عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

سقوط ڈھاکہ

اب کس کا جشن مناتے ہو؟ اس دیس کا جو تقسیم ہوا
اب کس کے گیت سناتے ہو؟ اس تن من کا جو دونیم ہوا

اس خواب کا جو ریزہ ریزہ ان آنکھوں‌ کی تقدیر ہوا
اس نام کا جو ٹکڑا ٹکڑا گلیوں میں بے توقیر ہوا

اس پرچم کا جس کی حرمت بازاروں میں نیلام ہوئی
اس مٹی کا جس کی حرمت منسوب عدو کے نام ہوئی

اس جنگ کو جو تم ہار چکے، اس رسم کا جو جاری بھی نہیں
اس زخم کا جو سینے پہ نہ تھا، اس جان کا جو واری بھی نہ تھی

اس خون کا جو بدقسمت تھا راہوں میں بہایا تن میں رہا
اس پھول کا جو بےقیمت تھا آنگن میں کھلایا یا بن میں رہا

اس مشرق کا جس کو تم نے نیزے کی انی مرہم سمجھا
اس مغرب کا جس کو تم نے جتنا بھی لوٹا کم سمجھا

ان معصوموں کا جن کے لہو سے تم نے فروزاں راتیں‌ کیں۔
ان مظلوموں کا جن سے خنجر کی زباں میں باتیں‌ کیں۔

اس مریم کا جس کی عفت لٹتی ہے بھرے بازاروں میں
اس عیسی کا جو قاتل ہے اور شامل ہے غمخواروں میں

ان نوحہ گروں کا جنہیں ہم نے خود قتل کیا خود روتے ہیں
ایسے بھی کہیں دمساز ہوئے ایسے جلاد بھی ہوتے ہیں

ان بھوکے ننگے ڈھانچوں کا جو رقص سرِ بازار کریں
یا ان ظالم قزاقوں کا جو بھیس بدل کر وار کریں

یا ان جھوٹے اقراروں کا جو آج تلک ایفا نہ ہوئے
یا ان بےبس لاچاروں‌ کا جو اور بھی دکھ کا نشانہ ہوئے

اس شاہی کا جو دست بدست آئی ہے تمہارے حصے میں
کیوں ننگ وطن کی بات کرو کیا رکھا ہے یس قصے میں

آنکھوں‌ میں چھپائے اشکوں کو ہونٹوں میں وفا کے بول لیئے
اس جشن میں بھی شامل ہوں نوحوں سے بھرے کشکول لئے

احمد فراز

Share

Leave a Reply

You can use these HTML tags and attributes: <a href="" title=""> <abbr title=""> <acronym title=""> <b> <blockquote cite=""> <cite> <code> <del datetime=""> <em> <i> <q cite=""> <s> <strike> <strong>