فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

May 31, 2012

سفر حیات، اداس نسلیں از عبداللہ حسین سے ایک اقتباس

Filed under: ادبیات,کتابیات,مشاہدات — ابو عزام @ 1:31 am

ہم باتیں کرتے ہیں اور باتیں اور باتیں حتی کہ ایک روز بیٹھے بٹھاۓ ہمیں احساس ہوتا ہے کہ یہ اس قدر بے سود ہے اور یہ احساس بڑا خوفناک ہوتا ہے. تمہیں کبھی ہوا ہے؟ اس کے باوجود ہم چلتے جاتے ہیں. منزل سے منزل کی طرف’ چہرے سے چہرے کی طرف ‘ بات سے بات کی طرف حتی کہ ہم تھک جاتے ہیں اور اداس ہو جاتے ہیں اور ہمارے دل سے امن غائب ہو جاتا ہے. پھر خاموش جنگلوں کی آرزو پیدا ہوتی ہے. تمہیں پتا ہے دل میں کسی آرزو کا پیدا ہونا سکون کے کھو جانے کی نشانی ہے؟ آرزو جو کبھی نہ کبھی حسرت بن جاتی ہے. خاموش جنگل اور ساتھی کے طور پر ایک گھوڑا یا کتا’ اور چمکدار موسم’ اور خیال آرائی’ تاکہ ہم چلے جائیں چلے جائیں اور بڑی بڑی عظیم مقدس باتوں کے بارے میں سوچیں . اس وقت ان بیشمار چھوٹی چھوٹی غیر ضروری باتوں کے لئے ہمارے دل میں نفرت پیدا ہو جاتی ہے جن میں ہم عمر بھر مصروف رہے اور ہم عظیم فکر کے لئے تڑپتے ہیں جو کبھی ہمارے ذہن میں پیدا نہ ہوئی. ایک وقت اتا ہے جب ماضی کی چھوٹی سے چھوٹی بات ہمیں اداس کر دیتی ہے. کوئی چہرہ’ کوئی لفظ’ کوئی پرانی دھن جو ہم نے کسی غیر آباد گلی میں سے گزرتے ہوئے دور سے سنی تھی. ہم اس بچے کی طرح محسوس کرتے ہیں جو ہر وقت رونے کے لئے تیار رہتا ہے..

دراصل ہم تھک چکے ہوتے ہیں’ اس مستقل عجلت سے جو ہماری زندگی میں راہ پا جاتی ہے’ جو مسلسل ہمیں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے پر مجبور کرتی ہے’ ان جگہوں پر لے جاتی ہے جہاں جا کر ہم کبھی خوش نہیں ہوتے. دراصل ہم محض اکتا چکے ہوتے ہیں’ عمر بھر سے جو ہم نے جہالت میں بسر کی’ وہ گئے گزرے زمانے جو ہم نے ضائع کر دیئے’ ہمارے خوف’ ہمارے جذبے’ ہماری اپنی جوانی اور بڑھاپا جو ہم نے بچوں کی طرح گزارا’ یا احمقوں کی طرح. اس وقت سڑک پر جاتی ہوئی ایک بس بھی ہمیں سارا وقت یاد دلا دیتی ہے کہ ہم ایک گاڑی کی طرح سرگرداں رہےجو اپنی لائنوں پر چلے جاتی ہے’ چلے جاتی ہے’ لائنیں جو اسے لئے جاتی ہیں’ پوچھے بغیر’ جانے بغیر’ پہچانے بغیر’ ہمیں ہانکا جاتا ہے’ ہم ہنکے جاتے ہیں. اپنی خوراک’ اپنی باتوں اور اپنے جذبوں کا بوجھ اٹھاۓ ہوئے. ہماری کتابیں’ ڈگریاں’ بہترین درزیوں کے ہاں کے سلے ہوئے سوٹ جن کا ذکر کرنے سے ہم کبھی نہیں چوکتے’ خوشنما رنگوں کی ٹائیاں’ ٹوپیاں اور خوشبوئیں جو ہم نے اعلیٰ درجے کی دوکان سے خریدیں’ سب کو کندھے پر لادے’ اپنی ساری امارت کو اٹھاۓ’ ہر قسم کے خیال کو قبول کرتے ہوئے….. خیال جو پڑاؤ سے پڑاؤ تک غائب ہو جاتا ہے…. کھاتے کھاتے اور کھاتے ہوئے’ اور باتیں کرتے ہوئے. باتیں؟ ان جگہوں کی جو ہم نے دیکھیں’ ان چیزوں کی جو ہماری ملکیت ہیں’ ہماری رائیں اور قیاس آرائیاں جن کا کوئی وجود نہیں ہوتا’ جو کسی کے لئے اہمیت نہیں رکھتیں’ ہمارے اپنے لئے بھی نہیں.. اس کے باوجود انہیں اخلاق اور توجہ کے ساتھ سنا جاتا ہے اور جواب میں جو کچھ کہا جاتا ہے اسے ہم توجہ اور اخلاق کے ساتھ نوٹ کرتے ہیں’ انہیں اہمیت دیئے بغیر’ ان کی پرواہ کئے بغیر.

تمہیں پتا ہے دنیا میں ہم کتنی نرمی’ کتنے اخلاق’ کتنی مکّاری سے ایک دوسرے کے ساتھ پیش آتے ہیں. ہم دنیا بھر کا سفر کرتے ہیں اور رائیں قائم کر لیتے ہیں اور پھر انہیں وقت گزارنے یا ایک دوسرے کو مرعوب کرنے کے لئے ہتھیاروں کے طور پر استعمال کرتے ہیں. اور ہماری رائیں کیا ہوتی ہیں؟ یہی کہ روضہ تاج محل خوبصورت عمارت ہے اور چین کے مجلسی حالات بہتر ہو رہے ہیں یا نہیں ہو رہے ہے اور دنیا میں اچھے شاعر پیدا ہونے بند ہو گئے ہیں. ہم انہیں بار بار دوہراتے ہیں حتی کہ اپنی تقریر میں ماہر ہو جاتے ہیں’ ٹورسٹ گائیڈ کی طرح. پھر ہم اس کا استعمال شروع کرتے ہیں. ہر ایک کے پاس اپنا اپنا سکہ بند طریقہ ہے’ برسوں کے تجربے اور مشق کے بعد اپنایا ہوا رویہ’ غیر شخصی سرسری پن’ یا محتاط’ شخصی اور منہمک رویہ. ہم بہر حال ہر منزل پر’ ہر طریقے سے اپنے آس پاس کے لوگوں کو ہم خیال بنانے کی’ دوسرے لفظوں میں انہیں مرعوب کرنے کی انتہائی جدوجہد کرتے ہیں’ ان کی کوئی پرواہ کئے بغیر’ اور مستقل یہ جانتے ہوئے کہ ہماری زرہ برابر پروا ان کو نہیں ہے. ہم اپنی زندگی کے خلا کو چھوٹی موٹی باتوں سے پر کرنے کی کوشش کرتے ہیں’ گفتگو جو تسکین بخش بھی اتنی ہی ہوتی ہے جتنی کہ گمراہ کن. اور پھر وہ وقت آتا ہے’ وہ جو ہم تھک جاتے ہیں اور پیچھے رہ جاتے ہیں اور بس کا تیل ختم ہو جاتا ہے اور ہمارا سارا بوجھ سڑک کے کنارے بکھر جاتا ہے’ کچھ مردہ کچھ نیم مردہ’ اور دفعتا حقیقت ہمارے سامنے آجاتی ہے’ کہ یہ سب اس قدر بے سود تھا’ سب! کہ بلآخر ہم وہاں پہنچ گئے ہیں جہاں سکون نہیں ہے اور ہم واپس نہیں جا سکتے’ کہ جہاں محض نقصان عظیم کا احساس ہے’ کہ ہم پرانی بس کی طرح بدصورت اور بیکار ہیں اور ان چاہے’ ان جانے سڑک کے کنارے کھڑے ہیں’ بختاور ہیں تو توڑ پھوڑ کر دوبارہ ڈھالے جائیں گے’ بد بخت ہیں تو محض نظر انداز کر دیئے جائیں گے..

” اب ہم پریشان ہیں’ تنہائی کے خوف سے ہراساں ہیں’ تنہا ہیں’ بے حد تنہا ہیں. کیوں؟ کیا ہم صرف اس دن کے لی اتنی مدت سے رہنے آرہے تھے؟ ہمارا نصب العین’ ہمارے الفاظ’ احساسات’ جذبات’ وہ کام برسہا برس کی مشق سے جن میں ہم نے مہارت حاصل کی’ دور دراز کے سفر’ دوست’ فہم جو ہم نے تقریر اور میل جول کے زریعے تیز کیا’ ہماری ہر دلعزیزی جو ہمارے ارد گرد اور ساتھ ساتھ چلتی تھی’ سب ختم ہو گیا؟ کیوں؟ کیوں؟ اب ہم سوچنے سے قاصر ہیں کہ کبھی سوچ ہی نہیں پاۓ. پر ہم جانتے ہیں’ جیسا کے ہم کئی اور باتیں جانتے ہیں’ کہ ہم نے جس چیز کی تلاش کی اسے پایا اور جس کے لئے اب حیران پریشان کھڑے ہیں اس کی تلاش ہی میں کبھی نہ نکلے’ صاف سیڑھی بات ہے. چناچہ اب تم چین کی بنسری بجاؤ اور قناعت سے بیٹھ کر خاتمہ بالخیر کا انتظار کرو’ انتظار کرو اور نچلے بیٹھو’ نچلے بیٹھو کہ یہی اصل مقام ہے. پر چین کی بنسری بجاۓ نہی بجتی اور ہم انتظار نہی کر سکتے. ہم جانتے ہیں کہ جتنے بھی انہماک اور لاپروائی اور صبر کے ساتھ انتظار کریں جب موت آ ئےگی تو ہمیں پریشان کر دیگی’ جیسے کہ ہر کسی کو کر دیتی ہے. باوجود ساری باتوں کے’ جب یہ آتی ہے تو خوف زدہ کر دیتی ہے. زندگی میں پہلی بار ہم سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں… ایک چمکیلی خوشگوار صبح کو اپنے بائیں باغ میں کھڑا خرگوشوں اور مرغیوں کو ناشتہ کھلا رہا ہوں. پرانا کڑوا تمباکو پی رہا ہوں اور اپنے پوتے پوتیوں کو سبزے پر کھیلتے کودتے دیکھ رہا ہوں. میری طبعیت میں ٹھہراؤ اور ربودگی آ چکی ہے اور میں سنبھل سنبھل کر اطمینان سے چلتا پھرتا ہوں. نوجوان آدمی کام پرجاتے ہوئے پاس سے گزرتے ہیں اور جھک کر سلام کرتے ہیں….. “قابل عزت بزرگ. سلیقے سے بسر کی ہوئی زندگی” وہ ایک دوسرے سے کہتے ہیں. پھر سامنے ایک اور چلا آتا ہے. ایک سفید سر والا دانا شخص’ چھڑی کے سہارے اپنے اپ کو سنبھالے’ وقار اور اطمینان کے ساتھ چلتا ہوا. نوجوان آدمی جھک کر سلام کرتے ہیں اور پہلی والی بات آپس میں دوہراتے ہیں. وہ اخلاق سے مسکرا کر جواب دیتاہے اور میرے سامنے آکر چند منٹ کے لئے رک جاتا ہے. ہم ایک دوسرے کو سلام کرتے ہیں اور موسم کے متعلق اظہار رائے کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی صحت کے متعلق پوچھ گچھ کرتے ہیں’ پھر خاموش ہو جاتے ہیں. اب کہنے کے لئے کچھ نہیں ہے. ساری باتیں اتنی غیر ضروری معلوم ہوتی ہیں. خرگوشوں کا ناشتہ اور چمکدار موسم اور دو خوشنما’ سجے سجاۓ بڈھے’ خالی الذہن اور مطمئن’ ایک دوسرے کے ڈھونگ کو جانتے ہوئے اور چھپائے ہوئے’ بلا وجہ نادم اور خوش مزاج ……. پھر وہی بات کرنے کے انداز میں کھنکارتا ہے اور محض ہاتھ سے سلام کر کے چلا جاتا ہے. میں پیچھے مڑ کر نہی دیکھتا لیکن میں جانتا ہوں اور ذہن کی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں. نہایت سلیقے سے خالی کی ہوئی ایک زندگی’ بے وجہ’ بے جواز.. جانتا ہوں کہ وہ مجھے دیکھ رہا ہے. ہم دونوں ایک دوسرے کو اچھی طرح سے جانتے ہیں پر کبھی تسلیم نہیں کرتے

اداس نسلیں از عبداللہ حسین

Share

May 28, 2012

اداس نسلیں از عبداللہ حسین

Filed under: ادبیات,کتابیات — ابو عزام @ 2:42 pm

کچھ کتابیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں پڑھنے کے بعد آپ کو کم از کم اس صنف میں موجود دیگر کتب انکےآگے ہیچ لگنے لگتی ہیں، اپنی کم علمی کم مائگی کا احساس بڑھتا جاتا ہے کہ میاں، تم نے تو اس شہرہ آفاق ناول کو آج تک نہ پڑھا تھا اور بلاوجہ اردو ادب سے واقفیت کی ڈینگیں مارتے رہے وغیرہ وغیرہ۔ عبداللہ حسین کا ناول ‘اداس نسلیں’ بھی اسی قسم کی ایک نہایت اہم و دلچسپ کتاب ہے جو فکشن اور نان فکشن کے درمیانے احاطے میں با آسانی چہل قدمی کرتے ہوئے تین نسلوں کی سرگذشت سناتی ہے۔ ۱۹۶۳ میں چھپنے والے  اس ضخیم ناول کو اکثر برصغیر کے بٹوارے کی داستاں گردانا جاتا ہے لیکن پیش منظر میں بہت سے دیگر نہایت اہم موضوعات  زیر بحث رہے جن میں مقصد حیات، طبقاتی تقسیم، غربت و استحصال، سماجی اقدار، مذہب و کلچر کا آپسیں رشتہ، مذہب، الحاد اور عقل کے باہمی تعلق پر مکالمے شامل ہیں۔ اس کتاب کو سنگ میل پبلشرز نے شائع کیا ہے اور اسکا انگریزی ترجمہ بھی ویری نیشنز کے نام سے ایمزن پر دستیاب ہے جس کے بارے میں سننے میں آیا ہے کہ وہ ایک مبتدی کی ایک ماہر ہنر کے کام کو نقل کرنے کی کوشش ہے۔، واللہ عالم،

‘اداس نسلیں’ کا مرکزی کردار نعیم نامی ایک شخص ہے جس کی زندگی کے مختلف ادوار برصغیر کے مختلف سماجی میلانات اور سیاسی ادوارکے متوازی حرکت کرتے ہیں۔ گاوں کی سادہ محنت کش زندگی سے ہونے والی ابتدا، پھر مراعات یافتہ طبقے میں پلنا بڑھنا، گاوں کی زندگی میں واپسی، جنگ عظیم میں شرکت اور جنگ کی تمام ہولناکیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا، اور پھر رومانویت کی ایک داستان جس میں طبقاتی تقسیم زوروں پر دکھائ دیتی ہے۔ عبداللہ حسین نے سیاسی و سماجی بھول بھلیوں میں بھٹکتے اس شخص کی زندگی کے اتار چڑھاو سے ایک ایسی داستاں کا جال بنا ہے کہ جو قاری کو مستقل اپنے شکنجے میں جکڑے رکھتا ہے۔

یہ ناول ایک ‘ایپک’ داستاں ہے اور مہابھارت سے لے کر ہومر سے لے کر ایپک کی ایک خوبی اسکی طوالت ہوتی ہے۔ ۴۵۰ صفحات کی اس کتاب کو ایک کنٹیمپرری ایپک کہا جاسکتا ہے جس کے مصنف نے نا تو خود سے بٹوارہ دیکھا اور نا ہی انکی مادری زبان اردو ہے لیکن مکالمہ سازی، پلاٹ، کردار سازی اور قصہ گوئ میں عبداللہ حسین کو جو ملکہ حاصل ہے وہ عالمی ادب میں چیدہ چیدہ مصنفین کے پاس ہی نظر آتا ہے۔ لائف آف پائ کی تمثیل تو شائد مہمل ٹھرے لیکن ۱۷۷۶ کے ڈیوڈ میکیلگ بھی عبداللہ حسین سے تنوع سیکھ سکتے ہیں۔ دو کسانوں کی باہمی عامیانہ گفتگو ہو، نعیم اور انیس کا فلسفیانہ مکالمہ ہو، روشن علی آغا کی غدر میں سنہرے بالوں والے انگریز کو جان ہتیلی پر رکھ کر  بچانے کی لرزہ خیز کہانی ہو یا اینی بیسنٹ کا مجلس خدام ہند پر تبصرہ، مصنف نے اس خوبی سے ان تمام موضوعات کو ایک جامع ناول میں یکجا کیا ہے کہ ہر ایک کردار جدا بھی ہے اور بڑے کینوس کا حصہ بھی۔

یہ ناول اشفاق حسین کی طرح ‘پریچی’ نہیں، منٹو کی طرح ‘ایکسپلسٹ’ نہیں اور بانو قدسیہ کی طرح ‘انکلسوڈ’ نہیں۔ انگریزی کے اصطلاحات استعمال کرنے کی معذرت لیکن اداس نسلیں کے مصنف نے بھی اس امر میں کوئ شرم محسوس نا کی۔ مذہب و الحاد پر جس قسم کی عمیق و جداگانا بحث ہمیں انکے یہاں ملتی ہے اس کا عشر عشیر بھی آج کے ترقی پسند لٹریچر میں نظر نہیں آتا۔ عبداللہ حسین کے اس ناول نے جدید واقعہ گوئ کو درویش کے قصوں سے ملا کر ایک ایک نئی صنف کی بنیاد ڈالی ہے۔ ایک مچھیرے کی روداد پر لکھتے ہیں

. نیند پھر بھی نہ آئی. میں اٹھ کر چٹائی آگ کے قریب لے گیا. مگر چند ہی سانس لئے ہونگے کہ گرمی کی شدّت سے بلبلا اٹھا. اب میں اکڑوں بیٹھا تھا اور اپنی جسمانی حالت پر غور کر رہا تھا کہ سوچتے سوچتے مجھے ایک تجویز سوجھی. میں نے ٹوکری اٹھائی اور گندی مچھلیوں کو چن چن کر ایک طرف رکھا. “نیند تو آتی نہیں. آؤ تم سے گپیں ماریں. میں نے کہا اور ایک سڑی  ہوئی مچھلی اٹھائی. مچھلی کی باچھیں کھلی ہوئی تھی.

” میرا باپ زندہ ہوتا تو تمہیں مرنے سے پہلے ہی چھوڑ دیتا. لیکن میں تمہیں آسانی سے نہیں چھوڑنے کا کان کھول کر سن لو. میں نے کہا. “تم لکھ ہنسو’ لیکن تمہارے بچے اور دوسرے رشتہ دار تمہاری موت پر آنسو بہا رہے ہونگے.مچھلی اسی طرح ہنستی رہی. مجھے اس پر غصہ آگیا. ‘ تم سوتی نہیں؟ بے آرام جانور. تمھ مارے بھی ایک عرصہ ہو گیا پر بے دید آنکھیں اسی طرح کھلی ہیں. نہ خود سوتی ہیں نہ کسی کو سونے دیتی ہو لو…..’ یہ کہ کر میں نے اسے آگ میں اچھال دیا. تھوڑی ہی دیر میں خشک مچھلی تر ترا کر جلنے لگی. مگر اس کی آنکھیں اسی طرح کھلی تھی اور آگ میں پڑی ہوئی وہ ابھی تک ہنس رہی تھی. میں نے غصّے میں دوسری مچھلی کو بھی اٹھا کر آگ میں پھینکا. یہ مقابلتا سنجیدہ چہرے والی مچھلی تھی  لیکن یہ بھی جاگ رہی تھی. جلتی ہوئی مچھلی کی چربی کی بو ہر طرف پھیل رہی تھی جو کہ اگر تم نے کبھی سونگھی ہے بچو تو تمہیں پتا ہوگا کہ کافی اشتہاء آور ہوتی ہے مگر آدھی رات کے وقت میں نے زیادہ کھانا مناسب نہ سمھجا اور بھوک کو کسی اور وقت پر ٹال کر ایک اور مچھلی اٹھائی.
“تمہاری جلد بڑی خوبصورت اور نرم ہے. شاید کوئی گاہک مل جاۓ. تم آرام کرو.” یہ کہہ کر میں نے اسے ایک طرف رکھ دیا.
“یہ تجویز کارگر ثابت ہوئی اور کافی دیر تک اس کے ساتھ گپ شپ کرنے اور ناکارہ مچھلیوں کو جلانے کے بعد میں خود بخود سو گیا.

اور جلیانوالہ باغ کا سانحہ ایک عام فرد کی آنکھوں سے دیکھیں۔

“دروازے میں سے ابھی تک چلاتے ہوئے لوگ داخل ہو رہے تھے. مسلمان اپنے خدا اور مذہبی رہنماؤں کا نام لے کر اور ہندو اور سکھ اپنے اپنے خداؤں کو پکار پکار کر نعرے لگا رہے تھے. جب میں مڑا تو سب لوگ ایک سیاہ داڑھی والے شخص کی طرف دیکھ رہے تھے جو ایک اونچی جگہ پر کھڑا مجمعے کو چپ کرانے کے لیے ہاتھ پاؤں مر رہا تھا. اس کی داڑھی ہوا میں ہل رہی تھی لیکن وہ اپنی کوشش میں کچھ زیادہ کامیاب نہ رہا.دیکھتے ہی دیکھتے اس کے پیچھے ایک گورا نمودار ہوا جس نے فوجی افسروں کی وردی پہن رکھی تھی.اس نے دھکا دے کر کالی داڑھی والے کو نیچے گرا دیا اور اسی کی طرح ہاتھ ہلا ہلا کر کچھ کہنے لگا. ایک لمحے کے لیے خاموشی چھا گئ اور اس کی انتہائی غصیلی آواز ہمارے کانوں میں آئ. اس کی بات کسی کی سمجھ میں نہ آئی لیکن اسکی حرکات و سکنات سے ظاہر تھا کہ وہ ہمیں وہاں سے دفع ہو جانے کو کہہ رہا ہے. اچانک شور پھر بلند ہوا اور اسکی آواز دب گئی. ایک طرف سے کسی نے جوتا اتار کر اسکی طرف پھینکا. پھر ہر طرف سے جوتوں کی یلغار شروع ہوئی. ساتھ ساتھ مجمع مکمل حرکت میں تھا.کیونکہ اس دھکم پیل میں ایک جگہ روکنا سخت مشکل تھا. اب آس پاس سے ہزاروں نئے اور پرانے جوتے پھینکے جا رہے تھے اور ہوا میں جوتوں کی یلغار تھی جیسے دریا کی سطح پر سے مرغابیوں کی زار اڑ کر ایک لمحے کے لیے اندھیرا کر دیتی ہے……لیکن فوجی افسر کے ارد گرد کے لوگ ڈرے ہوئے چپ چاپ کھرے ہوئے تھے اور پیچھے سے آنے والے جوتے ان کے سروں پر گر رہے تھے. اس وقت میں نے ہوشیاری سے کام لے کر اپنے جوتے سنبھال کر رکھے کیونکہ  میرے پاس’ تم جانتے ہو بچوں کہ جوتوں کا صرف ایک ہی جوڑا ہے. جب جوتے ختم ہو گئے تو لوگوں نے اپنے کپڑے اتاراتار کر پھینکنے شروع کر دیئے. اب پگڑیوں ‘ قمیضوں اور بنیانوں کے گولوں کی بوچھاڑ ہو رہی تھی اور جلد ہی آدھے سے زیادہ لوگ ننگے بدن ہو گئے بلکہ بعض تو بےحیائی سے کام لے کر سب کچھ ہی نکال کر پھرنے لگے. جب سب کچھ ختم ہو گیا تو صرف شور باقی رہ گیا جو کہ ہجوم اور وہ فوجی افسر مل کر مچا رہے تھے. اتنے میں میرے آگے کھڑا ہوا ایک شخص مڑا اور میری ٹوکری کی طرف بڑھا. میں پیچھے ہٹا تو عقب میں دس بارہ ہاتھوں نے ٹوکی گھسیٹ لی اور اس میں سے مچھلیاں اٹھا کر خونباز نظروں سے مجھے دیکھنے لگا. پھر پورے زور سے انہوں نے مچھلیاں ہزاروں انسانی سروں کے اوپر سے اس طرف کو پھینکیں. جن لوگوں پر وہ گریں انہوں نے اٹھا کر آگے پھینکیں’ پھر آگے’ اور آگے’ اور اسی طرح ایک مچھلی جا کر فوجی افسر کی آنکھوں کے درمیان لگی. اس نے وہیں پر اسے پکڑ لیا اور یل لحظے تک اسے دیکھتا رہا’ پر سر اٹھا لر مجمعے کو دیکھا’ پھر مچھلی کو ‘ پھر مجمعے کو. دفعتا اس نے مچھلی مچھلی سر سے بلند کی اور پوری طاقت سے اسے سامنے کھڑے شخص کے منہ پر کھینچ مارا. پھر اس نے بازو ہوا میں پھینکے اور پاگلوں کی طرح چیخ مار کر چلایا. اسی وقت گولی چلنی شروع ہوئی..

اس کتاب کو ختم کرنے میں وقت کی کم کی وجہ سے مجھے تقریبا ایک ہفتہ لگا۔ اگر آپ نے اردو ناول کے صف اول کی کتاب پڑھنی ہے تو اداس نسلیں آپ کی تپائ پر یقینا دھرا ہونا چاہیے۔

Share

May 24, 2012

حقیقت تمثیل از ابن عربی

Filed under: تحقیق,کتابیات,مذہب,مشاہدات — ابو عزام @ 12:49 pm

فصوص الحکم میں  ابن عربی حکمت قدوسیہ فص کلمۂ ادریسیہ کے بیان میں کہتے ہیں

یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ کسی مسئلے کی تحقیق جدا ہوتی ہے اور مثال کے طور پر یا عبرت لینے یا نصیحت پکڑنے کے لیے کسی جانور کے فرضی قصّے کا بیان کرنا یا غلط، مگر مشہور واقعے کی طرف اشارہ کرنا درست ہے. کیونکہ اس وقت مقصود صرف تمثیل اور عبرت ہوتی ہے..

واقعات اور مسائل کی تحقیق و تنقید کا مقام دوسرا ہوتا ہے.مثلاً کوئی کہے کہ حریص کو کچھ نہیں ملتا. بلکہ جو کچھ اپنا تھا اس کو بھی کھو دیتا ہے. جیسے ایک حریص کتا جس کے منہ میں گوشت کا ٹکڑا تھا. ندی پر سے گزر رہا تھا. اس نے ندی میں اپنا سایہ دیکھا’ اس نے سمجھا کہ ایک دوسرا کتا منہ میں گوشت کا ٹکڑا پکڑا لیے جا رہا ہے. حریص کتا اپنا منہ کھول کر اس کے گوشت کے ٹکرے کو چھینے کے لیے جھپٹا. اور اپنا گوشت کا ٹکڑا بھی کھو دیا. دیکھو اس واقعے سے صرف حرص کی مذمّت مقصود ہے. اور وہ اس سے حاصل ہے.یہ بات کہ واقعی کسی کتے نے ایسا کیا’ یا نہیں’ ہمارے مقصود سے خارج ہے.

ہیت دانوں کے دو فرقے ہیں.

بعض زمین کو مرکز علم سمجھتے ہیں اور یہ بطلیموسی کہلاتے ہیں.۱
بعض آفتاب کو اپنے سیاروں کا مرکز سمجھتے ہیں. اور یہ فیثا غورثی کہلاتے ہیں.۲

تابعین فیثا غورث کے خیال میں ہر ایک ثابتہ آفتاب ہے اور اس کا نور ذاتی ہے

بعض ثابتے ہمارے آفتاب سے بہت بڑے ہیں. کہکشاں ہیں. جس کو عربی میں مجرہ کہتے ہیں کروڑ ہا کروڑ آفتاب ہیں. دودو ثابتے یا آفتاب با ہم ایک دوسرے کے اطراف گردش کرتے ہیں. اور دودو کا جوڑا. اور ایک جوڑے کے اطراف گردش کرتا ہے بعض کے پاس قمر زمین کے اطراف گردش کرتا ہے اور زمین مع قمر کے آفتاب کے گرد گردش کرتی ہے. آفتاب مع تمام سیارات کے کسی بہت بڑے آفتاب کے گرد گردش کرتا ہے. اور تمام آفتاب ہاۓ عالم ایک شمس الشموس کے اطراف گردش کرتے ہیں. زمین کو ساکن ماننے والوں کے پاس ستاروں کی جو ترتیب ہے اس کو شیخ نے یہاں بطور تمثیل کے بیان کیا ہے. اور یہاں صرف علوۓ مکان کی مثال مقصود ہے نہ کہ تائید نظام بطلیموسی.

ہم کو بحیثیت مذہبی آدمی اور صوفی ہونے کے نہ نظام فیثا غورث سے غرض ہے نہ نظام بطلیموسی سے. اس مسئلے کو یاد رکھو. یہ بہت سی جگہ نفع دیگا.

Share

May 15, 2012

فصوص الحکم از ابن عربی

Filed under: ادبیات,کتابیات,مذہب — ابو عزام @ 12:23 pm

ابن عربی کا نام تصوف و فلاسفہ سےآگاہی رکھنے والوں کے لیے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ انکی مشہور زمانہ کتاب  فصوص الحکم کا اردو ترجمہ از مولانا عبدلقدیر صدیقی کچھ عرصے پہلے پڑھنا شروع کیا۔ اس کتاب کے ساتھ ساتھ اسکے عربی متن اور انگریزی ترجمے کو بھی ساتھ رکھا ، منشا یہ تھا کہ زبان و بیان کے تعلق سے ترجمے اور معنویت میں زیادہ فرق نا آئے، اس وجہ سے اس اصطلاحات سے پر دقیق کتاب کا مطالعہ مزید مشکل اور گھمبیر ہونے کے ساتھ ساتھ طول پکڑتا چلا گیا۔ تقریبا ساڑھے چار سو صفحات کی اس کتاب میں جو کہ فصوص الحکم کا ترجمہ و تشریح ہے اس میں اصل کتاب کا متن تو سو صفحات سے کچھ زیادہ نا ہوگا۔ ابن عربی کے متن پر اضافہ جات میں طریق اکبریہ ، شیخ کا ایک دوسرا طریقہ، شیخ کے معاصرین، شارحین فصوص الحکم ، شیخ کی تصانیف، طریقہ ترجمہ و شرح ، عقائد شیخ اکبر، شیخ کا فلسفہ وغیرہ شامل ہیں۔ اس کتاب کے کئی مختلف النوع انگریزی تراجم ایمزن پر موجود ہیں۔

فصوص الحکم یا حکمت کے موتیوں، جواہر  مندرجہ زیل مضامین پر مشتمل ہے۔

۱                                                           فص آدمیہ

۲                                                           فص شیشیہ

۳                                                           فص نوحییہ

۴                                                           فص ادریسیہ

۵                                                           فص مہمیتہ (ابراہیمیہ)

۶                                                           فص اسحاقیہ

۷                                                           فص اسماعیلیہ

۸                                                           فص یعقوبیہ

۹                                                           فص یوسفیہ

۱۰                                                         فص ہودیہ

۱۱                                                         فص صالحیہ

۱۲                                                        فص شعییہ

۱۳                                                        فص لوطیہ

۱۴                                                         فص عزیزیہ

۱۵                                                         فص عیسویہ

۱۶                                                         فص سلیمانیہ

۱۷                                                         فص داؤدیہ

۱۸                                                         فص یونسیہ

۱۹                                                        فص ایوبیہ

۲۰                                                         فص یحیویہ

۲۱                                                         فص زکرویہ

۲۲                                                         فص الیاسیہ

۲۳                                                         فص لقمانیہ

۲۴                                                         فص ہارونیہ

۲۵                                                         فص لقمانیہ

۲۶                                                         فص خالدیہ

۲۷                                                         فص محمدیہ

تعارف میں مفسر لکھتے ہیں کہ الشیخ محی الدین محمد بن علی بن محمد العربی الطائی الحاتمی.. یہ قبیلہ بنی طے اور حاتم طائ کی اولاد میں سے ہیں۔ سترھویں رمضان ٥٦٩ء میں تولد ہوئے.آپ کی تاریخ ولادت “نعمت” ہے. مولد مریسیہ از متعلقات اندلس یا اسپین یا ہسپانیہ اور وفات. بائیس ربیع الثانی ٦٣٨ء میں اس جہاں فنی سے جہاں باقی کی طرف توجہ کی. آپ کا سال وفات “صاحب الارشاد” سے نکلتا ہے۔

فصوص الحکم کی بہت سی زبانوں میں تفسیر و تشریح کی گئی ہے۔ عربی میں حسب ذیل شروح فصوص الحکم موجود ہیں۔

شیخ موید الدین بن محمود الجندی.
شیخ صدر الدین القونوی.
داؤد بن محمود الرومی القیصری.
نور الدین عبدالرحمان جامی
عبدالغنی النابلسی۔
الکاشانی.

فارسی شروح کچھ یوں ہیں۔

 نعمت الله شاہ ولی
مولوی احمد حسین کان پوری

اردو ترجموں میں  عبدالغفوردوستی اور مولوی سید مبارک شامل ہیں۔

اس کتاب کا نفس موضوع تصوف ہے اور اس میں کئی پیچیدہ مسائل سے گفتگو کی گئی ہے۔ شرح کا کام عبدالقدیر صدیقی صاحب نے خوب کیا ہے اس لیے اس تعارف میں انکے اقتباسات جا بجا مستعمل ہیں۔ اپنی شرح کے بارے میں لکھتے ہیں کہ

دیگر شارحین فصوص الحکم میں شیخ قرآن شریف میں انبیاء کے قصوں. اور ان کے حالات میں جو کچھ آیا. ان سے یا تو بطور اعتبار کے مسائل توحید و تصوف کو استنباط کرتے ہیں مگر شیخ کے قول کی تاویل نہیں کرتے. نہ ان کے عقائد سے جو فتوحات مکیہ کے شروع میں بیان کئے گئے ہیں، توفیق و تطبیق دینے کی سعی کرتے ہیں دوسرے شارحین کے برخلاف’ فقیر شیخ کے قول کی تاویل کرتا ہے. اور ان کے عقائد کے ساتھ توفیق دیتا ہے.لوگوں کو شیخ کی طرز تحریر سے واقف نہ ہونے کی وجہ سے بڑی بڑی غلط فہمیاں ہو رہی ہیں. بعض ان کو قطب معرفت سمجھتے ہیں. اور قرآن شریف کی آیتوں کی تاویل کرتے ہیں. مگر شیخ کے اقوال کی تاویل نہیں کرتے اور بعض ان کے برعکس شیخ کی تکفیر میں بھی تقصیرنہیں کرتے.

افلاطون کا ذکر اابن عربی کی اکیلیز ہیل ہے، اس بابت میں  طریق ترجمہ و شرح میں رقم طراز ہیں کہ

 بعض نادان یورپ زدہ’ شیخ کے فلسفے یا حکمت کو افلاطون کا فلسفہ سمجھتے ہیں. مگر ان کی سمجھ میں نہیں آیا’ کہ تمام کتاب جندی بغدادی’ ابو یزید بسطامی. سہیل بن عبدالله تستری کے اقوال اور آیات قرآن مجید و احادیث شریف سے بھری پڑی ہے. اور اپنے کشف کا بھی جابجا ذکر کرتے ہیں.مگر اس میں افلاطون کا کہیں’ایک جگہ بھی ذکر نہیں ہے. اول تو یہ ثابت ہی کب ہوا ہے کہ فلسفہ افلاطون کی کتاب شیخ کو پہنچی بھی تھی.کسی دشمن مسلمانان نے لگا دیا کہ شیخ نے افلاطون سے لیا. اور مقلدوں کے لئےبس آیت اتر آئی. ظالم اڑاتے ہیں کہ امام ابو حنفیہ نے رومن لا سے لیا. یا تو راة انور شیرواں سے لیا. ان کو معلوم نہیں کہ عقائد و فقہ کے اصول ہیں کیا. یہاں قرآن و حدیث کی شرح و تفسیر تو ہو سکتی ہے ان سے احکام استنباط کا کئے جاتے ہیں. ان کے خلاف ایک مسلہ بھی چل نہیں سکتا. یہ کمال جہل و تقلید میں. کمال علم و تحقیق کا ادعا ہے ہم کو دشمنوں کے کہنے سے تکلیف نہیں ہوتی. دوستوں کے دشمنوں کا ساتھ دینے سے ایذا ہوتی ہے.

شیخ کے کلام میں بکثرت مشاکلہ ہے.مشاکلہ عربی زبان میں بھی ہے. اور دوسری زبانوں میں بھی.اشعار میں بھی ہے’اور نثر میں بھی. کلام الله میں بھی. اور دوسروں کے کلام میں بھی. مشاکلہ کیا ہے. ایک لفظ پہلے آتا ہےاور اپنے اصلی معنی میں رہتا ہے.. پھر وہی لفظ دوبارہ آتا ہے. اور اس سے دوسرے معنی؛ مراد لیے جاتے ہیں.مثلاً ایک شخص کہے.تمنے مجھے خباثت کی.اب میں بھی دیکھو کیسی خباثت کرتا ہوں یعنی خباثت کا انتقام لیتا ہوں عرب شاعر کہتا ہے..

” قالو اقترح شیاء نجدلک طبخة، قلت أطبخوالي حبثه و قميصا “

“لوگوں نے کہا کچھ کھانے کی فرمائش کرو. ہم اس کو اچھی طرح سے پکائیں گے.”

میں نے کہا ایک جبہ و قمیض پکاؤ. یعنی ایک جبہ و قمیض سی دو.

قرآن مجید میں ہے

“ومکرو او مکرالله والله خیرالماکرین”… انہوں نے مکر کیا اور الله نے اس کی سزا دی.الله مکاروں کو سزا دینے میں بہت سخت ہے.

ابن عربی کا اسلوب اور کتاب کا موضوع فلسفہ و تصوف کا ایک ایسا امتزاج ہے جس کے بارے میں زیادہ کہنے سننے کی گنجائش نہیں، وہ صرف پڑھنے سے ہی تعلق رکھتا ہے۔ ایک جدید تعلیم یافتہ فرد کے لیے اس میں معنویت کی ایک دنیا چھپی ہے۔ مصنف فصوص لکھتے ہیں۔

زمانه عدم اور زمانه وجود مثل معاً ہیں. جس طرح اشاعرہ کے پاس اعراض و صفات پر ہو رہا ہے. اور ہرآن’ ہر لحظہ تجدد امثال اعراض پر ہو رہا ہے. اسی طرح صرف ذات حق موجود مستقبل ہے. اس کے سواۓ جتنے موجودات ہیں. سب غیر مستقل ہیں. دائمی طور پر محتاج الی الحق ہیں ہر آن ہر لحظ متجدد ہیں.

تجدد امثال کا مسئلہ جو حصول تخت بلقیس میں چھیڑا گیا ہے. مشکل ترین مسائل سے ہے مگر اس قصے میں ابھی جو میں نے بیان کیا اس کے سمجھنے والے کے لیے کچھ  دشوار نہیں. آصف بن برخیا کی فضلیت و بزرگی یہی ہے کہ وہ ادو جود ‘ وہ تجدید تخت بلقیس’ وہ تجلی الٰہی جو تخت بلقیس پر ملک سبا میں ہو رہی تھی. اس کو سلیمان کے سامنے مجلس میں کھینچ لیا.اور تخت موجود ہو گیا. پس حقیقت میں تخت نے نہ قطع مسافت کی.نہ اس کے لیے زمین لپیٹ دی گئی اور نہ دیواروں کو تھوڑا پھوڑا. اس مسئلے کو وہی سمجھتا ہے’ جو تجدد امثال کو منتا ہے. جو تجلی الٰہی کو اپنی طرف متوجہ کر سکتا ہے.

یہ تصرف بعض اصحاب سلیمان علیہ السلام سے ظاہر ہوا تا کہ اس کا اثر بلقیس اور ان کے ہمراہیوں کے دلوں پر عظمت و مرتبت سلیمان علیہ السلام کے لیے پڑھے. اس تصرف کا سبب یہ ہے کہ سلیمان علیہ السلام’ داؤد علیہ السلام کو الله تعالیٰ کی طرف سے عطیہ وہیہ تھے. الله تعالیٰ فرماتے ہے. ” ووھبنا لداود سلیمان ” ہم نے داؤد کو سلیمان عطا کیا. ہبہ کیا ہے. واہب کا موہوب لہ بطور انعام دینا. نہ بطور جزاۓ عمل اور نہ بر بناۓ استحقام. پس سلیمان الله تعالیٰ کی نعمت سابقہ و حجت بالغہ اور اعداد کے لیے سر شکن ضرب ہیں.

اب سلیمان کے علم پر غور کرو.الله تعالیٰ فرماتا ہے ” ففھمنھا سلیمان ” ہم مستقراعندہ ” آیا ہے. یعنی تخت بلقیس’ سلیمان کے پاس حاضر و قرار پذیر تھا. آصف کا تخت کو حاضر کرنا نظر تحقیق میں ہمارے پاس اتحاد زمان کے ساتھ نہ تھا بلکہ وہاں اعدام و ایجاد’اور سبا سے معدوم کرنا اور بار سلیمانی میں موجود کرنا تھا. اس کو تجدد و امثال کہتے ہیں  ہر آن ہر شے قہر احدیت سے معدوم ہوتی ہے. اور پھر اسکو رحمت امتنانی موجود کرتی ہے. مگر عارفین کے سوا اس کو کوئی محسوس نہیں کرتا.دیکھو قرآن شریف میں ہے. ” بل ھم فی لبس من خلق جدید “

یعنی بلکہ انکو التباس اور دھوکا ہو گیا ہے. تازہ پیدائس و خلق جدید سے کہ وہی اگلی شے ہے. ان پر کوئی زمانہ ایسا نہیں گزرتا کہ جس شے کو دیکھ رہے ہوں ‘ نہ دیکھا ہو…

جب معلوم ہو گیا کہ ہر شے میں تجدد امثال ہے.اعدام و ایجادہے. نیستی کے ساتھ ہستی لگی ہوئی ہے. ایسا نہیں ہے کہ ایک شے موجود ہو کر حق فیوم کی طرف دائمی موحتاج نہ رہی ہو بلکہ ہر شے کو آن امداد وجود ہوتی ہے.اور قیوم جل جلالہ کی طرف دائمی احتیاج رہتی ہیں. بہر حال تخت بلقیس کو ملک سب میں نیست و نابود ہونا اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے حضور میں ہست موجود ہونا یہ  دونوں عمل ساتھ ساتھ تھے. اور یہ ہر دم میں ہر سانس میں تجدید حلق’ اور تازہ امداروجود کا نتیجہ ہے. اس کا علم ہر شخص کو نہیں ہوتا. بلکہ انسان خود کو نہیں سمجھتا،. کہ وہ ہر آن لا یکون اور پھر یکون ہوتا ہے. معدوم ہوتا ہے’ موجود ہوتا ہے.یہاں ثم اور پھر مہلت کے لیے نہ سمجھو بلکہ یہاں ثم اور پھر لفظ صرف تقدم  تقرم بالعیتہ کا مقتضی ہے جیسے کہتے ہیں کہ اول ہاتھ پڑتا ہے پھر کنجی پھرتی ہے.یہاں حرکت ید کو حرکت مفتاح پر تقدیم بالعیتہ ہے ایسا ہر گز نہیں کہ ہاتھ پڑنے کیے زمانے کے بعد کنجی پھرتی ہے. عربی زبان میں بعض خاص  خاص مقام میں “ثم بلا”  مہلت بھی مستعمل ہوتا ہے. وک شاعر کہتا ہے ” کھزالردینی ثم اضطرب ” جیسے نیزہ روینی کا ہلانا  پھر اس کا ھل جانا ظاہر ہے کہ نیزے کے ہلانے کا زمانہ اور اس کے ہلنے کا زمانہ یہ ساتھ ساتھ ہیں. اور یہاں ثم اور پھر مہلت کا مقتضیٰ بندے کا ظہور حق تعالیٰ پر موقف ہے اور بندے کے اعمال اس کی وجہ سے صادر ہوئے ہیں. حق تعالیٰ کا اسم الباطن والا ہے جب تم خلق کو دیکھو اس پر غور کرو. تو معلوم ہو جاۓ گا کہ کون کس اعتبار سے اول ہے.ظاہر ہے باطن ہے.

اسمائےالٰہی کی معرفت اور ان کی نسبت سے عالم میں تصرف نصیب ہوتا ہے. پس یہ معرفت حضرت سلیمان علیہ السلام کو بھی حاصل تھی بلکہ سلیمان علیہ السلام نے جو دعا کی تهی. “رب هبلی ملکا لا ینبغی لاحد من بعدی”  میرے پروردگار مجھے ایسی بادشاہی عطا کر کہ میرے بعد پھر کسی کو حاصل نہ ہو. وہ بادشاہی’ وہ ملک اصل میں یہی معرفت اسماۓ الٰہی ہے. کیا ایسی حکومت کسی کو سلیمان کے سوا ملی ہی نہیں. قطب وقت. وقت زمانہ. تو تمام عالم کا شہنشاہ. اور حاکم علی الاطلاق ہوتا ہے. بیشک قطب زمانہ حاکم علی الاطلاق ہوتا ہے. اسی میں تجلی اعظم رہتی ہے.  حضرت سلیمان علیہ السلام  کی مراد ملک سے ظاہر و عالم شہادت کی حکومت اور تصرف عام ہے. دیکھو محمّد صلی الله علیہ وسلم کو الله نے سب کچھ دے رکھا تھا. آپ کی باطنی حکومت اس سے زیادہ ہی تھی. مگر آپ نے عالم شہادت میں اس کو ظاہر نہیں کیا.

ابن عربی کی دیگر تصانیف مندرجہ زیل ہیں

عقلہ المستوفرہ.
عقیدہ مختصرہ.
عنقائے معرب.
قصیدہ البلادرات تقعینیہ..
القول النفیس..
کتاب تاج الرسائل..
کتاب الثمانیہ و الثلا ثین وھو کتاب الازل..
کتاب الجلالہ…’
کتاب مااتی بہ الوارد.
کتاب النقبا..
کتاب الیادہو کتاب الہود.
مجموعہ رسائل ابن العربی
مراتب الوجود.
مواقع النجوم.
فتوحات مکیہ       چار بڑی بڑی جلدوں میں.
نقش النصوص   اس کی شرح مولانا جامی نے کی ہے اور اس کا نام النصوص ہے
تفسیر صغیر       جو مطبوعہ مصر ہے’ عام طور سے ملتی ہے..
تفسیر کبیر         جو سنتے ہیں کہ فرانس کے کتب خانے میں قلمی ہے..

Share

April 23, 2012

لاس اینجلس کتب میلے کی ایک تصویری روداد

Filed under: ادبیات,سفر وسیلہ ظفر,کتابیات — ابو عزام @ 10:52 pm

 ہر سال کی طرح اس سال بھی لاس اینجلس ٹایمز اخبار کی طرف سے دو روزہ کتب میلے کا انعقاد کیا گیا۔ اس سال یہ کتب میلہ یو سی ایل اے کے بجاے یو ایس سی یعنی یونیورسٹی آف سا تھرن  کیلیفورنیا میں منعقد ہوا جہاں  اس میں ہزاروں افراد اور کتب فروشوں نے شرکت کی۔ اس اینجلس ٹائمز فیسٹیول 1996 ء میں شروع ہوا اور امریکہ میں ہونے والا سب سے بڑا کتب میلا  بن گیا جہاں یہ تہوار  ہر سال 140،000سے زیادہ کتابوں سے محبت کرنے والوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔

 ہر سال کی طرح اس دفعہ بھی کتابوں کی محبت ہمیں بھی کشاں کشاں کھینچ لے گئی۔ یہاں تکنیکی کتب تو خیر کم ہی تھیں لیکن دیگر موضوعات پر ہزاروں کتب اور کتب فروشگاں  موجود تھے۔اسکے علاوہ بہت سے مشہور مصنفین بھی اس تہوار میں موجود تھے،

بچوں کے لئے خوب انتظام تھا اور  بچوں کے لئے کتابیں لکھنے والے بھی بہت موجود تھے جو بچوں کو کہانیاں سنا رہے تھے اور داد وصول کر رہے تھے۔انہی کہانیاں سنانے والوں اور کتابوں پر دستخط کرنے والوں میں کریم عبدالجبار بھی شامل تھے۔

اتنا بڑا میلا ہو اور آئ فون کی ایپ نا ہو، یہ کیسے ہو سکتا ہے!

ایپ کے علاوہ بھی جگہ جگہ جدول اور مصنفین کی آمد و کتابوں کی دستخط کا نظام الوقات ٓآویزاں تھا۔

نیے مصنفین نے لیئے سیکھنے کی ورکشاپ کا بھی انتظام کیا گیا تھا

 

 ایک  جانب مشاعرہ بھی گرم تھا اور ایک شاعر صاحب اپنے شعروں پر دادوں کے ڈونگرے وصول کر رہے تھے!

ایک جانب یو ایس سی کے طلبہ اپنے اساتذہ کی کتابیں اس دعوے کے ساتھ بیچ رہے تھے کہ ان کو پڑھ کر آپ بھی ایسے جہاز بنانے شروع کردیں گے!

گروچو کا یہ قول سچ بات ہے ہمیں تو بہت پسند آیا!

پیسیفیکا ریڈیو جس کا قبلہ بائیں بازو کے بھی بائیں جانب ہوتا ہے  وہاں سے براہ راست نشریات کر رہا تھا۔

۔ہر سال کی طرح اس سال بھی دعوت کی تنظیم  واے اسلام کی جانب سے اسٹال لگاے گے تھے ، ان میں ہر سال چار سے پانچ ہزار قران کی کاپیاں تقسیم کی جاتی ہیں۔ اس سال کی خاص بات یہاں موقع پر ایک فرد کا قبول اسلام ہے ۔۔

 کتابوں کے جھرمٹ میں ایک یادگار دن

Share

March 27, 2012

دی ہنگر گیمز از سوزن کولنز

Filed under: ادبیات,کتابیات — ابو عزام @ 6:49 am

ہمارے مقرر کردہ  جدول کے مطابق تو دی ہنگر گیمز از سوزن کولنزکی آمد میں وقت تھا لیکن پاپولر کلچر کا برا ہو کہ ہمیں اسکا مطالعہ جلد شروع کرنا پڑا، کتاب اسقدر دلچسپ ہے کہ پتا نہیں چلا کیسے وقت گذر گیا۔ اسرار و ایکشن سے بھرپور،۲۰۰۸ میں چھپنے والے اس تقریبا چار سو صفحات کا یہ ناول پچھلے ۵۵۰ دنوں سے ایمزن کی ٹاپ ۱۰۰ کتب میں شامل ہے۔ اس کتاب کا مرکزی ۔ کردار کیٹنس ایورڈین نامی ایک ۱۶ سالہ لڑکی ہے جو پانم نامی ملک کے غریب ترین ضلع نمبر ۱۲  میں اپنی ماں اور چھوٹی بہن کے ساتھ رہتی ہے۔ پانم جو ماضی میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ نامی ملک ہوا کرتا تھا ، وہاں تقریبا۷۴ سال قبل اضلاع نے مرکز یعنی کیپٹل کے خلاف جنگ شروع کی  لیکن مرکز نے اس بغاوت کو سختی سے کچل دیانیز ہتھیار ڈالنے کی شرائط میں یہ شامل کیا گیا کہ ہر سال، ہر ضلع سے ایک عدد لڑکے اور ایک عدد لڑکی کو ‘ہنگر گیمز’ یا بازی ہاے بھوک نامی کھیلوں میں بھیجا جاے گا۔ یہ کھیل روم کے گلیڈیٹرز کے کھیلوں سے زیادہ مختلف نہیں ہوا کرتے۔ ۲۴ عدد لڑکے اور لڑکیاں ایک میدان جنگ میں داخل ہوتے ہیں اور ان میں سے صرف ایک فرد زندہ سلامت جیت کر باہر آسکتا ہے۔

اس کتاب کے مزید دو حصے بھی ہیں لیکن کہانی کا پر حصہ ایک کتاب میں میں مکمل ہے۔ دی ہنگر گیمز پر بننے والی فلم بھی نہایت کامیاب قرار پائ ہے لیکن راقم کا خیال ہے کہ اس کتاب کو پڑھنے میں جتنا مزا آیا ہے وہ فلم دیکھنے میں نہیں آسکتا۔اس کتاب میں سوزن کولنز نے معاشی نا ہمواریوں، طبقاتی تقسیم، افلاس، انسانی جذبات اور زندہ رہنے کی خواہش جیسے بہت سے مختلف موضوعات سے بحث کی ہے۔ عمومی طور پر یہ کتاب ان قارئین کے لیے  لکھی گئی ہے جو اپنے لڑکپن سے گذر رہے ہوں لیکن ہر عمر کے سائ-فائ و اسرار وآخرالزماں مطلق العنانی لٹریچر کےقدردانوں کے لیے یہ کتاب نہایت خوب انتخاب ہے۔ کیٹنس ایورڈین، اسکی ۱۲ سالہ بہن پرم، اس کی بیمار ماں، وفاق کا مطلق العنان حکمران صدر سنو، دیگر اضلاع کے مقابل کرداروں، انکی ہتھیاروں کی مہارت اور ساینسی ایجادات سے بھرپور یہ ناول جارج آرویل کی ۱۹۸۴ اور اینڈرز گیم کا اسرار انگیز امتزاج ہے۔ کچھ لوگ اسے بیٹل رویال نامی جاپانی ناول کا چربہ بھی قرار دیتے ہیں جو کہ ہمارے اس ناول کے محدود مطالعے کی بنا پر کافی حد تک درست لگتا ہے۔ آپ پڑھ کر بتایں کہ آپ کودی ہنگر گیمز کیسا لگا؟

Share

March 22, 2012

آور لیڈی آف ایلس بھٹی از محمد حنیف

Filed under: ادبیات,کتابیات — ابو عزام @ 12:02 am

محمد حنیف کے مکتبہ فکر سے تو ہمارا قطبین کا فاصلہ ٹھرا لیکن انکی ندرت خیال اور خوبی نثر کی تعریف نا کرنا ایک بڑی ادبی ناانصافی ہوگی۔ کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگوز کے بعد انکا تازہ ناول آور لیڈی آف ایلس بھٹی کل ہی ختم کیا اور امید ہے کہ ہماری یہ پیشن گوئ صحیح ثابت ہوگی کہ جلد ہی برصغیر کے انگریزی مصنفین میں انکا نام امیتابھ گھوش اور اروندھتی رائےکے پاے کا قرار دیا جاے گا۔ اس ناول کو ایک بار اٹھانے کے بعد رکھنے کو قطعی دل نہیں چاہتا، سسپنس کا برقرار رکھتے ہوے مصنف نے جس طرح کہانی کا تاروپود باندھا ہے وہ اپنی مثال آپ  ہے۔

محمد حنیف کو  تاریک طنز یا ڈارک کامیڈی پر خاص عبور حاصل ہے۔ وہ مھیب و موحش صورتحال کو اس پاے میں بیان کرتے ہیں کہ افسردگی کا وہ منظر آپ کی آنکھوں کے سامنے گھوم جاتا ہے اور لیکن اس طرح کہ اس کی سنگینی میں طنز و مزاح کے نشتر سے ناگفتنی سا شگاف پڑا ہو۔ آور لیڈی آف ایلس بھٹی ایک عیسائ نرس ایلس کی بپتا ہے جو فرنچ کالونی جسے آپ کراچی کی عیسی نگری کا متبادل سمجھ لیں، کی رہایشی ہے اور جیل سے باہر آنے کے بعد اپنی زندگی کو عام ڈگر پر لانے کے لیے روز شب محنت کرنے کو تیار۔ اسی دوران اس کی مدبھیڑ پولیس کے ایک مخبر اور سابق جونیر مسٹر فیصل آباد  ٹیڈی سے ہوجاتی اورمہر و ماہ کے اس ٹکراو سے کہانی کے ہمہ جہتی پہلو نکلنا شروع ہوجاتے ہیں۔ مصنف کو کردار سازی میں ملکہ حاصل ہے، ان کے زیادہ تر کردار یک رخی لیکن مضبوط ہوتے ہیں چاہے وہ جیل کا ساتھی نور ہو، ایلس کا باپ جوزف بھٹی ہو جو ‘مسلوں کی دعاوں’ سے السر کا علاج کرتا ہے،انکاونٹر اسپیشلسٹ انسپکٹر ملنگی ہو، سسٹر حنا علوی جیسی خرانٹ ہیڈ نرس ہو، ناٹ-ابوزر کا پراسرار کردار ہو  یا چریا وارڈ کے بے نام و نشان مریض، یہ تمام کردار ناول کے کینوس پر پھیلے نظر آتے ہیں، اس طرح کہ ان کے انفرادی رنگ نمایاں تو ہوں لیکن ان رنگوں کا یہ امتزاج ایک جاندار پلاٹ کی صورت میں قاری کو متجسس و منہمک رکھے۔

مصنف کے قرطاس پر منظر نگاری اور حالات و واقعات کے تانے بانے کچھ اسطرح بنے جاتے ہیں کہ قاری عش عش کر اٹھتا ہے ۔ ٹایم لاین کو اور لیپ کرنا یعنی حالات و واقعات کو متوازی چلاتے ہوے ایک نقطے پر مرکوز کرنا محمد حنیف صاحب کا اوج کمال ہے۔ آور لیڈی آف ایلس بھٹی ایک بہترین رولر کوسٹر کی طرح آپ کو بور نہیں ہونے دیتی،ہوسکتا ہے میری طرح آپ کو تین چوتھای ناول کے بعد انجام کی بھنک پڑ جاے لیکن سسپنس کا عنصر آخر تک باقی رہتا ہے۔ کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگوز کی طرح اس کتاب کا انجام بھی غیر روایتی اور کتاب کی طرح ہی آزاد از قیود و رسوم ہے، کیا ہیپی اینڈنگ اور رزمیہ اختتام کے علاوہ بھی کوئ اور انجام ہوتا ہے؟ یہ بات آپ کتاب پڑھ کر ہی جان پائیں گے۔

مصنف کی تحریر کی ایک بنیادی خوبی ناول میں تجسس و رومانویت کا مخفی عنصر ہے جس پر امتداد زمانہ کی گرد سے مہین جالے بن دیے جاتے ہیں لیکن یہ ابن صفی کی طرز کی تحریر نہیں۔ ان کا قلم طنز میں ڈوبا ہوا ایک نشتر ہے جسے وہ بے رحمی و سہل انگاری سے معاشرتی اقدار کی پردہ دری کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جیسے کہ میں کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگوزکے تبصرے میں کہ چکا ہوں، محمد حنیف کے لیے کوئ چیز مقدس گاے نہیں۔ معاشرتی اقدار پر طنز، اقلیتوں سے سلوک اور ان کی کمیونٹی کے مسائل، کراچی میں امن و امان کی سريع الزوال صورتحال، پادری و بشپ و محراب و منبر سے لے کر چوڑا چمار، ہر جہت پر ان کے قلم کی سیاہی اس طرح بلا تفریق چھینٹے اڑاتی ہے کہ دامن بچانا مشکل ہوتا ہے۔ اگر میں آپ سے یہ کہوں کہ یہ ناول ‘سیونگ فیس’، ‘اے سیپریشن’ اور ‘نیو ٹیسٹمنٹ’ کا امتزاج ہے تو یقین کریں یہ بلکل غلط نا ہوگا۔

رینڈم ہاوس انڈیا کا شائع کردہ تقریبا ڈھائ سو صفحات کا یہ ناول ایک جرمن خطاط کے خط سبون میں طبع ہوا ہے۔ ہمیں علم نہیں کہ پاکستان کے کسی پبلشر نے اسے شائع کرنا گوارا کیوں نہیں کیا۔اس کا انتساب حسن درس کے نام ہے۔ کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگوز میں حنیف صاحب نے اردو استعارات استعمال کرنے سے گریز کیا تھا، شاید مین بکر پرائز کی امید میں انہوں نے کسی قسم کا خطرہ لینا گورا نا کیا لیکن اس مرتبہ انہوں نے ناول کے حسب حال تراکیب کو اسطرح مستعمل رکھا ہے کہ کہیں زیادتی محسوس نہیں ہوتی اور خصوصا اہل زبان و مکاں کو خصوصی چٹخارہ مل جاتا ہے۔ تکنیکی طور پر ری ایکارپوریشن یا کردار کا اعادہ  ناول میں ایک مشکل اسلوب صنف ہے لیکن راقم کی راے میں مصنف کو کردار سازی میں ملکہ حاصل ہے مثلا ناٹ-ابوذر کے کردار کی ری کوپریشن ایک نہایت عمدہ اور غیر متوقع بات تھی جسے آپ ناول پڑھنے کے بعد ہی سراہ سکیں گے۔ یہ کتاب انگریزی ادب کے ہر قاری کے لیے ایک نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں جو پاکستان کے حالات سے شناسای رکھتا ہو۔

Share

March 15, 2012

برٹانیکا اب ہم میں نہیں رہے

Filed under: خبریں,طنزومزاح,کتابیات — ابو عزام @ 11:53 am

 ہاے برقی کتاب، تیرا برا ہو کہ تو نے ہم سے ایک ۲۴۴ سالہ ہمدم دیرینہ، انسائکلوپیڈیا برٹانیکا چھین لیا۔ اب بتا کہ پطرس کے انجام بخیر پر کنڈل کا تکیہ لگایا جاے گا؟ ہم تو بس اس نثر کو  روتے ہیں کہ اس دور عدو کتب ہاے ورق میں اسکا کیا مماثل ہو۔

پطرس۔۔ حضرات اندر تشریف لے آئیے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ میرے پاس صرف ایک کرسی ہے۔ لیکن جاہ و حشمت کا خیال بہت پوچ خیال ہے۔ علم بڑی نعمت ہے، لہذا اے میرے فرزندو، اس انبار سے چند ضخیم کتابیں انتخاب کرلو اور ان کو ایک دوسرے کے اوپر چُن کر ان پر بیٹھ جاؤ۔ علم ہی تم لوگوں کا اوڑھنا اور علم ہی تم لوگوں کا بچھونا ہونا چاہیئے۔

کمرے میں ایک پر اسرار سا نور چھا جاتا ہے۔ فرشتوں کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ سنائی دیتی ہے

Share

March 10, 2012

جینٹلمین بسمہ اللہ از اشفاق حسین

Filed under: ادبیات,طنزومزاح,کتابیات — ابو عزام @ 8:54 pm

مزاح کے عہد یوسفی میں رہنے اور یوسفی پڑھ لینے کے بعد اکثر یہ بیماری لاحق ہو جاتی ہے کہ ایرے غیرے کسی مزاح نگار کو خاطر میں لانے کا قطعی دل نہیں چاہتا اور وہ بھی ایک سابق فوجی کو، بھلا فوج اور مزاح کا کیا ربط۔ لیکن  جینٹلمین بسمہ اللہ از اشفاق حسین اگر ادب کا کوئ شاہکار نہیں تو کوئ ایسی بری کتاب بھی نہیں۔ پاپ کورن فلم کی طرح اسے پاپ کورن کتاب قرار دیا جاسکتا ہے۔ہم نے اپنے کئ دوستوں کو آی ایس ایس بی کی امید میں جس لگن سے تیاری کرتے دیکھا، اکر وہ یہ کتاب پڑھ لیتے توشائد نتائج مختلف ہوتے۔

تو کچھ ایسا ہوا کہ ۵۲ ہفتوں میں ۵۲ کتابوں کے عہد میں ہم نے دو چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں کر لیں۔ ایک تو یہ کہ فصوص الحکم کو ایک ہفتے کے بجائے ابھی تک پڑھ رہے ہیں کہ یہ متن کا تقاضہ ہے نیز کیرن ٓآرمسٹرانگ کی کتاب کی جگہ ہم نے فائنمین کی کتاب اور اگاتھا کرسٹی کی جگہ جینٹلمین بسم اللہ پڑھ لی۔  جینٹلمین بسم اللہ چھوٹی سی کتاب ہے اور روانی سے جلد ہی پڑھی جاسکتی ہے۔ آدھی کتاب بعد از عشا ختم کی اور پھر فجر کے بعد ناشتے سے پہلے بقایا، لہذا اگر نیند کا وقفہ نکال دیں تو ایک نشست میں ختم کی جا سکتی ہے۔

تقریبا دو سو صفحات کی اس کتاب کو کرنل اشفاق حسین کی ابتدای فوجی سوانح  عمری قرار دیا جا سکتا ہے۔  یہ کتاب کوی ادبی شاہکار نہیں اور نا ہی اس میں مزاح کی کوی  ندرت خیال کا عنصر شامل ہے۔ جینٹلمین بسمہ اللہ میں سولہ عدد مضامین شامل ہیں جن کے نام بالترتیب باعث تحریرآنکہ،  پہلی ملاقات۔ بورڈ یاترا، آغاز سفر… انجام تمنّا، ذائقوں کا ورثہ، گردش وقت یہاں آن کر تھم جاتی ہے، لہو گرم رکھنے کے سو سو بہانے، آنچل کے سایوں سے پیڑوں کی چھاؤں تک ،دل مردہ دل نہیں ہے ،جنٹلمین!بسم الله!!، آداب فلم بینی، معمولات کیڈٹ، یہ تھے ہمارے اساتذہ کرام، دکھوں کے ساجھی، ہوا بردوش، اڑنے نہ پائے تھے کہ اور  تھینک یو! الله میاں ہیں۔

کتاب کی جلد پر اشفاق حسین صاحب کا تعارف کچھ یوں ہے کہ انکا تعلق لاہور سے ہے. پنجاب یونیورسٹی سے صحافت اور انگریزی ادب میں ایم اے کرنے کے علاوہ وہ انٹرنیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجیز  سے عربی میں ایڈوانس لیول انٹر پریٹر شپ کے ڈپلومہ ہولڈر ہیں. تقریباً ۲۹ سال پاک فوج سے وابستہ رہے اور مختلف حیثیتوں میں، مختلف فارمیشنز اور آئی ایس پی آر میں تعینات رہے. کالج آف آرمی ایجوکیشن، اپرٹوپہ اور ملٹری کالج جہلم میں تدریسی فرائض انجام دینے کے علاوہ وہ سعودی عرب میں بطور مترجم بھی تعینات رہے. ٢٠٠٢ء میں انٹر پبلک ریلیشنز کے ڈپٹی ڈائریکٹر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے. جناب والا سات عدد کتابیں لکھ چکے ہیں. جن میں طنزومزاح کی شگفتہ کتابیں،جنٹلمین بسم اللہ جنٹلمین الحمدالله، جنٹلمین الله الله اور جنٹلمین سبحان الله شامل ہیں. ان کی کتابوں کے اب تک پینسٹھ سے زائد ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ آئی ایس  پی آر میں رہتے ہوئے، انہوں نے فوج کے لئے مختلف دستاویزی فلمیں اور فوجی زندگی پر ڈرامے تیار کئے. اٹلی میں ہر سال ہونے والی مسلح افواج کی دستاویزی فلموں کی نمائش میں ان کی تین دستاویزی فلموں کو بین الاقوامی انعامات سے نوازا گیا. میجر شبّیر شریف شہید پر ان کی کتاب “فاتح سبونہ” پر مبنی طویل دورانیے کا ایک کھیل پروڈکشن کے آخری مراحل میں ہے.

اس کتاب کا ایک اقتباس مندرجہ زیل ہے۔

دل مردہ دل نہیں ہے …..

دوسرے روز اکیڈمی پہنچے. بسوں سے اتر کر ہمارا ارادہ سیدھا کمروں کی جانب جانے کا تھا.لیکن بسوں کو گھیر رکھا تھا انسٹرکروں نے. نیچے اترتے ہی انہوں نے ہمیں فالن کیا اور لیفٹ رائٹ لیفٹ رائٹ کراتے ہوئے سیدھا ڈرل سکیئر میں لے گئے. تمام سامان پشت پر لدا ہوا تھا. تھکن سے ہم لڑکھڑائے جاتے تھے لیکن اسٹاف تھے کہ چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھاۓ ہوئے تھے”صاب بازو پورا ہلائیں” “گھٹنا بیلٹ لیول تک اٹھائیں”. ہم حیران ہو کر کبھی اپنے بازوؤں کو دیکھتے اور کبھی پریشن ہو کر صوبیدار میجر کی طرف ک ڈرل کروانے کا نشہ یہ کسی اور وقت پورا نہیں کر سکتے؟ خدا خدا کر کے ڈرل سے جن چھوٹی لیکن کمروں میں جانے کی اجازت اب بھی نہیں تھی.حکم لگا کہ پہلے رائفلوں کی صفائی ہوگی. فوجی کی زندگی میں اس بات کو ایمان کا درجہ حاصل ہے کہ وہ خود کتنا ہی خستہ کیوں نہ ہو اس کا ہتھیار ہر وقت تروتازہ رہنا چاہیے. رائفلوں کی صفائی کر کے کمروں میں پہنچے تو ہمیں بستروں سے دور رکھنے کا ایک اور بہانہ بتایا گیا. یہ دلچسپ بھی تھا اور کامیاب بھی.

سینئروں نے بتایا کہ پرموک مشق کے اختتام کی روایت ہے کہ تمام سینئر کیڈٹ چند گھنٹوں کے لیے خود کو جونیئر قرار دیتے ہیں اور جونیئر کیڈٹوں کو اختیار ہوتا ہے کہ ان سے جو چاہیں سلوک کریں.اعلان کیا گیا کہ تمام سینئر کیڈٹ شام سات بجے تک جونیئر رہیں گے. یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح تمام جونیئر کیڈٹوں میں پھیل گئی.بس پھر کیا تھا کسی کو یاد نہ رہا کہ گزشتہ پانچ دنوں کی صحرا نوروی نے پیروں میں ابلے ڈال رکھے ہیں نیندیں حرام ہونے سے آنکھیں غبار آلودہ ہیں. بستر کو مسکن بنایا جاۓ.بس ایک ہی دھن سوار تھی کہ اس مختصر سی مہلت میں سینئر کیڈٹوں کو ہر اس سلوک سے نواز دیا جاۓ جو انہوں نے ہم پر روا رکھا تھا.

ایک کمپنی کا کیڈٹ سی ایس ایم(کمپنی سارجنٹ میجر) ہاتھ آگیا. موصوف کمپنی میں ڈسپلن قائم رکھنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں. ظاہر ہے بلحاظ عہدہ ان کی زبان میں تھوڑی سی ترشی ضروری ہے. اور آنکھ میں سرخ ڈوروں کا ہونا معمولی بات. لیکن یہاں معاملہ یہ نہیں تھا کہ وہ اپنی حرکتوں میں حق بجانب تھے یا نہیں ‘ان کا قصور یہ تھا کہ وہ ان سینئروں میں شامل تھے جنھیں آج جوںیئر قرار دے دیا گیا تھا. کسی کو یاد نہ رہا کہ چند گھنٹوں بعد انہیں پھر سی ایس ایم کے روپ میں آجانا ہے.

جونیئر کیڈٹوں نے درزی کے تعاون سے کچھ رنگین کپڑے ادھار منگواۓ. سی ایس ایم کو پہناۓ گۓ. رخساروں پر غازہ’ ہونٹوں پر سرخی اور آنکھوں میں کاجل اتارا گیا.اور پھر آنکھوں پر عینکیں چڑھا انہیں کمپنی میں گھمایا گیا. اس سری تیاری کے دوران ایک شور تھا کہ کانوں کے پردے پھاڑ ڈالتا تھا. جونیئرکیڈٹ امڈے چلے آتے تھے.کوئی اس “نازنین” کے آٹوگراف لینے کو ٹوٹا پڑتا تھا، کوئی اس سے شام کی کسی حسین ساعت میں مونا لیزا ریسٹورنٹ میں ملنے کا وعدہ لینے پر بضد تھا. کوئی اس کے لیے “جھانجھراں” منگا دینے کو تیار تھا بشرطیکہ وہ “ہاں” کر لے اور کوئی اس کے مربعوں پر منشی ہو جانے کو زندگی کی آخری خواہش قرار دے رہا تھا. بیچاری دوشیزہ ٹکر ٹکر کبھی اس مضطرب کو دیکھتی جو چیخ چیخ کر اپنی وفاؤں کا یقین دلا رہا تھا تو کبھی اس مرغ بسمل کو’ کہ اس کے قدموں میں لوٹا جاتا تھا اور پکار پکار کر کہتا تھا…

 اکیلے نہ جانا’ ہمیں چور کر تم

 تمہارے بنا ہم’ بھلا کیا جئیں گے

باقی سینئر کیڈٹوں کے حلیے تو بدلتے رہے لیکن سی ایس ایم کی دوشیزگی کو آخر وقت تک برقرار رکھا گیا.

Share

March 4, 2012

آپ کیوں پروا کریں ہیں کہ لوگ کیا سوچتے ہیں” از رچرڈ فائنمن”

Filed under: ادبیات,تحقیق,کتابیات — ابو عزام @ 11:57 am

 ہفتوں میں ۵۲ کتابیں  پڑھنے کا جو بار گراں ہم نے اٹھایا تھا اس کو پورا کرنے کی ایک ہی صورت نظر آتی ہے کہ کتب ہاے مطالعہ مختلف اشکال میں ہر وقت موجود رہیں،  یعنی صوتی، برقی   اور ورقی۔ اسی طرح سے ہم اینڈرز گیم بھی ختم کرنے میں کامیاب ہوئے تھے کہ جہاں سے ورقی کتاب کا تعطل ٹوٹا، وہاں سے دوران سفر سیارہ صوتی کتب پر منتقل کیا اور جب کتاب تک دسترس نا رہی تو کنڈل نکال لیا ۔ اب نوبل انعام یافتہ ڈاکٹررچرڈ فائنمن” کی کتاب  “آپ کیوں پروا کریں ہیں کہ لوگ کیا سوچتے ہیں” کا مطالعہ بھی کچھ اسی طرح ختم ہوا۔

رچرڈ فائنمن کا شمار دور جدید کی طبعیات کے موجدین میں کیا جاتا ہے خصوصا کوانٹم کمپیوٹنگ پر انکا کام سیمینری یا مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کتاب کو پڑھنے سے پیشتر “آپ یقینا مزاق کر رہے ہیں مسٹر فائنمن” پڑھ لیں تو بہت بہتر ہوگا کیونکہ آپ کیوں پروا کریں ہیں کہ لوگ کیا سوچتے ہیں” از رچرڈ فائنمن” میں اس پچھلی کتاب کے کئی حوالہ جات استعمال کئے گئے ہیں ۔مزاح، سائنسی تراکیب اور سوانح پر مبنی  یہ کتاب بنیادی طور پر دو حصوں پر مشتمل ہے، پہلا حصہ جہاں   ڈاکٹرفائنمن اپنے مخصوص مزاحیہ انداز میں زندگی میں پیش آنے والے مختلف مشاہدات پر بات کرتے نظر آتے ہیں اور دوسرا حصہ خلائ جہاز چیلینجر کی تباہی کے اسباب کی تلاش میں بننے والے کمیشن کی رپورٹ اور اس کے دوران فائنمن کو پیش آنے والے مختلف واقعات پر مشتمل ہے۔ اس دوسرے حصے میں خصوصی طور پر ایک سائنسدان کی حکومت کی افسر شاہی کے طور طریقوں پر تنقید  قابل  مطالعہ ہے۔ یہ کہنا کچھ غلط نا ہوگا کہ یہ کتاب ڈاکٹر فائنمن کی پہلی کتاب کے مقابلے میں کم دلچسپ ہے اور اسکی بنیادی وجہ اسی رپورٹ کی شمولیت ہے۔ نیز اس میں دوسروں کے کچھ خطوط بھی شامل کر دئے گئے ہیں جو فائنمین کے طریقہ تصنیف سے میل نہیں کھاتے۔ لیکن اس کتاب کے آخر میں موجود ایک مضمون جو کہ سائنسدانوں کے سماجی  رجحانات یا “ویلیو آف سائنس” کے موضوع پر لکھا گیا ہے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔

رچرڈ فائنمن کا کسی چیز کو سمجھانے کا انداز بہت سہل انگیز ہے۔ ان کا نظریہ تھا کہ آسان طریقہ اپنانے سے جو نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں اس کو زبردستی مشکل بنا کر پیش کرنا، صرف اس لئے کہ وہ دقیق لگنے کی وجہ سے اہم لگے، سائنس کی بنیادی تعلیمات کے خلاف ہے۔ اس کتاب میں فائنمن نے اپنے اسی نظریے کو  خلائ جہاز چیلینجر کی تباہی کے اسباب کی تلاش میں  استعمال کیا  ہے۔اس کتاب کی ابتدا انکی منگیتر آیرین کے ٹی بی میں مبتلا ہونے اور خاندان کی مخالفت کےباوجود فائنمن کی اپنی لڑکپن کی محبت سے شادی سے ہوتی ہے۔فائنمین کے والد کا کہنا تھا کہ کسی فرد کی ناکامی کا سبب تلاش کرنا ہو تو عورت کو تلاش کرو، لیکن فائنمین نے ان کا کہا غلط ثابت کر دکھایا۔ اس وقت فائنمن پرنسٹن میں پی ایچ ڈی کے طالبعلم تھے اور نہایت کسمپرسی کی زندگی گذار رہے تھے۔ اس عظیم سائنسدان نے اپنے  ہوٹل میں ٹھرنے کے پیسے نا ہونے کی وجہ سے سردی میں  کچرے کے ڈھیر پر سونے کی داستان اتنے آرام سے بیان کی   جیسے یہ کوئ خاص واقعہ ہی نا ہو۔ اس کے بعد فائنمن کامینہٹن پراجیکٹ پر کام، ، کچھ نسوانی حقوق کے علمبرداروں کا انہیں خواتین کو طبعیات کی ایک مثال میں تیز گاڑی چلانے کے لئے استعمال کرنے پر لعن طعن کرنا، فائنمن کا سستا ہوٹل تلاش کرنے کے طریقوں کا بیان وغیرہ شامل ہیں۔ اس کتاب کو پڑھنے سے پتا  چلتا ہے کہ ایک عظیم سائنسدان اور اس صدی کے ذہین ترین افراد میں سے ایک فرد عام زندگی میں ہمارے اور آپ کے جیسا ایک انسان ہوتا ہے جو ہماری طرح غلطیاں کرتا ہے اور ان سے سیکھتے ہوے ایسے کام کر گذرتا ہے کہ دنیا اسے طویل عرصے تک یاد رکھتی ہے۔ فائنمن اس کتاب میں ہمیں بتاتے ہیں کہ ایک سائنسدان جب سماجی و معاشرتی چیزوں پر بات کرتا ہے تو وہ اس بارے میں اتنا ہی غلط ہوتا ہے جتنا کہ کوئ عام آدمی، کیونکہ سماجی ومعاشرتی مسائل کا کوئ سائنسی پیمانا نہیں ہوتا، اس لئے اس پر سائنسی طریقہ کار کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔

فائنمین کو بچوں سے خصوصی لگاو تھا۔ وہ لکھتے ہیں کہ سائنسی تجسس بچپن سے بیدار کرنے کی چیز ہے۔ اگر کوئی بچہ کسی سائنسی مسئلے کو عام حالات میں مشاہدے کی بنیاد پر دلچسپ سمجھتا ہے تو جان لیں کہ وہ ایک سائنسدان بننے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔کتاب میں لکھے گئے ایک واقعے کے مطابق انہوں نے ایک بچے کو لاامتناہیت کا نظریہ سمجھاتے ہوے کہا کہ تم مجھے کوئ بھی عدد بتاو، میں تمہیں اس سے تین گنا بڑا عدد بتاتا ہوں اور اس طرح سے کھیل کھیل میں مختلف مثالوں سے اس بچے کو لاامتناہی اعداد کے مشکل نظریے سے روشناس کرایا۔  ایک ملحد ہونے کے باوجود فائنمن کا وجود خداوندی، مذہب اور سائنس کے تقابل کے بارے میں رویہ و طریقہ کار آج کل کےملحدین کے لئے مشعل راہ ہے۔  اگناسٹک اور ایتہیسٹ کے درمیان اگر آپ  کو فرق معلوم کرنا ہو تو فائنمین کے لیکچرز کا مطالعہ مفید ہے۔ بڑی آسان زبان میں وہ مذہب و سائنس کا فرق بیان کرتے ہوے کہتے ہیں

طریق مذہب، ایمان۔ طریق سائنس، تشکیک

انکا سفر جاپان اور شاہی خاندان سے تعارو ، نوبل انعام کے وقت بادشاہ سے ملاقات اور انکی بے وقوفانہ حرکات کا بیان نہایت دلچسپ ہے جس میں انہوں نے بادشاہ سے ملانے کے لئے ہاتھ بڑھا دیا جو کہ روایات و آداب کے سخت خلاف ہے۔ اس کتاب میں فائنمین کے  بارے میں لکھے کچھ خطوط اور ان کےاپنے لکھے ہوئے چند خطوط جن میں وارسا سے لکھا گیا ایک خط شامل ہے لائق مطالعہ ہیں۔ فائنمین  کے کردار کی خاص بات تشکیک کو خصوصی اہمیت   دینا اور اتھارٹی پر عدم اطمینان رکھنا ہے جو کہ ان کی تحاریر میں  بدرجہ اتم ملتا ہے۔  صاحب کتاب کی تعریف میں کیا کہوں، ان کی دوسری اہلیہ کے نے اپنی طلاق  کی درخواست میں وجہ علیہدگی پر لکھا

 یہ صاحب صبح اٹھتے ہی کیلکلس کے مسائل پر سوچنا شروع کر دیتے ہیں۔ پھر گاڑی چلاتے وقت بھی یہی کرتے ہیں اور کمرے میں بیٹھ کر بھی، اور رات کو بستر پر لیٹ کر بھی کیلکلس کے مسائل پر ہی غورو فکر کرتے ہیں

Share
« Newer PostsOlder Posts »

Powered by WordPress