ہم اُس قبیلہ وحشی کے دیوتا ہیں کہ جو
پجاریوں کی عقیدت پہ پھول جاتے ہیں
اور ایک رات کے معبود صبح ہوتے ہی
وفاپرست صلیبوں پہ جھول جاتے ہیں
فراز
ہم اُس قبیلہ وحشی کے دیوتا ہیں کہ جو
پجاریوں کی عقیدت پہ پھول جاتے ہیں
اور ایک رات کے معبود صبح ہوتے ہی
وفاپرست صلیبوں پہ جھول جاتے ہیں
فراز
ذکر بی بی سی اردو پر سنا، برادرم راشد کامران نے کتاب مستعار دی اور ہم نے پڑھی۔ مبارک حیدر صاحب کی اس تصنیف کو منفرد کہنا تو کسی لحاظ سے درست نا ہوگا کیونکہ انکے رقم کیے گیے شکوک شبہات نئے نہیں اور ان سے رسائل و مسائل، خطبات اور تنقیحات جیسی کتابوں میں خاصی بحث کی جا چکی ہے، صرف انداز بیاں میں واقعات کی ترتیب مختلف ہے، مرعوبیت کا وہی عالم ہے۔ ان چند ابتدائی سطروں سے شائد قاری کو لگے کہ میں ایک بلاگ برائے بطلان لکھنے لگا ہوں جو کہ مبارک حیدر صاحب کی کتاب کو تنقید برائے تنقید کا نشانہ بنائے گا، یہ بات حقیقت سے بعید تر ہوگی۔ اس کتاب کی کچھ باتوں مثلا ‘خود تنقیدی’ سے مجھے بھرپور اتفاق ہے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ امت مسلمہ کے لیے ضروری ہے کہ یہ وہ اپنے مسائل کا حل اپنی خامیوں اور کوتاہیوں میں تلاش کرے لیکن راقم کسی ایسے فرد کو جو نصوص قطعیہ کو اپنی مرعوبیانہ سوچ کا نشانہ بناے اوراساس دین و تحریک اسلامی کی بنیادوں پر ضرب لگانے کی سعی لا حاصل کرے، جواب دینا اپنی دینی اور آخلاقی ذمہ داری سمجھتا ہے۔ خود احتسابی کا عمل نہایت ضروری ، بحیثیت امت اور بحیثیت فرد لیکن صاحب کتاب نے جس بے دردی کے ساتھ دین اسلام کی بنیادی اساس یعنی اقامت دین اور ‘ان الدین عنداللہ السلام’ کو روندا اور اس کو نام نہاد تہذیبی نرگسیت کا موجب گردانا، راقم اس تقابل سے اختلاف رکھتا ہے کہ اپنے اعمال اور برگشتگیوں کی ذمہ داری دین الہیہ پر ڈالی جاے، صلاہ کو میکانیکی حرکات کا مجمعوعہ کہا جاے اور قران کی آیات و احکامات کو ناکافی مان کر اس کا تمسخر اڑایا جاے۔ صاحب کتاب یقینا ہمیں بھی ‘نرگسی’ خیال دیں گے لیکن یہ عبودیت ہے، نرگسیت نہیں۔ کسی ملامت کرنے والے کا خوف ایمان والوں کو اللہ کے دین کو بیان کرنے سے نہیں روک سکا اور نام نہاد ترقی پسند سوچیں جس اسلام کو ترقی سے نا مطابق یا ‘انکمپیٹبل’ سمجھتی ہیں انہیں اس سطحی سستی شہرت کے حصول کے لئے آیات الہیہ کا بلا سوچے سمجھے مذاق اڑانے کی کھلی چھٹی نہیں دی جا سکتی . احقر نا تو عالم ہے اور نا ادیب – تمام خامیاں میری اپنی ہیں اور تمام توفیق اللہ سبحان تعالی کی طرف سے. اس بلاگ پوسٹ کا انداز تقریری ہے اور شاید اردو ادب کے قواعد کو ناگفتبہ حالات سے بھی گزاراگیا ہو جس کے لیے میں معذرت خواہ ہوں۔ اصلاح کا طالب ہوں اور اللہ سبحان تعالی سے درگزر کا طلبگار
سوال یہ ہے کہ قرآن سے اتنا کھلا اختلاف رکھتے ہوئے آپ مسلمان کیسے رہ سکتے ہیں۔ اور مسلمان ہوتے ہوئے آپ قران سے اختلاف کیونکر کرسکتے ہیں۔؟ اگر آپ مسلمان ہیں تو قرآن سے اختلاف نہ فرمائیے اور اگر قرآن سے اختلاف کرنا چاہتے ہیں تو دائرہ اسلام سے باہر کھڑے ہوکر اختلاف کیجئے۔جو شخص کسی مذہب کے اصول اور احکام وقوانین سے مطمئن نہ ہو‘ جس کا دل ان کی صداقت پر گواہی نہ دیتا ہو جو ان کی علت و مصلحت کو سمجھنے سے عاجز ہو اور جس کے نزدیک ان میں سے بعض یا اکثر زبانیں قابل اعتراض ہوں ‘ اس کے لیے دو راستے کھلے ہوئے ہےں یا تو وہ مذہب سے نکل جائے ‘ پھر اس کو حق ہوگا کہ اس مذہب کے جس قاعدے اور جس حکم پرچاہے نکتہ چینی کرے یا اگر وہ اس عدم اطمینان کے باوجود اس مذہب میں رہنا چاہتا ہے تو اس کے خلاف مظاہرہ کرنے سے احتراز کرے اور مجتہد بن کر اس کے قواعد وضوابط پرتیشہ چلانے کے بجائے طالب علم بن کر اپنے شکوک وشبہات حل کرنے کی کوشش کرے۔ عقل و دانش کی رو سے تو اس حالت میں یہی دو طریقے ہوسکتے ہیں اور مرد عاقل جب کبھی ایسی حالت میں مبتلا ہوگا تو انہی میں سے کسی ایک طریقے کو اختیار کرے گا۔ لیکن فاضل مضمون نگار اور ان کی طرح بہت سے فرنگی تعلیم وتربیت پائے ہوئے حضرات کا حال یہ ہے کہ پہلا طریقہ اختیار کرنے کی اخلاقی جرات ان میں نہیں اور دوسرا طریقہ اختیار کرتے ہوئے انہیں شرم آتی ہے۔ اس لیے انہوں نے بیچ کا ایک غیر معقول طریقہ اختیار کررکھا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ ایک طرف مسلمانوں میں شامل بھی ہوتے ہیں۔ ترقی اسلام کی آرزو مند بھی بنتے ہیں‘ اسلام اور مسلمانوں کے درد میں تڑپتے بھی ہیں اور دوسری طرف اسلام کے خلاف وہ سب کچھ کہتے اور کرتے ہیں جو ایک غیر مسلم کہہ اور کرسکتا ہے۔ حدیث وفقہ تو درکنار قرآن تک پر نکتہ چینی کرنے سے باز نہیں رہتے اور ان تمام بنیادوں پر ضرب لگا جاتے ہیں جس پر اسلام قائم ہے
ان غلاموں کا یہ مسلک ہے کہ ناقص ہے کتاب
کہ سکھاتی نہیں مومن کو غلامی کے طریق
آپ کسی انگریزی تعلیم یافتہ شخص سے کسی مذہبی مسئلے پر گفتگو کیجئے اور اس کی ذہنی کیفیت کا امتحان لینے کے لیے اس سے مسلمان ہونے کا اقرار کرلیجئے پھر اس کے سامنے مجرو حکم شریعت بیان کرکے سند پیش کیجئے۔ وہ فوراً اپنے شانے ہلائے گا اور بڑے عقل پرستانہ انداز میں کہے گا کہ یہ ملائیت ہے‘ میرے سامنے عقلی دلیل لاﺅ‘ اگر تمہارے پاس معقولات نہیں صرف منقولات ہی منقولات ہیں تو میں تمہاری بات نہیں مان سکتا۔ بس انہی چند فقروں سے یہ راز فاش ہوجائے گا کہ اس شخص کو عقلیت کی ہوا بھی چھو کر نہیں گزری ہے‘ اس غریب کو برسوں کی تعلیم و تربیت علمی کے بعد اتنا بھی معلوم نہ ہوسکا کہ طلب حجت کے عقلی لوازم کیا ہےں اور طالب حجت کی صحیح پوزیشن کیا ہوتی ہ
اسلام کی تعلیم میں یہ قاعدہ اصل اور اساس کی حیثیت رکھتا ہے‘ وہ پہلے احکام نہیں دیتا بلکہ سب سے پہلے اللہ اور رسول پر ایمان لانے کی دعوت دیتا ہے۔ جتنی حجتیں ہیں‘ سب اسی ایک چیز پر تمام کی گئی ہیں۔ ہر عقلی دلیل اور فطری شہادت سے انسان کو اس امر پر مطمئن کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ خدائے واحد ہی اس کا الٰہ ہے اور محمد خدا کے رسول ہیں۔ آپ جس قدر عقلی جانچ پڑتال کرنا چاہتے ہیں‘ اس بنیادی مسئلہ پر کرلیجئے۔ اگر کسی دلیل اور کسی حجت سے آپ کا دل اس پر مطمئن نہ ہو تو آپ کو داخل اسلام ہونے پر مجبور نہیں کیا جائے گا اور نہ احکام اسلامی میں سے کوئی حکم آپ پر جاری ہوگا۔ لیکن جب آپ نے اس کو قبول کرلیا تو آپ کی حیثیت ایک ”مسلم“ کی ہوگئی اور مسلم کے معنی ہی مطیع کے ہیں۔ اب یہ ضروری نہیں کہ اسلام کے ہر ہر حکم پر آپ کے سامنے دلیل و حجت پیش کی جائے اور احکام کی اطاعت کرنے کا انحصار آپ کے اطمینان قلب پر ہو۔ مسلم بن جانے کے بعد آپ کا اولین فرض یہ ہے کہ جو حکم آپ کو خدا اور رسول کی طرف سے پہنچے بے چوں و چرا اس کی اطاعت میں سر جھکا دیں۔انما کان قول المومنین اذا دعو اِلی اللہ ورسولہ لیحکم بینھم ان یقولو سمعنا واطعنا (النور۔51)ایمان لانے والوں کا کام تو یہ ہے کہ جب ان کو اللہ اور رسول کی طرف بلایا جائے تاکہ رسول ان کے درمیان حکم کرے تو وہ کہیں کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی۔ایمان اور ایسی طلب حجت جو تسلیم و اطاعت کے لیے شرط ہو‘ باہم متناقض ہیں اور ان دونوں کا اجتماع صریح عقل سلیم کے خلاف ہے۔ جو مومن ہے وہ اس حیثیت سے طالب حجت نہیں ہوسکتا اور جو ایسا طالب حجت ہے‘ وہ مومن نہیں ہوسکتا۔
اگلے حصے میں ہم اس کتاب کی کچھ اصطلاحات اور ان کے غلط استعمال پر گفتگو کریں گے انشااللہ۔
مزید مطالعہ کے لئے دیکھیےعقلیت کا فریب سید ابولعلی مودودی ترجمان القرآن۔ شعبان ۱۳۵۳ھ۔ مارچ
میڈیا کی بے لگامی کو دیکھ کر بے اختیار دل سے نکلتا ہے کے
اتنی نہ برا پاکی دامان کی حکایت
کیا یہ کسی دو پیشہ وارانہ شعبہ جات کا انداز تکلم لگتا ہے ؟
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2010/04/100407_ali_salman_doctors.shtml
پچھلے سال جب موسم حج میں میں نے یہ تصویر لی تو اس وقت سوچا تھاکے اسکا بہترین عنوان یہی ہو سکتا ہے
مکمل نظم درج زیل ہے۔ کسی صاحب کو شاعر کا نام معلوم ہو تو ضرور بتاییں تاکہ شامل کر لیا جاے
زمیں پر نہیں قدم ہوا بھی ساتھ میں نہیں
گذرتے وقت کا کوئی سرا بھی ہاتھ میں نہیں
چلے ہیں لوگ پھر کدھر پہنچنا ہے کہیں اگر
تو نفرتوں کو پیار دو میرا وطن سنوا ر دو
یہ دل یہ جان وار دو میرا وطن سنوار دو
سجی ہیں افراتفریوں کی جھالروں سے مسندیں
نہ کچھ اصولِ سلطنت نہ اختیار کی حدیں
نظام سب الٹ گیا غبار سے جو اٹ گیا
وہ آئینہ نکھار دو میرا وطن سنوار دو
یہ دل یہ جان وار دو میرا وطن سنوار دو
کسی کی کمتری کو عزت و وقار کا نشہ
کسی کو زور و زر کسی کو اقتدار کا نشہ
نشے میں دھت تمام ہیں نشے تو سب حرام ہیں
یہ سب نشے اتار دو میرا وطن سنوار دو
یہ دل یہ جان وار دو میرا وطن سنوار دو
چُنے گئے تو جو گلاب خار خار ہو گئے
بُنے گئے تھے جتنے خواب تار تار ہو گئے
گلاب ہیں نہ خواب ہیں عذاب ہی عذاب ہیں
چمن کو پھر بہار دو میرا وطن سنوار دو
یہ دل یہ جان وار دو میرا وطن سنوار دو
حرم کو جائے گی اگر یہ راہگزر تو جاؤں گا
نہ جی سکا تو حق کے راستے میں مر تو جاؤں گا
کرے جو دین سے وفا چلے جو سوئے مصطفی
مجھے وہ شہسوار دو میرا وطن سنوار دو
یہ دل یہ جان وار دو میرا وطن سنوار دو
دراصل ہم اس بارے میں بڑے عرصے سے سوچتے آ رہے تھے کے پاکستانی سیاست میں بایاں بازو کافی عرصے سے غائب ہے . پھر اس بات پر توجہ ہوئی کہ درحقیقت صرف بایاں بازو ہی نہیں، عمومی طور پر ہماری سیاست شدید نظریاتی فقدان کا شکار ہے۔ سیانے کہا کرتے ہیں کہ جہاں دایاں یا بایاں بازو نہ ہو وہاں اڑان منجدھار کا شکار ہو جاتی ہے۔ قحط الرجال تو خیر بہت عرصے سے ہے، لوگ اب میڈیا کے بازیگروں کے تجزیے ( باتوں کی الٹیاں) سنننے کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ تبدیلی کی کوئی بات نقار خانے میں طوطی کی آواز کے مترادف ہوتی ہے . خیر گفتگو کچھ یوں تھی کے پاکستانی سیاست میں نظریاتی لوگ سواے ماودے چند افراد کے کوئی باقی نہ رہے. بدمعاشی اور غنڈہ گردی کے ساتھ اقربا پروری، جاگیردارانہ و زمیندارانہ طریقہ حکمرانی کا چلن ہے اورکوئی اس بات پر راضی نہیں کے سینہ ٹھونک کر قدامت پسندی کو للکارے اور کہے کہ ہاں میں ترقی پسند ہوں. ہمارے یہاں کا لبرل طبقہ رجعت پسندوں کو چھیڑنے سے گھبراتا ہے کے کہیں ایک عدد جیکٹ کا تحفہ نہ مل جاے۔ دینی طبقہ بھی کچھ اسی ڈر اور کچھ طبعی حلم اور شرافت کی وجہ سے انتہا پسندی کے خلاف بات کرنے سے خوفزدہ ہے؛ مزید براں یہ خوف بھی ہے کے کہیں یہی گم گشتہ راہ نجات نہ ہو اور اس کی مخالفت بعد ازاں مہنگی نہ پڑے!
وہ دن ہوا ہوے جب ٧٠ کی دہای میں لوگ سینہ تان کر سرخے ہوا کرتے تھے ؛ انہی حالات میں باطل کو باطل اور حق کو حق کہنے کا مزہ آتا ہوگا. اب جب سیاست، نظریات الگ ہو کر صرف مفادات کا ملغوبہ رہ جاے، جب ‘ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان’ کو اپنے فارم میں ‘توہین رسالت’ کے قانون کو اردو میں بھی ‘بلاسفیمی لا’ لکھنا پڑے کہ اس قانون سے متفق نا ہونا رکنیت کی شرط ہے مگر اردو میں لکھنا خلاف مصلحت ہے،اور جب تحریکی لوگ اپنی زبانوں کو انتہا پسندی کی خلاف مقفل کر لیں تو پھر بس یہی پکاریں آ سکتی ہیں کے خدا کے لئے پنجاب میں حملے نہ کریں.
تو عزیزم میرے کہنے کا برا مت مانیے مگر جب آپ اگلی مرتبہ کوئی باتوں کی الٹیوں کا پروگرام دیکھیں تو ان تجزیہ نگاروں کا قبلہ متعین کرنے کی کوشش کریں. تبدیلی نظام کی بات کرنے والے لوگ کیا صرف باتیں بگھارتےہیں یا متبادل بھی پیش کرتے ہیں. کیا اپنے پروگرام کے چوراہوں کی ریٹنگس سے بڑھ کر بھی کوئی مقصد ہے یا یہ باتوں کا خیالی پلاؤ صرف رٹائرڈ جنرل کی آمد کا خرچہ پورا کرنے کے کام آ رہا ہے؟ راقم کا ماننا ہے کہ تبدیلی اس وقت ممکن ہو سکتی ہے جب لوگ یہ جانیں کے وہ کیا چاہتے ہیں . دو جماعتی نظام گو کہ بہت سی خامیوں سے مبرّا نہیں لیکن آپ کم از کم ایک منشور اور میلان کے حامل لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکھٹا کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ یہ کہ سکتے ہیں کے اگر تم رجعت پسند ہو، مذہبی رجحان رکھتے ہو، ٹیکسوں کے خلاف ہو، اپنےٹیکس کا پیسا اسقاط حمل پر نہیں خرچ کرنا چاہتے،مفادات کے لیے جنگ کے حامی ہو، سرمایہ دارانہ نظام کے حامی ہو اور دنیا پرامریکی بالادستی چاہتے ہو تو تمہارا مسکن ریپبلکن پارٹی ہے. اور دوسری طرف ڈیموکریٹس جو اچھائی اور معاشرے کو انفرادی طور پر جانچنے کے بجاےوسیع تر معاشرتی اقدار کےقایل ہیں، جو لوگوں پرٹیکس لگا کر معاشرتی کاموں پر خرچ کرنا چاہتے ہیں، اور تمام لوگوں کو بلا جنس و نسل و رنگ و جنسی رجحانات کے ایک جیسے حقوق دینے کے حامی ہیں لیکن آزاد روی کی یہ روش قدامت پسندی اور مذہب کے نظریات سے واضح اختلاف رکھتی ہے۔ اب یہاں بھی ایسا نہیں ہے کےتفریق بہت واضح ہے. بعض لوگ ڈیموکرٹس کے معاشرتی منشور سے تو متفق ہوتے ہیں مگر انکا ٹیکس لگانے انہیں بہت کھلتا ہےلیکن کم از کم ووٹ دیکر تبدیلی لانے کا رجحان موجود ہے اور سب سے اہم بات اکثر لوگ کم و بیش جانتے ہیں کے وہ کیا چاہتے ہیں. بہت ممکن ہے کہ وہ افلاطونی انداز میں اسکو نا پیش کر سکیں مگر یہ بمپر اسٹیکر کہ ‘جیزز واز ناٹ اے چوواس’ بہت کچھ کہ دیتا ہے۔
میں بنیادی طور پر نظریات کو داہنے یا بایں بازو کےڈبوں میں قید کرنے کا حامی نہیں لیکن نظام کی تبدیلی کے لئے رہ متعین کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور آج پاکستان کی بیشتر جماعتوں کا منشور آپکو اس بات پر دلالت کرتا نہیں ملے گا کے انکی خارجہ پالیسی کا کیا محور ہے،. ٹیکسوں کا کیا سلسلہ ہوگا، شرح نمو اور برآمدات کے لیے کیس پالیسی پر عمل کیا جاے گا؟ کیا نفرت پھیلانے والے مذہبی لیڈران کے ساتھ انتخابی مہم چلای جاے گی یہ پھر نتایج کی پروہ کیے بغیر ان پر گرفت سخت کی جاے گی. ہر دین اپنی بالادستی چاھتا ہے چاہے وہ دین اسلام ہویا آزاد خیالی اور لبرلزم کا دین ہو، آپ کس دین کو نافذ کریں گے؟ ملک کا نظام تلپٹ ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں اورایک بنیادی وجہ ہے نظریاتی سیاست کا فقدان اور حل ہے اس کی بحالی ؛ یہیں میری گزارش تمام ہوتی ہے.
اب اس بات سے ہمیں کوئی بغض نہیں کے کوئی کالعدم تنظیموں کے ساتھ اٹھے بیٹھے یا کوئی اپنی ہم وطنوں کو غیروں کے ہاتھ بیچے یا ملک کو لوٹ لوٹ کر کھاے، بھاری ٹیکس لگاے یا روٹی کپڑے کا نعرہ لگا کر سرمایا داروں کی گود میں جا بیٹھے. ہم تو بس یہ کہتے ہیں کے ہمیں بتا دو تمہارا منشوراور میلان کیا ہے اور بقیہ فیصلہ ہم پر چھوڑ دواگر تمہارا پچھلا ریکارڈ تمہارے منشور کا آینہ دار ہے تو ہمارا ووٹ آپکا۔ اور ہمیں فیصلہ کرنے دو، ایمانداری کی ساتھ.،
باقی یار زندہ صحبت باقی
دوستوں کے بے حد اصرار اور کمپنی کی مشہوری کے لیے اردو میں بلاگ لکھنے کا آغاز کیا گیا ہے تو سوچا کہ ابتدا اس شگفتہ تحریر سے کرتے ہیں جو ہم نے اپنے ایک لنگوٹیا دوست کے رد میں لکھی تھی۔ امید ہے آپ کو پسند آے گی۔
مبین میاں. سدا خوش رہو۔ اوپر تمہارا عنایت نامہ پڑھ کر ڈھیروں خون بڑھ گیا کہ دروغ گوی اور بہتان طرازی میں ابھی بھی تمہیں وہی ملکہ حاصل ہے جو آج سے پندرہ برس پہلے تھی۔ راقم تمہاری ہجو لکھنا چاہتا ہے مگر پارلیمانی الفاظ میں اس سلسلہ سخن گاہی سے مہجور ہے کہ خامہ ساتھ نہ دے اور ناہنجار و نامعقول جیسے القابات اس کیفیت کا عشر عشیر بھی بیان نہ کرسکیں جو تمہاری یاوہ گوی نے راقم پر وارد کی۔ بہرحال یہ کہنا کافی ہوگا کہ بہتان طرازی اولمپک کا کھیل ہوتا تو آج پاکستان کے پاس کم از کم ٣٠ گولڈ میڈل ہوتے۔ اگر دروغ گوی جامعہ کراچی کا کوی شعبہ ہوتا تو آج آپ اسکے رئیس الشعبہ ہوتے بلکہ شیخ الجامعہ ہوتے۔ تمہیں دیکھ کرتوجھوٹوں کا جھوٹا سابق صدر بش بھی کہے، چل جا جھوٹے!
ارے میاں حد ہوتی ہے، شرم تم کو مگر نہیں آتی ، یعنی کہ غضب خدا کا،
تو میرے ہم پیالہ و ہم مشرب عزیزو، اب راقم پر لازم ہے کہ اس دروغ گوی و بہتان طرازی و افترا پردازی کی حقیقت سے پردہ اٹھاے اور قصہ رقم کرے کہ سند رہے اور وقت ضرورت کام آے۔
قصہ مسعود علی شاہ نظامی کے ازار بند کا
اب آغاز قصے کا کرتا ہوں، ذرا کان دھر کر سنو اور مصنفی کرو۔ سیر میں چہار درویش کے یوں لکھا ہے اور کہنے والے نے کہا ہے کہ شہر کراچی میں پیر الہی بخش کالونی کے ہال میں محفل میلاد منعقد تھی۔ تو میرے ہم پیالہ و ہم مشرب عزیزو من کہ ایک ناہنجار قسم کا رفیق مرد ہوا کرتا تھا مبین احمد مینای جس کے دو نہایت شریف النفس ، خدا ترس، کریم الطبع، پاکیزہ اخلاق کے حامل دوست عدنان مسعود اور مسعود علی شاہ بھی اس محفل میں شریک تھے۔ اب بربناے عمر شغل طفلانہ یہ سوجھا کہ جب کسی مقرر یا مدح خواں کو مسند پر بلایا جاے تو اس کے جانے کا سارے راستے مسدود کیے جایں اور ہر ممکن کوشش کی جاے کہ تاخیر ہو تاکہ احباب کو اس شرارت سے طمانیت اور اطمینان قلب حاصل ہو اور جلدی کے ضمن میں مقررکی بوکھلاھٹ دیدنی ہو۔ بہرحال۔ ان پاکیزہ خیالات کے تانے بانے باندھتے ہوے جب ھمدم دیرینہ مسعود علی شاہ کا نام پکارا گیا تو ہم نے جھٹ ان کا ہاتھ پکڑ لیا .دھول دھپا اس سراپا ناز کا شیوا نہیں لیکن خیر انھوں نے دیکھا کہ جب عاجزی و انکساری اور دھمکیوں سے کچھ کام نا چلے تو زور لگا کر ہاتھ چھڑایا اور لگے بھاگنے اسٹیچ کی طرف۔ ہم نے آو دیکھا نا تاو، بھاگتے چور کی لنگوٹھی ہی سہی کے مصداق ان کے دامن پر ہاتھ ڈالا جو ان کی پھرتی کی بنا پر ان کے پاجامہ پر جا پڑا، اب نادانستگی میں ہم نے انھیں روکنے کی کوشش کی تو ۔۔۔ پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔
دامن کو زرا دیکھ زرا بند قبا دیکھ
احقر کے دفاع اب کوئی ہمیں بتاے کہ ساتویں جماعت میں پاچامے میں لاسٹک پہن کر بھلا کون آتا ہے ؟ بہرحال، مشرقی دامن کی وسعت نے پاکی داماں کی حکایت کو برقرار رکھا، ان کا پردہ رہ گیا اور محترم اپنا پاجامہ درست کرتے ہوے اسٹیج کی طرف بھاگے۔ پھر اسکے بعد عرصہ دراز تک عالم یہ رہا کہ
تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا
تو یہ ہے عزیزان من حقیقت حال۔ سبق بپتا سے مگر کسونے نا پایا، ناہنجار مبین نے راز فاش کیا اور پردہ نہ رکھا لہذا کمبخت کے این سی ایے کے قصےدرویش کا ادھار – یار زندہ صحبت باقی
Powered by WordPress