عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

مرزائی رہنما کی پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائ

عربی و انگریزی جریدے الاخبار نامی ہفت روزہ مجلے کی آٹھ جولائی کی اشاعت میں احمدی عبادت گاہ کے سربراہ شمشاد احمد قادیانی کا ‘آزادی کی میرے لئے کیا اہمیت ہے’ کے عنوان سے ایک مضمون چھپا ہے۔ اس مضمون کا مکمل متن یہاں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔

اپنی تحریر میں شمشاد احمد صاحب نے پاکستان کی حکومت، اداروں اور عوام کی اکثریت پر احمدیوں کے قتل عام میں ملوث ہونے کا الزام لگایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں
‘لاہور میں اٹھایس مئی کو طالبانی ہتھیار برداروں نے دو عبادت گاہوں پر حملہ کر کے 86 احمدیوں کو ہلاک کردیا۔ ان دہشت گردوں نے یہ کام پاکستانی حکومت، پولیس، آئین اور مذہبی اکابرین کی اجازت سے کیا جو تمام کے تمام اس بات پر راضی ہیں کہ احمدیوں کا قتل ایک عظیم الشان فعل ہے”
مزید الزام تراشی کرتے ہوے کہتے ہیں
“یہ مذہبی اقلیت کے خلاف دہشت گردی کا کوئ بےترتیب واقعہ نا تھا بلکہ یہ ریاستی پشت پناہی ‘اسٹیٹ اسپانسرڈ’ اور عوامی منظوری سے کیا جانے حملہ تھا”  اور “پاکستان اور دیگرکئی مسلم ممالک میں مذہبی بنیادوں پر ایذا رسانی کی حمایت اور حوصلہ افزائی کی جاتی ہے”
مزید زہر افشانی کرتے ہوئے وہ امریکہ کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ مسلمانوں سے کہے کہ وہ اپنے ضمیر کو جگائیں نیز یہ کہ
“پاکستانی حکومت اور پاکستانی عوام کی اکثریت سب کے لئے آزادی اور انصاف کی مشترکہ اقدار پر یقین نہیں رکھتی”۔
اگر آپ کو میرے ترجمے پر اعتراض ہو تو آپ خود پیراگراف نمبر 7-9 کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔
لاہور میں قادیانی عبادت گاہوں پر حملہ دہشت گردی کا ایک فعل تھا جس کی ہر مکتبہ فکر کی جانب سے مذمت کی گئی۔ پاکستان کا ہر طبقہ چاہے وہ مذہبی اقلیت ہو یا مسلم اکثریت، اس وقت دہشت گردی کی لپیٹ‌ میں ہے۔ سنی، شیعہ، دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث، ہر فرقے کے افراد کو دہشت گردی کی بہیمانہ غیر انسانی وارداتوں کا سامنا ہے۔ سید علی ہجویری کی قبر پر ہونے والے دھماکے ہوں، سرگودھا  میں امام بارگاہ پر حملہ ہو، مہمند ایجنسی یکہ غنڈ میں ہونے والا خود کش دھماکہ ہو یا منگورہ میں’فدائی’ حملہ، ہمارا ملک دہشت گردی کے ایک ایسے خونی بحران سے گذر رہا ہے کہ جس میں پاکستانیوں کی جان و مال جنس ارزاں ہوگئیں ہیں۔ ان خراب حالات میں جبکہ قومی یکجہتی اور ہم آہنگی کی اشد ضرورت ہے، مرزایوں کی طرف سے یہ گمراہ کن بیان کہ یہ حملے نہ صرف خاص طور پر احمدی فرقے کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے بلکہ یہ کہ اس میں کسی طرح پاکستانی حکومت کی اسپانسرشپ اور پاکستانی عوام کی مرضی شامل ہے ، نہایت افسوسناک ہے۔
پچانوے فیصد سے زائد مسلم اکثیریتی آبادی کے ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں کو غیر مسلم اقلیتوں کےحقوق حاصل ہیں۔ غیر جانبدار عالمی تجزیات اور رپورٹوں کی روشنی میں اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے  جن میں عیسائی، ہندو اور قادیانی شامل ہیں لیکن یہی دہشت گردی کی وبا اسلامی فرقہ جات کے لئے بھی یکساں طور پر قتل و غارت کا پیغام لے کر آئی ہے اور اعداد وشمار اس بات کے گواہ ہیں۔ دہشت گرد بے گناہ مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلتے ہیں لیکن جماعت احمدیہ کی طرف سے ایک مذمتی بیان کی پریس ریلیز بھی نظر نہیں آتی ۔ چونکہ یہ ‘غیر جانبدارانہ’ سروے صرف اقلیتوں کے حقوق کی نمایندگی کرتی ہیں، اس وجہ سے ‘بگ پکچر’ یا دہشت گردی سے متاثر ہونے والوں کی مکمل تصویر کشی نہیں ہوپاتی اور یہ تاثر بننا شروع ہو جاتا ہے کہ اس دہشت گردی کا اصل منبع اکثریتی مسلم آبادی کی اقلیتی غیر مسلم آبادی پر ایذا رسانی ہے جو حقیقت سے بعید تر ہے۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ پاکستان کے باشعور عوام نے کبھی اس طرح کی کاروایوں کی حمائت نہیں کی اور شمشاد احمد کا یہ شرمناک الزام کہ ‘ دہشت گردوں نے یہ کام پاکستانی حکومت، پولیس، آئین اور مذہبی اکابرین کی اجازت سے کیا’ مملکت پاکستان کی انتظامیہ اور عوام پر بلاوجہ لگایا جانے والا بہتان ہے ۔ اس طرح کے بے سروپا الزامات اور ہرزہ سرایاں کرکے مرزا غلام احمد کذاب کے ماننے والےشمشاد صاحب شائد اپنے غیر ملکی آقاوں کو تو خوش کر سکتے ہیں لیکن کسی سنجیدہ ڈایلاگ کی کمی کو پورا نہیں کرسکتے۔
Share

7 Comments to مرزائی رہنما کی پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائ

  1. نعمان's Gravatar نعمان
    July 19, 2010 at 2:00 pm | Permalink

    کیا آپ اس بات سے انکار کرتے ہیں کہ پاکستان میں بعض طبقہ فکر احمدیوں کو واجپ القتل قرار دیتے ہیں اور اپنے سننے والوں کو ان کے خلاف تشدد پر اکساتے ہیں؟ ویسے یہ تاثر یقینا قابل مذمت ہے کہ پاکستانی مسلم اکثریت غیر مسلم اقلیتوں پر تشدد کا کوئی اوور آل قومی رویہ رکھتے ہیں یقینا یہ ہرزہ سرائی ہے اور مجھے احمدیوں کا یہ رویہ اچھا نہیں لگتا کہ وہ اوور آل تمام پاکستانیوں کو وحشی درندوں کے روپ میں پیش کرتے ہیں۔ اگر پاکستانی عوام، مذہبی اکابرین یا حکومتی ادارے اسقدر تشدد کے متوالے ہوتے تو لاہور کے مرکز میں عبادت گاہ کیسے بن گئی؟

  2. July 19, 2010 at 9:11 pm | Permalink

    ميں اللہ کے فضل و کرم سے عمر کی 7 دہائياں عبور کر چکا ہوں ۔ ميری معلومات ميں مرزائيوں کی پہلی منافر 6 دہائياں قبل آئی جب ان کے سربراہ کے حُکم سے لاکھوں مرزائيوں کی دستخط شدہ قرارداد سامنے آئی جس ميں اُنہوں نے حکومتِ برطانيہ سے درخواست کی تھی کہ مرزائی اُن لوگوں ميں شامل نہيں ہيں جن کی سربراہی محمد علی جناح کر رہے ہيں اسلئے اُنہيں قادياں بطور ايک آزاد مملکت کے عليحدہ ديا جائے ۔ اس کے نتيجہ ميں ہندو برہمن کی سازش کامياب ہوئی اور مسلم اکثريت والا ضلع گورداس پور بھارت ميں شامل کر کے بھارت کو جموں کشمير پر قبضہ کرنے کا راستہ مہياء کيا گيا ۔ مرزائيوں نے ہميشہ پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف کام کيا ہے ۔ ان کا مرکز پہلا نان اسرائيلی ادارہ تھا جو اسرائيل ميں قائم کيا گيا تھا ۔ مرزائی ڈاکٹر عبدالسلام نامعلوم کس طرح اسرائيل جايا کرتا تھا اور وہاں اسرئيلی ہائی کمان کے دفاتر ميں ديکھا گيا
    برطانيہ کے بنائے ہوئے اور پروردہ اس گروہِ منکرين کے پشت پناہ برطانيہ کے ساتھ ساتھ اسرائيل اور امريکہ ہيں
    افسوس تو اُن مسلمانوں پر ہے جو انہيں مسلمانوں کا ايک فرقہ کہتے ہيں جبکہ يہ مسلمان نہيں ہے اور ايک جھوٹے نبی کے پيروکار ہيں ۔
    ميں نہيں کہتا کہ انہيں قتل کر ديا جائے مگر جو کوئی انہيں واجب القتل کہتا ہے وہ اس سے اشارہ ليتا ہے کہ مسلمہ کذاب کو امير المؤمنين نے واجب القتل قرار ديا تھا

  3. July 20, 2010 at 12:19 pm | Permalink

    ممکن ہے آپ کو پاکستان میں بھی ایسے کئی افراد مل جائیں جو شمشاد احمد صاحب کے ہم خیال ہوں۔ لیکن نا معلوم وجوہات کی بناء پر یہ تمام لوگ اس حقیقت سے نظریں چرانا چاہتے ہیں کہ موجودہ ماحول میں تمام طبقات یکساں ظلم و بربریت کا شکار ہیں۔ دہشت گرد دھماکے یا فائرنگ سے قبل کسی کا مذہب یا فرقہ دریافت کرنے کی زحمت نہیں کرتے۔ ان کے سامنے جو بھی ذی روح آتا ہے، وہ اسے بھون کر رکھ دیتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں مظلومیت کا لبادہ اوڑھ کر پاکستان اور پاکستانیوں کے خلاف ہرزہ سرائی کی کوشش مضحکہ خیز ہی کہی جاسکتی ہے۔

  4. Khalid's Gravatar Khalid
    July 21, 2010 at 7:57 am | Permalink

    بظاہر تو اس مضمون ميں کوئی ايسی بات نظر نہيں آتی جس پہ ايک پوسٹ لکھ ماری جائے، صرف مين ميخ نکالنے والی بات ہے- ايک امريکی شہری اگر اپنی حکومت کو نہيں کہے گا تو کيا جاپانی حکومت سے کہے گا؟

    پنجابی محاورے کے مطابق غصہ صرف کمزور پہ آتا ہے- البتہ اگر آپ پھر بھی پراعتماد ہيں تو اخبار ميں ايک جوابی مضمون لکھ ماريں- شائيد جواب اور جوابالجواب سے معاملہ صاف ہو جائے- گالم گلوچ کی نسبت يہ بہتر طريق ہے- ويسے پاکستان کی نسبت بيرون ملک رائے اکثر اچھی نہيں- کوئی وجھ تو ہوگي، سارے لوگ تو پاگل نہيں ہيں-

  5. August 2, 2010 at 4:49 am | Permalink

    mai Ajmal Sahab k bayan se Mutafiq hon

Leave a Reply

You can use these HTML tags and attributes: <a href="" title=""> <abbr title=""> <acronym title=""> <b> <blockquote cite=""> <cite> <code> <del datetime=""> <em> <i> <q cite=""> <s> <strike> <strong>