عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

پہلی صف اور دوسری کہانیاں از عمر بنگش

برادرم عمر بنگش کی تحریر کے بارےمیں جاننے کے لئے راقم و دیگر تبصرہ نگاروں کے کلیشے تبصرہ جات پڑھنے سے اچھا ہے کہ آپ صاحب کتاب کا ایک افسانہ خود ہی پڑھ لیں۔ اگر آپ کو شوکی کا کردار “آرگینک” نا لگے، گاوں کی منظر کشی سے مٹی کی سوندھی خشبو نا آے، موتیے کے میلے گجروں کی بساند ہر سانس میں محسوس نا ہو، پہلی صف میں چھوڑا اکبر خان کا خلا پر کرنے کی ہمت پیدا ہو جاے یا چوکیدار کاکے کو پڑھ کر آنکھیں سوکھی رہیں تو بے شک اس برقی کتاب کو چھوڑ کر بابا صاحبا اٹھا لیں کہ معاشرے کے آئنے کا یہ تقلیدی، پر حقیقت پسند زنگار آپکو بڑا بھدا لگے گا۔

umar-bangash-afsanay

عمر احمد بنگش کا قلم اصناف کے اعتبار سے رجعت پسند ہے۔ اس نے تئیس میل کا طے تو کیا مگر ادبی مشاہیر کے کندھوں پر، معاصرین میں بنگش صاحب کا اسلوب جداگانہ تو ٹھرا مگر تحریر میں ندرت خیال خال خال دکھائ دیتی ہے۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ اردو افسانہ کب طوائفوں کے کوٹھوں اور کالی شلواروں اور وڈیرے کی چارپائیوں سے باہر نکلے گا اور کب ہمیں الکیمسٹ کا سانتیاگو، فٹزجیرالڈ کا گاٹسبی، ناباکو کی لولیٹا، یا ہارپر لی کا دیسی فنچ ملے گا؟ بنگش صاحب کا قلم رواں ہے، دیکھیں کب وہ روایات کے حصاروں کو توڑتا ہے اور قارئین کو صریر خامہ سے نواے سروش ہیش ٹیگ #تغیر کے ساتھ سنائ دیتی ہے۔

 

Share

5 Comments to پہلی صف اور دوسری کہانیاں از عمر بنگش

  1. October 21, 2013 at 10:12 pm | Permalink

    نوازش آپکی صاحب۔
    آپ کی بات بالکل بجا ہے، اردو افسانہ کو جدت کی جانب نکلنے کی اشد ضرورت ہے، روایت سے ہٹ کر کچھ تخلیق ہونے کا ساماں ہونا چاہیے۔ دیکھیں، کیا رنگ نکلتا ہے۔ 🙂

  2. October 22, 2013 at 1:25 am | Permalink

    عمر بنگش صاحب کی تحاریر میں پڑھتا آرہا ہوں اتنی عمر میں قلم پر ایسی گرفت قابل تحسین ہے۔ آپکا یہ خیال کہ انکا قلم کچھ رجعت پسند سا ہے ، بجا ہے۔ شاید اسکی وجہ عمر کی پختگی اور زندگی کے وہ تجربات جو ایک ادیب کے قلم میں ندرتیں اور جدتیں پیدا کرتے ہیں ، نا ہونا ہو۔
    شوکی جیسے کرداروں پر طبع آزمائی کے لیے بڑا جگر چائیے۔بڑی بڑی تہمتوں کو دعوت دینا پڑتی ہے، ۔ سرخ بتی والی جگہوں کو بہت قریب سے دیکھنا پڑتا ہے۔ جو شاید عمر بنگش صاحب کے لیے آسان نا ہو۔۔ انکا افسانہ کنواں کود لوں ایک نہایت عمدہ کوشش تھی۔
    امید ہے کہ وہ افسانہ کے پرانے اور روایتی ماحول کو چھوڑکر کچھ نیا کرنے کی کوشش کریں گے۔

  3. October 22, 2013 at 9:07 am | Permalink

    مستقبل میں اچھی امید ہے ، ابھی بچے کی عمر ہی کیا ہے جی

  4. October 22, 2013 at 10:22 am | Permalink

    بہت شکریہ جناب
    تنقید نگار کا کیا کام ہوتا ہے جناب، بس بے پرکی اڑانا، اچھی خاصی تخلیقات میں خامیاں نکالنا۔ خود تو کچھ بنا نہیں سکتے ہم، دوسروں کے کام میں ہی غلطیان نکال کر خوش ہوتے ہیں کہ بڑا تیر مار لیا۔ ان موئے نقادوں سے اللہ سمجھے!
    عمر بنگش کا کنواں کود لوں اگر پوٹینشیل کی کوئ شہادت ہے تو یہ صاحب بہت دور جائیں گے، بس ہماری خواہش ہے کہ اہل چمن تازہ بستیاں آباد کریں

  5. October 25, 2013 at 4:06 am | Permalink

    یہ تو کھلی زیادتی ہوئی جناب
    ہمارے تبصرے کیوں نہ پڑھیں
    بھائیو ان کی باتون پر نہ جانا میں تو کہتا ہوں افسانے پڑھیں نہ پڑھیں ہمارے تبصرے لازم پڑھ لینا
    پلیز

Leave a Reply

You can use these HTML tags and attributes: <a href="" title=""> <abbr title=""> <acronym title=""> <b> <blockquote cite=""> <cite> <code> <del datetime=""> <em> <i> <q cite=""> <s> <strike> <strong>