فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

May 6, 2012

!اسما محفوظ، تیری جرات کو سلام

Filed under: سیاست,مشاہدات — ابو عزام @ 7:51 am

اگر آپ اپنے ملک میں ہونے والی تحریک آزادی کے ایک سرگرم  ثقہ کارکن ہوں، امریکہ میں موجود ہوں اور آپکی اپنی فوجی حکومت آپکے لیے گرفتاری کا پروانہ جاری کردے تو آپ کیا کریں گے؟ سیاسی پناہ کی درخواست یا پھر ممکنہ قیدوبند میں واپسی؟ ہم میں سے بہت سوں کے لیے یہ سوال ایک نو برینر کی حیثیت رکھتا ہے لیکن اسما محفوظ کے  لیے نہیں، وہ اپنے مقرر کردہ وقت پر مصر واپس لوٹ رہی ہیں۔ فراعنہ کی سرزمین میں جرات موسی رکھنے والی زینب الغزالیوں کی منزل مکمل آزادی یا موت ہے۔

کل رات مصر کی تحریک حریت کی اس کارکن اور ہیرو کو اکنا کے ایک عشائیے میں سننے کا اتفاق ہوا۔ یہ عشائیہ واے اسلام نامی دعوتی تنظیم کی جانب سے منعقد کیا گیا تھا جو ریاستہاے متحدہ امریکہ میں دین کی دعوت کا کام کرتی ہے اور راقم کو اس سے تعلق کا شرف حاصل ہے۔ بیس منٹ کی ایک تقریر میں بہن اسما نے مصر کی تحریک آزادی، تحریر اسکوائر کے مناظر اور نوجوانان کے کردار کو اسقدر پر اثر طریقے سے بیان کیا کہ سامعین کی آنکھیں تر ہوگئیں، انکا کہنا تھا کہ انہیں تو مغربی میڈیا کی بدولت لوگ جانتے ہیں لیکن وہاں قید وبند میں  ہزاروں ایسے  کارکنان ہیں جنہوں نے اپنے ہاتھ، آنکھیں اور دیگر اعضا کھو دیے ہیں، سینکڑوں نے اپنی جانیں جان آفرین کے سپرد کردیں اور ان کا نام بھی کسی کو معلوم نہیں، لیکن کوئ بات نہیں کیونکہ اللہ تعالی کو ان کا نام معلوم ہے اور یہی سب سے اہم بات ہے۔

جرات اور استقامت کے اس زندہ نشان نے جب یہ آیت پڑھی کہ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ, خدا اس قوم کی حالت تب تک نہیں بدلتا جب تک وہ اپنی حالت خود نہیں بدلتی تو بے ساختہ اپنے وطن کی یاد آگئی۔ اسما محفوظ کی بنیادی وجہ شہرت انکی یہ ویڈیو ہے جو انہوں نے جنوری ۲۰۱۱ میں یوٹیوب پر پوسٹ کی تھی۔مصری خاتون صحافی منى الطحاوى کے مطابق اس ویڈیو نے مصری انقلاب کے شعلے کو مہمیز دی اور اکثر مبصرین کے مطابق یہ تحریک انقلاب کی وجہ بنی۔ اس مختصر پیغام اور بعد کی تقاریر میں اسما محفوظ کہتی ہیں کہ

میں یہ ویڈیو آپ کو ایک سادہ سا پیغام دینے کے لئے بنا رہی ہوں، ہم 25 جنوری کو تحریر اسکوائر جارہے ہیں۔ اگر ہم اب بھی غیرت کے نام پرزندہ رہنا چاہتے ہیں، اور ہم اس زمین پر وقارمیں جینا چاہتے ہیں تو ہمیں 25 جنوری کو تحریر اسکوائر جانا ہے … جو شخص یہ کہتا ہے کہ اسکا کوئ فائدہ نہیں کیونکہ وہاں بہت تھوڑے سے اور مٹھی بھر ہی لوگ ہونگے وہ جان لے کہ وہ انتظامیہ سے قطعی مختلف نہیں۔  اس جیسے غداروں کی وجہ سے ہی سیکیورٹی فورسز ہمیں گلیوں اور سڑکوں پر دوڑا کر مارتی ہے۔  آپ ۲۵ جنوری کو ضرور چلیں،  اگر آپ خواتین کے عزت و وقار کے بارے میں فکرمند ہیں تو آئیں اور تحریر اسکوائر میں اسکا دفاع کریں۔

اسما محفوظ نے اپنی تقریر میں کہا کہ انکو اس بات کی فکر ہے کہ مسلمان اور اقوام عالم اب مسلسل قتل عام اور ظلم و ستم دیکھ کر بے حس ہوتے چلے  ہیں،اور جو جوش و جذبہ مصر و لیبیا میں نظر آیا اب وہ شام میں نظر نہیں آتا جہاں پر روزانہ ایک جابر حکمران اپنے عوام پر جبر واستبداد کے پہاڑ توڑ رہا ہے، مصر کی موجودہ صورتحال پر ایک سوال کا جواب دیتے ہوے انہوں نے کہا کہ ابھی وہ منزل جس کے لیے قربانیاں دی گئ ہیں وہ دور ہے۔ فوجی حکمرانوں نے ایمرجنسی قوانین کو دوبارہ لاگو کرنے کی سعی شروع کر رکھی ہے اور مجلس العسکری کی سیاست سے علیہدگی ضروری ہے۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ جرات و صداقت کی علمبردار ، تحریک حریت کی اس سپاہی اور تمام لوگ جو ظالم حکمران کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں ان کو اپنی حفظ و امان میں رکھے، آمین۔

Share

May 2, 2012

دو نظریاتی ریاستیں

Filed under: پاکستان,سیاست,عمومیات,مشاہدات — ابو عزام @ 4:00 am

سنہ ۱۹۴۷/۴۸ میں دو عدد نظریاتی ریاستی معرض وجود میں آئ تھیں جن کی بنا قومیتوں کی مذہبی بنیاد پر تقسیم تھی۔

نظریے پر عمل کتنا ہوا، اس کا اندازہ ان دو سرخیوں سے ہوجاتا ہے۔

سابق اسرائلی صدر موسے کاستو کو عدلیہ نے سات سال قید کی سزا سنا دی۔

پاکستان کی سپریم کورٹ نے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو قومی مصالحتی آرڈینینس یعنی این آر او پر عملدرآمد سے متعلق مقدمے میں عدالتی فیصلے پر عمل نہ کرنے اور توہین عدالت کا مرتکب ہونے  پر ایک منٹ کی سزا سنا دی ہے۔

جرائم کی نوعیت نہایت مختلف سہی لیکن اینکڈوٹ اچھی بنی ہے۔

Share

April 30, 2012

گریجویٹ اسکول کے طلبہ کی کہانی، ایک فلم کی زبانی

Filed under: طنزومزاح,عمومیات,مشاہدات — ابو عزام @ 8:00 pm

پروفیسر صاحب رحم کریں، اگر میرا پی ایچ ڈی مکمل نہیں ہوا تو میں کیا کروں گا، میرے پاس تو کوئ بیک اپ پلان بھی نہیں
میاں، یہ تو تمہیں کیلٹیک میں داخلے سے قبل سوچنا چاہیے تھا، کسی چھوٹی موٹی یونیورسٹی میں چلے جاتے اگر یہ بات تھی تو، ایم آئ ٹی تھی نا۔

یہ مکالمہ پی ایچ ڈی مووی کا ہے جو پروفیسر اسمتھ اور اسکے شاگرد ونسٹن کے درمیان ہوتا ہے۔ اگر آپ کو تکنیکی کامکس کا شغف ہے تو ڈلبرٹ، ایکس کے سی ڈی اور پی ایچ ڈی کامکس سے ضرور واقفیت ہوگی۔ پی ایچ ڈی کامکس تحقیقی اسکول کے طلبہ کی زندگی پر مبنی واقعات کو طنزیہ انداز میں پیش کرتے ہیں۔پایلڈ ہائ اینڈ ڈیپر کے خالق ہورہے چام*، جو خود اسٹانفرڈ ہونیورسٹی سے میکینکل انجینئرنگ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھتے ہیں ، انہوں نے اس بار کامک سے بڑھ کرتقریبا ۷۰ منٹ کی ایک فلم بنا ڈالی جس کے تمام اداکار طلبہ و طالبات ہیں اور اس کی فلم سازی کالٹیک یونیورسٹی ہی میں کی گئی ہے۔

 

دو گریجویٹ طالبعلموں کی زندگی پر مبنی یہ فلم گریجویٹ اسکول کے تحقیقی کام، پروفیسروں کی بے اعتنائ اور پوسٹ ڈاکس کی زندگی کے گرد گھومتی ہے۔چونکہ راقم کیلٹیک کے آس پڑوس میں وقت گزارنے اور وہاں موجود ستار بخش پر راشد بھائ کے ساتھ گپیں لگانے میں ید طولی رکھتا ہے لہذا ہمیں تو اس کے تمام آوٹ ڈور سیٹس کو دیکھ کر بڑا مزا آیا۔ اس فلم کے مخصوص طرز بیاں اور موضوع کی بنیاد پر شائد عام افراد تو اتنا لطف نا اٹھا سکیں لیکن اگر آپ نے گریجوٹ اسکول یعنی ماسٹرز اور پی  ایچ ڈی میں وقت گذارا ہے تو آپ اس سے بھرپور انداز میں حظ اٹھا سکیں گے۔

*جی ہاں، اسے ہورہے ہی پڑھا جاتا ہے، جورج نہیں۔یہ ہسپانوی زبان کے لفط ج کا تلفظ ہ سے کیا جاتا ہے، جیسے سان ہوزے درست ہے اور سان جوز غلط۔

Share

April 23, 2012

لاس اینجلس کتب میلے کی ایک تصویری روداد

Filed under: ادبیات,سفر وسیلہ ظفر,کتابیات — ابو عزام @ 10:52 pm

 ہر سال کی طرح اس سال بھی لاس اینجلس ٹایمز اخبار کی طرف سے دو روزہ کتب میلے کا انعقاد کیا گیا۔ اس سال یہ کتب میلہ یو سی ایل اے کے بجاے یو ایس سی یعنی یونیورسٹی آف سا تھرن  کیلیفورنیا میں منعقد ہوا جہاں  اس میں ہزاروں افراد اور کتب فروشوں نے شرکت کی۔ اس اینجلس ٹائمز فیسٹیول 1996 ء میں شروع ہوا اور امریکہ میں ہونے والا سب سے بڑا کتب میلا  بن گیا جہاں یہ تہوار  ہر سال 140،000سے زیادہ کتابوں سے محبت کرنے والوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔

 ہر سال کی طرح اس دفعہ بھی کتابوں کی محبت ہمیں بھی کشاں کشاں کھینچ لے گئی۔ یہاں تکنیکی کتب تو خیر کم ہی تھیں لیکن دیگر موضوعات پر ہزاروں کتب اور کتب فروشگاں  موجود تھے۔اسکے علاوہ بہت سے مشہور مصنفین بھی اس تہوار میں موجود تھے،

بچوں کے لئے خوب انتظام تھا اور  بچوں کے لئے کتابیں لکھنے والے بھی بہت موجود تھے جو بچوں کو کہانیاں سنا رہے تھے اور داد وصول کر رہے تھے۔انہی کہانیاں سنانے والوں اور کتابوں پر دستخط کرنے والوں میں کریم عبدالجبار بھی شامل تھے۔

اتنا بڑا میلا ہو اور آئ فون کی ایپ نا ہو، یہ کیسے ہو سکتا ہے!

ایپ کے علاوہ بھی جگہ جگہ جدول اور مصنفین کی آمد و کتابوں کی دستخط کا نظام الوقات ٓآویزاں تھا۔

نیے مصنفین نے لیئے سیکھنے کی ورکشاپ کا بھی انتظام کیا گیا تھا

 

 ایک  جانب مشاعرہ بھی گرم تھا اور ایک شاعر صاحب اپنے شعروں پر دادوں کے ڈونگرے وصول کر رہے تھے!

ایک جانب یو ایس سی کے طلبہ اپنے اساتذہ کی کتابیں اس دعوے کے ساتھ بیچ رہے تھے کہ ان کو پڑھ کر آپ بھی ایسے جہاز بنانے شروع کردیں گے!

گروچو کا یہ قول سچ بات ہے ہمیں تو بہت پسند آیا!

پیسیفیکا ریڈیو جس کا قبلہ بائیں بازو کے بھی بائیں جانب ہوتا ہے  وہاں سے براہ راست نشریات کر رہا تھا۔

۔ہر سال کی طرح اس سال بھی دعوت کی تنظیم  واے اسلام کی جانب سے اسٹال لگاے گے تھے ، ان میں ہر سال چار سے پانچ ہزار قران کی کاپیاں تقسیم کی جاتی ہیں۔ اس سال کی خاص بات یہاں موقع پر ایک فرد کا قبول اسلام ہے ۔۔

 کتابوں کے جھرمٹ میں ایک یادگار دن

Share

April 13, 2012

محرمات اور انسانی قوانین- اسفل السافلین

Filed under: خبریں,مذہب,مشاہدات — ابو عزام @ 10:33 am

بی بی سی پر یہ عبرت انگیز خبر پڑھی، کہ نکاح محرمات کے بنیادی ‘انسانی حق آزادی’ کو یورپی عدالت نے تسلیم کرنے سے انکار کردی,، اگر یہی نفرین فعل چار سو میل دور بیلجیم یا فرانس میں ہوتا تو قابل مواخذہ نا ٹہرتا، کیا بات ہے انسانی قوانین آزادی کی۔

 لیکن قوانین جمہور و لبرلزم کے علمبردار یہ بتائن کہ اگر انسان کو قانون سازی کا مطلق حق حاصل ہے تو اس امر قبیح میں برائ ہی کیا ہے؟ جب لوگوں کو ہمجنس پرستی پرعائد پابندیاں زہر لگتی ہیں اور وہ اسے مملکت خداداد میں جاری و ساری دیکھنا چاہتے ہیں تو نکاح محرمات بھی تو صرف ایک معاشرتی ٹابو ہی ہے، اس کو بھی روند ڈالیے ۔ رہی بات پیدائشی موروثی نقائص کی تو پھر یوجینکس میں کیا برائ تھی، اس کو بھی جاری و ساری رکھا جاتا۔ تعدد ازواج کی مغربی پابندی بھی تو ایک معاشرتی قدغن ہی ہے، اسکا کیا جواز بنتا ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ لبرلیت و نام نہاد روشن خیالی کے علمبردار لوگ جو ‘رضامند عاقل و بالغ’ افراد کے افعال پر کسی قسم کی بیرونی قدغن نہیں پسند  کرتے انہیں کم از کم اصولی طور پر پر تو ان پیٹرک سٹیوبنگ اور سوزان کارولسکی کے حق میں آواز بلند کرنی چاہیے۔ یہ کیا دہری پالیسی ہے حیات من النزاعات کی کہ انسانی عقل کل ہے بھی اور نہیں بھی۔ موروثی نقائص کا مسئلہ ہے تو قطع القناة  یا نسبندی اور إستئصال الرحم کے بعد تو اس میں کوئ کجی نہیں رہ جاتی، العیاذ باللہ

غرضیکہ جو لوگ خدائ احکام کے بجاے انسانی قوانین کو بنیادی معاشرتی اقدار کے لیے هیئت حاکمیه کا درجہ دیتے ہیں وہ ایک ایسی ٹیڑھی شاہراہ پر سفر کرتے ہیں جس کا انجام گمراہی کا گڑھا ہے جہاں کسی فوٹون کی توانائ کچھ کام نا آئے گی۔

قال سمع النبي صلی الله عليه وسلم رجلا يعظ أخاه في الحيا فقال إن الحيا شعبة من الإيمان

Share

April 9, 2012

ڈاکٹر شیلڈن کوپر کا اردو بلاگران کے نام ایک تعارفی خط

Filed under: طنزومزاح,عمومیات — ابو عزام @ 11:36 pm

عزیزاردو بلاگران، ہیلو

آپ کا شائد مجھ سے غائبانہ تعارف ہو کہ مجھے یہ بتایا گیا ہے کہ آپ میں سے بہت میرے فن کے قدردان ہیں۔ چونکہ عاجزی و تواضع سے میں کچھ متصف نہیں لہذا شکریہ وغیرہ کے تکلفات سے بندے کو  یکسرآزاد سمجھیں۔ آپ کو یقینا میری اردو پر حیرت ہورہی ہوگی۔ یہ دراصل میرے کوانٹم الگارتھم اور گوگل ترجمہ گھر کا امتزاج ہے جو ابھی یو ایس سی کے ہیرہ کمپیوٹر پر پروٹوٹایپ کے طور پر چلایا جارہا ہے۔ آپ کی مجھ سے غائبانہ آشنائ غالبا میری زندگی پر بننے والی سیریز بگ بینگ تھیوری سے ہوئ ہوگی جس میں میرے تین عدد دوستوں لینرڈ ہافسٹیڈر پی ایچ ڈی، راجیش کوتراپالی پی ایچ ڈی اور ہاورڈ ولوٹز محض ماسٹرز, اور میری سماجی و نجی زندگی کی ریکارڈنگ کی جاتی ہے۔ لوگ اس سے خاصہ حظ اٹھاتے ہیں، نامعلوم کیوں؟ ہماری زندگی کیلٹیک یونیورسٹی میں ہماری تحقیق اور کامک بک اسٹور کی تفریح کے گرد گھومتی ہے۔

۔ اس خط کو لکھنے کی ترغیب عدنان مسعود نامی ایک بلاگر نے اس نسبت سے دلوائ کہ وہ بھی میرے، رچرڈ فائنمن اور آئنسٹائن کے شہر پاساڈینا کے باسی رہے ہیں۔ان بلاگر صاحب کے حق میں حق ہمسائگی کہیں یا رحم دلی کیونکہ صرف ماسٹرز کئے ہوے لوگوں کی درخواست پر تو میں ریسٹورانٹ کا بل بھی نہیں سائن کرتا، آپ ہارورڈ سے پوچھ لیں کیونکہ اسکے پاس بھی صرف ماسٹرز کی ڈگری ہے، بے چارہ۔ مجھے یہ بتایا گیا تھا کہ یہاں اردو بلاگستان میں بھی میری طرح خود پسند و بزعم خود دانا افراد کا ہجوم ہے۔ کچھ لوگوں کو تو گمنام تبصرے پڑھ کر میرے چبھتے ہوے فقرے یاد آجاتے ہیں جن کے لکھنے والوں کو پیار سے ٹرول کہا جاتا ہے، بہرحال آپکو میری اسِٹیون ہاکنگ سے ملاقات تو پسند آئ ہوگی، معذرت کے میں ہگس بوسون زرے کے مقالے میں ریاضی کی غلطی پر بے ہوش ہو گیا۔

بزنگا۔۔۔ معذرت، ہاہا، یہ اچھا مزاق ہے۔

اچھا اب اجازت،

ڈاکٹر شیلڈن کوپر،بی ایس، ایم ایس، ایم اے، پی ایچ ڈی، ایس سی ڈی، آی کیو ۱۸۷۔ سائنسدان ماہر نظریاتی طبیعیات

Share

March 30, 2012

ٹیورنگ کی مشین

Filed under: تحقیق — ابو عزام @ 6:00 am

ایلن ٹیورنگ ایک برطانوئ ریاضی دان، منطقیات کا ماہر اور آج کی اصطلاح کے مطابق ایک  کمپیوٹر سائنسدان تھا۔ اس نے کمپیوٹر سائنس کی تخلیق و ترقی میں انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے۔ الگارتھم اور جدید کمپیوٹرائزڈ حسابیات کو ٹیورنگ مشین کی مدد سے حل کرنے کا نظریہ،  جسے نظریاتی کمپیوٹر سائینس کی اساس قرار دیا جاتا ہے، اسی کے ذہن کی پیداوار ہے۔

عمومی طور پر ٹیورنگ کا سب سے بڑا کارنامہ دوسری جنگ عظیم میں اتحادیوں کے لیے جرمنوں کے خفیہ پیغامات کو توڑنے کی مشین ایجاد کرنا سمجھا جاتا ہے۔ جرمنوں کے خفیہ پیغامات ارسال کرنے کے لیے کرپٹاگرافی کا سہارا لیا اور ایک مشین اینگما کے نام سے ایجاد کی جو کہ جنگی پیغامات کو خفیہ طور پر لکھ کر منزل مقصود پر اپنی غیر خفیہ حالت میں پڑھنے میں ممد و معاون ثابت ہوتی تھی۔ ٹیورنگ نے اپنی ذہانت سے اس خفیہ پیغام کو توڑا اور ایک مشین ایجاد کی جو کہ ایسے تمام خفیہ پیغامات کو توڑکر ان کی اصل شکل میں دکھا سکتی تھی۔ یہ ایجاد چونکہ دفاعی اہمیت کی حامل تھی لہذا اسے نہایت خفیہ رکھا گیا اورعرصہ دراز تک ایلن ٹیورنگ کا کام منظر عام پر نا آسکا۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے تن تنہا دوسری جنگ عظیم کو کم از کم دو سال مختصر کرنے میں مدد کی اور لاکھوں جانوں کو ضائع ہونے سے بچایا۔

ٹیورنگ کی مشہور زمانہ مشین یہ دوسری جنگ عظیم کی خفیہ کوڈ حل کرنے والی مشین نہیں بلکہ آپ کو یہ جان کہ حیرت ہوگی کہ ٹیورنگ کی مشین درحقیقت ایک نظریاتی مشین ہے، اس کے لاامتنہای ٹیپ کے تقاضے کی وجہ سے اس کو بنانا ممکن نہیں۔ لیکن ٹیورنگ نے نظریاتی طور پر ثابت کیا کہ ایک عمومی مشین سے مختلف النواع مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے۔ یہ مخصوص مشینوں کے دور میں ایک بہت بڑی بات تھی جب عمومی کام کی مشینوں کا کوئ تصور موجود نا تھا۔ اگر ٹیورنگ کے نظریے کو نکال دیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ اکاونٹنگ کے لئے ایک طرح کا کمپیوٹر ہوتا اور ورڈ پراسسنگ کے لئے دوسری طرح کا اور ڈیزائننگ کے لئے اور طرح کا۔ وان نیومین آرکیٹیکچر کی طرح ٹیورنگ مشین نے بھی  کمپیوٹنگ کی دنیا میں نہایت بنیادی تبدیلی لاتے ہوے سائنسدانوں کو اس سوچ پر قائل کیا کہ ایک عمومی مشین کا وجود ممکن ہے جو مختلف النواع کے کام کر سکتی ہے۔ یہیں سے پراگرام اور جنرل پرپس کپمیوٹر کی ابتدا ہوتی ہے۔

ٹیورنگ کی مشین دراصل اسٹیٹ مشین کی ایک قسم ہے۔ ایک ایسا نظریاتی کمپیوٹر جس میں لامحدود لمبائی کا ایک ٹیپ ہو، ایک عدد ہیڈ جو کہ دائیں اور بایئں ہل جل کر لکھ پڑھ  سکتا ہو٫ اس کی مدد سے آپ جمع، تفریق اور دیگر ریاضی کے کام، کیلکولس، شماریات، منطقی مسائل غرضیکہ ہر وہ کام جو کہ ‘پراگرام’ ہو سکتا ہو حل کر سکتے ہیں۔ درحقیقت یہ مشین جدید پراگرامنگ یا اس سے پہلے کے پنچ کارڈز کی ایک ابتدائ نظریاتی شکل تھی۔

مصنوعی ذہانت میں بھی ٹیورنگ کا کام نہایت اہمیت کا حامل ہے اور یہ کہنا غلط نا ہوگا کہ کمپیوٹر سائینس کی اس شاخ کی ایجاد کا سہرا ایلن ٹیورنگ کے سر ہی جاتا ہے۔ اس کا بنایا ہوا ٹیورنگ ٹیسٹ آج بھی مصنوعی ذہانت کی معراج مانا جاتا ہے۔ نیز ایلن ٹیورنگ کے نام پر قائم ٹیورنگ انعام جو اس سال جوڈیا پرل کو ملا ہے، کمپیوٹرسائنس کی دنیا کا نوبل انعام سمجھا جاتا ہے۔ ریڈیو لیب کا یہ پاڈکاسٹ ایلن ٹیورنگ کے تعارف کے زمن میں سننے سے تعلق رکھتا ہے۔

Share

March 29, 2012

کھوکھلے خواب

Filed under: پاکستان,سیاست,مشاہدات — ابو عزام @ 10:31 pm

مارچ ۲۳ کے تناظر میں لکھی گئی یہ تحریر تو شائد کلمہ ابتذال کلیشے ہی قرار پاے لیکن بقول فیض، کبھی کبھی ایسا بھی لکھنا چاہیے۔

یہ لوگ کون ہیں اور کونسے خواب دیکھ رہے ہیں؟ کیا یہی وہ رویا اقبال ہے جس کا چہار دانگ عالم چرچا ہے، کیا یہی وہ خواب ہیں جس کی تعبیر اسلامی جمہوریہ پاکستان کی صورت میں قائم ہونے والی ایک اسلامی فلاحی ریاست ہے؟

 ہم اسے توہم و اغفال و تجسم ہذیان تو قرار دے سکتے ہیں لیکن زمینی حقائق سے دور ان پوش و کلچرڈ گلچین کا اساس مملکت خداداد سے کیا لینا دینا۔ اردش کے استعمال کے بنا چارہ نہیں کہ اس شماریات کا سیمپل سائز تو خدا جانے کس قسم کا آوٹلائر ہے، کوئ باشرع جوان نہیں، کوئ حجابی خاتون نہیں، ٹک ذکر دین نہیں، کہیں نظام مصطفوی کی پکار نہیں، فکر ہے تو بس اس بات کی کہ پاکستان کا ویزہ لینے کے لیے لوگوں کی لاین لگ جائے۔ مستعار لی گئی  مغربی عقل کے یہ متوالے پھر اسلامی جمہوریہ پاکستان اورمملکت ناروے و ریاست آسٹریلیا ومملکت نیدرلینڈز میں کیا فرق دیکھتے ہیں جہاں کی ہیومن ڈویلپمینٹ انڈیکس ٹاپ تھری میں شمار ہوتی ہے۔ اداروں کی مضبوطی کی خواہش یا قانون کی بالادستی بات تو بجا ٹھری لیکن نظریات کے فرق میں برہان قاطع کیا ہے؟ جس اساس پرمملکت پاکستان کا وجود ٹھرا، اس کا تذکرہ ندارد، کہیں تو بہر خدا آج ذکر یار چلے۔ کیا یہی مملکت پاکستان کے حصول کا خواب تھا؟ اگریہی بات ٹھری تو پھردو قومی نظریے پر  دو حرف بھیجیے اور اسے خلیج بنگال کی طرح اس بار بحیرہ عرب میں ڈبو دیں، قرار داد مقاصد کو آگ لگا دیں، اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کو سیکیولر جمہوریہ قرار دیتے ہوئے ایک “ترقی یافتہ” ملک بنانے کی جدوجہد کے لیے کمر باندھ لیں۔

قومی لباس سے محروم تن بدن پر موجود جن خمار آلود آنکھوں نے یہ اسکرپٹڈ خواب بنے ہیں انہیں میں استعمارانہ نظام کے خواب، سرمایہ دارانہ نظام کے خواب، گلوبل معیشیت کے خواب یا کالونیلزم کے خواب ہی گردان سکتا ہوں۔ مملکت خداداد کے مستقبل کے لیے اقامت دین اور قیام نظام مصطفے صلی اللہ  علیہ وسلم ہی ایک خواب ہے جس کوغلامان مصطفی کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور اس کی تعبیر کی سعی کرتے ہیں۔

ڈرائنگ روم کی سیاست کرنے والے جو لوگ اپنی زبان میں خواب بھی نہیں دیکھ سکتے ان سے فسانوی حقیقت کا حق بھی چھین لیا جاتا ہے۔

Share

March 27, 2012

دی ہنگر گیمز از سوزن کولنز

Filed under: ادبیات,کتابیات — ابو عزام @ 6:49 am

ہمارے مقرر کردہ  جدول کے مطابق تو دی ہنگر گیمز از سوزن کولنزکی آمد میں وقت تھا لیکن پاپولر کلچر کا برا ہو کہ ہمیں اسکا مطالعہ جلد شروع کرنا پڑا، کتاب اسقدر دلچسپ ہے کہ پتا نہیں چلا کیسے وقت گذر گیا۔ اسرار و ایکشن سے بھرپور،۲۰۰۸ میں چھپنے والے اس تقریبا چار سو صفحات کا یہ ناول پچھلے ۵۵۰ دنوں سے ایمزن کی ٹاپ ۱۰۰ کتب میں شامل ہے۔ اس کتاب کا مرکزی ۔ کردار کیٹنس ایورڈین نامی ایک ۱۶ سالہ لڑکی ہے جو پانم نامی ملک کے غریب ترین ضلع نمبر ۱۲  میں اپنی ماں اور چھوٹی بہن کے ساتھ رہتی ہے۔ پانم جو ماضی میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ نامی ملک ہوا کرتا تھا ، وہاں تقریبا۷۴ سال قبل اضلاع نے مرکز یعنی کیپٹل کے خلاف جنگ شروع کی  لیکن مرکز نے اس بغاوت کو سختی سے کچل دیانیز ہتھیار ڈالنے کی شرائط میں یہ شامل کیا گیا کہ ہر سال، ہر ضلع سے ایک عدد لڑکے اور ایک عدد لڑکی کو ‘ہنگر گیمز’ یا بازی ہاے بھوک نامی کھیلوں میں بھیجا جاے گا۔ یہ کھیل روم کے گلیڈیٹرز کے کھیلوں سے زیادہ مختلف نہیں ہوا کرتے۔ ۲۴ عدد لڑکے اور لڑکیاں ایک میدان جنگ میں داخل ہوتے ہیں اور ان میں سے صرف ایک فرد زندہ سلامت جیت کر باہر آسکتا ہے۔

اس کتاب کے مزید دو حصے بھی ہیں لیکن کہانی کا پر حصہ ایک کتاب میں میں مکمل ہے۔ دی ہنگر گیمز پر بننے والی فلم بھی نہایت کامیاب قرار پائ ہے لیکن راقم کا خیال ہے کہ اس کتاب کو پڑھنے میں جتنا مزا آیا ہے وہ فلم دیکھنے میں نہیں آسکتا۔اس کتاب میں سوزن کولنز نے معاشی نا ہمواریوں، طبقاتی تقسیم، افلاس، انسانی جذبات اور زندہ رہنے کی خواہش جیسے بہت سے مختلف موضوعات سے بحث کی ہے۔ عمومی طور پر یہ کتاب ان قارئین کے لیے  لکھی گئی ہے جو اپنے لڑکپن سے گذر رہے ہوں لیکن ہر عمر کے سائ-فائ و اسرار وآخرالزماں مطلق العنانی لٹریچر کےقدردانوں کے لیے یہ کتاب نہایت خوب انتخاب ہے۔ کیٹنس ایورڈین، اسکی ۱۲ سالہ بہن پرم، اس کی بیمار ماں، وفاق کا مطلق العنان حکمران صدر سنو، دیگر اضلاع کے مقابل کرداروں، انکی ہتھیاروں کی مہارت اور ساینسی ایجادات سے بھرپور یہ ناول جارج آرویل کی ۱۹۸۴ اور اینڈرز گیم کا اسرار انگیز امتزاج ہے۔ کچھ لوگ اسے بیٹل رویال نامی جاپانی ناول کا چربہ بھی قرار دیتے ہیں جو کہ ہمارے اس ناول کے محدود مطالعے کی بنا پر کافی حد تک درست لگتا ہے۔ آپ پڑھ کر بتایں کہ آپ کودی ہنگر گیمز کیسا لگا؟

Share

March 22, 2012

آور لیڈی آف ایلس بھٹی از محمد حنیف

Filed under: ادبیات,کتابیات — ابو عزام @ 12:02 am

محمد حنیف کے مکتبہ فکر سے تو ہمارا قطبین کا فاصلہ ٹھرا لیکن انکی ندرت خیال اور خوبی نثر کی تعریف نا کرنا ایک بڑی ادبی ناانصافی ہوگی۔ کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگوز کے بعد انکا تازہ ناول آور لیڈی آف ایلس بھٹی کل ہی ختم کیا اور امید ہے کہ ہماری یہ پیشن گوئ صحیح ثابت ہوگی کہ جلد ہی برصغیر کے انگریزی مصنفین میں انکا نام امیتابھ گھوش اور اروندھتی رائےکے پاے کا قرار دیا جاے گا۔ اس ناول کو ایک بار اٹھانے کے بعد رکھنے کو قطعی دل نہیں چاہتا، سسپنس کا برقرار رکھتے ہوے مصنف نے جس طرح کہانی کا تاروپود باندھا ہے وہ اپنی مثال آپ  ہے۔

محمد حنیف کو  تاریک طنز یا ڈارک کامیڈی پر خاص عبور حاصل ہے۔ وہ مھیب و موحش صورتحال کو اس پاے میں بیان کرتے ہیں کہ افسردگی کا وہ منظر آپ کی آنکھوں کے سامنے گھوم جاتا ہے اور لیکن اس طرح کہ اس کی سنگینی میں طنز و مزاح کے نشتر سے ناگفتنی سا شگاف پڑا ہو۔ آور لیڈی آف ایلس بھٹی ایک عیسائ نرس ایلس کی بپتا ہے جو فرنچ کالونی جسے آپ کراچی کی عیسی نگری کا متبادل سمجھ لیں، کی رہایشی ہے اور جیل سے باہر آنے کے بعد اپنی زندگی کو عام ڈگر پر لانے کے لیے روز شب محنت کرنے کو تیار۔ اسی دوران اس کی مدبھیڑ پولیس کے ایک مخبر اور سابق جونیر مسٹر فیصل آباد  ٹیڈی سے ہوجاتی اورمہر و ماہ کے اس ٹکراو سے کہانی کے ہمہ جہتی پہلو نکلنا شروع ہوجاتے ہیں۔ مصنف کو کردار سازی میں ملکہ حاصل ہے، ان کے زیادہ تر کردار یک رخی لیکن مضبوط ہوتے ہیں چاہے وہ جیل کا ساتھی نور ہو، ایلس کا باپ جوزف بھٹی ہو جو ‘مسلوں کی دعاوں’ سے السر کا علاج کرتا ہے،انکاونٹر اسپیشلسٹ انسپکٹر ملنگی ہو، سسٹر حنا علوی جیسی خرانٹ ہیڈ نرس ہو، ناٹ-ابوزر کا پراسرار کردار ہو  یا چریا وارڈ کے بے نام و نشان مریض، یہ تمام کردار ناول کے کینوس پر پھیلے نظر آتے ہیں، اس طرح کہ ان کے انفرادی رنگ نمایاں تو ہوں لیکن ان رنگوں کا یہ امتزاج ایک جاندار پلاٹ کی صورت میں قاری کو متجسس و منہمک رکھے۔

مصنف کے قرطاس پر منظر نگاری اور حالات و واقعات کے تانے بانے کچھ اسطرح بنے جاتے ہیں کہ قاری عش عش کر اٹھتا ہے ۔ ٹایم لاین کو اور لیپ کرنا یعنی حالات و واقعات کو متوازی چلاتے ہوے ایک نقطے پر مرکوز کرنا محمد حنیف صاحب کا اوج کمال ہے۔ آور لیڈی آف ایلس بھٹی ایک بہترین رولر کوسٹر کی طرح آپ کو بور نہیں ہونے دیتی،ہوسکتا ہے میری طرح آپ کو تین چوتھای ناول کے بعد انجام کی بھنک پڑ جاے لیکن سسپنس کا عنصر آخر تک باقی رہتا ہے۔ کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگوز کی طرح اس کتاب کا انجام بھی غیر روایتی اور کتاب کی طرح ہی آزاد از قیود و رسوم ہے، کیا ہیپی اینڈنگ اور رزمیہ اختتام کے علاوہ بھی کوئ اور انجام ہوتا ہے؟ یہ بات آپ کتاب پڑھ کر ہی جان پائیں گے۔

مصنف کی تحریر کی ایک بنیادی خوبی ناول میں تجسس و رومانویت کا مخفی عنصر ہے جس پر امتداد زمانہ کی گرد سے مہین جالے بن دیے جاتے ہیں لیکن یہ ابن صفی کی طرز کی تحریر نہیں۔ ان کا قلم طنز میں ڈوبا ہوا ایک نشتر ہے جسے وہ بے رحمی و سہل انگاری سے معاشرتی اقدار کی پردہ دری کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جیسے کہ میں کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگوزکے تبصرے میں کہ چکا ہوں، محمد حنیف کے لیے کوئ چیز مقدس گاے نہیں۔ معاشرتی اقدار پر طنز، اقلیتوں سے سلوک اور ان کی کمیونٹی کے مسائل، کراچی میں امن و امان کی سريع الزوال صورتحال، پادری و بشپ و محراب و منبر سے لے کر چوڑا چمار، ہر جہت پر ان کے قلم کی سیاہی اس طرح بلا تفریق چھینٹے اڑاتی ہے کہ دامن بچانا مشکل ہوتا ہے۔ اگر میں آپ سے یہ کہوں کہ یہ ناول ‘سیونگ فیس’، ‘اے سیپریشن’ اور ‘نیو ٹیسٹمنٹ’ کا امتزاج ہے تو یقین کریں یہ بلکل غلط نا ہوگا۔

رینڈم ہاوس انڈیا کا شائع کردہ تقریبا ڈھائ سو صفحات کا یہ ناول ایک جرمن خطاط کے خط سبون میں طبع ہوا ہے۔ ہمیں علم نہیں کہ پاکستان کے کسی پبلشر نے اسے شائع کرنا گوارا کیوں نہیں کیا۔اس کا انتساب حسن درس کے نام ہے۔ کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگوز میں حنیف صاحب نے اردو استعارات استعمال کرنے سے گریز کیا تھا، شاید مین بکر پرائز کی امید میں انہوں نے کسی قسم کا خطرہ لینا گورا نا کیا لیکن اس مرتبہ انہوں نے ناول کے حسب حال تراکیب کو اسطرح مستعمل رکھا ہے کہ کہیں زیادتی محسوس نہیں ہوتی اور خصوصا اہل زبان و مکاں کو خصوصی چٹخارہ مل جاتا ہے۔ تکنیکی طور پر ری ایکارپوریشن یا کردار کا اعادہ  ناول میں ایک مشکل اسلوب صنف ہے لیکن راقم کی راے میں مصنف کو کردار سازی میں ملکہ حاصل ہے مثلا ناٹ-ابوذر کے کردار کی ری کوپریشن ایک نہایت عمدہ اور غیر متوقع بات تھی جسے آپ ناول پڑھنے کے بعد ہی سراہ سکیں گے۔ یہ کتاب انگریزی ادب کے ہر قاری کے لیے ایک نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں جو پاکستان کے حالات سے شناسای رکھتا ہو۔

Share
« Newer PostsOlder Posts »

Powered by WordPress