فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

April 13, 2010

اردو بلاگران کے نام

Filed under: عمومیات — ابو عزام @ 8:54 am

ہم اُس قبیلہ وحشی کے دیوتا ہیں کہ جو
پجاریوں کی عقیدت پہ پھول جاتے ہیں
اور ایک رات کے معبود صبح ہوتے ہی
وفاپرست صلیبوں پہ جھول جاتے ہیں

فراز

Share

April 12, 2010

تہذیبی نرگسیت -ایک تہذیبی مرعوب کی سرگذشت کا اصولی جواب – حصہ اول

Filed under: عمومیات — ابو عزام @ 1:38 am

ذکر بی بی سی اردو پر سنا، برادرم راشد کامران نے کتاب مستعار دی اور ہم نے پڑھی۔ مبارک حیدر صاحب کی اس تصنیف کو منفرد کہنا تو کسی لحاظ سے درست نا ہوگا کیونکہ انکے رقم کیے گیے شکوک شبہات نئے نہیں اور ان سے رسائل و مسائل، خطبات اور تنقیحات جیسی کتابوں میں خاصی بحث کی جا چکی ہے، صرف انداز بیاں میں واقعات کی ترتیب مختلف ہے، مرعوبیت کا وہی عالم ہے۔ ان چند ابتدائی سطروں سے شائد قاری کو لگے کہ میں ایک بلاگ برائے بطلان لکھنے لگا ہوں جو کہ مبارک حیدر صاحب کی کتاب کو تنقید برائے تنقید کا نشانہ بنائے گا، یہ بات حقیقت سے بعید تر ہوگی۔ اس کتاب کی کچھ باتوں مثلا ‘خود تنقیدی’ سے مجھے بھرپور اتفاق ہے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ امت مسلمہ کے لیے ضروری ہے کہ یہ وہ اپنے مسائل کا حل اپنی خامیوں اور کوتاہیوں میں تلاش کرے لیکن راقم کسی ایسے فرد کو جو نصوص قطعیہ کو اپنی مرعوبیانہ سوچ کا نشانہ بناے اوراساس دین و تحریک اسلامی کی بنیادوں پر ضرب لگانے کی سعی لا حاصل کرے، جواب دینا اپنی دینی اور آخلاقی ذمہ داری سمجھتا ہے۔ خود احتسابی کا عمل نہایت ضروری ، بحیثیت امت اور بحیثیت فرد لیکن صاحب کتاب نے جس بے دردی کے ساتھ دین اسلام کی بنیادی اساس یعنی اقامت دین اور ‘ان الدین عنداللہ السلام’ کو روندا اور اس کو نام نہاد تہذیبی نرگسیت کا موجب گردانا، راقم اس تقابل سے اختلاف رکھتا ہے کہ اپنے اعمال اور برگشتگیوں کی ذمہ داری دین الہیہ پر ڈالی جاے، صلاہ کو میکانیکی حرکات کا مجمعوعہ کہا جاے اور قران کی آیات و احکامات کو ناکافی مان کر اس کا تمسخر اڑایا جاے۔ صاحب کتاب یقینا ہمیں بھی ‘نرگسی’ خیال دیں گے لیکن یہ عبودیت ہے، نرگسیت نہیں۔ کسی ملامت کرنے والے کا خوف ایمان والوں کو اللہ کے دین کو بیان کرنے سے نہیں روک سکا اور نام نہاد ترقی پسند سوچیں جس اسلام کو ترقی سے نا مطابق  یا ‘انکمپیٹبل’ سمجھتی ہیں انہیں اس سطحی سستی شہرت کے حصول کے لئے آیات الہیہ کا بلا سوچے سمجھے مذاق اڑانے کی کھلی چھٹی نہیں دی جا سکتی  .  احقر نا تو عالم ہے اور نا ادیب – تمام خامیاں میری اپنی ہیں اور تمام توفیق اللہ سبحان تعالی کی طرف سے. اس بلاگ پوسٹ کا انداز تقریری ہے اور شاید اردو ادب کے قواعد کو ناگفتبہ حالات سے بھی گزاراگیا ہو جس کے لیے میں معذرت خواہ ہوں۔ اصلاح کا طالب ہوں اور اللہ سبحان تعالی سے درگزر کا طلبگار

تہذیبی نرگسیت

تہذیبی نرگسیت

اس تحریر کے اس حصہ سے ہمارا منشا ہے کہ اس بات پر اتمام حجت کیا جاے کہ ‘تہذیبی نرگسیت’ اور عبوبیت دو علیہدہ چیزیں ہیں اور اقامت دین کے لیے اگر کوئی رب کی بندگی کا حق بجا لاے تو اس کی کوتاہیوں پر پکڑ تو بجا اور احتساب لازم لیکن امت کی بشری غلطیوں  کو خالق کی کتاب کی خامی  اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی آفاقی تعلیمات کی کمی پر محمول کرنا بڑی بد نصیبی ہوگی۔ مبارک حیدر کی یہ تصنیف صاف اور کھلے انداز میں‌ تحریک اسلامی کی فکری اساس پر تنقید کرتی نظر آتی ہے جس کی ‘براے تعمیر’ کاوش پر شائد وہ مبارکباد کے مستحق ٹھرتے اگر یہ کتاب تضاداد کا مجموعہ نہ ہوتی۔ پہلا اور بنیادی سوال فریمورک یا ضابطے کا ہے کہ یہ کتاب کس حیثیت میں لکھی جا رہی ہے۔ بحیثیت مسلمان ہمارا عقیدہ ہے کہ قران اللہ (سبحانہ و تعالی)کی کتاب ہے اور کسی بھی نقص اور خامی سے پاک ہے-
ذالک الکتاب لا ریب فیہ

۔ اس کے آحکامات اسی ذات باری کی طرف سے ہیں جس نے انسان کو پیدا کیا اوروہ اسکی فطرت کو سب سے بہتر جانتا ہے۔ جناب مبارک حیدر لکھتے ہیں
تہزیبی نرگسیت

تہزیبی نرگسیت

تو لہذا اگر اساس دین’لا ریب فی’ آپ کا یہ ایمان نہٰیں، اس کتاب کی کچھ باتیں آپکی روشن خیالی سے ٹکراتی ہیں‌اور آپ برسر عام اس کے قوانین کو دنیاوی قوانین سے ہیچ جانتے ہیں تو ٹھیک ہے، کسی ناقص کتاب کے ماننے، اس کتاب کے خالق اور پہنچانے والے اور اس کے اتباع میں جان لٹانے والوں پر ‘صلی اللہ علیہ وسلم’ اور ‘رضی اللہ تعالی عنہ’ لکھنا چہ معنی؟ آپ ان لوگوں میں سے ہیں جو کہ  خود بدلتے نہیں قران کو بدل دیتے ہیں ۔ ہم آپ کے آختلافی حق کو تسلیم کرتے ہیں لیکن اب آپکی بات اس حیثیت سے سننی جاے گی کہ آپ الہامی پیغام میں‌تبدیلی کے قائل اور نقص کے حامی ہیں۔ میں  مبارک صاحب کو دائرہ اسلام سے خارج کرنے کی قطعی کوشش نہیں کر رہا، ان کا ایمان انکے اور انکے رب کے درمیان ہے اور بقول ابن انشا، اب اس دائرہ میں لوگ داخل کم اور نکالے زیادہ جاتے ہیں، میرا مقصد یہاں بنیادی اصطلاحات ‘پری ریکوزیٹس’ متعین کرنا ے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی فرد روزے پر بات کرنا چاہے اور مانتا ہو کہ  خدا دوہیں تو یہ بات لا حاصل ہوگی ۔ اگر آپ اللہ کی کتاب اور اسکے قوانین پر انسانی قوانین کو افضل سمجھتے ہیں تو یہ بات اب ایمان بالغیب اور ربوبیت کی اسناد متعین کرنے سے نا ہو پاے گی کیونکہ اگر مقدس صحیفہ اللہ کا کلام نہیں بلکہ ارتقا کی منزل کا ایک زینہ ہے پھر محراب و ممبر کی گزارش چہ مانند۔
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلامَ دِينًا
سورة المائدة – سورة 5 – عدد آياتها 120
“آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو بحیثیت دین پسند کر لیا “

مبارک حیدر صاحب نا تو پہلے فرد ہیں اور نا ہی آخری ہونگے جنہوں نے اس موضوع پر قلم اٹھایا۔ اس کی ایک مثال ۔ شعبان ۱۳۵۳ھ۔ کی مولانا مودودی کی تحریر ہے جو ایک ایسے ہی بے سروپا اعتراضات کے جواب میں لکھی گئی تھی اور اس مظمون کے آخر میں مکمل متن موجود ہے۔ اس کا ایک چھوٹا سا اقتباس یہ ہے
سوال یہ ہے کہ قرآن سے اتنا کھلا اختلاف رکھتے ہوئے آپ مسلمان کیسے رہ سکتے ہیں۔ اور مسلمان ہوتے ہوئے آپ قران سے اختلاف کیونکر کرسکتے ہیں۔؟ اگر آپ مسلمان ہیں تو قرآن سے اختلاف نہ فرمائیے اور اگر قرآن سے اختلاف کرنا چاہتے ہیں تو دائرہ اسلام سے باہر کھڑے ہوکر اختلاف کیجئے۔
جو شخص کسی مذہب کے اصول اور احکام وقوانین سے مطمئن نہ ہو‘ جس کا دل ان کی صداقت پر گواہی نہ دیتا ہو جو ان کی علت و مصلحت کو سمجھنے سے عاجز ہو اور جس کے نزدیک ان میں سے بعض یا اکثر زبانیں قابل اعتراض ہوں ‘ اس کے لیے دو راستے کھلے ہوئے ہےں یا تو وہ مذہب سے نکل جائے ‘ پھر اس کو حق ہوگا کہ اس مذہب کے جس قاعدے اور جس حکم پرچاہے نکتہ چینی کرے یا اگر وہ اس عدم اطمینان کے باوجود اس مذہب میں رہنا چاہتا ہے تو اس کے خلاف مظاہرہ کرنے سے احتراز کرے اور مجتہد بن کر اس کے قواعد وضوابط پرتیشہ چلانے کے بجائے طالب علم بن کر اپنے شکوک وشبہات حل کرنے کی کوشش کرے۔ عقل و دانش کی رو سے تو اس حالت میں یہی دو طریقے ہوسکتے ہیں اور مرد عاقل جب کبھی ایسی حالت میں مبتلا ہوگا تو انہی میں سے کسی ایک طریقے کو اختیار کرے گا۔ لیکن فاضل مضمون نگار اور ان کی طرح بہت سے فرنگی تعلیم وتربیت پائے ہوئے حضرات کا حال یہ ہے کہ پہلا طریقہ اختیار کرنے کی اخلاقی جرات ان میں نہیں اور دوسرا طریقہ اختیار کرتے ہوئے انہیں شرم آتی ہے۔ اس لیے انہوں نے بیچ کا ایک غیر معقول طریقہ اختیار کررکھا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ ایک طرف مسلمانوں میں شامل بھی ہوتے ہیں۔ ترقی اسلام کی آرزو مند بھی بنتے ہیں‘ اسلام اور مسلمانوں کے درد میں تڑپتے بھی ہیں اور دوسری طرف اسلام کے خلاف وہ سب کچھ کہتے اور کرتے ہیں جو ایک غیر مسلم کہہ اور کرسکتا ہے۔ حدیث وفقہ تو درکنار قرآن تک پر نکتہ چینی کرنے سے باز نہیں رہتے اور ان تمام بنیادوں پر ضرب لگا جاتے ہیں جس پر اسلام قائم ہے
تہذیبی مرعوبیت کے شکار افراد جو اسلام کو ‘ماڈرنایز’ کرنا چاہتے ہیں بہت سے مختلف رنگوں میں پاے جاتے ہیں۔ ان کی کچھ اقسام مندرجہ زیل ہیں
۔١. خود بدلتے نہیں قران کو بدل دیتے ہیں – کچھ وہ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ یہ قرون اولی کی کہانیاں ہیں اورانکا جدید دور میں کیا کام اور کچھ وہ ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ جب اللہ تبارک تعالی نے زنا کی سزا مقرر فرمائ تو وہ ایک پرانے دور کے لیے تھی، ماڈرن انسان اب ان بربریت کی سزاوں کا مستحق نہیں..

ان غلاموں کا یہ مسلک ہے کہ ناقص ہے کتاب
کہ سکھاتی نہیں مومن کو غلامی کے  طریق

٢. ۔ان میں ایسے بہتیرے لوگ ہیں جو انوع تہذیب سے بہت متاثر ہیں، جو اسلام کو ہزاروں دیگر تہذیبوں میں سے صرف ایک تہذیب سمجھتے ہیں جس کا ‘درست’ ہونا یا نا ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا بلکہ یہ تو صرف افراد کا مجمعوعہ اور تحریک تھی جو اپنے وقت پر اٹھی، عروج پایا اور زوال کا شکار ہو گئی، اب اسکی باقیات ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ رومن سلطنت اوربلادحرمین ویٹیکن کا درجہ حاصل کرلے گا۔
٣.   ان مرعوب لوگوں میں مادی اور تخلیقی انداز میں سہمے لوگ بھی ہیں جو یہ سوچتے ہیں کہ لاس اینجلس، نیویارک، سڈنی، لندن یا ٹوکیو ڈاون ٹاون کی رنگینیاں، ان شہروں کا امن و سکون، اس کے لاکھوں باسی جنھوں نے کبھی اپنے حقیقی رب کا نام بھی نہیں سنا کس وجہ سے اتنے ترقی یافتہ ہیں، کیا انسان کو دین کی کوئی ضرورت ہے؟اسکے جواب میں ہی  انکے رب نے فرما دیا کے
40:4] نہیں جھگڑا کرتے اللہ کی آیات میں مگر وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا۔ سو دھوکے میں نہ ڈالے تمہیں ان کی چلت پھرت ملکوں میں۔
اگر ہمیں مٹی میں‌ مل جانا ہے تو یہ عبادات و اعتقادات کس کام کہ۔ ساوتھ امریکہ میں کروڑوں لوگ بستے ہیں، برازیل کیا سارا کا سارا جھنم میں جانے والا ہیں، کیسی باتیں کرتے ہو؟
٤ .۔ جن لوگوں کے لیے یہ تمام الحاد کی شیطانی فتنہ پردیزیاں اتنی آسانی سے ایمان کو ڈانوں ڈول نہیں کرتیں، وہ اپنے آپ کو ماڈرن مجدد کے فتنے میں پاتے ہیں۔ (اگر آپ اپنے آپ کو یہ کہتا پاتے ہیں کہ شیطان، فتنہ۔۔۔یہ کس قسم کی باتیں ہیں؟ علمی دلائل سے بات کریں جناب۔ تو محترم، میں یہ جواب منالحیث مسلم لکھ رہا ہوں اور چاھے یہ فرشتے، شیاطین، وسوسے اور خدا کا تصور آپکو کتنا ہی بعید القیاس لگے، میں اس پر اسی شدت سے ایمان رکھتا ہوں جتنا کہ اپنے رب کےعطا کردہ حواس خمسہ پر بلکہ اس سے کہیں زیادہ۔)۔ فتنہ ماڈرن  مجدد کیا ہے، وہ یہ ہے کہ ماڈرنایزیشن کو احیا دین بنا کر لاگو کرنے کی کوشش کی، جیو اور جینے دو کی پالیسی اپنائی جاے اور لبرل سوچ کی موجودہ تحاریک اور قوانین سے اسلام کو ہم آہنگ کیا جاے۔
ان تمام لوگوں نے اپنے دین اور اپنے رب کو بہت چھوٹا جانا اور اسکی قدر نا کی جیسا کہ اسکی عبودیت کا حق تھا۔
آپ کسی انگریزی تعلیم یافتہ شخص سے کسی مذہبی مسئلے پر گفتگو کیجئے اور اس کی ذہنی کیفیت کا امتحان لینے کے لیے اس سے مسلمان ہونے کا اقرار کرلیجئے پھر اس کے سامنے مجرو حکم شریعت بیان کرکے سند پیش کیجئے۔ وہ فوراً اپنے شانے ہلائے گا اور بڑے عقل پرستانہ انداز میں کہے گا کہ یہ ملائیت ہے‘ میرے سامنے عقلی دلیل لاﺅ‘ اگر تمہارے پاس معقولات نہیں صرف منقولات ہی منقولات ہیں تو میں تمہاری بات نہیں مان سکتا۔ بس انہی چند فقروں سے یہ راز فاش ہوجائے گا کہ اس شخص کو عقلیت کی ہوا بھی چھو کر نہیں گزری ہے‘ اس غریب کو برسوں کی تعلیم و تربیت علمی کے بعد اتنا بھی معلوم نہ ہوسکا کہ طلب حجت کے عقلی لوازم کیا ہےں اور طالب حجت کی صحیح پوزیشن کیا ہوتی ہ

ایسے لوگ مزید براں بے پرکی تاویلات سے نتایج اخذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو کہ علمی دیوالیہ کا ثبوت دیتا ہے۔ مثلا وہ یہ کہتے نہیں چوکتے کہ خود تنقیدی کی تحریک اسلامی میں مثال نہیں ملتی لیکن خلافت و ملوکیت کا تذکرہ چھوڑ دیتے ہیں۔ کتمان حق یا علم چھپانے کا یہ عالم ہے کہ فروعات و سنن کی دلیلوں کو نصوص پر لگاتے ہیں اور اپنی باتوں کا لوہا منوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے لوگ شاید اپنی بات کے زور میں یہ بات بھول جاتے ہیں کہ اختلاف راے کو اسلام نے پسند کیا۔ صحابہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی راے سے اختلاف کیا جو یہ ثابت کرتا ہے کہ ذاتی راے سے اگر وہ وحی نہ ہو اختلاف کرنے میں کوئی مضایقہ نہیں اور جیسا کہ مبارک صاحب نے خود بھی لکھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی راے کو پسند فرمایا۔ اسلام اختلاف راے کے خلاف نہیں، نا ہی اجتہاد کا دروازہ بند کرتا ہے لیکن یہ اصول سمجھ لینا چاھیے کہ نصوص قطعیہ میں نا تو اجتہاد ہے اور نا ہی اس میں مسلمان کے لیے اختلاف کی گنجایش ہے۔
انما کان قول المومنین اذا دعو اِلی اللہ ورسولہ لیحکم بینھم ان یقولو سمعنا واطعنا (النور۔51)
ایمان لانے والوں کا کام تو یہ ہے کہ جب ان کو اللہ اور رسول کی طرف بلایا جائے تاکہ رسول ان کے درمیان حکم کرے تو وہ کہیں کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی۔
مثلا رمضان کا روزہ ہر صحتمند مسلمان پر فرض ہے، اب دنیا کا کوئی فقیہ اس حکم کو تبدیل نہیں کرسکتا۔ یہی فقہی اصول قران کریم کے تمام احکامات پر لاگو ہوتا ہے۔ اگر یہ بندش آپ کو بری لگے تو مسلمان کہلانا یعنی مطیع ہونے کے کیا معنی ہیں؟ اسلام کی بنیاد اللہ اور رسول پر ایمان ہے، سید ابولعلی مودودی تنقیحات میں لکھتے ہیں
اسلام کی تعلیم میں یہ قاعدہ اصل اور اساس کی حیثیت رکھتا ہے‘ وہ پہلے احکام نہیں دیتا بلکہ سب سے پہلے اللہ اور رسول پر ایمان لانے کی دعوت دیتا ہے۔ جتنی حجتیں ہیں‘ سب اسی ایک چیز پر تمام کی گئی ہیں۔ ہر عقلی دلیل اور فطری شہادت سے انسان کو اس امر پر مطمئن کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ خدائے واحد ہی اس کا الٰہ ہے اور محمد خدا کے رسول ہیں۔ آپ جس قدر عقلی جانچ پڑتال کرنا چاہتے ہیں‘ اس بنیادی مسئلہ پر کرلیجئے۔ اگر کسی دلیل اور کسی حجت سے آپ کا دل اس پر مطمئن نہ ہو تو آپ کو داخل اسلام ہونے پر مجبور نہیں کیا جائے گا اور نہ احکام اسلامی میں سے کوئی حکم آپ پر جاری ہوگا۔ لیکن جب آپ نے اس کو قبول کرلیا تو آپ کی حیثیت ایک ”مسلم“ کی ہوگئی اور مسلم کے معنی ہی مطیع کے ہیں۔ اب یہ ضروری نہیں کہ اسلام کے ہر ہر حکم پر آپ کے سامنے دلیل و حجت پیش کی جائے اور احکام کی اطاعت کرنے کا انحصار آپ کے اطمینان قلب پر ہو۔ مسلم بن جانے کے بعد آپ کا اولین فرض یہ ہے کہ جو حکم آپ کو خدا اور رسول کی طرف سے پہنچے بے چوں و چرا اس کی اطاعت میں سر جھکا دیں۔
انما کان قول المومنین اذا دعو اِلی اللہ ورسولہ لیحکم بینھم ان یقولو سمعنا واطعنا (النور۔51)
ایمان لانے والوں کا کام تو یہ ہے کہ جب ان کو اللہ اور رسول کی طرف بلایا جائے تاکہ رسول ان کے درمیان حکم کرے تو وہ کہیں کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی۔
ایمان اور ایسی طلب حجت جو تسلیم و اطاعت کے لیے شرط ہو‘ باہم متناقض ہیں اور ان دونوں کا اجتماع صریح عقل سلیم کے خلاف ہے۔ جو مومن ہے وہ اس حیثیت سے طالب حجت نہیں ہوسکتا اور جو ایسا طالب حجت ہے‘ وہ مومن نہیں ہوسکتا۔
اگر اس دنیا میں لوگوں کو مذہب اسلام کے ماننے یا نا ماننے پر منقسم کرنا ہو تو اس کی دو طرح سے تقسیم ہو سکتی ہے۔
اولا – وہ لوگ جواپنے آپ کو مسلمان کہتے  ہوں
دوم – وہ لوگ جو اپنے آپ کو مسلمان کے علاوہ کچھ اور کہتے ہو ں یا وہ لوگ جن تک اسلام کا پیغام نہیں پہنچا
اگر آپ اپنے آپ کو اول درجہ میں گردانتے ہیں تو دوم طبقے کے لیے دعوت و تبلیغ آپ کا فریضہ ٹھرا۔
نیز اگر آپ اسلامی نظام کو ‘ضابطہ حیات’، اللہ مالک کائینات کی طرف سے نازل کردہ نظام سمجھتے ہیں جسے قران کے مطابق پوری جنس دین پرغالب کرنا خالق کی مشیت ٹھری تو آپ کی بے قراری کا کیا عالم ہوگا کہ آپ اس دین کو نافذ کرنے کے لیے تن من دھن سے قربانیاں دیں اور لوگوں کو آتش دوزغ سے بچانے کے لیے ہر وقت بے قرار رہیں۔ اگر آپ ان لوگوں میں نہیں تو ذیادہ تر امکان یہ ہے کہ اس کی وجہ ایمان کی کمزوری اور کسالہت ہے کہ آپ نے اس نہایت اہم کام اقامت دین کو اپنی زندگی کی ترجیحات میں شامل نہ کیا۔ اللہ آپ کو اسکی توفیق دے۔ بدترین درجہ ان افراد کا ہے جو اہلیت کے باوجود نا تو خود یہ کوشش کرتے ہیں‌ بلکہ دوسرے لوگ جب اس امر کی سعی کرتے ہیں‌ تو اس میں مین میخ‌ نکالتے ہیں، اور صاحب کتاب تو یہاں پورے مقصد خلافت علی منہاج النبوہ  ہی کا انکار کرنے پر تلے ہیں۔ انکا اصرار ہے کہ چونکہ مسلمانوں کے اپنے اعمال درست نہیں، اسلام کا یہ دعوی کرنا سرے سے ہی غلط ہے کہ وہ دین حق ہے اور غالب ہونے کے لئے آیا ہے۔ خطبہ حجتہ الوداع میں ہمارے ہادیٴ برحق نے ارشاد فرمایا ہے:”لوگو! میری بات سنو اور سمجھو۔ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے۔ دیکھو میرے بعد کہیں گمراہ نہ ہوجانا کہ آپس ہی میں ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے لگو۔ لیکن یہ تنگ نظر بیرونی تہذیب سے متاثر افراد طالبان کے ظلم و ستم کو اسلامی ریاست کا جاری و ساری عمل قرار دیتے ہیں، یہاں اسلام کی خوش خلقی اور عفو و درگذر کی ساری مثالیں انکے ذہن سے محو ہو جاتی ہیں۔
یہ وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ
e=mc^2
غلط ہے کیونکہ اس سے ایٹم بن بنا نا کہ یہ کہیں کہ لوگوں کو مارنے والے غلط لوگ تھے، اکژیت ان لوگوں کی ہے جو اس توانای سے بجلی بنا کر اسپتال اور شفاخانوں میں لوگوں کا علاج کرتے ہیں۔ غلط
e=mc^2
نہیں ہے، لوگ غلط ہیں۔
خود بدلتے نہیں قران کو بدل دیتے ہیں

اگلے حصے میں ہم اس کتاب کی کچھ اصطلاحات اور ان کے غلط استعمال پر گفتگو کریں گے انشااللہ۔

مزید مطالعہ کے لئے دیکھیےعقلیت کا فریب سید ابولعلی مودودی ترجمان القرآن۔ شعبان ۱۳۵۳ھ۔ مارچ

Share

April 7, 2010

دست و گریبان ڈاکٹر اور صحافی

Filed under: پاکستان,خبریں,عمومیات,مشاہدات — ابو عزام @ 8:59 pm

میڈیا کی بے لگامی کو دیکھ کر بے اختیار دل سے نکلتا ہے کے

اتنی نہ برا پاکی دامان کی حکایت

ڈاکٹر اور صحافی
ڈاکٹر اور صحافی

کیا یہ کسی دو پیشہ وارانہ شعبہ جات کا انداز تکلم لگتا ہے ؟

http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2010/04/100407_ali_salman_doctors.shtml

Share

April 5, 2010

حرم کو جائے گی اگر یہ راہگزر تو جاؤں گا

Filed under: عمومیات — ابو عزام @ 12:46 am

پچھلے سال جب  موسم حج میں میں نے یہ تصویر لی تو اس وقت سوچا تھاکے اسکا بہترین عنوان یہی ہو سکتا ہے

حرم کو جائے گی اگر یہ راہگزر تو جاؤں گا

حرم کو جائے گی اگر یہ راہگزر تو جاؤں گا

مکمل نظم درج زیل ہے۔ کسی صاحب کو شاعر کا نام معلوم ہو تو ضرور بتاییں تاکہ شامل کر لیا جاے

حیات جس کا نام ہے بہادروں کا جام ہے
یہ جا م جھوم کر پیو جیو تو بے دھڑک جیو
یہ دل یہ جان وار دو میرا وطن سنوار دو

زمیں پر نہیں قدم ہوا بھی ساتھ میں نہیں
گذرتے وقت کا کوئی سرا بھی ہاتھ میں نہیں
چلے ہیں لوگ پھر کدھر پہنچنا ہے کہیں اگر
تو نفرتوں کو پیار دو میرا وطن سنوا ر دو
یہ دل یہ جان وار دو میرا وطن سنوار دو

سجی ہیں افراتفریوں کی جھالروں سے مسندیں
نہ کچھ اصولِ سلطنت نہ اختیار کی حدیں
نظام سب الٹ گیا غبار سے جو اٹ گیا
وہ آئینہ نکھار دو میرا وطن سنوار دو
یہ دل یہ جان وار دو میرا وطن سنوار دو

کسی کی کمتری کو عزت و وقار کا نشہ
کسی کو زور و زر کسی کو اقتدار کا نشہ
نشے میں دھت تمام ہیں نشے تو سب حرام ہیں
یہ سب نشے اتار دو میرا وطن سنوار دو
یہ دل یہ جان وار دو میرا وطن سنوار دو

چُنے گئے تو جو گلاب خار خار ہو گئے
بُنے گئے تھے جتنے خواب تار تار ہو گئے
گلاب ہیں نہ خواب ہیں عذاب ہی عذاب ہیں
چمن کو پھر بہار دو میرا وطن سنوار دو
یہ دل یہ جان وار دو میرا وطن سنوار دو

حرم کو جائے گی اگر یہ راہگزر تو جاؤں گا
نہ جی سکا تو حق کے راستے میں مر تو جاؤں گا
کرے جو دین سے وفا چلے جو سوئے مصطفی
مجھے وہ شہسوار دو میرا وطن سنوار دو
یہ دل یہ جان وار دو میرا وطن سنوار دو

Share

April 2, 2010

مصلحتوں‌کی سیاست اور نظریات کا فقدان

Filed under: عمومیات — ابو عزام @ 1:00 am

دراصل ہم اس بارے میں بڑے عرصے سے سوچتے آ رہے تھے کے پاکستانی سیاست میں بایاں بازو کافی عر‌صے سے غائب ہے . پھر اس بات پر توجہ ہوئی کہ درحقیقت صرف بایاں بازو ہی نہیں، عمومی طور پر ہماری سیاست شدید نظریاتی فقدان کا شکار ہے۔ سیانے کہا کرتے ہیں کہ جہاں دایاں یا بایاں بازو نہ ہو وہاں اڑان منجدھار کا شکار ہو جاتی ہے۔ قحط الرجال تو خیر بہت عرصے سے ہے، لوگ اب میڈیا کے بازیگروں کے تجزیے ( باتوں کی الٹیاں) سنننے کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ تبدیلی کی کوئی بات نقار خانے میں طوطی کی آواز کے مترادف ہوتی ہے . خیر گفتگو کچھ یوں تھی کے پاکستانی سیاست میں نظریاتی لوگ سواے ماودے چند افراد کے کوئی باقی نہ رہے. بدمعاشی اور غنڈہ گردی کے ساتھ  اقربا پروری، جاگیردارانہ و زمیندارانہ طریقہ حکمرانی کا چلن ہے اورکوئی اس بات پر راضی نہیں کے سینہ ٹھونک کر قدامت پسندی کو للکارے اور کہے کہ ہاں میں ترقی پسند ہوں. ہمارے یہاں کا لبرل طبقہ رجعت پسندوں کو چھیڑنے سے گھبراتا ہے کے کہیں ایک عدد جیکٹ کا تحفہ نہ مل جاے۔ دینی طبقہ بھی  کچھ اسی ڈر اور کچھ طبعی حلم اور شرافت کی وجہ سے انتہا پسندی کے خلاف بات کرنے سے خوفزدہ ہے؛ مزید براں یہ خوف بھی ہے کے کہیں یہی گم گشتہ راہ نجات نہ ہو اور اس کی مخالفت بعد ازاں مہنگی نہ پڑے!

وہ دن ہوا ہوے جب ٧٠ کی دہای میں لوگ سینہ تان کر سرخے ہوا کرتے تھے ؛ انہی حالات میں باطل کو باطل اور حق کو حق کہنے کا مزہ آتا ہوگا. اب جب سیاست، نظریات الگ ہو کر صرف مفادات کا ملغوبہ رہ جاے، جب ‘ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان’ کو اپنے فارم میں ‘توہین رسالت’ کے قانون کو اردو میں بھی ‘بلاسفیمی لا’ لکھنا پڑے کہ اس قانون سے متفق نا ہونا رکنیت کی شرط ہے مگر اردو میں لکھنا خلاف مصلحت ہے،اور جب  تحریکی لوگ اپنی زبانوں کو انتہا پسندی کی خلاف مقفل کر لیں تو پھر بس یہی پکاریں آ سکتی ہیں کے خدا کے لئے پنجاب میں حملے نہ کریں.

تو عزیزم میرے کہنے کا برا مت مانیے مگر جب آپ اگلی مرتبہ کوئی باتوں کی الٹیوں کا پروگرام دیکھیں تو ان تجزیہ نگاروں کا قبلہ متعین کرنے کی کوشش کریں. تبدیلی نظام کی بات کرنے والے لوگ کیا صرف باتیں بگھارتےہیں یا متبادل بھی پیش کرتے ہیں. کیا اپنے پروگرام کے چوراہوں کی ریٹنگس سے بڑھ کر بھی کوئی مقصد ہے یا یہ باتوں کا خیالی پلاؤ صرف رٹائرڈ جنرل کی آمد کا خرچہ پورا کرنے کے کام آ رہا ہے؟ راقم کا ماننا ہے کہ تبدیلی اس وقت ممکن ہو سکتی ہے جب لوگ یہ جانیں کے وہ کیا چاہتے ہیں . دو جماعتی نظام گو کہ بہت سی خامیوں سے مبرّا نہیں لیکن آپ کم از کم ایک منشور اور میلان کے حامل لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکھٹا کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ یہ کہ سکتے ہیں کے اگر تم رجعت پسند ہو، مذہبی رجحان رکھتے ہو، ٹیکسوں کے خلاف ہو، اپنےٹیکس کا پیسا اسقاط حمل پر نہیں خرچ کرنا چاہتے،مفادات کے لیے جنگ کے حامی ہو، سرمایہ دارانہ نظام کے حامی ہو اور دنیا پرامریکی بالادستی چاہتے ہو تو تمہارا مسکن ریپبلکن پارٹی ہے. اور دوسری طرف ڈیموکریٹس جو اچھائی اور معاشرے کو انفرادی طور پر جانچنے کے بجاےوسیع تر معاشرتی اقدار کےقایل ہیں، جو لوگوں پرٹیکس لگا کر  معاشرتی کاموں پر خرچ کرنا چاہتے ہیں، اور تمام لوگوں کو بلا جنس و نسل و رنگ و جنسی رجحانات کے ایک جیسے حقوق دینے کے حامی ہیں لیکن آزاد روی کی یہ روش قدامت پسندی اور مذہب کے نظریات سے واضح اختلاف رکھتی ہے۔ اب یہاں  بھی ایسا نہیں ہے کےتفریق بہت واضح ہے. بعض لوگ ڈیموکرٹس کے معاشرتی منشور سے تو متفق ہوتے ہیں مگر انکا ٹیکس لگانے انہیں بہت کھلتا ہےلیکن کم از کم ووٹ دیکر تبدیلی لانے کا رجحان موجود ہے اور سب سے اہم بات اکثر لوگ کم و بیش  جانتے ہیں کے وہ کیا چاہتے ہیں. بہت ممکن ہے کہ وہ افلاطونی انداز میں اسکو نا پیش کر سکیں مگر یہ بمپر اسٹیکر کہ ‘جیزز واز ناٹ اے چوواس’ بہت کچھ کہ دیتا ہے۔

میں بنیادی طور پر نظریات کو داہنے یا بایں بازو کےڈبوں میں قید کرنے کا حامی نہیں لیکن نظام کی تبدیلی کے لئے رہ متعین کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور آج پاکستان کی بیشتر جماعتوں کا منشور آپکو اس بات پر دلالت کرتا  نہیں ملے گا کے انکی خارجہ پالیسی کا کیا محور ہے،. ٹیکسوں کا کیا سلسلہ ہوگا، شرح نمو اور برآمدات کے لیے کیس پالیسی پر عمل کیا جاے گا؟ کیا نفرت پھیلانے والے مذہبی لیڈران کے ساتھ انتخابی مہم چلای جاے گی یہ پھر نتایج کی پروہ کیے بغیر ان پر گرفت سخت کی جاے گی. ہر دین اپنی بالادستی چاھتا ہے چاہے وہ دین اسلام ہویا آزاد خیالی اور لبرلزم کا دین ہو، آپ کس  دین کو نافذ کریں گے؟ ملک کا نظام تلپٹ ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں اورایک بنیادی وجہ ہے نظریاتی سیاست کا فقدان اور حل ہے اس کی بحالی ؛ یہیں میری گزارش تمام ہوتی ہے.

اب اس بات سے ہمیں کوئی بغض نہیں کے کوئی کالعدم تنظیموں کے ساتھ اٹھے بیٹھے یا کوئی اپنی ہم وطنوں کو غیروں کے ہاتھ بیچے یا ملک کو لوٹ لوٹ کر کھاے، بھاری ٹیکس لگاے یا روٹی کپڑے کا نعرہ لگا کر سرمایا داروں کی گود میں جا بیٹھے. ہم تو بس یہ کہتے ہیں کے ہمیں بتا دو تمہارا منشوراور میلان کیا ہے اور بقیہ فیصلہ ہم پر چھوڑ دواگر تمہارا پچھلا ریکارڈ تمہارے منشور کا آینہ دار ہے تو ہمارا ووٹ آپکا۔ اور ہمیں فیصلہ کرنے دو، ایمانداری کی ساتھ.،

باقی یار زندہ صحبت باقی

Share

April 1, 2010

کچھ خطوط بُتاں

Filed under: عمومیات — ابو عزام @ 5:45 pm

دوستوں کے بے حد اصرار اور کمپنی کی مشہوری کے لیے اردو میں بلاگ لکھنے کا آغاز کیا گیا ہے تو سوچا کہ ابتدا اس شگفتہ تحریر سے کرتے ہیں جو ہم نے اپنے ایک لنگوٹیا دوست کے رد میں لکھی تھی۔  امید ہے آپ کو پسند آے گی۔

مبین میاں. سدا خوش رہو۔ اوپر تمہارا عنایت نامہ پڑھ کر ڈھیروں خون بڑھ گیا کہ دروغ گوی اور بہتان طرازی میں ابھی بھی تمہیں وہی ملکہ حاصل ہے جو آج سے پندرہ برس پہلے تھی۔ راقم تمہاری ہجو لکھنا چاہتا ہے مگر پارلیمانی الفاظ میں اس سلسلہ سخن گاہی سے مہجور ہے کہ خامہ ساتھ نہ دے اور ناہنجار و نامعقول جیسے القابات اس کیفیت کا عشر عشیر بھی بیان نہ کرسکیں جو تمہاری یاوہ گوی نے راقم پر وارد کی۔ بہرحال یہ کہنا کافی ہوگا کہ بہتان طرازی اولمپک کا کھیل ہوتا تو آج پاکستان کے پاس کم از کم ٣٠ گولڈ میڈل ہوتے۔ اگر دروغ گوی جامعہ کراچی کا کوی شعبہ ہوتا تو آج آپ اسکے رئیس الشعبہ ہوتے بلکہ شیخ الجامعہ ہوتے۔ تمہیں دیکھ کرتوجھوٹوں کا جھوٹا سابق صدر بش بھی کہے، چل جا جھوٹے!

ارے میاں حد ہوتی ہے، شرم تم کو مگر نہیں آتی ، یعنی کہ غضب خدا کا،

تو میرے ہم پیالہ و ہم مشرب عزیزو، اب راقم پر لازم ہے کہ اس دروغ گوی و بہتان طرازی و افترا پردازی کی حقیقت سے پردہ اٹھاے اور قصہ رقم کرے کہ سند رہے اور وقت ضرورت کام آے۔

قصہ مسعود علی شاہ نظامی کے ازار بند کا

اب آغاز قصے کا کرتا ہوں، ذرا کان دھر کر سنو اور مصنفی کرو۔ سیر میں چہار درویش کے یوں لکھا ہے اور کہنے والے نے کہا ہے کہ شہر کراچی میں پیر الہی بخش کالونی کے ہال میں محفل میلاد منعقد تھی۔ تو میرے ہم پیالہ و ہم مشرب عزیزو من کہ ایک ناہنجار قسم کا رفیق مرد ہوا کرتا تھا مبین احمد مینای جس کے دو نہایت شریف النفس ، خدا ترس، کریم الطبع، پاکیزہ اخلاق کے حامل دوست عدنان مسعود اور مسعود علی شاہ بھی اس محفل میں شریک تھے۔ اب بربناے عمر شغل طفلانہ یہ سوجھا کہ جب کسی مقرر یا مدح خواں کو مسند پر بلایا جاے تو اس کے جانے کا سارے راستے مسدود کیے جایں اور ہر ممکن کوشش کی جاے کہ تاخیر ہو تاکہ احباب کو اس شرارت سے طمانیت اور اطمینان قلب حاصل ہو اور جلدی کے ضمن میں مقررکی بوکھلاھٹ دیدنی ہو۔ بہرحال۔ ان پاکیزہ خیالات کے تانے بانے باندھتے ہوے جب ھمدم دیرینہ مسعود علی شاہ کا نام پکارا گیا تو ہم نے جھٹ ان کا ہاتھ پکڑ لیا .دھول دھپا اس سراپا ناز کا شیوا نہیں لیکن خیر انھوں نے دیکھا کہ جب عاجزی و انکساری اور دھمکیوں سے کچھ کام نا چلے تو زور لگا کر ہاتھ چھڑایا اور لگے بھاگنے اسٹیچ کی طرف۔ ہم نے آو دیکھا نا تاو، بھاگتے چور کی لنگوٹھی ہی سہی کے مصداق ان کے دامن پر ہاتھ ڈالا جو ان کی پھرتی کی بنا پر ان کے پاجامہ پر جا پڑا، اب نادانستگی میں ہم نے انھیں روکنے کی کوشش کی تو ۔۔۔ پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔

دامن کو زرا دیکھ زرا بند قبا دیکھ

احقر کے دفاع اب کوئی ہمیں بتاے کہ ساتویں جماعت میں پاچامے میں لاسٹک پہن کر بھلا کون آتا ہے ؟ بہرحال، مشرقی دامن کی وسعت نے پاکی داماں کی حکایت کو برقرار رکھا، ان کا پردہ رہ گیا اور محترم اپنا پاجامہ درست کرتے ہوے اسٹیج کی طرف بھاگے۔ پھر اسکے بعد عرصہ دراز تک عالم یہ رہا کہ

تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا

تو یہ ہے عزیزان من حقیقت حال۔ سبق بپتا سے مگر کسونے نا پایا، ناہنجار مبین نے راز فاش کیا اور پردہ نہ رکھا لہذا کمبخت کے این سی ایے کے قصےدرویش کا ادھار – یار زندہ صحبت باقی

Share
« Newer Posts

Powered by WordPress