فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

February 20, 2012

اینڈرز گیم از اورسن اسکاٹ کارڈ

Filed under: ادبیات,کتابیات — ابو عزام @ 6:49 am

سائنس فکشن پڑھنے والوں کے لیے  اورسن اسکاٹ کارڈ اور اس کی مشہور زمانہ کتاب اینڈرز گیم  کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ ۱۹۸۵ میں چھپنے والی اس تین سو سے زیادہ صفحات پر مشتمل کتاب اینڈرز گیم کو ساینس فکشن کے بہت سے مشہور انعامات و اعزازات سے نوازا جا چکا ہے اور اس کے کئی لاحقات یا سیکول بھی چھپ چکے ہیں۔ ۲۰۱۳ میں اس کتاب پر مبنی ایک فلم بھی ریلیز ہونے والی ہے۔  میں نے یہ کتاب ایک دوست کی فرمائش پر حال ہی میں ختم کی، نہایت دلچسپ کہانی اور مصنف کے  انداز تحریر نے  محسور کیے رکھا۔

یہ کتاب مستقبل کے ایک چھ سالہ نہایت ذہین و فطین بچے اینڈر وگینس  کے بارے میں ہے جو کہ ایک جنیاتی تجربے کا نتیجہ ہے  اور انسانی نسل کی بقا کا دارومدار اس کی ذہانت پر منحصر ہے کہ وہ کس طرح سے خلای مخلوق ‘بگرز’ کو شکست دینے میں کامیاب ہوتا ہے۔ اس سے پہلے دو مرتبہ بگرز نے انسانوں پر حملہ کر کے ہزاروں لوگوں کو تہ تیغ کردیا تھا اور ایک بہادر کمانڈر میزر ریکم نے بالاخر ان کو مار بھگایا۔ اب اس کے ۷۰ سال بعد تیسری جنگ عظیم کی تیاریاں عروج پر ہیں جس کی قیادت کے لیے اینڈر    وگینس کو تیار کیا جا رہاہے۔کیا اینڈراس مشن میں کامیاب ہو سکے گا اور کیا جنگ کی یہ تیاریاں اس نوعمر بچے کی نفسیاتی و ذہنی نشونما پر کیا اثر کریں گی؟ اس کتاب کے دیگر دو اہم کردار اینڈر وگنز کے بھائ اور بہن ہیں جو اسی کی طرح  نہایت ذہین ہیں اور کم عمری میں زمین پر انقلابات کی تیاروں میں مصروف جب کہ اینڈر  بگرز کے خلاف مصروف کار ہے۔ اسکا۱۲ سالہ بھائ پیٹر مماثل ہٹلر طاقت اور حکومت کا خواہشمند ہے جبکہ ۱۰ سالہ بہن ویلنٹاین نوع انسانی کی بہتری اور امن و امان کی داعی۔ اس پلاٹ کے مختلف کرداروں کے درمیان مصنف نے جس طرح سے دلچسپی کا سماں باندھا ہے  وہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

ساینس فکشن کے بیشتر مصنفین کی طرح اورسن اسکاٹ کارڈ کی سوچ بھی نہایت وسیع اور مستقبل بین ہے۔ ۱۹۸۵ کی اس کتاب میں آپ کو انٹرنیٹ اپنی تمام تر جلوہ گریوں کے ساتھ نظر آتا ہے۔ آی پیڈ کی میزیں، ڈیجیٹل جمہوریت، وارسا پیکٹ اور روسی خطرات،مستقبل کی جنگی مشقیں، کشش ثقل کے بغیر خلای اسٹیشن پر زندگی اور زمان و مکاں کی نئی تبدیلیاں قاری کو اپنے جال میں جکڑے رکھتی ہیں، غرضیکہ یہ کتاب  ساینس فکشن پسند کرنے والوں کے لیے  ہمہ جہتی دلچسپیوں کا سامان ہے۔

Share

February 10, 2012

مغالطے مبالغے۔ ایک اسم با مسمی کتاب

Filed under: پاکستان,کتابیات,مذہب — ابو عزام @ 10:01 pm

تہذیبی نرگسیت کے شہرت یافتہ مبارک حیدرکی یہ تصنیف حال ہی میں ختم کی ۔ تہذیبی نرگسیت پر راقم کا تبصرہ مندرجہ زیل لنکس پر دیکھا جاسکتا ہے۔ علمی و تنقیدی دیانت کے زمن میں اور مکمل انکشاف کی مد میں یہ کہتے چلیں کہ ہمارا صاحب کتاب سے نظریاتی اختلاف کچھ پوشیدہ نہیں لہذا ہماری مغرضانه تحریر کے عوامل کو نظر میں رکھا جاے۔۔

  1. تہذیبی نرگسیت -ایک تہذیبی مرعوب کی سرگذشت کا اصولی جواب –حصہ اول
  2. تہذیبی نرگسیت -ایک تہذیبی مرعوب کی سرگذشت کا اصولی جواب – حصہ دوم
  3. تہذیبی نرگسیت -ایک تہذیبی مرعوب کی سرگذشت کا اصولی جواب – حصہ سوم

اس کتاب کے تیرہ عدد ابواب میں بحث کا جواز، مبالغےاور مغالطے۔ اسلامی سلطنت کا مغالطہ، پارسائی کا مبالغہ، آزاد میڈیا کا مبالغہ، عدلیہ کے تقدس کا مبالغہ، علم کی ملکیت کا مبالغہ، نگران جماعت کا مبالغہ، قیام خلافت کا مبالغہ، اسلام دشمنی کا مبالغہ، مغربی تہذیب کا مغالطہ اور سیکولرازم کا مغالطہ شامل ہیں۔  تہذیبی نرگسیت کی طرح یہ کتاب بھی تحقیقی حوالہ جات سے عاری ہے جو ابواب و کتاب کے آخیر میں دیے جایا کرتے ہیں۔ جدید تہذیب جسے محترم نے ” احیائے علوم کی تحریک” کے نام سے جگہ جگہ یاد کیا ہے، میں اس زمن کی کتابوں میں اپینڈکس و فٹ نوٹ یا حاشیے کا اندازمستعمل ہے۔ ایسی کتاب جو  احیائے علوم کی تحریک کے گن گاتی ہو اگر خود بھی اسکا استعمال کرلے تو کیا ہی اچھا ہو۔

کتاب کا انداز بیاں تقریری ہے اور مغالطوں سے عبارت۔ اپنی پہلی کتاب کی کئی چیزیں دہرائی گئی ہیں جن میں منطقی مغالطے سرفہرست ہیں۔ تہذیب مغرب کی شان میں رطب اللسان ہیں لیکن اور اسے جدید انسانی تہذیب قرار  دیتے ہیں لیکن اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نا آنے کے مصداق اس غالب و دانا تہذیب کی لڑی گئی دو جنگوں پر صاحب کتاب کا قلم بنیادی طور پر معذرت خواہ اور خاموش ہے۔  لیکن جب جناب اسلامی تہذیب کے بخیے ادھیڑنے ہوں تو ہر طرح کی اینکڈوٹ ایک حقیقیت بنا کر سامنے لای جاتی ہے ۔ ہیروشیما و ناگاساکی کی تباہ کاریاں ہوں یا ایٹم بم و ہایڈروجن بم کی ایجاد یا نوآبادیاتی نظام ہو، ان سب کے لیے صاحب کتاب کے قلم سے جس قسم کی معذرتیں نکلتی ہیں ان پر بڑے بڑے اپالجسٹس بھی  رشک کرتے ہونگے۔ لکھتے ہیں۔

اگرچہ یورپ کی اقوام نے ان شاندار نظریات کے باوجود دنیا بھر میں نو آبادیات قائم کیں اور ان قوموں پر تسلط جمایا، پھر آج کی دو بڑی جنگیں بھی انہوں نے لڑیں لیکن فاشزم اور نوآبادیاتی نظام کے باوجود ان نظریات کی قوت ان معاشروں میں کم نہیں ہو سکی. بلکہ یہ نظریات دنیا بھر میں نوآبادیات کی آزادی کے لئے بنیاد بن گئے.

یعنی کہ تم قتل کرے ہو کہ کرامات کرے ہو۔ پھر مغربی تہذیب کی مادر پدر آزادی کے  دفاع میں مزید خامہ فرسا ہوتے ہیں کہ

 اس جدید تہذیب نے انسانوں کی آزادی اور حقوق کو جس انداز سے تسلیم کیا اور اس کے نتیجہ میں یہ فطری تھا کہ ان کے معاشروں میں بعض مبالغہ آمیز ذاتی آزادیاں بھی رائج ہوئیں.خاندان کی شکست و ریخت اور اولاد کی اپنے والدین کے ساتھ حقوق کی برابری کے تصور نے بعض  الجھنیں پیدا کیں لیکن یہ اس تہذیب کی بنیادی شناخت نہیں، نہ ہی اس تہذیب کے مفکروں کا اصرار ہے یہ فلسفہ ہے کہ اس تہذیب کے یہ پہلو اپناۓ جائیں. جو الجھنیں آزادی کے استعمال سے پیدا ہوئیں ان کے باوجود یہ معاشرے سلامت ہیں یا ان الجھنوں  کو دور ۔کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں.

کاش محترم نے کبھی یورپ و امریکہ کے جنسی جرایم کا رکارڈ دیکھا ہوتا، پھر ایک دور کی کوڑی لاتے ہوے کہتے ہیں

اصل بات یہ ہے کہ جاگیرداری دور کی وہ ظالمانہ فضیلتیں جو انسان پر انسان کے تسلط کی ضمانت دیتی ہیں اس نئے نظام کے آنے سے خطرے میں پر گئیں اور چونکہ مسلمانوں کی بادشاہتوں کا خاتمہ اس صنعتی معاشرے کے ہاتھوں ہوا تھا لہذا اقتدار سے محروم ہونے والے طبقوں کو اس کا بہت قمق تھا

یعنی اصولا تو یہ نظام بلکل درست لگتا ہے لیکن چونکہ مولانا حضرات کو اپنی سلطنت جانے کا غم تھا، اس وجہ سے وہ اسکے مخالف ہوگئے۔

مغالطے مبالغے کے مصنف کی سوانح کچھ ہوں ہے کہ مبارک حیدر صاحب نے نے 1963 میں گارڈن کالج راولپنڈی سے انگریزی ادبیات میں ماسٹرز کیا، وہیں پوسٹ گریجویٹ یونین کے صدر تھے جب ذوالفقارعلی بھٹو سے پہلی ملاقات ہوئی .64ء میں اسلامیہ کالج سے وابستہ ہوئے. کتاب کہتی ہے کہ شاعر اور انقلابی کی حیثیت سے ملک بھر میں پذیرائی ملی. پھر جب پاکستان پیپلز پارٹی معرض وجود میں آئی تو 68ء میں بھٹو نے انھیں لیبر ونگ کا سربراہ مقرر کیا. غالبا یہی وہ نمک ہے جس کو وہ آزاد میڈیا کے مغالطے نامی باب میں حلال کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کا قلم عدلیہ کے مغالطے نامی باب میں ایک محقق سے زیادہ ایک جیالے کا خامہ نظر آتا ہے جس کی حب الوطنی کا یہ عالم ہے کہ لکھتے ہیں

اگرچہ پاکستان عالمی منظر پر کسی مثبت یا پیداواری عمل کی وجہ سے کوئی حیثیت نہیں رکھتا.تا ہم تخریب اور نفی کے کئی میدان ایسے ہیں جن میں ہماری اہمیت دنیا میں نمبر ایک ہے۔

پھر نفرت از خود کا یہ عالم ہے کہ اپنے افکار بھی میگنا کارٹا کے سر باندھنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ رقم طراز ہیں

بنیادی مفہوم جو احیائے علوم کی تحریک نے سمجھا اور اپنایا، یہ تھا کہ تمام انسان برابر ہیں، تمام انسانوں کو برابر حقوق حاصل ہیں، ان حقوق میں انسانی آزادی، آزادی فکر، آزادی اظہار، آزادی مذہب اور آزادی تنظیم سب شامل ہیں. کسی گورے کو کالے پر، کسی مرد کو عورت پر، کسی ایک نسل کو دوسری نسل پر، کسی ایک مذہب کو کسی دوسرے مذہب پر فوقیت نہیں. رنگ نسل اور قومیتوں کے تعصبات مہمل اور باطل ہیں، بنی نوع انسان کی اس دنیا میں زندگی سب سے بڑی صداقت ہے، یہ زندگی مقدّس ہے اور اس کے تحفظ کے لئے ساری انسانیت کی متحدہ جدوجہد ضروری ہے.

پھر یاسیت کی انتہا سے خامہ رواں ہوتا ہے کہ

۔۔۔.لیکن سبھی جانتے ہیں کہ اس دہشت گردی اور انتشار کے پیچھے چاہے کوئی بھی ہو، چاہے پاکستان کے عسکری اندھوں کا کوئی گروہ مال ا اقتدار کے لئے اس ہتھیار کو استعمال کرے یا کوئی عربطاقت اپنی عالمی سودا بازی میں لگی ہوئی ہو، کوئی سابقہ عالمی طاقت اپنے گرد بننے والے گھیرے کو توڑنے کے لئے کام کر رہی ہے یا کوئی ابھرتی ہوئی طاقت موجودہ واحد سپر پاور کی جگہ لینے کا خواب دیکھ رہی ہو،لیکن ایسا کبھی نہیں ہو سکتا کہ افغانستان اور پاکستان کے بدنصیب عوام کی نوجوان نسلیں عالمی رہنما بن جائیں گی یا انہیں دنیا میں کسی بھی طرح سے کوئی فضلیت نصیب ہو سکے گی.جس علمی، معاشی، تنظیمی اور اخلاقی حالت میں ہم اس وقت ہیں یعنی نہ ہماری زراعت ہے نہ صنعت، نہ ادارے ہیں نہ افراد، نہ دنیا میں کہیں سے خوش آمدید کا کوئی پیغام، ایسی حالت میں ہم چاہے پتھر پھینک پھینک کر ساری دنیا کے باغ اجاڑ دیں، باغ ہمارے نہیں ہو سکتے، نہ یہاں کے باغ نہ اگلے جہان کے باغ. ہم شیر،لگڑ بھگے، چیتے جو بھی بن جائیں انسانوں کی کوئی بستی ہمیں اپنا بادشاہ نہ مانے گی. یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی ہماری میڈیا کا فیصلہ یھ رہا ہے کہ خود کشی کے اس عامل کی جو بھی مخالفت کرے، اسے مختلف بہانوں سے سخت نفرت کا نشانہ بنایا جاۓ۔

میڈیا پر مصنف کی نقادانہ نظر بہرحال حقیقت سے قریب تر ہے، اس زمن میں رقم طراز ہیں

آسان فضلیت و اقتدار کے طلبگار عناصر نے ہماری اس مریضانہ حالت سے بھر پور فائدہ اٹھایا ہے.چناچہ میڈیا کے وہ دکاندار جن کی نظر میں پیشہ ورانہ صلاحیت کے معنی بلیک میل کی ٹیکنیک اور مال بنانے کی صلاحیت سے آگے کچھ نہیں،ہمارے معاشرے کی نرگسبت سے لطف اندوز ہو رہے ہیں.چونکہ اس معاشرہ کے خوشحال اور کامیاب طبقوں کو کامیاب ہونے کے لئےعلم اور قدروں کی ضرورت ہی نہیں پڑتی ہے بلکہ در حقیقت وہ کامیاب ہی تب ہوئے جب انہوں نے علم اور اقدار سے نفرت کرنا سیکھا اس لئے خبر کی بجاۓ افواہ ان کی پسندیدہ خوراک بنی،کیونکہ خبر کا تعلق تحقیق اور سچائی سے ہے،یہ علم اور اقدار کی طاقت سے نکھرتی ہے،اسے ہضم کرنے کے لئے صحت مند معدہ درکار ہوتا ہے.کھٹیاور کراری مانگنےوالوں کی طلب بڑھنے سے مزید کھٹی اور مزید کرری بیچنے والوں کی دوکانیں چلتی ہیں معدہ کے مریض الله کو پیارے ہوتے رہتے ہیں،لیکن نسل کشی کی طاقت سے ملامال اس تہذیب میں کھانے والوں کی تعداد گھٹتی نہیں،خصوصاً جب سادہ اور صحت بخش خوراک کے لئے خوشحال لوگوں کا دل مائل ہی نہیں ہوتا.دوسری طرف بدخورانی اور زہر خورانی کے زخم بھرنے کے لئے عبادت اور ثواب سہارا بن جاتے ہیں. چناچہ کھٹی اور کراری افواہوں کی ہر دوکان کے ساتھ دینی فضلیت کی دوکانیں پھلتی پھولتی ہیں.ہمارے اخبارات اور چینلز پر کھٹے اور کرارے تبصروں،مکالموں اور خبروں کے ساتھ ساتھ دینی فخرو فضلیت سے بھرپور صفحات،ایڈیشن اور تقاریر اسے حسین امتزاج کی مثالیں ہیں۔

لیکن حقیقت پسندی، میڈیا میں اخلاقیات و استدلال  و دیانت و سچای کا درس دینے کے بعد ان کا قلم یوں رواں ہوتا ہے

موجودہ سول حکمت پہلی بدنصیب حکمت نہیں،جسے گالیوں،کرپشن کی افواہوں اور مقدموں کے نہ ختم ہونے والے سلسلوں کا سامنا ہوا ہے.ذوالفقار علی بھٹو کو شہید ہونے تک ہر تذلیل کا سامنا تھا، حتیٰ کہ پار ساۓ اعظم ضیاءالحق نے جیل میں بھٹو کی لیٹرین کے پردے ہٹوا دئیے.کہتے ہیں بھٹو نے اپنی عزت نفس کے تحفظ کے لئے کھانا پینا چھوڑ دیا.ایک رپورٹ کے مطابق تقریباً چھ فٹ قد کے بھٹو کا وزن پھانسی کے دیں ١٠٠ پاؤنڈ سے بھی کم تھا.ملک کے سارے اہل ایمان،سارے اہل قلم اور عدل کے نگران ضیاءالحق کے آگے سجدہ ریز تھے اور بھٹو کو گالیاں دینے میں ایک سے بڑھ کر ایک.پھر بینظیر اور نواز شریف کی باری آ آئی

 یہاں یقینا انہوں نے مصدقہ ذرایع سے ہی  بھٹو کے باتھ روم کی صورتحال کا پتا چلایا ہوگا اور اس کا بغیر حوالہ جات کے درج کرنا انکے نزدیک عین محققانہ دیانت ہے۔  اس کتاب کے دیگر مندرجات بھی اسی قسم کے بہت سے مغالطوں اور یک رخی پند و نصایح سے بھرے پڑے ہیں جن کی تفصیلات آپ کتاب پڑھ کر خود جان سکتے ہیں، میری بس اتنی گذارش ہے کہ آپ اس کے ساتھ اسلامی تہذیب اور اس کے اصول و مبادی اور تجدید و احیائے دین  کا بھی مطالعہ کرلیں تو بہتر ہے کہ یک طرفی معلومات سے قاری کا ذہن متنفر نا ہو۔ اخری بات اس حوالے سے یہ کرتا چلوں کہ  کہ جمہوریت کہ حوالے سے لادینی قوتوں کی جو کوششیں اسلام اور جمہوری نظام کو متناقض قرار دینے کے لیے کارفرما ہیں، ان میں صاحب کتاب سرفہرست ہیں، لکھتے ہیں

۔۔۔.مسلم معاشروں میں جمہوریت کا مقام اب تک ایک خارجی سا رہا ہے جس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ مسلم معاشروں میں فضلیت و احترام کا منصب اسلامی اتھارٹی کی بنیاد پر طے ہوتا رہا ہے.بادشاہ اور جاگیردار کو دینی علما کی تائید حاصل رہی ہے اور انسانی علم وعقل یا راۓ کو کبھی وہ سعادت حاصل نہیں ہوئی جو عقائد کو حاصل رہی ہے.اپنے عقائد کو آخری سچائی ماننے والے معاشرہ میں جب فاتح کا غرور بھی شامل ہو جاۓ اور صدیوں کی حکمرانی کی سند بھی،اور جب لوگوں کو یقین ہو کہ ان کی کامرانیوں کا سبب ان کے عقائد ہیں،اور ان عقائد کا علم طبقہ علما کے پاس ہے یا پھر اہل اقتدار کے پاس، تو اجتماعی انسانی راۓ یا استدلال کی ضرورت کہاں رہ جاتی ہے.مسلم معاشروں کی ہزار سالہ فتوحات اور کامرانی نے جو فخر پیدا کیا تھا،اسے پچھلے تین چار صدیوں کی پسپائی نے کم کرنے کی بجاۓمسخ کردیا ہے.اب فخر کبھی یاد ماضی بن کر،کبھی احساس مظلومیت بن کر ہمیں سیکھنے سوچنے سے روکتا ہے تو کبھی فخر کی یہ مسخ شدہ شکل تشدد اور تنہائی کی طرف دھکیلتی ہے.ہمارے یہ معاشرے جو اپنا کوئی بھی اجتماعی کام ڈھنگ سے نہیں کر پاتے، حتیٰ کہ خوراک تک کے لئے دنیا کے محتاج ہیں، وہ عالمی مملکت قائم کرنے کے لئے ہر دم تیار ملتے ہیں.

اس سلسلے میں ڈاکٹر فیاض عالم نے جسارت اخبار میں ایک اچھا و مدلل جواب لکھا ہے جسے یہاں نقل کرتے ہوے اس مضمون کا اختتام کرتا ہوں۔

 مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، ڈاکٹر حمیداللہ ؒ اور مولانا امین احسن اصلاحیؒ جیسے عظیم اسکالرز کی تحریروں کو پڑھ کر اسلام میں جس جمہوریت کی گنجائش اور اجازت نظر آتی ہے وہ مغربی سیکولر جمہوریت یقینا نہیں ہے اور نہ ہی ہوسکتی ہے۔ مغربی سیکولر جمہوریت میں کسی ریاست میں قانون سازی کے تمام حقوق عوام کو حاصل ہوتے ہیں کہ ان کے منتخب نمائندے جس طرح قانون چاہیں بنا لیں، مثلاً یہ کہ بعض مغربی ممالک نے مردوں سے مردوں کی اور عورتوں سے عورتوں کی شادی کو قانوناً جائز قرار دے دیا ہے۔ یا بغیر شادی کے پیدا ہونے والے بچوں کو قانونی حیثیت عطا کردی ہے۔ اسلام میں اس طرح کی قانون سازی کے حقوق عوام یا ان کے نمائندوں کو حاصل نہیں ہیں۔ یہاں ایک بنیادی اور بالادست قانون اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے عطا فرما دیا ہے جس کی اطاعت اسلامی ریاست کے ذمہ داروں اور عوام دونوں پر فرض ہے۔ اس لحاظ سے اسلامی حکومت جمہوری حکومت نہیں ہوتی بلکہ الٰہی حکومت ہوتی ہی‘ یعنی ایسی حکومت جس میں انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کے بجائے شرعی قوانین نافذ ہوتے ہیں۔ الٰہی حکومت کو انگریزی میں تھیوکریسی (Theocracy)کہتے ہیں۔ لیکن بقول مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ”یورپ جس طرح کی تھیوکریسی سے واقف ہے اس میں ایک مخصوص مذہبی طبقہ (Priest Class) خدا کے نام سے خود اپنے بنائے ہوئے قوانین نافذ کرتا ہی‘ جبکہ اسلام جس تھیوکریسی کو پیش کرتا ہے وہ کسی مخصوص مذہبی طبقے کے ہاتھ میں نہیں ہوتی بلکہ عام مسلمانوں کے ہاتھ میں ہوتی ہی‘ اور یہ عام مسلمان اسے خدا کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق چلاتے ہیں۔“ مولاناؒ نے اسلامی حکومت کو الٰہی جمہوری حکومت (Theo-Democratic Government)قرار دیا ہے۔ یعنی ایک ایسی جمہوریت جس میں خدا کے اقتدارِ اعلیٰ کے تحت مسلمانوں کو محدود عمومی حاکمیت عطا کی گئی ہے۔ گویا مسلمانوں کے نمائندے یا اراکینِ شوریٰ ایسے قوانین تو وضع کرسکتے ہیں جن کے متعلق اسلامی شریعت میں کوئی صریح حکم موجود نہ ہو، مثال کے طور پر آج کے دور میں اگر کسی ضلع، صوبے یا ملک کی حکومت کو انٹرنیٹ کے حوالے سے قانون سازی کرنی پڑے یا وہ سائبر کرائمز کو روکنے کے لیے قوانین وضع کریں تو اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ قرآن و سنت کے اصولوں کے مطابق اس حوالے سے قانون سازی کی جائے۔ لیکن عورتوں سے عورتوں کی شادی جیسے غیر شرعی، غیر اخلاقی و غیر انسانی قوانین کسی بھی اسلامی ریاست میں کسی بھی نوعیت کی جمہوری حکومت نہیں بنا سکتی۔ لہٰذا یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اسلام میں جس جمہوریت کی بات کی جاتی ہے وہ مغربی سیکولر جمہوریت نہیں ہے بلکہ قانون سازی کا محدود اختیار رکھنے والی الٰہی جمہوریت یا اسلامی جمہوریت ہے جس میں شرعی قوانین کو لازماً برتری حاصل ہوتی ہے۔ اسلام اور جمہوریت کے حوالے سے تفصیلی معلومات کے لیے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی تالیف ”اسلامی ریاست“ جسے پروفیسر خورشید احمد صاحب نے مرتب کیا ہے اور مولانا امین احسن اصلاحیؒ کی تصنیف ”جدید اسلامی ریاست میں قانون سازی کے مسائل“ کا مطالعہ مفید ثابت ہوسکتا ہے.

Share

February 7, 2012

ذکرامیرمینائی – تیسرا اور آخری حصہ

Filed under: ادبیات,کتابیات — ابو عزام @ 3:00 am

حصہ اول حصہ دوم

امیر مینائی کی دوسری نہایت ہی اہم ادبی خدمت امیراللغات کی ترتیب و تالیف ہے اس بارے میں ان کا اپنا بیان ملاحظہ فرمائیے.”جب سے ہوش سنبھالا ، آنکھیں کھولیں تو یہ دیکھا کہ اچھے اچھے اہل زبان اور زباندان سر زمین سخن کے فرمانروا ہیں.انہیں کی صحبتوں میں اردو زبان کی چھان بین کا شوق مجھے بھی ہوا.اسی زمانے میں آرزو ہوئیاور بڑھ کر بے چین کرنے لگی کہ اردو زبان کے بکھرے ہوئے موتیوں کی ایک خوشنما لڑی بناؤں.اتنے میں لکھنؤ   کی سلطنت مٹ گئی وطن کی تباہی اور گھر بار لٹنے سے چندے حواس ہی نہ جمع ہو سکے.الفاظ کیسے؟لیکن آرزو کی آگ دل میں سلگتی رہی یہاں تک کے فردوس مکاں نواب یوسف الی خاں وائی رام پور نے مجھے بلا کر اطمینان کا سایہ دیا.اتنی فرصت تو نہ پا سکا کہ اپنے ارادے کو پورا کر سکوں تا ہم کچھ کچھ شغل چلتا گیا.١٨٨٤ء میں سر الفرڈ لائل صاحب بہادر، لیفٹنٹ گورنر مغربی و شمالی اور چیف کمشنر اودھ نے اردو کے ایک جامع لغت کی فرمائش کی.نواب خلد آشیاں نے مجھے حکم دیا.یہاں تو تمنا ہی تھی…..”

افسوس کہ یہ کام مکمل نہ ہو سکا کیونکہ نواب خلد آشیاں مرض الموت میں مبتلا ہو کر رحلت فرما گئے اور الفرڈ لائل بھی انہی دنوں ہندوستان کو خیر باد کہہ گئے اس پر تاسف کرتے ہوئے امیر مینائی فرماتے ہیں:

“اردو کی قسمت میں ہی یہ بداہے کہ سنورنے نہ پاۓ.میں اسے کیا کروں اور کوئی کیا کرے”

اس کے باوجود امیر مینائی نے مختلف شہروں کے دورے کیے.ہر جگہ لوگوں نے ہمت افزائی کی اور لغت مرتب کرنے کی”تمنا کوشہ دی”انہوں نے رام پور میں امیراللغات کا دفتر قائم کیا اور محنت ویکسوئی سے تالیف لغت میں منہمک ہو گۓ.

امیر مینائی ایک نہایت ہی بلند پایہ شاعر تھے.داغ نے جن شوخیوں اوراکثر اوقات غیر شائستہ تراکیب کو رواج دیا ان سے امیر مینائی نے ہر ممکن طریقے سے بچنے کی کوشش کی.داغ امیر کی اس شائستگی کے قائل تھے اور انہوں نے کبھی اس باب میں کوئی اعتراض بھی نہیں کیا.نیاز فتح پوری نے ایک خط میں تقریبًا اسی نکتے کو چھیڑَا  ہے فرماتے ہیں.امیروداغ کے موازنے کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ہے۔ کیونکہ دونوں میں شمال و جنوب کی نسبت ہے.لیکن صنم خانہ عشق لکھ کر امیر نےخواہ مخواہ ایک عذاب مول لیا ہے.اسی لیے کہہ ان کے شایان شان نہ تھا اور دوسروں کے لیے بھی کہ ان کو داغ کی سطح پر گفتگو کرنا پڑتی ہے.”

آگے چل کر اسی خط میں نیاز لکھتے ہیں”امیر شاعر تھے اس میں کلام نہیں لیکن آپ کو معلوم نہیں شاعر دو قسم کے ہوتے ہیں.وہبی واکتسابی.میں نے یہ تقسیم اور طرح کی ہے مطلق شاعر اور شاعر با لقوت.یعنی ایک وہ جو سواۓشعر کہنے کے اور کسی کام کا نہیں، یعنی شعر نہ کہے گا تو کرےگا کیا.اور دوسرا وہ جو دوسری تمام انسانی اہلیتوں کے ساتھ شعر گوئی کی بھی اہلیت رکھتا ہے.سو ظاہر ہے کے جہاں تک محض شعر کا تعلق ہے امیر کو داغ سے کوئی نسبت نہیں.داغ صرف شاعر تھے اور کچھ نہیں.امیر سب کچھ تھے مگر وہبی شاعر نہیں.داغ کا سرمایہ ہستی اسکی شاعری تھی اور امیر کے لیے یہ امر باعث فخر و ناز نہ تھا.داغ نے تمام عمراسی ماحول میں بسر کردی جو گوشت پوست کے متعلق ہونے والی شاعری کے لیے ضروری ہے اور امیر کو نماز پنجگانہ اور تہجد گزاری سے کہاں فرصت تھی جو اس طرف توجہ کرتے.

 “ہر چند مراۃ الغیب(امیر کا دیوان اول)کی شاعری بھی صرف اسیر کی سی شاعری ہے جس میں جذبات وغیرہ سے بہت کم سروکار ہے لیکن خیر ایک مخصوص رنگ اس زمانے کا ہے جو اچھا نہیں تو برا بھی نہیں ہے لیکن”صنم خانہ عشق”لکھ کر انہوں نے کمال ہی کر دیا.غضب خدا کا امیر ایسا شخص اور عامیانہ جذبات نگاری میں اس سطح تک اتر آئے کہ،

رخسار نازک ہوں تو آج ایک مانوں گا نہ میں

دو بوسے لوں گا جان من اک اسطرف اک اسطرف

“امیر ایسے سنجیدہ و متقی شخص کی طرف سے ہم یہ سب گوارہ نہیں کر سکتے.البتہ ایک بات میری سمجھ میں اب تک نہ آئ کہ وہ ہی امیر جو مرات الغیب میں یکسر بے آب و رنگ نظر آتے ہیں اور صنم خانہ عشق میں شرمناک حد تک عریاں ……کیونکر لکھنؤ پہنچ کر دفعتاً دہلی کی فضاؤں میں پہنچ گئے.لکھتے ہیں.

         ” کچھ آج نہیں رنگ یہ افسردہ دلی کا

            مدت سے یہی حال ہے یاور مرے جی کا

              کھاتے ہو قسم نہیں میں عشق

             صورت تو امیر اپنی دیکھو

              اک کنارے پڑاہوا ہے امیر

             کچھ تمہارا غریب لیتا ہے

         کوئی امیر ترا درد دل سنے کیونکر

              کہ ایک بات کہے اور دو گھڑی روۓ”

حیران ہوں کہ جس میں ایسے اشعار کہنے کی اہلیت ہو وو اپنے نام سے “مراۃ الغیب” اور “صنم خانہ عشق کی نسبت گوارہ کرے.”

                           (سالنامہ نگار پاکستان)مکتوبات نیاز نمبر دسمبر ١٩٨٥ء

امیرمینائی کے بارے میں نیاز کے استعجاب کی بنا پر کئی باتیں ذہن میں آتی ہیں.کچھ رنگ زمانہ ، کچھ شوخی احباب اور کچھ محض تفنن طبع،ان سب کا اثر ان پر ہوا ہوگا اور چونکہ بقول نیاز امیر مینائی محض شاعر ہی نہ تھے بلکہ اور بھی بہت کچھ تھے اس لیے بطور تفریح اوقات انہوں نے معاصرین کے رنگ میں کچھ کہا ہو.اس بارے میں سرراہے گفتگو کے نتیجے میں خلیق ابراہیم خلیق نے جو خود بھی دبستان لکھنؤ کے بہت ہی موقر مؤد رہے ہیں ایک ذاتی خط میں تحریر فرمایا.

“داغ اور امیر جس معاشرے سے تعلق رکھتے تھے اس میں اور اس سے پہلے کے معاشروں میں جنسی خواہشات و واردات کا برملا کھلم کھلا اظہارعمومی طور پر معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا.علماءومشائخ بھی فطری میلانات کو رد نہیں کرتے تھے اور حسرت موہانی کی زبان میں “زہد کی عصیاں نظری “عام تھی خواجہ میر درد جیسا صوفی صافی شاعر بھی اس سے مبرا نہیں تھا.ان کا شمار بھی حسرت موہانی کے نقطۂ نظر کے مطابق گنہگاران صالح میں ہو گا.وہ ذرا سنبھل کر چلتے تھے جبکہ دوسرے کچھ زیادہ ہی ترنگ میں آجاتے تو ابتدال کی حدیں پار کر جاتے تھے.مومن جیسا متشرع بھی اپنی مثنویوں میں کھل کھیلا ہے..رہی ابتدال کی بات تو تقریباً سبھی اس سے آلودہ تھے.کسی کے ہاں مبتذل اشعار کی خاصی تعداد ہے کسی کے ہاں کم،کسی کے ہاں بہت ہی کم  یا نہ ہونے کے برابر ہے.ہمارے منافقانہ معاشرے میں حسرت موہانی،ان کے ہمنوا ترقی پسندوں اور دوسرے وسیع النظر اور کشادہ دل لوگوں کے علاوہ بیشتر علماء و مشائخ اور نقادانہ ادب میں شوخی طبع یا شئے لطیف کا فقدان اور ہوس کا وفور ہے…”

بعض محققین اور تزکرہ نگاروں نے امیر و داغ کا ذکر اس طرح کیا ہے گویا دونوں ایک دوسرے کے رقیب تھے یا دونوں کے شاگرد اور طرف دار انیسیوں اور دبیریوں کی طرح ہر وقت لاٹھی پونگے پر آمادہ رہتے تھے.اس باب میں نیاز کا یہ جملہ کہ”امیر کو داغ سے کوئی نسبت نہیں ہے”خاصا قابل غور اور لحاظ ہے.امیر احمد علوی نے طرہ امیر میں اکثر جگہوں پر امیر اور داغ کے طرز ادا پر تبصرہ سا کیا ہے لیکن انہوں نے ایک دوسرے کی برتری ثابت کرنے کی کوشش نہیں کی ہے.نقوش کے ادبی معرکے میں کہیں امیر و داغ  کی معاصرانہ چشمکوں کا ذکر نہیں ہے ہاں ڈاکٹر نور الحسن ہاشمی نے ایک جگہ دونوں کو حریف و مقابل کی حیثیت سے پیش کرنا چاہا ہے انہوں نے ایسی محافل کا ذکر بھی کیا ہے جہاں داغ کے تلامذہ امیر کے فن یا ان کے قدردانوں کی ٹوپی اچھالنے پر آمادہ نظر آتے ہیں لیکن اس بارے میں خاصی چن بین کے باوجود دوسری کسی جگہ کوئی ثبوت نہیں ملتا ہے خود امیر مینائی انتہائی شریف النفس  تھے اس بارے میں ان کے ایک خط کا حوالہ کافی ہوگا.امیر مینائی اور داغ میں بہت بے تکلفی تھی اس لیے داغ کے ایک خط کے جواب میں لکھتے ہیں:

“مدت کے بعد نوازش نامہ آیا.ممنون یاد آوری فرمایا.بندہ نواز مجھے یاد نہیں ہے کہ میں نے کسی خط کا جواب قلم انداز کیا ہو.یہ میرے مقدر کی نہ رسائی ہے کہ کوئی خط نہ پہنچا ہو.”

داغ نے نظام دکن سے سفارش کی تھی کے امیر مینائی کو سلطان الاساتذہ کا خطاب مرحمت فرمایا جاۓ.یہ ذکر جب امیر کے نام ایک خط میں آیا تو حضرت امیر مینائی نے لکھا-….اول تو میں خطاب لینے کے قابل ہی اپنے آپ کو نہیں سمجھتا ہوں اور پھر درخواست دے کر خطاب مانگنا تو بلکل پسند نہیں……میاں اب وقت آگیا ہے کے مرحوم کے خطاب بارگاہ شہنشاہ حقیقی سے عطا ہو.اور کوئی حوصلہ نہیں…امیر فقیر.”

یہ خط ٣١ مارچ ١٨٩٠ء کو مرزا داغ کو دکن بھیجا گیا.ان دنوں امیر مینائی رام پور میں تھے اس کے کئی برس بعد دکن جانا ہوا جہاں وہ اپنی لغت کی اشاعت کے سلسلے میں سرکاری گفتگو کے لیے گئے تھے.بعض حضرات کا خیال ہے کہ چونکہ انہوں نے نظام سے خطاب عطا کرنے کی درخواست نہیں کی تھی (عام طریقہ یہی تھا کہ امراء درخواست کرتے اور نظام منظوری دیتے تھے)اور ایک طرح نظام کے طریقہ کار کی توہین کی تھی اس لیے لغت کے سلسلےمیں بھی کوئی مالی امداد کا سبیتا نہ ہو سکا.دربار حیدرآبادی کو مستقل بدنامی سے بچانے کے لیے کہا گیا کہ نظام اپنی علالت کی وجہ سے امیر مینائی سے نہ مل سکے.

تھوڑے ہی دنوں بعد یعنی  آج سے ٹھیک سو برس پہلے ١٣ اکتوبر ١٩٠٠ء کو حضرت امیر مینائی رحلت فرما گئے اور وہیں حیدرآباد میں سپرد خاک کیے گئے.

حضرت امیر مینائی کی غزلیات مجموعہ نعت اور محاسن شعری پر بہت کچھ لکھا گیا ہے ابو محمد سحرنے پی ایچ  ڈی کے لیے تحقیقی مقالہ بھی کلام امیر کی خوبیوں پر لکھا ہے لیکن اس وقت بڑی ضرورت یہ ہے کہ امیر مینائی کی نثری تصنیفات اور ان کے نقد شعر کی روش پر تفصیل سے کام کیا جائے.اس کے لیے ضرورت ذہنی سکون اور مطالعے کی ہے کیونکہ ان کی نثری تصانیفکی تعداد بیس پچیس کے قریب ہے ان پر سیر حاصل تحقیقی کام کسی ایک فرد واحد کے بس کی بات نہیں ہے.یہ کام تو کسی یونیورسٹی یا ادبی ادارے کی سرپرستی میں آسانی سے ہو سکتا ہے.یہ بھی ممکن ہے کے خانوادہ مینائی کا کوئی امیر زادہ کمر ہمت کس لے.اگر نئی صدی میں بھی یہ کام نہ ہو سکا تو خود بقول امیر..

 پھر اس قدر بھی ہمارا نشاں رہے نہ رہے

Share

February 5, 2012

ذکرامیرمینائی – حصہ دوم

Filed under: ادبیات,کتابیات — ابو عزام @ 3:00 am

 گذشتہ سے پیوستہ

کہا جاتا ہے کہ محسن کا کوروی نے جب اپنا مشہور نعتیہ قصیدہ”سمت کاشی سے چلا جانب متھرا بادل” لکھا توامیر مینائی کو خواب میں زیارت رسولّ نصیب ہوئی انہوں نے دیکھا کہ سرکار دوعالمّ نے اس قصیدے پر خوشنودی کا اظہار فرمایا.جب محسن کا کوروی کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے قسم کھالی کہ اب صرف مدح رسولّ ہی میں ساری صلاحتیں صرف کرینگے.انہوں نے عام گفتگو بھی کم کردی بس ہر وقت درود پڑھا کرتے اگر فکرشعر کرتے تو صرف نعت لکھتے.اسی سے متاثر ہو کر حضرت امیر مینائی نے پورا ایک دیوان ہی مدح رسولّ میں مرتب کر ڈالا.ان سے پہلے نعتیہ دیوان کی روایت اردو میں نظر نہیں آتی ہے حالانکہ عربی و فارسی میں متعدد نعتیہ دوا دین موجود ہیں.اسی دیوان امیر میں وہ مشہور نعت بھی شامل ہے جس کا ایک شعر مرحوم ناصر جہاں کی مترنم آواز میں بہت مقبول ہے.

جب مدینے کا مسافر کوئی پا جاتا ہوں

حسرت آتی ہے یہ پہنچا میں رہا جاتا ہوں

عشق رسولّ کا اثر الله کے شکر سے ہمارے خانوادےپر بہت رہا.محسن کے صاحبزادے نورالحسن نیرکا کوروی نے بھی وکالت چھوڑ کر لکھنے پڑھنے میں زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا ان کے سگے اور واحد بھانجے یعنی راقم کے دادا امیر احمد علوی نے بھی ڈپٹی کلکٹر چھوڑ کر قبل ازوقت وظیفہ لے لیا اور کاکوری میں گوشہ نشین ہو گئے.بقیہ زندگی لگ بھگ بائیس برس،تصنیف و تالیف میں صرف کردی.انکا ذکر یہاں یوں ضروری ہے کے انہوں نے بعض شعراء، انیس ، رند اور مظفر پر بڑامجتہدانہ کم کیااور جہاں تک مجھےعلم ہے امیر مینائی پر پہلی باقاعدہ اور مبسوط کتاب”طرہ امیر “کے نام سے تصنیف فرمائی.اس کتاب میں امیر مینائی کے محاسن شعری اور فنی خصوصیات کا تفصیلی ذکر کیا گیا ہے.یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ حضرت امیر مینائی کے بارے میں جو مصدقہ باتیں تذکروں میں پائی جاتی ہیں انکی بنیاد “طرہ امیر “کے مندرجات پر ہی ہے اس کے علاوہ حضرت امیر مینائی پر مصدقہ معلومات منشی فداعلی عیش کی تحریروں سے حاصل ہوتی ہیں.

منشی فدا علی عیش حضرت امیر مینائی کے ہم عصر اور شناسا تھے ان کا تزکرہ ١٨٦٩ء میں شائع ہوا اس کا نام منشی صاحب نے “مجموعہ داسوخت”رکھا تھا لیکن بعد میں یہ “شعلہ جوالہ” کے نام سے زیادہ مشہور  ہوا.اس کی پہلی جلد حضرت امیر مینائی کے نام سے ہی شروع ہوتی ہے.ان دو کتابوں کی موجودگی میں یہ دیکھ کر تعجب ہوتا ہے کہ امیر مینائی کی تاریخ پیدائش میں کئی جگہ فرق پایا گیا ہے.امیر کے معاصر داغ ،جلال ،تسلیم اور رند تھے ان سب کی زندگی ہی میں امیر مینائی کی تاریخ پیدائش ٢١ فروری ١٨٢٩ء مان لی گئی تھی لیکن پھر بھی بعض حضرات نے سال پیدائش ١٨٢٨ء لکھا ہے امیر احمد علوی کی تحقیق کی روشنی میں فرمان فتح پوری نے بھی قطعیت کے ساتھ یہ تسلیم کیا ہے کہ انتقال کے وقت حضرت امیر مینائی کی عمر ٧١ برس تھی جن حضرات نے اس سے اختلاف کیا ہے انہوں نے ہجری سال کو انگریزی تقویم کے مطابق بنانے میں قدرے تساہلی سے کام لیا ہے.

امیر مینائی نے خود بھی لکھا ہے کہ ان کا سال پیدائش ١٢٢٤ ہجری تھا.انہوں نے اپنے حالات اپنے بڑے بھائی طالب حسین مینائی کی تصنیف “آئینہ ایمان” کے دیپاچے میں تحریر کیے ہیں جس میں انہوں نے فرمایا ہے کہ ١٦٧٤ ہجری میں رام پور میں مفتی عدالت کا عہدہ قبول کرنے سے پہلے وہ تلاش روزگار میں کانپور اور ہمیرپور میں بھی رہے تھے.”طرہ امیر” کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ امیر مینائی کی ایک مختصر سوانح حیات ان کی زندگی ہی میں ان کے ایک شاگرد ممتاز علی آہ نے شائع کی تھی اور ایک شاگرد احسن الله خاں ثاقب نے ان کے خطوط کا  مجموعہ بھی شائع کرایا جو مکاتیب امیر مینائی کے نام سے منظرعام پرآیا.اصل میں یہ مجموعہ پہلے خطوط امیر احمد کے نام سے ١٩١٠ء میں چھپا تھا بعد میں اسکا دوسرا ایڈیشن ١٩٢٤ء میں مکاتیب امیر احمد مینائی کے نام سے نکلا.

امیر مینائی کی شاعری اور ان کے مقبول عام اشعار کی ستائش میں بہت کچھ لکھا گیا ہے لیکن ان کی نثر پر کام نسبتاً بہت کم ہوا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ جب بھی کہیں امیر مینائی کا ذکر چھڑتا ہے تو گفتگو ان کے نعتیہ کلام یا ان کی نامکمّل امیراللغات پر ہونے لگتی ہے انکی دوسری بہت اہم اور پراز معلومات نثری تصانیف نغمہ قدسی، شرح ہدایت السلطان ، سرمۂبصیرت، بہارہند، خیابان آفرینش ،محاورات مصادر اردو وغیرہ سے نہ تو زیادہ ترادب دوست حضراتواقف ہیں اور نہ انکی نثری تصانیف پر توجہ ہی کرتے ہیں حالانکہ نثری تصانیف میں حضرت امیر نے جو تذکرہ یادگار چھوڑا ہے اسکے ذکر کے بغیر امیر مینائی کی ہمہ جہت شخصیت کا بہت ہی اہم پہلو پردۂاخفا میں ہی رہ جاتا ہے.

انتخاب یادگار کی وجہ تالیف امیر مینائی نے یہ لکھی ہے کہ “ایک دیں نواب یوسف علی خاں وائی رام پور کو یہ خیال آیا کہ ایک تزکرہ شعرائے ماضی و حال کا ایسا ہو کے اس سے خاص وائی ریاست کے متوطن و متوسل شاعروں کی مختصر کیفیت سخن گوئی کی حقیقت نقش صفحہ روزگار ہوں “اس بڑے میں واقف کار حضرات کا کہنا ہے کے چونکہ یہ تزکرہ امیر مینائی نے نواب کی فرمائش پر لکھا تھا اس لیے مؤلف کو آزادانہ اظہار خیال کا موقع نہ مل سکا کیونکہ بہت سے معمولی شعراء رام پور کے حالات بھی نواب کی سفارش پر امیر نے اس میں شامل کیے.پہلے شعراء کی تعداد ٤٧ تھی بعد میں یہ بڑھ کر ساڑھے پانچ سو کے قریب ہو گئی.

لطیفہ یہ ہے کہ اس “بھرتی “کے باوجود راز یزدانی رام پوری نے “انتخاب یادگار “پر یہ اعتراض کیا ہے کے حضرت امیر مینائی نے شعرائے رام پور کے ساتھ انصاف نہیں کیا.ان کا کہنا ہے کہ دہلوی دبستان سے متاثر شاعروں کو بھی اہمیت نہیں دی گئی.صرف لکھنؤ کےشعراءکو دل کھول کر داد دی گئی ہے.اس اعتراض کے جواب میں نیاز فتح پوری نے نگار کے ایک مخصوص شمارے میں لکھا ہے کہ ایسی صورت میں جبکہ تذکرے کی ترتیب و اشاعت میں قدم قدم پر نواب دخل اندازی کر رہے تھے اور معمولی معمولی شاعروں کے نام شامل کرا رہے تھے.شعرائے لکھنؤ کو جھنڈے پر چڑھانے کا دعویٰ قطعی غلط ہے.بہر حال یہ تزکرہ ١٨٨٠ء میں پہلی بار شائع ہوا لیکن اسکی اشاعت میں انہیں جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ان کا ذکرامیرمینائی نے اپنے شاگرد اسد اللہ خاں کے نام ایک خط میں یوں کیا ہے.

“میں اپنی تالیف کو اس قابل نہیں سمجھتا ہوں کے ہدیہ احباب کروں علی الخصوص یہ تزکرہ جس میں مجھ کو حالات تاریخی اور انتخاب اشعار میں ایسی مداخلت ہے جیسے قلم کا دست کاتب میں.”      ” فقیر امیر ٢٩ نومبر ١٨٨١ء”

ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں.

“بندہ پرور اس تذکرے میں اگر کچھ محاسنہوں تو اہل ہنر جانیں اور جو اس میں بہ مجبوری قبائح ہیں قرار واقعی ان کو میرا دل جانتا ہے.مگر کیا کروں.مامور تھا ،مجبور تھا.اس کا اشارہ ہے آپ غور سے پڑھیے گا تو سمجھ جائیےگا کہ مؤلف مجبور تھا.”

اس معاملے میں اگر غیر جانبداری سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ ریاست رام پور کے حالات یا وہاں کے شب و روز کے بارے میں بلا کم و کاست کچھ لکھنے کی آزادی تو امیر کو نہ تھی مگر شعراءکے ذکر اور انکے کلام پر تبصرے انہوں نے پوری آزادی سے کیے ہیں یے ضرور ہے کے بہت سے غیر ضروری نام انہیں محض نواب کی سفارش پر تذکره میں شامل کرنا پڑے پھر بھی ان شعراءکے فن اور کلام کے حسن و قبتح پر تبصرے کی آزادی امیر مینائی کو بہر حال حاصل تھی.

جاری ہے

Share

February 3, 2012

ذکرامیرمینائی – حصہ اول

Filed under: ادبیات,کتابیات — ابو عزام @ 3:00 am

قلندرانہ شاعر، مرد متقی حضرت امیر مینائی سے راقم کا پہلا تعارف چوتھی جماعت میں اس وقت ہوا جب ہمارے ہمارے عزیز دوست اور امیر مینائی کے پڑ پوتے مبین احمد مینائی نے  خانوادہ مینائی سے اپنی وابستگی بتلاتے ہوئے کہا کی پی آئی بی کالونی کا مشہور مینا بازار دراصل امیر مینائی کے نام سے موسوم ہے۔ بیس سال گذرنے کے بعد آج بھی اس نجیب الطرفین خاندان سے ہمارے تعلقات تلمیذ قوئ ہیں۔ قیصر تمکین صاحب کی کتاب جس کا تبصرہ پچھلے دنوں شائع کیا، ان میں ایک عدد مضمون امیر مینائی کے بارے میں تھا جو کہ ان کی حیات و خدمات کا بہت خوب احاطہ کرتا ہے۔ اس کے اقتباسات اس بلاگ پر قسط وار شائع کرنے کا ارادہ ہے، امید ہے قاریئن کو پسند آے گا۔ پسندیدگی کی صورت میں محترم قیصر تمکین صاحب کی کتاب ضرور خرید کر علم دوستی کا ثبوت دیں کہ وہ ایسے مضامین سے بھرپور ہے۔

ذکر امیر از قیصر تمکین

ایک ایسے دور میں جب کہ علم وادب کے اطوار و اقدار ہی بدل چکے ہوں ،معجزہ فن کی ترکیب عوامی رابطہ اداروں کی مرہون منت بن چکی ہو اور افکار شائستہ و جمیل کوحیثیت آثار کہنہ و فرسودہ کی دے کرنسیاً منسیا قرار دیا جا چکا ہو،امیرزادگان انگلستان کا یہ اقدام کہ ایک مرد متقی و مجذوب عصر کی برسی منائیں ہر آئینہ داد و ستائش کا مستحق ہے.اظہار تعجب اس تقریب پریوں بھی ضروری ہے کہ حضرت امیر مینائی اپنی قلندرانہ پاکباز حیات واعمال کی بنا پر مجالس ادب کے ان مرکزی دھاروں سے بلکل الگ تھے جہاں ضرورت شعری کا عذر کر کے اخلاقی وشرعی ردا کی دھجیاں اڑانا امر مستحسن خیال کیا جاتا ہے.

عام طور پر یہ مان لیا گیا ہے کہ ادیب وفنکار کا منکرشریعت و شرافت ہونا ایک امر لازمی ہے.گویا اگر کردار میں کجی اور افعال پر از معائب نہ ہوں تو اسے سندفن اور رتبۂ شعر عطا ہی نہ ہو سکےگا.افسوس یہ ہے کہ اس مفروضے کی ترویج میں بڑا ہاتھ ترقی پسندوں کی بے راہ روی کا بھی رہا ہے.ترقی پسند جوانوں کے ایک بڑے حلقے نے سرعام یہ دعوے کیےکہ کوئی شاعر جب تک پینے اور پی کر بہکنے کا قائل نہ ہواسکی رموز شعر سے واقفیت ہی مشکوک رہے گی. امیر احمد مینائی کو یکسر فراموش کر دیے جانے اور ان کی خدمات کو زینت طاق نسیاں بنانے میں بھی یہی وجہ کار فرما رہی ہے کہ وہ متوازن شہری اور ثقہ بزرگ تھے اور ارتکاب انہوں نے کبھی بھی تمیز و تہذیب سے لا پرواہی کا نہیں کیا.اس پر طرہ یہ کہ تعلق ان کا ہمیشہ ہی مذہب کے اعلیٰ معیاروں اور اپنے الله و رسول سے رہا.جن احباب کی نظر میں مذہب.خواہ وہ کوئی مذہب کیوں نہ ہو بیل کے لیے لال رومال لہرانے کی سی کیفیت رکھتا ہووہ کسی ایسے شاعریا ادیب کو کیسے انگیز کر سکتے ہیں جس نے پورا ایک دیوان ہی نعت کا مرتب کر ڈالا ہو اور جو اپنے لیے موءجب افتخارو امتیاز یہی ایک بات سمجھاتا ہوں کہ اسے رحمتہ العالمینّ کی غلامی کا شرف حاصل ہے.امیر احمد مینائی کے اس مخلصانہ  و والہانہ دیوان نعت کے بارے میں حضرت جدامجد مولانامحسن کاکوروی نے فرمایا تھا-

یہ دیواں کیا ہے گویا اک گلستاں ہے ہدایت کا

ثمرہے یا کہ محبوب الٰہیّ کی رسالت کا

جب ١٨٥٧ءمیں فرنگی سازشوں اور سامراجی مظالم کے خلاف بغاوت کے شعلے لکھنؤ میں بھڑک اٹھے تو حضرت امیر مینائی شہر سے آٹھ میل دور مغرب میں اودھ کے مردم خیز قصبے کا کوری میں پناہ گیر ہوئے اور وہاں اپنے ہم عصر اور اس زمانے کے بلند پایاوکیل و مصنف محسن کاکوروی کے مکان پر قیام پذیر ہوئے.اپنے دوست کے اخلاص و مروت اورعشق رسول سے محسن کا کوروی بہت متاثر ہوئے.انہوں نے اپنے نومولود نواسے کا نام بھی امیر احمد رکھا-محسن کا کوروی  کے بیٹے نورالحسن نیر کا کوروی تھے جو ان دنوں ایسی فرہنگ مرتب کرنے میں مصروف تھے جس میں لکھنؤ اور اسکے اطراف و اکناف میں بولی جانے والی اور ہمہ وقت تغیر پذیر اردو زبان کے الفاظ و اصطلاحات جمع کی جا سکیں.اسی کوشش میں انہوں نے اپنی نادر روزگار لغت نوراللغات مرتب فرمائی اور اپنے گھر کو نور اللغات آفس کا نام دیا.یہی دفتر نوراللغات راقم الحروف کا ددھیال تھا.الانہ محسن کے نومولود نواسے امیر احمد اس خاکسار کی دادا تھے.اس طرح راقم اگرچہ براہ راست امیر زادگان میں نہیں ہے مگر پھر بھی ادب  و شعر کے وسیلے سے امیر مینائی مرحوم سے ایک واسطہ تو رکھتا ہی ہے چناں چہ آج کی تقریب اور اس میں شرکت کی سعادت سب سے زیادہ اسے خاکسار کے لیےموجب مسرت ہے. برسبیل تزکرہ ایک غلط فہمی کا ازالہ کرنا اس موقع پر نہ مناسب ہوگا.امیر مینائی علامہ محسن کا کوروی کے ہم عصراورقریبی دوست تھے لیکن تاریخ ادب اردو کے مصنف رام بابو سکسینہ نے لکھا ہے کہ حضرت محسن کا کوروی امیر مینائی کے خورد اور شاگرد تھےیہ غلط فہمی یوں ہوئے کہ وہ مصنف نوراللغات اور محسن کا کوروی کے باپ بیٹے کے رشتے سے نہ واقف تھے (انہیں معلوم نہیں تھا کہ نورالحسن نئیرکا کوروی مصنف نوراللغات اصل میں علامہ محسن کے صاحبزادے تھے .وہ مصنف نوراللغات کو بزرگ سمجھے)والد مرحوم مشیر احمد علوی ناظرکاکوروی نے سکسینہ صاحب کو اس غلطی کی طرف توجہ دلائی.سکسینہ صاحب نے وعدہ کیا کہ وہ کتاب کی بعد کی اشاعتوں میں اس کی تصحیح کر دینگے مگر یہ وعدہ پورا نہ ہو سکا اور اب تک لوگ راقم کے دادا امیر احمد علوی کو علامہ محسن کے نواسے کے بجاۓانکا بتا تصور کرتے ہیں.”افکار”کراچی کی اشاعت میں بھی یہی غلط فہمی حال ہی میں دہرائی گئی اور یہ لکھا گیا کے علامہ محسن راقم الحروف کے پر دادا تھے.

میں نے بہت سی باتیں بچپن میں اپنے بزرگوں سے سنی تھیں جن کی تصدیق یا تردید کا کبھی وقت نہ مل سکا .حال ہی میں میرے ایک استفسار کے جواب میں علامہ نورالحسن نیر کا کوروی کے پوتے مولوی اطہر محسن علوی نے مندرجہ ذیل باتیں بتائیں ان کا ذکر بہت ضروری ہے تاکہ حیات امیر کے سلسلے میں ایک اور بیان بھی ملحوظ خاطر رہے:

       “امیر مینائی ١٦ شعبان ١٢٢٤ ہجری (مطابق ١٨٢٦عیسوی)میں پیدا ہوئے

        ابتدائی تعلیم والد کی سر پرستی میں حاصل کی اس کے بعد علماۓ فرنگی محل

        اور دیگرعلماۓ عصر مثلاً سعدالله(شاگرد مفتی صدر الدین آزردہ)سے تحصیل علم کی.

        شاعری کا مشغلہ اگر تکمیل علم سے پہلے شروع ہو جاۓ تو علوم کے حصول میں

        رکاوٹ پیدا ہوتی ہے.امیر کے والد نے اس کا خیال رکھا.ایک بار امیر اپنے

        والد کے پیرداب رہے تھے والد نے پوچھا کہ تم شاعری بھی کرنے لگے ہو.

        ہم بھی سنیں ہمارا امیر کیسے شعر کہتا ہے.جواب میں امیر نے شرماتے ہوئے بتایا

        کہ بارش نہیں ہو رہی ہے.لوگ پریشان ہیں.موجودہ کیفیت کو میں نے اس طرح نظم

        کیا ہے..

                              “ابر آتا ہے ہر بار برستا نہیں پانی

                              اس غم سےہےیادوسرےاشکوں کی روانی”

شفیق باپ نے بیٹے کی کوششوں کو سراہا لیکن ساتھ میں ہدایت کی کے پہلے علوم متدادلہ سے کماحقہ واقفیت  پیدا کرلیں اس کے بعد شاعری کریں.یہی وجہ ہے کہ امیر احمد مرحوم نے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد شاعری کی طرف توجہ کی.جس ماحول میں تربیت ہوئی اسکا تقاضا تھا کہ وہ ایسا استاد تلاش کرتےجو ان کے مذاق کا ساتھ دیتا چناں چہ مظفرعلی خاں اسیر کا سا استاد ان کو مل گیا جو رکاکت وابتدال سے بلند تھا.اسیر ہی کی وساطت سے ١٨٥٢ء میں امیر کو واجد علی شاہ کے یہاں ملازمت حاصل ہوئی اسی دوران امیر نے ارشاد السلطان اور ہدایت السلطان نامی کتابیں لکھیں ابتدائی کلام کا مجموعہ جس کو بہارستان کے نام سےموسوم کیا تھا ١٨٥٧ء کے ہنگامے میں تلف ہوگیا چناں چہ اس زمانے کا جو رنگ تھا اس کا اندازہ پوری طرح نہیں کیا جا سکتا ہے جو تھوڑا بہت کلام ملتا ہے اس میں اخلاقی مضامین پاۓ جاتے ہیں.مثلاً…

حوصلہ عالی اگر ہو ہر جگہ معراج ہے

دار بھی ہے شاخ سدرہ دیدہ منصور میں

واجدعلی شاہ کی معزولی اور شہر کے ہنگاموں نے دیگر شرفا کی طرح امیر مینائی کو بھی لکھنؤ چھوڑنے پر مجبور کیا.امیر کاکوری چلے گئے جہاں محسن کا کوروی کی صحبت نے امیر کے نعت گوئی کے جذبے کو شہ دی.محسن کے قصیدے،ابیات نعت کی تضمین جو امیر نے کی وہ اسی فیض صحبت کا نتیجہ ہے.امیر مینائی مرحوم نے کاکوری کے کس گھر میں کب تک قیام کیا اسکا تزکرہ کہیں نہیں ملتا ہے.محسن کاکوروی کا جو مکان پھاٹک کے نام قصبے کے محلے باؤلی سے متصل تھا ان کے  پڑپوتے حافظ رضوان علوی نے کھدوادیا اس لیے اب اس کا یا وہاں کے کتب خانے کا کوئی بھی نشان نہیں ہے.احسن الله ثاقب جنہوں نے امیر مرحوم کے خطوط ترتیب دیے تھے انہوں نے بھی اس مسلے پر کوئی روشنی نہیں ڈالی.ثاقب کی اہمیت یہ ہے کہ وہ پہلے محسن کاکوروی کے شاگرد تھے جب ١٨٨٧ءمیں وو رامپور منتقل ہوئے تو حسب فرمائش محسن کاکوروی امیر مینائی کو اپنا کلام دکھانے لگے .

اپنے عارضی قیام لکھنؤ کے دوران ١٨٨٥ء میں امیر مینائی نے ایک جریدہ “دامن گلچیں” کے نام سے نکالا.ابتدائی پرچوں میں ہندوستان کے بہترین شعراءطبع آزمائی کرتے تھے.امیر، داغ، جلال،  ریاض اور شوق وغیرہ نے بھی اس میں اپنا کلام چھپوایا.منشی امیر مینائی کے اصرار پر محسن نے دو تین غزلیں بھیجیں ایک غزل کا مطلع تھا.


غزل کہنے میں ہے تعمیل ارشاد امیر

بعد مدّت آج محسن خامہ فرسائی ہوئی

غالباً اسی شعر کی وجہ سے بعض تزکرہ نگاروں نے جن میں رام بابو سکسینہ بھی شامل ہیں حضرت محسن کا کوروی کو امیر مینائی کا شاگرد بھی لکھ دیا ہے.امیر مینائی کا لکھنؤ میں قیام عارضی ہی رہا اور وہ بقول امیراحمدعلوی چند ماہ بعد رام پور واپس چلے گئے اور “دامن گلچیں” کی کلیاں مرجھا گئیں.

جاری ہے

Share

February 2, 2012

بیگمات کےآنسو از خواجہ حسن نظامی کا مختصر تعارف

Filed under: ادبیات,کتابیات — ابو عزام @ 8:06 am

راقم نے خواجہ حسن نظامی کا مضمون شہزادی کی بپتا نصاب میں پڑھا تھا اور اسکے نقوش آج تک یاداشت پر باقی ہیں۔ کچھ عرصے قبل بیگمات کے آنسوپڑھنے کا موقع ملا تو پوری کتاب ایک ہی نشست میں ختم کر ڈالی۔ اسکا مقدمہ ڈاکٹر عقیلہ جاوید اسسٹنٹ پروفیسر،شعبہ اردو، بہاءالدین زکریا یونیورسٹی نے لکھا ہے اور بہت خوب لکھا ہے۔ تمہید حسن نظامی بھی پڑھنے لائق ہے۔ بس لیکن جو قصے ہیں وہ دکھ بھری داستانیں ہیں جن سے کئی فلموں کے اسکرین پلے بن سکتے ہیں اور یقین ہے کہ بنے بھی ہونگے لیکن چونکہ یہ سب کہی سنی باتیں ہیں لہذا اس کی آزادانہ تحقیق کا بظاہر کوئ وسیلہ نہیں لیکن تاج دہلی کے لٹنے کی اس سے بہتر نوحہ گری ہمارے ناقص مطالعے میں تو نہیں۔ خواجہ صاحب اپنی اس کتاب کی بابت تمہید میں لکھتے ہیں

میں نے دہلی کے غدر ١٨٥٧کی نسبت بارہ حصّوں پر تاریخی واقعات لکھے ہیں جن میں پہلا حصّہ بیگمات کے آنسو بہت ہی زیادہ مقبول ہے. پہلے یہ کتاب چھوٹے سائز پر غدر دہلی کے نام سے شائع ہوئی تھی پھر اس کتاب میں نئے افسانوں کا اضافہ ہوا اور آنسو کی بوندیں نام رکھ کر شائع کیا.پھر اور افسانے بڑھا کر بیگمات کے آنسو نام رکھا گیا. اب تک اس کتاب کے دس ایڈیشن چھپ چکے ہیں. ان مضامین کی نسبت ہندوستان کے اکثر اہل قلم کا خیال ہے کہ یہ میری تحریروں میں سب سے اعلیٰ ہیں اور اردو انشاء پروازی میں ان کہ ایک بڑا درجہ ہے. میرے دوست اور آنریبل مولانا سر سید احمد خان بہادر کے پوتے سید راس مسعود صاحب عرف نواب مسعود جنگ بہادر نے اسی بنا پر کئی سال ہوئے مجھ سے خواہش کی تھی کے میں ان افسانو کا ایک خاص ایڈیشن شائع کروں جسکا کاغذ اور چھپائی اور لکھائی اورجلد بنوئی ایسی عمدہ ہو کہ اسکو لائبریریایڈیشن کہہ سکیں. میں نے اپنے دوست کے کہنے کے موافق اسکا اہتمام کیا ۔

اس کتاب کے مضامین میں بھکاری شہزادہ، شہزادے کا بازار میں گھسٹنا،یتیم شہزادے کی ٹھوکریں،شہزادی کی بپتا،فاقہ میں روزہ،بنت بہادر شاہ،یتیم شہزادے کی عید،دکھیا شہزادی کی کہانی،بیچاری شہزادی کا خاکی چھپر کھٹ،کفنی،جب میں شہزادہ تھا،مرزا مغل کی بیٹی،غدر کی زچہ،غمگین شہزادی،جب ساقی کے ہاتھ میں جام تھا،نرگس نظر کی مصیبت،شہزادہ انساماں،آخر کا بس ایک آنسو،ہندی اور گجراتی،نواب مسعود جنگ بہادر کا شکریہ اور ہر ایک آنسوشامل ہیں۔

اس کتاب کے پڑھنے سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ علامہ اقبال خواجہ صاحب کے بڑے مداح تھے اور انکی صحبت سے فیض پانے کے لیے وہ بار بار الہٰ آباد جاتے تھے اور مسلسل خط و کتابت جاری رکھنے میں بھی سعی بلیغ فرماتے تھے.انھوں نے اپنے دل پر اکبر کی شخصیت اور ان کے کلام کے تاثرکا بار ہا اعتراف کیا اور اپنے اکثر نظریات کو ان کی توجہ اورصحبت کا نتیجہ قرار دیا.علامہ کا کہنا تھا کہ “اکبر کے اسٹائل کی سادگی اور نوکیلے پن کا سراغ ان کی اپنی نظموں کے بعد اگر کسی جگہ تلاش کیا جائے تو وہ خواجہ صاحب کے نثر پاروں میں ہی ملےگا.”

 چوں کہ خواجہ صاحب کے لکھے ہوئے افسانے اور کہانیاں زیادہ تر انقلاب ١٨٥٧ کی بپتا سے متعلق ہیں اس لیے ان میں سوز و گداز کی کیفیت بھی پائی جاتی ہے،اس حوالے سے ان کہ اسلوب ملاحظہ فرمائیں:

“درگاہ حضرت چراغ دہلی کے ایک گوشے میں ایک قبول صورت عورت پھٹا ہوا کمبل اوڑھے رات کے وقت ہائےہائے کر رہی تھی.سردی کہ مہینہ دھواں دھار برس رہا تھا.تیز ہوا کے جھونکوں سے بوچھاڑ اس جگہ کو ترس رہی تھی جہاں اس عورت کہ بستر تھا……..یہ عورت سخت بیمار تھی.پسلی کے درد،بخار اور بے کسی میں اکیلی پڑی تڑپتی تھی..بخار کی بے ہوشی میں اس نے آواز دی. گلبدن. اری او گلبدن!مردار مر گی.جلدی آ اور مجھ کو دوشالہ اوڑھا دے.دیکھ بوچھاڑ اندر آتی ہے. پردے چھوڑ دے،روشنک تو ہی آ .گلبدن تو کہیں غارت ہو گئی.میرے پاس کوئلوں کی انگیٹھی لا.پسلی پر تیل مل.ارے درد،میرا سانس روکا جاتا ہے.”جب کوئی اس آواز پر بھی اس کے پاس نہ آیا تو اس نے کمبل چہرے سے ہٹا اور چاروں طرف دیکھا.اندھیرے لان میں خاک کے بچھونے پر تنہا پڑی تھی.چاروں طرف گھپ اندھیرا چھایا ہوا تھا.مینہ سناٹے سے برس رہا تھا،بجلی چمکتی تھی تو ایک سفید قبر کی جھلک دکھائی دیتی تھی جو اسکے باپ کی تھی.”یہ حالت دیکھ کر اس عورت نے ایک نعرہ مارا اور کہا بابا!میں تمہاری گل بانو ہوں.دیکھو اکیلی ہوں.اٹھو مجھے بخارچڑھ رہا ہے،آہ میری پسلی میں شدّت کا درد ہو رہا ہے،مجھے سردی لگ رہی ہے،میرے پاس اس بوسیدہ کمبل کے سوا اوڑھنے کو کچھ نہیں ہے.میری اماں مجھ سے بچھڑ گئیں.میں محلوں سے جلا وطن ہو گئی.بابا اپنی قبر میں مجھے بلالو.اچھی مجھے ڈر لگتا ہے.کفن سے منھ نکالو اور مجھ کو دیکھو،میں نے برسوں سے کچھ نہیں کھایا.میرے بدن میں اس گیلی زمین کے کنکر چبھتے ہیں.میں اینٹ پر سر رکھے لیٹی ہوں.

“میرا چھپر کھٹ کیا ہوا؟میرا دوشالہ کہاں گیا؟میری سیج کدھر گئی؟ابّا.ابّا.اٹھو جی کب تک سوؤ گے. ہائےدرد.افوہ.سانس کیوں کر لوں؟

مولانا عبدالماجد ریا آبادی کا یہ قول خواجہ صاحب کے لِیےحرف آخر ہے کہ
“ان کا سا البیلا انشاء پرداز اردومیں نہ کوئی ان کے زمانے میں پیدا ہو سکا اور نہ آج تک ہوا ہے.وہ صحیح معنوں میں عوامی انشاء پرواز تھے،ساز سے زیادہ سوز کے مالک.”

Share

January 31, 2012

تنقید کی موت از قیصر تمکین کا تعارف – دوسرا اور آخری حصہ

Filed under: ادبیات,کتابیات — ابو عزام @ 1:49 am

گذشتہ سے پیوستہ

 قیصر تمکین صاحب کی اردو زبان سے دلی محبت اور اسکی شکست و ریخت پر جلنا کڑھنا،  آپکی تحاریر میں متعدد بار دکھائ دیتا ہے۔  اسی زمن میں رطب اللسان ہیں۔

بہرحال یہاں کہنا صرف یہ تھا کہ بیسویں صدی جو ہماری زبان کی ترقی کے امکانات کی صدی تھی جس میں ہم نے بہتر سے بہتر ترقیوں کی خواہش کی تھی، فروعی مسائل میں ایسی الجھی کہ ادب و فن کی ترقی تو کجا خود زبان کا مستقبل ہی معرض بحث میں پڑ گیا.اس پر طرہ یہ کہ انگریزی ذریعہ تعلیم والے اسکولوں کی بھرمار اور لعنت نے مذہبی گھرانوں تک میں اردو کا ذبیحہ کر دیا.ہندوستان میں ہر سرکاری تقریب اور ہر محفل میں ہندی کہ بول بالارہتا ہے ،اسے قوم پرستی اور ملکی افتخار کہ نام دیا جاتا ہے لیکن انگریزی لکھنے اور پڑھنے والے ہندوستان میں ہی زیادہ ہیں.ہندوستان کہ نام ہی انڈیا ہے جو انگریزی ہے اور انگریزوں کہ دیا ہوا ہے.آج کل پورا ایک دبستان علم وادب ہندوستانیوں کہ ایسا ہے جو انگریزی حلقوں میں مساوی سلوک کہ حقدار اور عالمی عزت کہ حمل ہے لیکن وہ لوگ اپنی زبان (ہندی)کی حق تلفی کر کے انگریزی نہیں لکھتے پڑھتے ہیں.ہندوستان کے زیادہ تر ادیب انگریزی میں لکھنے کے باوجود اپنی مادری زبان یا علاقائی زبانوں سے اچھی طرح واقف ہوتے ہیں اس کے بر خلاف پاکستان میں جو طبقہ انگریزی بولنے،لکھنے یا پڑھنے کہ دعویٰ کرتا ہے اس کو اردو تو بہرحال نہیں آتی ہے لیکن انگریزی میں بھی بڑے بڑے صاحب لوگ بلکل صفر ہوتے ہیں.اس صورت حال کے لیے یہ نعرہ بہت بڑی حد تک صحیح ہے کہ پاکستان میں “نہ تو انگریزی آتی ہے اور نہ انگریزی جاتی ہے.”

آجکل اردو ادب کا ایک بڑا مسئلہ بے ادب مصنفین بھی ہیں جو کہ پیسے و تعلقات کے زور پر اپنی کتابیں چھپواتے اور انکاا’لوہا منواتے’  نظر آتے ہیں۔ قیصر تمکین صاحب اسی بارے میں لکھتے ہیں

ہمارے ادب میں (خاص طور پر انگلستان میں)ادب کے آخری پچیس سال کی تاریخ اصل میں اردو زبان کو ختم کرنے یا اس کہ چہرہ بہت ہی شعوری اور مخلصانہ طور پر مسخ کرنے کی کوششوں سے عبارت ہے.ان کوششوں میں تھوڑا حصّہ سمندر پار کے ملکوں میں جا بسنے والوں اور خام قلم کاروں کہ بھی ہے.نچلے طبقے یا پسے ہوئے اور پسماندہ افراد کے گروہ کے گروہ مشاعروں کو سستی تفریح کا ذریعہ بنانے میں منہک رہے ہیں.یہ کوشش کچھ زیادہ قابل تنقیص نہیں ہے کیوںکہ خام قلمکار ہی آگے بڑھ کر معتبر ادیب و شاعر بنتے ہیں.مغرب میں پیسے کی تنگی نہ ہونے کی وجہ سے ہر زید عمر بکر اپنی کتابیں خود چھپوانے لگا ہے.پیسے کوڑی سے مضبوط خضاب آلودہ حضرات نے ہندوستان و پاکستان کے ندیدے اور لالچی مدیران جرائد کو خطیر رقوم بھیج بھیج کر اپنے مشتبہ یا املا و انشا سے بے بہرہ کتب کی اشاعت کے اشتہارات بھی خوب شایع کراۓ(یہ طریقہ اب کچھ کم ہو رہا ہے ).کوکین،بردہ فروشی،غبن اور باقاعدہ ڈاکہ زنی میں ماخوزاداروں کے چلتی رقم قسم کے کامیاب حضرات نے ہوائی جہازوں کے ٹکٹ بھیج کر مستند ناقدین تک سے اپنے بارے میں بقول محمّد طفیل اکیس توپوں کی سلامی والے مضامین لکھائے.بہت سے امیر و رئیس حضرات نے اپنی سادہ و بے نمک تخلیقات کے ایسے ایسے کار چوبی نسخے چھپواۓ کے چغتائی کا مصوردیوان غالب تک ان کے سامنے پھیکا پڑگیا.گویا وہ صدی جو بڑی امنگوں کے ساتھ شروع ہوئی تھی اپنے آخری چوتھائی حصّے میں آ کر ابتدال و زوال کی سرگرمیوں کی داستان بن کر رہ ِگئ.
انہی پچیس برسوں میں برطانیہ میں مقیم اردو دوست آپس میں مربوط ہونے لگے.بازاری طریق فکر کے علاوہ بعض پراسرار وجوہ سے بھی ادیبوں اور شاعروں کی ایک ایسی کھپ دیکھتے ہی دیکھتے جہان فکر پر حاوی ہو گئی جو اپنی ناواقفیت پر مسرور اور لا علمی پر نازاں تھی.اسی زمانے میں شخصی بت پرستی اور ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنانے کی روش عام ہوئی.

اردو ادب کی حالیہ تاریخ مرتب کرنے پر ان الفاظ میں راے زنی کرتے ہیں

مشکل اس وقت یہ ہے کے بیسویں صدی کی ادبی تاریخ مرتب کرنے کے کسی منصوبے پر تا حال کسی ادارے یا یونیورسٹی نے کوئی پیش رفت نہیں کی ہے امریکا اور انگلستان میں اس طرح کا کام ہو رہا ہے اور جلد ہی امریکی اور انگریزی ادب کی جامع تاریخ ہمارے سامنے آ جاۓ گی.اصل میں جس وسیع پیمانے پر محنت کی ضرورت ہے اس طرح کے وسائل ہمارے ادب میں نہیں ہیں.صرف ایک صدی کی ادبی تاریخ مرتب کرنے کے لئے بھی کئی پڑھے لکھ حضرات کا تعاون درکار ہوگا. یہاں پچھلی صدی کے صرف ایسے مسائل پر مختصر روشنی ڈالی جا سکتی ہے جو اب تک برقرار ہیں.پھر بھی اگر ہم لوگ کوئی سیر حاصل تبصرہ کرنا چاہیں تو زیادہ مشکلات نو ہوں گی.ایک جلد آسانی سی تنقیدی مسائل و نگارشات اور فن تنقید پر مرتب کی جا سکتی ہے.اسکے بعد نظم،افسانہ،ناول اور عمرانی مسائل پر علاحدہ علاحدہ دو تین جلدیں مرتب ہو سکتی ہیں.ہاں غزل کے بارے میں ضرور مشکل پیش آے گی کیونکہ  یہاں اتفاق راۓ سے زیادہ اختلافات کی عمل داری ہے۔

رسم الخط کےبارے میں انکی راے نہایت سنجیدہ، مدلل اورراقم کے خیال میں برہان قاطع کا درجہ رکھتی ہے۔ لکھتے ہیں۔

پاکستان میں اردو کی جگہ”اردش” نے قومی زبان کا منصب اختیار کر لیا.دوسری طرف ہندوستان میں فارسی رسم الخط ترک کر کے دیونا گری لپی مسلط کرنے کی کاوشوں میں اچھے کہے الله والوں کی متاع دین و دانش لٹ گئی.اس دور میں رسم الخط کا پرانا مسلہ ایک بار پھر بڑی شدّت سے ابھر کر سامنے آیا.۔۔۔اب رسم الخط کہ سوال بھی خاصا غور طلب ہے.انگریز اردو دوست رالف رسل نے ایک مقالے میں اردو پرستوں کو مشورہ دیا کہ وو دیونا گری رسم الخط اختیار کر لیں.اسکی تائید متعدد حلقوں کی طرف سے کی گئی لیکن ایک بات جس کی طرف توجہ کم دی جاتی ہے وو یہ ہے کے رسم الخط کی تبدیلی سے اردو کا تشخص اور حیثیت عرفی ہی ختم ہو جاۓ گی .زبانوں کہ جزواعظم ان کا رسم الخط ہوتا ہے.اسٹالن کی آمریت کے دور میں مسلم ریاستوں کا تہذیبی تشخص ہر ممکن طریقے پر مٹانے کی کوشش کی گئی اور پہلا اور سب سے موثر کام یہ ہوا کہ وہاں مقامی زبانوں کا رسم الخط مٹا دیا گیا.لیکن اس تبدیلی سے فائدہ کیا ہوا؟کیا واقعی عالمی پیمانے کہ کلاسیکی ادب پیدا ہوا؟

اردو کے بعض حروف مثلاً ،ث،س،ص یا ذ،ز،ظ اور ض صوتی طور پر ایک سے لگتے ہیں لیکن رسم خط کی صراط میں ان سے بلکل ہی دوسرے مختلف المعانی حروف بنتے ہیں.”قائد” کو اگر ہندی یا رومن میں لکھا جائے گا تو پڑھا اسے “کائد” جائے گا.اس طرح الفاظ کہ روپ بدلنے سے پہلے لغت ہی کو بدلنا پڑیگا.”عقل” اور”اکل” کہ فرق سمجھانے کے لیے قاموس میں ترمیم لانی ہوگی جس کے لیے ضرورت پڑیگی کہ ایک پورا لغت بورڈ بٹھایا جائے. مگر جب اصل کوششیں ہی زبان کو مٹانے کی ہو رہی ہوں تو اس “قریب المرگ ” اور کمزور زبان کو بہتری کے لیے لغت بورڈ کیوں اور کہاں مرتب کرایا جا سکتا ہے.ٹوائن بی نے ایک جگہ لکھا ہے کہ کسی قوم کو مجہول بنانے کے لیے ضروری یہ ہے کہ وہاں کتاب خانوں کو آگ لگانے کے بجاۓ زبان کا رسم الخط بدل دیا جاۓ.قوم کا رشتہ خود بخود اپنے ماضی سے کٹ جائیگا.ہندوستان میں یہ تحریک چلی کہ اگر اردو کو دیونا گری لپی میں لکھا جائے تو اس زبان کہ ادب آسمان پر پہنچ جائے گا.لیکن پاکستان میں ایک خاصے با اثر حلقے کی طرف سے یہ آوازیں اٹھنے لگیں کہ اگر اردو والے رومن اسکرپٹ اختیار کر لیں تو ہماری زبان انگریزی اور چینی کو بھی میلوں دور چھوڑ جائے گی.یہ کہنے والے معلوم نہیں یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ یہ کام تو تقریباً اسی برس پہلے ترکی میں ہو چکا ہے لیکن وہاں کے زبان و ادب نے کیا ترقی کرلی ؟

اگر پاکستان کے احباب مصر ہیں کہ ہماری زبان کے لیے رومن اسکرپٹ اختیار کر لیا جائے اور بھرتی بندھو چاہتے ہینن کہ ہم دیونا گری لپی اپنا لیں تو ہمارے سامنے یعنی ایک عام اردو دوست کے لیے مسلہ یہ پیدا ہو جائے گا کہ وہ کس کہ مشورہ قبول کرے.کیا یہ بہترنا ہوگا کہ محبان اردو کی ایک عالمی کانفرنس صرف یہ طے کرنے کے لیے طلب کی جائے کہ ہماری زبان کے لیے کون س رسم الخط بہتر رہے گا.اردو کی بہتری کے بزعم خود خوا ہاں حضرات ہر بات کی ابتدا اس دعوے سے کرتے ہیں کہ اردو ایک کم مایہ اور پسماندہ زبان ہے اور اسے بھرپور اور ترقی یافتہ بنانے کے لیے پہلا قدم یہ ہے کہ اسکا رسم الخط بدل دیا جائے لیکن اردو رسم الخط میں اگر کچھ نقائص ہیں تو وہی عربی و فارسی میں بھی ہیں.اصولی طور پر ان دونوں کہ رسم الخط ہی بدلنا چاہیے.یہ کوشش مشرق وسطیٰ اور ایران میں کیوں نہیں کی جاتی ہے یہ وہ لوگ اپنا رسم الخط مٹانے کے خواہاں نہیں ہیں؟

قیصر تمکین صاحب کی تحریر میں موجودہ اردو کا ایک بڑا ذخیرہ الفاظ ملتا ہے۔ وہ دقیق عربی و فارسی اصطلاحات کے بجاےاردو اصطلاحات پر زور دیتے تھے اور اپنی زبان کو کبھی اردش سے آلودہ نہ ہونے دیتے۔ یہ کتاب اپنے نفس مضمون کی بنا پر تھوڑی مشکل سے پڑھی جاتی ہے لیکن اگر آپ کو اردو تنقید و ادب سے دلچسپی ہو تو اس کا ختم کرنا چنداں مشکل نہیں بلکہ آپ اسے بار بار پڑھیں گے۔  حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

Share

January 25, 2012

تنقید کی موت از قیصر تمکین کا تعارف – حصہ اول

Filed under: ادبیات,کتابیات — ابو عزام @ 9:01 pm

تنقید کی موت محترم قیصر تمکین صاحب کے مضامین کا ایک بیش قیمت مجموعہ ہے جسے راقم کی راے میں اردو نقد و نظر سے سے محبت رکھنے والے ہر قاری کو ضرور پڑھنا چاہیے ۔ صاحب تحریر کی اس کتاب پر نظر اردو کی عالمی کانفرنس کے دوران پڑی اور اس طرح اس نابغہ روزگار شخصیت کی تحریر و تصنیف سے تعارف  ہوا ۔ ان  کے انتقال پرمحترم حیدرآبادی کی یہ تحریر ، مرحوم کی خدمات و حیات کا نہایت عمدہ تذکرہ  ہے۔ قیصر تمکین صاحب کی دیگر کتب میں جنگ ہنسائی،خبرگیر (صحافتی دنیا کی داستان)، سو استکا ، الله کے بندے ، یروشلم یرو شلم ، یاسمین او یاسمین ، ، شعرونظر ، ہماری آواز،واہ، ایک کہانی،گنگا جمنی اور صدی کےموڑپرشامل ہیں۔

 تقریبا ۱۵۰ صفحات کی اس کتاب میں انکے بارہ عدد مضامین شامل ہیں  ۔ گذشتہ دہای کے اردو ادب کے منظر نامے سے آگاہی کے  لیے ان کا مطالعہ بے حد مفید ہے۔ ان میں بیسویں صدی کے رجحانات ، روۓادب،سوۓادب، تنقید کی موت، مغربی ادیب اور ہم، غزل کے امکانات، انہدام نظر، تہذیب عالی کا شوشہ کس لیے؟، ذکرامیر،جوش کی بد قسمتی،قاسمی  صاحب،ایک اعتراف،ایک ہدیہ عقیدت اور مجموعہ کلام یا استفہامیہ  شامل ہیں۔ قیصر تمکین صاحب ایک ہمہ جہت شخصیت تھے اور انکی تنقیدی نگاہ میں، روف پاریکھ صاحب کی طرح مغربی مفکرین کے لیے بھی وہی پیمانے ہیں جن سے وہ اپنے ہم عصر اردو لکھنے والوں کو پرکھتے تھے۔ وسیع المطالعہ تھے، ایک موقع پر لکھتے ہیں “ایلیٹ اور دوستوئیفسکی کا مطالعہ کرنے والے بہت ہی اچھے اور پڑھے لکھے لوگ بھی جیسے یہ مان چکے ہیں کہ وہ کوئی ماوراۓ تنقید نابغہ روزگار ہوں۔ ایلیٹ صاحب بڑے صاحب فکر شاعر اور ادیب و نقاد تھے.ان کی ادبی عظمت کا ہمہ وقت ذکر کرنے والے اردو داں حضرات کے لیےکیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ وہ ان حضرت کی مشرقی لندن کے غنڈوں اور نسل پرستوں جیسی زبان سے بھی اپنی واقفیت کا اظہار کریں کہ نسل انسانی ایک بڑے حصّے یہودیوں کو سب ہیومن  نیم وحشی اور  جیو ریٹ قرار دینے کا آفاقی معیار اردو تو کیا مشرق کے کسی بھی ادیب حتیٰ کہ ہندی کے نوفسطائی ادیبوں کے یہاں بھی نہ ملے گا “۔

قیصر صاحب انسانیت کے علمبردار تھے،  مزید فرماتے ہیں

.١٩٣٠ میں حضرت قبلہ ادب جناب ٹی ایس ایلیٹ صاحب نے تحریر فرمایا کہ یہودی تو چوہوں سے بھی گئے گزرے ہیں. ممکن ہے کہ ایسا لکھتے وقت ان کا ذہن نہ پختہ ہو مگر بعد کی عمر میں جب وہ نوبل انعام سے نوازے جا چکے تھے تب تو اپنی اس فسطائیت پر شرمندگی کا اظہار کر سکتے تھے.اپنی نسل پرستی پر مبنی تصنیفات کو رد کر سکتے تھے مگر ہمارے علم میں تو انکا کوئی ایسا جملہ یا تحریر موجود نہیں ہے جس میں اس سامراجی انداز نظر پر اظہار معذرت کیا گیا ہو.

انہوں نے ہمیشہ عمومی رجحانات پر تنقیدی نظر رکھی اور دریا کی روانی میں بہنے کو اپنی شان کے سوا سمجھا ، اسی زمن میں لکھتے ہیں

ہمارے بزرگوں میں جو سارے کے سارے دوسری جنگ عظیم کے کی پیداوار تھے.ایلیٹ کی ایک نظم ‘ویسٹ لینڈ’ کے بڑے چرچے تھے.ہم سمجھے کے اب یہ آکاش وانی ذرا دھیمی ہو گئی ہےاور قرت العینی جذباتی رومانیت(موصوفہ کے ایک ناول کی ابتدا ہی آیات ایلیٹ سا ہوتی ہے )کے زوال کے ساتھ ہی وہ دور “چیونگ گمی”بھی ختم ہو چکا ہے مگر حال ہی میں بی بی سی کی عالمی سروس کے دفاتر وقع بش ہاوس میں بعض ایسے بھی موحققین اردو ملے جوآج بھی ایلیٹ اوردوستوئیفسکی کا اسے طرح حوالہ دیتے ہیں جیسے اسٹوڈنٹس فیڈریشن ۔۔۔کی رکنیت کے زمانے میں کامریڈفلاں اورکامریڈفلاں لینن اور اسٹالین کے حوالہ جات سے ہم کو بہرہ ور فرماتے تھے. بہرحال ہم نے دوران گفتگو کئی باتوں کی طرف اشارہ کیا اوردوستوئیفسکی کی ضمن میں کہا کہ اس کے کرداروں کی فکری نراجیت ذہنی تشنج اور مذہبی عصبیت میں دراصل خود اسکی زندگی کے ایک نمایاں پہلو کی عکاسی ملتی ہے

انہیں بت شکنی بہت عزیز ہے اور وہ کسی بھی ادیب کو تنقید و تبصرے سے بالا نہیں سمجھتے۔ ایلیٹ کے بارے میں لکھتے ہیں

بہت سے لوگوں نے ایلیٹ کے فکرو فن پر تحسین محض ہی نہیں بلکہ منصفی و دیانت کے پہلوؤں سے بھی سوچ بچار کیا لیکن اردو میں جن حضرات نے ٹی ایس ایلیٹ کو پڑھا انہوں نے اسکو فکر و فن اور ادب کا مینارہ روشنی من کر اسکی ہاں میں ہاں ملانا باعث افتخار سمجھا اور اب تو یہ حال ہے کہ اردو کے ادبی حلقوں میں غالباً کوئی ایسا صاحب فکر ہے ہی نہیں جو یہ سوچ سکے کہ ٹی ایس ایلیٹ بھی ایک خاکی انسان تھا.ایک ایسا انسان جس کے بارے میں ام الکتاب کا ارشاد ہے کہ وہ مجموعہ خطا و نسیان ہوتا ہے اور جس کی کہاوتوں کے بارے میں دورائیں بھی ہو سکتی ہیں.

ان کی یہی راے ادب کی عمومی حیثیت اور ہماری غلامانہ ذہنیت پر بھی ہے۔ تنقید کی موت میں انگریزی ادب کے بارے میں لکھتے ہیں

ایک قبل لحاظ امر یہ ہے کہ ہندو پاکستان کی تمام جامعات میں انگریزی ادب خوب دھوم دھام سے پڑھایا جاتا ہے اور اس ادب کو کچھ اس طرح منزہ و طاہر اور ماوراۓ تنقید سمجھا جاتا ہے جیسے کوئی الہامی درجہ رکھتا ہو ہماری جامعات میں مغربی ادب کی خوبیاں ہمہ وقت معرض بحث رہتی ہیں

دانتے کے انفرنو کو مشق ستم بناتے ہوئے بجا طور پر کہتے ہیں

تقریبا ننانوے فیصدی کی حد تک اساتذہ و طلبا دانتے کی جہنم کے ناپاک ترین اور مکروہ ترین حصّوں سے یا تو ناواقف رہتے ہیں یا دیدہ دانستہ نا واقف رہنا مناسب سمجھتے ہیں.اطالوی ادب سے براہ راست واقفیت کے باوجود عزیز احمد جیسے صاحب شعور ادیب نے بھی دانتے کی صرف خوبیاں ہی گنائیں.انہو نے اسکے ذاتی تعصبات کا ذکر نہ کیا جنت کے آخری اور اعلیٰ ترین حصہ پر پہنچ کر شاعر نے جب بیانرچے کو دیکھا توکیا سوال کیا؟اس سوال کی توضیح و تشریح کلیسائی ادب نے کن کن پہلوؤں سے کی ہے؟کیا یہ فرض کرنا واقعی جائز بھی ہو سکتا ہے کہ عزیز احمد جیسا صاحب علم و شعور ان تشریحات سے بے خبر تھا!

وہ مغربی ادب کے مخالف نہیں لیکن وہ چاہتے ہیں کہ اس کو پڑھنے والے مغربی ادب و فکر سے آگہی حاصل کریں نا کہ اسے کوی مقدس صحیفہ گردانا شروع کردیں۔ اس زمن میں کہتے ہیں

مغربی ادب و فکر سے متاثر ہونے والے زیادہ تر ایسے اصحاب ہوتے تھے جن کا مقصد پیروی مغرب نہیں بلکه مغربی ادب و فکر سے آگہی حاصل کرنا ہوتا تھا.بہت سے حضرات اس لیے مغرب کا مطالعہ کرتے تھے کہ اس سے متاثر ہو کر اسکے مثبت و جاندار پہلوؤں سے متمتع ہو کر اپنے ادب میں بھی نئی نئی راہیں نکالیں.یہ جذبہ کسی طرح بھی قابل اعتراض نہیں ٹھرایا جا سکتا ہے مگر پھر بھی یہی حضرات صرف مغرب ہی میں پھنس کر کیوں رہ جاتے ہیں اور اپنے شعور و فکر سے کام لے کر مغربی افکار کے منفی و گمراہ کن رجحانات پر نظر کیوں نہیں ڈالتے؟

جاری ہے۔

Share

January 24, 2012

قرارداد سال نو – ۵۲ ہفتوں میں ۵۲ کتابیں

Filed under: ادبیات,عمومیات,کتابیات — ابو عزام @ 12:13 pm

تو جناب قصہ کچھ یوں ہے کہ ۵۲ ہفتوں میں ۵۲ کتابوں کی تحریک سے متاثر ہوکر ہم نے بھی اپنے نئے سال کی قراردادوں میں یہ بات شامل کی کہ ہر ہفتے ایک عدد کتاب ختم کی جائے۔ ان کتابوں کا انتخاب مشکل امر ٹہرا۔ اس سلسلے میں ہم نے مختلف بہترین کتب کی فہرستوں، اپنے کتب خانے، ذاتی پسند، دوستوں اور دیگر زرائع سے مدد لی اور کتب کی مندرجہ زیل فہرست مرتب کی ہے۔ ان میں سے کچھ کتابیں پہلے پڑھ چکا ہوں لیکن دوبارہ پڑھنے کی خواہش ہے۔ سپر فریکنامکس ختم کر کر اب مبارک حیدر صاحب کی کتاب شروع کر دی ہے لہذا متعین اہداف کا حصول ابھی تک تو بفضل تعالی زیادہ مشکل نہیں لگ رہا۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔
نصابی کتابوں، بلاگز، تکنیکی کتب، پاڈ کاسٹوں وغیرہ کے درمیان اچھی نان فکشن و فکشن کو پڑھنے کا موقع نہیں ملتا۔ ۵۲ ہفتوں کا یہ نظم اسی بات کی کوشش ہے کہ ہدف متعین کر کر اگر کام جائے تو کامیابی کا امکان زیادہ ہے۔ مندرجہ ذیل فہرست حتمی نہیں لہذا اس کے بارے میں اپنی رائے سے آگاہ کریں اور اگر آپ کی سفارشی کتاب زیادہ اچھی ہوئی تو اس کو اس فہرست میں شامل کیا جاسکتا ہے۔
🙂

Week

Title

Author

1/1/2012

تنقید کی موت

Qaiser Tamkeen

1/8/2012

Case of Exploding Mangoes

Mohammad Hanif

1/15/2012

Superfreaknomics

 Steven D. Levitt and
Stephen J. Dubner

1/22/2012

مغالطے، مبالغے

Mubarak Haider

1/29/2012

Ender’s Game

Orson Scott Card

2/5/2012

Pragmatic thinking and
learning

Andrew Hunt

2/12/2012

فصوص الحکم

Ibn-Al-Arabi

2/19/2012

A History of God: The 4,000-Year
Quest of Judaism, Christianity and Islam

Karen Armstrong

2/26/2012

And then there were none

Agatha Christie

3/4/2012

Our Lady of Alice Bhatti

Mohammad Hanif

3/11/2012

The Selfish Gene

Richard Dawkins

3/18/2012

Torah – Old Testament

3/25/2012

Lord of the flies

William Golding

4/1/2012

دنیا کی سو عظیم کتابیں

Sattar Tahir

4/8/2012

Think and Grow Rich

Napoleon Hill

4/15/2012

The Catcher in the Rye

J. D. Salinger

4/22/2012

New Testament

4/29/2012

No god but God: The Origins,
Evolution, and Future of Islam

Reza Aslan

5/6/2012

کلیات عصمت چغتای

Ismat Chugtai

5/13/2012

The Clash of Fundamentalisms:
Crusades, Jihads and Modernity

Tariq Ali

5/20/2012


تهافت التهافت: نقض كتاب الإمام الغزالي المسمى “تهافت الفلاسفة”. من أشهر كتبه

Ibn-e-Rushd

5/27/2012

شہاب نامہ

Qudratullah Shahab

6/3/2012

The Hunger Games

Suzanne Collins

6/10/2012

Anna Karenina

Leo Tolstoy

6/17/2012

بوستان سعدی

Sa’di

6/24/2012

Lolita

Vladimir Nabokov

7/1/2012

مجموعہ مشتاق احمد یوسفی

Mushtaq Ahmed Yusfi

7/8/2012

The Brothers Karamazov

Fyodor Dostoyevsky

7/15/2012

Tafheem-ul-Quran 1

Syed Abul Ala Maududi

7/22/2012

Tafheem-ul-Quran 2

Syed Abul Ala Maududi

7/29/2012

Tafheem-ul-Quran 3

Syed Abul Ala Maududi

8/5/2012

Tafheem-ul-Quran 4

Syed Abul Ala Maududi

8/12/2012

Tafheem-ul-Quran 5

Syed Abul Ala Maududi

8/19/2012

Tafheem-ul-Quran 6

Syed Abul Ala Maududi

8/26/2012

The Castle

Franz Kafka

9/2/2012

On Intelligence

Jeff Hawkins

9/9/2012

The Adventures of Huckleberry
Finn

Mark Twain

9/16/2012

اسلامی ریاست

Dr. Hameedullah

9/23/2012

The Stand

Stephen King

9/30/2012

Angela’s Ashes

Frank McCourt

10/7/2012

Catch-22

Joseph Heller

10/14/2012

Madame Bovary

Gustave Flaubert

10/21/2012

The Diary of Anne Frank

Anne Frank

10/28/2012

The Stories of Anton
Chekhov

Anton Chekhov

11/4/2012

Das Capital

Karl Marx

11/11/2012

The Great Gatsby

F. Scott Fitzgerald

11/18/2012

Love in the Time of
Cholera

Gabriel Garcia Marquez

11/25/2012

The Picture of Dorian
Gray

Oscar Wilde

12/2/2012

A tale of two cities

Charles Dickens

12/9/2012

Linchpin

Seth Godin

12/16/2012

جنٹلمین بسم اللہ

Ashfaq Hussain

12/23/2012

The Art of War

Sun Tzu

 

Share
« Newer Posts

Powered by WordPress