فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

September 24, 2014

مشاہدات – سلاست بر اردو معلی و اردو محلہ

Filed under: ادبیات,غالبیات,مشاہدات — ابو عزام @ 7:27 am

خدا اسداللہ غالب کی مغفرت کرئے، کیا خوب کہا کہ برس ہا برس بعد بھی نثر پر بہار ٹھری۔

’’تم کو وہ محمد شاہی روشیں  پسند ہیں ۔ یہاں  خیریت ہے وہاں  کی عافیت مطلوب ہے… ہائے کیا اچھا شیوہ ہے جب تک یوں  نہ لکھو، وہ خط ہی نہیں  ہے۔ چاہِ بے آب ہے ابرِ بے باراں  ہے، نخل بے میوہ ہے خانہ بے چراغ ہے‘‘

اسی ضمن میں کل ایک جملہ راقم کے مطالعے میں آیا کہ

امراہم و اعظم و اجل و اعلی میں اشتغال بارہا امر سہل سے ذہول کا باعث ہوتا ہے

یعنی کہ  اہم کام میں انہماک سےدوسرے ضمنی کام پر توجہ نہیں رہتی۔ اس پر تو وہ مثل دریاآبادی کی صادق آتی ہے

شروع میں اسلوب بیان ذرا ثقیل تھا اور تذکرہ میں تو ثقیل سے گزر کراثقل ہو گیا۔

 اب ہم جیسے ناکارہ لوگ اکثر اس مخمصے میں گرفتار رہتے ہیں کہ ابوالکلام آزاد کی دقیق نثر اور جدید تقریر کی ابے اوے کے درمیان یہ استعاری پل صراط  بھلا کیونکر عبور ہو۔

راشد بھائی کی محبت کہ انہوں نے ہمارے ڈاکٹر بننے کی خوشی میں ایک نہایت عمدہ کتاب تحفتا عنایت کی، تھنکنگ فاسٹ اینڈ سلو۔

thinking-fast-and-slow

اس کتاب کا تعارف کبھی اور سہی لیکن اس میں ڈاکٹر اوپن ہائمر کے ایک مقالے کا ذکر آیا، اس کا عنوان تھا

Consequences of Erudite Vernacular Utilized Irrespective of Necessity: Problems with Using Long Words Needlessly

اب یہ عنوان خود ہی دریا کو کوزے میں بند کرتا ہے، بقیہ مضمون بھی نہائت عمدہ و سہل المطالعہ ہے۔

erudite-vernacular

 

 

حوالہ جات

ڈاکٹر رئیسہ پروین – غالبؔ کے خطوط کی اہمیت، ایک تعارف

اسلوبیاتی تجزئیے مرزا خلیل احمد بیگ مصنف کی کتاب ’تنقید اور اسلوبیاتی تنقید سے

Share

November 28, 2013

مرزا غالب اور تھینکس گیونگ کی ٹرکی

Filed under: ادبیات,طنزومزاح,غالبیات — ابو عزام @ 4:01 pm

ڈاکٹر ہو کی پچاسویں سالگرہ کے موقع پر انکی ٹائم مشین استعمال کرتے ہوئے ہم نے مرزا نوشہ کو یوم تشکر یعنی تھینکس گیونگ پر ایک عدد ٹرکی بھجوائ۔ اس کا جواب موصول ہوا۔ پڑھیے اور مرزا کی ذائقہ شناسی پر سر دھنئے۔

thanksgiving-turkey-dinner

بنام
میان عدنان مسعود

جود و کرم کے دسترخوان کا یہ ریزہ خوار عرض کرتا ہے کہ یہ امریکی مرغابی نما جانور کا خوان مع لوازمات، بزبان فرنگ ٹرکی. وصول پایا اور کام جان کو محبوبوں کے تبسم شور انگیز کی لہر میں لوٹ پوٹ کر دیا۔ دماغ کو بھی طاقت دی اور ہاتھ پاوں کو بھی توانائ بخشی۔ اس کا گودہ اپنے خمیر کی لطافت میں قواے نفسانی کے اضافے کا سرمایہ، نہیں نہیں میں نے غلط کہا، زندگی کے چراغ کے تیل کا مادہ ہے۔ فم معدہ اس کے شوربے المعروف زبان فرنگ گریوی،  کی روانی کا ثنا خوان ہے۔ اور آنتیں اسکے کفچوں کے لذت کے شمار کی تسبیح پڑھ رہی ہیں۔ مکئی کی روٹی نے جب اسکے شوربے کے معیار کو پہچانا تو پہلے حملے میں ہی خوف سے سپر ڈال دی اور جب زبان اس کی روانی کی لذت کی شکرگذاری میں مشغول ہوئ تو شوربے کے آپ حیات کی موج اسکے سر پر سے گذری، اسکی ہڈیوں کے نظر فریب جلوے پر ہما دیوانہ ہو گیا ہے اور اسکے بہتے ہوئے شکرخند و سیب زمینی  کے حسن  پر عقل فریقتہ ہو گئی ہے۔ اور اسکے مصالحے کے مزے  کی تیزی محبوبوں کی اداے عتاب کی طرح گلوسوز تو نا تھی پر کچھ ایسی انجان بھی نہیں، اور اسکی  ہڈیوں کے چٹخنے کی آواز چنگ و رباب   کے نغمے کی طرح سامع  نواز تھی ۔ میں تو بات  کو طول دینا اور اس نعمت کے بعد صاحب نعمت کا شکر ادا کرنا  چاہتنا تھا کہ اچانک میرے جبڑے نے مجھے ناز کے ساتھ آنکھ کا اشارہ کیا اور اپنے سر کی قسم دے کر گویا ہوا کہ اپنے ہاتھ  سے قلم فورا رکھ اور  سیب کے مربے و احمر قره قاط  کی لطافت کا مزا چکھ۔

چونکہ مجھے اسکی خاطرداری منظور تھی اور اسکی قسمت پرمایہ تھی لہذا تعمیل کے علاوہ اور کوئ چارہ نا تھا

دعاوں کا طالب

غالب
دلی،  نومبر ۱۸۴۵

 

thanksgiving-turkey-coverایضا، یہ مضمون مرزا نوشہ کے نومبر ۱۸۴۸ کے ایک خط میں یوم تشکر کی رعائت کر کے تصنیف کیا گیا ہے،،

 

Share

Powered by WordPress