فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

December 18, 2013

الگارتھم بمقابلہ لاگرتھم

Filed under: تحقیق,سائینس و ٹیکنالوجی,کتابیات — ابو عزام @ 8:38 pm

آج  شام کرسٹوفر اسٹائن کی تصنیف “آٹومیٹ دس” پڑھتے ہوئے صفحہ ۱۰۲ پرلفظ  الگارتھم کی تاریخ پر مبنی ایک پیراگراف نظر آیا۔ اکثر و بیشتر لوگوں کو الگوردم اور لاگرتھم کے الفاظ میں اشتباہ ہوتا ہے ، یہ دونوں بلکل مختلف اصطلاحات ہیں اور دونوں  الخوارزمی سے منسلک نہیں۔  الگارتھم کسی مسئلے کوحل کرنے کے لیۓ ، اصول و ضوابط کی (عموما مرحلہ بہ مرحلہ) ترتیب شدہ شکل کو کہا جاتا ہے جبکہ لاگرتھم شارع کا منعکس عمل ہے جس  کی مدد سے بڑی قدروں کو چھوٹی قدروں میں تبدیل کر کر بڑے اعداد کے حساب کتاب کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

automate_this

صفحہ نمبر ۱۰۲ پر آٹومیٹ دس کے مصنف الگارتھم کے بارے میں شابرت کے حوالے سے لکھتے ہیں

“The word algorithm comes from Abu Abdullah Muhammad ibn Musa Al-Khwarizmi, a Persian mathematician from the ninth century who produced the first known book of algebra, Al-Kitab al-Mukhtasar fi Hisab al-Jabr wa l-Muqabala (The Compendious Book on Calculation by Completion and Balancing). Algebra’s name comes straight from the al-Jabr in the book’s title. As scholars disseminated Al-Khwarizmi’s work in Latin during the Middle Ages, the translation of his name—“algorism”—came to describe any method of systematic or automatic calculation”

لفظ الگارتھم، انیسیوں صدی میں فارس کے ایک ریاضی دان  ابو عبداللہ محمد ابن موسی الخوارزمی سے منسوب ہے جو  الجبرا کے موضوع پر پہلی معلوم کتاب کے مصنف ہیں۔ ۔اس کتاب کا نام كتاب المختصر في حساب الجبر والمقابلة  تھا۔ ریاضی کی صنف الجبرا اسی کتاب کے نام سے ماخوذ ہے۔ جب علما نے الخوارزمی کے کام کو لاطینی زبان میں ڈھالنا شروع کیا تو الخوارزمی کے نام کا لاطینی تلفط، الگورزم، اصول و ضوابط کی (عموما مرحلہ بہ مرحلہ) ترتیب شدہ شکل میں حساب کتاب کا متبادل قرار پایا۔

حوالہ جات

الخوارزم

آٹومیٹ دس از کرسٹوفر اسٹائنر

Share

December 2, 2013

محمد علی ردولوی پر تحقیقی مقالہ

Filed under: ادبیات,تحقیق — ابو عزام @ 4:13 pm

چوہدری محمد علی ردولوی (۱۸۸۲ تا ۱۹۵۹) کا نام ہم نے پہل بار ضیا محی الدین کی محفل میں سنا۔ ان کے مضامین مثلا  بیوی کیسی ہونی چاہیے، میر باقر یا اپنئ بیٹی ہما خانم کے نام خط  نہایت عمدہ نثر پارے ہیں۔ اپنی صریح کم علمی کے باعث سوچا کہ احباب سے پتا کروں کہ یہ حضرت کون تھے کہ اسی اثنا میں محترمہ ثریا شمیل کے مندرجہ ذیل تحقیقی مقالے پر نظر پڑی، اس میں محمد علی ردولوی صاحب  کے حیات و فن پر سیر حاصل گفتگو ہے۔ امید ہے کہ قارئین کو پسند آئے گا۔

Muhammad Ali Rudaulvi Dissertation
چوہدری-محمد-علی-ردولوی-حیات اور فن۔

Share

July 9, 2013

علم انسانی – پہلی تراویح سے ایک اقتباس

Filed under: تحقیق,مذہب — ابو عزام @ 1:45 pm

وَعَلَّمَ آدَمَ الأَسْمَاءَ كُلَّهَا۔۔ البقرہ

اس کے بعد اللہ نے آدمؑ کو ساری چیزوں کے نام سکھائے

انسان کے علم کی صورت دراصل یہی ہے کہ وہ ناموں کے ذریعے اشیا کے علم کو اپنے ذہن کی گرفت میں لاتا ہے۔ لہذا انسان کی تمام معلومات دراصل اسمائے اشیا پر مشتمل ہیں۔ آدم کو سارے نام سکھانا گویا ان کو تمام اشیا کا علم دینا تھا – تفہیم القران جلد اول صفحہ ۶۳

ٹیکسانومی

اونٹالوجی

Share

April 21, 2013

محض ایک نظریہ؟ چند غلط العوام اصطلاحات اور انکے درست سائنسی معنی

Filed under: تحقیق,سائینس و ٹیکنالوجی,مشاہدات — ابو عزام @ 6:31 am

 نظریہ یا تھیوری کا لفظ ان غلط العوام  سائنسی اصطلاحات میں سے ایک ہے جو ہماری روز مرہ کی زبان اور اردو نثر میں خاص طور پر مستعمل ہیں۔ لوگوں کا غالب گمان یہ ہے کہ نظریہ ایک نا پختہ بچہ ہوتا ہےجو بڑا ہو کر قانون بن جاتا ہے۔ لہذا شماریاتی علوم کے لفظ معتبر یا سگنفکنٹ سے لیکرآرگینک،  فطری یا نیچرل، اور نظریے سے لیکر ماڈل یا نمونے تک بے شمار ایسی سائنسی اصطلاحات ہیں جنکی معنویت عوام الناس اور سائنسی حلقہ جات میں بلکل مختلف ہے۔  مثال کے طور پر اگریہ کہا جاۓ کے پاکستان کی آدھی آبادی کا آئی کیو اوسط درجے سے نیچے ہے تو شماریات کے ماہر کے لیے یہ اوسط کی  بنیادی تعریف ہونے کے باعث اظہر من الشمس حقیقت ہے لیکن ایک عام فرد کے لئے یہی حقیقت نہایت حیرت انگیز بات ہوتی ہے ۔ بہرطور، مفروضہ، نظریہ، قانون وغیرہ روز مرّہ استعمال کی وہ اصطلاحات ہیں، جن کو غلط العوام کہنا کچھ بے جا نا ہوگا. اب سائنسدانوں کا تو یہ خیال ہے ان تمام اصطلاحات کے بجاۓ لوگ ماڈل یا نمونے کی اصطلاح استعمال کریں تو شائد افاقہ ہو۔

theory

پہلی اصطلاح،  نظریہ

نظریہ بیک وقت ایک عام استعمال ہونے والا لفظ اور ایک پیچیدہ سائنسی اصطلاح ہے۔ اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے کیمیادان،  مائیکل فیئر نے نظریے یا تھیوری کو ایک سائنسی اور تکنیکی اصطلاح قرار دیتے ہوے کہا کہ صرف اس وجہ سے کہ عام لوگ اس اصطلاح کے بارے میں نہیں جانتے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم سائنسدان اسے استعمال کرنا ترک کردیں.اس غلط فہمی کا تو یہ ہے کہ ہمیں بہتر سائنسی تعلیم کی ضرورت ہے۔

عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں میں انسانی ہاتھ کی موجودگی اور نظریہ ارتقاء کے منکرین ان دونوں چیزوں کی سائنسی توجیہ کو محض ایک نظریہ قرار دے کر رد کر دیتے ہیں.موجودہ سائنسی تحقیق کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیوں میں انسانی آلودگی کے اثرات اور نظریہ ارتقاء،  دونوں نظریات کے لئے واضح سائنسی شواہد موجود ہیں۔ اس انکار کی ایک وجہ یہ ہے کہ لفظ نظریہ کی سائنسی اصطلاح اور اسکی عام فہم معنویت میں شدید اختلاف ہے. ایک سائنسی نظریہ کسی مشاہدے کی ایک ایسی سائنسی توجیہ ہوتا ہے جس کو بارہا کیے جانے والے تجربات سے جانچا اور پرکھا جا سکتا ہے نیز اس کے درست ہونے کے واضح شواہد موجود ہوتے ہیں مثلا درجہ حرارت کا مستقل بڑھنا یا فاسلز کی موجودگی۔ لیکن اگر کسی عام فرد سے نظریے کی تعریف پوچھی جاۓ تو وہ اسے کسی کی ذاتی راۓ پر محمول کریگا، جسکی اکثر و بیشتر کوئی تجرباتی اور مشاہداتی مثال موجود نہیں ہوتی، اور اسی بنا پر اکثر یہ سوال ہوتا ہے کہ قانون اور نظریہ  میں کیا فرق ہے؟

دوسری اصطلاح، قانون۔ عام طور پر قانون کو نظریے کی انتہائ شکل سمجھا جاتا ہے اور اس سے لوگوں کی اکثر یہ مراد ہوتی ہے کہ قانون کبھی غلط نہیں ہوتا۔ اس سے پس پردہ یہ بھی کہا جارہا ہوتا ہے کہ اگر یہ نظریہ واقعی درست ہوتا تو قانون ہوتا۔

حقیقت یہ ہے کہ سائنسی قوانین ، اشیا کی کی عام حالت میں عمومی طور پرپائ جانے والی روش کی نشاندہی کرتے ہیں ۔یہ جملہ کچھ پیچیدہ سا ہے لہذا ہم مثالوں سے سمجھاتے ہیں۔ قوانین دراصل یہ بتاتے ہیں کہ جب سے کسی خاص مشاہدے کی بنیاد پر ایک ریاضیاتی نمونے کو بنایا گیا ہے، اور جس نظام پر اسے لاگو کیا گیا ہے، دونوں کو بلکل اسی روش پر موافق پایا گیا ہے۔ نیز اس قانون میں کوئ رعائت نہیں ہے۔  اب اس کے لئے کچھ مثالوں کو دیکھتے چلیں۔

نیوٹن کے حرکت کے قوانین نہائت مشہور و معروف ہیں اور ان کا اطلاق طبعیات کے بیشتر شعبوں میں لامحالہ کیا جاتا ہے۔ میکرو یا بڑی اشیا پر عمدہ طریقے سے انکے اطلاق کے باوجود کوانٹم مکینکس اور ذرہ جاتی سطح پر یہ قوانین پورے نہیں اترتے۔  اسکے باوجود بھی ان قوانین کو ثقہ قانون کا درجہ حاصل ہے کیونکہ  یہ ماڈل  بڑی سطح پر اشیا کی صحیح طرح نمائندگی کرتا ہے۔

کشش ثقل اور اضافیت کا نظریہ ایسے نظریات کی عام مثالیں ہیں جنہیں ہم تجربہ گاہ میں ثابت کر سکتے ہیں۔  سمجھنے کی بات یہ ہے کہ لفظ نظریہ کوئ تضیک نہیں اور نا کوئ نظریہ بڑا ہو کر قانون بن جاتا ہے۔ ان دونوں کا محض دائرہ کار تھوڑا مختلف ہے۔

نظریہ کسی طبعی، کیمیائ، حیاتیاتی و دیگر سائنسی امور کی وضاحت کرتا ہے اور ‘کیوں’ کی وضاحت کے لئے ایک ذریعہ فراہم کرتا ہے۔ اس کے برخلاف قانون اس وضاحت سے بحث نہیں کرنا مثلا اشیا کی باہمی کشش کے نیوٹن کے قانون پر غور کریں۔ ایک  طبعی روِیہ کی ماڈل کے زریعے پیشن گوئی کرنے کے لئے نیوٹن کے اس قانون کو استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن لیکن کمیت میں یہ کشش کیوں آئی، اس کے بارے میں اس قانون کوئ رہنمائ نہیں کرتا اور ہمیں آج کی تحقیق بتاتی ہے کہ کشش ثقل کے بارے میں ہماری ابتدائ سمجھ بوجھ نہایت ناقص ہے۔

لیکن کیا اس سے نیوٹن کے قوانین تبدیل ہو جائیں گے؟ اگر ہمیں کوئ اور ماڈل نیوٹن کے قوانین سے بہتر نتائج دے تو یقینا اس ماڈل کا استعمال شروع کردیا جاے گا لیکن فی الحال یہ قوانین بیشتر روز مرہ کی تکنیکی و انجینئرنگ کی ضروریات کے لئے کافی ہیں۔

تیسری اصطلاح، مفروضہ

جامعہ ساؤتھہ ویسٹرن لوزیانہ کے طبیعات دان ایٹ ایلن کا خیال ہے کہ چونکہ عوام الناس مفروضہ، قانون اور نظریہ جیسےاصطلاحات کی معنویت کا نہایت بے دردی سے قتل عام کرتے ہیں، لہٰذا ان کا استعمال ختم کردینا چاہیے. ایلن کا کہنا ہے کہ اب ان الفاظ کو بچانے کی کوشش کرنا اب ایک سعی لاحاصل ہی ہے. سائنسی طور پر ایک مفروضے کی تعریف اس طرح کی جاسکتی ہے کہ وہ  کسی عمل کی ایسی  توجیح پیش کرتا ہے ہے جس کو سائنسی بنیادوں پر جانچہ یا پرکھا جا سکے ، لیکن اگر کسی عام آدمی سے پوچھا جاۓ تو اس کے خیال میں سائنسی مفروضہ محض ایک علمی قیاس یا اٹکل پچو کا دوسرا نام ہو گا جو کہ درست نہیں۔

کسی طبعی عمل کی پیشن گوئ اور اسکو جانچنے کے لئے سائنسدان مختلف اقسام کے ریاضیاتی  سائینسی ماڈل یا نمونے بناتے ہیں، ان کا عشر عشیر ایک مساوات ہوتی ہے مثلا

اس مساوات کو پھر تجربے کی کسوٹی پر رکھا جاتا ہے اور جو ماڈل بہتر طریقے سے تمام عوامل کی نشاندہی کرتا ہو، اسے نظریے کے طور پر مان لیا جاتا ہے اور باقی تمام نمونہ جات یا مفروضوں کو رد کردیا جاتا ہے۔ آکم ریزر بھی اسی عمل کی ایک مثال ہے۔

چوتھی اصطلاح، ماڈل یا نمونہ۔

اب نظریہ ہی محض ایک ایسی سائنسی اصطلاح نہیں جو کہ وسیع طور پر غلط سمجھی جاتی ہو، لفظ نمونہ یا ماڈل بھی اسی پریشانی کا شکار ہے. موٹر گاڑیوں اور فیشن میں استعمال ہونے والی یہ زود زبان اصطلاح مختلف سائنسی میدانوں میں بھی مختلف معنی  رکھتی ہے. مثلا، ایک موسمیاتی نمونہ، ریاضاتی نمونے سے خاصا مختلف ہوتا ہے۔ جان ہاکس جو کہ جامعہ وسکونسن میڈیسن میں ایک ماہر بشریات ہیں ، کہتے ہیں کہ طبیعات کے اسٹینڈرڈ ماڈل کی بنا پر اس میدان میں خاصا انضباط نظر آتا ہے لیکن علم جینیات اورعلم ارتقاء میں ماڈل کی یہی اصطلاح مختلف معنوں میں مستعمل ہے۔

پانچویں اصطلاح۔ سائینسی شکی یا اسکیپٹک

ماحولیاتی تبدیلیوں کا انکار کرنے والوں کو نشریاتی میڈیا اکثر ماحولیاتی ماہر تشکیک دان قراردیتا ہیں لیکن مائیکل ہانٹ جو کہ پینسلوینیا اسٹیٹ یونیورسٹی کے ماحولیاتی سائنسدان ہیں، ان کے مطابق یہ ایسے ہی لا علم لوگوں کو زبردستی  سر چڑھانے کے  مترادف ہے۔ تشکیک عام فہم معبود عام سائنسی اقادات کو بلاوجہ اعتراض سے الجھانا تشکیک نہیں بلکہ میں نا مانوں کا دوسرا نام ہے۔ یہ غیر حقیقی تشکیک کا دعوی کرنے والے درحقیقت سائنسی مشاہدات اور تجربات کو ماننے کی جرّات نہیں رکھتے جبکہ حقیقی تحقیق کرنے والے سائنسی مشاہدات اور تجربات کوحقیقت گردانتے ہیں چاہے وہ انکے نظریات کے خلاف ہی کیوں نا ہو۔ تاہم سائنسدانوں کو ہمیشہ تشکیک کا متقاضی ہونا چاہیے کالس سیگن نے حقیقی تشکیک کو سائنس کی خود درستگی کی بنیادی وجہ بتایا ہے.

چھٹی اصطلاح، فطرت یا تربیت۔

یہ عام طور پر استعمال ہونے والی اصطلاح ، فطرت بھی سائنسدانوں کے لیے دردسر کا باعث ہے، کیونکہ فطرت کا لفظ عام زبان میں استعمال ہو تو ایک نہایت پیچیدہ سائنسی عمل کو آسانی کے ساتھ بیان کرنے کی کوشش میں اسکی معنویت کو کھو دیتا ہے.ڈین کروور جو کے جامعہ مشیگن میں ارتقائی حیاتیات دان ہیں انکا کہنا ہے یہ ایک ایسی ہی غلط استعمال ہونے والی اصطلاحات میں سے ایک ہے جن  کا سادہ لوح استعمال انکے اصل معنی کھو دیتا ہے۔

موجودہ ارتقائی حیاتیات دانوں کے لیے اس اصطلاح کا غلط استمال باعث تشویش ہے، آباواجداد کے جینز انسانی زندگی  پر واضح طور پر اثر انداز ہوتے ہیں. لیکن اسی طرح ایپی جینیٹک تبدیلیوں کا بھی انسانی زندگی پر بھی خاص اثر ہوتا ہے کیونکہ  یہ جنیاتی تبدیلیاں موروثی ہونے کے ساتھہ ساتھہ ماحولیاتی اثرات کی بناء پر بھی اثر پذیر ہو سکتی ہے۔  انسانی طرز زندگی رویے اور دیگر تبدیلیوں کا انحصار ماحولیات، جینیات، کیمیائی تبدیلیوں اور کئی غیر متوقع عوامل پر ہے جن کا مکمل ادراک  ایک نہایت مشکل کام ہے۔

ساتویں اصطلاح، سگنیفکنٹ یا معتبر۔

اسی طرح کا ایک اور غلط العوام اصطلاح شماریاتی سائنس کا لفظ معتبر ہے، یہ ایک خاصا وسیع الستعمال اور گنجلک لفظ ہے، کسی اعداد و شمار معتبر ہونے سے آپکی کیا مراد ہے، مائکل اوبرائن، جو جامعہ مزیوری کے سائنس اور آرٹس کالج کے سربراہ ہیں،  یہ سوال پوچھتے نظر آتے ہیں۔  کیا آپکی مراد شماریاتی طور پر معتبر ہے یا محض رائے کی اہمیت،  شماریات میں کسی چیز کے معتبر ہونے کے معنی یہ ہیں کہ اس واقعے کا اتفاقی طور پر وقوع پذیر ہونے کا احتمال نہایت کم ہو. لیکن ضروری نہیں کہ یہ کسی شہ کی علت کا سبب بھی بنے۔ لیکن عمومی استعمال کے وقت سیمپل اسپیس اور علت کی سمت کا خیال کم ہی رکھا جاتا ہے۔

آٹھویں اصطلاح، قدرتی،

قدرتی یا نباتیاتی کا لفظ اور اسکا غلط استعمال بھی سائنسدانوں کو، بالخصوص حیاتیات کے ماہرین کو بہت پریشان کرتا ہے۔ اسکی وجہ عام ذخیرہ الفاظ میں قدرتی کا خودبخود بننے والا صحت مندانہ رجحان ہے ۔ اس لفظ کے استعمال سے فوری طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ ہر مصنوعی شے صحت کے لیے مضر ہے اور ہر قدرتی شے صحت کے لیے لازمی طور پر اچھی ہوگی جو کہ سائنسی طور پر درست نہیں۔ 

 مثلا یورینیم ایک قدرتی عنصر ہے لیکن اس کے استعمال سے آپ کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے. اسی طرح نباتیاتی یا آرگینک لفظ کا استعمال بھی اسی طرح کی غیر متوقع مشکلات کا باعث ہے. آرگینک سے سائنسدانوں کی مراد کاربن والے مرکبات ہوتے ہیں، لیکن عوام اس اصطلاح کو اب کیڑے مار دواؤں سے پاک آڑو اور کپاس کی اعلیٰ قسم والی چادروں کے لیے بھی استعمال کرنے لگے ہیں، جو کہ اس لفظ کے حقیقی مطلب کے برعکس ہے ۔ سائنسدان اس تمام غلط فہمی کا سبب اسکول اور کالج میں سائنسی تعلیم کی کمی کو ٹھہراتے ہیں اس اشتباہ  اور سو فہمی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عمومی طور پر لوگ کم سائنسی تعلیم کی بنا پر اصطلاحات کو درست طور نہیں سمجھتے. اسی طرح سے عام الفاظ کے دوہری معنی ہونے کی وجہ سے بھی سائنسی اصطلاحات کی فراست کا صحیح احاطہ نہیں کر ہو پاتا۔  کروگر لکھتے ہیں کہ سائنس صحیح اور غلط کے ثنائی نظام کے بجاۓ ایک تسلسل یا اسپیکٹرم کی حامی ہے جسکی حدود انسانی معلومات کی حدو کی طرح مستقل بڑھتی جا رہی ہیں۔

112704410

جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ سائنس کو درحقیقت اس بات سے قطعی کوئی غرض نہیں کہ کون کیا کہہ رہا ہے مثلا البرٹ آئنسٹائن بے چارہ یہ سمجھتا رہا کہ کوانٹم فزکس اندھیرے کی ایک ڈراؤنی شہ ہے لیکن کوانٹم طبیعات سے اسکے خوف کی وجہ، کوانٹم طبیعات کو صحیح یا غلط علم ثابت کرنے میں کوئی مدد نا کرسکی اور آج یہ طبعیات کی ایک ثقہ شاخ کے طور پر مانی جاتی ہے۔ اسی طرح اگر عوام الناس نظریے اور مفروضے کو خلط ملط کرتے رہیں تو اس سے بھی سائنس کی صحت پر کوئ فرق نا پڑے گا۔ بقول آنجہانی گلیلیو کے، وہ تو گھوم رہی ہے۔

 امید ہے کہ اب آپ کو ان اصطلاحات سے خاطر خواہ واقفیت ہو گئی ہوگی۔ مزید معلومات کے لئے درج زیل حوالہ جات کا مطالعہ موزوں ہے۔

حوالہ جات و تخلیص 

کیمیا – اباوٹ ڈاٹ کام
        سائنٹفک امریکن

Share

February 4, 2013

ہاں تو میاں، تمہارا پی ایچ ڈی کیسا چل رہا ہے؟

Filed under: تحقیق — ابو عزام @ 6:27 pm

اکثربے تکلف احباب دل دکھانے کو گاہے بگاہے یہ سوال کیا کرتے ہیں کہ بھئی تمہارا پی.ایچ.ڈی کب مکمل ہو رہا ہے یا تمہاری تحقیق کا کیا حال ہےیا تمہارا مقالہ تو ختم ہو کر ہی نہیں دے رہا وغیرہ وغیرہ. اس ضمن میں جامعہ اسٹینفورڈ کے فارغ التحصیل،  پی ایچ ڈی کامکس کے خالق ہورہے چام کا کہنا ہے کہ گریجویٹ اسکول کا پہلا اصول یہ ہے کہ گریجویٹ اسکول کے طالبعلم سے ازراہ ہمدردی مندرجہ بالا سوالات نا کئے جائیں، شکریہ۔

phd0227

یہ تو خیر جملہ معترضہ ٹھرا۔ یہاں کوشش یہ ہے کہ عام فہم انداز میں یہ بتانے کی کوشش کی جاۓ کہ راقم کے مقالے کا موضوع کیا ہے. مجھے علم ہے کہ اس کوشش میں نا تو میں عام فہمی سے انصاف کر پاوں گا اور نا تکنیکیت سے، اور دونوں طرف سے بری بھلی سننے کو ملیں گی، لیکن  کیا خوب کہا مرزا نوشہ نے کہ اپنے جی میں ہم نے ٹھانی اور ہے۔

 اس سے قبل تھوڑا سا پی.ایچ.ڈی کی پوسٹ گریجویٹ اکیڈمک ڈگری کا تعارف ہو جاۓ. “پی.ایچ.ڈی” یا “ڈاکٹر آف فلاسفی” ایک اکیڈمک یا تعلیمی ڈگری ہے جو درحقیقت کسی موضوع پر کی جانے والی اس اصل تحقیق کے نتیجے میں ملنے والی تحقیقی منزلت یا اجازہ کا نام ہے ۔ اس ڈگری کا منتہا ایک مقالہ و ‘ڈاکٹر؛ کا سابقہ ہوا کرتا ہے لیکن اصل محصول تحقیق کی عادت ۔ ڈاکٹر عنیقہ ناز مرحومہ  نے اسی موضوع پر راقم کی ایک تحریر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا  کہ

پی ایچ ڈی اسپیشلائزین نہیں…، بہت سے لوگ اسی غلط فہمی میں ہیں۔ یہ دراص ایک طرح کی تربیت ہے دماغ کو آزاد روی سے سوچنے کی طرف لے جانے کی۔ اس لئے اسکی تحقیق کے عنوان سے لیکر نتائج کو جمع کرنا اور پھر انکا دفاع کرنا پی ایچ ڈی کرنے والے کی ذمہ داری ہوتا ہے۔ جبکہ ماسٹرز کی ڈگری تک یہ ٹریننگ نہیں ہوتی۔

پی ایچ ڈی کا مطلب ویژن یا بصیرت پیدا کرنا ہوتا ہے۔ اپنے راستے خود متعین کرنا،امشاہدات سے اپنے ذاتی نتائج نکالنے کی اہلیت رکھنا، اس وقت جب تمام لوگ سمجھتے ہیں کہ رات نجانے کتنی لمبی ہے اس چیز کی اہلیت رکھنا کہ صبح کے آنے کے آثار ہیں یا نہیں

عمومی طور پر پی ایچ ڈی کے دو حصّے ہوا کرتے ہیں ایک “کورس ورک ” کہلاتا ہے جس میں محقق، تحقیقی کورسز کو مکمل کرتے ہیں۔ اس کو اکثر ممالک میں ایم فل یا ماسٹر آف فلاسفی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ دوسرا حصّہ مقالے کا ہوتا ہے.ہماری جامعہ کے ڈین ڈاکٹر ایکرمین نے اورینٹیشن کے دوران طلبا کو ڈرانے کے لئے خصوصی طور پر بتایا کہ شماریاتی طور پر پچاس فیصد طلبا جو پی.ایچ.ڈی کے پروگرام میں داخلہ لیتے ہیں. اے.بی.ڈی ہو کر پروگرام کو چھوڑ دیتے ہیں. اے.بی.ڈی کا مطلب ہوتا ہے “آل بٹ ڈسرٹیشن” یعنی اگر آپکا کورس ورک مکمل ہو جاۓ لیکن مقالہ مکمل نہ ہو تو آپکو اے.بی.ڈی یا ریسرچ ڈاکٹریٹ کہا جاتا ہے.امریکا میں “پی.ایچ.ڈی” کا عمومی وقت پانچ سے سات سال کا ہوتا ہے اسی طرح سے دوسرے یورپی  ممالک مثلآ برطانیہ میں پی ایچ ڈی کچھ کم عرصے کے دوران مکمل کیا جا سکتا ہے ۔

phd022509s

راقم کی تحقیق کمپیوٹر سائنس کی ذیلی شاخ آرٹیفیشل انٹیلیجنس یا مصنوعی ذہانت کی دو ذیلی شاخوں مشین لرننگ اور ڈیٹا مائننگ سے تعلق رکھتی ہے۔ راقم اپنی تحقیق کو ایک جملے میں آسانی کے لئے،عام فہم غیر تکنیکی الفاظ میں بیان کرے تو کچھ  اسطرح کہا جا سکتا ہے کہ

 ڈیٹا کے کسی مجموعہ میں عمومی طور پر نہ پائی جانے والی اشیاء کی احتمالی دلچسپی کا شماریاتی پیمانہ

یہ تحقیق دراصل تین مختلف مطالعوں کے علاقہ جات کا مجموعہ ہے.

اولا – احتمالی گرافیکل نمونہ جات

 ثانیا – امکانیاتی پیمانہ ہاۓ شماریاتی دلچسپی 

اور ثالثا – دور افتادہ عوامل کی تلاش اور توجیح

ان تین مطالعوں کےعلاقوں کے تحقیقی ادغام و اشتراک سے راقم کی کوشش ہے کہ ایک ایسا الگورتھم یا طریقہ کار معرض وجود میں آسکے جو شماریاتی اصولوں کی بناء پر پیمانہ ہاے دلچسپی کو ڈھونڈھنے میں ہماری مدد کرتا ہو ۔

Scalable-pattern-mining-with-Bayesian-networks-as-background-knowledge-Fast-discovery-of-interesting-patterns-based-on-Bayesian-network-background-knowledge

پی.ایچ.ڈی کے مقالہ کا بنیادی مقصد علمی معرفت کی ہئیت میں تبدیلی لانا ہوتا ہے. کسی بھی علمی میدان میں، معرفت علم میں تغیر و تبدل ہی  پی.ایچ.ڈی کی تحقیق کا اصل مقصد ہوتا ہے۔ اگر ڈاکٹریٹ کی تحقیق کے دوران کسی مسئلے کا حل تلاش کیا جا رہا ہے تو اس بات کا قوئ امکان ہے کہ یہ مسئلہ اس سے پہلے کسی ریسرچر، کسی محقق، یا کسی عالم کے زیر مطالعہ رہا ہوگا. یا اس نے اپنے مقالہ میں یا تحقیقی کام میں اس کا ذکر ایک مسئلے کے طور پر یا مستقبل میں کئے جانے والے کام کے طور پر کیا ہوگا.

تحقیقی ادب کے مطالعے سے ہمیں جا بجا یہ پتا چلتا ہے کہ اے پرائوری یا استدلالی قوانین کی زیادتی ڈیٹا مائننگ  کی دنیا میں ایک بڑا مسئلہ ہے. ایک آسان مثال سمجھنے کے لیے یہ دی جا سکتی ہے کہ اگر آپ کسی مارکیٹ کے خرید و فروخت کے مجموعے کو دیکھیں تو اس میں ڈبل روٹی، انڈے اور دودھ کی ایک ساتھ فروخت زیادہ نظر آئیگی. ان استدلالی قوانین کی حمایت اور اعتماد بھی اس مجموعے میں زیادہ ہوگا. اس حمایت اور اعتماد کو شماریاتی احتمالی دلچسپی کے پیمانوں میں سے ایک قرار دیا جا سکتا ہے اسی طرح سے شماریاتی امکانی دلچسپی کے پیمانے لٹریچر یا تحقیقی ادب میں اور بھی بہت سے پاۓ جاتے ہیں. مثلآ اٹھاؤ یا لفٹ، پئرسن کورلیشن، آڈ ریشو، لیپلاس تصیح  وغیرہ

interestingness measures

ان پیمانوں کا مجموعی اطلاق کر کے ہم اس بات کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اشیاء کا باہمی تعلق کتنا گہرا ہے.مثلآ ان استدلالی اصولوں کی بناء پر یہ مفروضہ بڑی آسانی سے قائم کیا جا سکتا ہے کہ اگر کسی شخص نے بانگ درا اور ضرب کلیم خریدی ہو تو اسے بال جبرئیل بھی یقینآ پسند آئیگی اس تعلق کو بہترین طریقے سے بیان کرنے کا کام گراف کی مدد سے بناۓ گئے احتمالی نمونوں سے کیا جا سکتا ہے. مثلآ اگر اسی بات کو شماریاتی احتمالی طور پر بیان کرنا ہو کہ بارش یا فواروں کا گھاس کے گیلا ہونے پر کیا اثر ہوتا ہے تو اسے اس مندرجہ ذیل سادہ گراف کی مدد سے با آسانی بیان کیا جا سکتا ہے.

bayesianGraph

اس احتمالی نمونے کو بائزین یقین کا اتصالی نمونہ یا بائزین بیلیف نیٹورک کہا جاتا ہے. عام استدلالی نمونہ جات کی بہ نسبت بائزین بلیف نیٹ ورک میں سلف اور خلف دونوں طرح کے استدلال کرنے کی سہولت حاصل ہوتی ہے. مثلآ مندرجہ بالا مثال سے ہم دیکھہ سکتے ہیں کہ گھاس کے گیلا ہونے سے بارش کے وقوع اور اس کا ماخوذ دونوں کس قدر آسانی کے ساتھہ معلوم کیے جا سکتے ہیں.

bayesTheorem

بائزین بلیف نیٹ ورک احتمالی گراف نمونوں کی ایک قسم ہے اسکی مدد سے آپ کسی ماہر فن کی راۓ کو ایک گراف کے نمونے میں محفوظ کر سکتے ہیں. تمام امکانات کو “سی.پی.ٹی” یعنی مشروط امکانات کے جدول میں بھی محفوظ کیا جا سکتا ہے. سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس اتصالی نمونے  میں چونکہ مختلف گروہوں کے باہمی تعلقات کو امکانات کی مد میں ظاہر کیا جاتا ہے اس لیے اس پر اشیاء کی دلچسپی کے احتمالی پیمانہ جات یا انٹرسٹنگنس میشرز کا آسانی سے اطلاق ہو سکتا ہے جیسا کہ قطری جامعہ کے رانا ملہاس اور ظاہر الغبری کے کام سے دیکھا جا سکتا ہے.

Bayes Theorem.088

اس مختصر اور کسی قدر تکنیکی تمہید کے بعد اب آپ کو یہ سمجھنے میں آسانی ہوگی کہ راقم کی تحقیق اس موضوع پر ہے کہ کس طرح سے کسی ڈیٹا سیٹ میں کم تعداد میں پاۓ جانے والی اشیاء کی دلچسپی اور افادیت کی درجہ بندی بائزئن اتصالی نمونے کے ذریعے کی جاۓ نیز وہ کونسے ایسے شماریاتی، امکاناتی پیمانے ہیں جو کم پاۓ جانے والے عناصر کی موجودگی کے لئے زیادہ حساسیت رکھتے ہیں. راقم کا الگارتھم اور طریقہ کار، ٹریننگ ڈیٹا پر بائزین بلیف نیٹ ورک کو استعمال کرتے ہوئے حالات کے پس منظر کی نمائندگی کرنا اور اسکے بعد اس پر شماریاتی دلچسپی کے امکانات کا حساب نکالنا ہے.  بعدازاں ٹیسٹ ڈیٹا سیٹ پر بھی انہی شماریاتی امکانات کا دوبارہ حساب لگایا جاے گا اور ان دونوں شماریاتی امکانات کی تفریق اس بات کو وضاحت دیگی کہ دونوں عناصر میں کس قدر فرق موجود ہے.، جس کی بنیاد پر اسکی افادیت کی درجہ بندی کی جاسکتی ہے۔

LightSummerReading

اب میری تحقیق اس مرحلے میں داخل ہو چکی ہے جس میں میں ایسے شماریاتی احتمالی امکانات کے پیمانوں پر خاص توجہ دے رہا ہوں جو صرف اس وقت زیادہ تبدیل ہوتے ہیں جب کوئی نایاب دلچسپی کا عنصر ڈیٹا سیٹ میں نظر آتا ہے مثلآ اگر آپ کی ساری خریداری کراچی میں ہو اور دن بھر کا خرچا عموما پانچ سو سے کم رہتا ہو اور اب اچانک آپ کے اکاؤنٹ میں لاہور کی ایک ٹرانزیکشن آجاۓ جو دس ہزار روپے کی ہو توفراڈ کے ماہرین کے لئے یہ نہایت غیر معمولی اور نادر دلچسپی کی چیز ہے لیکن اس کا تناسب پورے ڈیٹا سیٹ یا اسٹریم میں بہت کم ہوتا ہے.یہ ایک آسان مثال ہے جو یوکلیڈین فاصلے سے بھی نکالی جا سکتی ہے لیکن اگر ڈیٹا ہمہ جہتی ہو تو فاصلے اور گروہ بندی کے طریقہ کار اتنے کار آمد نہیں رہتے۔ فاصلہ ماپنے کے طریقہ کار کی بنسبت اس تحقیقی طریقے کار کا ایک اور بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس انکشاف کو اتصالی ماڈل کے ذریعے نہایت آسانی کے ساتھہ واضح طریقے سے بیان کیا جا سکتا ہے.نیز کسی ماہر کے ذریعے اس نمونے کو تبدیل کرنا بھی نسبتاآسان کام ہے.

History-Bayesian-Inference-Network-Adnan-Masood-Adnan-Darwiche

اس وقت میرے تحقیقی سوالات کا دائرہ کار انہی امور کے تجربات کے گرد گھوم رہا ہے کہ کونسے ایسے امکاناتی دلچسپی کے پیمانہ جات ہیں جن کی درجہ بندی سے استثنائی اشیاء کو بہترین طریقے سے جانا جا سکتا ہے. ان تجربات میں انسامبل طریقہ کار کو بھی مد نظر رکھا جا رہا ہے جس کے مطابق کسی ایک امکاناتی دلچسپی کے پیمانے کے بجاۓ عصر کلّی کو دیکھا جاۓ اور مختلف پیمانہ جات کو ان کی بنا پر ضم کردیا جاۓ.کورس ورک ختم کرنے اور تحقیقی کام میں اس مقام تک پہنچنے میں مجھے تقریبآ چارسال کا عرصہ لگا ہے اور امید ہے کہ ایک سے ڈیڑھ سال کے دوران ان تحقیقی سوالات کے جوابات دینے کے قابل ہو جاؤنگا اور اپنا مقالہ مکمل کر لوں گا، انشا اللہ.۔

امید ہے کہ آپکو یہ مضمون پسند آیا ہوگا اور احقر کے تحقیقی کام سے گو نہ گو آشنائی حاصل ہو گئی ہوگی۔

نوٹ – یہ مضمون ہماری والدہ محترمہ کی ۵۹ ویں سالگرہ کے موقع پر ان کو اور والد صاحب کو اپنے تحقیقی کام کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کے لئے لکھا گیا تھا جس کو بعد ازاں عمومی مصرف کے لئے یہاں پیش کیا گیا۔

path-to-phd

Share

January 5, 2013

واقعیت بودن

Filed under: تحقیق,مذہب — ابو عزام @ 7:33 am

کیا حقیقت ایتھر ہے، ایک ریاضی کی نظم ہے یا کہ ٹھوس اجزا کا مجموعہ؟ ٹھوس کیا ہے، تعمیر کا بنیادی منبع الوجود کیا ہے؟

حقیقت موجودات پر ریڈیولیب کی ایک سائنسی نظر، ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ۔

 

Share

August 12, 2012

ونڈوز سرور ایپ فیبرک کک بک کا مختصر تعارف

Filed under: تحقیق,کتابیات — ابو عزام @ 10:30 am

یوں تو راقم عموما تکنیکی کتابوں کے تعارف سے اجتناب برتتا ہے لیکن چونکہ مجھے اس حالیہ کتاب، ونڈوز سرور ایپ فیبرک کک بک کے تکنیکی ناقد ‘رویویر’ ہونے کا اعزاز حاصل ہے تو سوچا کہ یہ روایت شکنی بھی کرتے چلیں۔

پیکٹ پب نامی ادارے کی شائع کردہ ونڈوز سرور ایپ فیبرک کک بک دراصل مائکروسافٹ کے ایپ فیبرک پلیٹ فارم کے بارے میں ایک نہایت کارآمد کتاب ہے جس میں کک بک یا کھانا پکانے کی کتاب کے انداز میں آسان اور زود عمل ترکیبوں سے اس  پلیٹ فارم کا تعارف اور استعمال سکھایا گیا ہے۔ ایپ فیبرک کچھ لائبرریوں کا مجموعہ ہے جس کے زریعہ مندرجہ زیل کام نہایت آسانی کے ساتھ بخوبی کیے جا سکتےہیں۔

ویب سروسز کی مانیٹرنگ یا دیکھ بھال

ویب سروسز کی ہوسٹنگ – آئ آئ ایس او واس کی مدد کے ساتھ

ویب سائٹ اور سروسز کی کیشینگ

 ویب سائٹ اور سروسز کے سیشن کو کسی بڑے ویب فارم پر منتشر انداز میں  تعینات کرنا

یہ کتاب ہمارے عزیز دوست حماد رجوب اور رک گیربے نے لکھی ہے نیز اس کے تکنیکی ادرارتی کام میں زبیر احمد کی مدد حاصل رہی۔

تکنیکی رویور کا کام مصنفین کی تحریر کی افادیت اور صحت کو پرکھنا، اس کے سورس کوڈ اور دیگر مندرجات کے عوامل کی آزمائش  اور اس کی عام فہمی یا ڈویلپر فہمی کا خیال رکھنا ہوتا ہے۔ اس زمن میں راے اور تبصرہ جات مصنفین کو دیئے جاتے ہیں جن کو وہ اپنی تحریر میں تبدیلی کے ساتھ شامل کر لیا کرتے ہیں۔

چار سو صفحات کی اس کتاب میں 60 عدد مختلف ترکیبوں کے ذریعے ایپ فیبرک کا مختلف حالات و مواقع پر استعمال سکھایا گیا ہے۔ ایپ فیبرک کی انستالیشن، کیشنگ، ہوسٹنگ، برقراریت یا پرززٹینس، اس کی مدد سے سروسز کی دیکھ بھال اور سیکیورٹی پر مختلف باب باندھے گئے ہیں نیز اسکرین شاٹ اور تصاویر کی مدد سے ہر عمل کو اچھی طرح سمجھایا گیا ہے۔ حماد اور رک نے نہایت محنت سے اسے ڈویلپرز اور سافٹویر انجینیرز کے لئے ایک آسان فہم  کتاب  بنانے کی سعی کی ہے۔ یہ کتاب ایمزن، پبلشر کی ویب سائٹ اور سفاری آنلائن بکس سے دستیاب ہے۔ نیز برقی کتابوں کے شوقین حضرات کے لئے اس کا کنڈل ورژن بھی دستیاب ہے۔

اگر آپ ڈسٹریبیوٹڈ سلوشنز میں دلچسپی رکھتے ہیں اور مائکروسافٹ کی کنیکٹڈ تیکنالیجیز کے بارے میں زیادہ جاننے کے لئے کوشاں ہیں تو اس کتاب کا مطالعہ نہائت مفید ثابت ہوگا۔

Share

May 24, 2012

حقیقت تمثیل از ابن عربی

Filed under: تحقیق,کتابیات,مذہب,مشاہدات — ابو عزام @ 12:49 pm

فصوص الحکم میں  ابن عربی حکمت قدوسیہ فص کلمۂ ادریسیہ کے بیان میں کہتے ہیں

یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ کسی مسئلے کی تحقیق جدا ہوتی ہے اور مثال کے طور پر یا عبرت لینے یا نصیحت پکڑنے کے لیے کسی جانور کے فرضی قصّے کا بیان کرنا یا غلط، مگر مشہور واقعے کی طرف اشارہ کرنا درست ہے. کیونکہ اس وقت مقصود صرف تمثیل اور عبرت ہوتی ہے..

واقعات اور مسائل کی تحقیق و تنقید کا مقام دوسرا ہوتا ہے.مثلاً کوئی کہے کہ حریص کو کچھ نہیں ملتا. بلکہ جو کچھ اپنا تھا اس کو بھی کھو دیتا ہے. جیسے ایک حریص کتا جس کے منہ میں گوشت کا ٹکڑا تھا. ندی پر سے گزر رہا تھا. اس نے ندی میں اپنا سایہ دیکھا’ اس نے سمجھا کہ ایک دوسرا کتا منہ میں گوشت کا ٹکڑا پکڑا لیے جا رہا ہے. حریص کتا اپنا منہ کھول کر اس کے گوشت کے ٹکرے کو چھینے کے لیے جھپٹا. اور اپنا گوشت کا ٹکڑا بھی کھو دیا. دیکھو اس واقعے سے صرف حرص کی مذمّت مقصود ہے. اور وہ اس سے حاصل ہے.یہ بات کہ واقعی کسی کتے نے ایسا کیا’ یا نہیں’ ہمارے مقصود سے خارج ہے.

ہیت دانوں کے دو فرقے ہیں.

بعض زمین کو مرکز علم سمجھتے ہیں اور یہ بطلیموسی کہلاتے ہیں.۱
بعض آفتاب کو اپنے سیاروں کا مرکز سمجھتے ہیں. اور یہ فیثا غورثی کہلاتے ہیں.۲

تابعین فیثا غورث کے خیال میں ہر ایک ثابتہ آفتاب ہے اور اس کا نور ذاتی ہے

بعض ثابتے ہمارے آفتاب سے بہت بڑے ہیں. کہکشاں ہیں. جس کو عربی میں مجرہ کہتے ہیں کروڑ ہا کروڑ آفتاب ہیں. دودو ثابتے یا آفتاب با ہم ایک دوسرے کے اطراف گردش کرتے ہیں. اور دودو کا جوڑا. اور ایک جوڑے کے اطراف گردش کرتا ہے بعض کے پاس قمر زمین کے اطراف گردش کرتا ہے اور زمین مع قمر کے آفتاب کے گرد گردش کرتی ہے. آفتاب مع تمام سیارات کے کسی بہت بڑے آفتاب کے گرد گردش کرتا ہے. اور تمام آفتاب ہاۓ عالم ایک شمس الشموس کے اطراف گردش کرتے ہیں. زمین کو ساکن ماننے والوں کے پاس ستاروں کی جو ترتیب ہے اس کو شیخ نے یہاں بطور تمثیل کے بیان کیا ہے. اور یہاں صرف علوۓ مکان کی مثال مقصود ہے نہ کہ تائید نظام بطلیموسی.

ہم کو بحیثیت مذہبی آدمی اور صوفی ہونے کے نہ نظام فیثا غورث سے غرض ہے نہ نظام بطلیموسی سے. اس مسئلے کو یاد رکھو. یہ بہت سی جگہ نفع دیگا.

Share

May 10, 2012

کوانٹم طبعیات اور ہگز بوسون

Filed under: تحقیق,عمومیات,مشاہدات — ابو عزام @ 7:49 pm

 اگر آپ نے راقم کی طرح نوے کی دہائ میں کالج اور جامعہ کی تعلیم مکمل کی ہو تو آپکو یاد ہوگا کہ ہمارے نصاب میں کوانٹم طبعیات کے بارے میں کچھ  زیادہ  تذکرہ نا ہوتا تھا ۔ذراتی طبعیات مں کوارکس کا ذکر تو سنا لیکن اس کی اسپن اور چارم سے کوئ خاص یاداللہ نہ ہو پائ۔ اگر آپ کا بھی یہی حال ہے تو حل حاضر ہے۔ اس ماہ  کا سائنٹفک امیرکن کا شمارہ راشد کامران سے مستعار لے لیں

اور اگر یہ ممکن نا ہو تو یہ چھوٹی سے ویڈیو جو پی ایچ ڈی کامکس والوں نےہگز بوسون ذرے پر بنائ ہے وہ دیکھ لیں،یقینا افاقہ ہوگا۔

Share

March 30, 2012

ٹیورنگ کی مشین

Filed under: تحقیق — ابو عزام @ 6:00 am

ایلن ٹیورنگ ایک برطانوئ ریاضی دان، منطقیات کا ماہر اور آج کی اصطلاح کے مطابق ایک  کمپیوٹر سائنسدان تھا۔ اس نے کمپیوٹر سائنس کی تخلیق و ترقی میں انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے۔ الگارتھم اور جدید کمپیوٹرائزڈ حسابیات کو ٹیورنگ مشین کی مدد سے حل کرنے کا نظریہ،  جسے نظریاتی کمپیوٹر سائینس کی اساس قرار دیا جاتا ہے، اسی کے ذہن کی پیداوار ہے۔

عمومی طور پر ٹیورنگ کا سب سے بڑا کارنامہ دوسری جنگ عظیم میں اتحادیوں کے لیے جرمنوں کے خفیہ پیغامات کو توڑنے کی مشین ایجاد کرنا سمجھا جاتا ہے۔ جرمنوں کے خفیہ پیغامات ارسال کرنے کے لیے کرپٹاگرافی کا سہارا لیا اور ایک مشین اینگما کے نام سے ایجاد کی جو کہ جنگی پیغامات کو خفیہ طور پر لکھ کر منزل مقصود پر اپنی غیر خفیہ حالت میں پڑھنے میں ممد و معاون ثابت ہوتی تھی۔ ٹیورنگ نے اپنی ذہانت سے اس خفیہ پیغام کو توڑا اور ایک مشین ایجاد کی جو کہ ایسے تمام خفیہ پیغامات کو توڑکر ان کی اصل شکل میں دکھا سکتی تھی۔ یہ ایجاد چونکہ دفاعی اہمیت کی حامل تھی لہذا اسے نہایت خفیہ رکھا گیا اورعرصہ دراز تک ایلن ٹیورنگ کا کام منظر عام پر نا آسکا۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے تن تنہا دوسری جنگ عظیم کو کم از کم دو سال مختصر کرنے میں مدد کی اور لاکھوں جانوں کو ضائع ہونے سے بچایا۔

ٹیورنگ کی مشہور زمانہ مشین یہ دوسری جنگ عظیم کی خفیہ کوڈ حل کرنے والی مشین نہیں بلکہ آپ کو یہ جان کہ حیرت ہوگی کہ ٹیورنگ کی مشین درحقیقت ایک نظریاتی مشین ہے، اس کے لاامتنہای ٹیپ کے تقاضے کی وجہ سے اس کو بنانا ممکن نہیں۔ لیکن ٹیورنگ نے نظریاتی طور پر ثابت کیا کہ ایک عمومی مشین سے مختلف النواع مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے۔ یہ مخصوص مشینوں کے دور میں ایک بہت بڑی بات تھی جب عمومی کام کی مشینوں کا کوئ تصور موجود نا تھا۔ اگر ٹیورنگ کے نظریے کو نکال دیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ اکاونٹنگ کے لئے ایک طرح کا کمپیوٹر ہوتا اور ورڈ پراسسنگ کے لئے دوسری طرح کا اور ڈیزائننگ کے لئے اور طرح کا۔ وان نیومین آرکیٹیکچر کی طرح ٹیورنگ مشین نے بھی  کمپیوٹنگ کی دنیا میں نہایت بنیادی تبدیلی لاتے ہوے سائنسدانوں کو اس سوچ پر قائل کیا کہ ایک عمومی مشین کا وجود ممکن ہے جو مختلف النواع کے کام کر سکتی ہے۔ یہیں سے پراگرام اور جنرل پرپس کپمیوٹر کی ابتدا ہوتی ہے۔

ٹیورنگ کی مشین دراصل اسٹیٹ مشین کی ایک قسم ہے۔ ایک ایسا نظریاتی کمپیوٹر جس میں لامحدود لمبائی کا ایک ٹیپ ہو، ایک عدد ہیڈ جو کہ دائیں اور بایئں ہل جل کر لکھ پڑھ  سکتا ہو٫ اس کی مدد سے آپ جمع، تفریق اور دیگر ریاضی کے کام، کیلکولس، شماریات، منطقی مسائل غرضیکہ ہر وہ کام جو کہ ‘پراگرام’ ہو سکتا ہو حل کر سکتے ہیں۔ درحقیقت یہ مشین جدید پراگرامنگ یا اس سے پہلے کے پنچ کارڈز کی ایک ابتدائ نظریاتی شکل تھی۔

مصنوعی ذہانت میں بھی ٹیورنگ کا کام نہایت اہمیت کا حامل ہے اور یہ کہنا غلط نا ہوگا کہ کمپیوٹر سائینس کی اس شاخ کی ایجاد کا سہرا ایلن ٹیورنگ کے سر ہی جاتا ہے۔ اس کا بنایا ہوا ٹیورنگ ٹیسٹ آج بھی مصنوعی ذہانت کی معراج مانا جاتا ہے۔ نیز ایلن ٹیورنگ کے نام پر قائم ٹیورنگ انعام جو اس سال جوڈیا پرل کو ملا ہے، کمپیوٹرسائنس کی دنیا کا نوبل انعام سمجھا جاتا ہے۔ ریڈیو لیب کا یہ پاڈکاسٹ ایلن ٹیورنگ کے تعارف کے زمن میں سننے سے تعلق رکھتا ہے۔

Share
Older Posts »

Powered by WordPress