عدنان مسعود کی سخن آرایاں۔ دروغ برگردن قاری

برادرم جعفر کی کتاب حال دل کا تعارف

ادب معاشرے کی امنگوں و احساسات کا عکاس ہوتا ہے، ڈائجسٹی ادب کو ادب عالیہ کے سنگھاسن پر براجماں پروہتوں نے کبھئ درخور اعتنا نا جانا لیکن اس میں کوئ کلام نہیں کہ اسی عام فہم ادب اپنے لاکھوں قارئین کو اردو زبان، بین القوامی ترجموں، افسانوں، جرم سزا اور زندگی سے قریب تر کہانیوں سے روشناس کرایا۔ ابن صفی کو یہ غم کھا گیا کہ انکے تخلیق کردہ اعلی پاے کے سری ادب کو معاصرین نے آرتھر کینن ڈائل اور آگاتھا کرسٹی کا ہم پلہ تو کیا جاننا تھا،ابن خصی کی تصانیف کا مقرب بھی نا گردانا، یہ سرقہ جات پر انکے اپنے الفاظ ہیں، میری اتنی جرات کہاں۔ جس طرح ‘جو دل پر گذرتی ہے رقم کرتے رہیں گے’ کا جذبہ منٹو و عصمت کا حرف و اہنگ ٹھرا تھا، استاد جعفر کی “حال دل” بلاگیات میں بھی وہی نداعام نظر آتی ہے۔ اگر آپ بلاگ کی صنف میں طنز و مزاح کا صحیح استعمال دیکھنا  چاہتے ہوں تو جعفر حسین کی تصنیفات سے استفاذہ کئے بغیر کوئ چارہ نہیں۔ جعفر کے استعارے میں جو تنوع ، حقیقت پسندی اور عام محاورے کی کاٹ ہے، اسکی مثال اردو بلاگستان میں خصوصا اور عصری ادب میں عموما شازونادر ہی دکھائ دیتی ہے۔ جعفر کا زخیرہ الفاظ اردو زبان کی طرح لامحدود ہے،اس میں آپکو پنجابی اسٹیج ڈرامے سے لے کر رومی و جامی و شیکسیئر تک سب ہی  دکھائ دینگے۔ خالده- کوئی نئیں تیرے نال دا کا ‘مقطع’ ایگزیبٹ اے کے طور پر ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔

غلط العوام خیال یہی ہے کہ اگر مصنف یا اسکی زبان عام فہم ہو تو وہ تحریر یقینا ‘عامیانہ’ ہوگی؛مجھے یہ کہنے میں کوئ عار نہیں کہ یہ مثال جعفر کی تحریروں پر بلکل صادق آتی ہے کہ وہ عام انداز سے لکھتا ہے، گنجلک فقروں سے یا بے محابہ ترکیبوں سے اپنی تحاریر کو آلودہ نہیں کرتا لیکن اس کے باوجود اس کے مزاح کی کاٹ، الفاظ کی گرفت اور ندرت خیال میں اس عام فہم انداز بیاں سے چنداں کوئ فرق نہیں پڑتا۔ جعفر جس طرح لکھتا ہے وہ ہم سب کے لئے باعث رشک و حسد ہے کیونکہ ہم سب اسی طرح لکھنا چاہتے ہیں لیکن ہمیں یہ خوف کھائے جاتا ہے کہ کہیں کوئ اسے سوقیانہ ادب نہ کہ دے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم الفاظ کے کھوکھلے قصر تعمیر کرتے ہیں اور اپنی سوچوں کو ان محلات کے زندانوں میں زندہ دفن کر دیتے ہیں۔ جعفر اپنے تخیل پر پہرے نہیں بٹھاتا، بلا جھجک جو سوچتا ہے وہ لکھتا ہے اور بہت خوب لکھتا ہے، اس کی سنسر شپ صرف سیلف سینسر شپ ہے یا شائد وہ بھی نہیں۔ چاہے وہ پسران بوم ہو یا ‘پریشاں ہیں پنڈ کی جھلیاں’ جیسے خاکے، انتقام ہو یا زہریہ ٹاون جیسی سنجیدہ تحاریر، یا پھر گنجے دت کی طرح ماضی کے دریچوں کی سیر کرائ جارہی ہو، استاد جعفر ‘بزبان خود شیعہ نہیں’ حسین، کا جداگانہ انداز تحریر قاری کو ہمیشہ ہل من مزید کی صدا بلند کرنے پر مجبور کئے رکھتا ہے۔

بس اس بات پرتعارف تمام کرتا ہوں کہ اگر پطرس بلاگ لکھتے تو جعفر جیسا لکھتے۔

کتاب پڑھنے کے لئے اس ربط پر کلک کریں ۔

Share

2 Comments to برادرم جعفر کی کتاب حال دل کا تعارف

  1. February 12, 2014 at 11:28 pm | Permalink

    محترم عدنان صاحب
    ویسے تو قصہ کہانیوں میں دور دیس جانے والے شہزادے کو نصیحت کی جاتی تھی کہ پیچھے مڑ کر مت دیکھنا وگرنہ پتھر کے ہو جاو گے ۔ لیکن آپ کی ہمت کی داد دینا پڑتی ہے کہ خطرہ مول لیتے ہیں اور غیبی آواز پر پیچھ بھی دیکھ لیتے ہیں وگرنہ اس مصروف کلجگ میں کسی کے پاس اتنا وقت کہاں کے بھولے بسرے زمانوں کے انٹر نیٹ دوستوں کی کتابوں کو آنک کر ان کا تعارف بھی لکھے ۔ جیتے رہئیے

Leave a Reply to محمد ریاض شاہد

You can use these HTML tags and attributes: <a href="" title=""> <abbr title=""> <acronym title=""> <b> <blockquote cite=""> <cite> <code> <del datetime=""> <em> <i> <q cite=""> <s> <strike> <strong>