فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

June 19, 2018

یوم پدر کا نوحہ

Filed under: ادبیات,مشاہدات — ابو عزام @ 10:21 am

مروجہ ایام ہالمارک کے کنزیومرزم، سرمایہ کاری نظام اوراستعماریت کے نقصانات پرمدلل مباحث کے باوجود، جب میرے آٹھ سالہ بیٹے علی نے فادرز ڈے کا اپنے ہاتھ سے بنا کارڈ دیا تو میرا انبساط بہرحال دیدنی تھا۔
رَبِّ اجْعَلْنِی مُقِیمَ الصَّلَوةِ وَمِن ذُرِّیَّتِی رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَآءِ

شائد یہ شادمانی اسی لحظہ ممکن رہی کیونکہ اسوقت ریستہاے متحدہ امریکہ اور اسکی جنوبی سرحد پر موجود تارکین وطن کے قافلے میری نظروں سے اوجھل ہیں۔ میں ۲۰۰۰ سے زائد معصوم بچوں کی وہ دلخراش چیخیں نہیں سن سکتا جو روزانہ اپنے والدین سے علیہدہ کئے جارہے ہیں۔ بے جان سرحدی لکیروں کے حقوق کی پاسداری کے نام پر، ڈیٹرینس کے اس ظالمانہ حربے کے طور پر ان پھول جیسے بچوں کا استحصال ایک پالیسی موقف بنادیا گیا ہے کہ انکے والدین جوجنوبی امریکہ کی سفاکانہ گینگ وار کا شکار، غربت و افلاس کے مارے مفلوک الحال پناہ گزین ہیں، امن و سکون و بہتر مستقبل کی تلاش میں شمال کا سفر کرنے کا خیال بھی دل میں نا لائیں۔

اور نا ہی میں مونوز کی پتھرائئ ہوئئ ان آنکھوں کو دیکھ سکتا ہوں جو اپنے تین سالہ بچے کی راہ تکتے ساکت ہوگئیں۔ ایک باپ جس سے اس کا لخت جگر جدا کردیا گیا، جس نے ریو گرانڈ کی وادی میں اپنے خاندان کی عافیت کی راہ دیکھنی چاہی لیکن ۷ مئ کو اسے نا صرف گرفتار کر کے پابند سلاسل کیا گیا بلکہ والدین کو بچے سے علیہدہ کرنے کی ظالمانہ حکمت عملی کے تحت اس کے تین سالہ بچے اور اہلیہ کو اس سے الگ کر کر قید کردیا، نتیجتاً ۱۲ مئی کو صدمے سے نڈھال مونوز نے خودکشی کرلی۔

میں شام کے اجڑے گھروں کا ماتم کس منہ سے کروں کہ میری اپنی جمہوری ریاست میں، جہاں ہر لحظہ انسانی اقدار کی جے جے کار کی جاتی ہو، مخالفانہ خاکوں کی قیمت پیولٹزر انعام جیتنے والے خاکہ نگار بھی اپنی ۲۵ سالہ نوکری سے برطرفی کی صورت میں چکانے لگیں۔

جہاں کمانڈر انچیف خلائی فورس کی تشکیل کا حکم دیتے ہیں اور زمین پر انسانیت انسانوں کا منہ تکتی ہے۔

Share

August 18, 2015

صنف قوالی کی مجلس عزا بشکریہ کوک اسٹوڈیو

Filed under: ادبیات,شاعری,مشاہدات — ابو عزام @ 9:00 pm

تمثیل کروں تو اردو مشاعروں میں تقدیم و تاخیر کی ایک تہذیبی قدر ہے جس کا ادبی لوگ اتباع کرتے ہیں۔  اب یہ کوئی قانون نہیں کہ توڑنے پر سزا ہو مگرعرفا شرفا میں ادبی قد کی پیمائش کے لئے امر مستعمل  ہے۔  جب علی  ظفرصاحب نے استاد جمن  کی یار ڈاڈی عشق آتش  کے گلے پر کند استرا چلایا تب بھی ہم خاموش رہے کہ نرود میخ آھنین در سنگ۔ مگر اب یہ جو دیدہ دلیری کے ساتھ غلام فرید صابری کی مشہور و معروف قوالی تاجدار حرم پر عاطف اسلم کا سرقہ وارد  ہوا ہے تو ہم سے چپ نا رہا گیا، بخدا دل مغمموم ہے کہ کیا کہیے۔

ِ
 

 ارے میاں، نقل کے لئے عقل چاہیے۔  اگر آواز میں پاٹ نہیں، لے اٹھانے کا حوصلہ المعروف تپڑ نہیں، نا قوالی کا ماحول بنا سکنے کا اعجاز، نا گلو نا عقیدت نا سوز، نا سر نا تال،  تو کیوں ایسی دشوار صنف میں کی اوکھلی میں سر ڈالتے ہو؟ خصوصا ایسے کلام پر جس میں اساتذہ نے ساز توڑ دیے اور سازندوں نے انگلیاں ۔ جناب، کلاسیکی قوالی نا آپکا انڈین آئڈل ہے، اور نا ہی .جینے لگا ہوں کی ٹریبل بھری آٹو ٹیون تکرار۔ آپ کے یہاں تو قوالی کے لئے لازم و ملزوم آواز کے زیروبم سے لے کر سر اور تال اور لے کی موسیقی کی دھند ہی مفقود ہے، کبھی نمی دانم چہ منزل بود یا مینڈا عشق جیسے کلاسکس سنیں توکچھ  اندازہ ہوکہ ریو اور جذب حال میں کیا تفاوت ہے۔

 مقصود نئی موسیقی یا تجربات پر تنقید نہیں۔ خانصاحب نے بھی تجربات کئے اور کچھ بہت خوب کئے، جبکہ کچھ کمرشلائزڈ رہے۔ ابھی حال ہی میں فرید ایاز اور ابو محمد کا بھی اچھا تجربہ تھا لیکن تاجدار حرم جیسے کلاسک کی ری برانڈنگ کی مثال بعذر “ہلکی پھلکی جدید قوالی” تو وہی رہی کہ

بر دوشِ غیر دست نہاد از رہِ کرم
ما را چو دید لغزشِ پا را بہانہ ساخت

راقم کو پورا یقین ہے کہ نا تو گانے والے نے، اور نا سن کر پسند کرنے والوں میں سے کسی نے آجتک محفل سماع میں شرکت کی ہوگی، اور نا ان کو حال کی کیفیت و تکرار سے کچھ آگہی کا معاملہ ٹھرا ،بلکہ ہمارا تو غالب گمان ہے کہ ان  کوبین الصنف (کراس جینرا)  موسیقی سے بھی اتنی ہی واقفیت نا ہوگی جتنی کہ مصحفی کی بکری کو ضحافات سے تھی۔

تو بھائئ عاطف، اگر آواز برٹنی سپئرز کی ہو تو اڈیل یا ڈیانہ کرال بننے کی کوشش نہیں چاہیے۔ اگر استاد محاورة قلم توڑ دے  تو عزت اس میں ہوتی ہے کہ  دہلیز کو چوم کے چھوڑ دیا دیکھا کہ یہ پتھر بھاری ہے، نا کہ ڈومنی گاوے تال بے تال۔  باقی جو مزاج یار میں آئے۔

Share

September 24, 2014

مشاہدات – سلاست بر اردو معلی و اردو محلہ

Filed under: ادبیات,غالبیات,مشاہدات — ابو عزام @ 7:27 am

خدا اسداللہ غالب کی مغفرت کرئے، کیا خوب کہا کہ برس ہا برس بعد بھی نثر پر بہار ٹھری۔

’’تم کو وہ محمد شاہی روشیں  پسند ہیں ۔ یہاں  خیریت ہے وہاں  کی عافیت مطلوب ہے… ہائے کیا اچھا شیوہ ہے جب تک یوں  نہ لکھو، وہ خط ہی نہیں  ہے۔ چاہِ بے آب ہے ابرِ بے باراں  ہے، نخل بے میوہ ہے خانہ بے چراغ ہے‘‘

اسی ضمن میں کل ایک جملہ راقم کے مطالعے میں آیا کہ

امراہم و اعظم و اجل و اعلی میں اشتغال بارہا امر سہل سے ذہول کا باعث ہوتا ہے

یعنی کہ  اہم کام میں انہماک سےدوسرے ضمنی کام پر توجہ نہیں رہتی۔ اس پر تو وہ مثل دریاآبادی کی صادق آتی ہے

شروع میں اسلوب بیان ذرا ثقیل تھا اور تذکرہ میں تو ثقیل سے گزر کراثقل ہو گیا۔

 اب ہم جیسے ناکارہ لوگ اکثر اس مخمصے میں گرفتار رہتے ہیں کہ ابوالکلام آزاد کی دقیق نثر اور جدید تقریر کی ابے اوے کے درمیان یہ استعاری پل صراط  بھلا کیونکر عبور ہو۔

راشد بھائی کی محبت کہ انہوں نے ہمارے ڈاکٹر بننے کی خوشی میں ایک نہایت عمدہ کتاب تحفتا عنایت کی، تھنکنگ فاسٹ اینڈ سلو۔

thinking-fast-and-slow

اس کتاب کا تعارف کبھی اور سہی لیکن اس میں ڈاکٹر اوپن ہائمر کے ایک مقالے کا ذکر آیا، اس کا عنوان تھا

Consequences of Erudite Vernacular Utilized Irrespective of Necessity: Problems with Using Long Words Needlessly

اب یہ عنوان خود ہی دریا کو کوزے میں بند کرتا ہے، بقیہ مضمون بھی نہائت عمدہ و سہل المطالعہ ہے۔

erudite-vernacular

 

 

حوالہ جات

ڈاکٹر رئیسہ پروین – غالبؔ کے خطوط کی اہمیت، ایک تعارف

اسلوبیاتی تجزئیے مرزا خلیل احمد بیگ مصنف کی کتاب ’تنقید اور اسلوبیاتی تنقید سے

Share

February 4, 2014

بے حسی کا خراج

Filed under: پاکستان,سیاست,مشاہدات — ابو عزام @ 11:23 am

 کل دن دہاڑے میرے چھوٹے بھائی کو یونیورسٹی روڈ پر صفورا چورنگی کے پاس ایک اے ٹی ایم سے پیسے نکالتے ہوئے اسلحے کے زور پر لوٹ لیا گیا۔

دو عدد موٹرسائکل سوار ڈاکووں نے جنہیں بظاہر کسی بات کی جلدی  نا تھی، نہایت آرام سے اس سے تمام پیسے  چھینے، مزید جتنی نقدی مشین سے نکلوا سکتے تھے وہ بھی نکلوائی اور پھر اس کے دفتر کا دیا ہوا موبائل فون، اور ایک آئ فون جو میں نے اسکی ۲۵ ویں سالگرہ کے موقع پر اسے دو ماہ پہلے ہی تحفتا دیا تھا، چھین کر لے گئے۔ اللہ کا بڑا شکر ہے کہ میرا بھائی اس واقعہ میں محفوظ رہا۔ الحمدللہ رب العلمین

ـ اللهم رب الضالة هادي الضالة، تهدي من الضلالة رد علي ضالتي بقدرتك وسلطانك فإنها من عطائك وفضلك.

 یہ انسان کی فطرت ہے کہ اسے اپنا نقصان اور اپنا غم سب سے شدید لگتا ہے۔ روشنیوں کے شہر میں روزانہ خون کی ندیاں بہتی رہیں، چوریوں، ڈکیتیوں اور لوٹ مار کا بازار گرم ہو، لیکن جب تک کوئی مصیبت اپنے سر نا پڑے، راوئ عیش ہی عیش لکھتا ہے۔ ہم دونوں بھائیوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ سندھی اور بلوچ اکثریتی علاقے میں گذارا اور انہیں نہائت مخلص اور بے لوث پڑوسی پایا ۔ میں نہیں جانتا کہ ان دو بلوچ راہزنوں کا کیا المیہ تھا جس نے انہیں اس واردات پر مجبور کیا لیکن یہ سطریں لکھتے ہوے مجھے اس بات کا ضرور احساس ہے کہ اگر میرے بھائی کامران کے بجاے اللہ وچائو گوٹھ سے میرے دوست ابراہیم بلوچ، عبدالغنی اورعبدالمجید خاصخیلی بھی ہوتے تو انکے ساتھ بھی یہی سلوک ہوتا کہ غالبا راہزن کوئ مذہب، کوئ شناخت،  کوئ قومیت نہیں ہوتی۔ اس سے پہلے جو لوگ کئی بار موبائیل چھین چکے ہیں وہ تو اپنے ہم زبان ہی تھے۔

اور ظاہر ہے کہ پھر اس دور نارسائ میں خود کو الزام دینا بھی بہت ضروری ہے

بے وقوف اے ٹی ایم پر کیا کر رہا تھا، کارڈ سے شاپنگ کرنی چاہئے
بے وقوف، آئ فون لے کر کون گھومتا ہے اس شہر میں، گھر پر رکھ کر آنا تھا
پاگل آدمی کو چاہئے تھا کہ پیسے نکلوانے کسی کو ساتھ لے جاتا، چلو جان کا صدقہ گیا۔

لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ درحقیقیت  ہمارئ  اجتماعی بے حسی کا خراج ہے ، جو ہم سے ایک محروم و مجروح طبقہ لے رہا ہے۔ اس سے مراد چوری و ڈکیتی کی توجیح پیش کرنا قطعی نہیں لیکن اس حقیقت سے فرار بھی ممکن نہیں کہ جس شہر میں روزگار کے مواقع کم سے کم ہوتے جائیں، جہاں امن و امان یرغمال اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی حفاظت کے لئے بے بس ہوں، وہاں جنگل کا قانون ہی چلتا ہے۔اس کی ذمہ داری جس قدر صاحبان اقتدار کی ہے، اسی قدر عوام کی بھی ہے کہ إن الله لا يغير ما بقوم حتى يغيروا ما بأنفسهم

 میرا بھائی ایک دینداراورمحب وطن شخص ہے۔ اس کو اپنی مٹی سے بڑئ محبت ہے لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ امن و آمان کی مخدوش صورتحال اور راہزنی کی پے درپے وارداتوں نے اسکی اس محبت کو شائد گہنانا شروع کردیا  ہے۔ لیکن اب بھی وہ کم از کم مجھ سے تو زیادہ  محب وطن ہے کیونکہ میں نے  ۱۹۹۸ میں اپنے گھر میں ہونے والی مسلح ڈکیتی کے بعد ۱۸ سال کی عمر میں یہ تہیہ کرلیا تھا کہ اس ملک میں جہاں میرے باپ کو کلاشنکوف کے بٹ  مار کر اس کی محنت کی جمع پونجی چھین لی جاے، میں تو ہرگز نہیں رہ سکتا۔ وہ ملک جہاں کا تھانیدار آپ کو ڈرا کر کہے کہ “اگر ایف آئ آر  درج کرائ تو شناخت کرنے آنا ہوگا اور پھر کیا پتا کون کس کو شناخت کر لے، بس روزنامچہ بہت ہے”۔ بادئ نظر میں شائد یہ بات کافی بچکانہ سی معلوم ہوتی ہو لیکن وَآمَنَهُم مِّنْ خَوْفٍ کی انسانی زندگی میں بڑئ وقعت ہے۔

یہ سب  باتیں شائد صحیح ہوں لیکن پھر مجھے اپنے عزیز دوست اور کلاس فیلو عبدالرحمن المعروف مانی کا وہ پیٹریاٹک فقرہ  یاد آتا ہے جو شائد اسے اسکی عسکری وراثت  میں ملا ہے

ابے یار، اگر تو تبدیلی نہیں لائے گا تو اور کون کچھ کرے گا؟ تم سالے سب یہاں سے ملک چھوڑ کر بھاگ گئے ہو۔۔۔۔

——

أذكـــــار وأدعية عند ضياع أو فقدان شيء

ـ اللهم رب الضالة هادي الضالة، تهدي من الضلالة رد علي ضالتي بقدرتك وسلطانك فإنها من عطائك وفضلك.

ـ يا جامع الناس ليوم لا ريب فيه رد علي ضالتي.

– أو يتوضأ ويصلي ركعتين، ثم يتشهد، ثم يقول: اللهم راد الضالة، هادي الضالة، تهدي من الضلال رد علي ضالتي بعزك وسلطانك فإنها من فضلك وعطائك.

– ,الدعاء الذي يدعو به صاحب الشيء المفقود، هو ما جاء عند ابن أبي شيبة في مصنفه والطبراني من حديث ابن عمر رضي الله عنهما ما معناه: أن من ضاع له شيء فليتوضأ وليصل ركعتين وليتشهد وليقل: “بسم الله يا هادي الضلال وراد الضالة اردد علي ضالتي بعزتك وسلطانك فإنها من عطائك وفضلك” قال الحاكم رواته موثقون مدنيون لا يعرف واحد منهم بجرج.

Share

October 29, 2013

مطالعہ2.0 – ای ریڈر، صوتی کتب اور قدامت پسند کتابی کیڑے

  مندرجہ ذیل تبصرہ ، ۔ کنڈل، پیپروائٹ، آئ پیڈ، نک، وغیرہ کے بارے میں یہ راے ہماری ای بک ریڈرز کے ساتھ  کئی سالوں کی رفاقت و رقابت کے تجربوں کا نچوڑ ہے اور قاری کا  نشان میل بالکل مختلف ہوسکتا  ہے۔

برقی کتاب یا ای بک سے ہماری دیرینہ عداوت کوئ ڈھکی چھپی پات نہیں۔ جس کتاب کو لائبریری سے اٹھنی میں مستعار لے کراور درسی کتابوں میں چھپا کر نا پڑھا جاسکے، جس کے صفحات نا مروڑے جا سکیں اور پسند نا آنے پر دوست کے سر پر نا مارا جاسکے، وہ موئ کتاب ہی کیا۔ اب تو سائنسدانوں کا بھی یہ کہنا ہے کہ دماغ کو کتاب کے لمس و زماں سے بڑی انسیت ہے۔ گئے دنوں کی بات ہے کہ پی آئ بی کالونی میں “آپ کی لائبریری” سے کتابیں لایا کرتے تھے، پھر فایف سی فور نارتھ کراچی میں ایک خوب لائبریری ملی، پڑھائ کے لئے لیاقت نیشنل لائبریری کی بھی کیا ہی بات تھی، پھر ہمارے اور عبدالقدیر خانصاحب کے المامیٹر ڈی جے کالج کی لائبریریاں بھی اپنی مثال آپ تھیں۔ جامعہ کراچی میں تو  ڈپارٹمنٹ کی  سیمینار لائبریری (راشد بھائ کا اصطلاح یاد دلانے کا شکریہ) اور محمودالحسن لائبریری موجود تھیں اور پھر بعد میں ہم نے لائبریری آف کانگریس اور برٹش نیشنل لائبریری کی رکنیت بھی حاصل کی۔ غرضیکہ کتابیں پڑھیں یا نا پڑھیں، کتابوں کے درمیان رہنے کا سامان   ہمیشہ میسر رہا جیسا کہ جون ایلیا نے کہا

میرے کمرے کو سجھانے کی تمنا ہے تمھیں
میرے کمرے میں کتابوں کے سوا کچھ بھی نہیں

مگر یہ تو جناب جملہ معترضہ تھا، ٓآتے ہیں اصل بات کی طرف

books

 ۔پھر یہ ہوا کہ ائ بکس کا چلن شروع ہوا کہ مالیکیولز کی نسبت الیکٹرونس کو حرکت دینا کفایت شعاری ہے۔ ہم نے بھی بقیہ تمام کرمکین حاسب کی طرح پہلے پہل پی ڈی ایف کمپیوٹر پر پڑھیں۔ ہمارا پہلا باقاعدہ ای بک ریڈر آی پیڈ فرسٹ جینیریشن تھا۔ یہ تجربہ مگر کچھ زیادہ کامیاب نا رہا کیونکہ آئ پیڈ میں دیگر ایسے خلفشار ذہن موجود ہوتے ہیں کہ مطالعہ کا سکون میسر نہیں ہوتا۔  پھر ہم نے تقریبا دو سال قبل کنڈل فرسٹ جینیریشن خرید کر اس پر کتابیں پڑھنا شروع کیں۔ کنڈل پر کتاب پڑھنا شروع میں تو مشکل لگا لیکن جب ہم نے اسکا استعمال گھر سے باہر خصوصا ساحل سمندر پر کیا تو کتابیں اٹھا اٹھا  کر نا پھرنے کی سہولت کچھ اچھی لگی

reading

لیکن پھر بھی درخت خشکیده کی کتابیں ہمیشہ ترجیح رہیں کہ چھٹتی نہیں منہ سے یہ کافر۔ کنڈل میں پی ڈی ایف پڑھنا خصوصا ایک جنجال ہوتا ہے۔ فانٹ ایڈجسٹ کرنے میں اور صفحات کو صحیح طور پر دیکھنا  خصوصا اگر کتاب تکنیکی ہو اور تصاویر یا  کوڈ پڑھنا ہو تو آئ پیڈ یا کمپیوٹر کی بڑی اسکرین ہی بہتر حل نظر آیا۔

DSCN8245

ان تمام تجربات کے دوران ہم نے صوتی کتب کا استعمال نا چھوڑا۔ اکژ ایسا ہوتا کہ گھر پر ایک کتاب شروع کی، دفتر جاتے ہوے راستے میں اسی کا صوتی ورژن گاڑی میں سنا، لنچ بریک میں اسی کتب کو کنڈل پر پڑھا، طویل بے مقصد میٹنگز کی بوریت مٹانے کے لئے اسی کو لیپ ٹاپ یا آئ پیڈ  میں پڑھتے رہے اور دفتر سے واپسی پر صوتی کتاب اور پھر اصل کتاب رات کو۔ فکشن کتب کے ساتھ یہ خوب چلتا ہے جیسا کہ اوپر والی تصویر میں ڈین براون کی انفرنو کو مختلف اشکال کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔

Screenshot_2013-10-29-22-04-57

اس کے بعد ہم نے کنڈل فائر کو بھی کچھ عرصہ استعمال کیا لیکن یہ ٹیبلٹ محض ایک کم قیمت و کم ظرف آئ پیڈ ہے اور اپنے پیشرو کنڈل کی طرح مطالعے کے لئے کوئ خاص سہولت نہیں دیتا۔ اسکی اسکرین چونکہ سادہ کنڈل کی طرح ای انک نہیں لہذا ہم نے اسے نا تو اچھا ای ریڈر پایا اور نا ہی ڈھنگ کا ٹیبلٹ۔  بارنس انینڈ نوبل کا نک بھی کچھ دنوں استعمال کیا کہ ہمارے ایک عزیز اس کے پراڈکٹ مینیجر ہیں۔ ان کی دل آزاری مقصود نہیں لیکن نک کے لئے آسان الفاظ میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ کوا چلا ہنس کی چال اور اپنی بھی بھول گیا۔ یہی کچھ میں نوٹ ۲ اور دیگر فیبلیٹ متعلقین کے بارے میں بھی کہوں گا۔

audiobook

نان فکشن کتب بمع السٹریشنز، ریسرچ آرٹیکلز اور درسی کتب کے لئے بھرحال ابھی تک ہمیں آئ پیڈ اور کاغذی کتاب کا کوئ اچھا متبادل نہیں ملا۔ خصوصا جب سے راقم نے “نیا آئ پیڈ” ریٹینا ڈسپلے استعمال کرنا شروع کیا۔  مثلا اگر آپ کو پائتھن فار ڈمیز پڑھنی ہے تو اسکی عکاسی و اشکال کے بہتر مطالعے کے لئے  آئ پیڈ یا کاغذی کتاب ہی درست وسیلہ ہے۔ حال ہی میں ہم نے اپنا پرانا کنڈل ایک دوست کو ہدیہ کیا اور نیا کنڈل پیپر وائٹ استعمال کرنا شروع کیا ہے۔ ابھی تک اس پر دو تین کتابیں ہی پڑھی ہیں اور پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ “انٹرپریٹیشن آف اے مرڈر” کی کاغذی کاپی کے بجاے اس کی کنڈل شکل کو ترجیہ دی ہو۔ اس کی تین اہم وجوہات تھیں۔ ایک تو اس کی اسکرین آئ پیڈ کی طرح کچھ دیر بعد آنکھوں کو نہیں چبھتی ،  دوسرا یہ کہ اس کی بیک لٹ کی وجہ سے اسے رات کے وقت سونے سے پہلے اندھیرے میں بھی دوسروں کو تنگ کئے بغیر (عقلمند کے لئے اشارہ کافی)  اچھی طرح پڑھا جاسکتا ہے، اور تیسرا یہ کہ فانٹ سائز تبدیل کرنا اسکے ٹچ اسکرین ہونے کی وجہ سے نہایت آسان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مارک رسانوچ کی ٹروجن ہارس کا مطالعہ بھی راقم اسی طرح کر رہا ہے۔

20131029_220215

 اس نئے کنڈل کا گرویدہ بننے کی ایک اور وجہ وسپر سنک   کا استعمال ہے۔ راقم آجکل محترمہ مریم جمیلہ پر لکھی گئی کتاب “اے کنورٹ” کا دوبارہ مطالعہ یا رفریشر چل رہا  ہے۔ اب میں جہاں پر کنڈل میں اسے چھوڑتا ہوں، آڈیبل کی صوتی کتاب اسے وہیں سے دوبارہ شروع کردیتی ہے اور پھر جہاں سے سننا ختم ہوتا ہے، کنڈل اسے دوبارہ اسی صفحے پر “سنک” کردیتا ہے۔


20131029_220108      Screenshot_2013-10-29-22-04-30

صوتی کتب اور ائ بکس میں بحرحال مومینٹو کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ ڈیجیٹل نیٹوز کا تو نہیں پتا لیکن ہم پرانے لوگ تو کتاب کے لمس سے، صفحات پر سالن کے دھبوں سے اور دیگر زمانی و مکانی نشانیوں سے چیزوں کو یاد رکھتے ہیں۔ مومینٹو کی کمی ہمیشہ اس بات کا شدید احساس دلاتی ہے کہ آپ زمان و مکاں کی حدود سے دور کہیں الیکٹرونز  کی سرزمین پر بے وزنی کی کیفیت میں ہیں جہاں کتابوں کی ابتدا و انتہا و درمیان سب ایک ہی طرح کے ہوتے ہیں۔ مثلا  کتاب “پطرس کے مضامین” کے میرےمطالعے میں آنے والے  پہلے  نسخے میں جسے راقم نے بلامبالغہ ہزار مرتبہ پڑھا ہوگا، میبل اور میں کے دو صفحات غائب تھے، جب میں نے پہلے دفعہ انہیں کہیں اور سے پڑھا تو کچھ  عرصے تک یقین نا آیا کہ یہ اسی مضمون کا حصہ ہیں، وہ تشنگی مضمون کا حصہ بن کر رہ گئی تھی, اب سوکھے ہوے پھول ای بکس میں تو نہیں مل سکتے نا قبلہ، بہرحال۔

قصہ مختصر، راقم کا کلیہ مطالعہ کچھ یوں ہے۔

فکشن کتب : صوتی کتاب، کنڈل

نان فکشن اور درسی کتب مع تصاویر: آئ پیڈ، لیپ ٹاپ یا کاغذی کتاب

نان فکشن کتاب بغیر تصاویر و کوڈ : کنڈل

ابھی تک کنڈل پیپر وائٹ کو بہرحال بہترین ریڈر پایا ہے۔ قارئین کا تجربہ جاننے کا متمنی رہوں گا۔

ما ز آغاز و زنجام جہاں بے خبریم
اوّل و آخرِ ایں کہنہ کتاب افتادہ است

Share

July 3, 2013

میدان التحریر بمقابلہ مسجد رابعہ العدویہ

Filed under: خبریں,سیاست,مذہب,مشاہدات — ابو عزام @ 6:35 am

تیس سالہ آمریت کے جبر و استبداد کے بعد سیکیولر و ترقی پسندوں کی جمہوری کامیابی۔ اسلام پسندوں کے پر تشدد مظاہرے اور فوج کا منتخب صدر کو مفاہمت کا الٹی میٹم۔

معاف کیجٗے گا، کچھ الٹا لکھ گیا۔ یہ صورتحال ہوتی تو یقینا ناقابل برداشت ہوتی۔ لیکن اگر چونکہ اسکے برعکس ہے، توپھر ٹھیک ہے۔

 حضور، جب نظام پادشاہی ہو تو آپ ملوکیت و استبداد کا رونا روئیں ، اور جب اسلام پسند مروجہ جمہوری طریقے سے برسر اقتدار آئیں تو یہ بھی آپکو اچھا نا لگے کہ چِت بھی اپنی، پَٹ بھی  اپنی

خُداوند یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں۔۔

Share

May 18, 2013

کیوں بمقابلہ کیسے

Filed under: ادبیات,فلسفہ,مذہب,مشاہدات — ابو عزام @ 11:31 am

سائنس جب کبھی یہ سوال کرتی ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے، اس سے درحقیقت یہ مراد ہوتی ہے کہ ایسا کیسے ہوتا ہے۔ اسباب کی سائنسی تحقیق ہمیشہ کسی امر کی تجربہ گاہ میں  تصدیق و تكرار سے بحث کرتی ،  تخلیق کی  غیبی و روحانی وجوہات سے اسکو کوی خاص دلچسپی نہیں ہوتی ۔

جب انسان اپنے گرد ونواح پر نظر ڈالتا ہے تو اس کا یہ سوال، ایسا کیوں ہے، عموما اس جواب  کا متقاضی ہوتا ہے کہ اس کارخانہ ہستی کی اصل کیا ہے، تخلیق کا مبتدا و منتہی کیا ہے، مقصد زندگانی کیا ہے؟  یہ وہ سوالات ہیں جن کے بارے میں سائنسی تحقیق یا تو خاموش ہے یا اسکا خیال ہے کہ  یہ سب یونہی بے کار بے سبب بے وجہ وجود میں ٓآگیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ سائنس اور مذہب کا کسی بھی سطح پر مسابقہ بے معنی ہے۔ ایک کا کیوں اور کیسے دوسرے کے کیوں اور کیسے سے قطعی مختلف ہے۔

اسی زمن میں امام غزالی نے فرمایا کہ

 ریاضی اور منطق میں کوئی بات ایسی نہیں جو اسلام سے متصادم نظر آتی ہو. ان کا کہنا ہے کہ فن منطق کا علم دین سے بالراست منفی یا مثبت کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہے، کیونکہ اس فن میں تو صرف اس امر پر بحث ہوتی ہے کہ دلائل کیا ہیں؟  ان کی جانچ پڑتال کی کسوٹی کیا ہے؟ برھان کسے کہتے ہیں؟ اس کے مقدمات کی شرائط کی نوعیت کیا ہے؟ تعریف کس سے تعبیر ہے اور اس کو کس طور پر مرتب کیا جاتا ہے؟ مزید اس علم میں یہ بتایا جاتا ہے کہ علم کی دو اقسام میں تصور یا تصدیق- تصور کو تعریفات و حدود کے ذریعہ معلوم کیا جاتا ہے، اور تصدیق کی شناخت، براھین اور دلائل سے ہوتی ہے. ظاہراً ان میں کوئی بات ایسی نہیں جس کو دین سے متصادم کہا جا سکے. بلکہ یہ تو بعینہ وہی باتیں ہیں جن کا اہل کلام اور اھالیان بحث و نظر کےہاں عموماً چرچا رہتا ہے. البتہ ان میں اور منطقیوں میں یہ فرق ضرور ہے کہ یہ انہیں مطالب کے لئے اپنی مخصوص اصطلاحیں استعمال کرتے ہیں. اور تعریفات اور جزئیات میں زیادہ الجھتے ہیں. جب کہ وہ زیادہ تعمقات سے کام نہیں لیتے

Share

May 14, 2013

تلقین غزالی، ایک رفریشر

Filed under: ادبیات,مذہب,مشاہدات — ابو عزام @ 9:05 pm

پچھلے دنوں گوگل ہینگ آوٹ پر برادرم ریاض شاہد  نے گفتگو کے دوران غزالی، الہیات اور عقل کی حیثیت پر ہماری ناقص راے پوچھی، اس استفسار کا جواب تو محدود مطالعے کی بنا پر جو ہم سے بن پڑا وہ دے دیا لیکن یہ خیال ذہن سے نکالے نا نکلا کہ امام غزالی کو پڑھے ہوے عرصہ گذرا، اور وہاں بھی ان کی کتب کا مطالعہ زیادہ تر کیمیائے سعادت اور مکاشفتہ القلوب کے دروس تک ہی محدود رہا، کبھی شہرہ آفاق تحافتہ الفلاسفہ نہیں کھولی، محض تشریحات و اقتباسات پر ہی انحصار کرتے رہے۔ محدود وقت کی وجہ سے ہم نے قاضی قیصر السلام کی کتاب فلسفے کے بنیادی مسائل دوبارہ کھولی اور اس میں سے موجود امام غزالی پر ایک جامع مضمون دوبارہ پڑھ ڈالا، اب قارئین کی دلچسپی کے لئے اسکا کلف نوٹش ورژن شائع کئے دیتے ہیں کہ سند رہے اور وقت ضرورت کام آے۔

امام غزالی

امام موصوف کا پورا نام ابو حامد محمّد ابن محمّد غزالی ہے. غزالی اپنے ہم عصر حکماۓ کلام میں نہایت ممتاز اور بلند پایہ شخصیت کے حامل ہیں. آپ مسلک شافعی کے آئمہ فکر میں سے ہیں. آپ خراسان کے شہر طوس میں ٤٥٠ھ میں پیدا ہوئے. آپ کے خیالات و افکار پر واضح روشنی خود آپ ہی کی تصنیف “المنقذ من الضلال” کے مطالعہ سے پڑتی ہے. اس کتاب میں موجودات عالم کے حقائق سے متعلق تشریحات کی گئی ہیں. آپ نے حقیقت کی بحث کے دوران فلاسفہ متکلمین باطنیه کے مبادیات پر غور کیا اور صرف تصوف، تامل، انجذاب ہی میں راہ ہدایت پائی. حالانکہ غزالی نے صوفیا کے افکار میں کوئی خاص ایزاد نہیں کیا. تاھم ان کے افکار کا فلسفه، عرب پر بڑا گہرا اثر پڑا. ان کی تصانیف میں جن دو کتابوں کا مطالعہ از بس ضروری ہے ان میں پہلی کتاب “مقاصد الفلاسفه” اور دوسری “تھافتھ الفلاسفه” ہے. مقاصد الفلاسفه دراصل علوم فلسفه کی تلخیص ہے اور تھافتھ الفلاسفه علوم فلسفه کے رد میں لکھی گئی.

اشعری الٰہیات کے مباحث میں پیش بہا کامرانیوں کی آخری کڑی امام غزالی ہیں. آپ کمسنی ہی میں یتیم ہو گئے تھے چناچہ آپ کے والد کے ایک صوفی دوست نے آپ کو تعلیم دلائی. بعد میں نیشا پور کے مدرسه میں داخل ہو گئے اور جیسے ہی آپ نے مروجہ علوم میں ترقی کی، یہ صوفی اثرات سے آزاد ہو کر اشعری ہو گئے. بعد ازیں ٤٨٤ھ میں مدرسه بغداد کے صدر مقرر ہوئے. لیکن بہت آپ روحانی اضطراب کا شکار ہو گئے اور اس عہدے سے مستعفی ہو کر شام چلے گئے جہاں انہوں نے اپنا پورا وقت مطالعہ و عبادات میں گزارا. ٤٩٩ھ  میں دوبارہ نیشا پور واپس آگۓ اور یہاں مدرسه نظامیہ میں معتدل اشعری نظام فکر کی تعلیم کی قیادت سنبھال لی جس پر تصوف کا رنگ غالب تھا، جسے ہم اہل سنت کی الٰہیات کا آخری ارتقا قرار دے سکتے ہیں. گویا امام غزالی کو اشعری الٰہیات کے فروغ میں ایک اہم ستون کی حیثیت حاصل ہے..

آپ کے حالات زندگی اور علمی حیثیت کے اس اجمال کے بعد اب ہم آپ کے افکار کا جائزہ لیں گے. امام صاحب کو متکلم فلسفی کا مرتبه دیا جاتا ہے جب کہ اس کے برعکس ابن سینا، فارابی اور ابن رشد کی حیثیت فلسفی متکلم کی ہے.

علم منطق کے بارے میں امام غزالی اپنی تصنیف “المنقذ من الضلال” میں لکھتے ہیں کہ ریاضی اور منطق میں کوئی بات ایسی نہیں جو اسلام سے متصادم نظر آتی ہو. ان کا کہنا ہے کہ فن منطق کا علم دین سے بالراست منفی یا مثبت کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہے، کیونکہ اس فن میں تو صرف اس امر پر بحث ہوتی ہے کہ دلائل کیا ہیں؟  ان کی جانچ پڑتال کی کسوٹی کیا ہے؟ برھان کسے کہتے ہیں؟ اس کے مقدمات کی شرائط کی نوعیت کیا ہے؟ تعریف کس سے تعبیر ہے اور اس کو کس طور پر مرتب کیا جاتا ہے؟ مزید اس علم میں یہ بتایا جاتا ہے کہ علم کی دو اقسام میں تصور یا تصدیق- تصور کو تعریفات و حدود کے ذریعہ معلوم کیا جاتا ہے، اور تصدیق کی شناخت، براھین اور دلائل سے ہوتی ہے. ظاہراً ان میں کوئی بات ایسی نہیں جس کو دین سے متصادم کہا جا سکے. بلکہ یہ تو بعینہ وہی باتیں ہیں جن کا اہل کلام اور اھالیان بحث و نظر کےہاں عموماً چرچا رہتا ہے. البتہ ان میں اور منطقیوں میں یہ فرق ضرور ہے کہ یہ انہیں مطالب کے لئے اپنی مخصوص اصطلاحیں استعمال کرتے ہیں. اور تعریفات اور جزئیات میں زیادہ الجھتے ہیں. جب کہ وہ زیادہ تعمقات سے کام نہیں لیتے. امام غزالی کہتے ہیں کہ جب یہ ثابت ہو چکا کہ ہر انسان حیوان ہےتو اس سے یہ امرلازم ہوا کہ بعض حیوان انسان ہوتے ہیں. یعنی اصطلاحاً اسے یوں کہیں گے کہ موحیه کلیه کا عکس ہمیشہ موحیه جزئیہ ہوتا ہے. اس سے یہ انکشاف ہوا کہ دین کے اہم مسائل سے اس کا کیا تعلق ہے اور پھر اس کو نہ مانا جاۓ تو کس دلیل کی بناء پر؟ تا ہم اس میں بھی عملا یہ قباحت ہے کہ کچھ لوگ اس حسن ظن کا شکار ہو جاتے ہیں کہ جو اندازو معیار ان کا علم منطق میں ہے وہی عقائد و دینیات میں بھی ہوگا-..

حالانکہ حقیقتا ایسا نہیں ہے کیونکہ ان کی فہم و فراست صرف اس لئے..میدان پر مبنی ہو کر رہ گئی ہے جب کہ الٰہیات میں یہی لوگ حد درجہ تساہل سے کام لیتے ہیں. فن منطق پر غزالی کی تنقید کا اصل منشاء بھی یہی ہے کہ ہر فن کے دائروں کو ان کے اپنے جداگانہ تناظر میں سمجھا جاۓ اور جب کبھی کسی مسئلہ پر بحث کی جاۓ تو اس میں تقلید کی بنا پر راۓ زنی سے پرہیز برتا جاۓ. بلکہ دیکھنا یہ چاہیے کہ نفس مسئلہ کس حد تک صداقت کا حامل ہے. چناچہ فلسفہ پر بھی امام غزالی کےاعتراضات کی نوعیت کچھہ ایسی ہی ہے.

مسئلہ وجود پر بحث کرتے ہوئے امام غزالی کہتے ہیں کہ وجود کے تین مختلف عالم ہیں:-

١ – عالم ملک — یہ وہ عالم ہے جس میں وجود کا علم حواس کے ذریعہ سے ہوتا ہے. اس میں عالم کا علم ادراک سے ہوتا ہے اور یہ ہر آن متغیر رہتا ہے.

٢- عالم ملکوت_ یہ عالم حقیقت کا غیر متغیر اور ابدی عالم ہے، جو خدا کے حکم سے قائم ہوا

اور یھ عالم جس کا محض پر تو ہے

٣ – عالم جبروت_ یہ درمیانی حالت ہے. صحیح معنوں میں اس کا تعلق حقیقت سے ہے مگر یہ بظاھر ادراک کی سطح پر معلوم ہوتا ہے اس درمیانی حالت میں انسانی روح ہے جو عالم حقیقت سے متعلق ہے اگر چھ بظاھر اس کا اظلال سطح ادراکی پر ہوتا ہے.جس سے اس کا تعلق نہیں اور پھر یہ حقیقت کی طرف لوٹ جاتی ہے.

قلم و لوح وغیرہ جن کا ذکر قرآن میں ملتا ہے. محض تمثیل نہیں ہیں. ان کا تعلق عالم حقیقت سے ہے اور اس لئے یہ اس کے علاوہ ہیں جو کچھہ ہم اس عالم ادراک میں دیکھتے ہیں. یہ تینون سطحیں یا عالم زمان اور مکان میں علیحدہ نہیں ہیں. بلکہ انہیں وجود کی ہی اشکال سمجھنا چاہئے.

علاوہ ازیں امام موصوف وجود کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وجود ایک ہے جو تمام مخلوق کا خالق ہے. وہ لاشریک و بے ھمتا اور یکتاۓ زمانہ ہے. وہ ھمیشہ سے ہے اور ھمیشہ باقی رہیگا. ازل سے ابد اس ہستی کا وجود یقینی ہے. یہ قائم بالذات اور مکتفی بالذات ہے. یہ وجود بذات خود نہ جوہر ہے اور نہ عرض. وہ کسی وجود میں نہیں سماتا اور نہ کسی چیز سے مشابہ ہے. اس کی شکل و شبیه کوئی نہیں. اس کی ذات بے چون و چرا ہے. ہمارے توھمات و تخلیلات میں جو کچھہ آتا ہے یا آ سکتا ہے وہ ان سب سے بالاتر ہے کیونکہ یہ تو خود تخیلات کا بھی ضائع ہے. خوردی و بزرگی اور کمی و بیشی سے اس کا کوئی تعلق نہیں کیونکہ خود یہ صفات بھی صور جسمیہ سے متعلق ہیں جن سے اس کا وجود منزہ ہے. وہ نہ کسی جگہ پر ہے اور نہ ہی اس لئے کوئی جگہ متعین ہے.

اس دنیا میں جو کچھہ ہے وہ عرش کے ماتحت ہے اور عرش اعلیٰ اس کی مرضی اور ارادے سے مسخر ہے. وہ عرش سے کہیں اعلیٰ تر ہے. ایسے نہیں جیسے کوئی جسم کسی جسم پررکھہ دیا جاۓ کیونکہ وہ کوئی جسم نہیں اور نہ ہی عرش اس کو اٹھاۓ ہوئے ہے، بلکہ عرش صرف اس کے حکم کے مطابق ایک جگہ قائم ہے. اس کی ذات کی صفت آج بھی وہی ہے جو عرش کو بنانے سے پہلےتھی اور آئندہ بھی ابدالاباد تک ایسی ہی رہےگی. گردش و انقلابات عالم کا اس کی ذات سے کوئی تعلق نہیں.

اگر گردش و انقلاب میں نقصان کی صفت ہوگی تو وہ خدائی کے قابل نہ ہوتا اور اگر انقلابات زمانہ ترقی و صفات حسنہ کے باعث ہوں گے تو اس کی مثال ایسی ہو جاۓ گی جیسے کوئی چیز اول نقص تھی بعد ازیں کامل ہوگئی. یہ صفت بھی مخلوق کے لئے ہوتی ہے خالق کے لئے نہیں.-١

امام غزالی خالق کے علم کو مخلوق کے علم سے مماثل سمجھتے ہیں اور ایک کو دوسرے پر قیاس کرتے ہیں. مثلا انسان مادیات کا علم حواس کے واسطے سے اور مجردات کا علم عقل کے ذریعہ سے حاصل کرتا ہے اور ان ہر دو صورتوں میں معلومات اس کے علم کی علت ہوتی ہیں. گویا جب انسان کا علم خود معلومات کا تابع اور معلول ہے تو معلومات کے تغیر و تعدد سے انسان کے علم میں بھی تغیرو تعدد پیدا ہو جاتا ہے. لیکن اس کے برعکس فلاسفہ کے نزدیک خدا کا علم خود علت ہے. معلومات کا معلول نہیں اس لئے اس کے علم کا قیاس انسانی علم پر نہیں کیا جا سکتا. یہی وجہ ہے کہ فلاسفہ کے نزدیک خدا کو موجودات کا جو علم حاصل ہوتا ہے وہ کلیت و جزئیت کے ساتھہ وہ علم متصف ہوتا ہے جو عقل انفعالی کے ساتھہ تعلق رکھتا ہو اور خدا فعل محض ہے گویا عقل کو صرف موجودات کا علم ہوتا ہے اور معدومات کا علم نہیں ہوتا. امام غزالی کے نزدیک خدا کا صانع عالم ہونا اسی وقت ثابت ہوتا ہے جب اس سے اس کا صدور ارادہ و اختیار سے ہو.

تخلیق کائنات پر بحث کرتے ہوئے امام غزالی طبیعیات کی قدرو منزلت کو بھی پورے طور پر محسوس کرتے ہیں. انکا کہنا ہے کہ جس طور پر ایک طبیب جسم کے اعضاء رئیسہ اور اجزاۓ خادمہ پر غور کرتا ہے اور وہ ایسا کرتے ہوئے اس میں کسی پہلو کو اسلام و مذہب کے تقاضوں کو منافی نہیں سمجھتا اسی طرح طبیعیات میں بھی مختلف اشیا کی ترکیب و امتزاج سے بحث کرنا قطعی مذہب کی روح سے متصادم نہیں. طبیعیات میں کار فرما شے خود طبیعیت نہیں بلکہ خاطر طبیعیت ہے کیونکہ اس عالم میں ایک طرح کی فعالیت ہے اس کی کوئی توجیہہ علل و معلول کے اس بے جان گورکھہ دھندے سے نہیں ہو پاتی. وہ کہتے ہیں کہ یہ کارخانہ حیات اور کائنات نظم و ترتیب اور ایک طرح کے ارتقا کا متقاضی ہے. وہ کہتے ہیں کہ طبیعیت میں زندگی و عمل کی جستجو بے کار ہے. اس کا مبدا تو بھر حال حی و قیوم خدا کی ذات ہی کو قرار دینا ہوگا..

قانون علت و معلول کے متعلق غزالی کہتے ہیں کہ یہ تصور بھی ذہن و عادات کے تصور کی کرشمه زنی ہے ورنہ خارج میں اس طرح کے کسی رشتہ و تعلق کا ہمیں براہ راست تجربہ نہیں. کیونکہ جو کچھہ ہم دیکھتے ہیں وہ یہ ہے کہ جب آگ جلتی ہے تو اس میں احتراق یا جلانے کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے. جب آفتاب طلوع ہوتا ہے تو روشنی سارے عالم میں پھیل جاتی ہے یا جب بجلی چمکتی ہے تو ایک آواز ہمارے کانوں کے پردے سے ٹکرا جاتی ہے. اس کے معنی یہ ہے کہ ہمارے مشاہدے میں دو چیزیں ھمیشہ ایک خاص ترتیب کے ساتھہ ہی آتی ہیں. ایک آگ اور ایک قوت آواز، ایک آفتاب اور ایک روشنی، یا ایک بجلی کی چمک اور ایک آواز رعد کا احساس اور ان دونوں مظاھر میں تعلق اور رشتے کی کیا نوعیت ہے؟ اس کا کوئی احساس ہمیں نہیں ہو پاتا اور منطقی اصطلاح میں یوں کہنا چاہئے کہ ان کو علت و معلول قرار دینا محض ایک نوع کے استقرا کا نتیجہ ہے جو ذہن و عادت سے متعلق ہے تجروبہ و مشاہدے سے بہر حال اس کا کوئی تعلق نہیں کیونکہ  تجروبہ اور مشاہدے کی گرفت میں تو محض دو مختلف قسم کے واقعات ہی آ پاتے ہیں جو ہر چند کہ باہم متعلق نظر آتے ہیں تا ہم دقت نظر اور غور سے دیکھئے تو سوا اس کے کہ ہم نے ان ہردو واقعات کو ہمیشہ ایک دوسرے کے تعاقب میں ایک خاص ترتیب کے ساتھہ لگا ہواپایا یا صادر ہوتے دیکھا ہے اور کسی شے کا مشاھدہ نہیں کیا. چناچہ معلوم یہ ہوا کہ یہ صورت محض ذہن وعادت کی شعبدہ گری ہے کہ اس نے ایسے دو واقعات میں علت و معلول کا ایک رشتہ فرض کر لیاہے جو ہمیشہ توالی و تعاقب کے سانچے میں ڈھلے ہوئے نظر آۓ اور یہ سمجھہ لیا کہ پہلے ظہور میں آنے والی شے علت اور بعد میں ظہور کرنے والی شے معلول ہے جو اس ماقبل کے نتیجہ میں پیدا ہوئی ہے.

زمان و مکان کے تصورات کی بحث میں قدیم فلاسفہ مختلف نظریات پیش کرتے آئے ہیں. یہ پرانے تصورات کچھہ اس طرح کے تھے کہ علاوہ ان جزیات و افراد کے جو پاۓ جاتے ہیں یہ بھی حقیقی وجود کا وصف رکھتے ہیں اور تمام جزیات و افراد کا ان سے تعلق ظرف و مظروف کا ہے. مکان کے بارے میں یہ فلاسفہ کہتے تھے کہ یہ ظرف باوجود اپنی وسعتوں کے بہر حال محدود ہیں کیونکہ کائنات خود محدود ہے اور زمانہ ایک ایسا وسیع تر ظرف اور پیمانہ ہے جو بے کراں و بے انتہاء ہے یعنی یہ غیر محدود اور لا منتاہی ہے.  لیکن غزالی زمان و مکاں کو جسم سے جدا کوئی مستقل بالذات ظرف قرار نہیں دیتے بلکہ ان کے خیال میں دونوں کا تعلق جسم ہی کے امتداد یا حرکت سے ہے یعنی کسی ایک ہی چیز کے استداد کو مکان سے تعبیر کیا جاتا ہے اور وہ چیز جب متحرک ہوتی ہے تو اس سے زمانہ کا تصور اپنے مخصوص پیمانوں میں ازخود ذہن انسانی میں ابھرتا ہے. گویا یہ الفاظ دیگر یہ امتداد و حرکت جسم ہی کے ابعاد میں سے ہیں. ان سے جدا اور الگ ان کا کوئی وجود ہی نہیں اور اس طور پر غزالی کو کانٹ کا پیشرو کہا جا سکتا ہے.

غزالی الله کی صفات سے بحث کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ خدا کے ازلی و ابدی ہونے کے معنی یہ ہر گز نہیں کہ اس کی ذات پاک زمانی ہے اور زمانہ بھی وہ کہ جو حرکت مکان سے وجود میں آتا ہے بلکہ وہ خود خالق ہونے کی وجہ سے وقت و زمان کے حدود و اطراف سے ماورا اور مستغنی ہے. بلکل اسی طور پر مکان کے متعلقات کا اطلاق بھی اس پر نہیں ہو سکتا کیونکہ جریات و افراد سی علیحدہ اس کا اپنا کوئی وجود ہی نہیں. گویا غزالی کے نزدیک جہات و اطراف کا تصور انسان کی ھیت تر کیبی سے وابستہ ہے. لہٰذا اگر کوئی حیوان اس قسم کی ھیت ترکیبی سے متصف نہ ہو تو اس کی جہات انسانی جہات سے مختلف ہونگی. مثلآ چیونٹی یا چھپکلی کی مثال ہمارے سامنے ہے. جس طرح یہ زمین پر چلتی ہے اسی آسانی سے یہ چھت کی نچلی طرف بھی چلتی ہے اور بلاشبہ جو ہمارا فوق ہوتا ہے وہ اس چھپکلی کا تحت بن جاتا ہے بلکہ ان ہر دوصورتوں میں ایک طرح سے نسبت تضاد پائی جاتی ہے گویا الله تعالیٰ کا تعلق جہت علوی سے ہونا کوئی بہت خوبی کی بات نہیں کیونکہ یہ علو خود اضافی اور اعتباری صورت حال ہے حقیقی نہیں.

حضرت امام غزالی بطلیموسی نظام ھیت کے قائل نظر آتے ہیں. تاہم ان کا کہنا ہے کہ اجرام سماویہ کا تعلق ادنیٰ ترین سطح یعنی عالم حواس سے ہے. کل فطرت کے پس پردہ خدا ہے جو سطح حقیقت پر ہے. عقل کی رسائی بلند ترین سطح تک نہیں ہے کیونکہ اس کے اعمال کو ادراک حسی کی شہادت پر بھروسہ کرنا پڑتا ہے. حقیقت کی سطح تک رسائی کے لئے انسان کا روحانی صلاحیت میں بلند ہونا لازم ہے جس کے وسیلے سے غیر مرئی اشیا مستقبل کے اسرار اور ایسے دوسرے تعقلات کا ادراک ہوتا ہے جو اسی طرح سے عقل کی رسائی سے خارج ہوتے ہیں، جس طرح عقل کے تعقلات محض امتیاز اور اس کی رسائی سے بھر ہوتے ہیں١- جس کا امتیاز حواس کے ذریعہ سے مدرک ہوتا ہے. وحی و الہام کے معنی انبیاء و اولیا پر حقائق کے منکشف ہونے کے ہیں اور ان حقائق کا علم صرف ایک ایسے ہی الہاسی شخصی تجروبہ سے ہو سکتا ہے جس سے روح حقیقت کی سطح تک بلند ہو جاتی ہے اور صرف اتنا ہی نہیں کہ قرآن مجید کے تمام حقائق الہاسی ہیں، بلکہ خیر و شر کے تمام تصورات بھی الہاسی ہیں اور ان تک صرف عقل سے پہنچنا ممکن نہ تھا اور بلاشبہ یہ وہ نکتہ ہے جس سے معتزلہ کے اس دعوے کی تردید مقصود ہے کہ اخلاقی امتیازات کا عقل کے واسطے سے ادراک ہو سکتا ہے اور فلاسفہ و اطبا اور ھیت دانوں پر بھی حقائق اسی کشف کے ذریعہ منکشف ہوتے ہیں. لہٰذا معلوم یہ ہوا کہ امام غزالی ابن رشد کے خلاف اسی فوق العقلی وجدان پر زور دیتے ہیں جو کہ حالت وجد میں حاصل ہوتا ہے جس کے ذریعہ سے روح عالم ظلی سے بلند ہو کر عالم حقیقت تک پہنچ جاتی ہے. یہ رجحان خالصتا تصوف کی پیداوار تھا اور اس طرح سے غزالی اہل سنت کے یہاں عنصر تصوف کو داخل کرتے ہیں اور ساتھہ ہی صوفیت کو حکمی شکل میں منتقل کرتے ہیں. ان کا یہ شاندار کام

چار عنوانات کے تحت آتا ہے.

١- انہوں نے اہل سنت کے یہاں تصوف کو داخل کیا.

٢- انہوں نے فلسفہ کے استعمال کو مقبول عام بنایا.

٣- انہوں نے فلسفہ کو الہیات کے تابع بنا دیا.

٤- انہوں نے خدا کو ملّت اسلامیہ میں ایک زمانہ میں بحال کیا جب تعلیم یافتہ طبقہ میں خوف کا عنصر کم ہونے لگا تھا.

 

چناچہ امام غزالی تک آ کر اسلامی الٰہیات کی ترقی درجہ کمال کو پہنچ جاتی ہے. غزالی نے جی تین مسائل کو بلخصوص موجب تکفیر جانا ہے وہ یہ ہیں :-

١- یوم حشر میں اجسام اٹھاۓ نہیں جائیں گے.

٢- الله کا علم صرف کلیات کا ہی احاطہ کئے ہوئے ہے جزیات کا نہیں.

٣- یہ کارخانہ’ عالم ازل تا ابد یونہی قائم و دائم رہے گا.

اقتباس از ے قاضی قیصر السلام، فلسفے کے بنیادی مسائل

Share

May 5, 2013

المشاہدات فی کراوڈ سورس ایس ایم ایس شاعری

Filed under: ادبیات,شاعری,طنزومزاح,عمومیات,مشاہدات — ابو عزام @ 1:01 pm

اپنی کم علمی میں ہم ہمیشہ یہی سمجھتے رہے کہ اردو شاعری پر جو ستم وصی شاہ نے ڈھاے ہیں، اسکی نظیر تاریخ کبھی نا پیش کر سکے گی لیکن ہمت کرنے والوں نے دل کی گلیوں پر بھی بہت کچھ لکھ مارا جس پر تبصرے کے لئے استاذ جعفر کا پریشاں ہیں پِنڈ کی جھَلّیاں، قاطع برہان ہے۔  یہ تو خیر جملہ معترضہ تھا، اصل موضوع ہے  حضرت اقبال و فراز کے ایس ایم ایس دیوان جنہیں برادرم راشد کامران ہیش ٹیگ و کراوڈ سورس شاعری قرار دیتے ہیں ۔ اس ضمن میں ہمارا تو یہی موقف رہا کہ

فراز کے الٹے سیدے شعر بنانےسے یہ باز نہیں آتے اقبال
بہت ان نوجوانوں کو سمجھا کے دیکھ لیا

اب یہ چلن اسقدربڑھا کہ اچھے خاصے ڈھنگ کے لوگوں کوبھی اقبال کے نام پر بے بحر و اوزان کے ایسے اشعار منسوب کرتے دیکھا ہے کہ اس سے انکے نجیب الطرفین ہونے پر شک ہونے لگتا ہے۔ دریافت کرو تو جواب میں ڈھٹائ سے فرماتے ہیں کہ یہ تازہ دریافت، بحر و اوزان سے آزاد علامہ ہی  کا کلام ہے، میں نے خود پڑھا ہے بانگ درگاہ ایس ایم ایس ایڈیشن میں۔ مثلا مندرجہ زیل فوٹوشاپئے ہی ملاحظہ ہوں

268785_4472773623475_1426899029_n

اس پر انور مسعود صاحب کا یہ شعر خوب لاگو ہوتا ہے کہ

اک اتائی کر رہا تھا ایک مجمع سے خطاب
یاد ہے بس ایک ٹکڑا مجھ کو اس تقریر کا
بات ہے بانگِ درا میں، شیخ سعدی نے کہی
’’صبح کرنا شام کا‘ لانا ہے جوئے شیر کا‘‘

21216_10151463979022585_412146928_n

سنجیدہ شعر میں تحریف کر کر اسے مزاح کا رنگ دینا ایک قابل تحسین ہنر ہے۔ لیکن موجودہ تضمین سے شگفتگی کی صنف بنانے کا معیار و مزاج ، سوشل میڈیا کی ہی طرح کا ‘سطحی’ ہے۔  وہ دن ہوا ہوے جب عنایت علی خان یا پاپولر میرٹھی کس خوبی سے کہا کرتے تھے
حسن والوں نے کیا ہے بہت جم کے پتھراؤ
تیرے سر میں تو بہت کام رفو کا نکلا
یا پھر علّامہ کا یہ سنجیدہ شعر
مانا کہ ترے دید کے قابل نہیں ہوں میں
تو مرا شوق دیکھ مرا انتظار دیکھ
تھوڑی سی تحریف سے کیا خوب ہوا۔
مانا کہ ترے دید کے قابل نہیں ہوں میں
تو مری کار دیکھ مرا کاروبار دیکھ
اور امیر الاسلام ہاشمی
عمر تو ساری کٹی عشقِ بتاں میں مومنؔ
آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گے
نے کس قدر ‘نازک’ موضوع پر خامہ فرسائ کی
نائی آئے گا تو یہ کہہ کے گریزاں ہوں گے
’’آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گے‘‘
 اب تو یہ حال ہے کہ

اب تو ڈر لگتا ہے کھولنے سے بھی دراز
کہیں ایسا نہ ہو کہ اس میں‌سے بھی نکل آئے فراز

علامہ کے ساتھ تو یہ ظلم تو اکثر لوگوں کو کھلتا ہے لہذا انجمن اقبالیات شمالی امریکہ نے اس ضمن میں ایک مہم چلائ،برسبیل تذکرہ انجمن پر تو ضمیر جعفری نے خوب کہا تھا

بپا ہم سال میں اک مجلس اقبال کرتے ہیں
پھر اْسکے بعد جو کرتے ہیں وہ قوال کرتے ہیں

487288_10151081453451505_527155786_n

یا پھر چلیں عطا الحق قاسمی صاحب کی ہی سن لیں کہ اقبال کی شاعری کو بین کردیا جاے۔ لیکن کہے دیتے ہیں کہ نقل کفر کفر نا باشد۔ کل کو ہم کاغذات نامزدگی داخل کرانے جائیں اور آپ ہمارا یہ مضمون پیش کریں تو یہ اعلان برات ہے ۔

398988_10150889305091505_2061535367_n

محترم ڈفر نے اس ضمن میں فرازکا ایک ایس ایم ایس دیوان  مرتب کیا تھا جو کہ خاصہ دلچسپ ہے۔   تخلیقی کیفیت توکراوڈ سورس شاعری میں بھی کچھ کم نظر  نہیں آتی، لیکن یہ زیادہ تر ‘فراز’ کی ہی سخن پروری ہے، مثلا دیکھیں۔

فراز کی شادی میں ہوئے اتنے پھول نچھاور
کیمرہ میں فراز کے ساتھ جیو نیوز پشاور

یا پھر

ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز
اور ان کی جوتیاں لے کے بھاگ گیا فراز

 اور یہ رعایت تو خصوصا لائق ستائش ہے

وہ ہمیں بے وفا کہتے ہیں تو کہتے رہیں فراز
امی کہتی ہیں جو کہتا ہے وہ خود ہوتا ہے

دیگر زبانوں کے امتزاج سے بھی بہترین اشعار وجود میں آتے ہیں اور ثابت ہوتے کہ فراز ایک عالمگیر شاعر ہے، محض اردو میں اسے مقید نہیں کیا جاسکتا، مثلا

مجھ سے لوگ ملتے ہیں میرے اخلاق کی وجہ سے فراز
ہور میرے کوئی سموسے تے نئیں مشہور

اور

اتنا سن کر ہی ہمارا دل ٹوٹ گیا فراز
the number you have dialed is busy on another call

اور دیگر ماحولیاتی و امن عامہ سے متعلق عوامل بھی دیکھیں

 

اس گلی اس وجہہ سے جانا چھوڑ دیا فراز
وہ کمینے نوکیا گیارہ سو بھی چھین لیتے ہیں

ظالموں نے تو مغل اعظم کو بھی نہیں بخشا

اس نے مجھے رات کو اکیلے جنگل میں چھوڑ دیا فراز
یہ کہہ کر کہ جب پیار کیا تو ڈرنا کیا

فیس بک کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو حضرت اقبال پر بہتان لیکن ہمیشہ کچھ سنجیدہ سا لگتا ہے، اسقدر کہ اسے خود کو یقین دلانے کے لئے دوبارہ پڑھنا  پڑھتا ہے۔

تم حیا و شریعت کے تقاضوں کی بات کرتے ہو
ہم نے ننگے جسموں کو ملبوس حیا دیکھا ہے
دیکھے ہیں ہم نے احرام میں لپٹے کئی ابلیس
ہم نے کئی بار مہ خانے میں خدا دیکھا ہے

یا پھر

عشق قاتل سے بھی مقتول سے ہمدردی بھی
یہ بتا کس سے محبت کی جزا مانگے گا؟
سجدہ خالق کو بھی ابلیس سے یارانہ بھی
حشر میں کس سے عقیدت کا صلہ مانگے گا؟

اب ان اشعار کو پڑھنے کے بعد ہم پر تو حضرت علامہ کی لحد میں لوٹ پوٹ پر نہایت افسوس کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ فراز ایس ایم ایس نے تو اس کیفیت  پر بھی ایک شعر کہا ہے، ملاحظہ ہو

ہم تو اس قبر میں بھی سکوں میسر نہیں فراز
روز آکر کہتا ہے شیطاں کہ استاد آج کوئی نیا شعر ہوجائے 
ایس ایم ایس اشعار کا ذخیرہ تو لا امتناہی ہے مگر کچھ خیال خاطر احباب کی خاطر اس کو مختصر رکھتے ہیں اور مندرجہ زیل اشعار پر تمت بالخیر کہتے ہیں
اگر اقبال پر ہوتی رہیں انــگـلش میں تـقـریریں
بدل جائیں گی اک دن دیکھنا ملت كى تقديريں
سیل فـون اک ہاتھ میں ہے ایک میں ریمـوٹ!
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں

حوالہ جات

ہیش ٹیگ شاعری

جی ڈھونڈتا ہے

فراز، ایس ایم ایس دیوان

Share

April 30, 2013

محمد عبدالغنی، ایک عہد ساز شخصیت

Filed under: عمومیات,مشاہدات — ابو عزام @ 6:43 pm

میرے بزرگ محمد عبدالغنی کو ہم سے جدا ہوے آج چھ برس کا عرصہ ہو چلا ہے۔ اس ضمن میں ایک یادگاری مضمون قارئین کی نظر ہے۔ اللہ تعالی ان کی مغفرت فرماے، آمین۔

دی شیخ با چراغ ہمی گشت گردِ شہر
کز دیو و دد ملولم و انسانم آرزوست

اخلاق و شرافت ، علم دوستی، شائستگی و تہذیب ، بلند حوصلگی ، وسعت قلب و فکر ، وضعداری و پاسداری اور انسانی ہمدردی جیسے الفاظ ان صفات میں سے صرف کچھ ہی کا احاطہ کر سکتے ہیں جن سے محمد عبدالغنی کی نابغہ روزگار شخصیت متصف تھی۔اسم با مسمی عبدالغنی کی تمام زندگی ضرورت مندوں کی دامے، درمے اور سخنے مدد سے عبارت تھی جس روایت کو انکی اہلیہ و اولاد نے زندہ رکھتے ہوئے عم محترم کے لئے صدقہ جاریہ کا التزام رکھا۔ آپ کی مکمل شخصیت کا احاطہ کرنا اس مختصر مضمون میں تو چنداں ممکن نا ہوگا لیکن میں‌ کچھ چیدہ چیدہ نکات قارئین کے سامنے پیش کرنا چاہوں‌ گا۔

9 جنوری 1924 کو برٹش انڈیا کے صوبہ مہاراشٹر کےشہر پربنی میں آپ کی پیدائش ہوئی جو حیدرآباد دکن سے تقریبا دو سو میل کے فاصلے پر ہے۔ یہاں سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد سیکنڈری تعلیم کے حصول کے لئے آپ اورنگ آباد چلے گئے۔ بعد ازاں آپ نے جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن میں داخلہ لیا جو کہ برطانوی راج میں غیر منقسم ہند کے بہترین تعلیمی اداروں میں سے ایک تھی اور اسے انڈیا کی آکسفورڈ اور کیمبرج کا درجہ دیا جاتا تھا۔ یہاں سے آپ نے 1941 میں انٹرمیڈیٹ کے امتحانات میں علم کیمیا کے اندر پوری جامعہ میں پہلی اور علم طبعیات میں چوتھی پوزیشن حاصل کی۔ 1943 میں آپ نے کیمیا، طبعیات، ریاضی اور انگریزی کے ساتھ بی ایس سی کی تعلیم مکمل کی اور ماسٹرز میں داخلہ لیا۔ یہ وہ وقت تھا جب عمومی طور پر لوگوں کا تعلیم کی طرف رجحان نا تھا لیکن غنی صاحب نے دور اندیشی کا ثبوت دیتے ہوئے اعلی تعلیم کو اپنی کلید کامیابی قرار دیا ۔اکیس سال کی عمر میں1945 میں اطلاقی کیمیا میں ماسٹرز میں فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن حاصل کرنے کے بعد آپ نےمزید اعلی تعلیم کے حصول کے لئے جامعہ عثمانیہ کو خیر آباد کہا اور محقق کے طور پر سرکاری اسکالرشپ پر برطانیہ روانہ ہوئے ۔ غیر ملکی تعلیم کے لئے سرکاری وظیفہ حاصل کرنا ایک بڑا اعزاز تھا جسے محمد عبدالغنی نے اپنی محنت اور ذہانت سے حاصل کیا اور ہر سطح پر اپنی قابلیت کا لوہا منوایا ۔ آپ نے نارتھ اسٹیفورڈشائر تکنیکی کالج سے 1946-47 کے درمیان پروڈکشن مینیجمنٹ، پاٹری، مشین ڈراینگز، ورکشاپ ٹیکنالوجی، اطلاقی طبعیات جیسے گیارہ کلیات میں مینیجر کا کورس مکمل کیا جبکہ پاٹری اور سرامکس کے دیگر چھ کلیات میں ڈپلوما کی تعلیم حاصل کی۔ دو سال کے اندر ان تمام اسباق میں مہارت آپکی ذہانت، لگن اور محنت کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔

برطانیہ سے واپسی پر آپ نے بھارت کے بجاے پاکستان کو اپنی سرزمیں کے طور پر چنا اور سندھ گورنمنٹ میں‌ ڈپٹی ڈیولپمنٹ آفسر کے طور پر فرایض انجام دئے۔ نوزائدہ مملکت خداداد کو اسوقت جن مسائل اور چیلینجز کا سامنا تھا، ان میں‌ محمد عبدالغنی کی شخصیت اور ذہانت رکنے والے لوگوں کی اشد ضرورت تھی جو کہ اس نئے ملک کی تعمیر و ترقی کی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے اس کار گراں کا بوجھ اٹھا سکیں۔ آپ نے یہ ذمہ داری نہایت بخوبی نبھائی اور زیل پاک سیمنٹ فیکٹری، دادو‌خیل سیمنٹ فیکٹری اور میپل لیف سیمنٹ فیکٹری کی داغ بیل ڈالی۔ 1955 سے 1960 کے عرصے میں‌آپ نے میپل لیف سیمنٹ فیکٹری کے مینیجر اور زیل پاک کے ایڈمنسٹریٹیو افسر کے فرائض انجام دئے۔ آپ کی صلاحیتوں اور قابلیت کو دیکھتے ہوئے آپ کو پی آی ڈی سی کے جنرل مینیجر (سیمنٹ) کے عہدے پر فائز کیا گیا جہاں سے آپ 1961 سے 1971 کی دہائی میں زیل پاک سیمنٹ فیکٹری، دادو‌خیل سیمنٹ فیکٹری، جنرل ریفیکٹریز اور میپل لیف سیمنٹ فیکٹری کو بخوبی چلایا۔ اس ایک دہائی کے دوران ان فیکٹریز کی مکمل ذمہ داری آپ کے کاندھوں پر تھی جس میں‌ مارکٹنگ، پلاننگ، مینیجمنٹ، آرگنائزیشن، لیبر تعلقات وغیرہ شامل ہیں۔ اس دوران آپ نے نا صرف پروڈکشن میں کئی گنا اضافہ کیا بلکہ مشرق وسطی میں پاکستانی سیمنٹ کی کھپت کے لئے نئی منڈیوں کی تلاش کا سہرہ بھی غنی صاحب کے ہی سر جاتا ہے۔آپ ایک ‘سیلف میڈ’ انسان تھے اور ‘ہم وہ نہیں کہ جن کو زمانہ بنا گیا’ کی عملی تفسیر۔ اسی وجہ سے آپ نے ہمیشہ لوگوں‌ کو نامصائب حالات میں محنت کرنے اور اپنی مدد آپ کرنے کی تلقین کی۔

1971 میں حکومت وقت کے سیمنٹ فیکٹریوں کے قومیاے جانے کا فیصلہ کیا جس کو بعد میں تاریخ نے ایک سنگین غلطی ثابت کیا،۔ اس عرصے میں آپ نے 1972 سے 1976 تک اسٹیٹ سیمنٹ کارپوریشن، جاویداں سیمنٹ فیکٹری کے مینیجنگ ڈایریکٹر کے فرایض انجام دیئے۔ جو لوگ پاکستان کی سیمنٹ کی صنعت کے لئے آپ کی دیرینہ خدمات سے آگاہ ہیں وہ آپ کو کئی حلقہ جات میں پاکستان کی اس صنعت کا قائد اور ‘باباے سیمنٹ’ کہتے ہیں۔ لیکن اجتماعی طور پر ہماری احسان نا شناس قوم نے آپ کی خدمات کو قومی سطح پر سراہنے کے بجائے اسے بھلا دیا۔

محمد عبدالغنی کے وسیع تجربے اور قابلیت سے دیگر ممالک نے بھی فائدہ اٹھایا۔ آپ نے بہاما سیمنٹ کمپنی اور گلف گروپ آف کمپنیز میں کنسلٹنٹ کے فرائض انجام دئے اور ان اداروں کی مدد سے کئ ممالک بشمول فلپائن میں‌ سیمنٹ کی صنعت کی داغ بیل ڈالنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ بعد ازاں آپ نے روسکیم انٹرنیشنل ہیوسٹن میں بھی کنسلٹنٹ اور ایڈوائزر کے طور پر کام کیا جس کے بعد بینکرز ایکیوٹی نے قرضہ جات کے تعین اور اندازہ کے لئے اپریزر کے طور پر آپ کی ماہرانہ خدمات حاصل کئیں۔

ہمہ از آدمیم ما، لیکن

او گرامی تر است کُو داناست

کسی بھی نئی صنعت کے قیام کے لئےتجربے، وسائل اور پرزہ جات کی کی شدید ضرورت ہوتی ہے۔ اس زمن میں آپ نے بیرون ملک سفر کئے اور کئی کلیدہ معاہدوں کے تحت پاکستان کی سیمنٹ کی صنعت کو اسکی بنیادی ضروریات بہم پہنچائی ۔ ان دوروں کے تحت آپ ڈنمارک، امریکہ، فرانس، مغربی جرمنی، یوکے، سویٹزرلینڈ، سویڈن، اٹلی، چیکوسلاواکیا، ایران، سعودی عرب، جاپان غرضیکہ مشرق وسطی اور بعید کے کئی ممالک سے معاہدے کئے نیز وہاں کے پلانٹس سے حاصل کئے تجربات کو پاکستانی سیمنٹ کی صنعت کی بہتری کے لئے استعمال کیا۔

ان تمام پیشہ وارانہ قابلیتوں کے بعد بھی عبدالغنی صاحب تمام عمر ایک سادہ اور منکسر مزاج انسان کے طور پر جانے جاتے رہے۔ آپ نے ہمیشہ اپنے ضرورت مند عزیز و اقربا کی دامے درمے سخنے مدد کی ۔ آپ نے کبھی ظاہری دکھاوے کو اپنا شعار نہ بنایا بلکہ ہمیشہ لوگوں کو اس بات کی تلقین کی کہ وہ اپنی ترجیحات صحیح طرح متعین کریں۔ان کی جدوجہد اور ترقی ہمیشہ سے میرے لئے ذاتی طور پر ایک مثال رہی ہے۔ وہ مجھ سے ہمیشہ میری تعلیم کے بارے میں پوچھا کرتے تھے۔ جب میں آٹھ سال کی عمر میں‌ اپنا پہلا کمپیوٹر سرٹیفیکیٹ ان کے پاس دکھانے لے گیا تو بہت خوش ہوئے اور شاباشی دی۔ ان کی اہلیہ ناہید غنی نے بھی بہت حوصلہ افزائی کی اور انعام کے طور پر سو رپے دیے جو میرے لیئے ہمیشہ ایک بیش بہا خزانے کی اہمیت رکھیں گے۔ اپنی اولاد کو بھی انہوں نے اعلی تعلیم دلوائی اور ہمیشہ انسانی ہمدردی اور رواداری کی تلقین دی جو آج بھی ان کی زندگی کا جزو لا ینفک ہے۔ سادہ و منکسر چچا جان اپنی تعریف کے قطعی قائل نا تھے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر میرا یہ مضمون پڑھ لیں تو ضرور کہتے کہ میاں اپنی پی ایچ ڈی کی تعلیم پر توجہ دو، یہ کہاں تم مدح سرائیوں میں لگے ہو۔

m a ghani adnan masood childhood

مجھ کو دہراؤ گے محفلوں میں مثالوں کی طرح

اپریل 2007 کے آخری ہفتوں کی بات ہے کہ خبر ملی کہ چچا جان صاحب فراش ہیں۔ شام کو اپنی والدہ کے ہمراہ ان سے ملنے یو سی ایل اے میڈیکل سینٹر گیا تو ان کے گرد تمام گھر والے جمع تھے ۔ انہیں دوسروں کے آرام کا اسقدر خیال تھا کہ عیادت کرنے تو میں گیا تھا مگر الٹا مجھ سے ہی پوچھنے لگے کہ راستے میں کہیں ٹریفک تو زیادہ نہیں ملا اور سفر میں مشکل تو نہ ہوئی۔ کچھ دیر بعد جب میں نے اجازت لی اور کہا کہ انشااللہ کل ملاقات ہوگی تو میرے وہم و گمان میں بھی نا تھا کہ یہ میری ان سے آخری ملاقات ہے۔ اگلی صبح شاہد بھائی کا فون آیا کہ پاپا کا انتقال ہو گیا ہے۔

اناللہ وانا علیہ راجعون

آپ کی تدفین میں‌ لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ دنیا بھر سے رشتے داروں اور دوستوں کے تعزیتی پیغامات کا تانتا بندھا رہا۔

بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا

لیکن سب سے اہم چیز جو انہوں نے اپنے میراث میں چھوڑی وہ متاع دنیا یا شہرت نہیں بلکہ اپنی اولاد اور خاندان والوں میں علم دوستی اور انسانی ہمدردی کا جذبہ تھا۔ آج انکا پوتا منصور غنی امریکہ کی جامعہ ییل کا طالبعلم ہے جو کئی امریکی صدور کی علمی و فکری درسگاہ رہی ہے۔ علم کی اہمیت کا یہ بیج بونے کا سہرا اس کے دادا ہی کے سر رہے گا .

آپ کی علمی و تکنیکی صلاحیتوں کا ایک زمانہ معترف تھا۔ انکے ایک ماتحت اور میرے عزیز دوست کے والد بیان کرتے ہیں کہ “میں نے غنی صاحب جیسا ایماندار، ڈسپلنڈ اور نظم و ضبط کا پابند افسر اپنی تیس سالہ سروس میں آج تک نہیں دیکھا۔ ان کو جھوٹ، رشوت، سفارش سے سخت چڑ تھی اور قاعدے قانون کی پابندی انکی پیشہ وارانہ زندگی کا نہایت اہم جز”۔

حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

photo

Share
Older Posts »

Powered by WordPress