عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

آپ کیوں پروا کریں ہیں کہ لوگ کیا سوچتے ہیں” از رچرڈ فائنمن”

 ہفتوں میں ۵۲ کتابیں  پڑھنے کا جو بار گراں ہم نے اٹھایا تھا اس کو پورا کرنے کی ایک ہی صورت نظر آتی ہے کہ کتب ہاے مطالعہ مختلف اشکال میں ہر وقت موجود رہیں،  یعنی صوتی، برقی   اور ورقی۔ اسی طرح سے ہم اینڈرز گیم بھی ختم کرنے میں کامیاب ہوئے تھے کہ جہاں سے ورقی کتاب کا تعطل ٹوٹا، وہاں سے دوران سفر سیارہ صوتی کتب پر منتقل کیا اور جب کتاب تک دسترس نا رہی تو کنڈل نکال لیا ۔ اب نوبل انعام یافتہ ڈاکٹررچرڈ فائنمن” کی کتاب  “آپ کیوں پروا کریں ہیں کہ لوگ کیا سوچتے ہیں” کا مطالعہ بھی کچھ اسی طرح ختم ہوا۔

رچرڈ فائنمن کا شمار دور جدید کی طبعیات کے موجدین میں کیا جاتا ہے خصوصا کوانٹم کمپیوٹنگ پر انکا کام سیمینری یا مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کتاب کو پڑھنے سے پیشتر “آپ یقینا مزاق کر رہے ہیں مسٹر فائنمن” پڑھ لیں تو بہت بہتر ہوگا کیونکہ آپ کیوں پروا کریں ہیں کہ لوگ کیا سوچتے ہیں” از رچرڈ فائنمن” میں اس پچھلی کتاب کے کئی حوالہ جات استعمال کئے گئے ہیں ۔مزاح، سائنسی تراکیب اور سوانح پر مبنی  یہ کتاب بنیادی طور پر دو حصوں پر مشتمل ہے، پہلا حصہ جہاں   ڈاکٹرفائنمن اپنے مخصوص مزاحیہ انداز میں زندگی میں پیش آنے والے مختلف مشاہدات پر بات کرتے نظر آتے ہیں اور دوسرا حصہ خلائ جہاز چیلینجر کی تباہی کے اسباب کی تلاش میں بننے والے کمیشن کی رپورٹ اور اس کے دوران فائنمن کو پیش آنے والے مختلف واقعات پر مشتمل ہے۔ اس دوسرے حصے میں خصوصی طور پر ایک سائنسدان کی حکومت کی افسر شاہی کے طور طریقوں پر تنقید  قابل  مطالعہ ہے۔ یہ کہنا کچھ غلط نا ہوگا کہ یہ کتاب ڈاکٹر فائنمن کی پہلی کتاب کے مقابلے میں کم دلچسپ ہے اور اسکی بنیادی وجہ اسی رپورٹ کی شمولیت ہے۔ نیز اس میں دوسروں کے کچھ خطوط بھی شامل کر دئے گئے ہیں جو فائنمین کے طریقہ تصنیف سے میل نہیں کھاتے۔ لیکن اس کتاب کے آخر میں موجود ایک مضمون جو کہ سائنسدانوں کے سماجی  رجحانات یا “ویلیو آف سائنس” کے موضوع پر لکھا گیا ہے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔

رچرڈ فائنمن کا کسی چیز کو سمجھانے کا انداز بہت سہل انگیز ہے۔ ان کا نظریہ تھا کہ آسان طریقہ اپنانے سے جو نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں اس کو زبردستی مشکل بنا کر پیش کرنا، صرف اس لئے کہ وہ دقیق لگنے کی وجہ سے اہم لگے، سائنس کی بنیادی تعلیمات کے خلاف ہے۔ اس کتاب میں فائنمن نے اپنے اسی نظریے کو  خلائ جہاز چیلینجر کی تباہی کے اسباب کی تلاش میں  استعمال کیا  ہے۔اس کتاب کی ابتدا انکی منگیتر آیرین کے ٹی بی میں مبتلا ہونے اور خاندان کی مخالفت کےباوجود فائنمن کی اپنی لڑکپن کی محبت سے شادی سے ہوتی ہے۔فائنمین کے والد کا کہنا تھا کہ کسی فرد کی ناکامی کا سبب تلاش کرنا ہو تو عورت کو تلاش کرو، لیکن فائنمین نے ان کا کہا غلط ثابت کر دکھایا۔ اس وقت فائنمن پرنسٹن میں پی ایچ ڈی کے طالبعلم تھے اور نہایت کسمپرسی کی زندگی گذار رہے تھے۔ اس عظیم سائنسدان نے اپنے  ہوٹل میں ٹھرنے کے پیسے نا ہونے کی وجہ سے سردی میں  کچرے کے ڈھیر پر سونے کی داستان اتنے آرام سے بیان کی   جیسے یہ کوئ خاص واقعہ ہی نا ہو۔ اس کے بعد فائنمن کامینہٹن پراجیکٹ پر کام، ، کچھ نسوانی حقوق کے علمبرداروں کا انہیں خواتین کو طبعیات کی ایک مثال میں تیز گاڑی چلانے کے لئے استعمال کرنے پر لعن طعن کرنا، فائنمن کا سستا ہوٹل تلاش کرنے کے طریقوں کا بیان وغیرہ شامل ہیں۔ اس کتاب کو پڑھنے سے پتا  چلتا ہے کہ ایک عظیم سائنسدان اور اس صدی کے ذہین ترین افراد میں سے ایک فرد عام زندگی میں ہمارے اور آپ کے جیسا ایک انسان ہوتا ہے جو ہماری طرح غلطیاں کرتا ہے اور ان سے سیکھتے ہوے ایسے کام کر گذرتا ہے کہ دنیا اسے طویل عرصے تک یاد رکھتی ہے۔ فائنمن اس کتاب میں ہمیں بتاتے ہیں کہ ایک سائنسدان جب سماجی و معاشرتی چیزوں پر بات کرتا ہے تو وہ اس بارے میں اتنا ہی غلط ہوتا ہے جتنا کہ کوئ عام آدمی، کیونکہ سماجی ومعاشرتی مسائل کا کوئ سائنسی پیمانا نہیں ہوتا، اس لئے اس پر سائنسی طریقہ کار کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔

فائنمین کو بچوں سے خصوصی لگاو تھا۔ وہ لکھتے ہیں کہ سائنسی تجسس بچپن سے بیدار کرنے کی چیز ہے۔ اگر کوئی بچہ کسی سائنسی مسئلے کو عام حالات میں مشاہدے کی بنیاد پر دلچسپ سمجھتا ہے تو جان لیں کہ وہ ایک سائنسدان بننے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔کتاب میں لکھے گئے ایک واقعے کے مطابق انہوں نے ایک بچے کو لاامتناہیت کا نظریہ سمجھاتے ہوے کہا کہ تم مجھے کوئ بھی عدد بتاو، میں تمہیں اس سے تین گنا بڑا عدد بتاتا ہوں اور اس طرح سے کھیل کھیل میں مختلف مثالوں سے اس بچے کو لاامتناہی اعداد کے مشکل نظریے سے روشناس کرایا۔  ایک ملحد ہونے کے باوجود فائنمن کا وجود خداوندی، مذہب اور سائنس کے تقابل کے بارے میں رویہ و طریقہ کار آج کل کےملحدین کے لئے مشعل راہ ہے۔  اگناسٹک اور ایتہیسٹ کے درمیان اگر آپ  کو فرق معلوم کرنا ہو تو فائنمین کے لیکچرز کا مطالعہ مفید ہے۔ بڑی آسان زبان میں وہ مذہب و سائنس کا فرق بیان کرتے ہوے کہتے ہیں

طریق مذہب، ایمان۔ طریق سائنس، تشکیک

انکا سفر جاپان اور شاہی خاندان سے تعارو ، نوبل انعام کے وقت بادشاہ سے ملاقات اور انکی بے وقوفانہ حرکات کا بیان نہایت دلچسپ ہے جس میں انہوں نے بادشاہ سے ملانے کے لئے ہاتھ بڑھا دیا جو کہ روایات و آداب کے سخت خلاف ہے۔ اس کتاب میں فائنمین کے  بارے میں لکھے کچھ خطوط اور ان کےاپنے لکھے ہوئے چند خطوط جن میں وارسا سے لکھا گیا ایک خط شامل ہے لائق مطالعہ ہیں۔ فائنمین  کے کردار کی خاص بات تشکیک کو خصوصی اہمیت   دینا اور اتھارٹی پر عدم اطمینان رکھنا ہے جو کہ ان کی تحاریر میں  بدرجہ اتم ملتا ہے۔  صاحب کتاب کی تعریف میں کیا کہوں، ان کی دوسری اہلیہ کے نے اپنی طلاق  کی درخواست میں وجہ علیہدگی پر لکھا

 یہ صاحب صبح اٹھتے ہی کیلکلس کے مسائل پر سوچنا شروع کر دیتے ہیں۔ پھر گاڑی چلاتے وقت بھی یہی کرتے ہیں اور کمرے میں بیٹھ کر بھی، اور رات کو بستر پر لیٹ کر بھی کیلکلس کے مسائل پر ہی غورو فکر کرتے ہیں

Share

3 Comments to آپ کیوں پروا کریں ہیں کہ لوگ کیا سوچتے ہیں” از رچرڈ فائنمن”

  1. March 4, 2012 at 1:19 pm | Permalink

    بہت خوب!
    تحاریر کا یہ منفرد اور دلچسپ سلسلہ شروع کر رکھا ہے ۔ جاری رکھیے۔

  2. March 5, 2012 at 6:44 am | Permalink

    God was invented to explain mystery. God is always invented to explain those things that you do not understand۔
    What I cannot create, I do not understand.
    The scientist has a lot of experience with ignorance and doubt and uncertainty, and this experience is of very great importance, I think.

    We have found it of paramount importance that in order to progress, we must recognize our ignorance and leave room for doubt. Scientific knowledge is a body of statements of varying degrees of certainty — some most unsure, some nearly sure, but none absolutely certain.
    It is not unscientific to make a guess, although many people who are not in science think it is.
    I don’t know what’s the matter with people: they don’t learn by understanding, they learn by some other way — by rote or something. Their knowledge is so fragile!

    Since then I never pay attention to anything by “experts”. I calculate everything myself.

    Our imagination is stretched to the utmost, not, as in fiction, to imagine things which are not really there, but just to comprehend those things which are there.
    A selection from wikiquotes of Feynman.

  3. March 5, 2012 at 9:32 am | Permalink

    آپ کے مشورے کے عین مطابق مین نے ڈیمن صوتی و برقی صورت میں بہت ہی جلد ختم کرڈالی مگر جناب یہ بہت مہنگا نسخہ ہے صرف ایک کتاب ہی 30 ڈالر کی پڑ گئ 🙂

    یہ کتاب شروع کردی ہے دیکھیں کب ختم ہوتی ہے۔

Leave a Reply to Aniqa Naz

You can use these HTML tags and attributes: <a href="" title=""> <abbr title=""> <acronym title=""> <b> <blockquote cite=""> <cite> <code> <del datetime=""> <em> <i> <q cite=""> <s> <strike> <strong>