عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

تہذیبی نرگسیت -ایک تہذیبی مرعوب کی سرگذشت کا اصولی جواب – حصہ دوم

پچھلے حصہ میں ہم نے’تہذیبی نرگسیت’  کے بنیادی تضادات اور نصوص قطعیہ پر اس کے اعترضات پراجمالی روشنی ڈالی تھی ۔ اس قسط میں ہمارا منشا ہے کہ مذید تفصیل سے اس کی سطحیت کو اجاگر کریں ۔ اس زمن میں ہماری کوشش یہ ہوگی کہ مختصر پیرائے میں حصہ اول پر کئے جانے والے اعتراضات کا جواب دینے کے ساتھ ساتھ معروضی شکل میں اس کتاب کے اہم نکات کو بھی بیان کردیں۔
اس ‘فتنہ نرگسیت’ کی بنیادی اغلاط کا احاطہ ان پانچ نکات سے کیا جاسکتا ہے۔ راقم کا اس کتاب کے چیدہ چیدہ نکات نکال کر سیاق و سباق کے بغیر نقل کر کہ اس کی تضحیک کرنا مقصد نہیں لہذا اپنی تشفی کے لئے کتاب کا ملاحظہ ضرور کریں۔

١. اسلام مکمل ضابطہ حیات نہیں ہے – ‘ایک بنیادی دعوی جس پر کئی دوسرے دعووں کے محل تعمیر کئے گئے ہیں، یہ ہے کہ اسلام مکمل ضابطہ حیات ہےحالانکہ قران اور حدیث نے ایسا کوئی دعوی نہیں کیا ہے۔ یہ دعوی تہذیبی فخر کاے لئے قائم کئے گئے مفروضوں میں سے ہے۔۔۔’ صفحہ 96۔
٢.  “قران نے نظام مملکت پر کوئی ضابطہ نہیں دیا جو بے حد اہم موضوع ہے۔”  صفحہ 97
٣. ‘دوسرا بڑا مفروضہ جس پر تہذیبی نرگسیت کی بنیاد ہے، یہ ہے کہ اسلام کو ہر دوسرے دین پر غالب کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ قران و حدیث میں اس مفروضہ کی بھی کوئی بنیاد نہیں’ صفحہ 100
٤. نصوص میں تبدیلی کی اجازت:’۔۔۔عملا اسلامی معاشرہ شدید دباو اور دو دلی کا شکار ہے- جس کے باعث ریا کاری زوروں پر ہے۔ ۔ ایک طرف اسلامی قوانین اور اعتقاد ہیں جن میں‌علما کہ بقول کسی تبدیلی یا ترمیم کی گنجایش نہیں مثلا قتل، زنا، چوری اور دیگر فوجداری جرائم اور غلام لونڈی کی اجازت۔’ صفحہ 65
٥.  وحدت ادیان اور تہذیبوں کے ملاپ کا فلسفہ ‘حکمت اور پارسائی کا دعوی اگر تھوڑی دیر کے لئے چھوٹ دیا چاے تو لگے گا کہ یہ ترانہ سننے یا گانے سے کسی تہذیب یا دین کا تختی نہیں الٹ جاتا’ ص 86 اور ‘انسان کو روح کی کتنی غذا چاھئے؟ یعنی اگر عبادت ہی روح کی خوراک ہے تو کتنی عبادت؟ اسلام کے مطابق دن میں پانچ مرتبہ ایک مقررہ معمول کے مطابق عبادت اور رمضان میں اس سے کچھ اور زیادہ؟ ۔۔لیکن مسیحت میں ہفتہ وار اور ہندوں میں دن میں ایک بار دیوی دیوتا کے آگے حاضری یا پرنام روح کو تروتازہ کر دیتا ہے ص 114 ۔ “مذہب پر عمل کرنا اگر روحانیت ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ دنیا کہ چاروں مستعد مذاہب  کے عقائد اور عملیات میں اتنی شدید تفاوت کے کیا معنی ہیں؟۔۔۔ص 118
اگر قاری نےقران و حدیث کا سمجھ کر مطالعہ کیا ہو تو یہ تمام مفروضات آن واحد میں باطل نظرآتے ہیں ۔ راقم انشااللہان باطل عقائد و اعتراضات کا مرحلہ وار جواب دینے کی سعی کرئے گا لیکن اس سے پہلے حصہ اول کے اعتراضات پر مختصرا بات کی جائے۔
پہلا اعتراض جو اس زمن میں کیا گیا ہے وہ ‘بگ پکچر’ یا اس کتاب کے مکمل پیغام کو نا دیکھنا ہے۔ اس سلسلے میں ہم یہ عرض کرتے چلیں کہ اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے واضع احکامات اور اساس دین پر تنقید کرکے تجدید و اصلاح کی کوشش کرنا مسلم امتہ کی جڑیں کھوکھلی کرنا ہے۔ بلاشبہ اس کتاب میں خود تنقیدی کا جو درس دیا گیا ہے، خود انکساری کی جو حکمت پیش کی گئی ہے یا امت مسلمہ کو درپیش مسائل کاجو بیان ہے اس سے راقم بڑی حد تک متفق ہے لیکن بنیادی سوال یہ ہے آپ کا ایمان عقل اور تجربہ پر منتج ہے یا خدا اور اس کے رسول پر؟ اگر پہلی بات ہے تو آپ کو اسلام اور اسکی اصلاح سے کوئی واسطہ نہیں، اگر آپ کلام الہی کو لا ریب فیہ نہیں مانتے اور ایمان بلغیب کو قرون اولی  کی داستان سمجھتے ہیں تو آپکو مسلمان بن کر گفتگو کرنے اور اصلاح مسلمین کا بیڑا اٹھانے کی کیا غرض؟ اس کے علاوہ اگر اس کتاب کو ‘بٹوین دی لاینز’ پڑھا جائے تو آپ اس میں بتدریج الحاد، تشکیک، نیچریت، مادیت، مرعوبیت، وحدت ادیان اور دین سے عمومی بیزاری کی کیفیت متشرح ہوتے دیکھ سکتے ہیں۔ مضامین برائے روحانیت (صفحہ 114تا 122) اس زمن میں اہم ہیں کہ اس میں ‘آرگنایزڈ ریلیجن’ یا منظم مذہب سے بیزاری صاف ظاہر ہے اور دین کو ایک انفرادی معاملہ قرار دینے کی سعی لا حاصل کی گئی ہے۔
دوسرا اعتراض اختلاف کی حیثیت پر ہے کہ جناب یہاں ہم نے آپ کی بات سے اختلاف کیا اور جھٹ سے آپ نے ہمیں دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا۔ اس کا مطلب یہ کہ اسلام اختلاف کی الف تک بھی نا آنے دے۔ یہ بات بے بنیاد ہے۔معروضات پر اختلافات میں کوئ مسئلہ نہیں مگر اگر آپ نصوص قطعیہ یعنی قران و حدیث کو اپنی منشا کے مطابق تبدیل کرنا چاہیں تو اس کی قطعی اجازت کسی بھی دین میں نہیں دی جاسکتی۔  “مسلم‘ عقلی اور تجربی فوائد پر ایمان نہیں لاتا بلکہ خدا اور رسول پر ایمان لاتا ہے۔ اس کا مذہب یہ نہیں ہے کہ کسی چیز کا فائدہ عقل و تجربہ سے ثابت ہوجائے تب وہ اس کو قبول کرے اور کسی چیز کی مضرت عقلی و تجربی حیثیت سے مبرہن ہوجائے تب وہ اس سے اجتناب کرے بلکہ اس کا مذہب یہ ہے کہ جو حکم خدا اور رسول سے ثابت ہوجائے وہ واجب الاتباع ہے اور جو ثابت نہ ہو وہ قابل اتباع نہیں۔” ہر دین اپنی بالا دستی چاہتا ہے اور اپنے قوانین کی پاسداری کو ضروری گردانتا ہے۔اسلام چونکہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے لہذا اس کی بنیادی شرایط پر اعتراض ممکن نا ہوگا۔ اسکی چھوٹی سی مثال کسی ایسے ملک کی شہریت لینے سے ثابت ہوتی ہے جہاں ملٹری سروس یا کم از کم اس پر آمادگی لازمی ہومثلا جنوبی کوریا، امریکہ وغیرہ۔ اگر آپ امریکہ کے شہری بننا چاہتے ہیں تو آپکو اس بات کا حلف لینا ہوگا کہ آپ اس کی حفاظت کے لئے وقت پڑنے پر ہتھیار اٹھائیں گےورنہ اس کا نتیجہ قید و بند کی صورت میں نکلے گا۔ بلکل اسی طرح دین اسلام صرف ایک مذہب یا عبادات کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک نظام حیات , دین یا مکمل ضابطہ حیات ہے جو اپنی مکمل اطاعت کاتقاضہ کرتا ہے اور اس کے بنیادی قوانین سے اختلاف قابل تعزیر فعل ہے۔
3۔ منقولات چہ معنی؟ : تیسرا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ یہ منقولات بیان کرنا اور علمی استدلال سے بات نا کرنا کج بحثی کی دلیل ہے۔ میرا ان حضرات سے یہ کہنا ہے کہ اس زمن میں موصوف، صاحب کتاب کے بارے میں کیا خیال ہے کہ جنہوں نے دعوی اصلاح مسلمین کا کیا ہے اور اپنا فریمورک لبرل نرگسیت ٹہرایا ہے۔ میں تو صرف انہیں اسلام کے بنیادی ماخذ جو متفق علیہ ہے،  سے جواب دینے کی کوشش کر رہا ہوں تو آپ سے ملائیت پر محمول کرتے ہیں۔ اگر آپ کو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں قرون اولی کے قصےلگتے ہیں تو میں تو اسے آپکی عقل کا فتور ہی ٹھراوں گا ۔ فرنگ سے ادھار لی گئی عقلیت کے لئے ہی قران و حدیث کی سند کسی بات کو قوی کرنے کے بجائے کمزور کرنے کا باعث بنتی ہے۔
چوتھا اعتراض اس مظمون کی طوالت اور حوالہ جات یا اقتباسات کے بارے میں تھا جس کے بارے میں احقر صرف یہی کہ سکتا ہے کہ یہ طوالت اس موضوع کا تقاضا ہے نیز اگر کسی اور عالم نے اس ضمن میں کما حقہ جواب دے رکھا ہوتو راقم اس کو دوبارہ اپنے الفاظ میں بیان کرنے سے اقتباس کرنے کو بہتر سمجھتا ہے۔
اگر صاحب کتاب کا مقصد اصلاح ٹھرا تھا تو اسلام کی بنیادی تعلیمات کو تنقید کا نشانہ بنانااور اسکے آفاقی دین اور ضابطہ حیات ہونے پر شکوک و شبہات کا آظہار کرنے کے کیا معنی ہیں؟ موجودہ زمانے میں‌ مسلمانوں کے اجتماعی مسائل کا حل مغربی اقوام کی تقلید میں تلاش کرنا کسی مرعوب ذہن کے لئے تو ممکن ہو سکتا ہے لیکن کسی ایسے مسلمان کے لئے نہیں جو اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کو اپنی اور امت مسلمہ کی نجات کا ذریعہ جانتا ہو۔
مبارک حیدر صاحب کے اعترضات بجا کہ آج مسلمان قول و عمل کے تضاد کا شکار ہیں۔ دین اسلام کی روح پر عمل نا کرنے کی وجہ سے ہماری کثیر عددی طاقت کے با وجود آج مسلمانوں کی حالت دنیا کے ملکوں میں دگرگوں ہے۔ لیکن کیا یہی وہ حالت نہیں جس کے بارے میں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔
عنقریب (کافر ) قومیں تمہارے خلاف اس طرح جمع ہو جائیں گی جس طرح بھوکے کھانے کے برتن پر جمع ہو جاتے ہیں ۔ ہم نے دریافت کیا: کیا اس وقت ہم تعداد میں بہت تھوڑے ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: ( نہیں) بلکہ ان دنوں تمہاری تعداد بہت زیادہ ہو گی لیکن تم سیلاب کے جھاگ کی طرح ہو جاؤ گے اور اللہ تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہارے رعب اور دبدبے کو نکال کر تمہارے دلوں میں (کمزوری) وھن ڈال دے گا۔ ہم نے پوچھا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ! یہ وہن کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا : دنیا سے محبت اور موت سے نفرت“
(احمد 350/5، ابوداود: کتاب الفتن والملاحم (4297)
اسی زمن میں میں نعیم صدیقی مرحوم کا یہ اقتباس پیش کرنا چاہوں گا۔
Naeem Siddiqi
اب ہم پہلے نقطہ اعتراض پر بات کریں گے جس کے بارے میں صاحب کتاب کا کہنا ہے کہ ۔ اسلام مکمل ضابطہ حیات نہیں ہے – ‘ایک بنیادی دعوی جس پر کئی دوسرے دعووں کے محل تعمیر کئے گئے ہیں، یہ ہے کہ اسلام مکمل ضابطہ حیات ہےحالانکہ قران اور حدیث نے ایسا کوئی دعوی نہیں کیا ہے۔ یہ دعوی تہذیبی فخرکے لئے قائم کئے گئے مفروضوں میں سے ہے۔۔۔’ صفحہ 96۔
نیز مزید  آپ کہتے ہیں کہ ‘مسلمانوں کو بھی یہ حق حاصل تھا کہ فاتح تہذیب کی حیثیت سے اپنے نظریہ حیات کو مکمل ضابطہ حیات کہتے – لیکن یہ سب زراعتی معاشروں کے دور تک ممکن تھا’صفحہ 96۔
یہ باتیں ایسے دیوانے کی بڑ سے زیادہ نہیں کہ جو اسلام کا مارٹن لوتھر کنگ بننا چاھتا ہو لیکن اسے اسلام کی بنیادی اصطلاحات سے کوئی غرض نہ ہو۔
اسلام دین اور مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اس بات میں قران مجید کی تصریحات بالکل صاف ہیں۔ مکمل ضابطہ حیات ہونے کا دعوی کرنے والا ہی یہ بات کہ سکتا ہے کہ جب کسی معاملہ میں خدا اور رسول کا حکم آجائے تو مومنوں کو ماننے یا نہ ماننے کا اختیار باقی نہیں رہتا۔
ترجمہ: کسی مومن مرد اور عورت کو یہ حق نہیں کہ جب کسی معاملہ میں اللہ اور اس کا رسول فیصلہ کردے تو ان کے لیے اپنے اس معاملہ میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار باقی رہے۔ جس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی وہ کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا ہوگیا (الاحزاب 36)
ایک ایسا دین ہی جو مکمل ضابطہ حیات ہونے کا مدعی ہو کہتا ہے کہ فیصلہ صرف کتاب الہیٰ کے مطابق ہونا چاہیئے۔ خواہ وہاں لوگوں کی خواہشات کے مطابق ہو یا نہ ہو۔
ترجمہ: تو ان کے درمیان اسی کتاب کے مطابق فیصلہ کر جو اللہ نے اتاری ہے اور جو حق تیرے پاس اللہ کی طرف سے آیا ہے اس کو چھوڑ کر ان کی خواہشات کی پیروی نہ کر۔ (المائدہ 56)
اور وہی دین‌ کہتا ہے کہ کتاب اللہ میں سے کچھ کو ماننا اور کچھ کو رد کردینا۔ دنیا اور آخرت میں رسوا کن ہے۔
ترجمہ: کیا تم کتاب کی بعض باتوں کو مانتے ہو اور بعض کو نہیں مانتے؟ تم میں سے جو کوئی ایسا کرتا ہے اس کی سزا بجزا اس کے اور کچھ نہیں ہے کہ دنیا کی زندگی میں اس کے رسوائی ہو اور آخرت میں ایسے لوگ شدید ترین عذاب کی طرف پھیردئیے جائیں گے۔ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے غافل نہیں ہے۔ (البقرہ 85)
مزید براں فرمایا کہ
وہ کہتا ہے کہ اے ایمان لانے والو‘ اللہ اور اس کے رسول اور اپنے اولی الامر کی اطاعت کرو اور اگر تم حقیقت میں اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتے ہو تو جس کسی معاملہ میں تمہارے درمیان نزاع پیدا ہو، اس کے لیے اللہ اور اس کے رسول کی طرف رجوع کرو۔ یہی بہتر طریقہ ہے اور انجام کے اعتبارسے بھی یہی اچھا ہے۔ کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ایمان لائے ہیں اس کتاب پر جو تیری جانب بھیجی گئی ہے اور ان کتابوں پر جو تجھ سے پہلے بھیجی گئی تھیں مگر چاہتے ہیں کہ خدا کے نافرمان انسان کو اپنے معاملہ میں حکم بنائیں حالاں کہ انہیں اس کے چھوڑدینے کا حکم دیا گیا ہے اور شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ انہیں بھٹکا کر راہ راست سے دور ہٹالے جائے۔ جب کبھی ان سے کہا گیا کہ آﺅ اس کتاب کی طرف جو اللہ نے ا تاری ہے اور آﺅ رسول کی طرف تو تو نے منافقین کو دیکھا کہ وہ تجھ سے کنی کاٹا جاتے ہیں…. ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے، اس لیے بھیجا ہے کہ کہ حکم الہیٰ کے مطابق اس کی اطاعت کی جائے…. نہیں! تیرے پردوردگار کی قسم وہ ہرگز بھی کافی نہیں ہے۔ ضروری ہے کہ جو فیصلہ تو کرے اس پر وہ اپنے دل میں کسی قسم کی تنگی بھی محسوس نہ کریں اور بے چون و چرا اس کےآگے سرجھکادیں۔“ (النساء۸‘۹)
اب کوئی یہ کہے کہ ان تمام منقولات سے کتاب کی اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ذندگی میں تو ثابت ہوتی ہے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد نہیں تو پھر اس فرد کی عقل پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے کہ اس نے اسلام کی آفاقیت اور ہمیشگی کی دلیل نہیں دیکھی۔

۱:… ”الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا۔“ (المائدہ:۳)
ترجمہ:… ”آج کے دن میں نے تمہارا دین مکمل کردیا اور تم پر نعمت تمام کردی اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسند کیا۔“

۲:… ”و من یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ‘ و ھو فی الآخرة من الخاسرین۔“ (آل عمران:۸۵)
ترجمہ:… ”اور جو شخص اسلام کے علاوہ کسی دوسرے دین و مذہب کو اپنائے گا‘ اللہ کے ہاں اسے قبولیت نصیب نہیں ہوگی اور وہ آخرت میں خسارہ میں ہوگا۔“

یہ فکر کہ اسلام مکمل ضابطہ حیات نہیں صرف مبارک حیدر صاحب پر ہی منتج نہیں بلکہ دیگر تجدد پسند مرعوبیت اور لبرل نرگسیت کے علمبرداروں میں‌بھی یہ رواج عام ہے۔ مثلا اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر خالد مسعودفرماتے ہیں کہ اسلام مکمل ضابطہ حیات نہیں ہے یہ مولانا مودودی کی فکر تھی‘ اسلام صرف مکمل دین ہے اسے مکمل ضابطہ حیات کہنا درست نہیں اس کے معنی دوسرے ہیں‘ (روز نامہ نوائے وقت کراچی، ۷ /نومبر ۲۰۰۷ء ص:۸)
تو اگراسلام مکمل ضابطہٴ حیات نہیں ہے تو وہ مکمل دین کیونکر ہوسکتا ہے؟ اسلئے کہ خود اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:

”ان الدین عنداللہ الاسلام“ (آلِ عمران: ۱۹)
بے شک دین اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسلام ہے
اگر اسلام دین مکمل نہیں تو پھر ناقص ٹھرا کہ اسے اپنے نفاذ کے لئے کسی اور دین یا نظریہ حیات کا سہارا لینا پڑے گا۔ کیا یہ ممکن ہے کہ دین مغرب، دین پادشاہی یا دین الحاد یا کوئی بھی اور نظام اس بات کی اجازت دے کہ اسلام کو مکمل طور پراختیار کیا جاے؟ اس سے بڑا سوال یہ اٹھتا ہے کہ دین و مذہب، اپنے ماننے والوں کو مکمل ضابطہٴ حیات فراہم نہ کرتا ہو وہ قابلِ تقلید اور لائقِ اقتداء ہے؟  بالفرض اگر اسلام مکمل ضابطہٴ حیات نہیں تھا تو کیا یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرض نہ تھا کہ وہ اپنی امت کو بتلاتے کہ اسلام میں فلاں فلاں جگہ نقص اور کمی ہے، اور اس کی تکمیل کے لئے فلاں فلاں دین و مذہب اور قانون و دستور سے مدد لی جائے؟ مگر دنیائے اسلام جانتی ہے کہ آقائے دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی کسی قسم کی کوئی نشاندہی نہیں فرمائی، تو کیا کہا جائے کہ …نعوذباللہ… آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کے ساتھ خیانت کی ہے؟ کیا ایسا کہنا سمجھنا یا سوچنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت و نبوت کے انکار کے مترادف نہیں؟(‬۲۰۰۷ ماہنامہ بینات, ذوالحجہ۱۴۲۸ھ جنوری۲۰۰۸ء, جلد 70, شمارہ)
اس حصہ کا اختتام سید مودودی کے مندرجہ زیل اقتباس سے کرتا ہوں جو کہ اس ‘فتنہ نرگسیت’ کے تجدد پر اتمام حجت کرتا ہے اور راقم کو ‘ری انونٹنگ دی وہیل’ کی حاجت نہیں ۔انشااللہ اگلے حصہ میں غلبہ اسلام کے متعلق اٹھا ئے گئے سوالات پر گفتگو کی جائے گی۔
ہمارے روشن خیال اور تجدد پسند” حضرات جب کسی مسئلہ پر گفتگو فرماتے ہیں تو ان کی آخری حجت جو ان کے نزدیک سب سے قوی حجت ہوتی ہے یہ ہوتی ہے کہ زمانے کا رنگ یہی ہے۔ ہوا کا رخ اسی طرف ہے۔ دنیا میں ایسا ہی ہورہا ہے۔ پھر ہم اس کی مخالفت کیسے کرسکتے ہیں۔ اور مخالفت کرکے زندہ کیسے رہ سکتے ہیں۔ اخلاق کا سوال ہو ۔ وہ کہیں گے کہ دنیا کا معیار اخلاق بدل چکا ہے۔ مطلب یہ نکلا کہ مسلمان اس پرانے معیار اخلاق پر کیسے قائم رہیں؟ پردے پر بحث ہو ارشاد ہوگاکہ دنیا سے پردہ اٹھ چکا ہے۔ مراد یہ ہوئی کہ جو چیز دنیا سے اٹھ چکی اس کو مسلمان کیسے نہ اٹھائیں۔ تعلیم پر گفتگو ہو۔ ان کی آخری دلیل یہ ہوگی کہ دنیا میں اسلامی تعلیم کی مانگ ہی نہیں۔ مدعا یہ کھلا کہ مسلمان بچے وہ جنس بن کر کیسے نکلیں جس کی مانگ ہی نہیں۔ اور وہ مال کیوں نہ بنیں جس کی مانگ ہے۔ سود پر تقریر ہو۔ ٹیپ کا بند یہ ہوگا کہ اب دنیا کاکام اس کے بغیر نہیں چل سکتا۔ گویا مسلمان کسی ایسی چیز سے احتراز کیسے کرسکتے ہیں جو اب دنیا کا کام چلانے کے لیے ضروری ہوگئی ہے۔ غرض یہ کہ تمدن‘ معاشرت‘ اخلاق‘ تعلیم‘ معیشت‘ قانون‘ سیاست اور زندگی کے دوسرے شعبوںمیں سی جس شعبے میں بھی وہ اصول اسلام سے ہٹ کر فرنگیت کا اتباع کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے زمانے کا رنگ اور ہوا کا رخ اور دنیا کی رفتار وہ آخری حجت ہوتی ہے جو اس تقلید مغربی یا درحقیقت اس جزوی ارتداد کے جوار پر برہان قاطع سمجھ کر پیش کی جاتی ہے۔ اور خیال کیا جاتا ہے کہ عمارت اسلامی کے اجزاءمیں سے ہر اس جز کوساقط کردینا فرض ہے جس پر اس دلیل سے حملہ کیا جائے۔
ہم کہتے ہیں کہ شکست وریخت کی یہ تجویزیں جن کو متفرق طور پر پیش کرتے ہو‘ ان سب کو ملا کر ایک جامع تجویز کیوں نہیں بنالیتے؟ مکان کی ایک ایک دیوار‘ ایک ایک کمرہ اور ایک ایک دالان کو گرانے کی علیحدہ علیحدہ تجویزیں پیش کریں‘ اور ہر ایک پر فرداً فرداً بحث کرنے میں فضول وقت ضائع ہوتا ہے۔ کیوں نہیں کہتے کہ یہ پورا مکان گرا دینے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ اس کا رنگ زمانے کے رنگ سے مختلف ہے۔ اس کا رخ ہوا کے رخ سے پھرا ہوا ہے اور اس کی وضع ان مکانوں سے کسی طرح نہیں ملتی جواب دنیا میں بن رہے ہیں۔
جن لوگوں کے حقیقی خیالات یہی ہیں ان سے تو بحث کرنا فضول ہے۔ ان کی لیے تو صاف اور سیدھا جواب یہی ہے کہ اس مکان کو گرانے او راس کی جگہ دوسرا مکان بنانے کی آپ زحمت کیوں اٹھاتے ہیں؟ جو دوسرا خوش وضع‘ خوشنما اور خوش رنگ مکان آپ کو پسند آئے اس میں تشریف لے جائیے۔ اگر دریا کے دھارے پر بہنے کا شوق ہے تو اس کشتی کا لیبل کھرچنے کی تکلیف بھی کیوں اٹھائیے۔ جو کشتیاں پہلے سے بہہ رہی ہیں انہی میں سے کسی میں نقل مقام فرما لیجئے جو لوگ اپنے خیالات اپنے اخلاق‘ اپنی معاشرت‘ اپنی معیشت‘ اپنی تعلیم‘ غرض اپنی کسی چیز میں بھی مسلمان نہیں ہیں اور مسلمان رہنا نہیں چاہتی ان کے برائے نام مسلمان رہنے سے اسلام کا قطعاً کوئی فائدہ نہیں بلکہ سراسر نقصان ہے۔ وہ خدا پرست نہیں‘ ہوا پرست ہیں‘ اگر دنیا میں بت پرستی کا غلبہ ہوجائے تو یقیناً وہ بتوں کو پوجیں گے اگر دنیا میں برہنگی کا رواج عام ہوجائے تو یقیناً وہ اپنے کپڑے اتار پھینکیں گے۔ اگر دنیا نجاستیں کھانے لگے تویقیناً وہ کہیں گے کہ نجاست ہی پاکیزگی ہے اور پاکیزگی تو سراسر نجاست ہے۔ ان کے دل اور دماغ غلام ہیں اور غلامی ہی کے لیے گھڑے گئے ہیں۔ آج فرنگیت کا غلبہ ہے اس لیے اپنے باطن سے لے کر ظاہر کے ایک ایک گوشے تک وہ فرنگی بننا چاہتے ہیں۔ کل اگر حبشیوں کا غلبہ ہوجائے تو یقیناً وہ حبشی بنیں گے۔ اپنے چہروں پر سیاہیاں پھیریں گے۔ اپنے ہونٹ موٹے کریں گے۔ اپنے بالوں میں حبشیوں کے سے گھونگھر پیدا کریں گے۔ ہر اس شے کی پوجا کرنے لگیں گے۔ جو حبش سے ان کو پہنچے گی۔ ایسے غلاموں کی اسلام کو قطعاً ضرورت نہیں۔ بخدا اگرکروڑوں کی مردم شماری میں سے ان سب منافقوں اور غلام فطرت لوگوں کے نام کٹ جائیں اور دنیا میں صرف چند ہزار وہ مسلمان رہ جائیں جن کی تعریف یہ ہو کہ یُّحِبُّہُمْ وَیُحِبُّوۡنَہٗۤ ۙ اَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیۡنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الْکٰفِرِیۡنَ ۫ یُجَاہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ وَلَا یَخَافُوۡنَ لَوْمَۃَ لَآئِمٍ (المائدہ , 54)تو اسلام اب سے بدرجہا زیادہ طاقتور ہوگا اور ان کروڑوں کا نکل جانا اس کے حق میں ایسا ہوگا جیسے کسی مریض کے جسم سے پیپ اور کچ لہو نکل جائے۔
نَخْشٰۤی اَنۡ تُصِیۡبَنَا دَآئِرَۃٌ ؕ (المائدہ , 52)
ہم کو خوف ہے کہ ہم مصیبت آجائے گی۔
یہ آج کوئی نئی آواز نہیں بہت پرانی آواز ہے۔ جو منافقوں کی زبان سے بلند ہوتی رہی ہے۔ یہی آواز نفاق کی اس بیماری کا پتہ دیتی ہے جو دلوں میں چھپی ہوئی ہے۔ اسی آواز کو بلند کرنے والے ہمیشہ مخالفین اسلام کے کیمپ کی طرف لپکتے رہے ہیں۔ ہمیشہ سے انہوں نے اللہ کی قائم کی ہوئی حدوں کو پاﺅں کی بیڑیاں اور گلے کا طوق ہی سمجھا ہے۔ ہمیشہ سے ان کو احکام خدا و رسول کا اتباع گراں ہی گزرتا ہے۔ اطاعت میں جان ومال کا ضیاع اور نافرمانی میں حیات دنیا کی ساری کامرانیاں ہمیشہ سے ان کو نظر آتی رہی ہیں۔ پس ان کی خاطر خدا کی شریعت کو نہ ابتداءمیں بدلا گیا تھا‘ نہ اب بدلا جاسکتا ہے اور نہ کبھی بدلا جائے گا۔ یہ شریعت بزدلوں اور نامردوں کے لیے نہیں اتری ہے۔ نفس کے بندوں اور دنیا کے غلاموں کے لیے نہیں اتری ہے۔ ہوا کے رخ پر اڑنے والے خش و خاشاک‘ اور پانی کے بہاﺅ پر بہنے والے حشرات الارض اور ہر رنگ میں رنگ جانے والے بے رنگوں کے لیے نہیں اتری ہے۔ یہ ان بہادر شیروں کے لیے اتری ہے جو ہوا کا رخ بدل دینے کا عزم رکھتے ہیں۔ جو دریاﺅں کی روانی سے لڑنے اور اس کے بہاﺅ کو پھیر دینے کی ہمت رکھتے ہیں۔ جو صبغتہ اللہ کو دنیا کے ہر رنگ سے زیادہ محبوب رکھتے ہوں اور اسی رنگ میں تمام دنیا کو رنگ دینے کا حق رکھتے ہوں۔ مسلمان جس کا نام ہے وہ دریا کے بہاﺅ پر بہنے کے لیے پیدا ہی نہیں کیا گیا ہے۔ اس کی آفرینیشن کا تو مقصد ہی یہ ہے کہ زندگی کے دریا کو اس پر رواں کردے جو اس کے ایمان و اعتقاد میں راہ راست ہے۔ صراط مستقیم ہے۔ اگر دریا نے اپنا رخ اس راستہ سے پھیر دیا تو اسلام کے دعوے میں وہ شخص جھوٹا ہے۔ جو اس بدلے ہوئے رخ پر بہنے ک لیے راضی ہوجائے۔ حقیقت میں جو سچا مسلمان ہے وہ اس غلط رو دریا کی رفتار سے لڑے گا۔ اس کا رخ پھیرنے کی کوشش میں اپنی پوری قوت صرف کردے گا۔ کامیابی اور ناکامی کی اس کو قطعاً پرواہ نہ ہوگی۔ وہ ہر اس شخص کو گوارا کرلے گا جو اس لڑائی میں پہنچے یا پہنچ سکتا ہو۔ حتیٰ کہ اگر دریا کی روانی سے لڑتے لڑتے اس کے بازو ٹوٹ جائیں۔ اس کے جوڑ بند ڈھیلے ہوجائیں اور پانی کی موجیں اس کو نیم جان کرکے کسی کنارے پر پھینک دیں تب بھی اس کی روح ہر گز شکست نہ کھائے گی۔ ایک لمحہ کے لیے بھی اس کے دل میں اپنی اس ظاہری نامرادی پر افسوس یا دریا کی رو پر بہنے والے کافروں یا منافقوں کی کامرانیوں پر رشک کا جذبہ راہ نہ پائے گا۔
قرآن تمہارے سامنے ہے۔ انبیاءعلیہم السلام کی سیرتیں تمہارے سامنے ہیں ۔ ابتداءسے لے کر آج تک علمبرداران اسلام کی زندگی تمہارے سامنے ہیں۔ کیا ان سب سے تم کو یہی تعلیم ملتی ہے کہ ہوا جد ھر اڑائے ادھر اڑ جاﺅ؟ پانی جدھر بہائے ادھر بہہ جاﺅ؟ زمانہ جو رنگ اختیار کرے اسی رنگ میں رنگ جاﺅ؟ اگر مدعا یہی ہوتا تو کسی کتاب کے نزول اور کسی نبی کی بعث کی ضرورت ہی کیا تھی۔ ہوا کی موجیں تمہاری ہدایت کے لیے اور حیات دنیاکا بہاﺅ تمہاری رہنمائی کے لیے اور زمانے کی نیرنگیاں تمہیں گرگٹ کی روش سکھانے کے لیے کافی تھیں۔ خدا نے کوئی کتاب ایسی ناپاک تعلیم دینے کے لیے نہیں بھیجی اور نہ اس غرض کے لیے کوئی نبی مبعوث کیا۔ ذات حق کی طرف سے تو جو پیغام آیا ہے۔ اس لیے آیا ہے کہ دنیا جن غلط راستوں پر چل رہی ہے ان سب کو چھوڑ کر ایک سیدھا راستہ مقرر کرے۔ اس کے خلاف جتنے راستے ہوں ان کو مٹائے اور دنیا کو ان سے ہٹانے کی کوشش کرے‘ ایمانداروں کی ایک جماعت بنائے جو نہ صرف خود اس سیدھے راستے پر چلیں بلکہ دنیا کو بھی اس کی طرف کھینچ لانے کی کوشش کریں۔ انبیاءعلیہم السلام اور ان کے متبعین نے ہمیشہ اسی غرض سے جہاد کیا ہے۔ اس جہاد میں اذیتیں اٹھائی ہیں۔ نقصان برداشت کیے ہیں۔ اور جانیں دی ہیں۔ ان میں سے کسی نے مصائب کے خوف یا منافع کے لالچ سے رفتار زمانہ کو کبھی اپنا مقتدا نہیں بنایا۔ اب اگر کوئی شخص یا کوئی گروہ ہدایت آسمان کے بتائے ہوئے راستہ پر چلنے میں نقصان اور مشکلات اور خطرات دیکھتا ہے اور ان سے خوفزدہ ہوکر کسی ایسے راستے پر جانا چاہتا ہے جس پر چلنے والے اس کو خوشحال‘ کامیاب اور سربلند نظر آتے ہیں تو وہ شوق سے اپنے پسندیدہ راستے پر جائے۔ مگر وہ بزدل اور حریص انسان اپنے نفس کو دنیا کو یہ دھوکہ دینے کی کوشش کیوں کرتا ہے کہ وہ خدا کی کتاب اوراس کے نبی کے  بتائے ہوئے طریقے کو چھوڑ کر بھی اس کا پیرو ہے؟ نافرمانی خود ایک بڑا جرم ہے۔ اس پرجھوٹ اور فریب اور منافقت کا اضافہ کرکے آخر کیا فائدہ اٹھانا مقصود ہے۔؟
یہ خیال  کہ زندگی کا دریا جس رخ پربہہ گیا اس سے وہ پھیرا نہیں جاسکتا عقلاً بھی غلط ہے اور تجربہ ومشاہدہ بھی اس کے خلاف گواہی دیتا ہے۔ دنیا میں ایک نہیں سینکڑوں انقلاب ہوئے ہیں اور ہر انقلاب نے اس دریا کے رخ کو بدلا ہے۔ اس کی سب سے زیادہ نمایاں خود اسلام ہی میں موجود ہے۔ محمد جب دنیا میں تشریف لائے تو زندگی کا دریا کس رخ پر بہہ رہا تھا؟ کیا تمام دنیا پر کفرو شرک کا غلبہ نہ تھا؟ کیا استبداد اور ظلم کی حکومت نہ تھی؟ کیا انسانیت کو طبقات کی ظالمانہ تقسیم نے داغدار نہ بنا رکھا تھا؟ کیا اخلاق پر خواحش‘ معاشرت پر نفس پرستی‘ معیشت پر ظالمانہ جاگیرداری و سرمایہ داری اور قانون کی بے اعتدالی کا تسلط نہ تھا۔ مگر ایک تن واحد نے اٹھ کر تمام دنیا کو چلینج دے دیا۔ تمام ان غلط خیالات اور غلط طریقوں کو رد کردیا جو اس وقت دنیا میں رائج تھے۔ ان سب کے مقابلہ میں اپنا ایک عقیدہ اور اپنا ایک طریقہ پیش کیا اور چند سال کی مختصر مدت میں اپنی تبلیغ اور جہاد سے دنیا کے رخ کو پھیر کر اور زمانہ کے رنگ کو بدل کر چھوڑا۔
تازہ ترین مثال اشتراکی تحریک کی ہے۔ انیسویں صدی میں سرمایہ داری کا تسلط اپنی انتہا کو پہنچ چکا تھا۔ کوئی بزدل مرغ باد نما اس وقت یہ تصور بھی نہ کرسکتا تھا۔ کہ جو نظام ایسی ہولناک سیاسی اور جنگی قوت کے ساتھ دنیا پر مسلط ہے اس کو الٹ دینا بھی ممکن ہے۔ مگر انہی حالات میں ایک شخص کارل مارکس نامی اٹھا اور اس نے اشتراکیت کی تبلیغ شروع کی۔ حکومت نے اس کی مخالفت کی‘ وطن سے نکالا گیا۔ ملک ملک کی خاک چھانتا پھرا۔ تنگ دستی اور مصیبت سے دوچار ہوا۔ مگر مرنے سے پہلے اشتراکیوں کی ایک طاقت ور جماعت پیدا کرگیا۔ جس نے چالیس سال کے اندر نہ صرف روس کی سب سے زیادہ خوفناک طاقت کو الٹ کر رکھ دیا بلکہ تمام دنیا میں سرمایہ داری کی جڑیں ہلا دیں اور اپنا ایک معاشی اور تمدنی نظریہ اس قوت کے ساتھ پیش کیا کہ آج دنیا میں اس کے متبعین کی تعداد روز بروز بڑھتی چلی جارہی ہے۔ اور ان ممالک کے قوانین بھی اس سے متاثر ہورہے ہیں جن پر سرمایہ داری کی حکومت گہری جڑوں کے ساتھ جمی ہوئی ہے۔
مگر انقلاب یا ارتقاءہمیشہ قوت ہی کے اثر سے رونما ہوا ہے۔ اور قوت ڈھل جانے کا نام نہیں ڈھال دینے کا نام ہے۔ مڑجانے کو قوت نہیں کہتے۔ موڑد ینے کو کہتے ہیں۔ دنیا میں کبھی نامردوں اور بزدلوں نے کوئی انقلاب پیدا نہیں کیا۔ جو لوگ اپنا کوئی اصول‘ کوئی مقصد حیات‘ کوئی نصب العین نہ رکھتے ہوں جو بلند مقصد کے لیے قربانی دینے کا حوصلہ نہ رکھتے ہوں۔ جن کو دنیا میں محض آسائش اور سہولت ہی مطلوب ہو۔ جو ہر سانچے میںڈھل جانے اور ہر دباﺅ سے دب جانے والے ہوں۔ ایسے لوگوں کا کوئی قابل ذکر کارنامہ انسانی تاریخ میں نہیں پایا جاتا۔ تاریخ بنانا بہادر مردوں کاکام ہے۔ انہی نے اپنے جہاد اور اپنی قربانیوں سے زندگی کے دریا کا رخ پھیرا ہے۔ دنیا کے خیالات بدلے ہیں۔ مناہج عمل میں انقلاب برپا کیا ہے۔ زمانے کی رنگ میں رنگ جانے کی بجائے زمانے کو خود اپنے رنگ میں رنگ کر چھوڑا ہے۔
پس یہ نہ کہو کہ دنیا جس راستہ پر جاری ہے اس سے وہ پھیری نہیں جاسکتی اور زمانے کی جو روش ہے اس کا اتباع کیے بغیر چارہ نہیں ۔ مجبوری کا جھوٹا دعویٰ کرنے کی بجائے تم کو خود اپنی کمزوری کا سچا اعتراف کرنا چاہیے اور جب اس کا اعتراف کرلو گے تو تم کو یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ کمزور کے لیے دنیا میں نہ کوئی مذہب ہوسکتا ہے‘ نہ کوئی اصول اور نہ کوئی ضابطہ اس کو تو ہر زور آور سے دبنا پڑے گا۔ ہر طاقتور کے آگے جھکنا پڑے گا۔ ۔ وہ کبھی اپنے کسی اصول اور کسی ضابطہ کا پابند نہیں ہوسکتا۔ اگر کوئی مذہب اس کے لیے اپنے اصول بدلتا چلا جائے تو وہ سرے سے کوئی مذہب ہی نہ رہے گا۔

Share

3 Comments to تہذیبی نرگسیت -ایک تہذیبی مرعوب کی سرگذشت کا اصولی جواب – حصہ دوم

  1. April 19, 2010 at 3:18 am | Permalink

    موقع ملنے پر تفصیل سے اس مضمون کو پڑھتا ہوں۔

  2. April 19, 2010 at 9:30 am | Permalink

    پچھلی تحریر میں مقصدیت واضح تھی لیکن اس تحریر میں سیاق و سباق سے ہٹ کر متن شائع کیے گئے ہیں اور دو طویل مضامین کے بعد بھی کتاب کا اصل موضوع زیر بحثہی نہیں آیا ہے حالانکہ کتاب لادینیت کو فروغ دینے کے لیے نہیں لکھی گءی بلکہ لادینیت کے فروغ کے لیے تو اردو میں ہی کئ دوسری بہتر کتابیں دستیاب ہیں۔ کتاب میں اسلام سے زیادہ مسلمان زیر بحث آئے ہیں لیکن اس طرف ابھی تک آپ نے اپنی تنقید کا رخ نہیں کیا ۔(اگر مزید اقساط آنی ہیں تو معذرت)۔
    اس مضمون کو پڑھ کر مجھے وہ مضامین یاد آگئے جو دیوبند اور بریلوی فرقے کے علماء ایک دوسرے کے رد کے لیے ایک دوسرے ہی کی کتابوں سے چند سطور نقل کرکے لکھا کرتے ہیں۔۔ اور ایک جیسے الفاظ سے
    جامت، آ
    جا، مت آ
    والی صورت حال پیدا کرتے ہیں۔

    کیونکہ مکمل احاطہ تبصروں کے چھوٹے سے کالم میں ممکن نہیں ہے اسلیے کوشش ہوگی کہ ایک دوسرا نظریہ بھی لوگوں کے سامنے لایا جائے۔ حالانکہ کتاب اتنی ضخیم نہیں اور نہ ہی ایمان کے لیے اتنے خطرے کا باعث ہے کہ اب تک تمام قاری بغیر کتاب پڑھے ہی تبصرہ کرنے کی سعی میں مصروف ہیں۔

  3. abdullah's Gravatar abdullah
    July 11, 2010 at 6:02 am | Permalink

    asslam o alykum:

    bhai yeh kitab khud kahan say milay ge……………
    net pay hay to koi link day dain,is ka aaj kl kafi secular log tzkra or hawala daytay hain………
    aap bhi apnay jawab aik kitabi surat main jma krain,ta k aik ne nashist main prha ja sakay.

    walslam

  1. By on April 28, 2010 at 4:43 am

Leave a Reply

You can use these HTML tags and attributes: <a href="" title=""> <abbr title=""> <acronym title=""> <b> <blockquote cite=""> <cite> <code> <del datetime=""> <em> <i> <q cite=""> <s> <strike> <strong>