عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

معمول – اداس نسلیں از عبداللہ حسین سے ایک اقتباس

“وہ عظیم شخصیت جو جنم نہ لے سکیں. جنہیں گھر باہر کے’ روز مرہ کے چھوٹے بڑے کام کرنے پڑے ‘ جن کا وقت اسی طرح ضائع ہو گیا. ہم یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ یہ ضابطہ جو ہم نے اپنے اوپرعائد کر لیا ہے اور جس کے تحت ہم زندگی بسر کرتے ہیں کس کام کا ہے. حصول مسرت کا یہ معیار  جو ہم نے قائم کیا ہے یا جو قائم کیا کرایا ہمیں ملا ہے کس حد تک صحیح ہے. ہم جو اتنا دکھ سہتے ہیں’اتنی محنت کرتے ہیں’ اتنے جھوٹ بولتے ہیں’ اتنی چاہتیں اتنی حسرتیں دل میں دباۓ رکھتے ہیں’ اتنی طاقتور خواہشیں پوری نہی کر سکتے کہ دل و دماغ کے روگی ہوں جاتے ہیں’ اتنی اخلاقی قدروں کو سمیٹتے ہیں’ اتنی اخلاقی قدروں کو قربان کرتے ہیں…. وقت کی کمی کی وجہ سے ان لوگوں سے نہیں مل سکتے جن سے بہت ملنا چاہتے ہیں’ دوستی کرنا چاہتے ہیں یا ہمدردی کی توقع رکھتے ہیں یا ایسے لوگوں کو نہیں مل پاتے جن کو ہم نہیں جانتے لیکن جن سے مل لیتے تو بہت خوش ہوتے.ان جگہوں پر نہیں جا سکتے جن کا صرف نام سن رکھا ہے’ جو کچھ سوچتے ہیں کہہ نہیں سکتے’ جو کہتے ہیں کر نہیں سکتے’ قطعی طور پر برے آدمی سے قطع تعلق اور اچھے آدمی سے دوستی نہیں کر سکتے’ غرض یہ کہ کسی ڈھنگ سے بھی زندگی کو بہتر طور پر بسر نہیں کر سکتے حالانکہ ہم میں سے کتنے ہی ہیں جو وہ سب کرنا چاہتے ہیں جو نہیں کر سکتے اور وہ سب کچھ نہیں کرنا چاہتے جو کر رہے ہیں’ تو چاہنے اور کرنے میں یہ تضاد’ یہ بعد کیوں ہے؟ اور اس سے کیا حاصل ہے اور یہ مصنوعی ہے یا حقیقی؟کیا یہ سب کچھ جو ہم بھگتتے ہیں محض اس لئے ہے کہ ہم اپنے گھر کو’ جو چند دیواروں اور کھڑکیوں کا مجموعہ ہوتا ہے’ سلامت رکھنا چاہتے ہیں’ یا اپنے خاندان کو جو چند افراد پر مشتمل ہوتا ہے’ یکجا رکھنا چاہتے ہیں یا اپنی جائداد کو جس میں کھانا پکانے کے برتن’ کپڑے اور چند آسائش کی اشیاء ہوتی ہیں’ قبضے میں رکھنا چاہتے ہیں. کیا ہم اپنی شخصیت کو محض اس لئے نظر انداز کر دیتے ہیں کہ بنیادی ضرورتوں کو پورا کر سکیں’ اپنی علیحدگی’ اپنی انفرادیت کو محض اس لئے ضائع کردیتے ہیں کہ کمتر انسانی جذبوں کی تسکین کر سکیں. کیا ہمیں ادنیٰ اور اعلیٰ کا فرق معلوم ہے؟ کیا ہم مسرت کا مطلب جانتے ہیں’ علم اور جہالت میں کیا ہم تمیز کر سکتے ہیں؟ کیا ہم محض اس لئے اس قدیم’ انسان کش ضابطے کو برقرار رکھے ہوئے ہیں کہ اس سے شخصی غرور کو جلا ملتی ہے؟ کہ ہم اپنے حقیر گھروں اور خاندانوں میں ایک کھوکھلی’ مغرور اور محتاط زندگی بسر کرتے رہیں. یا وہ نوجوان’ جو ابھی زندگی میں قدم رکھ رہے ہیں’ اپنے مکان کو گرنے سے بچانے اور کنبے کو خوراک مہیا کرنے کی خاطر روزانہ زندگی کے چھوٹے موٹے کام کرتے رہیں اور خوشی کے بجاۓ غرور اور تنفر حاصل کریں. ائر پھر ہم میں سے چند ایک ان کاموں میں کمال حاصل کر لیں اور نمایاں مقام پر پہنچیں اور حاسدانہ عزت کی نگاہ سے دیکھے جائیں اور اس طرح زیادہ مغرور اور زیادہ ناخوش ہو جائیں اور اپنے ساتھی لوگوں میں گھلنے ملنے کی بجاۓ انہیں مرعوب کرنے کی طرف مائل ہوں اور بدلے میں ان سے حقارت حاصل کریں. عوامی زندگی کے یہ نمایاں لوگ’ سیاست دان اور تعلیمی اداروں کے سربراہ اور بڑی عدالتوں کے منصف’ ان کی زندگی بھر کی کمائی کیا ہے؟ حقارت اور عمومیت! کیا وہ بس ان دو چیزوں کے لئے ایک انتہائی مردہ دل اور پر کوفت زندگی بسر کرتے ہیں؟

 ” اگر ہم ایک اونچی چٹان پر اکیلے بیٹھ کر سوچیں تو ہمیں پتا چلے گا کہ خوشی تو ایک معمولی شے  ہے اور اسے حاصل کرنا تو بڑا آسان ہے’ یعنی آپ اسے محض چٹان پر چڑھ کر بھی حاصل کر سکتے ہیں جب کہ آپ تنہا ہیں اور آپ کے ساتھ آپ کی ساری شخصیت ہے ساری انفرادیت ہے’ آپکی عظمت اور نیکی اور عقل ہے اور آپ ہر لحاظ سے مکمل ہیں اور قطعی طور پر مطمئن اور خوش قسمت ہیں اور آپکو بھوک نہیں لگ رہی چناچہ آپ ابھی کچھ دیر اور یہاں رک سکتے ہیں اور زندگی کے عظیم مقدس مسائل پر’ محبت اور موت پر غور کر سکتے ہیں اور دیانت داری سے اپنی راۓ وضع کر سکتے ہیں. اس وقت آپ کے پاس وہ بیش بہا آزادی کا احساس ہوتا ہے جس کے لئے’ مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے’ کہ ہم پیدا کئے گئے ہیں اور ہم سوچتے ہیں کہ تھوڑی دیر میں نیچے جائیں گے اور فلاں فلاں کام کرینگے یا نہیں کرینگے کہ ان کا کرنا نہ کرنا ہمارے اختیار میں ہے…..مگر خوفناک بات یہ ہے کہ جب ہم نیچے جاتے ہیں تو ایک ایک کر کے ساری چیزیں ساتھ چھوڑ جاتی ہیں اور آخیر میں ہماری وہی پرانی’ کمزور’ گمنام شخصیت رہ جاتی ہے جس کے سامنے روزانہ معمول کے ایسے کام ہوتے ہیں جو ہر حالت میں کرنا ہوتے ہیں اور اپنے معمولی پن کے باوجود ہمارے اختیار سے باہر ہوتے ہیں. اس طرح ہم آنا فانا عمومیت کے اس سمندر میں گم ہو جاتے ہیں اور ہجوم سے الگ ہماری کوئی شخصیت’ کوئی آزادی نہیں رہتی. ہم خوشی کے اس معیار کو بھی بھول جاتے ہیں جو کچھ دیر قبل ہم نے قائم کیا تھا’ اور ایک دوسری قسم کی مسرت’ جو تقابل اور کبر نفس سے پھوٹتی ہے’ ہم پر قبضہ کر لیتی ہے. یہ زندگی کی سفا کی کا ایک منظر ہے کہ ہم جانے بوجھے اور محسوس کیے بغیر’ تیزی کے ساتھ اعلیٰ سےادنیٰ کی طرف سفر کرتے ہیں..

 “تو کیا طمانیت اور عقل و دانش کی یہ قربانی جو دی جاتی ہے حق بجانب ہے؟ وہ بے پناہ جور وستم جو ہم جھیلتے ہیں’ کیا ہماری زندگی’ ساری انسانی زندگی اس قابل ہے کہ اس کے لئے اتنی دل شکنی قبول کی جاۓ’ بتاؤ کیا ساری انسانی زندگی کی کوئی وجہ ہے؟”

اداس نسلیں از عبداللہ حسین

Share

1 Comment to معمول – اداس نسلیں از عبداللہ حسین سے ایک اقتباس

  1. June 4, 2012 at 8:19 am | Permalink

    بہت عمدہ شیئرنگ ہے ۔ بھائی

Leave a Reply

You can use these HTML tags and attributes: <a href="" title=""> <abbr title=""> <acronym title=""> <b> <blockquote cite=""> <cite> <code> <del datetime=""> <em> <i> <q cite=""> <s> <strike> <strong>