عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

محض ایک نظریہ؟ چند غلط العوام اصطلاحات اور انکے درست سائنسی معنی

 نظریہ یا تھیوری کا لفظ ان غلط العوام  سائنسی اصطلاحات میں سے ایک ہے جو ہماری روز مرہ کی زبان اور اردو نثر میں خاص طور پر مستعمل ہیں۔ لوگوں کا غالب گمان یہ ہے کہ نظریہ ایک نا پختہ بچہ ہوتا ہےجو بڑا ہو کر قانون بن جاتا ہے۔ لہذا شماریاتی علوم کے لفظ معتبر یا سگنفکنٹ سے لیکرآرگینک،  فطری یا نیچرل، اور نظریے سے لیکر ماڈل یا نمونے تک بے شمار ایسی سائنسی اصطلاحات ہیں جنکی معنویت عوام الناس اور سائنسی حلقہ جات میں بلکل مختلف ہے۔  مثال کے طور پر اگریہ کہا جاۓ کے پاکستان کی آدھی آبادی کا آئی کیو اوسط درجے سے نیچے ہے تو شماریات کے ماہر کے لیے یہ اوسط کی  بنیادی تعریف ہونے کے باعث اظہر من الشمس حقیقت ہے لیکن ایک عام فرد کے لئے یہی حقیقت نہایت حیرت انگیز بات ہوتی ہے ۔ بہرطور، مفروضہ، نظریہ، قانون وغیرہ روز مرّہ استعمال کی وہ اصطلاحات ہیں، جن کو غلط العوام کہنا کچھ بے جا نا ہوگا. اب سائنسدانوں کا تو یہ خیال ہے ان تمام اصطلاحات کے بجاۓ لوگ ماڈل یا نمونے کی اصطلاح استعمال کریں تو شائد افاقہ ہو۔

theory

پہلی اصطلاح،  نظریہ

نظریہ بیک وقت ایک عام استعمال ہونے والا لفظ اور ایک پیچیدہ سائنسی اصطلاح ہے۔ اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے کیمیادان،  مائیکل فیئر نے نظریے یا تھیوری کو ایک سائنسی اور تکنیکی اصطلاح قرار دیتے ہوے کہا کہ صرف اس وجہ سے کہ عام لوگ اس اصطلاح کے بارے میں نہیں جانتے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم سائنسدان اسے استعمال کرنا ترک کردیں.اس غلط فہمی کا تو یہ ہے کہ ہمیں بہتر سائنسی تعلیم کی ضرورت ہے۔

عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں میں انسانی ہاتھ کی موجودگی اور نظریہ ارتقاء کے منکرین ان دونوں چیزوں کی سائنسی توجیہ کو محض ایک نظریہ قرار دے کر رد کر دیتے ہیں.موجودہ سائنسی تحقیق کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیوں میں انسانی آلودگی کے اثرات اور نظریہ ارتقاء،  دونوں نظریات کے لئے واضح سائنسی شواہد موجود ہیں۔ اس انکار کی ایک وجہ یہ ہے کہ لفظ نظریہ کی سائنسی اصطلاح اور اسکی عام فہم معنویت میں شدید اختلاف ہے. ایک سائنسی نظریہ کسی مشاہدے کی ایک ایسی سائنسی توجیہ ہوتا ہے جس کو بارہا کیے جانے والے تجربات سے جانچا اور پرکھا جا سکتا ہے نیز اس کے درست ہونے کے واضح شواہد موجود ہوتے ہیں مثلا درجہ حرارت کا مستقل بڑھنا یا فاسلز کی موجودگی۔ لیکن اگر کسی عام فرد سے نظریے کی تعریف پوچھی جاۓ تو وہ اسے کسی کی ذاتی راۓ پر محمول کریگا، جسکی اکثر و بیشتر کوئی تجرباتی اور مشاہداتی مثال موجود نہیں ہوتی، اور اسی بنا پر اکثر یہ سوال ہوتا ہے کہ قانون اور نظریہ  میں کیا فرق ہے؟

دوسری اصطلاح، قانون۔ عام طور پر قانون کو نظریے کی انتہائ شکل سمجھا جاتا ہے اور اس سے لوگوں کی اکثر یہ مراد ہوتی ہے کہ قانون کبھی غلط نہیں ہوتا۔ اس سے پس پردہ یہ بھی کہا جارہا ہوتا ہے کہ اگر یہ نظریہ واقعی درست ہوتا تو قانون ہوتا۔

حقیقت یہ ہے کہ سائنسی قوانین ، اشیا کی کی عام حالت میں عمومی طور پرپائ جانے والی روش کی نشاندہی کرتے ہیں ۔یہ جملہ کچھ پیچیدہ سا ہے لہذا ہم مثالوں سے سمجھاتے ہیں۔ قوانین دراصل یہ بتاتے ہیں کہ جب سے کسی خاص مشاہدے کی بنیاد پر ایک ریاضیاتی نمونے کو بنایا گیا ہے، اور جس نظام پر اسے لاگو کیا گیا ہے، دونوں کو بلکل اسی روش پر موافق پایا گیا ہے۔ نیز اس قانون میں کوئ رعائت نہیں ہے۔  اب اس کے لئے کچھ مثالوں کو دیکھتے چلیں۔

نیوٹن کے حرکت کے قوانین نہائت مشہور و معروف ہیں اور ان کا اطلاق طبعیات کے بیشتر شعبوں میں لامحالہ کیا جاتا ہے۔ میکرو یا بڑی اشیا پر عمدہ طریقے سے انکے اطلاق کے باوجود کوانٹم مکینکس اور ذرہ جاتی سطح پر یہ قوانین پورے نہیں اترتے۔  اسکے باوجود بھی ان قوانین کو ثقہ قانون کا درجہ حاصل ہے کیونکہ  یہ ماڈل  بڑی سطح پر اشیا کی صحیح طرح نمائندگی کرتا ہے۔

کشش ثقل اور اضافیت کا نظریہ ایسے نظریات کی عام مثالیں ہیں جنہیں ہم تجربہ گاہ میں ثابت کر سکتے ہیں۔  سمجھنے کی بات یہ ہے کہ لفظ نظریہ کوئ تضیک نہیں اور نا کوئ نظریہ بڑا ہو کر قانون بن جاتا ہے۔ ان دونوں کا محض دائرہ کار تھوڑا مختلف ہے۔

نظریہ کسی طبعی، کیمیائ، حیاتیاتی و دیگر سائنسی امور کی وضاحت کرتا ہے اور ‘کیوں’ کی وضاحت کے لئے ایک ذریعہ فراہم کرتا ہے۔ اس کے برخلاف قانون اس وضاحت سے بحث نہیں کرنا مثلا اشیا کی باہمی کشش کے نیوٹن کے قانون پر غور کریں۔ ایک  طبعی روِیہ کی ماڈل کے زریعے پیشن گوئی کرنے کے لئے نیوٹن کے اس قانون کو استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن لیکن کمیت میں یہ کشش کیوں آئی، اس کے بارے میں اس قانون کوئ رہنمائ نہیں کرتا اور ہمیں آج کی تحقیق بتاتی ہے کہ کشش ثقل کے بارے میں ہماری ابتدائ سمجھ بوجھ نہایت ناقص ہے۔

لیکن کیا اس سے نیوٹن کے قوانین تبدیل ہو جائیں گے؟ اگر ہمیں کوئ اور ماڈل نیوٹن کے قوانین سے بہتر نتائج دے تو یقینا اس ماڈل کا استعمال شروع کردیا جاے گا لیکن فی الحال یہ قوانین بیشتر روز مرہ کی تکنیکی و انجینئرنگ کی ضروریات کے لئے کافی ہیں۔

تیسری اصطلاح، مفروضہ

جامعہ ساؤتھہ ویسٹرن لوزیانہ کے طبیعات دان ایٹ ایلن کا خیال ہے کہ چونکہ عوام الناس مفروضہ، قانون اور نظریہ جیسےاصطلاحات کی معنویت کا نہایت بے دردی سے قتل عام کرتے ہیں، لہٰذا ان کا استعمال ختم کردینا چاہیے. ایلن کا کہنا ہے کہ اب ان الفاظ کو بچانے کی کوشش کرنا اب ایک سعی لاحاصل ہی ہے. سائنسی طور پر ایک مفروضے کی تعریف اس طرح کی جاسکتی ہے کہ وہ  کسی عمل کی ایسی  توجیح پیش کرتا ہے ہے جس کو سائنسی بنیادوں پر جانچہ یا پرکھا جا سکے ، لیکن اگر کسی عام آدمی سے پوچھا جاۓ تو اس کے خیال میں سائنسی مفروضہ محض ایک علمی قیاس یا اٹکل پچو کا دوسرا نام ہو گا جو کہ درست نہیں۔

کسی طبعی عمل کی پیشن گوئ اور اسکو جانچنے کے لئے سائنسدان مختلف اقسام کے ریاضیاتی  سائینسی ماڈل یا نمونے بناتے ہیں، ان کا عشر عشیر ایک مساوات ہوتی ہے مثلا

اس مساوات کو پھر تجربے کی کسوٹی پر رکھا جاتا ہے اور جو ماڈل بہتر طریقے سے تمام عوامل کی نشاندہی کرتا ہو، اسے نظریے کے طور پر مان لیا جاتا ہے اور باقی تمام نمونہ جات یا مفروضوں کو رد کردیا جاتا ہے۔ آکم ریزر بھی اسی عمل کی ایک مثال ہے۔

چوتھی اصطلاح، ماڈل یا نمونہ۔

اب نظریہ ہی محض ایک ایسی سائنسی اصطلاح نہیں جو کہ وسیع طور پر غلط سمجھی جاتی ہو، لفظ نمونہ یا ماڈل بھی اسی پریشانی کا شکار ہے. موٹر گاڑیوں اور فیشن میں استعمال ہونے والی یہ زود زبان اصطلاح مختلف سائنسی میدانوں میں بھی مختلف معنی  رکھتی ہے. مثلا، ایک موسمیاتی نمونہ، ریاضاتی نمونے سے خاصا مختلف ہوتا ہے۔ جان ہاکس جو کہ جامعہ وسکونسن میڈیسن میں ایک ماہر بشریات ہیں ، کہتے ہیں کہ طبیعات کے اسٹینڈرڈ ماڈل کی بنا پر اس میدان میں خاصا انضباط نظر آتا ہے لیکن علم جینیات اورعلم ارتقاء میں ماڈل کی یہی اصطلاح مختلف معنوں میں مستعمل ہے۔

پانچویں اصطلاح۔ سائینسی شکی یا اسکیپٹک

ماحولیاتی تبدیلیوں کا انکار کرنے والوں کو نشریاتی میڈیا اکثر ماحولیاتی ماہر تشکیک دان قراردیتا ہیں لیکن مائیکل ہانٹ جو کہ پینسلوینیا اسٹیٹ یونیورسٹی کے ماحولیاتی سائنسدان ہیں، ان کے مطابق یہ ایسے ہی لا علم لوگوں کو زبردستی  سر چڑھانے کے  مترادف ہے۔ تشکیک عام فہم معبود عام سائنسی اقادات کو بلاوجہ اعتراض سے الجھانا تشکیک نہیں بلکہ میں نا مانوں کا دوسرا نام ہے۔ یہ غیر حقیقی تشکیک کا دعوی کرنے والے درحقیقت سائنسی مشاہدات اور تجربات کو ماننے کی جرّات نہیں رکھتے جبکہ حقیقی تحقیق کرنے والے سائنسی مشاہدات اور تجربات کوحقیقت گردانتے ہیں چاہے وہ انکے نظریات کے خلاف ہی کیوں نا ہو۔ تاہم سائنسدانوں کو ہمیشہ تشکیک کا متقاضی ہونا چاہیے کالس سیگن نے حقیقی تشکیک کو سائنس کی خود درستگی کی بنیادی وجہ بتایا ہے.

چھٹی اصطلاح، فطرت یا تربیت۔

یہ عام طور پر استعمال ہونے والی اصطلاح ، فطرت بھی سائنسدانوں کے لیے دردسر کا باعث ہے، کیونکہ فطرت کا لفظ عام زبان میں استعمال ہو تو ایک نہایت پیچیدہ سائنسی عمل کو آسانی کے ساتھ بیان کرنے کی کوشش میں اسکی معنویت کو کھو دیتا ہے.ڈین کروور جو کے جامعہ مشیگن میں ارتقائی حیاتیات دان ہیں انکا کہنا ہے یہ ایک ایسی ہی غلط استعمال ہونے والی اصطلاحات میں سے ایک ہے جن  کا سادہ لوح استعمال انکے اصل معنی کھو دیتا ہے۔

موجودہ ارتقائی حیاتیات دانوں کے لیے اس اصطلاح کا غلط استمال باعث تشویش ہے، آباواجداد کے جینز انسانی زندگی  پر واضح طور پر اثر انداز ہوتے ہیں. لیکن اسی طرح ایپی جینیٹک تبدیلیوں کا بھی انسانی زندگی پر بھی خاص اثر ہوتا ہے کیونکہ  یہ جنیاتی تبدیلیاں موروثی ہونے کے ساتھہ ساتھہ ماحولیاتی اثرات کی بناء پر بھی اثر پذیر ہو سکتی ہے۔  انسانی طرز زندگی رویے اور دیگر تبدیلیوں کا انحصار ماحولیات، جینیات، کیمیائی تبدیلیوں اور کئی غیر متوقع عوامل پر ہے جن کا مکمل ادراک  ایک نہایت مشکل کام ہے۔

ساتویں اصطلاح، سگنیفکنٹ یا معتبر۔

اسی طرح کا ایک اور غلط العوام اصطلاح شماریاتی سائنس کا لفظ معتبر ہے، یہ ایک خاصا وسیع الستعمال اور گنجلک لفظ ہے، کسی اعداد و شمار معتبر ہونے سے آپکی کیا مراد ہے، مائکل اوبرائن، جو جامعہ مزیوری کے سائنس اور آرٹس کالج کے سربراہ ہیں،  یہ سوال پوچھتے نظر آتے ہیں۔  کیا آپکی مراد شماریاتی طور پر معتبر ہے یا محض رائے کی اہمیت،  شماریات میں کسی چیز کے معتبر ہونے کے معنی یہ ہیں کہ اس واقعے کا اتفاقی طور پر وقوع پذیر ہونے کا احتمال نہایت کم ہو. لیکن ضروری نہیں کہ یہ کسی شہ کی علت کا سبب بھی بنے۔ لیکن عمومی استعمال کے وقت سیمپل اسپیس اور علت کی سمت کا خیال کم ہی رکھا جاتا ہے۔

آٹھویں اصطلاح، قدرتی،

قدرتی یا نباتیاتی کا لفظ اور اسکا غلط استعمال بھی سائنسدانوں کو، بالخصوص حیاتیات کے ماہرین کو بہت پریشان کرتا ہے۔ اسکی وجہ عام ذخیرہ الفاظ میں قدرتی کا خودبخود بننے والا صحت مندانہ رجحان ہے ۔ اس لفظ کے استعمال سے فوری طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ ہر مصنوعی شے صحت کے لیے مضر ہے اور ہر قدرتی شے صحت کے لیے لازمی طور پر اچھی ہوگی جو کہ سائنسی طور پر درست نہیں۔ 

 مثلا یورینیم ایک قدرتی عنصر ہے لیکن اس کے استعمال سے آپ کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے. اسی طرح نباتیاتی یا آرگینک لفظ کا استعمال بھی اسی طرح کی غیر متوقع مشکلات کا باعث ہے. آرگینک سے سائنسدانوں کی مراد کاربن والے مرکبات ہوتے ہیں، لیکن عوام اس اصطلاح کو اب کیڑے مار دواؤں سے پاک آڑو اور کپاس کی اعلیٰ قسم والی چادروں کے لیے بھی استعمال کرنے لگے ہیں، جو کہ اس لفظ کے حقیقی مطلب کے برعکس ہے ۔ سائنسدان اس تمام غلط فہمی کا سبب اسکول اور کالج میں سائنسی تعلیم کی کمی کو ٹھہراتے ہیں اس اشتباہ  اور سو فہمی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عمومی طور پر لوگ کم سائنسی تعلیم کی بنا پر اصطلاحات کو درست طور نہیں سمجھتے. اسی طرح سے عام الفاظ کے دوہری معنی ہونے کی وجہ سے بھی سائنسی اصطلاحات کی فراست کا صحیح احاطہ نہیں کر ہو پاتا۔  کروگر لکھتے ہیں کہ سائنس صحیح اور غلط کے ثنائی نظام کے بجاۓ ایک تسلسل یا اسپیکٹرم کی حامی ہے جسکی حدود انسانی معلومات کی حدو کی طرح مستقل بڑھتی جا رہی ہیں۔

112704410

جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ سائنس کو درحقیقت اس بات سے قطعی کوئی غرض نہیں کہ کون کیا کہہ رہا ہے مثلا البرٹ آئنسٹائن بے چارہ یہ سمجھتا رہا کہ کوانٹم فزکس اندھیرے کی ایک ڈراؤنی شہ ہے لیکن کوانٹم طبیعات سے اسکے خوف کی وجہ، کوانٹم طبیعات کو صحیح یا غلط علم ثابت کرنے میں کوئی مدد نا کرسکی اور آج یہ طبعیات کی ایک ثقہ شاخ کے طور پر مانی جاتی ہے۔ اسی طرح اگر عوام الناس نظریے اور مفروضے کو خلط ملط کرتے رہیں تو اس سے بھی سائنس کی صحت پر کوئ فرق نا پڑے گا۔ بقول آنجہانی گلیلیو کے، وہ تو گھوم رہی ہے۔

 امید ہے کہ اب آپ کو ان اصطلاحات سے خاطر خواہ واقفیت ہو گئی ہوگی۔ مزید معلومات کے لئے درج زیل حوالہ جات کا مطالعہ موزوں ہے۔

حوالہ جات و تخلیص 

کیمیا – اباوٹ ڈاٹ کام
        سائنٹفک امریکن

Share

1 Comment to محض ایک نظریہ؟ چند غلط العوام اصطلاحات اور انکے درست سائنسی معنی

  1. April 25, 2013 at 9:53 am | Permalink

    ایک بہترین معلوماتی تحریر کے لیئے شکریہ

Leave a Reply

You can use these HTML tags and attributes: <a href="" title=""> <abbr title=""> <acronym title=""> <b> <blockquote cite=""> <cite> <code> <del datetime=""> <em> <i> <q cite=""> <s> <strike> <strong>