فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

May 15, 2012

فصوص الحکم از ابن عربی

Filed under: ادبیات,کتابیات,مذہب — ابو عزام @ 12:23 pm

ابن عربی کا نام تصوف و فلاسفہ سےآگاہی رکھنے والوں کے لیے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ انکی مشہور زمانہ کتاب  فصوص الحکم کا اردو ترجمہ از مولانا عبدلقدیر صدیقی کچھ عرصے پہلے پڑھنا شروع کیا۔ اس کتاب کے ساتھ ساتھ اسکے عربی متن اور انگریزی ترجمے کو بھی ساتھ رکھا ، منشا یہ تھا کہ زبان و بیان کے تعلق سے ترجمے اور معنویت میں زیادہ فرق نا آئے، اس وجہ سے اس اصطلاحات سے پر دقیق کتاب کا مطالعہ مزید مشکل اور گھمبیر ہونے کے ساتھ ساتھ طول پکڑتا چلا گیا۔ تقریبا ساڑھے چار سو صفحات کی اس کتاب میں جو کہ فصوص الحکم کا ترجمہ و تشریح ہے اس میں اصل کتاب کا متن تو سو صفحات سے کچھ زیادہ نا ہوگا۔ ابن عربی کے متن پر اضافہ جات میں طریق اکبریہ ، شیخ کا ایک دوسرا طریقہ، شیخ کے معاصرین، شارحین فصوص الحکم ، شیخ کی تصانیف، طریقہ ترجمہ و شرح ، عقائد شیخ اکبر، شیخ کا فلسفہ وغیرہ شامل ہیں۔ اس کتاب کے کئی مختلف النوع انگریزی تراجم ایمزن پر موجود ہیں۔

فصوص الحکم یا حکمت کے موتیوں، جواہر  مندرجہ زیل مضامین پر مشتمل ہے۔

۱                                                           فص آدمیہ

۲                                                           فص شیشیہ

۳                                                           فص نوحییہ

۴                                                           فص ادریسیہ

۵                                                           فص مہمیتہ (ابراہیمیہ)

۶                                                           فص اسحاقیہ

۷                                                           فص اسماعیلیہ

۸                                                           فص یعقوبیہ

۹                                                           فص یوسفیہ

۱۰                                                         فص ہودیہ

۱۱                                                         فص صالحیہ

۱۲                                                        فص شعییہ

۱۳                                                        فص لوطیہ

۱۴                                                         فص عزیزیہ

۱۵                                                         فص عیسویہ

۱۶                                                         فص سلیمانیہ

۱۷                                                         فص داؤدیہ

۱۸                                                         فص یونسیہ

۱۹                                                        فص ایوبیہ

۲۰                                                         فص یحیویہ

۲۱                                                         فص زکرویہ

۲۲                                                         فص الیاسیہ

۲۳                                                         فص لقمانیہ

۲۴                                                         فص ہارونیہ

۲۵                                                         فص لقمانیہ

۲۶                                                         فص خالدیہ

۲۷                                                         فص محمدیہ

تعارف میں مفسر لکھتے ہیں کہ الشیخ محی الدین محمد بن علی بن محمد العربی الطائی الحاتمی.. یہ قبیلہ بنی طے اور حاتم طائ کی اولاد میں سے ہیں۔ سترھویں رمضان ٥٦٩ء میں تولد ہوئے.آپ کی تاریخ ولادت “نعمت” ہے. مولد مریسیہ از متعلقات اندلس یا اسپین یا ہسپانیہ اور وفات. بائیس ربیع الثانی ٦٣٨ء میں اس جہاں فنی سے جہاں باقی کی طرف توجہ کی. آپ کا سال وفات “صاحب الارشاد” سے نکلتا ہے۔

فصوص الحکم کی بہت سی زبانوں میں تفسیر و تشریح کی گئی ہے۔ عربی میں حسب ذیل شروح فصوص الحکم موجود ہیں۔

شیخ موید الدین بن محمود الجندی.
شیخ صدر الدین القونوی.
داؤد بن محمود الرومی القیصری.
نور الدین عبدالرحمان جامی
عبدالغنی النابلسی۔
الکاشانی.

فارسی شروح کچھ یوں ہیں۔

 نعمت الله شاہ ولی
مولوی احمد حسین کان پوری

اردو ترجموں میں  عبدالغفوردوستی اور مولوی سید مبارک شامل ہیں۔

اس کتاب کا نفس موضوع تصوف ہے اور اس میں کئی پیچیدہ مسائل سے گفتگو کی گئی ہے۔ شرح کا کام عبدالقدیر صدیقی صاحب نے خوب کیا ہے اس لیے اس تعارف میں انکے اقتباسات جا بجا مستعمل ہیں۔ اپنی شرح کے بارے میں لکھتے ہیں کہ

دیگر شارحین فصوص الحکم میں شیخ قرآن شریف میں انبیاء کے قصوں. اور ان کے حالات میں جو کچھ آیا. ان سے یا تو بطور اعتبار کے مسائل توحید و تصوف کو استنباط کرتے ہیں مگر شیخ کے قول کی تاویل نہیں کرتے. نہ ان کے عقائد سے جو فتوحات مکیہ کے شروع میں بیان کئے گئے ہیں، توفیق و تطبیق دینے کی سعی کرتے ہیں دوسرے شارحین کے برخلاف’ فقیر شیخ کے قول کی تاویل کرتا ہے. اور ان کے عقائد کے ساتھ توفیق دیتا ہے.لوگوں کو شیخ کی طرز تحریر سے واقف نہ ہونے کی وجہ سے بڑی بڑی غلط فہمیاں ہو رہی ہیں. بعض ان کو قطب معرفت سمجھتے ہیں. اور قرآن شریف کی آیتوں کی تاویل کرتے ہیں. مگر شیخ کے اقوال کی تاویل نہیں کرتے اور بعض ان کے برعکس شیخ کی تکفیر میں بھی تقصیرنہیں کرتے.

افلاطون کا ذکر اابن عربی کی اکیلیز ہیل ہے، اس بابت میں  طریق ترجمہ و شرح میں رقم طراز ہیں کہ

 بعض نادان یورپ زدہ’ شیخ کے فلسفے یا حکمت کو افلاطون کا فلسفہ سمجھتے ہیں. مگر ان کی سمجھ میں نہیں آیا’ کہ تمام کتاب جندی بغدادی’ ابو یزید بسطامی. سہیل بن عبدالله تستری کے اقوال اور آیات قرآن مجید و احادیث شریف سے بھری پڑی ہے. اور اپنے کشف کا بھی جابجا ذکر کرتے ہیں.مگر اس میں افلاطون کا کہیں’ایک جگہ بھی ذکر نہیں ہے. اول تو یہ ثابت ہی کب ہوا ہے کہ فلسفہ افلاطون کی کتاب شیخ کو پہنچی بھی تھی.کسی دشمن مسلمانان نے لگا دیا کہ شیخ نے افلاطون سے لیا. اور مقلدوں کے لئےبس آیت اتر آئی. ظالم اڑاتے ہیں کہ امام ابو حنفیہ نے رومن لا سے لیا. یا تو راة انور شیرواں سے لیا. ان کو معلوم نہیں کہ عقائد و فقہ کے اصول ہیں کیا. یہاں قرآن و حدیث کی شرح و تفسیر تو ہو سکتی ہے ان سے احکام استنباط کا کئے جاتے ہیں. ان کے خلاف ایک مسلہ بھی چل نہیں سکتا. یہ کمال جہل و تقلید میں. کمال علم و تحقیق کا ادعا ہے ہم کو دشمنوں کے کہنے سے تکلیف نہیں ہوتی. دوستوں کے دشمنوں کا ساتھ دینے سے ایذا ہوتی ہے.

شیخ کے کلام میں بکثرت مشاکلہ ہے.مشاکلہ عربی زبان میں بھی ہے. اور دوسری زبانوں میں بھی.اشعار میں بھی ہے’اور نثر میں بھی. کلام الله میں بھی. اور دوسروں کے کلام میں بھی. مشاکلہ کیا ہے. ایک لفظ پہلے آتا ہےاور اپنے اصلی معنی میں رہتا ہے.. پھر وہی لفظ دوبارہ آتا ہے. اور اس سے دوسرے معنی؛ مراد لیے جاتے ہیں.مثلاً ایک شخص کہے.تمنے مجھے خباثت کی.اب میں بھی دیکھو کیسی خباثت کرتا ہوں یعنی خباثت کا انتقام لیتا ہوں عرب شاعر کہتا ہے..

” قالو اقترح شیاء نجدلک طبخة، قلت أطبخوالي حبثه و قميصا “

“لوگوں نے کہا کچھ کھانے کی فرمائش کرو. ہم اس کو اچھی طرح سے پکائیں گے.”

میں نے کہا ایک جبہ و قمیض پکاؤ. یعنی ایک جبہ و قمیض سی دو.

قرآن مجید میں ہے

“ومکرو او مکرالله والله خیرالماکرین”… انہوں نے مکر کیا اور الله نے اس کی سزا دی.الله مکاروں کو سزا دینے میں بہت سخت ہے.

ابن عربی کا اسلوب اور کتاب کا موضوع فلسفہ و تصوف کا ایک ایسا امتزاج ہے جس کے بارے میں زیادہ کہنے سننے کی گنجائش نہیں، وہ صرف پڑھنے سے ہی تعلق رکھتا ہے۔ ایک جدید تعلیم یافتہ فرد کے لیے اس میں معنویت کی ایک دنیا چھپی ہے۔ مصنف فصوص لکھتے ہیں۔

زمانه عدم اور زمانه وجود مثل معاً ہیں. جس طرح اشاعرہ کے پاس اعراض و صفات پر ہو رہا ہے. اور ہرآن’ ہر لحظہ تجدد امثال اعراض پر ہو رہا ہے. اسی طرح صرف ذات حق موجود مستقبل ہے. اس کے سواۓ جتنے موجودات ہیں. سب غیر مستقل ہیں. دائمی طور پر محتاج الی الحق ہیں ہر آن ہر لحظ متجدد ہیں.

تجدد امثال کا مسئلہ جو حصول تخت بلقیس میں چھیڑا گیا ہے. مشکل ترین مسائل سے ہے مگر اس قصے میں ابھی جو میں نے بیان کیا اس کے سمجھنے والے کے لیے کچھ  دشوار نہیں. آصف بن برخیا کی فضلیت و بزرگی یہی ہے کہ وہ ادو جود ‘ وہ تجدید تخت بلقیس’ وہ تجلی الٰہی جو تخت بلقیس پر ملک سبا میں ہو رہی تھی. اس کو سلیمان کے سامنے مجلس میں کھینچ لیا.اور تخت موجود ہو گیا. پس حقیقت میں تخت نے نہ قطع مسافت کی.نہ اس کے لیے زمین لپیٹ دی گئی اور نہ دیواروں کو تھوڑا پھوڑا. اس مسئلے کو وہی سمجھتا ہے’ جو تجدد امثال کو منتا ہے. جو تجلی الٰہی کو اپنی طرف متوجہ کر سکتا ہے.

یہ تصرف بعض اصحاب سلیمان علیہ السلام سے ظاہر ہوا تا کہ اس کا اثر بلقیس اور ان کے ہمراہیوں کے دلوں پر عظمت و مرتبت سلیمان علیہ السلام کے لیے پڑھے. اس تصرف کا سبب یہ ہے کہ سلیمان علیہ السلام’ داؤد علیہ السلام کو الله تعالیٰ کی طرف سے عطیہ وہیہ تھے. الله تعالیٰ فرماتے ہے. ” ووھبنا لداود سلیمان ” ہم نے داؤد کو سلیمان عطا کیا. ہبہ کیا ہے. واہب کا موہوب لہ بطور انعام دینا. نہ بطور جزاۓ عمل اور نہ بر بناۓ استحقام. پس سلیمان الله تعالیٰ کی نعمت سابقہ و حجت بالغہ اور اعداد کے لیے سر شکن ضرب ہیں.

اب سلیمان کے علم پر غور کرو.الله تعالیٰ فرماتا ہے ” ففھمنھا سلیمان ” ہم مستقراعندہ ” آیا ہے. یعنی تخت بلقیس’ سلیمان کے پاس حاضر و قرار پذیر تھا. آصف کا تخت کو حاضر کرنا نظر تحقیق میں ہمارے پاس اتحاد زمان کے ساتھ نہ تھا بلکہ وہاں اعدام و ایجاد’اور سبا سے معدوم کرنا اور بار سلیمانی میں موجود کرنا تھا. اس کو تجدد و امثال کہتے ہیں  ہر آن ہر شے قہر احدیت سے معدوم ہوتی ہے. اور پھر اسکو رحمت امتنانی موجود کرتی ہے. مگر عارفین کے سوا اس کو کوئی محسوس نہیں کرتا.دیکھو قرآن شریف میں ہے. ” بل ھم فی لبس من خلق جدید “

یعنی بلکہ انکو التباس اور دھوکا ہو گیا ہے. تازہ پیدائس و خلق جدید سے کہ وہی اگلی شے ہے. ان پر کوئی زمانہ ایسا نہیں گزرتا کہ جس شے کو دیکھ رہے ہوں ‘ نہ دیکھا ہو…

جب معلوم ہو گیا کہ ہر شے میں تجدد امثال ہے.اعدام و ایجادہے. نیستی کے ساتھ ہستی لگی ہوئی ہے. ایسا نہیں ہے کہ ایک شے موجود ہو کر حق فیوم کی طرف دائمی موحتاج نہ رہی ہو بلکہ ہر شے کو آن امداد وجود ہوتی ہے.اور قیوم جل جلالہ کی طرف دائمی احتیاج رہتی ہیں. بہر حال تخت بلقیس کو ملک سب میں نیست و نابود ہونا اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے حضور میں ہست موجود ہونا یہ  دونوں عمل ساتھ ساتھ تھے. اور یہ ہر دم میں ہر سانس میں تجدید حلق’ اور تازہ امداروجود کا نتیجہ ہے. اس کا علم ہر شخص کو نہیں ہوتا. بلکہ انسان خود کو نہیں سمجھتا،. کہ وہ ہر آن لا یکون اور پھر یکون ہوتا ہے. معدوم ہوتا ہے’ موجود ہوتا ہے.یہاں ثم اور پھر مہلت کے لیے نہ سمجھو بلکہ یہاں ثم اور پھر لفظ صرف تقدم  تقرم بالعیتہ کا مقتضی ہے جیسے کہتے ہیں کہ اول ہاتھ پڑتا ہے پھر کنجی پھرتی ہے.یہاں حرکت ید کو حرکت مفتاح پر تقدیم بالعیتہ ہے ایسا ہر گز نہیں کہ ہاتھ پڑنے کیے زمانے کے بعد کنجی پھرتی ہے. عربی زبان میں بعض خاص  خاص مقام میں “ثم بلا”  مہلت بھی مستعمل ہوتا ہے. وک شاعر کہتا ہے ” کھزالردینی ثم اضطرب ” جیسے نیزہ روینی کا ہلانا  پھر اس کا ھل جانا ظاہر ہے کہ نیزے کے ہلانے کا زمانہ اور اس کے ہلنے کا زمانہ یہ ساتھ ساتھ ہیں. اور یہاں ثم اور پھر مہلت کا مقتضیٰ بندے کا ظہور حق تعالیٰ پر موقف ہے اور بندے کے اعمال اس کی وجہ سے صادر ہوئے ہیں. حق تعالیٰ کا اسم الباطن والا ہے جب تم خلق کو دیکھو اس پر غور کرو. تو معلوم ہو جاۓ گا کہ کون کس اعتبار سے اول ہے.ظاہر ہے باطن ہے.

اسمائےالٰہی کی معرفت اور ان کی نسبت سے عالم میں تصرف نصیب ہوتا ہے. پس یہ معرفت حضرت سلیمان علیہ السلام کو بھی حاصل تھی بلکہ سلیمان علیہ السلام نے جو دعا کی تهی. “رب هبلی ملکا لا ینبغی لاحد من بعدی”  میرے پروردگار مجھے ایسی بادشاہی عطا کر کہ میرے بعد پھر کسی کو حاصل نہ ہو. وہ بادشاہی’ وہ ملک اصل میں یہی معرفت اسماۓ الٰہی ہے. کیا ایسی حکومت کسی کو سلیمان کے سوا ملی ہی نہیں. قطب وقت. وقت زمانہ. تو تمام عالم کا شہنشاہ. اور حاکم علی الاطلاق ہوتا ہے. بیشک قطب زمانہ حاکم علی الاطلاق ہوتا ہے. اسی میں تجلی اعظم رہتی ہے.  حضرت سلیمان علیہ السلام  کی مراد ملک سے ظاہر و عالم شہادت کی حکومت اور تصرف عام ہے. دیکھو محمّد صلی الله علیہ وسلم کو الله نے سب کچھ دے رکھا تھا. آپ کی باطنی حکومت اس سے زیادہ ہی تھی. مگر آپ نے عالم شہادت میں اس کو ظاہر نہیں کیا.

ابن عربی کی دیگر تصانیف مندرجہ زیل ہیں

عقلہ المستوفرہ.
عقیدہ مختصرہ.
عنقائے معرب.
قصیدہ البلادرات تقعینیہ..
القول النفیس..
کتاب تاج الرسائل..
کتاب الثمانیہ و الثلا ثین وھو کتاب الازل..
کتاب الجلالہ…’
کتاب مااتی بہ الوارد.
کتاب النقبا..
کتاب الیادہو کتاب الہود.
مجموعہ رسائل ابن العربی
مراتب الوجود.
مواقع النجوم.
فتوحات مکیہ       چار بڑی بڑی جلدوں میں.
نقش النصوص   اس کی شرح مولانا جامی نے کی ہے اور اس کا نام النصوص ہے
تفسیر صغیر       جو مطبوعہ مصر ہے’ عام طور سے ملتی ہے..
تفسیر کبیر         جو سنتے ہیں کہ فرانس کے کتب خانے میں قلمی ہے..

Share

May 8, 2012

ایک مشاعرہ ہاے فرنگ کی مختصر روداد

Filed under: ادبیات,شاعری,مشاہدات — ابو عزام @ 5:04 am

جب سے ہمارے عزیز دوست راشد کامران نے چوغہ انٹرورٹیہ پہنا ہے یا یہ کہا جائے کہ کلازٹ میں جا بسے ہیں، ہمیں ادبی محفلیں اکیلے ہی نمٹانی پڑ رہی ہیں۔ اسی طرح کی ایک محفل مشاعرہ لاس اینجلس ٹایمز کے کتب میلے میں بھی برپا تھی جہاں پہنچ کر ہم نے سوچا کہ چلو آج انگریزی مشاعرہ بھی سنتے ہیں۔ سچ بتایں تو بڑی مایوسی ہوئ،نا تو داد و تحسین کے ڈونگرے، نا مکرر کی تکراروں میں پان کی گلوری کی پچکار، نا کوئ صدر مجلس، نا ہی  کوئ شاعروں کا پینل اور تقدیم و تاخیر کا اصرار۔  بھلا یہ بھی کوئ مشاعرہ ہوا۔شعر معنویت سے بھرپور و گہرے ہونا ہی تو سب کچھ نہیں ہوتا، بقول ہمارے جامعہ کے ساتھی شعیب سلیم کے، ٹیمپو بننا چاہیے۔

  اب زرا رنگ حنا پر کچھ تازہ کلام ملاحظہ ہو جس میں مملکت خداداد کا بھی نام آتا ہےکہ یہاں سرخ رنگ کمیاب ہے۔

یہ نظم بھی خاص ہے کہ اس میں شعرا کے جھوٹ کی فہرست بنی گئِ ہے۔

یہ صاحب اپنے آپ کوجدید دور کا شاعر کہتے ہیں اور ریپ کے انداز میں شاعری کرتے ہیں۔فیس بک پر انکی شاعری کا کوئ جواب نہیں، یعنی کہ سوشل میڈیا نے انسانی تعلقات پر جو گھرے اثرات مرتب کئے ہیں، وہ انکی زبانی ہی سنیے۔

بہرحال، حاصل کلام یہ ہے کہ دیسی مشاعری دیسی مشاعرہ ہی ہوتا ہے۔ رسائٹل کیا جانے زعفران کا بھاو!

Share

April 23, 2012

لاس اینجلس کتب میلے کی ایک تصویری روداد

Filed under: ادبیات,سفر وسیلہ ظفر,کتابیات — ابو عزام @ 10:52 pm

 ہر سال کی طرح اس سال بھی لاس اینجلس ٹایمز اخبار کی طرف سے دو روزہ کتب میلے کا انعقاد کیا گیا۔ اس سال یہ کتب میلہ یو سی ایل اے کے بجاے یو ایس سی یعنی یونیورسٹی آف سا تھرن  کیلیفورنیا میں منعقد ہوا جہاں  اس میں ہزاروں افراد اور کتب فروشوں نے شرکت کی۔ اس اینجلس ٹائمز فیسٹیول 1996 ء میں شروع ہوا اور امریکہ میں ہونے والا سب سے بڑا کتب میلا  بن گیا جہاں یہ تہوار  ہر سال 140،000سے زیادہ کتابوں سے محبت کرنے والوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔

 ہر سال کی طرح اس دفعہ بھی کتابوں کی محبت ہمیں بھی کشاں کشاں کھینچ لے گئی۔ یہاں تکنیکی کتب تو خیر کم ہی تھیں لیکن دیگر موضوعات پر ہزاروں کتب اور کتب فروشگاں  موجود تھے۔اسکے علاوہ بہت سے مشہور مصنفین بھی اس تہوار میں موجود تھے،

بچوں کے لئے خوب انتظام تھا اور  بچوں کے لئے کتابیں لکھنے والے بھی بہت موجود تھے جو بچوں کو کہانیاں سنا رہے تھے اور داد وصول کر رہے تھے۔انہی کہانیاں سنانے والوں اور کتابوں پر دستخط کرنے والوں میں کریم عبدالجبار بھی شامل تھے۔

اتنا بڑا میلا ہو اور آئ فون کی ایپ نا ہو، یہ کیسے ہو سکتا ہے!

ایپ کے علاوہ بھی جگہ جگہ جدول اور مصنفین کی آمد و کتابوں کی دستخط کا نظام الوقات ٓآویزاں تھا۔

نیے مصنفین نے لیئے سیکھنے کی ورکشاپ کا بھی انتظام کیا گیا تھا

 

 ایک  جانب مشاعرہ بھی گرم تھا اور ایک شاعر صاحب اپنے شعروں پر دادوں کے ڈونگرے وصول کر رہے تھے!

ایک جانب یو ایس سی کے طلبہ اپنے اساتذہ کی کتابیں اس دعوے کے ساتھ بیچ رہے تھے کہ ان کو پڑھ کر آپ بھی ایسے جہاز بنانے شروع کردیں گے!

گروچو کا یہ قول سچ بات ہے ہمیں تو بہت پسند آیا!

پیسیفیکا ریڈیو جس کا قبلہ بائیں بازو کے بھی بائیں جانب ہوتا ہے  وہاں سے براہ راست نشریات کر رہا تھا۔

۔ہر سال کی طرح اس سال بھی دعوت کی تنظیم  واے اسلام کی جانب سے اسٹال لگاے گے تھے ، ان میں ہر سال چار سے پانچ ہزار قران کی کاپیاں تقسیم کی جاتی ہیں۔ اس سال کی خاص بات یہاں موقع پر ایک فرد کا قبول اسلام ہے ۔۔

 کتابوں کے جھرمٹ میں ایک یادگار دن

Share

March 27, 2012

دی ہنگر گیمز از سوزن کولنز

Filed under: ادبیات,کتابیات — ابو عزام @ 6:49 am

ہمارے مقرر کردہ  جدول کے مطابق تو دی ہنگر گیمز از سوزن کولنزکی آمد میں وقت تھا لیکن پاپولر کلچر کا برا ہو کہ ہمیں اسکا مطالعہ جلد شروع کرنا پڑا، کتاب اسقدر دلچسپ ہے کہ پتا نہیں چلا کیسے وقت گذر گیا۔ اسرار و ایکشن سے بھرپور،۲۰۰۸ میں چھپنے والے اس تقریبا چار سو صفحات کا یہ ناول پچھلے ۵۵۰ دنوں سے ایمزن کی ٹاپ ۱۰۰ کتب میں شامل ہے۔ اس کتاب کا مرکزی ۔ کردار کیٹنس ایورڈین نامی ایک ۱۶ سالہ لڑکی ہے جو پانم نامی ملک کے غریب ترین ضلع نمبر ۱۲  میں اپنی ماں اور چھوٹی بہن کے ساتھ رہتی ہے۔ پانم جو ماضی میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ نامی ملک ہوا کرتا تھا ، وہاں تقریبا۷۴ سال قبل اضلاع نے مرکز یعنی کیپٹل کے خلاف جنگ شروع کی  لیکن مرکز نے اس بغاوت کو سختی سے کچل دیانیز ہتھیار ڈالنے کی شرائط میں یہ شامل کیا گیا کہ ہر سال، ہر ضلع سے ایک عدد لڑکے اور ایک عدد لڑکی کو ‘ہنگر گیمز’ یا بازی ہاے بھوک نامی کھیلوں میں بھیجا جاے گا۔ یہ کھیل روم کے گلیڈیٹرز کے کھیلوں سے زیادہ مختلف نہیں ہوا کرتے۔ ۲۴ عدد لڑکے اور لڑکیاں ایک میدان جنگ میں داخل ہوتے ہیں اور ان میں سے صرف ایک فرد زندہ سلامت جیت کر باہر آسکتا ہے۔

اس کتاب کے مزید دو حصے بھی ہیں لیکن کہانی کا پر حصہ ایک کتاب میں میں مکمل ہے۔ دی ہنگر گیمز پر بننے والی فلم بھی نہایت کامیاب قرار پائ ہے لیکن راقم کا خیال ہے کہ اس کتاب کو پڑھنے میں جتنا مزا آیا ہے وہ فلم دیکھنے میں نہیں آسکتا۔اس کتاب میں سوزن کولنز نے معاشی نا ہمواریوں، طبقاتی تقسیم، افلاس، انسانی جذبات اور زندہ رہنے کی خواہش جیسے بہت سے مختلف موضوعات سے بحث کی ہے۔ عمومی طور پر یہ کتاب ان قارئین کے لیے  لکھی گئی ہے جو اپنے لڑکپن سے گذر رہے ہوں لیکن ہر عمر کے سائ-فائ و اسرار وآخرالزماں مطلق العنانی لٹریچر کےقدردانوں کے لیے یہ کتاب نہایت خوب انتخاب ہے۔ کیٹنس ایورڈین، اسکی ۱۲ سالہ بہن پرم، اس کی بیمار ماں، وفاق کا مطلق العنان حکمران صدر سنو، دیگر اضلاع کے مقابل کرداروں، انکی ہتھیاروں کی مہارت اور ساینسی ایجادات سے بھرپور یہ ناول جارج آرویل کی ۱۹۸۴ اور اینڈرز گیم کا اسرار انگیز امتزاج ہے۔ کچھ لوگ اسے بیٹل رویال نامی جاپانی ناول کا چربہ بھی قرار دیتے ہیں جو کہ ہمارے اس ناول کے محدود مطالعے کی بنا پر کافی حد تک درست لگتا ہے۔ آپ پڑھ کر بتایں کہ آپ کودی ہنگر گیمز کیسا لگا؟

Share

March 22, 2012

آور لیڈی آف ایلس بھٹی از محمد حنیف

Filed under: ادبیات,کتابیات — ابو عزام @ 12:02 am

محمد حنیف کے مکتبہ فکر سے تو ہمارا قطبین کا فاصلہ ٹھرا لیکن انکی ندرت خیال اور خوبی نثر کی تعریف نا کرنا ایک بڑی ادبی ناانصافی ہوگی۔ کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگوز کے بعد انکا تازہ ناول آور لیڈی آف ایلس بھٹی کل ہی ختم کیا اور امید ہے کہ ہماری یہ پیشن گوئ صحیح ثابت ہوگی کہ جلد ہی برصغیر کے انگریزی مصنفین میں انکا نام امیتابھ گھوش اور اروندھتی رائےکے پاے کا قرار دیا جاے گا۔ اس ناول کو ایک بار اٹھانے کے بعد رکھنے کو قطعی دل نہیں چاہتا، سسپنس کا برقرار رکھتے ہوے مصنف نے جس طرح کہانی کا تاروپود باندھا ہے وہ اپنی مثال آپ  ہے۔

محمد حنیف کو  تاریک طنز یا ڈارک کامیڈی پر خاص عبور حاصل ہے۔ وہ مھیب و موحش صورتحال کو اس پاے میں بیان کرتے ہیں کہ افسردگی کا وہ منظر آپ کی آنکھوں کے سامنے گھوم جاتا ہے اور لیکن اس طرح کہ اس کی سنگینی میں طنز و مزاح کے نشتر سے ناگفتنی سا شگاف پڑا ہو۔ آور لیڈی آف ایلس بھٹی ایک عیسائ نرس ایلس کی بپتا ہے جو فرنچ کالونی جسے آپ کراچی کی عیسی نگری کا متبادل سمجھ لیں، کی رہایشی ہے اور جیل سے باہر آنے کے بعد اپنی زندگی کو عام ڈگر پر لانے کے لیے روز شب محنت کرنے کو تیار۔ اسی دوران اس کی مدبھیڑ پولیس کے ایک مخبر اور سابق جونیر مسٹر فیصل آباد  ٹیڈی سے ہوجاتی اورمہر و ماہ کے اس ٹکراو سے کہانی کے ہمہ جہتی پہلو نکلنا شروع ہوجاتے ہیں۔ مصنف کو کردار سازی میں ملکہ حاصل ہے، ان کے زیادہ تر کردار یک رخی لیکن مضبوط ہوتے ہیں چاہے وہ جیل کا ساتھی نور ہو، ایلس کا باپ جوزف بھٹی ہو جو ‘مسلوں کی دعاوں’ سے السر کا علاج کرتا ہے،انکاونٹر اسپیشلسٹ انسپکٹر ملنگی ہو، سسٹر حنا علوی جیسی خرانٹ ہیڈ نرس ہو، ناٹ-ابوزر کا پراسرار کردار ہو  یا چریا وارڈ کے بے نام و نشان مریض، یہ تمام کردار ناول کے کینوس پر پھیلے نظر آتے ہیں، اس طرح کہ ان کے انفرادی رنگ نمایاں تو ہوں لیکن ان رنگوں کا یہ امتزاج ایک جاندار پلاٹ کی صورت میں قاری کو متجسس و منہمک رکھے۔

مصنف کے قرطاس پر منظر نگاری اور حالات و واقعات کے تانے بانے کچھ اسطرح بنے جاتے ہیں کہ قاری عش عش کر اٹھتا ہے ۔ ٹایم لاین کو اور لیپ کرنا یعنی حالات و واقعات کو متوازی چلاتے ہوے ایک نقطے پر مرکوز کرنا محمد حنیف صاحب کا اوج کمال ہے۔ آور لیڈی آف ایلس بھٹی ایک بہترین رولر کوسٹر کی طرح آپ کو بور نہیں ہونے دیتی،ہوسکتا ہے میری طرح آپ کو تین چوتھای ناول کے بعد انجام کی بھنک پڑ جاے لیکن سسپنس کا عنصر آخر تک باقی رہتا ہے۔ کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگوز کی طرح اس کتاب کا انجام بھی غیر روایتی اور کتاب کی طرح ہی آزاد از قیود و رسوم ہے، کیا ہیپی اینڈنگ اور رزمیہ اختتام کے علاوہ بھی کوئ اور انجام ہوتا ہے؟ یہ بات آپ کتاب پڑھ کر ہی جان پائیں گے۔

مصنف کی تحریر کی ایک بنیادی خوبی ناول میں تجسس و رومانویت کا مخفی عنصر ہے جس پر امتداد زمانہ کی گرد سے مہین جالے بن دیے جاتے ہیں لیکن یہ ابن صفی کی طرز کی تحریر نہیں۔ ان کا قلم طنز میں ڈوبا ہوا ایک نشتر ہے جسے وہ بے رحمی و سہل انگاری سے معاشرتی اقدار کی پردہ دری کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جیسے کہ میں کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگوزکے تبصرے میں کہ چکا ہوں، محمد حنیف کے لیے کوئ چیز مقدس گاے نہیں۔ معاشرتی اقدار پر طنز، اقلیتوں سے سلوک اور ان کی کمیونٹی کے مسائل، کراچی میں امن و امان کی سريع الزوال صورتحال، پادری و بشپ و محراب و منبر سے لے کر چوڑا چمار، ہر جہت پر ان کے قلم کی سیاہی اس طرح بلا تفریق چھینٹے اڑاتی ہے کہ دامن بچانا مشکل ہوتا ہے۔ اگر میں آپ سے یہ کہوں کہ یہ ناول ‘سیونگ فیس’، ‘اے سیپریشن’ اور ‘نیو ٹیسٹمنٹ’ کا امتزاج ہے تو یقین کریں یہ بلکل غلط نا ہوگا۔

رینڈم ہاوس انڈیا کا شائع کردہ تقریبا ڈھائ سو صفحات کا یہ ناول ایک جرمن خطاط کے خط سبون میں طبع ہوا ہے۔ ہمیں علم نہیں کہ پاکستان کے کسی پبلشر نے اسے شائع کرنا گوارا کیوں نہیں کیا۔اس کا انتساب حسن درس کے نام ہے۔ کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگوز میں حنیف صاحب نے اردو استعارات استعمال کرنے سے گریز کیا تھا، شاید مین بکر پرائز کی امید میں انہوں نے کسی قسم کا خطرہ لینا گورا نا کیا لیکن اس مرتبہ انہوں نے ناول کے حسب حال تراکیب کو اسطرح مستعمل رکھا ہے کہ کہیں زیادتی محسوس نہیں ہوتی اور خصوصا اہل زبان و مکاں کو خصوصی چٹخارہ مل جاتا ہے۔ تکنیکی طور پر ری ایکارپوریشن یا کردار کا اعادہ  ناول میں ایک مشکل اسلوب صنف ہے لیکن راقم کی راے میں مصنف کو کردار سازی میں ملکہ حاصل ہے مثلا ناٹ-ابوذر کے کردار کی ری کوپریشن ایک نہایت عمدہ اور غیر متوقع بات تھی جسے آپ ناول پڑھنے کے بعد ہی سراہ سکیں گے۔ یہ کتاب انگریزی ادب کے ہر قاری کے لیے ایک نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں جو پاکستان کے حالات سے شناسای رکھتا ہو۔

Share

March 10, 2012

جینٹلمین بسمہ اللہ از اشفاق حسین

Filed under: ادبیات,طنزومزاح,کتابیات — ابو عزام @ 8:54 pm

مزاح کے عہد یوسفی میں رہنے اور یوسفی پڑھ لینے کے بعد اکثر یہ بیماری لاحق ہو جاتی ہے کہ ایرے غیرے کسی مزاح نگار کو خاطر میں لانے کا قطعی دل نہیں چاہتا اور وہ بھی ایک سابق فوجی کو، بھلا فوج اور مزاح کا کیا ربط۔ لیکن  جینٹلمین بسمہ اللہ از اشفاق حسین اگر ادب کا کوئ شاہکار نہیں تو کوئ ایسی بری کتاب بھی نہیں۔ پاپ کورن فلم کی طرح اسے پاپ کورن کتاب قرار دیا جاسکتا ہے۔ہم نے اپنے کئ دوستوں کو آی ایس ایس بی کی امید میں جس لگن سے تیاری کرتے دیکھا، اکر وہ یہ کتاب پڑھ لیتے توشائد نتائج مختلف ہوتے۔

تو کچھ ایسا ہوا کہ ۵۲ ہفتوں میں ۵۲ کتابوں کے عہد میں ہم نے دو چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں کر لیں۔ ایک تو یہ کہ فصوص الحکم کو ایک ہفتے کے بجائے ابھی تک پڑھ رہے ہیں کہ یہ متن کا تقاضہ ہے نیز کیرن ٓآرمسٹرانگ کی کتاب کی جگہ ہم نے فائنمین کی کتاب اور اگاتھا کرسٹی کی جگہ جینٹلمین بسم اللہ پڑھ لی۔  جینٹلمین بسم اللہ چھوٹی سی کتاب ہے اور روانی سے جلد ہی پڑھی جاسکتی ہے۔ آدھی کتاب بعد از عشا ختم کی اور پھر فجر کے بعد ناشتے سے پہلے بقایا، لہذا اگر نیند کا وقفہ نکال دیں تو ایک نشست میں ختم کی جا سکتی ہے۔

تقریبا دو سو صفحات کی اس کتاب کو کرنل اشفاق حسین کی ابتدای فوجی سوانح  عمری قرار دیا جا سکتا ہے۔  یہ کتاب کوی ادبی شاہکار نہیں اور نا ہی اس میں مزاح کی کوی  ندرت خیال کا عنصر شامل ہے۔ جینٹلمین بسمہ اللہ میں سولہ عدد مضامین شامل ہیں جن کے نام بالترتیب باعث تحریرآنکہ،  پہلی ملاقات۔ بورڈ یاترا، آغاز سفر… انجام تمنّا، ذائقوں کا ورثہ، گردش وقت یہاں آن کر تھم جاتی ہے، لہو گرم رکھنے کے سو سو بہانے، آنچل کے سایوں سے پیڑوں کی چھاؤں تک ،دل مردہ دل نہیں ہے ،جنٹلمین!بسم الله!!، آداب فلم بینی، معمولات کیڈٹ، یہ تھے ہمارے اساتذہ کرام، دکھوں کے ساجھی، ہوا بردوش، اڑنے نہ پائے تھے کہ اور  تھینک یو! الله میاں ہیں۔

کتاب کی جلد پر اشفاق حسین صاحب کا تعارف کچھ یوں ہے کہ انکا تعلق لاہور سے ہے. پنجاب یونیورسٹی سے صحافت اور انگریزی ادب میں ایم اے کرنے کے علاوہ وہ انٹرنیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجیز  سے عربی میں ایڈوانس لیول انٹر پریٹر شپ کے ڈپلومہ ہولڈر ہیں. تقریباً ۲۹ سال پاک فوج سے وابستہ رہے اور مختلف حیثیتوں میں، مختلف فارمیشنز اور آئی ایس پی آر میں تعینات رہے. کالج آف آرمی ایجوکیشن، اپرٹوپہ اور ملٹری کالج جہلم میں تدریسی فرائض انجام دینے کے علاوہ وہ سعودی عرب میں بطور مترجم بھی تعینات رہے. ٢٠٠٢ء میں انٹر پبلک ریلیشنز کے ڈپٹی ڈائریکٹر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے. جناب والا سات عدد کتابیں لکھ چکے ہیں. جن میں طنزومزاح کی شگفتہ کتابیں،جنٹلمین بسم اللہ جنٹلمین الحمدالله، جنٹلمین الله الله اور جنٹلمین سبحان الله شامل ہیں. ان کی کتابوں کے اب تک پینسٹھ سے زائد ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ آئی ایس  پی آر میں رہتے ہوئے، انہوں نے فوج کے لئے مختلف دستاویزی فلمیں اور فوجی زندگی پر ڈرامے تیار کئے. اٹلی میں ہر سال ہونے والی مسلح افواج کی دستاویزی فلموں کی نمائش میں ان کی تین دستاویزی فلموں کو بین الاقوامی انعامات سے نوازا گیا. میجر شبّیر شریف شہید پر ان کی کتاب “فاتح سبونہ” پر مبنی طویل دورانیے کا ایک کھیل پروڈکشن کے آخری مراحل میں ہے.

اس کتاب کا ایک اقتباس مندرجہ زیل ہے۔

دل مردہ دل نہیں ہے …..

دوسرے روز اکیڈمی پہنچے. بسوں سے اتر کر ہمارا ارادہ سیدھا کمروں کی جانب جانے کا تھا.لیکن بسوں کو گھیر رکھا تھا انسٹرکروں نے. نیچے اترتے ہی انہوں نے ہمیں فالن کیا اور لیفٹ رائٹ لیفٹ رائٹ کراتے ہوئے سیدھا ڈرل سکیئر میں لے گئے. تمام سامان پشت پر لدا ہوا تھا. تھکن سے ہم لڑکھڑائے جاتے تھے لیکن اسٹاف تھے کہ چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھاۓ ہوئے تھے”صاب بازو پورا ہلائیں” “گھٹنا بیلٹ لیول تک اٹھائیں”. ہم حیران ہو کر کبھی اپنے بازوؤں کو دیکھتے اور کبھی پریشن ہو کر صوبیدار میجر کی طرف ک ڈرل کروانے کا نشہ یہ کسی اور وقت پورا نہیں کر سکتے؟ خدا خدا کر کے ڈرل سے جن چھوٹی لیکن کمروں میں جانے کی اجازت اب بھی نہیں تھی.حکم لگا کہ پہلے رائفلوں کی صفائی ہوگی. فوجی کی زندگی میں اس بات کو ایمان کا درجہ حاصل ہے کہ وہ خود کتنا ہی خستہ کیوں نہ ہو اس کا ہتھیار ہر وقت تروتازہ رہنا چاہیے. رائفلوں کی صفائی کر کے کمروں میں پہنچے تو ہمیں بستروں سے دور رکھنے کا ایک اور بہانہ بتایا گیا. یہ دلچسپ بھی تھا اور کامیاب بھی.

سینئروں نے بتایا کہ پرموک مشق کے اختتام کی روایت ہے کہ تمام سینئر کیڈٹ چند گھنٹوں کے لیے خود کو جونیئر قرار دیتے ہیں اور جونیئر کیڈٹوں کو اختیار ہوتا ہے کہ ان سے جو چاہیں سلوک کریں.اعلان کیا گیا کہ تمام سینئر کیڈٹ شام سات بجے تک جونیئر رہیں گے. یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح تمام جونیئر کیڈٹوں میں پھیل گئی.بس پھر کیا تھا کسی کو یاد نہ رہا کہ گزشتہ پانچ دنوں کی صحرا نوروی نے پیروں میں ابلے ڈال رکھے ہیں نیندیں حرام ہونے سے آنکھیں غبار آلودہ ہیں. بستر کو مسکن بنایا جاۓ.بس ایک ہی دھن سوار تھی کہ اس مختصر سی مہلت میں سینئر کیڈٹوں کو ہر اس سلوک سے نواز دیا جاۓ جو انہوں نے ہم پر روا رکھا تھا.

ایک کمپنی کا کیڈٹ سی ایس ایم(کمپنی سارجنٹ میجر) ہاتھ آگیا. موصوف کمپنی میں ڈسپلن قائم رکھنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں. ظاہر ہے بلحاظ عہدہ ان کی زبان میں تھوڑی سی ترشی ضروری ہے. اور آنکھ میں سرخ ڈوروں کا ہونا معمولی بات. لیکن یہاں معاملہ یہ نہیں تھا کہ وہ اپنی حرکتوں میں حق بجانب تھے یا نہیں ‘ان کا قصور یہ تھا کہ وہ ان سینئروں میں شامل تھے جنھیں آج جوںیئر قرار دے دیا گیا تھا. کسی کو یاد نہ رہا کہ چند گھنٹوں بعد انہیں پھر سی ایس ایم کے روپ میں آجانا ہے.

جونیئر کیڈٹوں نے درزی کے تعاون سے کچھ رنگین کپڑے ادھار منگواۓ. سی ایس ایم کو پہناۓ گۓ. رخساروں پر غازہ’ ہونٹوں پر سرخی اور آنکھوں میں کاجل اتارا گیا.اور پھر آنکھوں پر عینکیں چڑھا انہیں کمپنی میں گھمایا گیا. اس سری تیاری کے دوران ایک شور تھا کہ کانوں کے پردے پھاڑ ڈالتا تھا. جونیئرکیڈٹ امڈے چلے آتے تھے.کوئی اس “نازنین” کے آٹوگراف لینے کو ٹوٹا پڑتا تھا، کوئی اس سے شام کی کسی حسین ساعت میں مونا لیزا ریسٹورنٹ میں ملنے کا وعدہ لینے پر بضد تھا. کوئی اس کے لیے “جھانجھراں” منگا دینے کو تیار تھا بشرطیکہ وہ “ہاں” کر لے اور کوئی اس کے مربعوں پر منشی ہو جانے کو زندگی کی آخری خواہش قرار دے رہا تھا. بیچاری دوشیزہ ٹکر ٹکر کبھی اس مضطرب کو دیکھتی جو چیخ چیخ کر اپنی وفاؤں کا یقین دلا رہا تھا تو کبھی اس مرغ بسمل کو’ کہ اس کے قدموں میں لوٹا جاتا تھا اور پکار پکار کر کہتا تھا…

 اکیلے نہ جانا’ ہمیں چور کر تم

 تمہارے بنا ہم’ بھلا کیا جئیں گے

باقی سینئر کیڈٹوں کے حلیے تو بدلتے رہے لیکن سی ایس ایم کی دوشیزگی کو آخر وقت تک برقرار رکھا گیا.

Share

March 4, 2012

آپ کیوں پروا کریں ہیں کہ لوگ کیا سوچتے ہیں” از رچرڈ فائنمن”

Filed under: ادبیات,تحقیق,کتابیات — ابو عزام @ 11:57 am

 ہفتوں میں ۵۲ کتابیں  پڑھنے کا جو بار گراں ہم نے اٹھایا تھا اس کو پورا کرنے کی ایک ہی صورت نظر آتی ہے کہ کتب ہاے مطالعہ مختلف اشکال میں ہر وقت موجود رہیں،  یعنی صوتی، برقی   اور ورقی۔ اسی طرح سے ہم اینڈرز گیم بھی ختم کرنے میں کامیاب ہوئے تھے کہ جہاں سے ورقی کتاب کا تعطل ٹوٹا، وہاں سے دوران سفر سیارہ صوتی کتب پر منتقل کیا اور جب کتاب تک دسترس نا رہی تو کنڈل نکال لیا ۔ اب نوبل انعام یافتہ ڈاکٹررچرڈ فائنمن” کی کتاب  “آپ کیوں پروا کریں ہیں کہ لوگ کیا سوچتے ہیں” کا مطالعہ بھی کچھ اسی طرح ختم ہوا۔

رچرڈ فائنمن کا شمار دور جدید کی طبعیات کے موجدین میں کیا جاتا ہے خصوصا کوانٹم کمپیوٹنگ پر انکا کام سیمینری یا مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کتاب کو پڑھنے سے پیشتر “آپ یقینا مزاق کر رہے ہیں مسٹر فائنمن” پڑھ لیں تو بہت بہتر ہوگا کیونکہ آپ کیوں پروا کریں ہیں کہ لوگ کیا سوچتے ہیں” از رچرڈ فائنمن” میں اس پچھلی کتاب کے کئی حوالہ جات استعمال کئے گئے ہیں ۔مزاح، سائنسی تراکیب اور سوانح پر مبنی  یہ کتاب بنیادی طور پر دو حصوں پر مشتمل ہے، پہلا حصہ جہاں   ڈاکٹرفائنمن اپنے مخصوص مزاحیہ انداز میں زندگی میں پیش آنے والے مختلف مشاہدات پر بات کرتے نظر آتے ہیں اور دوسرا حصہ خلائ جہاز چیلینجر کی تباہی کے اسباب کی تلاش میں بننے والے کمیشن کی رپورٹ اور اس کے دوران فائنمن کو پیش آنے والے مختلف واقعات پر مشتمل ہے۔ اس دوسرے حصے میں خصوصی طور پر ایک سائنسدان کی حکومت کی افسر شاہی کے طور طریقوں پر تنقید  قابل  مطالعہ ہے۔ یہ کہنا کچھ غلط نا ہوگا کہ یہ کتاب ڈاکٹر فائنمن کی پہلی کتاب کے مقابلے میں کم دلچسپ ہے اور اسکی بنیادی وجہ اسی رپورٹ کی شمولیت ہے۔ نیز اس میں دوسروں کے کچھ خطوط بھی شامل کر دئے گئے ہیں جو فائنمین کے طریقہ تصنیف سے میل نہیں کھاتے۔ لیکن اس کتاب کے آخر میں موجود ایک مضمون جو کہ سائنسدانوں کے سماجی  رجحانات یا “ویلیو آف سائنس” کے موضوع پر لکھا گیا ہے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔

رچرڈ فائنمن کا کسی چیز کو سمجھانے کا انداز بہت سہل انگیز ہے۔ ان کا نظریہ تھا کہ آسان طریقہ اپنانے سے جو نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں اس کو زبردستی مشکل بنا کر پیش کرنا، صرف اس لئے کہ وہ دقیق لگنے کی وجہ سے اہم لگے، سائنس کی بنیادی تعلیمات کے خلاف ہے۔ اس کتاب میں فائنمن نے اپنے اسی نظریے کو  خلائ جہاز چیلینجر کی تباہی کے اسباب کی تلاش میں  استعمال کیا  ہے۔اس کتاب کی ابتدا انکی منگیتر آیرین کے ٹی بی میں مبتلا ہونے اور خاندان کی مخالفت کےباوجود فائنمن کی اپنی لڑکپن کی محبت سے شادی سے ہوتی ہے۔فائنمین کے والد کا کہنا تھا کہ کسی فرد کی ناکامی کا سبب تلاش کرنا ہو تو عورت کو تلاش کرو، لیکن فائنمین نے ان کا کہا غلط ثابت کر دکھایا۔ اس وقت فائنمن پرنسٹن میں پی ایچ ڈی کے طالبعلم تھے اور نہایت کسمپرسی کی زندگی گذار رہے تھے۔ اس عظیم سائنسدان نے اپنے  ہوٹل میں ٹھرنے کے پیسے نا ہونے کی وجہ سے سردی میں  کچرے کے ڈھیر پر سونے کی داستان اتنے آرام سے بیان کی   جیسے یہ کوئ خاص واقعہ ہی نا ہو۔ اس کے بعد فائنمن کامینہٹن پراجیکٹ پر کام، ، کچھ نسوانی حقوق کے علمبرداروں کا انہیں خواتین کو طبعیات کی ایک مثال میں تیز گاڑی چلانے کے لئے استعمال کرنے پر لعن طعن کرنا، فائنمن کا سستا ہوٹل تلاش کرنے کے طریقوں کا بیان وغیرہ شامل ہیں۔ اس کتاب کو پڑھنے سے پتا  چلتا ہے کہ ایک عظیم سائنسدان اور اس صدی کے ذہین ترین افراد میں سے ایک فرد عام زندگی میں ہمارے اور آپ کے جیسا ایک انسان ہوتا ہے جو ہماری طرح غلطیاں کرتا ہے اور ان سے سیکھتے ہوے ایسے کام کر گذرتا ہے کہ دنیا اسے طویل عرصے تک یاد رکھتی ہے۔ فائنمن اس کتاب میں ہمیں بتاتے ہیں کہ ایک سائنسدان جب سماجی و معاشرتی چیزوں پر بات کرتا ہے تو وہ اس بارے میں اتنا ہی غلط ہوتا ہے جتنا کہ کوئ عام آدمی، کیونکہ سماجی ومعاشرتی مسائل کا کوئ سائنسی پیمانا نہیں ہوتا، اس لئے اس پر سائنسی طریقہ کار کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔

فائنمین کو بچوں سے خصوصی لگاو تھا۔ وہ لکھتے ہیں کہ سائنسی تجسس بچپن سے بیدار کرنے کی چیز ہے۔ اگر کوئی بچہ کسی سائنسی مسئلے کو عام حالات میں مشاہدے کی بنیاد پر دلچسپ سمجھتا ہے تو جان لیں کہ وہ ایک سائنسدان بننے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔کتاب میں لکھے گئے ایک واقعے کے مطابق انہوں نے ایک بچے کو لاامتناہیت کا نظریہ سمجھاتے ہوے کہا کہ تم مجھے کوئ بھی عدد بتاو، میں تمہیں اس سے تین گنا بڑا عدد بتاتا ہوں اور اس طرح سے کھیل کھیل میں مختلف مثالوں سے اس بچے کو لاامتناہی اعداد کے مشکل نظریے سے روشناس کرایا۔  ایک ملحد ہونے کے باوجود فائنمن کا وجود خداوندی، مذہب اور سائنس کے تقابل کے بارے میں رویہ و طریقہ کار آج کل کےملحدین کے لئے مشعل راہ ہے۔  اگناسٹک اور ایتہیسٹ کے درمیان اگر آپ  کو فرق معلوم کرنا ہو تو فائنمین کے لیکچرز کا مطالعہ مفید ہے۔ بڑی آسان زبان میں وہ مذہب و سائنس کا فرق بیان کرتے ہوے کہتے ہیں

طریق مذہب، ایمان۔ طریق سائنس، تشکیک

انکا سفر جاپان اور شاہی خاندان سے تعارو ، نوبل انعام کے وقت بادشاہ سے ملاقات اور انکی بے وقوفانہ حرکات کا بیان نہایت دلچسپ ہے جس میں انہوں نے بادشاہ سے ملانے کے لئے ہاتھ بڑھا دیا جو کہ روایات و آداب کے سخت خلاف ہے۔ اس کتاب میں فائنمین کے  بارے میں لکھے کچھ خطوط اور ان کےاپنے لکھے ہوئے چند خطوط جن میں وارسا سے لکھا گیا ایک خط شامل ہے لائق مطالعہ ہیں۔ فائنمین  کے کردار کی خاص بات تشکیک کو خصوصی اہمیت   دینا اور اتھارٹی پر عدم اطمینان رکھنا ہے جو کہ ان کی تحاریر میں  بدرجہ اتم ملتا ہے۔  صاحب کتاب کی تعریف میں کیا کہوں، ان کی دوسری اہلیہ کے نے اپنی طلاق  کی درخواست میں وجہ علیہدگی پر لکھا

 یہ صاحب صبح اٹھتے ہی کیلکلس کے مسائل پر سوچنا شروع کر دیتے ہیں۔ پھر گاڑی چلاتے وقت بھی یہی کرتے ہیں اور کمرے میں بیٹھ کر بھی، اور رات کو بستر پر لیٹ کر بھی کیلکلس کے مسائل پر ہی غورو فکر کرتے ہیں

Share

February 24, 2012

کولیٹز کنجیکچر، ابن عربی اور وحدت الوجود

Filed under: ادبیات,تحقیق,طنزومزاح — ابو عزام @ 1:09 am

مطالعہ کتب ہاے مقالہ جات و فصوص الحکم از ابن عربی و متحرک الگارتھمز کی روز و شب تفکیر سے درج زیل تھیورم عدم سے وجود میں آیا ۔ شائد ادراک محاورہ جات اہل تصوف و حسابی تکنیکی استعداد کے بغیر استفادہ ممکن نا ہو۔

اس امر کلی موجود خارجی کا وجود ترتیب اثر میں محتاج ہے اور  موجود خارجی امر کلی کا تعقل و فہم میں محتاج ہے۔ اسی بنا پراسرار خودی میں پیہم ہے کہ دوی کے مماثل  کو بریدہ علی النصف کرو

f(n) = n/2

 اور تثلیث پر اضافہ واحد کہ یہ ممتنع بالذات و ممکن بالذات بنا اور یہی اس کا اقتضا ہے

f(n) = 3n + 1

 اب ہر شے کا ٹھکانا عددی برتری سے سوا وحدت یکتا ہی ہے کہ ہر عدد کا مقصود و مطلوب واحد

۱

۱

۲

۲, ۱

۳

۳, ۵, ۸, ۴, ۲, ۱

۴

۴, ۲, ۱

۵

۵, ۸, ۴, ۲, ۱

۶

۶, ۳, ۵, ۸, ۴, ۲, ۱

۷

۷, ۱۱, ۱۷, ۲۶, ۱۳, ۲۰, ۱۰, ۵, ۸, ۴, ۲, ۱
فقیر عدد بڑھا اور ترتیب اعیان میں ظہور دیکھ،

۱۳ -> ۴۰ -> ۲۰ -> ۱۰ -> ۵ -> ۱۶ -> ۸ -> ۴ -> ۲ -> ۱

تیری بساط کیا ہے کہ موجودات خارجہ سے ذوات واعمان خارجیہ ہیں، واحد ہی واحد ہے۔

 ۶, ۳, ۱۰, ۵, ۱۶, ۸, ۴, ۲, ۱.

۱۱, ۳۴, ۱۷, ۵۲, ۲۶, ۱۳, ۴۰, ۲۰, ۱۰, ۵, ۱۶, ۸, ۴, ۲, ۱

اس کلیے میں میں نے صرف ان حکمتوں پر اقتصار و انحصار کیا ہے جو فصوص علمیہ و یادگیری مشین و واستخراج البيانات پر مبنی و محدود و متعین ہیں۔ جو مقدر تھا اس کی بجاآوری کی اور جو حد معین تھی وہیں ٹہر گیا۔ اگر میں اثبات قضیه  چاہتا بھی تو اس کی استطاعت و طاقت نہ ہوتی کیونکہ اس وقت عالم کا اقتضا مانع ہوتا ہے۔

Share

February 20, 2012

اینڈرز گیم از اورسن اسکاٹ کارڈ

Filed under: ادبیات,کتابیات — ابو عزام @ 6:49 am

سائنس فکشن پڑھنے والوں کے لیے  اورسن اسکاٹ کارڈ اور اس کی مشہور زمانہ کتاب اینڈرز گیم  کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ ۱۹۸۵ میں چھپنے والی اس تین سو سے زیادہ صفحات پر مشتمل کتاب اینڈرز گیم کو ساینس فکشن کے بہت سے مشہور انعامات و اعزازات سے نوازا جا چکا ہے اور اس کے کئی لاحقات یا سیکول بھی چھپ چکے ہیں۔ ۲۰۱۳ میں اس کتاب پر مبنی ایک فلم بھی ریلیز ہونے والی ہے۔  میں نے یہ کتاب ایک دوست کی فرمائش پر حال ہی میں ختم کی، نہایت دلچسپ کہانی اور مصنف کے  انداز تحریر نے  محسور کیے رکھا۔

یہ کتاب مستقبل کے ایک چھ سالہ نہایت ذہین و فطین بچے اینڈر وگینس  کے بارے میں ہے جو کہ ایک جنیاتی تجربے کا نتیجہ ہے  اور انسانی نسل کی بقا کا دارومدار اس کی ذہانت پر منحصر ہے کہ وہ کس طرح سے خلای مخلوق ‘بگرز’ کو شکست دینے میں کامیاب ہوتا ہے۔ اس سے پہلے دو مرتبہ بگرز نے انسانوں پر حملہ کر کے ہزاروں لوگوں کو تہ تیغ کردیا تھا اور ایک بہادر کمانڈر میزر ریکم نے بالاخر ان کو مار بھگایا۔ اب اس کے ۷۰ سال بعد تیسری جنگ عظیم کی تیاریاں عروج پر ہیں جس کی قیادت کے لیے اینڈر    وگینس کو تیار کیا جا رہاہے۔کیا اینڈراس مشن میں کامیاب ہو سکے گا اور کیا جنگ کی یہ تیاریاں اس نوعمر بچے کی نفسیاتی و ذہنی نشونما پر کیا اثر کریں گی؟ اس کتاب کے دیگر دو اہم کردار اینڈر وگنز کے بھائ اور بہن ہیں جو اسی کی طرح  نہایت ذہین ہیں اور کم عمری میں زمین پر انقلابات کی تیاروں میں مصروف جب کہ اینڈر  بگرز کے خلاف مصروف کار ہے۔ اسکا۱۲ سالہ بھائ پیٹر مماثل ہٹلر طاقت اور حکومت کا خواہشمند ہے جبکہ ۱۰ سالہ بہن ویلنٹاین نوع انسانی کی بہتری اور امن و امان کی داعی۔ اس پلاٹ کے مختلف کرداروں کے درمیان مصنف نے جس طرح سے دلچسپی کا سماں باندھا ہے  وہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

ساینس فکشن کے بیشتر مصنفین کی طرح اورسن اسکاٹ کارڈ کی سوچ بھی نہایت وسیع اور مستقبل بین ہے۔ ۱۹۸۵ کی اس کتاب میں آپ کو انٹرنیٹ اپنی تمام تر جلوہ گریوں کے ساتھ نظر آتا ہے۔ آی پیڈ کی میزیں، ڈیجیٹل جمہوریت، وارسا پیکٹ اور روسی خطرات،مستقبل کی جنگی مشقیں، کشش ثقل کے بغیر خلای اسٹیشن پر زندگی اور زمان و مکاں کی نئی تبدیلیاں قاری کو اپنے جال میں جکڑے رکھتی ہیں، غرضیکہ یہ کتاب  ساینس فکشن پسند کرنے والوں کے لیے  ہمہ جہتی دلچسپیوں کا سامان ہے۔

Share

February 7, 2012

ذکرامیرمینائی – تیسرا اور آخری حصہ

Filed under: ادبیات,کتابیات — ابو عزام @ 3:00 am

حصہ اول حصہ دوم

امیر مینائی کی دوسری نہایت ہی اہم ادبی خدمت امیراللغات کی ترتیب و تالیف ہے اس بارے میں ان کا اپنا بیان ملاحظہ فرمائیے.”جب سے ہوش سنبھالا ، آنکھیں کھولیں تو یہ دیکھا کہ اچھے اچھے اہل زبان اور زباندان سر زمین سخن کے فرمانروا ہیں.انہیں کی صحبتوں میں اردو زبان کی چھان بین کا شوق مجھے بھی ہوا.اسی زمانے میں آرزو ہوئیاور بڑھ کر بے چین کرنے لگی کہ اردو زبان کے بکھرے ہوئے موتیوں کی ایک خوشنما لڑی بناؤں.اتنے میں لکھنؤ   کی سلطنت مٹ گئی وطن کی تباہی اور گھر بار لٹنے سے چندے حواس ہی نہ جمع ہو سکے.الفاظ کیسے؟لیکن آرزو کی آگ دل میں سلگتی رہی یہاں تک کے فردوس مکاں نواب یوسف الی خاں وائی رام پور نے مجھے بلا کر اطمینان کا سایہ دیا.اتنی فرصت تو نہ پا سکا کہ اپنے ارادے کو پورا کر سکوں تا ہم کچھ کچھ شغل چلتا گیا.١٨٨٤ء میں سر الفرڈ لائل صاحب بہادر، لیفٹنٹ گورنر مغربی و شمالی اور چیف کمشنر اودھ نے اردو کے ایک جامع لغت کی فرمائش کی.نواب خلد آشیاں نے مجھے حکم دیا.یہاں تو تمنا ہی تھی…..”

افسوس کہ یہ کام مکمل نہ ہو سکا کیونکہ نواب خلد آشیاں مرض الموت میں مبتلا ہو کر رحلت فرما گئے اور الفرڈ لائل بھی انہی دنوں ہندوستان کو خیر باد کہہ گئے اس پر تاسف کرتے ہوئے امیر مینائی فرماتے ہیں:

“اردو کی قسمت میں ہی یہ بداہے کہ سنورنے نہ پاۓ.میں اسے کیا کروں اور کوئی کیا کرے”

اس کے باوجود امیر مینائی نے مختلف شہروں کے دورے کیے.ہر جگہ لوگوں نے ہمت افزائی کی اور لغت مرتب کرنے کی”تمنا کوشہ دی”انہوں نے رام پور میں امیراللغات کا دفتر قائم کیا اور محنت ویکسوئی سے تالیف لغت میں منہمک ہو گۓ.

امیر مینائی ایک نہایت ہی بلند پایہ شاعر تھے.داغ نے جن شوخیوں اوراکثر اوقات غیر شائستہ تراکیب کو رواج دیا ان سے امیر مینائی نے ہر ممکن طریقے سے بچنے کی کوشش کی.داغ امیر کی اس شائستگی کے قائل تھے اور انہوں نے کبھی اس باب میں کوئی اعتراض بھی نہیں کیا.نیاز فتح پوری نے ایک خط میں تقریبًا اسی نکتے کو چھیڑَا  ہے فرماتے ہیں.امیروداغ کے موازنے کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ہے۔ کیونکہ دونوں میں شمال و جنوب کی نسبت ہے.لیکن صنم خانہ عشق لکھ کر امیر نےخواہ مخواہ ایک عذاب مول لیا ہے.اسی لیے کہہ ان کے شایان شان نہ تھا اور دوسروں کے لیے بھی کہ ان کو داغ کی سطح پر گفتگو کرنا پڑتی ہے.”

آگے چل کر اسی خط میں نیاز لکھتے ہیں”امیر شاعر تھے اس میں کلام نہیں لیکن آپ کو معلوم نہیں شاعر دو قسم کے ہوتے ہیں.وہبی واکتسابی.میں نے یہ تقسیم اور طرح کی ہے مطلق شاعر اور شاعر با لقوت.یعنی ایک وہ جو سواۓشعر کہنے کے اور کسی کام کا نہیں، یعنی شعر نہ کہے گا تو کرےگا کیا.اور دوسرا وہ جو دوسری تمام انسانی اہلیتوں کے ساتھ شعر گوئی کی بھی اہلیت رکھتا ہے.سو ظاہر ہے کے جہاں تک محض شعر کا تعلق ہے امیر کو داغ سے کوئی نسبت نہیں.داغ صرف شاعر تھے اور کچھ نہیں.امیر سب کچھ تھے مگر وہبی شاعر نہیں.داغ کا سرمایہ ہستی اسکی شاعری تھی اور امیر کے لیے یہ امر باعث فخر و ناز نہ تھا.داغ نے تمام عمراسی ماحول میں بسر کردی جو گوشت پوست کے متعلق ہونے والی شاعری کے لیے ضروری ہے اور امیر کو نماز پنجگانہ اور تہجد گزاری سے کہاں فرصت تھی جو اس طرف توجہ کرتے.

 “ہر چند مراۃ الغیب(امیر کا دیوان اول)کی شاعری بھی صرف اسیر کی سی شاعری ہے جس میں جذبات وغیرہ سے بہت کم سروکار ہے لیکن خیر ایک مخصوص رنگ اس زمانے کا ہے جو اچھا نہیں تو برا بھی نہیں ہے لیکن”صنم خانہ عشق”لکھ کر انہوں نے کمال ہی کر دیا.غضب خدا کا امیر ایسا شخص اور عامیانہ جذبات نگاری میں اس سطح تک اتر آئے کہ،

رخسار نازک ہوں تو آج ایک مانوں گا نہ میں

دو بوسے لوں گا جان من اک اسطرف اک اسطرف

“امیر ایسے سنجیدہ و متقی شخص کی طرف سے ہم یہ سب گوارہ نہیں کر سکتے.البتہ ایک بات میری سمجھ میں اب تک نہ آئ کہ وہ ہی امیر جو مرات الغیب میں یکسر بے آب و رنگ نظر آتے ہیں اور صنم خانہ عشق میں شرمناک حد تک عریاں ……کیونکر لکھنؤ پہنچ کر دفعتاً دہلی کی فضاؤں میں پہنچ گئے.لکھتے ہیں.

         ” کچھ آج نہیں رنگ یہ افسردہ دلی کا

            مدت سے یہی حال ہے یاور مرے جی کا

              کھاتے ہو قسم نہیں میں عشق

             صورت تو امیر اپنی دیکھو

              اک کنارے پڑاہوا ہے امیر

             کچھ تمہارا غریب لیتا ہے

         کوئی امیر ترا درد دل سنے کیونکر

              کہ ایک بات کہے اور دو گھڑی روۓ”

حیران ہوں کہ جس میں ایسے اشعار کہنے کی اہلیت ہو وو اپنے نام سے “مراۃ الغیب” اور “صنم خانہ عشق کی نسبت گوارہ کرے.”

                           (سالنامہ نگار پاکستان)مکتوبات نیاز نمبر دسمبر ١٩٨٥ء

امیرمینائی کے بارے میں نیاز کے استعجاب کی بنا پر کئی باتیں ذہن میں آتی ہیں.کچھ رنگ زمانہ ، کچھ شوخی احباب اور کچھ محض تفنن طبع،ان سب کا اثر ان پر ہوا ہوگا اور چونکہ بقول نیاز امیر مینائی محض شاعر ہی نہ تھے بلکہ اور بھی بہت کچھ تھے اس لیے بطور تفریح اوقات انہوں نے معاصرین کے رنگ میں کچھ کہا ہو.اس بارے میں سرراہے گفتگو کے نتیجے میں خلیق ابراہیم خلیق نے جو خود بھی دبستان لکھنؤ کے بہت ہی موقر مؤد رہے ہیں ایک ذاتی خط میں تحریر فرمایا.

“داغ اور امیر جس معاشرے سے تعلق رکھتے تھے اس میں اور اس سے پہلے کے معاشروں میں جنسی خواہشات و واردات کا برملا کھلم کھلا اظہارعمومی طور پر معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا.علماءومشائخ بھی فطری میلانات کو رد نہیں کرتے تھے اور حسرت موہانی کی زبان میں “زہد کی عصیاں نظری “عام تھی خواجہ میر درد جیسا صوفی صافی شاعر بھی اس سے مبرا نہیں تھا.ان کا شمار بھی حسرت موہانی کے نقطۂ نظر کے مطابق گنہگاران صالح میں ہو گا.وہ ذرا سنبھل کر چلتے تھے جبکہ دوسرے کچھ زیادہ ہی ترنگ میں آجاتے تو ابتدال کی حدیں پار کر جاتے تھے.مومن جیسا متشرع بھی اپنی مثنویوں میں کھل کھیلا ہے..رہی ابتدال کی بات تو تقریباً سبھی اس سے آلودہ تھے.کسی کے ہاں مبتذل اشعار کی خاصی تعداد ہے کسی کے ہاں کم،کسی کے ہاں بہت ہی کم  یا نہ ہونے کے برابر ہے.ہمارے منافقانہ معاشرے میں حسرت موہانی،ان کے ہمنوا ترقی پسندوں اور دوسرے وسیع النظر اور کشادہ دل لوگوں کے علاوہ بیشتر علماء و مشائخ اور نقادانہ ادب میں شوخی طبع یا شئے لطیف کا فقدان اور ہوس کا وفور ہے…”

بعض محققین اور تزکرہ نگاروں نے امیر و داغ کا ذکر اس طرح کیا ہے گویا دونوں ایک دوسرے کے رقیب تھے یا دونوں کے شاگرد اور طرف دار انیسیوں اور دبیریوں کی طرح ہر وقت لاٹھی پونگے پر آمادہ رہتے تھے.اس باب میں نیاز کا یہ جملہ کہ”امیر کو داغ سے کوئی نسبت نہیں ہے”خاصا قابل غور اور لحاظ ہے.امیر احمد علوی نے طرہ امیر میں اکثر جگہوں پر امیر اور داغ کے طرز ادا پر تبصرہ سا کیا ہے لیکن انہوں نے ایک دوسرے کی برتری ثابت کرنے کی کوشش نہیں کی ہے.نقوش کے ادبی معرکے میں کہیں امیر و داغ  کی معاصرانہ چشمکوں کا ذکر نہیں ہے ہاں ڈاکٹر نور الحسن ہاشمی نے ایک جگہ دونوں کو حریف و مقابل کی حیثیت سے پیش کرنا چاہا ہے انہوں نے ایسی محافل کا ذکر بھی کیا ہے جہاں داغ کے تلامذہ امیر کے فن یا ان کے قدردانوں کی ٹوپی اچھالنے پر آمادہ نظر آتے ہیں لیکن اس بارے میں خاصی چن بین کے باوجود دوسری کسی جگہ کوئی ثبوت نہیں ملتا ہے خود امیر مینائی انتہائی شریف النفس  تھے اس بارے میں ان کے ایک خط کا حوالہ کافی ہوگا.امیر مینائی اور داغ میں بہت بے تکلفی تھی اس لیے داغ کے ایک خط کے جواب میں لکھتے ہیں:

“مدت کے بعد نوازش نامہ آیا.ممنون یاد آوری فرمایا.بندہ نواز مجھے یاد نہیں ہے کہ میں نے کسی خط کا جواب قلم انداز کیا ہو.یہ میرے مقدر کی نہ رسائی ہے کہ کوئی خط نہ پہنچا ہو.”

داغ نے نظام دکن سے سفارش کی تھی کے امیر مینائی کو سلطان الاساتذہ کا خطاب مرحمت فرمایا جاۓ.یہ ذکر جب امیر کے نام ایک خط میں آیا تو حضرت امیر مینائی نے لکھا-….اول تو میں خطاب لینے کے قابل ہی اپنے آپ کو نہیں سمجھتا ہوں اور پھر درخواست دے کر خطاب مانگنا تو بلکل پسند نہیں……میاں اب وقت آگیا ہے کے مرحوم کے خطاب بارگاہ شہنشاہ حقیقی سے عطا ہو.اور کوئی حوصلہ نہیں…امیر فقیر.”

یہ خط ٣١ مارچ ١٨٩٠ء کو مرزا داغ کو دکن بھیجا گیا.ان دنوں امیر مینائی رام پور میں تھے اس کے کئی برس بعد دکن جانا ہوا جہاں وہ اپنی لغت کی اشاعت کے سلسلے میں سرکاری گفتگو کے لیے گئے تھے.بعض حضرات کا خیال ہے کہ چونکہ انہوں نے نظام سے خطاب عطا کرنے کی درخواست نہیں کی تھی (عام طریقہ یہی تھا کہ امراء درخواست کرتے اور نظام منظوری دیتے تھے)اور ایک طرح نظام کے طریقہ کار کی توہین کی تھی اس لیے لغت کے سلسلےمیں بھی کوئی مالی امداد کا سبیتا نہ ہو سکا.دربار حیدرآبادی کو مستقل بدنامی سے بچانے کے لیے کہا گیا کہ نظام اپنی علالت کی وجہ سے امیر مینائی سے نہ مل سکے.

تھوڑے ہی دنوں بعد یعنی  آج سے ٹھیک سو برس پہلے ١٣ اکتوبر ١٩٠٠ء کو حضرت امیر مینائی رحلت فرما گئے اور وہیں حیدرآباد میں سپرد خاک کیے گئے.

حضرت امیر مینائی کی غزلیات مجموعہ نعت اور محاسن شعری پر بہت کچھ لکھا گیا ہے ابو محمد سحرنے پی ایچ  ڈی کے لیے تحقیقی مقالہ بھی کلام امیر کی خوبیوں پر لکھا ہے لیکن اس وقت بڑی ضرورت یہ ہے کہ امیر مینائی کی نثری تصنیفات اور ان کے نقد شعر کی روش پر تفصیل سے کام کیا جائے.اس کے لیے ضرورت ذہنی سکون اور مطالعے کی ہے کیونکہ ان کی نثری تصانیفکی تعداد بیس پچیس کے قریب ہے ان پر سیر حاصل تحقیقی کام کسی ایک فرد واحد کے بس کی بات نہیں ہے.یہ کام تو کسی یونیورسٹی یا ادبی ادارے کی سرپرستی میں آسانی سے ہو سکتا ہے.یہ بھی ممکن ہے کے خانوادہ مینائی کا کوئی امیر زادہ کمر ہمت کس لے.اگر نئی صدی میں بھی یہ کام نہ ہو سکا تو خود بقول امیر..

 پھر اس قدر بھی ہمارا نشاں رہے نہ رہے

Share
« Newer PostsOlder Posts »

Powered by WordPress