ملزم انتظار شاہ کو فوری رہا نہ کرنے کی پاداش میں تھانے کے عملے کو ننگی گالیاں اور نوکری سے برخواست کروانے کی دھمکیاں دیں-لچھے دار زبان استعمال کرنے پر پولیس کے اعلی افیسرز نے وزیر کے خلاف رپٹ درج کرنے کا حکم دیا-۔۔-میڈیا کو نام نہ شائع کرنے پر ایک آفیسر نے بتایا کہ چوہدری اور أنکے بھائی جرائم پیشہ افراد کی سفارشیں کرتے ہیں اور انکار کی صورت میں جیل کے عملے کو غلیظ گالیاں و سفاکانہ دھمکیاں سننی پڑتی ہیں-حسب سابق چوہدری عبدالغفور نے بائیس مئی کو پریس کانفرنس میں تمام الزامات کی تردید کی-“

یہ تو رہی موجودہ بے ادب دنیا میں وزرا کی روش۔  نیاز فتح پوری نے مولانا حالی کے نام ایک خط میں لکھا تھا۔

” مولانا! آپکا اسلوب بیان میں مجھ وداع ِجاں چاہتا ہے ۔ اگر آپ کی زبان میں مجھے کوئی گالیاں بھی دے تو ہل من مزید کہتا رہوں گا۔“

تولہذا قارئین ہل من مزید کہتے رہیں۔ اگر آپ کو ہمارے اس مضمون سے کوئی تکلیف پہنچی ہو تو ‘فیروز المغلظات’ کا مطالعہ افاقہ دے گا۔ وہ تمام لوگ جنہیں اس مضمون میں حقیقی گالیوں کے فقدان یا شدید کمی پر افسوس ہوا ہے اوراب کسی احتیاج کے تحت ٹھنڈا گوشت پڑھ رہے ہیں فورا ذہنی معالج سے رجوع کریں یا وزارت قانون میں نوکری کے اشتہارات دیکھیں۔

Share

April 24, 2010

کچھ برادرم راشد کامران کے بارے میں

Filed under: ادبیات,طنزومزاح — ابو عزام @ 1:08 am
سنا ہے گیدڑ کی موت آتی ہے تو شہر کی طرف دوڑتا ہے۔ ہماری جو رگ ظرافت پھڑکی توسوچا راشد بھائی کے بارے میں کچھ سخن آرائی کی جائے۔
محترم راشد بھائی ہمارے دیرینہ “بھائی-دوست” ہیں کیونکہ “دوست-دوست” اپنی مرضی سے بنائے جاتے ہیں – محترم سے ہماری دوستی پندرہ سال کے عرصے پر محیط ہے جو ہماری آدھی اور ان کی ایک  چوتھائی عمر بنتی ہے۔ ہم انہیں ١٩٩٦ سے اس مضمون کی تاریخ اشاعت تک جانتے ہیں، (وکیل صاحب – ہماری وصیت میز کی اوپر والی دراز میں رکھی ہے)۔
راشد بھائی پنجوقتہ لبرل آدمی ہیں۔ اپنے آپ کو مشرق کا بل ماہر گردانتے ہیں اور شائد اسی بنا پر مسجد سے نکلتے وقت ٹوپی فورا اتار لیتے ہیں کہ دعوی تجدد پر حرف نا آئے۔  جماعت اسلامی سے انہیں وہی پرخاش ہے جو منٹو کو ستر سے اور عصمت چغتائی کو رضائی سے تھی لیکن البرٹ پنٹو کے برعکس راشد بھائی کو غصہ بلکل نہیں آتا۔ نہایت بزلہ سنج اور حاضر جواب واقع ہوئے ہیں ۔ وقوع سے یاد آیا کہ ان کا جغرافیہ زیادہ تر ٹی وی اور میک بک کے درمیان پایا جاتا ہے۔ دھول دھپے کے قائل نہیں لیکن یاروں کے یار ہیں لہذا کبھی کبھی ہمارے ساتھ دوڑ بھاگ لیا کرتے ہیں۔ مگر جب سے پچھلی بار کے ٹریل رن (پہاڑی راستوں اور جنگلات کی دوڑ)‌ میںچند مستورات فرنگ نے انکے کندھوں کے سہارے سے دریا پار کئے ہیں، اب یہ شہری میراتھن میں بھی دریاوں کی موجودگی پر اصرار کرتے ہیں۔ منتظمین کا کہنا ہے کہ یہ ممکن نہیں، دیکھیں یہ بیل کیسے منڈھے چڑھتی ہے۔
خوش شکل آدمی ہیں، شب دیجور کی پھبتی حاسدوں کی سازش ہے، ان نامرادوں کا منہ کالا۔ اسی وجاہت کی بنا پر شائد اسی بنا پر جامعہ کراچی میں کلاس کی خواتین انہیں راشد بھائی کہ کر بلاتی تھی، شائد اس میں پیری و کہن سالی کا بھی کچھ دخل ہو پر راقم کو بہتان طرازی سے کیا لینا دینا۔
محترم ایپل کے بانی اسٹیو جابس کے بڑے معتقد ہے، انکو اپنا پیرومرشد مانتے ہیں کہ حضرت جابس کی تخلیق کردہ ہر چیز کو انتہائی ادب سے بھاری ہدیہ دے کر خریدتے ہیں اور قصر راشد کی زینت بناتے ہیں۔ اس جامع مجموعہ کی بنا پر ایپل والے ان کے گھر پر اپنا بورڈ لگانے لگے تھے کہ بڑی مشکل سے روکا گیا۔ تجدد کا پائے چوبیں کہ پسندیدہ مشروب ‘موکا’ کافی ٹھرا۔ پچھلی دفعہ معمول کے بلڈ ٹیسٹ میں کیفین کا تناسب اتنا تھا کہ اسے تحقیق کے لئے اسٹار بکس بھیجا گیا اورمحترم کو اعزازی رکنیت ملی۔
ریاست بہار سے تعلق کے باوجود بہت عمدہ اردو نثر لکھتے ہیں، بلکل پتا نہیں لگتا۔ ، جی ہاں کبھی کبھی سرقے کے بغیر بھی۔ اپنی شاعری کو امام دین اور میر کا سنگم قرار دیتے ہیں جس پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں بشرطیکہ ان کی تازہ غزل ہمیں نا سننی پڑئے۔ خود ہی کہا کرتے ہیں کہ “شاعری بچوں کے کھیلنے کی چیز نہیں۔۔”، مزید صرف بالغان کے لئے۔
راشد بھائ کا حافظہ نہائت عمدہ ہے، شعر اور ادھار کبھی نہیں بھولتے۔ ہم کبھی کوئئ شعر اٹک جائے تو انہیں ہی فون ملاتے ہیں۔ انکا ہمارا سامنا ابتداجامعہ کراچی میں ہوا اور ہم ان کے علم و فن کے گرویدہ ہو گئے۔ وسیع المطالعہ ہیں، کل ہی بتا رہے تھے کہ میبل اور میں کا پلاٹ‌ زرا ڈھیلا ہے اور میبل اصل میں ‘سویرے جو کل میری انکھ کھلی’ والے لالا کا بھائی تھا۔ سیاست اور دیگر  اس صنف کے تمام کاموں میں بائیں بازو کو ترجیح دیتے ہیں لیکن ہماری رائے میں‌ کلازٹ کنزرویٹو ہیں، باہرنکلنے کا انتظار ہے لیکن شاید ٹام کروز کے ساتھ اچھی جم رہی ہے۔
ً
ہم چونکہ انکے غیر معنوی لنگوٹیا ہیں اور انہیں جامعہ کے پواینٹ اغوا کرنے کے زمانے سے جانتے ہیں لہذا ہماری راے کو اس کم سخن، نابغہ روزگار ہستی کے بارے میں ہرگز درخور اعتنا نا گردانئے گا۔ آج کل محترمی روزی اور روزگار کے سلسلے میں بیرون ملک مقیم ہیں، حاسدوں کا کہنا ہے کہ اس میں روزگار کم اور روزی کا ہاتھ زیادہ ہے۔ شائد یہی منشا ہے کہ رومانیت کی علامت ہسپانوی زبان کے انتہائی رسیا ہیں. بلکل اہل زبان کی طرح بولتے ہیں اگر اہل زبان موجود نا ہوں اور جیسا کہ فراز نے کہا
زبان یار کیلاشی، ما از حرف بیگانہ
اس زمن میں ہمیں گالف والے چیتے اور اپیلیشین ٹریل کا کافی عمل دخل معلوم ہوتا ہے۔ بہرحال، ہمارے دائی شریک بھائی ہیں اور ہمیں نہایت عزیز۔ اسی لئے اس سے پہلے کہ کوئ اور ہجو معاف کیجیے گا تعارف لکھے، ہم نے ابتدا کی۔ اب یہ مضمون کا اختتام ہے اور یہاں پر عموما دیکھا گیا ہے کہ راقم کہے سنے کی معافی چاھتا ہے لیکن ادارہ اس زمن میں یہ کہے گا کہ اس تمام کی تمام یاوہ گوئی کا بھرپور ذمہ دار ہے اور اگر کسی قاری کو برا لگتا ہے تو لگا کرے۔
باقی یار زندہ صحبت باقی
Share

April 21, 2010

جون ایلیا اورعبید اللہ علیم- ‘ویران سرائے کا دیا’ کی تعارفی تقریب

Filed under: ادبیات — ابو عزام @ 10:32 pm

حصہ اول

حصہ دوم

حصہ سوم

Share
« Newer Posts

Powered by WordPress